سابق صدر آصف زرداری جو اب خود خاصی مشکل سے چل پاتے ہیں، فرماتے ہیں کہ وہ عید کے بعد سڑکوں پر حکومت مخالف تحریک چلائیں گے۔
زرداری صاحب اچھے اچھوں کو چلا سکتے ہیں، ان کے لیے کوئی تحریک چلانا کیا بڑی بات ہے، لیکن تحریک کو سڑکوں پر چلانے سے پہلے انھیں خیال رکھنا چاہیے کہ سڑکوں پر موٹرسائیکلیں، کاریں، بسیں، ٹرک اور ٹرالر چل رہے ہوتے ہیں، نازک سی شرمیلی سی معصوم سی بھولی بھالی سی تحریک ان سب کے درمیان کیسے چل پائے گی۔
ارے نہیں بھئی، خُدارا یہ نہ سمجھیں کہ ہمارا اشارہ کسی اور طرف ہے، ہم تو بس یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی نہیں جس کی تحریکیں آندھی طوفان کی طرح چلتی تھیں، آصف زرداری کی قیادت اور بلاول بھٹو کی سیادت میں پیپلزپارٹی کی سیاست، جرأت اور احتجاجی روایت ماضی کی حکایت ہوئی، زرداری صاحب کی پی پی پی گلشن کا کاروبار چلاسکتی ہے، کوئی چکر چلاسکتی ہے، ہوا میں تیر چلا سکتی ہے، لیکن جہاں تک تحریک کا تعلق ہے تو شاید وہ کوئی ’’چل سو چل‘‘ تحریک ہی چلاسکے۔ اگر کچھ عرصہ پہلے ہونے والے ٹرین مارچ کے بہانے بلاول کو ریل گاڑی کی سیر کرانے کی طرح کوئی خراماں خراماں چلتی تحریک چلی بھی تو اس کے ذریعے حکومت کو چلتا کرنا یا چلتے مقدمات کو لنگڑی دے کر گرانا ممکن نہیں لگتا۔
آصف زرداری نے یہ بھی کہا ہے کہ نیب اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتیں، کیوں بھئی! کیا انھوں نے معیشت کو نیب کے سامنے یہ گانا گاتے سُنا ہے:
میں ترے سنگ کیسے چلوں ساجنا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
یوں بھی نیب کا کام معیشت کے ساتھ چلنا نہیں، اس ادارے کا فریضہ ان کا چال چلن ٹھیک کرنا ہے جن کی چال بازیوں نے معیشت کو چلنے نہیں دیا۔ اس مقصد کے لیے یہ ادارہ ’’چل چلیے دنیا دے اُس نکرے جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہوئے‘‘ کی پالیسی پر گام زن ہے، اب یہ الگ بات ہے کہ نیب ’’چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو‘‘ کا قائل نہیں، جس پر اس کا بس چلتا ہے اُسی پر کیس چلتا ہے، پھر یا تو وہ ’’اچھا تو ہم چلتے ہیں‘‘ کہتا بیرون ملک چل دیتا ہے یا۔۔۔۔۔۔چلو رے ڈولی اُٹھاؤ کہار۔۔۔۔’’کِیّا‘‘ بھگتنے کی رُت آئی۔۔۔ کی سدا پر کھولی میں پہنچ جاتا ہے۔
ہم سوچ رہے ہیں کہ زرداری صاحب نے یہ کہہ کر کہ نیب اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتے، کہیں یہ تو کہنا نہیں چاہا کہ ’’اے بی نیب! تم یہ موئی معیشت کے ساتھ کیوں چل رہی ہو، مجھے ساتھ لے کر چلو تو سفر اچھا کٹے گا۔ اگرچہ ان دنوں میری اور معیشت کی رفتار ایک جتنی ہی ہے، مگر مجھے ساتھ لے کر چلنے میں تمھیں فائدہ یہ ہوگا کہ تمھاری سمجھ میں بہت سی چالیں اور چالاکیاں آجائیں گی، لیکن شرط یہ ہے کہ کچھ مُدت بعد ۔۔۔چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں۔۔۔کہنا ہوگا، اور ہاں، مجھے اُٹھاکر چلنے کی کوشش مت کرنا تمھاری سانس پھول جائے گی کیوں کہ میں سب پر بھاری ہوں۔ میری صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھایا تو ایک دن جھوم جھوم کر گا رہی ہوگی۔۔۔یوں ہی کوئی مل گیا تھا، سرراہ چلتے چلتے۔‘‘
The post یہ نازک سی تحریک سڑکوں پر کیسے چلے گی! appeared first on ایکسپریس اردو.