لغوی اعتبار سے پرچم کپڑے کے اس ٹکڑے کو کہا جاتا ہے، جو خاص رنگ یا ڈیزائن سے مزین ہوتا ہے۔ پرچم کو بطور علامت، استعارہ یا تزئین کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پرچم کا سب سے پہلا استعمال جنگوں میں ہوا۔ میدان جنگ میں پرچم کو عسکری روابط کے لئے استعمال کیا گیا اور یہ سلسلہ دور جدید میں بھی جاری ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ پرچم اس قدر اہمیت اختیار کر گیا کہ آج اس کی بے حرمتی کو دنیا کے چند بڑے جرائم میں شامل کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ صرف ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں بلکہ کسی بھی قوم، ملک یا نظریے کی شناخت کا استعارہ ہے۔ دنیا بھر میں قومی جھنڈوں کو بناتے وقت مذہب، حب الوطنی، مقامی روایات، خوشحالی، امن کے رنگوں اور علامتوں کا خصوصاً خیال رکھا جاتا ہے۔ پاکستان کا قومی پرچم گہرے سبز رنگ (جس پر چاند اور پانچ کونوں والا ستارہ بنا ہوا ہے) اور سفید پٹی پر مشتمل ہے۔ جھنڈے میں شامل سبز رنگ مسلمانوں اور سفید ملک میں آباد مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
لیاقت علی خان کی طرف سے پیش کئے گئے اس پرچم کی منظوری اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی نے دی تھی۔ قومی جھنڈے کا ڈیزائن دہلی کے رہائشیوں دو بھائیوں افضال حسین اور الطاف حسین نے بنایا۔1947ء میں منظور ہونے والے پرچم کا ایک ہی رنگ (سبز) تھا، تاہم 9فروری 1949ء کو اس میں سفید حصے کا اضافہ کیا گیا۔ وطن عزیز کی بڑھتی عمر کے ساتھ اس کے حالات بھی بدلتے گئے، یوں آہستہ آہستہ قومی پرچم تلے متعدد سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے بھی لہرانے لگے۔ جس طرح قومی پرچم کا سبز، سفید رنگ اور چاند ستارے کا ایک فلسفہ ہے، بالکل یوں ہی سیاسی پارٹیوں کے جھنڈوں میں شامل رنگ اور دیگر علامتیں بھی ایک خاص مفہوم رکھتی ہیں۔ آئیے اب ہم پاکستان کی چند بڑی سیاسی پارٹیوں کے پرچموں کی تفہیم کا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی:نومبر1967ء میں پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں تین رنگوں پر مشتمل پارٹی پرچم پیش کیا گیا، جسے رہنماؤں کی مشاورت سے پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے منظور کیا۔ یہ پرچم سبز، سیاہ اور سرخ رنگ کے علاوہ سفید چاند ستارے پر مشتمل ہے۔
اس جھنڈے میں موجود سبز رنگ اسلام کی نمائندگی کرتا ہے، کیوں کہ یہ رنگ گنبد خضریٰ سے نسبت رکھتا ہے، جب کہ سبز اور سرخ رنگ کے درمیان موجود سیاہ رنگ ملک میں موجود غربت، ناانصافی، بھوک و افلاس، بیروزگاری اور جہالت کی علامت ہے، جس کے بارے میں پیپلزپارٹی کے سینئر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جس روز ہمارا ملک اس تاریکی سے نکل آیا، اس روز سیاہ رنگ پیپلزپارٹی کے پرچم کا حصہ نہیں رہے گا۔ اس طرح پرچم کے وسط میں موجود ستارہ امت مسلمہ کی علامت ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان پیپلزپارٹی اور لیبیا کے قومی پرچم میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ نومبر 1967ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کا جو پرچم منظور کیا گیا، اس میں چاند کا رخ سرخ رنگ کی جانب یعنی بائیں طرف تھا۔ لیکن بعدازاں بعض پارٹی رہنماؤں کے اعتراض پر چاند کا رخ پاکستانی پرچم کی طرف دائیں جانب یعنی سبز رنگ کی طرف کردیا گیا، جو آج تک برقرار ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن):16نومبر1988ء کو میاں نواز شریف کی سربراہی میں بننے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کا جھنڈا صرف دو رنگوں پر مشتمل ہے، جس میں سب سے زیادہ حصہ سبز کا ہے جبکہ اس کے اندر ہی سفید رنگ کا چاند ستارہ بھی موجود ہے۔ سبز رنگ ملک میں بسنے والی تمام قومیتوں کے علاوہ خوش حالی کی نمائندگی کرتا ہے، جب کہ چاند ستارہ ملت اسلامیہ اور پاکستان کے دنیا میں ابھرتے ہوئے مقام کی جانب اشارہ ہے۔
پاکستان تحریک انصاف:عمران خان کی قیادت میں25 اپریل 1996ء میں بننے والی پی ٹی آئی کا پرچم اگست 1996ء میں پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں منظور ہوا۔ پرچم دو رنگوں سبز اور سرخ پر مشتمل ہے۔ جھنڈے میں موجود سرخ رنگ انقلاب کی نمائندگی کرتا ہے، جب کہ سبز رنگ پاکستان کے جھنڈے اور گنبد خضریٰ سے منسوب ہے۔ اسی طرح پرچم کے وسط میں موجود چاند ستارہ پاکستانی پرچم سے لیا گیا ہے جبکہ جھنڈے میں موجود سفید چاند ستارے کی حیثیت پاکستان کے قومی پرچم میں موجود سفید حصے سی ہے، جو اقلیتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ:متحدہ قومی موومنٹ کا پرچم 1978ء میں ’’آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس فیڈریشن (اب آل پاکستان متحدہ سٹوڈنٹس فیڈریشن) کی بنیاد رکھتے وقت ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ایم کیو ایم کا پرچم بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی طرح سہ رنگی ہے۔ تاہم ایم کیو ایم کا پرچم سفید، سبز اور سرخ رنگوں پر مشتمل ہے۔ جھنڈے میں موجود سفید رنگ، جو نصف حصے پر پھیلا ہوا ہے، امن کی نمائندگی کرتا ہے، سبز پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے کی جدوجہد کی علامت ہے، جب کہ سرخ رنگ سے مراد قیام پاکستان کے وقت دی گئی قربانیاں ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام (ف):مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں پاکستان کے سیاسی افق پر نظر آنے والی جے یو آئی (ف) کا پرچم 9 سیاہ اور سفید سیدھی دھاریوں پر مشتمل ہے۔ پارٹی کے راہ نماؤں کے مطابق چونکہ احادیث سے اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ نبی اکرمؐ جنگوں کے دوران یہی پرچم استعمال کرتے تھے اور اس سے مراد حق و باطل میں تفریق لی جاتی تھی، لہذا۔۔۔ جے یو آئی نے بھی اپنے لئے اسی پرچم کا انتخاب کیا ہے، جب کہ جمعیت علمائے اسلام ہند کا پرچم بھی بظاہر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جھنڈے جیسا ہے، مگر اس پرچم میں فرق یہ ہے کہ اس میں سیاہ و سفید دھاریوں کی تعداد11ہے۔ تاہم ان میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں جھنڈوں میں سیاہ دھاریوں کی تعداد غالب ہے۔ جے یو آئی (ف) کے پرچم میں دھاریوں کی تعداد کم رکھ کر جمعیت علمائے ہند کو فضیلت دی گئی ہے۔
جماعت اسلامی:26 اگست1941ء کو مولانا ابوالاعلی مودودیؒ نے جماعت اسلامی کی بنیادی رکھی اور انہوں نے ہی جماعت کے پرچم کو تجویز کیا تھا۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعت، جماعت اسلامی پاکستان کا پرچم سبز، سفید اور نیلے رنگ پر مشتمل ہے۔ پرچم کے کثیر حصے پر سفید رنگ پھیلا ہوا ہے، جس کے عین وسط میں چاند ستارہ ہے اور اس کے اوپر کلمۂ طیبہ درج ہے۔
