قسط نمبر 24
میری مسلسل خاموشی جو سچ یہ ہے کہ مجھ پر بھی گراں اور میری سکت سے باہر تھی، سے بابا بھی اکتا چکے تھے، ہوسکتا ہے ایسا نہ ہو لیکن مجھے ایسا ہی لگا اور وہ اس لیے کہ بابا نے مجھ سے کہا: کچھ تو بولو بیٹا! اگر تم بالکل ہی خاموش ہوگئے تو اتنا طویل فاصلہ کیسے کٹے گا۔ بابا! میں تو آپ کے ساتھ پہلی مرتبہ آیا ہوں، اس سے پہلے آپ کس سے باتیں کرتے تھے؟ بابا مسکرائے اور کہنے لگے: دیکھا میں ٹھیک سمجھ رہا تھا، تم یہی سوچ رہے ہوگے۔
کیا اب میں سوچنا بھی ترک کردوں؟ میرا سوال پھر بابا کے سامنے تھا۔ اچھا یہ بتاؤ تم نے کسی درخت پر غور کیا ہے؟ بابا نے مجھ سے دریافت کیا۔ جی میں نے درختوں پر غور کیا ہے کہ وہ درخت ہیں، ان کی چھاؤں ہوتی ہے، ان میں پھل لگتے ہیں اور ان کی وجہ سے انسان کی زندگی میں بہت سہولتیں پیدا ہوتی ہیں، لیکن اس وقت درخت ہم دونوں کے درمیان کہاں سے آگیا، میں نے جواب دیا۔ بس اتنا ہی غور کیا تم نے؟
یہ تو عام سی بات ہے اور ہر کسی کا مشاہدہ اور تجربہ ہوتا ہے، اسے غور کرنا تو نہیں کہتے۔ بابا نے پھر مجھے الجھن میں ڈال دیا تھا۔ تو مجھے درخت پر کیا غور کرنا چاہیے اور کیوں ؟ میں نے سوال کیا۔ دیکھو بیٹا! درخت اور انسان کا ساتھ ازل سے ہے، اور شاید انسان سے پہلے شجر تھے، وہ اس لیے کہ جب انسان کو تخلیق کرکے جنت مکانی کیا گیا تو وہاں شجر تھے اور انسان کو اجازت دی گئی کہ وہ جو چاہے وہ کھائے، بس ایک شجر کے پاس نہ جائے، تو انسان اور شجر کا ساتھ ازل سے ہے، اس لیے اس شجر پر بہت زیادہ غور کرنے، اس کے افعال و کردار پر بہت زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا تم نے کبھی کسی درخت کو اگر وہ پَھل دار ہے تو اپنا پَھل خود کھاتے دیکھا ہے؟ بابا نے مجھ سے دریافت کیا۔ نہیں بابا میں نے تو نہیں دیکھا، درخت اپنا پھل کیوں کھائے گا، میں نے جواب دیا۔ پھر بابا نے مجھے بتانا شروع کیا: بیٹا اس کا پھل تو ہم کھاتے ہیں۔
دیکھو درخت کی زندگی ایک ننھے سے بِیج سے شروع ہوتی ہے تو بس وہیں سے غور کرنا شروع کرو۔ وہ ننھا سا بیج زمین کے حوالے ہوجاتا بل کہ دفن ہوجاتا ہے، تو سوچو کہ جب وہ دفن ہو جاتا ہے تو اس پر کیا بیتتی ہوگی؟ لیکن وہ خاک میں مل جانے کے باوجود اپنی شناخت برقرار رکھتا ہے، اپنی تگ و دو جاری رکھتا ہے، اور وہ اس میں کام یاب ہوجاتا اور پھر وہ ننھا سا بیج جو خاک میں مل گیا تھا، زمین کا سینہ چیر کر باہر جھانکنے لگتا ہے۔
وہ جانتا ہے کہ اتنا آسان نہیں ہے جیون، ننھا سا بیج ننھی سی کونپل بن جاتا ہے۔ اب باہر اسے جن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سردی گرمی دھوپ چھاؤں برداشت کرتا ہوا اور ہوا کے تھپیڑے سہتا ہوا وہ سر جھکائے کھڑا رہنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، جیسے جیسے وہ بلند ہوتا ہے ویسے ویسے اس کی جڑیں زمین میں دُور تک پھیلنے لگتی اور اسے سہارا دینے لگتی ہیں اور پھر ایک دن وہ ننھا بیچ توانا شجر بن جاتا ہے، اب اگر وہ پَھل دار ہے تو اس میں بُور آنے لگتا ہے۔ اور پھر ایک دن اس پر پِھل لگ جاتے ہیں لیکن وہ خود اپنے پِھل نہیں کھاتا اور نہ ہی یہ کسی سے کہتا ہے کہ مشکلات میں نے سہی ہیں۔
