Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4754 articles
Browse latest View live

موٹاپے کی وجوہات

$
0
0

زیادہ وزن کے حوالے سے سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ وزن بڑھا کیوں ہے؟ کیوں کہ ہر موٹے فرد میں موٹاپے کی وجہ الگ ہو سکتی ہے۔

عام طور پر خواتین میں وزن بڑھنے کی وجہ سہل پسندی، بسیار خوری خاص کر میٹھی اشیاء کی زیادتی بنتی ہے، یا پھر زچگی کے بعد پیٹ بڑھ جانا معمول کی بات ہے۔ بعض اوقات جسم میں ہیمو گلو بن کم ہو جانے سے بھی جسم پھول کر موٹا دکھائی دینے لگتا ہے۔

بہرحال کوئی اور وجہ ہو یا نہ ہو میٹھی اشیاء کا زیادہ استعمال اور سہل پسندی تو اکثر خواتین میں پائی جاتی ہے۔ مردوں میں سہل پسندی اور ورزش وغیرہ نہ کرنا موٹاپے کی بڑی وجوہات سمجھی جاتی ہیں۔لہٰذا خواتین و حضرات سب سے پہلے میٹھا کم کریں، ورزش یا روزانہ کم ازکم تیز قدموں کی نصف گھنٹہ سیر لازمی کریں۔ خوراک میں پرو ٹین اور فولاد کی حامل غذائیں شامل کریں۔

خواتین میں اگر زچگی کے بعد موٹاپہ وارد ہوا ہو تو عرقِ دسمول آدھا کپ دن میں دو بار نہار منہ استعمال کریں۔ کھانے کے بعد اجوائن، زیرہ سیاہ، دانہ مکو اور سونف کا قہوہ بنا کر استعمال کریں۔ اس سلسلے میں عرق برنجاسف بھی بہت زیادہ فوائد کا حامل ہے جو کسی بھی اچھے دواساز ادارے کا خرید کر نصف کپ صبح و شام خالی پیٹ پینامفید ثابت ہوتا ہے۔ پرہیز میں چاول، چکنائیاں، مٹھائیاں اور نشاستے والی غذائوں سے دور رہنا ضروری ہے۔

The post موٹاپے کی وجوہات appeared first on ایکسپریس اردو.


سنے سنائے ٹوٹکوں کے ذریعے ڈائیٹنگ کے نقصانات

$
0
0

ڈائٹنگ کا رجحان ہماری نئی نسل خصوصاً خواتین میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے، جس کے لئے سنے سنائے ٹوٹکوں پر اندھا دھند عمل شروع کر دیا جاتا ہے، حالاں کہ اکثر اوقات ان ٹوٹکوں کا استعمال صحت کی بحالی کے بجائے نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔

موٹے افراد کی خواہش تو راتوں رات سمارٹ ہوجانا ہوتا ہے، لیکن ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایک موٹے شخص کو ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ 3 سے 5 کلو وزن کم کرنا چاہئیے جو طبی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ جب ہم وزن طے شدہ پیمانے سے زیادہ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارا بدن کئی دوسرے جسمانی مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔

ہم اپنے تمام پڑھنے والوں سے گزارش کریں گے کہ سنے سنائے ٹوٹکوں پر آنکھیں بند کر کے عمل شروع کرنے کی بجائے کسی طبی ماہر یا جڑی بوٹیوں کا علم رکھنے والے سے مذکورہ ترکیب کی افادیت بارے ضرور پوچھ لیا کریں تاکہ بعد ازاں کسی بھی جسمانی الجھن سے محفوظ رہا جا سکے۔

دورانِ ڈائٹنگ جسم کو مطلوب غذائی اجزا میں کمی واقع ہو جانے سے کئی دوسرے امراض بھی جنم لینے لگتے ہیں۔ ڈائٹنگ کرنے والے افراد کو چاہیے کہ اپنی خوراک میں فولاد ،کیلیشیم اور فیٹ برن والی غذائیں جیسے پالک،سیب،ٹماٹر، امرود، اسٹابری،انار،لیمن، پیاز، ادرک، لہسن، زیرہ سفیددودھ اور دہی وغیرہ بکثرت شامل کریں۔ موسم کے لحاظ سے خشک میوہ جات کی مخصوس مقدار بھی روزانہ کھایا کریں۔ وزن کم کرنے کی کوشش میں عام طور پر جسم سے ہیموگلوبن کی مقدار کم ہو جایا کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈائٹنگ کرنے والوں کی جلد ڈھیلی پڑ کر روکھی اور بے رونق سی ہو جاتی ہے۔

طبی سائنس کے مطابق جب جسم میں آکسیجن کی کمی واقع ہوتی ہے تو جسم کمزور اور سست ہو جاتا ہے، جلد کے خلیات کمزور ہو کر بے جان ہو جاتے ہیں۔ چونکہ آکسیجن ہی زندگی کی علامت مانی جاتی ہے۔بدن میں آکسیجن کی مقدار پوری کرنے کا آسان ذریعہ صبح سویرے کھلی فضا میں چہل قدمی کرنا اور منہ بند کر کے ناک کے راستے لمبی لمبی سانس لینا ہے۔ لہذا اپنی روز مرہ خوراک میں توازن پیدا کر کے ڈائٹنگ کے نقصانات اور موٹاپے سمیت لا تعداد بیماریوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

palmistg@yahoo.com

The post سنے سنائے ٹوٹکوں کے ذریعے ڈائیٹنگ کے نقصانات appeared first on ایکسپریس اردو.

کریٹی نن کی زیادتی… ایک خطرہ

$
0
0

بلاشبہ گردے انسانی جسم کی چھلنی کا کام کرتے ہیں۔ یہ جسم سے زہریلے مادوں کو خارج کرتے ہیں۔

یورک ایسڈ، یوریا کریٹینائن اور دوسرے نقصان دہ عناصر کو پیشاب کے ساتھ جسم سے باہر نکالنے کا اہم کام بھی یہی گردے سر انجام دیتے ہیں۔ یہ خون کو صاف کر کے ہمیں کئی امراض سے محفوظ رکھتے ہیں۔گردوں کے مسائل سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قدرتی غذائوں پہ انحصار کریں۔

فریز، غیر طبعی اور مصنوعی غذائیں ہمیشہ ہمارے گردوں کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ کولڈ ڈرنکس، بیکری مصنوعات ،مصنوعی معدنی اجزاء،ملٹی وٹامنز،حکیموں کے مبینہ کشتے اور اسٹیرائیڈز کا بکثرت استعمال گردوں کے امراض کا سب سے بڑا سبب ہیں۔

مذکورہ بالا غذائی اجزاء سے بچ کر ہم گردوں کے مسائل سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ بڑھے ہوئے کریٹینائن کو کم کرنے کے لیے سونف قدرت کی ایک بہت بڑی نعمت ہیں۔ آپ روزانہ نصف گرام سونف پانی میں پکا کر ان کا قہوہ دن میں دو سے تین بار پینا شروع کردیں۔

بطور علاج قسط شیریں کا سفوف ایک گرام نہار منہ کھانا بھی تاثیرالاثر نتائج کی حامل طبی ترکیب ہے۔ تین سے چار ہفتے استعمال کرنے کے بعد ٹیسٹ کروا کے چیک کر لیں، انشا اللہ کریٹی نن کی مقدار اپنے درست لیول پہ آ جائے گی۔ لیکن اس دوران ٹماٹر،پالک،چاول ،پروٹین ،کیلیشیم اور فولاد والی غذائوں سے پر ہیز کریں، کیوں کہ یہ مرض کو تقویت بہم پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں۔

The post کریٹی نن کی زیادتی… ایک خطرہ appeared first on ایکسپریس اردو.

مثانے کی کمزوری، وجوہات اور علاج

$
0
0

ایسے افراد جنہیں بار بار پیشاب کی حاجت یا پیشاب کرنے کے بعد بھی قطروں کا نکلتے رہنے اور رات سوتے وقت بار بار اٹھنے سے نیند کی خرابی کاسامنا ہو وہ سمجھ لیں کہ انہیں مثانے کی کمزوری کا مرض لاحق ہے۔

مثانے کی کمزوری کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں، ان میں پیشاب کی حاجت پر ٹائلٹ نہ جانا، سرد تاثیر کی غذائیں بکثرت استعمال کرنا، نیکوٹین اور کیفین کے حامل مشروبات جیسے چائے،کافی، سگریٹ،کولڈ ڈرنکس وغیرہ کا زیادہ استعمال کرنا، مثانے کی پٹھے کمزور ہونا اور میٹا بولزم کی خرابی کے ساتھ ساتھ دائمی قبض ہونا بھی اس مرض کا باعث بن سکتا ہے۔ مثانے کی کمزوری میں مبتلا افراد کو سب سے پہلے چائے، کافی، سگریٹ، کولڈ ڈرنکس اور سفید چینی کا استعمال حتی المقدورکم کر دینا چا ہیے۔

زیادہ تر مشاہدے میں آیا ہے کہ تیز پتی اور تیز میٹھے والی چائے کی زیادتی سے بھی مثانے کی کمزوری کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا مندرجہ بالا بیان کردہ مثانے کی کمزوری کے اسباب کو تلاش کریں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ بطورِ گھریلو علاج صندل پاؤڈر آدھی چمچی، زیرہ سفید ایک چمچی اور مغز بادام دو چمچ سفوف بنا لیں۔ صبح اور شام ایک پاؤ دہی میں ایک کھانے والا چمچ ڈالیں اور لسی بنا کر پی لیا کریں۔ موسم کی مناسبت سے اپنے غذائی معمولات ترتیب دیتے ہوئے برف کی مصنوعات،ٹھنڈے یخ پانی اور سفید چینی کے استعمال سے مکمل پرہیز کریں۔

بھنے ہوئے چنے، کالے تل، مغز بادام اور شکر 50  گرام کی مقدار میں ہم وزن کو سفوف بنا کر دیسی گھی میں نیم بھنا کر کے رکھ لیں۔ رات کو سوتے وقت ایک چمچ چائے والا کھاکر سو جایا کریں۔ بطورِ علاج قرصِ زریں دو دو گولیاں صبح و شام کھانے کے بعد پانی کے ساتھ کھانا شروع کر دیں۔ چند دنوں کے استعمال سے ہی آپ کو اس مسئلے سے چھٹکارا مل جائے گا۔ دھیان رہے قبض کی صورت میں بھی جب مثانے پر دباؤ پڑتا ہے تو پیشاب کے قطرے بار بار آنے لگتے ہیں، لہٰذا ایسی غذا کھائیں جس سے قبض نہ ہو۔ چاول، چکنائیاں اور ترش و بادی غذاؤں سے پرہیز کریں۔

The post مثانے کی کمزوری، وجوہات اور علاج appeared first on ایکسپریس اردو.

وٹامن ڈی کی کمی کیسے پوری کریں؟

$
0
0

وٹامن ڈی ہماری غذا کا لازمی جزو اور بدن کا ایک اہم عنصر ہے۔

ہماری ہڈیوں کی ساخت، بڑھوتری اور حفاظت کا دارو مدار کیلشیم اور وٹامن ڈی پر ہی ہوتا ہے۔ دودھ کیلیشم اور وٹامن ڈی کا بہترین قدرتی ذریعہ ہے، بشرطیکہ دودھ خالص ہو اور گائے، بکری، بھیڑ اور بھینس کا ہو۔ یاد رہے بھیڑ کے دودھ میں وٹامن ڈی بکثرت پایا جاتا ہے۔

ایسے تمام افراد جنہیں وٹامن ڈی کی کمی کا سامنا ہو وہ روزانہ بھیڑ کے دودھ کا ایک گلاس صبح اور ایک گلاس شام پینا شروع کردیں۔ اسی طرح دیسی گھی بھی قدرتی طور پر وٹامن ڈی کا خزانہ مانا جاتا ہے۔ اپنے پورے جسم پر خالص دیسی گھی کی مالش کر وا کے نصف گھنٹہ دھوپ میں بیٹھیں۔ دھوپ بھی قدرتی وٹامن ڈی کا ایک ذریعہ ہے۔ دیسی گھی کی مالش سے جسم میں سورج کی شعاعوں سے وٹامن ڈی جذب کرنے کی صلاحیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ دھیان رہے رواں موسم کی دھوپ میں بیٹھنے سے گریز کریں کیوں کہ دھوپ کی شدت سے جلدی مسائل کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ دھوپ میں بیٹھنے کا عمل صرف موسمِ سرما میں ہی فائدہ دے سکتا ہے۔

علاوہ ازیں ہڈیوں کو مضبوط کرنے والی ورزشوں کا انتخاب بھی کرسکتے ہیں۔وٹامن ڈی کی حامل دیگر غذاؤں میں آلو، پالک، کیلا، بادام، پستہ اور تازہ مکھن وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا ترتیب سے استعمال کر کے بھی آپ  وٹامن ڈی کی کمی سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔

The post وٹامن ڈی کی کمی کیسے پوری کریں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

اعصابی کمزوری سے بچنا مشکل نہیں

$
0
0

انسانی جسم میں پٹھے کمزور ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں ایک اہم وجہ بچپن میں کوئی ایسی بیماری بھی ہو سکتی ہے، جس کے سبب جسم غذائی کمی کا شکار ہو گیا ہو۔

یہ مسئلہ موروثی بھی ہو سکتا ہے یا پھر نوجوان لڑکیوں میں سیلان الرحم اور لڑکوں میں جریان کی وجہ سے جسم میں کمزوری واقع ہوجانے سے بھی پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات جسمانی پٹھوں میں آکسیجن کے جذب ہونے کی صلاحیت میں خرابی پیدا ہو جانے سے بھی پٹھے کمزور ہو جایا کرتے ہیں۔

پٹھوں کی کمزوری دور کرنے کا فوری گھریلو حل تو یہ کہ دار چینی کو پیس کر پائوڈر بنا لیں۔ پائو ڈیڑھ پائو دودھ کو اچھی طرح سے ابال لیں، جب دو چار ابالیں آجائیں تو چھوٹاآدھا چمچ دار چینی پائوڈر ڈال کر پتیلے پر ڈھکنا دے کر آگ بند کر دیں۔

دودھ کو برتن میں تین سے پانچ منٹ ڈھکا رہنے کے بعد نیم گرم پی لیں۔ چند دنوں کے استعمال سے ہی پٹھے مضبوط ہو جائیں گے۔ اسی طرح پانچ سے سات کھجوریں بھی رات کو دودھ میں پکا کر کھانے اور دودھ پی لینے سے بھی پٹھوں کی کمزوری دور ہو جاتی ہے۔ ہاں البتہ اگر کوئی دوسرا پرابلم ہے جیسا کہ سیلان الرحم،جریان یا بیماری وغیرہ تو اس کے لیے کسی اچھے معالج سے مشورہ کرکے دوا استعمال کرنا زیادہ مفید ہوگا۔

The post اعصابی کمزوری سے بچنا مشکل نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

روشن راستہ

$
0
0

مراقبہ برائے حصولِ کشف۔۔۔۔۔

سوال: مراقبہ اگر کشف کے حصول کے لیے کیا جائے تو ایک دن میں کتنی دیر مراقبہ کرنا ہوگا؟
(ابن ِ شاہ: کراچی)
جواب: کسی بھی خاص مقصد کے لیے کوئی بھی مشق متعلقہ علم یا متعلقہ فن کے کسی ماہر کی اجازت سے اور نگرانی میں کی جانی چاہیے۔ قدرت نے ہر شخص میں مختلف صلاحیتیں ودیعت فرمائی ہیں۔ ان میں ادراک ماورائے حواس Extra Sensory Percaption (ESP) بھی شامل ہے۔ ESPکی صلاحیت بعض لوگوں میں کسی مشق کے بغیر ہی اُجاگر ہونے لگتی ہے۔ ہمارے خاندان میں یا ہمارے اردگرد ایسے کئی لوگ ہوں گے جن کی چھٹی حس بہت بیدار ہوگی یا اُنہیں کثرت سے سچے خواب نظر آتے ہوں گے یا اُن میں وجدان (Intution) کی صلاحیت زیادہ متحرک ہوگی۔ ان باطنی صلاحیتوں کو بعض مخصوص مشقوں کے ذریعے بھی بیدار اور متحرک کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ کام کسی استاد کی اجازت اور نگرانی میں کیا جائے، اپنے طور پر نہ کیا جائے۔

ابو سے بچھڑے ہوئے28 سال گزر گئے۔۔۔۔۔
سوال: جب میں ڈھائی سال کی تھی تو ہمارے ابو یورپ چلے گئے تھے۔ چند سال تک اُن کے خطوط آتے رہے۔ وہ خط میں یہی لکھا کرتے کہ مجھے SHIP کی نوکری مل گئی ہے۔ پھر اُن کے کبھی انگلینڈ، جرمنی اور کبھی ناروے وغیرہ سے خط آیا کرتے۔ انہوں نے جب ہمیں آخری خط لکھا تو اُس میں انہوں نے بتایا تھا کہ ’’ایک کمپنی نے مجھے ملازمت کی آفر کی ہے اور میں شپ کی نوکری چھوڑ کر اُس کی ملازمت قبول کررہا ہوں۔‘‘ اس آخری خط کے بعد ابو کا کوئی خط نہیں آیا اور ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ ابو کہاں ہیں۔ جس کمپنی میں وہ ملازم تھے ہم نے وہاں خط بھیجا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ جہاز ختم ہوگیا اور تمام ملازم چلے گئے۔ اب ابو جان کو ہم سے بچھڑے ہوئے تقریباً 28 سال گزر گئے ہیں۔ ہم سب بہن بھائی ماشاء اﷲ شادی شدہ ہیں اور اپنے اپنے گھروں میں خوش و خرم زندگی بسر کررہے ہیں لیکن والد کی جدائی سے سب اُداس رہتے ہیں۔ اپنی والدہ کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی جنہوں نے اپنی ساری زندگی ہم پر نچھاور کردی ہے۔
(ذ۔ل: گجرات)
جواب: اپنی والدہ سے کہیں کہ جب گھر کے تمام افراد سو جائیں تو آدھی رات کے وقت گھر کے چاروں کونوں پر ستر ستر مرتبہ یامعید پڑھ کر پھونک مار دیں۔ یہ عمل کم از کم دو ماہ تک کیا جائے۔

بچے کو خارش
سوال: میرا بھتیجا جس کی عمر سات سال ہے۔ جب وہ دو سال کا تھا تو اُس کے پیروں اور ہاتھ کی انگلیوں پر دانے نکل آئے جو پہلے باریک باریک تھے۔ رات کے وقت ان میں بے انتہا خارش ہوتی ہے۔ کبھی کبھی پانی کی طرح مواد بھی نکلتا ہے اور اکثر زیادہ کھجانے کی وجہ سے خون بھی نکل آتا ہے۔
(صادق ۔ کراچی)
جواب: ایک پاؤ سمندری سیپ لے کر پانی سے دھو کر اچھی طرح صاف کرکے اُسے موٹا موٹا کوٹ لیں اور اُسے سفید کپڑے میں رکھ کر پوٹلی بنالیں۔ اس پانی کو اچھی طرح جوش دے کر چھان لیں اب یہی پانی آپ اپنے بھتیجے کو پینے اور کھانے میں استعمال کرائیں۔ روزانہ نیا پانی تیار کیا جائے گا۔ بچا ہوا پانی ضائع کردیں۔ ایک پاؤ سیپ کی پوٹلی 15دن کارآمد رہے گی پندرہ دن بعد نئی سیپ سے نئی پوٹلی تیار کریں اور اسی طرح پانی بنا کر دیں۔ دو ماہ تک اس عمل کو جاری رکھیں۔

ساس بہو کا جھگڑا
سوال: میں چکی کے دو پاٹوں میں مسلسل پستے پستے اب عاجز آچکا ہوں۔ والدہ اور بیوی کی لڑائیاں ختم ہونے کو نہیں آتیں۔ ماں کہتی ہے تو بیوی کا غلام بن گیا ہے۔ بیوی کہتی ہے جب تمہیں صرف اپنی ماں کا ہی کہا ماننا تھا تو مجھے بیاہ کر کیوں لائے تھے۔ میری ماں کو وہم ہوگیا ہے کہ بہو اُن کے اوپر کوئی عمل کروا رہی ہے۔ گھر میں میری بیوی کو کوئی نہیں پوچھتا کہ تم نے کھانا کھالیا ہے یا نہیں۔ ایک شیرخوار بچے کو فیڈ بھی کرنا ہوتا ہے۔ اب میں شام کو گھر آتا ہوں تو پہلے بیوی کو کچھ کھانے پینے کی چیز لاکر زبردستی کھلاتا ہوں پھر کوئی دوسرا کام کرتا ہوں۔ اس پر میری ماں بہنیں شور مچا دیتی ہیں کہ بیوی کے چونچلے اُٹھائے جارہے ہیں۔
(سلیم: لاہور)
جواب: بہتر ہوگا کہ آپ الگ رہائش کا انتظام کرلیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم اپنے کھانے پینے کا انتظام الگ کرلیں، تاکہ آپ کی اہلیہ کو کچھ ذہنی سکون میسر آئے اور آپ کے بچوں کی بہتر نشوونما ہوسکے۔ ایک عورت کو اس کا شوہر یا ساس، سسر مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ سُسرال والوں کی خدمت کرے۔ اگر کوئی عورت ساس سسر کی خدمت کرتی ہے تو یہ اُس کا اخلاقی وصف ہے اور اسے حسنِ سلوک میں شمار کیا جانا چاہیے۔ سسرال والوں کی خدمت بہو کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔ کوئی شوہر اپنی بیوی کو مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ ساس نندوں کے ساتھ رہے۔ گھر میں سب کا مل جل کر رہنا یقیناً ایک اچھا عمل ہے لیکن کسی گھر میں آئے دن فساد برپا رہتا ہو تو پھر علیحدہ رہنا ہی بہتر ہے۔ آپ ہر نماز کے بعد 101مرتبہ اللہ تعالی کا اسم یاعزیز گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اﷲ تعالیٰ سے دعا کریںکہ گھر کے اس مسئلے کو حل کرنے میں اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو۔ چلتے پھرتے اُٹھتے بیٹھتے یاحی یاقیوم کا ورد کرتے رہا کریں۔

بالخورہ
سوال: میرے سر میں ایک دائرہ سا بن گیا ہے اور اُس دائرے میں سارے بال جھڑ گئے ہیں۔ پہلے یہ دائرہ بہت چھوٹا تھا اب ایک انچ کے برابر ہوگیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ کیا ہے۔ ہمارے گھر میں لڑکیوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ نہ ہی ہمارے مسائل سے کسی کو کوئی غرض ہے۔ والدہ انتقال کرچکی ہیں۔ سوتیلی والدہ کے اپنے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اُسے اُن سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ میں اس عجیب بیماری کے خوف سے اندر ہی اندر گھلتی جارہی ہوں۔
(نام شائع نہ کریں)
جواب: یہ بالخورہ ہے ۔ گھبرانے کی بات نہیں مستقل مزاجی سے علاج کرلیں انشاء اﷲ افاقہ ہوگا۔ انڈے کی زردی کا تیل یعنی روغن بیضہ مرغ لے کر تین مرتبہ سورہ والیل پڑھ کر دم کریں ۔ یہ دم کیا ہوا تیل بالخورے پر مالش کریں۔ یہ عمل دن میں تین مرتبہ جاری رکھیں۔ کسی اچھے شیمپو یا آملے سے سردھو لیا کریں۔

معاشی حالات
سوال: میں نے بی ایس سی کیا ہوا ہے۔ گھر کے معاشی حالات خراب ہونے کی وجہ سے میرے والدین نے مجھے ملازمت کی اجازت دے دی ہے۔ میں پچھلے ایک سال سے ملازمت کے لیے انٹرویوز دے رہی ہوں لیکن اب تک کام یابی نہیں ہوسکی۔
(ب۔ ج۔ کراچی)
جواب: ہر نماز کے بعد 101 مرتبہ سورۂ آلِ عمران کی آیت ان ا اﷲ یرزق من یشاء بغیر حساب گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر بہتر اور بابرکت ملازمت کے لیے دعا کریں۔ عمل کی مدت کم از کم چالیس روز ہے۔

گرمی دانے
سوال: گرمی شروع ہوتے ہی میرے جسم میں گرمی دانے نکلتے ہیں۔ ان میں شدید خارش ہوتی ہے۔ زیادہ کھجانے سے ان دانوں میں سے پانی بھی نکلتا ہے۔ چند دن بعد یہ دانے کسی اور جگہ نکل آتے ہیں۔ یہ تکلیف گزشتہ چار سال سے ہے۔
(پرویز خان۔ حیدرآباد)
جواب: سات دانے عناب عمدہ قسم کے لے لیں۔ رات کو پانی میں بھگو دیں۔ صبح پانی میں یہ عناب اچھی طرح مسل کر پانی چھان کر پی لیں۔ بیچ اور چھلکا پھینک دیں۔ یہ عمل ایک مہینے تک کریں۔ نیم کے پتے پانی میں اچھی طرح جوش دے کر پانی روم ٹمپریچر پر آنے دیں پھر اس پانی سے غسل کریں۔ کلر تھراپی کے اصولوں کے مطابق سبز شعاعوں میں تیار کردہ پانی ایک ایک پیالی صبح اور شام پییں۔

