غزل
میں آدمی فضول ہوں، حیرت کی بات ہے
لیکن اسے قبول ہوں، حیرت کی بات ہے
خوش ہوں تمہارے ساتھ میں تھوڑا بہت مگر
تھوڑا بہت ملول ہوں، حیرت کی بات ہے
یعنی کہ آسمان سے نسبت نہیں مجھے
یعنی زمیں کی دھول ہوں، حیرت کی بات ہے
جس آدمی کی یاد نے سب کچھ بھلا دیا
اس آدمی کی بھول ہوں، حیرت کی بات ہے
تہذیب یافتہ مجھے توصیفؔ نے کہا
جاہل ہوں، بے اصول ہوں، حیرت کی بات ہے
(توصیف یوسف اشعر،گوجرانوالہ)
غزل
ہجر کی آنچ پہ ڈھالی رات
لمبی، گہری، کالی رات
پہلے نیند کا سندیسہ تھی
اب ہے نیند سے خالی رات
دن تو تنہا کٹ جاتا ہے
پَر نہیں کٹتی، سالی رات
جانے کان غلط سنتے ہیں
یا دیتی ہے گالی رات
تم نے شام میں آنا تھا
تم نے پھر کر ڈالی رات
شاید مجھ کو کھا جائے گی
ہجر کے صدموں والی رات
(محمد احمد لنگاہ، عارف والا، پنجاب)
غزل
آ زلف میں گوندھوں میں تری، رنگ دھنک کے
ماتھے پہ سجا دوں میں ستارے یہ فلک کے
عارض پہ ترے آ کہ ملوں برگِ گلابی
ہوں لوگ تمنائی، تری ایک جھلک کے
چہرہ نہ دوپٹّے میں چھپا اور قریب آ
تابع ہیں مرے لب، ترے ماتھے کی تلک کے
پا زیب میں بھر دوں میں دل اپنے کی دھڑکن
آ مجھ میں سما، روح سے تُو اپنی چھلک کے
اے روپ کی رانی! ترا اشکوں سے ہے کیا کام
یاسینؔ چُنے موتی تری بھیگی پلک کے
(ایم یاسین آرزو، لاہور)
غزل
کانپ اٹھا فرش، گریبانِ عزادار کُھلا!!
چپ سے ماحول کی، طوفان کا اظہار کُھلا
کون وارد ہوا بستی میں کہ سب سوداگر
چھوڑ کے آئے ہیں بازار کا بازار کُھلا
سَر کہیں گم ہے، کہیں پیچ الجھتے جائیں
طبع مدہوش سنبھل!، حلقۂ دستار کُھلا
خیر ہنسنے سے تمہارے تو ہے دنیا واقف
میرا رونا بھی کھلا تو پسِ دیوار کُھلا
کیسے چڑھتے ہوئے سورج کی پرستش ہوگی
راز اس وقت کھلا ہم پہ کہ جب دار کُھلا
سوز خود چشمِ سیہ کا مجھے بننا ہے ہدف
جائے خالی نہ کسی طور کوئی وار کھلا
(حمزہ ہاشمی سوز، لاہور)
غزل
کوئی قیمت لگا ئے سائے کی
ہے یہ دیوار بھی کرائے کی
بجھ گئی ہے پڑے پڑے سگریٹ
چسکیاں لے رہا ہوں چائے کی
کوئی پردہ ہے یا کہ دعوتِ عام
دل کشی دیکھیے عبائے کی
مصنوعی دھوپ ہم پہ پھیلا کر
اجرتیں مانگتے ہیں سائے کی
وہ جو گمنام سے سخن ور ہیں
شاعری کر رہے ہیں پائے کی
رقص و مے کی سجی یہ محفل اور
ساتھ میں ہلکی ہلکی گائیکی
مشورہ آپ سے لیا ہم نے
اور پھر رد سبھی کی رائے کی
اپنے سارے خفا ہیں عارف جی
آپ کو فکر ہے پرائے کی!!!
