پچاس کی دہائی کے ابتدائی دن تھے ایک پُرفضا مقام پر چرواہوں کا قافلہ اترا تو جھیل کے کنارے سبزہ زاروں میں چرتی ہوئی ہرنیاں بھاگ کھڑی ہوئیں۔
مست ہرنیوں کی پتلی پتلی ٹانگیں اور موٹی موٹی آنکھیں قابل دید تھیں۔ چرواہوں کی منزل گرمائی چراگاہ (جہاں برف پگھلنے کے بعد موسم گرما میں جانوروں کو چرایا جاتا ہے) تھی۔ البتہ کچھ دیر سستانے کے لیے انھوں نے اس مقام پر پڑاؤ ڈالا تھا۔ یہاں انھوں نے پولو کھیلا اور پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔
جولائی 2000 میں اسی مقام پر ایک اور قافلہ اترا اس مرتبہ مست ہرنیوں کی جگہ پر ہیلی کاپٹر کھڑے تھے۔ چراہوں کے اترنے کی جگہ 1000 خیمے لگے ہوئے تھے۔ آس پاس 1500 کے قریب گاڑیاں کھڑی تھیں۔ گرد کا طوفان اور ڈیزل چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔
یہ مقام ضلع چترال میں سطح سمندر سے 12,305 فٹ بلندی پر واقع ہے اور شندور کہلاتا ہے۔ چترال سے گلگت کو جانے والا راستہ یہیں سے ہوکر جاتا ہے۔ شندور ہندوکش کے متوازی ہندو راج کے پہاڑی سلسلوں میں گھرا ہوا ایک درہ اور سطح مرتفع ہے۔ موشا بار کی پہاڑی چوٹیاں برف کی چادر تانے اس پر سایہ فگن رہتی ہیں۔ شندور کی لمبائی 10 کلومیٹر اور چوڑائی 2 کلومیٹر ہے۔ یہاں پانی کی تین کلو میٹر لمبی اور ڈیڑھ کلو میٹر چوڑی جھیل بھی ہے۔ جھیل کے کنارے تینوں اطراف سے مٹی کے اونچے ٹیلوں میں گھرا ہوا پولو گراؤنڈ ہے، جو قدرتی اسٹیڈیم کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں ہر سال گلگت اور چترال کی حریف ٹیمیں فری اسٹائل پولو کھیلتی ہیں۔ اسے شندور کا پولو میلہ کہا جاتا ہے اور کم و بیش 15 سے 20 ہزار سیاح ہر سال پولو میلہ دیکھنے آتے ہیں۔ پولو کے علاوہ گلائیڈنگ، کشتی رانی اور ٹراؤٹ فشنگ بھی کی جاتی ہے۔
شندور ماحولیاتی لحاظ سے اہم مقام ہے۔ یہاں گرمیوں میں درجۂ حرارت 13 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نہیں ہوتا۔ سردیوں میں منفی 27 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے اور جھیل کا پورا پانی منجمد ہوجاتا ہے۔ مئی کے مہینے میں برف پگھلتے ہی پھول کھلتے ہیں، جڑی بوٹیاں سرسبز ہوجاتی ہیں اور گھاس اُگ آتی ہے۔ بنفشہ لالہ اور رنگ رنگ کے جنگلی پھول کھل اٹھتے ہیں۔ سورنک، بیرش اور چنار دور دور تک اپنی مہک بکھیرتے ہیں۔ چکور اور تیتر اپنے چوزوں کو لے کر گھونسلوں سے نکل آتے ہیں، جھیل کی سطح پر سفید بطخیں تیرتی نظر آتی ہیں۔
چند ہفتوں کی یہ بہار انسانی سیلاب آنے تک قائم رہتی ہے۔ پھر انسانی آبادی کا سیلاب اس بہار کو بہا لے جاتا ہے۔ اس سال بھی 7 سے 9 جولائی تک شندور کا پولو میلہ روایتی تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوا اور گذشتہ سالوں کی طرف اس سال بھی دنیا کے بلند پولو گراؤنڈ کے گرد خیمہ بستی آباد ہوئی۔ پولو گراؤنڈ کے بائیں ٹیلے پر چترال اسکاؤٹس کا بیس شندور ہٹ واقع ہے۔ اس کے ساتھ چترال اسکاؤٹس پوسٹ اور نیم فوجی علاقہ ہے۔ پولو گراؤنڈ کے بائیں طرف جھیل کے کنارے ہیلی پیڈ بنائے گئے ہیں۔ سامنے سے راستہ گزرتا ہے۔ راستے کی ڈھلوان پر حد نظر تک خیمے ہی خیمے نظر آتے ہیں۔
