آپ دکان میں کچھ سامان ہاتھوں میں تھامے دیگر گاہکوں کے ساتھ قطار میں کھڑے ہیں۔آپ کی باری بس آنے والی ہے کہ اچانک بظاہر ایک تعلیم یافتہ اور سلجھا دکھائی دینے والا نوجوان وہاں آدھمکتا ہے۔ وہ سب سے آگے کھڑا ہوکر درشت انداز میں تقاضا کرتا ہے کہ پہلے اسے فارغ کیا جائے۔
آپ پہلے تو حیران ہوتے اور پھر کسی نہ کسی ردعمل کا مظاہر کرتے ہیں جو عام طور پہ منفی ہوتا ہے۔د ور جدید کی روزمرہ زندگی میں ایسے واقعات پیش آنا معمول بن رہا ہے۔ آپ ریلوے اسٹیشن میں ٹکٹ کی لائن میں لگے ہیں، تو کوئی نہ کوئی اجڈ و جاہل اسے توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک قوانین بھی پامال کیے جاتے ہیں اور لوگوں کی پیشانیوں پر شکن تک نہیں آتی جس سے عیاں ہوکہ ان کا ضمیر قانون شکنی پر انہیں ملامت کررہا ہے۔ اسی قسم کے بے شمار واقعات اس لیے دکھائی دیتے ہیں کہ انسانی معاشروں سے اچھے اخلاق، شائستہ ادب و آداب اور پسندیدہ اطوار مٹتے جا رہے ہیں۔
تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مہذب انسانی معاشروں کی تخلیق میں اخلاقیات نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اسی لیے اخلاقیات اور مذاہب لازم و ملزوم جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔ مذہب نے انسان کو غلط اور صحیح میں فرق سمجھنے کی تربیت دی اور اسے عمدہ اخلاق سے سنوار کر سطح حیوان سے بلند و اعلیٰ مقام پر فائز کردیا۔ اخلاقیات اختیار کرنے کے باعث بھی انسان کو اشرف المخلوقات کہا جانے لگا کیونکہ وہ چاہے تو ایک ذی حس کی فطری منفی صلاحیتیں… وحشی پن، خود غرضی، جلد بازی وغیرہ ترک کرسکتا ہے۔ اخلاق ہی ایک انسان کو حیوانیات کے درجے سے اٹھا کر درجہ انسانیت پر لے جاتے ہیں۔
دنیا کے تمام مذاہب کا مطالعہ کیجیے تو افشا ہوتا ہے کہ دین اسلام سب سے زیادہ اخلاق حسنہ اختیار کرنے پر زور دیتا ہے۔ حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ’’مجھے اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس لیے بھی معبوت فرمایا تاکہ آپؐ بنی نوع انسان کو اخلاقیات کی تعلیم و تربیت عطا فرماسکیں۔ یہ حدیث مسلمان کی زندگی میں حسنِ اخلاق کی اہمیت آشکارا کرتی ہے۔
اسلامی تعلیمات کے سبب ہی ساٹھ ستر برس پہلے تک پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں بالعموم مسلمانوں میں وہ تمام اخلاقی خوبیاں پائی جاتی تھیں جو روزمرہ زندگی ڈھنگ سے گزارنا سکھاتی ہیں۔ مثال کے طور پر قناعت، سادگی، جلد بازی سے پرہیز، معاف کردینا، نرمی، صبر، دوسروں کی مدد، احسان اور ایثار کرنا وغیرہ۔معاشرے میں بسنے والے بیشتر افراد کی زندگیوں میں ٹھہراؤ اور سُکون تھا۔لوگ خواہشات کے غلام نہیں تھے اور ان کے پیچھے اندھا دھند نہ بھاگتے۔تمام والدین کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنی اولاد کو دینی و دنیاوی علم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اخلاقی تعلیم و تربیت سے بھی متصف کریں۔
