یہ ایک ٹوٹا پھوٹا مکان تھا، چند بچے اس مکان کے سیمنٹ سے بنے فرش پر اور کچھ بچے بوسیدہ گدوں پر بیٹھ کر انہماک سے ٹی وی پر کارٹون دیکھنے میں مصروف تھے۔ سب بچوں کے چہرے سُتے ہوئے تھے، سوائے ایک تین سالہ بچی کے، جو لکڑی سے بنے جھولے پر بیٹھی کارٹون دیکھنے کے ساتھ اپنے پیروں کو زمین سے رگڑ رہی تھی۔
ایک ’چڑیل‘ بچی کو اتنے سکون کے ساتھ دیکھ کر آنکھوں پر یقین کرنا بہت مشکل تھا۔ صر ف یہ بچی ہی نہیں بلکہ کمرے میں موجود تمام بچے ’’جادوگر‘‘ تھے اور ’’چُڑیلوں‘‘ کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی لیے انہیں سب سے الگ تھلگ نائجیریا کے جنوب مشرقی شہر کالابار کے ایک ایمرجینسی شیلٹر ہوم میں رکھا گیا تھا۔ بیسمنٹ جتنے اس کمرے کا کُل اثاثہ چھے پھٹے پُرانے گدے اور ایک عدد ٹیلی ویژن تھا۔ کمرے کا دروازہ ان جادوگر بچوں کی حفاظت کے پیش نظر باہر سے مقفل تھا۔ یہ شیلٹر ان جیسے بچوں کے لیے بنایا گیا تھا جنہیں ان کے اپنے والدین، رشتے داروں نے ہی جادوگر قرار دے دیا تھا۔ اور نہ اس شہر میں کوئی ان بچوں کو گود لینے کے لیے تیار ہے کیوں کہ یہ ’برانڈڈ جادوگر‘ ہیں۔
کارٹون ختم ہوتے ہی جھولے پر اطمینان سے بیٹھی بچی جینا (فرضی نام) نے کمرے سے باہر نکل کر اپنی قمیص اوپر اٹھائی۔ اس کی کمر پر موجود جلنے، کٹنے اور تشدد کے نشانات کسی اور کے نہیں بل کہ اس کی اپنی نانی کے عطاکردہ تھے۔ اس شیلٹر ہوم میں آنے سے قبل جینا اپنے پندرہ سالہ بھائی مائیکل (فرضی نام) کے ساتھ کالابار کے علاقے اکمپا میں اپنی نانی کرسٹیانا کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔
والدین کی ایک حادثے میں موت کے بعد ان دونوں بچوں کی ذمے داری کرسٹیانا نے اٹھالی، وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئی۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی باقاعدگی سے اینٹی ریٹرووائرل (ایڈز کی ادویات) ادویات نہ کھانے والی ایڈز کی مریضہ کرسٹیانا نے اپنی گرتی ہوئی صحت کا ذمے دار ان بچوں کو قرار دے دیا۔ وہ جینا اور مائیکل کو ایک مقامی چرچ میں لے گئی۔
جہاں کے ایک پادری نے بنا سوچے سمجھے ان دونوں بچوں کو ’برانڈڈ جادوگر‘ قرار دے دیا۔ پادری کی زبان سے ادا ہونے والے ان دو لفظوں سے کرسٹیانا کے اندر ایک وحشی عورت نے جنم لیا۔ اس کا رویہ اپنے نواسے نواسی کے ساتھ بالکل تبدیل ہوگیا۔ اب اُس کے لیے یہ بچے انسانی روپ میں موجود چڑیل اور بھوت تھے، جو اس کے بیٹی اور داماد کو مارنے کے بعد اب اُسے تڑپا تڑپا کر مارنا چاہتے تھے۔ اس نے ایڈز کی وجہ سے ہونے والی کم زوری اور تکلیف کا بوجھ بھی ان بچوں کے کاندھوں پر ڈال دیا۔ چرچ سے گھر واپسی تک کے مختصر راستے میں وہ ان جادوگر بچوں کو سبق سکھانے کے لیے بہت طویل منصوبہ بندی کرچکی تھی۔
