جپسی یا خانہ بدوش ہر ملک میں پائے جاتے ہیں ان کا اپنا کلچر ہے اور اپنی روایات، جن پر یہ صدیوں بلکہ ہزاروں برس سے کاربند ہیں۔ کیلاش کی کافر آبادی کی طرح مخصوص رہن سہن اور انداز انہیں دیگر سے ممتاز، منفرد اور ممیز بھی بناتا ہے ۔
پاکستان کے دیگر خانہ بدوشوں کی طرح سندھ میں کوچڑے بھی، جوگی ، شکاری، کبوترے، واگھڑے ، راوڑے، گوارے، باگڑی، اوڈھ اور دیگر خانہ بدوش قافلوں کی صورت سپرہائی وے، انڈس ہائی وے، قومی شاہراہ اور رابطہ سڑکوں پر آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ گدھوں پر ان کا سامانِ سفر لدا ہوتا ہے لیکن اب عہدِجدید کی بعض ایجادات سے بھی ان کی نئی نسل استفادہ کرنے لگی ہے۔ سال رواں کی ابتدا میں ٹنڈو آدم، شہداد پور روڈ کی ایک خانہ بدوش بستی کی جھونپڑی پر شمسی توانائی سے استفادے کے لیے لگی سولر پلیٹیں دیکھ کر تعجب ہوا تھا لیکن ہمارے صحافی دوست الیاس انجم کا کہنا تھا کہ اب ان جھونپڑیوں میں ٹی وی، ریڈیو، ٹچ موبائل اور کئی دیگر الیکٹرانک مصنوعات کا استعمال دیکھا جاسکتا ہے۔
یورپ اور افریقہ میں پائے جانے والے خانہ بدوش قبائل خود کو سنتی یا زنگلی کہلواتے ہیں۔ ایک مضمون میں امان اﷲ پنہور کا دعویٰ تھا کہ یہ ان سندھی خانہ بدوش قبائلیوں کی نسل ہیں جنہیں صدیوں قبل شمالی ہند کے راجا شنگل نے ایران کے شاہ بہرام کے جشن میں شرکت کے لیے خصوصی دعوت پر وہاں بھیجا گیا تھا۔ جشن میں شرکت کے بعد انہیں وہاں آباد کاری کے لیے اراضی، مال و اسباب اور طعام و قیام کی پیش کش کی گئی لیکن خانہ بدوش ہونے کے ناتے انہوں نے یہ سب کچھ تج کرکے یورپ اور افریقہ کی سمت کوچ کیا۔
ایک نئی دنیا دریافت کرلی اسی مضمون میں درج تھا کہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ خانہ بدوش سکندراعظم کے ساتھ آئے تھے اور آج بھی وہ بہت سے ایسے الفاظ بولتے ہیں جو سندھی یا ہندی کا مفہوم رکھتے ہیں اور کئی ایک رسم و رواج بھی مقامی خانہ بدوشوں سے ملتے جلتے ہیں۔ یورپ کے بہت سے جپسی خود کو زنگلی یا روسی و سنتی بتاتے ہیں جس پر مضمون نگار کا کہنا تھا کہ سنتی دراصل سندھی کی بگڑی ہوئی شکل ہے تو ہمارے ایک دوست کا استدلال تھا زنگلی بھی جانگلی یا جنگلی کو کہا جاتا ہوگا۔
سندھ کے خانہ بدوش قبائل میں سے ایک جوگی بھی ہے۔ یہ قبیلہ سانپ پکڑنے اور انہیں پٹاریوں میں لے کر نگر نگر گھومنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ سانپ کے ڈسنے کا علاج کرنے، گیدڑ سنگھی فروخت کرنے اور مرلی یا بین بجانے میں کمال رکھتے ہیں۔ حیدرآباد کے سنیئر صحافی اسحٰق مگریو کہتے ہیں کہ جوگی بڑے آرٹ کے مالک ہیں۔ بین بجانا آسان کام نہیں گلے کی رگیں پھول جاتی ہیں۔ سانپ اس پر مست ہوکر جھومتا ہے تو یہ روزی روٹی کماتے ہیں۔ لوگوں کے نزدیک یہ تماشا سہی مگر ان کے کمالات بھی خاص ہیں یہ جوگی اپنے مُردوں کو دیگر ہندوؤں کی طرح جلاتے نہیں ہیں بلکہ جہاں انتقال ہو وہیں سپرد خاک کردیتے ہیں۔ ویسے ان کا قبرستان عمر کوٹ میں ہے جہاں جوگی برادری کی میتوں کو دفن کیا جاتا ہے۔ فراعین مصر کی طرح تدفین کے وقت میت کے ساتھ کھانا، تمباکو کے پتوں سے بنی بیڑیاں بھی رکھتے ہیں۔ نیز تدفین سے قبل مُردے کو غسل بھی دیا جاتا ہے۔ فیض محمد شیدی کی مطبوعہ یادداشتوں کے مطابق دورانِ غسل میت کے منہ میں تانبے کا ٹکڑا بھی رکھا جاتا ہے۔
کھیموں جوگی کی تدفین میں شریک فیض محمد نے لکھا تھا کہ میت کو گیروے رنگ کا کفن بھی پہنایا گیا تھا اور رام رام گورکھ ناتھ کی صداؤں میں کھیموں کو وہاں موجود جوگیوں نے لحد میں اتارا تھا اور اسی طرح دیگر مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ کہتے ہیں جوگی اپنے جنتر منتر سینہ بہ سینہ منتقل کرتے ہیں دیگر لوگوں کو ہوا بھی نہیں لگنے دیتے۔ یہ پراسراریت ہی انہیں دیگر سے علیحدہ زندگی گزارنے پر مجبور کرتی ہے۔
خانہ بدوشوں میں ایک برادری شکاری کے طور پر معروف ہے۔ یہ بھی ہندو ہیں لیکن ان کی بعض ریتیں، رسمیں مسلمانوں سے ملتی جلتی ہیں۔ بہت پہلے ایک کچہری میں ایسی کئی باتیں معلوم ہوئیں۔ بعد میں ان کی تصدیق سنیئر قلم کار خالد کنبھار کے ایک مضمون سے بھی ہوئی۔
وہ کہتے ہیں کہ ہندو ہونے کے باوجود شکاری نہ مندر جاتے ہیں نہ کسی دیوی دیوتا کا بت بناکر اس کی پرستش کرتے ہیں بلکہ ان کی شادی کا بندھن اسلامی طریقے سے انجام دیا جاتا ہے۔ البتہ دل چسپ بات یہ ہے کہ اگر دولہا ضد پر آجائے تو لڑکی والوں کو اچھی نسل کا شکاری کتا جہیز میں دینا پڑجاتا ہے۔ مرجانے پر نماز جنازہ نہیں ہوتی لیکن تدفین ہوتی ہے اور دعا کا اہتمام بھی۔ خالد کنبھر کے بقول یہ خود کو بھیل قرار دیتے ہیں لیکن کتوں کی موجودگی اور شکار کے شغف کے باعث انہیں شکاری پکارا جاتا ہے اور اب یہ اسی نام سے معروف ہیں۔
سنا تو یہ بھی ہے کہ شکاری برادری کے افراد میں سے کچھ رمضان کے روزے بھی رکھتے ہیں۔ نیز ان میں سے جو باقاعدہ مسلمان ہوئے ہیں وہ شیخ کہلاتے ہیں۔ کہتے ہیں شکاریوں کا ٹھٹھہ میں شاہ عقیق کی درگاہ سے عقیدت کا رشتہ ہے۔ یہ اپنے نومولود بچوں کو کم عمری ہی میں وہاں لے جاتے ہیں۔ شکاری کی وجہ تسمیہ بڑے زمینداروں کی دوران شکار مدد کرنا ہے۔ بالخصوص خنزیر کے شکار میں ان کا تجربہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ کتوں کی مدد سے ہانکا لگاکر اسے پناہ گاہ سے نکالتے ہیں۔ کتے اور خنزیر کی لڑائی کے دوران شکاری کلہاڑی سے وار کرکے اپنے ہدف کو مار ڈالتا ہے۔ یہ جان جوکھوں کا معاملہ ہوتا ہے کہ ذرا سی لغزش پر وہ خود نشانہ بن جاتا ہے۔ کہتے ہیں شکاری قبیلہ دادی نوراں سے محبت کرتے ہیں جس کی قبر تھرپارکر میں درگاہ راج سین کے پاس ہے اور یہاں شکاریوں کی آمدورفت دیکھی جاسکتی ہے۔
