دنیا کے عجائب خانے میں کئی قیمتی چیزیں محفوظ ہیں جو ہماری آنکھوں سے چھپی ہوئی ہیں ان میں ایسے ہزاروں انسان بھی شامل تھے جنہوں نے اپنے ادوار میں صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے آس پاس پھیلے انسانی دکھوں کے بارے میں بھی سوچا، انہیں دکھوں سے نجات دلانے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی اور اپنے ساتھ رہنے والے دوسرے انسانوں کو یہ بھی بتایا کہ معمولی سے فائدے کے لیے کسی ذی روح کی جان لینا کتنا بڑا گناہ ہے۔
بھارت کی ریاستوں راجستھان ہریانہ، پنجاب، اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والا ایک ایسا فرقہ پایا جاتا ہے جو جانوروں اور درختوں سے اتنی محبت اور عقیدت رکھتا ہے کہ اس کے افراد ان پر جان نچھاور کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس فرقے لوگ بشنوئی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
یہ برادری ہندوؤں کی دوسری ذاتوں اور برادریوں سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں تک کہ دیگر ہندوؤں کی طرح یہ اپنے مردوں کو جلانے کے بجائے دفن کرتے ہیں۔ اس فرقے کے وجود میں آنے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ راجستھان میں خشک سالی کی وجہ سے سخت قحط پڑا اور لوگ قطرہ قطرہ پانی کو ترس گئے۔ ایسے میں ایک شخص کے پاس غلے سے بھرے کچھ گودام محفوظ تھے جو اس نے آس پاس رہنے والے غریب کسانوں میں بانٹ دیے ۔ اس شخص کی دوراندیشی، انسان دوستی، نیک نیتی، ذہانت اور اصول پسندی کی وجہ سے وہاں کے رہنے والوں نے اسے اپنا گرو تسلیم کرلیا اور آج تک اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔1451ء میں بیکانیر کے ایک قصبے میں پیدا ہونے والے اس شخص کو گرو جم بھیشور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کے انتیس اصولوں پر عمل کرنے وا لے لوگ بشنوئی کہلاتے ہیں۔
بشنوئی دو الفاظ سے مل کر بنا ہے (بش) یعنی بیس اور (نوئی) یعنی نو۔ جم بھیشورنے اپنے پیروکاروں کے لیے جو انتیس اصول بنائے تھے ان میں صبح سویرے اٹھ کر نہانا، تحمل سے رہنا ، برداشت کی عادت ڈالنا، پانی چھان کر پینا، دوسروں پر رحم کرنا، چوری نہ کرنا، کسی کی برائی نہ کرنا ، جھوٹ نہ بولنا، لڑائی جھگڑا نہ کرنا، خاص دنوں میں روزہ رکھنا، اپنے ہاتھ سے کھانا پکانا، تمباکو ، بھنگ اور شراب نہ پینا، گوشت نہ کھانا، ہرے درخت کو نہ کاٹنا، پرندوں، جانوروں کو نہ مارنا اور چند دوسرے اصول شامل تھے۔ بشنوئی برادری کے لوگوں پر اپنے گرو کے بنائے گئے اصولوں کا اتنا اثر ہے کہ وہ جانوروں کو بچانے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دینے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔
ریاست جودھ پور میں 1787 ء کے دوران حکومت نے پیڑ کاٹنے کا اعلان کیا تو بشنوئی برادری نے اس کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے نعرہ لگایا،’’سر ساٹھے رُوکھ رہے، تو بھی سستا جان ‘‘ یعنی اگر سر کٹ جائے اور پیڑ بچ جائے تب بھی اسے سستا سودا سمجھو۔ حکومتی ارکان اس زمانے میں پیڑ کاٹنے کے لیے آگے بڑھے تو بشنوئی برادری سے تعلق رکھنے والی امرتا دیوی نامی خاتون نے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ اس واقعے میں پیڑوں کو بچانے کے لیے جن363 افراد نے اپنی جان کی قربانی دی ان میں ایک سو گیارہ عورتیں شامل تھیں۔ اس واقعے کی یاد میں ہر سال اسی مقام پر ایک میلہ لگتا ہے اور اس برادری کے افراد اپنے بزرگوں کی قربانی کو انتہائی فخر سے یاد کرتے ہوئے اپنے بچوں کو پیڑوں اور جانوروں سے محبت کا درس دیتے ہیں۔
