یہ 21 اکتوبر کی سہ پہر تھی کہ بھارت کی ایلیٹ خفیہ ایجنسی ’’ را ‘‘(ریسرچ اینڈ اینالائیسز ونگ) کا سربراہ، انیل دھسمنا ہانپتا کانپتا وزیراعظم ہاؤس پہنچا۔ اسے فوراً بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملوایا گیا۔
انیل دھسمنا کافی پریشان معلوم ہوتا تھا۔ نریندر مودی بھی گھبرا سے گئے۔ انیل نے بھارتی وزیراعظم کو بتایا کہ دبئی میں را کا زیر زمین نیٹ ورک منظر عام پر آچکا اور وہ پہلے کی طرح پوشیدہ نہیں رہا۔ خاص بات یہ تھی کہ اس نیٹ ورک کو طشت ازبام کرنے کی ذمے دار بھارت ہی کی دوسری خفیہ ایجنسی، سی بی آئی (سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن) ہی نکلی۔را چیف نے پھر وزیراعظم پر زور دیا کہ سی بی آئی کے سربراہ، الوک ورما کو ہٹا دیا جائے۔اسی کی وجہ سے دبئی میں را کا خفیہ نیٹ ورک افشا ہوا ۔تاہم یہ کام اتنا آسان نہیں تھا۔
سربراہ سی بی آئی کا عہدہ مضبوط کرنے اور اس کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بنائے گئے تھے۔ مقصد یہی تھا کہ اگر سی بی آئی حکومت وقت کے وزراء یا سرکاری افسروں پر لگنے والے الزامات کی چھان بین کرنے لگے، تو وزیراعظم بھی باآسانی اسے ہٹا نہ سکے۔
وزیراعظم ہاؤس میں کھیلا گیا ڈراما
بہرحال نریندر مودی نے اسی وقت سربراہ سی بی آئی، الوک ورما کو وزیراعظم ہاؤس بلوالیا۔ بھارتی وزیراعظم نے پھر الوک ورما کا موقف سنا اگرچہ وہ شدید غصے میں تھے۔مودی نے پھر انہیں کہا کہ وہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال سے مل لیں۔ وزیراعظم ہاؤس کے قریب ہی مشیر کا دفتر تھا۔مشیر امور قومی سلامتی بھی الوک ورما سے کافی ناراض نظر آیا۔ اس نے سربراہ سی بی آئی سے کہا کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات میں را کا نیٹ ورک ختم کردیا جس کے سہارے بھارت اس اہم عرب اسلامی ملک میں اپنے روابط بڑھا رہا تھا۔اجیت دوال نے اس معاملے کو ملک کے لیے ناقابل تلافی نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب را کو نئے سرے سے اپنا زیر زمین نیٹ ورک بنانا پڑے گا۔ دوال نے پھر الوک ورما سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفی دے دیں۔ ورما کہنے لگے کہ میں اپنے دفتر پہنچ کر بھیج دیتا ہوں۔
الوک ورما دفتر جانے کے بجائے گھر چلے گئے۔ انہیں کہا گیا تھا کہ وہ بذریعہ ای میل استعفیٰ بھجوا دیں مگر سربراہ سی بی آئی نے تو چپ سادھ لی۔ اگلے دن اجیت دوال نے انہیں موبائل پر فون کیا مگر الوک ورما نے اسے نہ سنا۔ تبھی مشیر امور قومی سلامتی نے وزیراعظم مودی سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ الوک ورما استعفیٰ دینے سے کترا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے انھیں فوراً جبری طور پہ رخصت کرنے کا حکم دے دیا۔ اس طرح سی بی آئی میں ایک سال سے جاری ہنگامہ خیز ڈراما اپنے انجام کو پہنچا۔
مشرقی پاکستان میں ہائی برڈ جنگ
سی بی آئی، را اور آئی بی (انٹیلی جنس بیورو) بھارت کی تین سب سے بڑی خفیہ ایجنسیاں ہیں۔ سی بی آئی اور آئی بی اندرون بھارت میں جاسوسی کی سرگرمیاں انجام دیتی ہیں۔ مزید براں سی بی آئی ہر قسم کے جرائم سے متعلق خصوصی اور ہائی پروفائل کیسوں کی تفتیش بھی کرتی ہے۔ یہ افرادی قوت کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی ہے۔ را بیرون ممالک میں جاسوسی کی سرگرمیاں انجام دیتی ہے۔ماضی میں بھارتی خفیہ ایجنسیاں اندرون اور بیرون ملک کافی متحرک رہی ہیں۔ انہوں نے ہی مشرقی پاکستان میں ’’ہائی برڈ جنگ‘‘ کا آغاز کیا۔ اسی جنگ کے ذریعے باقاعدہ منصوبہ بندی سے بنگالی مسلمانوں میں مغربی پاکستان کے حکمرانوں اور ہم وطنوں کے خلاف نفرت پھیلائی گئی۔
یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ ان کا استحصال کررہے ہیں۔ اس طرح مشرقی پاکستان میں بغاوت کا ماحول بنا دیا گیا۔ اس ہائی برڈ جنگ نے آخر کار 1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کا المیّہ جنم دے ڈالا۔مغربی پاکستان میں بھی بھارتی خفیہ ایجنسیاں بلوچستان، سندھ اور سرحد کے علیحدگی پسندوں کو شہ دیتی اور ہر ممکن مدد کرتی رہیں۔ چنانچہ علیحدگی پسند لیڈروں کی وجہ سے مغربی پاکستان میں بھی وقتاً فوقتاً شورش برپا ہوئی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان میں ہائی برڈ جنگ جاری رہی۔حال ہی میں پاک فوج کے آرمی چیف نے اس جانب اشارہ کیا تھا۔
لالچ و ہوس کا حملہ
اکیسویں صدی میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی اعلیٰ قیادت لالچ و ہوس کا نشانہ بن گئی۔ اب جذبہ حب الوطنی پس پشت چلاگیا اور ذاتی مفادات آگے چلے آئے۔ اس تبدیلی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب بھارتی حکومت نے سرمایہ دارانہ پالیسیاں اختیار کیں، تو حکومتی اداروں میں پیسے کی ریل پیل ہونے لگی۔ یہ پیسا ایسی چیز ہے جو مضبوط کردار کے حامل انسانوںکو بھی اپنی خیرہ کن چمک سے اندھا کردیتا ہے۔ چنانچہ کئی بھارتی سیاست داں، سرکاری افسر، صنعت کار، تاجر وغیرہ کرپشن کی دلدل میں پھنسنے لگے۔
اس کرپشن کی داستان نہایت ڈرامائی اور عبرت انگیز ہے۔2005ء میں کانگریس برسراقتدار آگئی۔ اس کے دور حکومت میں کرپشن کا جن خوب پھلا پھولا۔ چنانچہ وزیروں اور افسروں نے کرپشن کے مختلف طریقے اختیار کرکے سرکاری خزانہ لوٹا اور راتوں رات ارب پتی بن بیٹھے۔ جب بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے افسروں نے دیکھا کہ حکمران طبقے کا ہر طاقتور رکن کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے تو وہ کیوں پیچھے رہتے؟ وہ بھی کرپٹ ہوکر مال کمانے لگے۔سی بی آئی، آئی بی اور را کے بھی اعلیٰ افسروں کا بنیادی طریق واردات ملتا جلتا تھا۔ جب بھی کسی جرائم پیشہ آدمی کا کیس ان کے ہاتھ لگتا تو وہ اسے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی بنالیتے۔ افسر مجرم کے آگے یہ چارا پھینکتے کہ اگر وہ انہیں معقول رقم کی رشوت دے ڈالے، تو اس پر ہاتھ ہولا رکھا جائے گا۔ مطلب یہ کہ اس کے کیس کی ڈھیلی ڈھالی تفتیش ہوگی تاکہ عدالت اسے رہا کرنے پر مجبور ہوجائے۔
کرپشن کا نیا روپ
یہ طریق واردات بہت کامیاب ثابت ہوا۔ جرائم پیشہ لوگ سی بی آئی اور آئی بی کے افسروں کو منہ مانگی رشوت دیتے اور رہا ہوجاتے۔ جب ایک ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی کرپٹ ہوجائیں، تو وہاں عدل و انصاف کی مٹی پلید ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے، 2005ء سے 2014ء تک بھارت میں قانون کی حکمرانی بہت کمزور رہی اور کئی وزراء، سرکاری افسروں، سیاست دانوں اور صنعت کاروں وغیرہ کے سیکڑوں مالی سیکنڈل سامنے آئے۔
2014ء میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے نریندر مودی کا بنیادی نعرہ یہی تھا کہ وہ برسراقتدار آکر بھارت سے کرپشن ختم کریں گے۔ملک میں گڈ گورننس قائم کی جائے گی اور یہ کہ قانون کی حکمرانی کے دور کا آغاز ہوگا۔ چونکہ مودی پر مالی کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا لہٰذا بھارتی عوعام نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اقتدار تک پہنچا دیا۔نریندر مودی نے بے شک ایسے سیاست داںوزیر بنائے جن پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں تھا۔ تاہم وہ مختلف قسم کی کرپشن میں مبتلا ہوگئے… وہ یہ کہ اہم سرکاری و سیاسی عہدوں پر من پسند افراد کا تقرر کرنے لگے۔ مقصد یہ تھا کہ یہ افراد بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل کرسکیں۔ یہ دونوں جماعتیں اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ لہٰذا خاص طور پر مودی دور حکومت میں صرف وہی سرکاری افسر ترقی پانے لگا جو درج بالا حکومتی ایجنڈے کے مطابق نظریہ ہندتوا سے متفق ہو۔
اصول پسند افسر رکاوٹ بن گیا
