ملک میں انتخابی جنگ کا طبل بج چکا ہے، ہر طرف الیکشن کا ہی تذکرہ ہے اور سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔
سیاسی کارکنوں کو متحرک ہونے، ووٹروں سے رابطے بڑھانے کی ہدایات دی جاچکی ہیں اور خود سیاسی راہ نما بھی اپنی اپنی پارٹی کے منشور کو لے کر عوام کے پاس جارہے ہیں تاکہ 25جولائی کو اُن کے انتخابی نشان پر ہی لوگ مہر لگائیں اور انتخابات میں فتح اُن کی ہی پارٹی کو ملے۔ وفاقی سطح پر نگراں وزیراعظم نے حلف اٹھالیا ہے اور چاروں صوبوں میں نگراں وزرائے اعلیٰ حلف اٹھا کر ذمے داریاں سنبھال چکے ہیں۔
یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس وقت ملک بھر میں لوگوں کو ’’انتخابی بخار‘‘ (Election Fever) چڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ الیکشن میں سیاسی جماعتوں اور اُن کے امیدواروں کی جتنی اہمیت ہوتی ہے اُس سے زیادہ اہمیت ہر پارٹی کے انتخابی نشان کو حاصل ہوتی ہے، کیوںکہ انتخابات بغیر انتخابی نشان کے لڑے ہی نہیں جاسکتے۔ زیرنظر مضمون میں پاکستان میں انتخابی نشانات کے حوالے سے کچھ معلومات قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی روز بروز بڑھتی تعداد کو دیکھتے ہوئے درجنوں اشیاء کو انتخابی نشان کے طور پر منتخب کیا ہے اور ان نشانات کی الاٹمنٹ ہوئی ہے، ان میں گھریلو استعمال کی اشیا، جانور، پرندے، گاڑیاں، ملبوسات، پھول، سبزیاں، درخت، اوزار، ہتھیار، قدرتی مناظر سب کچھ شامل ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے انگریزی کے چند حروف تہجی کو بھی الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان بنایا ہے۔
اب یہ الیکشن کمیشن کا انتخاب ہے یا سیاسی پارٹیوں کی خواہش، مگر انگریزی حروف تہجی بھی انتخابی نشان کے طور پر شامل ہیں۔ ہوسکتا ہے آئندہ برسوں میں اردو حروف تہجی بھی انتخابی نشان کے طور پر متعارف کرادیے جائیں۔
آئیے انتخابی نشانات کی کچھ کیٹیگریز کو دیکھتے ہیں:
٭مشہور اور جانے پہچانے نشانات: شیر، بَلّا، پتنگ، کتاب، سائیکل، تیر، لالٹین، موم بتی ایسے انتخابی نشان ہیں جو ملک کی معروف سیاسی جماعتوں کی پہچان بن چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا ’’شیر‘‘ ، تحریک انصاف کا ’’بَلّا‘‘، ایم کیو ایم پاکستان کی ’’پتنگ‘‘، پیپلزپارٹی کا ’’تیر‘‘، متحدہ مجلس عمل کی ’’کتاب‘‘کا سب کو علم ہے۔ ق لیگ کا پہلے انتخابی نشان ’’سائیکل ‘‘ تھا لیکن اس بار وہ ’’ٹریکٹر‘‘ کے نشان پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ جماعت اسلامی کو ’’ترازو‘‘، آل پاکستان مسلم لیگ کو ’’عقاب‘‘ جب کہ پاک سرزمین پارٹی کو ’’ڈولفن‘‘ ملی ہے۔
٭انگریزی حروف تہجی: A,B,G,K , P,S
٭جانور: جن جانوروں کو انتخابی نشان بنایا گیا ہے اُن میں شیر، ریچھ، شہد کی مکھی، تتلی، اونٹ، ہرن، گائے، ڈولفن، فاختہ، بطخ، عقاب، فلیمنگو (سارس)، طوطا، شترمرغ، بیل، کینگرو، ہاتھی، گھوڑا، مرغی، زرافہ، بکری، مچھلی، مور، خرگوش، بھیڑ، بارہ سنگھا، چڑیا، مکڑی، ابابیل، پینگوئن ، مگرمچھ، کچھوا، ہُدہُد شامل ہیں۔
