انسانی معاشرے اور سائنس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ درحقیقت سائنس اور ٹیکنالوجی ہی معاشرتی ارتقا کی کلید ہے۔
اس میدان میں ہونے والی ہر پیش رفت بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ روز افزوں ہونے والی دریافتوں، ایجادات، اختراعات اور پیش رفت کی بہ دولت سائنس برق رفتاری سے ترقی کی منازل طے کررہی ہے اور اسی مناسبت سے معاشرے پر اس کے اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں۔
2013ء میں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پیش رفت کا سلسلہ جاری رہا۔ جہاں قدرت کے کئی سربستہ راز انسان پر منکشف ہوئے، وہیں اس نے ان گنت ایجادات و اختراعات بھی کیں۔ گذشتہ برس جہان سائنس میں ہونے والی اہم سرگرمیوں کا اجمالی جائزہ ذیل کی سطور میں پیش کیا جارہا ہے۔
٭خلا، فلکیات
خلائے بسیط اور اس میں چھپے ہوئے اجرام فلکی ہمیشہ سے انسان کی دل چسپی کا محور رہے ہیں۔ اپنے فطری تجسس سے مجبور ہوکر انسان نے خلا کی بیکراں وسعتوں میں پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھانے کی جستجو کی، نتیجتاً اسرار کائنات اس پر کھلتے چلے گئے، مگر اب بھی بہت کچھ اس کی نگاہوں سے اوجھل اور اس کے ادراک سے ماورا ہے، جسے جاننے کے لیے وہ مسلسل کوشاں ہے۔ پچھلے برسوں میں مختلف ٹیکنالوجیز میں ہونے والی اہم پیش رفت اور جدید ترین آلات کے وجود میں آنے کے بعد خلائی تسخیر کا عمل تیز تر ہوگیا ہے۔ 2013ء میں ماہرین فلکیات نے کئی سیارے، سیارچے اور ستارے دریافت کیے۔ سائنس داں برسوں سے زمین سے مشابہہ سیارہ دریافت کرنے کی تگ ودو کر رہے ہیں۔
دراصل انھیں زمین کے علاوہ کسی سیارے پر زندگی کی تلاش ہے، اور زندگی کا وجود ہماری زمین جیسے کسی سیارے پر ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ زمین سے کسی حد تک مشابہ اب تک کئی سیارے دریافت ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ گذشتہ برس بھی جاری رہا۔ کیپلر خلائی رصد گاہ سے وابستہ ماہرین فلکیات نے KOI-172.02نامی سیارے کی دریافت کا اعلان کیا۔ نظام شمسی سے باہر ایک ستارے کے گرد محور گردش یہ سیارہ طبعی خصوصیات میں زمین سے کافی حد تک مشابہ ہے، اہم بات یہ ہے کہ اس ستارے کا اپنے سورج سے فاصلہ کم و بیش اتنا ہی تھا، جتنے فاصلے پر سورج سے ہماری زمین ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ اس سیارے پر حیات کی موجودگی کا امکان ہوسکتا ہے۔ برطانیہ کی ہرٹفرڈ شائر یونی ورسٹی کے محققین نے بھی زمین سے مشابہ تین سیارے دریافت کرنے کا اعلان کیا جو ایک ہی ستارے کے گرد محور گردش تھے۔
امریکی ماہرین فلکیات نے اعلان کیا کہ انھوں نے نظام شمسی کی حدود سے باہر سات نئے سیارچے دریافت کیے ہیں۔ ان سیارچوں کا سراغ ٹیکساس میں قائم میکڈونلڈ رصدگاہ میں نصب جدید ترین آلات کی مدد سے لگایا گیا۔
