25 دسمبر مسیحی دھرم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جنم دن مانا جاتا ہے اور اس دن کو دنیا بھر کے عیسائی اپنے خاص مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔
دھرتی پر حضرت مسیحؑ کے آنے کی خبر سب سے پہلے نچلے طبقے کے لوگوں کو دی گئی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مذہبی رسم کو کرسمس کا نام دیا گیا۔ عیسائیوں کی روایات کے مطابق یسوع مسیحؑ اپنی جوانی میں بڑھئیوں کا کام کرتے تھے اور ان کے اردگرد عام لوگوں کے ساتھ ساتھ گداگروں اور بیماروں کی بھی بھیڑ رہتی تھی۔
ان میں کئی ایسے لوگ بھی ہوتے تھے جو اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے بھی حاضری دیا کرتے تھے۔ مسیحؑ کے ساتھ ان کے خاص شاگرد بھی ہوا کرتے تھے جن کو آج کے دور کا رضا کار بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان رضاکاروں میں زیادہ تر افراد، کسان، مچھیرے اور مزدور پیشہ ہوتے تھے۔ یسوع مسیحؑ نے ٹوٹی ہڈیوں، کوڑھ اور دیگر امراض میں مبتلا افراد کے ساتھ ساتھ مقروض لوگوں کو بھی انجیل مقدس سے خوشیوں بھرے علاج اور حل بتلائے۔ انہوں نے اپنے ماننے والوں پر مذہبی عبادات کے ساتھ ساتھ انسانوں میں رزق، پیار اور سماجی برابری پر بھی زور دیا ۔ اس حوالے سے ہمیں ایک تحریر شاہ محمد مری کے مضمون ’’مزدک‘‘ میں سے یوں ملتی ہے۔
’’یروشلم کے مسیح نے بھی تو یہی پیغام دیا تھا کہ ’’خدا کاروبار نہیں کرتا، آسمانی بادشاہت میں کوئی شخص منتخب شدہ نہیں ہوگا ۔ نہ کوئی ایسا انتخاب ہوگا۔ خدا تمام مخلوق سے یکساں محبت کرتا ہے۔ جیسے سورج اپنی عنایات کو خاص لوگوں تک محدود نہیں رکھتا، تمام انسان آپس میں بھائی ہیں۔‘‘
یسوع مسیح نے اپنے حواریوں سے یہی تو کہا تھا ’’یہ جو امیر لوگ ہیں ان کا خدا کی بادشاہت میں داخلہ بہت مشکل ہے‘‘ حواری اس بات پر حیران ہوئے۔ یسوع مسیح دوبارہ گویا ہوا: ’’بچو! جو لوگ مال و زر پر بھروسہ کرتے ہیں وہ خدا کی بادشاہت میں بمشکل داخل ہو پائیں گے۔ ایک امیر آدمی کے خدا کی بادشاہت میں داخلے کی بہ نسبت، ایک اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا آسان ہے۔‘‘ (مزدک۔ صفحہ 35۔ شاہ محمد مری)
کرسمس کو باقاعدہ منانے کی رسم سب سے پہلے یورپ میں دکھائی دیتی ہے۔ جہاں دسمبر کی طویل راتوں میں سردی اپنے پورے زوروں پر ہوتی ہے لیکن مسیحؑ کے چاہنے والے تمام رات چراغاں کیے رکھتے تھے۔ جاڑے کے ان دنوں میں چراغاں کے لیے کوئلے اور لکڑی کو ڈھونڈنا ہرگز آسان نہ تھا۔ لیکن ان جلتے بجھتے چراغوں میں اصل لو تو عشق کی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عیسائیت کا پرچار دھرتی کی کئی دوسری جگہوں تک جا پہنچا ۔ جس کے باعث کرسمس کی رسومات کا دائرہ کار ایک ہفتے سے بڑھ کر دس روز تک ہوگیا ۔
