ایک گھر کا تصور کیجیے جس میں بچہ، اس کی ماں اور ایک بوڑھی خاتون (ساس) موجود ہیں۔ بچہ کسی بات پر بُری طرح رو رہا ہے۔
گھر کے ضروری کام نمٹاتے ہوئے ماں بچے کو بہلانے میں ناکام ہورہی ہے۔ شام گہری ہو چکی ہے۔ اس عورت کا شوہر اور سسر کام پر سے گھر لوٹنے والے ہیں اور اب تک کھانا تیار نہیں ہوا ہے۔ اسی وقت اُسے اپنے کمرے میں موجود ساس کی آواز آتی ہے۔
’’بہو۔۔۔ گڈو کو مجھے دے دو، تم اطمینان سے اپنے کام نمٹاؤ، میں سنبھال لوں گی اسے۔‘‘ بچے کو ساس کے سپرد کر کے وہ کچن میں چلی جاتی ہے۔ اب وہ اطمینان سے کچن میں کام کررہی ہے۔
یہ ایک اور منظر ہے۔
’’ بیٹا، یہ تو بہت بری بات ہے۔ یہ گندی گالی آپ نے کہاں سے سیکھی؟‘‘ ماں نے فکرمند لہجے میں مگر پیار سے پوچھا۔
’’ممی، چاچو اپنے دوست کو ایسے بول رہے تھے۔‘‘
’’بچوں کے سامنے گالیاں مت دیا کرو فراز، اور تم دوستوں سے بھی تمیز سے بات کرو، بچے کی موجودگی میں تو خاص طور پر خیال کرو۔۔۔۔‘‘ وہ اپنے دیور سے شکایتی لہجے میں مخاطب تھی جو یہ سن کر اچانک ہی بگڑ گیا۔
’’بھابھی، میری مرضی، میں جس سے جس طرح چاہے بات کروں۔ آپ اپنی اولاد کو پھر خود سنبھالا کریں، میرے متھے کیوں مارتی ہیں اور اب تمیز سکھانے بیٹھ گئی ہیں۔‘‘
اگر تصویر کا پہلا رخ دیکھا جائے تو مشترکہ خاندانی نظام کسی رحمت سے کم نہیں لگتا جب کہ دوسرے منظر پر غور کریں تو یہ ایک افسوس ناک رویے کی مثال ہے، لیکن اس نظام کو زحمت بنانے میں زیادہ تر عمل دخل ہمارے منفی رویوں کا ہے جس کی وجہ سے شاید اب جوائنٹ فیملی سسٹم اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور زیادہ تر اس کی خرابیوں اور خامیوں پر بات کی جانے لگی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب لوگ خوشی خوشی اپنی بیٹی کی شادی ایک بھرے پرے خاندان میں کرتے تھے تاکہ ان کی بیٹی جو اپنے سارے رشتوں کو چھوڑ کر زندگی کے ایک نئے سفر کا آغاز کر رہی ہے وہ رشتوں کی کمی اور اپنوں کی دوری کو محسوس نہ کرے۔ اسے دیور کی شکل میں بھائی ملے تو نند کی صورت میں بہن کی اپنائیت نصیب ہو، لیکن اب ماں باپ کی آرزو ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی کا رشتہ ایسے خاندان میں کیا جائے جہاں کم سے کم افراد ہوں تاکہ ان کی بیٹی کسی مشکل اور مشقت میں نہ پڑے اور نئے ماحول سے جلد ہم آہنگ ہوجانے کے ساتھ نسبتاً آزادی سے رہ سکے۔ جوائنٹ فیملی میں بیٹیوں کو نہ بیاہنے کی بڑی وجہ کام کا بوجھ بھی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جوائنٹ فیملی میں لڑکی بیاہ کر جاتی ہے تو ساس نندیں آپس میں کام تقسیم کرنے کے بجائے سارا بوجھ نئی نویلی دلہن پر ڈال کر خود آزاد ہو جاتی ہیں۔ یہ اس نظام کا موجودہ شکل میں ایک منفی پہلو ہے۔
اس میں وقت کے ساتھ مزید شدت اس وقت آجاتی ہے جب ساس، نندوں کے علاوہ گھر میں موجود دوسری بہوئیں کسی وجہ سے ہتک آمیز رویہ اپنا لیتی ہیں اور یوں محبت کے بجائے ان کے مابین کدورت اور فاصلے بڑھتے ہیں۔ گھر کا ماحول محاذ آرائی میں بدل جاتا ہے، جہاں رشتے مضبوط ہونے چاہیے تھے وہاں منفی رویوں کی بدولت ایسی دراڑیں پڑ جاتی ہیں جو زندگی بھر دور نہیں ہوتیں۔ مشترکہ خاندانی نظام کی تنزلی کا دوسرا بڑا سبب والدین کا اپنے بچوں سے روا رکھا گیا امتیازی سلوک بھی ہے۔ پہلے زمانے میں جس بیٹے کی آمدنی کم ہوتی تھی والدین اس کا زیادہ خیال رکھتے تھے تاکہ وہ احساسِ کمتری کا شکار نہ ہو جب کہ اب مادّی دور میں اکثر والدین بھی زیادہ کمانے والے بیٹے کو اہمیت دیتے ہیں اور ہر معاملے میں اس کی رائے کا احترام کرتے ہیں حتی کہ اس کی بیوی اور بچوں سے بھی زیادہ انسیت اور لگاؤ ظاہر کیا جاتا ہے۔