نظربد
سوال: میری ایک سال کی بیٹی بہت خوب صورت اور صحت مند ہے اور ہر ایک کی گود میں فوراً چلی جاتی ہے۔ بہت ہنس مکھ ہے۔ اس لیے کئی پڑوسی اُسے اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ وہ باہر سے گھر میں آتی ہے تو آتے ہی اُسے بخار چڑھ جاتا ہے یا پھر اس قدر روتی ہے کہ سارا گھر پریشان ہوجاتا ہے۔
(مسز انوار۔ کراچی)
جواب: معصوم بچوں کو نظر جلدی لگ جاتی ہے۔ نظر لگ جانے سے بچے بیمار یا چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ نظرِبد کے اثرات ختم کرنے کے لیے صبح و شام ایک مرتبہ سورۂ کوثر پڑھ کر بیٹی کے دائیں گال پر ، دوسری مرتبہ پڑھ کر بائیں گال پر اور تیسری مرتبہ پڑھ کر پیشانی پر دم کردیا کریں۔ بیٹی کی طرف سے حسبِ استطاعت کچھ صدقہ کرتی رہیں۔

غیر ذمہ دار شوہر۔۔۔۔۔
سوال: میرے شوہر شادی سے پہلے تو بہت اچھے تھے لیکن شادی کے بعد نہ جانے اُنہیں کیا ہوگیا۔ دفتر سے ایک ایک ہفتہ چھٹی لے کر گھر پر پڑے رہتے ہیں۔ گھر کے کسی کام سے بھی انہیں دل چسپی نہیں رہی۔ آئے دن کی چھٹیوں کی وجہ سے اُن کو ایک جگہ سے نکالا جاچکا ہے پھر بڑی مشکل سے دوسری جگہ جاب ملی ہے۔ لیکن وہاں بھی انہوں نے وہی معمول بنا رکھا ہے۔ سبزی خریدنے بھی میں ہی جاتی ہوں۔ یہ گھر میں ہوں تو یا سوتے رہتے ہیں یا پھر ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں۔
(ایک مجبور بہن۔ راولپنڈی)
جواب: صبح شام101 مرتبہ بحول وقوت لآالہ الا اﷲ المھیمن العزیز الجبار المتکبر گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے شوہر کے لیے دعا کریں۔ یہ عمل کم از کم ایک ماہ تک جاری رکھیں۔

بیٹے کی یاد آتی ہے
سوال: میری شادی کو چھے سال ہونے والے ہیں لیکن ایک دن سکون کا نہیں دیکھا۔ شادی کے ایک سال بعداﷲ نے ایک بیٹا دیا جو ماشاء اﷲ بہت خوب صورت بچہ ہے۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد سے میری بیوی اپنی ماں کے گھر پر بیٹھی ہے۔ میں خرچہ بھیجتا ہوں تو وہ خرچہ بھی واپس کردیتی ہے۔ بیٹے کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس گئی ہیں۔ گلی محلے میں بچوں کو کھیلتے دیکھتا ہوں تو اپنے بیٹے کی یاد آجاتی ہے اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگتے ہیں۔ میری بیوی کہتی ہے ’’مجھے آزاد کردو میں تمہارے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی۔ اگر مجھے طلاق نہیں دو گے تو میں عدالت کے ذریعے لے لوں گی۔‘‘ جتنا عرصہ بھی وہ میرے پاس رہی خدا جانتا ہے میں نے اُسے خوش رکھنے کے لیے ہر جتن کر ڈالے لیکن ناکام رہا۔
(ر۔ ح۔ کراچی)
جواب: بیٹے کے لیے آپ کی شدید محبت بجا، تاہم کسی عورت کو زبردستی تو زوجیت میں نہیں رکھا جاسکتا۔

پڑھنے میں دل نہیں لگتا
سوال: میرا بیٹا اپنی دو بہنوں سے چھوٹا ہے۔ آٹھویں کلاس میں پڑھتا ہے۔ اس کا دل پڑھائی میں بالکل نہیں لگتا۔ جو یاد کرتا ہے وہ دماغ سے نکل جاتا ہے۔ پہلے سے بہت کم زور بھی ہوتا جارہا ہے۔
(ایک ماں)
جواب: نیلے رنگ کی شعاعوں سے تیار کردہ پانی صبح شام ایک ایک کپ پلائیں۔ صبح نہار منہ اور عصر کے وقت ایک ایک چمچا شہد پر سورۂ قمر کی آیت 17 ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر دم کرکے بچے کو پلائیں اور بچے پر دم بھی کردیں اور اس کے لیے دعا کریں۔

گیس کی وجہ سے درد
سوال: تقریباً دو سال ہوگئے۔ میرے ابّو کے جسم کے مختلف حصّوں میں درد اُٹھتا ہے۔ یہ درد کبھی بازو میں ہوتا ہے، کبھی گردن کے قریب اور کبھی دل کے پاس ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق گیس ہے۔ کافی علاج کروایا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کبھی کبھی یہ درد بہت شدید ہوجاتا ہے اور کبھی ختم بھی ہوجاتا ہے۔
(غزالہ۔ جیکب آباد)
جواب: ڈاکٹری علاج جاری رکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سونف، اجوائن، کالا نمک ہم وزن لے کر باریک سفوف بنالیں۔ یہ سفوف پاؤ ٹی اسپون دوپہر اور رات کھانے کے بعد زرد شعاعوں میں تیار کردہ پانی کے ساتھ لیں۔

خط بھیجنے کے لیے پتا ہے۔
’’روشن راستہ‘‘ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
پی او بکس 2213 ،کراچی۔74600
ای میل: dr.waqarazeemi@gmail.com
فون نمبر: 021-36685469

The post روشن راستہ appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

پرانے کپڑے اتارنا
سعیدہ،جہلم
خواب:۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے کمرے میں ہوتی ہوں پھر الماری سے اپنے کپڑے نکال رہی ہوتی ہوں۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے پرانے کپڑے جو میں نے پہن رکھے ہوتے ہیں ان کو اتارتی ہوتی ہوں ۔ کپڑے اتارتے ہوئے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان کپڑوں کے اندر بدبو پیدا ہو چکی ہوتی ہے جس سے میری طبیعت بھی خراب ہونے لگتی ہے اور پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر:۔ یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کو فکر و غم سے نجات ملے گی۔ آپ کے کاروباراور رزق میں اضافہ ہو گا جس سے آپ کے مال اور وسائل میں بھی بہتری آئے گی۔ جس سے آپ کو قرض بھی اتارنے میں آسانی پیدا ہو گی ۔گھر میں آرام اور سکون ملے گا ۔آپ نماز پنج گانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں اور کچھ صدقہ و خیرات بھی کریں۔

سر پر پگڑی باندھنا
حاجی عادل بخاری، لاہور
خواب:۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے مرشد پاک کے عرس پر ہوتا ہوں۔ وہاں لوگوں کا بہت زیادہ رش ہوتا ہے ۔جب میں خانقاہ کے صحن میں جاتا ہوں تو وہاں پر کئی لوگ ایک بزرگ کے پاس بیٹھے ہوتے ہیں میں جب غور سے دیکھتا ہوں تو وہ میرے مرشد پاک ہوتے ہیں۔ میں اُن کے قریب جاتا ہوں تو وہ مجھے اشارے سے اپنے پاس بلاتے ہیں اور وہ بڑی شفقت سے ایک پگڑی میرے سر پر باندھ دیتے ہیں ۔ پھر ایک ڈبے سے مٹھائی نکال کر میرے منہ میں ڈال دیتے ہیں تو پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کو کسی سلسلہ میں روحانی فیض ملے گا اور اس سلسلہ کی بزرگی عطاء ہو گی۔ آپ اولیا ء اللہ کی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔ آپ کے کاروبار میں برکت ہو گی ۔آپ نماز پنج گانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد بھی کریں اور کچھ صدقہ و خیرات بھی کریں۔

سرخ رنگ کا اونٹ
امجد علی ، کالاشاہ کاکو
خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے آفس میں ہوتا ہوں مگر اندھیرا ہوتا ہے یعنی شاید رات کا وقت ہوتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک سرخ رنگ کا اونٹ سیڑھیوں کے پاس کھڑا ہوتا ہے‘ میں بہت زیادہ حیران ہوتا ہوں کہ یہ اونٹ میرے آفس کے پاس کیسے آ گیا۔ اونٹ مجھے دیکھتا ہے اور پھر غصے سے میری طرف آتا ہے۔ میں اس سے بچنے کیلئے ایک طرف دوڑتا ہوں اور اسے مارنے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ اونٹ مجھے مارتا ہے جس سے مجھے کافی زیادہ تکلیف ہوتی ہے اور پھر اسی تکلیف کی وجہ سے میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی کمینہ دشمن آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ کاروبار میں بھی رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے اور کوئی پریشانی بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ آپ کے مال اور وسائل میں بھی کمی آ سکتی ہے۔ آپ نمازِ پنج گانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ’’یاحی یاقیوم‘‘ کا ورد کریں اور کچھ صدقہ اور خیرات بھی کریں۔

خوبصورت آتش دان
نسیم بیگم‘ اسلام آباد
خواب: میں نے دیکھا کہ میرے شوہر جب دفتر سے واپس آتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سا ڈبہ ہوتا ہے۔ وہ ڈبہ میز کے اوپر رکھ دیتے ہیں۔ جب میں اس کو کھولتی ہوں تو اس کے اندر ایک خوبصورت آتش دان ہوتا ہے۔ میں اس آتش دان کو بڑے کمرے کے درمیان میں اس کی جگہ پر رکھ دیتی ہوں ۔ میں صوفہ کو تھوڑی دُور کر کے اس کو رکھ دیتی ہوں کہ آگ کے شعلے کی وجہ سے کمرے میں کوئی نقصان نہ ہو۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے آپ ایک سلیقہ شعار خاتون بن جائیں گی‘ گھر میں آرام اور سکون ہوگا‘ گھر کی تزئین اور آرائش میں دلچسپی زیادہ پیدا ہوگی‘ کاروبار میں برکت ہوگی جس سے مال اور وسائل میں بھی بہتری آئے گی۔ آپ نمازِ پنج گانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ’’یاحی یاقیوم‘‘ کا ورد بھی جاری رکھیں اور کچھ صدقہ و خیرات بھی کریں۔

مسجد آباد ہوتی ہے
حافظ قدیر احمد‘ لاہور
خواب: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کسی شہر میں اپنے کسی کام کے سلسلے میں جاتا ہوں‘ نمازِ ظہر کا وقت ہوتا ہے اور میں جلدی سے ایک قریبی بڑی مسجد میں چلا جاتا ہوں۔ جب میں مسجد کے اندر جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ مسجد بہت ہی خوبصورت اور بڑی ہوتی ہے۔ میں وضو کرنے کے بعد مسجد کے بڑے کمرے میں جاتا ہوں پھر میں سنت ادا کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ مسجد کے اندر اور باہر کافی تعداد میں لوگ نمازِ ظہر کی ادائیگی کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ میں مسجد کو آباد دیکھ کر دل میں بہت خوش ہوتا ہوں تو میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کو دین کی سمجھ عطا ہو گی۔ دین اور اسلام کے ساتھ آپ کی محبت اور عقیدت میں اضافہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں گے۔ آپ کو دین اور دنیا دونوں میں بھلائی نصیب ہوگی۔ آپ نمازِ پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کریں اور کچھ صدقہ و خیرات بھی کریں۔

باغ میں گلاب کا پھول دیکھنا
شازیہ خان‘ لاہور
خواب: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ صبح سویرے سیر کیلئے ایک باغ میں جاتی ہوں۔ اس باغ کے اندر بڑے اچھے گلابوں کی کیاریاں ہوتی ہیں اور بڑے بڑے پودوں پر گلاب کے پھول لگے ہوتے ہیں۔ یہ گلاب کے پھول بڑے خوش نما ہوتے ہیں اور ان کا رنگ بھی بڑا سرخ ہوتا ہے۔ میں اور میرے شوہر بڑے غور سے ان پھولوں کو دیکھتے رہتے ہیں اور پھر وہاں سے آگے کی طرف چل دیتے ہیں تو میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کے ہاں ایک نیک اور صالح فرزند پیدا ہوگا جو آپ کے لئے توقیر اور عزت کا باعث ہوگا۔ آپ کے خاندان کے وقار اور عزت کو زیادہ نام دے گا۔ آپ کے رزق میں اضافہ ہوگا۔ آپ کے کاروبار میں بھی ترقی ہوگی جس سے آپ کے مال اور وسائل میں بھی بہتری آئے گی۔ آپ نمازِ پنجگانہ ادا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کریں۔

حجامت بنوانا
نوید احمد‘ فیصل آباد
خواب: میں نے دیکھا کہ میں شہر سے اپنے گاؤں جاتا ہوں اور پھر میں نے دیکھا کہ صبح ہی صبح ہمارے گاؤں کا حجام ہمارے گھر آتا ہے اور میرے والد سے کہتا ہے کہ میں بابو صاحب کی حجامت بنانے آیا ہوں۔ میرے والد صاحب مجھے اُٹھاتے ہیں اور پھر میں چچا حجام کو سلام کرنے کے بعد وہاں کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں اور وہ میری حجامت بنانی شروع کر دیتا ہے۔ حجامت کے دوران چچا حجام گاؤں کی تمام باتیں جو گزشتہ کئی دنوں کی ہوتی ہیں وہ مجھے سناتا جاتا ہے اور میں خاموشی سے اس کی باتیں سنتا ہوں تو پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کی زندگی میں نکھار پیدا ہوگا۔ آپ کی عمر میں برکت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہوگا۔ آپ کے کاروبار میں بھی برکت ہوگی۔ گھر کا کوئی فرد اگر بیمار ہے تو اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائیں گے۔ آپ نمازِ پنج گانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کریں۔

آگ بجھانا
شاہد خاں، پشاور
خواب-: میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے گھر کے پاس ایک گھر ہے۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ کس کا گھر ہے۔ میں نے دیکھا کہ رات کا وقت ہے اور اس گھر کو آگ لگی ہوئی ہے۔ میں دوڑ کر پانی لاتا ہوں اور اس آگ کے اوپر ڈالتا ہوں ۔ میں نے اپنے دوست رضا خاں کو بھی دیکھا، میں اس سے کہتا ہوں کہ آؤ یار کسی کی مدد ہو جائے گی اور تھوڑی دیر بعد آگ بجھ جاتی ہے اور پھر ہم دونوں واپس اپنے گھر آ جاتے ہیں اور پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر-: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ دوسروں کی ضروریات اور مشکلات میں مدد کرنا چاہتے ہیں اور یہ جذبہ آپ کو دوسرے لوگوں کے ساتھ تعاون میں پیش پیش رہے گا۔ آپ کے کاروبار میں برکت ہو گی جس سے آپ کے مال اور وسائل دونوں میں بہتری آئے گی۔ مخلوق خدا کی بے لوث اور بے غرض خدمت کرنا بہت بڑا ثواب ہے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد بھی کریں۔

دوست سانپ پھینکتا ہے
خالد احمد، وزیر آباد
خواب-: میں نے دیکھا کہ میں اپنی فیکٹری میں ہوتا ہوں اور میرا ایک دوست مجھے ملنے کے لئے آتا ہے۔ میں اس سے مل کر خوش ہوتا ہوں۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ ایک بیگ سے ایک سانپ نکالتا ہے اور وہ سانپ میری طرف پھینکتا ہے۔ میں جلدی سے دو قدم دوسری طرف ہو جاتا ہوں اور وہ سانپ میرے قریب جا کر گرتا ہے۔ وہ سانپ منہ کھولے میری طرف آنا شروع کر دیتا ہے۔ اتنے میں میرا منیجر آ جاتا ہے اور وہ ایک لاٹھی سانپ کے اوپر دے مارتا ہے جس سے وہ سانپ مر جاتا ہے۔ میں اس دوست پر بہت غصے ہوتا ہوں تو میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر-: یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی دوست نما دشمن آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا مگر اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ محفوظ رہیں گے۔ آپ کو جلد دوست نما دشمن کا پتہ چل جائے گا۔ آپ کے کاروبار میں بھی کوئی رکاوٹ یا بندش آ سکتی ہے جس سے مال اور وسائل میں بھی کمی ہو سکتی ہے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں اور کچھ صدقہ اور خیرات بھی کریں۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.


پاکستان؛ یو این پیس آپریشنز کیلئے افرادی قوت مہیا کرنے والا تیسرا بڑا ملک

$
0
0

انسانی جھگڑوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کے انسان کی خود۔ ہابیل اور قابیل سے آغاز ہونے والے اس عمل نے انسانی تاریخ کے ہر دور میں اپنا وجود برقرار رکھاہے۔

دو انسانوں کے درمیان اختلافات، دو قبائل اور دو ممالک کے درمیان رنجش امن اور بھائی چارہ کی راہ میںہمیشہ سے حائل رہے ہیں۔ ان ہی جھگڑوں اور رنجشوں کے تصفیہ کیلئے کبھی انسانوں نے کسی کو منصف مقرر کیا تو کبھی قبائلی جرگوں کا اہتمام کیا۔

کبھی سفارتی وفود کے ذریعے قیام امن کی کوششیں کیں تو کبھی کسی غیر جانبدار فریق کے ذریعے مصالحتی کو ششوں کو آگے بڑھایا۔ غرض باہمی کدورتوں کے خاتمے کیلئے ہمیشہ سے انسان نے کسی تیسرے فریق کا استعمال کیاہے۔جو غیر جانبداری سے دونوں فریقین کے مابین صلح کے عمل کا آغاز کرے۔ قیام امن کے لئے دونوں فریقین کی کو ششوں کی نگرانی کرے اور حق دار کو اُس کا حق دلانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔

اسی ضرورت اور سوچ نے جنگ عظیم اول کے وقت شدت اختیار کی جب دنیا میں جنگ کی ہولناکیوں نے انسانی وجودوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہواتھا۔ اور دنیا میں ایک ایسے ادارے کی ضرورت کو محسوس کی جانے لگا جو ممالک اور اقوام کے درمیان اختلافات کے حل کیلئے غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے اور ایک نگران کی حیثیت میں باہمی امن کو فروغ دے۔

اس خیال نے 1919 میں لیگ آف نیشن کی بنیاد ڈالی لیکن یہ تنظیم اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل نہ کر سکی اور باہمی اختلافات کے حل کی بجائے خود اختلافات کا شکار ہو کر ٹوٹ گئی۔جس کے بعد دنیا ایک بحرانی کیفیت کا شکار رہی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کا ریوں نے جلد ہی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور جب جنگ کے شعلے ماند پڑنا شروع ہوئے تو دنیا بھر میں اس بات کا احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ جنگ اور تنازعات سے صرف اور صرف انسانی، معاشرتی ،معاشی اور ماحولیاتی تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ تو 1945 میں اقوام متحدہ کے نام سے ایک کثیر التعداد ( ممالک کی رکنیت کے حوالے سے) اور وسیع المقاصد بین الاقوامی آرگنائزیشن کا قیام عمل میں آیا۔

جس نے سماجی، معاشی اورماحولیاتی مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ تنازعات، جنگوں کی روک تھام اور باہمی اختلافات کے حل کیلئے ایک پلیٹ فارم کی حیثیت سے کام شروع کیا اور دنیا کے متنازعہ معاملات اور شورش زدہ علاقوں میں قیام امن کی بحالی کیلئے اپنی کوششوں کا آغاز کرتے ہوئے پہلا پیس کیپنگ مشن 1948 میں عرب اسرائیل کی عارضی جنگ بندی(UNTSO – UN Truce Supervision Organization) پر نظر رکھنے کے لئے تعینات کیا۔اور اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور آج تک اقوام متحدہ کی زیر نگرانی71پیس آپریشنز ہو چکے ہیں اور 16ابھی جاری ہیں۔

اقوام متحدہ کے زیر انتظام امن کے ان آپریشنز کے لئے 31 مارچ 2017 تک ایک لاکھ 13 ہزار 3 سو 94 پیس کیپرز دنیا کے مختلف خطوں میں تعینات ہیں جن میں سے11944سویلین پولیس اہلکار،1821 اقوام متحدہ کے فوجی مبصر(Military Observers) ، 82 ہزار 7سو 12 فوجی(Troops)، 5062بین الاقوامی سویلین، 10278 مقامی سویلین اور1577 اقوام متحدہ کے رضا کاراپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ان اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کر نے کیلئے جو اپنی زندگی دوسروں کے لئے خطرے میں ڈال کر ان شورش زدہ علاقوں میں امن کے قیام اور اس کی بحالی کیلئے دن رات سرگرداں ہیں۔

29 مئی کو پوری دنیا میں اقوام متحدہ کے پیس کیپرز کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے۔اس دن کے آغاز کا فیصلہ 2002 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کے ذریعے کیا گیا اور29 مئی 2003 کو دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے پیس کیپرز کا پہلابین الاقوامی دن منا یا گیا۔اس دن کے لئے 29 مئی کے روزکا انتخاب اقوام متحدہ کے پہلے پیس کیپنگ مشن ( جس کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے) کے آغاز کی تاریخ پر کیا گیا۔

اقوام متحدہ کے پیس کیپنگ آپریشنزکے تحت تصادم اور تنازعات کے شکار علاقوں میں امن کی بحالی اور اس کے تحفظ کیلئے سفارتی، سیاسی اور کسی حد تک نیم فوجی امداد مہیا کی جاتی ہے۔لیکن یہ سب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلے کے تحت ہیں۔یہ وہ روایتی طریقہ کار ہے جو اقوام متحدہ کے امن مشن کے بارے میں موجود تھا۔ لیکن 1990 کے عشرے کے اوائل میںاقوام متحدہ کے کچھ پیس آپریشنز کے روایتی طریقہ کار میں چند ایک نئی چیزیں متعارف ہوئیں جن میں الیکشن کی نگرانی، انسانی حقوق کی نگرانی، پولیس کی تربیت اور سول انتظامیہ کی نگرانی وغیرہ جیسے امور بھی شامل تھے۔

اقوام متحدہ کے پیس کیپنگ آپریشن میں صرف اور صرف فوجی ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ ان کے ساتھ سویلین لوگ بھی ہوتے ہیں۔ ایسے افراد جو فوجی مبصر مشن میں کام کرتے ہیں تقریباً غیر مسلح ہوتے ہیں اور جو امن فوج میں شامل ہوتے ہیںان کے پاس ہلکا اسلحہ ہوتا ہے لیکن وہ اس کے استعمال نہ کرنے کے پابند ہوتے ہیں تا وقت کی ان کی اپنی جا نوں کو خطرہ نہ ہو۔

ماہرین کے مطابق پیس کیپنگ بہت ذہنی تناؤ کا کام ہے اور پیس کیپرز میں ذہنی مسائل کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ماضی میں پیس کیپنگ میں نشہ آور چیزوں اور ادویات کا استعمال بھی زیادہ رہا ہے ۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے پیس کیپرز کے خلاف تشدد کے واقعات سے ان کی اموات کی شرح بھی کافی زیادہ ہے۔اقوام متحدہ کے ڈیپارٹمنٹ آف پیس کیپنگ آپریشنز کے مطابق دنیا میں1948 سے31مارچ 2017 تک3553پیس کیپرز اپنے فرائض کی انجام دہی میں جاںبحق ہوئے۔1993 کے سال میںسب سے زیادہ پیس کیپرز کی اموات واقع ہوئیں جن کی تعداد 252 تھی۔اسی طرح پاکستان سے تعلق رکھنے والے 140 پیس کیپرز دنیا کے مختلف علاقوں میں خدمات انجام دیتے ہوئے شہید ہوئے۔

ماضی میں اقوام متحدہ کے امن آپریشنزکے بنیادی ارکان میں کنیڈا، سویڈن، آئرلینڈ، فن لینڈ، ناروے، ڈنمارک، انڈیا، اٹلی اور آسٹریلیا تھے جبکہ کینڈا سب سے زیادہ رقم اور افرادی قوت قیام امن کیلئے اقوام متحدہ کے امن آپریشنزکے واسطہ مہیا کرتا تھا۔ لیکن ماضی قریب سے صورتحال میں تبدیلی واقعہ ہوئی ہے اور اب ایتھوپیا، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، رونڈا، نیپال، برکینا فاسو، مصر، سنیگال اور گھانا جیسے ممالک قیام امن کی کوششوں کیلئے زیادہ افرادی قوت (ملٹری اور پولیس) کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ان ممالک کی شرکت سے غیر جانبداری کا طرز عمل نمایاں ہوا ہے جس سے قیام امن کی کوششوں کو زیادہ تقویت حاصل ہورہی ہے۔ بانسبت ایسے ممالک کے جن کا کردار قیام امن کے لئے متنازعہ ہے جو ایک طرف تو امن کے قیام کی باتیں کر تے ہیں اور دوسری طرف اس کو تہہ و بالا بھی کرتے ہیں۔

پاکستان جس پر مغربی ذرائع ابلاغ نام نہاد الزامات کی ایک طویل فہرست کے ساتھ اس کے تشخص کو متاثر کرنے کے لئے متحرک رہتا ہے۔لیکن ان پہلوؤں کو وہ قصدہً فراموش کر دیتا ہے کہ اس وقت پاکستان اقوام متحدہ کے دنیا بھر میں جاری پیس آپریشنز کے لئے پیس کیپرز کی تیسری بڑی تعداد مہیا کرنے والا ملک ہے اور پاکستان ہی دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جس نے اقوام متحدہ کے پیس آپریشنز کے دوران سب سے زیادہ انسانی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

