اگر شاعری میں کسی ایسے لفظ کی بات کی جائے جسے سب سے زیادہ برتا گیا ہو تو یقیناً اس میں سرفہرست ’چاند‘ ہی ہوگا۔
لفظ ’چاند‘ کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر محبوب کو صرف چاند سے تشبیہ دی جائے تو یہ اپنے اندر کُل کائنات کی خوب صورتی کو سمو لیتا ہے، اسی طرح لفظ ’چاند‘ ہجر سے جُڑ کر محبوب سے جدائی، ہجر کے موسم، اور غم فراق کی علامت بن جاتا ہے۔ اسی طرح چڑھتے چاند کی روشنی کو شدت جذبات سے منسوب کیا جاتا ہے۔
یہ چاند کی ہی خصوصیت ہے کہ وہ ہر موسم، ہر کرب، ہر خوشی، ہر تہوار، ہر رات کو اپنے دامن میں جگہ دے دیتا ہے۔ ایسا کون ہے بھلا جس نے چاند اور چکور کی کہانیاں نہ سنی ہوں!!! ایسا کون ہے بھلا جو پورے چاند اور سمندر کے مدوجزر کے باہمی تعلق سے لاعلم ہو!!! ایسا کون ہے بھلا جو تاریکی کا سینہ چیرتی چاندنی دیکھ کر ایک لمحے کے لیے ہوش وخرد سے بے گانہ نہ ہوا ہو!!! چاند کی وسعت ابن انشاء کی غزل کے ان چند اشعار سے بخوبی عیاں ہوتی ہے؛
شام سمے ایک اُونچی سیڑھوں والے گھر کے آنگن میں
چاند کو اُترے دیکھا ہم نے، چاند بھی کیسا؟ پورا چاند
ہر اک چاند کی اپنی دھج تھی، ہر اک چاند کا اپنا روپ
لیکن ایسا روشن روشن، ہنستا باتیں کرتا چاند؟
درد کی ٹھیس بھی اٹھتی تھی، پر اتنی بھی، بھرپور کبھی؟
آج سے پہلے کب اترا تھا دل میں میرے گہرا چاند!
انشاء جی دنیا والوں میں بے ساتھی بے دوست رہے
جیسے تاروں کے جھرمٹ میں تنہا چاند، اکیلا چاند
آنکھوں میں بھی، چتون میں بھی، چاندہی چاند جھلکتے ہیں
چاند ہی ٹیکا، چاند ہی جھومر، چہرہ چاند اور ماتھا چاند
انشاء جی یہ اور نگر ہے، اس بستی کی رِیت یہی
سب کی اپنی اپنی آنکھیں، سب کا اپنا اپنا چاند
چنچل مسکاتی مسکاتی گوری کا مُکھڑا مہتاب
پت جھڑ کے پیڑوں میں اٹکا، پیلا سا اِک پَتّہ چاند
ابن انشاء کی غزل کے یہ چند اشعار زمانہ قدیم سے ہی چاند سے جُڑی ان اساطیر کی تصدیق کرتی ہے کہ چاند کی گردش انسانی مزاج اور رویوں پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ دورجدید میں بنی نوع انسان قمری چکر سے جڑی اساطیر کو توہم پرستی قرار دے کر مسترد کرتارہا، لیکن حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق نے چاند کی روشنی اور اس کی گردش سے وابستہ ماضی کے قصے کہانیوں کو سچ ثابت کردیا ہے۔ یہ امریکا کے ایک مشہور ماہر نفسیات ڈیوڈ ایوری کے کلینک کا منظر ہے، ڈاکٹر کے سامنے ایک 35سالہ شخص سر جھکائے بیٹھا ہے۔