پولو گراؤنڈ کو ماہر گھڑ سواروں کے لیے اچھی طرح سجایا جاتا ہے۔ پولو گراؤنڈ کے پیچھے ٹیلوں کی اوٹ میں چترال کی ضلعی انتظامیہ پولو کے کھلاڑیوں کا کیمپ لگا ہوتا ہے جو حد نظر تک پھیلا ہوا ہے۔ آگے پھر چھوٹے چھوٹے ٹیلے آتے ہیں اور ٹیلوں کے نیچے گلگت کیمپ ہوتا ہے۔ ایک ٹیلے پر چڑھ کر نظارہ کریں تو جھیل کے پار ایک خوب صورت سبزہ زار پر بے شمار خیمے لگے نظر آتے ہیں۔ پولو میلے کی مقررہ تاریخ کے 20 دن بعد تک ان انتظامات کو سمیٹنے کا کام ہوتا رہتا ہے۔ اس کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ سیاحوں، کھلاڑیوں، تاجروں نے کم ازکم 10 ٹن کوڑا کرکٹ یہاں پھیلا دیا ہے، جس میں ڈسپوزایبل برتن، پلاسٹک کے تھیلے، سڑی ہوئی خوراک اور فضلے کے ڈھیر شامل ہوتے ہیں۔
اس چرا گاہ پر جو گھاس ماہ ستمبر تک سرسبز رہتی تھی وہ گھاس تماشائیوں کے پاؤں تلے روندی جاچکی ہے۔ گاڑیوں نے متعین راستے کو چھوڑ کر گھاس کے خوب صورت قطعوں پر 20-20 راستے بنائے لیے ہیں۔ یوں سب نے مل کر اس خوب صورت حصے کے حسن کو لوٹ لیا ہے اور اب گردوغبار اور غلاظت کے ڈھیر چاروں جانب بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔
چترال کی قدیم اساطیری روایات میں شامل ہے کہ شندور میں شاوان نان رہتی ہے۔ جو پریوں کی ملکہ ہے اور شندور اس کی ملکیت ہے۔ مقامی زبان کھوار میں صاف ستھرے پاکیزہ ماحول کو اوشنیرو (Oshneru) کہتے ہیں اور آلودگی کو چیؤ کہا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ شندور اوشنیرو مقام ہے، کوئی اس کو چیؤ کرے تو شاواں نان ناراض ہوتی ہے اور ہرنوں اور ہرنیوں کو دور لے جاتی ہے۔ چکور، تیتر اور بطخوں کو نظروں سے اوجھل کردیتی ہے۔
شندور کا پولو میلہ دیکھنے کے بعد لگتا ہے کہ شاوان نان بہت ناراض ہوگئی ہے۔ اگر ماحول کو ہم اس طرح چیؤ/آلودہ کرتے رہے تو وہ مستقلاً ہم سے روٹھ جائے گی۔
شندور کا قدرتی ماحول فطرت کی امانت ہے اور اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ اگر ہم نے اسے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں بدل دیا اور گرد و غبار سے آلودہ کردیا تو فطرت ہم سے روٹھ جائے گی۔ میری ڈرائیور حضرات سے استدعا ہے کہ وہ گھاس پر گاڑیاں نہ دوڑائیں۔ میری انتظامیہ سے بھی گزارش ہے کہ میلے کے دوران صفائی کا خیال رکھنے کے لیے نکاسی آب اور طہارت گاہوں کا انتظام کیا جائے۔