چرچ سے آنے کے چند دن بعد ہی کرسٹیانا کا ایک پڑوسی رینکن اس کے گھر سے چیخ پکار کی آوازیں سن کر وہاں پہنچا، جہاں اس نے دیکھا کہ کرسٹیانا کپڑے سکھانے کی رسی کاٹنے کا موردِالزام ان بچوں کو ٹہرارہی تھی جو کہ انہوں نے اپنی جادوگری دکھاتے ہوئے کاٹ دی تھی۔ رینکن یہ دیکھ کر کرسٹیانا کو ایک کونے میں لے گیا، جہاں کچھ دیر گفت گو کے بعد وہ وہاں سے نکل گیا۔
رینکن اور کرسٹیانا کی اس مختصر گفت گو نے ان بچوں کے لیے بربریت کا ایک نیا در وا کیا۔ اگلے دن پو پھٹے ہی رینکن اپنے ایک عامل دوست کے ساتھ کرسٹیانا کے گھر میں موجود تھا۔ رینکن کے ساتھ آئے شخص نے ان دونوں کو قریبی جنگل میں لے جا کر مارنا شروع کردیا۔ وہ جینا اور مائیکل کو مارنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی نانی کو شیطانی اثرات سے آزاد کرنے کا مطالبہ بھی کرتا رہا، جینا اور مائیکل نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی، جس نے رینکن اور اس کے دوست کو مزید مشتعل کردیا، انہوں نے دونوں بہن بھائیوں کو پکڑ کر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے اور اپنے گھر لے گئے۔ رینکن نے کوئلے جلا کر ایک تیز دھار خنجر کو کوئلوں پر رکھ دیا۔ جب خنجر کا پھل گرم ہوکر سُرخ ہوگیا تو انہیں نے جینا اور مائیکل سے پوچھا’تم دونوں جادوگر ہوں؟
جواب میں انکار سُن کر رینکن اور اس کے دوست نے ان بچوں کو مارنا اور گرم خنجر سے جسم کے مختلف حصوں کو داغنا شروع کردیا۔ وحشت و بربریت کا یہ کھیل صبح سے لے کر دوپہر تک چلتا رہا۔ کمرے کی زمین ان بچوں کے زخموں سے بہنے والے خون اور فضا ان کی دردناک سسکیوں سے بھر گئی تھی۔ تشدد سے بچنے کے لیے آخر کار ان دونوں نے جادوگر ہونے کا اعتراف کرلیا، لیکن اس اعتراف نے سوالات کا ایک نیا سلسلہ شروع کردیا۔
رینکن نے ان سے پوچھا،’کیا تم دونوں نے ہی اپنے ماں باپ کا قتل کیا؟ مائیکل نے جواب دیا ’ہاں‘۔ مائیکل کا جواب ختم ہونے سے پہلے ہی رنکن نے نیا سوال داغ کیا،’اپنے والدین اور نانی کے گھر میں پیدا ہونے والے مسائل کا سبب بھی تم ہی تھے؟‘ مائیکل نے اس بات کا جواب بھی ہاں میں دیا۔ اس اعتراف کے بعد مائیکل اور جینا کو برانڈڈ جادوگر قرار دے کر گھر کے ایک کمرے میں بند کردیا گیا، جہاں ان پر اذیت رسانی کے نت نئے تجربات کیے گئے۔ کبھی انہیں درخت سے باندھ کر جسم پر کھولتا ہوا پانی ڈالا گیا تو کبھی گرم خنجر سے ان کے جسموں کو داغا گیا۔
جب میں نے مٹی سے بنے اس چرچ کا دورہ کیا تو اس وقت وہ پادری وہاں موجود نہیں تھا جو ان بچوں کو جادوگر قرار دیتا تھا۔ چرچ میں موجود ایک دوسرے پادری اسرائیل اُبی نے ان تمام تر الزامات کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس چرچ میں کوئی بھی بچوں کے جادوگر ہونے یا نہ ہونے کا تعین نہیں کرتا اور نہ ہی چرچ میں بچوں پر سے شیطانی اثرات ختم کرنے کے لیے کسی قسم کی رُسومات یا تقریبات کا انعقاد اور نہ کوئی جادو ٹونا کیا جاتا ہے۔