اس وقت دنیا کے124 ممالک سے تعلق رکھنے والی اقوام متحدہ کی پیس کیپنگ فورس( فوجی، سویلین پولیس اور فوجی مبصر) کے7.29 فیصد کا تعلق پاکستان سے ہے۔اور31 مارچ2017 تک وطن عزیز کے 7 ہزار ایک سو 32 پیس کیپرز اقوام متحدہ کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ جس میں 278 سویلین پولیس اہلکار، 98 ملٹری آبزرور اور6 ہزار7 سو 56 امن فوجیوں کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

پاکستان نے1960 میں کانگو میں اپنا پہلا امن دستہ بھیجا تب سے اب تک وہ دنیا کے23 ممالک میں اقوام متحدہ کے42 پیس آپریشنز میں شرکت کر چکا ہے جن کے لئے وطن عزیزاپنے ایک لاکھ 69 ہزار سے زائد پیس کیپرز کی خدمات مہیا کر چکا ہے۔

پاکستان آج بھی اقوام متحدہ کے 8 پیس آپریشنز میں شامل ہے۔ یعنی اس وقت اقوام متحدہ کے آدھے آپریشنز میں پاکستان اپنی افرادی قوت کے ساتھ شریک ہے۔جوکہ ملک کی مدبرانہ سوچ کی واضح عکاسی کرتا ہے۔اور عالمی امن میں پاکستان کی مثبت شرکت کی دلیل ہے۔

اس کے برعکس امریکہ اور برطانیہ جو کہ آج دنیا بھر میں قیام امن کے چمپئن بننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے صرف 503افراد اقوام متحدہ کے پیس کیپنگ آپریشنز میں شامل ہیں جو کہ مجموعی عالمی پیس کیپرز کی تعداد کا محض عشاریہ51  (0.51)فیصد ہے جبکہ اگر ہم سلامتی کونسل کے مستقل ارکان سے تعلق رکھنے والے پیس کیپرز کی تعداد دیکھیں تو وہ صرف4008ہے جوکے عالمی مجموعی تعداد کا ( فوجی، سویلین پولیس اور فوجی مبصر) محض4.09فیصد ہے۔

اس کے علاوہ اگر ہم جنوب ایشیائی ممالک کا عالمی امن کے قیام میں پیس کیپرز کی تعداد کے حوالے سے شرکت کا جائزہ لیں تو خطہ کے6ممالک بھارت، پاکستان،بنگلہ دیش، نیپال،سری لنکا اور بھوٹان سے تعلق رکنے والے پیس کیپرز دنیا میں متعین پیس کیپرز کے.11 28 فیصدحصہ پرمشتمل ہیں۔

27 ہزار4 سو 94 افراد پر مشتمل جنوب ایشیا کے ان پیس کیپرز کے 26 فیصد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ سارک ممالک سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے پیس کیپرز دنیا خصوصاً خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لئے ایک تقویت آمیز رجحان ہے ۔پیس کیپرز ( فوجی، سویلین پولیس اور فوجی مبصر) کی افرادی قوت کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں خطے اور سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کا نمبر کچھ یوں ہیں۔ انڈیا دوسرے، پاکستان تیسرے، بنگلہ دیش چوتھے،نیپال چھٹے،سری لنکا 42 ویں اوربھوٹان85 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ چین 12 ویں، فرانس31 ویں، برطانیہ 48 ویں، روس 68 ویں اورامریکہ75 ویں نمبر پر ہیں۔

اقوام متحدہ کی پیس کیپنگ سرگرمیوں کا بجٹ امن کو سبوتاژ کرنے والے دنیا کے فوجی اخراجات کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے ۔موجودہ مالی سال کے لئے یہ بجٹ 7.87 ارب ڈالر ہے جوعالمی فوجی اخراجات کے مقابلے میں محض عشاریہ 46 (0.46 )فیصد ہے ۔اس وقت اقوام متحدہ کے امن منصوبوں کے لئے سب سے زیادہ بجٹ امریکہ فراہم کر رہا ہے۔ جو پیس کیپرز کے بجٹ کا 28.57 فیصدمہیاکرتا ہے۔10.29 فیصدکیساتھ چین دوسرے اور 9.68فیصد کے ساتھ جاپان تیسرے نمبر پر ہے۔دنیا میں انسانی جانوں کے ضیاع کے حوالے سے اقوام متحدہ کے پیس آپریشنز کا مہنگا ترین آپریشن اقوام متحدہ کی عارضی فوج ثابت ہوا ہے جو لبنان(UNIFIL – UN Interim Force in Lebanon) میں تعینات ہے۔ جہاں اب تک 312 پیس کیپرز اپنے فرائض کی راہ میں جان بحق ہوچکے ہیں۔

اس کے علاوہ پیس کیپرز کی زیادہ تعداد کے حوالے سے یواین او کا مشن برائے عوامی جمہوریہ کانگو (MONUSCO – United Nations Organization Stabilization Mission in the Democratic Republic of the Congo)ہے جہاں22 ہزار 4 سو68 (فوجی، فوجی مبصر،سویلین پولیس، انٹرنیشنل سویلین، لوکل سویلین، اقوام متحدہ کے رضاکار)ڈیوٹی دے رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کا مشن برائے جنوبی سوڈان ہے جس کا آغاز جولائی 2011 میں ہوا تھا اس وقت سب سے زیادہ ممالک کی تعداد کے حوالے سے پیس  کیپرز کا حامل ہے جس میں63 ممالک کے 15 ہزار 7 سو77 پیس کیپرز خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ جمہوریہ وسطی افریقہ(MINUSCA – United Nations Multidimensional Integrated Stabilization Mission in the Central African Republic) میں تعینات امن آپریشن تازہ ترین ہے۔جس کا آغاز اپریل2014میں ہوا۔

اقوام متحدہ کے پیس کیپرز کی تعداد میں وقت کے ساتھ ساتھ اتار چڑھاؤ کا عمل جاری رہتا ہے۔جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ مثلاً 1995 سے1999 کے دوران پیس کیپرز کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی جو68 ہزار سے کم ہوکر 18 ہزار 4 سو رہ گئی۔جس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ایک تو نیٹو کا سابقہ یو گو سلویہ میںپیس کیپنگ کی ذمہ داری اٹھانا اور دوسرا عنصر موزنگبیک میں اقوام متحدہ کے آپریشن کو ختم کرنا تھا۔

اقوام متحدہ کے پیس آپریشن جہاں کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے رہے ہیں وہیں انہیں نا کامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔جیسا کہ بو سنیا میں ڈچ پیس میکرز کی شہریوں کے لئے محفوظ علاقہ بنانے کی کوشش کی ناکامی تھی تاکہ سربین جارحیت سے انھیں بچایا جا سکے۔لیکن پیس کیپرز کے پاس ہتھیار یا ایسا اور کوئی ذریعہ نہ تھا کہ وہ سربوں کے سامنے کھڑے ہوتے جس کے باعث محفوظ علاقہ بھی غیر محفوظ ہو گیا اور سر بینیکا کے مقام پر 7 ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔

اس طرح ان پیس آپریشنز کی ناکامی کی ایک اور وجہ غیر جانبداری کے عمل کا فقدان اور قول و فعل میں تضاد کا عمل بھی ہے۔ یعنی دنیا کے کچھ ممالک نے اپنے اہداف اور بین الاقوامی تشخص کو بہتر بنانے کے لئے پیس کیپنگ کا سہارا لیا۔ ان میں سے سویڈن ، اٹلی اور ہالینڈ جیسے ممالک پر خاص کر نکتہ چینی کی گئی کہ وہ اُن ممالک کو اسلحہ فراہم کرنے میں نمایاں ہیں جہاں وہ اکثر قیام امن کے لئے کام کرتے ہیں۔

امریکہ کا کردار بھی پیس کیپنگ کے حوالے سے خاصی تنقید کا نشانہ بنتا آرہا ہے۔وہ ایک طرف امن کے نام پر جنگ مسلط کرتا ہے تودوسری طرف انسانی حقوق کی بات کرتا ہے۔دنیا کے ہر فرد کو قانون کا پابند قرار دیتا ہے۔ لیکن خود اپنے فوجیوں کے لئے جنیوا کنونشن پر عملدر آمد نہیں کرتا۔اس کے علاوہ شورش زدہ علاقوں میں کسی ایک مسلح گروہ کو ہتھیار فراہم کرنا اور کہنا کہ یہ سب وہ دنیا کہ امن کے لئے کر رہا ہے اُس کاپرانا وطیرہ ہے۔اُس کی یہ دوہری پالیسی دنیا میں امریکہ کے تشخص کوبری طرح متاثر کر رہی ہے۔اور اقوام متحدہ کے زیر انتظام قیام امن کی کوششوں میں رکاوٹ کا پیش خیمہ بھی بنتی ہے۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کابعض معاملات میں اپنا کردار بھی قابل بحث ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جن مقاصد کے لئے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا وہ پوری طرح حاصل نہیں ہو پا رہے۔اقوام متحدہ کا ادارہ ایک ایسا پلیٹ فارم ثابت ہوا ہے جہاں تقریریں تو خوب ہوتی ہیں اور قرار دادیں بھی پاس کی جاتی ہیں لیکن اکثر کے نتائج (عملدرآمد کے حوالے سے) تقریباً صفر سوائے چند منتخب سلسلوں میں۔کیونکہ آج بھی کشمیر اور فلسطین کے مسائل اقوام متحدہ کے امن چارٹر پر ایک طویل عرصہ سے تصفیہ طلب ہیں لیکن ان مسائل کی موجودگی میں مشرقی تیمور اور سوڈان کے مسئلے کو جس تیزی سے حل کرنے کی کوشش کی گئی وہ ذہنوں میں مختلف سوالات ابھارنے کا پیش خیمہ بن رہے ہیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اقوام متحدہ کے پاس کامیاب مثا لیں موجود نہیں۔ اس کی انسانیت کے لئے خدمات کو کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا خصو صاً افریقہ میں اس کا کردار انسانیت کی اعلیٰ اقدار کی عکاسی کرتا ہے لیکن تنازعات کے حل اور امن کے قیام کے لئے غیر جانبداری بہر حال ضروری ہے۔

The post پاکستان؛ یو این پیس آپریشنز کیلئے افرادی قوت مہیا کرنے والا تیسرا بڑا ملک appeared first on ایکسپریس اردو.

وہ چھے زاویے

$
0
0

آزاد سے ملاقات ہوئے لگ بھگ 3 سال ہونے کو آرہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب وہ باقاعدگی سے ہر ہفتے میرے پاس آتا تھا۔ ہر ہفتے گھنٹے دو گھنٹے تک ہمارا سیشن ہوتا تھا اور ہم کُھل کر باتیں کرتے تھے۔

آزاد کی پورے ہفتے کی کارگردگی کا جائزہ لیتے۔ تجزیہ کرتے اور کُھل کر آزاد کی کمیوں اور کوتاہیوں پر گفتگو ہوتی۔ کبھی کبھی مضمون، کِسی کالم یا کِسی کتاب کے ابواب پر بات چیت ہوتی اور کبھی کِسی فلم یا واقعے کے اہم نکات کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا اور گزارے ہوئے ہفتے میں جو کمی بیشی رہ جاتی، اُسے اگلے ہفتے میں دور کرنے کے وعدے کے ساتھ ہماری میٹنگ (Adjourn) ختم ہوجاتی۔ یہ اور بات ہے کہ اگلے ہفتے کی ملاقات میں بھی کم و بیش اُنہی کمیوں کی بابت نشان دہی ہوتی جو گذشتہ کئی برسوں سے ہر ہفتے باقی رہتیں۔

شاید یہ آزاد کی مجبوری تھی، اُس کی فطرت تھی یا اُس کی شخصیت ہی کچھ ایسی تھی کہ تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود اُس سے کچھ نہ کچھ چھوٹ جاتا۔ ہر شخص کی کچھ نہ کچھ مجبوری ہوتی ہے۔ ہر شخص کی فطرت اور شخصیت میں کچھ نہ کچھ کمی ہوتی ہے۔ جیسے میری مجبوری ہے کہ مجھ سے بالکل خالص خشک عِلمی مضامین نہیں لِکھے جاتے۔

موضوع کتنا ہی خالص خشک وعلمی کیوں نہ ہو، جب تک اُس کے عرق سے کوئی کہانی نہیں بنے گی، اُسے لفظوں میں ڈھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اِسی طرح خالص جان دار فرضی کہانی بھی کبھی نہیں لِکھ پایا۔ کہانی ہو تو سچی ہو اور دِل کے تاروں کو چھولینے والی ہو۔ پھر یہی نہیں جب تک کہانی اور کرداروں کے بیچ فلسفے اور نفسیات اور تصوّف کے تڑکے نہ لگے ہوں تو بھی کہانی پوری نہیں ہوپاتی۔

اب اِسی بات کو لے لیجیے۔ آزاد کے مسئلے، مرض یابیماری کو سیدھے الفاظ میں یا پھر زیادہ سے زیادہ ایک کیس اسٹڈی یا ہسٹری کی شکل میں بیان کیا جاسکتا تھا کہ یہ اور یہ علامات اور یہ اور یہ بیماری اور یہ اور یہ اس کا علاج۔ لیکن کچھ جگہوں اور کچھ لوگوں کے ساتھ ہم لگے بندھے طریقوں کے مطابق نہیں چل پاتے۔ آزاد کی طرح کے کچھ لوگ اتنے Volatile  ، Dynamic  اور Energetic  اور Active ہوتے ہیں کہ پھر ہمیں اُن کی بیماری کے ساتھ اُن کی طبیعیت، مزاج، شخصیت اور نفسیات کو بھی لے کر چلنا پڑتا ہے۔

صرف دواؤں سے مسئلہ حل نہیں ہوپاتا یا یوں کہہ لیں کہ دِل نہیں مانتا۔ لگتا ہے ہم ڈنڈی ماررہے ہیں۔ پوری دیانت نہیں برت رہے۔ لکھتے وقت بھی یہی لگتا ہے کہ کالم ہو یا مَضمون اُسے کوئی بھی نام دیا جائے، بات جب تک تمام پہلوؤں سے بیان نہ ہو تو نہ مزہ آسکتا ہے اور نہ ہی دِل سے دِل تک کا سفر طے ہوسکتا ہے۔ بات دل سے کی گئی ہو تو بات میں وزن ہوتا ہے۔ اور بات میں وزن ہوتو بات دیر تک اور دور تک ہمارے ساتھ ساتھ رہتی ہے اور کِسی نہ کِسی صورت ہمارے کام آتی رہتی ہے۔

آزاد بھی دِل والا نوجوان تھا۔ اُس سے میرا تعلق بھی لگ بھگ 10 سال تک رہا۔ آزاد کی عمر جب 20 سال تھی، ویب سائٹ پر درج معلومات پڑھ کر اُس نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔ بہت کم نوجوانوں کو اتنی کم عمری میں اللہ تعالیٰ اتنا شعور یا ادراک عطا کرتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت و نفسیات کے منفی پہلوؤں کو جان سکیں اور جانچ سکیں اور پھر اُن کو دور کرنے کی جُستجو و تگ و دو میں بھی لگ سکیں، اور وہ بھی آزاد کی طرح بالکل تن وتنہا۔ اپنے ماں باپ، بہنوں بھائیوں اور دوستوں کے علم میں لائے بغیر۔

’’تم اکیلے کیوں آئے ہو آزاد! تمہارے گھر والوں کو علم ہے کہ تم یہاں آئے ہو علاج کے لیے۔ اگلی بار والدہ یا بڑے بھائی کو کم از کم ضرور ساتھ لے کر آنا۔‘‘ مجھے آج بھی پہلی ملاقات یاد ہے جب آزاد کی تفصیلی کہانی سن کر اور اُس کے مختلف نفسیاتی عوارض کی علامات جان کر میں نے اُس سے یہ سب کہا تھا۔

’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سر! میں نے آپ کو اپنے بارے میں سب کچھ بتادیا ہے۔ میرے گھر میں کسی کو نہ کچھ پتا ہے اور نہ ہی میں اُن کو کچھ بتا سکتا ہوں اور نہ بتاؤں گا۔ میں نہ پڑھتا ہوں نہ کماتا ہوں۔ بھائی میرا خرچہ برداشت کرتے ہیں۔ دو سال پہلے اُن کو میں نے اپنے مسائل بتانے کی کوشش کی تھی۔ اُنہوں نے جھڑک دیا مجھے۔ کہا کہ فضول باتیں ہیں۔ فارغ پھرتے ہو اِس لیے دماغ فالتو سوچوں سے بھر گیا ہے۔ پڑھو اور کام کرو۔ لیکن میں کیسے کام کروں۔ کیسے پڑھوں سر! میرا دماغ مستقل چالو رہتا ہے۔

ایک کے بعد ایک سوچ آتی رہتی ہے۔ انتہائی واہیات۔ فضول۔ اوٹ پٹانگ۔ عجیب عجیب خیالات آنے لگتے ہیں۔ شدید گناہ کا احساس ہوتا ہے۔ دِل چا ہتا ہے خودکشی کرلوں۔ ہر وقت طبیعت میں گھبراہٹ رہتی ہے۔ شدید احساس کمتری میں مبتلا ہوں۔ دِل کہتا ہے میں بہت بڑا آدمی بنوں گا۔ میں بڑے بڑے کام کرنے کے لیے پیدا ہوا ہوں۔ لیکن پھر دماغ میں خیال آتا ہے نہ میرے پاس تعلیم ہے نہ دولت اور نہ مجھے بات کرنا آتی ہے۔ نہ کوئی ہنر ہے۔ میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ ناکامی میں ہی میری زندگی گزرے گی۔ اس سے بہتر ہے مرجاؤں۔ نہ گھر میں دل لگتا ہے نہ دوستوں کے درمیان۔ نیند بھی بہت دیر سے آتی ہے۔ روتا رہتا ہوں۔ رات میں بستر پر لیٹ کر۔ کبھی اپنے آپ کو ہیرو سمجھتا ہوں۔

سُپرمین بن کر خیالوں ہی خیالوں میں امریکا فتح کرلیتا ہوں۔ اور جو شڑپ کرکے اپنی حالت پر نگاہ پڑتی ہے تو کھانا کھانے کو بھی دل نہیں کرتا۔‘‘ یہ تھی آزاد کی پہلی ملاقات کی بات چیت، جنہیں ہم دونوں بعد میں بھی اکثر اپنی باتوں میں دہراتے تھے۔ ’’بس سر! میں اپنے گھر والوں کو آپ کے پاس نہیں لاسکتا۔ وہ آپ کے پاس آنا بند کردیں گے میرا اور میں کچھ کر بیٹھوں گا۔ مجھے یقین ہے سر! انشاء اللہ میرا کچھ اچھا ہوگا!

آپ دیکھ لیجیے گا۔ میں آپ کو کچھ بن کے دکھاؤں گا۔ آپ جو بھی کہیں گے۔ جیسا کرنے کو کہیں گے میں کروں گا۔ ہر بات مانوں گا۔ بس آپ مجھے میرے سوچ کے عذاب سے نکال دیں۔ اور مجھ میں خوداعتمادی ڈال دیں۔‘‘ آزاد نے پہلی ملاقاتوں میں کہا تھا۔ بہت سی باتیں باقاعدگی سے نہ کرنے کے باوجود اُس نے بہت سی باتیں باقاعدگی کے ساتھ جاری رکھیں۔ دس سال کے سا تھ میں ایک ڈیڑھ سال کے دو وقفے بھی آئے جب آزاد علاج کی رسّیاں توڑ کر بھاگ نکلا اور اسکرین سے غائب ہوگیا۔ لیکن پھر آخری سات برس تک سے وہ Most Regular رہا۔

’’مجھے پتا چل چکا ہے سر! میں علاج اور دوا کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں نے دو تین بار تجربہ کرکے دیکھ لیا۔ میرے دماغ میں کیمیکل کی کمی ہے۔ اور وہ دواؤں سے ہی پوری ہوسکتی ہے۔ آپ بھی مجھ پر گولیاں کم کرنے کے تجربے نہ کیا کریں۔ مجھے پتا چل جاتاہے۔ آپ دوائی کم کرتے ہیں اور میری طاقت کم ہونے لگتی ہے۔‘‘

جب بھی کبھی میں آزاد کی ادویات کم کرنے کی کوشش کرتا وہ کوئی نہ کوئی علامت بیان کرکے کچھ اور دنوں تک میری کوشش ناکام بنادیتا اور آنے والے مریض جلدازجلد علاج ختم کروانے کی باتیں کرتے ہیں اور اکثریت از خود دوائیں بند کرکے غائب ہوجاتی ہے، اگلے کسی Episode  تک۔ لیکن آزاد ان سب سے الگ تھا۔

’’میں ذائقہ چکھ چکا ہوں سر! سچ مچ میں سُپرمین بننے کا۔ جب پہلی دفعہ آپ نے مجھے دوائیاں دی تھیں تو مجھے کچھ نہیں ہوا تھا۔ آپ کو یاد ہے ناں۔ میں شور مچاتا ہوا روتا ہوا ایک ہفتے کے بعد آیا تھا کہ مجھے کچھ فائدہ نہیں ہوا، تو آپ نے کہا تھا ناں کہ صبر کرو صبر، حوصلہ رکھو، سب ٹھیک ہوجائے گا انشاء اللہ مگر آہستہ آہستہ، اتنی جلدی کچھ نہیں ہوتا۔ تبدیلی جتنی جلدی آتی ہے وہ اُتنی جلدی واپس بھی چلی جاتی ہے۔ اگر مستقل ٹھیک رہنا ہے اور بالکل ٹھیک ہونا ہے اور حقیقی سپرمین بننا ہے تو کریز پر کھڑے رہو چُپ کرکے۔ یہ دماغ کے Cells  کا معاملہ ہے۔ دوائیاں، آہستہ آہستہ ہی اُن کے Level کو بڑھائیں گی۔ اور مجھے یاد ہے سر! تین ماہ کے بعد میں واقعی سُپرمین بن چُکا تھا۔‘‘

آزاد اپنے ماضی کو یاد کرکے مسرور ہورہا تھا۔

’’اور پھر سُپرمین بن کر جب میں ہواؤں میں اُڑنے لگا تھا اور ہر کام آگے بڑھ بڑھ کر کرنے لگا تھا اور بھائی کے کاروبار میں بھی جانا شروع کردیا تھا تو پھر سوچ آئی تھی کہ اب میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں اب کیوں دوائیاں کھاؤں، تو میں نے دوائیاں چھوڑ دی تھیں۔ پھر حج پر بھی تو چلا گیا تھا۔ مگر چار چھے ماہ میں پھر پُرانی سوچوں نے حملہ کرڈالا۔ تب میں دوبارہ آپ کے پاس آیا تھا۔ یاد ہے آپ کو؟ پھر دوبارہ علاج سے سوچیں ٹھیک ہوگئیں، مگر میں آج تک دوبارہ سُپرمین نہیں بن سکا۔ آپ نے کچھ گڑ بڑ کی تھی، کی تھی ناں؟ آپ نے کہا تھا کہ اب ایسی دوائیاں نہیں ملیں گی کہ تم پھر ہواؤں میں اُڑنے لگو ۔ خود کو سُپرمین سمجھنے لگو۔ میرے منہ میں آج بھی وہ سُپرمین کا ذائقہ ہے۔

یار کیا مزے کے دن تھے۔ کسی چیز کسی بات سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ ساری دنیا کو میں بہت نیچے دیکھنے لگا تھا۔ اور دوسری مرتبہ تو علاج میں نے اِس لیے چھوڑا تھا کہ میں Afford  نہیں کرپارہا تھا۔ دوائیوں کا خرچہ میرے جیب خرچ سے زیادہ تھا۔ میں علاج کے لیے بھائی کے اکاؤنٹ سے چوری بھی کرتا تھا پھر جب میں پکڑا گیا تھا تو بھائی کو بتا نہیں پایا تھا کہ میں نے اس کے پیسوں سے کوئی عیاشی نہیں کی بل کہ اپنے علاج پر خرچ کیے ہیں۔ پھر میں دعائیں مانگتا تھا کہ اللہ مجھے ویسے ہی ٹھیک کردے۔ پھر نوکری کی میں نے اور پیسے جمع کیے اور اب آپ دیکھ لیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اب میں Regular  ہوں اور حقیقت و دل سے تسلیم کرچکا ہوں کہ بھلے مجھے تمام عُمر دوا کھانی پڑے، میں کھاؤ گا۔‘‘

آزاد کی جدوجہد کے دس سال کی داستان کو چند سو لفظوں میں سمیٹنا دشوار ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اُس پر بڑا کرم تھا۔ اُس کا صبر، برداشت، ثابت قدمی، مستقل مزاجی اور بغیر کسی گھریلو جذباتی سہارے کے یک وتنہا اپنی نفسیاتی بیماری سے لڑنا اور اُسے شکست دینا اور پھر اللہ کے کرم و فضل سے اپنے ذاتی کاروبار کا مالک ہونا 60 ہزار کا نیا کا لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ Device  لے کر فیس بک پر اکاؤنٹ بنانا اور خلیل جبران کی 20 چھوٹی چھوٹی کتابیں لے کر جانا کہ ناول نہیں پڑھنا بل کہ اب کی بار فلسفہ پڑھنا ہے اور کہنا کہ ’’سر! آپ مجھے انگلش پڑھنا سکھادیں۔ میں نے ایک چھوٹا انگریزی ناول لے کر رکھا ہوا ہے، میں اس کو پڑھوں گا اور جو لفظ یا پیراگراف سمجھ نہیں آئے گا، وہ آپ بتادیجیے گا۔‘‘ یہ سب اللہ کا کرم نہیں تو اور کیا ہے۔