ماضی میں بھی دنیا کے ہر معاشرے میں اچھے اخلاق سے عاری انسان پائے جاتے تھے۔ دور جدید میں مگر یہ عجوبہ جنم لے چکا کہ اخلاق حسنہ کا احساس نہ رکھنے والے مردوزن کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس خرابی کی اہم وجہ دنیا بھر میں مغربی تہذیب کا پھیلاؤ ہے۔ دراصل زیادہ سے زیادہ مادی اشیا جمع کرنا، صرف اپنا فائدہ مدنظر رکھنا اور آخرت کی زندگی سے انکار مغربی تہذیب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ یہ فلسفہ انسان کو بتاتا ہے کہ اخروی زندگی کی کوئی حقیقت نہیں لہٰذا دنیا ہی میں خوب مزے لوٹ لو اور جو چاہے کرو۔ مادیت پر استوار اس فلسفے نے اخلاقیات کو نقصان پہنچایا اور بہت سے انسان اچھے اخلاق تج کرمحض دولت کمانے کے چکر میں لگ گئے۔ نت نئی خواہشات اور تمناؤں نے انہیں گھیرلیا۔
ان کی اولاد بھی اسی راہ پر چل نکلی بلکہ وہ تو حسن اخلاق کو فضول شے اور بوجھ سمجھنے لگی۔یہی وجہ ہے،دنیا بھر کے معاشروں میں ایسے بہت سے لڑکے لڑکیاں مل جاتے ہیںجو اچھے اخلاق کی اہمیت ہی سے ناواقف ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ کسی ناگہانی آفت میں کس قسم کے برتاؤ کا مظاہرہ کیا جائے۔ خلاف توقع صورتحال میں وہ عموماً منفی ردعمل دکھاتے ہیں۔ اخلاق کے زوال سے بھی انسانی معاشروں میں بے چینی، بے اطمینانی اور جلد بازی نے جنم لیا۔ بہت سے نوجوانوں کے لیے زندگی مقابلے کی دوڑ بن چکی جسے وہ ہر جائز و ناجائز حربہ اختیار کرکے جیتنا چاہتے ہیں۔ اس دوڑ میں اچھے اخلاق کوئی وقعت نہیں رکھتے بلکہ شاید دولت و شہرت پانے کی راہ میں رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے ہی کو دیکھ لیجیے۔ہماری نوجوان نسل میں کئی نوجوان ادب و آداب، اچھے برتاؤ اور حسن اخلاق سے نابلد ہیں۔مگر یہ خرابی جنم لینے میں سراسر ان کا قصور نہیں بلکہ والدین زیادہ بڑے مجرم قرار پاتے ہیں۔ وجہ یہ کہ بہت سے والدین اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم دلانے کی خاطر تو دن رات ایک کردیتے ہیں مگر ان کی اخلاقی تربیت نہیں کرپاتے۔ ان کو یہ نہیں سکھاتے کہ روزمرہ زندگی کے معاملات بہ احسن و خوبی کس طرح برتے جائیں۔ یہ بے توجہی اور کوتاہی انسانی معاشروں کو حیوانی سطح پر اتار رہی ہے۔ تب انسان چاہتے ہوئے بھی اخلاقی خوبیوں سے فائدہ نہیں اٹھا پاتا۔
مثال کے طور پر دکان میں قطار توڑنے والا واقعہ ہی لیجیے۔ بہت سے نوجوان خصوصاً قطار توڑنے والے سے لڑپڑتے ہیں۔ توتکار سے شروع ہوکر نوبت مارکٹائی تک جاپہنچتی ہے۔ بعض اوقات تو اس قسم کے معمولی واقعات سے جنم لینا والا جھگڑا اتنا بڑھتا ہے کہ کوئی انسان اپنی قیمتی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ دراصل بُرے عمل کا برا ردعمل بظاہر فطری لگتا ہے لیکن اسی سے جھگڑا بڑھتا ہے۔یہی منفی ردعمل روکنے کے لیے اخلاقیات کا جامع نظام وجود میں آیا۔اس صورتحال میں اچھے اخلاق کی تربیت رکھنے والا انسان فوراً آپے سے باہر نہیں ہوگا۔ غصّہ یا درشتی نہیں دکھائے گا۔ چیخم دھاڑ نہیں کرے گا۔ یہ عین ممکن ہے کہ وہ خاموش رہے اور لائن توڑنے والے کو اپنا کام ختم کرکے جانے دے۔ تاہم اخلاقیات اور نفسیات اس ردعمل کو کمزور اور ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں۔
دراصل قطار توڑنے والے کی سرزنش نہ ہو، اسے کسی قسم کے احتجاج کا سامنا نہیں کرنا پڑے، تو عام طور پر ایسا شخص شیر ہوجاتا ہے۔ اس کو پھر معاشرے کی اخلاقی اقدار توڑنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ بعید نہیں کہ وہ یہ اقدام کرکے ذہنی تسکین بھی حاصل کرنے لگے۔ ایسے افراد پھر اخلاقیات پیروں تلے روندنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ انہیں اس حال تک پہنچنے نہ دینے کی خاطر ان کا راستہ روکنا ضروری ہے۔ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اخلاقیات کی حد پار کرنے والے کو نرم لہجے میں سمجھائیے کہ وہ ایک بری اور ناپسندیدہ حرکت کررہا ہے۔
