قسط نمبر 5
پتا نہیں، اور اتنی سیاہ اور طوفانی رات میں وہ یہاں کیا کر رہا تھا۔
تم کون ہو بیٹا! کیا کر رہے ہو، کہاں سے آئے ہو اور اس طوفانی رات میں۔ اس کے بعد مجھے ہوش نہیں رہا کہ میں کہاں ہوں۔
جب میری آنکھ کھلی تو دوپہر ہوچکی تھی اور میں کمرے میں بے حس و حرکت چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن میں اٹھ نہیں پایا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے میرے سارے اعضاء نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور میں مفلوج ہوگیا ہوں۔ کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ پھر میری آنکھیں برسنے لگیں۔ بہت دیر ہوگئی تھی اور پھر اچانک ہی ایک بابا جی اندر داخل ہوئے۔
تم جاگ گئے ہو۔ یہ تم رو کیوں رہے ہو، اب تم پوری طرح سے محفوظ ہو۔
لیکن میں یہاں پہنچا کیسے۔۔۔؟
میں نے تمہیں صبح سویرے دیکھا تھا لیکن جب میں تمہارے قریب پہنچا تو تم بے ہوش ہوچکے تھے، میں تمہیں اٹھا کر گھر لے آیا ہوں، پریشان مت ہونا۔ وہ میرے ساتھ آکر بیٹھ گئے اور میرے آنسو صاف کرنے لگے۔ تمہیں تو بہت تیز بخار ہوگیا ہے، بالکل فکر نہ کرنا بھیگنے کی وجہ سے ہوگیا ہے، ٹھیک ہوجائے گا۔
گُل بی بی! اسے چائے بناکر دو اور ہاں انڈے بھی، اسے بخار ہوگیا ہے۔ جی بابا! ابھی بناتی ہوں۔ تھوڑی دیر بعد گُل بی بی اندر داخل ہوئی اس نے دسترخوان بچھا کر انڈے، پراٹھے، مکھن، شہد اور نہ جانے کیا کیا اس پر سجایا۔ اور بابا مجھ سے مخاطب ہوئے۔ چلو اٹھو، کچھ کھا پی لو خدا نے چاہا تو ٹھیک ہوجاؤ گے۔
مجھے اپنا مکان یاد آیا جہاں اسی طرح کا ناشتہ ملتا، لیکن میں یہ سب کچھ اپنے ذہن سے کھرچ چکا تھا۔ مجھے گُم صم دیکھ کر بابا جی بولے، اب کیا سوچ رہے ہو، چلو اٹھو کچھ کھاؤ پیو گے تو تم میں جان آئے گی۔ لیکن مجھ سے اٹھا نہیں جا رہا، میں نے کہا۔ کوئی بات نہیں میں تمہاری مدد کرتا ہوں، کہہ کر بابا نے مجھے سہارا دے کر بٹھایا اور خود میرے پیچھے بیٹھ گئے۔ گُل بی بی نے چائے، پراٹھے، انڈے میرے سامنے رکھے اور میں نے ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی، لیکن میں ناکام رہا، میرے سارے اعضاء جواب دے چکے تھے۔
گُل بی بی نے بابا کی طرف تشویش سے دیکھا۔ بابا اسے کیا ہوگیا ؟ وہ سامنے بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ بیٹا! اسے کھلاؤ، اس نے ابلا ہوا انڈا توڑ کر میرے منہ میں ڈالا۔ پراٹھے کے چند لقمے میں بہ مشکل کھا پایا، پھر چائے پلائی۔ بابا نے مجھے پھر لٹا دیا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ تشویش ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ تم اس کا خیال رکھنا، میں دانا بابا سے مل کر ابھی آتا ہوں کہہ کر وہ باہر نکل گئے۔ گُل بی بی پھول دار گرم اونی شال میں لپٹی ہوئی میرے سامنے کھڑی تھی۔ بیٹھ جاؤ میں نے کہا۔ تو وہ دوسری چارپائی پر بیٹھ گئی۔ اس کی صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں اور وہ مجھے گُھورے جا رہی تھی۔
یہ دانا بابا کون ہیں ۔۔۔؟ میں نے پوچھا۔
دانا بابا ہمارے گاؤں کے بزرگ ہیں اور لوگوں کا جَڑی بوٹیوں سے علاج کرتے ہیں، بابا تمہارے لیے ان سے کوئی جڑی بوٹی لینے گئے ہیں۔
کون ہو تم۔ اس نے پوچھا۔
