سلیم نے بازار میں واقع اپنے چھوٹے سے مکان کو گرا کر نیچے مارکیٹ بنائی اور اوپر والی منزل میں رہائش اختیار کر لی۔
اس کا خیال تھا کہ اس کی دکانیں دیکھتے ہی دیکھتے کرائے پر لے لی جائیں گی ، مگر شو مئی قسمت سے ایسا نہ ہوا اورسات دکانوں میں سے تین کرائے پر چڑھیں جبکہ باقی ویسے ہی خالی رہیں ، یہ بات سلیم کے لئے بڑی پریشان کن تھی کیونکہ اس نے مارکیٹ اور دکان بنانے کے لئے کچھ رقم ادھار لے رکھی تھی اور خیال تھا کہ دکانوں کا ایڈوانس اور کرایہ ملے گا تو رقم لوٹا دے گا ، جب پانچ ، چھ مہینے گزر گئے اور دکانیں خالی پڑی رہیں تواس کی پریشانی بڑھ گئی اور وہ بغیر ایڈوانس کے بھی دکانیں کرائے پر دینے کے لئے تیار ہو گیا ۔
اسی ادھیڑ بن میں دن گزر رہے تھے کہ ایک روز ایک سادہ سا آدمی اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اسے ایک دکان کرائے پر چاہیے۔ سلیم نے اسے کرایہ بتایا تو اس نے فوری جیب سے پیسے نکال کر اس کو پکڑا دئیے، سلیم نے اسے کہا کہ وہ اسے جانتا نہیں اس لئے کسی ضامن کو لے آئے تو وہ کہنے لگا کہ وہ فیصل آباد کا رہنے والا ہے اور یہاں اس کا کوئی واقف نہیں، تب سلیم نے اسے کہا کہ وہ شناختی کارڈ کی کاپی لے آئے تاکہ کرایہ نامہ لکھا جا سکے ، اس شخص نے بڑی معصومیت اور سچائی بھرے لہجے کے ساتھ کہا کہ اسے دکان کی چابی دے دی جائے وہ جیسے ہی گھر واپس جائے گا تو شناختی کارڈ لے آئے گا تب کرایہ نامہ لکھ لیا جائے۔
سلیم دکانیں کرایہ پر نہ چڑھنے کی وجہ سے پہلے ہی پریشان تھا، اس نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا اور اسے چند دن میں شناختی کارڈ لانے کا وقت دے دیا۔ اس شخص نے دکان میں بچوں کے سستے ریڈی میڈ کپڑوں کے کچھ جوڑے دیواروں پر سجا دئیے اور ارد گرد کے دکانداروں سے واقفیت شروع کر دی۔ حیران کن طریقے سے وہ صرف دو دنوں میں تمام دکانداروں سے یوں گھل مل گیا جیسے ان سے عرصہ دراز سے واقفیت ہے اور یہی اس کا اصل فن تھا جس کا احساس ان دکانداروں کو اس کے وہاں سے رفو چکر ہونے کے بعد ہوا۔
اس شخص نے دوستی گانٹھنے کے بعد تین چار دکانداروں سے سامان ادھار لیا ، انھوں نے بھی اس بنیاد پر ادھار دے دیا کہ مارکیٹ میں بیٹھا ہے ادھار لے کر کہاں جائے گا، پانچویں دن وہ شخص مارکیٹ میں موجود ایک سنار کے پاس گیا اور اس کے پاس رکھے زیور دیکھ کر کہنے لگا کہ اسے یہ ڈیزائین بہت پسند آیا ہے اور وہ اسے اپنے باپ کو دکھانا چاہتا ہے،سنار نے پوچھا کہ اس کا باپ کہاں ہے تو کہنے لگا کہ اس کی دکان میں بیٹھا ہے،
