بلوچستان کی سرسبز وادیوں، ویران اور پہاڑوں کے ساتھ ساتھ نیشنل ہائی وے کی خوب صورت اونچی نیچی سڑک ہمارا ساتھ دیتی ہے، جو جعفرآباد سے شروع ہوکر مختلف علاقوں سے ہوتی ہوئی کوئٹہ کے دیدہ زیب مقامات تک جاتی ہے۔ اس سڑک کو کوئٹہ روڈ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔
گرمیوں میں کوئٹہ روڈ پر سفر کرنا آسان ہے مگر اس کے ساتھ واقع اہم مقامات دیکھنا اور ان تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ اس روڈ پر سفر کرتے ہوئے آپ کے سامنے بہت سے دل کش اور قابل دید مقامات آئیں گے جن کا نام سن کر ہی آپ ایک لمحے کے لیے حیران پریشان ہوجائیں گے اور ان مقامات کو ایک مرتبہ ضرور دیکھنے کی خواہش کریں گے۔ آئیے آپ کو اپنے ساتھ اس سفر پر لے چلیں۔
٭جعفرآباد:جعفرآباد کا نام قائداعظم کے قریبی دوست میر جعفر خان جمالی سے منسوب ہے۔ یہ ضلع، صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد سے مِلا ہوا ہے۔ جیکب آباد انگریز دور کے ایک افسر جان جیکب نے بسایا تھا۔ انگریز حکومت نے اس علاقے میں ریل گاڑی چلانے کی ابتدا کی تھی۔ جب پہلی مرتبہ ریل گاڑی کوئٹہ کی جانب چلی تو ایک اسٹیشن پر چند منٹوں کے لیے ٹھہر کر دوبارہ کوئٹہ کی جانب چل پڑی، جس پر جان جیکب نے اپنے گائیڈ سے پوچھا کہ اس شہر کا نام کیا ہے؟ گائیڈ نے بتایا کہ جَھٹ شہر آیا پَٹ ختم ہوا ہے۔ جان جیکب نے کہا، اچھا تو اس شہر کا نام جھٹ پٹ رکھا جائے، یہ خوب صورت نام ہوگا۔ اس دن کے بعد اس شہر کا نام جھٹ پٹ رکھ دیا گیا تھا، جو بعد میں جعفرآباد ہوگیا۔جعفرآباد میں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، مٹی، گردوغبار اور کیچڑ میں دھنسے کچے پکے راستے، اور تباہ ہوتی صنعتیں، ضلع کی تباہی کا حال دکھاتی ہیں۔
٭نصیرآباد:ہم نصیرآباد میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے جانوروں کی منڈی آئی، پھر نصیرآباد شہر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں جن پر گدھا گاڑیاں رینگ رہی تھیں اور ساتھ بے ہنگم ٹریفک جگہ جگہ جام ہوکر لوگوں کے لیے وبال جان بناہوا تھا۔ اس شہر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ہر دور میں اس شہر سے ایک وزیر تو منتخب ہوتا ہے مگر آج تک اس شہر کو بائی پاس تک میسر نہیں ۔
ضلع نصیرآباد کا نام خان آف قلات میر نصیر خان نوری کے نام پر رکھا گیا جنہیں ان کی بہادری کی بدولت خان اعظم کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ نصیرآباد کے مشہور علاقوں میں ڈیرہ مراد جمالی، تمبو اور چھتر شامل ہیں۔ اس ضلع کا صدر مقام ڈیرہ مراد جمالی ہے۔ ضلع نصیرآباد ایک زرعی ضلع ہے جس کی زراعت کا انحصار پٹ فیڈر کینال پر ہے جو گڈو بیراج سے نکالی گئی ہے۔ نصیرآباد کی سب سے مشہور چیز اوچ پاور پلانٹ کی بجلی ہے جو تاحال اس ضلع کو میسر ہی نہیں، حالاںکہ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جلد اوچ کی بجلی نصیرآباد کو بلا تعطل دی جائے گی، مگر یہ وعدہ وفا نہ ہوا۔ بجلی کے بحران نے پورے شہر کی صنعتوں کو بھی اپاہج بنا رکھا ہے۔
