پانی کے بغیر انسانی زندگی کی بقاء ممکن نہیں کرۂ ارض پر ریاستوں اور شہروں کا وجود پانی کے سبب ہی ممکن ہوا۔ قدیم تہذیبیں جو پانی کے ذخائر کے پاس پروان چڑھتی رہیں پانی کا رخ بدلنے یا خشک ہونے پر ویران ہوگئیں۔
سائنس داں آج دوسرے سیاروں میں پانی کی موجودگی پر انسانی زندگی کے امکان ظاہر کررہے ہیں۔ آج سے چار دہائیاں قبل پانی حاصل کرنے کے ذرائع بالکل مختلف تھے۔ اس وقت چشمے، کنوئیں اس مقصد کے لیے استعمال کیے جاتے تھے اور وقت کے ساتھ یہ ذرائع ناپید ہوتے چلے گئے اور ان کی جگہ ٹیوب ویلز نے لے لی ہے محققین کے مطابق سکندراعظم جب بلوچستان کے علاقے لسبیلہ میں داخل ہوا تو اس کے لشکر کا جاہ و جلال دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا اور جب وہ اس علاقے کی حدود پار کر چکا تو اس کے اردگرد لشکر نہیں ایک لٹا پٹا چھوٹا سا قافلہ تھا جسے کسی ڈاکو یا راہ زن نے نہیں بلکہ اس سرزمین کے موسمی حالات نے گہرے زخم لگائے تھے۔
لشکر کا چھٹا حصہ اپنے ہوش وحواس اور زندہ حالت میں موجود تھا۔ بادشاہ کے ہونٹ خشک تھے چند سپاہیوں کو پانی کی تلاش کے لیے روانہ کیا گیا۔ واپسی پر ان کے پاس تھوڑا سا پانی موجود تھا، جو انہوں نے شدید پیاس کے باوجود اپنے بادشاہ کی خدمت میں پیش کردیا۔ سکندراعظم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور خشک حلق سے یہ تاریخی الفاظ برآمد ہوئے،’’جب سکندر کا لشکر پیاسا ہے تو سکندر کیوں اپنی پیاس بجھائے۔‘‘ یہ کہہ کر پانی صدیوں سے پیاسی زمین کے حوالے کردیا۔
یہ خدشہ اب حقیقت بنتا جارہا ہے کہ دنیا میں آئندہ پانی کے حصول کے لیے خون بہے گا۔ قدرت کی طرف سے عطاء کردہ آبی وسائل کی بہتات کے باوجود اس کے ذخائر میں دن بدن کمی ہورہی ہے۔ گویا ہم تیزی سے قلت آب کی خوف ناک صورت حال طرف بڑھ رہے ہیں۔ بلوچستان پہلے ہی پانی کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہے اور اب اس صوبے میں صورت حال مزید سنگین ہوتی جارہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آبی وسائل کا پائے دار بنیادوں پر مناسب انتظام نہ کیا گیا تو کوئٹہ سے2025 تک لوگ نقل مکانی کرجائیں گے، جو ہماری بڑھتی آبادی کے لیے کسی بڑے سانحے سے کم نہیں ہوگا۔ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کو قلت آب اور تباہ کن زلزلے کے دوہرے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ زیرزمین پانی کی محفوظ حد سے زیادہ نکال لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے زمین سالانہ10 سینٹی میٹر کی اوسط سے بیٹھ رہی ہے۔ ماہرین نے اس صورت حال کو زلزلے کی فالٹ لائن پر واقع شہر کے لیے تشویش ناک قراردیا ہے۔
ماہرین کے مطابق کوئٹہ میں زلزلہ1935ء میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کی شدت سے دو گنا زیادہ تباہ کُن ثابت ہوگا۔ بلوچستان میں بارشیں نہ ہونے کے باعث خشک سالی اور غیرقانونی ڈرلنگ اور ٹیوب ویل لگانے کے باعث چند سال میں زیرزمین پانی کی سطح نیچے گرنے سے اب پانی مشینوں کے ذریعے نکالاجارہا ہے۔ ماضی کی حکومتیں اس سنگین مسئلے کو بحران کی شکل اختیار کرنے سے روکنے میں ناکام رہیں۔ ان حکومتوں نے نہ ڈیمز بنائے نہ ہی غیرقانونی ڈرلنگ کو روکنے کے لیے کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی۔ ماہرین کے مطابق19ویں صدی تک بلوچستان میں پانی کی وافر مقدار موجود تھی۔ چشموں سے پانی بہتا رہتا تھا مگر اب بارشیں نہ ہونے سے کوئٹہ کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔
غیرقانونی ڈرلنگ سے کوئٹہ کے علاقوں سریاب بلیلی، سرہ غڑ گئی اور نواں کلی سمیت ملحقہ علاقوں میں زمین میں کئی کلومیٹر تک لمبی لمبی دراڑیں پڑ گئی ہیں جس کے باعث علاقہ مکینوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ زمین میں دراڑیں پڑنے سے درجنوں گھروں کو نقصان پہنچا اور لوگ اپنے مکانات کو چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے شعبے جیالوجسٹ کے پروفیسر ڈاکٹر دین محمد کاکڑ کے مطابق مستقبل کی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے ذخائر ضائع کردیے گئے جس کے باعث ہمیں خشک سالی کا سامناکرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے باوجود اب بھی بے دردی سے پانی نکالاجارہا ہے۔
کوئٹہ میں پانچ ہزار غیرقانونی ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں۔ 2003ء کے بعد سے اب تک کوئٹہ میں پانی کے ذخائر دریافت نہیں ہوئے ہیں۔ نہ ہی کوئی سروے رپورٹ سامنے آئی ہے۔ جب کچھ اور نہ بن پڑا تو کوہِ مردار کی جانب رخ کیا گیا۔ کوہ مردار کے متعلق2002ء میں ماہرین نے کہا تھا کہ اگر25ٹیوب ویلز کے ذریعے وہاں سے پانی نکالا جائے تو پچیس سال آبادی اسی پر انحصار کرسکتی ہے، لیکن رپورٹ کے برعکس کام کیا گیا اور اب کوہ مردار پر256 ٹیوب ویل کام کررہے ہیں۔
وادیٔ کوئٹہ کے باسی تو جیسے تیسے پانی خرید لیتے ہیں لیکن بلوچستان کے دیگر علاقوں میں صاف پانی کی کمی کے باعث مختلف مسائل جنم لے رہے اور بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ لوگ ہنستے بستے گھر چھوڑ کر دوسری جگہوں پر منتقل ہونے پر مجبور ہیں۔ چھوٹے آبی ذخائر کی اہمیت اپنی جگہ وسائل سے مالا مال سرزمین بلوچستان کے لیے ناکافی بارشیں پریشان کن مسئلہ ہیں۔ مون سون میں یہاں برسات کی اوسط200ملی میٹر سے بھی کم ہوتی ہے۔ مغربی حصے میں تو کہیں کہیں یہ 50 ملی میٹر سے بھی کم ہوجاتی ہے۔ شدید خشک سالی اور انسانوں کا پیداکردہ قحط مقامی آبادی کے لیے انتہائی سنگین حالات پیدا کر رہے ہیں۔ نوشکی، چاغی، خاران اور مکران کے علاقے خشک سالی کی زد پر ہیں۔ بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا مطلوبہ بندوبست اور زمین کی گہرائی سے ہونے والی پمپنگ کی سنگینی یہ دونوں حکومتی غفلت کے پیدا کردہ مسائل ہیں۔
سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس سید منصورعلی شاہ اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ کے ازخود نوٹسز کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس صوبے کے مختلف اضلاع میں زیرزمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کو دوبارہ بلند کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ دورانِ سماعت میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح ایک ہزار فٹ سے نیچے گرگئی ہے۔ چیف جسٹس نے اس وقت کے وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو سے استفسار کیا کہ کیا پانی کی قلت سے مسائل سے متعلق صوبائی حکومت نے کوئی پالیسی بنائی ہے؟ جس پر قدوس بزنجو نے عدالت کو بتایا کہ ان کی حکومت دو ماہ قبل قائم ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا ہمارے پاس وسائل اور وقت کم ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے بلوچستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، لیکن اس کا بجٹ بہت کم ہے۔ فنڈز کی کمی کے باعث لوگوں کے مسائل جلد حل کرنے میں ہم کام یاب نہیں ہوئے۔ جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کافی معدنیات اور وسائل ہیں، پھر بھی بلوچستان کو کیوں نظرانداز کیا جاتا ہے؟ انہوں نے ریمارکس دیے کہ بنیادی حقوق کی فراہمی کے منصوبوں میں وفاق سے فنڈز کی فراہمی کا اگر کوئی مسئلہ صوبائی حکومت کو درپیش ہے تو عدالت ہر ممکن مدد کے لیے تیار ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کے جائز حقوق سے متعلق آئینی درخواستیں عدالت میں دائر کی جائیں، عدالت ان پر اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔
قدوس بزنجو کی وزارت اعلیٰ اور صوبائی حکومت کو رخصت ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے صوبے میں نگراں وزیراعلیٰ علاؤالدین مری کی سربراہی میں 10رکنی نگراں حکومت اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہے۔ عدالت کے واضح احکامات کے باوجود سابق حکومت عوام کو پانی کی فراہمی کے لیے سنجیدہ نہیں تھی، جس کی وجہ شاید وقت اور حکومتی وسائل میں کمی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کی بنجر زمین والے علاقوں میں پہاڑی سلسلے چاغی اور خاران، صحرائی علاقے، مکران کے ساحل اور لسبیلہ مری بگٹی قبائل کے علاقے شامل ہیں۔ تین لاکھ47ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلی یہ زمین پاکستان کے رقبے کا43 فی صد ہے۔
اس کی انتہائی زرخیز دو کروڑ ایکڑ سے زائد زمین پر ہر سال کاشت کرکے بے پناہ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ تاہم منصوبہ سازوں نے اس جانب کبھی توجہ نہیں دی۔ قابل کاشت زمین کی دست یابی انسانوں کے لیے خواب بنتی جارہی ہے۔ زیرزمین پانی کے ذخائر ختم ہونے کی وجہ سے روایتی نظامِ آبپاشی بشمول کاریز، زیرزمین پانی کی ترسیل کے لیے کھلے کنوؤں کا مربوط نظام غیرفعال ہوچکا ہے۔ ایسے میں ترجیحی بنیادوں پر آبی ذخائر اور ڈیمز کی تعمیر کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ خصوصاً چھوٹے چھوٹے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہوچکی ہے۔ صوبے میں100چھوٹے اور بڑے ڈیمز کی تعمیر کے لیے منصوبہ کا باقاعدہ افتتاح 2008ء میں کیا گیا تھا، جنہیں2020 میں مکمل ہونا ہے۔ تاہم 10سال میں اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود اس منصوبے پر محض 30 سے40 فی صد کام ہوپایا ہے۔
بلوچستان کے محکمۂ زراعت کے مطابق ڈیمز نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال10.69 ارب مربع میٹر سے8.57 ارب مربع میٹر تقریباً80 فی صد پانی ضائع ہوتا ہے۔ حکام کے مطابق کوئٹہ میں جتنی گنجائش تھی اس سے زیادہ ٹیوب ویل لگائے جاچکے ہیں۔ کوئٹہ میں ایک اندازے کے مطابق 120سے140ٹیوب ویلز کی گنجائش ہے، لیکن اس وقت تین ہزار سے زیادہ ٹیوب ویلز کام کررہے ہیں، جس کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ مشرف دور میں کچھی کینال پر کام شروع ہوا۔ یہ منصوبہ تکمیل کے بعد کچھی اور سبی کے علاقوں میں ستر لاکھ ایکڑ اراضی کی آبپاشی کے لیے پانی فراہم کرسکتا تھا۔ واپڈا نے اس منصوبے کا پہلا مرحلہ تاحال مکمل نہیں کیا۔
