ذرائع ابلاغ کا معتبر نشریاتی ادارہ CNN سن دو ہزار سات سے انسانیت کی خدمت کے اعتراف میں ’’سی این این ہیروز‘‘ ایوارڈ تقسیم کررہا ہے۔
یہ ایوارڈ ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے تن تنہا انسانیت کی بھلائی اور فلاح کا بیڑا اٹھایا اور اپنی علاقائی کمیونٹی پر انحصار کرتے ہوئے اسے وسیع مشن میں تبدیل کردیا۔ ایسے بے غرض اور بے لوث افراد کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر عام لوگوں کے ووٹوں سے منتخب کیا جاتا ہے۔ زیرنظر تحریر میں ’’سال دو ہزار تیرہ کا ہیرو ایوارڈ ’’حاصل کرنے والی شخصیت ’’ڈیل بیاٹے‘ اور دیگر چار اہم چار شخصیات کے کارناموں اور خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے، جنہیں ’’سی این این ہیروز‘‘ کا درجہ دیا گیا۔
٭ڈیل بیاٹے (Dale Beatty)
جنگیں انسانیت کے ماتھے پر داغ کی طرح ہوتی ہیں۔ آباد بستیوں کو تہس نہس کردینے والی یہ جنگیں نہ صرف ان میں شریک کتنے ہی افراد کی زندگیوں کا چراغ گل کردیتی ہیں، بل کہ انفرادی طور پر ایسے حادثات اور سانحوں کا باعث بھی بنتی ہیں جن کے اثرات ساری عمر رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک حادثے کے شکار ’’ڈیل بیاٹے‘‘ بھی ہوئے تھے۔ امریکی فوج کی جانب سے شمالی عراق میں خدمات انجام دیتے ہوئے ڈیل بیاٹے کی دونوں ٹانگیں ایک بارودی سرنگ کے پھٹنے سے گھٹنے کے نیچے سے ریزہ ریزہ ہوگئی تھیں۔ ڈیل بیاٹے کو محاذ جنگ سے واپس ریاست شمالی کیرولینا میں ان کے آبائی علاقے ’اسٹیٹس ویلی‘ میں بھیج دیا گیا۔ ایک چاق و چوبند شخص یکایک وہیل چیر کا محتاج ہوگیا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے اپنے آبائی گھر کی تعمیر میں مصروف ہوگیا۔ مصنوعی ٹانگوں سے ایک جگہ سے دوسری جگہ کام میں مصروفیت کے دوران ان کے آبائی علاقے کے لوگوں نے محسوس کیا کہ ڈیل بیاٹے اس ناگہانی آفت کا شکار ہونے کے بعد پہلے سے زیادہ مستعد ہوگئے ہیں۔
ڈیل بیاٹے کے اس رویے نے اردگرد کے لوگوں کو ترغیب دی کے وہ ان کا ہاتھ بٹائیں دوست احباب کے اس رویے کے ردعمل میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خود کو صرف اپنے گھر کی تعمیر تک محدود نہیں رکھے گا، بل کہ اب اس کی زندگی کا مقصد ان تمام افراد کے لیے گھروں کی فراہمی تھا جو جنگوں کے دوران حادثے کا شکار ہونے کے باعث مالی طور پر بدحال تھے یا پھر خود کو محدود کرچکے تھے۔ اس کام میں ان کا ساتھ نیشنل گارڈ سے تعلق رکھنے والے ان کے دوست ’’جان گلینا‘‘ نے دیا جو کہ پیشے کے لحاظ سے ماہرتعمیرات تھے، لیکن بطوررضا کار ڈرائیور شمالی عراق میں خدمات انجام دے چکے تھے اور جس حادثے میں ڈیل بیاٹے کی دنوں ٹانگوں کے پرخچے اڑ گئے تھے، جان گلینا اس گاڑی کو چلارہے تھے اور سخت دماغی چوٹ کا شکار ہوئے تھے۔
سن دو ہزار آٹھ میں دونوں دوستوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی جمع شدہ رقوم اور امدادی رقوم کو ایسے گھروں کی تعمیر میں استعمال کریں گے، جن میں بہ آسانی وہیل چیئر کو حرکت دی جاسکے انہوں نے اپنے اس پروجیکٹ کا نام ’’پرپل ہارٹ ہوم‘‘ رکھا۔ اس پروجیکٹ کے تحت ویتنام کی جنگ سے لے کر حالیہ دنوں میں جنگ سے متاثرین کے لیے خصوصی گھروں کی تعمیر شامل ہے جو دوران جنگ کسی بھی حادثے کے باعث معذور ہوچکے ہیں اور وہیل چیئر کے محتاج ہیں۔