٭بھاگ ناڑی/ بیل پٹ:اب ہمارے سامنے بھاگ ناڑی کی بنجر زمینیں ہیں۔ اس علاقے میں کی زراعت کا انحصار بارشوں پر ہے۔ بارش عام طور پر گرمیوں کے دنوں میں ہوتی ہے اور بارش ہوتے ہی اس علاقے کے نشیب و فراز اور اونچے نیچے ٹیلے سبزے کا لبادہ اوڑھ کر گل و گلزار ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ سبزہ محدود عرصے کے لیے ہوتا ہے اور عام طور پر یہاں گرمی و خشک سالی کا ڈیرا رہتا ہے۔ پرانے وقتوں میں سنا ہے کہ بارش کی پانی کی خاطر لوگ عورتوں بچوں کی قربانی دیا کرتے تھے۔ لگتا ہے کہ زمانہ بدلا نہیں۔ بھاگ ناڑی میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ خون بہانے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بھاگ ناڑی میں بارش کا پانی جیسے ہی پہنچتا ہے، اس کے استقبال کے لیے بکریاں قربان کی جاتی ہیں۔ بارش ہونے کے لیے بھی بکریوں کی قربانی دی جاتی ہے اور بارش ہونے کی خوشی میں ڈھول کی تھاپ پر رقص بھی کیا جاتا ہے۔
٭سبی:ہم جیسے ہی سبی شہر میں داخل ہوئے، سرد ہوائیں ہماری منتظر تھیں۔ سبی دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک ہے جہاں گرمیوں میں سخت گرمی اور سردیوں میں شدید ٹھنڈ ہوتی ہے۔ سردی میں یہاں کے لوگوں کو سائبیریا کی ہوائیں قلفی بنا دیتی ہیں اور گرمیوں میں یہ قلفی دس سیکنڈ میں دودھ بن جاتی ہے۔ سبی میں اتنی گرمی ہوتی ہے کہ لوگ اپنے پسینہخشک کرنے کے لیے سولر کے پنکھے کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سبی شہر کی بنیاد آریہ نسل کی سیوا قوم نے ڈالی تھی۔ اس شہر کا پہلا نام ’’سیوی‘‘ تھا، انگریزوں کو یہ نام عجیب لگا تو اس شہر کا نام ’’سی بی‘‘ رکھا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ نام سبی ہوگیا۔
سبی کے بارے میں یہ بلوچی شعر بہت مشہور ہے: ’’سبی ساختی دوزخ چرا پرداختی،‘‘ جس کا مفہوم ہے کہ خدایا! جب اس سرزمین پر سبی کو بنادیا تھا تو دوزخ بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ میر چاکر رند نے اس شہر پر 35 سال تک حکومت کی اور یہاں ایک قلعہ تعمیر کیا، جو آج بھی خستہ حالت میں موجود ہے۔ اس کی فصیل اتنی چوڑی ہے کہ ایک گھوڑا بہ آسانی اس پر چل سکتا ہے۔ گھڑسوار اس دیوار پر پہرے داری کرتے تھے۔ انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں یہاں جرگہ ہال تعمیر کروایا تھا جو آج تک موجود ہے۔ اسے سبی دربار بھی کہتے ہیں۔
٭مہر گڑھ:مہر گڑھ سبی سے 26 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک ویران علاقے میں بلوچستان کے عظیم خشک ہوجانے والے دریا بولان کے آخری دہانے پر واقع ہے۔ موئن جو دڑو سے کہیں زیادہ قدیم، اس اہم مقام کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی۔ اگر ہم اس قدیم بستی کو اہمیت دیں تو دنیا بھر سے لاکھوں لوگ اس قدیم شہر کو دیکھنے آئیں گے اور بلوچستان کی سیاحت ترقی کی راہ پر گام زن ہوگی۔ بلوچستان کے باسی مہر گڑھ کو خاموش لوگوں کی سرزمین بھی کہتے ہیں۔ مہرگڑھ کے ابتدائی باسی کچی مٹی کی اینٹوں والے گھروں میں رہتے تھے۔ اناج گوداموں میں رکھتے تھے، پسائی کے پتھر اور چقماق پتھروں کو رگڑ کر آگ جلانے کے فن سے واقفیت رکھتے تھے۔ مہر گڑھ کے لوگ جو، گندم، بیری اور کھجور کی کاشت کرتے تھے اور بھیڑ، بکریاں اور دوسرے مویشیوں کی گلہ بانی کرتے تھے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق مہرگڑھ میں آباد لوگوں نے کاشت کاری، گلہ بانی، برتن سازی، صنعت کاری اور مہذب و سہل زندگی گزارنے کی بنیاد رکھی تھی۔
