حال ہی میں بھارت کے وزیراعظم، نریندرمودی کی سرتوڑ کوشش رہی کہ وہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کرا دیں مگر انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
موصوف پاکستان کو نقصان پہنچانے کی خاطر امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ سازشیں کرنے میں اتنے مصروف ہیں کہ ان کی توجہ اپنے گھر کو بنانے سنوارنے سے ہٹ چکی اور وہ ابتر ی وانتشار کا شکار ہوتا نظر آتا ہے۔الیکشن 2014ء کے موقع پر انتخابی مہم چلاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ سرکاری خزانے کے ’’چوکیدار‘‘ ہیں۔
معنی یہ کہ وہ کرپٹ سیاست دانوں، سرکاری افسروں، صنعت کاروں اور کاروباریوں کو سرکاری خزانہ لوٹنے نہیں دیں گے۔ مگر پچھلے دنوں ایک زبردست مالیاتی سیکنڈل نے مودی کا یہ دعویٰ ہوا میں اڑا دیا اور ثابت ہوگیا کہ ان کی حکومت میں بھی سرکاری و نجی سطح پر کرپشن زور و شور سے جاری ہے۔
اس مالیاتی سکینڈل کا مرکزی کردار، نرو مودی(Nirav Modi) اپنے وزیراعظم کی طرح ریاست گجرات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے باپ دادا ہیروں اور زیورات کی خریدو فروخت کرتے تھے۔ 2010ء میں نرو مودی نے اپنے نام سے ہیرے فروخت کرنے والا کاروبار شروع کردیا اور ممبئی میں ایک بہت بڑا سٹور کھولا۔ اب تک اس کاروبار کے نئی دہلی، نیویارک، ہانگ کانگ اور لندن میں سٹور کھل چکے۔ نرو مودی کے ہیروں سے بنے زیورات استعمال کرنے والوں میں مشہور ہستیاں شامل ہیں جیسے ہالی وڈ اداکار کیٹ ونسلٹ، ایشوریہ رائے، پریانکا چوپڑا وغیرہ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نرو مودی اور اس کے بزنس پارٹنر اگلے ہی سال یعنی 2011ء میں کرپشن کرنے پر جت گئے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بھارت کے دوسرے بڑے سرکاری بینک، پنجاب نیشنل بینک کو نشانہ بنایا۔پنجاب نیشنل بینک کی بنیاد 1894ء میں لاہور میں رکھی گئی تھی۔ 1947ء میں اس کا ہیڈکوارٹر نئی دہلی منتقل ہوگیا۔ آج یہ بینک دنیا بھر میں 6937 شاخیں کھول چکا جن میں ستر ہزار سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔ اس کے بانی لاہور کی مشہور مخیر ہستی، دیال سنگھ مجیٹھیا تھے۔
سرکاری خزانہ لوٹنے کی خاطر چالاک و عیار نرو مودی نے بینکاری کے ایک عمل ’’لیٹر آف انڈرٹیکنگ‘‘ (letter of undertaking) سے مدد لی۔ اس عمل کی تشریح یہ ہے کہ بیرون ممالک سے کاروبار کرنے والی کمپنیوں کو غیر ملکی کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ مال خرید سکیں۔ یہ کرنسی پانے کی خاطر وہ اپنے مقامی بینک سے رجوع کرتی ہیں۔بینک کے متعلقہ افسر بیرون ملک واقع کسی مقامی یا غیر ملکی بینک کی شاخ کو جن سے کہ کاروباری تعلق ہوتا ہے، لیٹر آف انڈر ٹیکنگ جاری کرکے کہتے ہیں کہ کمپنی کو اتنی تعداد میں غیر ملکی کرنسی دے دی جائے۔ گویا بینک کی مقامی شاخ اپنے گاہک کا ضامن بن کر اپنے ہی بینک یا کسی اور بینک کی شاخ کو کہتی ہے کہ اسے مطلوبہ رقم ادا کردو۔