الوک ورما ایک لبرل ذہن رکھنے والے آدمی ہیں۔ وہ مذہبی بنیاد پر انسانوں کو تقسیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر مذہب میں اچھے اور برے لوگ ملتے ہیں۔ لہٰذا انسانوں کی تقسیم کا پیمانہ اچھائی اور برائی ہونا چاہیے۔ تاہم وہ دوران ڈیوٹی صرف پیشہ وارانہ امور پر دھیان دیتے ۔ بھارتی سکیورٹی حلقوں میں انہیں دیانت دار، محنتی اور مخلص پولیس افسر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اسی لیے وزیراعظم مودی، چیف جسٹس سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف پر مشتمل کمیٹی نے الوک ورما کو فروری 2017ء میں سی بی آئی کا سربراہ مقرر کیا۔ تب وہ دہلی کے چیف پولیس کمشنر تھے۔
وزیراعظم مودی کو مگر جلد ہی معلوم ہوگیا کہ الوک ورما نہ صرف اصول و قوانین پر عمل کرنے والے دبنگ سرکاری افسر ہیں بلکہ وہ حکومتی ایجنڈے سے بھی متفق نہیں۔ یعنی وہ بھارت کو ہندو ریاست کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے ۔ الوک ورما کی تمنا تھی کہ بھارت اپنا سیکولر تشخص برقرار رکھے اور سرکاری سطح پر کسی مذہب کو دوسرے مذاہب پر فوقیت نہ دے۔صرف میرٹ ایک افسر کا بنیادی وصف ہونا چاہیے۔ یہ سوچ مگر نریندر مودی اور بی جے پی اور آر ایس ایس کے دیگر لیڈروں کو بالکل نہیں بھائی۔
کٹر قوم پرست مقابلے میں
جب الوک ورما نے مودی سرکار کے ایجنڈے پر چلنے سے انکار کردیا تو بھارتی وزیراعظم نے اس دیانت دار سرکاری افسر کو قابو کرنے کی خاطر ایک چال چلی۔ انہوں نے اپنے خاص آدمی، راکیش استھانہ کو سی بی آئی کا اسپیشل ڈائریکٹر بنادیا۔راکیش استھانہ کٹر ہندو( قوم پرست) پولیس افسر ہے۔ اس کی وجہ سے بھارت میں کئی مسلمان نوجوان ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر جیلوں میں پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ یہ راکیش استھانہ ہی ہے جس نے 2002ء میں تفتیش کے ذریعے یہ قرار دیا کہ گودھرا ریلوے اسٹیشن میں مسلمانوں نے منصوبہ بندی سے ہندو یاتریوں کی ریل کو آگ لگائی تھی۔ اسی حادثے کے بعد ریاست گجرات میں ہندو دہشت گردوں نے مسلمانوں کا خوفناک قتل عام کیا تھا۔الوک ورما یہ بھی جانتے تھے کہ راکیش استھانہ کرپٹ افسر ہے۔
وہ جرائم پیشہ افراد کو قانون کی گرفت میں آنے سے بچانے کے لیے بھاری بھرکم رشوت لیتا تھا۔ یہی نہیں، اس کی آشیرباد سے مختلف علاقوں میں جرائم پیشہ افراد نے شراب بیچنے اور جسم فروشی کے دھندے شروع کررکھے تھے۔ یہ دھندے چلانے والے راکیش استھانہ کو ہر ماہ بھتہ دیتے تھے۔درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ راکیش استھانہ ایک مذہبی جنونی اور کرپٹ افسر ہے۔ لیکن نریندر مودی کے نزدیک یہ دونوں خامیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں کیونکہ راکیش بھی بھارت کو ہندو ریاست میں بدلنے کا متمنی ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ بی جے پی 2019ء میں بھی برسراقتدار آجائے تاکہ بھارت کو ہندو راشٹریہ بنانے کا خواب پورا ہوسکے۔راکیش استھانہ کو وزیراعظم کی حمایت حاصل تھی، اس لیے وہ سی بی آئی کے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے بعض ساتھی افسروں کو بھی ساتھ ملالیا اور وہ الوک ورما کے احکامات کی نفی کرنے لگے۔ اس طرح بھارت کی ایلیٹ خفیہ ایجنسی میں اعلیٰ ترین سطح پر اختیارات کی جنگ شروع ہوگئی۔
رافیل طیاروں کی تحقیقات
بھارت میں ایک سرکاری ادارہ، سنٹرل ویجیلنس کمیشن سرکاری افسروں کی کرپشن کے خلاف تفتیش کرتا ہے۔ الوک ورما نے اس کمیشن کو درخواست دی کہ راکیش استھانہ کی کرپشن کے خلاف چھان بین کی جائے۔ تاہم وزیراعظم مودی اور بی جے پی کے دیگر وزراء کے شدید دباؤ کی وجہ سے ویجیلنس کمیشن بھی ان کے منظور نظر، راکیش کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرسکا۔ اس سے راکیش استھانہ کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔آر ایس ایس اور بی جے پی کے سبھی لیڈر چاہتے تھے کہ لبرل ذہن رکھنے والے الوک ورما کو برطرف کردیا جائے۔
