آج ہر شادی شدہ انسان خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ کوئی تو اِسے اپنا لیتا ہے تو کوئی اِس کو اختیار کرنے میں تذبذب کا شکار رہتا ہے اور کسی کو تو یہ سہولیات ملتی ہی نہیں۔ یوں خاندانی منصوبہ بندی کے انتخاب میں تردّد اور سہولیات کی فراہمی میںتشنگی کا حاصل آبادی میں بے ہنگم اضافہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
زیادہ آبادی زیادہ محرومیوں اور انسانی حقوق کی زیادہ پا مالیوں کا باعث بنتی ہے۔ یہ ہر انفرادی کا حق ہے کہ اُسے تعلیم، روزگار، صحت کی معیاری سہولیات، پیٹ بھر کر کھانا، پینے کے لئے صاف پانی ، امن و تحفظ اور دیگر سماجی و معاشی حقوق ملیں۔ لیکن جب وسائل اس قابل نہ ہوں کہ وہ سائل کی بڑھتی تعداد کی طلب کو پورا کر سکیں تو پھر حاصل اور محروم کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔
لہذا دانشمندی اسی میں ہے کہ اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلائے جائیں یعنی آبادی کو وسائل کی دستیابی کی مناسبت سے ہی بڑھایا جائے تاکہ ہر کسی کے انسانی حقوق کی تکمیل ممکن ہو ۔اور انسانی حقوق کی تکمیل کے سوتے خاندانی منصوبہ بندی کے استعمال سے ہی پھوٹتے ہیں۔ کیونکہ خاندانی منصوبہ بندی ایک ایسا انسانی حق ہے جو کئی ایک دیگر انسانی حقوق کی تشفی کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ اس کی سہولیات کی ہر شادی شدہ جوڑے کو باآسانی دستیابی اِسے بذاتِ خود ایک انسانی حق کی صورت دیتی ہے۔ جسے 1968 میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی کا نفرنس میں بطور انسانی حق کے تسلیم کیا گیا۔ اور اِمسال 11 جولائی کو دنیا بھر میں منائے جانے والے آبادی کے عالمی دن کا عنوان بھی ’’ خاندانی منصوبہ بندی ایک انسانی حق ‘‘ ہے۔
ہر خاتون کا یہ انسانی حق ہے کہ اُسے تشدد سے پاک ماحول فراہم کیا جائے۔ اُس کی شادی نو عمری میں نہ کی جائے اور وہ کم عمری میں حاملہ نہ ہو۔ یہ اُس کا حق ہے کہ حاملہ ہونے یا نہ ہونے کے سلسلے میںاُس کی خواہش کا احترام کیا جائے۔ بچوں کی تعداد اور اُن میں وقفہ کے حوالے سے ہر شادی شدہ عورت کی رائے کو مقدم رکھا جائے تاکہ وہ صحت مند رہے۔ حمل کے دوران اُسے اچھی خوراک اور صحت کی معیاری سہولیات فراہم کی جائیں۔ زچگی کے وقت تربیت یافتہ طبی عملے اور طبی سہولیات سے استفادہ کرایا جائے۔ پیدائش کے بعد زچہ اور بچہ کی صحت اور خوراک کا خیال رکھا جائے۔ ہر خاتون کا یہ حق ہے کہ بچوں کی پیدائش کے بعد بھی اُس کی ذات پر مکمل توجہ دی جائے اور وہ خود بھی اپنے آپ پر توجہ کے لئے وقت نکالے۔اسی طرح ہر پیدا ہونے والے بچے کا یہ حق ہے کہ جب وہ پیدا ہو تو وہ جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل صحت مند ہو۔ اُسے ماں کا دودھ میسر ہو ۔ حفاظتی ٹیکے بروقت لگوائے جائیں۔ کھیلنے اور سیکھنے کے مواقع مہیاکئے جائیں۔ معیاری اور مکمل تعلیم فراہم کی جائے۔ اُسے تحفظ دیا جائے۔ علاوہ ازیں ہر مرد کا بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے اوپر زیادہ بچوں کی صورت میں ذمہ داریوں کا اتنا ہی بوجھ ڈالے جتنا کہ وہ با آسانی اٹھا سکے۔ یہاں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ان تمام باتوں اور حقوق کا خاندانی منصوبہ بندی سے کیا تعلق؟
اگر ہم ان حقوق کو حال کے تناظر میں دیکھیں تو خاندانی منصوبہ بندی استعمال کرنے والا ہر شادی شدہ جوڑا ان تمام حقوق کی کسی نہ کسی طرح تکمیل کر رہا ہوتا ہے۔ مثلاً جب گھر میں بچے کم ہوں گے تو ہر بچے کی پرورش اور دیکھ بھال کے لئے وسائل بھی موجود ہوں گے۔ گھر کا ماحول لڑائی جھگڑے سے پاک ہو گا اور خواتین پرتشدد کے واقعات بھی نہ ہوں گے۔ اور معاشی پریشانیوں کے باعث ایسے فیصلے بھی نہیں کئے جائیں گے کہ جن کی بھینٹ کوئی بچی اپنی نو عمری میں شادی کے بندھن کی صورت میں چڑھ جائے۔ بچے معیاری اور مکمل تعلیم حاصل کر سکیں گے اور کسی کی تعلیم ادھوری نہیں رہے گی۔ خاندانی منصوبہ بندی کا استعمال دراصل خاتون کے حاملہ ہونے یا نہ ہونے کے سلسلے میں اُس کی خواہش کے احترام کا دوسرا نام ہے۔ بچوں کی تعداد اور اُن میں وقفہ کے حوالے سے ہر شادی شدہ عورت کی رائے کو مقدم رکھنے کا باعث بھی ہے۔ اور تواتر سے زچگی کے جان لیوا مراحل سے گزرنے سے خواتین کو محفوظ بھی رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ بار بار حمل کے نہ ہونے کی وجہ سے شریک حیات کی صحت کا موجب بھی ہے جس کا حاصل صحت مند ماں صحت مند بچوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔اور جب خاندانی منصوبہ بندی استعمال کرنے والا جوڑا اپنا فیملی سائز بڑھانا چاہے تو صحت مند ماں صحت مند بچے کو جنم دیتی ہے۔ دورانِ حمل، زچگی اور بعد از زچگی اُس کی بہتر دیکھ بھال کے لئے وسائل اور ا ن سے استفادہ کا احساس بھی موجود ہوتا ہے۔ یوں ہر پیدا ہونے والے بچے کے بھی حقوق بہتر طور پر ادا کیے جا سکتے ہیں۔