سنار نے اس پر اعتبار کرتے ہوئے تقریباً ڈیڑھ تولہ سونے کے زیور اس کے حوالے کر دئیے، جب اسے گئے ہوئے پندرہ بیس منٹ ہو گئے تو سنار کو فکر لاحق ہوئی اور وہ اس کی دکان کی طرف گیا ، دیکھا کہ دکان کھلی ہے مگر وہاں کوئی موجود نہیں، ساتھ میں کپڑے والے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ تو کافی دیر سے ادھر نہیں ہے، یہ سن کر سنار کو فکر لاحق ہوئی اور اس نے سارا بازار چھان مارا مگر اس کا کہیں پتہ نہ چلا ، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ شخص صرف سنار کو ہی ٹھگ کر نہیں گیا بلکہ کپڑے والے اور جنرل سٹور والے سے بھی ہزاروں روپے کا ادھار کر گیا ہے،
مالک دکان سلیم سے جب کہا گیا کہ کرایہ نامہ لے کر آئے تا کہ وہاں سے ٹھگ کا پتہ معلوم کیا جا سکے مگر سلیم کے پاس تو ایسا کوئی ثبوت ہی نہیں تھا ، کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کی رہائش کہا ں ہے،اس کی دکان کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ دیواروں کے ساتھ سجائے گئے بچوں کے کپڑے صرف تین، چار ہزار روپے کے ہیں، ٹھگ نے ان لوگوں کا ایسا اعتماد حاصل کیا کہ جیسے وہ ان کا دوست ہو اور پھر اپنا کام کر کے چلتا بنا۔
ٹھگ بہت بڑے فنکار ہوتے ہیں وہ واردات ایسی چابکدستی اور مہارت سے کرتے ہیں کہ لٹنے والا اپنے نقصان کا افسوس کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فنکاری کی داد دینے پر مجبو ر ہوجاتا ہے۔ کسی زمانے میں ٹھگ بازی کو بطور پیشہ اپنانے والے افراد کے باقاعدہ قبیلے ہوتے تھے، جیسے بازی گر، بہروپئے ،جگت باز وغیرہ اور یہ گروہ در گروہ واردات کرتے تھے اور لوگ ان کے قصے بڑے چٹخارے لے لے کر سنایا کرتے تھے ،
اگر کسی نے ٹھگوں کی مکاری دیکھنا ہو تو اس کے لئے منور ظریف کی فلم بنارسی ٹھگ بہترین مثال ہے جس میں منور ظریف نے حقیقت کا رنگ بھر دیا ۔ ٹھگ بعض اوقات گروہ کی شکل میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت واردات کرتے ہیں، ایک واقعہ میں ایسا ہی ہوا۔
مشتاق بنک سے ڈیڑھ لاکھ روپے لے کر نکلا تو سڑک پار کرتے ہوئے ایک شخص شور مچاتا ہوا نظر آیا، پکڑو پکڑو ، میرے پیسے چھین کر بھاگ گیا، ساتھ ہی وہ ایک طرف اشارہ بھی کر رہا تھا، مشتاق کو بڑی ہمدردی محسوس ہوئی اور وہ بھی اس کے ساتھ بھاگ پڑا اور پوچھا کیا ہوا ، تو اس شخص نے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ شخص اس کی رقم لے بھاگا ہے ، ان دونوں نے تھوڑی دیر میں اس شخص کو پکڑ لیا اور رقم نکالنے کا مطالبہ کیا ، اس شخص نے کہا کہ انھیں غلط فہمی ہوئی ہے اس نے رقم نہیں چھینی، ابھی ان میں تکرار جاری تھی کہ ایک شخص موٹر سائیکل پر آیا جو حلیے سے پولیس والا دکھائی دیتا تھا ،اس نے آتے ہی بطور سپاہی اپنا تعارف کرایا اور جھگڑے کی وجہ پوچھی، جب بتایا تو کہنے لگا کہ تینوں تلاشی دو تم میں سے کوئی بھی چور ہو سکتا ہے، مشتاق پریشان ہو گیا کیونکہ اس کی جیب میں تو رقم موجود تھی،
