غزل
دیوار نے جو آپ کو رستہ نہیں دیا
کیا آپ نے ہمارا حوالہ نہیں دیا؟
یہ ہجر میں نے اپنے ہی ہاتھوں کمایا ہے
میں نے تمہارے وصل کا صدقہ نہیں دیا
میں گر رہا ہوں چاند پہ، اوپر زمین ہے
تم نے اچھالا ہے مجھے، دھکا نہیں دیا
یادوں کی دھوپ زندگی کی شام تک رہی
اس ہجر نامی پیڑ نے سایہ نہیں دیا
ہم نے حقوقِ زن کی تو باتیں ہزار کیں
بہنوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا
پنکھے سے لٹکی لاش یہی چیختی رہی
شوہر نے بس طلاق دی، بچہ نہیں دیا
چڑیا پروں بغیر بنانی پڑی فہدؔ
کوزہ گروں نے تھوڑا سا گارا نہیں دیا
(سردارفہد، ایبٹ آباد)
۔۔۔
’’جگاؤ نہیں اب‘‘
جگاؤ نہیں اب!
سبھی بکھرے خوابوں کو دھوکا دیے
اب پری سو رہی ہے
تماشہ لگائے یہ خوابوں کا جھرمٹ کھڑا ہے
وہ دربان دیکھو
جھروکے سے آنے کو بیتاب ہے
اور شکایت لگانے کو الفاظ کی حاضری ہے۔
اسے کوس کر کیا ملے گا…بتاؤ؟
عدالت میں جاؤ
رہائی دلاؤ
کسی ٹمٹماتے ستارے سے لو مانگ لاؤ
کسی شام ہی سے دعا لیتے آؤ
اسے مت ستاؤ۔۔۔
بڑی مشکلوں سے خلاصی ملی ہے
اداسی کے ہاتھوں میں آ تو گئی تھی
مگر کھینچ لائی ہے میّت کو اپنی
کہاں بین خوابوں کے وہ سن سکے گی
اسے مت جگاؤ!
مجھے یہ بتاؤ
وہ جب سالہا سال خوابوں کو روتی رہی
تم کہاں تھے؟؟؟
(ردا فاطمہ، ساہیوال)
۔۔۔
غزل
زبانیں گُنگ کر دیتا ہے باتیں چھین لیتا ہے
وہ اپنی شان سے لاکھوں ہی شانیں چھین لیتا ہے
مسافر دیکھ کر اُس کو بھٹک جاتے ہیں رستے سے
تھکن کی منزلیں دے کر وہ راہیں چھین لیتا ہے
مری بستی کے دل والو! ذرا اس شخص سے بچنا
وہ آنکھیں ڈال کر آنکھوں میں، آنکھیں چھین لیتا ہے
چَلا کر تیر نینوں کا مرے جذبات کی رَو پر
غزل کہنے سے پہلے ہی ردیفیں چھین لیتا ہے
بچھا دیتے ہیں گُل بھی نِکہتیں اُس شوخ داماں پر
کہ وہ گلشن میں پُھولوں کی رِدائیں چھین لیتا ہے
وہ اک بَھرپُور پیکر ہے، مسیحائی کا اے لوگو!