جماعت اسلامی کے جھنڈے میں بھی سبز رنگ گنبد خضریٰ سے لیا گیا ہے، جو دین مصطفویؐ سے آنے والے سرسبز انقلاب کی نمائندگی کرتا ہے۔ سفید رنگ امن و سلامتی کا اظہار ہے اور نیلا رنگ آفاقیت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ سارے جہاں میں امن و سلامتی قائم ہو۔ جھنڈے میں موجود چاند ستارہ ابھرتی ہوئی طاقت کی نمائندگی کرتے ہیں، جب کہ جھنڈے میں کلمۂ طیبہ کا مفہوم یہ ہے کہ پوری دنیا میں امن و سکون کی ضمانت اسی کلمے میں پنہاں ہے۔ جماعت اسلامی کے جھنڈے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس پر موجود ہلال کا رخ بائیں جانب ہے، جب کہ پاکستان کے قومی پرچم اور دیگر سیاسی جماعتوں کے جھنڈے میں ہلال کا رخ دائیں طرف ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ق):چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی کی سربراہی میں سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں جنم لینے والی پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم) کے جھنڈے کا سبز رنگ اور اس پر موجود چاند ستارہ پاکستانی پرچم سے لئے گئے ہیں، جو امت مسلمہ سے منسوب اور خوش حالی کی علامت ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی:عوامی نیشنل پارٹی کے جھنڈے کا رنگ سرخ ہے جو1929ء میں خان عبدالغفار خان عرف باچا خان نے اپنی تحریک، خدائی خدمت گار کے رضاکاروں کی وردی کے لئے تجویز کیا تھا۔ یہ رنگ جدوجہد اور قربانیوں کی علامت ہے۔ خدائی خدمت گار تحریک کے جھنڈے کے رنگ کے حوالے سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ1929ء سے قبل اس تحریک کے جھنڈے کا رنگ سفید تھا، جو پشتونوں کے قبائلی معاشرے میں امن و آشتی کی علامت تصور کیا جاتا ہے اور تحریک کے رضا کار بھی مارچ کے دوران سفید رنگ کا لباس زیب تن کرتے تھے۔ بعدازاں خان عبدالغفار خان نے اپنے رضا کاروں کے لیے سرخ رنگ کی وردی تجویز کی، کیوں کہ سفید لباس جلد میلا ہوجاتا تھا۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے جھنڈے کا سرخ رنگ سوشلسٹ نظریات کی نمائندگی کرتا ہے، مگر اے این پی کے سینئر رہنما اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کبھی بھی سوشل ازم کی نمائندہ نہیں رہی، البتہ سوشلسٹ اس پارٹی کے سائے تلے کام کرتے رہے ہیں۔ 1988ء میں خان عبدالولی خان کی سربراہی میں عوامی نیشنل پارٹی کا قیام عمل میں آیا، جس میں مزدور کسان پارٹی، سندھ عوامی تحریک، بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا ادغام ہوا۔ یہ 1956ء میں باچا خان کی قیادت میں بننے والی ’’نیشنل عوامی پارٹی‘‘ کا تسلسل تھی جس میں بنگال سے مولانا عبدالحمید بھاشانی، پنجاب سے مختار رانا اور سندھ سے جی ایم سید شامل تھے۔ اس دور میں نیشنل عوامی پارٹی کے پرچم میں پانچ ستارے تھے، مگر سقوط ڈھاکہ کے بعد چار ستارے رہ گئے اور پھر ’’نیب‘‘ کے پرچم کی چین کے قومی جھنڈے سے مماثلت کو جواز بناکر ان ستاروں کو بھی ختم کر دیا گیا۔
جمہوری وطن پارٹی:نواب اکبر بگٹی نے16اگست 1990ء کو جمہوری وطن پارٹی کے نام سے بلوچستان میں ایک سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ جمہوری وطن پارٹی کے لئے جس پرچم کا انتخاب کیا گیا، اس کی منظوری بھی نواب اکبر بگٹی نے ہی دی تھی۔ پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ پرچم نواب صاحب کی نشانی ہے، جسے کبھی تبدیل نہیں کر سکتے۔ یہ پرچم سرخ اور سبز رنگ کے ساتھ چار ستاروں پر مشتمل ہے۔ جھنڈے میں شامل سرخ رنگ جدوجہد، سبز خوشحالی اور چار ستارے چاروں صوبوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