جب تلاشی لی گئی تو مشتاق کے علاوہ ان دونوں کے پاس سے کچھ نہ نکلا، پولیس والے نے رقم اپنے قبضے میں لے لی اور کہنے لگا کہ تینوں تھانے چلیں، یہ سن کر وہ دونوں بھاگ نکلے اور پولیس والے نے بھی موٹر سائیکل ان کے پیچھے بھگا دی، مشتاق بے چارہ ہکا بکا وہیں کھڑا یہ سارا تماشاہ دیکھتا رہ گیا، موٹر سائیکل والا جیسے ہی ان دونوں بھاگنے والوں کے قریب پہنچا وہ رک گئے اور موٹر سائیکل پر سوا ر ہو کر رفوچکر ہوگئے،
اب مشتاق کو سمجھ آئی کہ وہ تو ٹھگوں کے ہاتھوں لٹ چکا ہے مگر اب کیا ہو سکتا تھا وہ تینوں تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو چکے تھے، تاہم مشتاق ان کی ذہانت اور منصوبہ بندی سے بڑا حیران تھا کہ کیسے انھوں نے اس کا پیچھا کر کے پتہ چلایا کہ وہ اس بنک سے کب رقم نکلوانے آتا ہے اور پھر انھوں نے کیسے ڈرامہ کر کے رقم ہتھیا لی۔
ٹھگ آج کل بڑے ماڈرن ہو چکے ہیں اب ان کے لئے فراڈیے کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے، سوٹ میں ملبوس ، پراعتماد شخص اگر آپ سے کوئی بات کہے تو آپ اس کے حلیے کی وجہ سے یقیناً اس کی بات کا یقین کرنے پر مجبور ہو جائیں ، اس قسم کے ٹھگ یا فراڈیے باقاعدہ دفتر بنا کر بیٹھتے ہیں اور عوام کو انعامی سکیموں کے ذریعے جال میں پھانس لیتے ہیں اور جب کافی رقم جمع ہو جاتی ہے تو راتوں رات دفتر ختم کر کے غائب ہو جاتے ہیں، بعض مرتبہ ایسے شاطر افراد راستہ چلتے بھی واردات کر جاتے ہیں، بس حالات ساز گار ہونے چاہئیں۔
گھی کے کنستروں سے بھرا کنٹینر مین روڈ پر اچانک خراب ہو گیا ، اب حل یہی تھا کہ گھی کو دوسرے کنٹینر کے ذریعے منزل مقصود تک پہنچایا جائے، ڈرائیور محمد خان اور اس کا ساتھی ابھی اسی سوچ میں غلطاں و پیچاں تھے کہ اتنے میں ایک گاڑی ان کے قریب آ کر رکی اور سوٹ میں ملبوس ایک شخص اس سے باہر نکلا اور بڑی خوش اخلاقی سے ان سے ملا، پھر ان کے مسئلے کے بارے میں پوچھا ، انھوں نے بتایا کہ کنٹینر خراب ہو گیا ہے ، فیکٹری والے دوسرا کنٹینر بھیجیں گے پھر ان کی جان چھوٹے گی،
اس شخص نے کہا کہ فکر نہ کریں۔ اس نے اپنا تعارف علاقے کے سماجی کارکن کی حیثیت سے کروایا اور ساتھ ہی کھانا لے کر آنے کا کہہ کر چلا گیا۔ ٹرک کا عملہ شدید گرمی سے بے حال تھا انہوں نے اس شخص کو قدرت کا انعام سمجھا۔ جلد ہی وہ کھانا لے آیا ، ٹرک والے اس کی مہمان نوازی سے بڑے متاثر ہوئے۔ اس نے بتایا کہ وہ اسی علاقے کا رہنے والا ہے اگر کوئی اور مسئلہ ہے تو وہ بھی اسے بتائیں، جب وہ کھانا کھا رہے تھے تو وہ یہ کہہ کر چلا گیا کہ جلد ہی چکر لگائے گا۔ کوئی ایک گھنٹے بعد ایک خالی کنٹینر ان کے پاس آ کر رکا۔
