پوری دنیا میں سرحدوں اور پانی کے معاملے پر تنازعات اور جنگوں کی خبریں تو ہر لمحے سننے میں آتی ہیں، مگر کبھی کبھی کسی ملک کے صوبوں کے درمیان بھی تنازع اور تصادم کی فضا پیدا ہوجاتی ہے، جیسے پاکستان کے دو ہم سائے صوبوں سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کے درمیان کئی برس قبل مالک کی جانب سے بے وفائی کا طعنہ برداشت نہ کرکے مرجانے والے کُتے کی قبر کی ملکیت کے دعوے کے باعث کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ حال ہی میں ہونے والی مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے کُتے کی قبر والے علاقے کو سندھ صوبے کے ضلع قمبر، شہدادکوٹ کا حصہ دکھانے کے بعد فریقین میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ بلوچستان کی جانب سے یہ مؤقف سامنے آیا ہے کہ یہ علاقہ ان کی ملکیت ہے۔ بلوچستان کی جانب سے یہ دوسری بار اس قسم کا دعویٰ منظرِعام پر آیا ہے۔
اس سے قبل نوے کے عشرے میں بھی ان کا ایسا مؤقف سامنے آیا تھا، تاہم لاڑکانہ میں سکریٹری سطح پر ہونے والے مذاکرات کے دوران کافی بحث و مباحثے کے بعد اس وقت کے ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ شمس جعفرانی نے کلہوڑا، تالپور اور انگریزوںکے دور کے نقشوں، دستاویز اور دیگر ثبوتوں کے ذریعے ڈاڑہیاروجبل اور کتے جی قبر کو سندھ کے علاقے چانڈکا جاگیر کی ملکیت ثابت کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بلوچستان کی جانب سے یہ مؤقف اس وقت سامنے آیا تھا جب1996 میں پہلی بار کتے جی قبر کے متعلق پرنٹ میڈیا میں خبروں کی اشاعت کے بعد اس کی اہمیت کے پیشِ نظر اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے سندھ کے وزیر اعلیٰ سید عبداللہ شاہ اور قمبر کے ایم این اے نواب شبیر احمد چانڈیو کو کتے جی قبر اور پہاڑی علاقے کا دورہ کرنے کی ہدایت کی۔ ان کے دورے کے بعد حکومت سندھ نے وہاں ایک چھوٹا سا ریسٹ ہاؤس بھی تعمیر کرایا۔ حکومت کی دل چسپی اور میڈیا کی جانب سے علاقے کی اہمیت اجاگر کیے جانے کے بعد بلوچستان کی جانب سے ملکیت کا دعویٰ سامنے آیا تو دوسری طرف علاقے کے لوگوں نے سمجھا کہ قبر میں خزانہ چھپا ہوا ہے۔ اس لیے انہوں نے قبر کو کئی بار کھودا بھی۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ڈاڑہیارو جبل کا دورہ کیا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ یہاں تفریحی سہولتیں فراہم کی جائیں، تاکہ آمدنی کے ذرائع میں اضافہ ہو اور علاقے میں خوش حالی آئے۔ یہی وجہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اس طرف خصوصی توجہ دی تھی۔
تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ 1920 میں انگریز حکومت نے کوئٹہ سے کراچی تک کیرتھر جبل کا سروے کرایا اور کتے کی قبر کو سطح سمندر سے دوسرا اونچا علاقہ قرار دیا۔ سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ گورکھ ہل5500 فٹ، کوئٹہ6200، کوہ مری 7500 اور کتے کی قبر7200فٹ سطح سمندر سے اونچی ہے۔ کتے کی قبر تک پہنچنے کے لیے مشکل اور دشوار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے اور وہاں تک صرف گدھوں اور اونٹوں کی سواری استعمال کی جاسکتی ہے۔
سند ھ کے معروف ادیب اور بیوروکریٹ وارہ اور نصیر آباد کے مختیار کارمرزا قلیچ بیگ نے انگریز حکومت کی ہدایت پر 1885 میں اس علاقہ کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنے سفرنامے ’’ڈھاریارو جبل کی سیر‘‘ میں کتے کی قبر کا حوالہ بھی دیا ہے۔ وہ اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے مویشیوں کی حفاظت کے لیے کتا پال رکھا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے ایک ہندو دکان دار سے قرض پر سامان لیا اور اپنے وفادار کتے کو ہندو کے پاس گروی رکھا۔ جب اس کے پاس پیسے جمع ہوئے تو وہ واپس دینے کے لیے جا رہا تھا کہ راستے میں اپنے کتے کو دیکھا اور سمجھا کہ وہ بھاگ آیا ہے۔
اس پر اس نے غصے میں آکر کتے کو بجا (ہاتھ سے لعنت کا نشان دکھانا) دی جس پر کتے نے بے وفائی کا طعنہ برداشت نہ کرتے ہوئے مالک کے قدموں میں جان دے دی۔ جب وہ شخص ہندو دکان دار کے پاس پہنچا تو اس نے بتایا کہ کتے کی وجہ سے وہ آپ کے قرض سے کئی گنا زیادہ نقصان بچ گیا ہے۔ کتے کی وجہ سے ان کا مال چوری ہونے سے بچ گیا، لہٰذا وہ انعام کے طور اپنی قرضہ کی رقم چھوڑ رہا ہے۔ یہ بات سن کر اس کو بہت دکھ ہوا اور اس نے واپس جا کر اپنے وفادار کتے کی لاش اوپر چوٹی پر لے جاکر اس کی پتھروں سے قبر بنائی۔
