Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

رینگل آئی لینڈ ؛ وولی میمتھ اور قطبی ریچھوں کا جزیرہ

$
0
0

رینگل آئی لینڈ اس انوکھے اور حیرت انگیز جزیرے کا نام ہے جو Arctic Ocean یا بحر منجمد شمالی میں واقع ہے اور یہ روس کے تمام جزائر میں سب سے زیادہ دور افتادہ جزیرہ ہے۔

یہ جزیرہ پوری کی پوری انٹرنیشنل ڈیٹ لائن پر پھیلا ہوا ہے، یہ وہ سرحد ہے جہاں مشرقی اور مغربی نصف کرے آپس میں ملتے ہیں۔ اس مقام پر یہ آتش فشانی، سنگلاخ اور ناہموار جزیرہ واقع ہے جو اہل دنیا کے لیے بہ ظاہر دیکھنے میں کوئی خاص کشش نہیں رکھتا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں درجۂ حرارت بڑی مشکل سے فریزنگ سے اوپر کبھی کبھار ہی جاتا ہے۔ اس مقام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کرۂ ارض پر زمین کا انتہائی آخری مقام ہے جس کے بعد یہ سمجھ لیں کہ دنیا کی حدود ختم ہوجاتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ وہ حیرت انگیز مقام ہے جہاں کسی دور میں قطبی خطوں میں رہنے والے وولی میمتھ براجمان ہوتے تھے اور بڑے مزے اور ٹھاٹ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ یہ کم و بیش چھے ہزار سال پہلے کی بات ہے جب اس کے یعنی قطبی ریچھ کی نسل کے کزنز یا چچیرے بھائی اس خاص سرزمین سے اچانک ہی غائب ہوگئے تھے۔

رینگل آئی لینڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نہایت سخت اور بے رحم سر زمین ہے جو حیرت انگیز طور پر متنوع ایکو سسٹم کو سپورٹ کرتی ہے یعنی اس مقام پر مختلف اقسام کے جان دار پائے جاتے ہیں جن میں قطبی لومڑیاں، سیل مچھلیاں، والرس، مشکی بیل، lemming یا قطب شمالی کے چوہوں جیسے جانور اور متعدد اقسام کے پرندے شامل ہیں۔ لیکن ان سب میں یہاں سب سے بڑی تعداد میں جو جانور پائے جاتے ہیں، وہ قطبی ریچھ ہیں جنہیں قدیم ماہرین اس خطے کا حسن یا زیور قرار دیتے ہیں۔

اس خطے میں جب یہ قطبی ریچھ بہت بڑی بڑی تعداد میں آوارہ گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور جب ان کی اتنی کثیر تعداد یہاں دکھائی دے گی تو پھر ان کے چاہنے والے بھی یہاں ضرور آئیں گے یعنی ان پر ریسرچ کرنے والے اور ان کے بارے میں معلومات جمع کرنے والے ماہرین اور سائنس داں، ان حضرات کی رہائش کے لیے یہاں اتنی بڑی تعداد میں کاٹیجز اور کیبن تعمیر کیے گئے ہیں کہ ایک اچھی خاصی بستی آباد ہوگئی ہے جو اس برف زار میں بہت ہی حسین اور خوب صورت دکھائی دیتی ہے۔ ان ماہرین اور سائنس دانوں کے علاوہ اس خطے کی حفاظت کرنے والے رینجرز کے جوان بھی یہاں قیام کرتے ہیں اور ان کے رہنے کے لیے بھی اسی قسم کی بستیاں بسائی گئی ہیں، بے شک! یہاں یہ لوگ عارضی طور پر ہی منتقل ہوتے اور قیام کرتے ہیں، مگر جب تک یہ یہاں رہتے ہیں تو اس علاقے میں رونق سی لگ جاتی ہے اور دیکھنے والوں کو اس جگہ میں ایک خاص کشش محسوس ہونے لگتی ہے۔