اگر ہم ان حقوق کو مستقبل کے تناظر میں دیکھیں تو خاندانی منصوبہ بندی کا استعمال فیملی سائز کواپنے وسائل کی مناسبت سے رکھنے کا اختیار دیتا ہے۔ جو اوپر بیان کردہ حقوق کی مستقبل میں بھی ادائیگی کو یقینی بنانے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اور یہ آبادی میںہر اُس غیر شعوری اضافہ کو روکتا ہے جس کے اثرات انفرادی، گھر، معاشرے اور ملک کی سطح پر مرتب ہوتے ہیں۔ رہ گئی بات مرد کے بوجھ اٹھانے کی تو اس حوالے سے چند باتیں مدنظر رکھنا ضروری ہیں۔ وہ یہ کہ رازق اللہ پاک کی ذات ہے لیکن بچوں کی بہتر پرورش والدین کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔اور جب بچوں کی کثرت ہوگئی تو ذمہ داریوں کی فہرست بھی اسی مناسبت سے طویل ہوگی تو ایسے میں میاں بیوی اپنے تمام بچوں کی یکساں طور پر ذمہ داریاں کیسے احسن طریقے سے ادا کر پائیںگے؟ بچوں کے لئے چھت کی فراہمی، لباس کی ضروریات کا پورا کرنا، بچوں کی تعلیم کا بندوبست اور بیماری کی صورت میں صحت کی سہولیات کی فراہمی، بچوں کو پورا وقت اور توجہ دینے کے ساتھ ساتھ شریک حیات کی صحت، ان تمام ذمہ داریوں کی انجام دہی کے حوالے سے بھاگ دوڑ وہ اضافی بوجھ ہے جو کوئی بھی شادی شدہ مرد ہر نئے پیدا ہونے والے بچے کی صورت میں اپنے آپ پر بڑھا لیتا ہے۔ نتیجتاً یا تو وہ اس بھاگ دوڑ کی چکی میں پس جاتا ہے۔ یا پھراس سے باغی ہو جاتا ہے۔ اور یہ دونوں صورتیں ہی کسی طور قابلِ قبول نہیں۔ مختصراً یہ کہ تمام اضافی ذمہ داریوں کے بوجھ سے بچنا اور حقوق کی تکمیل خاندانی منصوبہ بندی کے اختیار میں ہی پنہاں ہے۔ کیونکہ ایک صرف خاندانی منصوبہ بندی کے انسانی حق کو پورا کر کے کئی دیگر انسانی حقوق کی تکمیل کی جا سکتی ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی بذاتِ خود ایک انسانی حق ہے جس کو چار پہلوؤںکی یکساں ادائیگی سے پورا کیا جاسکتا ہے۔ اول، خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات وافر مقدار میں دستیاب ہوں۔ دوم، کسی بھی قسم کی تفریق سے مبرا یہ جسمانی اور معاشی طور پر سب کی پہنچ میں ہوں۔ سوم، انفرادیوں اور ثقافتی حوالے سے قابلِ قبول ہوں۔ چہارم، اعلیٰ معیار کی حامل ہوں۔
لیکن فی الحال ہم ہر سطح پرخاندانی منصوبہ بندی کو ایک انسانی حق منانے کو تیار نہیں ہیں۔ اسی لئے ہم جو ملک کی پہلی مردم شماری 1951 کے وقت دنیا بھر میں آبادی کے حوالے سے14 ویں نمبر پر تھے۔ 2017 کی چھٹی مردم شماری تک آبادی کے حوالے سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک بن چکے ہیں۔ اور آبادیات کے تناظر میں ہمارے اشارئیے اُس طرز عمل کی واضح عکاسی کر رہے ہیں جو ہم نے بطور انفرادی اوراجتماعی خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے اپنائے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ڈیپارٹمنٹ آف اکنامک اینڈ سوشل آفیرز کی ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس2017 رویژن نامی رپورٹ کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق 1950-55 کے دوران پاکستان جو آبادی میں اضافہ کی رفتار(Growth rate) کے حوالے سے دنیا بھر میں 154 ویں نمبر پر تھا ۔ 2010-15 تک66 ویں نمبر پر آچکا تھا ۔
