وسعتوں کی آخری حد خلا کے ہے بارے میں ہمیں بہت کم معلومات حاصل ہیں۔
خلاء تو ایک طرف، ہمیں تو خود اس کائنات کے بارے میں بھی بہت زیادہ علم نہیں جس میں ہم رہتے ہیں۔ البتہ ہم اب تک جو معلوم کرسکیں ہیں۔ اس سے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ خلاء ہمیں فنا کردینے کے پوری طرح درپے ہے۔
قاتل شعاعوں سے لے کر عظیم ستاروں کے پھٹنے تک، یہ کہکشاں اتنی خطرناک جگہ ہے کہ جو کسی بہادر سے بہادر خلانورد کو بھی خوفزدہ کرکے یہ سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے کہ وہ ہماری خوبصورت زمین کے محفوظ ماحول کو چھوڑنے کی مہم جوئی کرے یا نہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سب خطرات کے باوجود انسان اپنی پرتجسس فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ستاروں پر کمند ڈالنے اور مظاہر عالم کا کھوج لگانے کے لیے بے تاب اور پرعزم ہے۔ سو، اس بات کا یقین کرلینے کے لیے کہ خلاء کے وہ سربستہ راز کیا ہیں؟ آئیے چند اہم نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔
-1 نوری رفتار (The Speed of Light)
ہر کوئی صرف یہ سوچ کر ہی بہت خوشی محسوس کرتا ہے کہ جب وہ روشنی کی رفتار یعنی تقریباً 300,000 کلو میٹرز فی سیکنڈ (سورج کی روشنی زمین تک پہنچنے میں تقریباً 8 منٹ اور 17 سیکنڈز لگتے ہیں۔ سورج اور زمین کے درمیانی فاصلے کو اگر اس مقررہ وقت پے تقسیم کیا جائے تو روشنی کی رفتار معلوم ہوجاتی ہے) کے حساب سے کہکشاؤں میں تیرتے ہوئے سفر کرے گا تو کتنا مزہ آئے گا۔
تاہم درحقیقت اس تصور میں خوشی کا عنصر کم اور پریشانی زیادہ ہونی چاہیے کیونکہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے کسی جسم (خلائی جہاز وغیرہ) کے ساتھ جب ہائیڈروجن کے ایٹم مربوط ہوتے ہیں تو وہ انتہائی درجے کے تابکار ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں جو بہت آسانی کے ساتھ خلائی جہاز کے عملے اور اس کے برقی آلات کا صفایا کرسکتے ہیں۔ خلاؤں میں آوارہ پھرتے، ہائیڈروجن گیس سے بنے صرف چند کمزور سے اجسام سے پیدا ہونے والی تابکاری بھی ایک ننھے سے ذرے (جو شدید طور پر متعامل ہو) اور کسی دوسرے عنصر کے ذرے سے ٹکرانے (یہ ٹکراؤں بہت عظیم ہوتا ہے)کے بعد جنم لینے والی پروٹون شعاعوں کی غیر معمولی حد تک طاقت ور لہر کے برابر ہوسکتی ہے۔
-2 چاند (The Moon)
چاند وہ خلائی جسم ہے جو زمین کے گرد گھومتا ہے اور یہ زمین کا واحد قدرتی سیارچہ ہے۔ یہ ہمارے نظام شمسی کا پانچواں بڑا قدرتی سیارچہ ہے جبکہ دیگر سیاروں اور ان کے سیارچوں کے مابین حجم کے تناسب سے چاند اپنے جیسے دوسرے سیارچوں میں سب سے بڑا ہے۔ ہمارا چاند تقریباً 4.51 ایک بلین سال پرانا ہے یعنی یہ زمین کے کچھ ہی عرصے بعد معرض وجود میں آگیا تھا۔
خوفناک بات یہ ہے کہ ہمارا یہ چاند ہر سال چار سینٹی میٹرز زمین سے دور ہوتا جارہا ہے۔ شاید یہ حقیقت پہلی نظر میں باعث تشویش محسوس نہ ہو لیکن مستقبل کے لحاظ سے یہ چیز ہمارے کرۂ ارض پر تباہ کن اثرات مرتب کرسکتی ہے۔ اگرچہ زمین کی کشش ثقل اتنی طاقتور ہے کہ جو چاند کو خلاء میں ادھر ادھر بھٹکتے پھرنے سے روک سکتی ہے مگر چاند کے ساتھ اس کا بڑھتا ہوا فاصلہ بالآخر زمین کی محوری گردش کو سست کرنے کی وجہ بن جائے گا اور یوں ہمارا ایک دن 24 گھنٹوں سے بڑھ کر ایک ماہ پر محیط ہو جائے گا اور سمندروں کا مدوجزر منجمد ہوجانے سے زمین کا ماحولیاتی اور حیاتیاتی نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا۔