انہوں نے دراصل سی بی آئی کے افسروں کو اسلامی تنظیموں اور مسلمان لیڈروں کے خلاف غیر قانونی اقدامات کرنے سے بھی روک دیا تھا۔ اس پر قوم پرست حکمران طبقہ سربراہ سی بی آئی سے سخت ناراض تھا۔ تاہم وزیراعظم مودی انہیں ہٹانے کے حق میں نہیں تھے۔ وجہ یہ کہ اسکینڈلوں میں گھری مودی حکومت اس طرح ایک اور سیکنڈل کی لپیٹ میں آجاتی۔ وزیراعظم نے ساتھیوں کو بتایا کہ الوک ورما یکم فروری 2019ء کو ریٹائر ہوجائے گا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ چند ماہ اسے برداشت کرلیا جائے۔
الوک ورما مگر اپنے ہم وطنوں اور دنیا والوں کو بھی دکھانا چاہتے تھے کہ مودی حکومت میں سب کچھ اچھا نہیں اور وہ بھی مختلف خفیہ طریقوں اور چالوں سے کرپشن کررہی ہے۔ مثال کے طور پر جب وزیراعظم مودی نے فرانس سے رافیل طیارے خریدے، تو بھارت میں ان کی تیاری کا ٹھیکہ اپنے امیر و بااثر سرپرست، انیل امبانی کی کمپنی، ریلائنس ڈیفنس لمیٹڈ کو دلوا دیا۔ یہ ٹھیکہ دینے کی خاطر کسی قسم کے ٹینڈر نہیں کھولے گئے۔ستمبر 2018ء میں بھارتی سول سوسائٹی کے اہم لیڈروں نے الوک ورما سے مطالبہ کیا کہ وہ رافیل معاہدے میں مودی حکومت کی کرپشن کے بارے میں تحقیقات کرے۔ سربراہ سی بی آئی نے یہ مطالبہ منظور کرلیا۔ انہوں نے پھر وزارت دفاع کو خط لکھا کہ رافیل ڈیل سے متعلق تمام کلاسیفائیڈ (خفیہ) فائلیں سی بی آئی کو فراہم کردی جائیں۔
الوک ورما کے خلاف چال
اس خط نے مودی حکومت کے ایوانوں میں ہلچل مچادی۔ سی بی آئی اگر رافیل معاہدے کی چھان بین کرتی تو مودی حکومت کی کرپشن سامنے آجاتی۔ یوں 2019ء میں دوبارہ الیکشن جیتنے کا خواب مٹی میں مل جاتا۔ اب وزیراعظم مودی کو احساس ہوا کہ الوک ورما حکومت کے لیے سخت خطرہ بن چکے۔ ان کے حکم پر راکیش استھانہ نے اپنے باس کے خلاف ایک چال چلی۔ اس چال ہی نے مگر الوک ورما کو بروفراختہ کردیا اور انہوں نے ایسا کام کر ڈالا جو پہلے کبھی نہیںہوا تھا۔راکیش استھانہ کی چال یہ تھی کہ اس نے سربراہ سی بی آئی پر یہ الزام لگادیا کہ انہوں نے ستیش سنا سے دو کروڑ روپے رشوت لی ہے۔ مقصد یہ تھا کہ سی بی آئی اس کے خلاف تفتیش نہ کرے اور ستیش سنا کی جان چھوڑ دے۔ راکیش استھانہ کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ چال چل کر اس نے بھّڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ۔ بلکہ اس چال نے بھارتی خفیہ ایجنسیوں میں عرصہ دراز سے جاری کرپشن کا بھانڈا بھی پھوڑ ڈالا۔
بھارت کا مشہور مڈل مین
ستیش سنا حیدر آباد سے تعلق رکھنے والا سرمایہ کار ہے۔ اس نے چند سال قبل معین اختر قریشی کی کمپنیوں میں بھی سرمایہ کاری کی تھی۔ معین اختر قریشی رام پور کا رہائشی ہے۔ اس نے 1993ء میں بھارت سے گوشت بیرون ممالک درآمد کرنے کا کاروبار شروع کیا۔ 2005ء تک وہ بھارت میں گوشت درآمد کرنے والا سب سے بڑا کاروباری بن گیا۔ اس نے دیگر شعبوں میں بھی کمپنیاں کھولیں اور خوب پیسا کمانے لگا۔معین قریشی مگر قانون پسند شہری ثابت نہیں ہوا۔ وہ ٹیکس چوری کرنے لگا۔ پھر منی لانڈرنگ میں ملوث ہوگیا۔ یعنی اپنا پیسا چوری چھپے بیرون ممالک بجھوانے لگا۔ منی لانڈرنگ بھارتی خفیہ ایجنسیوں سے بھلا کیونکر چھپی رہتی، لیکن ان کے اعلیٰ افسر یہ جرم روکنے کے بجائے اسے بڑھاوا دینے لگے۔ ہوا یہ کہ سی بی آئی، آئی بی اور را… تینوں ایجنسیوں کے اعلیٰ افسر معین قریشی سے ’’نذرانہ‘‘ وصول کرنے لگے تاکہ وہ منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری جاری رکھ سکے۔ اس طرح قانون کے رکھوالے ہی منہ مانگی رشوت لے کر مجرموں کی پشت پناہی کرنے اور ان کے جرائم سے آنکھیں پھیرنے لگے۔
