Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

’’بابا اطمینان سے چلا گیا، لیکن ہمارا اطمینان چھین کر لے گیا‘‘

$
0
0

’’ وکی پیڈیا کے مطابق پاکستان کے عوام کی کردار سازی میں ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کا حصہ نمایاں ہے، جو گزشتہ 53 سالوں سے مسلسل ایک مقصد کے تحت کام کرتا رہا ہے‘‘ یہ الفاظ یقینا اس جریدے، اس میں لکھنے اور اسے پڑھنے والوں کے لئے اعزاز ہیں۔ اس جریدے کے بانیوں میں ایک بڑا نام الطاف حسن قریشی کا ہے، جنہوں نے جو بھی لکھا، کمال لکھا۔

’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ الظاف حسن قریشی کی کتاب ہے جو کچھ ہی عرصہ پہلے شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب مصنف کے اُن تجربات اور تاثرات کا مجموعہ ہے جو قومی سطح کی اہم شخصیات سے ملاقات کے نتیجے میں ان کی یادداشت کا حصہ بنے۔ یہ کتاب بالخصوص ملک کے نوجوانوں کے لئے ایک بیش بہا تحفہ ہے۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے، جس میں ملکی تاریخ کے اہم ادوار پر اُن شخصیات کا نقطئہ نظر موجود ہے جو تمام معاملات کو بہت قریب سے دیکھ رہے تھے۔ اس کتاب میں23 نامور لوگوں کے انٹرویوز ہیں، جن کے ذریعے مصنف نے بغیر کسی لگی لپٹی کے ان شخصیات کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔

الطاف حسن قریشی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہیں ایسے نابغہ روز گار لوگوں سے ملنے کا موقع ملا اور انہوں نے اسے پوری صحافیانہ دیانت کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کر دیا۔ اس کتاب میں جن لوگوں کے انٹرویوز شامل ہیں ان میں تمام شخصیات اپنے طور پر علاقائی اور عالمی سطح پر اہمیت کی حامل ہیں۔ کتاب میں شاہ فیصل، سید ابوالاعلیٰ مودودی، جسٹس ایس اے رحمان، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن، جنرل محمد ضیاء الحق، سلیمان ڈیمرل، خان قلات احمد یار خان بلوچ، چیف جسٹس اے آرکارنیلیس، ڈاکٹر سید عبداللہ، اے کے بروہی، غلام رسول مہر، ڈاکٹر مس خدیجہ فیروز الدین، مولوی تمیز الدین خان، پروفیسر حمید احمد خان، ڈاکٹر عبدالرحمن بار کر، چوہدری محمد علی، حکیم محمد سعید دہلوی، جسٹس حمود الرحمن، ایس، ایم ظفر، مولانا ظفر احمد انصاری، قدرت اللہ شہاب اور ائیر مارشل اصغرخان کے انٹرویو شامل ہیں۔

الطاف حسن قریشی کا اسلوب ایسا ہے کہ انہوں نے محض انٹرویوز ہی نہیں کئے بلکہ ارد گرد کے ماحول اور لوگوں سے تعارف کرانا بھی ضروری سمجھتے ہیں،گویا ان بڑی شخصیات کے ساتھ کئی دوسری بڑی شخصیات کا کوئی واقعہ، رویہ، چٹکلا یا تعارف بھی اس کتاب میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ کتاب کے حواشی اتنے مفصل اور معلومات افزا ہیں کہ انہیں کتاب در کتاب کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے، وہ آنے والوں کو سونپ سکیں۔ انہوں نے کچھ انٹرویو کئی کئی نشستوں میں بڑی تگ و دو سے کئے ہیں مثلاً کسی کے ڈرائنگ روم سے ہوٹل اور جہاز تک میں جا کر جہاں جب اور جیسے موقع ملا انہوں نے بڑے لوگوں کے وقت کی قدر کا اندازہ کرتے ہوئے ان سے نشستیں کیں۔