٭ذرائع نقل و حمل: ذرائع نقل و حمل میں ہوائی جہاز، سائیکل، کشتی، بس، کار، جنگی طیارہ، گدھاگاڑی، ہیلی کاپٹر، بیل گاڑی، رکشا، موٹرسائیکل، تانگہ، روڈرولر، اسکوٹر، تین پہیوں والی سائیکل، ٹریکٹر، پک اپ، جیپ، ٹرک، آئل ٹینکر انتخابی نشان کے طور پر متعارف کرائے گئے ہیں۔
٭ہتھیار: توپ، بندوق، کمان، تیر، غلیل، میزائل ، 2 تلواریں، تلوار بھی انتخابی نشان ہے، اب انتخابی سرگرمیوں، جلسے اور جلوسوں میں ان نشانات کی حامل پارٹیوں کے ارکان ان ہتھیاروں کی نقول سجائے نظر آئیں گے۔
٭پھل، سبزیاں، پھول ، درخت:بینگن، سیب، گندم کا خوشہ، ناریل، سورج مکھی کا پھول، انگور کا خوشہ، گلاب، درخت، کھجور کا درخت، تربوز، گوبھی کا پھول، پائن ایپل (انناس)، کنول کا پھول، سبز مرچ، مالٹا، جڑیں، پیاز۔
٭موبائل فون سے متعلق:آج کل موبائل فون ہر ہاتھ میں نظر آتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن موبائل فون، موبائل چارجر، موبائل سِم کو بہ طور انتخابی نشان سامنے لایا ہے۔
٭ قدرتی مناظر: آبشار، فوارہ، سورج
٭برتن:گھریلو استعمال کی اشیا میں برتنوں کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ شاید اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن نے بہت سے برتنوں کو انتخابی نشان بنایا ہے۔ ان میں بالٹی، بوتل، پیالہ، پرچ پیالی، کانٹا، فرائی پین، چمچا، جگ، مٹکا، پریشر کُکر، چائے دانی، تھرماس، گلاس، کیتلی، لنچ باکس، مگ، توا شامل ہیں۔
٭ملبوسات:ملبوسات کی کیٹیگری میں ٹی شرٹ، ٹوپی، چترالی ٹوپی اوورکوٹ موجود ہیں۔
مذکورہ نشانات کے علاوہ بھی انتخابی نشانات کی ایک طویل فہرست ہے۔ تعمیراتی سامان اور اوزار بھی اس میں شامل ہیں۔ انتخابی نشانات کی طویل فہرست میں ہمیں ایئرکولر، ایئرکنڈیشنر، کمپیوٹر، پانسہ، انرجی سیور، غبارے، پنکھا، گیس سلینڈر، ہار، ہارمونیم، دستی بیگ، استری اسٹینڈ، ہینگر، آئس کریم، لیٹر بکس، سیڑھی، پینسل، قلم، پرنٹر، شاور، دَف، تندور، تختی، بیٹری، لٹو، فتح کا نشان، ٹرالی، خیمہ، سلیٹ، پڑھائی والی میز، اسٹریٹ لائٹ، بیلچہ، انگوٹھی، انسانی آنکھ، اولمپک ٹارچ، اخبار، لاؤڈ اسپیکر، تمغہ، مینار پاکستان، مائیک، بادشاہ، انسانی ہاتھ، حقہ، آتشدان، گراموفون، بجلی کا کھمبا، ہیٹر، گھڑیال، کیلکولیٹر،آڈیو کیسٹ، کلہاڑا اور ایسے ہی بہت سے نشانات بھی نظر آتے ہیں۔
یوں یہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن نے ہم سب کے روزمرہ استعمال میں آنے والی تقریباً ہر اہم شے کو انتخابی نشان کے طور پر رکھا ہے اور ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ کچھ نئے نشانات کو شامل کیا جاتا ہے تو بعض کو ختم بھی کیا جاتا ہے۔ عام انتخابات کے علاوہ بھی الیکشن کمیشن میں اس حوالے سے کام جاری رہتا ہے کیوںکہ انتخابی نشانات بلدیاتی انتخابات کے موقع پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس تقریباً 300 سے زاید سیاسی جماعتوں نے رجسٹرڈ کرایا ہوا ہے، یہ اور بات ہے کہ ان میں سے شاید 50 ہی عملی طور پر الیکشن کی موقع پر فعال نظر آتی ہیں ۔ بہت سی پارٹیاں رجسٹریشن کی شرائط جن میں ایک معینہ تعداد میں کارکنوں کے شناختی کارڈ کی فراہمی ہے ، اسے پورا نہیں کرپاتیں جس کی وجہ سے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ملتی۔ ملک میں ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے سیاسی پارٹیاں بنائی ہیں مگر وہ ’’تانگہ پارٹی ‘‘ کی اصطلاح پر پوری اترتی ہیں، یعنی ان کے پاس اتنے ہی لوگ ہوتے ہیں جو ایک تانگے میں آجائیں۔
الیکشن کمیشن نے تقریباً 103 جماعتوں کو الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیا ہے۔ کوئی جماعت الیکشن لڑے یا نہ لڑے، اس کو انتخابی نشان کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سی جماعتیں اپنی پسند کا نشان حاصل کرنے کے لیے بھی الیکشن کمیشن کو درخواست دیتی ہیں اور کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی انتخابی نشان پر2 یا اس سے زاید پارٹیوں کی نظر ہوتی ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ یہ نشان ان کو ملے، ایسی صورت میں فیصلہ الیکشن کمیشن کرتا ہے اور فیصلے سے قبل تمام فریقین کا موقف بھی سنا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے کسی بھی فیصلے کے خلاف اپیل کی جاسکتی ہے۔
جیسے جیسے 25 جولائی قریب آتی جائے گی، سیاسی سرگرمیاں، جلسے، جلوس، ریلیاں ، کارنر میٹگنز کا سلسلہ بھی تیز ہوتا جائے گا اور یہ سرگرمیاں انتخابی مہم ختم ہونے کی ڈیڈ لائن تک عروج پر پہنچی ہوئی ہوں گیا۔ ان تمام انتخابی مراحل میں انتخابی نشانات بھی اپنی اہمیت منوائیں گے، ہر پارٹی کے کارکن اور راہ نما اپنا انتخابی نشان لے کر عوام کے پاس جائیں گے، سیاسی راہ نما اپنی تقاریر میں بھی کہیں نہ کہیں اپنے انتخابی نشان کا تذکرہ کرکے مخالفین کو للکاریں گے۔ مثال کے طور پر ن لیگ کا ہر امیدوار کہے گا کہ ’’شیر سب سے طاقت ور ہے، وہ کسی کو نہیں چھوڑے گا‘‘،’’ایم کیو ایم کا نعرہ ہوگا کہ ’’پتنگ نہیں کٹے گی، اڑتی ہی رہے گی‘‘۔ تحریک انصاف کے کھلاڑی ’’بَلّا‘‘ لے کر مخالفین کی سیاسی دُھنائی کے نعرے لگائیں گے تو پیپلز پارٹی کے جیالوں کی رائے میں ہمارا ’’تیر‘‘ نشانے پر لگے گا اور ہم ہی فتح یاب ہوں گے۔ متحدہ مجلس عمل والے ’’کتاب‘‘ کے ذریعے اقتدار حاصل کرکے اپنے منشور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا دعویٰ کریں گے۔