اسی طرح1950-55 کے دور ان پاکستان آبادی میںسالانہ عددی اضافہ(Annual population increase in numbers) کے حوالے سے دنیا بھر میں 14 ویں نمبر پر تھا ۔2010-15 میں سالانہ آبادی میں چوتھا سب سے زیادہ عددی اضافہ کرنے والا ملک بن گیا۔ ملک میں آبادی کی گنجانیت(Population density ) کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ 1951 میں پاکستان جو فی مربع کلومیٹر آبادی کی مناسبت سے دنیا میں 95 ویںنمبر پر تھا 2017 تک 54 ویں نمبر پر آچکا ہے۔ اس کے علاوہ 1950-55 میں خواتین کی شرح بار آوری (Fertility rate )کے تناظر میں وطن عزیز 65 ویں نمبر سے ترقی کرتا ہوا2010-15 تک 52 ویں نمبر پر آچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی پیدائش کی تعداد کے حوالے سے ہم جو 1950-55 میں دسویں نمبر پر تھے 2010-15 میںچوتھے نمبر پر پہنچ چکے ہیں۔ اور اگر2010 سے2015 کے دوران ملک کی آبادی میں اضافہ کی رفتار یوں ہی برقرار رہی تو پاکستان کی آبادی33 سال میں دگنا ہو جائے گی۔ اور اس تناظر میں پاکستان دنیا کے146ممالک جن کے اعداد وشمار دستیاب ہیں ان میں85 ویں نمبر پر ہے۔
یہ تو سب ایک بین الاقوامی رپورٹ کے تجزیہ سے حاصل ہونے والے حقائق ہیںاور جب ہم ملکی خانہ و مردم شماری کی مختلف رپورٹس کا جائزہ لیں تو جو حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں وہ بھی کافی متنبہ کرنے والے ہیں۔ تجزیہ کے مطابق پاکستان میں پہلی مردم شماری سے لیکر چھٹی مردم شماری 1951 تا2017 کے دوران 66 سالہ عرصہ میں ملک کی آبادی میں مجموعی طور پر 516 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس عرصہ کے دوران سب سے زیادہ آبادی میں اضافہ اسلام آباد میں ہوا جو 1990 فیصد ہے۔ اس کے بعد بلوچستان ہے جہاں آبادی میں اضافہ958 فیصد ہوا۔ سندھ تیسرے نمبر پر رہا جہاں 692 فیصد آبادی بڑھی۔ خیبر پختونخوا کی آبادی میں اس عرصہ کے دوران 570 اور پنجاب میں 436 فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ فاٹا کی آبادی میں 275 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔ اور اگر ہم ملک کی پانچویں اور چھٹی خانہ ومردم شماری1998 اور2017 کو ہی صرف لیں تو ان 19 سالوں میں ملک کی مجموعی آبادی میں 57 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
اسلام آباد آبادی میں اضافہ کے حوالے سے اس عرصہ کے دوران سرفہرست رہا جہاں یہ اضافہ 149 فیصد ہوا۔ 88 فیصد کے ساتھ بلوچستان دوسرے اور72 فیصد کے ساتھ خیبر پختونخوا تیسرے نمبر پر رہا۔ سندھ اور فاٹا میں یہ اضافہ57 فیصد فی کس رہا۔ جبکہ سب سے کم اضافہ پنجاب میں ہوا جو 49 فیصد تھا۔ ملک میں آبادی کی گنجانیت کی صورتحال میں وقت کے ساتھ ہونے والی تبدیلی بھی علاقوں/ صوبوں کے وسائل پر بوجھ کی نشاندہی کر رہی ہے۔ ملک میں 1951 سے2017 کے دوران فی مربع کلومیٹر افراد کی تعداد میں521 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اور یہ تعداد42 سے بڑھ کر261 ہو چکی ہے۔
اسلام آباد میں اس عرصہ کے دوران سب سے زیادہ یعنی1989 فیصد فی مربع کلومیٹر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ دوسرا نمایاں اضافہ بلوچستان میں ہوا جو 1085 فیصد ہے۔ سندھ تیسرے، خیبر پختونخوا چوتھے، پنجاب پانچویں اور فاٹا مذکورہ بالا عرصہ کے دوان چھٹے نمبر پر رہا۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق اس وقت پاکستان کا سب سے گنجان آباد علاقہ اسلام آباد ہے جہاں 2215 افراد فی مربع کلومیٹر آباد ہیں۔ جب کہ سب سے کم صورتحال بلوچستان کی ہے جہاں یہ تناسب 36 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ پنجاب536 افراد کی تعداد کے ساتھ دوسرے، خیبر پختونخوا 410 کے ساتھ تیسرے، سندھ 340 کی تعداد کے ساتھ چوتھے اور فاٹا 184افراد فی مربع کلومیٹرکے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔آبادی کی یہ گنجانیت شہری علاقوں میں تو کافی زیادہ ہے۔ پاکستان جس کی اس وقت 36.3 فیصد آبادی شہروں میں آباد ہے۔1981 میںوہ 28.3 ہوا کر تی تھی۔ ملک کی آبادی میں اضافہ کے یہ جغرافیائی رجحانات خاندانی منصوبہ بندی کے پالیسی سازوں کو ملک کے اُن علاقوں کی نشاندہی کر رہے ہیں جہاں ماضی میں فیملی پلاننگ کے منصوبے وہ نتائیج حاصل نہیںکر پائے جن کی توقع کی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ موجودہ زیادہ توجہ کے متقاضی علاقوں کی جانب بھی توجہ مبذول کروا رہے ہیں۔