چوتھی صدی عیسوی میں پہلی بار چرچ سے باضابطہ فرمان جاری ہوا کہ وہ تمام ممالک جہاں پر مسیحی برادری حکومت میں ہے ادھر سرکاری طور پر چھٹی کا اعلان کیا جائے۔ روم میں ان چھٹیوں کی بنیاد زراعت کے دیوتا ’’سیٹورن‘‘ کے ساتھ باندھی جاتی ہے۔ ان چھٹیوں کے دوران اکثر اوقات عام افراد یا کسانوں میں سے کسی شخص کو شہر کا حاکم بنادیا جاتا تھا تاکہ ہر طبقے کے لوگ بنا کسی طبقاتی تقسیم کے ان ایام کی خوشیوں کو منا سکیں۔کرسمس کا دن یسوع مسیحؑ سے آج کے روز تک اپنی مختلف اشکال کے ساتھ دنیا کے الگ الگ مقامات پر دکھائی دیتا ہے۔ ’’کرسمس ٹری‘‘ کا رواج بھی انتہائی قدیم ہے۔ اس پر ایک تحریر شاہ محمد مری کی یوں ہے۔
’’روایتیں، کلاسیکل باتیں بڑی مزیدار ہوتی ہیں، کرسمس ٹری کے بارے میں ایک روایت ملتی ہے کہ جرمن قبیلہ کے لوگ جو گرج (گرند) کے دیوتا کی پوجا کرتے تھے، تھور کو خوش کرنے کے لیے بچوں کو قربان کر دیتے تھے۔ ولفرڈ نامی جرمن، اس فرسودہ رسم کے خلاف تھا۔ ایک مرتبہ تاریک اور سرد رات کو شاہ بلوط کے درخت کے نیچے ایک بچے کو قربان کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ ولفرڈ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ، موسمی طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شاہ بلوط کے درخت کے نیچے پہنچ گیا۔ جہاں بوڑھا پروہت مضبوطی سے بندھے ہوئے بچے کے گلے پر چھری رکھ چکا تھا۔
ولفرڈ نے آگے بڑھ کر پروہت کے ہاتھ کو روک دیا اور چھری چھین لی۔ اس اچانک جرأت کے مظاہرے پر لوگ حیران اور خوش ہوئے۔ ولفرڈ اور اس کے ساتھیوں نے تمام لوگوں سے گفتگو کی اور ان کو یسوع مسیحؑ کی نوید دی جسے انہوں نے قبول کیا۔ ولفرڈ نے کلہاڑے کی مدد سے اس درخت کو کاٹنا چاہا تو اچانک آسمانی بجلی گری اور اس درخت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ۔ پھر اس جگہ ایک سرسبز اور شاداب درخت اگا، جس کو ایور گرین کہا جاتا ہے۔ یوں یسوع مسیحؑ کے 732 سال بعد کرسمس ٹری کی روایت نے جنم لیا اور لوگ اس واقعہ کی یاد میں کرسمس ٹری سجانے لگے ۔ یسوع مسیحؑ صرف انسانی حقوق کے علمبردار ہی نہیں بلکہ امن و انصاف اور سلامتی کے علمبردار تھے‘‘ (مزدک صفحہ۔43)
ہندوستان میں کب عیسائی مذہب کے افراد آئے، اس بارے میں نامور مورخ ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ مسیحؑ کے بعد جب عیسائیت مصر تک جا پہنچی تو اس وقت کچھ عیسائی قبائل ساؤتھ انڈیا میں آن بسے۔ ان کی نسلیں آج بھی ان علاقوں میں ملتی ہیں اور وہ بڑے فخر کے ساتھ اپنے اجداد کا مصری ہونا بتلاتے ہیں۔ یورپی اور یونانی عیسائیوں کا کاروباری سلسلے میں آنا جانا غزنی اور غوری عہد میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ان کے بڑے مذہبی پیشواؤں کا ہندوستان کے دربار میں آنا، عہد اکبری میں نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں سردار خان کی ایک لکھیت ’’نقوش لاہور نمبر (ص۔68 )‘‘ پر اس طرح ہے۔