محکمۂ آرکیالاجی سندھ کے سکریٹری اور ممتاز ماہرآثارِقدیمہ ڈاکٹر کلیم لاشاری نے بھی مذکورہ علاقے کا دورہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کتے کی قبر بھی دیگر کلاسیکل قبروں کی طرح پتھروں سے بنائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قبر بھی کسی بڑے آدمی کی قبر کی طرح لگتی ہے، پرانے زمانے میں لوگ اپنا قیمتی سامان قبروں میں چھپاتے تھے۔ لہٰذا اس لالچ کی بناء پر قبر کو کھودے جانے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔
حالیہ مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے کتے کی قبر والے علاقے کو سندھ صوبے کے ضلع قمبر شہدادکوٹ کا حصہ دکھائے جانے کے بعد بلوچستان کی جانب سے یہ مؤقف سامنے آیا کہ یہ علاقہ ان کی ملکیت ہے۔
ان کی جانب سے ایسے دعوے کے بعد سندھ کے سنیئروزیر نثاراحمد کھوڑو نے چانڈیا قوم کے نواب غیبی سردار خان چانڈیو کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا تھا کہ کتے کی قبر والا علاقہ سندھ کی ملکیت ہے اور وہ اس سے کسی بھی صورت میں دست بردار نہیں ہوں گے۔ انہوں نے 1876 کا گزٹ اور نقشے بھی دکھائے جس میں کیرتھر کے اس علاقے کو قمبر کا حصہ ڈکلیئر کیا گیا ہے۔
ان راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس تمام دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ یہ علاقہ سندھ کی ملکیت اور حدود میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچی زبان میں کتے جی قبر کا لفظ استعمال نہیں ہوتا، یہ سندھی زبان کا لفظ ہے۔ گذشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں بھی بلوچستان اسمبلی کی جانب سے کتے کی قبر کے پہاڑی علاقے کو بلوچستان کا حصہ قرار دیے جانے کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد منظور کی گئی۔ دوسری جانب بلوچستان حکومت نے اس معاملے پر تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ جمیعت علمائے اسلام کے مرکزی نائب صدر، ایم این اے مولوی قمرالدین کا ایک پریس کانفرنس کے ذریعے سے مؤقف سانے آیا ہے کہ ڈھاریارو جبل اور کتے کی قبر کو ضلع قمبر شہدادکوٹ میں شامل کیا جانا سندھ حکومت کی سازش ہے۔
جیے سندھ محاذ کے سربراہ ریاض علی چانڈیو نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدیوں سے سندھ کی ملکیت کا اچانک خود کو مالک ظاہر کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا وزیراعلیٰ بلوچستان اور دیگر لوگوں کو رات میں خواب آیا کہ سندھ کی ڈھائی لاکھ اراضی ان کی ملکیت ہے، حالاںکہ 1876 کے گزیٹیر اور سروے آف پاکستان میں بھی یہ علاقہ سندھ کی ملکیت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اوستہ محمد، ڈیرہ الہیار اورلسبیلہ سندھ میں شامل تھے، جب کہ ون یونٹ کے بعد ان کو بلوچستان کے حوالے کیا گیا تھا۔ تاہم ہم نے کبھی ان کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔ ساڑھے سات سو سال قبل جب سندھ کے عظیم سپاہ سالار جام نظام الدین اور دولھا دریا خان نے یہ علاقے چانڈیا قوم کو دیے تھے تب بھی یہ سندھ اور سندھیوں کی ملکیت تھے۔
بلوچستان ہمارا پڑوسی ہے لیکن اس کو کبھی بھی یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہماری دھرتی کو اپنی ملکیت قرار دے۔ دعوے کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی حفاظت کریں۔ علاقے میں گیس کے ذخائر موجود ہیں، جس کی وجہ سے یہ علاقہ متنازع بن چکا ہے۔ اگر وفاقی حکومت اپنا کردار ادا کرے اور دستاویزی ثبوتوں کی بنیاد پر اس کا فیصلہ کرکے اس کو تفریحی مقام بنائے تو کراچی سے لے کر پنجاب کے کئی علاقوں کے لوگوں کو بہترین اور سستی تفریح میسر ہو سکتی ہے اور علاقے کے ساتھ وہاں کے باشندے بھی خوش حال ہوسکتے ہیں۔
معروف سیاسی و سماجی شخصیات کامریڈ حبدار علی میرجت، کامریڈ نصیر احمد سیلرو، عبدالغنی مجاہد، مجاہد اعوان، نظیر احمد سومرو اور دیگر نے کہا کہ اچانک بلوچستان کی جانب سے سندھ کے تفریحی مقام کتے کی قبر اور ڈارہیارو جبل کی اراضی کو اپنی ملکیت ظاہر کرنا قابلِ مذمت عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی لاوارث ملکیت نہیں ہے کہ اس کو ہڑپ کر لیا جائے گا۔ ماضی میں بلوچستان کی جانب سے ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی سازش کی گئی لیکن اس دوران بھی ان کو دستاویزی ثبوتوں کے معاملے میں پس پائی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ اب بھی برسوں پرانے ثبوتوں کے باعث ان کو خاموش ہونا پڑے گا۔
The post کتے کی قبر؛ متنازع مقام کی دلچسپ کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.