ایک محتاط اندازے کے مطابق کرۂ ارض پر چھے ارب انسان بستے ہیں، جو دنیا کے لگ بھگ ایک سو بیس چھوٹے بڑے ممالک میں آباد ہیں۔
ان میں سے کچھ ممالک تو ایسے ہیں جہاں وسیع وعریض علاقوں میں صرف چند افراد رہائش پذیر ہیں، تو دوسری جانب کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں انتہائی گنجان آباد علاقے ہیں۔ اس صورت حال کی بنیادی وجہ ان ممالک میں خشکی کے خطوں کی کم یابی ہے یا پھر خشکی کے علاقے اپنی مخصوص ساخت کے باعث ناقابل رہائش ہیں۔
چناں چہ اس صورت حال سے دوچار ممالک نے اس مشکل کا حل اس طرح نکالا ہے کہ انہوں نے اپنے سمندروں اور ان کے ساحلوں کو طویل مدت میں سخت پتھروں یا عمارتی ملبے سے رفتہ رفتہ بھر کر ہم وار زمین میں تبدیل کیا اور ان پر رہائشی منصوبہ بندی کرلی ایسی ہی کچھ حیرت انگیز اور ناقابل فراموش کوششیں،
جو آج کا انسان سمندر کے اندر اور سمندر کے کناروں سے سمندری پانی کو پیچھے دھکیل کر گارے مٹی اور پتھروں کی مدد سے بلندوبالا عمارتوں اور دل کش شہروں کی شکل میں تخلیق کررہا ہے، ہمارا موضوع ہے۔ تو چلیے! آپ کو سمندر میں بنے خشکی کے ان قطعات پر لے چلیں جو انسانی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔
٭ فلیوپولڈر (Flevopolder)
ہالینڈ کے وسط میں واقع صوبے Flevolandکا ایک اہم حصہ Flevopolder جزیرہ ہے، جسے انسان کے ہاتھوں سے بنایا گیا۔ دنیا کے سب سے وسیع جزیرے ہونے کا اعزاز حاصل ہے 1986میں ہالینڈ کے بارہویں صوبے کی حیثیت اختیار کرنے والے Flevoland صوبے کی وجہ شہرت یہی جزیرہ ہے، جس کی وجہ تخلیق1916میں آنے والا سمندری طوفان ہے۔ دراصل اس سمندری طوفان کے باعث ایک وسیع رقبے پر مشتمل گڑھے میں سمندری پانی بھر کر جمع ہوگیا اور عظیم تالاب یا جھیل بن گئی۔
اس واقعے کے کافی عرصے بعد 1955میں حکومتِ ہالینڈ نے فیصلہ کیا کہ وہ Flevolandکے مشرقی حصے سے جمع شدہ پانی نکال کر بھرائی کرنا شروع کریں گے، جب کہ یہی عمل جنوبی حصے کے ساتھ1968میں شروع کیا گیا اس طرح لگ بھگ تیس سال بعد 970مربع کلومیٹر پر محیط یہ جزیرہ معرض وجود میں آگیا۔
واضح رہے کہ جزیرہ خشکی کو وہ حصہ ہوتا ہے جس کے چاروں اطراف میں پانی ہوتا ہے، چوں کہ Flevopolderکے چاروں طرف سمندری پانی کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے تین مصنوعی جھیلیں ویلیو ویمیر، کیتل میر اور گو میر بنائی گئی ہیں، لہٰذا Flevopolder کو جزیرہ قرار دیا جاتا ہے۔ ’’فلیو پولڈر جزیرے‘‘ کو صوبے کے دوسرے حصوں میں آمدورفت کے لیے جھیلوں کے اوپر سے بنائے گئے پلوں کی مدد سے جوڑا گیا ہے۔
٭ جزیرہ یاس(Yas Island)
متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظبی کے مرکزی شہر ’’ابوظہبی سٹی‘‘ سے متصل ’’جزیرہ یاس‘‘ 25 مربع کلومیٹر پر محیط ہے، جس میں سے 17مربع کلومیٹر رقبہ سمندر میں بھرائی کرکے حاصل کیا گیا۔ 36 بلین امریکی ڈالر کی مالیت کا یہ پروجیکٹ مشہور تعمیراتی ادارے ’’الدار پراپرٹیز‘‘ کی ملکیت ہے۔ جزیرہ یاس کی اصل شہرت یہاں پر موجود مشہور زمانہ فارمولا ون گرانڈ پرکس کاروں کی دوڑ کے ’’یاس مرینہ سرکٹ ٹریک ‘‘ کی موجودگی ہے۔ ساڑھے پانچ کلومیٹر طویل اس ٹریک پر متعدد عالمی پیمانے کی کار ریسیں ہوچکی ہیں۔
2009 میں دنیا کا سب سے اہم سیاحتی پروجیکٹ ایوارڈ ’’ورلڈ ٹریول ایوارڈ‘‘ حاصل کرنے والے ’’یاس جزیرہ‘‘ کا واٹرورلڈ پارک عوام کے لیے جنوری2013میں کھول دیا گیا ہے۔ انسانی ہاتھوں سے بنائے گئے۔ جزیرہ پر موجود یہ دنیا کا سب سے بڑا واٹر پارک ہے۔ اسی طرح Ferrari Worldامیوزمینٹ پارک بھی ساڑھے اکیس لاکھ فٹ کی وسیع و عریض چھت کے باعث دنیا کا سب سے بڑا ’’انڈور امیوزمینٹ پارک‘‘ کا درجہ رکھتا ہے۔ ہر قسم کی انٹرٹینمینٹ سے سجے ہوئے اس جزیرے پر جون2012 میں مشہور گلوکارہ میڈونا نے تقریباً پچاس ہزار افراد کے سامنے پرفارمینس دی تھی۔
٭ پام جبل علی (Palm Jebel Ali)
متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور وزیراعظم شیخ محمد بن راشد المکتوم کے اشعار سے متاثر ہو کر بنایا گیا۔ یہ منصوبہ 2002 میں شروع کیا گیا۔ شیخ محمد بن راشد المکتوم کی یہ نظم جس میں انہوں نے سطح آب پر تحریر لکھنے کے ناممکن عمل کو حوصلہ مندوں کے لیے چیلینج قرار دیا تھا۔
ماہرین تعمیرات نے مٹی اور پتھروں سے ناریل کے درخت اور اس کی پھیلی ہوئی شاخوں کی شکل کا جزیرہ تخلیق کرکے سطح آب پر نہایت دل پذیر تصویر کشی کی ہے۔ جزیرے کا اصل حسن بلندی سے ہوائی جہاز سے دیکھنے پر نظر آتا ہے۔ دبئی میں واقع یہ جزیرہ چھے سمندری پارک ، واٹر پارک، سمندری گاؤں اور رہائشی علاقوں پر مشتمل ہے۔
تاہم بدقسمتی سے Nakheel پراپرٹیز کا یہ منصوبہ 2008کے مالیاتی بحران کے باعث ابھی تک نامکمل ہے جہاں اندازاً ڈھائی لاکھ افراد کے لیے رہائشی علاقے تعمیر کیے جانے ہیں۔ مالیاتی بحران کا شکار یہ منصوبہ جو آٹھ مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل ہے۔
سرمایہ کاروں کے لیے شدید نقصان کا باعث بنا تھا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ2008میں یہاں پر زمین کی قیمت میں چالیس فیصد کمی واقع ہوگئی تھی۔ دبئی پراپرٹی مارکیٹ میں آنے والے اس بحران سے نہ صرف جزیرہ پام جبل علی ابھی تک نہیں نکل سکا ہے، بل کہ خطے کا ایک خوب صورت اور منفرد منصوبہ بھی گہنا گیا ہے۔
٭ الجمیرہ جزیرہ(Palm Jumeirah)