گلے مِل کر بدن کی سب بلائیں چھین لیتا ہے
عجیب انداز ہے شہزادؔ اس کے بات کرنے کا
وہ اپنی گفتگو میں سب زبانیں چھین لیتا ہے
(شاہد انور شہزاد، اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
ہم خانہ بدوشوں کو سہولت ہے مرے دوست
ہر شہر میں مل جاتے ہیں دو چار نئے دوست
دیکھا ہی نہیں میری طرف اس نے دوبارہ
میں کہتا رہا دوست، مرے دوست، مرے دوست
یہ دریا تری سمت نہ مڑ جائے کسی دن
کیا دیکھتا رہتا ہے کنارے پہ کھڑے دوست
یہ آنکھ کسی رنگ میں ڈھلتی ہی نہیں تھی
دیکھا ہی نہیں تُو نے کبھی پہلے مجھے دوست
وہ شخص حسیں اتنا زیادہ تھا کہ مت پوچھ
تصویر بناتے ہوئے تصویر ہوئے دوست
(نذر حسین ناز، اسلام باد)
۔۔۔
غزل
ایک غم درویش کا جو صاحبِ آلام تھا
نام ور نہ ہو سکا کہ ہجر کا ہنگام تھا
جن کی جنبش کر گئی دو نیم میرا تن بدن
ان لبوں کی پھونک سے ہی زخم کو آرام تھا
شمس تیرے شہر میں کل بک گئیں تاریکیاں
وحشتوں کی جنس تھی اور بزدلی کا دام تھا
شہرتوں نے کردیا یوں کھوکھلا کہ آخرش
زندگی تھی نام میرے، میں برائے نام تھا
گھر میں گھس کے مارنا معمول ہے ہر روز کا
رہگزر پر جو ہوا وہ حادثہ بھی عام تھا
ہم کو ساگرؔ ہر سراں پر الفتیں روتی ملیں
اس ڈگر پر ہر کوئی میری طرح ناکام تھا
(ساگر حضور پوری، سرگودھا)
۔۔۔
غزل
کیسے کیسے کمال دیکھے ہیں
گدڑیوں میں بھی لعل دیکھے ہیں
اب نمٹ لوں گا تجھ سے مستقبل
میں نے ماضی و حال دیکھے ہیں
آئینے کی طرح ان آنکھوں نے
آدمی بے مثال دیکھے ہیں
ہم نے اشعار میں سسکتے ہوئے
شاعروں کے خیال دیکھے ہیں
وہ حسیں تر ہے اور اس کی رضاؔؔ
تہہ میں ہم نے ابال دیکھے ہیں
(مہر علی رضا، امین پور بنگلہ)
۔۔۔
غزل
کچھ سال اپنے آپ میں کھونے کا غم کیا
باقی تمام عمر نہ ہونے کا غم کیا
چاروں طرف سے ہو گیا گھیرا جو تنگ پھر
لگ کر بدن سے روح نے سونے کا غم کیا
میں ہنس پڑا جو وقت سے پہلے ہی ایک لاش
دفنائی اور ہم نے یوں کھونے کا غم کیا
حاکم کا حکم تھا اسے مسمار کر دیا
لڑکی نے اک مکان کے کونے کا غم کیا
میں ڈھونڈنے لگا تھا سمندر میں اپنی لاش
لوگوں نے پیچھے میرے نہ ہونے کا غم کیا
(سیف ریاض، کراچی)
۔۔۔
غزل
زمانہ مائلِ جور و جفا ابھی تک ہے
مرے لبوں پہ ترا مدعا ابھی تک ہے
کبھی جلایا تھا بامِ طلب پہ اِک چراغ
مرے خلاف جہاں کی ہَوا ابھی تک ہے
وہ ایک لمحہ جو اُترا تھا تیری فرقت کا
ستم شعار سکوں آزما ابھی تک ہے
درِ قُبول پہ تالے پڑے زمانہ ہُوا
اُٹھا ہُوا مرا دستِ دُعا ابھی تک ہے
اگرچہ لاکھ یہاں آندھیوں سے حشر اُٹھا
ہتھیلیوں پہ وہ جلتا دیا ابھی تک ہے
بس ایک بار پکارا تھا اُس کو میں نے نبیل ؔ
فضا میں گُونجتی میری صدا ابھی تک ہے
(ڈاکٹر نبیل احمد نبیل، لاہور)
۔۔۔
’’نویدِ سالِ نو‘‘
ڈوب گیا ہے دور افق پر
سالِ گذشتہ کا یہ سورج
یہ پیغام سناتا سب کو
وقت کا دریا کب تھمتا ہے
سب کچھ ماضی بن جاتا ہے
سالِ نو کی امیدوں میں
گِھر سا گیا ہوں، سوچ رہا ہوں
گزرے برس جو کھیل ہوا ہے
حرص کا جو بازار سجا ہے
بھوک بڑھی، افلاس بڑھا ہے
جھوٹ کا دھندہ خوب چلا ہے
خلقِ خدا کے نام پہ کیا کیا
رنگ برنگ اسٹیج سجے ہیں
شہرِ سیاست کی گلیوں میں
جھوٹے وعدے خوب بِکے ہیں
دہلیزِ سالِ نو پر اب
دل کی لگن احباب بچائے
اپنے اپنے خواب بچائے
اور جذبوں کی تاپ چھپائے
پھر کتنے مسرور کھڑے ہیں
کتنی امیدوں سے سارے
آئندہ کو دیکھ رہے ہیں
مالک! قائم ان کی مسرت
مالک! ان کے خواب سلامت
یوں ہی رکھنا تا بہ قیامت!!!