بے شک اللہ جس پر چاہے اپنا کرم کرے۔ لیکن کچھ اصول کچھ قوانین قدرت نے سب کے لیے یکساں رکھے ہیں بیماری ہو یا معاشی تنگ دستی، تعلیم ہو یا کاروبار، ازدواجی زندگی ہو یا معاشرتی ہر جگہ صبرواستقامت، برداشت و تحمل اور مستقل ان تھک محنت اور نیک نیتی ودیانت داری کی ہر لحظہ موجودگی ازبسکہ ضروری ہے۔ اپنی بیماری یا کمی پر اللہ سے شکایت یا شکوہ کرنے کے بجائے خلوص اور ایمان داری سے اپنی ذات کے منفی پہلوؤں کو قبول کرکے صدق دل سے اُن کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے تو غیب کے پردے سے ہمارے لیے لازمی طور پر جلد یا بدیر اچھا ہی ہوتا ہے۔

آزاد کی مثال سامنے ہے۔ اُس نے دس برسوں میں شکوہ بھی کیا، شکایتیں بھی کیں، اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کی کوشش بھی کی۔ اپنے آپ سے، اپنی زندگی اور بیماری سے مایوس ہو کر چرس بھی پی، شراب بھی چکھی، دوستوں کے ساتھ سڑک پر سے کال گرل بھی اٹھائی۔ مگر اللہ نے اُسے گناہ کبیرہ سے بچائے رکھا۔ اُس نے ہمّت نہ ہاری۔ انٹر کی واجبی تعلیم کے باوجود میری بار بار تاکید اور ہدایت پر منتخب مضامین اور کتابیں پڑھتارہا۔ مخصوص Movies  دیکھ کر گروپ ڈسکشن میں شامل ہوتا رہا۔ لیکن اُس کے اندر بنیادی تبدیلی اُس وقت آنا شروع ہوئی جب قصّوں، کہانیوں اور باتوں کے ساتھ اُس کے ذہن و دل کے نہاںخانوں میں دل سے بغیر کسی توقع و لالچ کے دوسرے کی مدد کے بیج، سبزے میں ڈھلنا شروع ہوئے۔

کسی بھی انسان کی زندگی میں، خواہ اس کا تعلق دنیا کے کسی خطے، کسی مذہب، کسی قوم سے ہو۔ عام طور پر چھے اہم اور بنیادی عوامل یا زاویے (Dimensions) تمام عمر محیط رہتے ہیں۔ کبھی کم یا زیادہ۔ کسی میں دو کسی میں چار اور شاذو نادر کسی کسی میں چھے کے چھے زاویے ایک جیسی توانائی، روشنی اور طاقت کے ساتھ نمایاںہوتے ہیں۔ آئیڈیل صورت حال اُس وقت ہوتی ہے جب ایک فرد کی زندگی میں یہ چھے کے چھے پہلو یا حوالے، انیس بیس کے فرق سے کچھ کم کچھ زیادہ موجود ہوں اور اسے اُن سب سے اُن کے مطابق کام لینا اور کام کرنا بھی آتا ہو اور ان کے بارے میں کلّی آگا ہی بھی ہو۔

اعلیٰ، کام یاب اور صحت مند زندگی کا ضامن اِن چھے ڈائی مینشنز یا زاویوں کو ہم یہ نام دے سکتے ہیں۔

(1) جسمانی(فزیکل۔(Physical

(2) جذباتی(ایموشنل۔(Emotional

(3) نفسیاتی (سائیکولوجیکل۔Psychological یا  Logical   ۔  منطقی)

(4)  سماجی (سوشل۔(Social

(5)  معاشی (ایکنو میکل ۔ (Economical

(6) روحانی یا مابعد النفسیاتی(آسپریچویل ۔ Siritual یا پیراسائیکولوجیکل (Para- Psychological

یہ چھے بنیادی دائرے ہماری شخصیت، نفسیات اور زندگی میں ایک دوسرے سے اس طرح پیوستہ اور مربوط ہیں کہ محض اِن کو سمجھنے کے لیے الگ الگ بیان کیا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر کسی ایک دائرے اور زاویے کے بھی ریشمی تاروں کو ادھیڑ ا جائے تو دیگر زاویوں کے تانے بانے بھی ادھڑ نے لگتے ہیں اور ہماری صحت، ہماری شخصیت، ہماری نفسیات اور ہماری زندگی متاثر ہونے لگتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ یا تو لوگوں کی اکثریت اس فطری، سائنسی اور نفسیاتی ترکیب و حقیقت سے واقف نہیں ہے اور یا پھر جو لوگ ان کے بارے میں علم رکھتے بھی ہیں وہ ان کے حقیقی معنوں اور فائدوں کو سمجھے بنا انہیں الگ الگ خانوں میں بانٹ کر زندگی گزارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں ذہن کا سکون، قلب کا اطمینان اور روح کا سرور انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں سے رخصت ہوچکا ہے۔

معاشی طور پر مستحکم افراد، جسمانی و ذہنی صحت کی تلاش میں جوتے گھِس رہے ہیں۔ جیبیں خالی کررہے ہیں۔ سماجی و سیاسی مرتبے کے حامل لوگ جذباتی اور روحانی بحران کا شکار ہیں۔ دِل والوں کا دامن عقل اور پیسے دونوں سے خالی ہے۔ نفسیاتی و عقلی سطح کی بلندیوں کو چھونے والے اپنی دانش وری میں اتنے گُم ہیں کہ ان کی نگاہ اوروں کے دُکھ درد تکالیف تک ہی نہیں جاپاتی۔ محض عبادات اور مذہبی رسوم اور رواجوں کے اسیر، ماتھوں کے نشانوں کو ہی روحانیت اور روحانی طاقت سمجھ بیٹھے ہیں اور جو واقعتاً مذہب سے بالاتر ہوکر روحانی اور مابعد نفسیاتی قوتوں کا ادراک رکھتے ہیں وہ عقلی، فکری، منطقی، اور سائنسی اصولوں سے عدم واقفیت کی بنا پر محض عامل یا جن اتارنے والے بنے ہوئے ہیں اور اِسی میں خوش ہیں۔

مکمل ذہنی، جسمانی، نفسیاتی، جذباتی اور روحانی صحت اور در خوف سے ہماری مکمل بھرپور معاشی اور سماجی زندگی اس وقت تک حاصل نہیں ہوپاتی جب تک ہم ان چھے زاویوں کو ایک ساتھ لے کر نہیں چلتے اور ان کے تناسب اور توازن کا باقاعدہ اور باضابطہ خیال نہیں رکھتے۔

کسی بھی لمحے کسی بھی زاویے کا رُخ مثبت سے منفی ہوجائے یا تناسب کم زیادہ ہونے لگے یا توازن ڈگمگانے لگے تو ہماری شخصیت، نفسیات اور صحت کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی بھی عدم توازن کا شکار ہونے لگتی ہے اور ہم غیرمحسوس طریقے سے اچانک یا آہستہ آہستہ کسی نہ کسی حوالے سے بیمار پڑنے لگتے ہیں۔

السر Ulcer, بلڈپریشرBlood Pressure ، شوگر Diabetic ، کینسر Cancer  سے لے گر اَن گنت ذہنی، اعصابی اور نفسیاتی اور دماغی بیماریوں سے لے کر روحانی و اخلاقی عوارض اور معاشی، جذباتی، ذاتی اور سماجی مسائل کا جم غفیر ہمارے دل بدن، ذہن اور روح کو کھوکھلا کرنا شروع کریتا ہے۔

آزاد کی طرح لاکھوں نوجوان اپنی جوانی کی تابندگی و توانائی کو محض اِسی وجہ سے وقت سے پہلے کھودیتے ہیں کہ ان کی راہ نمائی اور مشاورت کے لیے نہ کسی کے پاس وقت ہوتا ہے اور نہ ہمارے نفسیاتی و روحانی حوالے سے کھوکھلے معاشرے میں اب اِس طرح کا علمی، فکری، کتابی، ماحول باقی ہے جہاں ذہنوں، دلوں اور روحوں کی آبیاری کے لیے قدیم وجدید علوم اور ان کے عمل کی افادیت کو اجاگر کرنے کے لیے اساتذہ کی شکل میں مثالیں موجود ہوں۔

اور ہر کوئی آزاد کی طرح Lucky یا خوش قسمت بھی نہیں ہوتا جو کم عمری میں کسی یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کیے بغیر، خود کو علامہ سمجھے بغیر، اپنے نصیب کی کمی اور بیماری کو برضاورغبت قبول کرکے ہیڈ ڈاؤن Head Down کرکے زندگی کو ہنسی خوشی طے کرنا شروع کردے۔ اور اپنے تئیں اپنے چھے زاویوں کی نوک پلک سنوارتے رہنے کی مستقل کوشش میں لگا رہے۔

مجھے نہیں پتا کہ اب آزاد کا کیا حال ہے، لیکن امید یہی ہے کہ اگر آزاد بتائی ہوئی باتوں کے مطابق چلتا رہا اور اُس سے کوئی بلنڈر Blunder نہیں ہوا اللہ کا کرم یونہی اس پر نازل ہوتا رہا تو ایک دن ضرور اللہ تعالیٰ اُسے کِسی نہ کسی حوالے سے سُپرمین بنادے گا۔ جب وہ اپنے تمام Conflicts سے نجات حاصل کرکے اپنے پیچھے آنے والوں کے مسائل حل کرنے اور اُن کی دعائیں سمیٹنے میں لگ جائے گا۔

میری آپ سب سے بھی یہی گزارش ہے کہ آپ جو ہیں اور جیسے ہیں، دِل سے خود کو قبول کریں اور اپنے مسائل کے جائز حل تلاش کرکے، خوشی خوشی جینا شروع کردیں۔ اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرتے رہیں۔ انشاء اللہ آپ پھر ہمیشہ کام یابی سے جُڑے رہیں گے۔

The post وہ چھے زاویے appeared first on ایکسپریس اردو.

سواے ہم نفساں، میں لکھتا ہوں

$
0
0

کسی کو ضرورت پیش نہیں آتی کہ وہ اُٹھے اور جا کر مور سے پوچھے کہ اُس پر یک لخت رقص کی کیفیت کیوں طاری ہوجاتی ہے؟

کوئل سے بھی جاکر کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ کیا شے ہے جو اُسے کوکنے پر اُکساتی ہے۔ کسی کو نہیں دیکھا کہ آہوئے رم خورد سے اس کا حال جاننے کی کوشش کرتا ہو۔ لالہ و گل، نسرین و نسترن یا رات کی رانی اور چنبیلی سے بھی رنگ اور خوش بو بکھرانے کا سوال کرنے کا خیال کسی کو نہیں آتا۔ البتہ ادیب سے اور شاعر سے یہ پوچھنے کا موقع گاہے بہ گاہے نکلتا ہی رہتا ہے کہ بھائی آخر تم کیوں لکھتے ہو؟ سوچنا چاہیے کہ آخر رہ رہ کر یہ سوال کیوں کیا جاتا ہے کیا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس کے کام کو ہر دور اپنے مخصوص منطقی اور عقلی جواز سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتا ہے؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس تفتیش کے پس منظر میں یہ خواہش کارفرما ہو کہ ادیب شاعر سے اقرار حاصل کر لیا جائے کہ وہ فرضِ کفایہ ادا کر رہا ہے، یعنی اپنے زمانے اور اپنی بستی کی اجتماعی ذمہ داری کو اس شخص نے اپنے کاندھوں پر اُٹھا رکھا ہے۔ سو اہلِ دنیا، اہلِ زمانہ کی اپنے فرض سے رُوگردانی پر یہ بستی عذاب سے دوچار نہیں ہوگی۔

وجہ کچھ بھی ہو، یہ طے ہے کہ ادیب و شاعر صرف اپنا کام ہی نہیں کرتے، بلکہ اس کے لیے جواز بھی پیش کرتے ہیں۔ چلیے یوں ہی سہی۔ یہی کیا کم ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، اسے مان لیا جاتا ہے۔ اس پر اعتبار کیا جاتا ہے۔ گویا انھیں اس استفسار کا برا نہیں ماننا چاہیے، بلکہ اس سے تقویت حاصل کرنی چاہیے اور زبانِ حال سے کہنا چاہیے:

خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے

خیر، اگر آدمی لکھتا لکھاتا ہے تو پھر اُس کے لیے جواز جوئی میں بھی کیا قباحت ہے، خصوصاً اگر یہ سوال کسی فیشن میگزین یا ٹی وی کے پروگرام میں کر لیا جائے تو آدمی جو جی میں آئے کہہ دے۔ کسی کو کیا فرق پڑتا ہے اور کون ایسی کسی بات پر بھلا زیادہ سنجیدہ ہوتا ہے۔ تاہم اگر یہ سوال کوئی صاحب نظر کرتا ہو تو پھر سوچ سمجھ کر جواب دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ اہلِ نظر سے کچھ کہتے یا پوچھتے ہوئے دراصل گفتگو کی سطح بدل جاتی ہے۔

ایک زمانہ تھا جب اس قبیل کی باتیں، خیالات اور تقریریں بہت فیشن میں تھیں۔ لوگ نہایت طمطراق سے بڑی دانش وری بگھارتے تھے۔ کوئی سماج سدھارنا چاہتا تھا، کسی کو انقلاب لانے کی فکر تھی، کسی کو ڈوبتی انسانیت کا غم لاحق تھا اور کسی پر انسان کو اُس کے اصل منصب پر فائز یا بحال کرانے کی دُھن سوار تھی۔ غرضے کہ اپنے لکھنے لکھانے کی غرض و غایت کے کھاتے میں بڑے بڑے عزائم کا بارِگراں ادیبوں شاعروں نے جانِ ناتواں پر لاد لیا تھا۔ اس امر کے اعتراف میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ اُس وقت جو لوگ اپنے لکھنے کا جواز ایسے بڑے بڑے دعووں کی صورت میں بیان کررہے تھے وہ سب کے سب محض فیشن پرستی کی موج میں بہنے والے لوگ نہیں ہوں گے۔

ماننا چاہیے کہ ان میں کچھ لوگ سچ مچ کے تیس مارخاں بھی ہوں گے، جو حقیقتاً ویسا ہی سمجھتے ہوں گے اور وہی کچھ کرنے کی آرزو بھی رکھتے ہوں گے، جیسا وہ کہتے تھے، لیکن ماجرا تو انھیں بھی وہی پیش آیا جو فیشن پرستوں کی تقدیر بنا۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ فیشن پرستی کی بلاخیز آندھی خس و خاشاک کو ہی نہیں اُڑا لے جاتی، بلکہ اچھے خاصے پیڑوں کو بھی جھاڑتے اور روندتے ہوئے جاتی ہے۔ اب جو پلٹ کر دیکھیے تو ہنسی آتی ہے اور ساتھ ہی عبرت کا سامان بھی ہوجاتا ہے۔

ادیب چاہے جیسا بھی ہو پر ایسا گنوار ہرگز نہ ہو کہ فیشن کے گھوڑے کی پیٹھ پر سواری گانٹھنے کی کوشش کرے یا پھر منہ سے بڑا لقمہ حلق میں ٹھونستا دکھائی دے۔ ادب میں فیشن در آئے تو ادیب بھی لامحالہ لکی ایرانی سرکس کے مسخروں جیسی حرکتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ صاحب! یہ توجہ حاصل کرنے کی خواہش بڑی ظالم چیز ہوتی ہے۔

خدا کا شکر ہے کہ آج جب ایک بار پھر ادیب کے تخلیقی محرکات جاننے کا سوال تازہ ہوا ہے تو فیشن کا وہ زمانہ مدت ہوئی لدچکا۔ چناںچہ اب تو جس کو جو کہنا ہے سیدھے سبھاؤ اور اپنی اوقات کے مطابق ہی کہنا ہے۔ چلیے اب یہ سوال جو اٹھا ہے تو اپنے زمانے اور اُس میں ادب اور ادیب کی صورتِ حال کو دیکھنے کا بہانہ نکل آیا۔ ویسے خدا جانے آج یاروں کو اس قسم کے کسی سوال پر غور کرنے کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے کہ نہیں۔ چند گنے چنے ادیبوں کی بات اور ہے، وہ تو سوچتے ہی ہوں گے۔ اس لیے کہ سوچنے اور غور و فکر کرنے کی عادت ان کی گھٹی میں پڑی ہوگی۔

ویسے اکثریت ایسے کسی سوال سے دوچار نظر نہیں آتی، بلکہ سچ پوچھیے تو اکثریت اپنے عہد کے کسی بھی سوال یا مسئلے سے دوچار نظر ہی نہیں آتی۔ اس لیے نہیں کہ اس دور نے اپنے ادیب کو کوئی سوال ہی پیش نہیں کیے ہیں، وہ تو کیے ہیں، بلکہ پچھلے ادوار سے کچھ زیادہ ہی کیے ہیں، لیکن آج ادیب کے پاس اُن کے لیے وقت ہی بھلا کب ہے۔ وہ اپنے عہد کے ان سوالوں سے نمٹے یا پھر اپنی دنیا سنوارے۔ ایک ہی کام ہوسکتا ہے۔ اگر آپ ٹوک دیجیے تو جواب آتا ہے کہ آخر ادیب بھی تو انسان ہے، اُس کی بھی زندگی کے تو کچھ تقاضے ہوں گے، دل میں کچھ امنگیں اور آنکھوں میں کچھ خواب ہوں گے۔ کیا اُسے حق نہیں کہ آسودہ اور آسائش کی زندگی کا کچھ سامان فراہم کرپائے۔ بجا ارشاد، لیکن:

جس کو ہو جان و دل عزیز اُس کی گلی میں جائے کیوں

جو اِس گلی میں آجاتا ہے، اُس کا تو حال قال سب بدل جاتا ہے، اُس کی امنگوں اور خوابوں ہی کا نہیں، دل اور آنکھوں کا ماجرا بھی کچھ اور ہوجاتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو پھر کاہے کا ادیب اور کیا larger than life فن کی تمنا۔ گلی ادب کی ہو یا محبوب کی، سلوک تو ایک سا ہی ہوتا ہے، آدمی کے ساتھ۔ چناںچہ یہاں جو آتا ہے، اُس کے تخلیقی محرکات سے پہلے تو اس کی زندگی کے محرکات الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس طلسم کدے میں آکر کلام کرنے والوں کے حرف و صوت میں قوتِ عشق کا سحر ضرور کام کرتا دکھائی دیتا ہے، لیکن یہ قوت دوسروں سے پہلے تو خود یہاں آنے والے کے اپنے مزاج اور کردار پر اثرانداز ہوتی ہے۔

ہم ذاتی سطح پر عرض کریں تو اس سوال کا سیدھا سادا جواب تو یہ ہے کہ قدرت نے دیکھنے کی، سوچنے کی اور اظہار کرنے کی صلاحیت دی ہے، سو بس اسی لیے لکھتے ہیں۔ تاہم لکھنے کا یہ کام شوقیہ گلوکاری جیسا نہیں ہے کہ باتھ روم میں گنگنالیے یا کسی عزیز کی شادی میں تان لگانے کا شوق پورا کرلیا۔ اس کے برعکس یہ جینے کا ناگزیر تقاضا یا لازمۂ حیات ہے، یعنی لکھے بغیر نہیں رہ سکتے، بالکل ایسے ہی جیسے آدمی سانس لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر کسی وجہ سے لکھنا بند ہوجائے تو شاید گھٹن سے دم نکل جائے۔

تاہم کوئی بڑا نظریہ، کوئی بڑا فلسفہ، کوئی عہد آفریں تصور یا کوئی انقلاب آگیں خیال— ایسی کوئی چیز اوڑھنا بچھونا نہیں بنی، یعنی کسی پرائم اوبجیکٹ کے طور پر کبھی پیشِ نظر نہیں رہی۔ ممکن ہے، یہ سب بڑی چیزیں ہوں اور بہت کام آتی ہوں۔ اچھا تو پھر ہوں گی، جن کے لیے ہوں گی۔ ہمیں تو جینے، یعنی لکھنے سے غرض ہے، باقی اس راہ میں جو بھی کچھ ہے، ثانوی ہے۔

جتنا اور جیسا اکتساب ممکن ہے، فطری انداز میں ہو پائے تو ٹھیک ہے۔ الگ سے لادنا کبھی قابلِ قبول نہیں رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خیال کہیں ابتدائی دنوں ہی میں دل و دماغ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا کہ ادب زندگی کو جتنا بھی بیان کرتا ہے، جمالیاتی تجربے میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔ سیاست کی طرح نعرے اور مذہب کی طرح پند و نصائح سے اسے کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔ عسکری صاحب ادب کو اپنی چھٹی حس کہتے تھے۔ بڑے آدمی تھے۔ وہ یہ کہہ سکتے تھے۔ ہم جیسے کس منہ سے اور کس برتے پر یہ کہیں۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جینے کی وہ جو ایک جبلی خواہش آدمی کے اندر ہوتی ہے، اُسے ہم نے ادب ہی کے توسط سے دیکھا، جانا اور حتی المقدور برتنے کی خواہش اور کوشش کی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے لیے لکھنا اور جینا گویا ایک ہی حقیقت کا اظہار ہے۔

یہاں تک جو معاملہ تھا وہ بالکل سیدھا تھا۔ اس لیے کہ جو کچھ کہنا تھا وہ ایک عمومی حوالے کے ساتھ کہنا تھا۔ اس سے آگے کا مرحلہ ذرا کڑا ہے۔ اب جو کہنا ہے بہ راہِ راست اپنے بارے میں اور اختصاص کی بنیاد پر کہنا ہے، یعنی آپ کیا کیا لکھتے ہیں اور آخر کیوں لکھتے ہیں؟ اچھا اب یہ کہ ہم تو کچھ تُک بندی کرکے شعر بھی جوڑتے ہیں، افسانے بھی گھڑتے ہیں اور تنقید کے نام پر کچھ تنکے جمع کرنے کا بھی شوق ہے۔ گویا خوب کھٹ راگ ہے زندگی میں۔ دیکھیے جہاں تک شعر گوئی کی بات ہے تو یہ کچھ ایسا ہی معاملہ ہے جیسا آپ کو یونانی کرداروں کی soliloquy میں نظر آتا ہے۔ اصل میں تو یہ خود کلامی ہے، لیکن ذرا باآوازِ بلند ہے۔ یوں یہ آواز دوسروں تک بھی پہنچ رہی ہے۔

ہم چوںکہ مشاعرے نہیں پڑھتے، اس لیے ہمیں کسی پنڈال کی، یعنی مجمعے کی خوشی، توجہ یا داد وغیرہ تو قطعاً درکار نہیں ہوتی۔ سو موضوع کا کوئی التزام ہے اور نہ ہی کسی اظہاری سانچے کی پابندی۔ ایسا نہیں ہے کہ مشاعرے میں آنے والے سارے لوگ ایک خاص ڈھرے پر رہتے ہیں اور انھیں مجمعے کی توجہ یا داد ہر قیمت پر مطلوب ہوتی ہے۔ نہیں، سبھی ایسے تو نہیں ہوں گے۔ ان میں اپنے الگ رنگ کے لوگ بھی یقیناً ہوتے ہوں گے، لیکن مشاعرہ ہمارے یہاں اب پہلے کی طرح ایک تہذیبی ادارہ نہیں رہا ہے، بلکہ فن فیئر قسم کی چیز بن گیا ہے۔ سنجیدہ اور خیال افروز شاعری اب بڑی حد تک یہاں سے رخصت ہوگئی ہے۔ خیر، تو ہم عرض کررہے تھے کہ ہمارے لیے شاعری وہ ذاتی کیفیت ہے جو آواز بن کر لبِ اظہار تک چلی آئی ہے۔

اب رہا افسانہ نگاری کا معاملہ تو ہمیں ذاتی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ دل اور دنیا کے بیچ ٹھہرا ہوا لمحہ ہے۔ اس میں کچھ اپنے رنگ ہیں اور کچھ دنیا کے روپ بہروپ۔ اچھا یہ تقسیم بھی کوئی حتمی چیز نہیں ہے، بس ذرا سمجھنے سمجھانے کے لیے ایسا کہا جارہا ہے۔ ورنہ یوں آپ دیکھیے تو یہ جو اپنے رنگ ہوتے ہیں، یہ بھی سب اپنے کب ہوتے ہیں۔ چھان بین کیجیے تو معلوم ہو کہ کہاں کہاں دنیا کی چھوٹ پڑتی ہے۔ بات یہ ہے کہ آپ کو جو رنگ ذرا بھلے معلوم ہوئے، ایسے بھلے کہ اپنے سے لگے، بس وہ آپ نے سینت کر رکھ لیے۔ اسی پر بس نہیں، وہ جو دنیا کے روپ بہروپ کا حال ہے، اُس میں بھی تو کہیں آپ کی اپنی یا آپ کے اندر کسی دور کی، کچھ دیکھے، سنے اور چاہے ہوئے لوگوں کی پرچھائیاں جھلکتی ہیں۔