(عارف نظیر، کراچی)
غزل
مداروں کا یہ کارخانہ فہد جی
مشینیں ہیں کُن کا ترانہ فہد جی
جو جنگل میں سب سے پرانا شجر ہے
وہی ہے مرا آستانہ فہد جی
مسافر نے گٹھڑی پہ لکھا ہوا ہے
نہیں ہے غمِ آشیانہ فہد جی
بچھونا قلندر کا ساری زمیں ہے
ہے سارا فلک شامیانہ فہد جی
خلیفہ زمیں کا بنایا گیا تھا
تبھی کھایا آدم نے دانہ فہد جی
لپیٹے گا چادر وہ شمس و قمر کی
رہیں گے نہ روز و شبانہ فہد جی
مرے سر پہ رکھا ہوا سیب بولا
اگر چُوک جائے نشانہ فہد جی
(سردارفہد، ایبٹ آباد)
غزل
یہ سڑک آر پار کب ہو گی
وصل والی بہار کب ہو گی
کب تلک ایک ایک پَل جینا
زندگی بے شمار کب ہو گی
کیسے برسے گی دید کی شبنم
آرزو بے قرار کب ہو گی
زندگی اک رکھیل ہے جیسے
چاہتوں کا مدار کب ہو گی
یہ محبت ہے آٹھ آنے فقط
ایک، دو، تین، چار کب ہو گی
(وقار احمد، کہوٹہ)
غزل
ہم کو دینے میں غم رہ گئے ہیں
اب تو مرنے کو ہم رہ گئے ہیں
اب لہو میں بھی وحشت ہے رقصاں
جھیلنے کو ستم رہ گئے ہیں
جان لیوا ہے یہ کارِ الفت
جانے کتنے یہ دم رہ گئے ہیں
آج زندہ میں مَر کر بھی جو ہوں
تیرے نقشِ قدم رہ گئے ہیں
ہم تو رسوا ہوئے ہیں میاں جی
آپ بس محترم رہ گئے ہیں
کر سکیں حق بیانی جو حمزہؔ
چند اہلِ قلم رہ گئے ہیں
(امیر حمزہ سلفی، اسلام آباد)
غزل
پلٹ جانا کوئی مشکل نہیں تھا
مرا ہی واپسی کا دل نہیں تھا
متاعِ زیست لاحاصل نہیں تھا
ولے پانے کے میں قابل نہیں تھا
وہ چھریاں دھار جس پر ہو رہی تھیں
میرا ہی دل تھا کوئی سل نہیں تھا
مریضِ عشق ہونے تک سنا ہے
ادھوری ذات تھا، کامل نہیں تھا
میں پیاسا تھا مگر ہونٹوں سے محروم
سمندر تھا، مگر ساحل نہیں تھا
نہ دو الزام بھنورے کو علیؔ تم
وہ ہرگز پھول کا قاتل نہیں تھا
(ابو لویزا علی، کراچی)
غزل
بزم میں جام میں شراب میں ہے
مہک بن کر تُو ہی گلاب میں ہے
نین رقصاں کہ مل گئے نیناں
دل ہے غمگیں کہ رخ حجاب میں ہے
کیوں ستارے ہیں اس طرح روشن
حسن جو آج آب و تاب میں ہے
کون شاعر ہے گر غزل ہے تو
کس مصنف کی تُو کتاب میں ہے
سوچنا تجھ کو روز و شب میرا
ہے گناہوں میں یا ثواب میں ہے
اب سخاوت دکھائیں کیا اس کو
دل جگر جان سب عذاب میں ہے
(سخاوت اکرام، لودھراں)
غزل
دل سے میری چاہت کو ہرگز نہ مٹا رکھنا
آؤں گا میں خوابوں میں خوابوں کو سجا رکھنا
ہر شام یہ عادت ہے نا کامِ محبت کی
یادوں کی منڈیروں پر کچھ دیپ جلا رکھنا
جاناں کے تصور میں مخمور نگاہوں کو
اشکوں کے دیے روشن آنکھوں کو بجھا رکھنا
ہر شام جدائی کی محفل کو سجا لینا
بے داد و ستم سہنا احساسِ وفا رکھنا
اس ظلمتِ دوراں کا یہ دادؔ تقاضا ہے
شمعوں کو بجھا دینا اور دل کو جلا رکھنا
(داد بلوچ ، فورٹ منرو)
غزل
محبتوں سے کہانی کی ابتدا کے لیے
مجھے بنایا گیا تھا اسی سزا کے لیے
تمہارے ہجر کی زنجیر میں نہ توڑوں گا
یہ کھڑکی کھولی ہے میں نے تو بس ہوا کے لیے
لکھا ہے خود جسے فطرت نے استعاروں میں
وہ تیرا نام ہے اے دوست ریختہ کے لیے
نگاہِ ناز کی ان شوخیوں کے افسانے
لکھے ہیں میں نے تو لکھے ہیں بس بقا کے لیے
میں اس کے ہونٹ کا وہ تِل بنانے بیٹھا ہوں
مجھے صدا نہ لگائے کوئی خداکے لیے
سمجھ کے بادِ صبا لے گئی خراج اپنا
ندیمؔ پھول کھلے تھے جو دلربا کے لیے
(ندیم ملک، سیٹی کنجروڑ۔ نارووال)
غزل
تڑپ رہی ہے زباں اور تشنگی چُپ ہے
خدا کے گھر میں اندھیرا ہے روشنی چُپ ہے
میں اپنی حسرتِ گمنام پر ہوں رنجیدہ
اداس دل ہے مرا اور ہر خوشی چُپ ہے
پکارتا ہوں جسے مَیں جنوں کی حالت میں
تباہ کرکے مجھے اس کی دوستی چپ ہے
یقیں اداس، نمو خشک، وحشتیں بیدار
فلک خموش، ہوا بند، شام بھی چپ ہے
ہوا چلی بھی تو نفرت کی ہر طرف احمدؔ
وطن میں خار اگے ہیں ہر اک کلی چپ ہے
(احمد حجازی، لیاقت پور)
غزل
حُسن میں آفرین لگتی ہو
قد میں بھی پانچ، تین لگتی ہو
جب پہنتی ہو سرخ رنگ لباس
تب بَلا کی حسین لگتی ہو
لوگ مجھ کو تو تیز کہتے ہیں
تُم بھی کافی ذہین لگتی ہو
مَیں تمھیں بہترین لگتا ہوں
مجھے تم بہترین لگتی ہو
جس نگر ہجر کو زوال نہیں
اُس نگر کی مکین لگتی ہو
سات پردوں میں رہ رہی ہو تم
چرخ کی جانشین لگتی ہو
مَیں محبّت کے میم سا اور تُم
عشقِ اوّل کا شین لگتی ہو
(اسامہ زاہروی، ڈسکہ، سیالکوٹ)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.