Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4746 articles
Browse latest View live

لفظ بھی ہیں شطرنج؛ ہر مُہرہ سوچ سمجھ کے چلنا ہوگا

$
0
0

’’زندگی لفظوں کی شطرنج ہے۔‘‘ ابنِ صفی نے زندگی کی عملی تفسیر پانچ لفظوں میں بیان کردی تھی۔

یہ سچ ہے کہ ہم زندگی کی بساط پر لفظوں کے مُہرے آگے پیچھے کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہر کام، ہماری ہر بات، ہمارے ہر معاملے میں کام یابی اور ناکامی کا دارومدار لفظوں کے انتخاب اور استعمال پر ہوتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ ہو۔ کوئی بھی قوم، نسل، ملک یا قبیلہ ہو۔ اپنی مخصوص زبان، بولی اور ثقافت رکھتا ہے۔ زبان کاBONDاس قوم اور قبیلے کے تمام افراد کو ایک لڑی میں پروئے رکھتا ہے۔

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُسی فرد سے دِل کی باتیں Share کی جاسکتی ہیں، جو ہماری بولی اور زبان سمجھتا  اور جانتا ہو۔ کسی دوسرے ملک یا دوسری بستی میں جہاں کے رہنے والے ہماری زبان نہ جانتے ہوں، وہاں ہم کئی سال رہنے کے باوجود خود کو اجنبی اور اس جگہ کے لوگوں سے لاتعلق ہی سمجھتے ہیں اور جوں ہی ہمیں اُس اجنبی بستی میں اپنا ہم زبان ملتا ہے تو ہم والہانہ وارفتگی سے اُسے جپھیاں ڈالنے لگتے ہیں۔ خواہ وہ ہمارے اپنے علاقے میں ہمارے پڑوس میں ہی رہتا ہو اور اس سے ہماری خاندانی دشمنی ہی کیوں نہ چل رہی ہو۔

زبان کا تعلق دُشمن کو بھی دوست بنا دیتا ہے۔ لیکن دوستی اور دشمنی کے تعلق میں محض ہم زبان ہونے کا رشتہ کام نہیں کرتا۔ ہم، زبان کا کب، کیا اور کیسے استعمال کرتے ہیں، یہ Count  کرتا ہے۔ ہم اپنی زبان میں موقع محل کی مناسبت سے کب، کون کون سے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ الفاظ کا ہر وقت چناؤ ہی ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے یا ہمیں ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔

بولے گئے اور لکھے گئے لفظ دُنیا کے ہر خطّے کے ہر انسان کو براہِ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر کرتے ہیں۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ہمارا، ایک دوسرے سے رابطہ، بات چیت، گفتگو یا تحریروں سے رہتا ہے۔ ڈھائی تین سال کی عمر سے بچّے کو بولنا اور پڑھنا سکھایا جاتا ہے، حرف سے لفظ اور الفاظ سے جملوں تک۔ پیار، محبت ، توجہ اور خیال سے بچّے کو ایک ایک لفظ سکھا کر بولنا سکھایا جاتا ہے۔ بچّے کا دماغ، سادہ سلیٹ کی طرح ہوتا ہے۔ وہ جس زبان میں جو الفاظ سنتا ہے، وہ اُس کے دماغ میں محفوظ ہوتے چلے جاتے ہیں۔

ان الفاظ کی تکرار بچّے کی یادداشت میں ان کی  Mirror Copy بناتی چلی جاتی ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے جب بچّہ پہلے اٹک اٹک کر اور پھر، فرفر سنے ہوئے لفظ دہرانا شروع کردیتا ہے۔ اسے اس عمر میں نہ ان لفظوں کے معنی پتا ہوتے ہیں۔ نہ مفہوم۔ آہستہ آہستہ سال بہ سال اس کی Vocabulary میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ اسے لفظوں کے معنی اور مفہوم بھی سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔

اُس سے کہا جاتا ہے اُٹھ جاؤ، وہ اُٹھ جاتا ہے، بیٹھ جاؤ‘ وہ بیٹھ جاتا ہے، ’آنکھیں بند کرو، وہ آنکھیں بند کرلیتا ہے۔اِسی طرح وہ چیزوں کے نام لیتا ہے اور اپنی ضرورت کے تحت پانی، دودھ  بسکٹ مانگنا شروع کردیتا ہے۔ جوں جوں حرف شناسی کا عمل بڑھتا ہے۔ لفظ، جملوں کی شکل اور جملے، پیراگراف کی شکل میں ڈھلنے لگتے ہیں۔

دس سال کی عمر تک بچیّ کا دماغ کچا اور پوری طرح Receptive ہوتا ہے۔ اس عمر تک اس کے دماغ کے خلیات ہر اچھی بری بات، ہر سُنی، ہر پڑھی، ہر دیکھی بات اپنے اندر اسٹور کرتے چلے جاتے ہیں۔ پھر18  تا 20 سال کی عمر تک ہمارا دماغ واضح پختہ شکل اختیار کرتا ہے اور باقی ماندہ عمر عام طور پر اسی خاص شکل میں رہتا ہے۔ ماسوائے مخصوص حالات یا مخصوص واقعات یا حادثات کی صورت میں، جب صورت حال، واقعہ یا حادثہ، ماضی کی گذشتہ Learning سے زیادہ بھاری ہو یا زیادہ Effective ہو۔

دس سال کی عمر سے لے کر باقی تمام عمر تک پھر ہمارا دماغ اور ہمارا ذہن الفاظ کا اسیر رہتا ہے۔ ہماری سوچ، ہمارے جذبات، ہمارے رہن سہن کے طور اطوار، ہمارا لباس، ہماری آرائش وزیبائش، ہمارے کھانے پینے اور برتنے کی چیزیں، ہمارے ایک دوسرے کے ساتھ ہر طرح کے ذاتی، کاروباری، سماجی، تعلقات، معاملات، یہاں تک کہ ہماری بھوک پیاس جنسی خواہش اور نیند کا Pattern اور انتہا یہ کہ ہمارے خواب، سب کے سب سیکھے ہوئے، سنے ہوئے، دیکھے ہوئے، پڑھے ہوئے الفاظ کے زیراثر پرورش پاتے ہیں۔

ہماری زندگی کے تمام رنگ اور تمام دائرے لفظوں کی روشنی ہی میں مرتب ہوتے ہیں۔  ہماری محبتیں، ہماری نفرتیں، ہمارے روّیے، ہمارے افعال الفاظ کی گھمن گھیریوں کے مرہون مِنّت ہوتے ہیں۔ ہماری سوچ، لفظوں کی مدد سے پروان چڑھتی ہے۔ ہماری شخصیت، ہماری نفسیات، ہمارا کردار، الفاظ کی اینٹوں سے ترتیب پاتا ہے اوربنتا یا بگڑتا ہے۔

لفظ ہی ہماری زندگی کی تعمیر کرتے ہیں۔ لفظ ہی ہماری زندگی میں تخریب پیدا کرتے ہیں۔  الفاظ کے صحیح چُناؤ سے ہم تحریک پاتے ہیں۔ الفاظ کا نامناسب انتخاب ہماری طاقت وتوانائی کو سلب کردیتا ہے اور ہمیں Detrack کرکے پیچھے کی طرف بھیج دیتا ہے۔

ہر لفظ کی اپنی خاص ماہیت، خاص سائیکی، خاص روح ہوتی ہے۔ ایک خاص طاقت ہوتی ہے، جس سے  ہمیں ہزاروں لفظوں کے معنی آتے ہیں اور ہزاروں لفظوں کا مفہوم سمجھ میں آجا تا ہے۔ لیکن اسی صورت میں، جب یہ لفظ ہماری اپنی زبان میں ہوں۔ مگر اپنی ہی زبان کے ایسے ہزاروں مشکل الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں ہمیں جن کے معنی نہیں آتے اور ہمیں ان کے معنی جاننے کے لیے لُغت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اب دیکھیں!  اِسی پیراگراف میں کم از کم تین لفظ ایسے ہیں جن کے معنی ذرا مشکل ہیں۔ اور شاید کچھ افراد کو ان کے معنی نہیں آتے ہوں گے ’’ماہیت‘‘،’’لُغت‘‘، ’’رجوع۔‘‘

الفاظ کی صحیح روح اور طاقت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں ان کے معنی اور مفہوم پتا ہونا چاہییں اور پھر یہ علم ہونا چاہیے کہ ہمیں اپنی گفتگو میں، اپنی باتوں اور تحریروں میں کب کس لمحے کون سا لفظ استعمال کرنا ہے۔ کب، کون کون سے الفاظ استعمال کرنے سے ہماری بات چیت اور گفتگو زیادہ موثر اور زیادہ متحرک ثابت ہوسکتی ہے۔ کون کون سے الفاظ مخاطب کی نفسیات پر کیسا اثر ڈال سکتے ہیں یا ڈالتے ہیں۔ اپنی باتوں میں کون کون سے الفاظ سے گریز کرنا ہے۔ ایسے لفظ جو سننے والوں کو ناگوار گزریں یا ان کے لیے ناپسندیدہ ہوں۔

سوچے سمجھے بِنا جو بات کی جاتی ہے، اس میں اکثر اوقات ایسے لفظ، ایسے جُملے شامل ہوجاتے ہینَ جو سامع کا دل دُکھا دیتے ہیں یا اسے پسند نہیں آتے۔ اسی لیے دنیا کے ہر مذہب، ہر تہذیب، ہر قوم، ہر نسل کے دانا اور بزرگ یہی کہتے آئے ہیں کہ ’’پہلے تولو، پھر بولو‘‘۔ اور یہ کہ ’’جوں جوں دانائی بڑھتی ہے، گفتگو کم ہوتی جاتی ہے۔‘‘ اور یہ کہ ’’جو زیادہ بولتا ہے وہ اپنے راز کھولتا ہے۔ اور جو اپنے راز کھولتا ہے وہ اپنے ارادوں میں ناکام ہوتا ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’تلوار کا گھاؤ بھر سکتا ہے، زبان کا گھاؤ نہیں بھرسکتا۔‘‘ اور اسی نوعیت کی ہزاروں حکمت و فراست سے بھرپور باتیں۔ ان سب باتوں میں ایک نکتہ مشترک ملے گا۔  ہماری زندگی، شخصیت، نفسیات کو توانائی و تازگی پہنچانے کا۔ ہمارے کردار کو مضبوط اور مثبت بنانے کا۔ ہماری روح ، ہمارے دل، ہمارے ذہن کو طاقت ور بنانے اور متحرک، ہشاش بشاش رکھنے کا اور ہمیں اپنی کم زوریوں پر قابو پانے اور ناکامیوں سے دامن بچاکر کام یابیوں کے راستے پر چلنے کے گُر سکھانے کا۔

بڑے بوڑھے بزرگ دانش ور اپنے اپنے زمانوں میں اپنی اپنی زبانوں میں، آنے والے تمام زمانوں اور تمام نسلوں کے لیے بہترین زندگی گزارنے اور کام یابیوں کی منازل طے کرنے کے لیے جو اصول مرتب کرگئے، وہ تمام کے تمام بھرپور روح اور Dynamic  سائیکی سے لبریز الفاظ پر مشتمل ہیں۔ ایک ایک لفظ، اس طرح ایک دوسرے سے مربوط ہے کہ ایک لفظ کو بھی الگ کرنے سے پوری لڑی بکھر جاتی ہے۔

الفاظ کے انتخاب کا حُسن توازن اُن کے Impact  کو بڑھاتا ہے اور سننے اور پڑھنے والوں کے ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہاں تک کہ بولنے اور لکھنے والے بھی اپنے کہے اور لکھے لفظوں کی جادوئی تاثیر سے نہیں بچ پاتے اور جلد یا بدیر اپنی ہی باتوں کی عملی تفسیر بن جاتے ہیں۔

اسی لیے کہا گیا ہے ’’ بُرانہ بولو، بر انہ سنو، بُرا نہ دیکھو۔‘‘ ہم جو بولتے، جو سنتے، جو دیکھتے ہیں، آہستہ آہستہ انہی باتوں اور چیزوں کے رنگ میں رنگتے چلے جاتے ہیں۔ ہر وہ بات جو ہمارے ذہن کو جِلادیتی ہے اور قلب میں گداز پیدا کرتی ہے، ہماری شخصیت کے نکھار میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور ہمیں اعتدال اور توازن سے قدم بہ قدم، زینہ بہ زینہ کام یابی و کام رانی کی سیڑھیاں چڑھنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔

لیکن ہم تن وتنہا کبھی بھی، کسی بھی طرح کی کامیابی نہیں حاصل کرسکتے۔ ہمیں زندگی کے ہر قدم پر ہمیشہ اپنی طرح کے اِنسانوں کی مدد اور تعاون درکار ہوتا ہے۔ یہ مدد اور تعاون اُسی وقت ہمارے لیے Effective ہوتا ہے، جب ہم اپنے تعلقات اور معاملات، رشتوں اور رابطوں میں متناسب، مضبوط، مثبت اور متحرک لفظوں کے Concret کی بنیادیں رکھتے ہیں۔

کھوکھلے، بودے اور روح اور سچائی سے خالی لفظ وقت گزاری اور دِل بہلانے کے لیے تو چل جاتے ہیں، لیکن ان کے مستقل استعمال کی بنیاد پر کبھی بھی، کسی بھی طرح کے تعلق اور رابطے میں جان نہیں پیدا ہوپاتی۔ ہمارے دماغ کے Receptive Cells  انہیں اپنے اندر Store نہیں کرپاتے اور ہمارے ذہن کا قدرتی Filter System اس طرح کے لفظوں کو باہر دھکیلتا رہتا ہے۔

ہر انسان فرشتہ صفت دنیا میں پیدا ہوتا ہے اور فطرتاً معصوم ہوتا ہے۔ والدین، بہن بھائیوں، رشتہ داروں، اُستادوں، محلّہ داروں اور ہم عُمر ساتھیوں کے رویّے اور باتیں اور کچھ سالوں بعد کارٹونز، فلموں، ڈراموں اور کتابوں کے کرداروں کے ڈائیلاگ ہمارے ذہن اور ہماری سوچ کو خاص شکل میں بدلنا شروع کردیتے ہیں۔

ہمارے اطراف کا ماحول اگر اچھا ہوتا ہے اور ہم شروع سے اچھی باتیں سنتے اور اچھے رویّے دیکھتے آتے ہیں تو شعور سنبھالنے کے ساتھ ہم لاشعوری طور پر زندگی کے اچھے راستوں پر چلنا شروع کردیتے ہیں، لیکن اگر ہم نے بچپن سے ہی بُری زبان اور گالی گلوچ سنا ہو اور اپنے بڑوں کو ہمیشہ آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھا ہو اور ہمارے چاروں طرف ہر چھوٹا بڑا اپنی اپنی زبان کے تیروں بھالوں اور تلواروں سے ہر کسی کو مجروح کرتا ہوا ملا ہو تو بچپن، لڑکپن اور نوجوانی کے بار بار کے سُنے ہوئے منفی الفاظ اور برتے ہوئے کسیلے رویّے ہمارے دل و دماغ میں ہمیشہ کے لیے پیوست ہوجاتے ہیں اور ہم اپنے آپ اور اپنے ماحول کو بدلنے کے بجائے، سنوارنے کی بجائے معاشرے کے اُسی اُلٹے گھومنے والے منفی Cycle کا حصّہ بن جاتے ہیں، جو لفظوں اور رویّوں کی اصل حقیقت اور طاقت کو جانے اور اپنائے بِنا لوگوں کی اکثریت پر مشتمل ہوتا ہے۔

ہمارا خود شکستہ رویّہ Self Destructive Behaviour منفی اور تخریبی الفاظ اور ناشائستہ رویّوں کے بیچ رہنے اور مستقل رہے چلے جانے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ رویّہ ہمارے راستے کی دیوار بن جاتا ہے۔ ہم کو بسا اوقات اپنا یہ ماحول، اپنا یہ رویّہ، اپنا رہن سہن خود اچھا نہیں لگتا۔ ہمیں اسے بدلنا چاہتے ہیں۔ ہم خود کو بھی بدلنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس طرح رہنے سے گھِن بھی آتی ہے۔ ہمیں ان سب باتوں سے نفرت بھی ہوتی ہے۔ ان سب باتوں اور رویّوں کی وجہ سے ہم ناآسودہ اور ناخوش بھی رہتے ہیں، مگر کچھ بھی اچھا نہیں ہوپاتا۔ ہماری ہر کوشش رائیگاں جاتی ہے۔ ہم کو لہو کے بیل کی طرح ایک Routine Life گزارتے رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

اور ان سب باتوں کے پیچھے، پسِ پردہ ہماری اور ہم سے Related لوگوں کی باتیں ہوتی ہیں۔ لوگوں کی باتوں کے ڈائنامائیٹ کے بارود کی طرح کے الفاظ ہوتے ہیں، جو ہماری ہر خواہش، ہر سوچ، ہر جذبے، ہر کوشش کو پل بھر میں جلا کر راکھ کا ڈھیر کردیتے ہیں۔اور ہم ہر ایسے لمحے کے بعد تنہائی میں اور یا پھر یاروں دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر مایوسی، ناامیدی اور ناشکری کی باتیں کرکے اپنا غم غلط کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ حالات واقعات اور ناسازگار ماحول اور معاشرتی خرابیوں کا شکوہ کرنے لگتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ قدرت کو بھی موردِالزام ٹھہراکر شکایتوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

یہ سب اور اس طرح کی دیگر منفی باتیں خواہ ہماری زبان پر آئیں یا ہمارے دل میں رہیں یا ہماری سوچ کو مجروح، مشتعل اور مضطرب کرتی رہیں۔ یہ باتیں درحقیقت انگاروں کی طرح جلادینے والے منفی الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہیں، جِن کی زد میں آکر ہماری فطری معصومیت اور فرشتہ صفتی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے منہ موڑ لیتی ہے۔

لفظ تریاق بھی ہوتے ہیں۔ لفظ زہریلے بھی ہوتے ہیں۔ لفظوں کا مرہم دِل کے زخموں کو Heal کرتا ہے اور لفظوں کا زہر ہماری روح اور سوچ کے اندر اُتر کر ہماری اپنی زبانوں اور رویّوں کو گنجلک اور کثیف کردیتا ہے۔ لفظ پاکیزہ بھی ہوتے ہیں۔ لفظ زہرآلود بھی ہوتے ہیں۔ ہر دو صورت، لفظوں کی طاقت سے کوئی بھی منہ نہیں موڑ سکتا۔ نہ اِس حقیقت کے اعتراف میں کسی کو انکار ہوسکتا ہے۔

لفظوں کی طاقت مثبت بھی ہوتی ہے اور منفی بھی۔ دنیا کا سب سے طاقت ور منفی لفظ ’’No‘‘  ’’نہیں‘‘ ہے۔ اور سب سے طاقتور مثبت لفظ ’’Yes‘‘  ’’ہاں‘‘ ہے۔

اگر ہماری پرورش، تعلیم، تربیت، Learning، Grooming، Training میں  ’’نہیں‘‘ کا استعمال بے تحاشہ ہوا ہے تو ہماری بنیاد میں تمام لفظوں اور ان لفظوں سے وابستہ تمام جذبوں، سوچوں، باتوں اور روّیوں میں لامحالہ الفاظ کی منفی طاقت کے اثرات نمایاں ہوں گے۔ شعور اور گیان کی سطح پر پہنچنے کے باوجود اگر ہم اپنے دِل اور دماغ کے اندر پیوست ’’نہیں‘‘ کو باہر نکال کر نہیں پھینکیں گے اور اس بات کی حقیقت کو نہیں سمجھیں گے، نہیں مانیں گے کہ ’’Never Say Never Again‘‘

’’پھر کبھی نہیں، نہیں، نہیں کہنا‘‘ تو ہم تمام عُمر منفی الفاظ اور الفاظ کی منفی طاقت کے سَحر سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔

ہم اپنے بچپن اور لڑکپن کی ابتدائی پرورش اور تعلیم و تربیت اور گھر کے ماحول اور اپنے بڑوں کے روّیوں اور سلوک کے ذمے دار ہرگز نہیں۔

لیکن اگر ہم علم، شعور، فہم اور ادراک کے ایسے Level پر آچکے ہیں کہ اس طویل، خشک اور سنجیدہ مضمون کے موجودہ حصّے کو پڑھ رہے ہیں تو یقین کیجیے کہ ہمارے اندر واقعی خود کو بدلنے اور منفی الفاظ اور منفی روّیوں کی زنجیروں سے آزاد ہونے کی خواہش بیدار ہورہی ہے، بیدار ہوچکی ہے۔

جی ہاں! اب ہم ’’نہیں‘‘ سے ’’ہاں‘‘ کی دنیا میں قدم رکھنے جارہے ہیں۔ مثبت الفاظ اور الفاظ کی مثبت طاقت کو اپنانے جارہے ہیں، کیوںکہ ہم پڑھ رہے ہیں۔ لفظوں کے معنوں، لفظوں کی سائیکی سے اپنی سائیکی کو Align  کررہے ہیں۔ لفظوں کی مثبت اور منفی طاقت سے واقف ہورہے ہیں۔

یہ آگہی ہمیں منفی لفظوں، منفی باتوں، منفی روّیوں کے چنگل سے پیچھا چھڑانے میں مدد دیتی ہے اور ہمارے ذہن اور اعصاب کو طاقت دیتی ہے۔ مطالعہ اور مطالعے کی عادت وہ ہتھیار ہے جو از خود ہمارے ذہن کی زمین میں اُگنے والے منفی الفاظ اور منفی روّیوں اور منفی سوچوں کی کانٹ چھانٹ کرتا رہتا ہے، خودکار طریقے سے۔

مطالعے کی عادت ہمارے دل، دماغ اور روح کی تمام کیاریوں، تمام کھلواریوں، تمام کھلیانوں اور کھیتوں میں خودکار نظام کے تحت مثبت الفاظ اور الفاظ کی مثبت طاقت کے بیجوں کی مستقل آبیاری کرتی رہتی ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے جب ہم Productivity  اور Positivity کے اُس مقام پر آجاتے ہیں۔ جہاں سے ہمارے تمام معاملات اور تعلقات میں سُدھار آجاتا ہے اور ہمارے تمام کام خوش اسلوبی اور آسانی سے ہونے لگتے ہیں اور ہم کو اپنے Goals ، اپنے Aims، اپنے Objectives میں کام یابی ملنا شروع ہوجاتی ہے۔

دنیا کا کون سا ایسا فرد ہوگا جو کام یاب نہیں ہونا چاہتا۔ ہم سب زندگی کے ہر ہر مقام پر اپنے ہر کام میں کام یاب ہونا چاہتے ہیں، لیکن کام یابی کے حصول کے لیے ہمیں لفظوں کی شطرنج سیکھنی ہوگی۔ کب کس لفظ کے مُہرے کو آگے بڑھانا ہے۔ کب کِس لفظ کو بساط سے اٹھانا ہے۔ بادشاہ کو بچانے کے لیے اپنے کون کون سے لفظوں کے مہروں کی قربانی دینی ہے۔

آگے بڑھنے کے لیے، اپنے راستے کی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے، اپنے مقصد کو پانے کے لیے کون کون سے منفی لفظوں کا مہروں کو پیٹنا ہے اور اپنے مثبت لفظوں کی چال سے کس طرح اپنے اندر چُھپے ہوئے اپنے سب سے بڑے دشمن کو شہہ مات دینی ہے۔اب تو آپ جان گئے ہوں گے۔ ہمارا سب سے بڑا دُشمن ہمارے اندر ہی موجود ہو تا ہے۔  ’’No‘‘ کی شکل میں۔ ’’نہیں‘‘ کی صورت میں۔

پڑھتے رہیے اور پڑھتے رہیے۔ ’’نہیں‘‘ کے مُہرے آہستہ آہستہ پٹتے رہیں گے۔  ’’ہاں‘‘ کے مُہرے آگے بڑھتے رہیں گے۔ تاوقتے کہ مات نہ ہوجائے۔ یہ ہم پر ہے کہ آخری بازی کون جیتتا ہے۔ ہماری ’’ہاں‘‘ یا ہماری ’’نہیں۔‘‘

سارا کھیل ہی لفظوں کا ہے۔ پہلی بازی سے آخری چال تک۔ نیکی بدی،  دِن رات، روشنی تاریکی کی طرح لفظوں کے سفید و سیاہ مُہرے اپنی مثبت اور منفی چالوں کے ساتھ ہمارے اند اور ہمارے باہر، ہمیں مضبوط یا کم زور بنارہے ہیں۔ شاطر کھلاڑیوں کو علم ہوتا ہے کہ کب کون سی چال چلنی ہے اور اناڑی سوچتے رہ جاتے ہیں۔ ’’ہاں‘‘  یا  ’’نہیں‘‘  میں اُلجھے رہتے ہیں اور بازی ہار جاتے ہیں۔

The post لفظ بھی ہیں شطرنج؛ ہر مُہرہ سوچ سمجھ کے چلنا ہوگا appeared first on ایکسپریس اردو.


بھارت نے لوڈشیڈنگ پر کیسے قابو پایا؟

$
0
0

دورجدید میں دو اشیا… تیل اور بجلی نے انسانی ترقی و زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھا ہوا ہے۔ چناں چہ انسان دونوں میں سے ایک شے سے محروم ہو تو کاروبارِ حیات ٹھپ سا ہوجاتا ہے۔ جب بھی موسم گرما آئے، تو بجلی کی قلت کے باعث لوڈشیڈنگ ہونے سے کروڑوں پاکستانی متاثر ہوتے ہیں۔ ان میں وہ پاکستانی بھی شامل ہیں جو کارخانوں، دکانوں، دفتروں میں روزانہ کمائی کرکے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ ان کے ذریعہ معاش کو ملیامیٹ کرڈالتی ہے۔

حیرت انگیز امر یہ کہ لوڈشیڈنگ نے ایسے ملک پر حملہ کررکھا ہے جہاں نظریاتی طور پر پانی، سورج ، ہوا اور کوئلے کے ذریعے سالانہ ’’لاکھوں‘‘ میگاواٹ بجلی بن سکتی ہے۔ گویا قدرت نے ارض پاک کو جی بھر کر قدرتی نعمتوں سے نوازا ہے۔ افسوس بس یہ کہ پاکستانی قوم کو باصلاحیت، اہل اور باشعور حکمران طبقہ میسر نہیں آسکا۔ راقم کو یاد ہے، تیس پینتیس سال قبل جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں پہلے پہل پاکستانی لوڈشیڈنگ کے عذاب کا نشانہ بنے تھے۔ تب سے حکمران طبقے کی نااہلی اور مستقبل سے پہلو تہی برتنے کے باعث پاکستانی قوم وقتاً فوقتاً اس عجیب و غریب عذاب میں مبتلا ہوکر تکالیف اٹھاتی چلی آرہی ہے۔

بجلی کی مقدار بڑھانے کی خاطر ہونا یہ چاہیے تھا کہ مزید ڈیم بنائے جاتے۔ یہ دنیا بھر میں بجلی پانے اور پانی بچانے کا سستا و سہل طریقہ ہے۔ مگر پاکستانی حکمرانوں نے تیل سے چلنے والے بجلی گھر لگانے کو ترجیح دی… حالانکہ ان بجلی گھروں میں سب سے مہنگی بجلی بنتی ہے۔ حکمرانوں نے ہر لحاظ سے نقصان دہ یہ فیصلہ کیوں اپنایا، سمجھ سے بالاتر ہے۔آج بھی پاکستان میں تیل سے چلنے والے بجلی گھروں میں ہی ہر سال کل بجلی کا ’’33 تا 37 فیصد‘‘ حصہ تیار ہوتا ہے۔ یہ بجلی بنانے کی خاطر پاکستان کو اربوں ڈالر کا تیل خریدنا پڑتا ہے۔ یوں نہ صرف ہمارا قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا بلکہ درآمدات کا بل بھی آسمان پر جاپہنچتا ہے۔

اعدادو شمار کے مطابق وطن عزیز میں گرمیوں میں بجلی کی طلب 19 تا 22 ہزار میگاواٹ کے درمیان رہتی ہے جبکہ حکومت پاکستان تمام وسائل بروئے کار لاکر 14 تا 15 ہزار میگاواٹ بجلی ہی بنا پاتی ہے۔ یوں چھ سات ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے کروڑوں پاکستانیوں پر لوڈشیڈنگ کا عذاب تھوپ دیا جاتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ اس عذاب کا شکار نہیں ہوتا،اسے عموماً چوبیس گھنٹے بجلی ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے، اسے بالکل احساس نہیں کہ عوام الناس لوڈشیڈنگ کے دوران کیسی پریشانیوں، تکالیف اور مصائب سے دوچار رہتے ہیں۔

ہمارے حکمرانوں سے کہیں بہتر کارکردگی بھارتی حکمران طبقے نے دکھائی۔ تقریباً تیس سال پہلے ہی بجلی کی طلب بڑھنے سے بھارتی شہروں میں لوڈشیڈنگ کرنا پڑی تھی۔ عوام کے احتجاج نے بھارتی حکمران طبقے کو چوکنا کردیا۔ چناں چہ وہ ملک کے طول و عرض میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر اور ڈیم بنانے لگے۔ بھارتی حکمران عیش و عشرت میں پڑ کر مست الست نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ملک و قوم کی بھلائی اور بہتر مستقبل کو مدنظر رکھا۔

نریندر مودی میں لاکھ خامیاں ڈھونڈ لیجیے مگر اسی بھارتی حکمران کی خاصیت یہ ہے کہ اس نے بھارت میں ’’قابل تجدید توانائی‘‘ کے ذرائع کو رواج دیا۔ جب وہ وزیراعلیٰ گجرات تھے، تو ریاست میں شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے فارم لگائے۔ وزیراعظم منتخب ہوئے تو دیگر بھارتی ریاستوں میں بھی فارم بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ آٹھ ماہ قبل ریاست تامل ناڈو میں دنیا کا دوسرا بڑا شمسی فارم بجلی بنانا شروع کرچکا۔ یہ فارم پچیس سو ایکڑ پر محیط ہے اور اس میں ڈھائی لاکھ سولر موڈول نصب ہیں۔ یہ فارم 658 میگاواٹ بجلی بنائے گا۔

نریندر مودی کا ویژن یہ ہے کہ 2022ء تک بھارت 175 گیگاواٹ (ایک ہزار میگاواٹ برابر ایک گیگا واٹ) بجلی قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ یہی وجہ ہے اقتدارسنبھالتے ہی انہوں نے نجی شعبے کے تعاون سے شمسی توانائی، ہوا اور پانی سے بجلی پیدا کرنے والے سیکڑوں منصوبے شروع کردیئے۔

2013ء میں بھارت میں قابل تجدید توانائی سے تقریباً 2 گیگاواٹ بجلی بنتی تھی۔ مودی حکومت کے انقلابی اقدامات سے آج یہ عدد ’’12 گیگاواٹ‘‘( ایک لاکھ بیس ہزار میگاواٹ) تک پہنچ چکا۔آج بھارت عملی طور پر ’’310 گیگاواٹ بجلی‘‘ بنانے پر قادر ہے۔ جبکہ ملک میں بجلی کی طلب 170 گیگاواٹ ہے۔ یہی وجہ ہے جب اوائل 2017ء میں بھارت کی تاریخ میں پہلی بار فاضل بجلی پیدا ہوئی، تو فروری تا مارچ بھارتی حکومت نے بنگلہ دیش، نیپال اور میانمار کو 5798 میگاواٹ بجلی بیچ کر قیمتی زرمبادلہ کمایا۔

بھارت میں اب بھی خصوصاً دیہات میں آباد تقریباً 50 کروڑ شہری بجلی کی نعمت سے محروم ہیں۔ مودی حکومت چاہتی ہے کہ ان شہریوں کی ہر ممکن مدد کی جائے تاکہ وہ قابل تجدید ذرائع توانائی سے فائدہ اٹھا کر روزانہ اتنی بجلی ضرور حاصل کرلیں جو ان کی زندگی اور روزمرہ کام انجام دینا آسان بناسکے۔ شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی بہتر اور متعلقہ آلات سستے ہونے سے مودی حکومت کا کام آسان ہورہا ہے۔ اب چند ہزار روپے سے ایک گھر میں 40 واٹ کا شمسی پینل لگ جاتا ہے۔ یہ پینل روزانہ اتنی بجلی بناتا ہے کہ تین بلب جل سکیں۔ یوں ان کی روشنی میں اہل خانہ اس قابل ہو گئے کہ رات کو بھی کام کرسکتے ہیں۔

دنیا بھر میں سائنس داں مصروف تحقیق ہیںکہ قابل تجدید ذرائع توانائی کی ٹیکنالوجیوں کو بہتر سے بہتر بناسکیں۔ مزید براں وہ آلات کا معیار اور کارکردگی بھی بہتر بنارہے ہیں۔ خصوصاً شمسی توانائی کے شعبے میں جاری زبردست تحقیق دیکھتے ہوئے یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ 2025ء تک ایسے چھوٹے مگر معیاری شمسی نظام وجودمیں آجائیں گے جنہیں باسہولت گھروں میں نصب کیا جاسکے۔ یوں ایک بار خرچ کے بعد گھر والے بیس پچیس سال تک شمسی توانائی کی برکات سے مستفید ہوسکیں گے۔

مودی حکومت قابل تجدید ذرائع ایندھن سے مستفید ہوکر تیل و کوئلے کی درآمد کا خرچ بھی گھٹانا چاہتی ہے۔ مزید براں یہ دونوں ذرائع ایندھن سبزمکانی گیسیں بھی خارج کرتے ہیں جن سے عالمی آب وہوائی نظام کو زبردست نقصان پہنچ رہا ہے۔۔ ان سے ناتا توڑنے پر مودی حکومت کو یقین ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کو سراہا جائے گا۔

یاد رہے، بھارت اب بھی اپنی 60 فیصد سے زائد بجلی کوئلے کے بجلی گھروں سے بناتا ہے۔ بھارت کوئلہ پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ نیز وہ بڑی تعداد میں باہر سے بھی کوئلہ منگواتا ہے۔ بھارت میں دو سو سے زائد چھوٹے بڑے کوئلے کے بجلی گھر کام کررہے ہیں۔ نیز کئی نئے بجلی گھرزیر تعمیر ہیں۔ کوئلے کے بجلی گھروں کی کثرت کے باعث ہی بھارت دنیا میں آلودگی خارج کرنے والا تیسرا بڑا ملک بن چکا۔

دنیا میں بھارت کا مقام و مرتبہ باعزت و محترم بنانے کی خاطر بھی نریندر مودی کوئلے کے بجلی گھروں سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ تاہم چین سے بڑھتی کشیدگی ان کی پالیسی کوشکست دے کرسکتی ہے۔ دراصل بھارت چین ہی سے شمسی توانائی کے چھوٹے بڑے بجلی گھروں کے آلات مثلاً شمسی سیل، موڈول وغیرہ خریدتا ہے۔ یورپی ممالک اور امریکا کے بنے آلات بہت مہنگے ہیں جبکہ بھارت کو چین سے یہ سستے داموں مل جاتے ہیں۔

شمسی توانائی کے سستے چینی ساختہ بجلی گھروں کا نتیجہ ہے کہ بھارت میں اب ان سے بننے والی بجلی کوئلے کے بجلی گھروں میں بنتی بجلی سے سستی ہوچکی۔ بھارت میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر میں جنم لیتی ایک یونٹ بجلی کی ’’تھوک‘‘ قیمت 3.20 روپے ہے ۔جبکہ شمسی توانائی سے چلنے والے بجلی گھر میں ایک یونٹ 2.62 روپے میں دستیاب ہے۔ گویا بھارت میں شمسی توانائی سے بننے والی بجلی کوئلے کی نسبت سستی ہوچکی جو ایک بہت بڑا انقلاب ہے۔ مگر یہ انقلاب چین کی بدولت ہی برپا ہوا۔

بھارت میں شمسی سیل، موڈول اور شمسی توانائی کے بجلی گھر کے دیگر آلات بنانے والے کارخانے عنقا ہیں۔یہ آلات بنانے کی خاطر بڑا نفیس انفراسٹرکچر کھڑا کرنا پڑتا ہے، نیز نایاب دھاتیں حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ بھارت کو یہ انفراسٹرکچر بنانے میںکئی عشرے درکار ہیں۔ اس لیے مودی حکومت قابل تجدید ذرائع کا اپنا وژن انجام دینے کے لیے چین کی محتاج ہے۔

چینی حکومت کی خوبی ہے کہ وہ اپنی معاشی اور سیاسی پالیسیوں کو غلط ملط نہیں کرتی۔ اس کی سعی رہتی ہے کہ سیاسی اور معاشی معاملات کو الگ تھلگ رکھا جائے۔ اس حکمت عملی نے چین کو معاشی سپرپاور بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چناں چہ امریکا اور بھارت، دونوں سے کئی اختلافات رکھنے کے باوجود ہر سال اربوں ڈالر کا چینی مال دونوں ممالک میں جارہا ہے۔ چینی حکمت عملی دیکھتے ہوئے امکان یہی ہے کہ تمام تر کشیدگی کے باوجود چین بھارت کو شمسی توانائی کے بجلی گھروں میں مستعمل آلات کی فروخت جاری رکھے گا۔ البتہ چینی کرنسی کی قدر بڑھنے سے چینی مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔ جبکہ مستقبل میں چینی کمپنیاں بھی اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا سکتی ہیں۔ چونکہ تب لاکھوں بھارتی صارفین چینی مصنوعات کے محتاج ہوں گے لہٰذا انہیں مہنگی داموں بھی مجبوراً خریدنا پڑے گا۔

پاکستان کی صورتحال
سی پیک منصوبے کے تحت چین اور پاکستان نے مل کر وطن عزیز میں توانائی کے ’’19 منصوبے‘‘ شروع کررکھے ہیں۔ ان منصوبوں پر ’’35 ارب ڈالر‘‘ لاگت آئے گی۔ پندرہ سال کی مدت میں تکمیل کے بعد یہ منصوبے ’’سولہ ہزار میگاواٹ‘‘ بجلی پیدا کریں گے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان انیس منصوبوں میں سے بارہ منصوبے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بنانے پر مشتمل ہیں۔ ان بجلی گھروں میں مقامی اور درآمدی کوئلہ استعمال کیا جائے گا۔