اس منصوبے میں تاخیر پہلے ہی ہوچکی ہے، جس کی وجہ سے اس کی لاگت بیس گنا بڑھ چکی ہے۔ اس منصوبے سمیت آبی وسائل کے تمام منصوبوں میں سوائے غفلت کہ تاخیر کی اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ پسنی کی ساحلی پٹی کے مکین نصف صدی سے پانی کی قلت جھیل رہے ہیں۔ شادی کور دریا پر ایک چھوٹا ڈیم بنایا گیا۔ پہلی بارش سے اس میں چالیس ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیر ہوا۔ گوادر کے نزدیک کور ڈیم اور سچی ڈیم کی تعمیر کے باوجود وہاں کے مکین تشنہ لب ہیں۔ ساحلی پٹی میں متعدد ڈی سیلنیشن پلانٹس کی ضرورت ہے۔ میرانی ڈیم صوبے میں آخری بڑا ڈیم تھا، جو 2002ء میں ضلع کیچ میں دشت دریا پر تعمیر ہوا۔ یہ درمیانے حجم کا ایک کثیر المقاصد ڈیم تھا۔ اس ڈیم کی تعمیر سے سیکڑوں بڑی کاریز اور کنوؤں میں بھی پانی کی فراہمی ممکن ہوئی۔ اندازہ یہ تھا کہ اس ڈیم سے 33200 ایکڑ اراضی کی آبپاشی ممکن ہوگی، لیکن صرف معمولی رقبے کی آبیاری ہوسکی۔
سی پیک بلوچستان کے لیے معاشی ترقی کی نئی راہیں کھولے گا۔ توانائی، ٹرانسپورٹ اور گوادر شہر کی تعمیر کے منصوبوں پر ابتدائی سرمایہ کاری کا تخمینہ7.1ارب ڈالر ہے۔ بندرگاہ کے تعمیراتی اخراجات اس میں شامل نہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ مزید ڈیموں کی تیزی سے تعمیر ہورہی ہے لیکن گوادر، پسنی اور اورماڑہ کے لیے ڈی سلی نیشن پلانٹس ضروری ہیں، جنہیں ہوا اور شمسی توانائی سے چلایا جاسکتا ہے۔ سی پیک کو توانائی، سڑکوں، ریل کی پٹڑیوں اور انفراسٹراکچر کے تعمیری منصوبوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ اس میں کم از کم دس سے بارہ نئے ڈیم ہنگامی بنیادوں پر تعمیر ہونا ضروری ہیں۔ دنیا نے بڑے ڈیم بنانا چھوڑدیے ہیں، صوبے میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کو نظرانداز کرنا پاکستان کا مستقبل داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ ملک کے حکم رانوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ 100 ڈیم تعمیر کرکے بلوچستان کا مقدر تبدیل کرنا چاہتے ہیں یا اس کی آبادی کو پیاس اور افلاس کے شکنجے میں سسکتا چھوڑ دیں گے۔
کوئٹہ سے شمال کی طرف تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سنگلاخ چٹانوں میں 1894میں تاج برطانیہ کے دور میں پانی کی سطح بلند رکھنے اور آس پاس کی اراضی کو سیراب کرنے کے لیے ہنہ جھیل بنائی گئی تھی۔1894سے1997ء تک اس جھیل میں پانی کی سطح برقرار رہی۔ تاہم مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ جھیل اب مکمل طور پر خشک ہوچکی ہے۔ سالانہ لاکھوں روپے ٹکٹوں کی مد میں حاصل کرنے کے باوجود جھیل کی بہتری پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ جھیل کے خشک ہونے سے جہاں سائبیریا کے پرندوں کا پڑاؤ اور سیاحت وتفریح متاثر ہورہی ہے وہیں آس پاس کے باغات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں نصب گلوبل پوزیشننگ سسٹم (جی پی ایس) 2006 سے نصب ہے۔ جی پی ایس کا بنیادی کام زمین کی حرکت کا پتا لگانا ہے۔ تاہم جی پی ایس نے حیران کن طور پر زمین نیچے بیٹھنے کا ڈیٹا فراہم کیا، جو ماہرین کے لیے چونکا دینے والا تھا۔ جی پی ایس کے ڈیٹا پر بلوچستان یونیورسٹی کے ماہر ارضیات اور ماہر معدنیات نے امریکی یونیورسٹی کے ماہر ماحولیات کے تعاون سے تحقیق کی۔ اس تحقیق کے مطابق کوئٹہ کی زمین سالانہ10سینٹی میٹر نیچے بیٹھ رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ زیرزمین پانی کا بے دریغ استعمال ہے۔ ماہرین کے مطابق صوبائی دارالحکومت میں زیرزمین پانی محفوظ حد سے بھی زیادہ نکالا جاچکا ہے، جس کی وجہ سے زمین کی تہہ میں خالی جگہ بن رہی ہے اور زمین بیٹھتی چلی جارہی ہے۔ تحقیق میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ وادی کوئٹہ شدید موسمی تبدیلیوں کی زد میں بھی ہے۔
سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کے مطابق25 سال قبل پہاڑوں پر درخت اور جنگلات شہر کی نسبت زیادہ تھے، تاہم اب پہاڑوں کی بجائے شہر میں درخت زیادہ ہیں۔ شہر کی آبادی بھی بڑھ گئی ہے، جس کی وجہ سے نباتات اور انسانوں کے لیے پانی کی ضرورت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس اضافے نے لوگوں کو زیرزمین پانی استعمال کرنے پر مجبور کیا جس کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح روز بروز نیچے گرتی چلی جارہی ہے، جو زمین بیٹھنے کا سبب بن رہی ہے۔ ماہرین نے تحقیق میں شہر کے نواحی علاقے بلیلی اور گاہی خان چوک پر زمین کی سطح پر پڑنے والی دراڑیں بھی دکھائی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ دراڑیں زمین کے نیچے بیٹھنے کی وجہ سے نمودار ہوئی ہیں، جس سے اکثر عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ماہرین کے مطابق2006 سے اب تک کوئٹہ کی زمین سالانہ10 سینٹی میٹر کی اوسط سے 116 سینٹی میٹر یعنی3.80 نیچے بیٹھ چکی ہے۔ ماہرارضیات کے مطابق زمین کا نیچے بیٹھنا زلزلے کا باعث تو نہیں بنے گا، لیکن کوئٹہ 103 کلومیٹر کی فالٹ لائن پر واقع ہے۔ یہاں زلزلہ کبھی بھی آسکتا ہے۔
ان کے مطابق زمین نیچے سے بہت کم زور ہوگئی ہے اگر اب کوئی زلزلہ آیا تو دو گنا زیادہ نقصان کا باعث بنے گا۔ وہ اپنے اس خدشے کے دفاع میں دلیل دیتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ریت پر دوڑے گا تو تیز نہیں دوڑسکے گا اور جلدی سے گزر نہیں سکے گا۔ اگر وہ شخص ٹھوس سڑک پر دوڑے تو وہ آسانی سے اور جلدی گزر جائے گا۔ ان کے مطابق بالکل اسی طرح زمین زمین کم زور ہوگئی تو آنے والے زلزلے کا دورانیہ زیادہ ہوگا، جس کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر30 لاکھ کی آبادی ہول ناک زلزلہ سے بچ بھی گئی تو آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں یہاں پانی ختم ہوجائے گا اور یہ شہر ویران ہوجائے گا۔ تحقیق میں زمین کو مزید نیچے بیٹھنے سے بچانے کے لیے ڈیمز کی تعمیر کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تجویز دی گئی ہے کہ زیر زمین پانی کے استعمال کو فی الفور روکا جائے۔
The post کوئٹہ دھنس رہا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.