سرد گرم میں نے برداشت کیا ہے، صبر سے سب کچھ سہنے کے بعد مجھ پر پھل آئے ہیں تو اب ان پر حق بھی میرا ہے، نہیں نہیں۔ وہ یہ نہیں کہتا کسی سے، کوئی بھی اس کا پھل توڑ سکتا ہے، اس کی چھاؤں میں آرام کرسکتا ہے، اس کی ٹہنی توڑ سکتا ہے، وہ سب کچھ سہتا رہتا ہے اور تو اور وہ مخلوق کے ساتھ رہتا ہے ہر جگہ۔ تم دیکھتے نہیں وہی درخت تمہارا محافظ بن کر کھڑا رہتا ہے، دروازہ بن کر، تمہاری چارپائی بنا تمہیں راحت و آرام پہنچاتا ہے، وہ میز، کرسی، دروازے، کھڑکیاں بنا تمہاری خدمت کرتا ہے۔ یہ جو تم گاڑیاں دیکھتے ہو بیل گاڑی، اونٹ گاڑی، گدھاگاڑی یہ ٹھیلے اور بے شمار جگہوں پر یہ تمہارے لیے اپنا جیون تیاگ دیتا ہے۔
کبھی تم نے غور کیا ہے کہ وہ خود کو مخلوق کے لیے فنا کردیتا ہے، لیکن کیا وہ واقعی فنا ہوجاتا ہے؟ کبھی سوچنا اس پر۔ اور جب انسان مر جاتا ہے تو اسے چوبی تختے پر لٹاکر غسل دیتے ہیں اور پھر لکڑی کی ڈولی میں سوار کرا کے قبر تک چھوڑنے جاتے ہیں۔ تو یہ ہوتا ہے شجر۔ انسان کی پیدائش سے لے کر اس کا قبر تک ساتھ دینے والا، بل کہ تم نے تو دیکھا ہی ہے کہ قبرستانوں میں یہ ہر جگہ مُردوں کو بھی سُکھ پہنچاتا رہتا ہے، ان مُردوں کا ساتھ نبھاتا ہے جن کو ان کے اپنے سگے بھی بُھول بھال جاتے ہیں۔ یہ تو میں نے بہت مختصر بتایا ہے اگر تم سوچو تو معلوم کر پاؤ گے کہ شجر انسان کے ساتھ کہاں کہاں کھڑا ہوا ہے۔ سوچنا کبھی کہ ایک ننھا سا بیج خود کو فنا کرکے کہاں کہاں موجود ہوتا ہے، فنا تو بے کار کو ہے کارآمد کو کب فنا ہے بیٹا!
جی بابا! اس طرح تو میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ اب میں اس پر غور کروں گا، لیکن بابا! شجر میں یہ سب کچھ تو قدرت ودیعت کرتی ہے، وہ اس سے انحراف تو نہیں کرسکتا لیکن انسان تو خودسر ہوتا ہے، وہ کیسے یہ سب کچھ کرسکتا ہے جو شجر کرتا ہے۔ میرا سوال سن کر بابا رُک گئے، پھر میری پیٹھ تھپتھپائی اور کہا: واہ بیٹا واہ! یہی سوال میں تم سے سننا چاہتا تھا، اس کا مطلب ہے تم کچھ واقعی سوچنے لگے ہو، تو اب سنو۔ یہ جو آدمی ہے ناں بہت پیچیدہ ہے۔ ایسا سوال جس کا کوئی حتمی جواب نہیں ہے، یہ ہر پل بدلتا ہے، یہ خدا کی بہت انوکھی مخلوق ہے، پَل میں ولی اور پَل میں شیطان، بل کہ شیطان بھی کبھی اس سے پناہ مانگتا ہے۔