یاد رہے، وطن عزیز کے صحرائے تھر میں کوئلے کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوچکا۔ ماہرین کی رو سے اس ذخیرے میں 175 ارب ٹن کوئلہ محفوظ ہے۔ تخمینہ ہے کہ اس کوئلے کے ذریعے تین سو برس تک ہر سال ’’ایک لاکھ میگاواٹ‘‘ بجلی بنانا ممکن ہے۔ پاکستان میں کوئلے کا ذخیرہ توانائی کے اعتبار سے سعودی عرب اور ایران میں ذخائر تیل کے برابر ہے۔

پاکستانیوں کے لیے یہ اچھی خبر ہے کہ مستقبل میں وطن عزیز سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لیکن یہ لمحہ فکریہ بھی ہے کہ بیشتر نئی بجلی کوئلے کے بجلی گھروں میں جنم لے گی۔ گو حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ یہ بجلی گھر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کام کریں گے۔ اس باعث وہ کوئلے کے عام بجلی گھروں کی نسبت کم آلودگی ماحول میں چھوڑنے کے قابل ہو جائیں گے۔

موجودہ حکومت کا دعوی ہے کہ اگلے ایک دو برس میں ان بجلی گھروں کی تعمیر سے تقریباً چھ ہزار میگاواٹ بجلی میسر آئے گی۔اگر یہ دعوی سچ ہے تو حکومت کے منہ میں گھی شکر کہ یوں پاکستانی قوم کو خاصی حد تک لوڈشیڈنگ کے عفریت سے نجات مل جائے گی۔

The post بھارت نے لوڈشیڈنگ پر کیسے قابو پایا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

چوروں، ڈاکوؤں کو تاج ملتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کرنے والوں کو دھمکیاں

$
0
0

فیصل ایدھی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ عبدالستار ایدھی کے نقش قدم پر چلنے والے فیصل ایدھی اپنے والد کی طرح بلا امتیاز انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ عبدالستار ایدھی کے انتقال کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن کی ذمے داریاں اب انہی کے کاندھوں پر ہیں۔ اس حوالے سے ان سے ایک گفت گو کا اہتمام کیا گیا جو کہ نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: والد یا والدہ دونوں میں کس سے زیادہ قربت رہی؟ والد کے انتقال کے بعد اتنی اہم ذمے داری کو نبھانے میں کیا کیا مشکلات پیش آرہی ہیں؟

فیصل ایدھی: بچپن ہی سے والد کے ساتھ زیادہ رہا، والدہ کو ہمیشہ ستایا کبھی ان کی خواہش پوری نہیں کی، اور والد کی تمام خواہشات پوری کیں۔ والدہ کی خواہش تھی کہ پڑھ لکھ کر کسی بینک میں نوکری کروں ، وہ نہیں چاہتی تھیں کہ میں باپا (ایدھی صاحب) کے ساتھ ایدھی فاؤنڈیشن کا مستقل حصہ بنوں۔ وہ مجھے کسی بڑے بینک یا کسی کارپوریٹ سیکٹر میں اہم عہدے پر فائز کرانے کی خواہش مند تھیں۔ میں نے اعلٰی تعلیم تو حاصل کی لیکن کسی بینک یا ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت نہیں کی۔ ایدھی صاحب ایک باپ سے زیادہ اچھے دوست تھے۔

ایکسپریس: ایدھی صاحب کی زندگی سے جُڑا ایسا کوئی یادگار واقعہ جس نے آپ کو اُن کے نقش قدم پر چلنے کی جستجو کو مہمیز کیا ہو؟

فیصل ایدھی: میرے اپنی ممی سے کافی جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ ممی چاہتی تھیں کہ میں کہیں نوکری حاصل کرکے شادی کرلوں، میں پڑھنا چاہتا تھا اور ممی شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی رہتی تھیں۔ اسی بات پر ان سے جھگڑے ہوتے تھے۔ ایک دن ایسے ہی ایک جھگڑے کے بعد میں رات کو نیند کی گولیاں کھا کر سوگیا۔ اگلی صبح جب باپا مجھے جگانے آئے تو میں نیم بے ہوش تھا وہ مجھے فوراً اسپتال لے گئے۔ اس سے پہلے میں نے کبھی کبھی ایدھی صاحب کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے تھے، لیکن اس دن میں نے انہیں روتے دیکھا۔ انہوں نے ممی پر بہت غصہ کیا اور انہیں سختی سے منع کردیا کہ آج کے بعد تم اس کے (فیصل) کے معاملے میں نہیں بولو گی، والد کے ساتھ ساتھ تو میں شروع سے رہتا تھا لیکن اس دن کے بعد سے میں نے ہر حال میں باپا کے مشن کو آگے بڑھانے کا ارادہ کرلیا۔ لیکن میری ممی بھی ضدی ہیں انہوں نے میری شادی کروا کر ہی دم لیا۔

ایکسپریس: آپ عطیات میں کمی کا شکوہ کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں ایدھی فاؤنڈیشن کو ملنے والے عطیات میں کمی کی کیا وجوہات ہیں؟ آپ کو زیادہ عطیات کہاں سے ملتے ہیں۔ پاکستان سے یا بیرون پاکستان سے؟

فیصل ایدھی : جی بالکل ایسا ہے کہ ہمیں ملنے والے عطیات میں مجموعی طور پر کافی کمی ہوگئی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اگر ہم بات کرتے ہیں باہر ممالک سے ملنے والے چندے کی تو اس میں کمی کے بہت سے اسباب ہیں۔ مشرق وسطی میں ہونے والی خانہ جنگی، اور معاشی بحران کی وجہ سے وہاں سے ملنے والے چندے میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے، امریکا اور یورپ سے ملنے والے چندے میں کمی کا اہم سبب وہاں مسلمانوں سے تعصب کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ وہاں کی پاکستانی کمیونٹی غیرمحفوظ ہوگئی اور معاشی طور پر بھی اب پہلے کی طرح مستحکم نہیں ہے۔ باہر سے ملنے والے چندے میں کمی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے۔ پاکستان سے ملنے والے عطیات میں کم کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب دوسرے فلاحی ادارے بھی سرگرم عمل ہیں۔ چندے کی رقم تو محدود ہے لیکن اب وہ ایک کے بجائے تین چار اداروں میں تقسیم ہورہی ہے۔ یہاں میں آپ کو یہ بات بھی بتادوں کہ پاکستان خصوصاً کراچی میں کام کرنے والے دوسرے فلاحی اداروں کی نسبت ہمارے کام کی وسعت ان سے زیادہ اور چندے کی رقم ان سے تین گنا کم ہے۔ کراچی میں کام کرنے والے ایک ادارے کو سالانہ ساڑھے پانچ سو کروڑ چندہ ملتا ہے اور ہمیں صرف ڈیڑھ سو کروڑ، اگر ہمیں اتنا چندہ ملے تو ہم پاکستان کی قسمت بدل دیں۔ اصل میں ہمارے یہاں لوگ مذہب کی بنیاد پر زیادہ عطیات دیتے ہیں۔ ہماری اپنی کمیونٹی کے ہی متعصب لوگ ابھی تک ہمیں چندہ نہیں دیتے۔ ہماری جماعت ہے بانٹوا جماعت، جو ایدھی صاحب کی یاد میں تقریب منعقد کرنا چاہتی تھی لیکن میں نہیں گیا، کیوں کہ ایدھی صاحب کے بہت سارے پرانے ساتھیوں نے منع کیا کہ بانٹوا جماعت نے ساری زندگی ایدھی صاحب کو نہیں سراہا، وہ نسل پرستی پر کام کرتے رہے۔ ان کے عہدے داروں میں اتنا غرور اور اتنا تکبر ہے کہ وہ ایدھی صاحب کے سلام کا جواب تک دینا گوارا نہیں کرتے تھے اور ان کے انتقال کے بعد تقریب منعقد کررہے تھے۔ ہمارا ان سے نظریاتی اختلاف ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام اور نسل پرستی کے حامی ہیں اور ہم سرمایہ داری نظام کے مخالف اور بلاتعصب لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔ وہ سرمایہ داروں کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ ہمیں بھی سرمایہ دار استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم ان کے جھانسے میں نہیں آتے ۔ لیکن میں ابھی بھی پُرامید ہوں کہ اس رمضان میں ہم پچھلے رمضان کے مقابلے میں آجائیں گے۔

ایکسپریس: ایدھی صاحب کے انتقال کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے مذہبی رجحانات اور عقائد سے متعلق منفی باتیں پھیلائی گئیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عطیات میں کمی کا اہم سبب یہ منفی خبریں بھی ہیں؟ ان افواہوں کو پھیلانے میں کون لوگ شامل تھے؟

فیصل ایدھی: ایدھی صاحب کے انتقال کے بعد ان کی کردارکشی کرنے کے لیے مختلف ذرایع ابلاغ خصوصاً سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھرپور انداز میں پروپیگنڈا مہم چلائی گئی۔ کبھی انہیں لادین کہا گیا تو کبھی ان پر قادیانی ہونے کا الزام لگایا گیا۔ ان افواہوں اور گمراہ کن باتوں کو پھیلانے میں کچھ مذہبی گروپس شامل تھے، جنہوں نے بہت منظم انداز میں ایدھی صاحب کی کردار کشی کی کوشش کی تھی۔ عطیات میں کمی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس کے علاوہ دیگر عوامل بھی فاؤنڈیشن کو ملنے والے عطیات میں کمی کا سبب ہیں۔

ایکسپریس: فلاحی کاموں میں آپ کو حکومتی سرپرستی کس حد تک حاصل ہے؟

فیصل ایدھی: دنیا بھر میں حکومت کی جانب سے فلاحی اداروں کے کام کو سراہا جاتا ہے انہیں بہت سے معاملات میں رعایت دی جاتی ہے ، لیکن پاکستان میں ہمارے لیے حکومتی سرپرستی بس اس حد تک ہے کہ وہ ہمیں کام کرنے دیتی ہے۔ اور یہ بھی ان کا ہم پر ایک احسان ہے، ہم اس سے زیادہ سرپرستی چاہتے بھی نہیں ہیں۔

ایکسپریس: گذشتہ سال آپ نے ایدھی فاؤنڈیشن کی پرانی اور ناکارہ گاڑیوں کو فروخت کرنے کا اعلان کیا، لیکن حکومت نے آپ کو ایسا کرنے سے روک دیا؟ کیا یہ گاڑیاں ایدھی فاؤنڈیشن کی ملکیت ہیں یا حکومت کی؟

فیصل ایدھی: یہ معاملہ گذشتہ تین چار سالوں سے چل رہا ہے لیکن ابھی تک اس کا کوئی حل نہیں نکالا جاسکا ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی زیرملکیت تقریباً دو سو گاڑیوں کی فروخت پر حکومت کی جانب سے پابندی عائد ہے۔ اس سارے معاملے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ جب ہم نے یہ گاڑیاں درآمد کی تھیں تو ہمیں کسٹم ڈیوٹی پر چھوٹ دی گئی تھی، ایک طرح سے یہ حکومت کی جانب سے ریلکسیشن ہوتی ہے۔ اصولی طور پر ایمرجینسی سروس میں استعمال ہونے والی گاڑیوں کو تین یا چار سال بعد ڈسپوز ہوجانا چاہیے، لیکن ہم ان گاڑیوں کو اٹھارہ انیس سال سے استعمال کر رہے ہیں۔ اب حکومت ہمیں انہیں ڈسپوز کرنے کی اجازت نہیں دے رہی۔ وہ ہمیں کہتے ہیں کہ آپ انہیں کچرا کردیں، لیکن فروخت نہیں کرسکتے۔ ہم ان دو سو گاڑیوں کر فروخت کر کے تیس چالیس نئی گاڑیاں خرید سکتے ہیں، لیکن ہمیں ایسا نہیں کرنے دیا جارہا۔ ایف بی آر نے پہلے ہمیں بیس گاڑیاں بیچنے کی اجازت دی تھی لیکن اب وہ ہم سے سارے کاغذات منگوا رہے ہیں، اب ہم اٹھارہ بیس سال پرانی دستاویزات کہاں سے لائیں؟ ہم نے ایف بی آر حکام سے درخواست کی کہ جناب! آپ کی منظوری ہی سے یہ گاڑیاں درآمد کی گئی تھیں۔ آپ اپنا ریکارڈ چیک کرلیں، لیکن ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ہم پانچ سال بعد پرانا ریکارڈ تلف کردیتے ہیں۔ دو سال قبل جب نوازشریف کراچی آئے تھے تو میں نے انہیں اس مسئلے سے آگا ہ کیا تھا اور انہوں نے اُسی وقت اپنے سیکریٹری کو ہدایات بھی جاری کی تھیں، لیکن اب تک ان کے سیکریٹری نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ میں نے چند روز قبل ہی ایف بی آر حکام کو کہا ہے کہ اگر آپ نے ہمارا یہ مسئلہ حل نہیں کیا تو میں ساری گاڑیاں لے کر احتجاجاً قائد اعظم کے مزار پر کھڑا ہوجاؤں گا۔ یورپ، امریکا اور دیگر بہت سے ممالک میں فلاحی کاموں میں استعمال ہونے والی گاڑی کو تیس یا چالیس ہزار کلومیٹر سے زیادہ استعمال نہیں کیا جاتا، لیکن پاکستان میں ہم ایک گاڑی کو تین لاکھ سے پانچ لاکھ کلومیٹر تک رگڑتے ہیں جو مریضوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔

ایکسپریس: فٹ پاتھ اور سڑکوں پر فنڈز جمع کرنا ایدھی فاؤنڈیشن کا خاصہ ہے، کچھ عرصے قبل آپ نے عطیات جمع کرنے کے لیے اپنے والد کی طرح بھیک مشن کو معطل کرنے کا کہا تھا، لیکن چند دن پہلے آپ نے مزار قائد سے بھیک مشن کے آغاز کا اعلان کیا، اس کے اسباب؟

فیصل ایدھی: دیکھیں میں کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ میں ایدھی صاحب کی طرح بھیک مشن کو جاری نہیں رکھوں گا۔ میں نے بھیک مشن کا منع نہیں کیا تھا لیکن ہمارے میڈیا کے کچھ دوستوں نے خبر کو تبدیل کرکے رکھ دی۔ درحقیقت میں نے یہ کہا تھا کہ میں اس وقت تک بھیک مشن نہیں کروں گا جب تک میں اپنے کچھ پراجیکٹ کو کام یابی سے مکمل نہ کرلوں ۔ یہ میں نے ایک مشروط بات کی تھی۔ میڈیا نے سرخیاں ایسی لگائیں جن سے یہ تاثر گیا کہ میں نے بھیک مشن جاری رکھنے سے منع کردیا ہے۔ میں نے گذشتہ ہفتے ہی مزار قائد پر ایدھی صاحب کی طرح چندہ جمع کیا ہے۔

ایکسپریس: حال ہی میں آپ نے ماہِ رمضان میں عطیات جمع کرنے کے لیے مشروبات بنانے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا ہے؟ کیا آپ ایدھی فاؤنڈیشن میں فنڈز جمع کرنے کے لیے روایات کے برعکس نئے رجحانات کو فروغ دینے کے خواہش مند ہیں؟

فیصل ایدھی: عطیات جمع کرنے کے لیے کسی ادارے کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ کچھ نیا نہیں ہے، ماضی میں ایدھی صاحب بھی کچھ کثیرالقومی کمپنیوں کے ساتھ مل کر فنڈز جمع کرنے کی مہم چلا چکے ہیں۔ ہم نے جس کمپنی سے معاہدہ کیا ہے وہ چھے ماہ تک میرے پیچھے پڑی رہی اور میں اسے منع کرتا رہا ۔ تاہم اس کے ازحد اصرار پر میں نے کچھ پرانے ساتھیوں سے مشورہ کیا، جسے مدنظر رکھتے ہوئے اپنی شرائط پر ان کی پیش کش قبول کی۔ معاہدے کے تحت یہ کمپنی صرف رمضان میں اپنی اشتہاری مہم میں لوگوں کو ایدھی فاؤنڈیشن کو چندہ دینے کی ترغیب دے گی، اس کے عوض وہ ہمیں ڈھائی کروڑ روپے چندہ دیں گے۔ اس کمپنی سے معاہدے کے بعد دیگر اداروں نے بھی ہم سے رابطہ کیا لیکن ہم نے اخلاقی طور پر اس بات کو مناسب نہیں سمجھا۔ میں یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ اشتراک ہم نے مجبوراً کیا ہے اور ہم اس رجحان کو جاری رکھنے کے خواہش مند نہیں ہیں۔

ایکسپریس: کیا اس نوعیت کے معاہدے آپ کے مشن کو کمرشلائز کرنے کا باعث نہیں بن جائیں گے؟

فیصل ایدھی: نہیں ایسا نہیں ہوسکتا، کم از کم جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک یہ ممکن نہیں ہے کیوں کہ ہمارے اور کمرشل ازم کے نظریات یکسر مختلف ہیں۔ سرمایہ دار کا بنیادی مقصد منافع کمانا ہوتا ہے اور ایدھی فاؤنڈیشن کا بنیادی مقصد پیسے کمانا نہیں بلکہ لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن سرمایہ دارانہ نظام کے خلا ف کام کرنے والا ایک عوامی ادارہ ہے، اسے کوئی بھی سرمایہ دار کمر شیل ازم یا کسی اور طریقے سے ہائی جیک نہیں کرسکتا۔

ایکسپریس: ایدھی صاحب کی زندگی یا اُن کے انتقال کے بعد کسی بین الاقوامی ادارے یا این جی اوز نے آپ کو اشتراک کی دعوت دی؟ اگر ہاں اس کی تفصیل۔

فیصل ایدھی: ابھی بھی یو ایس ایڈ، یو کے انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ جیسے ادارے ہم سے اشتراک کے خواہش مند ہیں۔ لیکن ہم نے شکریے کے ساتھ سب سے معذرت کرلی۔ ہم اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے ہی عوامی خدمت کرنا چاہتا ہے۔

ایکسپریس: آپ ایدھی فاؤنڈیشن کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں؟ فاؤنڈیشن کی ترقی کے لیے آپ کے پاس کیا منصوبے ہیں؟

فیصل ایدھی: ایدھی فاؤنڈیشن بلارنگ و نسل، قومیت، زبان بلاامتیاز ہر کسی کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہے۔ اسے ہر قومیت، رنگ و نسل کا بندہ اون کرتا ہے۔ میں ایدھی فاؤنڈیشن کا مستقبل بہت روشن دیکھتا ہوں، ہم اس ادارے کو جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایک آرگنائزڈ افرادی قوت ہیں، ہم اس آرگنائزڈ لیبر فورس کو آرگنائزڈ اسکلڈ فورس میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں، دنیا آگے کی طرف بڑ ھ رہی ہے، اگر ہم نے خود کو ترقی سے ہم آہنگ نہیں کیا، جدید دنیا کے تقاضوں کو نظرانداز کیا تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ ہم ایمرجینسی خدمات میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ ابھی ہم سو لوگوں کی زندگی بچا رہے ہیں تو ٹیکنالوجی اور مہارت کے ساتھ دو سو لوگوں کی زندگی بچا سکیں گے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی ترقی کے لیے ہمارے پا س بہت سے منصوبے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ عوام کے سامنے آتے رہیں گے۔

ایکسپریس: کیا دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی چیریٹی اور دیگر فلاحی کاموں کی مد میں ملنے والی رقوم کو ٹیکس سے استثناء حاصل ہے؟

فیصل ایدھی: پاکستان میں فلاحی اداروں کو بینکوں اور دیگر جگہوں پر ٹیکس سے استثناء حاصل ہے لیکن کچھ کام ایسے ہیں جہاں پر حکومت کو ہمیں ٹیکس سے استثناء دینا چاہیے۔ مثال کے طور پر ہم ایک نئی ایمبولینس خریدتے ہیں تو اس پر ہمیں تقریباً سوا لاکھ روپے ٹیکس کی مد میں دینے پڑتے ہیں۔ آپ انڈیا اور دیگر ممالک کا موازنہ کریں تو وہاں نہ صرف ایمبولینسز بلکہ رکشا اور ٹیکسی پر بھی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ ہم نے متعلقہ حکام سے اس مسئلے پر بات کی جس پر ان کا کہنا ہے کہ آپ ہر بار ہمیں خط لکھیں، لیکن ان خطوط کا جواب دو، دو ماہ تک نہیں آتا اب ہم اتنا طویل انتظار نہیں کرسکتے۔ ہم سالانہ دو سو گاڑیاں خریدتے ہیں، اگر ہمیں ٹیکس میں چھوٹ دی جائے تو اس حساب سے ہم سالانہ ڈھائی کروڑ روپے کی بچت کرسکتے ہیں۔ ہم سو کی جگہ ایک سو بیس گاڑیاں خرید سکیں گے، لیکن یہاں بہت سے معاملات بیوروکریسی کی نظر ہوجاتے ہیں، اب دیکھیں یہ مسئلہ مزید کتنے سال میں حل ہوتا ہے۔

ایکسپریس: دو ماہ قبل آپ کو اور آپ کے بیٹے کو سٹی کورٹ کے احاطے میں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، اس واقعے کے بعد ڈی جی رینجرز نے آپ کے دفتر کا دورہ کیا اور مکمل تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی، آپ کو کس حد تک سیکیوریٹی فراہم کی گئی ہے؟

فیصل ایدھی: ایدھی سینٹر پر ڈکیتی کی واردات تو سب کو ہی یاد ہوگی ، جس نے ایدھی صاحب کو صدمے سے دوچار کردیا تھا، اس ڈکیتی میں ملوث ملزمان سے گرفتاری کے بعد مسروقہ سونا اور رقم برآمد ہوئی، لیکن ان تمام تر شواہد کے باوجود عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا۔ یہی ملزمان مجھے اس سے پہلے بھی عدالت کے احاطے میں دھمکیاں دی چکے تھے لیکن اس بار میرا بڑا بیٹا سعد ساتھ تھا جو ان سے الجھ گیا۔ میں نے اس کو ڈانٹا، رش اور میڈیا نمائندوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ بات خبروں کا حصہ بھی بن گئی۔ جس کے بعد ہم نے حکام سے عدالت کی حد تک تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس کے علاوہ ہمیں کوئی سیکیوریٹی نہیں چاہیے، اب بھی اکثر پیشی پر ڈی جی رینجرز میرے ساتھ عدالت جاتے ہیں۔

ایکسپریس: ایدھی فاؤنڈیشن میں ہونے والی ڈکیتی کے تمام ملزمان کو کچھ عرصے بعد ہی ضمانت پر رہا کردیا گیا، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

فیصل ایدھی: ایدھی سینٹر ہیڈ آفس میں ہونے والی ڈکیتی کی واردات میں ملوث ملزمان کو جب گرفتار کیا گیا تو لوٹے گئے پیسے، سامان اور سونا برآمد ہوا، اس کے باوجود عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا، وہ ہمیں کمرۂ عدالت کے باہر کُھلے عام دھمکیاں دیتے ہیں۔ اب آپ کیا کرسکتے ہیں۔ میں یہ بات بھی سو فی صد وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہی ملزمان اگلے انتخابات میں کسی ایم پی اے ، ایم این اے کے ساتھ اس کی انتخابی مہم چلا رہے ہوں گے۔

ایکسپریس: کیا ان ملزمان سے لوٹی گئی تمام رقم اور قیمتی سامان برآمد کرلیا گیا تھا ، اگر نہیں تو پھر اس نقصان کو کیسے پورا کیا؟

فیصل ایدھی: لوٹے گئے مال کی صرف  25فی صد ریکوری ہوئی باقی پیسے اور سونا کہاں گیا کچھ نہیں پتا۔ اب یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنا برآمد ہوا اور کتنا درمیان میں غائب ہوا۔ اس واردات کی وجہ سے ہمارا مجموعی طور پر بارہ تیرہ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ اب پاکستان میں چوری ڈکیتی ایک کاروبار بن چکا ہے، اب لوگ غریبوں کا، صدقہ خیرات کا مال لوٹنے میں بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ ملزمان کا سہولت کار ملزم جام اختر جو کہ ملیر میں ایک سیاسی جماعت کے اہم عہدے دار کا قریبی رشتے دار ہے اس نے اپنے بیان میں کہا کہ سارا سونا جو تقریباً سات آٹھ کلو تھا اپنے گھر کے صحن میں گڑھا کھود کر دبا دیا تھا کہ معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعد اس کو بیچ کر رقم آپس میں بانٹ لیں گے، لیکن جب اس جگہ کی کھدائی کی تو صرف سوا کلو سونا نکلا باقی کہاں گیا کچھ پتا نہیں چلا۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ جب دو سال قبل گرمی کی لہر سے کراچی میں سیکڑوں لوگ لقمۂ اجل بنے تو اسی جماعت کے ایک اہم راہ نما نے ہم پر الزام عائد کیا کہ تھوڑی گرمی تیز ہونے سے چند درجن ہیروئنچی مرگئے تھے تم نے اسے ہیٹ ویو بنادیا، جب کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ دنوں میں مرنے والوں کی تعداد بارہ سو تھی۔ اگر ہم آج بھی ان پانچ دنوں میں کراچی کے نجی اور سرکاری اسپتالوں سے جاری ہونے والے ڈیتھ سرٹیفیکٹ دیکھیں تو یہ تعداد 5 چھے ہزار سے زائد ہوگی۔ اس ملک میں تو چوروں ڈاکوؤں کو تاج ملتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کرنے والوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

ایکسپریس: آپ ایدھی کی ایئرایمبولینس سروس دوبارہ شروع کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، اس سروس کو کن وجوہات کی بنا پر معطل کیا گیا تھا؟

فیصل ایدھی: یہ سروس بند کرنے کی دو اہم وجوہات تھیں، اول تو یہ کہ ہمارے چیف پائلٹ کیپٹن امتیاز کا انتقال ہوگیا تھا، وہ ہمارے ساتھ چار سال رہے اور بہت اچھی طرح ایدھی کی فضائی سروس چلائی، لیکن اس کے بعد ہمیں کوئی ایسا پائلٹ نہیں مل سکا جو مادیت پرستی کے بجائے انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت ہمارے ساتھ کام کر سکے، جب کہ ہم مارکیٹ کے مطابق تنخواہیں بھی دینے کو تیار تھے۔ اب ہمیں ایک بہت اچھا پائلٹ ملا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اخلاقی طور پر ہم بہت گر چکے ہیں۔ اچھے لوگوں کا ملنا بہت مشکل کام ہے۔ دوسری سب سے اہم وجہ وسائل کی کمی بھی تھی۔ جہاز کے دو انجن ختم ہوگئے تھے جنہیں تبدیل کرنے پر تقریباً دو کروڑ روپے کا خرچہ تھا۔ ہم نے وہ بھی کروا لیا ہے اور امید ہے اگلے ماہ کے وسط تک یہ سروس دوبارہ شروع ہوجائے گی۔

ایکسپریس: آپ نے 2001میں لندن کے ایک فلائنگ اسکول سے جہاز اڑانے کی تربیت لی، دوران تربیت ٹرینر کے ساتھ چالیس گھنٹے اور دو گھنٹے تنہا جہاز اڑا چکے ہیں۔ یہ تربیتی کورس مکمل نہ کرنے کی وجوہات؟

فیصل ایدھی: پائلٹ بننا میرا خواب تھا، اسی لیے میں نے لندن کے ایک فلائنگ اسکول میں داخلہ لیا لیکن کورس کے آخری ہفتے میں ایدھی صاحب نے مجھے وطن واپس بلا لیا تھا، کیوں کہ پرویز مشرف نے انہیں اقوام متحدہ میں امن کے موضوع پر ہونے والی ایک کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا کہا تھا۔ ایدھی صاحب نے مجھے بلالیا کہ تم میرے ساتھ بیٹھنا لیکن نائن الیون کی وجہ سے وہ کانفرنس ملتوی ہوگئی تھی۔ تاہم 2002 میں ایدھی صاحب اور میں نے پاکستان کی نمائندگی کی۔ اس کے بعد دوسری مصروفیات شروع ہوگئیں اور اس کورس کو مکمل نہیں کرسکا، لیکن مجھے اس بات کا کوئی افسوس نہیں ہے۔ پائلٹ بننے اور جہاز اڑانے کی خواہش ابھی بھی دل میں ہے، لیکن مصروفیت کی وجہ سے اسے پورا نہیں کر پارہا، اگر میری بہن یہ ذمے داری سنبھال لیں تو میں دوبارہ اس کورس کو مکمل کرلوں گا۔

ایکسپریس: مستقبل میں مزید ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروسز (بشمول ایئر سروس) کے فروغ اور بہتری کے لیے کیا اقدامات کرنے کے خواہش مند ہیں؟

فیصل ایدھی: ہم ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والی زمینی، فضائی بحری اور دیگر تمام سروسز کو نئی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے خواہش مند ہیں۔ میں ایمرجینسی سروسز میں استعمال ہونے والے نسبتاً نئے چار پانچ جہازوں کو فضائی بیڑے میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ ابھی ہمارے پاس ایک جہاز کے علاوہ ایک ہیلی کاپٹر ہے، لیکن وہ ایک اسٹریچر والا چھوٹا ہیلی کاپٹر ہے۔ اس کی اوو ہالنگ اور دیگر مرمتی کاموں کے لیے تقریباً  3سے 4کروڑ روپے کا خرچہ ہے۔ نہ صرف ایمبولینس بل کہ اپنی تمام سروسز میں بہتری کے لیے ہمارا ایک مڈوائف، پیرامیڈیکس اور نرسنگ اسکول بنانے کا ارادہ ہے جس کے تحت پاس آؤٹ ہونے والے طلبا ہماری ساری سروسز کو ٹیک اور کریں گے، جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ ہم لوگوں کی مہارت (اسکلڈ) کو فروغ دینے کے خواہش مند ہیں۔ اس سے یہ ہوگا کہ ہم سو کی جگہ دو سو زخمیوں کی جان بچا سکیں گے۔

جہاں تک بات ہے بحری سروس کی تو ہمارے پاس کچھ کشتیاں ہیں جو ہم سیلاب اور اس نوعیت کی دیگر قدرتی آفات میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کام میں انفلیٹ ایبل کشتیاں (ہوا سے پھولنے والی) کشتیاں بہت موزوں ہیں، کیوں کہ ہوا بھری ہونے کی وجہ سے یہ ڈوبتی نہیں ہیں چاہے آپ سمندر میں، سیلاب میں ہوں یا دریا میں۔ کسی زمانے میں، میں نے 28کشتیاں درآمد کی تھیں، ان میں کچھ خراب ہوگئیں، کچھ ٹوٹ گئیں اور کچھ کو چوہے کھاگئے۔ ہمارے یہاں ان کشتیوں کو چوہوں سے بچانا بہت مشکل ہے۔ اس وقت چالو حالت میں چھے کشتیاں ہیں۔ جس طرح میں فضائی سروس کو بہتر بنانے کے لیے پُرجوش ہوں، اسی طرح میرا بیٹا بحری سروس کو فروغ دینے کے لیے بہت متحرک ہے۔

ایکسپریس: فضائی آپریشن پر کیا لاگت آتی ہے؟ کیا یہ سروس نجی طور پر بھی فراہم کی جائے گی، اگر ہاں تو پھر اس کے چارجز کیا ہوں گے؟

فیصل ایدھی: فضائی سروس چلانا بہت منہگا شوق ہے۔ ایک جہاز کو آپریٹ کرنے کے لیے پندرہ آدمیوں کا اسٹاف رکھنا پڑ رہا ہے۔ ایئر سیفٹی کے نئے قوانین کے تحت چھوٹی آرگنائزیشن کے لیے بہت فضائی آپریشنز کو جاری رکھنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ ایروناٹیکل انجینئرز کا ہے پاکستان میں ان کی شدید قلت ہے۔ اس کے علاوہ نجی کمپنیاں بھی دور دراز علاقوں میں جانے کے لیے ہمارے جہاز چارٹر کرتی ہیں جس سے ہمارے کچھ اخراجات کم ہوجاتے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ سالانہ تین کروڑ کا نقصان ہونا ہے تو وہ کم ہوکر ڈیڑھ دو کروڑ ہوجاتا ہے۔

اس وقت جو جہا ز ہمارے پاس ہے اس کی فی گھنٹہ پرواز پر ستر ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں، جس میں زمینی عملے کو شامل کیا جائے تو پھر یہ لاگت فی گھنٹہ ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ ہاں اگر ہمارے پاس جہازوں کی تعداد بڑھ جائے تو پھر اخراجات میں کچھ کمی ہوجائے گی۔ وہ بھی اس صورت میں اگر ایک ہی کمپنی اور ایک ہی ماڈل کا جہاز ہو، ورنہ ہر ماڈل کے لیے الگ الگ تین تین انجینئرز اور ٹیکنیشنز رکھنے پڑیں گے۔ ہنگامی حالات میں ایدھی فاؤنڈیشن نے ماضی میں بھی یہ سروس بلا معاوضہ فراہم کی ہے اور آئندہ بھی اس روایت کو برقرار رکھا جائے گا۔

ایکسپریس: دنیا بھر میں حکومت اور شہری انتظامیہ فلاحی اداروں کو ایمبولینسز اور دیگر سامان دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، لیکن پاکستان میں یہ معاملہ کچھ الٹ ہے، آپ نے فنڈز کی کمی کے باوجود کے ایم سی کو دس ایمبولینسز عطیہ کردیں، اس کی کوئی خاص وجہ؟

فیصل ایدھی: مغربی ممالک میں ضلعی حکومت کے پاس سب سے زیادہ ایمبولیسنز ہوتی ہیں، لیکن ہمارے پاس تو اسے ضلعی حکومت کو اتنا کم زور کردیا گیا ہے کہ ان کے پاس تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ ہم نے کے ایم سی کو ایمبولینسیں اس لیے دی ہیں کہ وہ کسی ایمرجینسی کی صورت میں ہمارا ہاتھ بٹاسکیں گے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ شاید ہماری حکومتوں کو شرم آجائے۔ کراچی میں محکمۂ فائر بریگیڈ کو تباہ کردیا گیا ہے۔ کراچی کی دو کروڑ کی آبادی کے لیے فائر بریگیڈ کے پاس نو سو فائر فائٹرز ہیں، جس میں نصف سے زاید ضعیف العمر ہیں۔ اگر کراچی کا موازنہ پیرس سے کریں تو وہا ں کی ستر لاکھ آبادی کے لیے نو ہزار فائر فائٹر اور میرے خیال سے چار پانچ سو فائر ٹینڈرز ہیں، جنہیں وہ دو تین سال بعد استعمال کرکے فروخت کردیتے ہیں، جب کہ کراچی کی دو کروڑ آبادی کے لیے کم از کم دو سو فائر ٹینڈرز ہونے چاہیے تھے، لیکن آٹھ نو ہیں وہ بھی ناقابل بھروسا۔ اگر خدانخواستہ تین چار جگہ آگ لگ جائے تو آپ خود اندازہ لگا لیں کس قدر تباہی ہوگی۔

ایکسپریس: کیا آپ کے بچے بھی آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایدھی فاؤنڈیشن کی ذمے داریاں سنبھالیں گے؟

فیصل ایدھی: میری بہن کبریٰ، ممی، بیوی ہم سب ہی ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ایک بیٹا موسیٰ ابھی آٹھ سال کا ہے، جب کہ سب سے بڑا بیٹا سعد فارغ وقت میں ایدھی فاؤنڈیشن میں میری ذمے داریوں میں ہاتھ بٹاتا ہے، لیکن میں اس سے یہی کہتا ہو کہ تم پہلے اپنی تعلیم مکمل کرلوں اس کے بعد اپنی صلاحیتوں کو زیادہ بہتر طریقے سے فاؤنڈیشن کی ترقی کے لیے استعمال کرنا۔ موسیٰ بھی زیادہ تر میرے ساتھ ساتھ ہی رہتا ہے۔

ایکسپریس: ادب، سماجی خدمت ، سیاست اور فنون لطیفہ میں کن شخصیات کو زیادہ پسند کرتے ہیں؟

فیصل ایدھی: میں بنیادی طور پر سیاسی آدمی تھا لیکن مجھے ایدھی صاحب نے سماجی بنا دیا۔ پسندیدہ شخصیات میں ایدھی صاحب، کارل مارکس، لینن سرفہرست ہیں، میں نے ان شخصیات کے حالات زندگی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔

ایکسپریس: کن موضوعات پر کتابیں پڑھنا پسند ہے؟

فیصل ایدھی: وقت کی کمی اور کتب بینی کی عادت نہ ہونے کہ وجہ سے کتابیں باقاعدگی سے نہیں پڑھتا، لیکن کبھی کبھی سعادت حسن منٹو، ساحر لدھیانوی، حبیب جالب کی کتابیں پڑھ لیتا ہو۔

ایکسپریس: فلمیں دیکھتے ہیں، اگر ہاں تو پھر کن موضوعات پر بننے والی فلمیں پسند ہیں؟

فیصل ایدھی: فلموں اور ٹی وی ڈرامے دیکھنے کا شوق نہیں ہے، لیکن اگر موقع ملے تو پھر پرانے گانے شوق سے سنتا ہوں۔

The post چوروں، ڈاکوؤں کو تاج ملتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کرنے والوں کو دھمکیاں appeared first on ایکسپریس اردو.

