عام شہریوں کو اپنے کسی مسئلے پر مقدمہ درج کرانے کے لیے بھی جان جوکھم میں ڈالنا پڑتی ہے، کیوں کہ تھانوں میں ستم زدہ افراد کی شنوائی نہیں ہوتی۔
یہ صورت حال اُس صورت میں ہوتی ہے، جب کسی عام فرد کے خلاف پرچا کرایا جا رہا ہو۔ اگر کسی بااثر شخص یا کسی بھی روپ میں چھپے ہوئے بدقماش یا بدمعاش کے خلاف مقدمہ کرانا ہو، تو ہمارے ہاں عام شہری کے لیے یہ ایک امرِمحال سمجھا جاتا ہے۔ بعد کے مراحل عدالت میں مقدمے کی طویل سماعتوں اور فیصلہ ہونے تک دراز ہوتے ہیں۔
عدالتوں میں مقدمات کو التوا میں ڈالنے کی ریت گو کہ پرانی ہے لیکن کچھ مقدمات ایسے بھی ہیں جو مدت سے فیصلے کے منتظر ہیں، ان فیصلوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ اس معاملے میں چشم پوشی اور مصلحت پسندی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
قومی عدلیہ پر نگاہ ڈالی جائے، تو 9 مارچ 2007ء کو ہماری عدلیہ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جب اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، ان کے انکار پر انہیں معطل کرکے اُن کے خلاف ایک ریفرنس بھیجا۔ افتخار چوہدری مختلف اہم مسائل پر ایسے فیصلے دے چکے تھے، جو حکومت وقت کے لیے ناپسندیدہ تھے۔ انہوں نے بہت سے سلگتے ہوئے مسائل پر ازخود نوٹس کے ذریعے ایسے حکام سے جواب طلبی بھی کی، جو خود کو کسی بھی جواب طلبی سے مستثنیٰ سمجھتے تھے۔ چناں چہ ملک بھر کے وکلا افتخار چوہدری کی حمایت میں سڑکوں پر آگئے اور انہوں نے اس ’حرف انکار‘ پر بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔
افتخار چوہدری کو ’عدالتی فعالیت‘ کے سبب عوامی حلقوں میں پذیرائی حاصل تھی، اس لیے مختلف شہروں میں اُن کے استقبالی جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس میں مختلف سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوگئیں، جب کہ حزب اقتدار کی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر اس عمل کی سخت مخالف تھیں۔ جولائی 2007ء میں ریفرنس میں فیصلہ افتخار چوہدری کے حق میں ہوا اور وہ اپنے عہدے پر بحال ہوگئے۔ لیکن افتخار محمد چوہدری کے بحال ہونے یا ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس صاحبان نے دانستہ یا نا دانستہ طور پر کچھ کیسز کو ’پینڈنگ‘ کے زمرے میں ہی رکھا ہوا ہے، ایسے ہی کچھ اہم کیسز کا اس مضمون میں احاطہ کیا گیا ہے۔
٭منو بھیل
حیدرآباد پریس کلب کے باہر ایک بااثر وڈیرے کی نجی جیل سے فرار ہونے والا ہاری منو بھیل انصاف کے لیے سالوں احتجاجی دھرنا دیے بیٹھا رہا، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، منو بھیل کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے ایک وڈیرے کی نجی جیل سے فرار کے بعد وہاں موجود دوسرے ہاریوں کو بھی آزادی دلوائی تھی۔ لیکن آزادی کے لیے عارضی ثابت ہوئے اور کچھ عرصے بعد زمیندار عبدالرحمان مری نے منو بھیل کے بیوی بچوں اور ماں سمیت خاندان کے نو افراد کو اغوا کرلیا۔
منو بھیل اپنے اہلِ خانہ کی رہائی کے لیے علاقے کے تھانے سے لے کر سپریم کورٹ تک انصاف کے لیے نو سال تک در بدر گھومتا رہا، لیکن کسی نے اس مظلوم کی داد رسی نہیں کی۔ گھر والوں سے دوری کے ساتھ ساتھ منو بھیل علاقہ زمیندار کے ایما پر پولیس کے تشدد کا سامنا بھی کرتا رہا، جو اسے مجبور کرتے رہے کہ وہ انہیں تحریری طور پر یہ لکھ کر دے دے کہ اس کے اہل خانہ اغوا ہی نہیں ہوئے اور اس سارے معاملے سے زمیندار عبدالرحمان مری کا کوئی تعلق نہیں۔