یہ رقم عموماً 90 دن کے اندر اندر بینک کو واپس کرنا ہوتی ہے۔ گویا بینک کی جانب سے کمپنی کو دیا جانے والا یہ مختصر مدتی قرضہ ہوا۔ بینک اس پر مروجہ شرح کے اعتبار سے سود وصول کرتا ہے۔ اس عمل سے کمپنی اور گاہک، دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ اسی لیے امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار میں تقریباً ہر کمپنی لیٹر آف انڈرٹیکنگ کی سہولت سے استفادہ کرتی ہے۔
ایمان دار کمپنی نوے دن کے اندر اندر بینک سے لیا گیا قرضہ واپس کردیتی ہے۔ مگر نرو مودی اور اس کے ساتھیوں نے تو کچھ اور ہی ٹھان رکھی تھی۔ انہیں تو سرکاری بینک سے قوم کا پیسا اڑانے کے لیے نرالا طریقہ مل گیا تھا۔ بس ضرورت یہ تھی کہ پنجاب نیشنل بینک کی کسی شاخ کے اعلیٰ افسروں کو ساتھ ملا لیا جائے۔اس کرپٹ ٹولے نے ممبئی میں بریڈی ہاؤس کی شاخ کا انتخاب کیا۔ وہاں انہوں نے تمام اعلیٰ افسروں کو بھاری رشوت دے کر اپنا ساتھی بنالیا۔ اب کاروباری افراد اور بینک افسروں پر مشتمل یہ بے ایمان گروہ بھارتی قوم کا سرمایہ لوٹنے لگا۔
لیٹر آف انڈر ٹیکنگ ایک مواصلاتی نظام، سوسائٹی فار ورلڈ وائڈ انٹربینک، فنانشل ٹیلی کمیونیکیشن (Society for Worldwide Interbank Financial Telecommunications ) کے ذریعے بینک کی ایک شاخ سے بیرون ملک واقع بینک کی دوسری شاخ تک جاتا ہے۔ یہ مواصلاتی نظام مختصراً سوئفٹ (SWIFT) کہلاتا اور پیغام رسانی کی عالمی مالیاتی سروس ہے۔ دنیا بھر میں گیارہ ہزار سے زائد بینک اور مالیاتی ادارے آپس میں لین دین کے وقت اسے استعمال کرتے ہیں۔
ہر بینک میں ایک مرکزی نظام ’’کور بینکنگ سلوشن‘‘ (Core Banking Solution) کارفرما ہوتا ہے۔ سوئفٹ کے ذریعے کی جانے والی تمام ٹرانزیکشنوں اور گاہکوں کے تمام ڈیٹا کا اندراج اس بنیادی نظام میں موجود ہوتا ہے۔ سوئفٹ کے ذریعے ہونے والا سارا لین دین بھی اس نظام میں ریکارڈ ہوتا ہے۔ بینک منیجر سے لے کر ساری اعلیٰ قیادت تک اس لین دین کو دیکھ سکتی ہے۔
بریڈی ہاؤس میں پنجاب نیشنل بینک کی شاخ کے افسروں نے یہ داؤ کھیلا کہ نرو مودی اور اس کی تمام کمپنیوں کا جو سارا لین دین سوئفٹ کے ذریعے ہورہا تھا، اسے کور بینکنگ سلوشن نظام سے الگ کردیا۔ گویا پنجاب نیشنل بینک نے نرو مودی اینڈ کو کے نام جتنے بھی قرضے جاری کیے، ان کا بینک کی کور بینکنگ سلوشن نظام میں اندراج ہی نہیں ہوا۔حیرت انگیز بات یہ کہ نرو مودی اور اس کے ساتھی بینک شاخ کے افسروں کی مدد سے پورے ’’سات سال‘‘ تک سرکاری پیسہ چوری کرتے رہے اور بینک کے اعلیٰ افسروں کو دن دیہاڑے ہونے والے اس ڈاکے کا پتا ہی نہیں چلا۔ یہ افسوس ناک بات اشارہ کرتی ہے کہ خصوصاً ترقی پذیر ممالک کے سرکاری اداروں میں فرائض سے غفلت کا دور دورہ ہے۔
اکثر سرکاری افسر بس وقت پورا بلکہ تفریح کرنے دقتر آتے ہیں۔ وہ ساتھیوں کے ساتھ خوش گپیاں مارتے، تھوڑا بہت کام کرتے اور پھر گھر سدھار جاتے ہیں۔ اگر پنجاب نیشنل بینک کے سرکاری افسر بھی کام پر توجہ مرکوز رکھتے، تو نرو مودی اینڈ کو کا جرم 2011ء ہی میں سامنے آجاتا۔