(ڈاکٹر اعظم شاہد، منڈی بہاء الدین)
۔۔۔
غزل
جنگ بندی پہ جو تو روبہ عمل ہو جائے
بات سے مسئلہ ممکن ہے کہ حل ہو جائے
یعنی اس دنیا میں ہر چیز ہے تیری محتاج
تو اگر چاہے تو کیچڑ میں کنول ہو جائے
شاہ زادی تری اک چشمِ عنایت کے طفیل
عین ممکن ہے کھنڈر تاج محل ہو جائے
دیکھ فرقت میں تری ایک ادھورا سا شخص
دوسرے عشق میں شاید کہ سپھل ہو جائے
تُو جو دیکھے تو محبت پہ لکھوں نظم کوئی
تو اگر چھو لے مجھے تجھ پہ غزل ہو جائے
(ذیشان مرتضیٰ، پہاڑ پور)
۔۔۔
غزل
کسی کے عشق سے لبریز ہو رہا ہوں ابھی
کسی کے ہجر میں آنکھیں بھگو رہا ہوں ابھی
بہت سے نقص مصور نے دور کرنے ہیں
تجھے پتا ہے میں تخلیق ہو رہا ہوں ابھی
وہی جگہ کہ جہاں نقشِ پائے جاناں تھے
اسی کی خاک سے آنکھوں کو دھو رہا ہوں ابھی
لگے گی عمر شجر کو شجر بنانے میں
مگر میں بیج محبت کا بو رہا ہوں ابھی
کسی نے قرض اٹھایا تھا میرے آبا میں
اسی کے بوجھ سے مقروض ہو رہا ہوں ابھی
بہت سے خواب ادھورے ہیں میری آنکھوں میں
پرانے سال کے خوابوں میں سو رہا ہوں ابھی
(اکرام افضل، مٹھیال، اٹک)
۔۔۔
غزل
طبیعت اپنی بازاری نہ کرنا
مَفاسِد سے کبھی یاری نہ کرنا
امیرِ شہر کی صحبت میں رہ کر
غریبوں کی دل آزاری نہ کرنا
بنایا جن حَسیں جذبوں نے گلشن
انھیں جذبوں سے غدّاری نہ کرنا
ہمارے پھُول سے نازک دِلوں میں
تعّصب کی شجرکاری نہ کرنا
لبادہ اوڑھ کر پِیرِ حَرمَ کا
تقدّس، وقفِ عیّاری نہ کرنا
غلط سوچوں کے بہکاوے میں آکر
وطن میں تم ستم کاری نہ کرنا
فراست کا عَلَم ہاتھوں میں لے کر
جہالت کی طرف داری نہ کرنا
جو چاہو عُمر میں اپنی درازی
غموں سے زندگی بھاری نہ کرنا
(ایس۔ مُغنی حیدر، کراچی)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.