الجمیرہ جزیرہ بھی دبئی کے ساحل کو توسیع دے کر بنایا گیا ہے۔ اس جزیرے کی تعمیراتی نگراں بھی ’’نخیل پراپرٹی‘‘ ہے۔ دبئی کی ساحلی پٹی کے ساتھ واقع رہائشی علاقے جمیرہ سے متصل اس جزیرے کا رقبہ ساڑھے چھے مربع کلومیٹر ہے۔ اپنے نام کی مناسبت سے یہ جزیرہ بھی ناریل کے درخت اور اس کی شاخوں کی مانند سمندر کنارے نظر آتا ہے۔ یہ جزیرہ 300میٹر طویل پل کے ذریعے ساحل سے ملایا گیا ہے، جب کہ مرکزی رہائشی علاقہ جو درخت کے تنے کی مانند نظر آتا ہے۔ اس تنے کی دونوں جانب آٹھ آٹھ شاخیں تعمیر کی گئی ہیں، جن پر رہائشی بلاک ہیں۔
لگ بھگ آٹھ سو فٹ بال گراؤنڈ کے برابر رقبے والے اس جزیرے میں دنیا کی امیر ترین شخصیات رہائش پذیر ہیں۔ جنوری2001 میں شروع کیے گئے اس منصوبے میں نو کروڑ چالیس کیوبک میٹر مٹی اور سات ملین ٹن چٹانی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ جزیرے کی تعمیر میں چالیس ہزار محنت کشوں نے کام کیا۔ اس جزیرے میں ایک دل چسپ چیز جزیرے اور شہر کو ملانے والی مونو ٹرین بھی ہے۔
30 اپریل 2009 کو افتتاح کے مرحلے سے گزرنے والی یہ مونوٹرین سروس مشرق وسطی میں اپنی نوعیت کی اولین عوامی سروس ہے۔ دنیا کے تقریباً ہر صف اول کے ہوٹل، ریزورٹس اور تفریح سہولتوں سے آراستہ اس جزیرے کی تعمیر پر سمندری حیات کی حفاظت کے لیے سرگرم اداروں کی جانب سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔
٭جزیرہ روکو(Rokko Island)
جاپان کے شہر کوبے کے جنوب مشرق میں واقع ’’روکو جزیرہ‘‘ لگ بھگ چھے مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہے۔ اس جزیرے کا تعمیراتی دورانیہ 1973سے1992کے درمیان کا ہے۔ مستطیل شکل کے اس جزیرے پر کوبے انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسپورٹس کنونشن، ہوٹل، مارکیٹ، واٹر امیوزمینٹ پارک، اپارٹمنٹس، کوبے فیشن میوزیم، کینیڈا کا انٹرنیشنل اسکول، کنٹینرز یارڈ اور بندرگاہ کی سہولت موجود ہے، جب کہ کئی بین الااقوامی کمپنیوں کے ہیڈ آفس بھی روکو جزیرے میں ہیں۔ یاد رہے کہ1995میں کوبے شہر میں آنے والے زلزلے سے روکو جزیرہ بھی سخت متاثر ہوا تھا۔
٭جزیرہ پورٹ (Port Island)
جاپان میں واقع یہ جزیرہ بھی کوبے شہر سے متصل Chuo-kuکی ساحلی پٹی کے نزدیک سمندر میں جلوہ گر ہے۔ یہ جزیرہ1996 سے1981کے درمیان تخلیق کیا گیا۔ اس جزیرے کا رقبہ پانچ اعشاریہ دو مربع کلومیٹر ہے Port Pier ’81کے نام سے بھی مشہور اس جزیرے پر ’’ہیلی پورٹ‘‘ کی سہولت بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ کوبے ویمن یونیورسٹی، کافی میوزیم، کنونشن سینٹر، ہوٹلز، کاروباری اداروں کے ہیڈآفس اور متعدد تفریح پارک ہیں۔ جزیرے کی ایک اور امتیازی خوبی یہاں پر دنیا کے صف اول کے تین میں سے ایک سب سے تیزرفتار سپر کمپیوٹر K Computerکی تیاری کے لیے مرکزی لیب کا قیام بھی ہے۔
٭جزیرہ درت البحرین(Durrat Al Bahrain)