بلوچستان کے دیگر علاقوں سمیت وادی سِندھ، پنجاب، مشرقی ایران اور جنوبی افغانستان میں دریافت تہذیبوں کے آثارِقدیمہ سے جو برتن، اوزار، ہتھیار، انسانی و حیوانی مجسمے، منکے، ہار، چوڑیاں اور دیگر اشیاء برآمد ہوئی ہیں، ان میں واضح طور پر مہرگڑھ کے وسطی ادوار (پانچ ہزار سے چار ہزار قبل مسیح) کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی دیگر قدیم تہذیبوں بشمول عراق، مصر، کنعان، اور ایران کو بھی مہرگڑھ کے بعد کی تہذیبیں قراردیا جاچکا ہے۔ ان ممالک سے برآمد ہونے والی بہت سی اشیاء کا ابتدائی تسلسل مہرگڑھ سے برآمد اشیا سے ملتا ہے، اس لیے بعض ماہرین مہرگڑھ کو ’’تہذیب کا‘‘ امام قرار دیتے ہیں۔ بعض اوقات سرکاری اہل کار اس جانب عام آدمی کو جانے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہیں
٭ڈھاڈر: ہم جیسے ہی ڈھاڈر میں داخل ہوئے، سرسبز علاقہ ہمارا منتظر تھا۔ یہاں پر مختلف فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔ یہاں کی سبزیاں پورے ملک میں سپلائی کی جاتی ہیں۔ اس لیے اگر اس شہر کو سبزیوں کا شہر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس علاقے کے لوگوں کو بارش کے پانی کی شدید ضرورت ہوتی ہے جس سے یہ لوگ اپنی فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ پہاڑوں سے نکلنے والا پانی بھی ڈھاڈر کے باسیوں کے لیے رحمت ہے، جو پینے کے کام آتا ہے۔ ڈھاڈر بلوچستان کا چھوٹا سا، خوب صورت اور قدیم شہر ہے۔ یہ شہر بلوچستان کے تاریخی درہ ضلع بولان کے دہانے پر واقع ہے۔
’’ڈھاڈر‘‘ اصل میں فارسی لفظ ’’دہانے در‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے، جس کا مطلب ہے ’’درے کا دہانہ‘‘۔ اسی مناسبت سے یہ نام ’’دہانے در‘‘ یا ’’ڈھاڈر‘‘ مشہور ہوا۔1839ء میں ایک انگریز مصنف جیکسن ڈھاڈر کے متعلق لکھتے ہیں،’’ڈھاڈر ایک بلوچی قصبہ ہے، جو درہ بولان کے دہانے پر وادی میں واقع ہے۔ اس قصبے میں 1500 کے قریب گھر ہیں اور تقریباً چار ہزار افراد آباد ہیں۔ یہاں کے میدانی علاقے کاشت کاری کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، یہاں کی گرمی بے مثال ہے، یہاں کی خاصیت قصبے کے آغاز پر موجود ایک مزار ہے۔‘‘ جیکسن، ڈھاڈر سے متعلق مزید لکھتے ہیں کہ میر نصیر خان ’’نے انگریزوں کے فوجی کیمپ کی موجودگی کی وجہ سے ڈھاڈر کو تباہ کردیا تھا۔‘‘
٭بی بی نانی زیارت/ پیرغائب:ہم پہاڑوں کے بیچ میں سفر کررہے تھے۔ ہمارے سامنے درّہ بولان تھا۔ یہ وہ درّہ ہے جہاں پر اکثر ٹریفک جام ہوتا ہے اور اس جگہ پر موبائل فون کے سگنل بالکل نہیں ہوتے۔ جب یہاں بارش ہوتی ہے تو سارا علاقہ حسین ہوجاتا ہے۔ پہاڑوں میں پوشیدہ ہونے کی وجہ سے بھی پیرغائب اور مین روڈ پر واقع بی بی نانی زیارت کا علاقہ گم نام ہیں۔ اسی لیے یہاں ملکی اور غیرملکی سیاحوں کی رسائی نہیں ہوپاتی۔ یہ ایک قدرتی تفریحی مقام بھی ہے جسے روحانیت کا سایہ نصیب ہے۔ یہاں پہاڑوں سے نکلتا پانی علاقے کو سیراب کرتا ہوا گزرتا ہے اور لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔
میرایہ سفر جس مقام کی جانب جاری تھا، وہاں ہر سال ہزاروں عقیدت مند آتے ہیں۔ بولان پاس میں پیرغائب کا علاقہ بے آب و گیاہ پہاڑوں کے درمیان ایک سرسبز و شاداب وادی کی صورت میں موجود ہے۔ اس حسین علاقے میں پہنچتے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم جنت میں آگئے ہیں۔ جس طرف نظر اُٹھتی ہے، وہیں کچھ لمحوں کے لیے ٹھہر جاتی ہے۔ چاروں طرف خوب صورت بھورے جلے ہوئے پہاڑ اور ان میں سے چھم چھم گرتا صاف شفاف اور ٹھنڈا پانی، آبشار کی صورت بہتا ہے۔ یہ حسین آبشار دو مختلف حصوں میں تقسیم ہو کر گرتی ہے اور دل کش نظارہ پیش کرتی ہے۔
