ان تھک محنت کے ساتھ ساتھ اگر عزم مصمم اور یقین محکم بھی شامل ہوجائے تو ناممکن کو ممکن بنایا اور ہار کو جیت میں بدلا جا سکتا ہے۔
یہ وہ احساس ہے جو تکلیف کو راحت میں بدل دیتا ہے، جس کے بعد منزل آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگتی ہے اور قدم دیوانہ وار اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔ ناکامی کا احساس تو بہت دور، موت کا خوف بھی عزم کو متزلزل نہیں کر پاتا۔ ایک ایسے وقت جب ملک کا ہر فرد ابتر حالات، ڈانوا ڈول معیشت اور دہشت گردی سمیت دیگر مسائل کے تدارک کے لیے انتخابی عمل میں گُم تھا، پاکستان کے دو نوجوان بہن بھائی اپنے ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم تھامے اونچی نیچی ڈھلوانوں اور سخت موسم کا مقابلہ کر تے ہوئے دنیا کی سب سے اونچی پہاڑی مائونٹ ایورسٹ کو سر کرنے نکل پڑے۔ اُن کے ہم راہ 35 غیرملکیوں کے علاوہ 29 نیپالی گائیڈز بھی تھے۔ 50 دن کے تھکا دینے والے سفر کے بعد بالآخر یہ قافلہ 19مئی کو مائونٹ ایورسٹ پہنچا اور انہوں نے دنیا کی سب سے اونچی چوٹی پر اپنے اپنے ملک کا جھنڈا گاڑ دیا۔
ویسے تو ہر سال سیکڑوں کوہ پیما اپنے شوق کی تسکین کے لیے مائونٹ ایورسٹ کا رخ کرتے ہیں اور ان کی خبریں بھی ہم وقتاً فوقتاً سنتے رہتے ہیں لیکن رواں برس کوہ پیمائی کی تاریخ میں اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ سال، اس بلندو بالا چوٹی کو سر کرنے کی 60 ویں برسی کے طور پر منایا جارہا ہے۔ مائونٹ ایورسٹ کو پہلی مرتبہ 29 مئی 1953ء کو دو کوہ پیمائوں نیپال کے ٹینزی نورگے اور نیوزی لینڈ کے ایڈمنڈ ہلری نے سر کیا تھا۔ اس کے بعد مائونٹ ایورسٹ سر کرنے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا اور گذشتہ 60 برسوں کے دوران ہزاروں کوہ پیما اس بلند ترین چوٹی کو سر چکے ہیں، جن میں کئی ملکوں کی خواتین کے علاوہ دو پاکستانی باشندے بھی شامل ہیں۔ رواں برس 21 سالہ ثمینہ بیگ کو ’’پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما‘‘ ہونے کا اعزاز ملا ہے۔ ثمینہ بیگ اپنے بھائی 29 سالہ مرزا علی کے ساتھ اس مہم میں شریک ہوئیں اور کام یابی سے 8848 میٹر بلند چوٹی سر کی۔ اس مہم میں ثمینہ بیگ کی طرح ان کے بھائی مرزا علی نے بھی پاکستان کے تیسرے اور کم عمر ترین پاکستانی کوہ پیما ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس سے قبل دو پاکستانی نذیر صابر اور حسن صدپارہ اس چوٹی کو سر کر چکے ہیں۔
ثمینہ بیگ اور ان کے بھائی مرزا علی کا تعلق وادیٔ ہنزہ کے علاقے شمشال سے ہے اور دونوں بچپن ہی سے کوہ پیمائی کا شوق رکھتے ہیں۔ ثمینہ اس سے قبل 6400 میٹر بلند ’’چاشکن سر‘‘ چوٹی اور پاکستان میں6800 میٹر بلند ’’کوہ برابری‘‘، بھی سر کر چکی ہیں، جسے اب تک ثمینہ کے علاوہ کسی اور نے سر نہیں کیا۔
ثمینہ آرٹس کی طالبہ ہیں اور پاکستان کی واحد خاتون ہیں، جنہوں نے اس شعبے کو باقاعدہ پروفیشن کے طور پر اپنایا ہے۔ وہ 2010ء سے مسلسل کوہ پیمائی کر رہی ہیں۔ ثمینہ کا کہنا ہے کہ وہ مہم جوئی اور آئوٹ ڈور کھیلوں کے ذریعے پاکستانی خواتین کو با اختیار بنانے کے علاوہ اُن میں یہ حوصلہ پیدا کرنا چاہتی ہیں کہ وہ اپنی مشکلات سے نمٹنا سیکھیں۔