2005ء میں امریکی ریاست سیٹل کے اس نفسیاتی وارڈ میں داخل ہونے والے اس شخص کے مسائل بہت پیچیدہ تھے۔ یہ بہت متلون مزاج تھا، کبھی یہ بہت پرُسکون ہوتا تو کبھی اس کا طرزعمل بہت جارحانہ ہوجاتا، کبھی وہ خودکشی کی کوشش کرتا تو کبھی اسے ایسی چیزیں اور آوازیں دکھائی اور سنائی دیتی جن کا وہاں وجود ہی نہیں تھا، اس کی نیند کے معاملات بھی بہت متاثر تھے۔ لیکن اس سارے معاملے میں ایک دل چسپ بات یہ تھی کہ پیشے کے لحاظ سے انجنیئر اس مریض نے اپنی تمام تر کیفیات کو ایک ریکارڈ کی شکل میں رکھا ہوا تھا۔ اس بابت ڈاکٹر ڈیوڈ ایوری کا کہنا ہے کہ اس مریض کے مرتب کردہ ریکارڈ نے مجھے حیرت زدہ کردیا تھا۔ اس کا مزاج اور سونے کا طریقہ کار چاند کی اپنے مدار میں گردش کی طرح تھا، اس کی دماغی کیفیت قمری گردش کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی تھی۔
ابتدا میں تو ایوری نے اس مریض کی دیوانگی کے چاند کی گردش سے جڑے ہونے کے خیال کو مسترد کردیا، کیوں کہ اگر اس شخص کا مزاج چاند کی گردش کے ساتھ مطابقت رکھتا تب بھی ایوری کے پاس اس بات کو واضح کرنے کے لیے کوئی میکانزم نہیں تھا اور نہ اس نے آج تک کسی ایسے مریض کا علاج کیا تھا جس کی ذہنی اور جسمانی کیفیت چاند کی گردش سے مشروط ہوں لہٰذا ڈیوڈ نے مذکورہ مریض کے مزاج اور نیند کو متوازن کرنے کے لیے ہلکی پھلکی تھراپی اور ادویات تجویز کردیں۔ کچھ عرصے بعد اسے اسپتال سے چھٹی دے کر گھر بھیج دیا گیا اور اس فرد کے لکھے گئے نوٹس کو ڈیوڈ نے اپنی دراز میں ڈال کر اسے بند کردیا۔ اور بات آئی گئی ہوگئی۔
اس واقعے کے بارہ سال بعد امریکا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے تحقیقی سائنس داں اور ماہرنفسیات تھوماس الون وہر نے ’بائی پولر موڈ سائیکلز اینڈ لیونر ٹائیڈل سائیکلز‘ کے نام سے ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا جس میں ’ریپڈ سائیکلنگ بائی پولر ڈس آرڈر‘ (ایک ایسی بیماری جس میں مبتلا فرد میں یاسیت اور مالیخولیا کے درمیان تبدیلی دیگر مریضوں کی نسبت بہت زیادہ تیزی سے ہوتی ہے اور درحقیقت ڈیوڈ کا مریض بھی اسی بیماری میں مبتلا تھا) کے 17مریضوں کی کیفیات کو بیان کیا گیا۔ اس تحقیقی مقالے میں تھوماس نے لکھا ’اس بیماری کی تشخیص نے مجھے الجھا کر رکھ دیا، کیوں کہ چاند کے گردشی چکر سے جُڑی باتیں توہم پرستی سمجھی جاتی ہیں اور لازماً کوئی بھی اسے ایک بایولوجیکل پراسیس (حیاتیاتی طریقۂ کار) تصور نہیں کرے گا، اور اس طرح چاند کی گردش کا انسانوں پر بیرونی طور پر اثرانداز ہونا میرے لیے بھی باعث حیرت تھا۔‘
زمانۂ قدیم سے ہی لوگوں کو اس بات پر یقین رہا ہے کہ چاند انسانی طرزعمل پر اثرانداز ہوتا ہے۔ لفظlunacy (دیوانگی) کو لاطینی لفظ lunaticus سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی ’مون اسٹرک‘ (دیوانہ، سودائی) کے ہیں، یونانی فلسفی ارسطو اور تاریخ طبیعی کے رومن ماہر پلینیوس کو بھی اس بات پر پختہ یقین تھا کہ پاگل پن اور مرگی کی بیماری چاند کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اس دور میں حاملہ خواتین کے لیے بچے کو جنم دینے کا بہترین وقت وہ سمجھا جاتا تھا جب چاند اپنے جوبن پر ہو۔ اسی طرح بیش تر ایشیائی ممالک میں آج بھی چاند گرہن کے وقت حاملہ خواتین کو باہر نکلنے اور کسی کام خصوصاً آگ کے پاس چانے یا کسی تیز دھار اوزار (چھری، بغدے وغیرہ) کے استعمال سے منع کیا جاتا ہے۔ چاند کے حاملہ خواتین پر مرتب ہونے والے اثرات کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کرنے کے لیے رواں سال مئی میں ایک تحقیق کی گئی۔
طبی جریدے ’یورپیئن جرنل آف آبسٹرکس اینڈ گائنی کولوجی اینڈ ری پروڈکٹو بایولوجی‘ میں شایع ہونے والے اس تحقیقی مطالعے میں 1810ء سے1929ء تک ہونے والی 1484قمری گردشوں میں ہونے والی 23 ہزار689ڈیلیوریز کو شامل کیا گیا۔ یہ تمام ڈیلیوریز کسی طبی جانچ اور طبی امداد کے بنا گھروں میں ہوئی تھیں۔ ایک سو بیس سال میں ہونے والی ان ڈیلیوریز کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ قمری رویت اور پیدائش کی فریکوئنسی کے درمیان کوئی ربط نہیں ہے۔ اور کئی صدیوں سے پھیلی اس توہم پرستی کے کوئی سائنسی شواہد نہیں ملے کہ چاند کی گردش بچوں کی پیدائش پر اثرانداز ہوتی ہے۔
چاند کے حوالے سے ایک بات یہ بھی عام ہے کہ اس کی روشنی اور گردش نفسیاتی مریضوں اور قیدیوں میں تشدد آمیز جذبات میں اضافہ کرتی ہے۔ ’امریکن جرنل آف کرمنل جسٹس‘ میں ’اے ہنٹر مون؛ دی افکیٹ آف دی مون الیومینیشن آن آؤٹ ڈور کرائم‘ کے نام سے شایع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے کے نتائج اس بات کو درست ثابت کرتے ہیں۔ اس تحقیق میں امریکا کے نیشنل انسیڈینٹ بیسڈ رپورٹنگ سسٹم (این آئی بی آر ایس ) اور آٹو ریگریسو انٹیگریٹو موونگ ایوریج (اے آر آئی ایم اے) کی جانب سے امریکا کی تیرہ ریاستوں اور ڈسٹرکٹ کولمبیا میں رات دس بجے سے دو بجے تک رپورٹ ہونے والے جرائم کا جائزہ لیا گیا۔ اس تحقیق کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ چاند کی روشنی کی شدت نہ صرف نفسیاتی مریضوں اور قیدیوں کے مزاج پر اثرانداز ہوتی ہے بلکہ اس کے اثرات باہر موجود لوگوں پر بھی اسی طرح مرتب ہوتے ہیں۔
چاند کی روشنی کم ہونے سے جرائم کے واقعات میں کمی اور زیادہ ہونے سے جرائم کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، جب کہ چاند کی گردش انسانی رویوں پر اثرانداز ہونے کے ساتھ ساتھ نیند کے دورانیے کو بھی متاثر کرتی ہے۔ 2013ء میں ’قمری چکر کے انسانوں کی نیند پر مرتب ہونے والے شواہد‘ کے نام سے شایع ہونے والی ایک تحقیق اس قدیم تصور کو ثابت کرتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب چاند اپنے جوبن پر ہو تو انسانی جسم میں گہری نیند کی نشان دہی کرنے والی ’نان ریپڈ آئی موومنٹ ‘ (NERM) کی سرگرمی کے دوران الیکٹروانسیفالو گرام (ای ای جی ) 30 فی صد کم ہوجاتی ہے جس سے نیند کا دورانیہ بیس فی صد کم ہوجاتا ہے۔ اس بابت آکسفورڈ یونیورسٹی کے محقق Vladyslav Vyazovskiy کا کہنا ہے کہ چاند کی گردش کے انسانی رویوں پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے مریضوں کو کم از کم پورے ایک قمری ماہ تک چاند کے مختلف مدارج میں مانیٹر کیا جانا چاہیے اس کے بعد ہی ہم کوئی نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔
اور تھوماس نے بائی پولر مریضوں پر اپنی تحقیق میں یہی طریقہ استعمال کرتے ہوئے ان کے مزاج میں ہونے والی تبدیلیوں کو کئی سالوں تک ٹریک کیا ہے۔ اپنے اس طریقے کے بارے میں تھوماس کا کہنا ہے کہ ’ہر فرد قمری گردش میں مختلف ردعمل دیتا ہے، یہاں تک کہ اگر آپ ان کا مجموعی ڈیٹا جو کہ میں جمع کرچکا ہوں، کا اوسط بھی لے لیں تب بھی میں نہیں سمجھتا کہ آپ نے کچھ تلاش کرلیا ہے۔ کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد کو انفرادی طور پر وقت دیا جائے تب ہی اس کا قریب ترین نتیجہ سامنے آئے گا۔ اس کام کے لیے تھوماس نے اپنے مریضوں کو دو درجوں میں تقسیم کیا۔ کچھ لوگوں کے مزاج میں تبدیلی 14 اعشاریہ 8دن کی گردش میں ظاہر ہوئی، اور کچھ مریضوں میں13 اعشاریہ7دن کی گردش میں، جب کہ ان میں سے کچھ مریضوں کے مزاج میں ان دونوں گردشوں کے درمیان تبدیلی آتی رہی۔‘
چاند کے انسانی رویوں پر اثرانداز ہونے والی اس نئی تحقیق کے بارے میں ماہر نفسیات ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ ’چاند زمین پر مختلف طریقوں سے اپنے اثرات مرتب کرتا ہے، سب سے پہلا اور واضح طریقہ چاند کی روشنی ہے، جو کہ مکمل چاند کے ساتھ تقریباً ساڑھے29دن اور اس کے بعد نئے چاند کی روشنی 14اعشاریہ8دن بعد آتی ہے، پھر چاند کا تجاذبی (کشش ثقل کی وجہ سے پیدا ہونے والا کھنچاؤ) کھنچاؤ پیدا ہونے سے سمندر کی لہروں میں ہر 12 گھنٹے40 منٹ بعد مدوجزر پیدا ہوتے ہیں۔ ان لہروں کی اونچائی دو ہفتوں کی گردش (14اعشاریہ8دن) کی بھی تقلید کرتی ہے۔
اسے ’اسپرنگ نیپ سائیکل‘ بھی کہا جاتا ہے، جو کہ چاند اور سورج کے مشترکہ کھنچاؤ کی وجہ سے ہوتا ہے، اسی طرح 13اعشاریہ7دن کی گردش کو ’تنزل پذیر گردش‘ کہا جاتا ہے، جو چاند کی پوزیشن کی زمین کے خط استوا سے تعلق کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایوری کا کہنا ہے کہ تھوماس کے مریضوں میں مالیخولیا کی علامات بھی ان دو ہفتوں میں ظاہر ہوتی ہے جب سمندر کی لہریں بلند ہوتی ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ ہر 13اعشاریہ 7دن یا14اعشاریہ8 دنوں کی گردش میں یاسیت یا پاگل پن کا شکار ہوں۔ یہ قمری مدوجزر کے ایک مخصوص درجے میں بھی وقوع پذیر ہوسکتا ہے۔‘