یہاں ہم اپنے قارئین کے لئے منتخب انٹرویوز سے چنیدہ حصوں کا انتخاب پیش کر رہے ہیں۔

مولانا مودودیؒ کا انٹرویو خاصے کی چیز ہے۔ اس انٹرویو کے آخر میں مولانا کا الطاف صاحب سے ایک سوال بہت معنی خیز ہے جو شاید آج ہر مسلمان سے پوچھا جانا چاہیے۔

’’کیا تم ان لوگوں کے زمرے میں تو نہیں آتے جو اسلام کو مانتے ہوئے اس کی حدود میں رہنے کو تیار نہیں؟‘‘

’’قانون کے ماہرین اور اہل علم و فضل یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیں تو اسلامی فقہ کے ذخائر، قاضیوں کے عدالتی فیصلوں اور قانونی نظائر سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی قانون کو مربوط اور قابل فہم صورت میں جمع کیا جا سکتا ہے۔اگر انگریزی قانون کی لائبریریاں آباد ہوسکتی ہیں، تو آخر اسلامی قانون پر اس نوع کا تحقیقی کام کیوں نہیں ہوسکتا؟‘‘

(جسٹس اے۔آر۔کارنیلیس)

شاہ فیصل کا انٹرویو تو شاندار ہے ہی لیکن حواشی پڑھ کر حسرت جاگتی ہے کہ کاش! وہ کچھ اور زندہ رہ جاتے تو شاید آج مسلم دنیا کے حالات بہت مختلف ہوتے۔ انہوں نے نکسن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:’’میری آرزو ہے کہ بیت المقدس آزاد ہو اور میں مسجد اقصٰی میں نماز ادا کروں۔‘‘

جب تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، تب بھاری قیمت وصول کرتی ہے؛ دوسرا یہ کہ طاقت کی انتہا کرپشن کی انتہا کو جنم نہیں دیتی بلکہ طاقت چھن جانے کا خوف بدترین کرپشن کا باعث بنتا ہے۔(ایس ایم ظفر)

کتاب سچے، دلچسپ اور متاثر کن واقعات سے بھری ہوئی ہے مثلاً جسٹس حمود الرحمن کو ابتدائی تعلیم کے بعد جب کلکتہ کے مشہور انگریزی سکول میں داخل کروایا گیا تو وہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں’’ ہمیں فادر سبق پڑھا رہا تھا، سبق کے دوران اس نے کہا وکٹو ریہ میموریل، تاج محل سے زیادہ خوبصورت ہے۔میں اپنی نشست سے کھڑا ہو گیا اور فادر سے مخاطب ہوا آپ نے تاج محل نہیں دیکھا ہے، اس لئے وکٹو ریہ میموریل کا تاج محل سے مقابلہ کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میموریل کو تاج محل سے کوئی نسبت نہیں۔ فادر کو غصہ آ گیا اور اس نے مجھے پیٹنا شروع کر دیا۔میں مار کھاتے ہوئے یہی کہتا رہا آپ کی اس مار سے غلط بات کو صحیح نہیں مان سکتا۔ میرے اندر اسی روز غلط بات کے خلاف ڈٹ جانے کا داعیہ مستقل حیثیت اختیار کر گیا۔ اس واقعے نے مجھے آئندہ کی زندگی میں تشدد کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عزم عطا کیا ‘‘۔

’’ اسی فادر کے کردار کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیجیے کہ اگلے سال وہ تاج محل دیکھنے کے لئے آگرہ گیا۔ اس نے واپس آ کر بھری کلاس میں مجھ سے معافی مانگی اور اس بات کا اعتراف کیا کہ تاج محل، میموریل سے بہت زیادہ خوبصورت ہے۔ فادر کے اس اعتراف نے مجھے بے حد متاثر کیا اور میں اس سے بے پناہ محبت کرنے لگا۔