’’دین و مذہب کے معاملہ میں اکبر کی متجسس طبیعت نے گوا سے رومن کیتھولک مشنریوں کو 1594ء میں اپنے دربار میں آنے کی دعوت دی۔ اس وقت تک جنوبی ہند میں بھی مدراس اور گوا کے علاوہ کوئی باقاعدہ مسیحی ادارہ موجود نہ تھا اور شمالی ہند تو غیر ملکی عیسائیوں کی آمدورفت سے بالکل خالی تھا مگر 1595ء میں جبکہ اکبر لاہور میں مقیم تھا ۔ 5 مئی مذکورکو تین مسیحی علماء اس شہر میں پہنچے۔ یہ لوگ 3 دسمبر 1594ء کو گوا سے روانہ ہوئے تھے اور اکبری فرمان کے مطابق جس میں ان کی جان اور مال کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا تھا۔
چھ ماہ کی مدت میں راستہ طے کرکے لاہور پہنچے تھے۔ ان علماء کے یہ نام تھے۔ (1) فادر جیروم زیوئیر (2) فادر عمانوایل پینرو (3) برادر بینیڈکٹ ڈے گوس ۔ رومن کیتھولک مؤرخین کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ شہنشاہ اکبر نے ان علماء کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ مشرقی طرز پر ان کی مہمان نوازی اور خاطر و مدارت کی گئی۔ چنانچہ انہوں نے 1597ء میں لاہور میں ایک گرجا تعمیر کیا جس کا خرچ حکومت نے برداشت کیا ۔ جب اس گرجا کی رسم تقدیس ادا کی گئی تو شہنشاہ اکبر کشمیر کی سیر کے لیے گئے تھے۔ اس لیے لاہور کا گورنر اس رسم میں شریک ہوا ۔ افسوس ہے کہ رومن کیتھولک مؤرخ اس موقع پر لاہور کے گورنر کا نام نہیں لکھتا۔ آگے چل کر مؤرخ یوں رقم طراز ہے کہ اس سال گرجے میں بڑا دن بڑی دھوم دھام سے منایا گیا اور برادر بینیڈکٹ ڈے گوس نے ایک انتہائی خوبصورت چرنی تیار کی۔ جسے اہل شہر بڑی کثرت سے دیکھنے آتے تھے اور ایک مہینہ تک لوگ اس کی زیارت کرتے رہے۔ اس چرنی کے لیے شاہی خاندان کے ایک شہزادے نے بڑی بڑی قندیلیں عطا کی تھیں اور اس دن شاہی خاندان کے افراد نے غرباء کو خیرات تقسیم کی۔ شہزادہ سلیم کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ان مسیحی علماء سے دوستانہ تعلقات رکھتا تھا اور درباری امراء بھی اس گرجے میں آتے تھے۔ لیکن اب اس گرجے کا کوئی نشان باقی نہیں، نہ کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ وہ کہاں بنا تھا۔ اس کے بعد گوا سے مغل دربار میں مسیحی علماء کی آمدورفت جاری رہی مگر عالمگیر کے زمانہ میں یہ سلسلہ منقطع ہوگیا ۔‘‘