منو بھیل کا کیس ہمارے نظام عدل پر ایک سوالیہ نشان ہے، کیوں کہ ایک میں مدعی ایک غریب ہاری ہے تو دوسری جانب سیاست دانوں، پیروں، وڈیروں کی سرپرستی میں رہنے والا ایک بااثر زمین دار جس کے نزدیک ہاریوں کی زندگی کی حیثیت محض ایک کیڑے مکوڑے کی سی ہے۔ نجی جیلوں میں ہاریوں کو غلام بناکر قید رکھنے کا سلسلہ ٹھٹھہ، بدین، میرپورخاص، تھرپارکر، ٹنڈو اللہ یار اور سانگھڑ میں بہت عام بات ہے۔
جہاں ہاریوں کے پورے پورے خاندان نجی جیلوں میں جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ منو بھیل نے گیارہ سال قبل زمیندار عبدالرحمان مری پر اپنے اہل خانہ کے اغوا کا مقدمہ کٹوایا لیکن وہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لیے جانے کے باوجود انصاف کا منتظر ہے، اس کی بوڑھی آنکھیں اپنے بیٹوں، بیٹیوں، کی راہ تکتے تکتے پتھرا گئی ہیں۔ اور یہ کیوں نہ ہو جب انصاف کی دیوی پولیس افسران، پیروں، میروں اور وڈیروں کے گھر کی باندی ہو! اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس کیس پر ازخود نوٹس لیا اور 22 ستمبر 2007کو اس کیس کی پہلی سماعت کی اور حیدرآباد پریس کلب کے سامنے کئی سالوں سے انصاف کے منتظر منو بھیل کے ماں باپ، بیوی، بیٹیوں اور بیٹوں کی بازیابی کے لیے آئی جی سندھ کو کٹہرے میں کھڑا کردیا، اس کیس کی سماعت 26 نومبر2007تک کے لیے ملتوی کی گئی اور تاحال یہ کیس التوا کا شکار ہے۔
٭اصغر خان کیس
پاکستان میں کچھ ’اہم‘ مقدمات میں دانستہ تاخیر کی سب سے بڑی مثال ایئرمارشل (ر) اصغر خان مرحوم کے کیس کی ہے۔ اس کیس کے مدعی اصغرخان گو کہ حیات نہیں رہے لیکن ان کا کیس آج بھی زندہ ہے۔ سولہ جون 1996کو ایئرمارشل (ر) اصغر خان نے اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کو ایک خط لکھا جس میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اسد درانی اور یونس حبیب پر انیس سو نوے کے عام انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لیے 140ملین روپے کے عوامی فنڈز کو سیاست دانوں میں تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا۔ اس خط کی بنیاد پر24 نومبر 1996کو سپریم کورٹ نے اس کیس کی پہلی سماعت کی۔ بارہ اکتوبر کو مشرف کے مارشل لا کے بعد تیرہ سال تک اس کیس کی سماعت التوا کا شکار رہی۔ 29فروری 2012کو افتخار محمد چوہدری نے اصغرخان کی درخواست پر باقاعدہ سماعت کا دوبارہ آغاز کیا۔
اگرچہ9 نومبر 2012 کو سپریم کورٹ نے اس کیس کا فیصلہ جاری کردیا، لیکن اس میں بھی بہت سے سوالات تشنہ طلب رہ گئے۔ فیصلے کے مطابق سابق چیف آف آرمی اسٹاف اسلم بیگ اور لیفٹیننٹ ریٹائرڈ اسد درانی فوج کی بدنامی کا باعث بنے۔ اور خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں، سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق کیس کا ایک سو اکتالیس صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے تحریر کیا۔ فیصلے میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ حامد سعید کی ڈائری کا حوالہ بھی دیا گیا، جس میں پیسے لینے والوں کا ذکر ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر ملکی قیادت کے بھی علم میں تھا۔ صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، صدر حلف سے وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔
صدر کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی ایک گروپ کی حمایت کرے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا۔ انیس سو نوے کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی، انتخابات مقررہ وقت پر اور بلاخوف و خطر ہونے چاہییں۔ تفصیلی فیصلے کے مطابق اسلم بیگ اور اسد درانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے۔
ان کا یہ عمل انفرادی تھا، اداروں کا نہیں۔ اصغر خان نے ’سیاسی و انتخابی انجینئرنگ‘ کے سد باب کے لیے عدالت سے رجوع کیا جس کے نتیجے میں ملک کی اعلیٰ ترین ایجنسی کا سیاسی سیل بند ہوا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں1990کے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور پیسے لینے اور دینے والوں کے خلاف خلاف کارروائی کا حکم دیا، جب کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے بیان حلفی میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے آرمی چیف کے حکم پر نوے کے عام انتخابات میں سیاست دانوں اور بعض صحافیوں کے درمیان 9 کروڑ روپے تقسیم کرنے کا اعتراف کیا اور یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لیے گئے تھے۔ پیسے لینے والوں میں غلام مصطفیٰ کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور میاں نواز شریف کا نام بھی آیا تھا۔
اگر اس کیس کا فیصلہ بروقت کردیا جاتا تو شاید آج پاکستان کے سیاسی افق پر نظر آنے والے بہت سے چہرے نااہل ہوچکے ہوتے، اور شاید کرپشن اور سیاست میں خفیہ ایجنسیوں کی مُداخلت کے ناسور اس ملک کو دیمک کی طرح نہیں چاٹ رہے ہوتے، لیکن شاید دانستہ طور پر اس فیصلے کو التوا میں رکھ کر کچھ لوگوں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا۔ یہ کیس خود اس بات کا ثبوت ہے کہ 1988ء کے بعد جمہوریت ملک میں جڑ کیوں نہیں پکڑ سکی۔ سیاست دانوں نے ایک دُوسرے کے خلاف کیسے سازشیں کیں اور اسٹیبلشمنٹ نے انہیں کیسے استعمال کیا۔ اصغر خان کی موت کے ساتھ پاکستان ایک منفرد ایمان دار و شفاف سیاست داں سے محروم ہوگیا۔ اصغر خان تو چل بسے لیکن اس کیس کو ازسرنو زندہ ہونا چاہیے۔ اب سپریم کورٹ کی ذمے داری ہے کہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
٭شاہ زیب خان
شاہ رخ قتل کیس کسے یاد نہیں ہوگا، یہ فیصلہ ابھی تک حل طلب ہے، ایک عدالت ملزمان کو بری کردیتی ہے تو دوسری عدالت انہیں دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دے دیتی ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں سے چلنے والے اس کیس میں کئی ڈرامائی موڑ آچکے ہیں، اس کیس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں فریقین میں باہمی رضا مندی سے خون بہا اور دیت کا معاملہ طے پاچکا ہے لیکن اس کے باوجود یہ فیصلہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ابھی تک حل طلب ہے، مقتول شاہ رخ کے والد نے ملزمان کی جانب سے معافی کو قبول کرتے ہوئے عدالت سے مرکزی ملز شاہ رخ جتوئی، ساجد علی تالپور، سیراج علی تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو ضمانت پر رہا کرنے کی درخواست کی جس پر انہیں رہا بھی کردیا گیا، لیکن گذشتہ برس نومبر میں سندھ ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے قتل کے مجرم شاہ رخ جتوئی کے کیس پر دوبارہ سماعت کا حکم دیتے ہوئے اس کیس کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں منتقل کردیا، جہاں ایک ہفتے بعد ہی ملزم شاہ رخ جتوئی کو ضمانت مل گئی۔ لیکن کچھ عرصے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر ایک بار پھر شاہ رخ جتوئی کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔
٭پرویز مشرف
پاکستان میں دانستہ طور پر طول دینے والے فیصلوں میں سابق چیف آف آرمی اسٹاف اور صدر پرویز مشرف پر قائم مقدمات کی ایک فہرست بھی شامل ہے۔ ان پر قائم کئی مقدمات میں سے کسی ایک کا بھی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ 31جولائی 2009 کو سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو تین نومبر 2007کو ملک میں ایمرجینسی نافذ کرکے آئین توڑنے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سات دن میں عدالت میں پیش ہونے اور اپنے دفاع کا حکم دیا، تاہم انہوں نے خود پر عائد کیے گئے الزامات کا جواب دینے سے انکار کردیا اور پاکستان سے بھاگ کر برطانیہ چلے گئے۔ بارہ فروری 20012 کو عدالت نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام میں پرویزمشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے، 2013 کے عام انتخابات سے قبل پرویزمشرف نے وطن واپسی اور عدالتوں کا سامنا کرنے کا اعلان کیا لیکن پاکستان آنے سے قبل ہی انہوں اپنی ضمانت کرالی تھی، جس کی بنا پر انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔
18اپریل 2013کو عدالت نے مشرف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے انہیں 2007 میں ججوں کو حراست میں رکھنے کے کیس میں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ بیس اگست 2013 کو بے نظیر قتل کیس میں ان پر فردِجرم عائد کردی گئی۔31مارچ 2014 کو خصوصی عدالت نے پرویزمشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیا، جس کی سزا پھانسی یا عمر قید ہے، لیکن پرویز مشرف جیسا آمر ان تمام مقدمات کے باوجود آزادی سے گھومتا رہا۔
18جنوری2016کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اکبر بگٹی کے قتل کے الزام میں پرویز مشرف اور دیگر دو افراد پر فردِجرم عائد کی، لیکن اس کے دو ماہ بعد 16مارچ 2016کو سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے بیرون ملک سفر پر عائد پابندی کو اٹھا دیا ، جب کہ اس دوران ان پر سنگین غداری کا مقدمہ چل رہا تھا۔ اور اس کے دو دن بعد ہی طبی بنیادوں پر یہ کمانڈو دبئی چلے گئے۔ رواں سال مارچ کو خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے مقدمے میں وزارت داخلہ کو ملزم کی گرفتاری اور جائیداد ضبط کرنے کا حکم جاری کردیا۔ عدالت نے سماعت21 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ سابق صد پرویز مشرف اور دیگر ملزمان کے وکلا کیس کی تیاری کرکے عدالت میں پیش ہوں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس یاور علی اور جسٹس طاہرہ صفدر پر مشتمل 3 رکنی خصوصی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔
اس موقع پر وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے پرویز مشرف کی جائیدادوں سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی، جس کے مطابق سابق صدر کی کل7 جائیدادوں میں سے 4 پاکستان، ایک ایک لندن اور دبئی میں واقع ہیں۔ بینچ کے سربراہ جسٹس یحیٰی آفریدی نے وزارت داخلہ کے نمائندے سے کہا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ سابق صدر کی گرفتاری اور وطن واپس لانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں، دس ماہ گزر گئے ہیں لیکن عدالت میں ان کی بیرون ملک جائیدادوں کی تفصیلات نہیں پہنچ سکی ہیں، آخر ان کی بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق کارروائی میں کیا مسئلہ ہے، وارنٹ جاری ہونے کے باوجود انٹرپول سے رابطہ کیوں نہیں کیا گیا؟
بتایا جائے کہ ملزم کی عدالت میں حاضری یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ استغاثہ کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ نے پہلے بھی عدالت میں کہا تھا کہ مشرف ایک ہفتے میں وطن واپس آجائیں گے لیکن وہ نہیں آئے، یہ میری نہیں قانون کی خواہش ہے کہ مفرور جب تک سرینڈر نہ کرے اس کا کوئی قانونی حق نہیں بنتا۔ اس لیے فاضل عدالت کے پاس مقدمے کی کارروائی آگے بڑھانے کا اختیار ہے۔ یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ ملزم کو بری کرے یا اسے سزا سنا ئے۔
عدالت نے پرویزمشرف کے وکیل سے کہا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ پرویزمشرف کب عدالت میں پیش ہوں گے، جس پر ایڈووکیٹ اخترشاہ کا کہنا تھا کہ ان کے موکل عدالت کا احترام کرتے ہیں اور یہاں پیش ہونا چاہتے ہیں، لیکن انہیں فول پروف سیکیوریٹی فراہم نہیں کی جارہی، جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ہم وزارت داخلہ کے حکام کو پرویزمشرف کی گرفتاری اور جائیداد کی ضبطی کا حکم دے رہے ہیں۔ وکیل اختر شاہ نے کہا کہ میری درخواست ہے کہ 21 مارچ تک جائیداد ضبطی کا حکم نہ دیا جائے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ یہ قانونی عمل ہے جو نہیں رک سکتا۔ وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے عدالت سے استدعا کی کہ پرویزمشرف کو دبئی میں گرفتار کرنے کے لیے وارنٹ جاری اور ان کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کا حکم دیا جائے۔ وہ علاج کا بہانا کرکے ملک سے چلے گئے ہیں اور وہاں شادی کی تقریب میں ڈانس کرتے پائے گئے۔ وکیل استغاثہ نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ شکایت داخل کرنے کا مقصد پرویزمشرف کی جائیداد ضبط کرنا نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ مقدمے کا فیصلہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالت پرویزمشرف کے فوجی اعزازات واپس لینے کا حکم بھی دے سکتی ہے، ماضی میں وفاقی حکومت کی طرف سے فوجی اعزاز واپس لینے کی مثالیں موجود ہیں۔ بعدازاں عدالت نے پرویزمشرف کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش اور ان کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے مزید سماعت 21 مارچ تک ملتوی کردی۔ اس سے قبل آٹھ مارچ کو عدالت نے پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا تھا، جس کی بنیاد پر انہوں نے وطن واپسی کے لیے مشروط آمادگی ظاہر کی تھی۔
تاہم سولہ مارچ کو ہونے والی ایک اور سماعت عدالت نے ہدایت کی ہے کہ مشرف کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رابطے کیا جائے، حکم نامے میں درج ہے کہ پاکستانی حکومت کا متحدہ عرب امارات کے ساتھ ملزمان کے تبادلے کا معاہدہ موجود ہے، جس کے کے تحت مشرف کی دبئی جائیداد بھی ضبط ہوسکتی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وزارت داخلہ مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ معطل کرسکتی ہے۔ خصوصی عدالت کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ مشرف 7دن میں وطن واپسی پر سیکیوریٹی کے لیے درخواست دیں۔ درخواست نہ آنے کی صورت میں پرویز مشرف کو گرفتار کرکے پیش کیا جائے۔