نئے ٹرک کے عملے نے انھیں کہا کہ گھی ان کے کنٹینر میں لوڈ کرا دیا جائے تاکہ وہ اسے منزل مقصود تک پہنچا سکیں ، جب پوچھا کہ انھیں کس نے بھیجا ہے توڈرائیور کہنے لگا کہ انھیں ایک گھی ڈیلر نے بھیجا ہے جس نے یہ گھی خرید لیا ہے، وہ بڑے حیرا ن ہوئے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے، تب ڈرائیور نے بتایا کہ ان کی بات فون پر ہوئی تو تھی ، تب وہ سارا قصہ سمجھے، انھیں کھانا کھلا نے والے شخص نے فون کر کے کہا تھا کہ وہ کنٹینر بھیج رہا ہے اب انھیں کیا پتہ تھا کہ وہ کنٹینر میں موجود گھی فروخت کر کے رقم جیب میں ڈال کر چلتا بنے گا۔
ٹھگوں کی ایک بہت بڑی صفت چرب زبانی اور شاطرانہ پن ہے، وہ اپنی باتوں سے بہت جلد دوسروں کو رام کر لیتے ہیں یا پھر گفتگو کی ایسی گھمن گھیریاں ڈالتے ہیں کہ اگلے فرد کو سمجھ ہی نہیں آتی اور وہ جال میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ بادامی باغ کا جنرل بس سٹیند ٹھگوں کا مسکن ہے کیونکہ یہاں پر بیرون شہر سے آنے والے بھولے بھالے افراد آسانی سے ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ ایک واقعہ تو سرعام پیش آیا ،جس میں لٹنے والا اور دیکھنے والے منہ دیکھتے رہ گئے۔
ایک بس میں ابھی چند ہی مسافر سوار ہوئے تھے اور کھانے پینے کی مختلف اشیاء فروخت کرنے والوں نے اسے گھیرے میں لیا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک نوجوان بس میں داخل ہوا اور اس نے سب کو متوجہ کرنے کے لئے دو تین اشعار پڑھے اس کے بعد بیگ میں سے چار خوبصورت گھڑیاں نکال کر ان کی خوبیاں بیان کرنا شروع کر دیں۔ سنہرے رنگ کی خوبصورت گھڑیاں اور نوجوان کی چرب زبانی سب کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے تھی، اس نے کہا کہ وہ یہ قیمتی گھڑیاں مناسب قیمت پر فروخت کر دے گا۔
چند دیہاتی مسافر ان گھڑیوں سے بڑے متاثر دکھائی دے رہے تھے اس نے وہ گھڑیاں زبردستی انھیں دیکھنے کے لئے دے دیں۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ بازار میں دو ، تین ہزار روپے میں فروخت ہونے والی یہ گھڑیاں وہ بس میں فروخت کرنے کی وجہ سے صرف پندرہ سو روپے میں فروخت کر رہا ہے ، اس کے بعد اس نے ان دیہاتی مسافروں سے پوچھا کہ ان کے خیال میں گھڑیوں کی قیمت کتنی ہے تو انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں ان میں سے کوئی بھی گھڑی پانچ سو روپے سے زیادہ کی نہیں ہے،
یہ سن کر اس نے بڑی حقارت سے وہ گھڑیاں ان کے ہاتھ سے واپس لے لیں اور کہا وہ ان گھڑیوں کو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے حالانکہ اس نے انھیں کوئی خاندانی آدمی سمجھا تھا۔ اس پران میں بحث شروع ہو گئی اور وہ دیہاتی مسافر اس کی شاطرانہ چال کو سمجھ نہ سکے اور اس نے انھیں تاؤ دلا کر پانچ پانچ سو روپے کی دوگھڑیاں فروخت کر دیں اور ان بے چاروں کو خود کو خاندانی ثابت کرنے کے لئے وہ خریدنا پڑیں ، جب دوسرے مسافروں نے اس میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تو اس نے سختی سے منع کر دیا اور کہا کہ یہ ان کا آپس کا معاملہ ہے۔
