اگر ترازو میں تولا جائے تو پیار، اعتماد، احساس اور اعتبار میں ’اعتبار‘ کا درجہ کچھ بڑھ کر ہوگا۔ عملی لحاظ سے اعتبار کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ یہ دیا جا سکتاہے اور اس کی ضرورت ہر قدم پرپڑتی ہے۔ پیار اور احساس کی اہمیت اپنی جگہ بہت ہے مگر یہ دونوں جذبے خدا داد ہیں جو سب ماںباپ رکھتے ہیں۔
اعتماد کافی حد تک پیدائشی ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، ماحول اسے صرف پالش کرتا ہے اور اکثر پالش کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ جہاں تک اعتبار کا تعلق ہے تو یہ سو فیصد دینے کی اور کرنے کی چیز ہے۔ ایک ان پڑھ ماں بھی اپنے بچے کو اعتبار کی دولت سے مالا مال کر سکتی ہے اور ایک ڈگری یافتہ( عالمہ نہیں) ماں اپنے بچے کو اعتبار کے لحاظ سے اتنا کنگال کر سکتی ہے کہ وہ سونے کو لوہا، جھوٹے کو سچا اور خود کو ناقابل اعتبار سمجھے۔ میرے نزدیک انگریزی کے لفظ ’سیلف ایسٹیم‘ کا مطلب خود آگاہی اور اعتبار ہے۔
اپنی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھتے ہوئے خود پر اعتبار رکھنا، یا یوں کہہ لیں کہ خود اپنی عزت کرنا ہے۔ خود اعتباری ،خود اعتمادی اور عزت نفس سے کچھ مختلف اس طرح ہے کہ اکثر لوگوں میں خود اعتمادی ہوتی ہے لیکن خود اعتباری نہیں ہوتی اسی طرح خود اعتباری ( سیلف ایسٹیم) ہوسکتی ہے لیکن خود اعتمادی نہیں ہوگی۔ بہت سے ادا کار اور کھلاڑی خود اعتباری یعنی سیلف ایسٹیم تو رکھتے ہیں، انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ جیت جائیں گے یا اچھی ادا کاری کر لیں گے لیکن وہ عوام کے سامنے خود اعتمادی سے بات نہیں کر سکتے۔
کئی آسکر ایوارڈ یافتہ ادا کار خود اعتمادی نہ ہونے کے باعث انٹرویو دینے سے احتراز کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ اس قدر خود اعتمادی رکھتے ہیں کہ بڑی بڑی باتیں کرکے دوسروں کو متاثر تو کر لیتے ہیں لیکن کسی بھی بڑے کام کا بیڑا نہیں اٹھا سکتے۔ کنگ میکرز کے پاس خود اعتمادی ہوتی ہے اور خود اعتباری نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکثر یہ دونوں خصوصیات اکٹھی ہوجاتی ہیں۔ خود اعتباری(سیلف ایسٹیم ) کی اہمیت ’ڈاکٹر لیواے‘ جن کا لرننگ ڈس ایبل بچوں کے ساتھ کام کا وسیع تجربہ ہے ان کی دی ھوئی سیلف ایسٹیم کی مثال جسے آپ خود پر اعتبار بھی کہہ سکتے ہیں، آپ ان کی دی ہوئی مثال کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں:
