خوب صورت دوپٹہ لباس کی جاذبیت کو اُجاگرکرتا ہے۔ کچھ رنگوں کے میچنگ دوپٹے مارکیٹ میں دست یاب نہیں ہوتے۔ اس لیے خواتین اپنے لباس کی مناسبت سے رنگ کا انتخاب کرکے ان کو ڈائی کرا لیتی ہیں، لیکن کئی بار وقت کی کمی کی وجہ سے بازار کا چکر لگانا ممکن نہیں ہوتا۔ اس صورت میں کپڑے ڈائی کرنے یعنی رنگنے کا اہتمام گھر پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ سوتی، لیلن، ریشمی اور اونی ملبوسات رنگوں کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ملبوسات کے کچھ حصے جیسے بٹن، زپ وغیرہ نہیں رنگے جاتے ہاں البتہ کپڑے کے بنے بٹن رنگے جاسکتے ہیں، مگر انھیں الگ سے رنگنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کپڑے رنگنے کے لیے کچھ چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ اس بات کا دھیان رکھیں کہ آپ کس قسم کا رنگ کرنا چاہتی ہیں۔ اس کے لیے جوچیز آپ کے پاس موجود ہونی چاہیے وہ مطلوبہ رنگوں کی کٹ ہے جو مارکیٹ میں سلوشن کی صورت میں مل جاتی ہے۔
رنگنے یا ڈائی کے عمل کی شروعات قمیص رنگنے سے کرتے ہیں۔ اس کے لیے آپ قمیص کو پانی میں ڈبو کر ہلکا سا گیلا کرلیں۔ پھر ایک میز پر اخبار بچھائیں اور قمیص اس پر پھیلا دیں۔ اپنے دونوں ہاتھوں پر پلاسٹک کے دستانے چڑھا لیں اور لباس کو چھینٹوں سے بچانے کے لیے اپیرن پہن لیں تو زیادہ بہتر ہے۔ اب قمیص پر شہادت کی انگلی رکھ کر اسے دائرے میں حرکت دیں۔ ایسا کرنے سے قمیص مرغولہ نما شکل اختیار کرلے گی۔
اب اس پر پانچ یا چھے ربڑ باندھ دیں اور اس طریقے سے باندھیں کہ ہر ربڑ سب حصوں کو الگ سے نمایاں کرے ۔ اب کلر ز کی کٹ اٹھائیں اور اپنی پسند کے سبھی رنگ ترتیب سے یکے بعد دیگرے ربڑ بینڈکے ہر حصے پراچھی طرح چھڑک دیں۔ رنگوں کے چھڑکاؤ کے بعد قمیص کو کم سے کم پانچ گھنٹے کے لیے اسی طرح پڑے رہنے دیںاور پھر سارے ربڑ اتار کر اس کو احتیاط سے دھوکرلیں۔ دھلنے کے بعد آپ اپنی قمیص کی دل کشی دیکھ کر حیران رہ جائیں گی اور آپ کا دل مزید کپڑے رنگنے کے لیے بے تاب ہوجائے گا۔ قمیص کے ڈیزائن کا راز ربڑ میں چھپا ہے۔ آپ ربڑ کو جس طرح سے بھی موڑیں گی اسی طرح کے ڈیزائن بنتے چلے جائیں گے۔
آپ زگ زیگ شکل میں بھی ربڑ باندھ کر قمیص رنگ سکتی ہیں۔ پہلے پہل آپ کو کچھ مشق کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ فالتو کپڑوں کو رنگ پہلے ہاتھ پختہ کریں اور جب آپ کو یقین ہوجائے کہ آپ اس عمل میں مہارت حاصل ہوچکی ہیں تو پھر قمیص پر طبع آزمائی کریں۔