-3 بلیک ہولز (Black Holes)
خلاء میں عظیم الشان ستاروں کے مردہ ہوجانے سے پیدا ہونے والے بلیک ہولز اتنی قوت کے حامل ہوتے ہیں کہ جو روشنی جیسی لطیف چیز کو بھی واپس اپنے اندر سے باہر نہیں نکلنے دیتے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری آنکھ کسی بھی چیز کو اسی وقت دیکھ سکتی ہے، جب اس چیز سے روشنی منعکس ہوکر واپسی ہماری آنکھ تک آئے۔
اسی وجہ سے جب بلیک ہولز سے روشنی واپس نکل نہیں پاتی تو وہ ہمیں نظر نہیں آتے اور انہیں بلیک ہولز کہا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلیک ہولز وقت کی طنابوں کو بھی لپیٹ کر رکھ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ہمارے نظام شمسی میں ایک چھوٹا سا بلیک ہول بھی موجود ہو تو وہ سب سیاروں کو ان کے مداروں سے باہر پھینک سکنے کی طاقت رکھتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے سورج کو بھی ٹکڑوں میں تقسیم کرسکتا ہے۔ بلیک ہولز کئی ملین میل فی سیکنڈ کی رفتار سے کہکشاؤں میں چکراتے ہوئے، راستے میں اپنے پیچھے تباہی کے نقوش چھوڑ دیتے ہیں۔
-4 خلائی مخلوق کی موجودگی (Alien Life)
ہماری زمین کے علاوہ کائنات میں دوسرے سیاروں یا کہکشاؤں میں زندگی یا کسی مخلوق کی موجودگی ایک طویل عرصے سے ہم انسانوں کے لیے دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ خاص طور پر جب بیسوی صدی کے وسط میں حیرت انگیز اور تیز رفتار سائنسی ترقی کا آغاز ہوا اور انسان خلاء میں جاپہنچا تو ذہنوں میں یہ تجسس زیادہ شدومد کے ساتھ سر اٹھانے لگا کہ کیا کسی اور سیارے پر کسی مخلوق کی موجودگی کا امکان ہوسکتا ہے؟ اس موضوع پر ناصرف کہانیاں لکھی گئیں بلکہ اس پر فلمیں بھی بنیں، جو بے حد مقبول ہوئیں کیونکہ یہ ایک ایسا موضوع تھا جو سب لوگوں کو بہت پسند تھا۔
دوسری طرف سائنس دانوں نے بھی اس پر اپنی تحقیق جاری رکھی ہوئے ہے۔ وہ خلاء میں مسلسل ریڈیائی سگنلز بھیج رہے ہیں تاکہ اگر کسی جگہ کوئی مخلوق موجود ہے اور وہ سائنسی لحاظ سے ترقی یافتہ بھی ہے تو وہ اس کا جواب دے۔ دنیا میں اکثر مختلف جگہوں اور مقامات پر اڑن طشتریاں دیکھے جانے کے دعویدار سامنے آتے ہیں، جن کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کسی ایسی ہی مخلوق کے خلائی جہاز ہیں جن پر بیٹھ کر وہ ہماری زمین تک آتے ہیں۔ اس بارے میں اگرچہ علمی اختلاف موجود ہے کہ آیا اگر خلاء کی وسعتوں میں کوئی مخلوق موجود بھی ہے تو کیا وہ ترقی یافتہ بھی ہے یا نہیں اور دوسرے یہ کہ کیا اس کی ہیت انسانوں جیسی ہے یا اس کی شکل کسی اور طرح کی ہے۔