یہ میں اب خود بھی نہیں جانتا کہ میں کون ہوں، کیوں ہوں اور میری منزل کیا ہے۔
لیکن مجھے معلوم ہے کہ تم کون ہو۔
اچھا تو پھر تم نے مجھ سے کیوں پوچھا تھا ؟ میں نے کہا۔
بس ویسے ہی۔ تم ان کی بات کیوں نہیں مان لیتے؟
کس کی بات۔ میں نے پوچھا۔
بڑے خان کی اور کس کی۔ مزے کرو گے۔ کیوں اپنی جان کے دشمن بنے ہوئے ہو۔ اب بھی وقت ہے مان لو ان کی بات، کب تک چھپتے پھرو گے؟
اچھا تو تم بڑے خان کو جانتی ہو۔
انہیں کون نہیں جانتا، سب ہی جانتے ہیں، وہ بولی۔
میں آخری دم تک ان سے لڑوں گا۔ میں کبھی ان کی بات نہیں مان سکتا۔ میں نے اپنی پوری قوت جمع کرکے اسے جواب دیا۔
اپنی حالت دیکھی ہے تم نے؟
ہاں دیکھ رہا ہوں، لیکن یہ وقتی ہے، میں جلد اس حالت سے نکل آؤں گا۔ میں تمہیں زیادہ تکلیف دینے والا نہیں ہوں۔ جیسے ہی میری حالت سنبھلی میں چلا جاؤں گا، تم پریشان مت ہو۔
نہیں میں پریشان نہیں ہوں، نہ ہی میرا یہ مطلب تھا، لیکن پھر بھی۔
وہ یہ کہہ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ بہت دیر ہوگئی تھی اور بابا کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔ اس دوران وہ دو مرتبہ مجھے دیکھنے کے لیے آئی تھی۔ پھر دروازے پر بابا کی آواز سنائی دی۔ گُل بی بی! دروازہ کھولو۔
بابا واپس آگئے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا۔ پھر اس میں سے انھوں نے مختلف پُڑیاں نکال کر چارپائی پر رکھنا شروع کیں۔ اسے ابال لو، ایک پڑیا گُل بی بی کو دیتے ہوئے انھوں نے کہا۔ میں دانا بابا کے پاس گیا تھا، فکر کی کوئی بات نہیں، جڑی بوٹیاں لے آیا ہوں۔ تم بہت جلد صحت یاب ہو جاؤ گے۔ وہ مجھ سے مخاطب تھے۔ میں نے آپ کو مصیبت میں ڈال دیا۔ کیسی مصیبت پگلے! وہ میرے ساتھ آکر بیٹھ گئے۔ تم مصیبت نہیں رحمت ہو۔ خدا جس سے محبت کرتا ہے اس کے گھر مہمان بھیجتا ہے۔ تم مہمان ہو اور بیمار بھی۔ خدا اس سے بہت محبت کرتا ہے جو اس کے بیمار بندے کی دیکھ بھال کرے۔ تم تو میرے لیے رحمت بن کر آئے ہو۔ خدا کا شکر ہے کہ۔۔۔۔۔
بابا یہ آپ ہر بات میں خدا خدا کیوں کہہ رہے ہیں؟ میں نے درمیان سے ان کی بات کاٹ دی۔ اوہو میں تو بُھول ہی گیا تھا تمہاری تو خدا سے لڑائی ہوگئی ہے۔ لیکن یہ آپ کیسے جانتے ہیں کہ میری اس سے لڑائی ہوگئی ہے۔ پھر وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے۔
سب کچھ انسان کی پیشانی پر لکھا ہوتا ہے پگلے، لیکن جب لڑائی ہو تو دوستی بھی ہوجاتی ہے۔ اب دیکھو تمہاری کب ہوگی اس سے دوستی۔ میں سوچنے لگا کہ آخر پیشانی پر لکھا کیسے پڑھا جاسکتا ہے۔
اتنے میں گُل بی بی ایک پیالا لیے اندر داخل ہوئی۔ بابا یہ لو ابال لیا ہے۔ وہ پھر مجھے اٹھا کر میرے پیچھے بیٹھ گئے اور مجھے پیالے میں موجود مشروب پلانے لگی۔ پہلا گھونٹ تو جیسے تیسے میں نے اپنے اندر اتار لیا۔ میں نہیں پیوں گا اتنا کڑوا ہے یہ، اس سے اچھا ہے کہ آپ مجھے زہر دے دیں، میں نے پینے سے انکار کردیا۔ دیکھو یہ تو تمہیں پینا ہی ہوگا۔ بابا نے ڈانٹتے ہوئے مجھے کہا۔ پلاؤ اسے گُل بی بی! مرتا کیا نہ کرتا۔ رات تک وہ وقفے وقفے سے نہ جانے کیا مجھے پلاتے رہے۔ پھر مجھے نیند نے گھیر لیا۔ صبح میری آنکھ کھلی تو بابا فجر کی نماز ادا کر رہے تھے۔