پیسے کے سہارے معین قریشی نے خاص طور پر سی بی آئی میں بہت اثرورسوخ حاصل کرلیا۔ وہ اس ایلیٹ خفیہ ایجنسی کے دو سربراہوں، اے پی سنگھ (نومبر 2010ء تا نومبر 2012ء) اور رنجیت سنہا (دسمبر 2012ء تا دسمبر 2014ء) کے بہت قریب رہا۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں سربراہوں کے دور میں معین قریشی کرپٹ و جرائم پیشہ افراد اور خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ افسروں کے مابین ’’مڈل مین‘‘ یا دلال بن گیا۔ اگر کوئی خفیہ ایجنسی کسی کرپٹ شخص یا جرائم پیشہ پر ہاتھ ڈالتی، تو وہ اپنی گلوخلاصی کرانے کی خاطر معین اختر قریشی سے بھی رابطہ کرتا۔معین پھر متعلقہ خفیہ ایجنسی کے کسی اعلیٰ افسر سے رابطہ کرتا اور پوچھتا ہے کہ وہ کرپٹ شخص کی جان چھوڑنے کا کتنا معاوضہ لے گا؟ یوں بات چیت شروع ہوجاتی اور معاملہ کسی رقم تک پہنچ کر ہی ختم ہوتا ۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں میں بہت کم افسر تھے جو روپے کی خیرہ کن چمک سے متاثر نہ ہوئے۔ بیشتر افسر عیش و آرام سے زندگی گزارنا چاہتے تھے لہٰذا ان میں اتنی اخلاقی طاقت نہ تھی کہ وہ گھر آئی لکشمی کو ٹھوکر مار دیتے۔ دنیاوی خواہشات پوری کرنے کی ہوس آخر کار انہیں رشوت لینے پر اکسا دیتی۔
مسلمان ہونے سے پھنس گیا
چونکہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے تمام اعلیٰ افسر مل جل کر کرپشن کا دھندا کررہے تھے لہٰذا معین قریشی نے بلا خوف وخطر اپنا کھیل جاری رکھا۔ اس کی مدد سے کئی کرپٹ سیاست داں، تاجر، صنعت کار، سرمایہ کار وغیرہ قانون کی گرفت میں آنے سے بچ گئے۔ انہوں نے حکومت کو تو ٹیکس نہیں دیئے، بس خفیہ ایجنسیوں اور دیگر سرکاری محکموں کے افسروں کو رشوت دے کر اپنا کام چلاتے رہے۔بھارتی خفیہ ایجنسیوں اور امیر کرپٹ شخصیات کے مابین معاملہ فٹ کرانے میں دیگر مڈل مین بھی ملوث تھے مگر مسلمان ہونے کی وجہ سے معین قریشی کو زیادہ شہرت ملی۔ خاص طور پر ہندو قوم پرست اس مسلمان کی شہرت اور اثرورسوخ دیکھ کر بہت خار کھاتے تھے۔
یہی وجہ ہے، 2014ء میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر معین قریشی کو ’’فکس‘‘ کردیں گے۔ جب حکومت مل گئی، تو مودی کے حکم پر معین قریشی کے خلاف چھان بین شروع ہوگئی۔ اب ناکردہ جرائم بھی اس کے سر تھوپ دیئے گئے کیونکہ وہ مسلمان ہونے کے باوجود بھارتی معاشرے میں طاقتور شخصیت بن گیا تھا۔ بہرحال معین قریشی نے نیک راہ چھوڑ کر گناہ کیے تھے اور اب اسے ان کا حساب دینا تھا۔ بھارتی عدالتوں میں اس پر مختلف جرائم کے سلسلے میں مقدمے زیر سماعت ہیں۔معین قریشی سے روابط رکھنے کے باعث ستیش سنا بھی قانون کی گرفت میں آگیا تاہم وہ سی بی آئی کے اعلی افسر،راکیش استھانہ سے آنکڑا جوڑنے میں کامیاب رہا۔ راکیش نے ستیش کو بتایا کہ اگر وہ پانچ کروڑ روپے ادا کردے تو اسے شامل تفتیش نہیں کیا جائے گا۔ چناں چہ ستیش قسطوں میں راکیش کو رشوت کی رقم دینے لگا۔ وہ ستمبر 2018ء تک راکیش کو دو کروڑ روپے ادا کرچکا تھا۔ راکیش کی وجہ سے ہی سی بی آئی اور آئی بی، دونوں نے ستیش سنا کے خلاف ہاتھ ’’ہولا‘‘ رکھا۔
متحدہ عرب امارات میں نیٹ ورک
مجرم چاہے کتنا ہی چالاک و عیار ہو، وہ ایسی کوئی غلطی ضرور کر بیٹھتا ہے جس کے نتیجے میں قانون کے شکنجے میں کسا جاتا ہے۔ راکیش استھانہ سے غلطی یہ ہوئی کہ اس نے الوک ورما پر یہ سنگین الزام لگا دیا کہ انہوں نے ستیش سنا سے دو کروڑ روپے رشوت لی ہے۔ اس الزام سے الوک ورما کی ساری عزت داؤ پر لگ گئی۔ انہوں نے فرض شناسی اور دیانت داری سے کام کرکے جو شہرت کمائی تھی، وہ شدید خطرے میں پڑگئی۔ ظاہر ہے، اس الزام نے الوک ورما کو نہایت طیش دلا دیا۔