اس حقیقت کا مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ائیر مارشل اصغر خان غضب کی نظر رکھتے ہیں اور ان کا دماغ حیرت انگیز طور پر کام کرتا ہے، اس ضمن میں ایک صاحب نے بڑا دلچسپ واقعہ سنایا ’’ڈیفنس سوسائٹی کراچی میں ائیر مارشل صاحب کا مکان تعمیر ہو رہا تھا جس کی ڈیزائننگ مشہور آرکیٹیکٹ مسٹر بلوم فیلڈ نے کی تھی۔ ایک روز ائیر مارشل اس فرم کے نہایت کہنہ مشق انجنیئر مسٹر لٹن کے ساتھ مکان دیکھنے گئے اور سیڑھیوں سے اوپرچلے گئے۔ واپسی پر ایک سیڑھی پر آکر رک گئے اور کہنے لگے : مسٹر لٹن ! ’’یہ سیڑھی چھوٹی ہے‘‘۔

’’جی نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا‘‘۔

’’میرے خیال میں یہ 8 / 1 انچ چھوٹی ہے‘‘۔

مسٹر لٹن مسلسل انکار کرتے رہے۔ تب فیتہ منگوایا گیا اور سیڑھی واقعی ٹھیک 8 / 1 انچ چھوٹی نکلی۔ اس پر سب حیران رہ گئے۔

ستمبر کی جنگ میں پاک فضائیہ کی برتری ائیر مارشل کی قائدانہ صلاحیتوں کا جیتا جاگتا کرشمہ ہے۔ انہوں نے اس جنگ میں جو کردار ادا کیا، اس سے اعلیٰ حلقے اچھی طرح واقف ہیں۔ پہلے رسالپور میں تربیتی کالج کی بنیاد رکھی، ہوا بازوں کو تربیت دی اور پھر انہیں پیشہ ورانہ طور پر اس اعلیٰ مہارت سے تیار کیا کہ ان پھرتی، شجاعت اور حیرت انگیز کارکردگی پر پوری دنیا حیران رہ گئی۔‘‘

ائیر مارشل کے بھائی بریگیڈیر افضل خان کا ایک ڈیری فارم ہے جو ایک عرصے سے پی آئی اے کو کچھ چیزیں فراہم کرتا تھا۔جب ائیر مارشل نے پی آئی اے کا چارج سنبھالا تب پہلا کام یہ کیا کہ اپنے دستخطوں کے ساتھ اپنے بھائی کو خط لکھا کہ آج کے بعد آپ کی فرم کا پی آئی اے اور شہری ہوا بازی کے محکمے سے کوئی کاروباری لین دین نہیں ہونا چاہئے۔اس خط سے ان کے بھائی کو ہر ماہ اسی ہزار روپے کا نقصان ہو رہا ہے، مگر انہوں نے ایک اچھی مثال قائم کرنے کے لئے اقربا پروری کا ہر امکان ختم کر دیا‘‘۔

اکثر مقامات پر انٹرویو دینے والی شخصیت نے ایسی دھماکا خیز معلومات فراہم کی ہیں کہ پڑھنے والے تو کیا حیران ہوں گے خود الطاف صاحب بھی بھونچکا رہ گئے مثلاً : انصاری صاحب کی باتوں سے ایسا دھچکا لگا کہ ذہن تلپٹ ہو کے رہ گیا۔ ایک دو لمحوں کے لئے مجھے اپنے کانوں پر یقین ہی نہ آیا، لیکن ان کے الفاظ بالکل نستعلیق اور واضح تھے۔ وہ میرے چہرے کے اتار چڑھاؤ بڑے سکون سے دیکھتے رہے، پھر ان کی آنکھوں میں علمی وجاہت کی ایک چمک پیدا ہوئی اور متانت آمیز لہجے میں گویا ہوئے:’’ مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ میری باتیں تمہیں پریشان کر دیں گی۔ یہ ہر اس شخص کے لئے دھماکہ ثابت ہوں گی جو واقعات کی صرف ظاہری سطح پر نظر رکھتا ہے۔ میرے پاس یہودی صحافیوں، اہل قلم اور قائدین کی تحریریں اور بیانات موجود ہیں جن میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ روسی انقلاب صیہونیت کے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ تھا۔میں چند واقعات، شواہد اور تحریریں پیش کرتا ہوں‘‘۔

