وطن عزیز کے بیشتر علاقوں میں ہر سال اپریل تا ستمبر یعنی چھ سات ماہ اچھی خاصی گرمی پڑتی ہے۔تب سورج آگ برساتا ہے۔شدید گرمی میں اے سی اور پنکھے چلنے سے بجلی کی طلب بھی بڑھ جاتی ہے لہذا ملک کے طول و عرض میں کروڑوں پاکستانیوں کو لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کرنا پڑتا ہے۔مگر اب جدید ٹکنالوجی کی بدولت لاکھوں پاکستانی قدرتی آفت کو نعمت میں بدل سکتے ہیں۔
یہ حیرت انگیز کمال سولر پینل کے ذریعے دکھانا ممکن ہے۔جب سورج پوری طرح روشن ہو اور دھوپ تپنے لگے تو یہ سولر پینل بہترین طریقے سے کام کرتے اور زیادہ بجلی بناتے ہیں۔ان جادوئی پینلوں کی وجہ سے ہزارہا پاکستانیوں کی زندگیاں مثبت انداز میں تبدیل ہو چکیں۔امام دینو کی مثال ہی لیجیے۔
شہر قائد کراچی سے جانبِ مشرق روانہ ہوں تو ترانوے میل سفر کرنے کے بعد سجاول شہر آجاتا ہے۔ آٹھ لاکھ آبادی والا یہ شہر ایک زرعی مرکز ہے۔ اسی شہر میں امام دینو عرصہ دراز سے چائے کی دکان چلا رہا ہے۔ پانچ سال قبل اس نے اپنی دکان میں 24 انچ کا ٹی وی لگایا اور اس پر فلمیں چلانے لگا۔ اس باعث دکان میں گاہکوں کی آمدورفت بڑھ گئی اور یوں آمدن میں بھی اضافہ ہوا۔امام دینو کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔
موسم گرما آتے ہی مگر اس کا کاروبار تقریباً ٹھپ ہو جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ گرمی بڑھتے ہی وطن عزیز کے دیگر دیہی علاقوں کی طرح سجاول پر بھی لوڈشیڈنگ کا عذاب نازل ہوجاتا اور بجلی کئی گھنٹے غائب رہتی۔ بجلی نہ ہونے سے جب ٹی وی بند رہتا تو گاہکوں کی تعداد بھی قدرتاً کم ہوجاتی۔پھر صرف وہی گاہک آتے جنھیں چائے کی طلب ہوتی۔ایک سال امام دینو نے جنریٹر پر ٹی وی چلایا مگر اس کے تیل کا خرچ اتنا زیادہ تھا کہ کوئی خاص بچت نہ ہوئی۔ پھر پچھلے سال ایک واقف کار نے اسے شمسی یا سولر پینلوں کی بابت بتایا۔ اسے معلوم ہوا کہ ایک مقامی کمپنی 500 واٹ کے سولر پینل کرائے پر دیتی ہے جو سورج کی دھوپ کے ذریعے بجلی بناتے ہیں۔
سجاول ہمارے پیارے دیس کے ایسے خطّے میں واقع ہے جہاں سال کے بیشتر مہینوں میں سورج آب و تاب سے چمکتا ہے۔ اسی لیے اس خطے میں سولر پینل عمدگی سے کام کرتے ہیں۔ اس ایجاد کے بارے میں ساری معلومات حاصل کرکے امام دینو نے بھی 500 واٹ کے سولر پینل اپنی دکان کی چھت پر لگوالیے۔ وہ ماہانہ ڈھائی ہزار روپے اس کا کرایہ ادا کرنے لگا۔یہ جدت اس کے لیے مبارک ثابت ہوئی۔ان سولر پینلوں سے بنی بجلی سخت ترین لوڈشیڈنگ میں بھی ٹی وی کو رواں دواں رکھنے لگی۔یوں اس کی دکان میں گاہکوں کا ہجوم رہتا۔
اب یہ حال ہے کہ امام دینو سرکاری بجلی استعمال نہیں کرتا۔ سولر پینلوں سے بنی بجلی ہی دکان میں موجود برقی اشیا چلاتی ہے۔ اس نے دکان میں موبائل فون چارجنگ کا بندوبست بھی کررکھا ہے تاکہ گاہکوں کی نظروں میں اپنے کاروبار کو مزید پُرکشش بناسکے۔ سولر پینلوں کا ماہانہ ڈھائی ہزار روپے کرایہ نکال کر اسے اچھی خاصی بچت ہوجاتی ہے۔ سولر پینل اس کے لیے بہت مفید ثابت ہوئے۔ ان کی بدولت امام دینو کو نہ صرف لوڈشیڈنگ سے نجات مل گئی اور کاروبار بجلی کی عدم موجودگی میں خطرے سے دوچار نہیں ہوا۔