تھوماس نے اپنی تحقیق میں شامل مریضوں پر چاند کے اثرات مرتب ہونے کے مزید شواہد بھی پیش کیے، اس ریسرچ میں تھوماس پر یہ بات بھی آشکار ہوئی کہ ان مریضوں کے مزاج میں ہر 206 دن بعد تبدیلی ہوئی، اس کے علاوہ دیگر کسی قمری گردش میں ان کا مزاج متاثر نہیں ہوا۔ اس تحقیق کے بارے میں سوئٹرزلینڈ کی یونیورسٹی آف بازل کے سائیکاٹرسٹ اسپتال کی پروفیسر Anne Wirz-Justiceکا کہنا ہے کہ ’تھوماس کی چاند کی گردش اور پاگل پن کے درمیان ربط پر کی گئی تحقیق پر یقین تو کیا جاسکتا ہے لیکن یہ ایک بہت ہی پیچیدہ تحقیق ہے، کیوں کہ اس میں کسی کو بھی یہ آئیڈیا نہیں ہے کہ اس کا میکانزم کیا ہے۔ تاہم یہ بات تو مصدقہ ہے کہ چودہویں کے چاند کی روشنی انسانوں کی نیند کو متاثر کرتی ہے جو ان کے مزاج پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ خصوصاً بائی پولر مریضوں کی حد تک یہ بات درست بھی ہے کیوںکہ ان کا مزاج اکثر و بیشتر نیند کے متاثر ہونے یا شب و روز کے معمولات میں تبدیلی اور چوبیس گھنٹے کے ارتعاش سے ہمارے حیاتیاتی نظام اور طرز عمل میں تبدیلیاں ہوتی ہیں، جو عموماً رات کے اوقات میں کام کرنے والے یا طویل پرواز کرنے والے افراد میں انتشار کا سبب بنتی ہیں۔‘
چاند کی گردش کے انسانوں پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں یونیورسٹی کالج لندن کے ماہرِافلاکیات رابرٹ وکیس کا کہنا ہے کہ ’دورجدید میں بصری آلودگی بہت زیادہ ہوگئی ہے اور ہم زیادہ تر وقت گھر اور دفاتر میں بیٹھ کر مصنوعی روشنیوں میں گزارتے ہیں، اور یہ اس بات کا سگنل بھی ہے کہ چاند کی روشنی کی سطح دھندلا رہی ہے۔ مریضوں کی نیند پر چاند کے اثرات سے بے چینی پیدا ہوتی ہے جس کا نتیجہ ان کے مزاج کی برہمی کی صورت سامنے آتا ہے۔ ایک دوسرا خیال یہ بھی ہے کہ زمین کے مقناطیسی میدان میں اچانک ہونے والے تغیرات سے حساس افراد متاثر ہوتے ہی۔
سمندر نمکین پانی کی وجہ سے برق موصل ہوتے ہیں اور اس سے مشروط مقناطیسی میدان کی وجہ سے لہروں میں مدوجزر پیدا ہوتے ہیں، تاہم یہ اثرات بہت معمولی ہوتے ہیں اور چاند کے زمین کے مقناطیسی میدان پر مرتب ہونے والے اثرات کے بہت زیادہ مضبوط ہونے اور اس سے حیاتیاتی تبدیلیوں کی طرف جھکاؤ غیرواضح ہے۔ رابرٹ کا کہنا ہے کہ یقیناً کچھ ریسرچ پیپرز میں شمسی سرگرمیوں کا ربط ہارٹ اٹیک، فالج، مرگی کے دوروں، مالیخولیا اور خودکشی سے جوڑا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج گرہن کے وقت جب شمسی شعلے خارج ہوکر زمین کے مقناطیسی میدان سے ٹکراتے ہیں تو اس سے ایک غیرمرئی برقی کرنٹ پیدا ہوتا ہے جو کہ پاور گرڈز تک کو نقصان پہنچانے کے لیے کافی ہوتا ہے او اسی سے دل اور دماغ کے حساس برقی خلیات کو نقصان پہنچتا ہے۔