بحرین میں بنائے گئے اس جزیرے کی مجموعی لاگت 6 بلین امریکی ڈالر ہے 2008میں ورکروں کی جانب سے ہڑتال کے باعث تکمیل میں تاخیر کا شکار ہونے والا یہ پروجیکٹ اب اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، جس میں 15چھوٹے چھوٹے جزیرے بنائے گئے ہیں، جن میں چھے ٹاپو یا مرجان کے فرش، پانچ مچھلی کی شکل کے جزیرے اور دو ہلال کی شکل کے جزیر ے شامل ہیں۔ ان تمام کا مجموعی رقبہ بائیس کروڑ مربع فٹ ہے۔
ان جزائر میں فائیو اسٹار ہوٹل، گولف کورس، بارہ پل اور واٹر پارک شامل ہے۔ واٹر پارک (Marina) تین جزیروں پر پھیلا ہوا ہے واٹر پارک کا رقبہ75لاکھ مربع فٹ پر محیط ہے اس کی لاگت1.3بلین ڈالر آئی تھی ’’بحرین کے موتی‘‘ کے نام سے بھی پہچانے جانے والا یہ جزیرہ ’’کارپوریشن کونسل برائے عرب اسٹیٹ گلف‘‘ (CCASG)کے دو بڑے تعمیراتی ادارے ’’درت خلیج البحرین‘‘ اور ’’تعمیر‘‘ کا منصوبہ ہے۔
٭جزیرہ ڈینیوب Donauinsel
یورپ میں واقع ملک آسٹریا کے شہر ویانا کے ساتھ بہنے والے دریا ’’ڈینیوب‘‘(Danube) اور اس کے متوازی کھودی جانے والی نہر ’’نیوڈینیوب‘‘ کے درمیان بنے والا یہ جزیرہ 21 کلومیٹر طویل اور 70کلومیٹر چوڑا ہے۔ جزیرے کی تخلیق کا بڑا حصہ ’’نیو ڈینیوب‘‘ نہر کی کھدائی سے حاصل ہونے والی مٹی ہے، جس کے اوپر یہ جزیرہ تخلیق کیا گیا ہے۔ یہ نہر دریائے ڈینیوب میں ہر سال آنے والی طغیانی کا زور توڑنے کے لیے بنائی گئی تھی۔
واضح رہے کہ دریا ڈینیوب ویانا شہر کے وسط سے گزرتا ہے۔ مقامی زبان میں Donauinselکے نام سے پکارا جانے والا یہ جزیرہ بنیادی طور پر تفریحی سہولتوں کے لیے بنایا گیا ہے، جس میں ہوٹلز، شراب خانے اور نائٹ کلب کی کثرت ہے، جہاں دنیا بھر کے سیاح دل بہلانے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ کھیلوں کی سرگرمیوں کے لیے بھی سہولتیں مناسب طور پر موجود ہیں۔ یہ جزیرہ اپنے سالانہ اوپن ایر فیسٹیول کے لیے بھی مشہور ہے، جس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین سیاح شرکت کرتے ہیں۔ اس جزیرے کی تعمیر کا دورانیہ 1972سے1988کے درمیان کا ہے۔
٭جزیرہ پیبر ہام( Peberholm)
ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن کے جنوب میں واقع قصبےTarnbyسے متصل یہ جزیرہ ڈنمارک او ر سوئیڈن کو باہم ملانے والے26 ہزار فٹ طویل پل Oresund Bridgeکی تعمیر کے دوران حاصل ہونے والی مٹی، چٹانی پتھر اور گارے سے تخلیق کیا گیا تھا۔ بحیرہ بالٹک کی ’’آبنائے اورسینڈ ‘‘ میں واقع4کلومیٹر کے رقبے والا یہ جزیرہ انسانی آبادی سے خالی ہے۔