عالمی سیاست، دہشت گردی اور متبادل بیانیہ

$
0
0

افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے آئی ایس پی آر کے زیرِاہتمام منعقدہ سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ناقص حکمرانی اور انصاف نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے نوجوان استعمال ہورہے ہیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نوجوان نسل ہمارے مستقبل کا سرمایہ ہے، لیکن بے چہرہ اور بے نام قوتیں سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو مسلسل گم راہ کررہی ہیں۔ انھیں بامقصد زندگی گزارنے میں مصروف کیا جائے۔ دہشت گردوں کو شکست دینے کے بعد ان کے بیانیے کو بھی شکست دینی ہوگی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نوجوان نسل کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو صحیح راہ پر گامزن کرنا ہوگا اور انھیں دہشت گردوں سے محفوظ رکھنا ہوگا۔

دہشت گردی کے خلاف ہماری یہ جنگ زمانۂ حال کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کا ابتدائی مرحلہ اپنی جارحانہ قوت کے ساتھ اُس وقت ہمارے سامنے آنا شروع ہوا تھا جب جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اہلِ حدیث عالم علامہ احسان الٰہی ظہیر اور شیعہ عالم علامہ عارف حسین الحسینی ان حملوں کی نذر ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات کا آغاز تو بہ ظاہر فرقہ واریت کے زیرِاثر دکھائی دیتا تھا، لیکن یہ حقیقت جلد ہی واضح ہوگئی کہ جو کچھ شروع ہوا ہے، وہ محض فرقہ واریت نہیں ہے۔ فرقہ واریت دراصل دہشت گردی کو ہوا دینے اور بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔ مسئلے کی اصل بنیاد کہیں اور ہے۔ حالاں کہ اس کے تسلسل میں کراچی کے بوہری بازار اور کوئٹہ کے کوچہ و بازار، ہزارہ قبیلے کے افراد، مولانا حق نواز جھنگوی اور دوسرے معروف لوگوں کے قتل کے واقعات کے ذریعے اس مسئلے کے فرقہ وارانہ تأثر کو گہرا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

کم و بیش تین دہائیوں سے جاری اس جنگ کی ہم نے من حیث القوم کیا قیمت ادا کی ہے، اس کا کسی قدر اندازہ آج ہمارے معاشرے کا ایک عام فرد بھی بہ آسانی لگا سکتا ہے۔ مذہبی راہ نماؤں سے لے کر عام آدمی تک اور افواجِ پاکستان سے لے کر سیاست دانوں تک، اسکول، کالج اور یونی ورسٹی کے طلبہ سے لے کر کاروباری طبقے تک، اساتذہ اور وکلا سے لے کر ڈاکٹرز اور عدلیہ تک ہر شعبۂ زندگی سے وابستہ افراد اس کی بھینٹ چڑھتے آئے ہیں۔ بربریت کے اس کھیل میں انفرادی حیثیت کے افراد سے لے کر گروہی سطح تک درجنوں، بلکہ سیکڑوں لوگ تک بیک وقت اس آگ میں جھونکے گئے۔

سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، جنداللہ، تحریکِ طالبان، تحریکِ نفاذِ شریعت، لشکرِ طیبہ، حزب المجاہدین، حرکۃ الانصار، جیشِ محمد، جماعت المجاہدین اور تحریکِ جہاد کے نام سے مختلف مواقع پر مختلف جماعتیں سامنے آتی رہیں اور ان میں سے کوئی نہ کوئی جماعت ایسی ہر کارروائی کی ذمے داری قبول کرتی رہی۔ آخر ایک وقت پر افواج اور سیاسی قیادت کو ان کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کرنا پڑا۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضربِ عضب کا آغاز ہوا تو ان کارروائیوں میں کمی آنے لگی اور ان پر کسی حد تک قابو پالیا گیا۔

اس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں آپریشن ردالفساد جاری ہے۔ یہ اس کارروائی کا دوسرا مرحلہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں قوم کے ساتھ ساتھ فوج کی قربانیاں بھی یقیناً ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، صرف قربانیاں نہیں، پیشہ وارانہ اور سپاہیانہ خدمات بھی۔

ضربِ عضب سے ردالفساد تک ہم نے جو سفر طے کیا ہے، اس سے آگے بھی کئی کڑے کوس ابھی راہ میں پڑتے ہیں۔ ہمیں جس منزل تک پہنچنا ہے، اس کے لیے ہم نے ابھی آدھا راستہ طے کیا ہے۔ اس لیے کہ ہم دہشت گردی کی جس ابتلا سے دوچار ہیں وہ نہایت پیچیدہ ہے۔ اس کے پس منظر میں مذہب کے ساتھ ساتھ سیاست، دولت اور اقتدار کے محرکات کارفرما ہیں اور اُن کا تناظر قومی یا علاقائی نہیں، بلکہ عالمی اور بین الاقوامی ہے۔ لہٰذا اس کے لیے کام کرنے والے افراد اور ادارے دونوں بیک وقت کئی قوتوں کے نمائندے یا آلۂ کار ہیں۔

تفصیلات اور حوالوں پر ذرا غور کیا جائے تو واقعات کی کڑیاں ملانا اور عالمی منظرنامے سے انھیں جوڑ کر دیکھنا اب کچھ ایسا مشکل کام نہیں ہے۔ یہاں ہم عالمی منظرنامے سے دو ایک مثالوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ افغانستان اور ایران سے پاکستان کے مذہبی، سیاسی اور سفارتی تعلقات کی جو سطح تاریخ کے مختلف ادوار میں رہی ہے، اُس سے تاریخ و سیاسیات کا ایک عام طالبِ علم بھی بخوبی واقف ہوگا۔ اس کے تسلسل میں آج افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ایک طرف اور دوسری طرف ایران اور پاکستان کے مابین حالیہ سیاسی اور سفارتی نقشے کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس خطے کی سیاسی، سماجی اور مذہبی صورتِ حال اور اضطراب کے بڑھتے ہوئے گراف کو صاف نظر سے دیکھا جاسکتا ہے۔

دوسری مثال دیکھیے۔ امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار سنبھالے ہوئے ابھی چار ماہ پورے نہیں ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے پہلے غیرملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کیا ہے۔ سعودی عرب پہنچنے پر اُن کا عظیم الشان اور پرتپاک استقبال کیا گیا۔ سعودی حکومت کی طرف سے انھیں سب سے بڑے سول اعزاز شاہ عبدالعزیز ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ امریکی صدر کی آمد پر امریکا اور سعودی عرب کے درمیان 380 ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔

ان میں سے 110 ارب ڈالر کے معاہدے اسلحے کی خریداری کے ہیں۔ دیگر تفصیلات میں جائے بغیر ان خبروں سے اتنی بات تو باآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ اسلحے کی معیشت کے فروغ کا یہ منظرنامہ دنیا کے امن کو کس سمت جاتے ہوئے دکھا رہا ہے۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ وہی امریکی صدر ہیں جنھوں نے منصب سنبھالتے ہی جو ایگزیکٹیو آرڈرز جاری کیے ان میں عالمی سطح پر شہرت پانے والا ایک آرڈر وہ تھا جس میں متعدد مسلم ممالک کے باشندوں کی امریکا آمد پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ مسلم دنیا کے مرکز میں انھی صدر کے استقبال اور پذیرائی کا یہ منظر ہم دیکھ رہے ہیں۔ سچ ہے کہ سیاسی حافظے سے زیادہ ناپائیدار شے آج کی دنیا میں کچھ اور نہیں ہے۔ یہ نئی دنیا کی سیاست ہے۔

کہا جاتا ہے اور درست ہی کہا جاتا ہے کہ سیاست میں حرفِ آخر کوئی نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ حرفِ آخر کا تعین تو کسی اخلاقی، تہذیبی اور اصولی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اصولوں کی سیاست تو مدت ہوئی اس دنیا سے رخصت ہوچکی۔ اب تو ہر طرف مفادات کی سیاست ہے اور اس کا سب سے مؤثر آلہ ہے ڈپلومیسی۔ ڈپلومیسی وہ شے ہے جو امریکا، چین، شمالی اور جنوبی کوریا جیسے حریفوں ہی کو مذاکرات کی میز پر نہیں لابٹھاتی، بلکہ امریکا اور سعودی عرب ایسے باہمی اعتماد کھوتے ہوئے حلیفوں کو بھی ایک بار پھر شیر و شکر کردیتی ہے۔ امریکا اور سعودی عرب کے مابین اس تعلق اور تعاون کا ایک اور پہلو بھی دل چسپ اور غور طلب ہے۔ سعودی عرب میں امریکا عرب کانفرنس ہوئی۔

دنیا کی بڑی نیوز ایجنسیز کے نمائندوں کو اس کانفرنس کی کوریج کے لیے خصوصی ویزے جاری کیے گئے۔ تاہم اسرائیل کے صحافیوں کو ویزا دینے سے انکار کردیا گیا۔ دوسری طرف امریکی صدر کی بیٹی ایوانکا اور اُن کے شوہر جیرڈکشنر جو مذہبی اعتبار سے یہودی ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے وفد کا حصہ تھے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق ایوانکا اور اُن کے شوہر نے اس سفر سے قبل یہودی ربی سے باقاعدہ سفر کی اجازت لی۔ امریکی صدر کے اس وفد کے جن لوگوں کی نمایاں طور سے سعودی عرب میں پذیرائی ہوئی، ان میں ایوانکا بھی شامل ہیں۔ استقبالیہ ملاقات میں خود سعودی فرماں روا نے انھیں عرب روایت میں قہوہ پینے اور سیری کا اظہار کرنے کے طریقوں سے آگاہ کیا۔

عالمی سیاست کے اس منظرنامے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اب ایک بار پھر آپریشن ردالفساد کی طرف آتے ہیں۔ اس آپریشن میں کامیابی کے لیے اس کے طریقِ کار، اہداف اور نتائج کے بارے میں ہمیں صرف اور صرف اپنے داخلی احوال اور بدلتی ہوئی صورتوں میں اس کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔

علاوہ ازیں ہمیں اس حقیقت کو ہر شبہے سے بالاتر ہوکر سمجھنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ محض ہماری ذاتی جنگ ہے، اور فوج اس وقت تک اِسے مکمل طور پر نہیں جیت سکتی جب تک اُسے پوری قوم کا تعاون حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ جیسے پہلے کہا گیا، یہ ایک پیچیدہ جنگ ہے، تھرڈ جنریشن وار فیئر۔ اس میں خارجی قوتیں ہی کسی قوم اور تہذیب پر حملہ آور نہیں ہوتیں، بلکہ اُس کے اندر بھی باغی قوتیں پیدا ہوتی اور حملہ کرتی ہیں۔ اس جنگ میں مبتلا قوم کو صرف بہتر جنگی حکمتِ عملی سے ہی کام نہیں لینا ہوتا، بلکہ اپنی تہذیبی، سیاسی اور سماجی طرزِ حیات میں مثبت قوتوں اور اثباتی رویے کو بھی ابھارنا ضروری ہوتا ہے۔

تاریخ کے تجربات اس حقیقت پر اصرار کرتے ہیں کہ جب تک جنگ مکمل اور فیصلہ کن طور پر نہیں جیت لی جاتی، اس وقت تک ایک لمحے کے لیے بھی یہ سمجھنا کہ جنگ کا پانسہ اپنے حق میں پلٹ گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ جنگوں کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ جنگ کے آخری مراحل زیادہ نازک اور احتیاط کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اُس وقت جیتنے اور ہارنے والے دونوں کے رویے تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں۔ یہی تبدیلی غیرمتوقع نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ اور یہ بھی کہ خاص طور پر جنگ کے اختتامی مراحل میں سب سے زیادہ آزمائش اعصابی قوتوں کی ہوا کرتی ہے۔ ہمیں دہشت گردی کے خلاف اپنی اس جنگ میں ان تمام حقائق کو مدِنظر رکھنا ہے اور اپنی صورتِ حال، رویوں اور حکمتِ عملی کا بار بار جائزہ لینا اور اسے ہر ممکن نتیجہ خیز بنانا ہے۔

اب رہی یہ بات کہ دہشت گردی کی اس آگ سے اپنے نوجوان کو بچانا ضروری ہے۔ اس سے پہلے ہمیں دیانت داری اور صاف گوئی سے اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم نے قومی سطح پر اس سلسلے میں کوئی ہوش مندانہ اور ذمے دارانہ حکمتِ عملی اب تک اختیار نہیں کی تھی۔ ہمیں اس کی ضرورت کا احساس اُس وقت آکر ہوا جب پانی سر سے گزر رہا ہے اور یہ حقائق سامنے آرہے ہیں کہ انجینئرنگ اور میڈیکل کالج کی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات اس آگ میں کود رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اس قسم کے اکّا دُکّا واقعات اس سے پہلے بھی منظرِ عام پر آئے ہیں، لیکن اُن کے بارے میں زیادہ سنجیدہ رویہ اختیار نہیں کیا گیا۔ اس لیے اُن کی ضروری حد تک تحقیق و تفتیش کی گئی اور نہ ہی اُن کے مضمرات پر غور کیا گیا۔

دہشت گردی کے اس مسئلے پر ہی موقوف نہیں، ہمارے یہاں قومی اور حکومتی سطح پر نوجوانوں کی ذہن سازی اور کردار کی تشکیل ایسے اہم ترین کام پر اس طرح توجہ ہی نہیں ہے جس طرح ہونی چاہیے۔ اب سے اڑھائی تین عشرے پہلے تک اسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں خصوصاً ایسے اساتذہ ہوا کرتے تھے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسی سرگرمیوں کا بالالتزام اہتمام کیا جاتا تھا جو نوجوانوں کی ذہن سازی میں مفید ثابت ہوتی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ سماجی سطح پر بھی عموماً ایسے ادارے اور افراد نمایاں طور سے موجود تھے جو یہ کام پوری ذمے داری سے کرتے تھے۔ آج ہمارے تعلیمی اداروں کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ سرکاری اداروں میں اساتذہ کی سفارشی اور سیاسی بھرتیوں نے ان کی حیثیت اور کردار کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب وہاں کردار سازی تو کیا ہوگی خود تعلیم ہی ابتری کے حال کو پہنچی ہوئی ہے۔

دوسری طرف تعلیم کمرشیلائزڈ ہونے کے بعد وہ ادارے سامنے آئے ہیں جہاں اساتذہ اور طلبہ کا وہ رشتہ نہیں رہا جو ہونا چاہیے۔ پہلے اساتذہ راہ نما، مددگار اور نگراں ہونا پسند کرتے تھے۔ آج ان اداروں کے طلبہ اور اساتذہ میں آجر اور اجیر کا رشتہ اور دوستی کی فضا ہے۔ آج ایسے بیشتر اداروں میں درس و تدریس سے وابستہ اکثریت ایک ڈاکیے کا سا کردار ادا کرتے ہوئے کتابوں سے معلومات لے کر طلبہ تک پہنچانا کافی سمجھتی ہے۔ پہلے اساتذہ علم دیتے تھے جو شخصیت کی تعمیر کرتا تھا۔ آج اساتذہ ڈگری دلاتے ہیں جو ملازمت یا معاش کے حصول میں کام آتی ہے۔

مرحلہ جنگ کا ہو یا سماجی تبدیلی کا، تہذیب کی بقا کا ہو یا ثقافت کے فروغ کا، فلاح و تعمیر کا ہو یا تخریب و یورش کی مدافعت کا، آزادی کی جستجو ہو یا دفاع کی مہم، یہ طے ہے کہ قوموں کی زندگی میں نوجوان ہمیشہ ایک مؤثر قوت کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ افسوس حکومتی سطح پر اس قوت کو مفید طریقے سے استعمال میں لانے کے لیے اقدامات تو رہے ایک طرف، قاعدے سے منصوبہ بندی تک نہیں کی گئی۔ ایسا نہیں کہ اس قوت نے ہمارے یہاں اس عرصے میں اپنے وجود کا احساس نہیں دلایا۔ یقینا دلایا ہے، بابائے اردو کے جلوسوں سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کے جلسوں تک ہم اس قوت کے قابلِ لحاظ وجود کو دیکھتے آئے ہیں، لیکن ہمارے یہاں اس کا استعمال اُس طرح نہیں ہوا جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تین عشروں میں ہمارے نوجوان ہندوستان کی ثقافتی یلغار، مغرب کے تہذیب کش رجحانات اور طالبان کے انسان دشمن بیانیوں کا شکار ہوتے آئے ہیں۔ ویسے تو کسی نہ کسی صورت میں اسی نوع کا ایک عمل دنیا کے ان تمام ممالک میں ہوا ہے جہاں اپنا قومی یا متبادل بیانیہ موجود نہیں تھا۔ ہمارے یہاں صورتِ حال اس لیے بھی زیادہ سنگین ہوئی کہ ہم کوئی متبادل بیانیہ نہیں رکھتے تھے اور تیزی کے ساتھ بیک وقت مخالف سمت سے آتی ہوئی ہواؤں کی زد پر آگئے۔ ہمارے یہاں ایک طرف مادر پدر آزادی اور سماجی قدروں کی نفی کا عمل جس شدت سے شروع ہوا تو دوسری طرف اسی شدت سے مذہبی انتہا پسندی نے فروغ پایا۔

آج ہمیں صرف مذہب کے نام پر دہشت گردی کا سامنا نہیں ہے۔ ہمارے یہاں روشن خیال، لبرل اور سیکولر رجحانات بھی اِسی شدت پسندی کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو طالبان سے مخصوص ہے۔ عدم برداشت کے رویے نے ان رجحانات کے فروغ اور شدت دونوں میں اضافہ کیا ہے۔ ہمیں نوجوان نسل کی بے راہ روی پر تشویش تو ہے، لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ اُن کے بھٹکنے میں ہماری قومی صورتِ حال نے کتنا غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے۔ نئی نسل کو آج اپنے قومی شعور اور تہذیبی قدروں کی طرف واپس لانا دشوار تو بے شک ہے، لیکن ناممکن بہرحال نہیں ہے۔ اس قوت کو مؤثر انداز میں واپس مرکزی دھارے میں لانے کے لیے بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ہم اُسے قومی شعور کا حامل متبادل بیانیہ پیش کریں۔ اس بیانیے کی تشکیل و ترسیل میں قومی ادارے اور سماجی ذرائع سب اپنا حصہ ادا کریں۔

اس بیانیے میں یہ سکت ہونا بھی ضروری ہے کہ وہ موجود دیگر بیانیوں کو باطل اور مسترد کرسکے۔ اس لحاظ سے ہمارے قومی بیانیے کو دراصل ایسا مہابیانیہ ہونا چاہیے جو ہمارے تہذیبی جوہر کو پوری قوت سے پیش کرتا ہو اور اُسے عمل کی سطح پر قابلِ فہم اور قابلِ قدر بناتا ہو۔ قومی سالمیت اور تہذیبی بقا کے اس جنگ میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ:

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

The post عالمی سیاست، دہشت گردی اور متبادل بیانیہ appeared first on ایکسپریس اردو.

جلد کا سنگین مرض ’ایپی ڈرمولیسس بلوسا‘

$
0
0

بیانکا سونڈرز کی عمر صرف 24سال ہے۔ وہ ایک طالبہ ہے اور اس کا تعلق میلبورن (آسٹریلیا) سے ہے۔ وہ بے چاری جلد کی ایک ایسی موذی بیماری کا شکار ہوگئی ہے جس کے باعث اسے روزانہ سمندر کے کنارے جاکر نمک اور بلیچ ملے پانی سے غسل بھی کرنا پڑتا ہے اور ساحل پر ننگے پاؤں ریت پر چہل قدمی بھی کرنی پڑتی ہے۔

جلد کی یہ بیماری اتنی عجیب و غریب نوعیت کی ہے کہ اس کے باعث Bianca کے پورے جسم پر کھلے اور ناگوار زخم نمودار ہوجاتے ہیں جو دیکھنے میں تو بدنما لگتے ہی ہیں، لیکن جن کی وجہ سے اسے بہت تکلیف بھی ہوتی ہے اور خاصی جدوجہد بھی کرنی پڑتی ہے۔

اس عجیب و غریب بیماری کو ‘butterfly’ disease Epidermolysis Bullosa

کا نام دیا گیا ہے۔ اس تشویش ناک بیماری کی وجہ سے بیانکا ذہنی فکر، الجھن اور احساس کم تری کا شکار ہوگئی ہے۔ جب اس کے سامنے کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا تو بیانکا نے میک اپ کا سہارا لیا اور اس کے ذریعے اپنی بدنمائی چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔ میک اپ سے وقتی طور پر اس کے زخم تو چھپ جاتے ہیں، لیکن اس کا اعتماد بحال نہیں ہوپاتا جس کی وجہ سے اس نے میک اپ کو بالکل ہی چھوڑ دیا۔

بیانکا سونڈرز کینبرا کی یونیورسٹی میں کرمنولوجی کے شعبے میں ماسٹرز کررہی ہے، اس شعبے اور اس مضمون نے اس کی زندگی کو ایک مقصد بھی دے دیا ہے اور وہ کسی حد تک اپنی بیماری سے لڑنے کے قابل بھی ہوگئی ہے۔ اس 24سالہ طالبہ بیانکا کی ٹانگوں اور بازوؤں کی جلد پر اوپر سے نیچے تک آبلے ہی آبلے پڑے ہوئے ہیں جو اب اس کی زندگی کا مستقل حصہ بن چکا ہے اور کسی حد تک اس نے انہیں قبول بھی کرلیا ہے۔

بیانکا کو یہ بیماری اس کی پیدائش کے وقت سے ہی لاحق ہے، یہ ایک جینیاتی مرض ہے جس نے اسے شروع سے ہی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اب تو وہ بے چاری پوری زندگی اسی بیماری Epidermolysis Bullosa (EB) کا شکار رہی ہے اور شاید اس سے کبھی نہ نکل سکے۔ اسی لیے وہ کہتی ہے کہ اب یہ مرض مجھے اپنا اپنا سا لگنے لگا ہے، مجھے اس سے الجھن تو ہوتی ہے، لیکن پھر بھی یہ میرا دوست بن گیا ہے۔

ماہرین نے کافی غوروفکر اور بحث کے بعد یہ خیال پیش کیا ہے کہ جو گلو یا چپکانے والا مادہ انسانی جلد کو باندھ کر رکھتا ہے، اس مادے کی مقدار بعض کیفیات میں یا تو وہ ہمارے جسم میں کم ہوجاتی ہے یا سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا، یہ کیفیت دس لاکھ میں سے صرف ایک فرد میں ہوتی ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو اس نادر بیماری کی راہ ہموار کرتی ہے لہٰذا اسی وجہ سے ہی میلبورن میں رہنے والی بیانکا نامی طالبہ اس مسئلے سے دوچار ہے، اس کے باعث اس کی جلد نہایت کم زور اور بھربھری ہوگئی ہے، ظاہر ہے اس کیفیت میں بیانکا کے لیے روزمرہ کے امور انجام دینا مشکل ہوگیا ہے۔ اس بے چاری کے سامنے ہر روز بے شمار چیلنیجز کھڑے رہتے ہیں۔ ایک سے نمٹتی ہے تو دوسرا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، اس لڑکی کو نہ جانے کیسی کیسی کیفیات سے گزرنا پڑتا ہے، مگر ان کا کوئی حل ابھی تک اس کے سامنے نہیں آسکا ہے۔

اپنی بیماری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بیانکا کا کہنا ہے کہ میرے لیے یہ بے حد الجھن کی بات ہے کہ میں سارا دن دوسروں کی مدد کی محتاج رہوں اور ہر کام میں ان کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھوں۔ یہ تو بڑی عجیب سی بات ہے کہ انسان دوسروں کے سامنے بھکاری بن کر کھڑا رہے۔ ظاہر ہے میری اس بیماری نے میری آزادی کو محدود کردیا ہے۔ نہ میں اپنی مرضی سے کہیں آجاسکتی ہوں اور نہ کوئی کام کرسکتی ہوں۔ میں آپ کو بتاؤں کہ ہمارے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر یہ بڑی الجھن کی بات ہے کہ ہم اپنا کام بھرپور انداز میں انجام نہ دے سکیں اور اپنی بیماری کی مختلف کیفیات کی وجہ سے کام تو کریں، کیوں کہ کام کرنا ہماری مجبوری ہے، مگر یہ کام بڑی الجھن اور پریشانی کے عالم میں کروں، یہ کافی پیچیدہ مسئلہ ہے۔

بیانکا کا کہنا ہے کہ میں جس بیماری کا شکار ہوئی ہوں، اس کا نام Epidermolysis Bullosa (EB) ہے اور یہ ایک ایسی عجیب و غریب بیماری ہے جس میں جِلد پر نمودار ہونے والے آبلے یا دانے ذرا سے کسی کے چھونے یا ٹکرانے سے ہی بری طرح چھل جاتے ہیں اور پھر ان میں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اس نے بتایا کہ میں نے اس کے بارے میں جو معلومات حاصل کیں اور جو اعدادوشمار جمع کیے، ان کے مطابق آسٹریلیا میں اس وقت لگ بھگ 1000افراد Epidermolysis Bullosa (EB) نامی مرض کی کسی نہ کسی قسم میں مبتلا ہیں اور دنیا بھر میں اس مرض کے پانچ لاکھ سے بھی زائد افراد پائے جاتے ہیں۔ گویا دنیا کا ایک بڑا حصہ اس عجیب بیماری کو جھیل رہا ہے۔

بیانکا کا یہ بھی کہنا ہے کہ روزانہ ساحل سمندر پر جاکر بلیچ اور نمک ملے پانی سے غسل کرنا نہایت دردناک ہے۔ زخموں کو صاف کرنے کے لیے نمک اور بلیچ دونوں ضروری ہیں۔ اس کے بعد لگ بھگ آدھے گھنٹے میں لباس تبدیل کرنا اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ چناں چہ مجھے مجبوراً درد دور کرنے والی دوائیں لینی پڑتی ہیں تب کہیں جاکر میں آرام سے کوئی کام کرپاتی ہوں۔ لیکن یہ سارا تجربہ کافی بھیانک ہے جس کے بارے میں لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔

بیانکا نے یہ بھی بتایا کہ ایک عورت ہونے کے ناتے مجھے زیادہ احتیاط کرنی پڑتی ہے، اگر میری جگہ کوئی مرد ہوتا تو وہ بہت سے اپنا ہر کام کسی بھی طرح کی فکر کیے بغیر مکمل آزادی سے کرسکتا تھا، مگر مجھے اپنے جسمانی مسائل کے حوالے سے خاصا محتاط رہنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی خواتین کو اپنے جلدی امور پر زیادہ توجہ دینی پڑتی ہے، کیوں کہ ان کی ساری خوب صورتی اسی سے وابستہ ہے۔ خواتین کو اپنی جسمانی تبدیلیوں اور خاص طور سے جلد کے مسائل پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمارا اعتماد مجروح ہوجائے۔ ہماری جلد ہمارے لیے اس قلعے کی حیثیت رکھتی ہے جس کے اندر ہمارا سارا حسن اور اعتماد بالکل محفوظ اور پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ ہمارا تحفظ بھی ہے اور ہماری اپنی حسین و جمیل دنیا بھی جس کے اندر رہ کر ہم اپنی پسندیدہ زندگی پوری آزاد ی کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے اس قلعے کو نقصان پہنچے تو سمجھ لیجیے کہ ہمارا کیا ہوگا؟

اگر ہماری جلد ہمیں بھرپور اعتماد دیتی ہے تو ہمارا لباس ہمیں اور بھی زیادہ اعتماد دیتا ہے۔ یہ ہمارا لباس ہی تو ہے جو ہمارے زخموں کو ڈھک لیتا ہے اور ان بدنما زخموں کو دنیا والوں کی نظروں سے چھپا لیتا ہے۔ جب یہ زخم دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ ہوگئے تو پھر ہم خود کو بے حد حسین اور بااعتماد محسوس کرتے ہیں اور اسی کی ہمیں زیادہ ضرورت ہے۔ عورت کے لیے اس کے جسمانی حسن سے زیادہ اہم اس کا اعتماد ہے جو اس کے حُسن کو چار چاند لگادیتا ہے۔ مجھے اس بیماری کے کچھ دن بہت زیادہ بے چینی میں مبتلا کیے رکھتے ہیں اور میں فل ٹائمAnxietyکا شکار رہتی ہوں۔

بیانکا نے یہ بھی بتایا کہ خاص طور سے اسکول کے دنوں میں اس بیماری نے مجھے بہت زیادہ مضطرب اور پریشان رکھا اور کئی مواقع پر میرے اپنے دوستوں یا کلاس فیلوز سے جھگڑے بھی ہوئے تھے۔ میری کلاس کی لڑکیاں یا لڑکے میری اس جینیاتی بیماری سے نہ تو واقف تھے اور نہ وہ اس کے بارے میں کوئی عقل یا شعور رکھتے تھے۔ اسی لیے وہ نہ مجھے سمجھ پاتے تھے اور نہ میری کیفیت کو۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے یا تو میرے زخموں کا مذاق اڑایا یا ان پر تنقید کی تو میرا ان سے جھگڑا ہوگیا۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی تھا کہ اگر ان میں سے کوئی مجھ سے ذرا بھی ٹکراجاتا تو میں چیخ پڑتی تھی، لیکن میری کیفیت سے ناواقف میرے دوست اس پر احتجاج کرتے تھے جس پر بات بڑھ جاتی تھی۔ ان بے چاروں کو کیا معلوم کہ میں کس عذاب سے گزر رہی ہوں۔

Bianca Saunders کھیلوں سے دور کیوں رہی؟ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہے کہ میں ہمیشہ کھیلوں یا اسپورٹس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے کتراتی رہی، ظاہر ہے اس کی وجہ میری جینیاتی کیفیت تھی، جب ایک 24سالہ طالبہ کے سر پر ہر وقت یہ تلوار لٹکتی رہے گی کہ اگر اس نے کھیلوں میں حصہ لینے کی کوشش کی تو دوسرے بچوں اور کھلاڑیوں سے ٹکراکر وہ اور بھی زیادہ زخمی ہوسکتی ہے تو پھر وہ کبھی میدان میں تو نہیں کھیل سکے گی، ہاں اپنے گھر کے اندر کسی محفوظ جگہ کھیل لے تو الگ بات ہے۔

میں جب بھی گھر سے باہر جاتی ہوں تو بہت زیادہ محتاط اور چوکس ہوتی ہوں، کیوں کہ مجھے اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ میں نہ کسی سے ٹکراؤں اور نہ کوئی مجھ سے ٹکرائے، اس ٹکراؤ کی صورت میں میرا جو حشر ہوگا، وہ آپ سب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔

کبھی کبھی تو اپنی اس کیفیت کی وجہ سے مجھے بہت چڑچڑاہٹ اور بیزاری ہونے لگتی ہے۔ میں عام لوگوں سے اپنی اس انوکھی بیماری کے بارے میں بات بھی نہیں کرتی، مجھے بہت سوچ سمجھ کر ایسے شخص کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جو سمجھ دار ہو اور میری بات سمجھ سکے ورنہ ہر آدمی تو میری کیفیت کا سن کر آنکھیں پھاڑ کر مجھے ایسے دیکھتا ہے جیسے میں پاگل ہوں یا کسی ذہنی خلل کا شکار ہوں۔

بیانکا اس وقت کرمنالوجی میں ماسٹرز کررہی ہے، مگر یہاں بھی اس کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں، کئی پریشانیاں ہیں۔ وہ جب اپنی کلاس میں ان بدنما زخموں کے ساتھ جاتی ہے اور ضرورت سے زائد میک اپ کرکے جاتی ہے تو اپنی طرف اٹھنے والی نگاہیں اسے بہت پریشان کرتی ہیں جن کی وجہ سے وہ چڑچڑی ہوجاتی ہے۔ بیانکا کا کہنا ہے:’’میں وہ نہیں ہوں جو میں نظر آتی ہوں، بلکہ میں وہ ہوں جو میں نظر نہیں آتی۔

میرا سب سے بڑا امتحان وہ ہے جب میں اس ساری تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اپنے آپ کو پر اعتماد رکھتی ہوں اور اپنے چہرے سے ذرا بھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیتی کہ میں اس کیفیت کی وجہ سے پریشان ہوں یا اس کیفیت نے مجھے ڈسٹرب کررکھا ہے۔ اب تو میں نے اپنی زندگی اور اپنی زندگی کی اس دائمی بیماری کو قبول کرکے اس سے سمجھوتا کرلیا ہے، کیوں کہ میں جان چکی ہوں کہ یہ کیفیت اب میری ذات کا حصہ بن چکی ہے جس سے نجات حاصل کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔ اب میں اور میری بیماری جنم جنم کے ساتھی بن چکے ہیں۔‘‘

بیانکا کہتی ہے:’’میں چوں کہ اب 24 سال کی ہوچکی ہوں، اس لیے میک اپ استعمال کرنا میری مجبوری بھی ہے اور میری ضرورت بھی، مگر میں نے کبھی میک اپ کو اپنا اعتماد بڑھانے کے لیے بہ طور ہتھیار استعمال نہیں کیا اور نہ کبھی کروں گی۔ میں میک اپ ضرور کرتی ہوں، لیکن اسے بہ طور دوا یا علاج استعمال کرتی ہوں، کیوں کہ اس کی وجہ سے میرا اعتماد بھی بڑھ جاتا ہے اور میری عزت نفس بھی محفوظ ہوجاتی ہے۔‘‘

بیانکا کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کیفیت میں مجھے بہت زیادہ مانیٹرنگ (نگہ داشت) کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے بارہا متعدد اسپیشلسٹ حضرات سے اپائٹمنٹ بھی لینے ہوتے ہیں۔ ایسے میں میرے لیے تعلیم اور اپنی اس کیفیت میں توازن برقرار رکھنا ممکن نہیں رہتا۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنی روزمرہ زندگی کے اہداف پر توجہ کیسے مرکوز کروں، کیوں کہ میری اس کیفیت نے میری زندگی کو چیلینجنگ بنادیا ہے۔

اپنی اس جینیاتی کیفیت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے بیانکا کہتی ہے:’’جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، میرے لیے زندگی مشکل ترین ہوتی جارہی ہے۔ جیسے جیسے میری عمر بڑھ رہی ہے، مجھے اس بات کا احساس ہونے لگا ہے کہ عام زندگی میں دوسرے لوگ بعض کام جتنی آسانی سے کرلیتے ہیں، وہ کام میرے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتے ہیں۔ چناں چہ میں انہیں کرنے کے لیے متبادل طریقے ڈھونڈتی رہتی ہوں۔ چوں کہ میرے زخم کھلے ہوتے ہیں، اس لیے ان میں مستقل طور پر انفیکشنز کا خطرہ بھی سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ اس سے میں سخت ڈیپریشن اور تکلیف میں مبتلا ہوجاتی ہوں، مجھے اکثر اینٹی بایوٹکس کی ضرورت پڑتی ہے جس کی وجہ سے میرے زخم بہت آہستگی سے مندمل ہوتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری میں مبتلا افراد بہت تکلیف برداشت کرتے ہیں، ان کی روزانہ مرہم پٹی کرنی چاہیے، تاکہ ان کے کھلے زخم ڈھک جائیں اور اس طرح وہ ہر طرح کے بیرونی انفیکشن سے محفوظ رہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ضمن میں ہنگامی کیمپ لگائے جائیں اور متاثرین کو ایسے مشورے دیے جائیں جن پر عمل کرکے وہ اس بیماری کی مضرت رسانیوں سے محفوظ رہ سکیں۔

٭اور اب جیکسن کی کہانی:
اوپر ہم نے میلبورن کی 24سالہ لڑکیBianca Saunders کی درد ناک کہانی بیان کی ہے، یہاں ہم انگلستان کے ایک دو سالہ لڑکے Jackson Rochford کی کہانی سنارہے ہیں۔ یہ بچہ بھی اسی Butterfly Disease میں مبتلا ہے جس نے بیانکا کو اپنا شکار بنارکھا ہے۔ جیکسن روچ فورڈ کی جلد اتنی نازک ہے کہ وہ اپنے پیروں میں جوتے تک نہیں پہن سکتا۔ حد یہ ہے کہ یہ لڑکا اگر لباس تبدیل کرتا ہے تو اس کے آبلے پھٹ جاتے ہیں اور معمولی سے ٹچ پر جلد پھٹ جاتی ہے اور زخم نمودار ہوجاتے ہیں۔ یہ بے چارہ بچہ نہ تو جینز پہن سکتا ہے اور نہ ہی کھردرے یا سخت قسم کے کپڑے سے تیار کردہ کوئی چیز استعمال کرسکتا ہے۔ یہ لباس اس بے چارے بچے کی جلد چھیل ڈالتے ہیں۔ چوں کہ یہ لڑکا جوتے تک نہیں پہن پاتا، اس لیے اگر اسے باہر جانا ہو تو اس کی ممی کو اسے گود میں لے جانا پڑتا ہے۔

ننھا جیکسن بھی اسی عجیب جینیاتی بیماریepidermolysis bullosa (EB) کا شکار ہے جو برطانیہ میں ہر 14000افراد میں سے ایک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا مریض بچوں کو ان کی نازک اور کم زور جلد کی وجہ سے ’’بٹرفلائی چلڈرن‘‘ کہا جاتا ہے۔ فی الحال اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے، اس بیماری کا شکار افراد عام طور سے چھوٹی عمر میں جلد کے کینسر کا شکار ہوکر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔

جیکسن کی ممی کیری کا کہنا ہے کہ جب میں اپنے بیٹے کو گود میں لے کر باہر جاتی ہوں تو اکثر لوگ مجھے حیرت سے دیکھتے ہیں اور نکتہ چینی بھی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ میرے بیٹے کو ننگے پاؤں دیکھ کر حیران بھی ہوتے ہیں، مگر میں ہر کسی کو تو اس کی بیماری کی تفصیل نہیں بتاسکتی ناں، اس لیے ایسے لوگوں کو نگاہوں کو نظرانداز کرکے آگے بڑھ جاتی ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خاص طور سے سرد موسم میں لوگ میرے بیٹے کو میری گود میں بغیر جوتوں کے دیکھ کر یہی سوچتے ہوں گے کہ میں پاگل ہوں۔ لیکن میں کیا کروں، میرے بیٹے کی جلد تتلی کی طرح نازک ہے، وہ معمولی سی رگڑ بھی برداشت نہیں کرپاتی۔ حالاں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ دنیا کے سب لوگوں کو اپنے بیٹے کی اس انوکھی بیماریEB کے بارے میں بتاؤں، مگر پھر اپنا دل مسوس کر رہ جاتی ہوں۔

Epidermolysis Bullosa کیا ہے؟
یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں متاثرہ فرد کی جلد بالکل نازک اور کم زور ہوجاتی ہے اور آسانی سے زخمی ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں جلد پر تکلیف دہ آبلے نمودار ہوجاتے ہیں۔ ان آبلوں میں اگر انفیکشن ہوجائے تو سنگین مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔ EB کے کچھ مریض اس کی معمولی قسم میں مبتلا ہوتے ہیں جس میں متاثرہ فرد کی جلد پر چند آبلے ہی نمودار ہوتے ہیں، جب کہ دیگر مریضوں کی جلد پر بہت سے آبلے نمودار ہوتے ہیں جن میں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن بعض متاثرہ افراد کے جسم کے اندر کے اندر جیسے منہ، معدے، esophagus یا غذائی نالی کے علاوہ مثانے اور دیگر مقامات پر بھی آبلے پیدا ہوجاتے ہیں۔

ویسے تو کوئی بھی فرد Epidermolysis Bullosa کا شکار ہوسکتا ہے، مگر عام طور سے اس کی علامات خاص طور سے بچوں یا گھٹنوں گھٹنوں چلنے والے بچوں میں نمودار ہوتی ہیں۔ اکثر کیسز میں یہ ایک موروثی بیماری کے طور پر سامنے آتی ہے، مگر اس بیماری کی سب سے اہم اور نمایاں علامت جلد پر نمودار ہونے والے آبلے ہیں۔ فی الحال اس کا کوئی علاج نہیں ہے، مگر مریضوں کی جلد کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے سے تکلیف کی شدت کم ہوسکتی ہے۔

The post جلد کا سنگین مرض ’ایپی ڈرمولیسس بلوسا‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

جسم میں خون کی کمی

$
0
0

کسی بھی فرد میں خون کی کمی اور خون نہ بننے کی سب سے بڑی وجہ میٹابولزم کی خرابی ہے۔ 

غذائی رد و بدل کے ساتھ مناسب ادویات کا استعمال بھی ضرور کرنا چاہیے۔ مفید غذاؤں کا استعمال بڑھانے اور نقصان دہ خوراک میں کمی کرنے سے بھی کافی افاقہ میسر آتا ہے۔ خون کی کمی میں مبتلا خواتین سب سے پہلے یہ یقین دھانی کر لیں کہ انہیں کوئی نسوانی مسئلہ نہ ہو۔ اسی طرح مرد حضرات بھی خون میں کمی کا باعث بننے والے دوسرے امراض کی جانچ پڑتال ضرور کرلیں۔ اگر کوئی ایسا مسئلہ ہو تو اس کا علاج بھی لازم کریں، ورنہ ہر طرح کی کوشش بے سود جائے گی۔

جسمانی کمزوری اور خون کی کمی دور کرنے کے لیے بطورِ علاج معروف طبی مرکب اکسیرِ جگر شربت کے دو چمچ صبح و شام نہار منہ عرقِ بادیان کے آدھے کپ میں ملا کر پینا شروع کر دیں۔ رات سوتے وقت دوا ء لمسک معتدل سادہ ایک چمچی نیم گرم دودھ کے ساتھ لیں۔ بینگن، بڑا گوشت، چاول، انڈہ، دال مسور، تلی، بھنی، ترش، بادی اور مرغن غذائی اجزاء سے مکمل پرہیز کریں۔

موسمی پھل، کچی سبزیاں،ترکاریاں اور سلاد بکثرت استعمال کریں۔ انار، انگور، امرود،سیب،ٹماٹر، مسمی پالک،گاجر کا مربہ ،بہی کا مربہ، چقندر، شلجم ،مولی، کھیرا، گھیا، ٹینڈے اور پودینہ ،انار دانہ و ادرک کی چٹنی باقا عدہ رو ز مرہ خوراک میں شامل کریں۔ خالی پیٹ تیز قدموں کی سیر اور ہلکی پھلکی ورزش کرنے کو معمول بنائیں۔ صاف وشفاف ہوا میں لمبی لمبی سانسیں لیناخون میں تازہ آکسیجن ان ٹیک لیول بڑھانے کا بہترین قدرتی ذریعہ ہے۔

The post جسم میں خون کی کمی appeared first on ایکسپریس اردو.