الوک ورما کے کارندے ستیش سنا پر نظر رکھے ہوئے تھے۔انھوں نے موقع پاتے ہی اسے پکڑا اور ایک خفیہ مقام پر لے گئے۔ستیش سنا پہ پھر زور دیا گیا کہ وہ سچ بول دے ورنہ زیادہ مسائل میں گرفتار ہو سکتا تھا۔رہائی کی یقین دہانی پا کر ستیش نے پھر مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا۔ تب سی بی آئی کے دیگر اعلیٰ افسر بھی موجود تھے۔ تبھی ستیش نے بتایا کہ وہ راکیش استھانہ کو دو کروڑ بطور رشوت ادا کرچکا۔ ستیش نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 16 اکتوبر کو مزید تین کروڑ روپے منوج پرشاد کو ادا کرنے ہیں۔منوج پرشاد اور سومیش پرشاد را کے سابق اسپیشل سیکرٹری، دیوسر پرشاد کے بیٹے ہیں۔ کئی سال پہلے انہیں را کے انڈر کور ایجنٹ کی حیثیت سے دبئی بھجوایا گیا۔ دونوں بھائیوں کو کثیر سرمایہ دیا گیا تاکہ وہ دبئی میں اپنے کاروبار سیٹ کرسکیں۔ دبئی میں قدم جمانے کے بعد وہ متحدہ عرب امارات کی اعلیٰ سوسائٹی میں متحرک ہوگئے۔ وہ عرب شیوخ کے اعزاز میں دعوتیں کرنے لگے۔ مقصد یہ تھا کہ عربوں کے دل میں بھارت کے لیے نرم گوشہ پیدا کیا جاسکے۔ دونوں بھائیوں کی یہ بھی ذمے داری تھی کہ وہ پاکستانیوں کو اپنے دام میں پھانس کر را کا ایجنٹ بنالیں۔
یاد رہے، تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی مملکت، متحدہ عرب امارات کی آبادی تقریباً 94 لاکھ ہے۔ اس میں سے 26 لاکھ بھارتی شہری ہیں۔ 12 لاکھ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ اماراتی باشندوں کی تعداد تقریباً 11 لاکھ ہے۔ یہ تینوں ہی آبادی کے سب سے بڑے گروہ ہیں۔را کی سرتوڑ کوشش ہے کہ وہ اپنے ایجنٹوں کی مدد سے اماراتی حکومت میں زیادہ سے زیادہ اثرورسوخ بڑھالے تاکہ یو اے ای میں بھارت سے مزید باشندے آسکیں جبکہ اماراتی حکومت پاکستانیوں کو کم ملازمتیں دے۔ را کے ایجنٹوں کو منہ توڑ جواب دینے اور ان ان کی مذموم کوششیں ناکام بنانے کی خاطر پاکستانی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کے جوان بھی متحرک ہیں۔ پاکستان میں نئی حکومت آنے کے بعد دونوں ممالک میں نئے سرے سے گرم جوشی آئی ہے اور تعلقات بھی بہتر ہوئے۔ پچھلی پاکستانی حکومت کے دوران بعض ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے تعلقات کچھ سرد سے ہوگئے تھے۔
دبئی میں منوج اور سومیش کا طریق واردات یہ تھا کہ وہ شاندار پارٹیاں منعقد کرکے اماراتی حکومت کے اعلیٰ افسروں کو بلاتے تھے۔ ان پارٹیوں میں ہر کسی کی دلچسپیوں کا تمام سامان موجود ہوتا۔ یوں افسروں پر نوازشات کی بارش کرکے دونوں خفیہ را ایجنٹ اپنے جال میں پھنسالیتے۔ بعدازاں ان کے ذریعے مختلف طریقوں سے بھارتی حکومت کے مفادات پورے کیے جاتے اور دوسرے ممالک کے برعکس بھارت کو زیادہ فائدہ ہوجاتا۔
مال پانی وصول کیسے کیا جائے؟
اگست 2018ء میں راکیش استھانہ کو علم ہوا کہ الوک ورما کے آدمی اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ جان کر وہ محتاط ہوگیا۔ اس نے پھر رشوت لینا ترک کردی اور سوچنے لگا کہ کرپشن کی رقم وصولنے کا کوئی اور خفیہ و محفوظ طریقہ تلاش کیا جائے۔ اس ضمن میں راکیش نے سمیت کمار گوئل سے بھی مشورہ کیا۔سمیت کمار گوئل اس کا گہرا دوست تھا۔ دونوں ایک ساتھ پولیس میں بھرتی ہوئے تھے اور ان کی آپس میں گاڑھی چھنتی تھی۔ اب وہ را میں جوائنٹ سیکرٹری کے طور پر کام کررہا تھا۔ گویا وہ را میں تیسرا اعلیٰ ترین افسر تھا۔ موصوف بھی کرپٹ افسروں کی قبیل سے تعلق رکھتے تھے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی کے اس جوائنٹ سیکرٹری نے اپنے دوست کو تجویز دی کہ را ایجنٹ راکیش کی خاطر ’’ٹارگٹوں‘‘ سے ’’مال پانی‘‘ وصول کرکے اسے دے سکتے ہیں۔ یوں راکیش کے آدمی سارے جھنجھٹ سے دور رہتے۔ راکیش کو یہ تجویز پسند آئی اور اس نے ہامی بھرلی۔راکیش نے پھر سمیت کمار کو بتایا کہ اس نے ستیش سنا سے تین کروڑ روپے لینے ہیں۔ یہ رقم ادا کرنے کے بعد راکیش حیدر آبادی بزنس مین کی جان چھوڑ دینے کا وعدہ کرچکا تھا۔ سمیت کمار کو علم تھا کہ سولہ اکتوبر 2018ء کو منوج پرشاد نے دبئی سے دہلی آنا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔ وجہ یہ کہ سمیت کمار طویل عرصے دبئی میں بھارت کے سفارخانے میں بطور سفارتکار تعینات رہا تھا۔ حقیقت میں وہ دبئی میں را کے زیر زمین نیٹ ورک کا انچارج تھا۔