پختونخواہ ملی عوامی پارٹی:1989ء میں بننے والی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کا مقصد بلوچستان، کے پی کے اور قبائلی علاقوں کے پشتونوں کو متحد کرنا اور ان کو حقوق کی فراہمی ہے۔ بولان سے چترال تک زیادہ اثر و نفوذ رکھنے والی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی ہیں۔ پارٹی کا جھنڈا سرخ، سفید، سبز اور سرخ ستارہ پر مشتمل ہے جس میں سرخ رنگ کو انقلاب یا تبدیلی، سفید کو امن، سبز کو ترقی اور سرخ ستارہ رہبر کی علامت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پرچم کی منظوری 1970ء کے پہلے عام انتخابات میں اس وقت دی گئی تھی جب محمود اچکزئی کے والد صمد خان ایم پی اے بنے تھے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل):1996ء میں سردار عطاء اللہ مینگل نے بی این پی (مینگل) کی بنیاد رکھی۔ آج اس پارٹی کے صدر عطاء اللہ مینگل کے بیٹے سردار اختر جان مینگل ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے جھنڈے میں سرخ رنگ جدوجہد، زرد رنگ ساحلی وسائل اور معدنی دولت جبکہ سبز رنگ ترقی اورخوشحالی کی علامت ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی):میر اسرار اللہ زہری کی صدارت میں چلنے والی پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے جھنڈے میں ستارہ شعوروآگہی اور روشنی جبکہ سبزرنگ خوشحالی وترقی اور زردرنگ قومی وسائل پر دسترس حاصل کرنے کی علامت ہے۔
جمعیت علمائے اسلام نظریاتی:جمعیت علمائے اسلام سے علیحدگی کے بعد مولانا عصمت اللہ خان نے اس پارٹی کی بنیاد رکھی اور 2013ء میں پہلی بار اس پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا۔ جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے جھنڈے میں سیاہ رنگ دور جہالت کی نشاندہی جبکہ سفید رنگ امن، ترقی اور روشنی کی علامت ہے۔ جے یو آئی کے مطابق نبی کریمؐ نے فتح مکہ کے وقت اسی رنگ کا جھنڈا اٹھایا ہوا تھا۔
نیشنل پارٹی:میر حاصل خان بزنجو، عبدالحی بلوچ اور عبدالمالک بلوچ کی سربراہی میں 2013ء میں بننے والی نیشنل پارٹی کے جھنڈے میں ستارہ پاکستان میں قوموں کی برابری اور نمائندگی جب کہ سبزرنگ خوشحالی وترقی اور سرخ رنگ انقلاب، جدوجہد اور تبدیلی کی علامت ہے۔
پاک سرزمین پارٹی:ماضی میں ایم کیو ایم کے مقبول ترین رہنماؤں میں شامل مصطفی کمال نے 23مارچ 2016ء کو پاک سرزمین کے نام سے اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس پارٹی کا اپنا کوئی پرچم نہیں بنایا گیا بلکہ پاکستان کے قومی پرچم کو ہی پارٹی پرچم قرار دے دیا گیا، جس پر آئینی حد بندیوں کے باعث الیکشن کمیشن کی طرف سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔
تحریک لبیک پاکستان:حافظ خادم حسین رضوی کی سربراہی میں یکم اگست 2015ء کو تحریک لبیک کی بنیاد رکھی گئی۔ ناموس رسالتؐ اور نفاذ شریعت کے نام پر بننے والی اس جماعت کا پارٹی پرچم دو رنگوں پر مشتمل ہے۔ سبز رنگ پر سفید سیاہی سے تحریک لبیک یارسول اللہﷺ لکھا گیا ہے۔ پارٹی ذمہ داران کے مطابق پرچم میں موجود سبز رنگ گنبد خضریٰ سے نسبت رکھتا جبکہ سفید رنگ امن کی علامت ہے۔
The post سیاسی پارٹیوں کے جھنڈوں میں پنہاں فلسفہ appeared first on ایکسپریس اردو.