بالوں کو بھی غذا چاہیے ورنہ یہ گر جائیں گے

$
0
0

بال انسانی شخصیت کو خوبصورت اور پر کشش بنانے میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں.

بالوں کی مضبوطی، لمبائی، چمک اور حفاطت کا دارو مدار ہماری روز مرہ خوراک پر ہوا کرتا ہے جس طرح کسی بھی پودے کی نشوونما کے لیے زمین کی زرخیزی،اندرونی طور پر غذائی اجزا کی ترسیل اور مناسب ماحول کا ہونا ضروری ہے بالکل اسی طرح ہمارے بالوں کو مطلوبہ غذا ئی اجزاء کیرو ٹونن اور میلانن کی ضرورت ہوتی ہے۔ فولاد، کاپر، زنک، آئیو ڈین اور آکسیجن وغیرہ کی مخصوص مقدار بھی بالوں کی نشو ونما، چمک، ملائمت اور مضبوطی کے لیے لازمی خیال کی جاتی ہیں۔

نئی نسل شیمپو پر انحصار کیے ہوئے ہے لیکن جب اندر ہی خالی ہوگا تو بیرونی طور پر لگائے گئے شیمپو بالوں کی رونق، لمبائی اور مضبوطی میں خاک اضافہ کر سکیں گے۔ دھیان رہے صرف شیمپو کا استعمال کرنے سے بال لمبے،مضبوط اور گھنے نہیں ہو سکتے ہیں۔ جب تک بالوں کی نشو ونما کے لیے درکار غذائی عناصر خون میں شامل ہوکر بالوں کو تراوت کا سبب نہیں بنتے تب تک بال صحت مند نہیں رہ سکتے۔ بالوں کے مسائل میں گرفتا افراد سب سے پہلے اپنی خوراک پر دھیان دیں۔

مذکورہ غذائی عناصر سے بھرپورغذائیں روز مرہ خوراک میں لازمی شامل کریں۔ دودھ، مکھن، دیسی گھی، گوشت، مچھلی، انڈہ، سبزیاں اوردالوں وغیرہ کی مناسب مقدار روز مرہ خوراک میں شامل کریں۔ بیرونی طور پر بالوں کو بارونق، نرم و ملام اور خوبصورت بنانے کے لیے دہی ،انڈہ اور بادام روغن کا مرکب جڑوں سمیت پورے بالوں پر لیپ کریں اور دو گھنٹے لگا رہنے کے بعد دھو ڈالیں۔ بالوں میں تیل کا مساج لازمی کیا کریں۔

مساج کے لیے سرسوں کا تیل، بادام روغن اور کیسٹر آئل کو باہم ملا کردوسرے چوتھے روز بالوں میں انگلیوں کے پوروں سے ہلکا ہلکا مساج کرنا بالوں کی رنگت، چمک، مضبوطی اور نشوونما کو ہمیشہ قائم اور بحال رکھتا ہے۔ خالی پیٹ ورزش خاص کر یوگا ورزشیں جو بالوں سے مخصوص ہوں کا کرنا بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔ میٹابولزم خراب کرنے والی غذاؤں،غیر معیاری شیمپوؤں ،بازاری اور اشتہاری تیلوں اور سنے سنائے ٹوٹکوں کے اندھادھند استعمال سے مکمل طو رپر بچنے کی کوشش کی کریں۔

The post بالوں کو بھی غذا چاہیے ورنہ یہ گر جائیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.

ناک کی غدود کا بڑھنا کیا ہے؟

$
0
0

ناک کی غدود کے حوالے سے یہ بتانا بڑا ضروری ہے کہ یہ غدود بڑھتی نہیں بلکہ جب اس پہ سوزش طاری ہوتی ہے یہ پھیل کر نتھنے کی بندش کا سبب بن جاتی ہے اور کسی بھی ایکسرے وغیرہ میں اس کا سائز بڑا دکھائی دینے پر اسے بڑھا ہو ا کہہ دیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے جو لوگ اپنے معالج کے کہنے پر آپریٹ کروا کے اسے کٹوا دیتے ہیں، انہیں کچھ عرصے بعد ہی دوبارہ سے انہی علامات سے پالا پڑجاتا ہے۔

طبی لحاظ سے یہ غدود ایک جھلی نما پردہ ہے جسے نیزل ممبرین کہا جاتا ہے اور اس کا کام ناک کے رستے اندر کی طرف کھینچی جانے والی ہوا کو گرد و غبار اور ذرات سے صاف کرنا ہوتا ہے۔ ہم اکثر وبیشتر دیکھتے ہیں کہ سو کر اٹھنے کے بعد نتھنوں میں جمی ہوئی رطوبات نکالنی پڑتی ہیں۔ ان رطوبات میں گدلا پن اور ذرات بھی واضح دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر ناک کے رستے بذریعہ سانس کھینچی جانے والی ہوا کو فلٹر نہ کیا جائے تو انسان کے پھیپھڑوں میں غلاظت بھر جانے سے زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جن افراد میں حساسیت زیادہ ہوتی ہے وہ اس جھلی کی سوزش کا شکار ہو کر کئی مسائل میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

اگر مزاج کی حساسیت ختم کر دی جائے تو حامل کے ناک کی جھلی بھی اپنی مناسب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے لگتی ہے۔ نیچرو پیتھی علاج بالضد ہے اور اس میں گرمی کو سردی،سردی کو گرمی،خشکی کو تری اور تری کوخشکی سے متوازن کیا جاتا ہے۔ دوا کی مثال مکینک کی سی ہے اور غذا کا درجہ ایندھن کے مترادف ہے ۔کسی بھی پرزے کی خرابی دور کرنے کے لیے مکینک ضروری ہے۔ اسی طرح جسمانی خرابی کو دور کرنے کے لیے دوا لازمی جز ہے۔ غذا تو تن درستی کو قائم رکھنے کی ضمانت ہے۔

آج کل لوگوں کاایلو پیتھ حضرات کی طرف زیادہ رجحان ہونے کی ایک بڑی وجہ کوئیک رسپانس ہے۔ وہ صرف دوا کا مشورہ دیتے ہیں اور غذا کے بارے میں کوئی پابندی نہیں کرتے، یوں دوا کھانا بڑا آسان لگتا ہے۔ ہماری تحریروں کا اولین مقصد ہی روز مرہ غذاؤں کے انتخاب میں مناسب اور متوازن خوراک کا استعمال کر کے عام بدنی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔

ناک کی بڑھی ہوئی غدود کے مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے گھریلو تراکیب آبِ ترپھلہ نہار منہ پینے اورکھانے کے بعد سونف، زیرہ، بڑی الائچی اور چھوٹی الائچی کا قہوہ پینا مفید ہوا کرتا ہے۔بطورِ علاج حب کبد نوشادری کی دو گولیاں دن میں تین بار کھانا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ رات سوتے وقت اطریفل اسطوخودوس ایک چمچی نیم گرم پانی میں حل کر کے استعمال کرنا بے حد فوائد کا سبب بنتی ہے۔

چاول، بینگن، دال مسور،تلی بھنی اور مرغن غذاؤں سے پرہیز کریں۔ بند نتھنے فوری کھولنے کے لیے روئی پر روغن زیتون لگا کر سونگھنے سے سانس کی روانی بحال ہو جایا کرتی ہے۔ اسی طرح مشک سونگھنے سے بھی بہت ہی افاقہ ہوتا ہے اور بند ناک ہمیشہ کے لیے کھل جاتی ہے۔

The post ناک کی غدود کا بڑھنا کیا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


ہاتھ پاؤں کیوں سُن ہوتے ہیں؟

$
0
0

ہاتھ پاؤں سُن ہونے کی سب سے بڑی وجہ جسمانی کمزوری سمجھی جاتی ہے اور جسمانی کمزوری کا سب سے بڑا سبب مناسب اورمتوازن غذا کا نہ ہونا ہے۔

ہمارے ہاں نوجوان خواتین و حضرات کو جسمانی کمزوری، ہاتھ پاؤں کا سن ہونا اور خون کی کمی کا اکثر سامنا رہتا ہے، جس کی ایک بہت بڑی وجہ حفظانِ صحت کے حوالے سے معلومات کا نہ ہونا ہے۔ جب ایک نابالغ بلوغت میں قدم رکھتا ہے تو اسے رہنمائی کی بہت زیادہ ضرورت ہوا کرتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ایج گیپ کی وجہ سے بڑے اسے چھوٹا کہہ کر قریب نہیں آنے دیتے اور چھوٹے اس سے بڑا سمجھ کر کترانے لگتے ہیں۔

عمر کا یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب نوجوانوں کو جسمانی غذاؤں کے ساتھ ذہنی خوراک کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جسمانی اور جنسی تبدیلیوں کا یہ مرحلہ نوجوانوں کی ز ندگی کا ایک اہم موڑ ہوتا ہے اور یہاں انہیں بدنی، ذہنی، معاشری، اخلاقی اور سماجی لحاظ سے بہت زیادہ رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مناسب ماحول اور تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے اکثر نوجوان اپنی بدنی اور ذہنی صلاحیتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

ایسے تمام نوجوان جنہیں بدنی اور ذہنی کمزوری کی وجہ سے ہاتھ پاؤں سن ہونے کا سامنا ہے وہ سب سے پہلے اپنی خوراک میں سے کولڈ ڈرنکس، بیکری مصنوعات،فاسٹ فوڈز اور تلی، بھنی اور تیز مصالحہ جات سے تیار غذائیں نکال دیں۔ نہار منہ سیر اور ورزش کو اپنے معمول کا لازمی حصہ بنائیں۔

کیلے اور کھجور کا ملک شیک،گھر کے بنے آلو چپس،ابلے ہوئے چاول، موسمی پھل، پھلوں کے رس اور ہر قسم کی سبزیاں بکثرت استعمال کریں۔ ذہنی تھکاوٹ اور بدنی اکساہٹ سے بچنے کے لیے شربت فولاد کے دو چمچ دن میں دو بار کھانے کے بعد پینا شروع کریں۔ اپنی سوچ و اپروچ تعمیری بنائیں اور تخریبی جذبات کو اپنے قریب بھی نہ آنے دیں۔ انشاء اللہ دو چار ہفتوں میں ہی طبیعت ہشاش بشاش اور توانا وطاقت ور ہو کر ہاتھ پاؤں سن ہونے اور عام جسمانی کمزوری سے نجات مل جائے گی۔

The post ہاتھ پاؤں کیوں سُن ہوتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

لو بلڈ پریشر؛ وجوہات، نتائج اور علاج

$
0
0

بلڈ پریشر دو قسم کا ہوتا ہے، اس میں اوپر والا جسے طب میں سسٹول کہا جاتا ہے اور نیچے والے کو ڈائی سٹول کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

لو بلڈ پریشر میں خون کے دباؤ میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ زیریں فشارِ خون میں کمی بھی بعض اوقات موت کا باعث بن جایا کرتی ہے۔ جب بلڈ پریشر ضروری سطح سے نیچے گرتا ہے، تو اس کی رسد دماغ کی طرف کم ہونے لگتی ہے۔ دماغ کی طرف خون کی رسد کم ہونے سے مطلوبہ آکسیجن کی مقدار میں تعطل پیدا ہو جاتا ہے۔

یاد رہے اگر دماغ چند سیکنڈ تک آکسیجن سے محروم ہو جائے تو بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے اور اگر یہ محرومی منٹوں میں بدل جائے تو دماغ مردہ ہو جاتا ہے۔ دماغ چوں کہ پورے جسمِ انسانی کے افعال کنٹرول کرتا ہے یوں پورا جسم ہی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

لو بلڈ پریشر میں مبتلا افرادسب سے پہلے تو اپنا Lipid profile چیک کروائیں۔ مفید اور نقصان دہ کولیسٹرول کے تناسب کا جائزہ لیں۔کسی ماہر معالج سے مشورہ کریں اور اس کی ہدایات پرعمل پیرا ہوں۔ خون گاڑھا ہونے کا مطلب صرف بلڈ پریشر ہائی ہونا ہی نہیں ہوتا بلکہ خون گاڑھا ہونے کی صورت میں بلڈ پریشر لو بھی ہوا کرتا ہے۔

علاوہ ازیں بلڈ پریشر لو ہونے کی ایک عام وجہ غذائی کمی،خون میں آئرن کی مطلوبہ مقدار کا نہ ہونا اور بوجوہ خون کا بہہ جانا بھی ہوسکتا ہے۔ بطورِ گھریلو علاج اور احتیاط آپ توانائی سے بھرپور لیکن چکنائی سے پاک غذاؤں کا استعمال فوری شروع کر دیں۔ میڈیکل پامسٹری کی رو سے بلڈپریشر ہائی یا لو میں مبتلا افراد اگر اپنے دائیں ہاتھ کی رنگ فنگر میں سنگِ یشب یا لاجورد کو بطورِ نگینہ پہن لیں تو مرض کی کئی ایک پیچیدگیوں سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔

سنگِ یشب کا سب سے چھوٹا پیدا یہ ہے کہ جب تک یہ بدن کو چھوتا رہے گا دل کے دورے اور برین ہیمریج سے حفاظت رہے گی۔ سنگ لاجورد طبیعت میں اطمینان، ٹھہراؤ پیدا کرتا اور گھبراہٹ و بے چینی سے سے نجات دلانے کا قدرتی سبب بنتا ہے۔ ایسی تمام غذائیں جو کولیسٹرول پیدا کرنے اور خون کو گاڑھا بنانے کا سبب بنتی ہوں، انہیں فوراً ترک کر دینا چا ہیے۔ علاوہ ازیں جسم میں کولیسٹرول کی اضافی مقدار کو گھٹانے اور خون پتلا کرنے کے اسباب اختیار کرنے چاہیے۔ کولیسٹرول کم کرنے میں لہسن کا کوئی ثانی نہیں ہو سکتا۔

اب تو ایلوپیتھی طریقہ علاج والے سمجھدار پریکٹشنرز بھی مریضوں کو لہسن کے استعمال کی ترغیب دینے لگے ہیں۔ کالی مرچ بھی خون پتلا کرتی ہے، اسے بطورِ چٹنی بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مرچ سیاہ، ادرک، پودینہ، لہسن اور سبز دھنیا کی مناسب مقدار کو باہم پیسٹ بنا کر رکھیں۔ بوقتِ طعام دہی ملا کر بطورِ چٹنی استعمال کریں۔ پیاز، چقندر اور ٹماٹر کو بطورِ سلاد دن میں ایک بار ضرور کھائیں۔ خوردنی نمک کا استعمال بھی کم سے کم کیا جائے کیوں کہ بظاہر تو نمک بلڈ پریشر کو ہائی کرتا ہے لیکن یہ خون کی شریانوں کو سخت اور تنگ کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔

گوشت، انڈا، کلیجی، چکنائی، تلی ہوئی غذائیں، مکھن، گھی، پنیر بالائی ملا دودھ اور بیکری مصنوعات و کولا مشروبات سے مکمل اجتناب برتیں، سگریٹ و چائے نوشی ترک کردی جائے، سہل پسند زندگی کو خیر باد کہہ دیں، صبح کی سیر کو معمول میں شامل کریں، مثبت سوچ اپنائیں،حسد ،کینہ ،بغض ،بخل ،غصہ او ر نفرت و انتقام کے جذبات سے بھی دور رہیں۔ خوش رہیں اور دوسروں کو خوش رکھیں۔انشاء اللہ لو بلڈ پریشر سے چھٹکارا مل جائے گا اور تن درستی و توانائی آپ کے قدم چومے گی۔

The post لو بلڈ پریشر؛ وجوہات، نتائج اور علاج appeared first on ایکسپریس اردو.

افغانستان مکمل طور پر بھارت کی کالونی میں تبدیل ہوچکا ہے

$
0
0

پاک افغان تعلقات کی تاریخ بداعتمادی سے بھری پڑی ہے، جس میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کے خلاف جو افسوسناک واقعات کابل میں پیش آتے ہیں، ان پر دُکھ بھی ہوتا اور تشویش بھی۔ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ افغانستان مکمل طور پر بھارت کی کالونی میں تبدیل ہو چکا ہے۔  راقم کو پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ 6 مئی سے 10 مئی تک افغانستان میں قیام کا موقع ملا۔ قیام کے دوران سابق صدر حامد کرزئی ٗ چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ ٗ قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کے علاوہ صدر اشرف غنی سے ملاقاتیں طے تھیں لیکن آخری روز ایوان صدر سے رابطے پر ’’خاموشی‘‘ ہی ملی یعنی نہ انکار اور نہ اقرار۔

مجموعی طور پر یہ دورہ اس حوالے سے بھی معلومات افزاء رہا کہ پاکستان کے بارے میں متفقہ افغان سوچ کا اندازہ انٹرنیٹ پر موجود مواد پڑھ کر نہیں ہو سکتا۔ یہ بات قطعی طور پر طے ہے کہ افغانستان مکمل طور پر بھارت کے زیرِ اثر ہے۔ اس سلسلے میں بھارت امریکہ اور دیگر ممالک نے مل کر زبردست پلاننگ کی ہے۔ افغان عوام کی سوچ کو تبدیل اور پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دینے کے لئے بہترین ہتھیار ’’افغان میڈیا‘‘ ہے جس پر اندھا دھند کام کیا گیا ہے۔

افغان میڈیا کی کوئی آزاد پالیسی نہیں میڈیا کے نمائندگان جو بظاہر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ان کا میڈیا ہر طرح سے آزاد ہے اور وہ صرف اپنے قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہیں، کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ افغان میڈیا کے کے نزدیک افغانستان میں ہونے والی ہر خرابی پاکستان کی پیدا کردہ ہے۔ اس تاثر کو بنانے، پروان چڑھانے اور مضبوط کرنے میں انہیں غیر ملکی تنظیموں USAID اور دیگر کی مکمل اور کھلی حمایت حاصل ہے۔ الیکٹرانک چینل سرشام پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کرتے ہیں اور دشنام طرازی پر ان کی نشریات کا اختتام ہوتا ہے۔ رہی سہی کسر فیس بک ٗ ٹیوٹر اور واٹس ایپ پر پوری کی جاتی ہے۔

افغانستان کی حکومت ’جس کی سربراہی ڈاکٹر اشرف غنی کر رہے ہیں‘ کی پالیسی میں سب سے زیادہ توجہ ’’میڈیا  ہینڈلنگ‘‘ پر دی جا رہی ہے ۔عوام میں میڈیا کے ذریعے پاکستان کے خلاف ہیجانی کیفیت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیدا کی جا رہی ہے اور اگر اس ہیجانی کیفیت اور نفرت انگیز صورتحال میں اضافہ ہوتا رہا تو  اندیشہ ہے کہ افغانستان میں مقیم پاکستانی بالخصوص پاکستانی سفارت خانہ کہیں کسی دن عوامی غیض وغضب کا نشانہ نہ بن جائے۔ اس طرح کا ایک واقعہ 1995ء میں ہو چکا ہے جس میں سفارت خانے کو آگ لگا دی گئی تھی۔

یہ ایک طے شدہ پالیسی کا حصہ ہے کہ جب کبھی دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی جاتی ہے ، کوئی ایسا افسوسناک واقعہ پیش آجاتا ہے جو تمام محنت پر پانی پھیر دیتا ہے۔ پاکستان نے تعلقات کے فروغ کے لئے اگر چہ بہت سے اقدامات کئے لیکن افغان اشرافیہ اور میڈیا کسی ایسی کاوش کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ حال ہی میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار ٗ سردار ایاز صادق کے زیرقیادت پارلیمانی وفد اور چیف آف جنرل سٹاف جنرل بلال اکبر کے افغانستان کے دورے انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ اُمید تھی کہ شاید ان اعلیٰ سطحی وفود اور دوروں کے بعد صورتحال میں بہتری آ جائے گی لیکن اس کے فوراً بعد سپین بولدک کا واقعہ پیش آگیا۔

سردار ایاز صادق ’جو نہایت ٹھنڈے مزاج کے سنجیدہ سیاست دان ہیں‘ کابل جانے سے پہلے خاصے پُراُمید تھے واپسی پر افسردہ دکھائی دیئے۔ پارلیمانی وفد کے ذرائع کے مطابق صدر اشرف غنی نے انتہائی تلخ لہجہ اپنائے رکھا اور پاکستان کے بارے میں کچھ ایسے جذبات کا اظہار کیا جو پاکستانی وفد کے لئے حیران کن ہی نہیں مایوس کن بھی تھا۔ پاکستانی پارلیمانی وفد کو انتہائی کم سطح کا پروٹوکول دیا گیا اور وزارت خارجہ کے ایک جونیئر اہلکار نے وفد کا استقبال کرکے افغان حکومت کا موڈ بتادیا۔اس انتہائی تناؤ کی صورتحال کے باوجود پاکستان کی وزارت خارجہ نے تیرہ رکنی پاکستانی میڈیا کے وفد ’جس میں سینئر ایڈیٹرز ٗ اینکر پرسنز شامل تھے‘ کو جانے کی اجازت دی ۔

کابل میں موجود پاکستانی سفارت خانہ انتہائی مشکل حالات میں نہایت صبر اور تحمل سے جان ہتھیلی پر رکھ کر خوف کی کیفیت میں دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستانی سفارت کار بلٹ پروف گاڑیوں کے بجائے عام گاڑیوں میں کابل جیسے پاکستان مخالف شہر میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن کو تقریباً روزانہ وزارتِ خارجہ طلب کیا جاتا ہے۔ رسوائے زمانہ افغان انٹیلی جنس ادارہ این ڈی ایس سفارتی عملے کو مختلف طریقوں سے ہراساں کرتا ہے۔ ٹریفک میں رش کے دوران پاکستانی سفارت کاروں کی گاڑیوں کے قریب آکر پاکستان کو گالیاں د ی جاتی ہیں۔ پاکستانی پرچم کی توہین تو عام سی بات ہے۔

ان حالات میں بھی سفارت خانے کے پریس سیکشن کے سربراہ اختر منیر خان نے میڈیا وفد کے لئے ایک جامع پلان تشکیل دیا تھا۔ کابل پہنچتے ہی پہلا مکالمہ NAI کے دفاتر میں ہوا جو افغانستان میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے فروغ کے لئے کام کر رہا ہے۔ اس ادارے کو USAID اور دیگر غیر ملکی این جی اوز فنڈنگ کر رہی ہیں۔ اس مجلس میں افغان میڈیا کے سرخیل اور شمشاد ٹی وی کے چیف ایگزیکٹو نسیم پشتون نے پاکستان کو ہر برائی کا ذمہ دار قرار دیا جبکہ وہ بھارت اور خطے کے دیگر ممالک بالخصوص ایران کی افغانستان میں سرگرمیوں کو نظرانداز کر گئے۔ نسیم پشتون نے پاکستان سے صحافت میں ماسٹرز کیا ہے وہ کئی سال پشاور اور اسلام آباد میں مقیم رہے ہیں۔

اس تمام تر پس منظر کے باوجود ان کے لہجے کی تلخی ظاہر کرتی تھی کہ وہ پاکستان کے بارے میںانتہائی منفی رائے رکھتے ہیں ۔ ان کا اصرار تھا کہ ان کا چینل کسی کے زیرِ اثر نہیں لیکن پھر خود ہی انہوں نے بتایا کہ بعض ادارے ASSISTANCE کر رہے ہیں، ایسے میں وہ کس کی زبان بول رہے تھے ان کی مجبوری کا وفد کے تمام اراکین نے اندازہ لگالیا۔ افغان میڈیا مکمل طور پر بین الاقوامی اداروں کی فنڈنگ پر چل رہا ہے۔

بھارت نے افغان میڈیا پر ڈالرز کی بارش کی رکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بارے میں ان کے پاس شکوؤں کی طویل فہرست ہے۔ رابطوں کا فقدان بھی اس کی ایک وجہ ہے جس کو اسی صورت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین زیادہ سے زیادہ رابطے ٗ ملاقاتیں اور مذاکرات ہوں۔ کیونکہ افغانستان کے عوام پر میڈیا کا خاصا اثر ہے شاید سیاسی رہنما افغان عوام کو اتنا متاثر نہ کر سکیں جتنا افغان میڈیا ان کا ذہن تبدیل کر سکتا ہے۔ صرف میڈیا ہی نہیں بیورو کریسی بھی بھارتی لابنگ کے مکمل طور پر زیراثر ہے۔

پاکستان کی کوئی کوشش ٗ کوئی مساعی اور کوئی اچھا کام افغانوں کو مطمئن نہیں کر تا۔اس تمام تر مخالف فضاء کے باوجود پاکستان نے پانچ سو ملین ڈالر کی لاگت سے کابل اور جلال آباد میں تین ہسپتال قائم کئے ہیں۔ شاہراہیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔

’’پاک افغان دوستی زندہ باد‘‘ کے نعروں والی بسیں بھی کابل کے عوام کی خدمت میں مصروف ہیں۔ دس ہزار سے زائد افغان طالب علم پاکستانی اسکالر شپس پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن افغان لوگوں پر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ یہ نامساعد حالات اپنی جگہہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور رہیں گے کیونکہ ہمسایے کبھی تبدیل نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان اس صورتحال سے فائدہ اُٹھا کر پاکستان پر دباؤ میں اضافہ کر رہا ہے۔

پاکستان کی مجبوری ہے کہ خطے بالخصوص وسط ایشیاء چین اور روس سے تعلقات کے فروغ کے لئے پاکستان کو افغانوں کے ناجائز  نخرے بھی برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ اسی چیز کا افغان حکمران اور اشرافیہ فائدہ اُٹھا رہی ہے لیکن یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ افغانستان میں ترقی اور استحکام کا راستہ پاکستان سے ہو کر ہی جاتا ہے۔

فوج پاکستان کا مضبوط ادارہ ہے جو دشمن کی آنکھ کا شہتیر ہے جو آج کل افغان عوام اور میڈیا کی ہدفِ تنقید کا نشانہ ہے۔ بھارت امریکہ اور دیگر قوتیں میڈیا کے ذریعے فوج کے خلاف بھرپور پراپیگنڈہ کر رہی ہیں۔ چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبداللہ اور حامد کرزئی نے یہاں تک کہا کہ وہ پاکستانی عوام اور حکومت کے خلاف نہیں ٗ پاکستان میں جمہوری حکومتیں بے بس ہیں اصل اختیار اور طاقت فوجی اداروں کے پاس ہے جو افغانستان میں امن نہیں چاہتے۔

حامد کرزئی نے پاکستانی وفد کے ساتھ تقریباً پونے دو گھنٹے تک گفتگو کی۔ دوران گفتگو فضاء میں تناؤ بھی آیا لیکن مجموعی طور پر حامد کرزئی نے اپنی روایتی پالیسی اپناتے ہوئے فوج کو افغانستان کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی حمایت کا ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے راقم کے سوال کے جواب میں ڈھٹائی سے تسلیم کیا کہ بھارتی نام نہاد سرجیکل سٹرائیکس کی حمایت انہوں نے تین بار کی کیونکہ وہ پاکستان کو دہشت گردی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ وہ لشکر طیبہ اور حافظ سعید پر بھی گرجے برسے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں۔

پاکستان کو چاہئے کہ وہ افغانستان سے میڈیا کی سطح پر تعلقات قائم کرے، دونوں ملکوں کو چاہئے کہ وہ ماضی کو چھوڑ کر مستقبل کے لئے بات چیت کا آغاز کریں اور اپنے تعلقات کو تعاون و باہمی استحکام کی بنیادوں پر استوار کریں، وزیراعظم نواز شریف ایک محب وطن پاکستانی ہیں، انہوں نے پاکستان آنے کی دعوت دی ہے، رمضان شریف کے فوراً بعد پاکستان کا دورہ کریں گے۔تمام محب وطن افغانی اور پاکستانی دونوں ممالک کے تعلقات کی بہتری کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کا دورہ پاکستان غیر مشروط ہو گا۔

پاکستان، فغانستان کو بھارت سے تعلقات منقطع کرنے کا کہتا ہے لیکن افغانستان ایک آزاد ملک ہے اس لحاظ سے تمام ممالک سے اپنے تعلقات قائم کرنے میں آزاد ہے۔ تاہم بھارت سمیت کسی کو بھی افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ حامد کرزئی ’جو آج کل امریکہ سے نالاں ہیں‘  نے اس بات پر بھی پاکستان کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا اور کہا کہ پاکستان امریکہ کا ایجنڈا افغانستان میں آگے نہ بڑھائے۔

دوسری ملاقات افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ سے تھی ان کے بارے میں عمومی رائے یہی ہے کہ وہ بھارت کے زیرِ اثر ہیں۔ ان کے اہل خانہ بھی بھارت میں رہائش پذیر ہیں۔ شمالی اتحاد کے یہ رہنماء پاکستان کے بارے میں سخت موقف رکھتے ہیں۔ لیکن حکومت میں آنے کے بعد انہیں کچھ حقائق کا اندازہ ہوا یا ان کے عہدے کا تقاضا تھا کہ وہ پاکستانی میڈیا کے سامنے پاکستان کے بارے میں احتیاط سے اظہار خیال کریں، اس لئے انہوں نے نپی تلی گفتگو کی۔ وہ ایک منجھے ہوئے سفارت کار دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان سے اچھے تعلقات کار چاہتے ہیں۔

انہوں نے افغان جہاد کے دوران پاکستان کے کردار کی روایتی انداز میں تعریف بھی کی ساتھ ہی انہوں نے پاکستان کی حکومت کو بے بس حکومت قرار دیا۔ عبد اللہ عبد اللہ بالخصوص حامد کرزئی اور این ایس اے کے سربراہ حنیف اتمر کی باتیں سنیں تو ایسے لگتا ہے کہ وہ بہت معصوم ہیں۔ انہوں نے شہد سے میٹھی باتیں کیں اور یوں ظاہر کیا کہ پاکستانی عوام کے لئے ان کے دل کے دروازے کھلے ہیں لیکن حقیقت کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان شخصیات نے یہ ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ پاکستان کے ساتھ محبت کرتے ہیں، وہ پاکستان میں گزرے ایام کا بھی ذکر کرتے رہے پشتو اور اردو میں بھی گفتگو کرتے رہے، لیکن ان تمام رہنماؤں نے اپنا تمام تر غصہ افواجِ پاکستان پر اُتارا۔

نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر حنیف اتمر نے بھی تقریباً اسی قسم کی گفتگو کی۔ انہوں نے پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا۔ کچھ باتیں انہوں نے آف دی ریکارڈ کیں۔ دل تو کرتا ہے کہ جس قسم کے خیالات کا انہوں نے اظہار  کیا وہ بیان کر دیا جائے لیکن یہ حقیقت آڑے آتی ہے کہ حنیف اتمر ہوں یا عبد اللہ عبد اللہ یا کرزئی ٗ یہ شخصیات آنی جانی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے عوام ایک دوسرے سے ہمسائیگی کے نہ ختم ہونے والے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں دونوں ممالک کے عوام کے مفاد کا تقاضا ہے کہ ان کی زہریلی گفتگو کو آف دی ریکارڈ ہی رکھا جائے۔

اس تلخ ترین دورے کے تناؤ کو کم کرنے کے لئے پریس قونصلر اختر منیر نے آخری روز کابل کے نزدیک ایک سیاحتی مقام ’’کارغا‘‘ کی سیر کرانے کا اہتمام کیا۔ دریائے کابل کے کنارے یہ ایک پرفضاء مقام ہے جہاں کابل کے شور شرابے سے دور فیملیز کچھ وقت شہر کے شور سے دور پُرسکون ماحول میں گذارنے آتے ہیں۔ یہاں پُرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بعدازاں قریبی پہاڑوں پر Hicking کا پروگرام تھا۔ پہاڑ پر چڑھتے ہوئے کچھ مقامی لوگ پکنک منا رہے تھے۔ انہوں نے آواز دے کر ہمیں بھی بلایا اور تربوز سے تواضع کی۔ ان میں اکثر پشاور ٗ لاہور اور اسلام آباد میں رہ چکے تھے۔ان کی محبت اور گپ شپ ناقابلِ فراموش ہے۔ سب نے پاکستان میں گزرے دنوں کا ذکر کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ افغانستان کے حکمران پاکستان کی اہمیت کو سمجھیں اور نفرت کی فضاء کو کم کریں۔

اگر افغان قیادت بھارت کے اثر سے نکل کر آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل ہو جائے تو افغانستان اور پاکستان ہر شعبے میں ترقی کر سکتے ہیں لیکن مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

The post افغانستان مکمل طور پر بھارت کی کالونی میں تبدیل ہوچکا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں بے آسرا بچپن پرورش پاتا ہے

$
0
0

وہ گلیوں میں آوارہ پھرتے، کھانے کی چیزوں کے لیے کچرے کے ڈھیر کا رخ کرتے اور رات سَر پر آتی تو کہیں پڑ کر سوجاتے ہیں۔ یہ بچے کہیں والدین کی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے گھروں سے نکل جاتے ہیں یا غربت کا عفریت ان کا بچپن بل کہ جیون ہی نگل لیتا ہے۔

مجبور والدین انھیں کسی موٹر مکینک یا کسی صاحبِ ثروت کے حوالے کردیتے جہاں وہ کام کا بوجھ ڈھونے کے دوران ذرا سی غلطی پر بری طرح مارے پیٹے جاتے ہیں اور پھر فرار کے سوا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں رہتا۔ کہیں ماں باپ سے محروم ہونے کے بعد یہ بچے اپنے رشتے داروں کی موقع پرستی کا نشانہ بن جاتے ہیں اور پھر اپنے سَر پر آسمان کی چادر تان لینے اور زمین کو اپنا بچھونا بنانے ہی میں عافیت جانتے ہیں۔ معاشرے کی یہ بدنمائی اور انسانیت پر داغ مٹانے کی کوشش کرنے میں ایدھی سرفہرست رہا ہے۔ شہرقائد میں بہت سے یتیم خانے ایسے لاوارث بچوں کی پرورش کا کام انجام دے رہے ہیں۔