آج دیہی پاکستان میں سولر پینل امام دینو کی طرح دیگر ہزارہا ہم وطنوں کی زندگیوں میں انقلاب رہے ہیں۔ وطن عزیز میں تقریباً 65 تا 70 فیصد لوگ دیہات اور قصبات میں مقیم ہیں۔ بدقسمتی سے ان کی آدھی تعداد بجلی کی سہولت سے محروم ہے۔ گویا جب بھی سورج غروب ہو، تو تقریباً سات کروڑ پاکستانیوں کے گھر اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں۔ مگر اب سولر پینلوں کی بدولت رات کی تاریکی میں بھی ان کے گھروں اور کام کی جگہوں پر اجالا پھیلنے لگا ہے۔ یہ اجالا ہمارے دیہی باشندوں کی زندگی میں کئی مثبت تبدیلیاں لارہا ہے۔
مثال کے طور پر اب دیہات کے بچے رات کو بھی پڑھ سکتے ہیں۔ مرد و خواتین اس قابل ہوگئے کہ رات کو بھی اپنے مختلف کام کرسکیں۔ یوں انہیں کام کرنے کی خاطر زیادہ وقت مل گیا۔ایک بڑی تبدیلی یہ آئی کہ اب دیہی پاکستان کے دور دراز علاقوں میں بھی بجلی سے چل کر زیرزمین پانی نکالنے والے پمپ لگ چکے۔یوں ان علاقوں کے مکین اس قابل ہو گئے کہ بارش کا انتظار کیے بغیر کھیتی باڑی کر سکیں۔
مزید براں دیہی پاکستان کے ایسے علاوں میں شمسی چولہا بھی مقبول ہو رہا ہے جہاں سورج بکثرت چمکتا ہے۔یہ چولہا جلانے کے لیے نہ مٹی کے تیل کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ لکڑیاں کاٹنے کی مشقت ،بس چولہا دھوپ میں رکھیے اور اس پہ دیگچی رکھ دیجیے۔سالن آہستہ آہستہ پکتا رہے گا۔شمسی چولہے پہ سالن دیر سے پکتا ہے مگر دیہات کی سست رفتار زندگی کے لیے یہ موزوں و مفید آلہ ہے۔
بجلی بنانے کی نئی ٹیکنالوجی
آج دنیا بھر میں سائنس داں ہوا، سورج اور دیگر قدرتی وسائل توانائی کی مدد سے بجلی بنانے پر تحقیق و تجربات کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ان قدرتی وسائل سے بھی وافر طور پر نوازا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان ہوا اور شمسی توانائی کی بدولت ’’پچاس، پچاس ہزار‘‘ میگاواٹ بجلی بناسکتا ہے۔ گویا پاکستان اپنے قدرتی وسائل… پانی، ہوا اور سورج کی مدد سے بجلی بنانے لگے تو اللہ کے فضل وکرم سے فاضل بجلی پڑوسی ممالک کو فروخت کرسکتا ہے۔ چین اور بھارت، دونوں میں بجلی کی طلب بڑھ رہی ہے۔برطانیہ کی ایک ویب سائٹ، فائنڈ کام (www.finder.com) سے منسلک ماہرین دنیا بھر میں جاری مختلف سرگرمیوں کے اعدادو شمار جمع کرتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی ایک دلچسپ تحقیق سامنے آئی۔ انہوں نے دنیا کے 147 ممالک پر تحقیق کرکے یہ دیکھا کر ہر ملک میں کتنے رقبے پر سولر پینل لگا دیئے جائیں، تو اس ملک میں بجلی کی طلب پوری ہوجائے گی۔
اس تحقیق سے افشا ہوا کہ اگر پاکستان کے 4380 مربع کلو میٹر رقبے پر سولر پینل لگ جائیں، تو وہ تیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے۔ گویا تب کسی اور ذریعے سے بجلی بنانے کی ضرورت ہی ہی نہیں رہے گی۔ پاکستان کا رقبہ 818,913 مربع کلو میٹر ہے۔ 4380 مربع کلو میٹر اس کا صرف 0.6 فیصد حصہ بنتا ہے۔ یعنی حکومت پاکستان چاہے تو اس رقبے پر سولر پینل لگا کر باآسانی ملکی ضروریات کے لیے درکار بجلی بناسکتی ہے۔اس کے علاوہ یہ بجلی بہرحال رکازی ایندھن(Fossil fuel ) سے چلتے بجلی گھروں سے سستی ہوگی۔