کیوں کہ حیاتیاتی ماحول کی حفاظت کے ذمہ دار عالمی اداروں نے اس جزیرے کو حیاتیاتی اور ماحولیاتی تنوع کو محفوظ کرنے کے لیے بہ طور تجربہ گاہ مخصوص کردیا ہے، جس کے تحت اب تک جزیرے میں454 پودوں کے منفرد نمونے پروان چڑھائے گئے ہیں، جب کہ مکڑیوں کی 20 سے زاید اقسام اور پرندوں کی 12سے زاید اقسام موجود ہیں۔ 1995سے1999کے درمیان بنائے جانے والے اس جزیرے پر محققین کو بھی سال میں صرف ایک مرتبہ آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
٭جزیرہ آئی جے برگ ( IJburg)
ہالینڈ کے صوبے شمالی ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں بہنے والی جھیل IJ Burg جو بحیرہ شمالی میں گرتی ہے، میں واقع IJ burg چھے مختلف چھوٹے بڑے جزیروں پر مشتمل ہے، جنہیں پلوں کی مدد سے آپس میں جوڑ دیا گیا ہے۔
اگرچہ جزیرے پر پہلا شہری2002میں رہائش اختیار کرچکا ہے، تاہم جزیرے کی تعمیر ابھی تک نامکمل ہے۔ بنیادی طور پر یہ منصوبہ دس جزیروں کی تعمیر پر مشتمل ہے جہاں جدید شہری سہولتیں کے ساتھ ساتھ جزیروں اور ایمسٹرڈیم شہر کو ٹرام ریل کے ذریعے ملایا جائے گا۔ منتظمین کے مطابق اپنی تکمیل کے بعد جزیرے پر 18ہزار گھروں کی گنجائش اور45 ہزار شہریوں کی آمد متوقع ہے جن کے لئے اسکول ، شاپنگ مال، ریسٹورنٹ، اسپتال اور دیگر سہولتوں کی تعمیر تیزی سے جاری ہے۔
٭جزیرہ نیلٹ جی جانس ( Neeltje Jans)
ہالینڈ ہی میں واقع یہ جزیرہ بحیرہ شمالی میں آنے والے سیلابوں سے ہالینڈ کو بچانے کے لیے تعمیر کیے جانے والے پشتوں کی تعمیر کے دوران تخلیق کیا گیا تھا۔ مقامی ڈچ زبان میں Oosterscheldekering کے نام سے پکارے جانے والے یہ پشتے یا سمندری حفاظتی دیوار Delta Worksکا حصہ تھا، جو 1953میں بحیرہ شمالی میں آنے والی طغیانی کی تباہ کاریوں کے بعد شروع کیا گیا۔
واضح رہے جزیرہ Neeltje Jansہالینڈ کے صوبے ’’زی لینڈ‘‘ کے قریب واقع ہے جزیرہ کا اہم ترین مقام ’’ ڈیلٹا نیلٹ جی تھیم پارک‘‘ ہے، جس میں ڈولفن مچھلیوں اور پانی کی بلی کے کرتب سیاحوں کو حیرت زدہ کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہیل مچھلیوں سے متعلق ’’وہیل ورلڈ ‘‘ اور سمندری مخلوق کا میوزیم بھی جزیرے کی پہچان بن چکا ہے۔
٭جزیرہYume No Shima
خلیج ٹوکیو میں واقع Yume No Shimaجزیرہ ماضی میں ٹوکیو شہر کے کچرے کو تلف کرنے کا مرکز تھا۔ ٹوکیو کے مضافاتی علاقے ’’کوٹو‘‘ میں بنایا گیا۔ کچرہ جمع کرنے کا یہ علاقہ رفتہ رفتہ ایک وسیع رقبے میں تبدیل ہوگیا ’’ڈریم آئی لینڈ‘‘ کے معنی رکھنے والے اس مقام پر1950سے ٹوکیو شہر کا کچرا اڈالا جارہا تھا۔
بعدازاں جب کچرے کی سطح مناسب حد تک بلند ہوگئی تو پھر مٹی، پتھر اور تعمیراتی کچرے کو یہاں پھینکا جانے لگا، جو بعد میں سخت زمینی سطح میں تبدیل ہوگیا۔ آج اس مقام پر ایک معیاری اسپورٹس پارک قائم ہے، جس میں عوام کو بیس بال، فٹ بال اور جمنازیم کی سہولتیں میسر ہیں۔ اس کے علاوہ کشتی رانی کے لیے پلیٹ فارم بھی موجود ہے۔