رینجرز اور سائنس دانوں کے قیام کے لیے بنائی گئی یہ عارضی بستیاں جن میں بڑی تعداد میں کیبن اور کاٹیجز بنائے گئے ہیں، ان کی تعمیر میں دھاتی رسیوں، میخوں اور دیگر اشیا کی مدد حاصل کی گئی ہے بڑی خوب صورتی سے تعمیر کی گئی ہیں جن میں ان کی حفاظت کا بھی پورا اہتمام کیا گیا ہے، تاکہ وہ یہاں کے سرد اور بے رحم موسم سے محفوظ رہ سکیں۔ ان عارضی رہائش گاہوں کی کھڑکیوں اور دروازوں کو اتنی مضبوطی سے تیار کیا گیا ہے تاکہ ان میں سے قطبی ریچھ بے تکلفی کے ساتھ اندر گھسنے کی جسارت نہ کرسکیں اور بن بلائے مہمانوں کی طرح کسی خطرے کا سبب بننے کی کوشش نہ کرسکیں۔ اسی لیے ہر قسم کے خطرات سے بچنے کے لیے ان کھڑکیوں اور دروازوں پر خطرے کی علامات کے نشانات بھی لگائے گئے ہیں جو لوگوں کو بار بار یہ یاد دلاتی ہیں کہ وہ ان قطبی ریچھوں سے ہوشیار رہیں جو ہمہ وقت ان کی رہائش گاہوں سے باہر گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔

رینگل آئی لینڈ کی ان عارضی رہائش گاہوں میں قطبی ریچھوں کے حملوں سے بچنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔

رینگل آئی لینڈ کی سب سے اہم اور خاص بات یہ ہے کہ یہاں پورے بحرمنجمد شمالی میں قطبی ریچھوں کے رہنے والے غاروں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔

اس مقام پر قطبی ریچھ موسم گرما کے اس زمانے میں آتے ہیں جب برف پگھلتی ہے اور ان کا قیام اس جزیرے پر موسم سرما تک رہتا ہے۔ اس کے بعد اس خطے میں اگلا فریزنگ سائیکل شروع ہوجاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب یہاں پورا خطہ ہی منجمد ہونے لگتا ہے۔

یہ قطبی ریچھ یہاں اس لیے بھی آتے ہیں کہ وہ اس سر زمین پر اپنے بچوں کو جنم دیتے ہیں اور ان کی پرورش کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اگلے موسم سرما کے لیے اور اس موسم کی شدتوں سے تحفظ دینے کے لیے ہر طرح سے تیار کرتے ہیں۔

قطبی ریچھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اصل میں یہ ایک سمندری یا بحری جانور ہے جو اپنا زیادہ وقت بڑی خوشی سے پانی میں گزارنا پسند کرتا ہے۔ اس کی سب سے پسندیدہ جگہ سمندری برف والا وہ علاقہ ہے جس کے continental shelf یعنی براعظم کے پانی میں ڈوبے ہوئے کنارے اور Arctic Ocean یعنی بحرمنجمد شمالی کو پوری طرح ڈھک رکھا ہے۔ عام طور سے یہ قطبی ریچھ برفانی چادر کے کناروں پر رہتا ہے تاکہ یہ وہاں رہتے ہوئے بحری بچھڑوں (سیل مچھلی) اور دوسرے آبی جانوروں کا شکار کرسکے۔

لیکن دور ماضی میں یعنی چند عشروں پہلے تک آب و ہوا کی تبدیلی نے ان قطبی ریچھوں کو مجبور کردیا کہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت خشکی یا زمین پر گزاریں جس کی وجہ یہ ہے کہ اب برف زیادہ جلدی پگھلنے بھی لگی ہے اور اسی طرح یہ پہلے کے مقابلے میں دیر میں جمتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب برف سے پاک یا برف سے آزاد زمانہ پچھلے دور کے مقابلے میں زیادہ طویل ہوگیا ہے۔

اگر ہم آج کے زمانے کا موازنہ گذشتہ بیس برسوں سے کریں تو معلوم ہوگا کہ آج قطبی ریچھ اپنا اوسط وقت پچھلے دور کے مقابلے میں رینگل آئی لینڈ پر ایک ماہ زیادہ گزارتے ہیں۔