اس لیے سورج گرہن کودیکھنے اور اس دوران حاملہ عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا جاتا ہے۔ مخصوص پرندوں، مچھلیوں اور حشرات الارض کے برعکس انسانوں میں مقناطیسی حس نہیں ہوتی، تاہم حال ہی میں شایع ہونے والی ایک ریسرچ نے اس مفروضے کو بھی چیلینج کردیا ہے۔ جب اس تحقیق میں شامل افراد کو مقناطیسی میدان میں ہونے والی تبدیلیوں کا سامنا کرایا گیا تو ان کے دماغ کی الفا ویو سرگرمیوں میں تخفیف (کمی) بھی دیکھی گئی، الفا ویو اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب ہم جاگ رہے ہوں، لیکن کوئی کام سرانجام نہ دیں۔ ان تبدیلیوں کی اہمیت غیرواضح رہتی ہے، ایک طرح سے یہ ارتقاء کی غیرمتعلقہ بائی پراڈکٹ ہے یا یہ ہمارے ماحول میں ہونے والی وہ مقناطیسی تبدیلیاں ہیں جو چالاکی سے ہمارے دماغ کی کمیسٹری سے کھیل رہی ہیں لیکن ہم ان سے لاعلم ہیں۔
مقناطیسی تھیوری کی بات کی جائے تو گذشتہ کئی دہائیوں میں اس پر متعدد تحقیق ہوچکی ہیں کچھ مخصوص اجسام جیسے کہ مکھیوں کی ایک نسل ’فروٹ فلائیز‘ میں ایک پروٹین ’کرپٹو کروم‘ ایک مقناطیسی سینسر کی طرح بھی اپنے افعال سرانجام دیتا ہے۔ کرپٹو کروم مالیکیولر گھڑی کا اہم حصہ ہے جو 24گھنٹے ہمارے دماغ، خلیات اور عضلات میں ایک توازن میں کام کرتے ہیں۔ جب یہ کرپٹو کروم روشنی جذب کرنے والے مالیکیولز (فلیون) کے ساتھ ملتے ہیں تو یہ اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ’سرکیڈین کلاک‘ کو بتاتے ہیں کہ یہ دن کا وقت ہے، ان کا یہ ردعمل مالیکیولر کمپلیکس کو مقناطیسی طور پر حساس بنانے کا سبب بنتا ہے۔‘ اس بابت برطانیہ کی لیسٹر یونیورسٹی کے ماہرجینیات بیمبوز Kyriacou کا کہنا ہے کہ ہماری ریسرچ کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوفریکوئنسی مقناطیسی میدان کا ایکسپوژر فروٹ فلائیز کی ’سرکیڈین کلاک‘ کی ٹائمنگ کو تبدیل کردیتا ہے، جس سے ان کے سونے کے اوقات میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
فروٹ فلائیز کی طرح کرپٹو کروم انسان کی سرکیڈین کلاک کا بھی ایک لازمی جُز ہیں لیکن انسانوں میں اس کے کام کرنے کا طریقۂ کار فروٹ فلائیز سے تھوڑا مختلف ہے۔ انسانوں اور دیگر ممالیہ میں کرپٹو کروم فلیون سے مربوط نہیںہوتا اور اس کے بنا ہم نہیں جانتے کہ مقناطیسی حساسیت کی کیمسٹری کو کس طرح ٹرائیگر کیا جائے گا۔ لیکن اب ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ چاند کی گردش اور اس کی روشنی ہمارے رویوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ تاہم اس ضمن میں مزید تحقیق کرنا ضروری ہے۔
The post چاند۔۔۔۔جو سُنا محض افسانہ نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.