آزاد کشمیر کا تقریباً 42 فیصد علاقہ جنگلات پر مشتمل ہے جس میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ریاستی سطح پر لاپروائی، قیمتی لکڑی کا کٹاؤ اور غیر قانونی تجارت سمیت عوام میں آگاہی کا فقدان بھی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق آزاد کشمیر کے جنگلات میں 1500 سے زائد اقسام کے پودے (درخت، جڑی بوٹیاں اور سبزیاں وغیرہ) پائے جاتے ہیں جن میں سے تقریباً 500 اقسام کے پودے کسی نہ کسی صورت استعمال کیے جاتے ہیں۔ استعمال ہونے والے پودوں میں 300 سے زائد پودوں کا استعمال مختلف امراض کی تشخیص کے لئے ہوتا ہے یا انھیںادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ 52 پھل دار درخت،70 کے لگ بھگ سبزیاں(گھریلو اور جنگلی سبزیاں) اور 70 کے لگ بھگ دیگر پودے (تعمیر اور دیگر مقاصد کیلئے استعمال ہونے والے درخت ) زیادہ استعمال کئے جاتے ہیں ۔
آزاد کشمیر کے پودوں پر تحقیق کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر ارشد کے مطابق آزاد کشمیر میں 36 پودے (جڑی بوٹیاں ) ایسے ہیں جن کا استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے لیکن افزائش نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے انھیں معدومی کے خطرات لاحق ہیں۔ ان جڑی بوٹیوں میں ’’چورا (معدے کی بیماریوں کے علاج کیلئے )، بن ککڑی (جگر اور پیٹ کی بیماریوں کیلئے)، کوڑی بوٹی (دمہ اور کھانسی کے علاج کیلئے )، گاؤزبان (جوڑوں کے درد کے علاج کیلئے)، سوہاب بوٹی (جنسی امراض کے علاج کیلئے)، مشک بالا (مرگی اور بلڈ پریشر کے علاج کیلئے)، سورن تلاخ (جوڑوں کے درد کے علاج کیلئے )، نتھور بوٹی (جلدی امراض کیلئے)، لدرن (چھاتی کے درد کیلئے) پوشگار (دمہ اور پیشاب کے امراض کے علاج کیلئے)، گگل دھوپ (جنسی امراض کیلئے) ، کٹھ (اسے ہر بیماری کی شفا جانا جاتا ہے)، نیل کنٹھ یا نیلی جڑی (نمونیہ اور پیٹ درد کیلئے)، چرائتہ (بخار اور معدے کے امراض کے علاج کیلئے)، تن پترا (کینسر اور جنسی امراض کے علاج کیلئے)، ممیخ(نیند کے امراض کیلئے)، مسلونڑ (جوڑوں اور پیٹ درد کیلئے)، چوٹیال یا رباب (عمل تنفس اور جوڑوں کے درد کیلئے)، نظر یا چت پترہ (جانوروں کے امراض کیلئے)، مہری یا میٹھا (اس کی کئی اقسام ہیں جن میں سے ایک ’’پتریس ‘‘ ہے جسے ہر بیماری کی شفا کہا جاتا ہے)، کنڈل ( یہ حرارت کیلئے استعمال ہوتی ہے)، فیری یا چلاممیو (آنکھوں کی بیماری کیلئے)، کلری (اچار بنانے کیلئے )، نیرہ ( یہ چیچک کی بیماری پر استعمال کی جاتی ہے تاہم کئی علاقوں میں توہم پرستی کے باعث اس کے پتے جلائے جاتے ہیں ۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس سے بدروحیں بھاگ جاتی ہیں)، اجوائن خراسانی (کھانسی کے علاج کیلئے) اور بنفشہ (بخار اور بلڈ پریشر کیلئے)‘‘ سرفہرست ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ فرنگی اور دیار کی لکڑی کا استعمال بھی بہت زیادہ ہو رہا جس کی وجہ سے ان کے کم ہونے کا اندیشہ ہے۔