زمین سے مشابہ سیاروں کی دریافت میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ ناسا کے مطابق اس کے سائنس دانوں نے Kepler-62e، Kepler-62f اور Kepler-69c نامی سیارے دریافت کیے جو اپنے اپنے ستاروں کے گرد مدار میں گردش کررہے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ان سیاروں سے متعلق حاصل کردہ ڈیٹا ظاہر کررہا ہے کہ ان پر پانی موجود ہوسکتا ہے۔ ناسا ہی کی جانب سے نظام شمسی سے باہر سب سے چھوٹے سیارے کی دریافت کا اعلان سامنے آیا۔ یہ سیارہ لگ بھگ زمین کے چاند جتنا بڑا ہے۔
نئے سیاروں کے وجود سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ ماہرین فلکیات نے گنجان ترین کہکشاں کا بھی سراغ لگایا۔ چار نوری سال کے فاصلے پر موجود اس کہکشاں میں ستاروں کی تعداد 10000سے زاید ہے۔ گذشتہ برس نظام شمسی کے سابق رکن پلوٹو کے دو مزید چاند دریافت ہوئے جنھیں Styx اور Kerberos کا نام دیا گیا۔ اس دریافت کے بعد پلوٹو کے پانچ چاند ہوگئے۔ زمین کے مدار میں موجود ہبل دوربین نے نظام شمسی کے بعید ترین سیارے نیپچون کا چودھواں چاند دریافت کیا۔
سیاروں، ستاروں اور سیارچوں کی دریافت کے علاوہ بھی خلا اور فلکیات کے شعبے میں کئی اہم واقعات ہوئے اور اہم سرگرمیاں انجام پائیں۔ گذشتہ برس ناسا کے زحل کے مدار میں موجود خلائی تحقیقی جہاز Cassini نے زمین اور چاند کی تصاویر ارسال کیں۔ ارضی تاریخ میں یہ تیسرا موقع تھا جب کسی دوسرے سیارے کے مدار سے زمین کی تصویر کھینچی گئی ہو۔ ماہرین فلکیات NuSTAR نامی مصنوعی سیارے کی مدد سے پہلی بار بلند ترین کمیت ( supermassive) کے حامل بلیک ہول کے گھومنے کی رفتار ناپنے میں کام یاب ہوئے جوکہ روشنی کی رفتار کے تقریباً مساوی تھی۔ سائنس دانوں نے زمین کے گرد تیسری تاب کار پٹی ( radiation belt ) بھی دریافت کی۔
99942 Apophis نامی ایک سیارچہ تیزی سے زمین کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ماہرین فلکیات کئی برس سے یہ خدشہ ظاہر کررہے تھے کہ 2036ء میں یہ سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے گا، تاہم گذشتہ برس کیے جانے والے مشاہدات کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس سیارچے کے راستے میں زمین رکاوٹ نہیں بنے گی، اور یہ اس سے ٹکرائے بغیر کافی فاصلے سے گزر جائے گا۔
زمین کے علاوہ جس سیارے پر سائنس دانوں کو حیات کے وجود کی قوی امید ہے، وہ سیارہ مریخ ہے۔ اس سیارے کے مدار اور اس کی سطح پر ناسا کے کئی خلائی تحقیقی جہاز سرگرم عمل ہیں۔ ان ہی میں سے ایک Curiosityہے۔ گذشتہ برس اس خلائی جہاز نے ایسے شواہد دریافت کیے، جن کے تجزیے سے اندازہ ہوتا تھا کہ مریخ پر کبھی خلوی زندگی کے لیے حالات سازگار تھے۔ Curiosity کو مریخ کی مٹی میں پانی، کاربن ڈائی آکسائیڈ، آکسیجن، سلفر ڈائی اکسائیڈ، ہائیڈروجن سلفائیڈ، کلورومیتھین اور ڈائی کلورومیتھین جیسے عناصر دریافت کیے۔
2013ء میں سطح ارض پر سے کئی خلائی مشن لانچ کیے گئے۔ چاند کے اطراف کی انتہائی لطیف فضا پر تحقیق کے لیے گذشتہ برس ناسا نے The Lunar Atmosphere and Dust Environment Explorer ( LADEE) نامی اسپیس کرافٹ خلا میں روانہ کیا۔ 2013 ء میں ایران نے خلا میں ایک بندر کو پہنچایا اور اس جانور کی زمین پر بہ حفاظت واپسی بھی ہوئی۔