میلے ٹھیلے سندھ کی ثقافت کا اہم عنصر ہیں۔ زیریں سندھ میں جیسے مقامی باشندے لاڑ کہہ کر پکارتے ہیں سائیں سمن سرکار سمیت متعدد بزرگوں کے میلوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ ماضی میں ذوالفقار مرزا اور علی بخش عرف پپو شاہ ضلع بدین کی سیاست میں ایک دوسرے کو للکارتے تھے۔ ان دنوں اوّل الذکر پی پی میں اور ثانی الذکر مسلم لیگ کا حصہ تھے۔ دونوں کی بیویاں بھی سیاست کا بڑا نام ہیں۔ ذوالفقار مرزا کی اہلیہ فہمیدہ مرزا اس وقت بھی ایم این اے اور وفاقی وزیر ہیں اور قومی اسمبلی کی اسپیکر رہی ہیں جب کہ پپو شاہ کی اہلیہ یاسمین شاہ نے سینیٹر کا انتخاب جیتا تھا۔ ان کے شوہر درگاہ سمن سرکار کے سجادہ نشین ہیں۔ سمن سرکار کے میلے سمیت گردونواح کے تمام میلوں میں گواری قبیلے کی خواتین اسٹال یا دکانیں لگاکر کاروبار کرتی ہیں۔
یہ بھی خانہ بدوش ہیں۔ گواری خود کو راجپوت النسل بتاتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ شمال سندھ میں ہمیں ٹھکر کہا جاتا ہے۔ یہ بھیک مانگنے کو عیب گردانتے ہیں۔ اس قبیلے کے متعلق ایک تحریر میں ذاکر لغاری نے بتایا تھا کہ نئی نسل اب اپنی خواتین کو کاروبار کرتے نہیں دیکھنا چاہتی، اس لیے اب یہ رواج ختم ہوتا جارہا ہے۔ گواری قبیلہ صرف زیریں سندھ ہی میں نہیں بالائی اور وسطی سندھ کے متعدد شہروں میں بکثرت آباد ہے اور اسی پیشے سے منسلک ہے۔
راوڑا قبیلہ بھی خانہ بدوش کمیونٹی کا حصہ ہے۔ یہ بھی ہندو ہیں لیکن ہندوانہ رسم و رواج سے کچھ مختلف بھی۔ ہندومت ایک وقت میں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت نہیں دیتا لیکن راوڑے مردوں کی کئی کئی بیویاں ہوتی ہیں جس کے سبب کثیرالعیال ہوتے ہیں۔ خود سڑکوں پر پتھر کوٹتے ہیں اور ان کے بچے عورتیں بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ دیگر ہندو خواتین کے برعکس راوڑیاں صرف سہاگ رات کو منگل سوتر پہنتی ہیں اور اگلی صبح اتار دیتی ہیں۔ راوڑے بھی جوگیوں کی طرح اپنے مُردے دفناتے ہیں۔ راوڑے مرد شادی کے وقت اپنے خسر کو جو رقم دیتے ہیں وہ شادی کا بندھن ٹوٹ جانے پر داماد کو واپسی دے دی جاتی ہے۔