صحراؤں میں گھومنے والے بشنوئی نوجوان ہر وقت جانوروں کی حفاظت کے لیے چوکنا رہتے ہیں اور جانوروں کا شکار کرنے والوں سے ان کی مڈ بھیڑ بھی ہوتی رہتی ہے۔ اس علاقے میں جانوروں سے محبت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی کہ اگر کسی ہرنی کی موت کے بعد اس کا دودھ پیتا بچہ رہ جائے تو بشنوئی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین اسے اپنے بچوں کی طرح دودھ پلا کر موت کے منہ میں جانے سے بچانا اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ درختوں اور جانوروں سے محبت اور انہیں اپنے خاندان اور زندگی کا حصہ سمجھنے کی اسی تحریک کا سہارا لے کر 1974میں اترکھنڈ میں خواتین نے ’’چپکو تحریک‘‘ کے نام سے مشہور زمانہ تحریک چلائی اور پھر اندراگاندھی کے دور میں1980میں درختوں کی کٹائی کے خلاف جو تحریک چلائی گئی اسے بھی بھرپور کام یابی نصیب ہوئی۔
جانوروں اور درختوں سے محبت کرنے والے بشنوئی فرقے ہی کے علاقے میں بولی وڈ کے نام ور اداکار سلمان خان نے بیس سال قبل کالے ہرن کا شکار کیا تھا، ورنہ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا مذہب ہو گا جو درختوں ، پرندوں اور جانوروں سے محبت کا درس نہ دیتا ہو۔ بیس سال قبل سلمان خان فلم ’’ہم ساتھ ساتھ ہیں‘‘ کی شوٹنگ کے لیے راجستھان کے اس علاقے میں پہنچے جہاں بشنوئی فرقہ آباد ہے تو وہ اکیلے نہیں تھے، بل کہ سیف علی خان، تبو، سونالی بیندرے اور نیلم بھی ان کے ساتھ ساتھ تھیں مگر ان سب کو شاید اس بات کا علم نہیں تھا کہ تین صدی پہلے اس علاقے کے ایک ہردل عزیز شخص نے اپنے پیروکاروں کے لیے جو انتیس اصول وضع کیے تھے ان میں درختوں اور جانوروں کی حفاظت کو انتہائی اہمیت دی گئی تھی۔ صحرا میں چلتی جیپ میں بیٹھے ان افراد کے ہاتھوں میں تھمی بندوق سے نکلنے والی گولی نے سنسان ماحول میں خاموشی کو توڑا تو بشنوئی فرقے کے لوگ جیب میں بیٹھے افراد کو نہ پہچان سکے، مگر دھول اڑاتی گاڑی کے پیچھے لگی اس نمبر پلیٹ سے ان پر یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ جیپ سلمان خان کی ہے۔ اس لیے کہ وہ پچھلے کچھ دنوں سے اسی علاقے میں فلم کی شوٹنگ کر رہے تھے۔
سلمان خان کو کالے ہرن کے شکار پر بیس سال بعد سزا سنائی گئی تو ان کے چاہنے والے سکتے میں آگئے۔ ان سے محبت کا اظہار کرنے والوں کا تعلق کسی ایک مذہب یا قوم سے نہیں تھا اور نہ ہی کسی ایک ملک میں رہنے والے ان کے خلاف دیے جانے والے اس فیصلے سے ناراض تھے، مگر دنیا بھر میں جانوروں، پرندوں اور درختوں سے محبت کرنے والوں کی رائے ان کے چاہنے والوں سے بالکل مختلف ہے۔ وہ سلمان خان سے جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی اتنی ہی محبت کے طلب گار ہیں جتنی فلم ’’ہم آپ کے ہیں کون‘‘ میں انہوں نے مادھوری ڈکشٹ کے دامن میں ڈالی تھی۔
وہ انصاف کے ترازو کو اب بھی شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ سلمان خان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ایک معصوم جانور کے قتل کا مقدمہ اتنا طویل نہ ہوتا بل کہ ملزم اب تک سلاخوں کے پیچھے رہ کر اپنی سزا مکمل بھی کر چکا ہوتا۔ وہ تو شاید اس وقت بھی دم بخود رہ گئے ہوں گے جب سندھ سے کئی نایاب کچھوے اسمگل ہو ئے اور قانون کا ہاتھ اصل ملزمان تک نہ پہنچ سکا اور تب بھی دکھی ہیں جب سے چند مچھلیاں پکڑنے کے لیے موتی جیسی رنگت کے دریاؤں میں زہر ڈال کر لاکھوں، مچھلیوں، مینڈکوں اور کچھوؤں سے جینے کا حق چھینا جارہا ہے۔