یوں سمجھ لیں کہ رینگل آئی لینڈ پر ہر سال پہنچنے والے قطبی ریچھوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

2017 میں ماہرین اور محققین نے اس جزیرے پر پہنچنے والے قطبی ریچھوں کی تعداد 589 بتائی تھی جو غیرمعمولی طور پر زیادہ بلند تھی جب کہ اس سے پہلے کے زمانوں میں یہ تعداد اوسطاً 200 سے 300 کے درمیان ہوا کرتی تھی۔

٭وولی میمتھ کی آخری پناہ گاہ:

وولی میمتھ کے بارے میں ماہرین کا یہ اندازہ ہے کہ یہ لگ بھگ دس ہزار سال پہلے دنیا سے مٹ گئے تھے جس کی وجہ گلیشیئرز کا پگھلنا تھا، جب گلیشیئرز پگھلے تو زمین بھی گرم ہوگئی اور ان بھاری بھرکم جان داروں کی دشمن بن گئی۔ پھر ان جان داروں کی بستیاں اور آبادیاں بھی سکڑنے لگیں، ساتھ ہی انسانوں نے ان کا بے تحاشا شکار بھی شروع کردیا ، ان دونوں وجوہ نے مل کر اس عظیم جانور کو صفحۂ ہستی سے مٹاڈالا۔ لیکن بعض دورافتادہ مقامات پر ان کی آبادی پھر بھی موجود رہی جیسے رینگل آئی لینڈ جہاں وولی میمتھ چار ہزار سال قبل تک بھی پائے جاتے تھے۔

یہ بھی ممکنات میں شامل ہے کہ اس کی موجودگی کے چند سو برسوں کے دوران یہ جانور انسانوں کے ساتھ موجود رہا جس کی وجہ یہ تھی کہ چند ایک چیزیں مثلاً کاربن بھی موجود تھی لیکن قبل از تاریخ کے انسان نے بعد میں باقی تمام قدیم آلات کو چھوڑ دیا تھا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے بلکہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس جزیرے پر وولی میمتھ کے حد سے زیادہ شکار نے آخری بچے کھچے اس شان دار جانور کو معدومیت سے دوچار کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آ ج ہمیں اس رینگل آئی لینڈ کی زمین پر وولی میمتھ کی باقیات دکھائی دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں ماضی کے اس عظیم جانور کے دانت دکھائی دیتے ہیں تو اس کی ہڈیاں اور ان کے ٹکڑے بھی ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں۔

٭یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ:

کینیڈا اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کے برعکس روس میں قطبی ریچھوں کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں سوویت یونین نے 1956ء میں اپنے علاقوں میں اس کے شکار پر پابندی لگادی تھی، مگر سوویت یونین کے زوال کے بعد اس کے لیے کوئی مؤثر قانون سازی نہیں کی گئی ، اسی لیے یہاں پوچنگ آج بھی ایک بہت بڑا اور قابل توجہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔

حالیہ برسوں میں قطبی ریچھوں نے چکوٹا کے ساحلی دیہات میں گھسنا شروع کردیا ہے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے لیے رہنے کی جگہ یا سمندری برف سکڑنی شروع ہوگئی ہے، مگر ان ریچھوں نے انسانی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کردیا ہے جس کے باعث غیرقانونی شکار کے مواقع بھی بڑھنے لگے ہیں۔

1976 میں سوویت یونین نے رینگل آئی لینڈ اور قریبی ہیرالڈ آئی لینڈز کے ساتھ ساتھ آس پاس کے تمام پانیوں کو state Nature Reserve بنانے کا اعلان کردیا تھا۔