بہت زیادہ پوچھنے پر بالآخر اسرائیل اُبی نے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ ’چرچ میں سمندری بلاؤں اور بھوت پریت سے نجات کے لیے عمل کیے جاتے ہیں، کیوں کہ نائجیریا کے سمندر اور دریاؤں کے اطراف میں رہنے والے بہت سے لوگ سمندری بلاؤں، بھوتوں کی موجودگی پر یقین رکھتے ہیں۔‘ جینا اور مائیکل کو آزادی ان کے ایک رشتے دار کی بدولت ملی جنہوں نے ان کے جسم پر جلنے کے نشانات دیکھ کر پولیس کو آگاہ کیا۔ جادوگری اور بھوت پریت جیسی باتوں پر یقین نہ رکھنے والے جینا کے انکل نے پولیس کو اس بات سے آگاہ کرتے ہوئے اس پادری کو فوری طور پر برطرف کرنے کا مطالبہ بھی کیا جو بچوں کو جادوگر، چڑیل قرار دے کر انہیں بربریت کی ایک نہ ختم ہونے والی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ اس جیسے (پادری) لوگ مجرم ہے، جو لوگوں کی زندگیاں ختم کر رہے ہیں۔ جینا، مائیکل اور اس پناہ گاہ میں رہنے والے دیگر بچوں کے جسموں پر موجود تشدد کے نشانات نائجیریا میں کوئی غیرمعمولی اور نئی بات نہیں ہے۔ نائجیریا کے ڈیلٹائی خطے میں رہنے والے نوے کی دہائی سے ہی جادوگری کے شبہے میں اپنے ہی جگر گوشوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا تے آرہے ہیں۔ اس سے پہلے صرف معمر خواتین ہی کو جادوگر قرار دے کر تشدد کیا جاتا تھا۔
اعدادوشمار کے مطابق 2008ء تک نائجیریا کی جنوب مشرقی ریاستوں Akwa Ibom اور کراس ریورز میں پندرہ ہزار بچوں کو جادوگر قرار دیا گیا۔ تحقیق کے مطابق اٹھارہ سال کے اس عرصے میں بہت سے بچوں بشمول شیرخوار بچوں پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، ان کے سروں میں کیلیں ٹھونکی گئیں، زبردستی سیمنٹ پلایا گیا، آگ لگائی گئی، تیزاب ڈالا گیا، زہر دیا گیا اور یہاں تک کہ زندہ دفن تک کردیا گیا۔
2010ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ تر ایسے بچوں کو جادوگر قرار دیا گیا جو ذہنی اور جسمانی طور پر معذور، سست، کاہل اور سرکش تھے۔ نائجیریا کے کرمنل کوڈ کے تحت کسی کو جادوگر قرار دینا اور اس کی بنیاد پر دھمکی دینا قابل دست اندازی پولیس ہے۔ نائجیریا کے چائلڈ رائٹس ایکٹ 2003ء بل کے مطابق کسی بچے پر ذہنی اور جسمانی طور تشدد کرنا یا اس کے ساتھ کوئی غیرانسانی حرکت کرنا قابل سزا جُرم ہے۔ تاہم قومی سطح پاس ہونے والے اس قانون کو ملک کی 36 ریاستوں سے ابھی تک توثیق درکار ہے۔
یہ قانون نہ صرف ہر ایک ریاست کو خصوصی ذمے داری اور کسی مخصوص صورت حال میں اس سے متعلقہ قانون بھی بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ نائجیریا کی تین چوتھائی ریاستوں نے مقامی سطح پر چائلڈ رائٹس قوانین بنا رکھے ہیں جن میں سے Akwa Ibom واحد ریاست ہے جہاں کے قانون میں بچوں کو جادوگر قرار دے کر تشدد کا نشانہ بنانے سے متعلق خصوصی شق شامل ہے۔