ثمینہ بیگ اور مرزا علی کا یہ اعزاز جہاں پاکستانیوں کے لیے باعث مسرت ہے، وہیں دنیا بھر میں کوہ پیمائی سے دل چسپی رکھنے والے حلقوں میں ان کی اس کام یابی کو سراہا جا رہا ہے، اور اسے خواتین کو اپنے حقوق سے آگاہی دلانے اور انہیں با اختیار بنانے کے حوالے سے بیداری شعور کا اہم موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس اہم پیش رفت میں جہاں ثمینہ بیگ کی ان تھک محنت شامل ہے، وہیں اُن کے بھائی مرزا علی بیگ بھی پاکستانی خواتین کو ان کے حقوق دلانے میں اہم کردار ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اُنہوں نے ایک غیر ملکی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں بتایا کہ ان کی اس مہم کا مقصد صرف چوٹی سر کرنا نہیں تھا بلکہ وہ ایک بڑے مشن کے لیے کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں مرد و خواتین کی برابری کے حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں اور ان کی اس مہم کا مقصد اصناف کو برابری کے حقوق دلانے کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے۔
مرزا علی اس مہم کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بھی تیار کر رہے ہیں جو پاکستان واپسی کے بعد دکھائی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ اب ان کا مشن سات براعظموں کی سات بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنا ہے۔ علی نے اپنے بلاگ پیج پر ایورسٹ کی چوٹی سر کرنے کے بارے میں بھی لکھا ہے:’’پاکستان کا پرچم ایورسٹ کی چوٹی پر لگانے کے بعد مرزا علی اور ثمینہ بیگ دونوں خیریت سے بیس کیمپ ٹو پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ دونوں کوہ پیما چوبیس گھنٹوں کی سخت ترین کوہ پیمائی کے بعد بیس کیمپ ٹو کے محفوظ علاقے میں ہیں۔‘‘
رواں برس ایک اعزاز بھارت کو بھی حاصل ہوا کے پہلی بار دو جڑواں بھارتی خواتین نوشی اور تاشی نے بھی اس چوٹی کو سر کیا۔ دونوں بھارتی خواتین اور پاکستانی ثمینہ بیگ نے اپنے اپنے ممالک کے جھنڈے ایک ساتھ گاڑ کر دونوں ممالک کے عوام اور حکومتوں کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ بھی جنگ اور دشمنی کے راستے ترک کرکے پیار محبت سے اپنے مسائل حل کریں۔ علاوہ ازیں اس مرتبہ نیپال کی16سالہ نیما چیمجی شیرپا کو بھی مائونٹ ایورسٹ سر کرنے والی دنیا کی کم عمر خاتون کا اعزاز حاصل ہوا۔
دنیا بھر کے کوہ پیما اپنی شوق کی تسکین کے لیے عموماً مئی کے مہینے کا انتخاب کر تے ہیں، کیوں کہ اس مہینے میں موسم کی شدت دیگر مہینوں کی نسبت کافی کم ہو تی ہے۔ رواں برس 350 غیرملکیوں کو مائونٹ ایورسٹ سر کر نے کی اجازت دی گئی تھی، جن میں سے 80 کا تعلق بھارت جب کہ 76 کا تعلق امریکا سے تھا۔ 350 میں سے 248 افراد اس چوٹی کو سر کرنے میں کام یاب ہوئے۔
ثمینہ بیگ کی کام یابی نے جہاں ایک طرف پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کیا ہے وہیں کئی سوال بھی پیدا ہو رہے ہیں کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں میں بھرپور صلاحیت اور کوہ پیمائی کے بہترین مواقع ہونے کے باوجود ہم اس شعبے میں اتنے پیچھے کیوں ہیں؟ اس حوالے سے ملک کے نام ور کوہ پیما کرنل شیر خان کا کہنا ہے،’’ثمینہ نے ثابت کر دیا کہ ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، مگر افسوس کے حکومت کی جانب سے اس شعبے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ اُنہوں نے کہا کہ شمشال کے لوگوں پر اگر توجہ دی جائے تو یہ دنیا کے بہترین کوہ پیما بن سکتے ہیں۔‘‘