یعنی بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ایسی مخلوق شاید جرثوموں کی صورت میں ہو اور ابھی اپنی ارتقائی منازل ہی طے کررہی ہو۔ ہماری کائنات بہت بڑی اور بہت قدیم ہے۔ اس لیے یہاں پر ہماری زمین جیسے کسی اور سیارے کے پائے جانے اور وہاں کسی مخلوق کے ہونے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ اس بارے میں سائنس دانوں کا ایک مکتبہ فکر ایسا بھی ہے جس کے خیال میں کائنات کی وسعتوں میں کہیں کسی خلائی مخلوق کی موجودگی کا امکان اس لیے بھی معدوم ہے کیونکہ آج تک ہمیں ان کی موجودگی کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا (حالانکہ یہ کوئی مدلل بات نہیں ہے کیونکہ سر دست کسی ثبوت کا نا ہونا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ موجود ہی نہیں ہے)۔ بہرحال بات یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ واقعی میں ایسا نہ ہو۔ لیکن ہر دو صورتوں میں یہ حقیقت خوفزدہ کرنے والی تو ہے۔
-5 آوارہ گرد سیارے (Rogue Planets)
آوارہ گرد سیارے ان سیاروں کو کہا جاتا ہے جو کسی وجہ سے یا تو اپنی پیدائش کے بعد ہی اپنے نظام شمسی سے خارج ہوجاتے ہیں اور یا پھر وہ کبھی بھی کسی نظام شمسی کا حصہ نہیں رہے ہوتے بلکہ براہ راست کسی کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومتے ہیں۔ ایک کہکشاں میں کئی ملین آوارہ گرد سیارے پائے جا سکتے ہیں، جو خلاء میں ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔
ان سیاروں کا دیگر خلائی اجسام کے ساتھ کسی بھی وقت ٹکراؤ کا خطرہ بدرجہ اتم موجود رہتا ہے۔ ان آوارہ سیاروں کی سطح کا درجہ حرارت عموماً انتہائی سرد ہوتا ہے۔ تاہم کچھ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ان سیاروں کے اندرونی مرکز(جو پگھلی ہوئی حالت میں ہوتے ہیں) اور برفانی موصلیت کی موجودگی کی وجہ سے امید کی جاسکتی ہے کہ ان میں زیر زمین سمندر موجود ہوں جو زندگی کی نوید بن سکیں۔
-6 انتہائی درجۂ حرارت (Extreme Temperatures)
خلاء میں یہ امکانات بھی ہوتے ہیں کہ آپ کو بہت ہی انتہا درجے کی مختلف اور متنوع صورت حال درپیش ہوں۔ یعنی کہ کسی عظیم ستارے کی پیدا کردہ حرارت کے باعث وہاں درجۂ حرارت 50 ملین ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے بھی زیادہ تک ہوسکتا ہے جو کسی ایٹمی دھماکے سے بھی پانچ گنا زیادہ کے برابر ہے جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ خلاء میں عالم ظاہر کے پس منظر کا درجہ حرارت منفی 270 ڈگری سینٹی گریڈ ہو جو ’’صفر‘‘ سے محض تھوڑا سا ہی ’’گرم‘‘ ہے۔ اس لیے اگر آپ کا وہاں جانا ہو تو اپنی جیکٹ لے جانا نہ بھولیئے گا۔
-7 نیوٹران ستارے (Magnetars)
’’میگنیٹارز ”(Magnetars)” ناقابل یقین حد تک ٹھوس یا کثیف نیوٹران ستاروں کو کہتے ہیں۔ یہ عام نیوٹران ستاروں کی نسبت بہت زیادہ طاقتور مقناطیسی میدان رکھتے ہیں۔ درحقیقت بنیادی طور یہ پورے کا پورا ستارا پسی ہوئی شکل میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک صرف پندرہ میل کا ایک کرہ ہوتا ہے۔ چائے کے ایک چمچے کی قدر پر مشتمل ’’میگنیٹار‘‘ کی کمیت غزہ (مصر) کے نو سو عظیم اہراموں جتنی ہوتی ہے۔ ان کا مقناطیسی میدان کائنات میں سب سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ یہ اتنی قوت رکھتا ہے کہ کوئی بھی چیز اگر اس کے انتہائی قریب پہنچ جائے تو یہ اسے چیر پھاڑ کر زروں میں تبدیل کردیتا ہے۔
-8 مسکولو سکیلیٹل اٹرافی (Musculoskeletal Atrophy)