ایران کی اس ’مہم جوئی‘ کو مستقبل میں خلابازوں پر مشتمل مشن روانہ کرنے کی کوششوں کے تناظر میں دیکھا گیا۔ گذشتہ برس امریکا کے ایک اور حریف ملک شمالی کوریا نے بھی مصنوعی سیارہ کام یابی سے خلا میں پہنچایا۔ جاپانی خلائی ایجنسی ’’جاپان ایرواسپیس ایکسپلوریشن ایجنسی ( JAXA) نے Epsilon نامی راکٹ ارضی مدار کی جانب روانہ کیا جو نسبتاً مختصر جسامت اور کم لاگت والی لانچ وہیکلز کے استعمال کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
2013ء میں بھارت نے مریخ کی جانب خلائی جہاز ’’منگلیان‘‘ روانہ کیا۔ اس مشن کی روانگی نے بھارت کی خلائی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ خلائی جہازوں کی لانچ کی دوڑ میں چین بھی دیگر ممالک سے پیچھے نہیں رہا۔ اس کا خلائی جہاز Chang’e 3 کام یابی سے چاند کی سطح پر اتر گیا۔ Chang’e 3 کی کام یاب لینڈنگ کے بعد چین، امریکا اور روس کے بعد چاند پر خلائی جہاز اتارنے والا تیسرا ملک بن گیا۔ خلا کی وسعتوں میں جھانکنے کے لیے یورپی اسپیس ایجنسی نے خلائی دوربین’’Gaia‘‘ زمین کے مدار میں پہنچائی۔
٭طب، جینیات، خُلوی سائنس
انسان کو لاحق ہونے والے مختلف امراض بالخصوص لاعلاج امراض کا علاج دریافت کرنے کے لیے کوششیں گذشتہ برس بھی زوروں پر رہیں۔ اس ضمن میں کئی اہم پیش رفت بھی ہوئیں۔ برطانوی محققین نے چوہے کے جسم میں ضیائی حساسیت رکھنے والے خلیے داخل کرکے اندھے پن کا کام یابی سے علاج کیا۔ یہ طریقۂ علاج آزمائشی مراحل میں ہے۔ محققین نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں یہ طریقۂ علاج پردۂ چشم کے ورم کی بہ دولت نابینا پن کا شکار ہوجانے والے انسانوں پر استعمال کیا جاسکے گا۔
سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم روشنی کا ایسا ’’دھارا ‘‘یا بیم بنانے میں کام یابی حاصل کرلی، جس کے زیراثر خلیات اپنی مرضی سے حرکت کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ ریسرچ ٹیم کا کہنا تھا کہ ادویہ سازی اور خردحیاتیات کے شعبوں میں اس ایجاد کے وسیع اطلاقات سامنے آئیں گے۔
بولیویا کے سائنس دانوں نے اسٹیم سیلز کی مدد سے اسٹروک کا شکار چوہوں کے دماغی فعل کو مکمل طور پر بحال کردیا۔ اس تیکنیک سے اسٹروک کا شکار مریضوں کے مزید بہتر علاج میں مدد ملے گی۔
کیلی فورنیا کے تحقیق کاروں نے جینیاتی انجنیئرنگ کے ذریعے چوہوں میں خون کے عمررسیدہ خلیوں کو پھر سے شباب عطا کردیا، جس کے نتیجے میں ان کا جسمانی مناعتی نظام (امیون سسٹم) مضبوط تر ہوگیا۔ اگلے مرحلے میں اس تیکنیک کو انسانوں پر آزمایا جائے گا۔ اگر یہ طریقہ کام یاب رہا تو پھر عمر رسیدہ افراد مؤثر انداز سے امراض کے خلاف مزاحمت کرسکیں گے۔
رعشہ ایک لاعلاج بیماری ہے۔ سائنس داں برسوں سے اسے شکست دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں امریکی محققین نے اہم پیش رفت کی۔ انھوں نے ایک نئی مالیکیولی تھراپی وضع کی جس کے ذریعے دماغ تک ادویہ مؤثر انداز سے پہنچائی جاسکتی ہیں۔ اس طریقۂ علاج سے رعشے سمیت دماغ سے تعلق رکھنے والی دیگر بیماریوں کے امراض میں بھی مدد ملے گی۔