سندھ میں خانہ بدوش قبائل پر نواز کنبھر، خالد کنبھار، فیض محمد شیدی، اسحٰق مگریو، اشفاق لغاری اور مرحوم خورشیدقائم خانی نے خاصا تحقیقی کام کیا ہے۔ ان کے اخباری کالم تحریریں اور کتب ان قبائل کی ریتوں، رسموں اور رواجوں پر تحقیق میں خاصی مدد دیتی ہیں۔ اس سے بھی دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام شخصیات اس موضوع پر لکھنے والوں سے فراخ دلانہ تعاون بھی کرتی ہیں۔ سندھ کی تاریخ، معاشرت اور رسوم و رواج پر لکھنے کے دوران جب بھی معاونت کی ضرورت پڑی تو ان شخصیات کو ہمہ وقت جذبۂ محبت سے سرشار اور آمادہ پایا۔
سندھ کے خانہ بدوشوں ہی میں ایک قبیلہ کبوترا بھی ہے۔ ان کی عورتیں گداگری کرتی ہیں۔ شہر کے اطراف میں جھونپڑیاں ڈال کر قیام کرنے والی اس برادری کے مرد ان جھگیوں میں آرام کرتے دیکھے جاتے ہیں جب کہ ان کی خواتین دیہات اور قصبے میں بھیک مانگتی ہیں۔ اسکول لائف میں ایک واقعے نے چونکا دیا تھا کہ علاقے کے ایک بڑے آدمی نے کبوتری سے شادی کی ہے۔ اس وقت چھوٹے شہروں اور قصبوں میں معمولی بات بھی مہینوں زیربحث رہتی تھی۔ بعد میں پتا چلا کہ وڈیرے نے جس عورت سے شادی کی تھی وہ کبوترا قبیلے کی تھی پھر بھائی شبیر سومرو کے ایک فیچر سے ان کے رسوم و رواج سے مزید آگاہی ہوئی کہ یہ اپنی خواتین کو ایک مخصوص مدت کے لیے ایک خاص رقم کے عوض دے دیتے ہیں جہاں وہ راج کرتی ہیں۔ طے شدہ عرصہ ختم ہونے پر وہ عورت واپس کردی جاتی ہے یا دورانیہ مزید رقم کے عوض بڑھالیا جاتا ہے۔ نہ جانے والی کو اعتراض نہ واپس کرنے والا ناراض۔
کبوترا برادری بھی مُردہ جانوروں بالخصوص پرندوں، مرغیوں کے گوشت کو خشک کرکے سارا سال استعمال کرتے ہیں۔ ان کے معدے کی جانے کیا خاصیت ہے کہ مرے ہوئے جانور کا گوشت انہیں بیمار بھی نہیں کرتا۔ اسی طرح بعض دیگر خانہ بدوش ہیں جن کی عورتیں اور مرد بھیک مانگنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے کھلونے تیار کرکے فروخت کرتے ہیں۔ مٹی کے کھلونے یا لکڑی کے ٹکڑے جوڑ کر تیار شدہ اشیاء پر رنگ برنگے کاغذ اور سگریٹ کی ڈبی سے نکالی گئی چمک دار پنیاں چپکاکر انہیں قابل دید بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح پنجاب کی گڑوی والیاں اور راجستھان کے ردالی بھی خانہ بدوشوں کی شناخت ہیں۔ اول الذکر گا بجا کر خیرات مانگتی ہیں تو آخر الذکر بڑے لوگوں کی میتوں پر آنسو بہاکر اور چیخ و پکار کے ساتھ روکر پیسے کھرے کرتی ہیں۔ گویا رونا دھونا ان کا پیشہ ہے بااثر افراد اور بڑے گھرانوں میں اپنی عورتوں کا سینہ کوبی، آواز کے ساتھ آنسو بہانا معیوب تصور ہوتا ہے۔ اس لیے یہ فریضہ ردالی عورتیں انجام دیتی ہیں۔