’’مسل اٹرافی‘‘ پٹھوں کے سوکھنے کی بیماری کو کہتے ہیں۔ اس بیماری میں پٹھے سوکھ کر جزوی یا مکمل طور پر اپنی کمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ عام طور پر یہ ان مریضوں میں دیکھنے میں آتی ہے جو کسی مرض کی شدت کے باعث عارضی طور پر بستر تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس وجہ سے ڈاکٹر ایسے مریضوں کو یہ ہدایات دیتے ہیں کہ وہ اپنے مرض سے نجات پانے کے بعد جلد از جلد یہ کوشش کریں وہ زیادہ سے زیادہ حرکت پذیر رہیں۔ بیشتر لوگوں کے لیے زمین پر رہتے ہوئے ہی اپنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ورزش کرنا محال ہوتا ہے۔
اب تصور کیجئے کہ خلاء میں جانے والے خلانوردوں کے لیے صفر کشش ثقل کے ماحول میں یہ کس قدر کار دشوار ہوگا۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشنوں میں جانے والے خلا نوردوں کے اندر خلاء میں صرف چھ ہفتے گزارنے کے بعد ہی اس بیماری کے واضح اثرات نمایاں ہونے شروع ہوجاتے ہیں حالانکہ وہاں انہیں بے حد سختی کے ساتھ صحت اور فٹنس کو برقرار رکھنے والے پروگرام پر عملدرآمد کروایا جاتا ہے۔
-9 تاریک مادہ یا تاریک توانائی (Dark Matter/Dark Energy)
ہماری زمین، سورج، دوسرے ستارے اور کہکشائیں جن پر یہ کائنات مشتمل ہے، پروٹونز، نیوٹرونز اور الیکٹرونز کے ایٹمز کے باہم ارتباط سے بنے مادے سے بنی ہے۔ لیکن بیسویں صدی کی سب سے حیران کن دریافت شاید یہ تھی کہ یہ عام مادہ اس تمام کائنات کی کمیت کے صرف پانچ فیصد پر مشتمل ہے اور بظاہر دکھائی یہ دیتا ہے کہ باقی کی کائنات ایک پراسرار اور نادیدہ مادے، جسے تاریک مادہ (25 فیصد) اور ایک قوت جو کشش ثقل کو روکتی ہے یعنی تاریک توانائی (70 فیصد) سے بنی ہوئی ہے۔ سائنس دان ابھی تک براۂ راست اس تاریک مادے کا مشاہدہ نہیں کرسکے۔
یہ تاریک مادہ، عام مادے کے ذرات پر اثر انداز نہ ہونے کے باعث روشنی اور برقناطیسی تابکاری کی دوسری اقسام کے لیے مکمل طور پر نادیدہ ہے اور اسی وجہ سے جدید آلات کے ذریعے بھی اس کا پتہ لگانا ناممکن ہے۔ تاہم سائنس دان اس کی موجودگی کے بارے میں پر اعتماد ہیں کیونکہ کہکشاؤں پر اس کی کشش ثقل کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
جیسا کہ آج کی فزکس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مرغولے نما شکل میں گھومتی ہوئی کہکشاں کے کنارے پر موجود ستاروں کو کہکشاؤں کے مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے ان ستاروں کی نسبت جو کہکشاں کے مرکز کے قریب ہیں، سست رفتاری سے گردش کرنا چاہیے (جیسا کہ ہمارے نظام شمسی کے آخری سیارہ ’’پلوٹو‘‘ کی گردشی رفتار سورج سے دوری کی وجہ سے بہت سست ہے) مگر مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ ان ستاروں کا مدار اور ان کی رفتار بھی کم و بیش اتنی ہی ہے جتنا کہ کہکشاں کے مرکز کے قریب واقع ستاروں کی ہے۔
اس معمے کا یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کہکشاں کے سرے پر واقع ان ستاروں پر کسی نامعلوم کمیت کی کشش ثقل بھی اثر انداز ہورہی ہے اور یقینا وہ تاریک مادہ ہی ہے جو کہکشاں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور کائنات کے پھیلاؤ میں اس کا کلیدی کردار ہے۔
-10 پس منظری تابکاری (Backround Radiation)