تو بس یہ ہے کہ کہانی کار آپ بیتی کو جگ بیتی اور جگ بیتی کو آپ بیتی بنانے کا ڈھب جانتا ہو تو ہی کچھ بات بنتی ہے ورنہ نہیں۔ انتظار حسین صاحب کہا کرتے تھے، کہانی کار کو کبھی سوانح عمری نہیں لکھنی چاہیے۔ پوچھا، مگر صاحب کیوں؟ بولے، خود خراب ہوگا، یا پھر اپنے کرداروں کو خراب کرے گا۔ بہت برسوں بعد سنا کہ وہ اپنی یادیں لکھ رہے ہیں تو پوچھا کہ آپ تو یوں کہتے تھے، اب یہ کیا؟ پہلے ہنس دیے پھر بولے، میرے عزیز پہلے لکھ تو لوں پھر پڑھ کر کچھ پوچھنا۔ ٹھیک کہتے تھے۔ آپ اُن کی یادوں کی دونوں کتابوں ’’چراغوں کا دھواں‘‘ اور ’’جستجو کیا ہے‘‘ پڑھ لیجیے، دونوں سوانح نہیں ہیں، بلکہ ان میں ایک عہد کا منظرنامہ ہے، تہذیبی، سماجی، اخلاقی، ادبی اور سیاسی دنیا کا نقشہ۔ سو معلوم ہوا کہ بس یہی شعور ایک کہانی کار کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

اب جو ہماری تنقید نگاری ہے تو اس کا معاملہ بالکل صاف اور سیدھا ہے کہ زندگی کو، دنیا کو، انسانوں کو، ان کے رشتوں اور اُن کی جہتوں کو، وقت اور اس کی چال کو، کائنات کو، اس کی آوازوں اور سناٹوں کو، شعر کے، افسانے اور ناول کے پیرائے میں جس طرح دیکھا اور دکھایا جارہا ہے، اُسے سمجھنے سمجھانے کی جستجو کی جائے۔ ادب کا کمال یہ ہے کہ ایبسٹریکٹ اور ایبسرڈ تک کو ریئلٹی کی سطح پر قابلِ فہم بنا دیتا ہے، کریہہ میں سے جمال دریافت کرلیتا ہے، سناٹے میں سے آواز اور آواز میں سے سکوت برآمد کرلیتا ہے۔ جو کچھ آپ سننے اور دیکھنے پر آمادہ نہیں ہوتے، وہ اس طرح سنا، دِکھا اور سمجھا دیتا ہے کہ آپ اُس کی نمائندگی اور طرف داری کرنے لگتے ہیں۔ یہ ادب ہی تو ہے جو آپ کا خدا، کائنات اور انسان سے ایسا رشتہ استوار کردیتا ہے کہ پھر تو آپ خود کو بھی تھری ڈی ایفیکٹ کے ساتھ دیکھنے اور پہچاننے لگتے ہیں۔

چلیے بہت باتیں ہوگئیں، بس اب ختم کرتے ہیں۔ دیکھیے، صاف دکھائی دے رہا ہے کہ یہ عہدِجدید دراصل فراموش گاری کا زمانہ ہے۔ ایسی زناٹے دار ہوائیں اور ایسی اُتھل پتھل کرتے ہوئے جھکڑ چل رہے ہیں کہ زندگی کی حقیقت، وجود کے معنی، احساس کے رنگ، روح کی روشنی سب کچھ آن کی آن میں نظروں سے اوجھل ہوا جاتا ہے۔ چہروں پر، یادوں اور باتوں پر، افکار و خیالات پر دیکھتے ہی دیکھتے گرد سی جمتی چلی جاتی ہے۔ آدمی کی نظر ہی نہیں، حافظہ بھی دھندلاتا محسوس ہوتا ہے۔ پہلے معاشرہ اور تہذیب بہانے بہانے سے اجتماعی حافظے کو تازہ کرنے کا سامان کرتے رہتے تھے۔

یہ اجنبیت اور تنہائی کا دور ہے۔ اجتماعی حافظہ تو جیسے نابود ہوا جارہا ہے۔ ایسے میں سچ پوچھیے ہمیں تو ادب ہی وہ سایہ وہ چھپر کھٹ نظر آتا ہے، جہاں پناہ مل سکتی ہے آدمی کو، اُس کے احساس کو اور اُس کی روح کو بھی۔ یہاں اُس کے لیے جینے کا سامان بہم ہو جاتا ہے— انفرادی ہی نہیں، اجتماعی سطح پر بھی۔ یہاں نظر اور حافظہ دونوں کی سلامتی ممکن ہے، اس لیے کہ لفظوں کی آواز میں اور ان کے آہنگ میں احساس کی رو اور دل کی دھڑکن سنی جا سکتی ہے۔ سو بس، اے ہم نفساں یہ لکھنا لکھانا اور پڑھنا پڑھانا سب اسی کارن ہے۔

The post سواے ہم نفساں، میں لکھتا ہوں appeared first on ایکسپریس اردو.

ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ چین کا نیو ورلڈ آرڈر؟

$
0
0

یہ 1492ء کی بات ہے جب ہسپانوی اور پرتگالی افواج نے اسپین میں آخری مسلم ریاست کو بھی زیر کر لیا۔یہ دونوں قوتیں مسلمانوں کی شدید مخالف تھیں۔انھوں نے پھر سمندروں میں مہم جو اور جہاز راں بھجوائے۔ مقصد یہ تھا کہ اسلامی ممالک تک پہنچنے کے لیے سمندری راستے تلاش کیے جاسکیں۔

دوران سفر یورپی  جہاز رانوں نے براعظموں کے متفرق علاقے دریافت کیے جنہیں نوآبادی بنا لیا گیا۔ یوں یورپیوں کے ہاتھوںانسانی تاریخ میں نوآبادیت کے ظالمانہ و نامنصفانہ باب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ہسپانوی اور پرتگالی قوتوں نے اپنی نو آبادیوں میں ہزارہا لوگوںکو غلام بنایا اور ان سے کھیتوں و فارموں میں بیگار لینے لگے۔ ساتھ ساتھ نو آبادیوں کے وسائل لوٹ کر ان کی مدد سے اپنے ملکوں کو معاشی ترقی دی جانے لگی۔انھیں نوآبادیوں کے باعث زبردست معاشی فوائد ملے تو دیگر یورپی قوتوں کی رال بھی ٹپکنے لگی۔ چناں چہ آنے والی صدیوں میں تقریباً سبھی یورپی ممالک نے بزور ایشیا، افریقا، لاطینی امریکا، شمالی امریکا اور آسٹریلیا میں اپنی بیسیوں نو آبادیاں قائم کرلیں۔ انہوں نے نو آبادیوں کے وسائل جی بھر کر لوٹے اور خود طاقتور معاشی قوتیں بن بیٹھیں۔ یہ سچ ہے کہ یورپ کی معاشی ترقی نو آبادیوں میں لوٹ مار کی مرہون منت بھی ہے۔

اب مغربی ممالک کو نو آبادیاں بنانے کا چسکا لگ گیا کیونکہ ان کی بدولت انہیں معاشی، سیاسی اور عسکری فوائد حاصل ہوتے تھے۔ بیسویں صدی میں مغربی ممالک کے مابین دو عظیم جنگیں ہوئیں۔ یہ جنگیں انجام پانے کا ایک اہم سبب نو آبادیوں پر کنٹرول حاصل کرنا بھی تھا۔ تاہم باہمی سرپھٹول نے یورپی استعماری قوتوں کو کمزور کردیا۔ نتیجتاً مجبور ہوکر انہیں اپنی بیشتر نو آبادیاں آزاد کرنا پڑیں۔ لیکن بعد میں بھی مغربی استعماری طاقتوں مثلاً برطانیہ، فرانس، بیلجیئم وغیرہ کی یہی سعی رہی کہ وہ اپنی سابقہ نو آبادیوں کی سیاست، معیشت و دفاع پر اثر انداز ہوسکیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نئی استعماری قوت بن کر ابھرا۔ مگر اس نے بزور کم ہی نو آبادیاںقائم کیں بلکہ وہ معاشی وعسکری امداد کے ذریعے خصوصاً اسلامی ممالک میں اثرو رسوخ بڑھانے میں کامیاب رہا۔ سویت یونین سے سرد جنگ نے بھی امریکا کو سپرپاور بننے میں مدد دی اور اپنی بین الاقوامی کرنسی، ڈالر کی بدولت بھی وہ عظیم قوت بن گیا۔

1991ء میں سویت یونین کا خاتمہ ہوا، تو امریکی حکمران طبقہ دنیا کو اپنے نظریات و خیالات پر ڈھالنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ اس غیر اعلانیہ حکم نامے کے ذریعے امریکی حکمران طبقے نے دنیا والوں پر زور دیا کہ وہ امریکا کی معاشی و عسکری ہی نہیں تہذیبی، ثقافتی، سیاسی اور معاشرتی بالادستی بھی قبول کرلیں۔ تاہم اسامہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ، ایران، شمالی کوریا، شام اور عراق نے یہ نیو ورلڈ آرڈر قبول کرنے سے انکار کردیا۔

دنیا کی اکلوتی سپرپاور ہونے کے احساس نے امریکی حکمران طبقے کو مغرور بنا دیا تھا۔ وہ سمجھنے لگا کہ اس کی زبردست عسکری و معاشی طاقت کے سامنے اب دنیا کی ہر حکومت گھٹنے ٹیک دے گی مگر اس کو پہلے صدام حسین اور پھرالقاعدہ سے ٹکرانا پڑا۔

القاعدہ کے گوریلوں سے لڑائی بڑھتی چلی گئی اور اس نے عراق، پاکستان، افغانستان سمیت عالم اسلام کے بڑے حصّے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔لڑائیوں میں اندھا دھند اوربے سوچے سمجھے کودنے سے امریکا کے جنگی اخراجات بے تحاشا بڑھ گئے اور اس امر نے امریکی حکومت کو مقروض بنا دیا۔ اخراجات نے قومی معیشت کو بھی نقصان پہنچایا۔ جب امریکی حکمران طبقہ چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑنے میں محو تھا، تو دنیا میں ایک نئی معاشی طاقت… چین کا ظہور ہو گیا۔

1949ء میں جب ماؤزے تنگ نے چین کا اقتدار سنبھالا، تو اس کا شمار غریب ممالک میں ہوتا تھا۔ افیون کا عادی ہونے کے باعث چینی افیونچی کہلاتے تھے۔ ماؤزے تنگ اور ان کے ساتھیوں نے معیشت کو سنبھالا تاہم 1979ء کے بعد انقلابی تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔ چینی صدر، ڈینگ زیاؤ پنگ نے معیشت پرعائد پابندیاں ہٹالیں اور نجی و سرکاری طبقے کو آزادانہ تجارت کی اجازت دے ڈالی۔ یہ عمل تاریخ ساز ثابت ہوا۔ اب چین کی سستی اشیا پوری دنیا میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے لگیں۔

اُدھر چین اشیا کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال درآمد کرنے لگا۔ یوں چین کی اربوں ڈالر پر مشتمل برآمدات و درآمدات نے عالمی معیشت کا پہیہ تیز تر کردیا۔ اس امر نے چین اورچینیوں کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک کو بھی بے پناہ معاشی فوائد بہم پہنچائے۔

اکیسویں صدی کے آغاز تک امریکا اور مغربی ممالک چین کے بڑے تجارتی ساتھی بن چکے تھے۔ اس دوران مغرب اور چین کے مابین کئی سیاسی و معاشی معاملات پر اختلاف رائے ہوا مگر بات زیادہ آگے نہیں بڑھی ۔لیکن جب چین دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت بن گیا تو امریکی حکمران طبقے کے کان کھڑے ہوگئے۔ اب وہ چین کو اپنا مدمقابل سمجھنے لگا۔ اس طرز فکر نے امریکا اور چین کے درمیان تناؤ بڑھا دیا۔ امریکی حکمران طبقہ اچانک 2005ء کے بعد بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے لگا۔

امریکی میڈیا ہی نے آخر کار یہ راز افشا کیا کہ چین کا مقابلہ کرنے کی خاطر امریکا بھارت کو اپنا ’’پٹھا‘‘ بنا کر کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ امریکی حکمران طبقے کی خفیہ و عیاں چالوں اور سازشوں سے متنفر ہوکر چینی حکومت نے اپنے جنگی بجٹ میں اضافہ کردیا۔ اب خصوصاً طیارہ بردار جہاز، جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں تیار کرنے پر زور بڑھ گیا۔ وجہ یہ کہ بحرالکاہل میں جابجا امریکا کی عسکری تنصیبات پھیلی ہوئی ہیں۔

بحیرہ جنوبی چین دنیا کے اسی سب سے بڑے سمندر کا حصّہ ہے جہاں سے چین بذریعہ آئل ٹینکر اپنا بیشتر تیل منگواتا ہے۔ نیز بہت سا درآمدی برآمدی سامان بھی بحیرہ جنوبی چین کے راستے سے آتا جاتا ہے۔ جب چینی حکومت کو احساس ہوا کہ امریکا چین کے خلاف محاذ بنا رہا ہے تو وہ چوکنا ہوگئی۔

اسے پہلا خیال یہی آیا کہ آمدورفت کے نئے راستے تلاش کیے جائیں۔ امریکی اپنے طیارہ بردار جہازوں کی مدد سے جنوبی بحیرہ چین کی ناکہ بندی کرکے چین کو باآسانی محصور کرسکتے ہیں۔ تبھی چینی تھنک ٹینکس کی یہ پیش کردہ تجویز نمایاں ہوئی کہ قدیم شاہراہ ریشم کے بری و بحری راستوں کو ازسرنو دریافت و تعمیر کرنا چاہیے۔

یہ تجویز نئی نہیں تھی مگر چینی حکومت نے اس پر زیادہ غور نہیں کیا۔ لیکن منافق امریکی حکمران طبقے کی سازشوں نے اسے نمایاں کر دیا۔اب چینی حکمران طبقے کو احساس ہوا کہ یہ تجویز اپنانے سے نہ صرف محفوظ تجارتی راستے جنم لیں گے بلکہ وہ چین اور دیگر ممالک کو بے پناہ معاشی فوائد بھی بہم پہنچا سکتی ہے۔چناں چہ2013ء کے موسم خزاں میں چینی صدر، شی جن پنگ نے اس تجویز کو ’’بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو‘‘ کے نام سے باقاعدہ طور پر پیش کر ڈالا۔ منصوبے کا جوہر یہ ہے کہ چین، ایشیا، روس اور یورپ میں برّی و بحری راستے تعمیر کیے جائیں تاکہ ان تمام خطوں کے مابین تجارت بڑھ سکے اور معاشی ترقی جنم لے۔

حسب توقع امریکا اور اس کے ہم نوا ممالک چین کے درج بالا منصوبے پر تنقید کرنے لگے جو عرف عام میں ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کہلاتا ہے۔ دعویٰ کیا گیا کہ اس کی مدد سے چین دنیا بھر میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ گویا انہوں نے چین کو نئی استعماری قوت قرار دے ڈالا۔ بعض دانشوروں نے دعویٰ کیا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے صدر شی جن پنگ چین میں اپنی طاقت بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ ان کے اقتدار کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہو۔ غرض جتنے منہ اتنی ہی باتیں ۔ تاہم امریکا کی شدید مخالفت بھی چینی منصوبے کی قدرو قیمت کم نہ کرسکی۔

چین ون بیلٹ ون روڈ پلان کے تحت منصوبے میں شامل ممالک میں سڑکوں، شاہراؤں،پٹڑیوں،پلوں،پائپ لائنوں، نئے تجارتی مراکز اور دیگرمتعلقہ انفراسٹرکچر کی تعمیر پر ایک ٹریلین ڈالر (ایک ہزار ارب ڈالر) تک خرچ کرنے کو تیار ہے۔ تادم تحریر ایشیا، یورپ اور افریقا کے 65 ممالک اس عظیم الشان منصوبے کا حصہ بن چکے۔

ماہرین معاشیات کی رو سے یہ انسانی تاریخ میں مالی لحاظ سے سب سے بڑا ڈویلپمنٹ پلان ہے۔پاکستان میں جاری سی پیک منصوبہ اور بنگلہ دیش، چین، بھارت، میانمار، اکنامک کوریڈور بھی ون بیلٹ ون روڈ کے ذیلی منصوبے ہیں۔ پاکستان میں سی پیک منصوبے کے تحت بجلی گھر بھی بن رہے ہیں جن کے ذریعے لوڈشیڈنگ کے بے قابو دیو کو قابو کرنے میں مدد ملے گی۔ سی پیک منصوبے کی مالیت 50 تا 60 ارب ڈالر کے مابین بتائی جاتی ہے۔

سال رواں کے آغاز میں چینی حکومت نے اعلان کیا کہ 14 تا 15 مئی بیجنگ میں ایک بین الاقوامی فورم منعقد ہوگا۔ اس میں صدر شی جن پنگ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی غرض و غایت تفصیل سے واضح کریں گے۔ یہ اعلان ہوتے ہی امریکی میڈیا پروپیگنڈا کرنے لگا کہ چین اس منصوبے کے ذریعے دنیا والوں پر اپنا نیو ورلڈ آرڈر تھوپنا چاہتا ہے۔ چینی حکمران طبقے کی خواہش ہے کہ وہ دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے زیر دام و ماتحت لے آئیں۔ مگر یہ امریکی میڈیا کا دروغ گوئی اور عیاری پر مبنی پروپیگنڈا ہے۔

تاریخ سے عیاں ہے کہ چین مغربی طاقتوں کی طرح کبھی سّکہ بند استعماری طاقت نہیں رہا۔ اس نے دور دراز علاقوں میں جاکر زبردستی نو آبادیاں قائم کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اقوام عالم کے قیمتی قدرتی وسائل لوٹے۔ اگر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو چین کا نیو ورلڈ آرڈر سمجھ بھی لیا جائے، تو یہ امریکی حکمران طبقے کے عالمی حکم نامے سے بالکل مختلف ہے۔

پچیس سال قبل امریکا نے ظالمانہ و غیر انسانی مغربی نو آبادیاتی روایات برقرار رکھتے ہوئے جو نیوورلڈ آرڈر پیش کیا وہ دھونس، دھمکی اور ترغیبات سے عبارت تھا۔ اس کے ذریعے طاقت میںمست الست امریکی حکمران طبقے نے اعلان کیا کہ جو امریکا کے مفادات سے ٹکرایا، اسے نیست و نابود کردیا جائے گا۔ گویا امریکی نیو ورلڈ آرڈر کا خمیر نفرت، دشمنی اور جنگ جوئی سے اٹھایا گیا۔ یہی وجہ ہے، اس کے نافذ ہوتے ہی کرہ ارض کا وسیع رقبہ جنگوں کی آگ کا نشانہ بن گیا۔یاد رہے،امریکا کا نظریہ ترقی بھی مادہ پرستی،خود غرضی اور دھوکے بازی کی خصوصیات رکھتا ہے۔

چین کا نیا ورلڈ آرڈر بنیادی طور پہ امن، محبت، یکجہتی اور بھائی چارے پر مبنی ہے۔ چینی اپنے ملک و قوم کی معاشی ترقی چاہتے ہیں۔ لیکن ان کی خواہش ہے کہ بذریعہ ون بیلٹ ون روڈ دیگر ممالک میں معاشی ترقی جنم لے، غربت و جہالت ختم ہو اور عوام خوشحال ہوجائیں۔

اس سلسلے میں چینی اربوں ڈالر خرچ کرنے کو تیار ہیں تاکہ سبھی ممالک میں منصوبے کو درکار انفراسٹرکچر وجود میں آسکے۔ گویا چین اپنا بھلا چاہتا ہے اور دوسروں کا بھی!اس سوچ کی وجہ یہ ہے کہ چینیوں کے نظریہ ترقی میں انسانی جذبات واحساسات کی چاشنی بھی موجود ہے۔وہ سو فیصد مادہ پرستی پہ مبنی نہیں۔ جبکہ امریکی و مغربی حکمرانوں کی تاریخ افشا کرتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے جائز و ناجائز مفادات کو اولیت دی چاہے دوسروں کا نقصان ہوجائے۔

ہر منصوبے کی طرح ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ بھی خامیاں و خدشات رکھتا ہے ۔مثلاً ایک خدشہ یہ ہے کہ اس کی بدولت پاکستان سمیت تمام ممالک کا قرضہ بڑھ جائے گا۔ مگر پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک آئی ایم ایف، عالمی بینک وغیرہ سے وقتاً فوقتاً قرضے لیتے رہتے ہیں۔عموماً یہ قرضہ حکمرانوں کی کوتاہیاں اور غلطیاں دور کرنے میں کام آتا ہے اور جس کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ جب کہ چین کے دیئے گئے قرضوں سے ہرملک میں وسیع پیمانے پر انفراسٹرکچر کھڑا ہوگا جو لامحالہ عوام الناس کو فائدہ پہنچائے گا۔

قول ہے ’’اگر آپ خطرات مول لینے کو تیار نہیں تو اپنے معمولی حال پر قانع ہوجائیے۔‘‘چناں چہ پاکستانیوں کو ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے اچھائی کی امید رکھنی چاہیے۔ ویسے بھی پاکستان ایشیا میں اس چینی منصوبے کا ایک بڑا حمایتی بن چکا جو درست حکمت عملی ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی معاشی وعسکری قوت کا ساتھ پاکر پاکستان اس قابل ہو گا کہ مقامی و عالمی نوعیت کے مسائل بخوبی حل کرسکے۔ چینی منصوبے کے مخالف بھارت سے ٹکراؤ اس ضمن میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اکیسویں صدی کے اوائل سے پاکستان ٹوٹنے کی باتیں ہونے لگی تھیں۔ مگر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا اعلان ہوتے ہوتے یہ افواہیں دم توڑ گئیں اور اب ایک خوشحال و اُمید بھرا مستقبل پاکستانی قوم کا منتظر ہے۔

The post ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ چین کا نیو ورلڈ آرڈر؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

بجٹ آرہا ہے!!!