خاندانی منصوبہ بندی کا محدود استعمال جہاں ہمیں آبادی کے بوجھ تلے دباتا جا رہا ہے وہیں زچہ و بچہ کی صحت کے شعبے کو بھی بہت سے سنگین چلینجز سے نبردآزما کر رہا ہے۔ مثلاً ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے استعمال کی کم تر شرح کی وجہ سے 2016 میں ملک میں 54 لاکھ 38 ہزار 600 پیدائش ہوئیں جو دنیا بھر میں پیدا ہونے والے بچوں کی چوتھی بڑی تعداد ہے۔ اور یوں ملک میں فی خواتین ( اگر وہ اپنی مکمل تولیدی عمر15 سے 49 سال جیتی ہے) بچوں کی پیدائش کی اوسط تعداد 3.4 ہے۔ جبکہ صوبوں کی سطح پر یہ تعداد ملکی اوسط سے زیادہ ہے۔ بچوں کی پیدائش کی یہ اوسط تعداد خواتین کو بار بار زچگی کے مراحل سے گزرنے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ شواہد یہ بتاتے ہیں کہ جس خاتون کے 4 سے زائد بچے ہوں اُس کا زچگی کے دوران مرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ عالمی ادارہ اطفال کی رپورٹ دی اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن2017 ، اقوام متحدہ کے آبادی کے فنڈ کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ پاپولیشن2017 اور ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات 178 فی لاکھ ہے۔ اس شرح کے حوالے سے ملک دنیا بھر میں54 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ 2015 میں دنیا بھر میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی پانچویں بڑی تعداد (9700 ) کا تعلق پاکستان سے تھا۔
اور ملک میں زچگی کے ہر 140 کیسز میں سے ایک کیس کا انجام موت پر ہوتا ہے۔ اس حوالے سے وطنِ عزیز دنیا بھر میں 49 نمبر پر ہے۔ اسی طرح بار بار کا حمل اور خصوصاً دورانِ حمل خواتین کی غیر موزوں خوراک ان میں خون کی کمی کا بھی باعث بنتی ہے۔اسی لئے پاکستان کی52.1 فیصد خواتین جن کی عمر 15 سے49 سال کے درمیان ہے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ اور یہ دنیا میں پانچویں سب سے زیادہ شرح ہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے کم وزنی اور مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہوکر زندگی سے منہ موڑ لیتے ہیں۔اعدادوشماراس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ملک میں پیدا ہونے والے 32 فیصد بچوں کا وزن پیدائش کے وقت اڑھائی کلو گرام سے کم ہوتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔ جبکہ 28 دن کی عمر سے کم کے نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات (Neonatal mortality rate ) 46 فی ہزار ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ سنگین شرح ہے۔
اسی طرح ایک سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات (Infant mortality rate ) 64 فی ہزار کے ساتھ پاکستان دنیا بھر میں11ویں نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں کم عمر ی میں لڑکیوں کی شادی اور ماں بننے کا رجحان بھی خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت کو دوچند کر دیتا ہے۔ کیونکہ ایک طرف تو اُنکی تولیدی عمر کا دورانیہ طویل ہو تا ہے تو دوسری طرف عالمی ادارہ اطفال کے مطابق 15 سے19 سال تک کی عمر کی ماں کا زچگی کے دوران مرنے کا امکان 20 سال کی عمر میں ماں بننے والی لڑکی کی نسبت دگنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کم عمر ماؤں کے ہاں اکثر پری میچور پیدائش (وقت سے پہلے) کے زیادہ کیسز ہونے کا امکان ہوتا ہے جو کہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کم عمری میں ماں بننے والی لڑکیوں اور ان کے نوزائیدہ بچوں کی اموات کا قریبی تعلق ماں کی صحت کے ساتھ بھی وابستہ ہے کیونکہ ابھی لڑکی کی اپنی نشوونما کا عمل جاری ہوتا ہے کہ وہ ماں بن جاتی ہے جس سے زچہ و بچہ دونوں کی صحت متاثر ہوتی ہے اور پیدا ہونے والے بچے کم وزن، کمزور اور مائیں خون کی کمی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے2012-13 کے مطابق ملک کی 15 سے 19سال کی 14فیصد لڑکیوں کو شادی کے بندھن میں باندھ دیاجاتا ہے۔ اور مذکورہ عمر کے گروپ کی 5.4 فیصد لڑکیاں ماں بھی بن چکی ہیں۔ جبکہ 25 سے49 سال کی عمر کی خواتین کے35 فیصد کی شادی 18 سال کی عمر تک ہو چکی تھی اوراُن کے 15.2 فیصد نے 18 سال کی عمر میں اپنے پہلے بچے کو جنم دیا۔