یہ تابکاری مختلف ذرائع سے وجود میں آسکتی ہے۔ جن میں قدرتی اورمصنوعی دونوں ذرائع شامل ہیں۔ قدرتی ذرائع میں کوئی شعاع (کاسمک ریز)، شمسی ہوائیں، برقی مقناطیسی ذرات، ماحولیاتی تابکاری (جو قدرتی عناصر جیسے ’’ریڈون‘‘ Radon اور ’’ریڈیم‘‘ Radium سے پیدا ہوتی ہے) جبکہ غیر قدرتی یا انسانی ذرائع میں غیر محفوظ ماحول میں کیے جانے والے جوہری ہتھیاروں کے تجربات اور جوہری حادثات (جیسا کہ روس کے جرنوبل ایٹمی پلانٹ سے تابکاری خارج ہونے کا حادثہ وغیرہ) شامل ہیں۔
ہماری زمین کی ماحولیاتی ڈھال اور اس کا مقناطیسی میدان ہمیں قدرتی ذرائع سے وجود میں آنے والی تابکاری سے محفوظ رکھتا ہے جو ہماری طرف آنے کی کوشش کررہی ہوتی ہے۔ اس تابکاری کے تباہ کن اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی خلانورد زمین سے مریخ کی طرف سفر کررہا ہو تو اس پر یہ تابکاری ہر پانچ سے چھ روز بعد اتنے ہی مضر اثرات مرتب کرے گی جتنا کہ سارے جسم کے کیے جانے والے سٹی سکین کی تابکاری اثر پذیر ہوتی ہے اور اگر کوئی خلانورد اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی تابکاری کے ان اثرات سے مکمل نجات حاصل نہیں کرپاتا، تو اسے زندگی بھر میں کسی بھی وقت شدید قسم کے کینسر کا شکار بننے کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
-11 خیرہ کن روشنی والا ستارہ (Hypernovae)
’’ہائپرنوا‘‘ قسم کے یہ ستارے عام ’’ہائپرنوا‘‘ کی نسبت اپنے اندر ہونے والے کسی تباہ کن دھماکے کی وجہ سے اچانک زیادہ روشن اور چمکدار ہوجاتے ہیں اور یہ اس ستارے کی موت کا لمحہ ہوتا ہے۔ دراصل ’’ہائپرانوا‘‘ اس عمل کو کہتے ہیں جو اس ستارے میں دھماکہ اور بعدازاں اس دھماکے کے ردعمل کے نتیجے کے طور پر وقوع پذیر ہوتا ہے۔
تاہم یہ دھماکہ ہوتا کیوں ہے ؟ اس کی وجوہات پر سائنس دانوں میں اختلاف ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ اس دھماکے کے بعد ستارا یا تو بلیک ہول میں تبدیل ہوجاتا ہے اور یا پھر نیوٹرون ستارے میں بدل جاتا ہے۔ ’’ہائپرنوا‘‘ کا عمل کائنات میں خطرناک ’’گاما شعاعوں‘‘ (Gamma Rays) کے پھیلاؤ کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ گاما شعاعوں کی یہ آتش بازی ٹیلی سکوپ کے ذریعے لاکھوں نوری سالوں کے فاصلے سے بھی باآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔
-12 برقناطیسی ارتعاش (Electromagnetic Vibrations)
برقی مقناطیسی لہریں، برقی چارج کے ارتعاش کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ خلاء عملی طور پر ایک مکمل خالی جگہ ہے۔ اسی وجہ سے اگر کوئی خلاء میں جائے تو اسے کوئی آواز سنائی نہیں دے گی کیونکہ آواز کی لہریں (یا کوئی بھی مکینیکل لہر) بغیر کسی مادی واسطے کے ایک جگہ سے دوسرے جگہ سفر نہیں کرسکتیں۔
خلاء کا یہ پاگل کردینے والا سناٹا اپنی جگہ لیکن یہ مت سمجھئے گا کہ اگر آپ کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تو وہاں کوئی آواز موجود ہی نہیں ہے۔ خلاء میں آواز، برقناطیسی ارتعاش کے ذریعے سفر کرتی ہے۔ ’’ناسا‘‘ (NASA) نے ہمارے شمسی نظام کے کچھ منتخب اجرام فلکی سے آنے والی ایسی ہی چند آوازیں ریکارڈ کیں اور جب انہیں چلایا تو ریکارڈر میں سے انتہائی بھیانک آوازیں برآمد ہوئیں۔
-13 تیر رفتار ترین ستارے (Hyper Velocity Stars)