٭ ڈاکٹر شازیہ کیس
ڈاکٹر شازیہ ریپ کیس کئی ماہ تک پاکستانی اور عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہا۔ یہ کیس پاکستانی فوج اور بلوچ قوم پرستوں کے درمیان ہونے والے تنازعے کا بھی مرکز رہا جس میں کئی افراد ہلاک بھی ہوئے اور یہ کیس ابھی تک حل طلب ہے۔ ڈاکٹر شازیہ کو بھی زیادتی کا شکار دوسری بہت سی خواتین کی طرح ابھی تک انصاف نہیں ملا۔ انہوں نے انصاف کے حصول کے لیے ہمت نہیں ہاری۔ لیکن تھک ہار کر اور جان بچانے کے لیے ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ ملک چھوڑنے کے بعد پاکستانی میڈیا تو شاید انہیں بھول گیا لیکن وہ ابھی تک پاکستانی عدالتوں سے انصاف کی منتظر ہیں۔
ڈاکٹر شازیہ کی کہانی ایسی دیگر کہانیوں سے مختلف نہیں۔ ایک عورت زیادتی کا نشانہ بنی جسے انصاف کی تلاش ہے اور اسے زیادتی کا نشانہ بنانے والے کو مبینہ طور پر تحفظ دیا جارہا ہے اور ریاست اپنے ہی عمل کی بدصورتی کو چھپانے میں مصروف ہے۔ ڈاکٹر شازیہ کا کیس دو سال قبل پاکستانی میڈیا میں اس وقت دوبارہ زندہ ہوا جب بلوچستان کے وزیرداخلہ میر سرفرازبگٹی نے کہا کہ ڈاکٹر شازیہ کا ریپ اکبر بگٹی نے کرایا تھا، اور اس سارے واقعے میں اکبر بگٹی کے لوگ ہی ملوث تھے۔ سرفرازبگٹی نے کہا کہ ریاض گل اور فیروز درانی بگٹی نے ڈاکٹر شازیہ سے زیادتی کی، ریاض گل ریپ کرنے کے بعد سوئٹزر لینڈ فرار ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر شازیہ کا ریپ کسی فوجی نے کیا یا اکبر بگٹی کے کسی آدمی نے بات صرف اتنی سی ہے کہ انصاف کے لیے قائم عدالتوں کا کام جلد انصاف کی فراہمی ہے۔ اس لیے یہ مقدمہ چلنا چاہیے اور جرم کے مرتکب جو بھی افراد ہوں انھیں سزا ملنی چاہیے۔
انصاف میں تاخیر اسے غیرموثر کردیتی ہے اور مقدمات کے معاملے میں امتیازی سلوک کا تاثر انصاف کے پورے نظام کے بارے میں لوگوں کو شکوک وشبہات کا شکار کردیتا ہے، اس لیے ہر مقدمہ منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے، نامعلوم وجوہات بنیاد پر کیسوں کو التوا میں رکھنے کی روایت عدالت کے لیے بھی خطرناک ہے اور ریاست کے لیے بھی۔
٭ڈاکٹر عاصم کیس
26اگست 2015 کو رینجرز نے سندھ ہائرایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین اور سابق وزیرپیٹرولیم ڈاکٹر عاصم کو کلفٹن میں واقع ان کے دفتر سے حراست میں لے لیا۔ رینجرز حکام نے اگلے ہی روز انسداد دہشت گردی عدالت کو آگا ہ کیا کہ مجرمانہ سرگرمیوں اور دہشت گردوں کی مالی معاونت میں ڈاکٹر عاصم کے ملوث ہونے کی اطلاعات پر انہیں نوے دن کے لیے حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے۔ 25 نومبر 2015 کو رینجرز نے ڈاکٹر عاصم اور دیگر سیاسی راہ نماؤں کے خلاف ان کے نارتھ ناظم آباد اور کلفٹن میں واقع اسپتالوں میں عسکریت پسند اور گینگ وار ارکان کی طبی معاونت کا کیس دائر کرکے پولیس کے حوالے کردیا۔
اگلے دن انسداد دہشت گردی کے جج نے ڈاکٹر عاصم کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا۔ اسی سال گیارہ دسمبر کو پولیس اور رینجرز حکام کی عدالت میں اس وقت تلخ کلامی ہوئی جب تفتیشی افسر نے جج کو آگاہ کیا کہ ہم نے کرمنل پروسیجر کی شق 497(II)کے تحت ڈاکٹر عاصم کو رہا کردیا ہے، جب کہ رینجرز کے استغاثہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ سابق وزیر کے خلاف کافی ثبوت موجود ہیں، تا ہم اسی اثنا میں قومی احتساب بیورو نے ڈاکٹر عاصم کو اپنی تحویل میں لے کر احتساب عدالت سے ان سے کرپشن کے الزامات کی تفتیش کے لیے ریمانڈ حاصل کرلیا۔ ساڑھے پانچ ماہ تک مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں رہنے والے ڈاکٹر عاصم کو احتساب عدالت نے نو فروری 2016 کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
سولہ دن بعد ہی نیب نے ڈاکٹر عاصم پر 460 ارب روپے کی مبینہ کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال کی توسیع کے لیے دھوکہ دہی سے پلاٹ لینے، ریاست کی زمین پر قبضہ کرنے، منی لانڈرنگ اور گیس کی قیمتوں میں مصنوعی اضافے اور فرٹیلائزر کارٹیل کے ذریعے کمیشن حاصل کرنے کے خلاف ریفرینس دائر کیا۔
چھے مئی 2016کو احتساب عدالت نے ڈاکٹر عاصم اور دیگر کو 460 ارب روپے کرپشن کے کیس میں ملزم قرار دیا۔ تین فروری 2017کو سندھ ہائی کورٹ کے دو ججوں پر مشتمل بینچ نے رشوت ستانی کے دو مختلف ریفرینسز میں ڈاکٹر عاصم کی ضمانت کی درخواستوں پر اسپلٹ آرڈر جاری کیے۔ اور انیس ماہ حراست میں رہنے کے بعد بالاخر سندھ سرکار کے چہیتے اور گھر کے بھیدی ڈاکٹر عاصم کو گذشتہ سال مارچ میں ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ اسی سال 28 دسمبر کو وزارت داخلہ نے ڈاکٹر عاصم کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ نے نکالنے کا نوٹی فیکیشن جاری کیا اور بیس دن بعد ہی یعنی سترہ جنوری 2018کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ساٹھ لاکھ روپے زر ضمانت کے عوض ڈاکٹر عاصم کو بغرض علاج بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ اور دیگر بہت سے کیسز کی طرح اس کیس کا فیصلہ بھی اپنے فیصلے کا منتظر ہے۔
٭ڈالر گرل ایان علی
گذشتہ چند سالوں میں عدالت اور ڈالر گرل کا نام ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم رہا۔ اس کی شروعات کچھ اس طرح ہوئی کہ 14مارچ 2015 کو کو اسلام آباد ایئر پورٹ سے دبئی جانے والی ایک لڑکی پانچ لاکھ ڈالر کی اسمگلنگ کرتی ہوئی پکڑی گئی، گو کہ اس طرح کے واقعات عام ہوتے ہیں، لیکن اس معاملے میں مسئلہ کچھ اور تھا، اول تو یہ کہ وہ لڑکی پاکستان کی سپر ماڈل ایان علی تھی، دوئم یہ کہ اس کا سندھ سرکار کے سرپرستوں سے بہت خاص تعلق تھا۔ ان دونوں باتوں نے پاکستان میڈیا کو سُرخ پٹی چلانے کے لیے کئی ماہ کا مواد فراہم کردیا۔ اس لڑکی کو پکڑنے والے کسٹم افسر کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے، تو دوسری جانب عدالتوں میں پیشی میں اس کے جلوے پاکستانی ٹی وی چینلز پر چھائے رہے۔ ایان علی کیس میں کب کیا ہوا کی بات بہت طویل ہے، لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس کیس کو سیاسی کیس بنا کر رکھ دیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ تین سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ کیس تاریخ پر تاریخ کی روشن مثال بنا ہوا ہے۔
The post فیصلہ کب آئے گا! کچھ اہم مقدمات جو التوا کا شکار ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.