٭ ایدھی یتیم خانے
اس فیچر کی تیاری کے سلسلے میں جب ہم نے کورنگی نمبر پانچ پر قائم ایدھی چائلڈ ہوم کا دورہ کیا تو وہاں کا چمکتا ہوا فرش، صاف ستھری چھتیں، پلے ایریا اور سوئمنگ پول جیسی سہولیات نے یتیم خانوں کے حوالے سے ہمارے ذہن میں موجود تصور کو یکسر تبدیل کردیا۔ ان بچوں کو یہاں وہ سہولیات میسر نظر آرہی تھیں جو بہت سے بڑے نجی اسکولوں میں بھی دوسرے بچوں کو حاصل نہیں ہوتیں۔ کچھ بچے صاف ستھرے یونیفارم میں اپنا سبق دہرا رہے تھے، تو کچھ بچے پلے ایریا میں جمپنگ کیسل پر دنیا کے دُکھوں سے دور اچھل کود میں مصروف تھے۔

جب ایدھی چائلڈ ہوم کورنگی کے انچارج امان اﷲ سے گفت گو کا سلسلہ سے جُڑا تو پھر وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ امان اﷲ کے مطابق کورنگی میں موجود یہ یتیم خانہ آج سے 35 سال پہلے بنایا گیا تھا اور اسے ایدھی فاؤنڈیشن کے پہلے یتیم خانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس کے بعد سپر ہائی وے پر ایدھی ولیج قائم کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کورنگی سینٹر میں ہم پانچ سے بارہ سال تک کی عمر کے بچوں کو رکھتے ہیں اس کے بعد انہیں سپرہائی وے پر ایدھی ولیج میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ اٹھارہ سال کی عمر تک رہتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی بچہ اٹھارہ سال کے بعد بھی مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہم اس کی رہائش کے ساتھ ساتھ تعلیمی اخراجات بھی اس وقت تک اٹھاتے ہیں جب تک کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوجائے۔

ہم اپنے یہاں پرورش پانے والے بچوں کی جوان ہونے تک ہر ممکن دیکھ بھال کرتے ہیں، انہیں ملازمتیں دلواتے ہیں، شادیاں کرواتے ہیں۔ یتیم بچوں کی شناختی دستاویزات (ب فارم ، شناختی کارڈز وغیرہ) کی بابت پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج سے چھے سات ماہ قبل تک ان بچوں کی شناختی دستاویزات کا حصول جوئے شِیر لانے کے مترادف تھا لیکن اب نادرا نے یتیم بچوں کے ’ب‘ فارم اور دیگر دستاویزات بنانی شروع کردی ہیں۔ امان اللہ نے بتایا کہ ہمارے پاس بہت سے بچے ایسے بھی آتے ہیں جو پہلے بھی اپنے گھروں سے دو دو تین تین مرتبہ بھاگ چکے ہوتے ہیں اور اکثر ہمارے یہاں سے بھی بھاگ جاتے ہیں۔

یتیم خانوں سے بھاگنے والے بچوں میں اکثریت ایسے بچوں کی ہوتی ہے جو عمر میں تھوڑے بڑے ہوتے ہیں، کسی بری لت یا نشے کے عادی ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کی بحالی کے لیے ہم ان کا باقاعدگی سے علاج کرواتے ہیں، اور انہیں معاشرے کا ذمے دار فرد بنانے کے لیے دینی اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ کچھ بچے ہمارے پاس سے بھاگنے کے بعد دو چار دن بعد دوبارہ واپس آجاتے ہیں۔ بچوں کو بے اولاد افراد کو گود دینے کے حوالے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کچھ یوں کہنا تھا: لاوارث بچوں کو گود دینے کے حوالے سے ہمارے اپنے کچھ قواعد و ضوابط ہیں جو کہ کچھ اس طرح ہیں:

1۔گود لینے والے جوڑے کی شادی کو کم از کم دس سال یا اس سے زاید کا عرصہ ہوچکا ہو۔
2۔ماں یا باپ میں سے کوئی ایک بانجھ پن یا کسی اور طبی وجہ کی بنا پر اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو۔
3۔ گود لینے والے جوڑے کے معاشی حالات اچھے ہوں مثلاً اچھی ملازمت یا کاروبار کرتا ہو۔
4۔گود لینے کا خواہش مند جوڑا کسی بری لت یا منشیات وغیرہ کا عادی نہ ہو۔

اگر کوئی ان تمام تر شرائط پر پورا اترتا ہے تو پھر ہم کاغذی کارروائی پوری کرکے بچے یا بچی کو ان کے حوالے کردیتے ہیں۔ یہاں میں آپ کو یہ بات بھی بتادوں کہ ہماری ذمے داری صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بل کہ ہم اگلے تین چار سالوں تک اس بچے کی خیر خیریت معلوم کرتے رہتے ہیں۔ اب تک ہم تقریباً 5 ہزار بچے بے اولاد جوڑوں کو گود دے چکے ہیں۔ دیگر یتیم خانوں کے برعکس ہم ایسے بچوں کو بھی اپنے پاس داخل کرلیتے ہیں جن کی ماں یا باپ میں سے کسی ایک کا انتقال ہوچکا ہو۔

کچھ والدین ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے معاشی حالات کی وجہ سے بچوں کو اچھی تعلیم، کپڑے اور کھانا مہیا نہیں کرپاتے اور ان کے روشن مستقبل کے لیے دل پر پتھر رکھ کر اپنی اولاد کو ہمارے پاس داخل کرادیتے ہیں۔ حکومتی سرپرستی کی جہاں تک بات ہے تو وہ آپ خود زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم، یونیفارم، رہائش، کھانے پینے اور دیگر غیرنصابی سرگرمیوں کے لیے تمام تر اخراجات ایدھی فاؤنڈیشن اپنے پاس سے پورے کرتی ہے۔ ہم حکومت سے کسی امداد کے بجائے صرف ایک ہی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شیلٹر ہومز کو صرف لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دے دیں تاکہ جنریٹر پر آنے والے اخراجات کو ہم کسی اچھی جگہ استعمال کرسکیں۔

٭انجمن حیات الاسلام یتیم خانہ، گرومندر
گرومندر پر واقع انجمن حیات الاسلام یتیم خانے کا شمار شہرقائد کے قدیم یتیم خانوں میں کیا جا تاہے ، جس کی بنیاد 1932 میں قائد اعظم کے قریبی ساتھی، تحریک پاکستان کے راہ نما اور آل انڈیا مسلم لیگ دہلی کے جنرل سیکریٹری مرحوم مولانا حامد علی قریشی نے ڈالی تھی۔1947 میں قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی جہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور لاکھوں مسلمانوں کو ہجرت کرنی پڑی۔

یہ فلاحی اور رفاہی ادارہ بے سروسامانی کی حالت میں دہلی سے کراچی منتقل ہوا۔ 25 دسمبر 1948کو اس ادارے کے تحت ایک دارالاطفال (یتیم خانے) کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں یتیم بچوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کیا گیا۔ نوزائیدہ ملک پاکستان میں یتیم بچوں کی کفالت اور فلاح و بہبود کے حوالے سے کام کرنے والے اس ادارے کو ایسے خدا ترس اور مخیر حضرت کا ساتھ میسر آتا گیا جنہوں نے اس ادارے کی ترقی کے لیے دن رات کام کیا اور اس ادارے کو بام عروج پر پہنچادیا۔ انجمن حیات الاسلام آج یتیم بچوں کی کفالت اور انہیں فنی اور تیکنیکی تعلیم سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے فروغ میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔

اس انجمن کے تحت ایک دینی مدرسہ، ٹیکنیکل ہائی اسکول، حیات الاسلام پبلک اسکول اور ایک گرلز کالج قائم ہے، جہاں دورجدید کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سستی اور معیاری تعلیم مہیا کی جاتی ہے۔ یوں یہ ادارہ تعلیم کے فروغ میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ اس ادارے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح، شہید ملت لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح، مولانا شبیر احمد عثمانی، سردار عبدالرب نشتر، سر عبداﷲ ہارون، مولانا شوکت علی جوہر، سابق صدر ایوب خان، حکیم محمد سعید، آئی آئی چندریگر، مولانا مفتی محمود، مولانا یوسف لدھیانوی، مولانا محمد یوسف بنوریؒ جیسی اہم شخصیات اس ادارے کی کارکردگی کو سراہتی رہی ہیں۔

انجمن حیات الاسلام یتیم خانے میں داخل ہوتے وقت ہمارے ذہن میں بھی منفی خیالات گردش کر رہے تھے، لیکن یتیم خانے میں ویڈیو گیم، فٹ بال اور کیرم بورڈ کھیلتے بچے، گرمی سے بچانے کے لیے اضافی دیوار گیر پنکھے، آرام و سکون سے صاف ستھرے بستروں پر محو استراحت بچوں، ہر بچے کے نام کے لاکر میں موجود دُھلے ہوئے کپڑوں اور صاف ستھرے باورچی خانے نے ہمیں چند لمحے کے لیے گومگو ں کی کیفیت میں مبتلا کردیا، کیو ں کہ ہم اب تک یتیم خانوں کو ایک جیل ہی تصور کرتے آئے تھے۔ انتظامیہ کی جانب سے ڈسپنسری اور ایک کلینک بھی بنایا گیا ہے، جہاں دن میں بیک وقت دو ڈاکٹر نہ صرف یتیم خانے میں داخل بچوں بل کہ اطراف کے علاقوں سے آنے والے مریضوں کا علاج بھی کرتے ہیں۔

آج یہ ادارہ کسی حکومتی سرپرستی کے بغیر مخیر افراد کی بدولت اپنی بقا کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے اس کے منتظم محمد ذیشان کا کہنا ہے کہ معاشرے کے یتیم اور لاوارث بچوں کو معاشرے کا مفید فرد بنانے میں یتیم خانوں کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اگر ہم ان بچوں کو رہنے کے لیے جگہ اور کھانے کے لیے کھانا فراہم نہ کریں تو پھر یہ جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔ ایسے بچوں کو درست راہ پر گام زن کرنے میں یتیم خانوں کا اہم کردار ہے۔

ہم پانچ چھے سال کی عمر میں بچوں کو اپنے یتیم خانے میں داخل کرتے ہیں اور اگلے دس بارہ سالوں میں اس کی اخلاقی تربیت، تعلیم و تربیت، فنی علوم سکھاکر اس کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اسے اتنا پڑھا لکھا دیں یا ایسا کوئی ہنر سکھا دیں، اسے شعور دیں، اچھے برے کی پہچان بتائیں تاکہ وہ معاشرے میں اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کر سکے۔

ہم اپنے یہاں داخل ہونے والے تمام بچوں کو میٹرک تک تعلیم دیتے ہیں۔ یہاں اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد جب یہ بچے باہر جاتے ہیں تو انہیں کچھ مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ہم بچے کی ذہنی تربیت اس طرح کرتے ہیں کہ وہ برائی کو برائی سمجھتا ہے اور اس کے بعد بھی ہم اسے بالکل چھوڑ نہیں دیتے، اگر وہ مزید پڑھنا چاہتا ہے تو ہم اس کے لیے کالج یا اس سے آگے کے تمام تعلیمی خرچے، کورس، فیس کتابیں بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ہمارے ادارے سے مزید چار سال جُڑا رہتا ہے۔

ہم ہر بچے کو ٹیکنیکل تعلیم دیتے ہیں ، کمپیوٹر اور دیگر ٹیکنالوجیز کے کورسز کرائے جاتے ہیں، میٹرک بھی ہم ٹیکنیکل بورڈ سے کرواتے ہیں۔ ہماری ممکنہ حد تک کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہمارے پاس سے جانے والا ہر بچہ اپنی آگے کی زندگی کو اچھی طرح گزار سکے۔ ہمارے یہاں سے پاس آؤٹ ہونے والے بچے زندگی کے بہت سے شعبہ جات میں سرگرم عمل ہیں، یہاں سے جانے والے بہت سے بچے فوج میں، بیوروکریسی میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ بچے معاشرے کے مختلف شعبوں میں بھی فعال ہیں، بیرون ملک اچھی ملازمتیں کر رہے ہیں۔

یہاں سے جانے والے بہت سے بچے اب ہمیں ڈونیشن دیتے ہیں۔ وہ اپنی مادر علمی کو نہیں بھولتے، کیوں کہ انہوں نے یہاں اپنی زندگی کا قیمتی عرصہ گزارا ہوتا ہے۔ یہ بچے اب بھی ہمارے پاس آکر بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ کیسے انہوں نے اسی یتیم خانے سے اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے ہم صرف لڑکوں ہی کو اپنے یہاں داخل کرتے ہیں۔

یتیم خانوں کے حوالے سے ایک بات یہ بھی مشہور ہے کہ وہاں بچوں سے مار پیٹ یا ان سے بدسلوکی کی جاتی ہے تو اس کے بارے میں یہی کہوں گا کہ اصلاح کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں اول یہ کہ بچے کو مارپیٹ کر راہ راست پر لایا جائے یا پھر اسے پیار محبت سے سمجھایا جائے۔ تو ہم نے بچوں کی اصلاح کے لیے دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔ بچے اگر کوئی غلطی کرتے بھی ہیں تو وہ خاموشی سے آکر ہمیں بتادیتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں بچوں کی پٹائی کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ جہا ں تک بات ہے اس کام میں سرکاری سرپرستی کی تو سرکاری سطح پر یتیم بچوں کی سرپرستی کے لیے نہ تو کو ئی ادارہ فعال ہے اور نہ ہی وہ اس سلسلے میں ہماری کوئی مدد کرتے ہیں۔

اصولاً تو یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ نجی طور پر بنے یتیم خانوں میں داخل بچوں کے اعداد و شمار مرتب کر کے ان کی فلاح کے لیے کوئی منصوبہ بندی کرے۔ ان میں تعلیم و تربیت کے لیے حکومتی سطح پر کوئی جگہ مختص کرے یا اس کام میں ان سے تعاون کرنے والے اداروں کی مدد کرے، لیکن 1948سے اب تک کسی ادارے نے ہم سے اس سلسلے میں رابطہ نہیں کیا ہے۔

ہم اپنے طور پر اپنا ریکارڈ مرتب کرتے ہیں۔ کچھ سرکاری محکمے کبھی کبھار ہم سے رابطہ کرتے ہیں، لیکن وہ بھی بچوں کے بجائے ہمارے فلاحی ادارے کی معلومات اکٹھی کرتے ہیں۔ یتیم خانے کے قیام کے لیے کسی قانون کی موجودگی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ: صرف یتیم خانے کے قیام کے لیے میری نظر میں حکومت کی جانب سے کوئی قانون موجود نہیں ہے، لیکن کسی بھی فلاحی ادارے کے قیام کے لیے حکومت کا ایک طریقہ کار ہے جس کے تحت اس ادارے کو عطیات یا چندہ جمع کرنے کی منظوری دی جاتی ہے۔

یتیم خانوں کے بارے میں ایک بات یہ بھی مشہور ہے کہ وہاں سے فرار ہونے والے بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس بات کو میں واضح کردوں کہ بچوں کا بھاگ جانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے، کیوں کہ یتیم خانوں یا فلاحی اداروں میں ہر کسی کو زنجیروں سے باندھ کر تو نہیں رکھا جاسکتا۔ بہت سے بچے ایسے ہوتے ہیں جو مزاجاً کسی ایک جگہ پر مستقل نہیں رہ سکتے ، یا پڑھنا نہیں چاہتے یا ہوسکتا ہے کہ وہ اس جگہ پر نہ رہنا چاہتا ہوں تو وہ وہاں سے فرار اختیار کر لیتے ہیں۔ بہت سے بچے ایسے ہوتے ہیں جو دنیاوی تعلیم میں دل چسپی نہیں رکھتے۔ ہمارے پاس بھی ایسے کچھ بچے ہیں جو یہاں نہیں رہنا چاہتے تو وہ ہم سے اجازت لے کر چلے جاتے ہیں، لیکن ادارے کے دروازے ان کی واپسی کے لیے ہمیشہ کُھلے رہتے ہیں۔

ہم کسی بچے کو زبردستی اپنے پاس نہیں رکھتے، کیوں کہ جب ایک بچہ رہنے پر راضی نہیں ہے تو وہ کبھی نہ کبھی فرار اختیار کرلے گا۔ ایسے واقعات صرف یتیم خانوں ہی میں نہیں بل کہ مدارس وغیرہ میں بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ ایسا ہر ادارے میں ہو، ہمارے ادارے میں کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنا بچپن یہی گزارا اور اب ہمارے ساتھ ہی کام کر رہے ہیں۔

ہمارے پاس روزانہ کی بنیاد پر ایسے کیسز بھی آتے ہیں جن میں بچے کے والدین حیات ہوتے ہیں یا دونوں میں ایک فوت ہوچکا ہوتا ہے، اور بچے کا والد یا والدہ غربت کی وجہ سے ہمارے پاس آتے ہیں کہ جی ہم انہیں پال نہیں سکتے اچھا کھلا نہیں سکتے یا انہیں اچھی تعلیم نہیں دے سکتے، لہٰذا آپ انہیں اپنے یہاں داخل کرلیں۔ اس طرح کے واقعات دیکھ کر د ل تو بہت دُکھتا ہے، لیکن ہم انہیں دلاسا دے کر واپس بھیج دیتے ہیں، کیوں کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے ہم انہیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔

کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ماں باپ تو نہیں ہوتے، لیکن ماموں، چاچا یا دوسرے رشتے دار ہوتے ہیں جو ان کے سرپرست تو ہوتے ہیں، لیکن معاشی مسائل کی وجہ سے وہ ان کی ٹھیک طریقے سے پرورش نہیں کرسکتے اور بچوں کو ہمارے یہاں داخل کرادیتے ہیں۔ بہت سے یتیم خانوں سے بے اولاد جوڑے بچے گود لیتے ہیں، لیکن ہم نے یہ روایت نہیں رکھی، چناں چہ اس سلسلے میں ہمارے ادارے میں کوئی قواعد وضع نہیں کیے گئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بچوں کو کسی انجان فرد کو گود دینا بذات خود ایک بہت حساس معاملہ ہے۔

ہمارے پاس جو بچے آتے ہیں وہ تھوڑے بڑے اور سمجھ دار ہوتے ہیں اور ان کے لیے منہ بولے ماں باپ کو قبول کرنا مشکل کام ہوتا ہے، کیوں کہ اس عمر میں بچوں کے ذہن میں ہوتا ہے کہ جی یہ میرے حقیقی والدین نہیں ہیں تو وہ ان کی صحیح بات کو بھی منفی لیتے ہیں جس کا نتیجہ بگاڑ کی شکل میں نکلتا ہے۔ ہمارے پاس ایک وقت میں اسی بچے ہوتے ہیں ایک وقت سے مراد یہ ہے کہ جب کچھ بچے پاس آؤٹ ہوجاتے ہیں تو ہم ویٹنگ لسٹ میں موجود نئے بچوں کو اپنے یہاں داخل کرلیتے ہیں عموماً ہمارے یہاں داخلے رمضان کے بعد ہوتے ہیں، لیکن فی الوقت ہمارے پاس بیک وقت 80 بچوں کی رہائش، تعلیم اور کھانے پینے کے اخراجات کی گنجائش ہے۔

ساتھ برقرار
32سالہ محمد یوسف پانچ سال کی عمر میں انجمن حیات الاسلام یتیم خانے میں داخل ہوئے تھے۔ اپنی محنت اور قابلیت کی بدولت وہ کسی بھی ادارے میں اچھی ملازمت حاصل کرسکتے تھے مگر انہوں نے اپنی مادرعلمی ہی کو اپنی خدمات سونپ دی ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ جب 1993میں پہلی بار انہوں نے یہاں قدم رکھا تو دل میں بہت وسوسے اور خدشات تھے، لیکن یہاں کے اسٹاف کے دوستانہ رویے ان تمام تر خدشات کو دور کردیا۔ اس کے بعد اس ادارے سے ایسی انسیت ہوئی کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسی ادارے سے بہ حیثیت سپر وائزر وابستہ ہوں۔

خوب صورت آنکھوں میں چمکتی روشن مستقبل کی آس
انجمن حیات الاسلام یتیم خانے میں موجود ہر بچے کی اپنی الگ کہانی ہے۔ کسی کو ڈاکٹر بننا ہے، کسی کو انجنیئر، کسی بچے کی آنکھوں میں فوجی بن کر ملک و قوم کی خدمت کا مصمم ارادہ تو کوئی خود میں شاہد آفریدی کا عکس تلاش کرتا نظر آتا ہے۔ یہاں رہنے والے بچوں اور دوسرے بچوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے کرکٹ کھیلنے کا جنون۔

ایک لانگ شاٹ پر گیند کو دیواروں کی قید سے آزاد کرانے والے آٹھویں کلاس میں زیرتعلیم تیرہ سالہ جلال نے تین سال قبل یہاں قدم رکھا۔ الیکٹریشن کا سیکھنے والے جلال کا ارادہ مستقبل میں کرکٹر بننے کا ہے۔ یتیم بچوں کے کرکٹ میچ میں ایک ناظر کی حیثیت سے سنجیدگی سے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بارہ سالہ زبیر کی خواہشات قدرے مختلف ہیں۔ چھے سال قبل یتیم خانے میں آنے والا زبیر بڑا ہوکر فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہے۔ پانچویں کلاس میں پڑھنے والے زبیر کا کہنا ہے کہ میں فوجی ہی بنوں گا چاہے مجھے فوج میں کوئی بھی کام کرنا پڑے۔

انہی بچوں میں دس سالہ علی حیدر بھی شامل ہے جو ابھی سے بچوں میں ’ فوجی‘ کے نام سے مشہور ہے۔ دوسری کلاس میں زیرتعلیم علی حیدر کا ارادہ بھی مستقبل میں فوج میں جانے کا ہے۔ تیسری کلاس کے طالب علم گیارہ سالہ حسیان کا ارادہ بھی مستقبل میں کرکٹر بننے کا ہے ۔

کچھ نجی یتیم خانوں کا گریز
اس فیچر کی تیاری میں کراچی میں قائم کچھ نجی یتیم خانوں کا دورہ کرنے کی اجازت طلب کی گئی ، جن میں سے کچھ نے چند روز ٹال مٹول کے بعد منع کردیا۔ کچھ اداروں نے اپنے اداروں کے اعلیٰ حکام سے ای میلز پر اجازت طلب کرنے کا کہا، لیکن آخر تک کسی ای میل کا جواب نہیں دیا گیا، جس کی بنا پر ان اداروں کا موقف اور ان کے بنائے گئے یتیم خانوں کا احوال اس فیچر کا حصہ نہیں بن سکا۔

٭پاکستان بیت المال کے تحت چلنے والے یتیم خانے
کراچی میں پاکستان بیت المال کے تحت چلنے والے سوئٹ ہوم کی انتظامیہ سے تما م تر کوششوں کے باوجود کوئی رابطہ نہیں ہوسکا۔ تاہم پاکستان بیت المال کی ویب سائٹ پر موجود سوئٹ کی کچھ تفصیلات یہاں بیان کی گئی ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے یتیم بچوں کی کفالت کے حوالے سے پاکستان بیت المال نے ملک کے بڑے شہروں میں سوئٹ ہومز کے نام سے یتیم خانے قائم کیے ہیں، جہاں ہر مرکز میں4سے6 سال تک کے سو یتیم بچوں کو داخل کیا جاتا ہے۔

بیت المال کی ویب سائٹ کے مطابق سوئٹ ہومز والدین کی شفقت سے محروم ہوجانے والے بچوں کو ان کی عزت نفس مجروح کیے بغیر انہیں باوقار زندگی گزارنے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ان بچوں کو مفت معیاری تعلیم رہائش اور خوراک سمیت تمام تر بنیادی ضروریات زندگی مہیا کی جاتی ہیں۔

The post جہاں بے آسرا بچپن پرورش پاتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

ادب میں قومیت اور آفاقیت کا مسئلہ

$
0
0

انسانی تاریخ کے اس مرحلے پر، یعنی عالم گیریت کے دور میں قومی ادب کا سوال کیا اہمیت رکھتا ہے؟

سچی بات یہ ہے کہ لگ بھگ اڑسٹھ ستر سال قبل بھی جب یہ سوال ہمارے یہاں پہلے پہل سامنے آیا تو یاروں کے حلق سے نہیں اُترا تھا، حالاںکہ اُس وقت تو یہ دنیا آج کی طرح گلوبل ولیج نہیں بنی تھی۔ اس عرصے میں تو پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا۔ یہ پانی اپنے ساتھ بہت سی نئی چیزیں لایا ہے اور بہت سا پرانا سامان بہا کر بھی لے جاچکا ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عصرِحاضر کے اس عالمی سماج میں انسانی زندگی کا تجربہ جتنا مقامی یا قومی ہے، آج اس سے کچھ زیادہ عالمی یا بین الاقوامی ہوگیا ہے۔ دوسرے عناصر کے ساتھ ساتھ روز مرہ تجربات اور واقعات بھی ہمارے احساس کی تشکیل میں نمایاں طور سے حصہ لیتے ہیں۔ چناں چہ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اس عالمی سطح کی زندگی کے تجربے میں مقامیت یا قومیت کی کیفیت قدرے دب کر رہ گئی ہے۔

یہ حقیقت اپنی جگہ ناقابلِ تردید ہے کہ بڑا اور زندہ ادب لازمانی اور لامکانی ہوتا ہے۔ وہ رنگ، نسل، زبان اور جغرافیہ ہر ایک حد سے بالاتر ہوکر اپنی معنویت کا اظہار اور اپنی غیرمشروط انسانی وابستگی پر سب سے زیادہ اصرار کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سعدی، حافظ اور رومی کا کوئی شعر یا پھر بابا فرید، بھٹائی، بلھے شاہ اور رحمان بابا کا کوئی بیت، چوسر، شیکسپیئر، بودلیئر، رِلکے، ایذرا پاؤنڈ اور ایلیٹ کی کچھ لائنیں اور ٹکڑے یا کہ میر، غالب، مصحفی اور اقبال کے اشعار آج بھی ہمارے لیے اِس طرح بامعنی ہوجاتے ہیں کہ ہم اُن کے توسط سے لمحۂ موجود کے کسی مسئلے یا اپنی زندگی کے کسی تجربے کو زیادہ آسانی سے اور قدرے بہتر طور پر سمجھ پاتے ہیں۔ یوں زندگی ہمارے لیے ایک بار پھر گوارا اور قابلِ فہم ہوجاتی ہے۔

ان کے ذریعے ہمیں انسانی رشتوں کو تہ در تہ دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ ہمارے شعور و احساس کی سطح تبدیل ہوجاتی ہے۔ بلاشبہہ یہ ادب کی لازمانیت اور آفاقیت کا واضح ثبوت ہے۔ اب سوال یہ ہے، اگر ادب میں عصریت اور مقامیت کے عناصر نمایاں سطح پر ہوں تو کیا وہ لازمانی اور آفاقی نہیں ہوسکے گا؟

آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں یہاں اس بات کو واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری اس گفتگو کا تعلق عہدِجدید کے تہذیبی اور سماجی تناظر میں ادب اور اس کی معنوی صورتِ حال سے ہے۔ دنیا کا قدیم ادب اور لوک ادب اور خود ہمارا داستانوی ادب اس بحث کا حصہ نہیں ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ قدیم ادب وقت کے اُس امتحان سے گزر کر بہت آگے آچکا ہے کہ جب کسی فن پارے کے لیے اس کی زمانی جہت اُس کی قدروقیمت اور معنویت کے تعین میں بنیادی حوالہ بنتی ہے۔

دوسری اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دنیا کا سارا قدیم ادب خواہ اس کا تعلق کسی بھی خطے، تہذیب، زمانے اور زبان سے ہو، ایک الگ ہی جوہر رکھتا ہے، اس لیے اُسے سماجی انسلاکات اور زمانی ارتباط کے ان اصولوں کے تحت پرکھا ہی نہیں جاسکتا جن کو ہم اس عہد کی نئی تنقیدی کسوٹی میں بنیاد بناتے ہیں۔ تنقید نئے زمانے کی دَین ہے، اس لیے اس کے وضع کردہ پیمانے بھی نئے ادب کے لیے ہیں۔ ہم اگر انھیں قدیم ادب اور لوک ادب کے لیے استعمال کریں گے تو خلطِ مبحث پیدا ہوگا۔

اب آئیے واپس اپنے موضوع کی طرف۔ واقعہ یہ ہے کہ ادب کی معنویت کا سب سے پہلا دائرہ اور اس کی قدروقیمت کا پہلا تعین اُس کی عصری و مقامی جہت ہی سے ہوتا ہے۔ اُس کی ماورائے زمان و مکاں خوش بو ذرا آگے چل کر، یعنی کچھ وقت گزرنے کے بعد منکشف ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اِدھر ایک شاعر نے کوئی شعر کہا، نظم لکھی یا ایک فکشن نگار نے کوئی افسانہ، کوئی ناول لکھا اور اُدھر وہ آفاقی شاہ کار بن گیا۔ یہ وقت کا عمل ہے جو کسی نگارشِ فن کے اس پہلو کو سامنے لاتا ہے جس کی بنیاد پر ہم اُسے وقت اور جغرافیہ کی حدود سے ماورا ہوکر دیکھنے لگتے ہیں۔ یقیناً اس کا سبب وہ انسانی جہت ہوتی ہے، جسے ایک فن کار اپنی تخلیق میں کھولتا اور ہمارے سامنے لاتا ہے۔ تاہم اُس کے معنی کی پہلی سطح اس کے مخصوص سیاق سے متعین ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ قابلِ فہم بھی۔

اب مثال کے طور پر دوستوئیفسکی کے ناول ’’برادرز کراموزوف‘‘ کے اہم کرداروں بالخصوص تینوں بھائیوں کو روس کے ایک عہد کے خاص سماجی، سیاسی، معاشی، تہذیبی اور اخلاقی تناظر میں رکھے بغیر ہم بہتر انداز سے نہیں سمجھ سکتے۔ اسی طرح ٹولسٹوئے کے ناول ’’اینا کرینینا‘‘ کے مرکزی کردار اینا کو روس اور فلوبیئر کے ناول ’’مادام بوواری‘‘ کے مرکزی کردار بوواری کو فرانس کے ایک خاص تناظر کے ساتھ ہی بامعنی انداز سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں کے بحران، بلکہ ان کی تقدیر تک کو ان کے سماج کی صورتِ حال سے کاٹ کر مؤثر انداز میں سمجھنا تو دور کی بات ہے، بامعنی انداز سے دیکھنا تک ممکن نہیں ہے۔

اسی طرح گابریئل گارشیا مارکیز کے ’’ہنڈرڈ ایئرز آف سولی چیوڈ‘‘، میلان کنڈیرا کے ’’ان بیئر ایبل لائٹنس اوف بینگ‘‘، قرۃ العین حیدر کے ’’گردشِ رنگِ چمن‘‘، عبداللہ حسین کے ’’اداس نسلیں‘‘، انتظار حسین کے ’’آگے سمندر ہے‘‘ اور خدیجہ مستور کے ’’آنگن‘‘ کو بھی ان کے خاص جغرافیائی تناظر سے الگ کرکے جامع تفہیم کی سطح تک نہیں لایا جاسکتا۔ خاطر نشان رہے کہ جب ہم کسی خاص جغرافیائی تناظر کی بات کرتے ہیں تو اس میں زمانی جہت بھی ناگزیر طور پر شامل ہوتی ہے۔ آج کا فرانس وہ نہیں ہے جو فلوبیئر کے دور میں تھا، یعنی اس کا سماجی، تہذیبی اور اخلاقی سانچا وہ نہیں ہے جو پہلے تھا۔

اس لیے اگر ہم اس کی فلوبیئر کے عہد والی زمانی صورتِ حال کو پیشِ نظر نہ رکھیں، بلکہ آج کے فرانس کو سامنے رکھیں تو مادام بوواری کا مسئلہ ہمارے لیے ضرور الجھن کا باعث بن جائے گا۔ وہ ہمیں آج کسی بھی طرح اس نوعیت کا نہیں معلوم ہوگا کہ جس کے نتیجے میں مادام بوواری اس بحران کا شکار اور اس المیے سے دوچار ہو جو ناول میں دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح ’’اداس نسلیں‘‘ کے لیے کولونیل دور کا ہندوستان اور دوسری جنگِ عظیم کا زمانہ پیشِ نظر نہ ہو تو اس کے کرداروں کے کتنے ہی مسائل اور ان کی بہت سے کیفیات کو سمجھنا اور ان سے رشتہ استوار کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ گویا طے ہے کہ کوئی بھی تخلیق اپنے خاص زمان و مکاں سے مکمل طور پر نہ صرف یہ کہ لاتعلق نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کی تخلیقی معنویت اور فنی قدر کا ادراک اوّلاً اسی تناظر میں کیا جاتا ہے۔ اس کی ماورائے عصر حیثیت کا مرحلہ اس کے بعد کا ہے۔

مثالیں اور دلیلیں مزید بہت سی دی جاسکتی ہیں، لیکن جس نکتے کی وضاحت مقصود ہے، وہ ان حوالوں سے بھی صاف اور قابلِ فہم ہوجاتا ہے۔ اِس گفتگو کے نتیجے میں ہم پر دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ کسی بھی ادبی نگارش کی تخمین و ظن کے پہلے مرحلے کے لیے اُس کا خاص زمانی اور مکانی تناظر بہرحال بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس مرحلے پر قدروقیمت کے تعین کے بعد ہی اس کی آفاقی اہمیت و حیثیت کا سوال اٹھتا ہے، اس سے پہلے نہیں۔ دوسری بات یہ کہ مقامی اور آفاقی ادب میں باہم تضاد کا رشتہ نہیں ہے کہ اگر کوئی فن پارہ مقامی جہت رکھتا ہے تو وہ آفاقی نہیں ہوسکتا، اور اس کے برعکس بھی معاملہ نہیں ہوتا۔

واقعہ یہ ہے کہ کوئی بھی بڑا ادب پارہ بہ یک وقت مقامی اور آفاقی قدر و قیمت کا حامل ہوسکتا ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ادبِ عالیہ کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بہ یک وقت مقامیت اور آفاقیت کے عناصر کا حامل ہوتا ہے۔ چناںچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی فن پارے کی عصریت کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی تفہیم اور معنویت کا دائرہ محدود ہوگیا ہے اور اب وہ وسیع زمانی دائرے میں ابلاغ کا اہل نہیں رہا۔ اس کے برعکس عصریت کسی بھی نگارشِ فن کو نہ صرف خود اُس کے اپنے زمانے سے ہم آہنگ کرتی ہے، بلکہ اسے آنے والے زمانوں سے رشتے کی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے۔

اب آئیے اپنی عصری صورتِ حال کے حوالے سے اس مسئلے کو دیکھتے ہیں۔ اکیس ویں صدی کے ان برسوں میں اس سوال کو ایک اور زاویے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج ہم جس گلوبل ولیج میں سانس لے رہے ہیں، اس میں تہذیبیں اور ثقافتیں اپنی شناخت کھونے کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ پاکستانی یا قومی ادب کے یہ معنی تو ستّر سال پہلے بھی نہیں تھے کہ ایسا ادب تخلیق کیا جائے جو گھما پھرا کر صرف اور صرف قیامِ پاکستان کی بنیاد بننے والے دو قومی نظریے کا پرچار کرتا ہو، یا کہ جس میں سیاسی نعروں کو استعمال کیا گیا ہو۔

ایسی تحریروں کے تو ادب ہونے ہی میں شبہہ ہوگا۔ پہلے بھی جب یہ سوال کیا گیا تو اس سے مراد قومی شعور کا ادب تھا، ویسا ہی قومی شعور جیسا ہمیں ٹولسٹوئے، دوستوئیفسکی اور گورکی کی تحریروں میں روس کے حوالے سے نظر آتا ہے یا لاطینی امریکا کے لیے مارکیز کے یہاں ملتا ہے، یا مصر کے لیے ہم نجیب محفوظ کے یہاں دیکھتے ہیں۔ یہ قومی شعور ہمیں موپاساں اور فلوبیئر کے ہاں فرانس کے لیے بھی نظر آتا ہے۔

ہم اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے، یعنی ان میں سے کسی ادیب کو ہم مقامیت کی بنیاد پر رد نہیں کرتے۔ اس لیے کہ ان کے یہاں مقامیت کسی تنگ نظری کی بنیاد نہیں بنتی، بلکہ وہ اپنے درجے میں انھی انسانی قدروں کی توثیق اور ان پر اصرار کرتی ہے جو اُسے اگلے مرحلے میں آفاقیت سے ہم کنار کرتی ہیں۔ چناںچہ ان تخلیق کاروں کے فن میں آفاقیت کے عناصر کو دیکھنے اور ان کی معنویت کو کماحقۂ سمجھنے کے باوجود ہم قومی شعور کی بنیاد پر اور ان کی قومی شناخت کے حوالے سے بھی ان سب بڑے ادیبوں کو یاد کرتے ہیں اور ان کے فن کی دونوں جہتوں کو سامنے رکھتے ہوئے داد و تحسین کے کلمات کہتے ہیں۔

ہمارے یہاں پاکستانی یا قومی ادب کا سوال قیامِ پاکستان کے ایک آدھ سال بعد محمد حسن عسکری نے سب سے پہلے اٹھایا تھا۔ اس سوال کی مختلف جہتوں پر عسکری صاحب نے واضح نکتۂ نظر کے ساتھ گفتگو کی تھی۔ اس گفتگو کے مباحث میں ادیب کی اپنی ریاست اور قوم سے وفا داری کا پہلو بھی شامل تھا۔ تاہم جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا گیا، ہماری ادیب شاعر برادری نے اس سوال پر زیادہ دھیان نہیں دیا۔ بعض لوگوں نے تو کھلے لفظوں میں اس کی مخالفت بھی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ادیب کی ریاست سے وفاداری اس کے فن کی معنویت کو محدود کردے گی۔