عہد حاضر کے کچھ مؤرخین کا یہ خیال ہے کہ عہد اکبری کا وہ چرچ اس جگہ تعمیر ہوا تھا جہاں آج کل ریگل سیکرڈ ہارٹ چرچ ہے۔ لیکن ابھی بھی اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اسکے علاوہ شاہی قلعہ لاہور میں آج بھی وہ کمرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں بادشاہ اکبر نے مسیحی مذہبی پیشواؤں کو اپنی مذہبی رسومات پوری کرنے کی اجازت دی تھی ۔ اکبر کے بعد مسیحی افراد کی دربار تک رسائی کا سلسلہ قائم رہا۔ 1617ء کو جیمز بادشاہ اول کی پہلی سفارت مغل دربار آئی۔ انگریز سفارت کار طامس راؤ تین برس تک جہانگیر کے دربار میں رہا۔ ان تین برسوں میں شاہی فرمان کے تحت انگریزوں کو سورت میں تجارتی کمپنی اور عمارت کے اردگرد فصیل تعمیر کرنے کی اجازت ملی۔ اسی دور میں انگریزوں نے آگرہ، اجمیر، احمد آباد اور بھرائچ میں اپنی کوٹھیاں تعمیر کیں۔
بادشاہ جیمز کے عہد میں کمپنی کا کاروبار بہت بڑھ گیا کیونکہ جیمز کی جانب سے انہیں بہت سی سہولیات حاصل تھیں۔ اس کے بعد بادشاہ چارلس کا عہد کمپنی کے لیے مشکلات کا وقت تھا کیونکہ بادشاہ کی اپنی شراکت داری ہالینڈ کی ایک کمنی کے ساتھ تھی۔ اس کے بعد چارلس دوئم کے عہد میں یہ کمپنی اپنی پوری طاقت کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کے طور پر ابھری ہندوستان سے بھر پور کمائی کی گئی ۔ چارلس دوئم نے ایک پرتگیزی شہزادی کے ساتھ شادی کی جو اپنے جہیز میں ایک جزیرہ بھی لائی جس کو محض دس پونڈ سالانہ کے لگان پر اٹھا دیا گیا۔ عہد حاضر میں وہ جزیرہ ممبئی کے نام سے معروف ہے۔ 1830ء میں کچھ عیسائی تبلیغی لاہور، عہد رنجیت سنگھ میں آئے، مہاراجہ نے ان کو انتہائی عزت و تکریم دی۔1847ء میں فادر کیفرل نام کا ایک مشتری آگرہ سے لاہور آیا اور ادھر کے مقامی عیسائیوں کے ساتھ مل کر ایک گرجا تعمیر کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ گرجا گھر بھی عوام الناس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ اس گرجا گھر کی نشاندہی سردار خان نے نقوش لاہور نمبر پر اس طرح کی ہے۔
’’ایک قدیم گرجا گورنمنٹ کالج (GCU) کی پشت پر ہے۔ یہ عمارت اس وقت جمنیزیم کہلاتی ہے۔ اس پر سنہ تعمیر 1858ء تحریر ہے۔ اس عمارت کی طرز تعمیر رومن ہے۔ ممکن ہے کہ یہ وہی گرجا ہو جو فادر کیفرل نے تعمیر کیا تھا۔‘‘
اس گرجے کو لاہور میں موجود گرجا گھروں میں سب سے قدیم بھی کہا جاسکتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے پورے زور کے ساتھ ابتدا میں گوا میں دکھائی دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی انگریز عہد کے قدیم گرجے ادھر دکھائی دیتے ہیں۔ ہندوستان میں مسیحی افراد کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زائد ہے۔ ممبئی میں ایک بڑی تعداد میں مسیحی افراد بستے ہیں۔ لیکن ان کی جڑیں بھی گوا سے ملتی ہیں۔ تمام ہندوستان اور خاص کر گوا میں کرسمس کو بڑے ہی پیار سے منایا جاتا ہے۔ یہاں پر کرسمس کے روایتی ٹری کے ساتھ ساتھ کیلے اور آم کے درخت بھی سجائے جاتے ہیں۔