اعتبار کو آ پ کارڈز یعنی پتوں کا کھیل سمجھ لیں، دو لڑکے ایک ہی سکول میں پڑھتے ہیں ٹیپو اور عالی۔ ٹیپو کے پاس ہزاروں نہیں لاکھوں ’’اعتبار کے پتے‘‘ ہیں کیونکہ اس کے ساتھ اچھے اتفاقات اور واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ مثبت واقعات سے اعتبار کے پتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جبکہ منفی چیزیں پیش آنے سے اعتبار کے پتے کم ہوتے رہتے ہیں۔ ٹیپو فٹ بال کا کپتان ہے۔ کپتانی کے دس ہزار پتے، سکول ٹرپ کا ہیڈ بننے کا موقع ملا پندرہ ہزار اعتبار کے پتے اور مل گئے۔ اگرچہ ٹرپ کے آخر پر اس نے واش روم میں دیر لگا کر ساری کلاس اور ٹیچرز کونا خوشگوار انتظار کروایا ،اس سے اس کے تین ہزار پتے کم ہوگئے لیکن چونکہ اس کے پاس ہزاروں کی تعداد میں پتے ہیں اس لیے اگر تین ہزار کم ہوگئے تو اسے کو ئی فرق نہیں پڑتا۔
اس کے ساتھ والی سیٹ پر عالی بیٹھتا ہے جو لرننگ ڈس ایبل ہے اس کے پاس اعتبار کے صرف چند پتے ہیں۔ وہ کسی ٹیم کا کپتان ہے نہ کبھی اسے کسی گروپ کا ہیڈ بننے کا موقع ملا ہے اور نہ ہی اس کے کبھی کسی ٹیسٹ میں اچھے نمبر آئے ہیں۔ وہ ہر روز اپنی ماں کی منتیں کرتا ہے کہ مجھے سکول نہ بھیجا جائے اس لیے کہ اس کے پاس پتے اتنے کم ہیں کہ وہ ان تھوڑے سے پتوں کے ساتھ کچھ بھی نہیںکر سکتا لیکن ماں سکول کو صرف سیکھنے کا ادارہ سمجھ کر اسے سکول بھیج دیتی ہے یہ جانے
بغیر کہ اس کے بیٹے کا سکول جانا ایسے ہی ہے جیسے اس کی ما ں کی امیر سہیلی( جس کی جیب میں لاکھوں روپے ہوں) اسے شاپنگ پر جانے کے لیے اصرار کرے جبکہ اس کی اپنی جیب میں صرف چند سو روپے ہوں جن سے وہ شاید وہاں کی کافی یا آئس کریم کا بل بھی نہ دے پائے گی تو یقیناً وہ اپنا بھرم رکھنے کے لیے امیر سہیلی کے ساتھ جانے سے انکار کرے گی۔ اسی طرح عالی خالی جیب یعنی خود پر اعتبار کے بغیر سکول جانے سے کتراتاہے۔
ٹیچر کلاس میں پوچھتی ہے کہ پاکستان کا آئین کب بنا تھا؟ اب عالی کو یقین ہے کہ 1973 میں بنا تھا لیکن وہ بتانا نہیں چاہتا کہ کہیں اس کا جواب غلط ہوا تو اس کے پتے اور کم ہوجائیں گے۔ اصل میں یہ اس کی خود پر اعتبار کی کمی ہے کیونکہ وہ اپنے تھوڑے سے پتوں کو سنبھال کر رکھنا چاہتا ہے کیونکہ آدھی چھٹی میں اسے ٹیچر سے اپنی ہوم ورک کی وہ کاپی واپس مانگنی ہے جو اس کی چھٹی کی وجہ سے اسے واپس نہیں ملی تھی،کاپی مانگنے کے لیے اور ہوم ورک کی متوقع غلطیوں پر ڈانٹ کھانے کے لیے اسے اپنے پتے بچانا تھے جو اس سارے مشکل کام کے لیے بہت کم تھے۔
ٹیپو نے ٹیچر کے سوال کا جواب دیا کہ پاکستان کا آئین 1970 میں بنا تھا، ٹیچر نے صحیح جواب بتایا کہ 1973 میں بنا تھا تو عالی کو بہت افسوس ہوا کہ کاش! اس نے ٹیچر کو جواب دے دیا ہوتا۔ وہ خود پر اعتبار نہ ہونے کے باعث صحیح جواب بھی نہ دے سکا جبکہ ٹیپو کے پاس اعتبار کے اتنے کافی پتے تھے کہ اس نے غلط جواب بھی فوراً دے دیا کیونکہ اسے کچھ کھونے کا ڈر نہیں تھا۔
