خانہ پری
”اردو بازار سے پہلے اردو کا جنازہ!“
ہم کئی دن سے کلیجہ تھام کے بیٹھے تھے کہ کراچی میں تجاوزات کے نام پر مچی توڑ پھوڑ پر کچھ لکھیں، مگر نہ لکھ پائے، پھر جب ’شہر قائد‘ میں لگے ’مسماری دنگل‘ میں اگلے ’شکار‘ کے واسطے نام پکارا گیا: ”اردو بازار!“
تو بہت سے درد مند شہریوں کی طرح ہماری برداشت بھی جاتی رہی شہر کے ایک دل جلے نے تو دانت پیس کر یہ کہہ دیا ’گرائیں گے کیوں نہیں، دو سال پہلے ’اردو والوں‘ کے دفاتر ناجائز کہہ کر گرا دیے، تو اب یہ تو ہونا ہی تھا، اس بازار کا نام جو ”اردو“ پر ہے!‘ ابھی ہم اس ’پہلو‘ پر غور ہی کر رہے تھے کہ اچانک ایک دوسرا جملہ ہمارے کان میں پڑا ’ارے، اردو ہماری قومی زبان ہے اور اس کے ساتھ ’بازار‘ کا لاحقہ تو سیدھی سیدھی ’غداری‘ ہے، اب بھلا کوئی اپنی ’قومی زبان‘ کے ساتھ بازار جیسا بازاری لفظ بھی لگاتا ہے؟ کتنی بڑی سازش ہے یہ، جلدی گرا دینا چاہیے اِسے!“
اسی اثنا میں ہماری نظر ’تحفظ اردو بازار ‘ کے لیے ایک احتجاج کی تصویر پر اٹک کر رہ گئی، لکھا تھا کہ ”آج کے دور میں جتنے بھی اساتذہ، ڈاکٹر، انجینئر، سیاست دان، فوجی جوان، وکلا، صحافی اور جسٹس صاحبان ہیں، انہوں نے کبھی نہ کبھی اسی مارکیٹ کے ذریعے فیض حاصل کیا ہے اور آج اس ”مادرے کتاب“ کو یتیم کیا جا رہا ہے!“
لیجیے ہم ابھی اس تحریر کے مختصر اور پراثر ہونے پر واہ واہ کرنے کو ہی تھے کہ ”مادرے کتاب“ نے اس واہ کو ’آہ‘ میں بدل دیا۔ یہ شکر ہے کہ تجاوزات کے خلاف کارروائی پر ”میں بے بس ہوں!“ کی تکرار کرنے والے میئر کراچی وسیم اختر نے مداخلت کی اور ’اردو بازار‘ فی الحال تو بچ گیا لیکن اردو بازار سے پہلے اردو بازار میں اردو کا ہی جنازہ ضرور نکل گیا! اب ظاہر ہے یہ ٹھیرے ’کتاب فروش‘ اور انہیں اپنے اور ’کتاب خواں‘ میں واضح فرق کو تو خلط ملط نہیں کرنا تھا نا، سو اس بینر کے ذریعے اسی ’فرق‘ کو اجاگر کیا گیا شاید! ابھی کچھ دن پہلے اسی اردو بازار میں ’غیر قانونی اشاعت کتب‘ کے خلاف احتجاجی بینر آویزاں تھا، جس پر درج تھا کہ ایسی کتب پر ”بینڈ“ لگا دیا جائے! بھئی انگریزی نہیں آتی، تو ارود بازار میں توکم ازکم اپنی اردو بول لو! یہاں بین (Ban) کے بہ جائے ’پابندی‘ جیسا عام فہم لفظ بھی لکھا جا سکتا تھا۔ رہی انگریزی کی بات تو گزشتہ دنوں ہندوستان میں اردو کے مشہور ’جشن ریختہ‘ میں اردو سے اظہار محبت تک انگریزی میں کیا گیا، {{“I Love Urdu”جس سے ہمیں وہ شعر یاد آگیا
اردو کو مٹا دیں گے ہم ایک روز جہاں سے
ظالم نے تو یہ بات بھی اردو میں کہی ہے
یعنی اردو سے نفرت اردو میں اور محبت انگریزی میں! بھئی سچ پوچھیے تو ہمیں تو یہ اردو کی ہی بد نصیبی لگتی ہے کہ ہمارے دیس میں اردو میں لکھ کر شہرت کمانے والے اور اردو کے نام کی روٹیاں توڑنے والوں نے بھی عمریں گزار دیں، لیکن اردو کو اپنے دل میں جگہ دینے سے گریز کیا!
۔۔۔
صد لفظی کتھا
’’سہولت‘‘
’’شہروں میں بہت سا وقت سفر کی نذر ہوتا ہے۔
اس لیے دنیا بھر میں دوران سفر بے شمار سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔‘‘
امر نے اخبار پڑھتے ہوئے ثمر کو دیکھا، پھر بولا:
’’اب گاڑی ان کے لیے ان کا گھر، بینک، دفتر اور کلاس روم سب کچھ ہے۔۔۔!‘‘
یکایک ثمر کے ذہن کے پردے پر کئی پروفیسر، علما، ڈاکٹر، صحافی، دانش وَروں اور عام شہریوں کے عکس گزرتے چلے گئے۔۔۔ وہ بولا:
’’لیکن ہمارے ہاں گاڑیاں اس کے علاوہ بھی تو کچھ ہیں!‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ امر نے استفسار کیا۔
’’ہماری گاڑیاں مقتل ہیں۔۔۔!‘‘
ثمر نے جواب دیا۔
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.