اس جزیرے کا ایک اہم مقام1988 میں قائم کیا جانے والا نباتاتی گرین ہاؤس Yumenoshima Tropical Greenhouse Domeہے۔ اس گرین ہاؤس میں تقریبا ایک ہزار مخصوص استوائی خطوں کے پودوں کی انواع محفوظ ہیں۔
٭آئس لینڈ سٹی، فیکیوکا(Island City, Fukuoka)
جاپان کے تیسر ے سب سے بڑے جزیرےKyushuکے شمال میں واقع ’’فیکیوکا‘‘ شہر کو وسعت دینے کے لیے ’’آئس لینڈ سٹی‘‘ جزیرہ بنایا گیا ہے، جس کی پہچان وہاں پر تعمیر کیا گیا پینتالیس منزلہ ’’آئس لینڈ ٹاوراسکائی کلب‘‘ ہے جس کا افتتاح 2008 میں کیا گیا۔ مشہور تعمیراتی ادارے Takenakaکارپوریشن کی یہ تخلیق خالصتاً رہائشی منصوبہ ہے جس کی اہم خوبی عمارت کا زلزلہ پروف ہونا بھی ہے، کیوں کہ جزیرہ خلیج Hakata میں بندرگاہ کے ساتھ متصل ہے، لہٰذا یہاں پر بین الااقوامی معیار کا کنٹینر ٹرمینل بھی ہے تجارتی، رہائشی اور تفریح سہولتوں سے آراستہ اس جزیرے کی تعمیر کا آغاز 1994میں انتظامیہ نے کام، زندگی اور تفریح کے نعرے کے ساتھ کیا تھا، جو 2008 میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔
٭جزیرہHulhumale
بحر ہند میں واقع جمہوریہ مالدیپ دو ہزار سے زاید چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ملک ہے۔ مالدیپ کے شمال میں واقع دارالحکومت ’’مالے‘‘ کے ساتھ ’’ہل ہومیل‘‘ جزیرہ بنایا گیا ہے۔ اس جزیرے کی تخلیق کا مقصد دارالحکومت مالے کو وسعت دیتے ہوئے جزیرے میں اقتصادی، رہائشی اور ترقیاتی کاموں کو ترقی دینا ہے۔ دو مربع کلومیٹر رقبے پر محیط اس مختصر سے جزیرے کی تعمیر16اکتوبر1997کو شروع کی گئی، جب کہ اس کا پہلا فیز جون 2002 میں مکمل ہوا۔
اس جزیرے کی تعمیر میں ابتدائی طور پر مالدیپ کے سرکاری محکمے وزارت تعمیر اور پبلک ورکس نے تقریباً ایک کروڑ ڈالر مالیت کا بنیادی تعمیراتی کام کیا، جس کے بعد جزیرے کی تعمیر کا کام بیلجیئم کی کمپنی ’’انٹرنیشنل پورٹ انجینئرنگ اینڈ مینجیمنٹ‘‘ (IPEM) نے سنبھال لیا، جس کے دوران منصوبے کی تکمیل میں مزید21 ملین ڈالر کی لاگت آئی۔
انسانی ہاتھوں سے تخلیق کردہ اس جزیرے پر 280 کمروں پر مشتمل اپارٹمنٹ کمپلیکس، 20کلاس رومز پر مشتمل پرائمری اور سیکنڈری اسکول، 32 یونٹس پر مشتمل سرکاری اور سماجی سرگرمیوں کے لیے عمارت، 50 بستروں کا اسپتال اور پندرہ سو نمازیوں کی گنجائش والی ’’ہل ہو میل مسجد‘‘ تعمیر کی گئی ہے۔
٭جزیرہThilafushi
یہ جزیرہ بھی جمہوریہ مالدیپ کا حصہ ہے، جو دارالحکومت مالے کے مغرب میں واقع ہے۔ مالے شہر سے نکلنے والے کچرے کے ڈھیر( Municipal Landfill) بعدازاں عمارتی ملبے پر تخلیق کیے گئے اس جزیرے کا مجموعی رقبہ7کلومیٹر ہے۔ حکومتِ مالدیپ اس جزیرے کو اقتصادی مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے۔ 1992میں شروع کیے گئے اس جزیرے پر اب تک ایک اندازے کے مطابق4.6ملین مربع فٹ مٹی بچھائی جاچکی ہے، جس پر لگائی جانے والی صنعتوں سے حکومت مالدیپ کو سالانہ دس لاکھ ڈالر کی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔
٭دی پرل قطر (The Pearl-Qatar)
تیل کی دولت سے مالا مال ملک قطر کے دارالحکومت ’’دوہا‘‘ سے350میٹر کی دوری پر سمندر میں بنایا جانے والا ’’دی پرل قطر‘‘ یعنی ’’ قطر کا موتی‘‘ سمندری تعمیرات میں ایک سحر انگیز اضافہ ہے۔ اگرچہ یہ منصوبہ ابھی زیرتکمیل ہے، تاہم 2012کے آخر تک اس جزیرے پر پانچ ہزار افراد رہائش اختیار کرچکے ہیں۔ چار ملین اسکوائر میٹر پر محیط یہ جزیرہ جب2015میں مکمل ہوجائے گا تو قطر کی ساحلی پٹی میں 32کلومیٹر لمبائی کا اضافہ ہوجائے اگا اور اس وقت یہاں تقریباً 45 ہزار افراد رہائش اختیار کرسکیں گے۔
واضح رہے کہ ’’دی پرل قطر جزیرہ‘‘ قطر میں واحد مقام ہے جہاں غیرملکی مالکانہ حقوق پر جائیداد حاصل کر سکتے ہیں۔ اس جزیرے کی تعمیر قطر کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی ’’یونائٹڈڈ ڈیولپمنٹ کمپنی‘‘ انجام دے رہی ہے۔ اس منصوبے پر جب 2004 میں کام شروع کیا گیا تو ابتدائی لاگت 2.5 بلین امریکی ڈالر آئی تھی، جب کہ خیال کیا جاتا ہے کہ منصوبے پر مجموعی طور پر 15بلین امریکی ڈالر کے اخراجات آئیں گے۔
فضا سے انتہائی دل کش منظر پیش کرنے والے اس جزیرے پر سو کے لگ بھگ رہائشی ٹاور تعمیر کیے جائیں گے، جن میں رہائش کے علاوہ شاپنگ مال، فائیو اسٹار ہوٹل، ریسٹورنٹ، کار شوروم، مشہور برانڈ کی اشیاء کے سیل آؤٹ لٹ، ساحلی ریزورٹ، کسینو، پُرتعیش ولاز، اسکول، کالج اور اسپتال شامل ہیں۔ اس جزیرے کی ایک اور خوبی 800 کشتیوں پر مشتمل مرینہ بھی ہے، جہاں کشتی رانی سے متعلق بین الااقوامی سطح کی سہولتیں موجود ہیں۔
٭جزیرہ جورنگ (Jurong Island)
سنگاپور کے جنوب مغربی ساحلی علاقے ’’جورنگ انڈسٹریل اسٹیٹ ‘‘ کے قریب انسانی ہاتھوں سے تعمیر کیا گیا یہ جزیرہ بنیادی طور پر سات مختلف قدرتی جزیروں کے درمیان رابطے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ 1995میں شروع کیا جانے والا یہ منصوبہ حیرت انگیز طور پر اپنی تکمیل کی متوقع تاریخ سے 20سال قبل 24ستمبر2009کو مکمل ہوا ’’پیٹرو کیمیکل انڈسٹری‘‘ سے متعلق مشہور کمپنیوں کے زیراستعمال اس جزیرے کا مجموعی رقبہ32 مربع کلومیٹر ہے۔ تیرہ لاکھ بیرل یومیہ تیل صاف کرنے والی ریفائنریوں پر مشتمل اس جزیرے کی اہمیت کے باعث حکومت سنگاپور نے نائن الیون کے واقعے کے بعد سیکوریٹی الرٹ جاری کی تھی۔
٭جزیرہ کیمفرس(Kamfers Dam)