خیال کیا جاتا ہے کہ کسی بلیک ہول کے ساتھ قریبی تصادم کے نتیجے میں جو ستارے اپنے نظام سے خراج ہوجاتے ہیں اور وہ پھر 2 ملین میل فی گھنٹے کی رفتار سے کہکشاؤں کی خلاء میں کسی راکٹ ہی کی طرح بھٹکتے پھرتے ہیں انہیں ’’ہائپر ولاسٹی سٹارز‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ آج تک سائنس دانوں کے علم میں جو ’’ہائپر ولاسٹی سٹارز‘‘ آئے ہیں وہ حجم اور کمیت کے حساب سے ہمارے سورج کے برابر کے ہیں۔ تاہم علمی لحاظ سے یہ کسی بھی حجم کے ہوسکتے ہیں اور یہ مزید کوئی بھی ناقابل یقین رفتار پکڑ سکتے ہیں۔
-14 ماحولیاتی دباؤ سے رہائی (Depressurization)
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ خلاء میں ہوا موجود نہیں ہوتی تاہم یہ حقیقت اس بات سے زیادہ خطرناک ہے کہ زمین پر کوئی لمبے وقت کے لیے سانس روک لے۔ انسانی جسم زمین کے ماحولیاتی دباؤ کو برداشت کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اگر کوئی ہوائی جہاز پر سفر کرے یا پھر پہاڑی راستوں پر چلے تو اسے شاید اپنے کانوں میں دھمک سی محسوس ہو۔ خلاء میں ہوا نہ ہونے کی وجہ سے ایسا کوئی دباؤ نہیں ہوتا۔ اسی لیے خلاء میں خلائی جہاز سے باہر نکل کر، بغیر حفاظتی لباس کے چہل قدمی کرنے کی صورت میں انسان جسم کا تمام پانی بھاپ بن کر اڑ جائے گا اور جسم فوراً ایک ایسے غبارے کی مانند پھول کے کپا ہوجائے گا جس میں گنجائش سے زیادہ ہوا بھر دی گئی ہو ۔
-15 کائنات کا اختتام (The Big Crunch/Big Rip)
ہر چیز کو فنا ہوجانا ہے۔ اسی طرح ہماری اس کائنات کا بھی یہی انجام ہونا ہے۔ سائنس دانوں کے مابین کائنات کے اختتام اور اس کی تقدیر کے متعلق مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک مشہور امریکی خلاء باز ’’ایڈون پاؤل ہبل‘‘ (Edwin Powell Hubble) کی طرف سے 1920ء سے لے کر 1950ء تک کیے جانے والے مشاہدات میں یہ بات سامنے آئی کہ ہماری کائنات میں کہکشائیں بتدریج ایک دوسرے سے دور ہوتی جارہی ہیں۔
اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ہماری کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ (یاد رہے کہ اسی خلا باز کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے خلاء میں بھیجی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی دور بین جو خلاء سے بہت اہم معلومات زمین پر بھیجتی ہے، کا نام اس خلا باز کے نام پر ’’ہبل‘‘ Hubble رکھا گیا ہے)۔
کائنات کے اس پھیلاؤ ہی کے حوالے سے اس کے اختتام کا نظریہ یہ ہے کہ بالآخر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب کائنات کے کشش ثقل رکھنے والے تمام اجسام اپنی آخری حد کو پہنچ جائیں گے اور ردعمل کے اصول کے تحت واپس کائنات کے مرکز کی طرف دوڑ پڑیں گے اور جس طرح ایک عظیم دھماکے (بگ بین) کے ذریعے کائنات کا آغاز ہوا تھا اسی طرح کائنات واپس لپیٹ دی جائے گی اور سمٹتی سمٹتی ایک نقطے میں مرتکز ہوکر غائب ہوجائے گی۔ اسی ضمن میں ایک دوسرا نظریہ یہ ہے کہ کائنات پھیلتے پھیلتے آخر کار بکھر جائے گی اور یوں اپنے اختتام کو پہنچے گی۔ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ مستقبل کا حال صرف اللہ تعالیٰ کو ہی پتا ہے کہ کیا ہوگا اور اس قادر مطلق نے پردہء غیب میں کیا چھپا رکھا ہے۔
The post خلاء کی وسعتوں میں پنہاں، عقل کو چکرا دینے والے سربستہ راز appeared first on ایکسپریس اردو.