آپ بچوں میں ’اعتبار‘ یا ’سیلف اسٹیم‘ کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ ڈاکٹر لیواے کہتے ہیں کہ کوئی ایک چیز اپنے بچے میں ایسی تلاش کریں جو وہ اچھے طریقے سے کر سکتا ہے تو جتنا اسے اس کے حق میں استعمال کرسکتے ہیں، کریں مثلاً اگر آپ ایک ماں ہیں اور آپ کے بچے کو پیچ کسنا آتا ہے تو آپ اکثر چھوٹی موٹی چیزوں کے پیچ ڈھیلے کرکے اسے پیچ کس پکڑا کر کہیں کہ تم سے اچھا پیچ تو کوئی کس ہی نہیں سکتا ذرا یہ پیچ تو کس دو۔ گویا آپ نے اس سے پیچ کسوا کر اسے اعتبار کے پتے دے دئیے۔ جب بھی آ پ بچے کی تعریف کرتے ہیں اس کے اعتبار (سیلف ایسٹیم) میں اضافہ ہوتا ہے ، یعنی زیادہ تعریف زیادہ پتے۔ والدین اور استاد کو بس پتے دینا ہیں اور یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔
بس! یہ ذہن میں رکھیں روز جب بچہ بستر پر جائے تو اس کے پاس اس سے زیادہ پتے ہونے چاہئیں جتنے صبح تھے۔ بقول ڈاکٹر لیواے استاد اور والدین کی ڈانٹ بچے سے پتے واپس لے لیتی ہے مثلاً کھانے کی میز پر عالی سے جوس گر جاتا ہے، اس وقت اس کا باپ اسے ڈانٹتا ہے ’’ تم نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ میری زندگی ضرور جہنم بناؤ گے۔( دس ہزار پتے گئے) بس ایک تم ہی ہو اس گھر میں جس کے ساتھ یہ سارے مسئلے پیش آتے ہیں(دس ہزار پتے گئے)کاش کہ تم میرے گھر پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے( پندرہ ہزار گئے) دفعہ ہو جاؤاپنے کمرے میں ( پندرہ اور گئے)۔
سارے گھر والوں کے سامنے اپنے سارے پتے گنوا کر عالی کمرے میں چلا جاتا ہے اور کچھ دیر بعد باپ کو احساس ہوتا ہے کہ میں نے کچھ زیادہ ہی ڈانٹ دیا۔ پھر خیال آتا ہے کہ اتنی بڑی بات تو نہیں تھی جتنا میں نے ڈانٹ دیا، دراصل غصہ تو مجھے آفس میں اپنے باس کے رویے پر تھا جو میں نے عالی پر نکال دیا۔ جب باپ کو اپنی زیادتی کا احساس ہوتا ہے تو وہ عالی کے کمرے میں جا کر اس سے کہتا ہے کہ مجھے افسوس ہے کہ میں نے تمہیں کچھ زیادہ ہی ڈانٹ دیا، لیکن عالی کے پچاس ساٹھ ہزار پتوں کا نقصان ہو چکا ہے جو باپ کی معذرت سے واپس نہیں ملیں گے۔ ہاں! اس احساس سے کہ باپ نے یہ کہہ دیا ہے، تمہارا اتنا قصور نہیں تھا بمشکل پانچ ہزار پتے واپس ملیں گے۔