آزاد کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ باٹنی سے وابستہ ڈاکٹر عنصر بتاتے ہیں کہ آزاد کشمیر کا موسم ایسا ہے جہاں ہر قسم کے پھل داردرخت اگائے جا سکتے ہیں تاہم ایسا نہیں کیا جا رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ سیب، اخروٹ، ناشپاتی ، خوبانی ، آڑو ، املوک، انار، توت، انجیر، لوکاٹ، لیموں اور مالٹا سمیت آزاد کشمیر میں پچاسیوں پھلدار درخت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں لیکن آگہی کم ہونے کے باعث ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ حکومت آگاہی مہم کا انعقاد کرے تو یہ پھل اس خطے کے عوام کیلئے خوشحالی لاسکتے ہیں ۔ ڈاکٹر عنصر نے بتایا کہ دو سال قبل نیلم اور چکار میں پائی جانے والی جڑی بوٹی’’تن پترا‘‘ کی بڑے پیمانے پر سمگلنگ کی خبریں سامنے آئیں، ان کا کہنا تھا کہ اسے یہاں کچھ ٹھیکیدار تین ہزار روپے فی کلو کے حساب سے اٹھاتے اور مارکیٹ میں لاکھوں روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کرتے ہیں ۔آزاد کشمیر میں جنگلات اور زراعت ایک بڑا ذریعہ آمدن ہو سکتے ہیں تاہم حکومتی توجہ نہ ہونے کے باعث ایسا ممکن نظر نہیں آرہا ۔ اس کا اعتراف آزاد کشمیر کے سابق سیکرٹری جنگلات فرحت علی میر نے کچھ عرصہ قبل ایک انگریزی روزنامہ کو انٹرویو کے دوران کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ آزاد کشمیر میں مجرمانہ سرگرمیوں کے باعث ہر سال پانچ ہزار ایکڑ جنگلات تباہ ہوتے ہیں اور غیر قانونی طور پر جنگلات کے کٹاؤ سے پہلے ہی پچاس ہزار ایکڑ کے لگ بھگ زمین ندی نالوں میں بہہ چکی ہے ۔ ایسے میں انہوں نے حکومتی کارکردگی کا ذکر نہیں کیا کہ وہ اس معاملے میں کیا کر رہی ہے۔
اس رپورٹ کی تیاری کیلئے راقم نے آزاد کشمیر کے سابق وزیر جنگلات سے رابطہ کیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ جنگلات کی لکڑی اور جڑی بوٹیوں کی سمگلنگ میں مقامی سیاسی قیادت اور محکمہ جنگلات کے ملازمین ملوث ہوتے ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر لکڑی سمگل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لکڑی اور جڑی بوٹیوں کی سمگلنگ میں ٹمبر مافیا اور غیرقانونی تجارت کو ممبران اسمبلی اور محکمہ جنگلات کے افسران کی آشیر باد حاصل ہوتی ہے۔ نیلم اور دوسرے علاقوں سے قیمتی لکڑی اور جڑی بوٹیوں کی سمگلنگ کی لئے استعمال ہونے والی گاڑیوں میں خفیہ خانے بنائے جاتے ہیں جنھیں استعمال کرکے جڑی بوٹیاں اسمگل کی جاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسمگلر مظفرآباد سے خیبرپختونخوا کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس راستے میں چیک پوسٹ بھی آتی ہیں تاہم وہاں کئی پیدل راستے بھی ہیں جنھیں اسمگلر استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ مقامی لوگوں سے گفتگو کے دوران معلوم ہوا ہے کہ آزاد کشمیر سے جڑی بوٹیوں کی اسمگلنگ کیلئے بکروال (خانہ بدوش) عملی کام کرتے ہیں اور ہر سال ہزاروں ایکڑ علاقے سے جڑی بوٹیاں جمع کر کے اسمگلروں کے سپرد کرتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق جب بکروال ایک علاقے میں پڑاؤ ڈالتے ہیں تو وہاں موجود جڑی بوٹیوں کا صفایا کرنے کے بعد ہی وہاں سے جاتے ہیں۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بکروالوں کی چیکنگ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ بلا روک ٹوک جڑی بوٹیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں، اس معاملے میں محکمہ جنگلات ان کی معاونت کرتا ہے۔ جڑی بوٹیوں کے ناپید ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بکروال اور عام لوگ کوئی بھی جڑی بوٹی جڑ سے اکھاڑتے ہیں جس کے باعث اس کی پیداوار ختم ہو جاتی ہے۔