ہمارا پڑوسی چین سولر پینلوں کے ذریعے دنیا میں سب سے زیادہ بجلی پیدا کرتا ہے۔ اس کی مقدار 53 ہزار میگاواٹ ہے۔ چین کے بعد بھارت کا نمبر ہے جہاں 20 ہزار میگاواٹ بجلی سولر پینل بنانے لگے ہیں۔ بھارتی حکومت کی خواہش ہے کہ وہ 2022ء تک سولر پینلوں کے ذریعے ایک لاکھ میگاواٹ بجلی بنانے لگے۔مگر پاکستان اس شعبے میں خاصا پیچھے ہے۔نیز افسوس کے پاکستانی حکمران متبادل ذرائع توانائی اپنانے کی خاطر کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کر رہے۔
بھارت کے حکمرانوں میں لاکھ خرابیاں ہوں، مگر وہ ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔مثلاً ریاست کرناٹک میں ’’پوگادا سولر پارک‘‘ تعمیر کررہا ہے۔ تکمیل کے بعد یہ دنیا میں سب سے بڑا سولر پارک بن جائے گا۔ اس پارک میں لگے ہزاروں سولر پینل دو ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے۔ یہ پارک تیرہ ہزار ایکڑ رقبے (53 مربع کلو میٹر) پر پھیلا ہوا ہے۔
یاد رہے،سولر پینل میں سولر سیل نصب ہوتے ہیں۔ یہی سیل سورج کی روشنی سے بجلی بناتے ہیں۔ یہ بجلی پھر براہ راست الیکٹرونکس اشیا چلاتی ہے یا اسے بیٹری میں مقید کیا جاتا ہے۔ ماہرین مسلسل تحقیق و تجربے کررہے ہیں تاکہ نہ صرف معیاری سولر پینل وجود میں آئیں بلکہ وہ سستے بھی ہوجائیں۔
پچھلے پانچ سال کے دوران سولر پینل اچھے خاصے سستے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے دیہات میں ان کی مانگ بڑھ رہی ہے جو اکثر لوڈشیڈنگ کا نشانہ بنتے ہیں۔ وہاں دن میں سولہ تا اٹھارہ گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے۔ ان علاقوں میں مصروف کار بعض کمپنیاں ایک تا تین ہزار روپے میں سولر پینل کرائے پر بھی دینے لگی ہیں۔
یہ 50 تا 500 واٹ بجلی بنانے والے چھوٹے سولر پینل ہیں۔ ان سے پیدا کردہ بجلی چھ بلب اور دو پنکھے چلاسکتی ہے۔ بعض دیہاتی ٹی وی چلانے کی خاطر سولر پینل لگواتے ہیں۔ غرض وطن عزیز کے دیہی علاقوں میں سولر پینل لگانے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور یہ ایک خوش آئند امر ہے۔ بجلی کی مدد سے کاروبار پھلتے پھولتے ہیں اور یوں دیہاتیوں کو غربت کے پنجوں سے آزاد ہونے کا موقع ملتا ہے۔
بجلی کا بحران
اس برس بھی موسم گرما آتے ہی وطن عزیز کے کئی علاقوں میں لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی۔ بجلی کی عدم دستیابی سے نہ صرف شدید گرمی انسان پر منفی انداز میں اثر انداز ہوتی ہے بلکہ روزمرہ کام کام کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ افسوس کہ حکومت وقت پچھلے پانچ برس میں لوڈشیڈنگ پر پوری طرح قابو نہیں پاسکی۔
حکومت وقت کا دعویٰ ہے کہ لوڈشیڈنگ ان علاقوں میں ہورہی ہے جہاں بجلی چوری ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بجلی چوروں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا؟ ان چند مجرموں کی وجہ سے پورے علاقے کے لوگوں کی بجلی بند کردینا کس قسم کا انصاف ہے؟ بجلی چور چاہے کتنا ہی طاقتور اور بااثر ہو، اگر اسے ایک بار سخت سزا مل جائے، تو وہ آئندہ بجلی چوری کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ مزید براں اس طرح دوسرے بجلی چور بھی عبرت پکڑ کر اپنے گناہ سے تائب ہوں گے۔