امریکا کے قومی ادارہ برائے صحت نے ’’ہیومن کنیکٹوم پروجیکٹ‘‘ کے تحت انسانی دماغ کے بے حد تفصیلی اسکین جاری کیے۔ یہ پہلا موقع تھا جب انسانی دماغ کے اتنے تفصیلی اسکین منظر عام پر آئے ہوں۔ ان اسکین کی مدد سے نیورو سائنٹسٹ دماغ کی پیچیدگیوں کا زیادہ درستی کے ساتھ مطالعہ کرسکیں گے، اور اس سے انھیں دماغی امراض کے اسباب جاننے میں بھی مدد ملے گی۔
اپنے طرز کی اولین سرجری کے دوران محققین اور معالجین نے ایک زخمی مریخ کی کھوپڑی کا 75فی صد حصہ تھری ڈی پرنٹڈ پولیمر امپلانٹ سے بدل دیا،جس سے مستقل میں تباہ شدہ ہڈیوں کی جگہ پر ضرورت کے مطابق بنائے گئے امپلانٹس لگائے جانے کی راہ ہموار ہوگئی۔ سرطان کی تشخیص کے ضمن میں ایک نئی تیکنیک بھی وضع کی گئی جس کے تحت سرطان سے متاثرہ خلیوں میں پروٹین کی شناخت کرنا مزید آسان ہوگیا۔
٭الیکٹرونکس، خود کار گاڑیاں، کمپیوٹنگ
الیکٹرونکس ان شعبوں میں سے ایک ہے جن میں ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کے باعث برق رفتاری سے تغیرات رونما ہورہے ہیں۔ آئے روز نت نئے الیکٹرانی آلات پیش کیے جارہے ہیں، اور پیش رفت بھی ہورہی ہیں۔ 2013ء بھی اس حوالے سے اہم سال رہا۔ اس برس نئے طرز کے کئی آلات بنائے گئے۔ ایل جی الیکٹرانکس نے دنیا کا پہلا OLED ٹیلی ویژن عام فروخت کے لیے پیش کیا۔ OLED اسکرینز عام ایل سی ڈی اور پلازما اسکرینز کی نسبت زیادہ واضح تصویر دکھاتی ہیں۔
ہدایت کار جیمز کیمرون کی فلم ’’اوتار‘‘ نے تھری ڈی فلموں کو خاص و عام میں مقبول بنادیا تھا۔ اس فلم کی ریلیز کے کچھ ہی عرصے بعد پہلا تھری ڈی ٹیلی ویژن بنالیا گیا تھا۔ تھری ڈی فلموں سے لطف اندوز ہونے کے لیے خاص قسم کی عینک پہنی جاتی ہے۔ تھری ڈی ٹیلی ویژن پر پروگرام دیکھنے کے لیے بھی یہ عینک درکار ہوتی ہے۔
تاہم 2013ء میں سائنس دانوں نے ایسی ویڈیو اسکرین ایجاد کرلی، جس پر تھری ڈی شبیہیں دیکھنے کے لیے کسی عینک کی ضرورت نہیں ہوتی۔ امریکی انجنیئروں نے کیڑوں کی مرکب آنکھ سے مشابہہ کئی عدسوں کا حامل ڈیجیٹل کیمرا تخلیق کیا۔ اس کیمرے سے کھینچی گئی تصاویر انتہائی واضح ہوتی ہیں۔
اسی طرح مائیکروسوفٹ نے تھری ڈی ٹچ اسکرین تیار کی جس میں نصب سینسرز اور ایک خودکار بازو کے ذریعے ایک فرد اسکرین پر نظر آنے والی اشیاء کو چھو سکتا ہے۔
نت نئی ایجادات کے ساتھ الیکٹرونکس میں تحقیق کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ یورپی محققین نے مالیکیولی نینووائرز تخلیق کیں جو اطراف موجود مقناطیسی میدان کے لیے بے انتہا حساسیت رکھتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی ایصالیت میں تبدیلی کے لیے حقیقی مقناطیسی مواد درکار نہیں ہوتا۔ ہجرتی پرندے بھی سفر کے لیے یہی تیکنیک اختیار کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ ایجاد ان ہی پرندوں سے متاثر ہوکر کی گئی۔ الیکٹرونکس کے میدان میں اس ایجاد کے ان گنت استعمالات سامنے آسکتے ہیں۔