اسے بتائیے کہ قطار توڑنے سے وہاں کھڑے سبھی لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ تادیب و سرزنش کرنے سے عموماً قطار توڑنے والا پشیمانی و شرمندگی کا اظہار کرتا نیز آئندہ ایسی بدحرکت کرنے سے باز رہتا ہے۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بعض اوقات انسان ایمرجنسی میں ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں قدرتاً اسے جلدی ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسی حالت میں اگر اسے قطار میں آگے آنے دیا جائے تو اس کو رحم دلی اور انسانی ہمدردی کا تقاضا سمجھنا چاہیے۔ اسی کو اخلاق حسنہ کہتے ہیں۔
اخلاقیات کے زوال ہی کا نتیجہ ہے کہ انسان نے اچھی بھلی زندگی مشکل بنادی۔ روزمرہ کام کرتے ہوئے انسان جب بداخلاق افراد سے لین دین کرے، تو اسے کئی باتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ اس کی سعی ہوتی ہے کہ اندر کا چنگیز خان جاگ نہ جائے۔ مگر خصوصاً جلد بازی کا عفریت زندگی گزارنا مشکل تر بنارہا ہے۔مثال کے طور پر حالیہ ساہیوال واقعے کو ہی لیجیے۔ یہ جلد بازی کے باعث ہی ظہور پذیر ہوا۔ اگر پولیس والے غور و فکر اور صبر و برداشت کی اخلاقی خوبیوں سے متصّف ہوتے، تو پہلے وہ گاڑی روک کر تسلی سے اس کا جائزہ لیتے اور مسافروں سے پوچھ گچھ کرتے۔ لیکن انہوں نے گاڑی روکی اور پھر انتہائی عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے گناہوں کو بھی موت کی نیند سلادیا۔
ماضی میں ایک ناخواندہ دیہاتی بھی اخلاقی خوبیوں کی دولت سے مالا مال ہوتا تھا۔ کوئی مسافر گاؤں میں آنکلتا تو سبھی اس کی آؤ بھگت کرتے۔ مہمان زحمت نہیں رحمت سمجھا جاتا۔ کم پڑھا لکھا آدمی بھی جانتا تھا کہ کیونکر مہذب اور شائستہ رویے کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ہر کوئی خیال رکھتا کہ اس کی وجہ سے دوسرے لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شہری اس سلسلے میں زیادہ تردد نہ کرتا بلکہ اپنی کامن سینس یا فطری حسّوں کے مطابق عمل کرتا۔ آج بھی خصوصاً نئی نسل محض فطری اصول اختیار کرکے اپنا اخلاقی کردار سدھار سکتی ہے۔ اس ضمن میں مثالوں کی مدد سے کچھ تجاویز پیش ہیں۔
سینما میں ٹاکرا
فرض کیجیے، آپ سینما میں مز ے سے من پسند فلم دیکھ رہے ہیں۔ اچانک قریب بیٹھا کوئی فرد موبائل پر خاصی بلند آواز میں طویل گفتگو کرنے لگتا یا پھر بار بار آپ کی نشست ہلانے لگتا ہے۔ غرض کوئی فرد ایسی حرکت کرتا ہے کہ فلم دیکھنے کا سارا مزہ کرکرا ہوجائے۔یہ بھی ممکن ہے، آپ کا کوئی پڑوسی رات کے ایسے وقت اونچی آواز میں گانے سننے لگے جب چمگادڑیں بھی محو خواب ہوتی ہیں۔ اس قسم کے عجیب و غریب پڑوسی تقریباً ہر محلے میں پائے جاتے ہیں۔ رات کو جب محلے کے سبھی لوگ گہری نیند میں ہوتے ہیں، وہ تیز ہارن بجا کر اپنی کسی ذہنی خرابی کا ثبوت دیتے ہیں۔