آبشار کے دونوں حصوں کا پانی نشیب کی طرف بہتا ہوا ایک بہت بڑے تالاب میں آگرتا ہے۔پیر غائب، کوئٹہ سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس علاقے کا نام ایک بزرگ کے نام پر رکھا گیا، جو روایت کے مطابق برسوں پہلے اپنی بہن ’’بی بی نانی‘‘ کے ہم راہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کی غرض سے یہاں آئے تھے۔ یہاں بت پرست آباد تھے، جو ان دونوں کے دشمن بن گئے۔ یہاں تک کہ جب انہیں جان سے مارنے کی کوشش کی گئی تو بی بی نانی اپنے بچاؤ کے لیے بولان کی گھاٹیوں میں چھپ گئیں اور بہت دنوں تک وہیں بھوکی پیاسی چھپی رہنے کے بعد ان کی موت واقع ہوگئی۔ بی بی نانی کا مزار درۂ بولان سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر پل کے نیچے بنا ہوا ہے۔ دوسری طرف حملہ آوروں سے بچنے کے لیے پیر غائب چٹانوں کے درمیان چھپ گئے، پھر کچھ دن بعد وہ غائب ہوگئے اور ان کا کچھ پتا نہ چلا۔ اسی وجہ سے یہ علاقہ ’’پیر غائب‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
بی بی نانی کے ارد گرد کوئی مناسب ہوٹل موجود نہیں، جس کی وجہ سے سیاحوں کو بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔ پی ٹی ڈی سی (پاکستان ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن) کو چاہیے کہ اس جگہ پر ایک ہوٹل بنائے تاکہ سیاحوں کو مشکلات کا سامنا نہ ہو۔ ہوٹل نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان لاتے ہیں مگر کھا پی کر وہیں کوڑا پھینک دیتے ہیں، جو اس جگہ کی خوب صورتی کو متاثر کررہا ہے۔
٭مچھ :مچھ کو چاروں طرف سے پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے۔ مچھ شہر کو خزانوں کی سرزمین اور کاروباری حوالے سے چھوٹا دبئی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ مچھ میں موجود کوئلے کی کانیں ہیں۔ مچھ جیل اور ریل کے حوالے سے پورے ملک میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ مچھ، بلوچستان کے ضلع بولان کی ایک تحصیل ہے، جو سطح سمندر سے ایک ہزار میٹر بلندی پر واقع ہے۔ کوئٹہ سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس شہر میں ہندوؤں بھی مختصر تعداد میں رہائش پذیر ہیں۔
1929 میں انگریز حکومت نے مچھ جیل قائم کی جو اس زمانے میں ’’بلوچستان کا کالا پانی‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہوئی۔ اس جیل میں ملک کے کئی معروف سیاست داں، دانش ور اور صحافی پابندِسلاسل رہ چکے ہیں۔ مچھ صوبے کی واحد جیل ہے جہاں سزائے موت کے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ مچھ جیل میں ہائی پروفائل قیدیوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی سیکیوریٹی کے انتظامات بھی سخت کردیے جاتے ہیں۔ اس جیل میں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، مگر قیدیوں کے پاس ان کی ضرورت کا سامان پہنچ جاتا ہے۔ جیل کے بنائی گئی حفاطتی دیوار میں جدید کلوز سرکٹ کیمرے نصب کردیے گئے ہیں۔