کاروں کو ڈرائیور کی ’محتاجی‘ سے نجات دلانے کے لیے کئی برسوں سے کوششیں کی جارہی ہیں۔ سائنس داں اس سمت میں خاصی پیش رفت کرچکے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب سڑکوں پر گاڑیاں بھی اپنی مرضی سے دوڑ رہی ہوں گی۔ گذشتہ برس ٹویوٹا نے ایک ایسی خود کار گاڑی پیش کی جو اپنے گردوپیش کو محسوس کرکے ردعمل ظاہر کرنے، ڈرائیور پر ’نظر‘ رکھنے اور دیگر گاڑیوں سے رابطہ کرنے کی اہل تھی۔ اسی طرح اوکسفرڈ یونی ورسٹی کے انجنیئروں نے مینوئل سے بہ آسانی سیلف ڈرائیونگ موڈ پر منتقل ہوجانے والی کار بنالی۔
حالیہ چند عشروں کے دوران جس ٹیکنالوجی نے معاشرے کو یکسر بدل ڈالا وہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی ہے۔ ماضی کی طرح 2013ء میں بھی اس شعبے میں ایجادات و اختراعات کا سلسلہ جاری رہا۔ برطانیہ اور کینیڈا کے ماہرین نے کاغذ جیسا مہین اور لچک دار ٹیبلیٹ کمپیوٹر تخلیق کرلیا۔
کم ترین گنجائش میں زیادہ سے زیادہ کمپیوٹر ڈیٹا محفوظ کرنا اور انٹرنیٹ کے ذریعے ڈیٹا کی تیزترین منتقلی پر تحقیق کا سلسلہ بھی شب و روز جاری رہا۔ جاپانی آئی ٹی کمپنی این ای سی اور امریکی کورننگ ان کارپوریشن نے ملٹی کور فائبر آپٹک کیبل تخلیق جو فی سیکنڈ ایک پیٹا بائٹ ڈیٹا کی ترسیل کرسکتی ہے۔ یورپین مالیکیولر بایولوجی لیبارٹری سے وابستہ سائنس دانوں نے مصنوعی ڈی این اے میں ڈیجیٹل معلومات ذخیرہ کرنے میں کام یابی حاصل کی۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ڈی این اے میں معلومات ذخیرہ کرنے کی بے حد صلاحیت ہوتی ہے۔ ماہرین نے ڈی این اے کی ایک لڑی میں ولیم شیکسپیئر کی تمام نظمیں محفوظ کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل قریب میں مصنوعی ڈی این اے روایتی ہارڈ ڈرائیوز کلاؤڈ اسٹوریج کا نعم البدل ثابت ہوں گے۔
٭تھری ڈی پرنٹنگ
کمپیوٹر کی طرح اب تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی بھی عام ہوچکی ہے۔ اس کا استعمال تقریباً ہر شعبے میں کیا جارہا ہے۔ اب ایسے تھری ڈی پرنٹر بھی بنائے جاچکے ہیں جن کچھ برسوں پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ 2013ء میں ماہرین تعمیرات نے دنیا کی پہلی تھری ڈی پرنٹڈ عمارت کی تعمیر کے لیے تیاریاں شروع کردیں۔ اس عمارت کی تیاری میں صنعتی پیمانے پر تیارکردہ تھری ڈی پرنٹر سے بنایا گیا انتہائی مضبوط ماربل استعمال کیا جائے گا۔ اس منفرد عمارت کی تعمیر رواں برس ہی مکمل ہوجائے گی۔
اسکاٹ لینڈ کی ہیروئٹ۔ واٹ یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے زندہ اسٹیم سیلز پیدا کرنے والا تھری ڈی پرنٹر تیار کرلیا۔ اس پرنٹر کی تخلیق سے مستقبل میں حسب ضرورت مکمل اعضا ’ پرنٹ‘ کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ امریکی سائنس دانوں نے انسانی بافتیں پرنٹ کرنے والا تھری ڈی پرنٹر بھی بنالیا۔ امریکی اور جاپانی سائنس دانوں نے، الگ الگ ایسے تھری ڈی پرنٹرز تخلیق کرلیے جو مختلف ذائقوں کے کھانے پرنٹ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح راکٹ کے انجن اور کار سے لے کر خردبینی بیٹریوں تک مختلف اشیاء بنانے والے تھری ڈی پرنٹرز بھی وجود میں آگئے۔