وہ لوگ جو مسیحی نہیں بھی ہوتے اس روز ایک دوسرے کو کرسمس کیک بھیجتے ہیں ۔ یورپ میں آج بھی کرسمس انہی قدیم روایات کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ روایات کس طرح مذاہب کے ساتھ آن ملتی ہیں اس کی مثال امریکہ میں ٹری کھانے کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ٹری کھانے کی روایت امریکہ میں صدیوں پرانی ہے لیکن آج یہ کرسمس کا کچھ اس طرح کا حصہ ہے کہ اس روز لاکھوں کی تعداد میں ٹری کاٹے اور بیچے جاتے ہیں۔ امریکہ میں کرسمس ٹری کی تیاری بھی انتہائی خاص ہوتی ہے۔ ہر برس تقریباً تین سے ساڑھے تین کروڑ کرسمس ٹری بکتے ہیں۔ کئی ریاستوں میں پندرہ پندرہ برس قبل ہی پیشگی ادائیگی کردی جاتی ہے۔ امریکہ، انگلینڈ اور یورپ کے کئی ممالک میں دسمبر کے آخری عشرے میں اشیاء کی قیمتیں کئی گنا کم کردی جاتی ہیں۔ ہندوستان، پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کے تارکین وطن اپنے پورے سال کی خریداری انہی دنوں میں کرتے ہیں۔
کرسمس کا ہمارے ادھر کے ادب پر بھی گہرا اثر رہا۔ قرۃ العین حیدر کے مشہور ناول ’’آخر شب کے ہمسفر (ص۔54) پر درج ذیل تحریر ملتی ہے۔
’’روزی کرسی کے پیچھے جاکھڑی ہوئی اور جھانک کر پڑھنا چاہا اور دل میں مسکرائی
گڈاولڈ پایا اور ان کے سالانہ کرسمس سرمن
’’کنارے کی نسبت جو ہمارے خداوند یسوع نے اے لوگو تمہارے لیے کیا ۔ اس نے جان کھوئی کہ تم اس کو دوبارہ حاصل کرو۔ گیہوں کا دانہ جو مرنے کے بعد‘‘
قلم کی رفتار تیز ہوگئی ’’وہ جو مسیح پر ایمان لائے، خداوند تیری برکت تیرے بندوں پر ہے۔ وہ روح القدس میں غوطہ دلائے جاویں گے کہ جو ہمارے لیے موا اور مدفون ہوا اور جی اٹھا اور وہ خداوند کا اکلوتا بیٹا، جو ہماری خاطر صلیب پر لٹک گیا۔ اس کا مبارک یوم ولادت منانے ہم آج جمع ہوتے ہیں اور اس خداوند کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اس ملک میں امن و امان کی حکومت کے زیر سایہ‘‘
پاکستان میں مسیحی برادری کے افراد پچاس لاکھ سے زائد ہیں۔ تقسیم کے بعد ملک کی ترقی میں ان کا خاص ہاتھ رہا ۔ اس کا ایک انتہائی مختصر ترین جائزہ اس طرح سے ہے کہ پاکستان ایئرفورس کے گیارہ، بری افواج کے پانچ اور نیوی کے ایک آفیسر انتہائی سینئر افسران میں سے تھے۔ پاکستان ایئرفورس کے پہلے چیف کے لیے اشتہارات دنیا بھر کے اخبارات میں دیئے گئے۔ پھر انتہائی سخت اصولوں کے بعد ایئرکموڈور جوزف تھیرن ٹو اووس کو یہ عہدہ دیا گیا جوکہ پولینڈ کے عیسائی تھے۔ ایئرفورس کے ساتھ ساتھ انہیں پاکستان سپیس کا چیف آرکیٹیکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ایئرکموڈور نذیر لطیف پاکستان ایئرفورس کی جانب سے ستارہ جرأت حاصل کرچکے ہیں ۔ ایئر وائس مارشل ایرک گورڈن بھی مسیحی دھرم میں سے تھے۔