والدین کا یہ امتیازی سلوک بھائی بہنوں میں ایک دوسرے کے لیے حسد پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے اور پھر یہی جذبہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ایک مسئلہ بچوں کی تربیت کا بھی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ایک چھت تلے موجود متعدد افراد کی سوچ اور بات کرنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے اور بچے جو دیکھتے ہیں وہ فورا اپنا لیتے ہیں۔ وہ بہت سی منفی اور غلط باتیں بھی سیکھتے ہیں۔ پھر گھریلو رنجشیں، جھگڑے اور سازشیں ان کے دیکھنے اور سننے میں آتی ہیں اور یہ سب ان کے ذہن میں محفوظ ہو جاتا ہے جس کا عملی مظاہرہ وہ آگے چل کر اپنی زندگی میں کرتے ہیں۔ یہی باتیں بچوں کی مخصوص انداز سے تربیت کرنے میں رکاوٹ بنتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بچوں کی پیدائش کے بعد لوگ جوائنٹ فیملی کو خیر باد کہہ دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ نجی زندگی متاثر ہونا بھی ہے۔ اسے پرائیویسی کہہ لیں جسے ہر چھوٹا بڑا اپنا حق سمجھتا ہے، لیکن مشترکہ خاندانی نظام میں یہ ممکن نہیں ہوتا بلکہ اس میں سب کی خوشیاں اور غم ایک ہوتے ہیں، لوگ بغیر پوچھے ایک دوسرے کی چیزیں استعمال کرلیتے ہیں، لیکن اب یہی بات بچے سے لے کر بڑوں تک کو کٹھکتی ہے۔ یوں تو کوئی بھی فرد اپنی زندگی میں کسی کو مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے مگر اب یہ مسئلہ موبائل فونز یا لیپ ٹاپ وغیرہ کی صورت میں مزید شدید ہوگیا ہے۔ رابطے کے برقی آلات، ان کے چارجر اور پاس ورڈ طرح طرح کے جھگڑوں کا باعث بن رہے ہیں۔
یہ چند وجوہات ہیں یا اسے ایک سرسری جائزہ کہہ لیں جس کا مقصد علیحدہ رہنے اور مشترکہ نظام سے جڑ کر رہنے کی افادیت اور چند خرابیوں کو بیان کرنا ہے، مگر جاننے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم رشتوں ناتوں کا احترام کریں جب کہ تعلقات کی اہمیت اور تعاون اور سہولت کو نظر انداز کرنے سے پہلے یہ سوچیںکہ کیا یہ اتنی بڑی وجوہات ہیں اور ایسے مسائل ہیں جن کا حل ہمارے پاس نہیں ہے، ان کا سدباب نہیں کیا جاسکتا؟ تاہم اس کے لیے سبھی کو آگے بڑھنا اور ماحول بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور اس کا عملی مظاہرہ کرنا ہو گا۔
بصورتِ دیگر اکٹھا رہنا آسان نہ ہو گا۔ یوں تو الگ رہنے یا مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے کا فیصلہ اپنے گھر کے ماحول، آپس کے تعلقات، رشتوں کی اہمیت کے پیشِ نظر، سہولیات اور آسانیوں کو دیکھتے ہوئے اور اپنے حالات کے مطابق ہی کیا جانا چاہیے، لیکن غیرضروری باتوں، معمولی نوعیت کے اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے جذباتی فیصلہ کرنے کے بجائے ایسا ماحول اور فضا تشکیل دی جاسکتی ہے جس میں سب ایک دوسرے کے مددگار اور معاون ثابت ہوں۔
The post اپنوں سے دُور نہ ہوں! ؛ بیٹھیں، بات کریں تو راستہ نکل آئے گا appeared first on ایکسپریس اردو.