جنوبی افریقہ کے علاقے کمبرلی کے جنوب میں واقع یہ جزیرہ گلابی رنگت کے نایاب مرغابی جیسے پرندےLesser Flamingosکی نسل خیزی کے لیے تخلیق کیا گیا ہے انگریزی کے لفظ ’’S‘‘ کی مانند ڈیزائن کیے گئے اس جزیرے کی تعمیر میں26 ہزار ٹن ملبہ اور دیگر سخت میٹریل استعمال کیا گیا ہے۔
ستمبر2006 میں اس جزیرے کی تعمیر کا بیڑا اٹھانے والے ماہر طائریات Mark D. Andersonنے ایک مقامی کان کنی کی کمپنی Ekapaکے ساتھ مل کر جزیرے کی تعمیر مکمل کی تھی۔ اس جزیرے پر چار میٹھے پانی کے تالاب بھی بنائے گئے ہیں۔ ان تالابوں میں پرندے اتر کر اپنے گھونسلوں کے لیے چکنی مٹی جمع کرتے ہیں۔ تالابوں میں شمسی توانائی سے چلنے والے پمپوں کی مدد سے پانی پہنچایا جاتا ہے۔
٭جزیرہ بالبوا، نیو پورٹ بیج (Balboa Island, Newport Beach)
امریکی ریاست کیلی فورنیا کی ساحلی پٹی نیو پورٹ کے اطراف میں بنائے گئے تین جزیروں کا مجموعہBalboaجزیرہ کہلاتا ہے۔ یہ جزائر بنیادی طور پر نیوپورٹ بندرگاہ کی توسیع کا منصوبہ ہیں، جو پُلوں کے ذریعے باہم ملے ہوئے ہیں۔ مرکزی جزیرے کا نام Balboa ہے، جب کہ دیگر دو جزیروں کے نام Little BalboaاورCollins ہیں۔ یہ جزیرہ رہائشی اور تجارتی دونوں مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ جزیرہ انتہائی گنجان ہے، اس کے باوجود یہاں پر گھروں کی قیمت انتہائی بلند ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دو کمروں پر مشتمل گھر کی مالیت تین ملین امریکی ڈالر ہے ۔
٭جزیرہ ٹریژر سان فرانسسکو (Treasure Island)
خلیج سان فرانسسکو میں سان فرانسسکو اور آکلینڈ کے درمیان واقع اس جزیرے کا مجموعی رقبہ چار کلومیٹر ہے۔ 1936سے1937کے درمیان تخلیق کیے جانے والے اس جزیرے کی وجہِ شہرت تفریحی سہولتوں کی فراوانی بھی ہے۔ اس جزیرے کی مخصوص ہیئت کے باعث اس پر ان گنت فلموں کی شوٹنگ کی جاچکی ہے، جس میں ’’انڈیانا جونز‘‘ کی شوٹنگ بھی شامل ہے۔
2012 میں اس جزیرے کی بحالی کے لیے ’’ٹریژر آئی لینڈڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے 1.5بلین امریکی ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے۔
ان جزائر کے علاوہ امریکا کے مختلف ساحلی شہروں میں انسان کے ہاتھوں کے تخلیق کردہ جو دیگر جزیرے ہیں ان میں فلوریڈا میں میامی کے ساحل کے ساتھ Hibiscus جزیرہ، پام جزیرہ، اسٹار جزیرہ، Venetianجزیرہ، فشر جزیرہ، واٹسن جزیرہ، ڈاج جزیرہ اور Rivieraساحل کے ساتھ Peanut جزیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ شکاگو میں Gooseجزیرہ، نارتھرلی جزیرہ ہے جب کہ نیویارک میں مین ہٹن کے مقام پر U Thantجزیرہ، ہاف مین جزیرہ ، سوئنبرن جزیرہ، واشنگٹن کی ریاست میں سیٹل شہر میں ہاربر جزیرہ اور ڈک جزیرہ دنیا بھر کے سیاحوں اور کاروباری حضرات کو سال بھر اپنے سحر میں جکڑے رکھتے ہیں۔