ڈیل بیاٹے کی جانب سے معذوری کے باوجود تن تنہا شروع کیا جا نے والا یہ پروجیکٹ اب سو سے زاید فوجی معذوروں کے لیے گھر تعمیر کرچکا ہے۔ گھروں کی تعمیر کے سلسلے میں ڈیل بیاٹے کو عطیوں اور رضاکار ہنرمندوں کی مدد حاصل ہے۔ ڈیل بیاٹے کے عزم اور تنہا ایک عظیم کاوش کے اعتراف میں سی این این نے انہیں سن دو ہزار تیرہ کا بہترین سی این این ہیرو قرار دیا ہے۔
٭چاڈ پری جریکا
چاڈ پری جریکا ایک ایسے شخص کا نام ہے جس نے امریکا کے دریا مسی سپی اور اس کے آبی راستوں کی صفائی کا تن تنہا بیڑا اٹھایا پندرہ برس قبل ابتدا میں تنہا کام شروع کرنے والے چاڈ پری جریکا کے ساتھ آج ستر ہزار رضا کاروں کی ٹیم ہے، انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ دریا کی صفائی کے دوران سڑسٹھ ہزار سے زاید گاڑیوں کے ٹائر، دو سو اٹھارہ واشنگ مشینیں، انیس ٹریکٹر، بارہ باتھ ٹب، چار پیانو اور ایک ہزار کے قریب ریفریجریٹر نکالے ہیں۔ امریکی ریاست الیانوائس کے علاقے ’’مولائن‘‘ میں پروان چڑھنے والے اڑتیس سالہ چاڈ پری جریکا جس مقام پر رہائش پذیر تھے دریائے مسی سپی اس کے ساتھ بہتا تھا۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ انہیں قدرتی طور بچپن ہی سے دریا میں بہتے کچرے کو دیکھ کر کوفت ہوتی تھی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دریا کی صفائی کے حوالے سے سب سے پہلے خود کو پھر مقامی آبادی کو راضی کیا۔ اگر چہ اس دوران انہیں ’’دریا کا کچرا چننے والا‘‘ پکارا جاتا تھا۔ تاہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور آج وہ نہ صرف اپنے کام پر فخر کرتے ہیں بل کہ مقامی لوگ بھی چاڈ پری جریکا کے شانہ بشانہ ہیں۔ واضح رہے کہ چاڈ پری جریکا اب یہ کام ایک غیرمنافع بخش تنظیم ’’لیونگ لینڈز اینڈ واٹرز‘‘ کے پلیٹ فارم سے کررہے ہیں اور اس دوران وہ دریا کی صفائی کے ساتھ ساتھ دریا کے اطراف میں دس لاکھ سے زاید درخت بھی لگا چکے ہیں اور مقامی لوگوں میں دریا میں صفائی کا شعور پیدا کرنے کے لیے مذاکرے اور سیمینار بھی منعقد کرتے ہیں۔
٭ڈاکٹرجارج بیولی
کیمرون کا شمار براعظم افریقہ کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے یہاں ہر پانچ میں سے دو فرد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار ر ہے ہیں۔ ایسے ماحول میں طبی سہولیات کا فقدان حیرت ناک امر نہیں ہے، لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے جب جارج بیولی نے ارادہ باندھا تو وہ اکیلے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ایک رضا کاروں کی ایک بھرپور ٹیم تیار ہوگئی۔
سن دو ہزار دو میں جب ان کے والد طبی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث کسمپرسی میں انتقال کرگئے تو جارج بیولی نے سوچا کے وہ خود ڈاکٹر کی تعلیم حاصل کریں گے اور پھر گاؤں گاؤں میں جاکر مریضوں کا علاج کریں گے۔
چناں چہ اپنے عزائم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے انہوں نے سب سے پہلے مقامی کالج سے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی اور پھر انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ہر ہفتے کی شام وہ گھر سے اپنی تیس رکنی ٹیم کے ساتھ جس میں مختلف علاقوں کے میڈیکل کے طالب علم بھی ہوتے ہیں، خطرناک جنگل اور دریا کے کنارے پر واقع دیہات میں نکل جاتے ہیں، جہاں مریض ان کا شدت سے انتظار کررہے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر جارج بیولی اب تک بتیس ہزار مریضوں کا ان کے علاقوں میں جاکر علاج کرچکے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک ایسا ملک جہاں پانچ ہزار افراد پر ایک ڈاکٹر ہے۔ وہاں ڈاکٹر جارج بیولی جیسے افراد کسی نعمت سے کم نہیں ہیں جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر خود مریضوں کے پاس چل کر جاتے ہیں اور انہیں صحت جیسی نعمت قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔
٭رابن ایمونس
اڑتیس سالہ رابن ایمونس اپنے بھائی کی دماغی بیماری کے باعث ایک ایسے مشن پر چل پڑیں جس کی مثال خال خال ملتی ہے رابن کے مطابق ان کا چھوٹا بھائی جو کہ ایک دماغی اور نفسیاتی بیماری شیزوفرینیا کا شکار تھا جب ہر ممکن علاج کے باوجود وہ صحت یاب نہ ہوسکا تو رابن ایمونس اسے دماغی اسپتال سے اپنے گھر لے آئیں اس دوران انہوں نے محسوس کیا کہ جب وہ اپنے بیمار بھائی کو کھانے کے لیے تازہ پھل یا سبزی دیتی ہیں تو اس دوران میں ا ن کے بھائی کے مرض کی شدت میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔
اس تبدیلی نے رابن کی زندگی میں بھی تبدیلی پیدا کردی رابن کا خیال تھا کہ ا ن کا علاقہ ’’شارلوٹ‘‘ جو سیاہ فام غریب افراد پر مشتمل تھا اور جہاں لگ بھگ ’’ستر ہزار‘‘ افراد غربت کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ لوگ مہینوں تازہ پھل یا سبزیاں کھانے سے محروم رہتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے علاقے میں بیماریوں کا تناسب بھی بہت زیادہ ہے۔
چناں چہ رابن نے اپنے گھر کے چھوٹے سے باغیچے میں مختلف پھل اور سبزیاں اگانے کا فیصلہ کیا اور جب ان کی اگائی گئی چھوٹی سی فصل تیار ہوگئی، تو انہوں نے یہ تمام سبزیاں اور پھل غریب عوام میں بانٹ دیں۔ رابن کے اس عمل کو دیکھتے ہوئے علاقے کے کچھ سمجھ دار لوگوں نے رابن کا ساتھ دینے کی ٹھانی اور آج رابن اور ان کے دو سو کے قریب رضاکار ساتھی نو ایکڑ رقبے پر تازہ سبزیاں اور پھل اگاتے ہیں اور ابتدا سے اب تک چھبیس ہزار ٹن تازہ سبزیاں اور پھل عوام میں بانٹ چکے ہیں۔
پینتالیس سالہ رابن ایمونس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وہ اور ان کی تنظیم Sow Much Good نہ صرف عوام میں صحت بانٹ رہے ہیں، بلکہ بیماریوں کے خلاف قدرتی طریقوں سے مزاحمت کا شعور بھی پیدا کررہی ہیں۔
٭ ایسٹیلا پیفرام
ریاست فلوریڈا کے علاقے پام بیج سے تعلق رکھنے والی ’’ایسٹیلا پیفرام‘‘ ایک اسکول ٹیچر تھیں۔ ایسٹیلا پیفرام جب ریٹائر ہوئیں تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو بچے کمپیوٹر کی تعلیم کمپیوٹر نہ ہونے کے باعث حاصل نہیں کرپاتے ہیں، وہ انہیں کمپیوٹر کی تعلیم ان کے علاقوں میں جاکر دیں گی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ریٹائرمنٹ سے ملنے والے پیسوں سے ایک بس خریدی۔ اس میں سترہ کمپیوٹر رکھے انہیں تیز تر سیٹلائٹ انٹرنیٹ سے جوڑا اور تعلیم کے سفر پر جانکلیں ایسٹیلا اس وقت تک سیکڑوں بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم ان کے علاقوں میں جاکر ہفتہ واری بنیادوں پر فراہم کرچکی ہیں اور ہاں اسٹیلا پیفرام کی جانب سے خالصتاً علمی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی اس کمپیوٹر تعلیم کے دوران فیس بک کے استعمال کی سختی سے ممانعت ہے۔ چھہتر سالہ ایسٹیلا پیفرام کی جانب سے تن تنہا شروع کیے جانے والے اس منصوبے کی پذیرائی کرتے ہوئے سی این این نے انہیں سن دو ہزار تیرہ کا سی این این ہیرو قرار دیا ہے۔