2008ء میں بننے والے اس قانون کے تحت ’وچ برانڈنگ‘ (بچوں کو جادوگر قرار دینا) پر دس سال قید تک کی سزا ہوسکتی ہے۔ تاہم تمام تر قانون سازی کے باوجود کراس ریورز اور Akwa Ibom ریاستوں میں وچ برانڈنگ ریاستی حکومتوں اور پولیس کی ناک کے نیچے جاری ہے۔ اس بابت کراس ریور ریاست کے وزیر برائے بہبود آبادی اولیور اور وک کا کہنا ہے کہ ’ریاستی حکومت یونیسف اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر بچوں کو جادوگر قرار دینے کے مسئلے پر ہم تن دہی سے کام کر رہے ہیں۔ کرمنل لا کی وجہ سے یہ پریکٹس کم ہوگئی ہے۔ تاہم عدالتوں میں اس طرح کے مقدمات کا ایک بھی فیصلہ باقاعدگی سے نہیں ہوا۔ اگر حکومت لوگوں میں اس حوالے سے شعور پیدا کرنے کی کوشش کرے تو ہمارا یہ اقدام کلیساؤں اور ان کے پادریوں کے خلاف بھی جاسکتا ہے۔‘
بچوں کے حقوق اور انہیں محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے والی ایک مقامی تنظیم کالابار بیسک رائٹس کاؤنسل اینیشے ایٹو (بی سی آر آئی) کے صدر اور وکیل جیمز ابور کا کہنا ہے کہ پولیس کے پاس مالی اور تیکنیکی دونوں وسائل کی کمی ہے اور انہیں اس نوعیت کی کیسز کی تفتیش کرنے کی تربیت بھی نہیں دی گئی ہے۔ اور اکثر و بیشتر ہمیں اپنے طور پر تفتیش کرنی پڑتی ہے۔ میرے پاس ایک کیس ایسا بھی آیا جس میں باپ نے جادوگر ہونے کے شبہے میں اپنے دو بچوں کو زہر پلا دیا تھا، اسے ملزم قرار دیا گیا لیکن پولیس کے پاس وسائل ہی نہیں تھے کہ وہ خون کے نمونے لاگوس بھیج کر موت کی وجہ کی تصدیق کرسکتی۔
اس بات کو ایک سال ہوگیا ہے، بچوں کی لاشیں ابھی تک سرد خانے میں موجود ہیں اور باپ ابھی تک آزاد ہے۔ اس جیسے سیکڑوں کیسز سالوں سے زیرالتوا ہیں۔ جیمز کا کہنا ہے کہ اس طرح کے متنازعہ کیسز کی تفتیش میں پولیس اور حکومت بھی تذبذب کا شکار رہتی ہیں، اور متاثرہ بچوں کے گھر والوں اور کمیونیٹیز کی جانب سے ثبوت فراہم نے کرنے سے ہمارا کام بھی بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس موجود کیسز میں سے ایک تہائی کیسز وچ برانڈنگ کے حوالے سے ہیں۔ یہ ظالمانہ پریکٹس صرف نائجیریا کے مضافاتی علاقوں تک محدود نہیں ہے، چھے ماہ قبل ہی دارالحکومت ابوجا میں ایک وچ ڈاکٹر (عامل) کے ٹارچر کیمپ سے چالیس بچوں کو بازیاب کرایا گیا ۔ گزشتہ ماہ لاگوس میں ایک بچے کو جادوگر ہونے کے شبے میں اس کی ماں نے چابک سے بہت بے رحمی سے مارا، لیکن ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کارروائی نہیں ہوسکی تو ہمارے پاس قانون تو موجود ہے، لیکن مسئلہ قانون میں نہیں اس کی تکمیل میں ہے، اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ جیمز کا کہنا ہے کہ کچھ عامل اور پادری نائجیریا کے ڈیلٹائی خطے میں خوف کا بیج بو رہے ہیں، غربت اور بھوت پریت پر یقین ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں یہ پریکٹس بڑھ رہی ہے۔