میں نے اٹھنے کی کوشش کی اور پھر میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ دوستی کرنی ہے خدا سے۔ وہ بولے۔ میں آرام سے چارپائی سے اتر کر کھڑا ہوگیا۔ گُل بی بی! اسے پانی ڈال کر دو، وضو کراؤ اسے۔ پھر میں جائے نماز پر کھڑا تھا۔ سجدے میں جاتے ہی میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ بہت دیر تک میں سجدے میں رہا۔ سلام پھیر کر میں اس کی تسبیح بیان کرنے لگا۔ بابا نے آکر مجھے پیار کیا اور بولے تمہاری تو بہت جلد دوستی ہوگئی خدا سے، دوستی میں لڑائی جھگڑا، روٹھنا منانا چلتا رہتا ہے۔ چل ناشتہ کرلیں۔
مجھے یہاں آئے ہوئے پورا ایک ہفتہ ہوگیا تھا۔ اب میں بالکل ٹھیک تھا۔ مجھے شاید سات ماہ اور کچھ دن اس کمرے میں تنہائی میں گزارنے پڑے تھے۔ جس سے میں نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ میں تو گھر سے باہر نکلتے ہی بوڑھا ہوگیا تھا، لیکن ان سات ماہ نے تو مجھے اور پختہ کردیا تھا۔ میں بہت گہرائی میں اتر کر سوچنے لگا تھا۔ ہر پہلو پر غور کرنے لگا تھا۔ میرا عزم اور پختہ ہوگیا تھا۔ مجھے گُل بی بی کی زبانی معلوم ہوگیا تھا کہ بچپن میں ہی اُس کی ماں کا انتقال ہوگیا تھا اور بابا نے اسے ماں بن کر بھی پالا تھا۔ بابا کی تھوڑی سی زمین تھی بس وہی ان کی گزر بسر کا سامان تھا۔
گُل بی بی ہی ان کا بیٹا، بیٹی اور سنگی ساتھی تھی۔ بابا شفقت و محبت کا سمندر تھے۔ میں نے نہ جانے ان سے کیا کچھ کہا تھا۔ وہ مسکراتے اور کہتے دوستی میں لڑائی جھگڑا چلتا رہتا ہے۔ گلے شکوے زندگی کا حُسن ہیں۔ بس انھیں دائمی نہیں رہنا چاہیے۔
انھوں نے خدا کی اک نئی تصویر میرے سامنے رکھ دی تھی۔ جہاں محبت تھی اور صرف محبت۔ لیکن میں اب تک تسلیم رضا، صبر و شُکر کو نہیں جانتا تھا۔ میرا اپنے رب سے ایک خاص تعلق ضرور جُڑ گیا تھا جہاں میں سب کچھ اپنے رب سے کہہ سکتا تھا، ہاں سب کچھ، جہاں کوئی حجاب نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ڈر خوف، میرا اس سے رشتہ کسی ڈر خوف پر نہیں ہمیشہ اعتماد، پیار اور خلوص کا رہا، اور سچ یہ ہے کہ میری تمام تر گم راہی، کمینگی، ڈھٹائی اور جہالت کے اب تک ہے، اسے ابھی رہنے دیتے ہیں، بات بہت دُور نکل جائے گی۔ اس رات کو ہم تینوں کھانا کھا چکے تھے کہ میں نے بابا جی سے رخصت چاہی۔ وہ بہت دیر تک خاموش رہے۔ میں تمہیں نہیں روکوں گا، لیکن اگر کچھ دن اور ٹھہر جاؤ تو بہتر ہوگا۔ مجھے ان کی بات ماننی ہی تھی۔
میں پَری کے لیے پریشان اور ہلکان تھا اور کئی مرتبہ بابا جی سے اس کا اظہار کرچکا تھا۔ ایک دن بابا جی نے اس کا کھوج لگا ہی لیا تھا اور مجھے انہوں نے بتایا کہ کسی نے اس پر شک نہیں کیا تھا۔ سارا وبال اس کے ماموں زاد بھائی پر آگیا تھا۔ انھوں نے مجھے بہت تلاش کیا تھا۔ اب کیا صورت حال تھی، یہ وہ نہیں جانتے تھے۔ لیکن انھوں نے مجھے سختی سے دن کے وقت باہر نکلنے سے منع کردیا تھا۔
آدھی رات کے وقت میری آنکھ کھل گئی، میں دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ گھر کے بالکل ساتھ قبرستان تھا۔ چاند کی روشنی میں کچھ قبریں عجیب منظر پیش کر رہی تھیں۔ بہت عرصہ ہوگیا تھا، میں قبرستان کی سمت چلا گیا۔ بہت دیر تک میں قبروں کے درمیان گھومتا رہا۔ پھر دو کچی قبروں کے درمیان میں لیٹ گیا اور نہ جانے کب مجھے نیند آگئی۔ فجر میں بابا اور گُل بی بی کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ وہ دونوں گھر نہ پاکر مجھے ڈھونڈنے نکل آئے تھے۔