راکیش استھانہ کے ایجنٹ مگر یہ نہیں جان سکے کہ ستیش سنا الوک ورما کے ایجنٹوں کے ہاتھ لگ چکا۔ یہی نہیں، اس نے نہ صرف مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا بلکہ تفتیش سے یہ بھی اگل ڈالا کہ سولہ اکتوبر کی رات دہلی پریس کلب میں اس نے منوج پرشاد سے ملاقات کرنی ہے۔ اسی ملاقات میں شتیش نے منوج کو تین کروڑ روپے ادا کرنے تھے۔چنانچہ طے شدہ وقت کے مطابق منوج اور ستیش دہلی پریس کلب پہنچ گئے۔ وہاں الوک ورما کے آدمی شکار کی تاک میں تھے۔ جیسے ہی نوٹوں سے بھرا بیگ ستیش نے منوج کے حوالے کیا، ان آدمیوں نے اسے پکڑ لیا۔ یوں منوج رنگے ہاتھوں رشوت لیتا پکڑا گیا۔ سی بی آئی میں الوک ورما کے کارندے اسے اپنے خفیہ مرکز میں لے گئے۔ اس کے بعد کیا ہوا، وہ سی بی آئی کے ڈی آئی جی، ایم کے سنہا کی زبانی پڑھیے:’’جب منوج پرشاد ہمارے مرکز پہنچا تو وہ شدید غصے میں تھا۔ اس نے بڑے غرور اور متکبرانہ لہجے میں کہا ،مجھے یہاں کیوں لایا گیا؟ کیا تم لوگ جانتے نہیں کہ میں کون ہوں؟ میرے سمیت کمار گوئل سے قریبی تعلقات ہیں۔ حال ہی میں میرے بھائی (سومیش) اور سمیت کمار نے شری اجیت دوال (مشیر امور قومی سلامتی) کا ذاتی مسئلہ حل کرایا ہے۔ مجھے فوراً چھوڑ دو ورنہ تم سب لوگوں کی پیٹیاں اتروا دوں گا۔ تمہیں ہمت کیسے ہوئی کہ مجھے گرفتار کرلو۔‘‘
جبری رخصتی کا کھیل
منوج پرشاد نے پھر اپنے بھائی، سومیش کو دبئی فون کیا۔ وہ یہ جان کر ہکا بکا رہ گیا کہ منوج کو سی بی آئی گرفتار کرچکی۔ اس نے پھر سمیت کمار گوئل، اپنے والد اور اپنے سسر، سنیل متل سے رابطہ کیا۔ سنیل متل نئی دہلی کا مشہور وکیل ہے۔ یہ لوگ پھر منوج کو رہا کرانے کی کوششیں کرنے لگے۔ تاہم اس دوران سی بی آئی کے تفتیش کنندہ یہ جاننے میں کامیاب رہے کہ منوج دبئی میں را کا خفیہ ایجنٹ ہے۔ یوں اس کی اصل شخصیت پر پڑا پردہ چاک ہوگیا۔ جلد ہی یہ خبر پھیل گئی کہ منوج اور سومیش کاروباری لوگ نہیں بلکہ دبئی میں را کا زیر زمین نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ اسی خبر کے پھیلاؤ نے را چیف، انیل دھسمنا کو چراغ پا کردیا۔ متحدہ عرب امارات جیسے اہم اسلامی ملک میں اپنے ہی ملک کی ایک ایجنسی (سی بی آئی) را کا خفیہ نیٹ ورک دنیا والوں کے سامنے لے آئی تھی۔ یہ معلوم نہیں کہ اماراتی حکومت نے را نیٹ ورک افشا ہونے پر کس قسم کا ردعمل ظاہر کیا۔ تاہم یہ یقینی ہے کہ اماراتی حکومت نے اعلیٰ ترین سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہوگا۔ مزید براں یہ انکشاف بھارت اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات بھی کشیدہ کرسکتا ہے۔
جب منوج پرشاد کورہا کرانے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں، تو را چیف وزیراعظم پہنچ گیا۔ تب اس کے اصرار پر وزیراعظم نریندر مودی اور الوک ورما کی ملاقات ہوئی۔ سربراہ سی بی آئی نے اصول و قانون کی راہ ترک سے انکار کردیا۔ نتیجتاً متکبر و مغرور مودی نے انہیں گھر بھجوا دیا۔ یہی نہیں، ان کی نگرانی کرنے کی خاطر آئی بی کے ایجنٹ تعینات کردیئے۔ اگلے دن الوک ورما کے آدمیوں نے انہیں پکڑا اور پولیس کے حوالے کردیا۔ اس طرح تینوں بڑی بھارتی خفیہ ایجنسیاں آپس ہی میں گھتم گھتا ہوگئیں۔ الوک ورما نے اپنی جبری رخصتی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کررکھا ہے۔
وزیراعظم مودی نے پھر نظریہ ہندوتوا کے پرستار ایک پولیس افسر، منیم ناگیشواڑہ راؤ کو سی بی آئی کا عارضی سربراہ بنادیا۔ اس نے چارج سنبھالتے ہی الوک ورما کے سبھی ساتھی بشمول ڈی آئی جی ایم کے سنہا دور دراز مقامات پر بھجوا دیئے۔ اس غیر قانونی تقرری کے خلاف سبھی افسروں نے سپریم کورٹ میں مقدمے دائر کررکھے ہیں۔ مودی نے ابتداً راکیش استھانہ کو بھی رخصت پر بھیج دیا تھا لیکن چند ہفتے بعد اسے پھر سی بی آئی میں تعینات کردیا گیا۔ یہ یقینی ہے کہ اگر بی جے پی الیکشن 2019ء جیت گئی تو راکیش ہی کو سربراہ سی بی آئی بنایا جائے گا۔
آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی کوشش
راکیش استھانہ کرپٹ ہونے کے باوجود نظریہ ہندتوا کا عاشق ہونے کی وجہ سے مودی اور صدر بی جے پی، امیت شاہ کی آنکھوں کا تارا ہے۔ ان دونوں کی وجہ سے ہی راکیش کی کرپشن کے خلاف جاری تحقیقات بھی ختم کردی گئیں۔ اس سلسلے میں مختلف حربے اختیار کیے گئے۔ ایک حربے میں تو پاکستانی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کا بھی سہارا لیا گیا۔اس معاملے کا قصّہ یہ ہے کہ اٹھارہ سال قبل گجرات کے دو بھائیوں نے سٹرلنگ بائیوٹیک نامی ادویہ ساز کمپنی قائم کی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ پھلنے پھولنے لگی مگر بھائی ٹیکس چور بن بیٹھے۔ یہی نہیں، بینکوں سے قرضے لے کر رقم باہر بھجوانے لگے۔ جب وہ قانون کے شکنجے میں آئے، تو انہوں نے راکیش استھانہ کو کروڑوں روپے رشوت دی تاکہ سی بی آئی ان کے خلاف تحقیقات نہ کرسکے۔ 2014ء میں یہ بات منظر عام پر آگئی کہ راکیش استھانہ نے کرپٹ بھائیوں سے بھاری رشوت لی ہے۔
اب بھارت کی ایک اور خفیہ ایجنسی، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ راکیش استھانہ کے خلاف تفتیش کرنے لگی۔ یہ خفیہ ایجنسی مالی معاملات کے سلسلے میں چھان بین کرتی ہے۔ ایجنسی کے ڈی ایس پی راجیشور سنگھ کو راکیش استھانہ کا کیس دیا گیا۔یہ بھی قانون پسند سرکاری افسر ہے۔ جب مودی حکومت برسراقتدار آئی، تو اسے کہا گیا کہ وہ راکیش استھانہ کا کرپشن سیکنڈل ختم کردے۔ یعنی یہ رپورٹ دے کہ راکیش نے رشوت نہیں لی۔ مگر راجیشور سنگھ نے انکار کردیا۔ اس پر مودی تاؤ میں آگئے کیونکہ یہ سیکنڈل راکیش کا کیریئر ختم کرسکتا تھا۔
راجیشور سنگھ کو پھر سبق سکھانے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا۔ منصوبے کے مطابق دبئی میں تعینات را کے سینئر افسر، راہول سری واشا نے ایک ٹاپ سیکرٹ رپورٹ سیکرٹری خزانہ، ہنس مکھ ادتیہ اور سربراہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو بھجوائی ۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ راجیشور دبئی آکر ایسے پاکستانیوں سے ملاقاتیں کرتا ہے جن پر شبہ ہے کہ وہ آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں۔ اسی لیے راہول نے اسے ’’قومی سلامتی کے لیے شدید خطرہ‘‘ قرار دیتے ہوئے سفارش کی کہ اسے ملازمت سے نکال دیا جائے۔اس ٹاپ سیکرٹ رپورٹ کی بنیاد پر راجیشور سنگھ کو ملازمت سے نکالا تو نہیں گیا تاہم راکیش استھانہ کاکیس اس سے لے کر من پسند افسر کو دے دیا گیا۔ اس نے چند ہی ہفتوں میںراکیش استھانہ کو کرپشن سیکنڈل سے بری الذمہ قرار دے ڈالا۔
حرف آخر
بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے مابین جاری کھینچا تانی کا یہ سارا حیران کن واقعہ عیاں کرتا ہے کہ مودی سرکار نے اپنے مذموم مفادات کی خاطر اپنی ہی ایجنسیوں کے دفاتر کو سیاسی رسہ کشی کا مرکز بنا دیا۔اب ان میں افسروں کی خصوصیات پیشہ ورانہ تجربہ،ذہانت اور محنت نہیں بلکہ ترقی کے لیے سب سے بڑی خوبی یہ بن چکی کہ افسر نظریہ ہندوتوا پر عمل کرتا ہے یا نہیں!یہ روش بھارتی خفیہ اداروں کو کمزور وتباہ کر سکتی ہے۔جبکہ پاکستان اور چین کی حریف خفیہ ایجنسیاں ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھائیں گی۔قابل ذکر بات یہ کہ اب محض ہندو قوم پسندی کا نعرہ لگانے سے مودی سرکار اگلے الیکشن نہیں جیت سکتی۔اسی لیے تین ریاستوں کے حالیہ الیکشن میں وہ وہاں حکومتوں سے ہاتھ دھو بیٹھی۔نریندر مودی شاید فراموش کر بیٹھے کہ نفرت اور انتقام کی سلگائی آگ خود انسان کو بھی بھسم کر دیتی ہے۔
The post چونکا دینے والے انکشاف سامنے آ گئے؛ دبئی میں ’’را‘‘ کا نیٹ ورک appeared first on ایکسپریس اردو.