اس کے علاوہ ماں اور بچے کی صحت کو لاحق خطرات کا ایک اہم سبب بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ کی عدم موجودگی ہے۔ پی ڈی ایچ ایس2012-13 کے مطابق ملک میں بچوں کی پیدائش کے درمیان وقفہ کی اوسط 28 ماہ ہے۔ جبکہ37 فیصد پیدائش کے کیسز میں اوسط ً 24 ماہ سے کم عرصہ کا وقفہ ہوتا ہے۔ ملک میں بچوں کی پیدائش میں مختصر ترین وقفہ 15 سے 19 سال کی عمر کی لڑکیوں کے یہاں پایا گیا جو 18 مہینے ہے۔ جان ہاپسکن سکول آف پبلک ہیلتھ امریکہ کی پاپولیشن رپورٹ کے مطابق تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ 3 سے 5 سال کے وقفہ سے پیدا ہونے والا بچہ 2 سال کے وقفے کے بعد پیدا ہونے والے بچے کی نسبت صحت مند ہوتا ہے اور اس کے پانچ سال تک کی عمر کے پہنچنے کا امکان 2.5 گنا زیادہ ہوتا ہے بہ نسبت ایسے بچوں کے جو دو سال کے وقفے کے بعد پیدا ہوئے ہوں۔ تبھی تو ملک میں ہر سال 4 لاکھ 24 ہزار بچے پانچ سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل ہی اس دارِفانی سے کوچ کر جاتے ہیں اور بچوں کی اموات کی یہ دنیا بھر میں تیسری بڑی تعداد ہے۔ اگر ہم ملک میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات (Under-5 mortality rate ) کا جائزہ لیں تو یہ 79 فی ہزار ہے جو دنیا بھر میں 20 ویں سب سے زیادہ شرح ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی زچہ (خواتین) جنہوں نے اپنے بچوں کی پیدائش میں 9 سے14 ماہ کا وقفہ رکھا ہو ان کی نسبت ایسی مائیں جنہوں نے اپنے اگلے بچے کی پیدائش میں 27 مہینے کا وقفہ رکھا ہو ان میں خون کی کمی کا امکان پہلے گروپ کی نسبت 1.3 گنا کم ہو جاتا ہے۔ یعنی جتنا زیادہ وقفہ ہوگا اتنا ہی خون کی کمی کے امکان میں کمی ہوگی۔ لیکن حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ملک کی52.1 فیصد خواتین جن کی عمر 15 سے49 سال کے درمیان ہے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ لہذا ماں اور بچے کی صحت کا براہ راست انحصار اولاد میں مناسب وقفے پر منحصر ہے جس کے لئے اس کا خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں پر عمل کرنا ضروری ہے ۔
پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات نجی اور سرکاری دونوں شعبے فراہم کرتے ہیں۔ ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کا آغاز 1953 میں نجی شعبہ میں ہوا۔ اور سرکاری شعبے میں1960 کی دہائی میں جب حکومت نے 1966 میں اس حوالے سے اسٹیٹ پالیسی مرتب کی۔ جبکہ اسے وزارت کا درجہ 12جون 1990 کودیتے ہوئے حکومت نے بہبود آبادی کا ایک جامع پروگرام شروع کیا جو ماؤں کی صحت کی سہولیات اور تولیدی صحت کی سہولیات کے حوالے سے اہم اقدام تھا۔ بعد ازاں 1994میں حکومت نے فیملی پلاننگ اور پرائمری ہیلتھ کئیر پروگرام شروع کیا اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ذریعے دیہی آبادی تک یہ سہولتیں پہنچائیں۔ 2010 میں وزارت بہبود آبادی اور وزارت صحت ختم کر دی گئیںاور یہ اختیارات اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو تفویض ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں اتفاق رائے کا فقدان اور ابہام پیدا ہوا کیونکہ صوبوں کی ترجیحات مختلف ہیں۔
مثلاًصوبوں میں این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم کی بنیادی اکائی آج بھی آبادی ہے۔ تو پھر کس طرح صوبوں کی ترجیحات میں آبادی پر کنٹرول اولیت اختیار کرے گا؟اس کے علاوہ ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کو کئی ایک سماجی، سیاسی اور مذہبی انتہا پسند رویوں کا سامناہے ۔ جس کی وجہ سے آج تک ملک میں ان طریقوں کے استعمال کی شرح اتنی حوصلہ افزا نہیںہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ خاندانی منصوبہ بندی کے استعمال کے حوالے سے دستیاب ملکی اور بین الاقوامی اعدادوشمار میں یکسانیت کی بھی کمی ہے۔ مثلاً اقوام متحدہ کے فنڈ برائے آبادی کے مطابق 2017 میں پاکستان میں 15 سے49 سال کی شادی شدہ خواتین کا 40 فیصد خاندانی منصوبہ بندی کا کوئی ایک روایتی یا جدید طریقہ استعمال کرتا ہے۔ اس حوالے سے وطن عزیز دنیا کے 184ممالک جن کے اعداد وشمار دستیاب ہیں۔ 142 ویں نمبر ہے۔ جبکہ جدید طریقوں کے استعمال کی شرح2017 میں31 فیصد ہے اور ملک اس تناظر میں 184ممالک میں سے 140 ویں نمبر پر ہے۔