جنگلات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک موقع پر آزاد کشمیر کے سابق سیکرٹری جنگلات ظہور الحسن گیلانی نے بتایا تھا کہ جنگلات کو انکم سورس(ذریعہ آمدن) کے بجائے ریاستی اثاثہ (State asset) قرار دینے کی پالیسی بنائی جا رہی ہے تاکہ پودوں کو بچایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب جنگلات کوذریعہ آمدن کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔ ان کے مطابق نیلم اور لیپہ سمیت دیگر علاقوں کے لوگوں کو گھر بنانے کیلئے جستی چادریں استعمال کرنے کی ترغیب دی جائے جبکہ حکومت ٹھنڈے علاقوں میں ایل پی جی گیس اور بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائے تاکہ ایندھن کے متبادل ذریعے سے درختوں کا بچاؤ ممکن ہو۔حکومتی ترجمان راجا وسیم کا کہنا ہے کہ حکومت نے جنگلات بچانے کیلئے سخت پالیسی اپنائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ایک واقعہ پیش آیا جس میں ڈپٹی کمشنر نیلم پر لکڑی سمگلنگ کا الزام عائد ہوا، اس پر محکمہ جنگلات نے کہا کہ ان کا لکڑی لے جانے کا عمل قانونی طریقے سے ہوا، اس کے باوجود حکومت نے لکڑی کاٹنے کے معاملے پر انکوائری کمیٹی بنائی ہے جو جلد ہی اس معاملے کی رپورٹ دے گی۔ راجا وسیم کے مطابق حکومت جنگلات سے لکڑی اور جڑی بوٹیاں سمگلنگ کے معاملے پر کسی قسم کی نرمی نہیں دے گی۔ جڑی بوٹیوں کی نکاسی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اب ایک ٹھیکیدار کو ایک مخصوص علاقہ مخصوص وقت کیلئے دیا جاتا ہے اور پھر سال بھر وہاں سے جڑی بوٹیوں کی نکاسی پر پابندی ہوتی ہے تاکہ ان کی افزائش ہو سکے۔ بکروالوں (خانہ بدوش) کی منظم سمگلنگ سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھاکہ یہ ایک تہذیب ہے جس پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی تاہم حکومت نے بکروالوں کی جانب سے ہونے والی سمگلنگ روکنے کیلئے خفیہ فورس سے مدد لی جائے گی جو اپنے طریقے سے ان کی چیکنگ کرے گی۔ان کا کہنا ہے کہ انفرادی سطح پر ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو تاہم اب پہلے کی طرح منظم طور پر سمگلنگ ممکن نہیں ہو سکے گی۔
ڈاکٹر ارشد کا کہنا ہے کہ اکنامک ویلیو انڈیکس کے مطابق جن پودوں کی معدومی کے امکانات سب سے زیادہ ہیں ان کے بارے میں مردوں کو سب سے زیادہ معلومات ہیں تاہم ادویات سے متعلق پودوں کا خواتین کو زیادہ علم ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر نباتیاتی کام نہ ہوا تو یہ پودے ختم ہو جائیں گے اور ریاست کا ایک بڑا اثاثہ (جو ان پودوں کی صورت میں موجود ہے ) ختم ہو جائے گا۔ماہرین نے آزاد کشمیر میں پودوں کے بچاؤ کیلئے تجاویز دیتے ہوئے بتایا ہے کہ سب سے پہلے حکومت کو پودوں اورجنگلات کے بچاؤ کیلئے قانون سازی کرنی چاہیے اور زرعی زمینوں کو دوبارہ آباد کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اگر حکومت نادر اور نایاب پودے بچانے میں دلچسپی رکھتے ہے تو مقامی لوگوں کو آگہی مہم کے ذریعے اس بات پر ابھارے کہ وہ چھوٹے چھوٹے فارم بنائیں جہاں فصلوں کے ساتھ ساتھ نایاب اور نادر جڑی بوٹیوں کو بھی اگایا جائے تاکہ پودوں کی افزائش کے ساتھ مقامی لوگوں کا روزگار کا ذریعہ بھی بن سکیں اور جب روزگار کے مواقع ملیں گے تو عوام دلچسپی کے ساتھ کام کریں گے۔n
The post آزادکشمیر؛ قیمتی نباتات کی معدومی کا خدشہ appeared first on ایکسپریس اردو.