بلوچستان کی سر زمین جہاں سنگلاخ پہاڑوں، ریگستانوں اور ثقافتی تنوع کے باعث پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے وہیں یہاں کے صدیوں پرانے چوکنڈی قبرستان بھی پوری دنیا کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ ان سیکڑوں سال پرانے چوکنڈی قبرستانوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور سے آبادی تھی۔
آج کل سیکڑوں سال پرانے چوکنڈی مقبرے اور عظیم شان مزار منہدم ہورہے ہیں۔ ان مزاروں اور چوکنڈی مقبروں کو اونٹنی کے دودھ سے بنائے جانے کے انکشافات سامنے آتے رہے ہیں۔ یہ نایاب مزار، چوکنڈی مقبرے معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ چوکنڈی مقبروں میں بلوچستان کی بہت سی عظیم ہستیاں دفن ہیں جنہوں نے زندگی میں کوئی نہ کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کی وجہ سے عظیم الشان مزار اور چوکنڈی قبرستان بنائے گئے تھے۔
چوکنڈی مقبرے کا مطلب ہے چار کونے والا قبرستان قبر کہا جاتا ہے۔ یہ قبرستان بلوچی لباس کی طرح ہوتے ہیں، ان پر بھی ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔ تالپور (بلوچ) قبائل کسی زمانے میں سندھ میں حکم راں ہوا کرتے تھے، جو بلوچوں کی عظیم شخصیات کے مزار اور چوکنڈی قبرستان بناتے تھے جو آج تک بلوچستان کی سر زمیں پر موجود ہیں۔ بلوچستان کے مزارات اور چوکنڈی مقبرے مکلی کے قبرستان سے بہت مشاہبت رکھتے ہیں۔ ان قبرستانوں میں پندرھویں سے اٹھارویں صدی عیسوی تک کی قبریں موجود ہیں۔ ان مزاروں، چوکنڈی قبروں کی تعمیر میں روف اینٹ کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان اینٹوں سے خوب صورت مزار اور چوکنڈی مقبرے تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہ مزار کثیر منزلہ انداز میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان مزاروں کو انتہائی خوب صورت نقش نگاری کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہے جن کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔
بلوچستان کئی اعتبار سے پاکستان کا نہایت منفرد صوبہ ہے۔ آثارقدیمہ کی دریافت سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی تھی۔ مہر گڑھ کے علاقے میں سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات بھی ملے ہیں۔ سکندراعظم کی فتح سے قبل بلوچستان کی سرزمین پر ایران کی سلطنت کی حکم رانی ہوتی تھی۔ بلوچ سرداروں کے گھوڑے دنیا بھر میں بہت مشہور تھے۔ اگر کوئی سردار گھوڑی پر سوار ہوتا تھا تو اس گھوڑی کو اس سردار کی بیوی جتنا درجہ دیا جاتا تھا۔ وہی سردار جب انتقال کر جاتا تو اس کی گھوڑی کو اس کے ساتھ دفنا دیا جاتا تھا تاکہ سردار کی گھوڑی پر کوئی اور سواری نہ کرسکے۔ حتٰی کہ کچھ سرداروں کی وفات پر ان کے کھانے پینے کی اشیاء برتن، سونے چاندی کے زیورات سمیت ان کو دفنایا جاتا تھا۔
بلوچستان میں چوکور قبرستان کئی علاقوں میں موجود ہیں۔ ان کی عمر کتنی ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ نہ ہم نہ آثارقدیمہ کے لوگ۔ آج تک محکمۂ آثارِقدیمہ نے ان قبرستانوں پر تحقیق تک نہیں کی ہے جس کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان چوکور قبرستانوں کے باہر بنی عمارات کی لمبائی ایک سو فٹ سے بھی زیادہ ہے جب کہ چوڑائی بیس سے تیس فٹ کے درمیان ہوگی۔ بعض بزرگوں کے بقول یہ چوکور قبرستان اس وقت بنائے گئے تھے جس وقت بلوچستان کی سر زمین کو پانی شدید کی کمی کا سامنا تھا۔ شاید اسی وجہ سے ان قبروں میں پانی کی جگہ اونٹنی کا دودھ استعمال کیا گیا تھا۔ اس زمانے میں اونٹنی کا دودھ آج جتنا نایاب نہ تھا۔ اُس وقت سرداروں کے پاس ہزاروں اونٹوں کے قافلے ہوتے تھے جب کہ اس وقت سرداروں کی سب سے زیادہ قیمتی مال متاع اونٹنی کو سمجھا جاتا تھا۔ اونٹوں پر بلوچوں کی آپس میں کئی لڑائیاں بھی ہوئیں، جو کئی کئی سال تک چلی تھیں، جن کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔ ان نشانیوں کو تلاش کرتے ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پر دو بلوچ قبائل بگٹی اور جمالی میں خونی جنگ ہوئی تھی۔ یہ جنگ بھی انہی جانوروں پر شروع ہوئی تھی، جس کا انجام دونوں سرداروں کی موت پر ہوا تھا۔