ماضی کے خانہ بدوش اور آج کل شہروں میں تجارت وغیرہ کرنے والے کوچڑوں کی شناخت مویشی چور کے طور پر بھی ہوتی تھی۔ ویسے یہ نقب لگانے، راہ گیروں کی آنکھوں میں مرچیں ڈال کر لوٹنے میں بھی کمال رکھتے تھے۔ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ چلتے چلتے یہ اس کی گردن پر ایسا ہاتھ ڈالتے کہ گردن کا منکا ٹوٹ جاتا اور یہ اپنی سواری گدھے کے دونوں سمت لٹکی بوری میں ڈال کر یہ جا وہ جا اور اس طرح کہ چرواہے کو بھی پتا نہ چلتا۔ زندہ بکری پکڑی ہوتی تو پہلے سے ہاتھ میں موجود کیکر کا کانٹا اس کی زبان میں لگادیتے اس طرح وہ ممیا بھی نہیں سکتی تھی۔
کہتے ہیں کہ یہ شادی کے وقت لڑکی کے پیسے لیتے ہیں جو ساٹھ ہزار روپے کے لگ بھگ ہیں۔ اس رقم سے اپنے مُردوں کی قبریں بھی پختہ کی جاتی ہیں۔ یہ انہیں خوش رکھنے اور ان سے آشیرباد لینے کا انداز ہے۔ کوچڑے بھی ہندو ہوتے ہوئے اپنے مُردوں کو دفناتے ہیں۔ مرنے والا کم عمر ہو تو قبرستان میں دفن کے لیے جنازہ لے جاتے ہیں جب کہ بڑی عمر کا یا قبیلے کا اہم فرد ہو تو اسے اونٹ یا گھوڑے پر آلتی پالتی دلاکر دفناتے ہیں۔ اس طرح مردہ شوہر کو بیوی اور مردہ بیوی کو شوہر غسل دیتا ہے۔ میت کے ہاتھوں میں مہندی اور آنکھوں میں کاجل لگاتے ہیں، جب کہ دانتوں کی صفائی اور ناخن تراشنے کا عمل بھی انجام دیا جاتا ہے۔ کوئی کوچڑی فرار ہوکر کسی کے ساتھ چلی جائے اور شادی کرلے تو برا نہیں مناتے اور اگر وہ لوٹ آئے تو قبول کرلیتے ہیں۔ البتہ قبیلے میں بدچلن مرد اور بدچلن عورت کو سزا دی جاتی ہے۔ اسی طرح باہمی تنازعات میں برادری کے سرپنچ کا فیصلہ سب تسلیم کرتے ہیں۔
گیروے رنگ کے ملبوس میں کاندھوں پر لمبے بانسوں میں پٹاریاں لیے نگر نگر گھومنے والے سامی بھی خانہ بدوشوں کا ایک منفرد روپ ہیں۔ پانسے سے قسمت کا احوال بتانے والے اور ہاتھ کی لکیروں سے ماضی حال اور مستقبل کے راز افشاء کرنے تو چند ہی ہوں گے متعدد تو لوگوں کی سادہ لوحی یا ضعیف الاعتقادی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ خالد کنبھر کی تحقیق کے مطابق ان میں جو زیریں سندھ کے ضلع بدین میں آباد ہیں۔ ہندو عقائد کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں، یعنی دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں، جب کہ خیرپور کے صحرائی علاقے نارا سے تعلق رکھنے والے سامی اپنے عقیدے میں مسلمانوں کے قریب ہیں۔ وہ زیارت کے لیے ایران بھی جاتے ہیں ۔ محرم میں عزاداری بالخصوص ماتم معمول ہے اور ان کے نام بھی مسلمانوں سے ملتے جلتے ہیں۔
خیر نام تو سندھ کی دیگر اقلیتوں نے بھی مسلمانوں سے ملتے جلتے رکھنا شروع کردیے ہیں ۔ سکھر بلدیہ کے ایک مسیحی کونسلر کا نام بوٹا حسین ہوا کرتا تھا جب کہ رانی، گڈی، بے بی، شہزادی، خمیسو، جمعو، سومر، آچر، بادشاہ، شہنشاہ، سنجر، پھوٹا جیسے نام اقلیت واکثریت میں مشترک ہیں۔ نارا کے سامی خود کو لاڑ کے سامیوں سے برتر تصور کرتے ہیں۔ شادی بیاہ کے حوالے سے ایک بات زیریں سندھ کے سامیوں میں خالد کنبھر نے یہ بتائی کہ وہ پانچ کورے مٹکوں میں پانی بھرکر ان میں گُڑ یا شکر ڈالتے ہیں جس میں سے دلہن اپنے شوہر کو گلاس بھرکر پانی پلاتی ہے اور بچا ہوا پانی شوہر اسے پلاتا ہے اور ایک دوسرے پر اس پانی کے چھینٹے بھی مارتے ہیں۔