ویسے تو ہمارے ملک میں سیاحت، کوہ پیمائی اور آئوٹ ڈور کھیلوں کے فروغ کے لیے وسیع تر مواقع موجود ہیں۔ پاکستان میں اس وقت پانچ ایسی پہاڑیاں ہیں جن کی اونچائی8 ہزار میٹر سے بلند ہے، اس کے علاوہ تقریباً 7ہزار ایسی پہاڑیاں ہیں جن کی اونچائی 6 ہزار میٹر سے بلند ہے جب کہ متعدد پہاڑیاں ایسی ہیں جن کی اونچائی5 ہزار میٹر یا اس سے بلند ہے۔ یہاں 72 کلومیٹر لمبی سیاچن گلیشیئر کے علاوہ متعدد بڑے بڑے گلیشیئر ز بھی ہیں، اور گلگت بلتستان تو مہم جوئی کا بہترین مرکز ہے، جہاں کی معیشت کا دارو مدار ہی سیاحت پر ہے۔ مم جوئی کے اتنے زیادہ مواقع ہونے کے باوجود ابھی تک صرف ایک خاتون کا اور دو مردوں کا مائونٹ ایورسٹ سر کرنا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟ واضح رہے کہ اس سے قبل ایرانی، بھارتی حتیٰ کے بنگلادیشی خواتین بھی مائونٹ ایورسٹ سر کرچکی ہیں، اور خاص بات یہ ہے کہ ان ملکوں میں 3000 میٹر سے زیادہ بلند چوٹیاں ہے ہی نہیں۔
سیاحت کے حوالے سے اگر معیشت کی بات کی جائے تو اس حوالے سے بھی ہم بہت پیچھے ہیں۔ صرف گلگت بلتستان جہاں مختلف ثقافتوں کے علاوہ ہمالیہ، ہندوکش، قراقرم کی بلندوبالا چوٹیاں بھی ہیں جو دنیا بھر کے سیاحوں، فوٹو گرافروں، ثقافت، وائلڈ لائف آبزرورز، تاریخ دانوں، محققین، فلم میکرز اور فطرت سے محبت کرنے والوں کے لیے کسی جنت سے کم نہیں، لیکن افسوس کہ ہماری اس اہم صنعت کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ نیپال اپنی معیشت کا 90 فی صد سیاحت سے حاصل کرتا ہے، لیکن سیاحوں کی جنت ہونے کے باوجود پاکستان میں یہ صنعت زوال پذیری کا شکار ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ثمینہ بیگ اور مرزا علی کا یہ کارنامہ ملک کی سیاحت بالعموم اور گلگت بلتستان میں کوہ پیمائی کی صنعت کے فروغ میں اہم پیش رفت ثابت ہو گی۔ علاوہ ازیں قدم پاکستان میں آئوٹ ڈور کھیلوں کی ترقی کے لیے بھی پہلا قدم ثابت ہوگا، جس سے کھیلوں سے وابستہ دیگر صنعیں بھی مستفید ہوں گی اور ساتھ ہی ساتھ خواتین میں بھی یہ شعور بیدار ہو گا کہ وہ بھی مردوں کے شانہ بشانہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔
مائونٹ ایورسٹ سر کرنے کی خواہش کبھی کبھی آخری خواہش بھی بن جاتی ہے۔ گزشتہ 60برسوں میں اب تک تقریباً 300افراد اس چوٹی کو سر کرنے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
عرب دنیا کی کم عمر ترین کوہ پیما راحا حسن محرق
رواں برس پاکستان، بھارت اور نیپال کی طرح ایک اعزاز سعودی عرب کے حصے میں بھی آیا۔ سعودی عرب کی ایک 25 سالہ خاتون راحا حسن محرق نے رواں برس مائونٹ ایورسٹ سر کرنے اعزاز حاصل کیا ہے، اس طرح راحا محرق سعودی عرب کے ساتھ ساتھ عرب دنیا کی بھی کم عمر ترین کوہ پیما بن گئی ہیں جنہوں نے ایورسٹ کی بلندیوں کو چھوا ہے۔ ان کی چار رکنی ٹیم میں فلسطین اور قطر کے کوہ پیما بھی شامل تھے۔ قطر اور فلسطین سے تعلق رکھنے والے کوہ پیمائوں نے بھی پہلی مرتبہ دنیا کی بلند ترین چوٹی کو سر کیا ہے۔
نیپال کی نیما چیمجی شیرپا کا مائونٹ ایورسٹ سر کرنے کے بعد وطن واپسی پر استقبال کیا جارہا ہے۔ 16سالہ نیما چیمجی کو یہ چوٹی سر کرنے والی دنیا کی کم عمر خاتون کا اعزاز حاصل ہوا۔
نیپال کے کوہ پیما آپا شیرپا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُنہوں نے سب سے زیادہ 21 مرتبہ مائونٹ ایورسٹ کو سر کیا ہے۔
پاکستان کے دو کوہ پیما نذیر صابر اور حسن صدپارہ، جنہوں نے اس سے قبل مائونٹ ایورسٹ سر کی۔