$
0
0

’’بجٹ آرہا ہے، دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘‘ اس بار بجٹ میں ہمارے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا‘‘۔ ’’بجٹ کا انتظار کرلو، قیمتوں میں کمی ہوسکتی ہے، پھر لے لیں گے‘‘، ’’بجٹ آرہا ہے، اﷲ خیر کرے۔‘‘ یہ اور ایسے ہی بہت سے جملے ہر بجٹ کی آمد سے قبل ہر چھوٹے بڑے شہر میں بولے اور سُنے جاتے ہیں۔

ہر بجٹ سے قبل عوام میں ایک طرف کچھ امیدیں ہوتی ہیں، کچھ بہتری کی توقعات ہوتی ہیں تو دوسری جانب عوام میں ایک خوف بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں کو امید تو اس بات کی ہوتی ہے کہ حکومت اس بار ان کے لیے بجٹ میں یقینی طور پر کوئی خوش خبری سنائے گی۔ منہگائی کا طوفان کم ہوگا اور روزمرہ استعمال کی اشیا کی آسمانوں کا سفر کرنے والی قیمتیں زمین پر آجائیں گی۔

دوسری جانب خدشات یہ ہوتے ہیں کہ کہیں حکومت پہلے سے منہگی چیزوں کو بھی مزید منہگا نہ کردے۔ کھانے پینے کی چیزوں، گھریلو استعمال کی مصنوعات اور دیگر متعلقہ چیزوں کے نرخوں میں اضافہ ہوگا یا نہیں، یہ صورت حال عوام کے سروں پر لٹکتی تلوار کی مانند ہوتی ہے اس بار بھی عوام ایسی ہی کیفیات کا شکارنظر آتے ہیں، ہر کوئی اپنی اپنی علمیت کے مطابق اور اپنی خواہشات کے تحت بجٹ کے حوالے سے گفتگو کر رہا ہے۔

کہیں پر اپنی خواہشات کو پورا ہونے کی امید ہیں تو کہیں کچھ وہم ذہنوں کو جکڑے ہوئے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام منہگائی کے عذاب کو مسلسل جھیل رہے ہیں۔ کہیں روزمرہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کا عذاب ہے تو کہیں منی بجٹ کی صورت میں قیمتوں میں بار بار اضافہ لوگوں کو پریشان کرتا ہے۔ بے روزگاری اور تنخواہوں میں کمی بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے لاکھوں افراد سخت پریشان میں ہیں کیونکہ تنخواہیں تو نہیں بڑھ رہیں لیکن مہنگائی مسلسل بڑھ رہے ہے۔

دوسری جانب حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام الناس کے لیے بہت کچھ کررہی ہے، عوام کی زندگی آسان بنانے اور انھیں بہتر سہولتیں دینے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں، پیٹرولیم مصنوعات سمیت بہت سی اشیائے ضروریہ پر حکومت ریلیف دے کر خود بوجھ اٹھارہی ہے۔ یقینی طور پر حکم رانوں کی اس بات میں کچھ سچائی ضرور ہوگی۔ حکومت نے اقدامات بھی کیے ہوں گے لیکن بات تو جب بے جب عوام کو ملنے والا ریلیف فوری نظر آئے۔

جب کوئی بازار جائے تو اسے چاول، چینی، دال، انڈے، گھی، چائے، مٹی کا تیل، صابن، گھریلو استعمال کی اشیا، پھل، سبزیاں، گوشت وغیرہ سے کم نرخوں پر ملیں تو حکم رانوں کی بات میں وزن ہوگا۔ بازاروں اور دکانوں میں اشیا کی قیمتیں عوام کی آسان رسائی میں ہوں تو لوگ دل سے حکومتوں کو دعائیں دیں گے اور دیتے ہیں مگر ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے۔ عوام امید کررہے ہیں کہ اس بار کے وفاقی بجٹ میں کوئی غیرمعمولی ریلیف انھیں ضرور ملے گا۔ آئیے ایک نظر گذشتہ وفاقی بجٹ پر ڈالتے ہیں۔

وفاقی بجٹ 2016-17 کا مجموعی حجم 43 کھرب 95 ارب روپے تھا جس میں ٹیکسوں کا ہدف 3621 روپے رکھا گیا تھا۔ اس بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فی صد اضافہ کیا گیا جب کہ 85 سال سے زاید عمر کے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن 25 فی صد بڑھادی گئی تھی۔ گذشتہ بجٹ میں ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 9894.5 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ دفاعی بجٹ میں 11 فی صد اضافہ کرکے اس کا حجم 860 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی تھی۔

بجٹ 2016-17 میں سگریٹ، بسکٹ، کاسمیٹکس، ایئر کنڈیشنرز، اسٹیشنری، موبائل فون، مکھن، پان، چھالیہ، کولڈ ڈرنک، مرغی، انڈے، خشک دودھ، پولٹری فیڈ، منرل واٹر اور دیگر اشیا مہنگی ہوگئی تھیں جب کہ کھادیں، زرعی دوائیں، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر کی قیمتوں میں کمی آئی۔ بجٹ میں صحت کے شعبے کے لیے 30 ارب روپے جب کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے 21 ارب روپے مختص کیے گئے تھے، ملک بھر میں پانی، بجلی کے منصوبوں کی تکمیل اور انھیں مزید فعال کرنے کی غرض سے حکومت نے اس شعبے کے لیے ایک کھرب 97 ارب روپے رکھے۔

بجٹ آنے کے بعد اپوزیشن نے اسے مسترد کردیا تھا اور یہ کہاکہ بجٹ میں عام آدمی کے لیے کچھ نہیں ہے، دوسری جانب تاجر برادری اور صنعت کاروں نے بھی بجٹ پر ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا۔ کسی نے اسے عوام دوست کہا تو کسی کی رائے تھی کہ عام آدمی کے لیے مزید مراعات اور سہولتوں کا اعلان کیا جانا چاہیے تھا۔ لگتا ہے ایسی ہی صورت حال اس سال کے بجٹ کے بعد ہوگی۔

اب یہ تو اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے کہ فلاں شعبے کے لیے اتنی رقم مختص کی گئی ہے، ٹیکس وصولی کا ہدف یہ ہے۔ ان چیزوں پر اتنی سبسڈی دی گئی وغیرہ وغیرہ۔ عام طور پر بجٹ تقاریر کو لوگ سنتے ضرور ہیں لیکن پوری بجٹ تقریر سمجھنے والے بہت کم ہیں۔ ہر کوئی اپنے حساب سے بجٹ کا انتظار کرتا ہے۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا انتظار ہوتا ہے، تاجر برادری مختلف اشیا پر ٹیکس اور ڈیوٹی کی شرح کے حساب سے بجٹ کے اچھے ہونے یا نہ ہونے کا تعین کرتی ہے۔

اسی طرح ہر شعبے سے وابستہ لوگ وزیر خزانہ کے ان جملوں کا انتظار کررہے ہوتے ہیں جن میں ان کے حوالے سے کوئی ’’خوش خبری‘‘ ہو لیکن ایک عام غریب شہری جس کی آمدنی بھی کم ہے اور ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں، تیزی سے بڑھتی منہگائی کے طوفان کا بہت مشکل سے مقابلہ کر رہا ہے، وہ بجٹ کے اعدادوشمار میں الجھنے کے بجائے اس بات کی فکر میں رہتا ہے کہ حکومت نے کیا ایسا کام کیا جس کے نتیجے میں وہ اپنی قلیل آمدنی میں بھی سفید پوشی کا بھرم رکھ سکے، اس سوال کا جواب حاصل کرنے کبھی برسوں لگتے ہیں تو کبھی زندگیاں گزر جاتی ہیں۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ پورے ملک کا بجٹ بنانے والی حکومت کیا اس غریب آدمی کے گھر کا ماہانہ بجٹ بناسکتی ہے جو اپنی 9000 یا 10000 روپے ماہانہ کی آمدنی میں بیوی، بچوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتا ہے؟ آئیے ہم کوشش کرکے دیکھیں کہ ایک غریب آدمی کا ماہانہ کا بجٹ اس کی آمدنی کے حساب کیا ہوگا۔

کچھ دیر کے لیے فرض کرلیں کہ ایک غریب مزدور کی ماہانہ آمدنی 10 ہزار روپے ہے اور وہ اپنی بیوی، 3 بچوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔

مکان کا کرایہ…1500 روپے

بجلی کا بل (کم سے کم)…900 یا 1000 روپے

گیس کا بل …50روپے (تقریباً)

مہینے کا راشن …3500 روپے

(چائے، دال، چینی، چاول، گھی، دودھ وغیرہ)

بچوں کی اسکول کی فیس (کم سے کم) …500 روپے فی کس۔

مزدوری پر آنے جانے کا روزانہ کا کرایہ…1000 روپے۔

(کسی نا گہانی صورت پر یہ رقم بہت زیادہ ہوسکتی ہے)

کسی تقریب میں آنا جانا یا گھر میں مہمان داری 1000روپے۔

تہوار کے موقع پر بچوں اور خود کے لیے شاپنگ (کم سے کم) 2500 روپے۔

درج بالا تخمینہ ہم نے ایک پس ماندہ علاقے میں رہنے والے غریب شخص کا لگایا ہے۔ اگر دیگر علاقوں کی بات کی جائے تو وہاں ہر چیز کے نرخ دگنے سے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اور 20یا 25 ہزار روپے ماہانہ آمدنی والے بھی کافی مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ ہم نے جو بجٹ بنانے کی کوشش کی اور جو اخراجات لکھے وہ اس مزدور کی ماہانہ آمدنی سے تجاوز کر گئے ہیں۔

اس میں وہ چیزیں شامل نہیں جو متوسط طبقہ روزانہ اپنے اخراجات میں شامل کرتا ہے یعنی روزانہ کی بنیاد پر گوشت، پھل یا بچوں کے لیے آئس کریم، چپس، بسکٹ وغیرہ لینا۔ دیکھا جائے تو عام آدمی کے لیے موجودہ آمدنی اور مسلسل منہگائی کے اس دور میں اپنی آمدنی میں گھر چلانا مشکل نہیں بلکہ انتہائی مشکل ہے۔ اسی لیے ہمارے معاشرے میں ہر دوسرا آدمی ایک کے بجائے دو نوکریاں کرکے گھر چلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حکومت کو بڑے بڑے اعلانات اور اعداد و شمار دینے کے بجائے ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینی ہوگی جن سے غریب عوام کو صحیح معنوں میں ریلیف مل سکے۔

ابھی بجٹ آنے میں چند روز ہیں۔ ہم اس مضمون کے ذریعے وفاقی بجٹ کے حوالے سے چند تجاویز حکومت کو دے رہے ہیں جن کے ذریعے عام لوگوں کی زندگی کچھ آسان ہوجائے۔

بجٹ کے حوالے سے کچھ تجاویز:

٭ … صحت عامہ کی سہولتیں ہر شہری کا بنیادی حق بھی ہے اور ضرورت بھی، ہر چھوٹے بڑے شہر میں صحت و علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ یوں تو ہر شہر میں صحت مراکز ہیں لیکن دواؤں اور ڈکٹروں کی قلت نے عوام کے مسائل بڑھادیے ہیں۔ حکوامت کوشش کرے کہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں موجود اسپتالوں، رورل ہیلتھ سینٹرز اور دیگر طبی مراکز میں نہ صرف دوائیں ہر وقت موجود ہوں بلکہ ڈاکٹروں کے لیے بھی مریضوں کو انتظار نہ کرنا پڑے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ حکومت فنڈز کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر کرے اور تمام علاقوں کو یکساں سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

٭ … تعلیم ہر ایک کے لیے ضروری ہے، ہر بچے کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کے تحت کام کیا جائے، تاکہ وہ بچے بھی اسکول جاسکیں جو اپنے پڑھنے کی عمر میں مزدوری کی مشقت سہنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹے بڑے شہروں میں موجود اسکولوں، کالجوں کی ماہانہ فیس میں بھی کمی کرکے عوامی مشکلات میں کمی کی جاسکتی ہے۔

’’تعلیم سب کے لیے‘‘ کا نعرہ بہت معنی خیز اور جامع ہے لیکن اس کا اصل لطف جب مل سکتا ہے جب اس کی اصل روح کے مطابق ہر کسی کو سستی اور معیاری تعلیم کی سہولت ملے۔

٭ … اشیائی ضروریہ کی قیمتوں میں کمی اس صورت میں ممکن ہے جب ان پر عائد ٹیکسوں کو کم کیا جائے۔ اس وقت روزانہ استعمال کی ہر چیز پر لوگ ٹیکس دے رہے ہیں جس کی وجہ سے کھانے پینے اور دیگر استعمال کی چیزوں کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ ٹیکسوں کا بوجھ کم کرکے عوام کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ اس طرح روز مرہ استعمال کی اشیا بھی سستی ہوں گی اور عوام کو گھر کا بجٹ بنانے میں بھی آسانی ملے گی۔

٭ … پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی کمی وقت کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی کوشش کی جانی چاہیے کہ ٹرانسپورٹرز کے جائز مسائل کو بھی حل کیا جائے۔

٭ … بجٹ کے بعد منی بجٹ کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

٭ … اگر حکومتی اخراجات میں کچھ کمی کی جائے تو عوام کے مسائل بہت زیادہ حد تک حل ہوسکتے ہیں۔ وی آئی پی پروٹوکول، امرا، وزرا کے روزانہ کے اخراجات کی مد میں دی جانے والی رقم میں کٹوتی بھی کردی جائے تو ارباب اقتدار کو فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن ایسا کرنے سے عوام کو بہت ریلیف مل سکتا ہے۔

٭ … پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تاحال اتنی کمی نہیں ہوئی جتنی ہونی چاہیے، ہماری تجویز ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات خاص طور پر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کم از کم 15 روپے فی لیٹر کمی کی جانی چاہیے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے حکومت یہ بات جانتی ہے، اب اسے اس معاملے کو بھی عوامی مفاد میں حال کرنا ہوگا۔

٭ … پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت کو مزید بہتر کرنا بہت ضروری ہے، کراچی جیسے میگا سٹی کے حوالے سے تو سب کا پرزور مطالبہ ہے کہ سر کلر ٹرین کو دوبارہ فعال کیا جائے، اس سے لاکھوں لوگ مستفید ہوں گے۔ علاوہ ازیں رکشا، ٹیکسی اور منی بسوں کے کرایوں کو بھی عوام کی رسائی میں لانا ضروری ہے۔ ایسے بھی اقدامات کیے جائیں کہ عوام پبلک ٹرانسپورٹ میں بھیڑ بکریوں کی طرح نہ ٹھونسے جائیں بلکہ ایک باعزت سفر کریں۔

٭ … پانی کی ملک بھر کے عوام تک فراہمی سب کا مطالبہ اور خواہش ہے، اس بجٹ میں حکومت کو چاہیے کہ آبی منصوبوں کی جلدازجلد تکمیل کو ترجیح دے اور جاری منصوبوں کو مزید فعال کرے تاکہ ہر کسی کو صاف پانی میسر آسکے۔

٭ … دنیا ٹیکنالوجی سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھارہی ہے، حکومت کو چاہیے کہ کمپیوٹر اور اس سے متعلق دیگر اشیا کی قیمتیں کم کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاکر اپنے علم میں اضافہ کرسکیں اور دنیا کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں۔

٭ … شہری بجلی کے اضافی بلوں کے بوجھ سے پریشان ہیں، حکومت ایسی حکمت عملی وضع کرے جس کے تحت گھریلو صارفین پر صرف وہی بل لاگو ہو جتنی اس نے بجلی کا استعمال کی ہو۔

یہ چند تجاویز ہیں اس سے بہتر اور اچھی تجاویز بھی سامنے آئیں گی حکومت کو چاہیے کہ وہ زندگی کے تمام طبقوں کی طرف سے آنے والی آرا اور تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے بجٹ بنائے تاکہ سب لوگ اس بجٹ کو عوام دشمن نہیں بلکہ عوام دوست کہیں۔

ہم یہی امید کرسکتے ہیں کہ آئندہ بجٹ عوامی امنگوں اور خواہشات کے عین مطابق ہوگا۔ اس بات کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے ہوں گے، ہم اور آپ سب کو ہی بجٹ کا انتظار ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔

The post بجٹ آرہا ہے!!! appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

قلعۂ فراموشی
مصنفہ: فہمیدہ ریاض
صفحات:166، قیمت: 425 روپے
ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی

یہ ناول کیا ہے، ایک بغاوت ہے، کیا کیجیے مصنفہ کے قلم نے اکثر انحراف کی راہ کو جو عزیز رکھا ہے۔ اِس بار انہوں نے دنیا کی معلوم تاریخ کے اولین اشتراکی شخص ’مزدک‘ پر یہ ناول استوار کیا ہے۔ پانچویں صدی عیسوی میں طاقت وَروں نے اپنے تئیں صرف مزدک کو ہی نہیں، بلکہ اس سے جُڑی ہر چیز کو فنا کے گھاٹ اتار دیا، اس لیے تاریخ میں اس کا موہوم تذکرہ بھی منفی رنگ میں ہے، لیکن فہمیدہ ریاض قدیم تاریخی دستاویزات سے کرید کرید کر اس میں سے بہت کچھ جمع کر لائیں اور ڈھائی برس کی عرق ریزی سے اُسی عہد میں سانس لیتی ہوئی ایک بپتا رقم کر ڈالی، جو شہنشاہ وقت کے دربار میں مزدک کے سر قلم ہونے پر منتج ہوتی ہے کہ اُس کا ’’فتنہ‘‘ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ شاہ راہوں سے غلاظت صاف کرنے والے تک اب دوسروں کی ہم سری کا دعویٰ کرنے لگے تھے۔

مزدک کو جس قلعے میں راہی ملک عدم کیا گیا، اسے ’قلعہ ٔ فراموشی‘ قرار دے کر ناول کا عنوان کیا گیا ہے۔ 40 مختصر ابواب میں بٹے ہوئے اس ناول کے آخر میں مشکل الفاظ، اصطلاحات اور ناموں کی ایک فرہنگ بھی دی گئی ہے۔ یہ ناول ملک کی 70 ویں سال گرہ کے حوالے سے ناشر کی سلسلہ وار کتابوں کی اشاعت کا حصہ ہے اور اس کا انتساب پارسیوں کے نام ہے۔

’’اب سب دیکھیں گے‘‘
( ٹیلی ویژن پر پیش کردہ اسٹریٹ ڈراموں کا مجموعہ)
مصنف: خالد معین
زیرِ اہتمام: اردو دنیائے ادب
صفحات:208
قیمت:200

یہ اپنی نوعیت کا منفرد اور پہلا تجربہ ہے کہ پاکستان میں اسٹریٹ تھیٹر ٹیلی ویژن پر سجا۔ یوں پاکستان میں پہلی مرتبہ کسی ٹی وی چینل پر اسٹریٹ پلیز کی عکاسی کرکے نشر کی گئی اور یہ پلیز لکھنے کا منفرد اعزاز خالدمعین کے حصے میں آیا۔ بلاشبہہ یہ ان کی ایک بڑی کام یابی ہے۔ معروف شاعر، نثرنگار اور صحافی خالد معین کی انہی اسٹریٹ پلیز پر مشتمل یہ کتاب جہاں سماج کے مختلف کرداروں اور واقعات کو ہمارے سامنے رکھتی ہے، وہیں خالد معین نے اپنی کہانیوں اور اس انوکھے تجربے سے متعلق ’اسٹریٹ تھیٹر: چند معروضات اور اندر کا حال‘ کے عنوان سے تفصیل بھی بیان کی ہے۔

اسی مضمون میں خالد معین نے مختلف چینلز سے اپنی وابستگی اور ہم کاروں سے متعلق نہایت دل نشیں پیرائے میں اظہارِخیال کیا ہے۔ یہ کہانیاں معاشرتی مسائل، انسانی رویوں، رہن سہن اور مختلف طبقات سے وابستہ لوگوں کی فکر اور ان کے کردار کی عکاس ہیں۔ یہ تمام وہ کردار ہیں جو ہمارے اردگرد ہی سانس لیتے ہیں اور ان سے ہمارا واسطہ بھی پڑتا ہے۔

خالد معین نے بعض کہانیوں میں منظر کی مناسبت سے نظموں کے ٹکڑے اور مختلف اشعار بھی شامل کیے ہیں جو موضوع اور کہانی کے مجموعی تأثر کو بڑھاتے ہیں۔ یہ کہانیاں محض تخیل اور تصور کا نتیجہ نہیں بلکہ مصنف کے گہرے مشاہدے اور بعض تجربات کا عکس ہیں۔ یہ ایسے کردار اور واقعات ہیں جنہیں ہم کسی طور نظرانداز نہیں کرسکتے۔ ’’اب سب دیکھیں گے‘‘ کا دیباچہ زیب اذکار حسین نے لکھا ہے۔ اس سے قبل ہم عصر ادب اور شخصیات پر خالد معین کے مضامین کا مجموعہ ’’رفاقتیں کیا کیا‘‘ شایع ہو چکا ہے جسے اپنے انتخاب اور طرزِتحریر کی وجہ سے بے حد پزیرائی ملی۔ خالد معین اپنے چار شعری مجموعوں بے موسم وحشت، انہماک، پسِ عشق اور ناگہاں پر بھی ادبی حلقوں سے داد سمیٹ چکے ہیں۔

معراج محمد خان
(بائیں بازو کی آخری شمع بھی گُل ہوئی)
مرتب: رشید جمال
صفحات: 134، قیمت:400 روپے
ناشر: لوح ادب پبلی کیشنز، کراچی


ملکی سیاست میں ہمیں شرافت کی ’معراج‘ سابق نگراں وزیراعظم معراج خالد میں دکھائی دیتی ہے، تو شرافت اور جدوجہد کی ’معراج‘ کو ہم بجا طور پر معراج محمد خان کے نام کر سکتے ہیں، جنہوں نے اپنی سیاست کے روز اول سے اپنے نظریات اور اصولوں پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ اپنی جدوجہد میں کبھی اقتدار اور اختیار کو منزل نہ جانا اور ہمیشہ ہی مشکل اور کٹھن راہوں پہ گام زن رہے۔

نصف صدی سے زائد عرصے سماجی مساوات کے لیے جدوجہد کرنے والے اِس انداز میں اس دنیا سے کوچ کیے کہ مرتب انہیں بائیں بازو کی ’آخری شمع‘ کہنے پر مجبور ہوا اور نذیر ناجی کو اب بیتے زمانے کی نظریاتی شناختیں کسی ہیولے کی صورت دکھائی دینے لگیں۔۔۔ معراج محمد خان پر ممتاز صحافی احفاظ الرحمن کے یہ الفاظ صادق آتے ہیں کہ ’ایسی محبت سب کو نصیب نہیں ہوتی!‘ اس کتاب میں معراج محمد خان کی رحلت پر لکھے گئے مختلف مضامین یک جا کیے گئے ہیں، اِس کے علاوہ درجن بھر صفحات ان کی زندگی کے تاریخی اور یادگار مناظر کے لیے مختص ہیں، جس میں سیاسی جدوجہد اور قید وبند سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر اور مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ تصاویر قابل ذکر ہیں، سرورق پہ معراج محمد خان کی جدوجہد کا ایک کٹھن لمحہ تصویر کیا گیا ہے، جب کہ کتاب میں تین انگریزی تحاریر سمیت کُل 25 مضامین جمع کیے گئے ہیں۔

شناخت نامہ
مصنف: اعظم معراج
صفحات: 396، قیمت: 900 روپے
ناشر: معراج پبلی کیشنز، کراچی


اعظم معراج جائیداد اور زمینوں کی خریدوفروخت کے شعبے میں آئے، تو جہاں اس شعبے کی باقاعدہ تعلیم کے حوالے سے کام کیا، وہیں سماج میں مسیحی برادری کے بیگانے پن کو دور کرنے کی خاطر بھی وہ کافی فعال ہیں۔ اس مقصد کے لیے مسیحی طالب علموں سے براہ راست مکالموں کا راستہ اختیار کیا، ان کی ذہن سازی کے لیے کتب فراہم کیں، مایوس کُن نتائج کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری، گویا وہ اپنے نام کے مطابق اپنی جدوجہد کی ’معراج‘ (بلندی) کی طرف گام زن رہے۔

زیرتبصرہ کتاب بھی اسی جدوجہد کا ثمر ہے، جس کے ابتدائی 179 صفحات میں انہوں نے تحریک پاکستان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مسیحیوں کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ سائمن کمیشن، نہرو رپورٹ، اور قرارداد پاکستان سے لے کر مغربی پنجاب کو پاکستان میں شامل کرنے کے لیے مسیحیوں کے ووٹوں کے حوالے سے اہم مواد کتاب کا حصہ ہے، ساتھ ہی تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے نمایاں مسیحیوں پر بھی مضامین شامل ہیں۔ کتاب کے اگلے صفحات میں مسلح افواج میں موجود نمایاں مسیحیوں کا تذکرہ شامل کیا گیا ہے۔

بحری، بری اور فضائی دستوں اور دہشت گردی اور دشمنوں کے خلاف مختلف محاذوں پر اپنی جانیں دینے والے مسیحیوں کے حوالے سے معلومات دی گئی ہیں۔ کتاب کا یہ حصہ دراصل ان کی گزشتہ کتاب ’سبز وسفید ہلالی پرچم کے محافظ و شہدا‘ پر مشتمل ہے، جس میں تین سال کی عرق ریزی کے بعد اضافے کیے گئے ہیں، مصنف کا دعویٰ ہے کہ دفاع پاکستان کے حوالے سے 90 سے 95 فی صد تک مسیحیوں کی معلومات اس کتاب میں شامل ہوگئی ہیں۔

روڈ ٹو موہن جو دڑو
مصنف: ناہید سلطان مرزا
صفحات:371، قیمت: 750 روپے
پیش کش: رائل بک کمپنی


تاریخی ناول نگاری کی راہی ناہید سلطان کا یہ تیسرا ناول ہے، اس سے پہلے ’دشت خواب کے مسافر‘ عراق، جب کہ ’آنکھیں آہن پوش‘ ایران کے پس منظر میں تھا۔ زیرتبصرہ ناول کے لیے انہوں نے 1920ء میں دریافت ہونے والے سندھ کے مدفون شہر ’موہن جو دڑو‘ کا چناؤ کیا۔

اس ناول میں قدیم تہذیب کی آواز سنائی دیتی ہے، کہیں یہ شہر بابل ونینوا اور مصری تہذیب سے لے کر وہ طوفان نوح کے حوالے سے گویا ہوتا ہے، تو کہیں وہ خود کو ’مُردوں کا ٹیلا‘ کہنے پر شکوہ کرتا ہے اور کہیں اس کی آہ وبکا نمایاں ہوتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ دنیا میں بہت برے حالات بیتے، مگر مجھ جیسا دکھ کسی کے حصے میں نہیں آیا۔ ناول میں کہیں سوال اٹھتے ہیں کہ آخر اس قدیم شہر نے کس کے خطرے کی وجہ سے اونچی دیوار قائم کی تھی؟ ناول میں یہاں کے حقیقی باشندوں کی پرچھائیں بھی دکھائی دیتی ہے، وہ کردار جن کی خبر ریت سے برآمد ہونے والی مختلف چیزوں سے ملی، وہ جیتے جاگتے در آتے ہیں۔ اس ناول کی اٹھان 1980ء سے شروع ہو کر آج کے زمانے تک پھیلتی چلی جاتی ہے۔

ممتاز ادیب و دانش وَر شکیل عادل زادہ اسے ایک مکمل ناول اور اہم دستاویز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس طرح کی کاوشوں میں بعض اوقات پس منظر اور کہانی کے تقاضوں میں توازن رکھنا مشکل ہوتا ہے، لیکن اس ناول میں وہ پُرلطف کہانی کو حقائق سے مرصع پاتے ہیں۔ پروفیسر سحر انصاری کہتے ہیں کہ یہ ناول عام معنوں میں تاریخی ناول نہیں، بلکہ تاریخی شعور کا ناول ہے۔ یہ ناول ایک معاصر میں قسط وار شایع ہوچکا ہے، لیکن کتابی شکل دینے کے لیے تفصیلاً اس کے مندرجات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مختلف عنوانات تلے بٹے ہوئے ناول میں فہرست کی کمی محسوس ہوتی ہے، امید ہے آیندہ اشاعت میں اسے دور کر لیا جائے گا۔