اس قسم کے مواقع پر لوگ عموماً جیسے کو تیسا قسم کا ردعمل ظاہر کرتے ہیںخواہ بعد میں اسے بچکانہ سمجھا جائے۔ مثلاً آپ سینما میں پڑوسی سے اونچا بولنے لگیں گے تاکہ اسے بتاسکیں، یہ رویّہ دوسروں کو کتنا ناگوار گزرتا ہے۔ اس عالم میں بعض لوگ تو اتنی باآواز بلند گفتگو کرتے ہیں کہ لگتا ہے، وہ اپنے ساؤنڈ سسٹم کا ٹیسٹ لے رہے ہوں۔ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ دوسرے کا جارحانہ اور غیر اخلاقی رویّہ مختلف مردوزن پر مختلف اثرات مرتب کرتا ہے۔ جو انسان خود درشت مزاج رکھنے اور اونچا بولنے والے ہوں، وہ ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں اور نتیجے کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ لیکن جو مردوزن جارحانہ رویہ پسند نہیں کرتے، وہ اپنا غصہ پی جاتے ہیں۔ مگر بعض افراد اس عالم میں بھی ذہنی یا جسمانی دباؤ کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
ماہرین نفسیات مشورہ دیتے ہیں کہ ایسی ناگوار صورتحال کا مقابلہ عملی انداز میں اور ہوشیاری سے کیجیے۔ مثال کے طور پر سینما میں ہلہ گلہ کرنے والے نوجوان لڑکے ہیں تو انہیں نظر انداز کرنا بہترین حکمت عملی ہے۔ وجہ یہ کہ آپ جو بھی جواب دیں گے، وہ جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔ کئی نوجوان فلم سے لطف اندوز ہونے کے بجائے عوامی مقامات میں ہلہ گلہ کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ تماشا لگاسکیں۔ ایسی ناگوار صورتحال میں سنیما کی انتظامیہ سے شکایت لگانا زیادہ بہتر طریقہ ہے۔اگر سینما میں دو تین افراد یا میاں بیوی ماحول سے بے پروا ہوکر گفتگو کرنے لگیں، تو آپ نرمی سے کہہ سکتے ہیں ’’میں فلم دیکھ رہا ہوں۔ آپ کی گفتگو میرے انہماک میں مخل ہورہی ہے۔‘‘ ممکن ہے کہ جوڑا جواب میں کوئی ناگوار جملہ بول دے۔ مگر عموماً لوگ پیغام سمجھ کر خاموش ہوجاتے ہیں۔
جب کوئی عزیز چمٹ جائے
شادی بیاہ یا خاندانی تقریب میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دور دراز کا کوئی رشتے دار بلکہ پاکستان میں تو اجنبی بھی آپ سے ذاتی نوعیت کے بے سروپا سوالات کرنے لگتا ہے۔ رفتہ رفتہ گوانتاناموبے کے انداز میں تفتیش ہونے لگتی ہے۔ ذریعہ معاش، آمدن، اولاد وغیرہ کے متعلق سوال پوچھے جاتے ہیں۔ ادب و لحاظ کا پاس رکھنے کے باعث آپ مجبوراً سبھی سوالوں کے جواب دیتے ہیں، مگر اندر ہی اندر کوفت بھی ہوتی ہے۔ایسے موقع پر بھی مردوزن مختلف رویّے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بعض لوگ سوال کرنے والے کے منہ پر کہتے ہیں کہ اپنے کام سے کام رکھو۔ کچھ مخاطب ہی سے سوال کرنے لگتے اور اس کی ہسٹری کھوج نکالتے ہیں۔ تاہم ماہرین اس حکمت عملی کو بھی کارگر قرار نہیں دیتے۔ان کا کہنا ہے کہ جو شخص آپ سے خوامخواہ قریب ہونے کی کوشش کرے اور ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھے، تو اس سے ڈیل کرنا ایک خصوصی فن ہے۔ یہ فن زندگی گزارنے کے بعد ہی انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ اس فن میں پہلے دیکھا جاتا ہے کہ سوال کرنے والا رشتے کے لحاظ سے کتنا قریب ہے۔