اسی طرح فیملی پلاننگ ٹونٹی ٹونٹی(2012 میںخاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے لندن میں سربراہان کے ہونے والے اجلاس میںدنیا کے ایسے69 ممالک جن کی قومی آمدن -GNI 2500 ڈالر یا اس سے کم ہے۔ اِن ممالک کے لئے یہ عہد کیا گیا کہ12 کروڑ اضافی خواتین اور لڑکیوں کو خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات تک رسائی فراہم کی جائیگی جس کے لئے2020 تک اہداف کا تعین کیا گیا) کے مطابق 2017 میں پاکستان خاندانی منصوبہ بندی کے استعمال کنندگان کی تعداد کے حوالے سے دنیا کے 69 ممالک میں 5 ویں نمبر پر ہے۔ اور ملک میںایک کروڑ 5 لاکھ16 ہزار سے زائد خاندانی منصوبہ بندی کے استعمال کرنے والے موجود ہیں۔ جبکہ2017 میں ملک میں15 سے49 سال کی عمر کی شادی شدہ خواتین میں خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقوں کے استعمال کی شرح32.9 فیصد ہے اور اس اعتبار سے وطن عزیز دنیا کے 69 ممالک میں36 ویں نمبر پر ہے۔ تاہم اپریل 2017 میں جاری شدہ پاکستان ادارہ شماریات کی کنٹرا سیپٹیو پرفارمنس رپورٹ 2015-16 کے مطابق ملک میں2015-16 کے دوران خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقوں کے استعمال کی شرح 35.5 فیصد رہی جوکہ 2014-15 کے مقابلے میں8.6 فیصد زائد ہے۔
اس عرصہ میں سب سے زیادہ اضافہ اسلام آباد میں دیکھنے میں آیا۔ جہاں 2014-15 میں خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقوں کے استعمال کی شرح67.4 فیصد سے بڑھ کر 2015-16 میں 81.8 فیصد ہو گئی۔ یعنی ایک سال کے دوران 21.4 فیصد اضافہ۔ اسی طرح مذکورہ عرصہ میں خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقوں کے استعمال میں کمی صرف بلوچستان میں ہوئی جو منفی 9.2 فیصد تھی۔ صوبہ میں 2014-15 میں 15.2شادی شدہ خواتین خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقوں کا استعمال کرتی تھیں جو2015-16 میں کم ہوکر13.8 فیصد ہو گیا۔ ملک میں صوبائی سطح پر خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقوں کے استعمال کی سب سے بہتر شرح خیبر پختونخوا میں رہی۔ صوبے کے روایتی رجعت پسندی کے تناظر میںگہرے تشخص کے باوجود 2015-16 میںصوبے کی 46 فیصد خواتین ان کا استعمال کرتی تھیں۔38.9 فیصد کے ساتھ پنجاب دوسرے اور سندھ میں یہ شرح25 فیصد تھی ۔ اس کے علاوہ آزاد جموں کشمیر میں یہ شرح 17.6 فیصد، گلگت بلتستان میں22 فیصد اور فاٹا میں 10فیصد رہی۔
پاکستان میں اگرچہ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں سے آگہی کی شرح کافی حوصلہ افزاء ہے۔ پی ڈی ایچ ایس 2012-13 کے مطابق ملک کی 15 سے49 سال کی شادی شدہ خواتین کا98.9 فیصد خاندانی منصوبہ بندی کے کسی ایک طریقے کے بارے میں جانتا ہے جبکہ98.7 فیصد کسی ایک جدید طریقے کے بارے میں آگاہ ہے۔اس کے علاوہ ملک کی آدھی سے زائد یعنی51.2 فیصد مذکورہ ایج گروپ کی شادی شدہ خواتین مزید بچوں کی خواہش مند بھی نہیں۔ اسلام آباد کی60.3 فیصد شادی شدہ خواتین مزید بچوں کی خواہش مند نہیں ہیں اس کے بعد پنجاب کی 54 فیصد، خیبر پختونخوا کی 53.4 فیصد، گلگت بلتستان کی 50.8 فیصد، سندھ کی 46.8 اور بلوچستان کی28.9 فیصد 15 سے49 سال کی عمر کی شادی شدہ خواتین مزید بچوں کی طلب گار نہیں ہیں۔ جبکہ ملک میں 3 بچوں کی ماؤںکا55.7 فیصد مزید بچوں کی آرزو نہیں رکھتا۔ اور جیسے جیسے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے مزید بچوں کی خواہش مند خواتین کے تناسب میں کمی آتی جاتی ہے۔ یہ تمام اعداد و شمار اس امر کی واضح نشاندہی کر رہے ہیں کہ ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کی کتنی ضرورت موجود ہے۔
لیکن اس کے باوجود اس کے استعمال کی شرح اتنی حوصلہ افزاء نہیں۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔جناح انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق’’ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی راہ میں اہم رکاوٹ دیہی خواتین کے لئے خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات کا فقدان اور رسائی میں رکاوٹیں ہیں۔ اس کے علاوہ مانع حمل ادویات کے ضمنی اثرات کا خوف ایک اور اہم وجہ ہے جو مانع حمل ادویہ کے استعمال کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ مزید براں خواتین کی کم شرح خواندگی، خواتین کی کمزور خود مختاری اور نوزائیدگی سے تمام عمر کے بچوں میں موجود بلند شرح اموات ۔ یہ تمام وجوہات ہیں جو بلند شرح پیدائش کی وجہ ہیں‘‘۔اس کے علاوہ خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق غلط تصورات کے باعث عام پاکستانی سماج خاندانی منصوبہ بندی کو اسلامی تعلیمات کے منافی سمجھتا ہے۔ جبکہ کئی ایک معاشرتی عوامل جن میں نرینہ اولاد کی خواہش، معاشی خوشحالی کے لئے کمانے والے زیادہ ہاتھ، طبی عملے کو رجعت پسند طاقتوں کے متواتر فتووں، رضاکاروں کی ہلاکتوں، طبی عملے کے اغوا، خدمات فراہم کرنے والوں کے عقائد اور کام میں تصادم کا موجود ہونا اور حکومت کی جانب سے بے دلانہ حمایت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
اس تمام صورتحال میں ہم جو 64 سال میں خاندانی منصوبہ بندی کے استعمال کی شرح کو سرکاری دستاویز کے مطابق 35.5 فیصدتک لا پائے ہیں کیسے2020 تک 50 فیصد کے ہدف تک پہنچ پائیں گے؟ کیونکہ فیملی پلاننگ ٹونٹی ٹونٹی کی دستاویز کے مطابق 2020 تک پاکستان نے خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقوں کے استعمال کی شرح کو 50 فیصد تک پہنچانے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اس کے لئے استعمال کنندگان کی تعداد میں67 لاکھ کا مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ جس کے لئے اضافی وسائل کی ضرورت ہوگی۔ اور اس کے لئے ملک میں خاندانی منصوبہ بندی پر اخراجات کو اڑھائی ڈالر فی کس تک بڑھانا ہوگا۔ اس کے مقابلے میں 2016-17 میں خاندانی منصوبہ بندی پر ملک میں فی کس صفر اعشاریہ40 (0.40) ڈالر خرچ کئے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات کی مسلسل فراہمی اور اس تک ہر شادی شدہ جوڑے کی رسائی کو بھی ممکن بنانا ہوگا۔ اکنامک سروے آف پاکستان 2017-18 کے مطابق اس وقت سرکاری سطح پر ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کے سروس ڈلیوری سینٹرز کی تعداد4033 ہے۔ یہ تعداد ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے لئے ناکافی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس تشنگی کو دور کرنے کے لئے حکومت کو خاندانی منصوبہ بندی کو ٹھوس اور مربوط انداز میں مرکزی دھارے میں لانا ہوگا۔ اس ضمن میں دوردراز علاقوں میں خاندانی منصوبہ بندی کی سہولتوں کے فقدان، عملے کی کمی اور انفاسٹرکچر کی ضرورتوں پر کام کیا جائے اور ان سہولتوں سے متعلق آگاہی کے فقدان کو عوامی مہم کے ذریعے دور کیا جائے تاکہ بڑھتی ضرورتوں کی تشفی ہو۔
لیکن فی الحال آبادی کا بڑھتا ہوا بوجھ ہماری انسانی ترقی کے معیارات کو پست کرتا جا رہا ہے۔ 1998 کی مردم شماری کے وقت ہم جو اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈکس میں 137 نمبر پر تھے۔ 2016 کی ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ کے مطابق 147 ویں نمبر پر آچکے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں انسانی ترقی کی صورتحال ہمارے وسائل اور آبادی کے مابین فرق کی واضح نشاندہی کر رہی ہے جس کا اندازہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے بین الاقوامی ترقی کے شعبہ کے مرتب کردہ Index 2017 Poverty Multidimensional جو لوگوں کے معیار زندگی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے دس Indicators کی کارکردگی کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اس انڈکس کے مطابق پاکستان کی 44.2 فیصد آبادی کثیر الجہت غربت یعنی تعلیم، صحت اور معیار زندگی کے بنیادی انسانی حقوق کی عدم تکمیل کا شکار ہے۔ غربت ماپنے کے اس جدید پیمانے کے مطابق بلوچستان کی 70.6 فیصد آبادی، خیبرپختونخوا کی50.1 فیصد، سندھ کی 53.2 فیصد پنجاب کی 36.6 فیصد آبادی، شمالی علاقہ جات کی46.9 ، اسلام آباد کی 9.2 فیصد اور ملک کے دیہی علاقوں کی 57.7 فیصد آبادی کثیر الجہت غربت کا شکار ہے۔ ملک میں کثیر الجہت غربت کی یہ صورتحال دراصل ہم وطنوں کو حاصل بنیادی انسانی ضروریات کی کم تر سہولیات کے باعث ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ مثلاً صحت کے شعبے کو لے لیں۔