آتش زیرپا
مصنف: اصغرخان
صفحات:320، قیمت: 600 روپے
ناشر: رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی
جو بھی دیکھا وہ کر دیا تحریر
کیا کریں ہم سے شاعری نہ ہوئی

یہ اصغرخان کے کلام کی اشاعت ثانی کا تذکرہ ہے، اس مجموعے کے ابتدائی 64 صفحات 13 مشاہیر کے تبصروں اور آرا کے علاوہ مصنف کے دو تعارفی مضامین پر مشتمل ہے، بیش تر حصہ غزلیات پر محیط ہے، جب کہ کچھ نظمیں، گیت اور نظمیہ نثر بھی شامل کی گئی ہے، آخر میں کچھ کلام ’ہائیکو نما‘ اور ’متفرقات‘ کے عنوان تلے بھی استوار ہے۔

پہلا تبصرہ ممتاز شاعر جون ایلیا کا ہے کہ ’شاعری سے ان کا سروکار ایک سچا سروکار ہے اور یہ کوئی سرسری بات ہر گز نہیں۔ معراج جامی رقم طراز ہیں کہ ’خان صاحب کی نثر بھی ان کی شاعری کی طرح بارہ مسالے کی چاٹ ہے۔‘ اصغرخان کی شاعری کے موضوعات ہجر ووصل کے روایتی موضوعات کے ساتھ ساتھ حق گوئی اور سچائی پر جمے رہنے پر بھی اُکساتے ہیں؎

راہ زن کو نہ رہ نما کہنا
حبس کو مت کبھی ہوا کہنا

کتاب کے فلیپ کے علاوہ پچھلے سرورق پر بھی مصنف کی تصویر کے ساتھ ان کے مختلف اشعار کندہ کیے گئے ہیں۔

جستہ برجستہ
مصنف: منصور الظفر داؤد
صفحات: 161، قیمت: درج نہیں
ناشر: ماجد پرنٹر، کراچی


یہ کتاب مشاہدات، تجربات، احساسات اور خیالات کا مجموعہ ہے، جس میں یک سطری خیالات اور چند سطری بہت سی تحاریر استوار ہیں۔ کہیں اداسی ہے، تو کہیں ہلکے پھلکے چٹکلے۔ کہیں گہرا طنز اور درد دہے، تو کہیں زندگی کے تلخ وترش تجربات، جن پر مصنف کی ذات، فکر اور زوایہ حاوی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ سِکھوں پر لطیفے بنتے ہیں، لیکن کبھی کسی سکھ کو بھکاری نہ دیکھا ہوگا، وہ یادوں کو پیتل کے برتن سے تشبیہہ دیتے ہیں کہ مانجھتے رہیں، تو چمکتی رہتی ہیں نہیں تو کائی جم جاتی ہے۔

مصنف کی زندگی کے پرسوز واقعات، محرومیاں اور کام یابیاں بھی مذکور ہیں۔ بچپن اور بیتے دنوں کی باتیں اور ملنے، بچھڑنے والوں کا بیان ہے، تو کہیں سماجی رویوں، رشتوں اور مختلف موضوعات پر بیان دکھائی دیتا ہے، تو کہیں ان کے ذاتی خیالات چھوٹی چھوٹی سرخیوں تلے ڈھلے دکھائی دیتے ہیں۔ بے حسی کے معنی تب منکشف ہوئے، جب دسمبر 1986ء میں اورنگی ٹاؤن کراچی میں بھیانک خوں ریزی میں 50 جانیں تلف ہوئیں، لیکن ان کے ساتھی نے اس کے بہ جائے سمیتا پاٹل کے آنجہانی ہونے کی خبر کو اہمیت دی۔ کتاب کو ساتھ ہی مختلف تصاویر اور خاکوں سے بھی آراستہ کیا گیا ہے۔ طویل چیزیں پڑھنے میں دقت محسوس کرنے والے قارئین یا تنگیٔ وقت کا شکوہ کرنے والوں کے لیے یہ کتاب خاص تحفہ ہے۔

زندہ کتابیں
’’زندہ کتابیں‘‘کے زیرعنوان پیپربیک کتابی سلسلے کے تحت شایع ہونے والی ان نایاب کتابوں کو راشد اشرف نے مرتب کیا ہے اور ان کے ناشر بزم تخلیقِ ادب، کراچی ہیں۔

بزم داغ (یادداشتیں)
مصنف: سید رفیق مارہروی،صفحات:224، قیمت:300روپے

یہ کتاب 1956ء میں لکھنؤ سے منصۂ شہود پر آئی۔ یہ دراصل مولوی افتخار عالم اور مولانا احسن مارہروی کے لکھے گئے روزنامچوں سے ماخوذ ہے، جس میں نواب مرزا خان المعروف داغ دہلوی کے حوالے سے یادداشتیں جمع کی گئی ہیں۔ رفیق مارہروی کے بقول ’کتاب گو مختصر ہے، لیکن بعض ایسے متنوع بیانات وحالات پر حاوی ہے کہ ان کے ملاحظے کے بعد حضرت داغ کی پوری زندگی سامنے آجاتی ہے۔‘‘ اس کی ازسرنو ترتیب واشاعت کا سہرا راشد اشرف کے سر ہے، جو اس سے پہلے سیکڑوں نایاب کتب کے عکس نیٹ پر مشتہر کر چکے ہیں۔

اب بہ عنوان ’زندہ کتابیں: پیپر بیک کتابی سلسلہ‘ پر مستعدی سے جتے ہوئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب اسی سلسلے کی پہلی کتاب ہے۔ نیاز فتح پوری اس کتاب کے ’افتتاحیہ‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’اگر یہ یادداشتیں منظر عام پر نہ آتیں، تو شاید ہم کبھی ان حالات سے واقف نہ ہو سکتے، جن کا علم داغ اور داغ کی شاعری سمجھنے کے لیے ایک مورخ ونقاد دونوں کے لیے ضروری ہے۔‘‘ ازسرنو اشاعت سے نہ صرف یہ نایاب کتاب آج کے قاری کی دستِ رس میں آئی، بلکہ اس کے اختتام میں داغ پر لکھا گیا نوح ناروی کا خاکہ اور تمکین کاظمی کا مضمون بھی باذوق قارئین تک پہنچا۔ تاہم اس قدر قیمتی کتابوں کی تعداد اشاعت بھی 500 سے گھٹ کر 300 تک ہو جانا ایک المیے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

لندن سے آداب عرضاور دیس سے باہر
مصنف: آغا محمد اشرف،صفحات: 315، قیمت: 400 روپے


یہ دراصل 1944ء میں شایع ہونے والی دو کتابیں ہیں، جو بالترتیب 19 اور 20 مضامین پر مشتمل ہیں۔ سلسلہ وار ’زندہ کتابیں‘ میں اس کی ترتیب دوم اور سوم ہے۔ اِن کتابوں کے مصنف آغا محمد اشرف، مولانا محمد حسین آزاد کے پوتے ہیں، آغا اشرف حیران کُن حافظے کا عالَم یہ تھا کہ خطبے اور مجالس مع عربی ایک بار سن کر گھر آکر لفظ بہ لفظ دُہرایا کرتے۔ 1935ء میں ہندوستان میں ریڈیو شروع ہوا، تو پروگرام ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ بی بی سی اردو سے وابستہ ہوئے، تو مشہور زمانہ پروگرام ’سیربین‘ کی داغ بیل ڈالی، یہ نام بھی انہی کا دیا ہوا ہے۔ 1940ء میں بی بی سی اردو سے ’لندن سے آداب عرض‘ شروع کیا، دوسری جنگ عظیم کے سائے میں رقم یہ تحاریر مصنف کے الفاظ میں یہ دعویٰ ہر گز نہیں کہ اس جنگ کی تاریخ ہیں، لیکن وہ انہیں ایک جنگی پرچہ نویس کی ڈائری کا درجہ دیتے ہوئے اپنی رائے کے غلط ہونے کا امکان باقی رکھتے ہیں کہ اس کا تعین مستقبل کا مورخ کرے گا۔

ایک بار زیڈ اے بخاری ریڈیو پر ان سے مِٹی کے بہ جائے مَٹی ادا کرنے پر مُصر ہوئے، تو آغا اشرف استعفا دے آئے۔ کتاب میں جہاں یہ واقعہ رقم ہے، اس سے دو صفحہ پیشتر دو جگہ لفظ منبر کو ’ممبر‘ لکھا ہوا دیکھنا خاصا گراں گزرتا ہے۔ دوسری کتاب ’دیس سے باہر‘ کے مضامین میں ولایت کے رنگ ڈھنگ اور دیسی فکر کا سمبندھ بہت خوب ہے۔ کہیں دیسی وبدیسی شخصیات کا تذکرہ ہے، تو کہیں یادداشتوں کا سلسلہ ہے، جس پر ایک صداکار کے تجربات اور اُردو کے حوالے بھی در آتے ہیں۔ پوری کتاب میں بہت سے مضامین کے آخر میں تاریخ نشر بھی درج کی گئی ہے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

گلبدین حکمت یار کی افغان سیاست میں واپسی

$
0
0

یہ افغانستان کا دارالحکومت کابل ہے، صدارتی محل میں ریڈکارپٹ استقبال کی تیاریاں مکمل ہیں،افغان فوج کا حفاظتی دستہ پوری طرح مستعد کھڑا ہے، اسی اثنا میں ایک طرف سے درازقامت،سفید ریش کے حامل گلبدین حکمت یار نظر آئے، ان کے دائیں طرف افغان صدر اشرف غنی اور سابق صدر حامدکرزئی، بائیں طرف سابق مجاہد رہنما استاد عبدالرب رسول سیاف اور ملک کے چیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ ہیں۔ حزب اسلامی کے سربراہ حکمت یار کا جیسا استقبال ہوا، گزشتہ تین عشروں کے دوران کسی افغان رہنما کا نہیں ہوا۔

صدارتی محل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گلبدین حکمت یار نے کہا:’’میرے لیے سب سے اہم معاملہ جنگ کا خاتمہ اور ملک کو بحران سے نکالنا ہے‘‘۔ انھوں نے طالبان پر زور دیاکہ’’ وہ امن عمل کا حصہ بن جائیں کیونکہ  وقت آگیا ہے کہ افغانستان کی یکجہتی، امن اور سلامتی کے لیے مل کر کام کیا جائے‘‘۔

حکمت یار نے صدارتی محل میں اپنے اعزاز میں منعقد تقریب سے خطاب کا آغاز روایت سے ہٹ کے کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنے خطاب کا آغاز اپنے میزبانوں،افغان صدر اور دیگر اہم شخصیات کا  نام لے کر نہیں کریں گے۔ انھوں نے اس کا سبب نہیں بتایا تاہم بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے افغان صدر کو مخاطب نہ کرکے پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ موجودہ نظام سے مطمئن نہیں۔ انھوں نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ افغان لویہ جرگہ میں افغانستان کے لیے اصل اسلامی آئین پیش کریں گے۔

افغان صدر اشرف غنی نے حکمت یار کے سیاسی عمل میں شریک ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ اس پیش رفت سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان میں امن عمل کے ذریعے شورش ختم ہونے کے قوی امکانات ہیں‘‘۔اس موقع پر حکمت یار نے کہا کہ انہیں ملک کا نیا آئین قبول ہے  لیکناس میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پارلیمانی نظام مناسب نہیں ہے۔

انہوں نے اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی قومی متحدہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ حکمت یار کے بقول: ’’یہ حکومت کام نہیں کر رہی ہے اور ان دونوں میں کسی ایک کو مستعفی ہو جانا چاہیے‘‘۔ملک کے موجودہ حکومتی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے حکمت یار کا کہنا تھا: ’’ملک کی موجودہ صورتحال میں یہ مناسب نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے واضح کیا کہ وہ کوئی عہدہ حاصل نہیں کرنا چاہتے۔ اس موقع پر انہوں نے بیرون ممالک موجود افغان باشندوں سے اپیل کی کہ وہ وطن واپس آجائیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی اپنی فیملی سمیت ہی افغانستان لوٹے ہیں۔

یادرہے کہ امریکا نے حکمت یار کے ساتھ افغان حکومت کے معاہدے کا خیر مقدم کیا تھا، واشنگٹن انتظامیہ کے مطابق حکمت یار طالبان کے ساتھ مکالمہ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

نوّے کی دہائی کے وسط میں جب افغانستان پر طالبان قابض ہورہے تھے، انھوں نے اپنی راہ میں آنے والے ہر فرد کے سامنے دو ہی آپشنز رکھے کہ وہ ملاعمر کی اطاعت کرے بصورت دیگر ذبح یا گولیوں سے چھلنی ہونے کے لئے تیار ہوجائے۔ ایسے میں حزب اسلامی کے کمانڈروں نے تصادم کی راہ اختیار کرنے کی بجائے طالبان میںشامل ہونا مناسب سمجھا۔ جب سن 2001ء میں غیرملکی افواج نے افغانستان پر قبضہ کیا تو گلبدین حکمت یار کے بعض ساتھی کرزئی حکومت کا حصہ بن گئے۔باقی ماندہ ساتھیوں کے ساتھ حکمت یار غیرملکی افواج سے معرکہ آرا ہوئے۔

انھیں بعض اضلاع میں اثر و رسوخ حاصل تھا۔ بعض حلقے کہتے ہیں کہ گلبدین حکمت یار نے طالبان کے ظہور کے بعدایک خاص حکمت عملی کے تحت اپنے ساتھیوں کو طالبان تحریک کا حصہ بنایا، اسی طرح حامدکرزئی کی ٹیم میں بھی اپنے ساتھیوں کو شریک کیا۔ حکمت یار کے انٹیلی جنس سربراہ وحدی اللہ صباون نے 2002 ء ہی سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ خالد فاروقی اور عبدالہادی ارغندوال جیسے رہنماؤں نے اسے کابل میں مستحکم کیا اور بعد میں کابینہ کا حصہ بھی بنے۔حزب اسلامی کے ذرائع کہتے ہیں کہ گلبدین حکمت یار مخالفین کے لئے میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ افغانستان میں رونما ہونے والے تازہ واقعات سے ثابت ہوا کہ حکمت یار نے  کامیاب حکمت عملی اختیار کی تھی۔

اب وہ اپنی اس مخصوص حکمت عملی کا ثمر سمیٹ رہے ہیں۔ طالبان کی صفوں میں شامل حزب اسلامی کے لوگ واپس اپنی اصل جماعت کا حصہ بن رہے ہیں۔ حزب اسلامی کے بدترین مخالفین کا بھی کہناہے کہ حکمت یار بڑی قوت کے ساتھ واپس آئے ہیں، انھوں نے غیرمعمولی طور پر بڑا شو آف پاور کیاہے۔ اب حزب اسلامی کے اندر پارٹی انتخابات ہوں گے اور پھر اگلے عام انتخابات کا معرکہ لڑنے کی تیاری کی جائے گی۔ اس تناظر میں دیکھاجائے تو اگلے عام انتخابات میں گلبدین حکمت یار کی جماعت ایک بڑی پارٹی کی صورت میں پارلیمنٹ میں موجود ہوگی۔

گلبدین حکمت یار جس معاہدے کے تحت کابل پہنچے ہیں، اسے گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران میں ہونے والی سب سے بڑی پیش رفت قراردیاجارہاہے۔ یہ معاہدہ حزب اسلامی کے حوالے سے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ حکمت یار کی جماعت اپنی بھرپور قوت کے ساتھ سیاسی میدان میں اتر ی ہے، گزشتہ برس ستمبر میں جب یہ معاہدہ ہواتھا، اس کے فوراً بعد صوبہ ہرات میں ہزاروں افراد نے ایک شمولیتی اجتماع کی صورت حزب اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیاتھا۔اگرچہ اس کے بعد ایسا بڑا اجتماع منعقد نہ کیاگیا تاہم لوگوں کو اپنے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی مہم پورے زوروشور سے جاری رہی۔

آج کا گرما گرم سوال یہ ہے کہ گلبدین حکمت یار کی کابل واپسی کس قدر اہم ہے؟

حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ کابل میں واقع صدارتی محل میں بڑی عزت و احترام کے ساتھ داخل ہوئے تو ایک صحافی نے تبصرہ کیا کہ تقریبًا 70 سالہ حکمت یار کافی تازہ دم دکھائی دے رہے تھے، وہ کسی اچھی جگہ روپوشی کے نو سال گزار کر آئے ہیں۔ وہ اتنا طویل عرصہ کہاں تھے کسی کو نہیں معلوم لیکن ان کی واپسی کا سلسلہ اسلام آباد سے شروع ہوا۔ اس کا اعلان پاکستان میں افغان سفیر ڈاکٹر عمر ذاخلوال نے ایک ٹویٹ میں کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عمل کا آغاز ایک برس قبل اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر ایک مختصر گفتگو سے ہوا تھا۔ یعنی افغان مصالحتی عمل کی ایک بڑی کامیابی کا آغاز یقیناً پاکستان سے ہوا۔ گلبدین حکمت یار کے رشتہ دار اور جماعتی اراکین اسلام آباد میں کافی عرصہ سے مقیم ہیں،  یقیناً ان ہی کے ذریعے بات چیت شروع ہوئی ہوگی لیکن حکمت یار خود کہاں رہے یہ واضح نہیں۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق سیاسی طور پر حکمت یار کی جماعت کافی منظم رہی اور اپنی حمایت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کی بڑی مثال کابل( غازی سٹیڈیم) میںگزشتہ دنوںمنعقد ہونے والا بڑا استبقالی اجتماع تھا جس سے گلبدین حکمت یار نے خطاب کیا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے طالبان کو اپنا بھائی قراردیا۔ ہزاروں افراد کی جلسے میں شرکت نے کئی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا۔ ان کے مخالف تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اس کی وجہ شاید طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد کسی مضبوط افغان پارٹی کا سامنے نہ آنا ہے۔

کئی امریکی اب یہ غلطی تسلیم کرتے ہیں کہ 2001 میں طالبان کے جانے کے بعد اْنہوں نے شخصیتوں یا جنگی سرداروں کے بجائے سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کی ہوتی تو آج افغانستان میں جمہوریت کی حالت قدرے بہتر ہوتی۔ بہرحال حزب اسلامی کافی ہوشیار ثابت ہوئی۔ جنگی میدان میں موجودگی کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اس نے سیاسی میدان میں اپنی فعالیت بھی برقرار رکھی۔ حکمت یار کی جماعت ایک ایسی افغان جماعت ہے جو نسلی بنیادوں پر قائم نہیں ہوئی بلکہ اس میں تاجک بھی ہیں اور ازبک بھی موجود ہیں حتیٰ کہ اس میں بامیان کے شیعہ لوگ بھی شامل ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے بقول ان کی جماعت کا تعلق ’گراس روٹ‘ سے ہے۔

کابل میں حکمت یار کی آمد پاکستان کے لیے کیسی رہے گی؟

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان کا دوبارہ افق پر آنا پاکستان کے لیے مثبت ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان سے ان کا اب کوئی تعلق ہے یا نہیں اس سے قطع نظر حکمت یار کا انڈیا سے متعلق خصوصاً کشمیر پر ماضی میں موقف کافی سخت ثابت ہوا ہے۔ وہ پاکستان سے جتنے بھی نالاں ہوں کم از کم انڈیا کا ساتھ نہیں دیں گے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ نئے سیاسی منظرنامے میں بھارت بھی گلبدین حکمت یار سے رابطے اور تعلق بنانے کی کوشش ضرور کرے گا۔ تاہم فی الحال پاکستان کی پوزیشن مضبوط دکھائی دیتی ہے۔

مخالفین گلبدین حکمت یار کے بارے میں پراپیگنڈا کررہے ہیں کہ وہ امریکہ اور امریکہ نوازوں سے جاملے ہیں۔ وہ سوال پوچھتے ہیں کہ اگر ان سے تعاون کرناتھا تو پھر کئی برسوں کی مسلح جدوجہد کو کیا نام دیاجائے گا۔حزب اسلامی کے ذرائع کہتے ہیں کہ ان کے سپریم لیڈر کے خلاف یہ پراپیگنڈا جھوٹ کی بنیاد پر گھڑا جارہا ہے۔ جھوٹ کا پول اس معاہدے کے مطالعہ ہی سے کھل جاتاہے جو افغان حکومت اور گلبدین حکمت یار کے درمیان طے پایاتھا۔ معاہدے کے مطابق فریقین(افغان حکومت اور حزب اسلامی) مندرجہ ذیل امور پر متفق ہوئے تھے کہ

٭فریقین اللہ تعالی اور مقدس دین اسلام کی پیروی کریں گے۔

٭ اسلام ہی  فریقین کا نصب العین ہوگا۔

٭ افغانستان کے آئین میں اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دیا جائے گا۔

٭ قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کی جائے گی۔

٭ قانون سب کیلئے برابر ہوگا۔

٭ حزب اسلامی کے کارکنان ہتھیار اپنے پاس رکھیں گے۔

٭القاعدہ اور داعش سے حزب اسلامی کوئی تعلق نہیں رکھے گی۔

٭ تمام قوموں کے حقوق تسلیم کئے جائیں گے۔

٭حزب اسلامی کے سربراہ اور رہنماؤں پر ماضی کے حوالے سے کوئی مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔

٭ حزب اسلامی کے تمام گرفتار کارکنان کو رہا کردیا جائے گا۔

٭ حزب اسلامی کے جو رہنما اور کارکن جیلوں میں ہیں انھیں رہا کرکے سرکاری نوکریاں دی جائیںگی۔

٭ حزب اسلامی کے ان تمام لوگوں کو جنھیں روسی جارحیت کے دور میں نوکریوں سے نکالا گیا تھا اگر ان کے پاس نوکری کے ثبوت ہیں تو ریٹائرمنٹ دی جائے گی اور پنشن دی جائے گی ، جن کی عمریں نوکری کرنے کی ہوںگی انھیں سرکاری نوکری پر بحال کیا جائے گا۔

٭ افغان حکومت پاکستان اور ایران میں موجود افغان مہاجرین کو واپسی کیلئے تمام سہولیات فراہم کرے گی نیز افغانستان میں ان کی جائیدادوں پر قابض افراد کو بے دخل کرکے انہیں دوبارہ زندگی شروع کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔

٭ حزب اسلامی کے تمام رہنماؤں کو افغانستان لانے کی تمام ذمہ داری افغان حکومت کی ہوگی۔

٭ حزب اسلامی کو مکمل سیاسی آزادی ہوگی۔

٭ افغانستان میں مکمل امن کیلئے دونوں فریق اپنی بھرپور کوشش کریں گے اور افغانستان کی تقسیم کو ناکام بنایا جائے گا۔

٭ افغان حکومت اقوام متحدہ کی جانب سے حزب اسلامی پر پابندیاں ختم کرائے گی۔

اس معاہدے سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ حزب اسلامی افغانستان کے منظرنامہ سے کیا کچھ حاصل کرنے جارہی ہے۔ گلبدین حکمت یار نے واضح طورپر اعلان کردیاہے کہ وہ حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے، وہ افغان حکمران طبقہ سے دور کھڑے ہیں،وہ اپنا الگ ایجنڈا لے کر سیاسی میدان میں اترے ہیں۔ جس طرح غیرمعمولی قوت کے ساتھ وہ سامنے آئے ہیں، اس سے ظاہر ہوتاہے کہ آنے والے دنوں میں جہاں انھیں افغان عوام کی طرف سے مزید پذیرائی ملے گی وہاں ان کے خلاف امریکی اور افغان حکومت کی طرف سے بڑے چیلنجز بھی کھڑے کئے جائیں گے۔ مغرب قوتیں اور ان کے حامی ایک اسلام پسند رہنما کو آسانی سے اقتدار کی طرف نہیں بڑھنے دیں گے۔

The post گلبدین حکمت یار کی افغان سیاست میں واپسی appeared first on ایکسپریس اردو.