مسافر بے چارے اپنی عزت بچانے کے لئے چپ ہو گئے اور ان دیہاتی مسافروں کو سرعام لٹتادیکھتے رہے۔ جاتے جاتے گھڑیاں فروخت کرنے والا وہ ٹھگ ان مسافروں پر احسان جتلاتا گیا کہ اس نے اتنی قیمتی گھڑیاں صرف ان کو زبان دینے کی وجہ سے فروخت کر دی ہیں ورنہ وہ کبھی انھیں اس قیمت پر فروخت نہ کرتا۔
اس کے جانے کے بعد دونوں دیہاتی مسافر ان گھڑیوں کو بڑے غور سے دیکھنے لگے کہ آیا انھیں ٹھگ تو نہیں لیا گیا تو ساتھ بیٹھے مسافر نے انھیں بتایا کہ وہ تمھیں سو ، ڈیڑھ سو روپے والی گھڑیاں پانچ سو روپے میں فروخت کر گیا ہے، مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ تم نے یہ گھڑیاں اپنی مرضی سے سب کے سامنے خریدی ہیں۔
کسی گھر میں واردات کرنے سے پہلے ٹھگ وہاں کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں کہ گھر والوں کے معمولات کیا ہیں اس سے انھیں واردات میں آسانی ہوتی ہے۔
کھٹ کھٹ کھٹ، دروازہ زور زور سے بجتا ہے ، خاتون خانہ اپنے شوہر کو دفتر بھیجنے کے بعد کام کاج میں مصروف ہوتی ہے ،جھنجھلائی ہوئی دروازہ کھولتی ہے تو سامنے ایک مسکین شکل آدمی بغل میں مرغی دبائے کھڑا ہوتا ہے اور بڑے ادب سے کہتا ہے کہ صاحب نے اسے دفتر سے یہ مرغی دے کر بھیجا ہے کہ ان کے گھر دے آؤں۔
خاتون خانہ بہت حیران ہوتی ہے اور یہ کہتے ہوئے مرغی پکڑ لیتی ہے کہ انھوں نے دفتر جاتے ہوئے اس سے ایسا کوئی ذکر نہیں کیا ، مرغی دینے کے بعد وہ شخص جاتا نہیں ، تب خاتون خانہ اس سے پوچھتی ہے کہ اب کیا ہے تو کہنے لگا کہ صاحب نے کہا تھا کہ واشنگ مشین خراب ہے وہ مکینک کے پاس چھوڑ آنا۔ خاتون خانہ تھوڑا اور حیران ہوتی ہے کہ اس نے میاں سے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی ، مگر مشین میں تھوڑی سی خرابی تو ہے شائد انھوں نے خود ہی محسوس کر لیا ہو اس لئے اسے بھیج دیا ،
یوں خاتون خانہ نے واشنگ مشین اس کے حوالے کر دی اور وہ شخص مشین سر پر اٹھا کر چلتا بنا، شام کو اس کا شوہر گھر آیا تو اس نے اسے بتایا کہ اس نے ان کے کہنے کے مطابق واشنگ مشین ان کے دفتر سے آنے والے چپڑاسی کے سپرد کر دی ہے، تو اس کے شوہر نے بتایا کہ اس نے تو کسی کو نہیں بھیجا تھا ، جب اس کی بیوی نے پورا واقعہ سنایا تو دونوں اپنا سر پیٹ کر رہ گئے کیونکہ ٹھگ بڑی فنکاری سے مرغی کے بدلے واشنگ مشین لے گیا تھا ۔
کسی زمانے میں ٹھگوں کے ساتھ مل کر وارداتیں کرنے والے اسماعیل نے بتایا’’ یہ بہت مشکل کام ہے ، ٹھگ بننے کے لئے ایک عرصہ تک شاگردی کرنا پڑتی ہے، ایسے شخص کو باتیں کرنے کا ماہر ہونا چاہیے ، ہر طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے ، یوں سمجھو کہ ٹھگ بہت بڑا فنکار ہوتا ہے جو اپنی ذہانت اور اداکاری سے سب کو اُلو بنا جاتا ہے۔‘‘