اس لیے کہ وہ کسی قوم کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا علم بردار ہوتا ہے۔ بادی النظر میں یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ تاہم جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو مسئلے کی اصل نوعیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ادیب کی اپنی قوم یا ریاست سے وفاداری کا مطلب انسانی قدروں کے منافی افکار کا اثبات نہیں ہے۔ اس کے برعکس ادیب اپنی مقامیت کے دائرے میں بھی انھیں قدروں کی پاس داری کرتا ہے جو بڑے یعنی آفاقی تناظر میں دراصل انسانیت سے اس کی غیر مشروط وابستگی کی بنیاد بنتی ہیں۔ ادیب کی مقامیت اور وابستگی کے وہ معنی نہیں ہوتے جو ایک سیاست دان کے لیے ہوتے ہیں۔

سیاست دان کی نگاہ محدود اور اُس کی وابستگی مشروط ہوتی ہے، جب کہ ادیب کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ادیب کی مقامیت اُس کی آفاقیت کی راہ میں حائل نہیں ہوتی، بلکہ اس کی مقامیت اس کے لیے آفاقیت کے حوالوں کو نمایاں کرنے میں خود ایک کردار ادا کرتی ہیں۔ یوں وہ مقامیت سے آفاقیت کی طرف سفر کرتا ہے۔

آفاقیت کوئی مجرد شے نہیں ہوتی کہ ہر فن کار اُسے اپنے گمان کے مطابق اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہوا ملے۔ قومیت یا مقامیت کی طرح اُس کے لیے بھی کچھ ٹھوس اصول اور عناصر ہوتے ہیں۔ ایک سچا، بڑا اور انسان دوست فن کار ان اصولوں اور عناصر کو وہبی اور فطری سطح پر از خود اختیار کرتا ہے۔ یہ عناصر خارجی سطح پر کچھ بہت کامیابی اور آسانی سے کسی فن کا حصہ نہیں بنتے اور نہ ہی کوئی فن کار کسی مکتب میں کوئی آموختہ پڑھ کر ان کو اپنانے کی تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ یہ تو اندر کی روشنی کی طرح خود اُس کے فن میں سرایت کرتے اور راہ پاتے ہیں۔ بڑا ادیب اور بڑا ادب وفاداری بشرطِ استواری کا ایک رخ بھی اپنے فن میں سامنے لاتا ہے۔

یہ رُخ سب سے پہلے اُس کے فن میں قومیت یا مقامیت کے حوالے سے ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے کہ وہ جنگل یا بیابان میں بیٹھ کر تخلیقی عمل سے نہیں گزرتا، بلکہ انسانوں کے بیچ رہتا ہے۔ یہ انسان، ان کی صورتِ حال اور اردگرد کے حقائق سبھی مل کر اس کے فن کی نمود میں حصہ لیتے ہیں۔ جب اپنے فن میں وہ ان حقائق کو، ان لوگوں کو اور ان حالات کو بہ روے کار لاتا ہے تو دراصل اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ ان سب سے اس کا سچا اور گہرا رشتہ ہے۔ جب وہ اپنے فن میں عصری اور مقامی جہت سے معنویت کا اظہار کرتا ہے تو وہ حقیقت کے چھوٹے دائرے سے بڑے دائرے کی طرف ایک سفر کا آغاز کرتا ہے۔

ادب اور خصوصاً بڑے ادب کی تفہیم کے سلسلے میں ہمیں معنویت کے دو دائرے فراہم ہوتے ہیں، ایک وہ جس میں ادیب اپنے قومی شعور کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس مرحلے پر اس کے تخلیق کردہ ادب کو ایک لحاظ سے قومی ادب کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے، جب کہ دوسرے دائرے میں وہ اُن انسانی قدروں کا اثبات کرتا ہے جو اُسے آفاقیت کی سطح پر لے آتی ہیں۔ تاریخ کے اس مرحلے پر کہ جب تہذیبیں اور قومیں شناخت کے بحران سے دوچار ہیں، گلوبل ولیج میں انسانیت ایک بے شناخت اور مشینی طرزِ زندگی کی اسیر ہورہی ہے، کیا اس عہد کے ادیب کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی قومی شناخت اور تہذیبی اقدار پر اصرار کرے اور ان کی بقا کا ہر ممکن سامان بھی؟ کیا وہ ادب آج زیادہ بڑا، اہم اور بامعنی نہیں سمجھا جانا چاہیے جو ایک جہت سے اپنی معنویت کا اظہار قومی دائرے میں کرتا ہو اور دوسری جہت سے وہ آفاقی انسانی قدروں کا بھی علم بردار ہو؟

The post ادب میں قومیت اور آفاقیت کا مسئلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

چین نے دی بھارت کو شہ مات

$
0
0

یہ تین سال پہلے کی بات ہے جب مئی 2014ء میں نریندر مودی نے بڑی دھوم دھام اور طمطراق سے وزیراعظم بھارت کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اس موقع پر انہونی یہ ہوئی کہ وزیراعظم پاکستان، نواز شریف بھی تقریب میں موجود تھے۔

انڈوپاک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی بھارتی وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں پاکستانی وزیراعظم شریک ہوئے۔ تقریب میں سارک ممالک کے دیگر حکمران بھی تشریف لائے۔ وزیراعظم بنتے ہی نریندر مودی غیر ملکی دورے کرنے پر جُت گئے۔ انہوں نے اگلے دو برس میں 36 ممالک کے بڑے ہائی پروفائل دورے کیے۔ ان میں امریکا کا دورہ بھی شامل تھا۔ سابق امریکی صدر، بارک اوباما سے مودی کی اچھی دعا سلام ہوگئی۔ حتیٰ کہ اوباما نے مشہور امریکی جریدے، ٹائم میں مودی پر خاکہ لکھا اور موصوف کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔

بھارتی وزیراعظم کے پے در پے غیر ملکی دوروں کا مقصد یہ تھا کہ بھارت کو علاقائی سپرپاور کے طور پر نمایاں کیا جائے۔ چونکہ بھارت کی معیشت دنیا میں سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کررہی ہے لہٰذا تمام ممالک میں بھارتی وزیراعظم کو خاصی اہمیت دی گئی۔مگر مودی نے سفارت کاری کا جو بگولا اٹھایا تھا، وہ نمایاں اثرات جنم دیئے بغیر سرد ہوچکا۔

اب بین الاقومی سفارت کے میدان خصوصاً ایشیا میں بھارت کے مدمقابل، چین کا طوطی بول رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ موجودہ چینی صدر، شی جن پنگ نے بھی مودی کے وزیراعظم بننے سے صرف چھ ماہ قبل، نومبر 2012ء میں اقتدار سنبھالا تھا۔ مگر چینی صدر کی بین الاقوامی سفارت کہیں زیادہ کامیاب و کامران ثابت ہوئی۔انہی کامیابیوں کے باعث بھارتی حکمران طبقہ اب چین کوشدید حسد اور جلن کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔

ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ اقتدار سنبھالتے ہی مودی نے خود کو ایسے حکمران کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی جو فوری فیصلے کرتا ہے تاکہ کام بہ سرعت انجام پاسکے۔ اس کوشش میں وہ جزوی طور پر کامیاب رہے۔ وجہ یہ کہ وہ ایسے سرکاری نظام کی ہی پیداوار ہیں جہاں سرخ فیتے کے باعث محکموں میں سست رفتاری سے کام ہوتا ہے۔ سفارت کاری کا شعبہ بھی اس سستی سے مبرا نہیں۔بھارت کی اس خامی کا فائدہ چین اور چینی صدر کو ملا اور انہوں نے زیادہ کامیابیاں سمیٹ لیں۔

’’پڑوسی پہلے‘‘ کی ناکام پالیسی
وزیراعظم بنتے ہی مودی نے سب سے پہلے یہ سعی کی کہ بھارت جنوبی ایشیا میں چودھری بن جائے۔ اس حکمت عملی کو انہوں نے ’’پڑوسی پہلے‘‘ (Neighbourhood First) کا نام دیا۔ اس پالیسی کے تحت وہ سترہ برس بعد نیپال اور اٹھائیس سال بعد سری لنکا کا دورہ کرنے والے بھارتی وزیراعظم بن گئے۔ حتیٰ کہ وہ چین کے پڑوسی، منگولیا بھی جاپہنچے۔ یہ کسی بھی بھارتی وزیراعظم کا پہلا دورہ تھا۔ یوں وہ چین کو دکھانا چاہتے تھے کہ اگر وہ بھارت کے پڑوسیوں سے میل ملاپ رکھتا ہے، تو بھارتی حکمران بھی اتنے طاقتور ہیں کہ چین کے پڑوس میں کلّے گاڑ سکیں۔

ماضی میں رواج تھا کہ طاقتور ملک عالمی سطح پر اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے جنگجوئی کرتا اور مختلف ممالک پر قبضہ کرلیتا۔ ماہرین سیاسیات نے اس حکمت عملی کو ’’ہارڈ پاور‘‘ کا نام دیا۔ انیسویں صدی میں طاقتور ممالک کمزور ملکوں کو مالی و مادی امداد دے کر مطیع کرنے کی کوشش کرنے لگے تاکہ اپنا اثر پھیلاسکیں۔ یہ حکمت عملی ’’سافٹ پاور‘‘ کہلاتی ہے۔دور جدید میں بیشتر طاقتور ممالک بین الاقوامی سطح پر اپنی اہمیت بڑھانے کے لیے ہارڈ پاور اور سافٹ پاور، دونوں سے کام لینے لگے ہیں۔ اس مرکب کو ’’سمارٹ پاور‘‘ کا نام دیاجاچکا۔ نریندر مودی نے بھی اقتدار پاتے ہی عالمی سفارت کاری کے میدان میں سمارٹ پاور حکمت عملی اختیار کرلی تاہم انہوں نے زیادہ زور سافٹ پاور پر رکھا۔

بھارت میں مودی سخت مزاج منتظم کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ تاہم انہوں نے بہتر جانا کہ شعبہ عالمی سفارت کاری میں افہام و تفہیم سے کام لیا جائے۔ بھارت پر ویسے بھی اکثر یہ الزام لگتا ہے کہ وہ پڑوسیوں کو ڈراتا دھمکاتا رہتا ہے۔ جولائی 2016ء میں ایک تقریر کے دوران مودی نے اپنی خارجہ پالیسی کے خدوخال کچھ یوں بیان کیے: ’’خارجہ پالیسی کے معنی یہ ہے کہ مشترکہ مفادات پر ممالک سے تعلقات قائم کیے جائیں۔ اس سلسلے میں ہر ملک سے گفت و شنید کرنا ضروری ہے۔‘‘

مودی کی خارجہ پالیسی کی پہلی ضرب 2015ء کے اواخر میں لگی۔ تب نیپال نے اندرونی معاملات و مسائل کے سلسلے میں مودی حکومت کے احکامات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس بات پر مودی چراغ پا ہوگئے اور انہوں نے نیپال جانے والے تیل پر پابندی لگادی۔ نتیجتاً نیپال میں تیل کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔ نیپال نے بحران کا ذمے دار مودی حکومت کو قراردیا اور دونوں ممالک کے تعلقات خاصے کشیدہ ہوگئے۔

جنوری 2016ء میں نامعلوم حملہ آوروں نے بھارتی فضائیہ کے پٹھان کوٹ اڈے پر دھاوا بول دیا۔ بھارتی حکومت نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ پاکستانی جنگجو تنظیموں نے کرایا ہے۔ چناں چہ پاکستان سے تعلقات کی بحالی کا عمل نہ صرف رک گیا بلکہ حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے۔

2016ء میں اندرونی مسائل نے بھی مودی حکومت کو زچ کیے رکھا۔ حکومت نے ٹیکس چوری روکنے کی خاطر بیشتر کرنسی نوٹ منسوخ کردیئے۔ تاہم اس عمل نے معاشی ترقی کونقصان پہنچایا۔ نیز عوام میں مودی حکومت خاصی نامقبول ہوگئی۔ کرنسی نوٹ واپس لینے کے متنازع فیصلے سے جنم لینے والے منفی اثرات طویل عرصے بعد ہی کافور ہوئے۔اب مالدیپ سے بھارتی حکومت کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ اُدھر افغانستان میں گلبدین حکمت یار کی آمد سے بھارتی اثرو رسوخ کم ہونے کا خدشہ ہے۔ ایران سے بھی بھارتی حکومت کے تعلقات کسی حد تک کشیدہ ہوچکے جو ایک ڈرامائی تبدیلی ہے۔

پچھلے سال ماہ مئی میں بھارت، ایران اور افغانستان نے چابھار بندرگاہ کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔ تب وزیراعظم مودی نے دعویٰ کیا کہ اس بندرگاہ کی تعمیر سے بھارت کے وسطی ایشیا اور یورپ سے تجارتی تعلقات بڑھ جائیں گے۔ لیکن چابہار بندرگاہ پر کام تقریباً ٹھپ پڑا ہے۔ وجہ یہ کہ بھارت کے لیے یہ بندرگاہ معاشی فوائد نہیں رکھتی۔ مودی نے صرف اس لیے چابہار کو اہمیت دی تاکہ پاکستانی بندرگاہ، گوادر کی اہمیت کم کی جاسکے جسے چین ترقی دے رہا ہے۔

امریکا سے بڑھتی قربت نے بھارت اور روس کے تعلقات پر بھی منفی اثرات ڈالے ہیں جبکہ روس اور چین مل کر ایک نئی قوت کا روپ دھار چکے ہیں۔ غرض فی الوقت عالمی سفارت کاری کے میدان میں مودی کے داؤ خاصی حد تک ناکام رہے ہیں۔ بھارتی دانشور ناکامی کی ذمہ داری اپنی افسر شاہی کی ’’سرخ فیتہ پالیسی‘‘ کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ افسر شاہی کی سستی و بے پروائی کے باعث بھارت کئی ایشیائی و افریقی ممالک سے تجارتی معاہدے نہیں کرسکا۔ چناں چہ ان ملکوں نے چین سے معاہدے کرلیے۔

دوسری طرف صحیح داؤ کھیل کر اپنی مدبرانہ سیاسی و معاشی حکمت عملیوں کے باعث چینی صدر ،شی جن پنگ اندرون اور بیرون ملک ایک طاقتور حکمران کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ صدر شی نے کئی بین الاقوامی ادارے قائم کیے ہیں اور دلچسپ بات یہ کہ ان میں ایک ادارے… نیو ڈویلپمنٹ بینک کا چیئرمین ایک بھارتی ماہر معاشیات ہے۔مزید براں صدر شی جن پنگ چین کی عسکری طاقت میں بھی تیزی سے اضافہ کررہے ہیں۔ چناں چہ افریقی سمندروں اور بحرالکاہل کے علاقے میں خصوصاً چینی بحریہ کی نقل و حرکت بڑھ رہی ہے۔

ماہرین معاشیات کی رو سے چند بنیادی وجوہ کے باعث چین نے سفارت کاری اور معیشت کے شعبوں میں بین الاقومی سطح پر بھارت کو مات دے دی۔ اول یہ کہ چین میں یک جماعتی حکومتی نظام کارفرما ہے۔ لہٰذا صدر شی، مودی کی نسبت جلد فیصلے کرتے ہیں اور ان پر فوری عمل درآمد بھی ہوتا ہے۔ دوم دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہونے کے ناتے چین کے پاس بھارت کی نسبت وسائل زیادہ ہیں۔ مثلاً وہ ڈالر کے سب سے بڑے ذخائر رکھتا ہے۔ نیز اس کے پاس ہر قسم کا سامان بنانے والی عظیم کمپنیاں موجود ہیں۔ ان وجوہ کی بنا پر وسطی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے لے کر افریقا تک بھارت چین کا مقابلہ نہیں کرسکا۔ اب ان خطوں میں بیشتر ممالک کی معاشی ترقی کا دارومدار چین سے وابستہ ہوچکا۔

حیرت انگیز بات یہ کہ چین بھارت کے آس پڑوس بھی بتدریج قدم جما رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تو چین کے دیرینہ تعلقات ہیں ہی، وہ بنگلہ دیش میں بھی خاصی رسائی حاصل کرچکا۔ چینی صدر نے پچھلے برس بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ اب وہاں 24 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے چین بجلی گھر، بندرگاہ اور ریلوے لائنیں بنوا رہا ہے۔

چین کی سرمایہ کاری سے سری لنکا میں بھی انفراسٹرکچر جنم لے رہا ہے۔ گو سری لنکا اور بھارت کی باہمی تجارت 4.7 ارب ڈالر ہے، مگر چین بھی زیادہ پیچھے نہیں۔ چین اور سری لنکا کی باہمی تجارت کی مالیت 4 ارب ڈالر تک پہنچ چکی۔ خاص بات یہ کہ چین سری لنکا میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ مودی کی سرتوڑ کوشش ہے کہ وہ سری لنکا کو بھارتی دائرہ اثر سے باہر جانے نہ دے، مگر چین رفتہ رفتہ جزیرے میں اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہا ہے۔ سری لنکا اہم بحری راستوں پر واقع ہونے کی وجہ سے جغرافیائی تزویراتی اہمیت رکھتا ہے۔

افغانستان میں بھی چین اور بھارت کے مابین خفیہ و عیاں رسّہ کشی جاری ہے۔ دونوں ممالک وسطی ایشیا کا در کہلائے جانے والے اس ملک کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں لانا چاہتے ہیں۔ فی الوقت باہمی تجارت کے لحاظ سے بھارت کا پلّہ بھاری ہے۔ تاہم مستقبل میں چین افغانستان کا زیادہ مضبوط اتحادی بن سکتا ہے۔ وجہ یہ کہ چین نے افغان حکومت کو سی پیک منصوبے میں شامل ہونے کی پیش کش کی ہے۔ چین پشاور، کابل اور قندوز کے راستے وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کا نیا راستہ چاہتا ہے۔ مزید براں چین سرزمین افغاناں میں پوشیدہ دھاتوں میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔

نیپال بھی چین اور بھارت کے درمیان گریٹ گیم کا حصّہ بن چکا۔ بیسویںصدی میں طویل عرصے تک نیپال میں بھارت کا بہت اثرو رسوخ رہا ہے لیکن اب وہاں چین اپنے قدم جمانے میں مصروف ہے۔ نیپال بھی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ بن چکا۔ نیز چین نیپال کا انفراسٹرکچر کھڑا کرنے میں اربوں ڈالر خرچ کررہا ہے۔ ان عوامل کے باعث نیپال میں بھارتی حکومت کا اثرو رسوخ بتدریج کم ہونے لگا ہے۔

بھارتی دانشوروں کا دعوی ہے کہ چین ایشیائی اور افریقی ممالک میں وسیع سرمایہ کاری کر کے انھیں زیر دام لا رہا ہے۔جیسے ہی سرمایہ کاری اختتام پذیر ہوئی، ان ملکوں میں چین کا اثرورسوخ کم یا ختم ہو سکتا ہے۔تاہم فی الوقت چین کا عظیم الشان ’’ون بیلٹ مون روڈ‘‘ پروجیکٹ بھارت کے لیے نئے چیلنج کے طور پر سامنے آ چکا۔پاکستان میں جاری سی پیک منصوبہ بھی اسی کا حصہ ہے۔شنید ہے کہ چین اس پروجیکٹ پر ’’5 ٹریلین ڈالر‘‘تک رقم خرچنے کو تیار ہے جو تین براعظموں کے پینسٹھ سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔

بھارت اس دیوہیکل چینی پروجیکٹ میں شامل ہونے سے کترا رہا ہے۔وجہ یہ کہ وہ امریکا اور جاپان کی شراکت سے چینی منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لیے ’’ایشیا افریقا گروتھ کوریڈور‘‘ (Asia-Africa Growth Corridor)نامی منصوبہ شروع کرنا چاہتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ عالمی سفارت کاری کے میدان میں مودی سرکار کی یہ نئی مہم جوئی برگ وبار لائے گی یا سابقہ منصوبوں کے مانند یہ منصوبہ بھی بھارتی افسر شاہی کی سرخ فیتے روایت کا شکار ہو جائے گا۔

The post چین نے دی بھارت کو شہ مات appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا سخت قوانین اور یقینی عملدرآمد سے بہتری ممکن ہے؟

$
0
0

گھر وہ عظیم نعمت ہے، جس کی خواہش ہر انسان میں فطری طور پر ہوتی ہے، لیکن کوئی بھی گھر اس وقت تک نامکمل ہوتا ہے، جب تک اس پر چھت نہ ہو اور چھت ستون کے بغیر کھڑی نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح کسی بھی جمہوری ریاست کی عمارت کے لئے تین بنیادی ستون ہوتے ہیں، جو مقننہ، انتظامیہ اور عدالت کہلاتے ہیں۔ ان ستونوں میں سے اگر ایک بھی کمزور ہو تو عمارت کے گرنے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ریاست کے تینوں ستون نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، لیکن عدالت کو ان میں ایک خاص مقام حاصل ہے، کیوں کہ کوئی بھی معاشرہ انصاف کے بغیر پھل پھول نہیں سکتا اور اس انصاف کی فراہمی کا فریضہ عدالت کے حصے میں آتا ہے۔

آئین و قانون کی روشنی میں ملکی مفاد اور بنیادی انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی قضیے کا تصفیہ عدالت کا بنیادی ذمہ داری ہے۔ کسی بھی ریاست کی ترقی اور بقاء کا دارومدار انصاف کی بلا تفریق فراہمی پر ہے، اور عدالت انصاف کی فراہمی کی ضامن ہوتی ہے، لیکن جب افراد اور ادارے اس کا احترام بھول جاتے ہیں تو معاشرہ بدامنی اور لاقانونیت کی جانب چل پڑتا ہے۔ اسی لئے دیگر ممالک کی طرح وطن عزیز میں بھی عدالت کے وقار کو برقرار رکھنے کے لئے توہین عدالت کا قانون موجود ہے۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 204 کے مطابق جب کوئی بھی شخص اعلی عدلیہ یا معزز ججز کے خلاف غلط اور ہتک آمیز زبان کا استعمال کرے، یہ تاثر دینے کی کوشش کرے کہ ججز جانبدار ہیں، عدالتی احکامات کو نہ مانے یا کسی بھی عدالتی حکم کی بحرمتی کرتا ہے یا کوئی بھی کسی عدالتی حکم یا طریقہ کار کو نہیں مانتا جس کو مانا جانا ضروری ہو، یا کوئی بھی شخص کسی ایسے بیان سے پھر جائے جو اِس نے عدالت کے سامنے دیا ہو، یا کوئی ایسا قدم اْٹھائے جو عدالت کی اتھارٹی کو چیلنج کرتا ہو یا دخل اندازی کا مرتکب ہو یا قانون کی عملداری میں متعصب ہو، کسی بھی عدالتی طریقہ کار میں رخنہ اندازی کرے تو اسے توہین عدالت قرار دیا جا سکتا ہے۔ توہین عدالت کی دو اقسام ہیں، یعنی سول اور فوجداری۔ توہین عدالت کا جرم ثابت ہونے پر عدالت مجرم کو قانون کے مطابق 6 ماہ قید اور جرمانہ (ایک لاکھ روپے تک) یا دونوں سزائیں سنا سکتی ہے۔

لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں عدالتوں اور ان میں بیٹھے معزز ججز سے محاذ آرائی نہ صرف بااثر طبقات کا وطیرہ بنتا جا رہا ہے بلکہ حکومتیں بھی انصاف پر مبنی عدالتی فیصلوں پر اطیمنان کا اظہار کرنے کے بجائے اسے اپنی فتح اور شکست کے تناظر میں دیکھتی ہیں، حکومتی سطح پر عدالتی فیصلوں کو نہ ماننے کی ترغیب دینا اب ایک عام سی بات ہے۔

اس مقصد کے لئے جس بودے استدلال کو سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ہو ’’ عوام کی عدالت ‘‘ ہے۔ یعنی شخصی اور خاندانی سطح پر سو فیصد خالص کرپشن پر کوئی کارروائی ہونے لگے تو ’’عوامی عدالت‘‘ سے سرخ رو ہونے کا واویلا شروع کر دیا جاتا ہے، دوسرے لفظوں میں عدلیہ کو باور کرایا جاتا ہے کہ ہم میں یہ طاقت ہے کہ اپنے خاص کارکنوں کو حکم دے کر عدلیہ کے اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں۔ اس کا ایک مظاہرہ قبل ازیں مسلم لیگ ن ہی کے دور میںسامنے آ چکا ہے۔

آئین پاکستان کے مطابق توہین عدالت کے مرتکب افراد کے لئے 6 ماہ کی سزا یا جرمانہ بہت زیادہ نہیں، کیوں کہ اس قانون کی روح کے مطابق اس کا مقصد محض سزا دینا نہیں بلکہ عدالتی وقار اور احترام کا تحفظ ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی شخص پر یہ الزام ہو کہ اس نے توہین عدالت کی ہے اور وہ عدالت میں آکر معافی مانگ لیتا ہے تو اسے الزام سے بری کر دیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں توہین عدالت سے متعلق 90 فیصد کیسز معافی پر ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن عدالتی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عدلیہ کو قابو میں رکھنے کے لیے مقننہ اور حکومت نے اپنے سارے داؤ پیچ استعمال کیے ہیں۔

گورنر جنرل غلام محمد، سکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف، نواز شریف اور بے نظیر کے ادوار میں عدالتوں کو دبانا اور اپنے حق میں فیصلے کروانے کی کوشش عام دستور رہا ہے، عدالت پر حملے سے لے کر اس کے فیصلوں کا مذاق اڑانے تک ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ اپنے مفاد کو زک پہنچنے یا جرم کے آشکار ہونے کے خدشہ کے پیش نطر معزز ججز پر جانبداری کا الزام تو عام روش بنتی جا رہی ہے۔ اور یہی وہ وجوہات ہے کہ جن کے باعث مقتدر افراد کی آشیرباد کے ساتھ آئے روز ہمیں ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں، جن میں عدلیہ کی تضحیک، تمسخر اڑانے یا اس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

آج کل پاکستان کی اعلی ترین عدالت سپریم کورٹ پانامہ کیس میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے حکمران خاندان پر الزامات کی تحقیقات کی نگرانی کر رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومتی کیمپ سے کچھ اس طرح کی زبان استعمال کی جا رہی ہے ’’حساب لینے والو، ہم تمہارا یوم حساب بنا دیں گے،جنہوں نے بھی حساب لیا ہے اور جو لے رہے ہیں، ہم نے چھوڑنا نہیں تم کو، آج حاضر سروس ہو، کل ریٹائر ہو جاؤ گے، تمہارے بچوں، خاندان کے لئے پاکستان کی زمین تنگ کر دیں گے ہم‘‘ اسی طرح گزشتہ دور حکومت میں پاکستانیوں کو وہ وقت بھی دیکھنا پڑا جب حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہ نما بابر اعوان کو میموگیٹ سے متعلق عدالتی حکم کے خلاف پریس کانفرنس کرنے پر سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ کی جانب سے توہین عدالت کا نوٹس ملا تو ان کا تبصرہ کچھ یوں تھا کہ ’’نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا ،کیوں سوہنیا دا گلہ کراں، میں تے لکھ واری بسم اللہ کراں‘‘

بلاتفریق انصاف کی فراہمی پر یقینی ترقی و خوشحالی، امن و سکون کے حصول کے لئے لازم ہے کہ یہ فریضہ سرانجام دینے والے ادارے کے احترام کو تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر مقدم رکھا جائے۔ توہین عدالت کا قانون ایک آئینی ضرورت ہے، لیکن اس کے استعمال کی نوبت سے قبل ہی متعلقہ اداروں اور حکمرانوں کو ان محرکات پر قابو پانا ہو گا، جن کی وجہ سے اس پر عملدرآمد ناگزیر ہو جاتا ہے۔ بصورت دیگر انصاف کی فراہمی اور حصول جب ناممکن بن جائے گا تو معاشرہ میں ایسی مایوسی اور ناامیدی پھیلے گی، جو سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی۔

امریکہ میں توہین عدالت پر چودہ سال قید کی سزا دے دی گئی
دنیا بھر کے مہذب ممالک میں عدالتوں کے احترام اور ان کے وقار کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے توہین عدالت کا قانون موجود ہے، جس میں استثنی جیسی مراعات کا بھی زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا، تاہم توہین عدالت کی صورتیں تقریباً ایک جیسی ہیں، یعنی معزز جج سے بدتمیزی، احکامات ماننے سے انکار، زیر سماعت کیس میں بے جا مداخلت وغیرہ وغیرہ۔

آسٹریلیا میں توہین عدالت پر نہ صرف بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے بلکہ جیل کی ہوا بھی کھانا پڑ سکتی ہے، یہاں یہ چیز بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ کسی معزز جج کی آمد پر اس کے احترام میں کھڑے ہونے سے انکار پر بھی توہین عدالت کا قانون حرکت میں آجاتا ہے۔ عمومی طور پر ترقی پذیر ممالک میں میڈیا پرسنز ’’Exclusive‘‘ کے چکر میں بلاخوف عدالت کی حد بھی پار کر جاتے ہیں، لیکن آسٹریلیا میں ایسا نہیں ہوتا، 2013ء میں آسٹریلیا کے معروف براڈکاسٹرڈیری ہنچ کو صرف اس وجہ سے توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرایا گیا کہ اس نے ایک قتل کیس کی سماعت کے دوران سوشل میڈیا کے ذریعے قیاس آرائی کی۔

کینیڈا میں توہین عدالت کا قانون عام اصولوں سے ہٹ کر بنایا گیا ہے۔ عدالتی احکامات سے انکاری یا معزز ججز کی تضحیک کے تاثر پر عدالت کو فوری طور پر سزا دینے کا اختیار دیا گیا ہے۔ فیڈرل کورٹ رولز کے مطابق توہین عدالت کی صورت میں کوئی بھی معزز جج متعلقہ شخص کو فوری سزا سنا سکتا ہے، جو مذکورہ شخص کو بہرحال بھگتنی ہے، جس کے بعد وہ عدالت آ کر اپنا جواب داخل کرا سکتا ہے۔ آسٹریلیا میں توہین عدالت کی سزا پانچ سال سے کم یا جب تک وہ حکم پورا نہ کر دے رکھی گئی ہے۔

ہانگ کانگ کی تمام عدالتوں یعنی کورٹ آف فائنل اپیل، ہائی کورٹ اور حتی کہ ضلعی کورٹس کو بھی توہین عدالت قانون کے تحت فوری طور پر سزا دینے کا اختیار دیا گیا ہے، جو بھاری جرمانے کے علاوہ 6 ماہ تک قید ہے۔ برطانیہ میں توہین عدالت ایکٹ 1981ء کے تحت اس جرم میں ملوث مجرم کو 2 سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے، یہ جرم چاہے سول ہو یا فوجداری سزا ضرور دی جائے گی۔ امریکا میں توہین عدالت کا قانون بلاواسطہ یا بالواسطہ اور سول و فوجداری میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہاں عدالتوں کے احترام کو اس قدر ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے کہ توہین عدالت کی صورت میں فوری سزا دی جا سکتی ہے اور اس سزا کا استحقاق بھی خود عدالت کے پاس ہے۔ سول توہین عدالت میں سزا کا کوئی تناسب نہیں، جس کی ایک بڑی مثال ایچ بیٹے چاڈوک ہے۔ عدالتی احکامات نہ ماننے پر امریکن فیڈرل لاء کے مطابق ایچ بیٹے چاڈوک کو 14 سال تک جیل میں رکھا گیا، جو کہ ایک منفی ریکارڈ کا درجہ رکھتا ہے۔

توہین عدالت قانون میں سقم کے باعث نہال ہاشمی جیسے کیسز سامنے آ رہے ہیں:چیئرمین جوڈیشل ایکٹویزم پینل اظہر صدیق
چیئرمین جوڈیشل ایکٹویزم پینل اور معروف وکیل اظہر صدیق نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور پر آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کا قانون ایک آئینی جرم ہے اور آئینی جرم میں کوئی استثنی نہیں۔ اس قانون کو کئی بار بدلنے کی کوشش کی گئی، جس کی ایک بڑی مثال 2013ء ہے، جب ایک ہی روز میں اس قانون کو بدل دیا گیا، لیکن میں نے اسے چیلنج کیا اور بعدازاں سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دے دیا۔

اسی طرح آصف زرداری جب صدر پاکستان تھے، تو اس وقت میں نے ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دی، جس پر انہوں نے اپنا سیاسی عہدہ چھوڑ دیا، خورشید شاہ جب وفاقی وزیر تھے، تو حج کوٹہ کے حوالے سے میری طرف سے دی گئی توہین عدالت کی درخواست پر انہوں نے عدالت سے معافی مانگی، اسی طرح سیکرٹری بلدیات، سیکرٹری مذہبی امور وغیرہ کے خلاف بھی میں نے توہین عدالت کی درخواستیں دیں، جو کامیاب رہیں۔

ماہر قانون کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں عدالتوں کے وقار کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، لیکن افسوس ہمارے توہین عدالت کے قانون کو ایک مذاق بنا دیا گیا ہے۔ آپ دیکھ لیں ایک سال میں صرف ایک بندے یعنی آئی جی پنجاب کے خلاف اڑھائی سو توہین عدالت کے کیسز ہیں۔ میرے خیال میں اس قانون کو کمزور کرنے میں جہاں بااثر افراد کا ہاتھ ہے، وہاں اس کے اپنے اندر پایا جانے والا سقم بھی اس کا ذمہ دار ہے۔

اس قانون کے تحت صرف 6 ماہ قید اور جرمانہ ہے، لیکن میرے خیال میں یہ سزا کم از کم 10 سال ہونی چاہیے، تاکہ کوئی بھی فرد عدالتی وقار مجروح کرنے کی کوشش نہ کر سکے۔ پھر توہین عدالت کے کیس کو طول دیا جاتا ہے، جس دوران عدالتوں پر دباؤ بھی ڈالا جاتا ہے تو میری تجویز یہ ہے کہ اس کیس کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر اندر کیا جانا چاہیے۔

اظہر صدیقی نے مزید کہا کہ توہین عدالت کے قانون میں سقم کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں بااثر افراد کا عدالتی وقار کے حوالے سے رویہ بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے، جس کی ایک حالیہ مثال نہال ہاشمی کیس بھی ہے۔ مذکورہ قانون میں کم سزا جیسے سقم کی وجہ سے نہال ہاشمی جیسے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ توہین عدالت کیس میں سخت سزا کے ساتھ ان محرکات کا بھی جائزہ لیا جائے، جو اس کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں، نہال ہاشمی کیس میں وزیراعظم میاں نواز شریف براہ راست ذمہ دار ہیں۔

The post کیا سخت قوانین اور یقینی عملدرآمد سے بہتری ممکن ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


شیروں کا دوست

$
0
0

جنوبی افریقا کا کیون رچرڈسن شیروں کا دوست ہے جو ہر وقت ان کے ساتھ رہتا ہے، ان سے باتیں کرتا ہے، انہیں اپنی باتیں سناتا ہے، ان کی باتیں سنتا ہے اور ان وحشی جانوروں کے ساتھ بہت خوش و  خرم رہتا ہے۔

ویسے تو کیون رچرڈسن کو اس حیثیت سے ساری دنیا میں ہی پسند کیا جاتا ہے، لوگ اسے اپنے  ببر شیروں کے ساتھ کھیلتے کودتے اور اٹکھیلیاں کرتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور اس کی ہمت و جرأت کی تعریف کرتے ہیں، مگر  خود رچرڈسن  کو یہ بات ہرگز پسند نہیں کہ اس کے شیروں کو دیکھنے  کے لیے آنے والے سیاح ان کے جسم پر پیار سے  ہاتھ پھیریں یا تھپکیاں دیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے پالتو وحشی شیر دوسروں کے لیے تفریح طبع کا ذریعہ بنیں۔

اس حوالے سے کیون رچرڈسن کا کہنا ہے:’’آج کا زندہ شیر ببر کل کی ٹرافی بن جاتا ہے، مجھے اپنے پاس آنے والے یہ سیاح کافی مشکوک دکھائی دیتے ہیں،  نہ جانے کیوں مجھے ان کی نیتوں میں فتور دکھائی دیتا ہے، مجھے تو ان کے ہاتھوں پر اپنے ان شیروں کا خون لگا نظر آتا ہے۔ یہ مجھے ان کے قاتل لگتے ہیں۔‘‘

افریقی جنگلات میں ان وحشی شیروں کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں ان کی تعداد میں  40فی صد کے لگ بھگ کمی واقع ہوگئی ہے اور یہ جنوبی افریقا کے جنگلوں میں کم و بیش 20,000 تک کم ہوگئے ہیں۔

کیون رچرڈسن اپنے گھر میں ان خوں خوار شیروں کے ساتھ ایسے اطمینان اور سکون سے رہتا ہے جیسے یہ سب اس کے پالتو جانور ہوں، کیوں کہ یہ سب اس کے ایک اشارے پر حرکت کرتے ہیں اور جس طرح حکم دیتا ہے، بالکل اسی طرح اس پر عمل کرتے ہیں۔ شیروں کے جھرمٹ میں افریقی جنگل میں جھاڑیوں اور پیڑ پودوں کے درمیان کیون رچرڈسن کا گھر کسی سرکس کا منظر پیش کرتا ہے، مگر رچرڈسن اس غیرمعمولی منظر نامے کو کیش نہیں کراتا اور نہ ہی دوسروں کو ایسے عجیب و غریب منظر  دکھاکر اپنی کمائی کا ذریعہ بناتا ہے۔

اس کے بجائے وہ یہ انوکھے منظر دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں اور تماش بینوں کو بالکل پسند نہیں کرتا، کیوں کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے شیر ساری دنیا کے سامنے تماشا بنیں یا وہ انہیں دوسروں کے سامنے پیش کرکے اپنے لیے آمدنی کے حصول کا ذریعہ بنائے۔ شیروں کا یہ انوکھا دوست کیون رچرڈسن  افریقا کے اس انڈسٹری کے سخت خلاف ہے جس میں مخصوص علاقوں میں ان وحشی جانوروں کو قید کرکے رکھا جاتا ہے اور بعض مقامات پر تو انہیں بے دردی سے ہلاک کرنے کا اجازت نامہ بھی دے دیا جاتا ہے۔