پھر یہ کہ اس کی نیت کیا ہے، اچھی یا شیطانی؟ یہ دونوں باتیں مدنظر رکھ کر پھر تفتیش کنندہ کو جوابات دیجیے۔بعض اوقات لوگ ہمارا بھلا چاہتے اور ہمارے لیے فکر مند ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ان کے جذبات کی قدر کرنا چاہیے۔ تاہم جو لوگ سن گن لینے کی خاطر ذاتیات پر اتر آئیں، تو نرم لہجے میں ان کے سوالات کو ٹال دیجئے۔ کچھ افراد دوسروں کو دق کرنے کے لیے ذاتی نوعیت کے سوال پوچھتے ہیں۔ ایسے مردوزن کے ساتھ ڈیل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مخاطب سے ذاتی سوال پوچھیے تاکہ اس کی شخصیت منظر عام پر آسکے۔ ایسی صورتحال میں اپنے جذبات کنٹرول میں رکھیے۔یہ مگر دیکھا گیا ہے کہ خاص طور پر جب کوئی مرد کسی عورت سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرے، تو خاتون کافی مشکل میں گرفتار دکھائی دیتی ہے۔ مرد چکنی چپڑی باتیں کرکے معصوم خواتین کو گھیر لیتے ہیں۔ لہٰذا خاتون کے لیے ضروری ہے کہ جو مرد خواہ مخواہ بے تکلف ہو، وہ اسے منہ نہ لگائے اور فوراً کنارہ کشی اختیار کرلے۔
ذوق سلیم کو ٹھیس پہنچے
آپ سڑک پر جارہے ہیں کہ کسی نے بڑے واہیات انداز میں تھوک دیا۔ یا پھر کوئی صاف ستھری جگہ کو جائے حاجت بناتا نظر آتا ہے۔ یہ منظر بھی خاصا عام ہے کہ مالٹے یا گنڈیاں کھاتے چھلکتے راستے پر بکھیرے جارہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ کاروں پر سوار لوگ کھڑکی کھول کر کوڑا کرکٹ سڑک پر پھیکنے سے دریغ نہیں کرتے۔ بازار میں بے حیائی کے منظر بھی دکھائی دیتے ہیں مثلاً خارش کرنا۔ اس قسم کے منظر شائستہ آداب سے آگاہ انسان کی پاکیزہ فطرت کو قدرتاً زک پہنچاتے ہیں۔
بداخلاق لوگوں کو حرکات دیکھ کر ذوق سلیم رکھنے والے لوگ ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ چیخ چلا کر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ بعض لوگوں کی تو تمنا ہوتی ہے کہ وہ ان کا ٹیٹوا دبا دیں۔ لیکن ظاہر ہے، حقیقت میں وہ ایسا پُرتشدد عمل کبھی انجام نہیں دے سکتے۔ماہرین کی رو سے سڑکوں اور بازاروں میں بداخلاقی کے مظاہرے جنم لینے کی بڑی وجہ جہالت اور غربت ہے۔ یہ عمل کرنے والے لوگ عموماً غریب ہوتے ہیں۔ ان کے گھروں میں غسل خانہ نہیں ہوتا، سرکاری سکول جائیں، تو وہاں بھی باتھ روم میسر نہیں آتا۔ چناں چہ جگہ جگہ تھوکنا، کہیں بھی فارغ ہوجانا اور بے سوچے سمجھے کوڑا پھینک دینا ان کا طرزِ زندگی بن جاتا ہے۔
یہ طرز حیات پیدا کرنے میں سارا قصور ان کا نہیں، حکومت بھی تو انہیں صحت و صفائی کی بنیادی سہولیات مہیا نہیں کرسکی۔ لہٰذا ایسے لوگوں پر غصہ کرتے ہوئے ہمیں یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ ان کے طرز زندگی نے انہیں اجڈ و بد اخلاق بنایا ہے۔ اگر انہیں شائستہ آداب کی تربیت دی جائے، ان کو صفائی کی سہولیات میسر آجائیں تو وہ بھی مہذب اور بااخلاق شہری بن سکتے ہیں۔تھوکنے، پاخانہ کرنے اور کوڑا پھیلانے والوں کو دراصل کسی نے بتایا ہی نہیں کہ یہ بری حرکت ہے۔ ان کے ماحول میں ہر کوئی یہ فعل انجام دیتا ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جہلا کا طرز زندگی بدلنے کی کوششیں نہ کی جائیں۔ اس ضمن میں ماہرین کہتے ہیں کہ سرعام بداخلاقی کے مظاہرے روکنے کی خاطر لوگوں کو اجتماعی کوشش کرنا ہوگی۔ مثال کے طور پر آگاہی مہم چلا کر لوگوں کو اخلاق حسنہ سے شناسا کرایا جائے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ بااخلاق افراد رول ماڈل بنیں اور بداخلاقی کا کوئی عمل ہوتا دیکھیں تو انفرادی نہیں دیگر لوگوں کی مدد سے اسے مذمت کا نشانہ بنائیں۔ یوں عوامی احتجاج بداخلاق لوگوں کو اپنی بری عادات ترک کرنے پر مجبور کردے گا۔