یہاں کیا کر رہے ہو تم؟ آخری ٹھکانا تو یہی ہے ناں بابا! ہاں بیٹا یہی ہے اصل ٹھکانا، لیکن تمہیں ایسے بتائے بغیر گھر سے نہیں نکلنا چاہیے تھا۔ میں نے تمہیں منع بھی کیا تھا۔ چلو گھر۔ میں نے دونوں سے وعدہ کیا کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔ دوسری رات کو بابا نے اپنی چارپائی دروازے کے ساتھ بچھائی تو میں ہنس دیا۔ یہ کیا بابا! تمہاری وجہ سے مجھے یہاں سونا پڑے گا تاکہ تم پھر رات کو کہیں باہر نہ نکل جاؤ۔
کیسا رشتہ تھا یہ۔ درد کا رشتہ، پیار و محبت کا رشتہ۔ خلوص اور ایثار کا رشتہ، اس رشتے سے پائیدار کوئی اور رشتہ نہیں ہے اور خاص کر درد کا رشتہ کہ یہ انسانیت کا جوہر ہے۔ مجھے اس گھر میں، ہاں یہ تھا گھر جہاں محبت تھی، اپنائیت تھی، پیار تھا، اعتماد تھا اور وہ سب کچھ جس سے ایک مکان گھر بن جاتا ہے ورنہ تو بس در و دیوار ہی ہوتے ہیں، بے حس در و دیوار۔ دسویں دن میں نے پھر بابا سے رخصت کی اجازت چاہی۔ ہم رات کو اس پر بات کریں گے، میں ایک کام سے باہر جا رہا ہوں، تم کہیں مت جانا کہہ کر بابا چلے گئے۔ میں کمرے میں تنہا بیٹھا آگے کے حالات پر سوچ رہا تھا کہ گُل بی بی اندر داخل ہوئی۔ کیا سوچ رہے ہو؟
کچھ نہیں گُل بی بی، بس اب مجھے جانا ہے۔ تم یہیں نہیں رک سکتے، وہ بولی۔ کب تک میں یہاں چھپا بیٹھا رہوں گا۔ مجھے جانا ہی ہوگا گل بی بی … اب کہاں جاؤگے تم … یہ تو میں خود بھی نہیں جانتا۔ تو پھر یہیں رک جاؤ۔ نہیں مجھے جانا ہوگا۔ میرا یہ اٹل فیصلہ ہے۔ تم نہیں مانو گے میری بات، وہ بولی۔ گل بی بی زندگی نے ساتھ دیا اور میرے خدا کو منظور ہوا تو میں دوبارہ آؤں گا اور اگر مقدر نصیب میں نہیں ہے تو پھر مجھے کون روک سکا ہے، مجھے جانا ہی ہوگا۔ میری باتیں سن کر وہ باہر چلی گئی، تھوڑی دیر تو میں وہیں بیٹھا رہا اور پھر باہر نکل آیا۔ گُل بی بی گھر میں نہیں تھی۔ میں نے گھر سے باہر جھانک کے دیکھا تو وہ اکیلی بیٹھی رو رہی تھی۔ گُل بی بی کیا ہوا تمہیں، میں نے پوچھا۔ جس طرح تم اکیلے ہو مجھے بھی اکیلے ہی رہنا ہوگا۔ اچھا اب تم جانے کا فیصلہ کرچکے ہو تو ٹھہرو میں بابا کے آنے سے پہلے یہ کر ہی لوں۔ کیا کرنا ہی تمہیں، میں نے پوچھا۔ تم بیٹھو میں آتی ہوں۔ پھر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں سات سرخ مرچیں تھیں، کچھ دیر وہ آنکھیں میچے کچھ پڑھتی رہی اور پھر ان مرچوں پر پھونک کر مجھ پر پھیرنے لگی اور پھر انھیں جلتے چولہے میں جھونک دیا۔ پھر اس نے اپنی انگوٹھی اتاری اور اسے پانی کے گلاس میں ڈال کر آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئی۔ پھر اس نے آنکھیں کھول کر اس گلاس پر پھونکا۔ تم اس میں سے صرف ایک گھونٹ پانی پی لو۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر اس نے گلاس میں سے خود ایک گھونٹ پانی پی کر باقی اپنے اوپر بہا کر وہ انگوٹھی میری انگلی میں پہنا دی۔
یہ کیا کر رہی ہو تم گُل بی بی، میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔n
The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.