کیون رچرڈسن اور اس جیسے دوسرے ناقدین ایسے شکار کے سختی سے مخالف ہیں جس میں شکار کیے گئے شیروں کو کو  بعد  میں بھس بھر  آرائش و سجاوٹ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اسی طرح بعض مقامات پر ان کی لاشوں کو عرصہ دراز تک کے لیے محفوظ بھی کرلیا جاتا ہے۔ اسی لیے کیون رچرڈسن اور اس جیسے مزاج کے حامل دوسرے شکاریوں کو وہ سیاح بالکل پسند نہیں آتے جو ان کے شیروں کو دیکھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے ان کے خصوصی پنجروں کے پاس آکر ا ن کے جسموں پر ہاتھ پھیرنے یا انہیں تھپکیاں دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ بعض شیروں کے چھوٹے بچے جو بے چارے جنگلوں میں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتے، انہیں بعد میں  گولی مار کر ’’ٹرافی انڈسٹری‘‘ کے لیے تیار کردیا جاتا ہے اور ان کی بھاری قیمت وصول کرلی جاتی ہے۔

دوسری جانب سیاحوں کا یہ خیال ہے کہ وہ اس طرح شیروں کے چھوٹے بچوں کو ہلاک کرکے ان کے جسم حنوط کرنے کے بعد جس طرح انہیں ٹرافی بناکر بیچتے ہیں، اس سے شیروں کے تحفظ کے لیے خصوصی فنڈز فراہم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سچ نہیں ہے، یہ ان لوگوں کی خام خیالی ہے، اس طرح چھوٹے شیر مارنے کے  بعد شیروں کے تحفظ کے لیے فنڈز فراہم کرنے کا یہ خیال بالکل لغو اور بے کار ہے۔ یہ تاجروں کی چالاکی ہے، انہوں نے اپنی تجوریاں بھرنے کے منصوبے بنائے ہیں جن میں وہ کام یاب ہیں۔

کیون رچرڈسن کو افریقی جنگلات میں lion whisperer کا خطاب ملا ہوا ہے، وہ شیروں کا دوست اور ہمدرد ہے اور ان سے اس طرح باتیں کرتا ہے جیسے عام انسانوں سے کی جاتی ہیں۔ شیر بھی اس کی باتیں غور سے سنتے ہیں اور اس دوران اسے بہ غور دیکھتے ہیں، اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں جیسے اس کے دل کی باتیں سمجھ رہے ہوں۔

شیروں کا یہ دوست اپنے شیروں کے ساتھ جنوبی افریقا کے دارالحکومت پری ٹوریا کے  نزدیک Dinokeng Game Reserve میں بڑے سکون اور اطمینان سے رہتا ہے۔ وہ ہر روز جب گھر سے باہر چہل قدمی کے لیے جاتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے شیر اس طرح چلتے ہیں جیسے اس کے باڈی گارڈ ہوں۔ اس وقت کیون رچرڈسن کی شان بھی دیکھنے والی ہوتی ہے اور اس کے پالتو اور دوست شیروں کی شان بھی الگ ہی دکھائی دیتی ہے۔ وہ ہمہ وقت اپنے شیروں کے ساتھ کھیلتا کودتا رہتا ہے، ان سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے، جواب میں شیر بھی اس کے ساتھ شوخیاں کرتے ہیں۔

کیون رچرڈسن کا کہنا ہے کہ اس طرح میں شیروں سے محض کھیلتا نہیں، بلکہ ان کے حوالے سے شعور و آگہی پیدا کرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ افریقا کے لوگوں کو افریقی شیروں کی اہمیت اور ان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوجائے۔ یہ محض کھیلنے یا تماشا دکھانے والے جانور نہیں ہیں، بلکہ یہ تو ہمارے لیے ایسا ریسرچ مٹیریل ہیں جس پر بہت کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے، اس کے تحفظ اور سلامتی  کے لیے خصوصی اور ہنگامی اقدامات اٹھانے کی فوری ضرورت ہے۔

کیون رچرڈسن کے بقول:’’شیروں کے حوالے سے سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان کی تعداد ہماری دنیا کے جنگلات میں مسلسل اور تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ اگر یہ تعداد میں اسی طرح کم ہوتے رہے تو بہت جلد ہم کرۂ ارض کی اس شان، اس عظیم شیر سے محروم ہوسکتے ہیں اور میرا  خیال یہ ہے  کہ ہم اپنی اس ’’دولت‘‘ سے کبھی محروم ہونا پسند نہیں کریں گے۔‘‘

شیروں کا یہ انوکھا دوست اور ہمدرد کیون رچرڈسن ہر  روز پری ٹوریا کے قریب روز ڈنوکینگ گیم ریزرو میں اپنے تین خاص شیروں کے ساتھ چہل قدمی کرتا ہے اور واک مکمل ہونے کے  بعد ان کے ساتھ خوب اٹکھیلیاں کرتا ہے، انہیں گدگداتا ہے، ان کے ساتھ کھیلتا ہے اور اپنے ان بے زبان دوستوں کے ساتھ دل کی باتیں بھی کرتا ہے، انہیں اپنے قصے سناتا ہے اور پھر بڑی توجہ سے ان کی باتیں بھی سنتا ہے۔

جنوبی افریقا کے ’’دی لائن اینڈ سفاری پارک‘‘ میں ایک مقامی آپریٹر نے بتایا کہ ہم نے اپنے ہاں آنے والے سیاحوں کو شیروں کے بچوں  کو تھپکنے یا ان کے جسم پر ہاتھ پھیرنے سے روک دیا تھا تو اس کے بڑے حیرت انگیز منفی نتائج نکلے، وہ یہ کہ وہاں شیروں کے بچوں کو دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوگئی تھی۔ چناں چہ ہمیں اس کی اجازت دینی پڑی جس کے بعد وہاں آنے والوں کی تعداد ایک دم بڑھ گئی، اس سے اندازہ ہوا کہ آنے والے سیاح شیر کے بچوں کو تھپ تھپانے کے کتنے شوقین ہیں۔ ممکن ہے انہیں اس کام میں بہت مزہ آتا ہو یا شیر کے بچوں کو پیار کرتے ہوئے انہیں  خاص لطف محسوس ہوتا ہو۔

کیون رچرڈسن کا کہنا ہے کہ  میں اپنے شیروں کو  اپنے پاس رکھتا ہوں اور ان کی موت کے بعد ہی ان کی لاش کو یا تو کسی قدرتی مقصد کے لیے دے دیتا ہوں یا پھر انہیں اپنے ملک اور شہر کے  نامی گرامی چڑیا گھروں اور  پارکوں  وغیرہ کو عطیہ کردیتا ہوں۔ میں اپنے شیر کسی بھی قیمت پر شکاریوں کے ہاتھوں فروخت نہیں کرتا۔

آج کیون رچرڈسن کی عمر 42سال ہوچکی ہے، وہ شادی شدہ ہے اور  دو بچوں کا باپ ہے۔ وہ ایک بڑے وائلڈ لائف ایریا کا انتظام سنبھالتا ہے جس میں 31شیر  ڈنوکینگ ریزرو میں ہیں جو جنوبی افریقا کے دارالحکومت پری ٹوریا کے شمال میں واقع ہے۔

ان میں سے بعض شیر ایسے تھے جنہیں جنگلوں میں نہیں چھوڑا جاسکتا تھا، یہ شیر بعض اہم آپریشنز کے بعد شکاریوں کی قید سے چھڑا ئے گئے تھے اور ایسے شیر بھی تھے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ غیرقانونی طور پر منتقل کیے جارہے تھے کہ انہیں پکڑلیا گیا۔ ان شیروں کو بھی قتل کرنے کے لیے لے جایا جارہا تھا لیکن انہیں ان کے گاہکوں تک پہنچنے سے پہلے ہی چھڑا لیا گیا۔

کیون نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے شیروں کی افزائش نسل نہیں کرتا، بلکہ  اپنے 1300 ہیکٹئر یا 3200ایکڑ کے رقبے پر اپنے شیروں کو گائے، ہرن اور بارہ سنگھوں کی عطیہ کی گئی لاشیں بہ طور خوراک استعمال کراتا ہے۔

کیون رچرڈسن نے اپنے ایک پیارے سے شیر کی ٹھوڑی کھجاتے ہوئے کہا:’’مجھے لوگ شیر کش نہیں سمجھتے بلکہ شیروں کا فخر قرار دیتے ہیں۔ میں خود بھی بے حد محتاط آدمی ہوں اور اس موقع پر اور بھی زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرتا ہوں۔ یہ شیر محض جنگلی جانور نہیں بلکہ بہت اچھے دوست بھی ہیں۔ وہ آپ کو احساس دلاسکتے ہیں کہ  وہ آپ کے ساتھ کیسا محسوس کرتے ہیں۔ وہ پیار کرنا بھی جانتے ہیں اور انہیں پیار کروانا بھی آتا ہے۔‘‘

کیون رچرڈسن نے یہ بھی بتایا کہ ان گزرے برسوں میں میرے ان دوست شیروں نے مجھے بارہا کاٹا بھی ہے اور اپنے تیز ناخنوں سے میرے جسم پر جگہ جگہ  کھرونچیں بھی ڈالی ہیں، مگر مجھے یہ سب چیزیں بہت اچھی اور پیاری لگتی ہیں، کیوں کہ ان سے مجھے آج تک نہ تو کوئی نقصان ہوا ہے اور نہ ہی میں ان کی وجہ سے زخمی ہوا ہوں۔ ایک بار تو میں نے ایک فلم کے لیے اپنے شیروں کی ساتھ عکس بندی کرائی تھی جس میں میں نے اپنے شیروں کے ساتھ ریسلنگ لڑی تھی، مجھے وہ تجربہ بہت اچھا اور دل چسپ لگا تھا۔ جسے میں آج تک نہیں بھول سکا، کیوں کہ گرجتے برستے اور چنگھاڑتے شیروں کے ساتھ مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

کیون رچرڈسن کی ویب سائٹ پر ٹی شرٹس، کی چین اور کیلینڈر بھی ملتے ہیں، وہ اس کے ذریعے جنگلی حیات کے تحفظ کی مہم چلاتا ہے اور اس کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ یہ ویب سائٹ کیون رچرڈسن کی کوششوں سے ایک طرف تو جنگلی حیات کے تحفط کی تعلیم کو فروغ  دے رہی ہے اور ساتھ ساتھ  شعور و آگہی بیدار کرتے ہوئے فنڈنگ کے لیے بھی راہ ہموار کررہی ہے۔

’’پنھترا‘‘ نامی ایک کنزرویشن گروپ کے صدر لیوک ہنٹر کا کہنا ہے:’’رچرڈسن ایک زبردست انسان ہے، وہ بہت باہمت، نڈر اور کمٹ منٹ والا انسان ہے جسے شیروں سے بہت محبت ہے اور وہ ان کی حفاظت، بقا اور سلامتی کے لیے بھی کوشاں ہے۔ وہ جو کچھ کررہا ہے، یہ سب بہترین اور لائق تحسین ہے۔ وہ لوگوں کی اس قدیم روایت کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے جس میں وہ آتے جاتے شیروں کے ہاتھ مارتے تھے یا محض شغل کے لیے ان کے جسم پر ہاتھ پھیرتے تھے۔ اسے یہ چیز پسند نہیں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ شیر بھی ہمارے دوست اور ہمدرد ہیں، انہیں انسانوں کی طرح سمجھا جائے اور ان کے ساتھ پیار بھرا برتاؤ کیا جائے، یہی زندگی ہے اور یہی ہمارے شیروں کا حق ہے۔

کیون رچرڈسن کو شیروں کے گھروں اور ان کی پناہ گاہوں کی بہت فکر ہے۔ وہ سب سے زیادہ زور اس بات پر دیتا ہے کہ شیروں کی کمین گاہوں کو تحفظ دیا جائے اور انہیں برباد ہونے سے بچایا جائے۔ وہ شیروں کے شوقیہ شکار کے بھی سخت خلاف ہے اور انہیں ہر گز قیدی بنانے کے حق میں نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ شیر کی خوراک جیسے ہرن، بارہ سنگھے وغیرہ کے اسٹور کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیتا ہے۔ وہ شیروں کو دام یا پھندے لگاکر پکڑنے کی سخت مخالفت کرتا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ ہمارے دوست شیروں کی ہڈیاں بعض ایشیائی ممالک میں روایتی دواؤں کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں اور یہ کام پوچرز بہت آسانی سے کرلیتے ہیں، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ شیروں کے اس طرح شکار کو روکا جائے بلکہ اسے قانونی جرم قرار دیا جائے اور ایسا کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے۔

فی الوقت جنوبی افریقا میں شیر کی ہڈیوں کی چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک  کو برآمدات کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن کیون رچرڈسن کو شیروں سے بہت پیار ہے، اسے ان کے تحفظ اور سلامتی کی فکر ہے اور وہ اس شاہی جانور کو صحیح سلامت دیکھنا چاہتا ہے۔

اس کا کہنا ہے:’’آپ لوگ شیروں سے میرے پیار کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ میں اس جانور سے اس حد تک پیار کرتا ہوں کہ اسے اپنے پاس قید میں رکھتے ہوئے بھی بہتر اور معیاری زندگی دینا چاہتا ہوں۔ میں اپنے اس دوست کی اس وقت تک دیکھ بھال کروں گا جب تک میرے دم میں دم ہے، اور جب میں دنیا سے چلا جاؤں گا تب بھی میری یہ دعا ہوگی کہ شیر بادشاہ سلامت رہے اور اس زمین پر ہمیشہ کی طرح دندنا پھرے۔‘‘

The post شیروں کا دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

روشن راستہ

$
0
0

ایک سال سے بے روزگار ہوں۔۔۔۔۔
سوال: آٹھ افراد پر مشتمل کنبے کا میں واحد کفیل ہوں اور گذشتہ ایک سال سے بے روزگار ہوں۔ مکان کرائے کا ہے۔ تین بچے اسکول میں پڑھتے ہیں۔ اسکول کی فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے بچوں کو اسکول سے نکالنے کا نوٹس مل چکا ہے۔ اُدھر مالک مکان کا بھی کرایہ چڑھتا جارہا ہے، اس لیے وہ بھی مکان خالی کرنے کو کہہ رہا ہے۔ محلے کی کریانے کی دکان سے راشن اُدھار لے کر تین وقت کے کھانے کا بندوبست ہورہا تھا اب اُس نے بھی مزید اُدھار دینے سے انکار کردیا ہے۔ دفاتر اور فیکٹریوں کے میں روزانہ ہی چکر لگاتا ہوں۔ ہر ایک کی منتیں کرتا ہوں۔ لیکن کوئی جاب دینے کے لیے تیار نہیں۔ حالات کی وجہ سے بیوی کا رویّہ بھی جارحانہ ہوگیا ہے۔ بچے افسردہ رہتے ہیں۔
(نور محمد : لاہور)
جواب: وظائف کی جو طویل فہرست آپ نے اپنے خط میں تحریر کی ہے وہ سب وظائف ترک کردیں۔ پانچ وقت نماز باجماعت ادا کریں۔ ترتیب سے قرآن پاک کی تلاوت کیجیے۔ آدھی رات کے بعد دو نفل ادا کرکے ننگے سر قبلہ رُخ کھڑے ہوکر 300 مرتبہ ’’یاعزیز ‘‘ پڑھ کر گڑگڑا کر عاجزی کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا کریں۔

ادھوری شخصیت
سوال: میں بی ایس سی فائنل ایئر کی اسٹوڈنٹ ہوں۔ چند سال قبل جب میں چھٹی جماعت میں تھی تو مجھے لقوہ ہوگیا تھا۔ میرے والدین نے میرا بہت علاج کرایا۔ تقریباً چھے ماہ بعد میری طبیعت قدرے بہتر ہوگئی تو یہ سوچ کر کہ اب یہ صحت مند ہوگئی ہے انہوں نے میرا علاج بند کردیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اس بات کا احساس ہونے لگا کہ مجھ میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ میں شوخ و طرار لڑکی ہوں اور ہر وقت دوسروں کو ہنساتی رہتی ہوں لیکن جب خود کو آئینے میں دیکھتی ہوں تو رونے کو دل کرتا ہے۔ میرے تمام بھائی بہن خوب صورت ہیں۔ میں اب احساس کمتری کا شکار ہوتی جارہی ہوں۔ میں سوچتی ہوں کہ مجھ جیسی ادھوری شخصیت کے لیے رشتہ کیسے آئے گا۔
(نام شائع نہ کریں)
جواب: روزانہ صبح اور شام اکتالیس اکتالیس مرتبہ اللہ تعالیٰ کے اسماء: یا قوی یا عزیز یا وکیل یا غفار، گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں پر دم کرلیں اور دونوں ہاتھ دعا کی طرح تین بار چہرے پر پھیرلیں۔ روزانہ صبح اور شام ایک ایک ٹیبل اسپون شہد بھی پییں۔ یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔
ان شاء اللہ آپ کا احساس کمتری بھی جاتا رہے گا اور اللہ کی رحمت سے آپ کو اچھا جیون ساتھی بھی جلد ملے گا۔

وہم ہوگیا ہے
سوال: میری چھوٹی بہن پڑھی لکھی ہے اور گھر کے سارے کام ٹھیک ٹھاک کرتی ہے لیکن اُس کے دل میں عجیب و غریب خیالات آتے رہتے ہیں۔ پہلے یہ خیالات صرف رات کے وقت آتے تھے اب تو تقریباً سارا دن ہی یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ برتن دھوتے وقت چار چار پانچ پانچ مرتبہ ایک ایک برتن کو دھوتی رہتی ہے۔ رات کو دو تین مرتبہ نیند سے اُٹھ کر باتھ روم میں ہاتھ منہ دھوتی ہے۔ ہر چیز کو چیک کرتی رہتی ہے کہ وہ مقررہ جگہ رکھی ہوئی ہے یا نہیں۔ اُس کے دماغ میں یہ وہم بیٹھ گیا ہے کہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو بہت بڑا نقصان ہوجائے گا۔
(نمرہ۔ حیدرآباد)
جواب: اپنی بہن سے کہیں کہ روزانہ اکیس اکیس مرتبہ اﷲ لا الہٰ الا ھو الحی القیوم صبح نہار منہ اور شام ہاتھوں پر دم کریں اور دونوں ہاتھ چہرے پر پھیر لیں۔ یہ عمل کم از کم ایک ماہ تک جاری رکھیں۔ چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اسمِ الہٰی یاسلام کا ورد کرتی رہیں۔

ساس کا دل نرم ہوجائے
سوال: میری ساس کا سلوک میرے ساتھ اچھا نہیں۔ اُن کی ہر ممکن کوشش یہی ہے کہ میرے شوہر کا میرے ساتھ جھگڑا ہوجائے۔ میں اُن کی ہر طرح سے خدمت کرتی ہوں اور انہیں خوش رکھنے کی کوشش بھی کرتی ہوں لیکن اُن کے رویے میں ذرا بھی تبدیلی نہیں آتی۔ اپنے شوہر کو بتاتی ہوں تو وہ مجھے کہتے ہیں کہ ماں کا درجہ بہت بلند ہے۔ اُن کی ہر غلطی معاف ہے۔
(ش۔ اسلام آباد)
جواب: رات کو سونے سے پہلے وضو کرکے اول و آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ سورہ مریم کی پہلی آیت کھٰیٰعص اکتالیس مرتبہ پڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ آپ کی ساس کے دل میں آپ کے لئے نرمی آجائے۔

چہرہ پر سختی
سوال: میری عمر 17 سال ہے۔ میں کسی کے خلاف اپنے دل میں بُرائی نہیں رکھتی اور سب کے لیے اچھا ہی سوچتی ہوں لیکن اس کے باوجود میرے چہرے پر بہت سختی نظر آتی ہے۔ میرا چہرہ اپنی عمر کے لحاظ سے بھی بہت بڑا لگتا ہے۔
(گ۔ ب۔ کراچی)
جواب: رات سونے سے پہلے ایک تسبیح سورہ یوسف (12)کی آیت 19 قال یبشریٰ ھٰذا غلم واسروہٗ بضاعۃً پڑھ کر ایک لوٹے پانی پر دم کریں اور اس پانی سے چہرہ دھوئیں۔ یہ خیال رکھیں کہ یہ پانی کسی گملے یا کیاری ہی میں گرے۔ اس عمل کی مدت چالیس روز ہے۔ ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔
حافظہ سے شادی کی خواہش ہے
سوال: میں حفظ و ناظرہ قرآن کاایک مدرسہ چلا رہا ہوں۔ میری عمر تقریباً 25 سال ہے۔ دو جگہ سے میری منگنی ٹوٹ چکی ہے۔ خواہش تھی کہ قرآن پاک کی حافظہ سے شادی کروں گا تاکہ وہ مدرسے کے کاموں میں میرا ہاتھ بٹا سکے۔ خداخدا کرکے حسبِ خواہش ایک رشتہ ملا، ابو رشتہ مانگنے گئے تو اُن لوگوں نے ابو کو انتظار کرنے کے لیے کہہ دیا، لیکن اب اس بات کو بھی کئی مہینے گزر چکے ہیں اور اُن لوگوں کی طرف سے کوئی معقول جواب نہیں آیا۔
(زید۔کراچی)
جواب: بعد نماز عشاء اوّل و آخر گیارہ گیارہ بار درودشریف کے ساتھ اکتالیس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھ کر شادی کے لئے دعا کریں۔ یہ عمل 40 روز تک جاری رکھیں۔

آوارہ لڑکے
سوال: ہمارے گھر کے سامنے فٹ پاتھ پر کچھ آوارہ قسم کے لڑکوں نے بیٹھنا معمول بنالیا ہے۔ پان کھا کھا کر پیک تھوکتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے گھر کی دیواریں بھی گندی ہوگئی ہیں۔ یہ لوگ نشہ بھی کرتے ہیں۔ پورا محلہ ان سے عاجز ہے لیکن انہیں روکنے کے لیے کوئی بھی کسی قسم کا قدم نہیں اُٹھاتا۔ محلے میں سب پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں۔ سب مل کر چاہیں تو ان کے والدین سے بات کریں اور محلے کا ماحول ٹھیک ہوجائے۔ ہمارے گھر میں کوئی مرد نہیں۔ ہم تین بہنیں اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہیں۔ ہم چاروں ہی اسکول میں پڑھاتی ہیں۔ آپ سوچ سکتے ہیں ان آوارہ لڑکوں کی وجہ سے ہم لوگوں کو کس قدر اذیّت کا سامنا ہوتا ہوگا۔ ہمیں یقین ہے کہ اﷲ کے پاک کلام کی برکت سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ پلیز آپ ضرور ہمیں کچھ بتائیے۔
(نام شائع نہ کیا جائے)
جواب: آپ ایک فل اسکیپ کے چمک دار کاغذ پر کسی کاتب سے خوب صورت خط میں:
نصر من اﷲ و فتح قریب، لکھوا کر فریم کروالیں اس فریم کو گھر کے کورڈ ایریا کے داخلی دروازے کے اوپر لٹکادیں۔ فریم لگانے سے قبل حسبِ استطاعت کچھ صدقہ کردیں۔ آپ، آپ کی بہنیں اور والدہ محترمہ چلتے پھرتے اُٹھتے بیٹھے یا سلام کا ورد کرتی رہا کریں۔

دکان چل نہیں رہی
سوال: میری ایک دکان ہے۔ میں نے اس پر بہت محنت کی ہے اور کافی پیسہ بھی لگایا ہے لیکن ابھی تک صحیح معنوں میں آمدنی نہیں ہوسکی۔ گھر کے خرچے کے لیے اب اُدھار لینا پڑرہا ہے۔
(ع۔خ: حیدرآباد)
جواب: بعد نمازِ عشاء 101مرتبہ ’’یامجیب الدَّعوٰۃ‘‘ گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر روزگار میں کشادگی اور برکت کے لیے دعا کریں۔ چلتے پھرتے اُٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کے اسماء یا رزاق یا فتاح کا ورد کرتے رہا کریں۔ یہ عمل کم از کم نوے روز تک جاری رکھیں۔

کہیں دوبارہ فیل نہ ہوجاؤں
سوال: میں پہلی جماعت سے ہمیشہ اول یا دوم پوزیشن لیتا رہا۔ میٹرک بھی اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ تمام ٹیچرز مجھے ایک لائق اسٹوڈنٹ سمجھتے تھے۔ لیکن فرسٹ ایئر میں نہ جانے مجھے کیا ہوا کہ میرا دل پڑھائی سے اُچاٹ ہوگیا اور میرے پیپرز اچھے نہیں ہوئے۔ مجھے سخت شرمندگی اُٹھانی پڑی۔ اب یہ حال ہے کہ پڑھتے وقت ذہن یکسو نہیں ہوپاتا۔ اِدھر اُدھر کے خیالات آنے لگتے ہیں، جو کچھ یاد کرتا ہوں کچھ دیر بعد بھول جاتا ہوں۔ ہر وقت یہی ڈر رہتا ہے کہ میں آئندہ سال فیل ہی نہ ہوجاؤں۔
(م۔ ف۔ کراچی)
جواب: فجر کی نماز باجماعت ادا کریں اور اُس کے بعد چہل قدمی کریں۔ کھلی فضا میں گہرے گہرے سانس لیں۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کچھ وقت کھیل کود بھی ضروری ہے۔
صبح اور شام اکیس اکیس مرتبہ سورۂ قمر کی آیت 17، تین تین مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر ایک ایک ٹیبل اسپون شہد پر دم کرکے پییں اور اپنے اوپر بھی دم کرلیں۔ یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔

امی ابو سے زیادہ پڑھی لکھی ہیں
سوال: ہم دو بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ ہماری امی صوم و صلوٰۃ کی پابند ہیں۔ اُن کی تعلیم بی اے ہے، لیکن امی کو آج تک کوئی دیرپا خوشی حاصل نہیں ہوئی۔ شادی کے چند سال بعد ابو نے امی کو اس لیے چھوڑ دیا کہ امی ابو سے زیادہ پڑھی لکھی ہیں۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ابو نے ہم بھائی بہنوں کو امی سے چھین لیا۔ جب ہم لوگ بڑے ہوگئے اور ہمارے اخراجات بڑھ گئے تو ابو ہمیں ہماری امی کے پاس ماموں کے گھر چھوڑ گئے۔ امی اسکول میں پڑھاتی تھیں لیکن ایک مہینے پہلے بغیر کسی وجہ کے امی کی ملازمت ختم ہوگئی۔ ماموں کے اپنے اخراجات ہیں اور ابو کسی بھی طرح ہمارے اخراجات اُٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان حالات میں بڑے بھائی نے پڑھائی چھوڑ دی ہے ۔ ہم بھائی بہنیں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن امی کو اب تک کہیں جاب نہیں مل سکی ہے۔
(ن۔ع ۔ لاہور)
جواب: فجر کی نماز کے بعد اول و آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ101 مرتبہ یامقتدر پڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے حضور عاجزی کے ساتھ اپنے تمام مسائل کے حل کے لیے دعا کریں۔ اپنی امی سے کہیں کہ وہ چلتے پھرتے اُٹھتے بیٹھتے وضو بے وضو یاحی یاقیوم کا ورد کرتی رہا کریں۔ یہ عمل کم از کم 40 روز تک جاری رکھیں۔

اعصابی تکلیف
(عمران احمد۔ ڈسکہ)
سوال: میں سخت اعصابی تکلیف میں مبتلا ہوں۔ گردن اور کمر میں مستقل درد رہتا ہے۔ جسم کے پٹھے اکڑے ہوئے ہیں۔ بغیر سہارے کے میں سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتا۔ ذرا سا پیدل چل لوں تو سانس پھول جاتا ہے۔
جواب: روغن سورنجان تلخ کمر میں ہلکے ہاتھ سے دائروں میں مالش کریں۔ دس منٹ دن میں اور دس منٹ رات میں۔ سونٹھ کا سفوف ایک ماشہ صبح اور ایک ماشہ شام دو پیالی پانی میں اتنی دیر تک پکائیں کہ پانی ایک پیالی کے برابر باقی رہ جائے۔ اب اسے چھان کر ایک چمچہ شہد ملا کر پییں۔ اس علاج کی مدت کم از کم اکیس روز ہے۔

قرضہ بڑھتا جارہا ہے
(م۔ ا۔خ: سیالکوٹ)
سوال: گھریلو مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ قرضہ اس قدر ہوگیا ہے کہ جو رقم آتی ہے وہ قرضوں کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے۔ گھر میں بہت زیادہ بدحالی اور تنگ دستی ہے۔ ہر فرد پریشان رہتا ہے۔ بچے پڑھے لکھے ہیں لیکن ملازمت سے محروم ہیں۔
جواب: عشاء کی نماز کے بعد 101سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر37 : ان اﷲ یرزق من یشاء بغیر حساب،101مرتبہ ، گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر روزگار میں برکت اور قرض کی ادائیگی کے لیے اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا کریں۔ یہ عمل اکتالیس روز تک جاری رکھیں۔

خود کو کمتر سمجھتی ہوں
سوال: میں نے اچھے نمبروں سے ایف اے کرنے کے بعد اب بی کام میں ایڈمیشن لیا ہے۔ خوش شکل ہوں اور پڑھائی میں بھی اچھی ہوں ۔ خدا کا دیا سب کچھ ہے لیکن پھر بھی شدید احساسِ کمتری میں مبتلا ہوں۔ ہر وقت ذہن پر ایک خوف طاری رہتا ہے کہ میں جو بھی کام کروں گی یا جس پروگرام میں بھی حصہ لوں گی وہاں Reject ہوجاؤں گی۔ کسی فنکشن میں جاتی ہوں چاہے میں سب سے اچھی لگ رہی ہوں ، میرے اندر بے چینی رہتی ہے کہ میں اچھی نہیں لگ رہی۔ جب دوسری لڑکیوں کو دیکھتی ہوں تو خود کو کمتر سمجھنے لگتی ہوں۔ جب میں تنہا ہوتی ہوں تو میرے اندر یہ خیال ہوتا ہے کہ میں بہت کچھ کرسکتی ہوں لیکن وقت آنے پر سب گڑبڑ ہوجاتا ہے۔
(م۔ ن۔ راولپنڈی)
جواب: نیلے رنگ کا چمک دار نگینہ چاندی کی انگوٹھی میں جڑوا کر اس طرح پہنیں کہ نگینہ آپ کی انگلی سے مَس ہوتا رہے۔ روزانہ ہلکی پھلکی جسمانی ورزش بھی ضروری ہے۔ کم از کم گھر میں کچھ دیر رسی کود لیا کریں۔ رنگ اور روشنی کے طریقہ علاج پر تیار کردہ نیلی شعاعوں کا پانی صبح شام ایک ایک کپ پییں۔
رات سونے سے پہلے 101مرتبہ یا اللّٰہ، گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیا کریں۔

خط بھیجنے کے لیے پتا ہے۔
’’روشن راستہ‘‘ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
پی او بکس 2213 ،کراچی۔74600
ای میل: dr.waqarazeemi@gmail.com
فون نمبر: 021-36685469

The post روشن راستہ appeared first on ایکسپریس اردو.

’’پہلی نظر کی محبّت‘‘؛ کیا ہے حقیقت، کیا ہیں وجوہات

$
0
0

(کنسلٹنٹ سائیکاٹرسٹ و سائیکو تھراپسٹ)
پہلی نگاہ میں محبّت  (Love at first sight)  کی کہانیاں ہر معاشرے پر ثقافت میں عام ہیں۔ اِس طرح کی بے شمار سچّی کہانیاں ہمارے چاروں طرف ہر لمحے پیدا ہورہی ہیں۔ کچھ، کچھ دِنوں میں مرجھاجاتی ہیں اور کچھ عُمر بھر کے بندھن میں بندھ جاتی ہیں۔ ہر دو صورتوں میں محبّت کا معصوم اور نرم و نازک جذبہ ہمارے دِل کے تاروں کو چھیڑتا ہوا، خوابوں کے مختلف مدارج طے کرتا ہوا کبھی شبنم کی بوندوں کی طرح شب بھر میں ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے تو کبھی، کبھی نہ ختم ہونے والی سوچ کا حصّہ بن کر ہماری روح سے ہم کلام رہتا ہے۔

نام، چہرے اور کِردار بدل جاتے ہیں مگر محبّت کی ہر کہانی کا مرکزی خیال ایک ہی رہتا ہے۔ وقت کی دھوپ چھاؤں میں اِس خیال کی شمع کبھی بھڑکتی ہے، کبھی لرزتی ہے کبھی ٹمٹماتی ہے کبھی آپ ہی آپ بجھ جاتی ہے تو پھر اچانک تیز بارش میں ازخود جل بھی اٹھتی ہے۔ کبھی ایک ہی نام ایک ہی چہرہ ایک ہی کِردار، محبّت کے کینوس پر ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد کِسی تیسرے نام، چہرے اور کِردار کی تصویر اُجاگر کرتے رہتے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں محبّت کا معصوم اور نرم و نازک جذبہ، نمو، روشنی اور توانائی پاتا رہتا ہے۔

پھر زندگی کے دوسرے کنارے پر ایسے لوگ بھی سانسیں لے رہے ہوتے ہیں، جن کے دِلوں کی زمین پر کبھی بھی محبّت کی پھوار نہیں پڑی ہوتی۔ ایسے لوگوں کی پیاس اُنہیں ساحل بہ ساحل، کوچہ بہ کوچہ زرد پّتوں کی طرح پھراتی رہتی ہے۔ وہ حیرت اور حسرت سے محبّت کرنے والو ں کو دیکھتے ہیں۔ لاکھ جتن کرتے ہیں مگر نہ تو اُن کو کِسی سے محبّت ہوپاتی ہے نہ کوئی اور اُن سے محبّت میں آہیں بھرپاتا ہے۔ محبّت سے محرومی اُن کی شخصیت میں کانٹے اُگانا شروع کردیتی ہے۔ اور جو اُنہیں اپنے فِشار کے اظہار کے ذرائع بھی نہ مِل پائیں تو پھر اُن کے اندر کی تلخی اُن سمیت اُن کے گردواطراف کے ماحول اور لوگوں کی بھی تلخ اور ترش کرتی چلی جاتی ہے۔

زندگی کے ایک اور گوشے میں ایسے لوگوں کا ہجوم بھی ہوتا ہے۔ جو تمام عُمر محبوب بننے کی تمنّا میں دوسروں سے محبّت کیے چلے جاتے ہیں لیکن کوئی دوسرا اُن سے محبّت نہیں کرپاتا۔ یک طرفہ محبّت کے سہارے، آدھی ادھوری شخصیت اور ٹوٹے پھوٹے جذبات کے بوجھ تلے اِن کا سفر جاری رہتا ہے۔

پھر تقدیر کی چاندنی میں چمکتے ایسے لوگ بھی ہمارے آس پاس بستے ہیں جو اپنی محبّت کے اسیر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ کِسی اور سے محبّت نہیں کرپاتے لیکن زندگی کے ہر قدم پر اِن کا تن من محبّت میں بھیگتا رہتا ہے۔ ہر گام پر اِن کا ہاتھ تھامنے اور اِن کو سہارا دینے کے لیے دوسرے ہاتھ بڑھتے رہتے ہیں اور اِن کے سروں پر محبّت کے تاج سجاتے رہتے ہیں۔

محبّت دو طرفہ ہو یا یک طرفہ، جب تک اعتدال کے دائرے میں رہتی ہے، ہمیں توانائی فراہم کرتی رہتی ہے۔ لیکن جونہی یہ دائرہ ٹوٹتا ہے، حدود مشروط ہوتی ہیں یا انتہا کی طمع جاگتی ہے، محبّت کی طاقت کا پہّیا اُتنی ہی تیزی سے اُلٹی طرف چلنا شروع کردیتا ہے اور محبّت میں مبتلا افراد کے ساتھ خاندان اور معاشرے کی سالمیت پر بھی ضرب پڑنا شروع ہوجاتی ہے۔

درحقیقت، اُنسیت، لگاؤ، محبّت، عشق، یہ تمام جذبے جنس مخالف کی طرف جھکاؤ، کشش اور رغبت کے مختلف مراحل و مدارج ہوتے ہیں۔ جہاں ایک طرف لاشعوری سطح پر ہر انسان کے اندر چاہنے اور چاہے جانے کی تمنّا کے پھول ہمہ وقت کِھلتے رہتے ہیں۔ وہاں عُمر کے مختلف حصّوں میں جنسِ مخالف کی طرف ہمارا جھکاؤ اور اُس کی رفاقت کی خواہش کی وجوہات میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اوائلِ عمری یا Teen Age میں لڑکے اور لڑکیاں، اندرونی لاشعوری جنسی تبدیلیوں اور ہارمونز کے مدّوجزر سے مجبور ہوکر ایک دوسرے کی رفاقت اور دوستی کی جستجو اور تگ و دو کرتے ہیں۔ پھر اگلے چند برسوں میں یہی لاشعوری دباؤ، جسمانی تعلق کی خواہش میں ڈھلنا شروع ہوجاتا ہے۔ زندگی کے اِن دہ مراحل میں Love at first sight  یا پہلی نطر کی محبّت کے پسِ پردہ یا پسِ لا شعور عام طور پر یہی وجہ بنیادی یا اوّلین ہوتی ہے۔

30 تا 40 برس کی عُمر چوںکہ بدن کے ساتھ ساتھ ذہن، دماغ و نفسیات کی نشوونما کے سامان بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ لہذا عُمر کے اِس حصّے میں مرد اور عورت کے درمیان کشش کا عنصر محض جسمانی تعلق نہیں رہ پاتا بل کہ پھر اُس میں ذہنی، جذباتی اور معاشرتی رفاقت یا  Bond  کے عناصر بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ گو اِس عُمر میں ہونے والی محبتوں کا دارومدار کئی سماجی عوامل پر ہوتا ہے۔ عُمر کے اِس حصّے تک پہنچنے کے باوجود غیرشادی شدہ زندگی یا نا خوش گوار و ناہموار ازدواجی زندگی، فطرت کے رنگ یا نفسیاتی اُلجھنیں، آزادی و مخلوط ماحول، حرص ہوس لالچ، ضرورت یا مجبوری یا پھر کوئی اور وجہ اِس عُمر میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کی کشش میں اُلجھا سکتی ہے۔

پھر ہمارے معاشرے میں 40 تا 50 سال کی عُمر تک کے افراد بھی عشق کا شکار ہوتے دِکھائی دیتے ہیں۔ Middle Age Crisis ہر سوسائٹی میں نظر آتا ہے۔ ہر نسل ہر قوم میں ماہرین نفسیات نے عُمر کے اِس حصّے میں پیدا ہونے والی معاشی، نفسیاتی، سماجی وجوہات کو اپنی ریسرچ کا موضوع بنایا ہے۔ اور Addescent Crisis (نوبلوغیت کی عُمر کے درمیان پیدا ہونے والے نفسیاتی و سماجی و روّیہ جاتی ردّ عمل) کی طرح اِس عُمر میں بھی خصوصاً مردوں کے اندر ایک نئی زندگی، ایک نئے لائف پارٹنر، ایک نئے ماحول کی لاشعوری خواہش کے بیدار ہونے کے کئی عوامل پر روشنی ڈالی ہے۔ چند اہم وجوہات جو 40 تا 50 سالہ مردوں کو پہلی بار یا ازسرِ نو  Crushes یا Infatuation یا جنسِ مخالف کی طرف کھنچاؤ یا محبّت یا محبّت نما جذبے کی جانب مائل کرتی ہیں، کیا کیا ہوسکتی ہیں؟

1)  اب تک مجرّد زندگی۔

2)  نا آسودہ، ناخوش گوار، ناپسندیدہ ازدواجی زندگی۔

3)  دولت، کام یابی، مرتبے کے حصول کے بعد معیارات و نظریاتِ زندگی میں تبدیلی۔

4)  لائف پارٹنر سے ذہنی، روحانی، سماجی مطابقت نہ رکھنا یا نہ رکھ پانا۔

5)  بچوں کی پیدائش کے بعد عورتوں کا اپنی قدرتی نسوانی و جسمانی کشش کھوبیٹھنا۔

6)  امورِخانہ داری اور بچوں کی پرورش میں اتنا مصروف ہوجانا کہ شوہر کی ضروریات کا خیال رکھنا ترک کردینا اور شوہر کو عدم توجہی اور سردمہری کا سامنا کرنا۔

7)  مخلوط ماحول اور آزادانہ میل ملاپ کے ذرائع۔

8)  مخصوص مردوں کی مخصوص نفسیات یا فطرت۔

9)  مردوں کے سماجی مرتبے اور دولت کو دیکھ کر غیرشادی شدہ زیادہ عمر کی لڑکیوں کا اُن کی طرف جھکاؤ اور لگاؤ کا اظہار۔

10)  بیوی کی وفات، دوسرے شہر یا دوسرے مُلک میں رہائش یا کوئی اور ضرورت۔

11)  بِنا کِسی ظاہری، خانگی، سماجی وجد کے پہلی نظر کی محبّت یا وارفتگی۔

قطع نظر اِس کے کہ محبّت کی پہلی نظر کے اسباب کیا رہے ہوں یا پہلی، دوسری اور تیسری محبتوں کے وقت جسمانی اور ذہنی عُمر کیا رہی ہو۔ اور حالات و اسباب کیا رہے ہو۔ یہ امر مسلمّہ حقیقت ہے کہ محبّت کا چراغ جب بھی جلتا ہے، عقل کی روشنی سِمٹنے لگتی ہے۔ آسمانی دلائل سے بالاتر۔ محبّت کی مالا گلے میں ڈالنے کے بعد پھر چاروں طرف کچھ اور نظر نہیں آتا۔ بس ایک چہرے کے سوا۔ ایک نظر کے سحر کا شکار یہ چہرہ پھر تمام عُمر کا ہم سفر بنے یا زمانے کے شور کی نذر ہوجائے اور پھر کبھی دِکھائی نہ دے۔

دونوں صورتوں میں محبّت کے خُمار کا اثر تمام عُمر کے لیے انسان کے دِل اور دماغ پر ایسے نقش ضرور ثبت کرتا ہے۔ جو اُس کے حال اور مستقبل کے تمام ذاتی، سماجی، کاروباری فیصلوں اور راستوں کے رُخ کے انتخاب میں اُس کی شخصیت اور نفسیات کے اندرونی رنگوں کی عکاسی کرتے رہتے ہیں۔

The post ’’پہلی نظر کی محبّت‘‘؛ کیا ہے حقیقت، کیا ہیں وجوہات appeared first on ایکسپریس اردو.