والدین اور اساتذہ کو مسائل کا شکار بچوں کو اعتبار کے پتے دینا ہوں گے اس لیے کہ ان کو بیرونی دنیا میں گزارہ کرنے کے لیے بہت سارے پتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماں صبح کسی اچھے فقرے سے بچے کو جگاتی ہے پانچ ہزار پتے، بچے کی پسند کا ناشتا پانچ ہزار پتے، پسند ید ہ سویٹر تین ہزار پتے، لنچ باکس میں بڑا سا چاکلیٹ پانچ ہزار پتے، سکول سے واپسی پر نیا کرکٹ بیٹ دلانے کا وعدہ بیس ہزار پتے۔ اب بچہ اتنے سارے پتوں کے ساتھ سکول ویگن میں بیٹھنے لگتا ہے تو ڈرائیور کا ایک چبھتا ھوا فقرہ ’’اوئے! سستی کے کیڑے!! آج اگر تم واپسی میں دیر کرو گے تو تمھیں سکول میں ہی سونا پڑے گا‘‘، اس سے وہ سارے پتے چھین لیتا ہے جو صبح سے اب تک اسے ملے تھے۔ دن میں بار بار پتے چھنتے ہیں، ملنے کی تعداد کم ہے اور چھنتے زیادہ ہیں۔ والدین اور اساتذہ کو یہ پتوں کی جمع تفریق کرنا پڑے گی اس لیے کہ عملی زندگی میں آنے کے لیے لاکھوں کروڑوں پتوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
ملازمت اور شادی جیسے معاملات کے لیے لاکھوں پتے چاہئیں، اور جب کافی پتے نہیں ہوتے تو پھر خود کشی، نشہ اور گینگز کے راستے کھل جاتے ہیں۔ اعتبار کے پتے دینا زیادہ مشکل نہیں۔ صرف اتنا سمجھ لیں کہ آپ کے بچے کو ان کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی روٹی کی۔ خود اعتباری بچوں میں مصنوعی طریقوں سے پیدا نہیں کی جاسکتی، والدین کو بچے کا خود پر اعتبار قائم کرنے کے لئے کچھ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا چاہئے:
٭بہت سارے کھلونے اور آسائشیں غیر ضروری خواہشیں پور ی کرنے سے احتراز کریں۔
٭تعریف بہت ضروری ہے لیکن بے جا تعریف نہیں۔ جب وہ کوئی کام کرے تو اس کی تعریف ضرور کریں کہ آپ نے بہت اچھے طریقے سے جوتے پالش کیے ہیں، بہت خوبصورت تصویر بنائی ہے، میں بہت خوش ہوں کہ آپ نے بہت محنت سے کمرہ صاف کیا ہے۔ بڑے اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ بچے کبھی بھی بڑوں کے معیار کا کام نہیں کرتے اور بچوں کے قدرے ناقص کام کو بھی سراہ دینا چاہئے، کہ ہمم! آپ نے بہت اچھی الماری صاف کی ہے لیکن اگر کپڑے ہینگر میں لٹکائیں گے تو زیادہ اچھا ہوگا۔
٭بچوں کے سامنے مایوسی کی بات کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اگر کوئی مسئلہ آ پڑے اور آپ پریشانی کو چھپا نہ سکیں تو مثبت رویہ اختیار کریں کہ ہمم! یہ مسئلہ تو ہے لیکن انشاء اللہ ہم مل کر کوئی حل ڈھونڈ لیں گے اس طرح بچوں کو یہ احساس ہوگا کہ زندگی میں مسائل بھی آجاتے ہیں،جنہیں پریشان ہوئے بغیر سمجھ داری سے حل کرنا چاہئے۔ مثبت رویہ بچوں میں مثبت سوچ کو پیدا کرتا ہے اور والدین کا مایوسی بھرا منفی رویہ بچوں کی خود اعتباری کے لیے زہر قاتل ہے۔والدین کا دیا ہوا اعتبار زندگی بھر بچے کے لئے بچے کی ڈھال بن جاتا ہے۔(اس مضمون کو لکھنے میں ڈاکٹر لیوائے کے لیکچرChips are down سے مدد لی گئی ہے)۔
زبیدہ رؤف
The post آپ بچوں میں ’خود اعتباری‘ کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.