جب نرو مودی نے دیکھا کہ وہ کرپٹ بینک افسروں کی مدد سے جب چاہے سرکاری پیسا اڑا سکتا ہے، تو وہ بھی شیر ہوگیا۔ پچھلے سات برس کے دوران اس نے کئی بار بریڈی ہاؤس شاخ سے لیٹر آف انڈر ٹیکنگ لے کر بینک سے قرضے لیے اور رقم ڈکار گیا۔ یہ کوئی معمولی رقم نہیں … بھارتی انکم ٹیکس کے مطابق نرو مودی اینڈ کو نے قومی خزانے سے کم از کم200ارب روپے (20 کھرب روپے) اڑائے ہیں اور یوں ملک و قوم کو نہایت زوردار ٹیکا لگا دیا۔یہ عین ممکن تھا کہ لالچی اور کرپٹ نرو مودی کی لوٹ مار مزید عرصہ جاری رہتی مگر قدرت نے اس مجرم کو جو ڈھیل دے رکھی تھی، اس کے اختتام کا مرحلہ آپہنچا تھا۔
ہوا یہ کہ پنجاب نیشنل بینک کی بریڈی ہاؤس شاخ میں ایک ایسا اہل کار ریٹائرڈ ہوگیا جو کرپشن میں نرو مودی کا شریک کار تھا۔ اس کی جگہ ایک نوجوان افسر تعینات کیا گیا۔ نرو مودی نے اسے بھی خریدنے کی کوشش کی۔ لاکھوں روپے دینے کا لالچ دیا اور قیمتی اشیا بھی مگر ہر انسان بکاؤ مال نہیں ہوتا اور نہ ہی چند ٹکوں کی خاطر اپنے ضمیر کا سودا کرتا ہے۔اس ایمان دار نوجوان افسر نے کرپشن کرنے سے صاف انکار کردیا۔ یہی نہیں، وہ ’’وسل بلوئر‘‘ بن گیا اور اس نے تہیہ کرلیا کہ وہ اس نام نہاد شریف بنے کاروباری کے گھٹیا کرتوتوں کا پردہ چاک کرکے رہے گا۔
دسمبر 2017ء میں نرو مودی اینڈ کو نے بریڈی ہاؤس شاخ سے درخواست کی تھی کہ اسے ’’280 کروڑ روپے‘‘ کا لیٹر آف انڈر ٹیکنگ جاری کردیا جائے۔ نوجوان افسر نے پنجاب نیشنل بینک کے سربراہ کومطلع کیا کہ نرو مودی کی کمپنیوں نے سابقہ قرضے واپس نہیں کیے اور اب نیا قرض مانگ رہی ہے۔ اس سلسلے میں تحقیقات کرائی جائیں۔ اس خط کی بنیاد پر چھان بین شروع ہوئی تو مکار نرو مودی کی ساری کرپشن افشا ہوگئی۔
یہ عیاں ہے کہ چالاک نرو مودی نے سرکاری بینک میں ملازمت کرتے لالچی ملازمین کی ہوس سے فائدہ اٹھایا اور انہیں اپنے ساتھ ملالیا۔ یہ کرپٹ ٹولہ پھر سرکاری بینک میں لوٹ مار کرتا رہا اور حکومت میں بیٹھے وزیروں مشیروں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔جب یہ خوفناک بینکاری سیکنڈل سامنے آیا، تو مودی حکومت نے شور مچادیا کہ اس کرپشن کی ذمے دار سابق کانگریسی حکومت ہے۔ مگر پھر ایک انکشاف نے حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے بھونپو بند کردیئے۔
انکشاف یہ ہوا کہ 2016ء میں ایک کاروباری نے بی جے پی حکومت کو خبردار کردیا تھا کہ نرو مودی ایک کرپٹ آدمی ہے۔ ہوا یہ کہ 2014ء میں بنگلور کے ایک تاجر، ہری پرشاد نے نرو مودی کی کمپنی کو دس کروڑ روپے دیئے۔ ہری نے اس کے بدلے کمپنی ہیرے جواہرات پانے تھے۔ مگر اسے چند کروڑ روپے مالیت کے ہیرے ہی موصول ہوئے۔ یوں ہری پرشاد کو ٹھگ لیا گیا۔ہری پرشاد نے پولیس سے مدد لی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ پولیس نرو مودی جیسی طاقتور ہستی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ مجبور ہوکر بیچارے ہری نے وزیراعظم مودی سے رجوع کیا اور ان کے دفتر کو تحریری شکایت دی۔ مگر وزیراعظم ہاؤس نے بھی یہ شکایت نظر انداز کردی اور کرپٹ نرو مودی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا۔