دیگر نمایاں جماعتوں میں سنی اتحادکونسل کو ’’گھوڑا‘‘، مسلم لیگ (جونیجو) کو ’’بس‘‘، پاکستان عوامی راج پارٹی کو ’’جھاڑو‘‘، بلوچستان عوامی پارٹی کو ’’گائے‘‘، تحریک لبیک کو ’’کرین‘‘، جے یوآئی ف کو ’’قلم‘‘، عوامی نیشنل پارٹی کو ’’لالٹین‘‘، پاکستان عوامی تحریک کو ’’موٹرسائیکل ‘‘، مسلم لیگ ضیا کو ’’ہیلی کاپٹر‘‘، جمہوری وطن پارٹی کو ’’پہیا‘‘، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو ’’درخت‘‘، قومی وطن پارٹی کو ’’چراغ‘‘، سنی تحریک کو ’’گھڑی‘‘، عوامی ورکرز پارٹی کو ’’بلب‘‘، تحریک جوانان پاکستان کو ’’لیپ ٹاپ‘‘، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو ’’اسٹار‘‘، پیرپگارا کی مسلم لیگ فنکشنل کو ’’گلاب‘‘، بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی) کو ’’اونٹ‘‘، پاکستان سنی تحریک کو ’’ٹیبل لیمپ‘‘، عوامی مسلم لیگ کو ’’قلم دوات‘‘ تحریک انصاف گلالئی کو ’’ریکٹ‘‘ کا نشان دیا گیا ہے۔
انتخابی نشانات اور الیکشن کے موقع پر ایک اہم بات یہ ہے کہ اس سیزن میں بہت سے لوگوں کا کاروبار بھی چمک جاتا ہے۔ پلاسٹک، کپڑے، لوہے، لکڑی اور دیگر دھاتوں سے مختلف اشیا جو انتخابی نشانات میں شامل ہیں، تیار کی جاتی ہیں جو مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن اور حامی خریدتے ہیں، کہیں لوگ جانوروں کے مجسمے اور تصاویر لے کر جلسے جلوسوں میں شرکت کریں گے تو کہیں گھریلو استعمال کی اشیاء لوگوں کے ہاتھوں میں نظر آئیں گی۔ کسی جگہ پر الیکٹرانکس کے آلات لوگوں کے ہاتھوں میں ہوںگے تو کہیں آلات حرب والے نشان لے کر لوگ گھوم رہے ہوں گے، کسی جگہ پر گاڑیاں انتخابی نشان کی صورت میں رواں دواں ہوں گی۔
گھروں میں سیاسی پارٹیوں کے دفاتر، محلوں اور سڑکوں پر جگہ جگہ پارٹی پرچموں کے ساتھ انتخابی نشان بھی نظر آئیں گے۔ کہیں ان نشانات کو مجسمے کی صورت میں رکھا جائے گا، کہیں آویزاں کیا جائے گا تو مختلف علاقوں میں نمایاں جگہ پر لٹکایا جائے گا تاہم عوام کو دور سے ہی پتہ چل جائے گا کہ اس علاقے میں کون آگے ہے۔
اچھا بھائیو! اردو میں ’’تھالی کا بینگن‘‘ ایک محاورہ ہے، یہ اصطلاح ایسے لوگوںکے لیے استعمال ہو تی ہے جن کی اپنی کوئی رائے یا فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ وہ جس طرف جھکاؤ ہو اس طرف چلے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ’’بینگن‘‘ کو بھی انتخابی نشان بنایا ہے۔ بہت سے لوگوں کی کوشش ہوگی کہ وہ یہ نشان نہ لیں۔ اسی طرح ’’لوٹا ‘‘ بھی ایسی چیز ہے جس کو بطور انتخابی نشان لینا کوئی نہیں چاہتا۔
انتخابی نشانات کے حوالے سے یہ مختصر تحریر لوگوں کو تھوڑی بہت معلومات دینے کے لیے ہے، جب کاغذات نامزدگی کی اسکروٹنی کا معاملہ آئے گا تو بہت سے کاغذات اور امیدوار الیکشن میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوں گے، یوں بہت سے انتخابی نشانات بھی انتخابی معرکہ لڑنے سے قبل ہی فائلوں میں دبے رہیں گے لیکن جو میدان میں ہوں گے ان کے حوالے سے پارٹیوں کا جوش و خروش عروج پر ہی نظر آئے گا، ہر سیاسی جماعت اپنے انتخابی نشان کو اپنی فتح کا نشان سمجھ کر ہی الیکشن میں اترے گی۔
The post انتخابی نشانات کی دنیا؛ کون کون سے نشان ہیں میدان میں appeared first on ایکسپریس اردو.