بہت زیادہ الجھی ہوئی گتھی ہے انسان، اسے کچھ امور میں بااختیار بنایا گیا ہے، تو اب یہ انسان پر ہے کہ وہ خود کو کیا بنانا چاہتا ہے، بس خو د ہی جینا چاہتا ہے یا دوسروں کے کام آنا چاہتا ہے، اگر انسان ان اشجار پر ہی غور کرلے اور ان سے جینے کا ڈھنگ سیکھ لے تو دنیا ہی جنت نظیر بن جائے، اب دیکھو بیٹا تمہیں قسم ہا قسم کے انسان دکھائی دیں گے، کوئی ان میں انسانوں کے لیے رحمت بنا ہوا ہے اور کسی کا جیون انسانوں کے لیے عذاب بنا ہوا ہے، ہمیں یہ خود طے کرنا چاہیے کہ ہم اپنا شمار کیسے لوگوں میں کرانا چاہتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں خدا نے اپنی مخلوقات میں سے افضل قرار دیا ہے تو ہم اپنا یہ شرف کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔
یہ انسان پر ہے کہ وہ کیسا بننا چاہتا ہے، دیکھو بیٹا جو انسان کے لیے نافع ہو بس وہ ہے اشرف، باقی تو بس ننگ ہیں بیٹا، دیکھو جو اشرف ہوگا تو بس عام سا نظر آئے گا، لیکن یہ عام سے نظر آنے والے لوگ بہت خاص ہوتے ہیں، بہت خاص۔ اور رب تعالیٰ کے چہیتے، وہ میرے رب کا انتخاب ہوتے ہیں۔ جب اﷲ جی خوش ہو تو ایسے لوگ زیادہ ہوتے ہیں۔ ورنہ خال خال، لیکن ہوتے ضرور ہیں۔ انھیں دیکھ کر جینے کو جی چاہتا ہے۔ انھی سے اعتبار انسانیت قائم ہے۔ یقین جِِلا پاتا ہے۔ زندگی ان پر اترائے پھرتی ہے، رحمت باری تعالیٰ ان پر برستی ہے اور نصرت الٰہی ان کے ساتھ ہوتی اور پھر ان کی برکت سے دوسروں کے ساتھ ہوتی ہے۔
رب ان سے راضی ہوتا ہے، اس لیے تو انھیں بہترین کام کے لیے منتخب کرتا ہے۔ اپنی مخلوق کی خدمت کا کام ان سے لیتا ہے اور جسے میرا رب پسند فرمالے تو پھر اور کیا چاہیے کہ زندگی اس سے مبارک بن جاتی ہے۔ جس کا نصیبا جاگ جائے جس کی قسمت کا ستارہ چمک جائے، رب اس کی پیشانی کو روشن کر دیتا ہے۔ پھر وہ خلق خدا کے دل میں دھڑکتے ہیں۔ بے کسوں کے دست دعا اور بے آسروں کے لیے رب کی عطا۔ مفلسوں کی ویرانی آنکھوں کی روشنی، ان کے مرجھائے ہوئے چہروں کی رونق، ان کے انگ انگ کی خوشی اور ان کے لبوں کا نغمہ مستانہ، دیکھو بیٹا مالک جس پر کرم کردے وہ اسے اپنے بندوں کی خدمت کے لیے منتخب کرلیتا ہے۔
وہ نام و نمود سے یکسر مبرا ہوتے ہیں۔ نمائش سے بھلا انھیں کیا کام۔ وہ بس اپنے کام میں جُتے ہوتے ہیں، انسان ہی نہیں ہر مخلوق کے لیے رحمت و عنایت۔ وہ باتیں نہیں کرتے، وہ عجیب ہوتے ہیں۔ خدمت کی دھن پر رقصاں، وہ سر جھکائے ہوئے، رب کے حضور مجسم انکسار، وہ مسکراتے ہیں اور دوسروں کی آہوں کو قہقہوں میں بدلتے ہیں۔ انھیں اپنا کوئی ہوش نہیں ہوتا، ذرا سا بھی نہیں۔ اگر آپ ان سے کہیں کہ جناب آپ نے تو کمال کردیا تو فوراً اس کی تردید کریں گے اور اگر ان میں سے کچھ سے آپ اصرار کریں تو فقط اتنا کہیں گے جناب ہم تو بس اپنا کام کر رہے ہیں اس سے زیادہ نہیں۔ جس طرح وہ خود عام نہیں ہوتے اسی طرح وہ باتیں بھی عام نہیں کرتے، لگتی عام سی باتیں ہیں لیکن ہوتی نہیں ہیں۔ اﷲ نے انسان کو بنایا ہے اور اسی نے اپنے اس نائب کو اپنی مشین کو ٹھیک رکھنے کا سلیقہ بھی سکھایا ہے۔
کوئی درد میں مبتلا ہو تو وہ اس کے درد کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی اداس ہو تو اسے ہنساتے ہیں، وہ خلق خدا کی مدد کرتے ہیں۔ وہ کسی کی بھی عزت نفس کسی بھی صورت میں پامال نہیں کرتے۔ انسانی خواہشات بھی کتنی عجیب ہیں ناں بیٹا! کیسی کیسی تمنّائیں، خواہشات، آرزوئیں اور نہ جانے کیا کچھ۔ دیکھو یہ جو خودستائی ہے ناں یہ سب سے زیادہ مہلک ہے۔ ہر پَل ہر لمحہ ایک امتحان ہے، تمہیں پرکھنے کا، تمہارے اندر کی نیّتوں کا امتحان۔ ہم بہت نادان ہیں بیٹا، ہم خود کو مخلوق سمجھتے ہوئے بھی اپنے خالق حقیقی کو نہیں پہچان سکے۔ چلتی پھرتی تصویریں اپنے مالک کو نہیں پہچان پائیں۔ بندہ بشر اپنے پالنے والے سے بے خبر ہے۔
رب کا ذکر تو بہت کرتا ہے اس پر یقین نہیں رکھتا۔ اپنے دوست کی بات کا تو اعتبار کرتا ہے اور خالق حقیقی کو بُھول جاتا ہے۔ خالق نے کہا ہے میں ہوں رازق۔ بس سن لیتا ہے، رازق تو وہ دفتر کو مانتا ہے، اپنی دکان کو مانتا ہے، اپنے ٹھیلے کو سمجھتا ہے، اپنے کارخانے کو سمجھ بیٹھتا ہے۔ سبب کے بغیر بھی وہ مالک دے سکتا ہے یہ نہیں مانتا اور یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ یہ دنیا جہاں کے چرند، پرند، درندے جو ہیں وہ کیسے رزق پاتے ہیں؟ تم کہو گے چیونٹی کی خوراک ہی کتنی ہے، لیکن پھر بتاؤ یہ ہاتھی شیر چیتے کیسے پلتے ہیں۔ دیکھو بیٹا! کبھی اس پر بھی غور کرنا دنیا کی دو مخلوق رزق جمع کرتی ہیں، ایک چیونٹی اور دوسرا انسان۔ باقی مخلوق تو بس توکل کی منزل پر ہے۔
یہ ناشکرا انسان تھوڑی سی تکلیف آجائے تو آہ و زاری کرتا ہے، شُکر تو بہت ہی کم کرتا ہے اور شکوہ شکایت بے پناہ۔ کسی حال میں بھی تو خوش نہیں رہتا، وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ بہت دانا ہے، بینا ہے لیکن ہے کہاں دانا، کہاں ہے بینا۔ تھڑدلا ہے بہت، بے ہمت اور جلد اکتا جانے والا۔ بندے تو بیٹا! وہ ہیں جو خالق پر ایسے یقین رکھتے ہیں جیسے صبح سورج نکلنے کا، رات کو چاند تاروں کا، ایسا یقین رکھنے والا ہی تو بندہ کہلانے کا مستحق ہے۔ یہ بندہ ہونا کوئی معمولی بات اور اعزاز و سعادت نہیں ہے۔ رب کو خوش رکھنا ہے تو بس بندے بنو، رب نے جو کہہ دیا ہے تو اس پر ایسا یقین رکھو کہ کوئی خدشہ تمہیں نہ ستائے۔ رب نے کہہ دیا تو بس ہوکر رہے گا۔ سورج تو ہوسکتا ہے کل نہ طلوع ہو، وہ بھی تو مخلوق ہے ناں لیکن رب کی بات ہے اٹل، رب کا وعدہ سچا ہے۔
بس وہی ہے کھلانے پلانے والا پالن ہار۔ حرصِ قبیح میں مبتلا ہے انسان، یہ حرص نہیں حرص غلیظ ہے، کتّے میں بہت زیادہ خوبیاں ہیں لیکن کبھی تم اس پر غور اور اس کا مشاہدہ کرو، کبھی موقع ملے تو اس منظر کو دیکھو کہ اُسے کہیں سے سالم مردار گائے مل جائے تو وہ اکیلا ہی اسے چٹ کرنا چاہتا ہے، وہ دوسرے کتّوں کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیتا اور خود سالم گائے کھا بھی نہیں سکتا۔ باقی سارے اسے تکتے رہتے ہیں، لیکن دیکھو جب کتّے کا پیٹ بھر جائے تو وہ باقی گائے کو کسی دوسرے وقت کے لیے چھپا کر نہیں رکھتا۔ دوسروں کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ کتا حریص ہے لیکن انسان۔۔۔۔ یہ تو حرص میں کتوں سے بھی بازی لے گیا ہے۔
سب کچھ خود ہی کھانا چاہتا ہے۔ سنبھال سنبھال کے رکھتا ہے باقی سب محروم رہتے ہیں۔ اس انسان نے کوّے سے دوسرے انسان کو بس دفن کرنا ہی سیکھا ہے، کاش یہ کچھ اور بھی اس سے سیکھتا۔ کوّا بھی بہت حریص ہوتا ہے، بہت زیادہ۔ لیکن اس پر غور کرو کہ اسے اگر زمین پر چھوٹا سا بھی کوئی ٹکڑا نظر آجائے تو کائیں کائیں کرکے آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ تم جانتے ہو کیوں؟ اس لیے کہ وہ منادی کرتا اور دوسرے کوّؤں کو بلاتا ہے کہ آؤ دیکھو یہ ٹکڑا مل گیا ہے۔ اسے مل بانٹ کے کھائیں اور پھر وہ سب اسے مل بانٹ کے کھاتے ہیں۔ یہ انسان کو کیا ہوگیا ہے بس اکیلے ہی ہر شے پر قابض ہونا چاہتا اور ہر نعمت کو اپنے تصرف میں رکھنا چاہتا ہے۔ حریص بہت حریص۔
بیٹا! کبھی مرغی کو دیکھا ہے تم نے۔ دانہ دنکا چگنے کے بعد پانی پیتے ہوئے، جو دیکھنا چاہیے وہ دیکھتے نہیں ہیں اور جو نہیں دیکھنا چاہیے اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہیں۔ نافرمانی اور کسے کہتے ہیں۔ بے وقوفی کس بلا کا نام ہے بھلا؟ دیکھو مرغی کو کبھی پانی پیتے ہوئے ہر قطرے پر سر اٹھا کر آسمان تکتی ہے، شُکر بجا لاتی ہے، اپنے رب کا شُکر۔ اور جب سیر ہوجائے تو کٹورے کو اپنا پنجہ مار کر الٹ دیتی ہے دوسرے وقت کے لیے نہیں رکھتی۔ تم سے زیادہ تو مرغی شُکر گزار ہے، وہ اپنے مالک پر توکل کی منزل پر ہے کہ وہ اسے ہر حال میں کھانا بینا ضرور دے گا۔ کیا ہو گیا انسانوں کو، کیوں نہیں سمجھتے، نہ جانے کب سمجھیں گے۔ دیکھو میرے بچے! وقت گزر رہا ہے کوئی اسے نہیں روک سکا، ہاں کوئی بھی نہیں، انسان خسارے میں ہے، پہچانو خود کو، اپنے مالک کو، رحم کرو خود پر اور مخلوق پر بھی۔ حرصِ قبیح کو چھوڑ دو۔ مل بانٹ کے کھانا سیکھو، اکیلے تو تم کبھی سب کچھ نہیں کھا سکتے، سب فتنہ ہے، مال بھی فتنہ، غربت بھی فتنہ، رب کو پہچانو تو بس فلاح پا جاؤ گے۔
پھر میں نے خود کو مسجد کے دروازے پر پایا۔ بیٹا ہم پہنچ گئے تم تھکے تو نہیں ناں۔
کیا ہم پہنچ گئے میں نے حیرت سے بابا کو دیکھا، میں بابا کی باتوں میں اس قدر کھویا ہوا تھا کہ وقت گزرنے اور راستے کا پتا ہی نہیں چلا، کوئی تھکن نہیں تھی، بل کہ تھکن کے اثار بھی نہیں تھے اور نیند ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں بالکل بھی نہیں یوں لگا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا تھا اور اب میری آنکھ کھلی ہے۔ بیٹا اذان کا وقت ہوگیا ہے اور میں نے اپنے رب کی کبرائی کا آوازہ بلند کیا۔
The post فنا تو بے کار کو ہے، کارآمد کو کب فنا ہے بیٹا! appeared first on ایکسپریس اردو.