ونگ کمانڈر مارون لزلی مڈل کارٹ کا نام بین الاقوامی شہرت یافتہ ہے۔ انہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بذات خود جنگی جہاز اڑائے۔ انہوں نے اردن کی جانب سے اسرائیل کے خلاف بھی جنگ میں حصہ لیا تھا ۔ 1971ء میں ان کا طیارہ انڈیا میں گر گیا۔ پاکستانی فوج کی رسومات کے مطابق ان کا جسد خاکی پاکستانی پرچم میں لپٹا گیا اور اردن کے بادشاہ کے خصوصی خط کے ساتھ ان کے سر کے نیچے اردن کا پرچم بھی رکھا گیا اور یوں ان کی تدفین ہوئی ۔ ایئرفورس ہی کے سلسلے میں ایم ایم عالم کے ساتھ ہمیشہ سیسل چودھری کا بھی ذکر کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کے اس جانباز پائلٹ کے نام پر ایک سڑک ریگل سیکرڈ ہارٹ چرچ کے ساتھ ہے جہاں آپ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سکول میں بطور پرنسپل کام کرتے رہے۔
ان کو گورا قبرستان لاہور میں فوج کی خاص سلامیوں کے ساتھ دفن کیا گیا۔ ان کے والد کا نام ایف ای چودھری تھا جو تقسیم سے قبل انتہائی مشہور فوٹو گرافر تھے۔ قائداعظم کی کئی نایاب تصاویر ان ہی کے ہاتھوں کی کھینچی ہوئی تھیں وہ اس وقت چاچا فوٹو گرافر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ سیسل چودھری کے بڑے بھائی کا نام سری آل چودھری تھا جوکہ باٹا کمپنی کے مینجر تھے۔ ان کی بیگم ایس اے چودھری (سینڈرا اکین چودھری) محکمہ سوئی نادرن سے سینئر ایچ آر آفیسر ریٹائر ہوئیں ۔ انہیں انگریزی زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان بولنی اور لکھنی نہیں آتی تھی۔ ان کے اکثر ماتحت ان کی میز پر کھڑے ہوکر ان کا مذاق بنا کر چلے جاتے تھے لیکن انہیں کچھ نہ معلوم پڑتا ۔ پھر ان کے ایک ماتحت نواز نے انہیں اردو اور پنجابی سکھائی۔ نواز ابھی تک ان کی خاندانی جائیداد کے معاملات دیکھتے ہیں کیونکہ ریلوے ہیڈکوارٹر لاہور کے قریب سینٹ اینڈریو چرچ کی تعمیر و انتظام میں اس خاندان کا خاصا بڑا ہاتھ رہا ہے۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ کے حوالے سے بھی جسٹس کارنیلسن کا نام انتہائی معروف ہے۔ لاہور میں نہر کا ایک انڈر پاس ان کے نام کا ہے۔ ہیوکیچ یولی کا نام بچوں کی پڑھائی کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت یافتہ ہے۔ ان کو ملک کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ بچوں ہی کی پڑھائی کے حوالے سے ہلڈا سعید کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے بھی بہت کام کیا۔ انہوں نے ایک مسلمان شخص سے شادی کی۔ کیتھڈرل کینٹ چرچ سکول کے پرنسپل ایس کے داس کا نام بھی تعلیمی خدمات کے حوالے سے انتہائی قابل عزت ہے ۔ ڈاکٹر دلشاد نجم آئی جی پولیس ریٹائر ہوئے ۔ جی ایم سلکس کا نام ادب کے حوالے سے انتہائی معتبر ہے۔ نسرین نجم بھٹی کو پاکستانی امرتا پریتم بھی کہا جاتا ہے۔