جب نرو مودی اور اس کے ساتھیوں کو احساس ہوگیا کہ اب ان کی لوٹ مار مزید نہیں چل سکتی، تو وہ وسط جنوری 2018ء میں بیوی بچوں سمیت بیرون ملک فرار ہوگئے۔ نرو مودی کی بے غیرتی ملاحظہ کیجیے کہ وہ اخیر جنوری میں ڈیوس، سوئٹزر لینڈ پہنچ گیا جہاں بھارتی وزیراعظم بھی ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کرنے پہنچے ہوئے تھے۔ جب وزیراعظم مودی نے بھارتی صنعت کاروں اور کاروباریوں کے ساتھ گروپ فوٹو کھنچوائی تو نرو مودی بے غیرت بھی کھڑا مسکرا رہا تھا۔
یہ تصویر یہ سچائی آشکارا کرتی ہے کہ بھارت کو عالمی سپرپاور بنانے کے جنون میں وزیراعظم مودی ملکی حالات سے بے خبر ہوچکے۔ وہ ہر وقت چین اور پاکستان کو نیچا دکھانے کی چالیں سوچتے رہتے ہیں جبکہ کرپٹ بھارتی صنعت کار اور کاروباری اپنی چال بازیوں سے دن دیہاڑے سرکاری خزانہ لوٹ رہے ہیں۔ یہ بعید نہیں کہ جب مودی اقتدار اختتام کو پہنچنے گا، تو یہ تلخ حقائق سامنے آئیں کہ مودی دور میں بھی کئی مالیاتی سکینڈلوں نے جنم لیا مگر بوجوہ ان سے پردہ پوشی برتی گئی۔
اکثر ترقی پذیر ممالک کی طرح بھارت میں بھی سرکاری اداروں کا برا حال ہے۔ کوئی بھی چالاک و عیار ملازم تنہا یا ساتھیوں کو ملا کر کرپشن کرلیتا ہے اور چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے بچ نکلتا ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں انتظامیہ چیک اینڈ بیلنس رکھتی ہے، اسی لیے ان میں کرپشن کے واقعات بہت کم جنم لیتے ہیں۔بھارت میں طاقت ور سیاست داں، صنعت کار اور سرکاری افسر سرکاری بینکوں سے قرضے لیتے اور کھاپی جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، بھارتی سرکاری بینک قرضے واپس نہ ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ ڈوب رہے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ نرو مودی کی کرپشن کے باعث جلد یا بدیر لاہور میں جنم لینے والا پنجاب نیشنل بینک بھی ایک دن قصہ پارینہ بن جائے۔ نرو مودی جیسے بے شرم اور لالچی لوگ ہی ایک قوم کی تباہی و زوال کا سبب بنتے ہیں۔ ہر قوم کو ایسے گھٹیا مرد وزن سے ہوشیار و چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
بینکاری کا انوکھا فراڈ
پاکستان میں بھی منڈی بہاؤالدین میں پچھلے دنوں بینک فراڈ کا انوکھا واقعہ سامنے آیا۔ ہوا یہ کہ پھالیہ روڈ پر پنجاب بینک کی شاخ واقع ہے۔ وہاں ایک سال قبل صداقت علی نامی منیجر تعینات ہوا۔ جلد اسے پتا چل گیا کہ بینک اکاوئنٹ ہولڈروں کی اکثریت ناخواندہ اورمعصوم ہے۔ اس لالچی آدمی نے ان کی معصومیت سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔اس نے بینک شاخ کے متعلقہ ملازمین کو ساتھ ملایا اور جعلی رسیدیں تیار کرلیں۔ جب کوئی ناخواندہ اکاؤنٹ ہولڈر اپنی رقم جمع کرانے آتا، تو وہ پیسے لے کر اسے جعلی رسید تھما دیتے۔
یوں رقم بینک میں جمع نہ ہوتی بلکہ صداقت گوندل اینڈ کو کی جیبوں میں پہنچ جاتی۔بے خبری اور شعور نہ ہونے کے باعث اس عیار ٹولے کو ایک برس تک معصوم لوگوں سے لوٹ مار کرنے کا موقع مل گیا۔خبروں کے مطابق فراڈ کے ذریعے ٹولے نے کروڑوں روپے لوٹ لیے۔مزید براں جعلی چیکوں سے بھی ناخواندہ اکاؤنٹ ہولڈروں کے اکاؤنٹس سے رقم نکلوائی گئی۔ایف آئی اے نے صداقت علی سمیت شاخ کے سات کرپٹ ملازمین کو گرفتار کر لیا ہے۔
The post بھارت کا سب سے بڑا مالیاتی اسکینڈل appeared first on ایکسپریس اردو.