1980 کے عشرے تک رینگل آئی لینڈ پر رینڈیئر کی گلہ بانی ختم ہوچکی تھی، چناں چہ وہاں دو بستیوں یا آبادیوں کو از سر نو قائم کیا گیا جس کے بعد اس جزیرے نے 2004 میں یونیسکو ورلڈ نیچر ہیریٹیج کی حیثیت حاصل کرلی۔ یہ یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹس کی ان پانچ سائٹس میں شامل ہے جو آرکٹک سرکل کے اندر واقع ہیں اور یہ رینگل آئی لینڈ وہ واحد سائٹ ہے جو اپنی بحری اقدار کے باعث اس فہرست میں شامل کی گئی ہے۔

رینگل آئی لینڈ دنیا میں بحرالکاہل میں پائی جانے والی والرس کی سب سے بڑی آبادی کو تحفظ فراہم کرنے کا ذریعہ ہے جس کے ساتھ اس فہرست میں 100,000 دوسرے آبی جانور بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس جزیرے پر چھوٹی چھوٹی چٹانیں اور بہت بڑے بڑے غار بھی شامل ہیں جہاں یہ قطبی ریچھ بڑی شان کے ساتھ رہتے ہیں۔رینگل آئی لینڈ کی کوئی مستقل آبادی نہیں ہے، لیکن یہاں چھے یا سات رینجرز محافظ ہر وقت موجود رہتے ہیں جو مختلف قسم کی خدمات انجام دیتے ہیں جیسے جنگلی حیات کی ماحولیاتی نگرانی، وہاں موجود کاٹیجز کی نگرانی و دیکھ بھال، سائنسی امور انجام دینے والے گروپس کے ساتھ مل کر کام کرنا، ریسرچ کرنے والے ماہرین اور سیاحوں کے ان گروپس کی مختلف ضروریات پوری کرنا جو اس جزیرے کے دورے کرتے رہتے ہیں۔

یہ تمام رینجرز یا محافظ ایسی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جن میں مضبوط دھات سے بنائی گئی کھڑکیاں لگی ہوتی ہیں جو انہیں قطبی ریچھوں کے حملوں سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ ان محافظوں پر ہتھیار رکھنے کی پابندی ہے لیکن وہ فلیئر گنز رکھ سکتے ہیں اور ساتھ ہی پیپر اسپریز بھی رکھتے ہیں جو کالی مرچ سے بنا ہوتا ہے۔

اس جزیرے پر جو بھی سہولیات فراہم کی گئی ہیں وہ عہد قدیم کی ہیں اور اسی طرح یہاں کی ہٹس (جھونپڑیوں) اور یہاں پہلے سے موجود چند ایک گاڑیوں کی حالت بھی نہایت خستہ اور ناگفتہ بہ ہوتی ہے۔ ان گھروں اور گاڑیوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے آلات و اوزاروں کی کٹ بھی یہاں موجود نہیں ہے اور نہ ہی نئے پرزے فراہم کیے گئے ہیں۔

اسی طرح اچھے اور نئے ٹائرز بھی نہیں ہیں جس کے باعث یہاں گاڑیوں کا چلنا بھی ممکن نہیں رہتا اور اسی کی وجہ سے باہمی کمیونی کیشنز بریک ڈاؤنز بھی بہت ہوتے ہیں جس کے باعث یہاں کے لوگوں کو حفاظتی امور میں سنجیدہ چیلنج درپیش رہتے ہیں۔ اس جزیرے میں کمیونی کیشنز کا واحد ذریعہ ریڈیو سگنل ہے جب موسم اور حالات اس کی اجازت دیتے ہیں تو یہ کام کرتا ہے ورنہ نہیں۔ رینگل آئی لینڈ میں بجلی ڈیزل سے چلنے والے جنریٹرز کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے، لیکن اس کے لیے بھی ایندھن کی فراہمی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

آج رینگل آئی لینڈ دنیا کے ممنوعہ قدرتی ریزروز مین سب سے کم وزٹ کیا جانے والا جزیرہ ہے۔ یہاں آنے کے لیے سیاحوں کو روسی عہدے داروں سے اسپیشل اجازت نامہ لینا پڑتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک نہایت دشوار مرحلہ ہوتا ہے۔

The post رینگل آئی لینڈ ؛ وولی میمتھ اور قطبی ریچھوں کا جزیرہ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles