(قسط نمبر سات )
آپ مخصوص عرصہ کے لیے دیارِ غیر میں ہوں توکوشش ہوتی ہے کہ زیادہ تر وقت گھومنے پھرنے میں گُزرے۔ ہمارے معاملے میں یہ سرگرمی اپنی انتہا پر تھی۔ یہی تحرک بارہا بیجنگ کے قدیم محلوں کی کوچہ نوردی کا باعث ٹھہرا۔ وطن سے دور اپنے ہم وطنوں کا ملنا کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا اور اکثر دیار غیر میں ملنے والے ہم وطنوں سے جلد بے تکلفی ہو جاتی ہے۔
ایسے ہی ایک پاکستانی محمد فرقان علی ہیں۔ تعلق ان کا کراچی سے ہے اور پیشہ تدریس۔ جامعہ کراچی کے شعبہ کیمیکل انجینئرنگ کے یہ معلم بیجنگ کی ایک جامعہ میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور اپنے اہل خانہ کے ہمراہ چین میں مقیم ہیں۔ لکھنوی انداز میں انتہائی شستہ اُردو میں گفتگو کرتے ہیں۔ ان کا یہی انداز تکلم ہمیں ان کے قریب لے آیا۔ اکثر شہر نوردی میں اُن کی صحبت ہمیں میسر رہتی۔
ایک دن طے پایا کہ چھٹی کے روز بیجنگ کے شہر ممنوع کے قریب واقع بے ہائے پارک میں ( جہاں اتفاق سے ہم دونوں میں سے پہلے کوئی نہیں گیا تھا) وقت گزارا جائے اور ساتھ ہی بیجنگ کا قدیم علاقہ ہوتانگ (Hutong) بھی دیکھیں۔ ہوتانگ ایک قدیم طرزتعمیر ہے جہاں لوگ ایک مشترکہ کمیونٹی کی صورت میں رہتے تھے۔ سو ایک اتوار ہم دونوں اس پارک میں اکٹھے ہوئے ۔( واضح رہے کہ یہ صرف نام کی حد تک پارک ہے۔ اس کا پارک کے پاکستانی تصور سے کوئی واسطہ نہیں ہے)۔ چینی شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو وہاں موجود تھی۔
پارک میں موجود جھیل کے ساتھ ساتھ ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور بارز کی ایک طویل قطار ہے۔ وہیں ہمیں پہلی مرتبہ تین پہیوں والا سائیکل رکشا بھی نظر آیا۔ بڑی تعداد میں غیر ملکی ان سائیکل رکشاؤں میں بیٹھے نظر آئے۔ بارز پر لوگوں کا ہجوم تھا، جہاں کھانے پینے کے ساتھ موسیقی کا انتظام بھی لازم تھا۔ ہر بار میں یا تو سنگر گا رہا تھا یا پھر مختلف آلاتِ موسیقی سے فضا میں سر بکھیرے جار ہے تھے۔ جس کو جو گلوگار، گلوکارہ یا سازینہ اپنی طرف کھینچتا وہ اُس بار کا رخ کر لیتا۔ بارز کی قطار کے ساتھ ساتھ مزید آگے بڑھے تو سامنے نہر کا پُل تھا جولوگوں سے بھراہوا تھا۔ نوجوان چینی لڑکے اور لڑکیا ں خوش گپیاں کرتے ، اسنیکس کھاتے اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے۔انہیں کھاتے دیکھ کر ہمیں بھی بھوک کا احساس ہونے لگا۔ ہم دونوں کی نگاہیں حلال فوڈ کی متلاشی تھیں۔
ہم اسی شش و پنج میں تھے کہ لذت کام ودہن کے لیے کہاں کا رخ کیا جائے کہ اچانک موسیقی کی مانوس سی آواز کانوں میں پڑی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو استفہامیہ نگاہوں سے دیکھا گویا کہ تصدیق کر رہے ہو ں کہ واقعی یہ وہی آواز تھی جو ہمارے کانوں نے سنی یا ہمارا کوئی وہم تھا۔ اب موسیقی کی وہ آواز مسلسل آنے لگی اور ہم دونوں نے اپنے کان اس پر دھر لیے یہ آواز پڑوسی ملک کے ایک مشہور گانے کی تھی۔
یہاں ایک بھارتی نغمہ حیرت کی بات تھی۔ تھوڑا آگے بڑھے تو سامنے کی طرف ایک جوس والے کی دکان اور ساتھ ہی کھانے پینے کاایک اسٹال نظر آیا۔ بائیں جانب کھلونوں کی دکان اور کچھ آرائشی اشیاء کی دکانیں تھیں۔ مگر ہمیں کہیں بھی پڑوسی ملک کے کلچر کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ آخر فرقان علی کی چینی دانی کام آئی اورانہوں نے وہاں موجود دکان داروں سے پوچھا کہ یہ موسیقی کی آواز کہاں سے آرہی ہے؟ بتایا گیا ’’جہاں آپ کھڑے ہیں وہاں سے چند قدم آگے جائیں اور دائیں ہاتھ کی گلی میں مڑجائیں آپ کو منزل مل جائے گی‘‘۔
سو ہم چل دیے اور دائیں ہاتھ مڑتے ہی پڑوسی ملک کے ایک ریسٹورنٹ کو پا لیا۔ اندر داخل ہوئے تو چینی عملے نے ہمارا استقبال کیا۔ ہم پریشان ہوگئے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ خیر تھوڑی ہی دیر بعد ہوٹل کے انڈین مینیجر بھی آگئے تو ہمیں تسلی ہوئی۔ خیر ان سے اردو میں حال احوال کیا۔ محمد فرقان علی بہت خوش ہوئے کیونکہ ان کے والدین نے یوپی سے پاکستان ہجرت کی تھی۔ ہمیں بہت تسلی ہوئی کہ چلیں اب کھانے کی فکر ختم ۔ وہاں تمام تر کھانے دستیاب تھے مگر ہم دونوں نے گوشت کھانے سے احتراز برتا حالانکہ ہوٹل کے مینیجر ہمیں ہوٹل کے کچن میں لے گئے اور وہاں کام کرنے والے ایک مسلمان سے بھی ملوایا تاکہ ہمیں یقین ہو جائے کہ یہ گوشت حلال ہے اور اسے ایک مسلمان باورچی نے بنایا ہے۔مگر ہم نے ان سے ادب سے معذرت کرلی۔
ہم نے وہاں دال کھائی اورخوب کھائی اس کے ساتھ ساتھ سبزی اور روایتی چٹنی سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ سب سے زیادہ مزہ ہمیں وہاں پاکستانی طرز کی بنی ہوئی روٹی کھا کر آیا۔ کھانے کے بعد سونف والی چائے نے بہت لطف دیا۔ کھانے کے بعد ہم دونوں اس نتیجے پر پہنچے کہ ہماری اب تک کی اس علاقے کی دریافت یہ انڈین ہوٹل ہے۔ بعد میں بیجنگ میں قیام کے دوران بارہا اس ہوٹل جانے کا اتفاق ہوا۔
ہم ہوٹل سے نکلے اور اس کے سامنے والی گلی میں چلنا شروع ہو گئے۔ وہاں پرانواع و اقسام کی دکانیں تھیں۔ہم دکانوں کو دیکھتے آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک پیچھے سے آواز آئی شیاو فو(Xiao Fu) اور یہ آواز قدرے بلند تھی ایسے جیسے کسی کو کوئی ہجوم میں پکارے۔ دوبارہ یہی آواز آئی تو محمد فرقان علی ذرا چونکے۔ تیسری بار پھر یہی پکارا گیا تو انہوں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو دور سے ایک چینی لڑکی ہاتھ ہلاتی نظر آئی ۔
پہلے پہل تو محمد فرقان علی ذرا شرمائے کیونکہ ایک تو میں ان کے ساتھ تھا۔ دوسرا حضرت باریش تھے پابندِ صوم وصلاۃ اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ مقیم تھے اور یوں بھرے بازار میں ایک نوجوان محترمہ انہیں بڑے اعتماد سے بلار ہی تھیں۔ جب انہوں نے اپنی ابتدائی گھبراہٹ پر قابو پالیا تو وہ مسکرا دیے اور بڑے اعتماد کے ساتھ خاتون کی جانب بڑھے اور اس خاتون کا تعارف کروایا کہ یہ محترمہ ان ہی کی جامعہ میں پڑھتی ہیں اس لیے انہوں نے طالب علمانہ بے تکلفی سے کام لیتے ہوئے انہیں مخاطب کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ اب ہمیں مفت میں ایک ٹورسٹ گائیڈ مل گیا ہے اس لیے اب ہم تسلی سے اس علاقے کو دیکھیں گے۔
محترمہ کا نام کانگ دی یوئے جیا (Kong De Yue Jia) تھاانہیں چینی روایات اور کلچر سے بہت دلچسپی تھی ۔ تعلق ان کا چین کے صوبے ینان (Yunnan) کے شہر کنمنگ (Kunming)سے تھا۔
چینی تو خیر انہیں آتی ہی تھی اس کے ساتھ ساتھ انہیں انگلش، فرنچ اور جاپانی زبانیں بھی آتی تھیں۔انگلش میں مہارت کا سن کر ہمیں خوشی ہوئی کہ چلو سوالات پوچھنے میں آسانی رہے گی۔ اب ہمارا علاقے کو کھوجنے کا سفر ان کی رہنمائی میں شروع ہوا۔ پہلا سوال ان سے علاقے کے متعلق پوچھا کیونکہ ہم دونوں تو صرف پارک کا سن کر ادھر آگئے تھے۔جیا(Jia) نے بتایا کہ یہ بیجنگ کا ایک قدیم علاقہ ہے اور اس کو ہوتانگ (Hutong) کہتے ہیں۔
بیجنگ میں کئی مقامات پر یہ ہوتانگز ہیں۔ جس جگہ ہم موجود ہیں اس کانام نان لوگو شیانگ (Nanluogo Xiang) ہے۔یہ قدیم ترین اور مشہور ہوتانگ ہے۔سادہ لفظوں میں یہ سمجھ لیں کہ ہوتانگ چین کے شاہی ادوار کا قدیم طرز رہائش ہے ۔ اس کاآغاز یوان سلطنت (Yuan Dynasty) میں ہوا کہ جو کہ بارہ سو چھ سے تیرہ سو اکتالیس تک رہی۔ اس کے بعد مِنگ (Ming) اور چِنگ (Qing) ادوار میں اس میں پھیلاؤ دیکھنے میں آیا۔ چین کے شاہی ادوار میں بادشاہوں نے بیجنگ کو منظم انداز میں بسانے کی منصوبہ بندی کی۔
شہرمیں ایک شاہی دور کے سماجی مراتب کے نظام کے تحت مختلف رہائشی بستیاں آباد کیں۔ مِنگ (Ming) سلطنت میں شہرممنوع (فاربڈن سٹی) کو شہر کا مرکز تسلیم کیا گیا۔ اس کے اطراف میں نئی آبادیاں قائم کی گئیں۔ اسی وقت ہی یہ ہوتانگر وجود میں آنا شروع ہو گئے۔بلند رتبے کے حامل شہریوں کو شہر کے مرکز کے قریب رہنے کی اجازت دی گئی۔امراء کو شاہی محل کے مشرقی اورمغربی اطراف میں رہنے کی اجازت تھی۔
اعلی حکام اور دولت مند تاجروں کے گھرخوبصورت ستونوں او ر باغات سے سجے ہوتے تھے۔ اس طبقے کے آباد کردہ ہوتانگ منظم ، کھلے گھروں اور چاردیواری سے آراستہ باغات سے مزین تھے۔ محل سے دورشمال اورجنوب میں عام آدمی ، ہنرمند اور مزدور رہا کرتے تھے۔ان کے ہوتانگ سادہ اور تنگ ہوا کرتے تھے۔جیا(Jia) نے بتایا کہ بیجنگ میں کئی مقامات پر یہ ہوتانگز ہیں۔ان ہوتانگر کی سیر آپ پیدل چل کر، بائیک کے ذریعے یا رکشاؤں کے ذریعے ہی کر سکتے ہیں۔ ان ہو تانگز میں خریداری کے لیے کئی طرح کے سٹورز اور دکانیں ہیں۔ ہر ہوتانگ اپنی کسی مخصوص پروڈکٹ کے لیے مشہور ہے۔Tobacco Pouch Street سیاحوں کے لیے سووینئیرز اور چین بھر کے مختلف نسلی گروہوں کے مختلف دست کاری کے نمونوں کے لیے مقبول ہے۔
Wudaoying Hutong میں سیاح ہاتھ سے بنے دستکاری کے نمونوں، روایتی چینی کپڑوں کے لیے جاتے ہیں۔ اگر آپ چینی اچار والی سبزیوں کے شائق ہیں تو پھر گولڈ فش ہوتانگ آپ کی منزل ہونی چاہیے۔ چین کے روایتی کھانوں کے لیے تاشیانگ فینگ ہوتانگ کا رخ کیا جا سکتا ہے۔Jinyu Hutong میں پکا ہوا گوشت دستیاب ہوتا ہے۔
بیجنگ کے قدیم محلوں میں گھومتے ہوئے پاکستان کے کئی قدیم اور تاریخی شہروں کے اندرون شہر کے مناظر ذہن میں گھوم جاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے آپ کو احساس ہوتا ہے کہ شایدآپ لاہور، راولپنڈی یا ملتان کے قدیم محلوں میں چہل قدمی کررہے ہیں۔ وہی قدیم طرزِ تعمیر،تنگ گلیاں،مکانوں کی ملتی چھتیں اور مکینوں کے ملتے دل اورایک منفر د اورجداگانہ سماجی کلچر جو ان محلوں کو جدید آبادیوں سے ممیزو ممتازکرتا ہے۔ ہوتانگز کے ڈھانچے کی نشانی اینٹیں، لکڑی اورٹائلز ہیں مگر یہ تو صرف ظاہری ڈھانچہ ہے مگر اصل دیکھنے والی چیز ان ہوتانگزکا کلچر ہے۔جو کہ وہاں کے مکینوں کے لئے مشترکہ ہے۔یہاں پر ہو سکتا ہے کہ درجنوں ہو تانگز کا ایک ہی داخلی راستہ ہو۔ یہاں پر کچھ بھی نجی نہیں سب کچھ کمیونٹی کا ہے۔سردیوں میں لوگ دھوپ میں اکٹھے بیٹھ کربات چیت کرتے ہیں۔ ہوتانگز کی بعض گلیاں تو اتنی تنگ ہیں کہ معروف مزاح نگار مشتاق یوسفی کے اندرون لاہور کی گلیوں کی تنگی کے متعلق کہے گئے جملے کی یاد آتی ہے ’’یہاں بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ مخالف جنس کے آمنے سامنے آنے یا گزرنے کی صورت میں صرف نکاح کی صورت ہی بچتی ہے‘‘ ۔ ایک اور دلچسپ حوالہ یہاں شاہی دربار سے وابستہ ہیجڑوں کے لیے آباد ایک ہوتانگ ہے۔ اس کا سن کر مختلف سلاطین ہند یاد آئے جو کہ شاہی محلات میں بوجوہ مخنثوں کو تعینات کیا کرتے تھے۔
اسی طرح پاکستان میں ہم سنتے ہیں کہ لوگ اپنے شوق کی خاطر میوزیم وغیرہ بنالیتے ہیں۔یہی روایت چین میں بھی ملتی ہے جہاں پربیجنگ میں ایک شہری چانگ نے اپنے شوق اور ذاتی حیثیت میں Beijing Hutong Zhang Folk Art Museum بنایا ہوا ہے۔یہ بیجنگ کے روایتی کلچرکی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں دس ہزار سے زائد روایتی دستکاری کے نمونے،کھلونے، پرانی تصاویر اور پوسٹرز ہیں۔اس کے علاوہ ہوتانگز کے ہاتھ سے بنائے گئے ماڈلز ہیں جو کہ انیس سو بیس کی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔
اس میوزیم سے ذرا فاصلے پر لُوگو برج (Lugou Bridge) ہے جو کہ اپنی تاریخی اہمیت کی وجہ سے مشہور ہے۔ جہاں جاپانی افواج نے جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے چین پر حملہ کیا تھا۔ اس برج کے قریب ہی وان پنگ فورٹریس (Wanping Fortress) ہے۔ یہ قلعہ میوزیم آف دی وار ہے اور چینی عوام کی جاپانی جارحیت کے خلا ف مزاحمت کے حوالے سے قائم کیا گیا ہے۔یہ میوزیم بھی ہمیں ویسے ہی سائیکل پرگھومتے ہی نظر آیا۔ راقم اور سی آر آئی میں کام کرنیوا لے ارجنٹا ئن سے تعلق رکھنے والے فارن ایکسپرٹ دوست موریسیو ایک روز سائیکلنگ کرتے ہوئے بیجنگ کے ضلع فینگ تائے (Fengtai) میں نکل گئے۔
وہاں ہمیں یہ ہوتانگ اور میوزیم نظر آیا۔ان ہوتانگز میں آپ کو ریڑھی بان سبزی فروش بھی نظر آتے ہیں۔کباڑیا بھی ہوتانگز کے مکینوں سے ردی کا مال ردی کے بھاؤ خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہیں انسانی بالوں کی خرید و فروخت بھی دیکھنے میں آئی۔ تو یک لخت لاہور میں اپنے گھر کام کرنے والی ماسی کا خیال ذہن میں آگیا جو بالوں کی خرید وفروخت کیا کرتی تھی۔یہاں کے مکین مل کر چین کے مختلف روایتی اور مقبول عام کھیل بھی کھیلتے ہیں۔اب یہ ہوتانگ سیاحوں کے لیے بہت پُرکشش ہیں کیونکہ ان میں چین کے قدیم کلچر کو محفوظ کو کیا گیا ہے۔ لوگ یہاں قیام کرنے آتے ہیں۔ کچھ وقت گزارتے ہیںاورہوتانگ کے مکینوں سے بات چیت کرتے ہیں ان کے تیارکردہ کھانے کھاتے ہیںاوراپنے آپ کو تھوڑی دیر کے لیے ایک قدیم ماحول کا حصہ تصور کرتے ہیں۔کچھ ہوتانگز میں ہوٹلز بھی بنا دیے گئے ہیں۔یہ ہوٹلز بھی غیر ملکی سیاحوں میں بہت مقبول ہیں ۔ ان ہوٹلز کے بیرونی ڈھانچے کو تو روایتی انداز میں برقرار رکھا گیا ہے مگر اندر موجود سہولیات جدید ہیں۔ان ہوتانگز میں سیروسیاحت کرتے ایک مرتبہ بنگلہ دیش کا ایک ہوٹل مل گیا۔ مسلم ہوٹل دیکھ کر ایسی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ ہوٹل کا عملہ اور مینیجر اردو سمجھتے تھے۔ اور بنگالی لہجے میںاردو بول رہے تھے۔
اس لہجے کو سن کر اپنائیت کا احساس ہوا۔وہاں ہم نے مطمئن ہو کر چکن بھی کھایا۔ یہ ہوٹل ایک ہوتانگ کے اندر قائم کیا گیا تھا۔ یہ کسی امیر درباری اہلکار کی رہائش گا ہ لگ رہی تھی۔ کیونکہ اس میں کمروں کی تعداد زیاد ہ تھی۔ماحول کولائٹس سے خوبصورت انداز میں سجایا گیا تھا ۔ وہیں بیٹھے بیٹھے ایک بنگلہ دیشی طالب علم اپنے چینی ساتھیوں کے ہمراہ آیا۔ انہیں دیکھ کر ہم چونک پڑے۔ کیونکہ اپنے چینی ساتھیوں کی نسبت وہ بنگلہ دیشی اپنے اندازِ نشست و برخاست اور بول چال سے ایک مخصوص کمیونٹی کو ظاہر کر رہے تھے۔اس کمیونٹی کے کسی فرد کو دیکھتے ہی ہمارے ہاں عموماً تفریح کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ ہم انہیں دیکھ کربہت حیران ہوئے کہ موصوف کے انداز و اطوار میں بلا کی نزاکت تھی۔چینی زبان انہیں خوب آتی تھی۔سو ہم نے بھی کچھ وقت مزید ٹھہر کر ان سے خوب گفتگو کی۔ کبھی کبھار تو یہ گلیاں بقول شاعر گلزار پُر پیچ پیچیدہ دلیلوں سی گلیاں لگتیں ۔ انہی پُر پیچ گلیوں میں چین کے شاہی ادوار کی تاریخ بکھری پڑی تھی۔ چھ سو سالہ قدیم یہ ہوتانگز اب آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہے ہیں۔ا ور ان کی جگہ جدید بلند و بالا عمارات لے رہی ہیں۔ بیجنگ کا ایک مشہور علاقہ سان لی تن (Sanlitun) ہے جہاں غیر ملکی سفارت خانے، شاپنگ پلازے اور بلند و بالا عمارتیں ہیں۔ یہاں بہت سی ہوتانگر ہوا کرتی تھیں جن کو گرا کر یہ جدید عمارتیں بنائی گئی ہیں۔
ان ہوتانگز اور ان میں موجود کلچر کو دیکھ کرپاکستان کی یاد آتی ہے کیونکہ بہت سی روایات دونوں معاشروں میں ملتی جلتی ہیں ۔ سب سے پہلے ان مماثلتوں کی ادب میں موجودگی کو جاننے کے لیے بیجنگ میں موجود اردو زبان کے معروف چینی شاعر Zhang Shi Xuan جن کا اردونام انتخاب عالم ہے سے رجوع کیا۔ انتخاب عالم پاکستان کا کئی مرتبہ دورہ کر چکے ہیںاور یہاں مختلف مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں ۔اس کے علاوہ بیرونِ ملک مشاعروں میں بھی شریک ہوتے رہے ہیں۔ چین میں اردو زبان کی ترویج اور اردو شاعری کاایک بہت معتبر اور نمایاں نام ہیں۔ چونکہ وہ خود بہت اچھے شاعر ہیں اور ان کے شعری مجموعے شائع بھی ہو چکے ہیں سو ان سے درخواست کی کہ بتائیں کہ چینی اور اردو شاعری میں کیا مماثلت پائی جاتی ہے تو وہ کچھ یوں گویا ہوئے ۔ چینی اور اردو شاعری میں کئی اعتبار سے مماثلت پائی جاتی ہے۔ اول دونوں زبانوں کی شاعری میں وزن پایا جاتا ہے۔لیکن اس وزن میں فرق ہے۔مثال کے طور پر قدیم چینی صنفِ شاعری سات کیریکٹرز پر مشتمل مصرعوں والی لوئی شی کو لیجیے۔اس میں چینی کیریکٹرز کے آہنگ پائے جاتے ہیں۔ چینی کیریکٹرز کے چار آہنگ ہوتے ہیں۔ان میں سے پہلے اور دوسرے آہنگ کو پھینگ آہنگ کہتے ہیںجبکہ تیسرے اور چوتھے آہنگ کو زے آہنگ کہتے ہیں۔
یہ بدلتے ہیں لیکن مقررہ قوانین کے تحت بدلتے ہیں۔ یعنی اگر پہلے مصرعے میں شامل سات کیریکٹرز کے آہنگ پھینگ پھینگ زے زے پھینگ پھینگ زے ہوں تو دوسرے مصرعے میں شامل سات کیریکٹرز کے آہنگ زے زے پھینگ پھینگ زے زے پھینگ ہوں گے جبکہ تیسرے مصرعے میں شامل سات کیریکٹرز کے آہنگ زے زے پھینگ پھینگ پھینگ زے زے ہوںگے۔ یعنی ہر شعر میں شامل دو مصرعوں کے پہلے ، دوسرے ، تیسرے، چوتھے، پانچویں اور ساتویں کیریکٹرز کے آہنگ ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔
اور ہر شعر کے دوسرے مصرعے کے پہلے چار کیریکٹرز کے آہنگ اور اگلے شعرکے پہلے مصرعے کے پہلے چار کیریکٹرز کے آہنگ ایک جیسے ہیں اور ان دو مصرعوں کے آخری تین کیریکٹرز کے آہنگ باہم متضاد ہیں۔ جب کہ ہر اردو کی غزل، قصیدہ، نعت یا حمد کے تمام اشعار ایک ہی بحر میں لکھنے پڑتے ہیں۔ دوم دونوں زبانوں کی شاعری میں استعارہ، تشبیہ، علامت، تلمیح وغیر ہ فنی حربے استعمال ہوتے ہیں۔ سوم دونوں زبانوں کی قدیم اصناف سخن میں قافیے باندھے جاتے ہیں۔اور قافیے دو طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں ۔ یعنی بیشتر اصنافِ سخن میں پہلے شعر کے دونوں مصرعوں اور اس کے بعد ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں قافیہ باندھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ دونوں زبانوں میںایک ہی قسم کی نظم ہے جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعوں میںایک جیسا قافیہ باندھا جاتا ہے اور مختلف اشعارکے قافیے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ چہارم دونوں زبانوں کی شاعری میں موسیقیت پائی جاتی ہے اس لیے آسانی سے گائی جاتی ہے۔ پنجم دونوں زبانوں کی جدید شاعری میں آزاد نظم شامل ہے جس میں پابندیاں کم اور افکار نسبتاً نئے ہیں۔
۔ ادب میں پائی جانے والی کچھ مماثلتیں چانگ جیا مے (طاہرہ) نے بھی بیان کیں ۔ وہ پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سر براہ ہیں انہوں نے بتایا کہ اردو غزل میں استعمال ہونے والی بحریں تقریباً اسی(80) ہیں ۔چینی شاعری کی چند اصناف سونگ سی اور یوآن چھو میں بھی اکثر استعمال ہونے والی بحروں کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔چانگ جیا مے نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ اردو شاعری کی صنف قطعہ چینی شاعری کی صنف جوئے جو سے بہت مشابہ ہے۔ چینی اور اردو شاعری میں تشبیہات ، استعارات اور علامات بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اردو اور چینی دونوں زبانوں کی شاعری میں عشق مختلف مفاہیم کے لیے استعمال ہوا ہے۔ چینی اور اردو زبانوں کے تاریخی ارتقاء کے متعلق چُو یوان (نسرین ) سربراہ شعبہ اردو بیجنگ فارن سڈیز یونیورسٹی نے کچھ یوں اظہارِ خیال کیا کہ اردو کا آغاز برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوا جبکہ چینی زبان میں شاعری کا پہلا مجموعہ آج سے 2500-3000 قبل وجود میں آیا۔اس لیے دونوںزبانوں کی تاریخ میں فرق ہے۔ چُو یوان (نسرین ) نے اپنی بات کو بڑھاوا دیتے ہوئے بتایا کہ جدید دور میں دونوں ملکوں کے مصنفین کی توجہ جدید سماجی مسائل اور خاندانی موضوعات پر ہے ۔ یہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان ایک مماثلت ہے۔
یہ تو پروفیسر انتخاب عالم، چانگ جیا مے، چُو یوان کی علمی وادبی باتیں اور گزارشات تھیںجن سے شاعری و ادب کے تکنیکی محاسن و اسرار کُھلے مگر چینی معاشرے میں جیتے جاگتے انسان بستے ہیں، ان کے کچھ جذبات و روایات ہیں، جن کی پیروی کرنا وہ بچپن سے ہی سیکھتے چلے آتے ہیں۔ وہ کون سی ایسی روایات و اعمال ہیں جو ہمارے معاشرے سے ملتے جلتے ہیں۔اس بات کوجاننے کی جستجو ہمیں آٹھ سالوں سے چین میں مقیم ڈاکٹر شاہد حسین کے پاس لے گئی جنہوں نے بتایا کہ چین کے ساوتھ ویسٹ South West ریجن سے تعلق رکھنے والے افرا د کی عادات پاکستانیوں سے ملتی جلتی ہیں۔ اس ریجن میں واقع سیچوان، گوئچواور چھونگ چھنگ میں رہنے والے افراد کھانے پینے کے معاملے میں بہت فراخ دل ہیں۔ دوستانہ رویے کے مالک ہیں، مہمانوں کی بہت آؤ بھگت کرتے ہیں۔
اور بہت ہی مسالے دار اور سپائسیSpicy کھانے کھاتے ہیں۔یہاں کے لوگ چھوٹی والی لال مرچ کھاتے ہیں۔ ہمارے سی آر آئی اردو سروس کے ساتھی لیو شیاؤ ہوئی تو جنوبی چین کی خوبصورتی کے دلداد ہ ہیں چاہے معاملہ نسائی جمال کا ہو یا قدرتی مناظر کا ، روایات کا حسن ہو یا سماجی و ثقافتی تنوع کی کشش سب کچھ لیو صاحب کو جنوبی چین کا ہی اچھا لگتاہے۔ اگر چین میں رہتے ہوئے پاکستان کے موسم کا لطف لینا ہے تو پھر جنوبی چین کا شہر ہانگچو بہترین مقام ہے۔ چین کے دارالحکومت بیجنگ کے لوگ ہمارے دارالحکومت اسلام آبا د کی طرح کے ہیں۔اپنے کام سے کام رکھنے والے۔ شنگھائی اور جیانگسوکے لوگ عمومی طور پر خاموش مزاج ہیں اورسپائسیSpicy خوراک بالکل بھی نہیں کھاتے، سرکہ کھانے کے بہت شوقین ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ چاولوں پر بھی سرکہ ڈال کر کھا جاتے ہیں۔ویسے شنگھائی کے لوگوں میں ایک احساس ِ برتری و تفاخر موجود ہے۔ پورے چین کے لوگ بہت ہی ملنسار اور مددگار ہیں۔
اگر آپ کسی سے راستہ پوچھیں توآپ کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔راقم کو اس حوالے سے دو ذاتی تجربات ہیں۔ ایک دفعہ بیجنگ کی ایک جگہ پر مجھے اکیلا جانا تھا۔ میں مقررہ جگہ پر تو پہنچ گیا مگرمطلوبہ مقام نہیں مل رہا تھا۔ میں نے ایک نوجوان چینی شہری سے منزل کا پوچھا۔ ا س نے اپنے تمام کام چھوڑ کر پہلے تو انٹرنیٹ سے اس پتے کو تلاش کیا۔ پھر مجھے بتایا کہ اس جانب ہے میں ادھر چل پڑا۔ تھوڑی دیر بعد وہی چینی نوجوان میرے پیچھے آیا تا کہ میری رہنمائی کر سکے۔ اس نے آس پاس سے پوچھا ، فون بھی کیے ، راہگیروں سے بھی تصدیق کی جب اسے مکمل یقین ہو گیا تو اس نے مسکراہٹ کے ساتھ مجھے منزل کی جانب روانہ کر دیا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور دل ہی دل میں چینی قوم کے احساس ذمہ داری اور اجنبیوں سے حسن سلوک کو سراہا ۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ میرے ساتھ بیجنگ میںدوسری مرتبہ پیش آیا۔ مجھے ایک ہسپتال جانا تھا۔ اردو سروس کے ایک چینی ساتھی نے پورا نقشہ بنا کردیا اور بتایا کہ کس سب وے سٹیشن سے نکلنا ہے ۔ میں مقررہ جگہ پر پہنچ گیا مگر ہسپتال نظر نہ آیا۔ میں نے ایک نوجوان راہگیر چینی کو چینی زبان میں لکھا ہوا پتہ دکھایا اس نے وہاں سے ایک رکشہ کو روکا اور اس میں مجھے بٹھایا اور کرایہ بھی خود ہی ادا کر دیا۔ میں نے اس کرایے کی ادائیگی کرنے سے بہت روکا مگر وہ نہ مانا ۔ دو منٹ بعد ہی رکشے نے مجھے ہسپتال کے سامنے اتار دیا۔ ہسپتال سب وے سٹیشنز سے بہت قریب تھا مگر اس کے عقبی جانب تھاتو گھوم کر آنا پڑتا تھا۔بعد میں جب بھی اس ہسپتال جانا ہوا تو خود ہی پیدل پہنچ جاتا تھا۔یہ تو چینی شہریوں کی انسان دوستی اور اجنبیوں کی مدد کے واقعات تھے۔
ان کی کئی ایک معاشرتی عادات بھی ہمارے معاشرے سے ملتی جلتی ہیں مثلاً ہمارے ہاں اندرون شہر کے محلو ں میں کبوتر بازی کا رواج ہے، بیجنگ کے قدیم محلوں میں بھی اس کی روایت موجود ہے مگر آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی جارہی ہے۔ ہم بٹیر بڑے شوق سے پالتے ہیںاور بعض افراد تو ان کو ہاتھوں میں اٹھائے پھرتے ہیں وہاں پر بھی کسی دور میں جھینگر کو پکڑنے اور پالنے کا رواج بہت مقبول ہوا کرتا تھا۔ اردو سروس کے ساتھی لیو شیا ؤ ہوئی بتاتے ہیں کہ اپنے بچپن میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر وہ بہت جھینگر پکڑا کرتے تھے ۔ اب بھی چین کے بعض علاقے جھینگر کی مارکیٹ کے حوالے سے بہت مشہور ہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں پتنگ بازی بہت ہوا کرتی تھی اورموسم بہار کی آمد پر بسنت کاتہوار لوگ بڑے ذوق و شوق اورجوش و خرو ش سے مناتے تھے ۔
وہاں چین میں بھی پتنگ بازی کا رجحان موجود ہے۔ وہاںپتنگ بازی کافیسٹیول منایاجاتا ہے۔ہمارے ہاں تو پتنگ بازی کے حوالے سے پیچ لڑانے، ہوائی فائرنگ اور کھانے کا اہتمام ہوتا ہے اور آسمان اور گھروں کی چھتیں بالترتیب پتنگوں اور لوگوں سے بھری نظر آتی ہیں مگر وہاں یہ منظرقدرے مختلف ہوتا ہے۔ ایک تو وہاں پتنگیں مختلف شکلوں اوررنگ کی ہوتی ہیںاور پیچ لڑانے کی بجائے اونچی پتنگ اڑانے پر توجہ زیادہ مرکوز ہوتی ہے۔جس کی پتنگ جتنی اونچی جاتی ہے اس کو اتنا ہی خوش قسمت تصور کیا جاتا ہے۔پتنگیں موسم بہار میں ایک روز کسی کھلے گراونڈ میں یا دریا کے کنارے اڑائی جاتی ہیں۔ خوش قسمتی کا تذ کرہ آیا ہے تو بتا تا چلوں کہ چینی معاشرے میں کچھ توہمات بھی پائے جاتے ہیں۔چینی لوگ نئے سال کی آمد کے موقع پر اس کے استقبال کے لیے گھروں کی صفائی کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نئے سال کے موقع پر گھر کو صاف رکھنے سے سال خوشیوں والا ہوتا ہے اور اس میں خیروبرکت ہوتی ہے۔ یہ پٹاخے جلا کر بلاؤں کو دور بھگاتے ہیں۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر عید یا دس محرم الحرام کے موقع پر لوگ قبرستانوں میں جانے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اوراپنے مرحوم بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ایسی ہی کچھ روایت چین میں بھی پائی جاتی ہے۔ چین میں ایک فیسٹیول
Qingming Festival ہوتا ہے جس کو Tomb-Sweeping Dayبھی کہتے ہیں۔ اس میں چینی لوگ اپنے مرحومین کی قبروں کی زیارت کو جاتے ہیں۔ وہاں پھول چڑھاتے ہیں، قبروں کی صفائی کرتے ہیں اوران کے لیے اپنے عقیدے کے مطابق دعاکرتے ہیں۔بعض افراد اس موقع پر نقلی کاغذی کرنسی بھی جلاتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ جتنی زیادہ کرنسی جلائیں گے اتنی رقم واپس آئے گی۔زندگی میں مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنے کی صورت میں بدھ مانکس یا بدھوں کے ٹیمپلز میں موجود راہبوں کے پاس رہنمائی اور سکون کی طلب کے لیے جانے کا معاشرتی چلن بھی وہاں پایا جاتا ہے۔بدھ راہب جھاڑ پھونک بھی کرتے ہیں اور اپنے عقیدے کے مطابق دم کی ہوئی مختلف نوعیت کی اشیاء بھی لوگوں کو دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی تعویز گنڈہ اور دم کا رواج موجود ہے۔
نئے سال کے موقع پر بعض ٹیمپلز پر چینی شہری اپنی اپنی خواہشات کوایک سرخ رنگ کی کاغذی پٹی پر لکھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے ان کی قبولیت کے لیے دعا کرتے ہیں۔ یہ عمل ہمارے ہاں کے منت مانگنے کے مختلف طریقوں سے مماثلت رکھتا ہے۔راقم کو ایک بار بیجنگ کی لائن ون کے سب وے سٹیشن ای چوان لو (Yuquanlu)سے شمال کی جانب جاتی سڑک کے سروس روڈ پر ایک حیرت انگیز مشاہدہ ہوا۔ اس سروس روڈ پر کافی ریستوران اور شاپس ہیں۔
وہیں میں نے دیکھا کہ سڑک پرایک بوڑھی خاتون بیٹھی ہوئی ہیں اور ایک نوجوان خاتون ان کو اپنا ہاتھ دکھا رہی ہیں۔یہ منظر تو ہمارے ہاں کے پامسٹوں کی طرح کا تھا۔میں قریب ہوا اوراپنے موبائل سے ان کی دست شناسی کے اس عمل کی ایک تصویر بنا لی۔ تصویر بنانے کا نوجوان خاتون برا منا گئیں ۔یوں معلوم ہوا کہ چینی معاشرے میں بھی دست شناسی اور اس پر یقین کی روایت موجودہے اورلوگ اس عمل کی تشہیر پسند نہیں کرتے۔ چینی معاشرے میں بیٹی کی پیدائش پر لوگ بہت خوش ہوتے ہیںکیونکہ وہاں شادی کے تمام تر اخراجات کی ذمہ داری لڑکے کے سپرد ہوتی ہے۔لڑکی صر ف اپنے گھر سے رخصت ہوتی ہے۔ شادی کے موقع پر ہماری ہی طرح ستاروں کے ملاپ کا خیال رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ چین میں ہر سال ایک مخصوص جانور سے منسوب ہوتا ہے اور شادی کے موقع پردلہا اوردلہن کی پیدائش کے سال کو مدنظر رکھا جاتا ہے تاکہ ان میں ہم آہنگی رہے ۔ مثال کے طور پر شیر کے سال میںپیدا ہونے والے کی شادی بکری یا خرگوش کے سال میں پیدا ہونے والے سے نہیں کی جاتی کیونکہ یہ دونوں جانور ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل ، اردو سروس بیجنگ
The post قدیم ہوتانگ طرزِ معاشرت میں پورا محلہ ایک خاندان بن جاتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.