میثاقِ مدینہ اسلامی تاریخ کا ایک بڑا ہی اہم معاہدہ ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ کیا۔ مصری مورخ محمد حسنین ہیکل اپنی تالیف ’’حیاتِ محمدؐ ‘‘ میں لکھتے ہیں:-
’’یہ تحریری معاہدہ ہے جس کی رُو سے جنابِ محمد (صلوٰت اللہ تعالیٰ علیہ) نے آج سے تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال قبل معاشرۂ انسانی میں ایسا ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور فرد کو اپنے اپنے عقیدہ میں آزادی کا حق حاصل ہوا۔ انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی۔ اموال کے تحفظ کی ضمانت مل گئی…..‘‘ (اردو ترجمہ: ابویحییٰ امام خاں۔ بار سوم 1987ء۔ صفحہ:270 – پبلشر:ادارہ ثقافتِ اسلامیہ 2 کلب روڈ لاہور)۔
پاکستان میں ہر شخص کو اپنے اپنے عقیدہ میں حقِ آزادی، انسانی زندگی کی حرمت اور اموال وغیرہ کے تحفظ کی ضمانت قائداعظمؒ نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان دستور ساز اسمبلی میں واشگاف الفاظ میں دے دی تھی۔ اور ان کی یہ تقریر میثاقِ مدینہ پر ہی استوار ہے۔ مثلاً اس عالی شان میثاق کی مختلف شقوں میں درج ہے۔ شق نمبر 15:تمام مسلمان اس معاہدے پر متفق ہیں اور وہ اس میں سے کسی دفعہ کا انکار نہیں کر سکتے۔ جس مسلمان نے اس معاہدے کا اقرار کرلیا، وہ خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھتا ہے۔
18۔ اگر مسلمان جہاد میں اپنا مال خرچ کریں تو یہود کو بھی ان کے ساتھ اپنا مال خرچ کرنا ہو گا۔
19۔ قبیلہ بنی عوف کے یہود بھی اس معاہدے میں شامل ہیں۔ اگرچہ مسلمان اور یہودی ہر ایک اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنے کا مستحق ہو گا، لیکن مشترکہ مقاصد میں دونوں ایک جماعت کے حکم میں داخل ہوں گے۔
32۔ اگر مدینہ پر کوئی قوم حملہ کرے تو دشمن کی مدافعت میں سب کو مل کر حصہ لینا ہو گا۔
میثاق مدینہ کی ان شقوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے قائداعظمؒ کی11 اگست 1947ء کی اس تقریر کے اس حصے کی طرف آئیں تو ہر چیز واضح ہو جاتی ہے:’’…..تم میں سے ہر ایک چاہے تمہارا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو، چاہے تمہارا رنگ، ذات اور عقیدہ کچھ بھی ہو، اول بھی اس ریاست کا باشندہ ہو گا، دوئم بھی اور آخر میں بھی۔ تمہارے حقوق، مراعات اور ذمہ داریاں برابر ہوں گی…..حکومت پاکستان میں آپ کو اپنے مندروں اور پرستش گاہوں میں جانے کی آزادی ہے۔ آپ کسی بھی مذہب کے مقلد ہوں یا آپ کی ذات اور عقیدہ کچھ بھی ہو، اس سے پاکستان کی حکومت کو کوئی تعلق نہیں…..ہم اس بنیادی اصول کے ماتحت کام شروع کر رہے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے باشندے اور مساوی باشندے ہیں(پُرجوش تالیاں)۔ ہمیں اس اصول کو اپنا مطمح نظر بنا لینا چاہئے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ ان کے مذہب مٹ جائیں گے، کیونکہ مذہب کو ماننا ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے۔ میرا مطلب سیاسی تمیز سے ہے کہ وہ سب ایک قوم کے افراد ہو جائیں گے‘‘۔
یہی میثاقِ مدینہ کہتا ہے’’…..اگرچہ مسلمان اور یہودی ہر ایک اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنے کا مستحق ہو گا، لیکن مشترکہ مقاصدمیں دونوں ایک جماعت کے حکم میں داخل ہوں گے‘‘۔ اور یہ بھی کہ’’اگر مدینہ پر کوئی قوم حملہ کرے تو دشمن کی مدافعت میں سب کو مل کر حصہ لینا ہوگا‘‘۔
میثاقِ مدینہ کے متعلق مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی اپنی تالیف ’’پیغمبر ِ انسانیتؐ ‘‘ میں لکھتے ہیں:-
’’یہ بڑا اہم واقعہ اس لئے ہے کہ:
1۔ ایک اسلامی ریاست کی بنیاد پڑنے کی نشان دہی اسی معاہدے سے ہوتی ہے۔
2۔ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جو بین الاقوامی معاہدوں کی اساس ہے۔
3۔ اس معاہدے میں بڑی اعلیٰ اقدار ہیں…..دنیا کو پہلی بار درس ملا کہ احترامِ انسانیت کی بنیاد اور اعلیٰ مقاصد کو بروئے کار لانے میں کس طرح تعاون کیا جاتا ہے اور دوسری قوموں کو مذہب و ضمیر کی کتنی فراخ دلانہ آزادی دی جاتی ہے۔
4۔ فراخ دلی اور رواداری کے ساتھ اس معاہدے میں یہ حقیقت بھی مستور ہے کہ دین جبر سے نہیں پھیلایا جاتا اور دوسرے انسانوں سے مذہب کی بنیاد پر اتنی نفرت و عصبیت نہ برتنی چاہئے کہ اعلیٰ اقدار میں تعاون نہ ہو سکے.