چھوٹے بچوں کی شرٹس پر ستاروں اور دل کی شکل کے منفرد ڈیزائن بھی سامنے آرہے ہیں جو رنگائی کے بعد بہت پرکشش لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ بستر کی چادروں کو بھی اپنے کمرے کی کلر اسکیم کے حساب سے رنگ سکتی ہیں ۔ پردے اور سوفے کے کور بھی مختلف انداز سے رنگے جاسکتے ہیں۔ ان کی رنگائی کے لیے آپ چاول، مکئی اور چنے کے دانے بھی استعمال کر سکتی ہیں۔
ہر دانہ الگ الگ کپڑے میں تھوڑے فاصلوں پر موٹے دھاگے سے باندھ دیا جاتا ہے۔ دھاگے کو اتنے بل دیے جاتے ہیں کہ رنگ اس میں گزر کر کپڑے تک نہ پہنچے۔ جب سارے کپڑے پر یہ دانے بندھ جائیں تو اس پر رنگین محلول کر دیا جائے پھر تھوڑی دیر بعد نکال کر اسی حالت میں سکھایا جائے۔ اچھی طرح سوکھ جائے تو اس کے دھاگے کھول دیں۔جوں جوں دھاگے کھلتے جائیں گے اسی طرح کپڑے پر خوش نما ڈیزائن بنتا چلا جائے گا ۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کو اپنی مرضی کے رنگوں کا انتخاب کرنے میں بھی آسانی ہو جائے گی اور دوسرا اپنے کمروں کی چادروں ، الماریوں کے پردوں کو بھی رنگا رنگ بناسکتی ہیں۔
اس طرح دوپٹوں کو بھی رنگا جاسکتا ہے۔ ایک سفید سوتی دوپٹہ لے لیجیے۔ اس کی دہری تہہ لگا کر دونوں طرف سے برابر کر لیں اور پھر تیسری تہہ لگا کر ایک ربڑ باندھ کردوپٹے کے دو حصے کرلیں۔ اگر ایک حصہ سفید ہی رکھنا ہے تو اس کو اپنی طرف رکھیں اور دوسرے حصے پر اپنے میچنگ کلر کا سپرے سلوشن نکال کر چھڑکاؤ کریں پھر ایک آدھ گھنٹے کے لیے رکھ دیں۔ اس کے بعد رنگین حصہ دھو لیں مگر اس کام کو بہت احتیاط سے کریں تاکہ رنگ سفید حصے کی طرف نہ جائے ورنہ ساری محنت اکارت جائے گی اور رنگین حصے میں بد نظمی دکھائی دے گی ۔اگر دونوں حصوں کو رنگنا ہے تو اسی طرح دوسرے کو بھی من پسن رنگوں میں رنگ لیں۔
دوپٹے کی خوش نمائی کے لیے قوس قزح جیسے بہت سے انداز سامنے آ رہے ہیں۔ اس ترکیب میں ساتوں رنگ بھی دائرے کی شکل میں گھومائے جا سکتے ہیں، جس کے بعد دوپٹے کی زینت دیکھنے والی ہو گی۔آپ کے کئی ملبوسات کے ساتھ اس کی میچنگ بھی ہو جائے گی۔ قمیص اور دوپٹے کی طرح شلوار یا ٹراؤزربھی رنگے جاسکتے ہیں۔ لائننگ ڈائی اس سلسلے میں مقبول ہو رہی ہے جو انتہائی خوب صورت نظر آتی ہے۔ اس طرح شلوار یا ٹراؤزر رنگتے ہوئے رنگوں کے انتخاب کا خاص خیال رکھیں ۔ شوخ رنگ استعمال کریں اور پھیکے رنگوںسے گریز کریں کیوںکہ لائننگ میں وہی رنگ زیادہ ابھرتے ہیں جو جاذب نظر اور شوخ ہوں۔ کپڑے خود رنگنے سے نہ صرف آپ کی میچنگ کے مسائل ختم ہوں گے بلکہ آپ کا وارڈروب بھی بہت سے رنگوں سے سج جائے گا۔
The post بازار کیوں جائیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.