٭پیر پنجا :پیر پنجا بلوچستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہزاروں لوگ روزانہ میلوں سفر طے کرکے پہنچتے ہیں اور وہاں کا پانی پینا اپنے لیے باعث شفا سمجھتے ہیں، لیکن اس جگہ کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جس پر کبھی کسی نے نہیں لکھا حتٰی کہ گوگل بھی اس جگہ کے بارے میں نہیں جانتا۔ نہ جانے یہ جگہ دنیا کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے؟ آپ یہاں کے پانی کا ایک گلاس پی لیں تو چند منٹوں میں آپ کا کھانا ہضم ہو جائے گا۔ بلوچستان کے خوب صورت پہاڑوں کے قریب موجود، کوئٹہ سے جعفرآباد روڈ پر واقع یہ جگہ کول پور سے تقریباً تیس کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے۔ یہ جگہ کسی عجوبے سے کم نہیں۔ خوب صورت آبشار کا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی خوب صورت مٹکوں بھرا ہوتا ہے، جسے پینے کے بعد آپ کو جلد بھوک ستانے لگے گی اور آپ یہی پانی پی کر کئی طرح کی بیماریوں سے بھی نجات پاسکیں گے۔
اس مقام پر ایک جگہ قدموں کے نشان موجود ہیں، جنھیں حضرت علی حیدر کرارؓ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مقامی روایات کے مطابق حضرت علیؓ کفار سے لڑنے بلوچستان آئے تھے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں جب ٹرین سروس شروع کی گئی تو ٹرین یہاں آکر رک گئی تھی اور ایک فٹ بھی آگے نہ چل سکی، جس سے ریلوے ملازمین پریشان ہوگئے۔ پھر ریلوے افسران نے علما کو بلایا، جنہوں نے اس قدم گاہ کی نشان دہی کی۔ علما کے کہنے پر قدم گاہ پر بکریوں کا صدقہ دیا گیا اور ساتھ ہی کئی دیگیں بھی نیاز کے طور چڑھائی گئیں۔ اس کے بعد ہی ریل گاڑی کو یہاں سے آگے چلنا نصیب ہوا۔اس زیارت گاہ پر ایک بورڈ نصب ہے جس پر لکھا ہے کہ 1880 میں فقیر دین محمد کو اس نقش پا کی زیارت خواب میں کرائی گئی اور انہیں اس جگہ بیٹھ کر خدمت کا حکم ہوا۔ اب اس مقام کی خدمت گزاری ان کی اولادیں کر رہی ہیں۔
٭کول پور :کول پور بلوچستان کا ایک چھوٹا سا خوب صورت شہر ہے جو پہاڑوں کے اوپر بنایا گیا ہے۔ چند سال پہلے کوئٹہ روڑ پر سب سے زیادہ ٹریفک جام اسی شہر میں ہوتا تھا جو کئی کئی گھنٹوں تک جاری رہتا تھا، مگر اب یہاں ایک بائی پاس بن چکا ہے، جس سے ٹریفک کی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ کوئٹہ روڑ پر کول پول شہر سے سخت ٹھنڈے موسم کا احساس شروع ہوتا ہے۔کول پور میں سیکڑوں سال پرانے مکانات اور دکانیں موجود ہیں جو آنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کول پور جیسے خوب صورت مقامات میں سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات کرے۔ اس مقصد کے لیے ونٹر ٹورازم ڈیویلپمنٹ پالیسی کی منظوری دے جس کے تحت بلوچستان میں سیاحت کو فروغ مل سکے جب کہ سیاحوں کی دل چسپی کے لیے ٹورازم اور کلچرل سینٹرز بھی بلوچستان کے ہر سیاحتی مقام پر تعمیر کیے جائیں اور بلوچستان کے تاریخی مقامات کو گوگل میپ میں بھی شامل کیا جائے، تاکہ دنیا بھر کے سیاح ان علاقوں میں سیاحت کرنے آئیں اور بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکیں۔
٭دشت :دشت، ضلع مستونگ کی ایک تحصیل ہے جو نیشنل ہائی وے کوئٹہ روڈ سے ملحق ہے۔ یہ ضلع غربت کے حوالے سے مشہور ہے۔ یہاں کے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں مگر دشت پر کسی نے توجہ نہ دی۔ دشت میں سردیوں کے آتے ہی خانہ بدوش باسی لکڑیاں اکٹھی کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ سخت سردی سے بچا جاسکے۔ ویسے بھی سردیوں کے موسم میں آدھا بلوچستان، بلوچستان ہی سے نکلنے والی گیس سے محروم رہتا ہے۔دشت کے مین روڈ کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے ہوٹل قائم اور ٹیوب ویل لگے ہوئے ہیں جو دشت کے باغات کو سیراب کرتے ہیں۔
The post بلوچستان میں ایک سفر appeared first on ایکسپریس اردو.