سلمان خان سے محبت کرنے والوں میں ہم بھی شامل ہیں، مگر محبت کے اس پیمانے میں اس دن سے بال آیا ہوا ہے جس دن انہوں نے محض تفریح کی خاطر یا کسی کو خوش کرنے کے لیے ایک ہرن کی جان لے لی تھی۔ کسی دوسرے مذہب کو تو چھوڑیے کہ وہ پرندوں، جانوروں اور درختوں کے بارے میں کیا کہتا ہے سلمان خان خود جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اگر اسے ہی غور سے پڑھ لیں تو انہیں پتا چل جائے گا کہ ان کے رسولﷺ مخلوق خدا سے کتنی محبت کرتے تھے اور انہوں نے جانوروں پر رحم کے لیے کیا فرمایا تھا۔
چپکو تحریک
چپکو تحریک پیڑوں کی کٹائی کے خلاف چلائی گئی بہت مشہور تحریک ہے۔ اس کی ابتدا 26 مارچ 1974 کو اتر کھنڈ کے ضلع چمیلی سے ہوئی تھی، جو درختوں کی کٹائی کے خلاف تھی اور اس میں خواتین نے بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ تحریک چلانے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے اترا کھنڈ کے ایک گاؤں کے تقریبا ڈھائی ہزار درختوں کو کاٹنے کے لیے نیلام کردیا تھا، مگر گوری دیوی نامی خاتون نے دوسری بہت ساری خواتین کے ساتھ مل کر اس نیلامی کی سخت مخالفت کی، لیکن اس کے باوجود حکومت اور اسے کاٹنے والے ٹھیکے دار نے اپنا فیصلہ نہ بدلا۔ جب ٹھیکے دار کے ملازم درخت کاٹنے کے لیے متعلقہ گاؤں میں پہنچے تو گوری دیوی اور ان کے ساتھ اس تحریک میں شامل دوسری 21 خواتین نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ان درختوں کو نہ کاٹا جائے، مگر ان کے مذاکرات ناکام ہوگئے اور ٹھیکے دار اپنی ضد پر اڑا رہا۔
ملازمین نے پیڑوں کو کاٹنے کی ضد کی تو خواتین نے پیڑوں سے چپک کر للکارا کہ پہلے ہمیں کاٹو اس کے بعد ان پیڑوں کو بھی کاٹ لینا۔ درختوں سے محبت کا جذبہ اور خواتین کی بہادری آخر کار رنگ لائی اور ٹھیکے دار کو اپنا کام ادھورا چھوڑ کر گاؤں سے واپس جانا پڑا۔ بعد میں ان ہی خواتین نے پیڑ نہ کاٹنے کا منصوبہ محکمۂ جنگلات کے اعلیٰ افسران کے سامنے رکھا، جس کی وجہ سے یہ قیمتی درخت کٹنے سے بچ گئے۔ اس تحریک کو بھارت کے علاوہ درختوں اور فطرت سے محبت کرنے والے غیرملکی افراد کی حمایت بھی حاصل تھی۔ تحریک کی راہ نمائی سندر لال بہوگنا کے ہاتھوں میں تھی اور اس کی اصل طاقت اسی گاؤں اور علاقے کی خواتین تھیں جو درختوں کو کاٹنے اور اس سے جڑے معاشی اور ماحولیاتی سلسلے کو تباہی سے بچانا چاہتی تھیں ۔ ’’چپکو تحریک‘‘ کی سب سے نمایاں بات یہ تھی کہ اس میں شامل افراد کے پاس کو ئی ہتھیار نہیں تھا اور یہ انتہائی پُرامن تحریک تھی۔
جس طرح بشنوئی سماج کی سوچ نے ’’چپکو تحریک‘‘ کو جنم دیا بالکل اسی طرح 1880 میں اترپردیش میں درختوں کے کاٹنے کے خلاف چلائی جانے والی ایک اور تحریک کے لیے چپکو تحریک اس وقت سہارا بن گئی جب بھارت کے مختلف علاقوں میں جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ شروع ہوا اور اس کے خلاف تحریک چلی تو اندرا گاندھی نے ہمالیہ کے جنگلوں کی کٹائی پر پندرہ سال تک کے لیے پابندی لگادی۔ آنے والے برسوں میں یہ تحریک کرناٹک، راجستھان، بہار اور وسطی بھارت تک پھیل گئی اور اس سے جہاں عام لوگوں میں ماحول کو بچانے کا شعور پیدا ہوا وہاں انہیں اس بات کی سمجھ بھی آئی کہ ہمارے ماحول کی خوب صورتی درختوں، پرندوں اور جانوروں کے دم سے ہی قائم ہے اور انہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔
The post پیڑوں کو بچانے کے لیے جان دینے پر تیار لوگ appeared first on ایکسپریس اردو.