ہائی ٹیک نسل
آپ اپنے کسی دوست، رشتے دار یا بیٹے بیٹی سے ملنے گئے۔ لیکن وہ مسلسل اپنے موبائل فون پر مصروف ہے اور آپ پر توجہ نہیں دیتا۔ جب متوجہ ہو تب بھی اس کا دھیان اپنے فون پر لگا رہتا ہے۔ وہ آپ کی گفتگو توجہ سے نہیں سنتا۔ظاہر ہے، ایسے موقع پر آپ کا دل یہی چاہے گا کہ اس کا فون اٹھا کر دور پھینک دیں۔یا پھر آپ چلا کر کہیں گے ’’ارے بھئی، میں تم سے ملنے آیا ہوں اور تم اپنے موبائل سے لگے ہو۔‘‘ یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے دوست یا رشتے دار کی بے مروتی دیکھ کر آپ ناراض ہوجائیں۔ ہر انسان کو روزمرہ زندگی میں ایسے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے جو آپ کی بات توجہ سے نہیں سنتے۔ اس رویّے کو بداخلاقی سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہ جاننا مگر ضروری ہے کہ آج کی خصوصاً نئی نسل ’’ہائی ٹیک‘‘ ہوچکی۔ وہ بہت سے اخلاقی آداب کو تکلفات سمجھنے لگی ہے اور ان کی پروا نہیں کرتی۔ مثلاً شکریہ ادا کرنا، کسی غلطی پر معذرت کہنا، خاتون کے لیے دروازہ کھول کر رکھنا وغیرہ۔ مزید براں دور جدید کی تیز رفتار زندگی میں اچھے اخلاق کی تعریف بھی تیزی سے ادلتی بدلتی رہتی ہے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ آج جو اخلاقی بات اچھی ہے، وہ کل بری بن جائے۔ڈاکٹرشائستہ وحید لاہور کی ماہر نفسیات ہیں۔ ان کا خاص موضوع انسانوں پر جدید ٹیکنالوجی کے نفسیاتی اثرات کا مطالعہ کرنا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’آج انسانوں کے اردگرد ٹیکنالوجی چھاچکی اور ان کے رہن سہن کا حصہ بن رہی ہے۔ ایسے ماحول میں انسان سمجھنے لگا ہے کہ ہر شے اس کے استعمال اور سہولت کی خاطر میسّر ہے۔ چناں چہ وہ سوچ سکتا ہے کہ اسے اب دوسرے لوگوں کے جذبات کی پروا نہیں کرنا چاہیے۔ گویا انسانی زندگی میں سائنس و ٹیکنالوجی کا بڑھتا عمل دخل ہمیں غیر جذباتی اور بے حس بنا رہا ہے۔ تاہم یہ نتیجہ قطعی اور منطقی نہیں، وجہ یہ کہ مشینوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی بہت سے انسان دوسروں کے جذبات کی پروا کرتے اور عمدہ اخلاق دکھاتے ہیں۔‘‘
یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ خاص طور پر آج کی نئی نسل کے لیے موبائل اور اور دیگر مشینی آلات کا استعمال طرز زندگی بن چکا۔ اور ضروری نہیں کہ یہ آلات ہی نوجوان کو بداخلاق بنا دیں۔ اس لیے اگر آپ کا کوئی دوست یا بیٹا سکرین میں مشغول ہے، تو اسے اپنی سمت متوجہ کرنے کے لیے جذباتی سہارا لیجہے۔ مثال کے طور پر کہیے ’’تم مجھے بہت یاد آرہے تھے، اس لیے تم سے ملنے چلا آیا۔‘‘ یا پھر یہ کہ’’ تمہارے ساتھ میری خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔‘‘کوئی مگر باپ یا ماں ہے اور وہ بچے کو سنبھالتے ہوئے کمپیوٹر پر کام کررہی ہے اور موبائل بھی سنتی ہے تو یوں وہ بچے سے سخت ناانصافی کرے گی۔ والدین کو سمجھنا چاہیے کہ وہ روزانہ ایک خاص وقت صرف بچوں کے لیے مخصوص کردیں۔ اس وقت وہ کسی قسم کی سکرین کو قریب نہ آنے دیں اور بچوں سے باتیں کریں۔ اس طرح بچوں اور والدین کے مابین قربت جنم لیتی اور محبت بڑھتی ہے۔ گھر میں اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
The post اچھّے اخلاق کہاں گئے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.