اس رات گھپ اندھیرا تھا چاند کا نام و نشان دور دور تک نہیں تھا۔ سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان گہری نیند میں اوطاق میں سوئے ہوئے تھے۔ رات کے اندھیرے میں ایک شخص جبل خان بگٹی آتا ہے اور ان کا گھوڑا، اوطاق سے چراکر لے جاتا ہے۔ صبح جب سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان جمالی نیند سے جاگتے ہیں تو گھوڑا نہ پاکر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں،’’ہمارے علاقے میں چوری۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔‘‘ یہ قہقہہ بدلے کی آگ تھی۔ لھڑاں خان اور سخی صوبدار خان ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر خوب ہنستے ہیں۔ پھر گھوڑے کے پیروں کے نشان دیکھتے ہوئے چور کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ ان کے لیے چور کو پکڑنا ناممکن بات نہ تھی، اگلی صبح صادق سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان پاؤں کے نشانات کا پیچھا کرتے چور کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور وہاں اپنا گھوڑا دیکھ کر خاموشی سے آگے نکل جاتے ہیں۔
گھوڑا ان دونوں کی طرف دیکھ کے خوشی سے ٹانگیں زمین پر مارنے لگتا ہے۔ اس چور کے پاس مقامی سرداروں کے ایک سو کے قریب اونٹ اور پچاس کے قریب گھوڑے تھے۔ سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان ان کے سارے اونٹ اور سارے گھوڑے کے بدلے میں مار (بدلہ) کر آتے ہیں اور اس شخص کو چوری کے جرم میں قتل کرکے واپس اپنے گوٹھ آجاتے ہیں اور اس بدلے کی خوشی میں ایک اونٹ کی سجی بنا کے پورے گاؤں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ہے بلوچ کے بدلے کی آگ، جو کبھی نہیں بجھتی ہے اور اس آگ کو کوئی بجھا بھی نہیں سکتا ہے۔ بلوچوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ کھانا بنانے کے بعد آگ نہیں بجھاتے اور نہ جلتی آگ پر پانی ڈالتے ہیں، کیوںکہ آگ پر پانی ڈالنا رزق میں کمی کرنا سمجھا جاتا ہے۔ جب تک انگارے خود نہ بجھ جائیں تب تک پانی جلتی آگ پر نہیں ڈالا جاتا۔ اکثریتی بلوچ قبائل رات کو جلائی آگ پر صبح کا ناشتہ بھی بناتے ہیں اور اس عمل کو گھر میں برکت سمجھتے ہیں۔
اس روز کے بعد سخی صوبدار خان اور جبل خان کے قبائل کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسی ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کے بدلے کی آگ میں جلتے ہیں اور جنگ کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں۔ جنگ کے لیے ایک بڑے میدان کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اونٹ، گھوڑے تیار اور تلواریں تیز کرلیں۔ سخی صوبدار دو ایسی تلواریں لاتے ہیں جن کے کنداق بھی سونے کے بنے ہیں۔ ان دو تلواروں کے نام بھی رکھے جاتے ہیں۔ ایک کا نام سسی اور دوسرے کا نام ماروی (سخی صوبدار کی تلوار کا نام سسی تھا جب کہ لھڑاں خان کی تلوار کا نام ماروی تھا)۔ سخی صوبدار خان بندوق بھی خریدتے ہیں جو ایک نالی بندوق ہے ( یہ پہلی بار بلوچستان میں استعمال ہونے جارہی ہے) اس کا دستہ سونے کا بنا ہوا ہے۔ دوسری جانب بگٹی قبائل کے لوگ بھی ہر قسم کے ہتھیار جمع کرتے ہیں اور میدان کا بھی انتخاب کرتے ہیں، جہاں مارو یا مر
The post بلوچستان کے چوکنڈی مقبرے اور ایک جنگ کی کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.