1997-98 میں ملک میں سرکاری سطح پر صحت کی دستیاب سہولیات(ہسپتال، ڈسپنسریز، بنیادی مراکز صحت، سب ہیلتھ سینٹرز، زچہ و بچہ کی صحت کے مراکز، دیہی مراکز صحت اور ٹی بی سینٹرز) کی مجموعی تعداد 12 ہزار2 سو7 تھی۔ اور1998 کی مردم شماری کے نتائج کے تجزیہ کے مطابق اُس وقت ملک میں ایک سرکاری طبی سہولت 10 ہزار8 سو42 افراد کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے موجود تھی۔ یہ صورتحال 2017 تک مزید سنگین ہو چکی ہے۔ اس وقت ملک میں دستیاب سرکاری صحت کی سہولیات کی کل تعداد 14 ہزار2 سو61 ہے۔ یوں 2017 کی مردم شماری کے نتائج کے تجزیہ کے مطابق ملک میں اس وقت ایک طبی سہولت 14 ہزار 5 سو69 افراد کے لئے موجود ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان2006-07 اور2017-18 کے مطابق ملک میں1997-98 کے دوران ملک بھر کی سرکاری طبی سہولیات میں موجود ایک بستر1440 افراد کے لئے تھا جو 2017 میں1580 افراد کے لئے ہو چکا ہے۔ اسی طرح ای ایف اے گلوبل مانٹیرنگ رپورٹ 2017 کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق دنیا میں سکولوں سے باہر بچوں کی سب سے زیادہ تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے جس کی سب سے بڑی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے جس کی مناسبت سے تعلیمی وسائل سب کو میسر نہیں ہو پا رہے۔ اور دوسری جانب اکثر فیملیز کا سائز بڑا ہونے کی وجہ سے بچوں کو سکول بھجوانے کی سکت والدین نہیں رکھتے اور اُنھیں سکولوں کی بجائے کام کاج کی بھٹی میں جھونک کر گھر کے چولہے کو گرم رکھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کی کم تر کامیابی کا ایک تعلق سیاسی بھی ہے کیونکہ حلقوں / برادریوں کی زیادہ آبادی کا مطلب ہے زیادہ ووٹ اور پاکستانی انتخابات میں برادری ازم کا ووٹ کامیابی کا سب سے بڑا محرک مانا جاتاہے۔
اسی طرح آبادی میں اضافہ اور زرعی پیداوار کی صورتحال کو بھی ایک پیمانے سے دیکھا جاسکتا ہے۔اکنامک سروے آف پاکستان 2006-07 اور2016-17 کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق 1998 کی مردم شماری سے قبل کے پانچ سالہ عرصہ (1992-97 ) کے دوران اور2017 کی مردم شماری سے پہلے(2011-16) کے دوران ملک میں گندم کی پیداوارمیں51.81 فیصد چاول میں 71.52 فیصد، مکئی میں 253 فیصد، گنے میں46.58 فیصد اور کپاس کی پیداور میں 38.17 فیصد اضافہ ہوا ۔ جبکہ پھلوں (ترشاوا، آم ،سیب، کیلا، خوبانی، بادام، انگور اور امرود) کی پیداوار میں 34.54 فیصد مجموعی اضافہ ہوا۔ لیکن اس کے باوجود بڑھتی ہوئی ملکی آبادی کی وجہ سے کئی ایک زرعی اجناس کی فی کس دستیابی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اگر ہم 1992-97 کے پانچ سال کے دوران حاصل ہونے والی اہم فصلوں کی سالانہ اوسط پیداوار اور 1998 کی مردم شماری کے نتائج کو لیں تو جو منظرسامنے آرہا ہے۔
اُس کے مطابق 1998 میں ملک میں فی کس 512.87 کلوگرام زرعی اجناس ( گندم، چاول، باجرہ، جوار، مکئی، جو، چنا، گنا، کینولا اور سرسوں ، تل ، کپاس اور تمباکو) کی پیداوار دستیاب تھی جو2011-16کی اوسط سالانہ پیداوار اور 2017 کی مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں.04 496 کلو گرام فی کس دستیابی بن رہی ہے یعنی ملک میں فی کس زرعی اجناس کی دستیابی میں دونوں مر دم شماریوں کے دوران 3.39 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔گندم ملک کی سب سے اہم فصل اور ہمارے غذائی نظام میں مرکزی حیثیت کی حامل ہے اس کی فی کس دستیابی مذکورہ عرصہ کے دوران 123.81 کلو گرام سے کم ہوکر 119.73 کلوگرام ہو چکی ہے۔ جبکہ گنے کی دستیابی 327.73 کلو گرام سے306.02 کلو گرام فی کس پر آچکی ہے یعنی ملک میں گندم اور گنے کی فی کس دستیابی میں باالترتیب چار اور 21.71 کلوگرام کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح کپاس کی دستیابی 11.76 کلوگرام سے کم ہوکر 10.35 کلو گرام فی کس ہو چکی ہے۔ جبکہ پھلوں کی دستیابی میں بھی اس پیمانے کے تحت چار کلوگرام فی کس کمی واقع ہوئی ہے۔ آبادی میں اضافہ اور زرعی اجناس کی پیداوار میں بظاہر یہ عدم توازن معمولی نوعیت کا معلوم ہوتا ہے لیکن یہ آنے والے خطرے سے ہمیں آگاہ کر رہا ہے کہ ہمیںاپنی آبادی کے بڑھنے کی رفتار پر قابو پانا ہوگا اور اس کے لئے بروقت سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے تبھی مساوات پر مبنی معاشرہ قائم ہو سکے گا۔
The post ہاں اور ناں کی کشمکش میں پھنسی خاندانی منصوبہ بندی appeared first on ایکسپریس اردو.