قدرت اللہ شہاب بتاتے ہیں کہ تقسیم کے بعد کچھ عرصے کے لئے انہیں صنعتوں کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ان دنوں کلیم داخل کئے جا رہے تھے اور ایک خاص رقم سے نیچے کے کلیم ہمارے محکمے کے دائرہ کار میں تھے نہ ہم کوئی معاوضہ دیتے تھے۔ایک کلیم آیا جو مخصوص رقم سے کم تھا۔ ہم نے کلیم والے کو طلب کیا، تو ایک سفید ریش بزرگ داخل ہوا۔ اس کے نحیف و نزار جسم سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس نے تقسیم میں بہت سختیاں جھیلی ہیں۔ ہم سب اس کی مدد کرنا چاہتے تھے ، مگر قانون کے مطابق اس کا معاوضہ نہیں دے سکتے تھے، ہم میں سے کسی نے اس ضعیف آدمی سے کہا:

’’بابا! آپ کا کلیم تھوڑی مالیت کا ہے، اس میں اضافہ کر دیجئے۔‘‘

اس نے بھولپن سے جواب دیا:

’’زندگی بھر حلال رزق کھایا ہے اور آج بے ایمانی کیسے کروں؟‘‘

ہم شب و روز جو آوازیں سن رہے تھے، یہ آواز ان سے بالکل مختلف تھی۔تنہا، بالکل تنہا۔

ہم نے بابا سے پھر کہا:’’جو مشین آپ چھوڑ کر آئے ہیں، اس کی قیمت آج بڑھ گئی ہے۔‘‘

’’جناب! مجھے اتنا بڑا دھوکا تو نہ دیں۔ میرا وہاں چھوٹا سا کارخانہ تھا۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشین کی قیمت کم ہوجاتی ہے۔‘‘

’’بابا! افسوس ہے کہ ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔‘‘

’’بیٹا! آپ مجھے کچھ دیں یا نہ دیں، میں جھوٹ تو کسی قیمت پر نہیں بولوں گا۔میرے جسم میں ابھی کچھ توانائی ہے، اس سے حلال رزق کمانے کی کوشش کروں گا۔‘‘

بابا اطمینان سے چلا گیا، لیکن ہمارا اطمینان چھین کر لے گیا تھا۔‘‘

اس کتاب کو پڑھنا ہر طبقے کے لئے بہت ضروری ہے عام آدمی سے لے کر دانشور برادری تک کیوں کہ جسٹس حمودالرحمن جیسے حقیقی دانش وروں نے عام دانشوروں میں پائی جانے والی کچھ خرابیوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ اسی طرح حکیم محمد سعید نے اپنے انٹرویو میں پوری سوسائٹی کے اخلاقی امراض کی نبض شناسی کی ہے، خاص کر پڑھے لکھے لوگوں کی۔ ایک اور بات قابل غور ہے کہ اس کتاب میں بہت ساری منجھی ہوئی شخصیات کا یورپ میں پڑھنے،رہنے یا کام کرنے کا تجربہ رہا ہے اور انہوں نے آج کل میڈیا پر قابض دانشوروں کے برعکس بیرونی ثقافت اور تہذیب کو قطعا پسند نہیں کیا ماسوائے وہاں کے قانون اور نظم و ضبط کے۔ اس ایک کتاب پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ یہ ایک دستاویز ہی نہیں ادب پارہ بھی ہے، اسے پکڑ کر چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے اور پڑھ کر دل و دماغ کے بہت سے دریچے کھل جاتے ہیں۔

The post ’’بابا اطمینان سے چلا گیا، لیکن ہمارا اطمینان چھین کر لے گیا‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>