ان کی ایک نظم ’’وے توں کیڑا ایں‘‘ اسی طرح زمانے بھر میں معروف ہوئی جس طرح امرتا جی کی ایک نظم ’’اج اکھاں وارث شاہ نوں‘‘ مشہور ہوئی۔ وہ 2015ء میں لاہور ریڈیو سے سینئر پروڈیوسر ریٹائر ہوئیں۔ ان کی شادی زبیر رانا سے ہوئی جو شادی سے قبل مسلمان تھے اور اس شادی کے باعث عیسائی ہوگئے تھے۔ مصوری کے حوالے سے کولن ڈیوڈ انتہائی اعلیٰ درجے کے مصور مانے گئے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ این سی اے کے پروفیسر اعجاز فن مصوری اور سنگیت کے ماہر جانے جاتے تھے۔ میری ایملی گنزو وائلس رومن کیتھولک نن تھیں جن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے سرکار پاکستان نے انہیں ستارہ قائداعظم سے نوازا۔ ڈاکٹر کیتھرائنا مارتھا رتھ فاؤ کی عظیم انسانی خدمات زمانے بھر کے سامنے رہیں۔ ان ہی کی مانند ڈاکٹر گریڈ روڈ لیمنز کو پاکستانی مدر ٹریسا بھی کہا جاتا ہے۔
ان کی تمام زندگی غریبوں اور بے گھر افراد کی خدمت میں گزری۔ انہیں ستارہ قائداعظم سے نوازا گیا۔ ویلس متھائس پاکستان کی جانب سے پہلے عیسائی کرکٹر تھے۔ انہوں نے 1955-1965ء تک پاکستان کی جانب سے 21 ٹیسٹ میچ کھیلے، وہ سلپ کے انتہائی اعلیٰ فیلڈر بھی تھے۔ ان کے بعد سیالکوٹ سے زاہد فضل بھی 1990ء کی دہائی کے بہترین بلے بازوں میں سے ایک تھے۔ جیک برٹو اولمپین ہاکی کے کھلاڑی تھے جوکہ رائٹ ہاف کھیلتے تھے۔ ملک کی سیاست میں الیگزنڈر جان ملک، جے سالک، شہباز بھٹی اور مس کویتا مینوئیل کے نام جانے جاتے ہیں۔ سنگیت کے شعبہ میں آئرن پروین، سلیم رضا، اے نیئر (آرتھر نیئر) اور ایس بی جان (سنی بینجمن جان) کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ عہد حاضر میں کلاسیکل موسیقی کے حوالے سے استاد پرویز پارس کا نام انتہائی اہم ہے۔ بنگالی فلم اسٹار شبنم بھی مسیحی برادری میں سے تھیں ان کا اصل نام ’’جھربھاسک‘‘ تھا۔ ان کی خدمات پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے سالوں پر محیط ہیں۔ عہد حاضر کے مشہور ٹی وی ایکٹر ڈائریکٹر عاشر عظیم بھی عیسائی مذہب کے پیروکار ہیں ۔ محکمہ سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ سے ونسنٹ پال ڈپٹی چیف اکاؤنٹنٹ اور امتیاز مسیح ایگزیکٹو اکاؤنٹنٹ ریٹائر ہوئے ہیں۔
تاریخ کے صفحات پر جب بھی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا ذکر ہوگا تو وہ تارا مسیح کے بغیر نامکمل مانا جائے گا۔
لاہور اور مسیحی برادری پر ایک بار پھر نگاہ ڈالی جائے تو لاہور کیتھڈرل چرچ کا ذکر ضرور کیا جائے گا جس کی ابتدائی تعمیر کے بارے میں سردار خان نے اس طرح تحریر کیا تھا۔