٭گلوبل وارمنگ
بڑھتا ہوا عالمی درجۂ حرارت (گلوبل وارمنگ) اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے موسمیاتی تغیرات کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں زیربحث ہیں۔ 2013 ء میں بھی اس حوالے سے مختلف تحقیق سامنے آتی رہیں۔
سائبیریا کے برفانی غاروں سے متعلق حاصل کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر ماہرین ماحولیات نے بتایا کہ درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان غاروں میں مقید کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کی کثیر مقدار آزاد ہوکر فضا میں شامل ہوسکتی ہے۔ ایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ موسمی تغیرات شمالی انٹارکٹیکا میں فضائی اضطراب ( air turbulence) کی شدت میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں جو مسافر طیاروں کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔ ایک اور ریسرچ میں بتایا گیا کہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔
گذشتہ برس چین نے اعلان کیا کہ وہ 2016ء تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی حد مقرر کردے گا۔ چین کا یہ اعلان گلوبل وارمنگ پر کنٹرول کرنے میں بہت اہم ثابت ہوسکتا ہے، کیوں کہ چین کاربن ڈائی آکسائیڈ کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والے ممالک میں شامل ہے، اور کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی وہ اہم گیس ہے جو عالمی حدت میں اضافہ کررہی ہے۔
ایک تحقیق میں امریکا کے جنگلوں میں گاہے بگاہے آگ بھڑک اٹھنے کے واقعات کا سبب بھی گلوبل وارمنگ کو قرار دیا گیا۔
٭روبوٹکس
روبوٹکس یا روبوٹ سازی وہ شعبہ ہے، جس کا دائرۂ کار تیزی سے وسعت اختیار کررہا ہے۔ ماضی میں روبوٹوں سے محض چند ہی کام لیے جاتے تھے، مگر اب ان کا استعمال بہت متنوع ہوچکا ہے۔ ان خود کار مشینوں کی افادیت بڑھانے کے لیے ماہرین شب و روز مصروف کار رہے۔ گذشتہ برس کئی نئے طرز کے روبوٹ تخلیق کیے گئے اور روبوٹکس میں پیش رفت بھی ہوئیں۔ روبوٹکس کے ماہرین نے ایک آن لائن ڈیٹا بیس اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ پلیٹ فارم لانچ کیا جس تک دنیا بھر میں کہیں بھی موجود روبوٹ رسائی حاصل کرسکیں گے، اس سے انھیں ناشناسا چیزوں اور اجسام کی شناخت کرنے اور مختلف کاموں کی انجام دہی میں مدد ملے گی۔
ایک برطانوی انجنیئر نے قوی الجثہ جھینگر نما روبوٹ تیار کیا، جس میں ڈرائیور کے بیٹھنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ اس روبوٹ سے کان کنی اور سمندری تحقیق کے منصوبوں میں کام لیا جائے گا۔ کمپیوٹر ساز ادارے آئی بی ایم نے دورافتادہ علاقوں میں پیچیدہ منصوبوں پر کام کرنے والے انجنیئروں کی معاونت کے لیے telepresence اور augmented reality جیسی ٹیکنالوجیز کا حامل روبوٹ تخلیق کیا۔