پاکستان وجود میں آیا تو یہاں کئی مذاہب کے پیروکار تھے۔ انہیں مذہب و ضمیر کی فراخدلانہ آزادی، رواداری اور نفرت و عصبیت سے پاک ماحول چاہئے تھا۔ جس وقت میثاقِ مدینہ وجود میں آیا، اسی سے ملتے جلتے حالات تھے۔ تو قائداعظمؒ نے ان سے عہدہ برآ ہونے کیلئے میثاقِ مدینہ پر اپنی تقریر استوار کی۔ یہ پہلا موقع نہ تھا۔ جب بھی کوئی اہم مرحلہ اور فیصلہ کن صورت حال پیدا ہوئی، تحقیق بتاتی ہے، قائداعظمؒنے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا۔
مثلاً:- تقسیمِ ہند کا جو پلان دیا گیا اس میں وہ پاکستان نہیں تھا جس کے لئے برصغیر کے دس کروڑ مسلمانوں نے قائداعظمؒ کی قیادت میں سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ دینے والے کٹا پھٹا پاکستان دینے پر ہی مصر تھے۔ اس کے لئے بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کے مطابق آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کی منظوری ضروری تھی۔ بڑی لے دے ہوئی۔ جب قائداعظمؒ نے آخر میں اپنی تقریر میںصلح حدیبیہ کو نشانِ راہ قرار دیا تو کونسل نے اس کی منظوری دے دی۔ پاکستان وجود میں آگیا تو قائداعظمؒ نے بانی پاکستان، فادر آف دی نیشن اور پاکستان دستور ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے 11 اگست 1947ء کو جو میگنا کارٹا دیا وہ تاریخی میثاقِ مدینہ کا پر تو ہے۔
یہ اسی سوچ، رویے اور پروگرام کا نتیجہ تھا کہ قیامِ پاکستان کے موقع پر جب سرکاری ملازمین سے پاکستان یا بھارت میں خدمات انجام دینے کا آپشن مانگا گیا تو کئی مسیحی افسران نے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ترجیح دی۔ ان میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس اے آر کارنیلئس بھی تھے:بہ قول ان کے:
’’میں ملازم تھا برٹش گورنمنٹ کا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ پاکستان کو آپٹ کریں گے یاانڈیا کو۔ میرا سارا خاندان رہنے والا تھا شملہ کا۔ مجھے سب نے کہا:آپ کے سارے رشتہ دار وہاں ہیں۔ آپ یہاں رہ کر کیا کریں گے۔ میں نے انہیں کہا:دیکھیں، جو ہسٹری ہے، صحیح ہسٹری اسلام کی یہ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی کا حق نہیں مارا۔ مجھے بڑی امید ہے، اگر میں رہا پاکستان میں تومجھے کسی نے بھی ٹچ نہیں کرنا۔ میرا جو حق ہے وہ مجھے ملے گا۔ میں نے (فارم) بھر دیا کہ I opt for Pakistan۔ اور دیکھو، قدرت کا نظام، میں اسی ملک میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان بنا۔ میرا decision(فیصلہ) جو تھا، صحیح تھا۔‘‘(حوالہ:دی گریٹ لیڈر۔ جلد سوم)۔
قائداعظمؒ نے اپنے ایک قریبی ساتھی، جن کا تفصیلی انٹرویو قائداعظمؒ پر اردو میں لکھی میری کتاب’’دی گریٹ لیڈر‘‘ کی تیسری جلد میں آرہا ہے، سے قیامِ پاکستان کے موقع پر کہا تھا:’’میں چاہتا ہوں کہ آپ احادیث،خاص طور پر میثاقِ مدینہ پڑھیں تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ رسولِ پاکؐ نے جب مملکت مدینہ قائم کی تو مسائل کو کس طرح حل کیا‘‘۔
The post قائداعظمؒ کی 11اگست 1947ء کی تقریر-میثاقِ مدینہ کا پَرتو appeared first on ایکسپریس اردو.