اعدادو شمار کی رو سے پاکستان 29573 میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے مگر بجلی گھروں کی مرمت اور ڈیموں میں پانی کی کمی کے باعث بجلی کی پیداوار 17 سے 19 ہزار میگاواٹ کے درمیان ہے۔ موسم گرما میں بجلی کی طلب 21 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ چنانچہ دو سے چار ہزار میگاواٹ کی کمی بذریعہ لوڈشیڈنگ پوری ہوتی ہے۔
یہ درست ہے کہ پچھلی حکومتوں کے ادوار کی نسبت موجودہ حکومت کے دور میں لوڈشیڈنگ کم ہوئی ہے مگر افسوس کہ وہ بھی بجلی کی پیداوار سے متعلق ماحول دشمن سرکاری پالیسی سے چھٹکارا نہیں پاسکی۔آج بھی وطن عزیز میں 64 تا 67 فیصد بجلی ان بجلی گھروں میں بنتی ہے جہاں رکازی ایندھن مثلاً گیس،فرنس آئل وغیرہ استعمال ہوتا ہے۔ یہ رکازی ایندھن ماحولیات کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ خصوصاً ان کی وجہ سے ہوا بتدریج زہریلی ہورہی ہے۔ آلودہ ماحول میں رہنے کے باعث لاکھوں پاکستانی نت نئی بیماریوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
یہ رکازی ایندھن پھر مہنگا پڑتا ہے۔ اسے خریدنے پر پاکستان کا قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ دوسری طرف حکومت پاکستان رکازی ایندھن استعمال کرنے والے نجی بجلی گھروں کو بروقت ادائیگی نہیں کررہی۔ چناں چہ اب حکومت کو انہیں تقریباً 935 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ اس ہوش ربا عدد کے بڑھنے کی رفتار خاصی تیز ہے۔رکازی ایندھن سے چلنے والے بجلی گھروں میں بنی بجلی مہنگی بھی ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق ایسی بجلی کے ہر ایک کلوواٹ پر 12 سے 15 سینٹ خرچ اٹھتا ہے۔ یہ ہوا اور شمسی توانائی سے پیدا کردہ بجلی سے بھی زیادہ مہنگی بجلی ہے۔ اس کے باوجود طاقتور لابیوں کی وجہ سے حکومت پاکستان رکازی ایندھن سے چلنے والے بجلی گھر بند نہیں کرسکی۔ حالانکہ پوری دنیا میں ایسے بجلی گھر ختم کیے جارہے ہیں۔
وطن عزیز میں بجلی کا صرف 30 فیصد حصہ ڈیم پیدا کرتے ہیں۔ اس بجلی کے ہر ایک کلو واٹ پر صرف دو سینٹ لاگت آتی ہے۔ افسوس کہ ہماری حکومتیں پچھلے پچاس سال میں قابل ذکر تعداد میں نئے ڈیم تعمیر نہیں کرسکیں۔ اگر مناسب تعداد میں ڈیم بن جاتے تو پاکستانیوں کو سستی بجلی میسر آتی۔ یوں سستا مال بناکر پاکستان اپنی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کر لیتا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان ڈیموں سے کم از کم 41 ہزار میگاواٹ بجلی بناسکتا ہے۔ یہ بجلی آلودگی سے پاک ہوتی ہے۔ یوں پاکستانیوں کو صاف ستھری ہوا میسر آتی ہے۔
آزادی کے بعد بھارت میں 4300 ہزار ڈیم بن چکے۔ یہ ڈیم بجلی بنانے کے علاوہ پانی ذخیرہ کرنے میں بھی کام آتے ہیں۔ پاکستان میں پانی تیزی سے کم ہورہا ہے۔ جبکہ ہر سال دریاؤں کا بہت سا پانی سمندر میں جاگرتا ہے۔ یہ پانی محفوظ کرنے کے لیے بھی ہمیں نئے ڈیم بنانے ہوں گے تاکہ مستقبل میں پانی کی کمی جنم نہ لے۔
The post شدید گرمی کو بجلی میں بدلیے appeared first on ایکسپریس اردو.