’’ریگل سینما کے محاذ میں ٹمپل روڈ اور لارنس روڈ کے چوک پر رومن کیتھولک کیتھڈرل کی فلک بوس عمارت کھڑی ہے۔ اس عمارت کا سنگ بنیاد 1904ء میں بشپ ڈاکٹر گاڈ فری نے رکھا تھا اور وہی اس کے بانی تھے۔ ڈاکٹر موصوف نے اسی سنہ میں انتقال کیا اور انہیں اس کی تکمیل دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔ اس گرجا گھر کی عمارت رومن طرز کی ہے۔ اس میں ایک بلند مینار، ایک وسیع گنبد اور چند چھوٹے مینار ہیں۔ بڑے مینار کی بلندی 165 فٹ اور گنبد 120 فٹ بلند ہے۔ یہ گرجا درحقیقت اپنی عظمت و شان کے حوالے سے روسہ کے بعض گرجا گھروں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس کے ستونوں کے لیے آگرہ سے سنگ سفید منگوایا گیا تھا۔ دروازے اور کھڑکیاں اور نشستیں ساگوان لکڑی کی ہیں۔ تمام گرجا کا طول دو سو فٹ ہے اور تالار کا عرض 68 فٹ اور نعلی تالار کا طول 125 فٹ ہے۔ اس کی کھڑکیوں کے شیشوں پر مسیحی مقدسین کی تصویریں بنی ہوئی ہیں جنہیں بیلجیئم کے ایک مشہور فن کار نے تیار کیا تھا۔ تالار میں دو بڑے خوش قطع مجسمے رکھے ہیں۔ ایک جناب مسیحؑ کا اور ایک حضرت مریمؑ صدیقہ کا۔
اس عمارت کا نقسہ شیراتی ٹورپ (بیلجیئم) کے ایک میر عمارت نے تیار کیا تھا ۔ غرض یہ عمارت 1907ء میں بن کر مکمل ہوئی۔‘‘
1980ء کی دہائی تک کرسمس کے دن مسیحی برادری کی ایک بڑی تعداد لاہور کے باغات، سینما گھروں اور مال روڈ پر چلتی پھرتی دکھائی دیتی تھی۔ خواتین عموماً سفید رنگ کے لباس میں ملبوس ہوتیں جبکہ مرد حضرات نیوی بلیو اور کالے رنگ کے تھری پیس سوٹ میں ہوتے تھے جبکہ بچے رنگدار لباسوں میں نظر آتے تھے، پرانے لاہور کے اندرونی محلے ’’محلہ نمدگراں‘‘ کے ساتھ ایک کوچہ ،کوچہ بھون شاہ کے نام سے معروف تھا۔ اس کے ساتھ ایک گلی ’’چوہڑیاں دی گلی‘‘ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ جس کے رہائشی کرسمس کے دن اس کو انتہائی پیار سے سجاتے تھے جس میں کرسمس ٹری بھی نمایاں طور پر دکھائی دیتا تھا۔ اس گلی کو دیکھنے کے لیے تمام اندرون لاہور کے رہائشی اپنے بچوںکے ساتھ آیا کرتے تھے۔ اسی محلے کے ایک رہائشی ’’چنی چوہڑا‘‘ سیاست کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔ ان کو اپنے وقت کے کئی بڑے سیاسی لیڈران ملنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ عہد حاضر میں گلی کے رہائشی اپنے پرکھوں کے گھر بیچ کر باہر کے علاقوں میں جا رہے ہیں اور یہ گلی پنسار منڈی والوں کا گودام بنتی جا رہی ہے۔
سینتا کلاز کی روایت سویڈن سے اٹھ کر دنیا بھر کے مسیحیوں کا حصہ بن گئی۔ ہندوستان، پاکستان کی کئی دوسری جگہوں کے ساتھ ساتھ لاہور میں بھی اس کو سینتا بابا کے نام سے پکارا جاتا ہے اور کرسمس کو بڑا دن کہا جاتا ہے۔ مسیحی برادری کی ان خوشیوں میں مسلمان شانہ بشانہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو اللہ کا نبی مانتے ہیں ۔ قرآن کریم کے سولہویں پارے میں ایک مکمل سورۃ مبارکہ حضرت مریمؑ کے نام پر ہے جس میں حضرت مریمؑ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔
The post ’کرسمس‘ بڑا دن، خوشیوں بھرا دن appeared first on ایکسپریس اردو.