کوڑا کرکٹ کو مخصوص تھیلوں اور ردی کی ٹوکریوں کے ذریعے جمع کرکے زمین کے اندر دفن کیا جائے۔ اس کام کے لیے غیرسرکاری تنظیموں کی مدد حاصل کی جائے اور شندور پولو میلے کے دوران پمفلٹ یا اسٹیکرز اور بار بار اعلانات کے ذریعے بیداری کی آلودگی نہ پھیلانے کی مہم چلائی جائے اور اسے مستقل سرگرمی کے طور پر ہر سال جاری رکھا جائے۔ سیاحوں کی آمد اچھی بات ہے اس سے مقامی آبادی کو روزگار اور دیگر سہولتیں ملتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قدرتی دولت کے اس وسیلے کے دانش مندانہ استعمال اور تحفظ سے متعلق طویل حکمت عملی وضع کی جائے۔
پولو کا مختصر تعارف
فری اسٹائل پولو یہاں کا اتنا ہی قدیم کھیل ہے جتنی کہ شمالی علاقہ جات کی تاریخ ہے۔ کہتے ہیں گلگت بلتستان اور چترال کا قومی اور قدیم ترین کھیل پولو ہی ہے۔ لفظ پولو (Polo) شمالی علاقہ جات میں اردو زبان کی سوغات ہے۔ یہ کھیل شمالی علاقہ جات میں مشترکہ ہونے کے باوجود مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ استوری زبان میں اسے ٹھوپہ، گلگتی زبان میں بلہ، قدیم ایرانی فارسی میں پلو، لداخی میں کوتاپولو، بلتی میں نتھ اور چلاس میں پانو کہتے ہیں، جبکہ استوری میں پالو گول کو کہتے ہیں گیند کو ٹھوکہ اور اسٹک کو سہر اور اسٹک کے ساتھ جڑے ہوئے حصے کو ٹھوپ کہتے ہیں۔میدان کے مختلف نام ہیں۔ میدان چوگان بازی کو یہاں مختلف نام دیے جاتے ہیں۔
استوری شفرن کہتے ہیں، جب کہ گلگت اور چلاس والے اسے شیوران کہتے ہیں۔ قدیم بلتی میں شفرن ہی بولتے ہیں۔ جب تک اس علاقے میں دورِجدید کا عکس نہیں پڑا تھا یہاں کی معاش کا واحد ذریعہ کھیتی باڑی اور بھیڑ بکریوں کو پالنا تھا۔ تعلیم کا رواج نہیں تھا۔ نوجوانوں کا سن بلوغت تک کا زمانہ مویشی چَرانے میں بسر ہوتا تھا۔ چناںچہ اسی دوران چرواہے پولو میں مہارت حاصل کرلیتے تھے۔ شواران کی تیاری اشتراک عمل کے تحت کی جاتی تھی۔
کھیل جیتنے کے حربے:
پولو کھیل یہاں کی تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتا ہے۔ کھیل کی فریق دو ٹیمیں ہوتی ہیں، جن میں عام طور پر چھے، چھے کھلاڑی ہوتے ہیں۔ ہر گول پر پارٹی کی سمت بدل دی جاتی ہے۔ اچھلی ہوئی گیند کو پکڑا جائے اور گول پوسٹوں سے گزر جائے تو یہ بھی گول تصور ہوتا ہے۔ اگلے وقتوں میں میچ جیتنے کے لیے 9 گول ضروری تھے۔ اب وقت مقرر کیا جاتا ہے، مقررہ وقت میں جس ٹیم کے گول زیادہ ہوجائیں اسے فاتح قرار دیا جاتا ہے۔
مخالف ٹیم پر بازی جیتنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔تاریخ میں بعض ایسی ہلاکت خیز شرائط کا بھی ذکر ملتا ہے جن کی وجہ سے اس کھیل کو وحشی قرار دیا جاتا ہے۔ 1910 کا ایک انتہائی مضحکہ خیز اور وحشت ناک واقعہ شہنشاہ تائی سو سے منسوب ہے، جس کے مطابق کھیل کے دوران تائی سو کا ایک پسندیدہ کھلاڑی مرگیا۔ شہنشاہ صدمہ برداشت نہ کرسکا اور جذبات سے مغلوب ہوکر کھیل میں شامل تمام کھلاڑیوں کو قتل کردیا۔
ڈاکٹر نعیم استوری
The post پریوں کے دیس میں آلودگی appeared first on ایکسپریس اردو.