100 برس کی جامعہ عثمانیہ اپنی بے توقیری پر آنسو بہا رہی ہے

$
0
0

حیدرآباد دکن کہنے کو جنوبی ہند کی ایک ریاست تھی جو دیگر ہندوستانی ریاستوں کی طرح برطانیہ کی باج گزار اور مطیع و فرماں بردار رہی، مگر اپنی مخصوص حیثیت اور امتیازی خصوصیت کی بنا پر انفرادیت کی حامل تھی۔

آبادی ایک کروڑ چونسٹھ لاکھ، اس کا رقبہ چھیاسی ہزار مربع میل یعنی انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے مجموعی رقبہ سے بھی زیادہ۔ اس کا سکہ الگ، پرچم الگ، ڈاک اور ریلوے کا نظام، دوسری ریاستوں کے مقابلے میں اسے داخلی طور پر خود مختاری حاصل تھی۔ یہی سبب ہے کہ اپنے عہد کی نابغۂ روزگار شخصیات بھی حیدرآباد دکن کی تعریف و توصیف کرتی نظر آتی ہیں۔

نواب مشتاق احمد خاں، سید سبط حسن، بابائے اردو مولوی عبدالحق، خلیفہ عبدالحکیم، پروفیسر حمید احمد خاں حیدرآباد دکن کی مرفہ الحالی، امن و امان اور تمدنی یک رنگی، وہاں کے انتظام و انصرام اور علمی و ادب کی ترقی اور فروغ میں ریاست کے فرماں روا اور سربراہان کے کردار کی تعریف کرتے ہیں۔ اس ریاست نے ملک بھر کے دینی، علمی اور رفاہی اداروں کی بھرپور مدد کی اور اردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے جامعہ عثمانیہ کا قیام اور اردو کو ذریعۂ تعلیم بنانا ایک عظیم کارنامہ تھا۔

ایک ایسی عمارت جس کے سائے تلے اردو نے قیام کیا اور طلباء کو جدید علوم سے آشنا کیا، لیکن آج یہ زبان نفرت اور تعصب کا سامنا کررہی ہے اور جامعہ عثمانیہ کی عظیم اور پُرشکوہ عمارت رفتگاں کو یاد کرتے ہوئے اپنی بے توقیری پر آنسو بہارہی ہے۔

پروفیسر مولانا مناظر احسن گیلانی کی تالیف ’’امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی‘‘ کا پیش لفظ مولانا کے شاگرد ڈاکٹر حمید اﷲ نے تحریر کیا تھا۔ کتاب کے محاسن بیان کرنے کے علاوہ انھوں نے جامعہ عثمانیہ کے حوالے سے انگریزوں کے کردار کا جائزہ لیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

’’جامعہ عثمانیہ کوئی پھولوں کی سیج نہ تھی۔ ایک خودمختار ریاست ہونے کے باوجود انگریزی سفارت کار (ریذیڈینٹ) کی مرضی کے بغیر کوئی اہم کام مشکل سے ہوسکتا تھا۔ جدید وضع کی جامعہ اور ذریعۂ تعلیم انگریزی نہ ہو بلکہ اردو ہو، یہ گھریلو حیدرآبادی چیز نہ تھی۔ اس کے اثرات سارے برطانوی ہند کے نظامِ تعلیم پر پڑتے۔ انگریز کیوں کر منظور کرتا کہ اس کی بات کے چلتے انگریزی پر کوئی ٹیڑھی نظر بھی ڈال سکے، لیکن بہرحال انگریز نے اسے منظور بھی کیا تو اس تصور کے ساتھ کہ نظام کے خرچ پر تجربہ کرلیا جائے اور اس کے ناکام ہونے پر برطانوی ہند کے سیاسی شورش کرنے والوں کو بتایا جائے کہ کسی ’’کالی زبان‘‘ میں جدید علوم کی تعلیم نہیں ہوسکتی۔ ریاست کے اعلیٰ حکام میں کچھ انگریزوں کے ’پٹھو‘ تھے جو اس بات پر تلے ہوئے تھے کہ یہ جامعہ قائم نہ ہو اور نہ چلے۔‘‘

اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خاں کے بارے میں سَر مرزا اسمعٰیل نے لکھا ہے کہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کے لیے انھوں نے فوری طور پر تین کروڑ روپے دیے۔ اب سے ایک صدی قبل یہ رقم آج کل کے اربوں روپے کی برابر رہی ہوگی۔

اعلیٰ حضرت 1911ء میں تخت نشین ہوئے اور صفاتِ عالی شان کے مطابق خلقِ خدا کی فلاح و بہبود اور ریاستی انتظام و انصرام کے حوالے سے بیش قیمت اور لازوال کارنامے انجام دیے۔ اسی سال ریاست میں تعلیمی فضا سازگار ہونے لگی۔ جامعہ عثمانیہ اور دارالترجمہ کے قیام سے ریاست میں نہ صرف ایک تعلیمی انقلاب رونما ہوا بلکہ زندگی کے دوسرے شعبوں پر بھی اس کے مثبت اور گہرے اثرات نظر آئے۔ 1914ء میں پہلی جنگ عظیم چھڑگئی۔ اس جنگ کے خاتمے سے پہلے ہی 26 اپریل 1917ء کو جامعہ کی تشکیل کے لیے فرمان جاری ہوا۔

اس جامعہ کی بنیاد پڑی اور نام جامعہ عثمانیہ قرار پایا۔ اردو کو ذریعۂ تعلیم بناتے ہوئے جامعہ کے قیام کا مقصد طلبا کے اخلاق کی درستی اور مختلف علمی شعبوں میں اعلیٰ درجہ کی تحقیق کا کام تھا۔ اور ہر درجہ میں انگریزی کی تعلیم لازمی قرار دی گئی۔ اس طرح اردو کو انگریزی زبان کا حریف نہیں حلیف بنا دیا گیا تاکہ جامعہ عثمانیہ کے طلبا انگریزی پر عبور حاصل کرکے جدید علوم کے وسیع سرمایہ سے بہرہ مند ہوسکیں۔ یہ فیصلہ ایک طرح سے انگریزوں کی خوش نودی کا باعث ثابت ہوا۔

انگریزی کو لازمی قرار دینے سے جامعہ عثمانیہ کی ترقی میں تعلیمی انتظامی اور سیاسی اعتبار سے فائدہ ہوا۔ جامعہ کی ڈگریوں کو ہندوستان اور بیرون ہند کی جامعات میں تسلیم کروانے کے لیے انگریزی کو لازمی مضمون قرار دینے کا خوب فائدہ ہوا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر محمد عبدالستار صدیقی اور پرو وائس چانسلر ڈاکٹر میکنزی نے ہر اس ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا جن سے اعلیٰ تعلیم یافتہ طلباء کے مفادات وابستہ تھے۔ مسٹر میکنزی نے انگلستان کی جامعات میں جامعہ عثمانیہ کے طلباء کو داخلہ دلوانے کی راہ ہموار کی۔

اگست 1917ء میں شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ قائم ہوگئے اور اس کے تحت نصابِ تعلیم مرتب ہونے لگا۔

اگست 1919ء میں وہ مبارک دن آیا جب آغا منزل میں قائم جامعہ میں تدریس کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے ایک جلسہ حبیب الرحمٰن خاں شیروانی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں ملک کے تمام عمائدین شریک ہوئے۔ اکبر حیدری (حیدر نواز جنگ) نے فرمان پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد صدرِ جلسہ حبیب الرحمٰن خاں شیروانی نے تقریر کی۔ انگریزی کے پہلے استاد جامعہ این جی ولنکر نے انگریزی زبان میں تقریر کی۔ اگلے دن انٹرمیڈیٹ سال اول کے درس شروع ہوئے۔ اس دن کو غفران مکان نواب میر محبوب علی خاں، رفعت یار جنگ اول، نواب سالار جنگ اول، علامہ شبلی نعمانی، عمادالملک، مُلا عبدالقیوم، مولوی محمد مرتضیٰ، آرتھر مے ہو کے خواب کی تعبیر کہا گیا۔

دارالترجمہ کے قیام کے ساتھ ہی میٹرک کی کلاسیں شروع کر دی گئیں۔ 1918ء میں میٹرک کا پہلا امتحان ہوا۔ 523 طلباء نے شرکت کی۔ 92 طلباء نے کام یابی حاصل کی۔ اس نتیجہ سے پہلے ناظم تعلیمات سید راس مسعود نے سَر اکبرحیدری کے مشورے سے عثمانیہ یونیورسٹی میں انٹرمیڈیٹ کلاس کے آغاز کی اسکیم تیار کرلی۔

انگریزی سے واقف، اردو میں لیکچر دینے کی صلاحیت رکھنے والے لائق اساتذہ کا کُل ہند سطح پر انتخاب اور پرکشش تنخواہوں پر تقرری کا مشورہ اعلیٰ حضرت کو دیا گیا۔ پہلے مرحلے پر ایک پرنسپل اور 18اساتذہ کی تقرری کی منظوری حاصل کی گئی۔ 18 اگست 1919ء کو عثمانیہ یونیورسٹی کالج کا افتتاح معین امیر جامعہ محمد حبیب الرحمٰن خاں شیروانی خطبۂ افتتاحیہ سے ہوا۔ محمد حبیب الرحمٰن خاں شیروانی جن کو اعلیٰ حضرت نے صدر یار جنگ کا خطاب دیا تھا، خطبہ پڑھا۔

’’یہ بہت مشکل کام تھا اور ہے، لیکن اعلیٰ حضرت کی شاہانہ سرپرستی اور توجہ، سرکارِ عالی کے محکمۂ تعلیم کی جاں فشانی اور ارکانِ دارالترجمہ کی محنت اور عرق ریزی نے اس دشوار گزار مرحلہ کو اس قدر آسان کردیا کہ آج ہمارا پہلا قافلہ بخیرو خوبی جادہ پیما ہوتا ہے۔‘‘

دوسری تمام وجوہات کے علاوہ نصاب میں انگریزی کی لازمی شمولیت جامعہ عثمانیہ کی ترقی اور اردو میں تعلیم کے تجربہ کی کام یابی کی ضمانت ثابت ہوئی۔ عمائدین اور ماہر اساتذہ نے مل کر اسے کام یاب بنایا اور قریب تین عشرے اردو ذریعہ تعلیم کے کام یاب عشرے تھے۔ دکن اور بیرون دکن ان عشروں کی ساکھ اور دھاک بیٹھی۔ اس دور کے ادبی، علمی رسالوں کو دیکھا جائے تو ایک نشاط کی کیفیت ان میں ملتی ہے۔ جامعہ عثمانیہ کے مجلے پڑھیں تو ایک خواب کی دنیا محسوس ہوتی ہے۔

سقوط حیدرآباد کے بعد اس زبان کو جو اردو کہلاتی تھی زیر کرنے کے حربے اختیار کیے گئے، ہزاروں علمی نسخوں کو نذرِ آتش کردیا گیا۔ جامعہ عثمانیہ کے لوگو (علامتی نشان) سے وہ نشانات کھرچ دیے جن سے اس کی اصل شناخت ہوتی تھی۔ جامعہ عثمانیہ کی عمارتیں وہی ہیں، لیکن اس کی روح اردو، ان عمارتوں میں اب نہیں۔ 1948ء میں سقوط حیدرآباد کے بعد حکم رانوں کی اردو دشمن پالیسی کا شکار ہوگئی اور ذریعۂ تعلیم اردو سے انگریزی کردیا گیا۔

26 اپریل2017ء کو حیدرآباد دکن میں جامعہ عثمانیہ کا صد سالہ جشن منایا گیا۔ بھارت کے صدر پرنب مکرجی نے اس موقع پر ایک بے روح پیغام دیا اور حیدرآباد پہنچ کر تقریبات میں حصہ لیا۔ تلنگانہ کے وزیراعلیٰ نے ان تقریبات کا اہتمام کیا تھا۔ حیدرآباد میں صد سالہ تقریب سے پہلے ریاست کی عظیم اور تاریخی درس گاہ کا ’لوگو‘ بحال کرنے کا مطالبہ زوروں پر تھا جو دراصل اس کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

یوں تو متحدہ آندھرا پردیش کے آندھرائی حکم رانوں نے ’لوگو‘ تبدیل کیا تھا، لیکن چندر شیکھر راؤ جو نظام دکن اور ان کے کارناموں کے معترف ہیں، ان کے لیے تاریخی لوگو کی بحالی کا مطالبہ پورا کروانا ایک چیلینج تھا۔ چیف منسٹر نے نواب میر عثمان علی خاں کی رعایا پروری اور ان کے کارناموں کا ایک سے زائد مرتبہ اسمبلی اور اس کے باہر تذکرہ کیا، حتیٰ کہ ان کے مزار پر حاضری دی اور خراج عقیدت پیش کیا۔ ان کی زبان نظام کے کارناموں کا تذکرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتی، لیکن جب سرکاری سطح پر صد سالہ جشن منایا گیا تو وہ اس اہم تاریخی حیثیت سے محروم رہا۔ عثمانین اور اہل علم و فن کا مطالبہ تھاکہ عثمانیہ یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب میں بانی یونیورسٹی نواب میر عثمان علی خاں کو حقیقی معنوں میں خراج پیش کرنے کے لیے تاریخی لوگو بحال کیا جائے جو پورا نہ کیا گیا۔ اب اس میں عربی الفاظ کی جگہ ہندی اور تلگو میں تحریر شامل ہے جب کہ لوگو میں صرف عثمانیہ کا ’’ع‘‘ باقی رکھا گیا ہے۔n

( اس مضمون کے لیے بدر شکیب (مرحوم) کی تالیف ’سرگزشتِ جامعہ عثمانیہ‘ سے استفادہ کیا گیا ہے)

جامعہ عثمانیہ اور طالبات
’’میں نے وہاں چھے برس گزارے لیکن کسی طالبہ کو سواری کی تلاش میں مارے مارے پھرتے نہ دیکھا، کسی لڑکی کو کبھی ’’بس اسٹاپ‘‘ پر پریشان کھڑا ہوا نہ پایا۔ موجودہ دور میں شاید یہ انکشاف باعثِ حیرت ہو کہ جامعہ عثمانیہ کی تعمیر کے بعد ریلوے لائن کو میلوں تک خم کر کے جامعہ کے قدموں میں ڈال دیا گیا تھا تاکہ طلبا حصولِ علم کے لیے بہ آسانی منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔ بسیں ہمیشہ طلبا کی راہوں میں ’دیدہ و دل فرشِ راہ‘ کیے کھڑی رہا کرتیں۔ طالبات کے لیے خصوصی انتظام یہ تھاکہ ان کی بسیں زنانہ کالج کے احاطے سے چلتیں اور یونیورسٹی سے واپسی پر طالبات کو وہیں واپس پہنچایا کرتیں۔ یہی نہیں بلکہ ہر ہر شعبے میں ایم اے اور ایم ایس سی کرنے والی طالبات کے ساتھ ایک ایک خادمہ ہوتی جو ان کے ساتھ ہی بس میں سفر کرتی اور دن بھر اپنے متعلقہ شعبے میں طالبات کے ساتھ بیٹھی رہا کرتی تاکہ طالبات کو اپنی کسی ضرورت کے لیے خود باہر نہ جانا پڑے۔ جامعہ کی تمام جماعتوں میں پردے کا خاص انتظام تھا۔ سائنس کے ہر ہر شعبے میں لڑکیوں کے لیے علیحدہ تجربہ گاہ تھی۔

طالبات کی آمدورفت کے لیے جامعہ کی عمارت میں دروازے اور راستے تک الگ الگ تھے۔ ان کے لیے لائبریری کے اوقات بھی مخصوص تھے۔ غرض کہ مادر جامعہ نے اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ’’تربیت اور ان کے ناموس کے تحفظ ‘‘ میں بھی کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا اور ان تمام سہولتوں کے باوجود فیسیں برائے نام تھیں۔ اساتذہ کی تنخواہیں البتہ اتنی زیادہ تھیں کہ وہ فکر معاش سے بے نیاز ہوکر سکون کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھیں، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جامعہ کا مقصد علم کی خدمت تھا۔

تجارت نہیں۔ غریب اور ذہین طلبا خصوصاً طالبات کو وظائف دیے جاتے تھے۔ وہاں فیسوں میں رعایت پانا بہت آسان تھا لیکن امتحان میں رعایت حاصل کرنا بہت مشکل۔ وہاں علم کی روشنی عام تھی لیکن تعلیم کی بنیادیں جامعہ عثمانیہ کی پُرشکوہ عمارت کے آثار کی طرح گہری اور مضبوط تھیں۔ وہاں داخلہ پانا آسان تھا لیکن کام یاب ہوکر نکلنا مشکل کہ امتحانات پوری دیانت اور خلوص کے ساتھ ہوتے۔ جامعہ عثمانیہ نے کبھی اس کی پروا نہ کی کہ امتحان میں پاس ہونے والے طلبا و طالبات کا ’’فیصد‘‘ کیا ہے بلکہ ہمیشہ یہ بات پیش نظر رہی کہ سند یافتہ طلبا کی تعلیمی استعداد کیا ہے۔
(وحیدہ نسیم کے مضمون سے چند سطور)

نظام حیدرآباد دکن میر عثمان علی خاں کا جامعہ عثمانیہ کے قیام سے متعلق جاری کردہ حُکم
’’مجھے بھی عرض داشت اور یادداشت کی مصرحہ رائے سے اتفاق ہے کہ ممالکِ محروسہ کے لیے ایک ایسی یونیورسٹی قائم کی جائے جس میں جدید و قدیم مشرقی و مغربی علوم و فنون کا امتزاج اس طور سے کیا جائے کہ موجودہ نظامِ تعلیم کے نقائص دور ہوکر جسمی و دماغی و روحانی تعلیم کے قدیم و جدید طریقوں کی خوبیوں سے پورا فائدہ حاصل ہوسکے اور جس میں علم پھیلانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ ایک طرف طلبا کے اخلاق کی درستی کی نگرانی ہو اور دوسری طرف تمام علمی شعبوں میں اعلیٰ درجہ کی تحقیق کا کام بھی جاری رہے۔

اس یونیورسٹی کا اصل اصول یہ ہونا چاہیے کہ اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ ہماری زبان اردو قرار دیا جائے مگر انگریزی زبان کی تعلیم بھی ہر طالب علم پر لازمی گردانی جائے۔ لہٰذا بہت خوشی کے ساتھ اجازت دیتا ہوں کہ میری تخت نشینی کی یادگار میں حسبِ مذکور اصول محولۂ عرض داشت کے مواقف ممالکِ محروسہ کے لیے حیدرآباد میں یونیورسٹی قائم کرنے کی کارروائی شروع کی جائے۔ اس یونیورسٹی کا نام (عثمانیہ یونیورسٹی) حیدرآباد ہوگا اور ہر اہم و اصولی امر کی نسبت جو اس کارروائی میں پیدا ہو صراحت کرکے میری منظوری وقتاً فوقتاً حاصل کی جاتی رہے۔ (4 رجب المرجب 1335ھ پنجشنبہ)

سقوطِ دکن کے بعد جامعہ اور اردو زبان !
آصف جاہی خاندان کے آخری فرماں روا میر عثمان علی خاں (آصف سابع) کے دور میں ریاست حیدرآباد نے تمام شعبہ ہائے حیات میں زبردست ترقی کی۔ تعلیم کے فروغ میں غیرمعمولی دل چسپی کا مظاہرہ کیا اور شاہی خزانے سے بے دریغ رقم خرچ کی۔ ان کے عہد میں ریاست کے مدارس اور کالجوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ آصف جاہی خاندان نے ریاست میں علم و فنون کے ساتھ عوام کی اخلاقی اور ذہنی تربیت کے لیے انتظامات کیے تھے۔ ریاست میں علما اور باکمال شخصیات کو اکٹھا کیا گیا اور شاہانِ آصفیہ نے ان کی قدر افزائی میں کوئی کمی کوتاہی نہ کی۔ سقوط حیدرآباد کے بعد جو حکومت وجود میں آئی اس کے کرتا دھرتا اردو کے لیے دل میں کوئی نرم گوشہ نہ رکھتے تھے، اسے دفاتر سے نکالنے کی مہم شروع ہوئی۔

جامعہ عثمانیہ کے ساتھ اکثر تعلیمی اداروں سے اردو کو ختم کیا گیا۔ جو زبان تین دہائیوں تک آرٹس، سائنس، قانون، طب اور انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ بنی ہوئی تھی، اسے ختم کر دیا گیا۔ سوال یہ تھاکہ کونسی زبان ہندوستان کی قومی زبان ہوگی؟ مجلس دستور ساز میں یہ موضوع زیربحث تھا۔ تاہم برسر اقتدار طبقہ جلد اردو سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ چناںچہ ایک درمیانی صورت نکالی گئی۔ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے ہندوستانی کو ذریعۂ تعلیم بنانے کے لیے اقدامات اور نصابی کتابوں کی تیاری وغیرہ کے معاملات پر غوروخوص کیا۔

1948ء کے بعد سے ڈیڑھ دو سال تک جامعہ میں غیریقینی حالات رہے، ذریعۂ تعلیم کے حوالے سے مختلف کمیٹیاں بنتی رہیں جو نئی نئی تجاویز پیش کرتی تھیں۔ اساتذہ پریشان تھے اور اردو کے ساتھ ان کا مستقبل بھی ڈول رہا تھا۔ آخر کار تجربات اور اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم قرار پایا اور یہ جامعہ انفرادیت سے محروم ہوگئی۔

The post 100 برس کی جامعہ عثمانیہ اپنی بے توقیری پر آنسو بہا رہی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

ایران میں اصلاح پسندوں کی جیت

$
0
0

جمعہ 20 مئی کو جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب میں قدم رکھا تو اُسی روز ایران میں صدر حسن رُوحانی کے مسلسل دوسری بار صدارتی انتخاب جیتنے کا اعلان ہوا۔

امریکا، سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کے تناظر میں ٹرمپ کی ریاض آمد کے موقع پر ایرانی صدر کا دوبارہ الیکشن جیتنا ایک اتفاق ہی سہی لیکن عالمی سطح پر یہ دونوں خبریں ایک ساتھ ’’بریکنگ نیوز‘‘ بن گئی تھیں۔

68 سالہ حسن روحانی نے اپنے 56 سالہ حریف ابراہیم رئیسی کو شکست دی جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے انتہائی قریب اور قابل اعتماد ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے اعدادوشمار کے مطابق حسن روحانی نے 4کروڑ ووٹوں میں سے 2کروڑ 28 لاکھ ووٹ لیے یعنی انھیں 58 فی صد سے زاید رائے دہندگان کی حمایت حاصل رہی جب کہ ابراہیم رئیسی 15.5 ملین ووٹ حاصل کرسکے۔

ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس بار صدارتی انتخاب میں ٹرن آؤٹ غیرمتوقع طور پر بہت زیادہ رہا اور 4 کروڑ سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔ پولنگ کے وقت میں ووٹروں کی درخواست پر 3 بار اضافہ کیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکیں۔ گو کہ ابراہیم رئیسی نے الیکشن کے حوالے سے کچھ بے ضابطگیوں کی شکایات ضرور کیں لیکن حسن روحانی کی بھاری اکثریت سے کام یابی کی وجہ سے سب پس منظر میں چلا گیا۔

مذہبی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ حسن روحانی ماہر تعلیم ، وکیل اور سابق سفارت کار بھی ہیں ، انھیں عالمی حالات و واقعات کا بھرپور ادراک ہے۔ صدر حسن روحانی اعتدال پسند عالم ہیں، جنھوں نے 2015 میں عالمی راہ نماؤں سے جوہری معاہدے پر بات چیت کی تھی اور وہ ایران کو عالمی سطح پر لانے میں کافی حد تک کام یاب رہے تھے۔ انھوں نے ایران اور عالمی برادری کے کشیدہ تعلقات کی آگ کی حدت کو کم کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کیں اور وہ کافی حد تک اس میں کام یاب بھی رہے۔ انھوں نے دینی تعلیم مدرسہ قم سے حاصل کی جب کہ دینی و دنیاوی تعلیم کے لیے ان کے اہم تعلیمی ادارے تہران یونیورسٹی اور گلاسگو یونیورسٹی رہی۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ مضمون نگار بھی ہیں۔

یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے ایران پر منڈلاتی جنگ کے بادلوں کو بہت دور دھکیلا اور عالمی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کے حل طلب امور کیلیے بات چیت کی جس کے نتیجے میں عالمی برادری بھی ایران کے حوالے سے اپنے رویوں میں کچھ نرمی اور لچک لانے پر مجبور ہوئی۔

حسن روحانی کے حامیوں نے سرکاری سطح پر انتخابی نتیجے کا اعلان ہوتے ہی بھرپور انداز میں جشن منایا۔ لوگ بڑی تعداد میں خیر مقدمی نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور اپنے محبوب قائد کی تصاویر اٹھا کرانھیں کام یابی کی مبارک باد دی۔ روحانی کے حامی بھی پُرجوش انداز میں ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے رہے کیوںکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حسن روحانی ایران کو عالمی سطح پر منوانے اور ایرانی قوم کو ممکنہ عالمی تنہائی سے نکالنے کے لیے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

حسن روحانی مذہبی لحاظ سے حجتہ الاسلام کا عہدہ رکھتے ہیں، اس کے علاوہ اُن کی زندگی کا بڑا حصہ سیاسی محاذ پر کام کرتے گزرا ہے ، وہ ایران میں درجنوں اہم معاملات پر فیصلہ سازی کے مراحل میں شامل رہے ہیں، مختلف ذمے داریوں اور عہدوں پر کام کرتے ہوئے انھوں نے اپنی معاملہ فہمی، سیاسی سوجھ بوجھ، دوراندیشی اور تدبر سے بہت سے معاملات کو خراب ہونے سے بچایا ہے۔ وہ آیت اللہ خمینی کے بڑے پرستار ہیں۔ 1960 اور 1970 کے عرصے کے دوران وہ کئی بار پابند سلاسل بھی ہوئے۔

ایک نظر حسن روحانی کی زندگی کے سفر پر ڈالتے ہیں:

12 نومبر 1948 کو جنم لینے والے حسن روحانی کے والدین نے اُس وقت شاید سوچا بھی نہ ہوگا کہ اُن کا بیٹا ایرانی صدر بنے گا۔ حسن روحانی نے 1960 میں صوبے سمنان کے مدرسے سے دینی تعلیم کا آغاز کیا۔ 1977 میں جب سیاسی حالات کافی کشیدہ ہوگئے تو وہ گرفتاری کے خدشے کے پیش نظر ایران چھوڑ کر آیت اللہ خمینی کے پاس فرانس چلے گئے۔ انقلاب ایران کے تاریخی واقعات اور شاہ ایران کی حکومت کا تختہ الٹنے کے تمام مراحل میں وہ آیت اللہ خمینی کے ساتھ ساتھ رہے اور 1980 سے 2000 تک کے عرصے میں وہ 5 بار ایرانی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ حسن روحانی اپنے تجربے، قابلیت کی وجہ سے مختلف ادوار میں اہم عہدوں پر ذمے داریاں انجام دیتے رہے۔

انھوں نے سپریم ڈیفینس کونسل کے رکن، ایرانی ایئر ڈیفینس کے کمانڈر، ایرانی مسلح افواج کے ڈپٹی کمانڈر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس کے علاوہ وہ 1989 تا 1997 صدر کے قومی سلامتی کے مشیر بھی رہے۔1989 سے 2005 تک کے عرصے میں انھوں نے سپریم نیشنل سیکیوریٹی کونسل کے سیکریٹری کا عہدہ بھی سنبھالا۔1989 سے تاحال وہ سپریم نیشنل سیکیوریٹی کونسل میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی نمائندگی کرتے آرہے ہیں۔ وہ سپریم لیڈر کا انتخاب کرنے والی ماہرین کی کونسل کے بھی رکن ہیں، 2003 سے 2005 تک انھوں نے ایرانی جوہری معاملے پر عالمی قوتوں سے مذاکرات کے دوران ایران کے مرکزی مذاکرات کار کا کردار بخوبی نبھایا۔

جون 2014 میں وہ پہلی بار 50 فی صد سے زاید ووٹ لے کر ایران کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ اس اس بار یعنی 2017 میں اُن کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب گذشتہ الیکشن کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔2013  میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے چند دن بعد ستمبر میں حسن روحانی نے امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز میں ایک مضمون لکھا جس میں انھوں نے امریکا اور دیگر عالمی قوتوں کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنے اور جوہری تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ 27 ستمبر 2013 کو عالمی سطح پر ایک اہم پیشرفت ہوئی جب ایرانی صدر روحانی اور امریکی صدر اوباما کے درمیان ٹیلیفون پر گفتگو ہوئی، یہ 1979 کے بعد سے دونوں ممالک کے سربراہوں کے درمیان پہلا براہ راست رابطہ تھا جسے عالمی سطح پر کافی کوریج ملی۔

2015 میں جب ایران اور عالمی قوتوں کے درمیان جوہری معاہدہ ہوگیا تو ایرانی عوام نے اسے بہت سراہا تھا کیوںکہ ایرانی عوام کی اکثریت کی خواہش تھی اور ہے کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ ساتھ چلیں اور عالمی تنہائی کا شکار نہ ہوں۔ حسن روحانی کے دوسری بار صدارتی الیکشن جیتنے کی ایک بڑی وجہ جوہری تنازع کو خوش اسلوبی سے طے کرانا بھی ہے جس کی وجہ سے ایرانی معیشت کو کافی فائدہ پہنچا۔

روحانی کی زندگی کا مختصر جائزہ اس بات کو عیاں کررہا ہے کہ حسن روحانی نے اپنے سیاسی سفر میں مشکلات بھی جھیلیں، شدید مخالفتوں کا سامنا بھی کیا، قیدو بند کی صعوبتیں بھی اٹھائیں اور ایران کے اندر سے بھی بہت سی تنقید برداشت کی۔ دوبارہ صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد بھی حسن روحانی کا سفر ختم نہیں ہوا، ابھی انھیں بہت سے مراحل طے کرنے ہیں کیوںکہ ابھی ایران کو عالمی سطح پر خود کو منوانے اور مخالفتوں کو ختم کرنے کے لیے بہت کام کرنا ہوگا۔ حسن روحانی کو اس وقت جو اہم چیلینج درپیش ہیں وہ آسان نہیں، آئیے ایک نظر ایرانی صدر کے سامنے آنے والے چیلینجوں پر ڈالتے ہیں۔

سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے تعلقات کو صدر حسن روحانی کے لیے سب سے بڑا چیلنج کہا جاسکتا ہے۔ روحانی نے انتخابی مہم کے دوران کئی بار سپریم لیڈر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ حسن روحانی ایک مذہبی حیثیت بھی رکھتے ہیں اور وہ برسوں سے سپریم لیڈر کے ساتھ رہے ہیں لیکن اب ان کی خواہش ہے کہ ایران کے سخت گیر مذہبی حلقے اُن سے تعاون کریں ۔ اب آنے والا وقت بتائے گا کہ صدر اور سپریم لیڈر کے تعلقات کس طرح آگے بڑھتے ہیں۔

سیاسی قیدیوں کی رہائی ایک ایسا معاملہ ہے جس پر صدر روحانی کو بہت توجہ دینی ہوگی۔ ذرائع ابلاغ رپورٹوں کے مطابق ایران میں اس وقت سب سے زیادہ آواز سیاسی قیدیوں کے حوالے سے اٹھائی جارہی ہے۔ برطانوی اور امریکی میڈیا تو بہت شور مچارہا ہے کہ ایران میں سیاسی قیدیوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے، اب تعداد کتنی بھی ہو حسن روحانی کو اس معاملے پر دھیان دینا ہوگا۔ قابل ذکر گرفتار شدگان میں حزب اختلاف کی گرین موومنٹ کے میر حسن موسوی، اُن کی اہلیہ زہرا راہ نورد اور مہدی کروبی گذشتہ 2  سال سے گھر میں نظر بند ہیں، ان کے علاوہ بہت سے صحافی، وکلا، بلاگرز، انسانی حقوق کی تنظیموںکے ارکان اور دیگر افراد بھی پابند سلاسل ہیں۔

ایرانی معیشت کو بہتری کی جانب لے جانا بھی روحانی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ عالمی پابندیوں کی وجہ سے ایران میں معاشی ترقی کی رفتار کسی حد تک ہلکی ضرور ہوئی ہے لیکن جوہری پروگرام کے حوالے سے معاہدے کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ اس کے مثبت اثرات ایرانی معیشت پر بھی مرتب ہونگے۔ منہگائی پر قابو پانے کے لیے اور بے روزگاری کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ایرانی حکومت ایسے اقدامات کرے جن کے ذریعے ایران پر عائد پابندیوں کی زنجیر کھلتی چلی جائے، اگر ایسا ہوا تو پھر ایرانی عوام صحیح معنوں میں معاشی ترقی سے لطف اندوز ہوسکیں گے، اُن کی عالمی تنہائی بھی ختم ہوگی اور مغرب کی بے جا پابندیوں کے منفی اثرات کے نقصانات سے بھی وہ بچ جائیں گے۔

صدر حسن روحانی کی کام یابی اُن کے اور اُن کے حامیوں کے لیے یقینی طور پر ایک بڑی خبر ضرور ہے لیکن یہ اُس وقت واقعی بڑی خبر بن سکتی ہے جب ایرانی حکومت کے اقدامات عالمی سطح پر سراہے جائیں، پابندیاں ختم ہوں اور ایران کو اندرونی طور پر اور بیرونی محاذوں پر کشیدگی سے نجات ملے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار صدر روحانی ایرانی عوام کے لیے ایسا کیا کرتے ہیں کہ ان کی مقبولیت مزید بڑھ جائے اور ایرانی عوام کو وہ کچھ میسر آجائے جس کی وہ امید کرتے ہیں۔

The post ایران میں اصلاح پسندوں کی جیت appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4746 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>