وکیل جیمز ایبور کا کہنا ہے کہ پینٹے کاسٹل چرچ اپنے مذہبی اجتماعات میں ذاتی ناکامیوں اور بدقسمتی کا الزام جادوئی طاقتوں کو قرار دینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ حال ہی میں ہونے والے ایک واقعے میں ایک لڑکے کو اس کے اپنے گھر والوں نے محض اس بات پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا کہ چرچ کے خیال میں لڑکے میں موجود شیطانی قوتوں کی وجہ سے ان کی موٹر سائیکل ٹوٹ گئی، ایک باپ نے ملازمت چُھوٹنے پر اپنی بیٹی کو جادوگر قرار دے کر مار پیٹ کی۔ یہ لوگ خوف فروخت کرتے ہیں تاکہ لوگ انہیں نذرانے اور ہفتہ وار چندہ دیتے رہیں۔
گزشتہ سال اقوام متحدہ نے اس مسئلے کی بابت شعور اُجاگر کرنے کے لیے نائجیریا اور دیگر ممالک میں ورک شاپس منعقد کیں، جس کی حتمی رپورٹ کے مطابق،’اس ظالمانہ رسم کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد کے بارے میں درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، کیوں کہ اس طرح کے زیادہ تر واقعات کو رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ جب کہ لوگوں میں جادوگروں خصوصاً جادوگر بچوں کے حوالے سے خوف پیدا کرنے میں ان جعلی عاملوں کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے جو اپنے پیسوں کی خاطر اس سارے کھیل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
کراس ریور ریاست کے ایک چھوٹے قصبے Akpabuyoکے رہائشی کسان باسے ایسے بہت سے واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دو سال قبل میں نے ڈائیون زیون چرچ کے پادری کو دو کم سن لڑکیوں پر تشدد کر تے دیکھا اور آج بھی اس کا تصور کر تے ہوئے جھرجھری آجاتی ہے، مجھے نہیں پتا کہ اُن لڑکیوں کے ساتھ بعد میں کیا ہوا، لیکن ایسے واقعات یہاں معمول بن چکے ہیں۔ اسی طرح ایک حاملہ عورت کی زچگی تاریخ سے کچھ ہفتے تاخیر کا شکار ہوگئی جس پر اُس نے فیس کے عوض مذکورہ چرچ کے پادری کی خدمات حاصل کیں جس نے وضح حمل میں تاخیر کا ذمے دار ایک سات سالہ اور دس سالہ بچی پر عائد کرکے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے کے ایک ہفتے بعد باسے نے کھیتوں سے واپسی پر ایک لڑکی کی چیخنے کی آوازیں سنیں۔
وہاں جا کر دیکھا تو تین افراد ایک چھوٹی سی بچی کو درختوں سے باندھ کر گنے اور خنجر سے زدوکوب کر رہے تھے۔ بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک مقامی تنظیم چائلڈ رائٹس امپلی مینٹیشن کمیٹی کی افسر ایبے اوکارا کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اس علاقے میں بچوں کے ساتھ ہونے والے بدسلوکی کے واقعات میں سے 60 فی صد کیسز جادوگری سے متعلق ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثریت کو پادری کی جانب سے جادوگر قرار دے کر تشدد کیا جاتا ہے، کیوں کہ زیادہ تر پادریوں کا جعلی عاملوں کے ساتھ کمیشن طے ہے۔ غربت، بدقسمتی کا الزام دھرنے کے لیے بچے ان پادریوں کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔
اوکارا کا کہنا ہے کہ دارلحکومت ابو جا سے نائجیریا کے ڈیلٹائی علاقوں میں چوراہوں پر لگے بل بورڈ کی تحریر پڑھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کا سب سے بڑا کاروبار شراب کی فروخت اور جن نکالنا ہے۔ ہر پوسٹر میں ضرورت رشتہ، بے روزگاری کے خاتمے، بانجھ پن کے علاج سے زیادہ تشہیر کالے جادو کے توڑ کی گئی ہے۔ نائجیریا میں جادو ٹونا، بھوت پریت پر یقین کی ایک اہم وجہ پینٹے کوسٹل خانقاہوں کی وہ دو نظریاتی ڈاکٹرائن بھی ہے جس نے 1970ء سے نائجیریا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس نظریے میں کام یابی اور رزق کی فراوانی پر زور دیا گیا ہے اور اگر کوئی اپنی زندگی میں ناکام ہے تو یہ اس پر بد اثرات کی علامت ہے۔ دوسرے نظریے کے تحت پینٹے کوسٹل چرچز دنیا کو ایک ایسے میدان ِ جنگ کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں اچھی اور بری طاقتوں کی جنگ جاری ہے۔
اسی ڈاکٹرائن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نائجیریا میں خانقاہیں ایک مذہبی جگہ سے زیادہ کاروباری مرکز بن گئی ہیں۔ اور ان میں سے ایک چرچ آرک آف نوح کالا بار کے جنوب میں واقع ہے ۔ میں جب آرک آف نوح پہنچا تو مرکزی دروازے کے سامنے موجود چپلیں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ اندر جن نکالنے کا عمل جاری ہے۔
اندر سیمنٹ کے فرش پر گول دائرے کی شکل میں پیروں کے انگوٹھے پر ناچتی لڑکی پسینے میں شرابور ہوکر تھک کر نیچے گرنے ہی والی تھی، لیکن ہال میں موجود شخص نے اسے کمر سے پکڑ لیا۔ یہ کسی رقص کی پریکٹس نہیں بلکہ جھاڑ پھونک کرنے والے ایک عامل کی جانب سے ’جادوگر‘ بچوں کو ان عاملوں کے سپرد کرنے کا نیا اور بہیمانہ طریقہ ہے۔ تین پادریوں پر مشتمل ٹیم ایک پندرہ سالہ لڑکے کا علاج کرنے کے لیے تیار ہے۔ تیس منٹ دورانیے کے اس کورس میں تینوں نے ’مریض‘ کے سر پر تھپڑ مارنے کے بعد اس کے کان کی لو پر چٹکیاں لینا شروع کردیں، اس عمل کے بعد تینوں نے باری باری اس کے پیٹ کو پکڑ کر مضبوطی سے بھینچنا شروع کردیا۔
اندر پیلی قمیص میں ملبوس پادری گیڈیون اوکون جادوگر قرار دیے گئے بچوں کے سامنے دعا مانگ رہا تھا۔ ’’خداوند میری آنکھیں کھول دے تاکہ میں لوگوں کی مشکلات دیکھ سکوں، اسی طرح جس طرح میں دیکھ سکتا ہوں کہ کون چڑیل، جادوگر ہے، گیڈیون کا دعویٰ تھا کہ ان بچوں کو کوئی اس کے پاس لے کر نہیں آیا ہے بلکہ اس نے اپنی روحانی قوتوں سے انہیں یہاں بلا یا ہے۔ اور اگر یہ ’پاک‘ ہونے کے لیے تیار ہے تو پھر ہم اس کے معاوضے پر بات کریں گے۔ فیس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ یہ ’علاج‘ اور بچے پر قابض جن کی طاقت پر منحصر ہے۔
سمندری بلاؤں کو مارنے کے لیے میں دو لاکھ نیرا (ساڑھے پانچ سو امریکی ڈالر) لیتا ہوں لیکن اس پر والدین کے ساتھ بات چیت کے بعد کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ نائجیریا جیسے ملک میں جہاں ایک پاؤنڈ اجرت کمانے والے کو خوش قسمت سمجھا جاتا ہے وہاں یہ رقم بہت زیادہ ہے۔ گفت گو ختم ہونے کے بعد گیڈیون نے اپنا کام شروع کردیا۔ کئی گھنٹے مذہبی دعاؤں اور گیتوں کے بعد تینوں بچوں جن کی عمریں دس سے پندرہ سال کے درمیان تھیں، کو سافٹ ڈرنک کی بوتل میں موجود سبز، چپچپا محلول پلایا گیا۔ یہ ان بچوں کو تین دن کے روزے کے بعد دی جانی والی شے تھی۔ اوکون کے مطابق یہ محلول پانی، پام آئل، مٹی، پتے اور سات کن کجھوروں کا مرکب ہے۔ اور ان اجزا کے بارے میں مجھے خداوند نے بتایا ہے۔
نائجیریا میں توہم پرستی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک کی فلمی صنعت بولی وڈ کے بعد دنیا میں سب سے فلمیں بنانے والی صنعت ہے۔ یہاں سالانہ ڈھائی ہزار سے زائد فلمیں بنتی ہیں۔ ان فلموں میں رومانس، مزاح، تاریخ، گینگ وار سے زیادہ بھوت پریت، مافوق الفطرت طاقتوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔ مذہب اور ماورائی طاقتوں کے موضوع پر بننے والی فلمیں نہ صرف نائجیریا بلکہ پورے افریقا میں بہت مقبول ہیں۔
1999میں لبرٹی گوسپیل چرچ کی جانب سے ایک فلم ’اینڈآف دی وکڈ‘ بنائی گئی۔ جس میں چند بچوں پر مشتمل گروہ کو اپنے والدین کا قتل کرکے ان کا خون پیتے، گوشت کھاتے دکھا یا گیا تھا۔ اس فلم نے پورے نائجیریا میں بچوں کے خلاف تشدد کی نئی لہر پیدا کردی کتنے ہی والدین نے جادوگر ہونے کے شبے میں اپنے بچوں پر بدترین تشدد کیا، کئی بچوں کو قتل کردیا گیا۔ میری (فرضی نام) بھی ان فلموں سے متاثرہ بچوں میں سے ایک ہے۔ میری کا کہنا ہے کہ والدین کے انتقال کے بعد وہ اپنے ایک رشتے دار کے پاس رہنے لگی۔ جس نے اسے ساتھ سونے پر مجبور کیا اور انکار پر چڑیل قرار دے دیا۔ وہ کہتی ہے انہوں نے میرے ہاتھ پاؤن باندھ کر ایک کمرے میں پھینک دیا۔ تنگ آکر میں نے عامل کے سامنے چڑیل ہونے کا اعتراف کرلیا، اس دن کے بعد سے میرا کھانا پینا بھی بند کردیا گیا اور ایک دن موقع ملنے پر میں وہاں سے بھاگ نکلی ۔
کالا بار کے مضافاتی علاقے میں موجود کچرا منڈی اب میری کی جائے مسکن ہے، جہاں وہ اپنی ہی جیسی چار دوسری لڑکیوں کے ساتھ رہتی ہے۔ نائجیریا بچوں کے لیے جہنم بن چکا ہے اور شیلٹر ہوم میں موجود بچوں کو گود لینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے، کیوں کہ ان کے نزدیک وہ ’برانڈڈ جادوگر‘ ہیں اور کم ازکم اس ملک میں کوئی بھی ان جادوگر بچوں کو اپنے گھر لے جانے کی خواہش نہیں رکھتا اور یہی وجہ ہے ہے کہ شیلٹر ہوم میں موجود بہت سے بچے بچیاں خود کو شیطان اور چڑیل تصور کرنے لگے ہیں، جس کا سدباب کرنا نہایت ضروری ہے۔
تحریر: مارک ایلیسن
The post ننھے جادوگر، معصوم چڑیلیں appeared first on ایکسپریس اردو.