اسی طرح زیریں سندھ کے سامی بھی نارا کے سامیوں کی طرح مردے کو دفن کرتے ہیں۔ پیر جو گوٹھ کے صحافی اسلام الدین عباسی نے بھی نارا کے سامیوں اور جیکب آباد اور ملحقہ بلوچستانی اضلاع کے سامیوں کی کئی مماثلتوں کا تذکرہ کیا تھا۔ لاڑ کا سامی مرجائے تو اس کی بیوہ ایک برس تک زرد رنگ کی قیمض پہنتی ہے جسے وہ انگی کا نام دیتے ہیں جب کہ مرنے والے کا بیٹا پورا سال ایک ہی ملبوس میں گزارتا ہے۔ ان سب کے اپنے اپنے رسم و رواج ہیں جو تفصیلی تحریر کا تقاضا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ مختصر سا فیچر اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ تاہم اس سے ان کے طرز معاشرت کی عکاسی ضرور ہوئی ہے۔
رچرڈ برٹن نے سندھ کو خوابیدہ روحوں کی وادی سے تعبیر کیا تھا۔ اس وادی کی ایک شناخت امن پسندی بھی ہے۔ سچل، لطیف اور سامی نے پیار، محبت اور رواداری کا درس دیا تھا۔ ہم آہنگی کی بڑی مثال ہمیں خانہ بدوشوں ہی میں ملتی ہے جو زمانے کے نشیب و فراز اور موسموں کے گرم و سرد سے بے نیاز اکٹھے رہتے ہیں۔ دکھ سکھ میں شریک۔ صدیوں کی تھکن اور گاؤں گاؤں گھومنے کی طویل مسافت ان کی حس مشاہدہ کو تیز کرتی ہے اور یہ عام آدمی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ سورج چاند ستاروں کی گردش اور ہواؤں کا رخ بدلتے دیکھ کر موسموں کا اندازہ کرلینے والے یہ خانہ بدوش اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں۔ ان کے لوک رقص، رسم و رواج، خوشیوں کے گیت، افسوس و غم کے مرثیے اپنا منفرد انداز لیے ہوئے ہیں۔
سانگھڑ، نواب شاہ روڈ پر ایسی ہی جھونپڑیوں کے ڈیرے پر برسات میں جسے ’’گرگلے‘‘ سانونی پکارتے ہیں سدا واہ نہر کے قریب ان کا لوک ناچ 40 برس بعد بھی یاد آتا ہے تو دل موہ لیتا ہے۔ ایک وسیع دائرہ بنائے گرگلی عورتیں درمیان میں کچھ بچے اور چند مرد جھک کر زمین کو ہاتھ لگاکر اٹھتے ہوئے تالیوں کی آواز، جسے وہ تھپڑی کہتے ہیں، مجال ہے تالی کی گونج آگے پیچھے ہو اور تالی کے ساتھ ہی انگڑائی کے انداز میں آسمان کی سمت ہاتھ لے جانے کا مخصوص اسٹائل۔ کتنی ہی دیر وہ اٹھلاتی، بل کھاتی رہیں۔ پھر سب نے اپنے اپنے جھونپڑوں کا رخ کیا۔ شاید رچرڈ برٹن نے بھی ایسا ہی کوئی منظر دیکھ کر سندھ کو خوابیدہ روحوں کی وادی قرار دیا ہو۔
The post مذہباً ہندو، مگر ریت رواج مسلمانوں کے appeared first on ایکسپریس اردو.