ہندی سنیما کا ایک بے مثال بُرا آدمی پران

$
0
0

پران کا پورا نام پران کشن سکند تھا۔ وہ بولی وڈ کے ایسے بُرے آدمیوں (ولنز) میں شامل تھے جنہوں نے بہ طور ولین اس انڈسٹری پر اپنا سکہ ایسا جمایا کہ ساری دنیا میں دھوم مچادی۔ ان کا چہرہ، آنکھیں اور چلنے کا انداز دیکھ کر بعض فلم بین تو ان سے ڈرتے تھے۔ ان کا انداز ایک خطرناک ولین والا تھا۔

پران 12فروری 1920کو پیدا ہوئے تھے اور نمونیے کی بیماری میں مبتلا ہوکر 12جولائی2013ء کو 93 سال کی عمر میں ممبئی، مہاراشٹر میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔

٭نام اور شناخت:
اداکار پران کشن سکند فلمی دنیا میں صرف پران کے نام سے جانے جاتے تھے۔ عام لوگوں کو ان کا اصل اور پورا نام معلوم ہی نہیں تھا۔ پران 1940-47کے درمیان ایک فلمی ہیرو کے طور پر جلوہ گر ہوئے تھے اور اسی دور میں انہوں نے فلمی ولین کے کردار بھی نبھائے، لیکن بہ طور فلمی ہیرو وہ کام یاب ثابت نہیں ہوسکے۔ شاید ان کا انداز، ان کا چہر ایسا نہیں تھا جس سے وہ فلمی ہیرو لگتے۔ وہ 1940کے عشرے سے لے کر 1990کے عشرے تک ہندی سنیما کے ولین بنے رہے اور اس حیثیت میں انہوں نے دھوم مچادی تھی کہ ان کی شکل دیکھ کر فلم بین اور خاص طور سے خواتین ان سے بہت خوف کھاتی تھیں۔ وہ ایک بہت بڑے کیریکٹر ایکٹر بھی تھے۔

٭سپورٹنگ ایکٹر:
1948سے لے کر 2007کی مدت کے دوران پران نے سپورٹنگ ایکٹر کے کردار بھی بڑی خوبی سے نبھائے۔

پران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک طویل اور بے مثال کیریر کے مالک تھے، انہوں نے اپنی پوری زندگی میں 350سے زیادہ فلموں میں کام کیا تھا۔ اور وہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک فلمیں تھیں جنہیں اس دور میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔

٭پران کی مقبول فلمیں:
پران نے سب سے پہلے خاندان (1942)نامی فلم میں لیڈنگ رول کیا ، اسی طرح انہوں نے پلپلی صاحب(1954) میں اور اس کے بعد ہلاکو (1956) میں بھی نمایاں کردار ادا کرکے خود کو ایک ورسٹائل اداکار کے طور پر منوالیا تھا۔ 1958 میں آنے والی فلم ’’مدھومتی‘‘ میں پران نے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس فلم کے ہیرو دلیپ کمار تھے اور ہیروئن وجینتی مالا تھیں۔

یہ اپنے دور کی بے پناہ مقبول فلم ثابت ہوئی تھی، اس کے علاوہ انہوں نے 1960 میں جس دیش میں گنگا بہتی ہے (راج کپور) 1967میں اپکار، 1965میں شہید، 1970میں پورب اور پچھم، 1967میں رام اور شیام، 1969 میں آنسو بن گئے پھول، 1970میں جانی میرا نام،1972 میں وکٹوریہ نمبر 203، 1972میں بے ایمان، 1973میں زنجیر، 1978 میں ڈان، 1977میں امر اکبر انتھونی اور 1984میں دنیا جیس متعدد مشہور و معروف فلموں میں کام کرکے اپنی فن کاری کے جوہر بھی دکھائے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وہ فلمیں تھیں جنہیں پران نے اپنی اداکاری سے لازوال بنادیا۔ ان فلموں میں ان کے بُرے آدمی کے کردار کو بھی بہت پسند کیا گیا اور اچھے آدمی کے کردار کو بھی۔ انہوں نے دونوں طرح کے رولز سے اپنے کرداروں کو جان بخش دی تھی۔ یہ ان کے فن کی خاص بات تھی کہ وہ ہر کردار میں جان ڈال دیتے تھے۔

٭ایوارڈز اور اعزازات:
اداکار پران نے اپنے کیریئر کے دوران متعدد ایوارڈز وصول کیے۔ انہوں نے 1967, 1969اور 1972ء میں فلم فیئر ایوارڈز حاصل کیے۔ 1997میں انہیں فلم فیئر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا۔ 2000 میں اداکار پران کو اسٹارڈسٹ نے ’’ولین آف دی ملینیم ‘‘ کا ایوارڈ بھی دیا تھا جو بلاشبہہ ان کی فن کارانہ صلاحیتوں کا اعتراف تھا۔2001 میں آرٹس کے لیے ان کی بے مثال خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں انڈیا کے پدم بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ 2013میں پران کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ بھی دیا گیا جو سنیما اور فلموں کے لیے انڈین حکومت کا سب سے بڑا قومی ایوارڈ ہے۔

2010میں انہیں سی این این کی 25 بہترین اور آل ٹائم ایشیائی اداکاروں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا۔

٭بیماری اور دیہانت:
اداکار اور ولن پران 12جولائی 2013کو طویل عرصہ تک نمونیہ کی جان لیوا بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد 93 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ان جیسا ولین شاید بولی وڈ میں صدیوں نہ پیدا ہوسکے۔

٭پیدائش اور تعلیم:
اداکار پران 12فروری1920کو پرانی دہلی کے ایک علاقے بلی ماران کے ایک دولت مند پنجابی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کیول کرشن سکند ایک سول انجینئر تھے اور سرکاری ٹھیکے لیا کرتے تھے۔ ان کی ماں کا نام رامیشوری تھا۔ تعلیم کے شعبے میں پران نے بڑی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، وہ بچپن سے ہی میتھس (ریاضی) میں ماہر تھے اور اس سبجیکٹ میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ ان کے والد اکثر ملازمت کے سلسلے میں گھر سے باہر رہتے تھے۔ اس لیے پران کو متعدد جگہوں سے تعلیم حاصل کرنی پڑی جن میں دہرہ دون، کپورتھلہ، میرٹھ اور اناؤ (یوپی) شامل ہیں۔ رام پور کے حامد اسکول سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ دہلی میں بہ طور پروفیشنل فوٹوگرافر کام کرنے لگے تھے۔ بعد میں انہوں نے شملہ کا سفر کیا اور وہاں رام لیلا کے میلے میں سیتا کا کردار بھی نبھایا تھا۔

٭لاہور اور بمبئی کی فلمیں:
پران نے 1942سے1946کے دوران لاہور میں لگ بھگ 22 فلموں میں کام کیا تھا جن میں سے 18فلمیں 1947تک ریلیز ہوگئیں۔ بعد میں انڈیا پاکستان کے تقسیم کے باعث پران کے کیریر کو وقتی طور پر بریک لگا، پھر وہ لاہور سے بمبئی چلے گئے اور جہاں انہوں نے حصول معاش کے لیے بھی کافی جدوجہد کی اور اپنے قدم جمانے کے لیے بھی بہت کچھ کام کیے، انہوں نے ایک ہوٹل میں بھی کام کیا، پھر 1948میں انہیں اداکاری کا موقع مل گیا۔

٭بمبئی کی فلم نگری میں:
بمبئی کی فلم نگری میں انہیں کام کا موقع ایسے ملا کہ سعادت حسن منٹو اور اداکار شیام کی مدد سے انہیں ’’ضدی‘‘ فلم میں کام کرنے کا موقع مل گیا، جس میں لیڈنگ رول دیوآنند اور کامنی کوشل نے کیے تھے۔ اس فلم کے ذریعے بمبئی میں پران کے کیریئر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ پہلے ان کی فلم ضدی اور پھر بڑی بہن نے بھی کام یابی حاصل کی۔ یہیں سے انہوں نے اپنے نئے دور کا آغاز کیا جس میں وہ ایک بہت بڑے ولین بن کر منظرعام پر آنے والے تھے۔ پران نے بہ طور ولین ایک خاص اسٹائل اپنایا تھا، وہ سگریٹ نوشی کرتے ہوئے منہ سے دھوئیں کے مرغولے نکالتے تھے۔

یہ اسٹائل بہت مقبول ہوا۔ بعد میں انہوں نے دلیپ کمار، دیوآنند اور راج کپور کے ساتھ بھی بہ طور ولین اپنی اداکارنہ صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور ہر فلم میں اسی طرح سگریٹ کے مرغولے چھوڑتے ہوئے دکھائی دیے۔ دلیپ کمار کی فلموں، آزاد، دیوداس، مدھومتی، دل دیا درد لیا، رام اور شیام اور آدمی میں پران کی منفی اداکاری بہت زیادہ پسند کی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی فلموں میں زیادہ تر پران نے منفی رول کیے، مگر ایک حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ اپنے اندر کے ولین کو جس طرح فلم بینوں کے سامنے پیش کرتے تھے، اس کی وجہ سے انہیں بہت شہرت بھی ملی اور مقبولیت بھی۔

بعد میں پرانے ہیروز کی جگہ نئے ہیروز آنے لگے، مگر پران ان کے ساتھ بھی برابر کام کرتے رہے۔ پران نے مزاحیہ رول بھی کیے، خاص طور سے کشور کمار اور محمود کے ساتھ ان کی فلموں نے بڑی کام یابی حاصل کی۔ محمود کے ساتھ انہوں نے ’’سادھو اور شیطان‘‘، لاکھوں میں ایک‘‘ اور کشور کمار کے ساتھ ’’چھم چھما چھم‘‘ میں اپنی مزاحیہ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 1969اور 1982کے دوران سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار تھے۔

٭بیماری اور موت:
1998ء میں پران کو 78سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک ہوا جس کے بعد انہوں نے فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا۔ لیکن امیتابھ بچن کے اصرار پر 1996میں انہوں نے ’’تیرے میرے سپنے‘‘ اور 1997ء میں ’’مرتیوداتا‘‘ میں کام کیا۔ ان فلموں میں پران نے امیتابھ بچن کو سہارا دینے کے لیے کام کیا تھا، کیوں کہ اس دور میں امیتابھ بچن اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے تھے۔ اداکار پران نے ہندی سنیما کو اپنی زندگی کے پورے چھے عشرے دیے تھے، اس فلم نگری میں ان کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔ بعد میں لوگوں نے پران کو ’’پران صاحب‘‘ کہنا شروع کردیا تھا۔ پران نے 1945میں شکلا اہلووالیا سے شادی کی تھی۔ ان کے دو بیٹے اروند اور سنیل اور ایک بیٹی پنکی ہے۔ ماضی کا یہ شان دار اداکار آج ہمارے درمیان نہیں ہے، مگر آج بھی اس کی گھن گرج بولی وڈ کے پردوں پر دکھائی دیتی ہے۔

The post ہندی سنیما کا ایک بے مثال بُرا آدمی پران appeared first on ایکسپریس اردو.

ماہِ صیام کا اصل پیغام

$
0
0

حضور سرورِ عالم ؐ کی طرف سے عطا کردہ ضابطۂ حیات کا ہر گوشہ قربتِ خداوندی کا مظہر ہے۔ نیّت میں اخلاص اور گداز ہو تو عبادت کا ہر انداز انسان کو اپنے خالق و مالک کے قریب تر کر دیتا ہے۔ اور بالآخر ایک مقام ایسا بھی آجاتا ہے جب خدائے بزرگ و برتر کا سحاب ِ کرم خود پکار اٹھتا ہے کہ اے میری قربتوں کی انتہا کے طلب گار انسان مجھے اپنی رضا بتا کہ میں تری تمناؤں کا محور بن جاؤں۔

رمضان المبارک کا مہینہ فیوض و برکات اور نجاتِ اُخروی کے اعتبار سے تمام اسلامی مہینوں کا سردار گردانا جاتا ہے۔ جمالِ فاقہ مستی کا شاہ کار یہ بابرکت مہینہ کبھی گرمیوں میں آتا ہے اور کبھی سردیوں میں۔ اگرچہ موسم ِ سرما میں بھی اس کے ثمراتِ دارین کم نہیں ہوتے مگر گرمیوں کے موسم میں ایک مسلمان کے صبر و شکیبائی کی آزمائش کی انتہا ہوتی ہے۔ برداشت، رواداری اور تحمل کی دولت سے اگر ایک مسلمان کا دامن مالامال ہو تو اس فیاضِ فطرت کی عطائیں بھی آبشار کی طرح نازل ہوتی ہیں۔

نعائم ِ فطرت کی اہمیت باقی گیارہ مہینوں سے بڑھ کر واضح تر نظر آنے لگتی ہے۔ اللہ کی رضا ابرِباراں کی طرح برستی محسوس ہوتی ہے۔ معاشرے میں پائے جانے والے عیوب و اسقام سے بچ کر چلنے کا جذبہ آسمان کی رفعتوں کو چُھوتا نظر آتا ہے۔ وسعتِ قلبی اور عالی ظرفی لامحدود ہو کر شش جہت میں پھیل جاتی ہے۔ طاغوتی قوتیں پابہ زنجیر دارالبوار میں پھینک دی جاتی ہیں۔ توحید کبریائی کا ڈنکا چار سُو بجنے لگتا ہے۔

طائرانِ زُہد و اتقا فضائے بسیط میں اُڑان بھرنے لگتے ہیں۔ مسجدوں کی چٹائیاں جبینانِ فرزندانِ اسلام سے آشنا ہونے لگتی ہیں۔ دل ہیں کہ سورۃ یٰس کے گدازِ و قرات سے پگھلنے لگتے ہیں۔ آنکھیں ہیں کہ سورۃ رحمٰن کے سوزِ دروں سے اشک بار ہونے لگتی ہیں۔ لب ہیں کہ کلیدِ قرآن کے لمس سے بوسہ ہائے لذت کے مظہر بنتے نظر آتے ہیں۔ وضو کے بعد روزہ دار کی انگشتِ شہادت اٹھتی ہے تو طلب ِ مغفرت کا نمونہ بن جاتی ہے۔ روزہ دار کا دستِ دعا اٹھتا ہے تو رضائے خلاقِ دوجہاں ادائے طلبِ مسلمان پر نثار ہونے لگتی ہے۔

جب ایک مخلص اور درد مند مسلمان تمام دن اپنے مالک کی رضا کے لیے اشتہا اور تشنگی برداشت کرنے کے بعد افطار کے وقت دستر خوان پر بیٹھتا ہے تو ان چند لمحوں کے انتظار میں جو حلاوت محسوس کرتا ہے، کوثر و تسنیم بھی اس پر فدا ہوتے معلوم ہوتے ہیں اور پھر جب مغرب کی اذان کے وقت اللہ اکبر کی ندا ایک روزہ دار کے فردوسِ گوش بنتی ہے تو وہ دنیا و مافیہا میں پائی جانے والی نعمتوں کو بھول جاتا ہے۔

روزہ افطار کرتے وقت اسے جو لذت و لطافت محسوس ہوتی ہے اس کا اظہار الفاظ کے بیان کا محتاج نہیں۔ اس کے گلوئے خشک میں ٹپکنے والے پانی کا ہر قطرہ اس کے لیے آبِِ حیات بن جاتا ہے اور بے ساختہ اس کی زبان سے اللہ کی حمد و ثناء کے زم زمے بلند ہونے لگتے ہیں۔ وہ پُکار اٹھتا ہے کہ اے فاقہ کش مخلوق کے رازق و خالق میں تیری اس عنایت کے نثار کہ تو نے ایسا فیض رساں ماہ ِ مبارک عطا کیا، جس نے مجھے ایسے روحانی ارتقاء کی دولت سے مالا مال کر دیا کہ بادِ سموم کے جھونکے بھی نسیم ِ صبح کی فرحتوں میں بدلتے محسوس ہوتے ہیں۔

نطام ِ فطرت کی بُوقلمونیاں روزہ دار کے لیے دعاؤں کے نذرانے لیے حاضر ہوتی ہیں۔ تابانیِ سحر اور انجم ِ فروزاں عروسِ زیبائی کے پیچ و خم کھول کر بارگاہِ روزہ دار کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔ کم و پیش چودہ گھنٹے تک معدہ خالی رہنے کی وجہ سے روزہ دار کے منہ سے آنے والی ایک خاص بدمزہ بُو برگ ِ گُل کی شمیم انگیزیوں سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔ ربِ ذوالجلال کا یہ فرمانِ ذی شان کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، کی اہمیت باغِ جنت میں جاکر ظہور پذیر ہوگی۔

محدثین تحریر فرماتے ہیں کہ جب اہل جنت اس کی نعمتوں سے فیض یاب ہو رہے ہوں گے تو ایک روز ندا آئے گی کہ روزہ دار جنہوں نے دنیا میں فقط میری رضا کے لیے متنوع اشیائے خور و نوش سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی آج انہیں دیدار الٰہی سے مشرف کیا جائے گا، آج روزہ داروں کو اللہ رب العزت اپنے قریب تر لے آنا چاہتے ہیں، جو دنیا میں سوچتے رہے کہ ہمارا خالق و مالک کیسا ہے۔ جب روزہ دار ایک جگہ اکھٹے ہوجائیں گے تو ایک فرحت بخش ہوا چلنے لگے گی جس کے جھونکے اتنے فرحت آفرین ہوں گے کہ مشام ِ جام معطر ہوتے چلے جائیں گے، پھر روزہ داروں کو لحنِ داؤدی کی مٹھاس سے بہرہ یاب کیا جائے گا۔

یہ اتنی مسحور کُن ہوگی کہ روزہ دار اس کے سوز سے نیم جاں ہوجائیں گے۔ اس کے بعد ندا آئے گی کہ اے میری رضا پر اپنی خواہشات و تمناؤں کو قربان کردینے والے روزہ دارو ، اے دنیا میں اپنی ہر آرزو کو مجھ پر نثار کردینے والو، اے دن کے اجالوں اور رات کی تاریکی میں میری محبت میں منازل طے کرنے والو، اے موسم سرما میں شمشیر کی تیزی کے باوجود اپنے آرام و آسائش کو تج کر رکوع و سجود میں محو ہوجانے والو، اے تمازتِ آفتاب میں بھی اپنے سامنے سامان ِ لذت موجود ہونے کے باوجود دائرہِ صبر و قرار میں رہنے والو، آج میں تمھیں ایک ایسے انعام سے نواز رہا ہوں جو صرف اور صرف تمھارے لیے مخصوص ہے۔

محدثین تحریر فرماتے ہیں کہ وجد آفرین لمحے کا آغاز ہوگا جو خود روزہ داروں کے تارِ نفس کو ہلا دے گا۔ اس دوران خالقِ ارض و سماء اپنے رُخ سے نقاب الٹ دے گا اور روزہ داروں کے دلوں میں اس قولِ رسول ﷺ کی اہمیت و صداقت راسخ تر ہو جائے گی کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ دیدارِ الٰہی سے بڑا انعام کیا ہوسکتا ہے۔ روزہ دار بحر مسرت و شادمانی میں اس طرح غوطہ زن ہوجائیں گے کہ لذاتِ فردوسِ بریں کو یک سر فراموش کر دیں گے اور دل میں کہہ اٹھیں گے۔

اپنے خدا سے مانگے تھے رحمت کے چند پھول
سارا چمن دعاؤں کی ڈالی پہ رکھ دیا

روزہ دار کے چہرے پر اختتام ِ رمضان تک ایک فطری بالیدگی اور کیفیت جمال پیدا ہوجاتی ہے کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ رضا طلبی پروردگار میں طلب گارِ رحمت نے ارتقاء کی جو منازل طے کی ہیں انہوں نے اس کے خدوخال کو ایسا رنگِ حسن عطا کردیا ہے جس پر سیارگانِ فلک کی رعنائی بھی نثار ہونے کو تیار ہوتی ہے۔

غروب ِ آفتاب تک اپنے آپ کو بچا کر رکھنے اور پھر اس امتحان میں پورا اترنے والوں کو جو جزا ملے گی اس کا تصور بھی اتنا کیف آفریں اتنا وجد انگیز، اتنا خوب صورت ہوتا ہے کہ روزے دار کی قوتِ احساس حریم ِ قدس کی جانب محو پرواز نظر آنے لگتی ہے۔ تابشِ جلوہ ہائے جمالِ خدا سے نگاہِ روزہ دار میں کمال درجے کی جاذبیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ اس کی وسعتِ نظر میں فرازِ آسمان بھی گُم نظر آنے لگتا ہے۔ جب وہ خلوص و وفا کے ساتھ سحری کرنے کے بعد مسجد کی جانب چلنے لگتا ہے تو قدم  قدم پہ جبین ِ نیاز جھکتی معلوم ہوتی ہے۔

انوارِ رب ذوالجلال سمٹ کر اس کے دل کو بُقعہ نور بنا دیتے ہیں۔ مشیت پروردگار اس کی فاقہ مستی پر تبسم زار ہوتی ہے۔ روزہ دار کے ویرانہ خیال میں ایسے ایسے نقوش ابھرتے ہیں جو اسے فانی کائنات سے بے نیاز کر کے درِکریم پر لے آتے ہیں۔

 

The post ماہِ صیام کا اصل پیغام appeared first on ایکسپریس اردو.

روزہ اور طبّی مسائل

$
0
0

فرائض و عبادات میں رمضان المبارک کی ایک خاص اہمیت ہے۔ ایک مسلمان معاشرہ، اس مہینے میں ایک روحانی موسم بہار کی کیفیت لیے ہوئے ہوتا ہے۔ رمضان کی آمد آمد ہے۔

ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ہونے کی حیثیت سے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کو اس بات کا احساس ہے کہ مختلف امراض میں مبتلا افراد روزے اور اپنی بیماری کے حوالے سے جاننے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے پشاور میڈیکل کالج کے شریعہ ایڈوائزری بورڈ کے زیر اہتمام علماء کرام اور ڈاکٹروں کی مشترکہ مجلس کے نتیجے میں گائیڈ لائینز مرتب کی گئی ہیں۔ اس مضمون گائیڈلائن کا صرف وہ حصہ دیا جارہا ہے جو مختلف امراض میں مبتلا افراد سے متعلق ہے۔

٭دمہ (Asthma)
ان بیماروں کو سانس کی تکلیف کبھی کبھار بھی ہوسکتی ہے جو وقتی طور پر دوا کے استعمال سے ٹھیک ہوجاتے ہیں اور پھر کئی کئی دن یا ہفتے دوائی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ایسے مریضوں کو تو روزہ رکھنا چاہیے۔ البتہ Asthma کے وہ مریض جن کو روزانہ دوائی کی ضرورت پڑتی ہے اور گولیاں اور Inhalers دونوں استعمال کرنا ضروری ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں اور بعد میں جب دن چھوٹے ہوں یا ان کی بیماری میں کافی کمی ہوجائے تو قضاء کیے ہوئے روزے پورے کرلیں۔ اگر بیماری کے بہتر ہونے کا امکان کم ہو کہ وہ روزے رکھ سکیں تو بہتر ہے کہ بروقت فدیہ ادا کردیں۔ COPD کے مریض جن کے سینے کی تکلیف اتنی زیادہ ہو کہ سانس مسلسل خراب رہتا ہو اور دواؤں کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا ہو تو ایسے مریضوں کے لیے روزے نہ رکھنا بہتر ہے۔

اِن ہیلر (Inhaler) کے ذریعے دوا کا زیادہ حصہ سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہوجاتا ہے، لیکن کچھ دوا حلق میں چلی جاتی ہے، جو معدے میں پہنچ جاتی ہے اور اس وجہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی صورت حال (Spacer یا Nebulizer جو ان ہیلر کے نعم البدل کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے) کے ذریعے دوا کے استعمال کی بھی ہے اور ان سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

٭گردے کی پتھری (Kidney stones)
رمضان میں پانی کے کم استعمال سے گردے کی پتھری کے مریضوں کو درد شروع ہو سکتا ہے خاص کر گرمیوں کے روزوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اگرچہ کچھ مریضوں میں روزوں کے باوجود درد کی شکایت نہیں ہوتی۔ اگر مریض کو یہ تجربہ ہوچکا ہے کہ روزہ رکھنے سے اسے شدید درد شروع ہو جاتا ہے تو ایسے مریضوں کو سال کے دوسرے مہینوں (جب موسم سرد ہو اور دن چھوٹے ہوں ) میں قضاء روزے رکھنے چاہییں۔

٭یرقان ( Hepatitis)
Acute Hepatitisچاہے اس کی وجہVirus ہو مثلاً Hepatitis A, B, C, Eیا دوائیوں کے مضر اثرات (Side effects) ، دونوں صورتوں میں شروع کے چند دن یا ہفتے روزہ نہ رکھنے کی گنجائش موجود ہوگی کیوںکہ عام طور پر ان دنوں میں مریضوں کو کھانے میں میٹھی چیزوں (گلوکوز وغیرہ) کا استعمال زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مریض اگر زیادہ دیر تک کھانے کا استعمال نہ کریں تو خون میں شوگر کی کمی واقع ہوسکتی ہے جو صحت کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔

Chronic Hepatitisکے مریض (Hepatitis B & C) یا کالا یرقان۔ ہیپاٹائٹس ’’B‘‘ اور ‘‘C‘‘ کے وہ مریض جن کو کوئیComplication نہ ہو اور صرف زیادہ ہو تو یہ مریض عام طور پر روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبان کو چاہیے کہ ان مریضوں کو سمجھادیا جائے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے ان کی بیماری زیادہ ہونے کا احتمال بہت کم ہے اور بعض مریضوں (مثلاً جن کا وزن زیادہ ہو) میں تو روزے سے فائدہ بھی ہوسکتا ہے۔ ان مریضوں کو یہ بات بھی بتا دینی چاہیے کہ اگر ان کو اس کے علاج کے لیے انجکشن کی ضرورت ہے تو ایک مہینہ انتظار کریں اور رمضان کے بعد انجکشن شروع کریں۔ اس سے ان کی بیماری بڑھنے کا کوئی امکان نہیں اور چوںکہ ان کو اللہ نے رمضان کے روزے رکھنے کا موقع دیا ہے تو ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔

وہ مریض جن کوHepatitis کے ساتھ ساتھ کوئیComplication مثلاً پیٹ میں پانی کا جمع ہو جانا (Ascites) یا جگر کی بیماری کی وجہ سے نیم بے ہوشی (Hepatic Encephalopathy) کی صورت حال پیدا ہوگئی ہو تو ان مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور فدیہ دینا ہی زیادہ بہتر ہوگا کیوںکہ بعد میں بھی روزے رکھنے سے ان کو تکلیف کے زیادہ ہونے کا احتمال ہوتا ہے اور مکمل صحت یا بی کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

٭شوگر کی بیماری
وہ مریض جن کو انسولین کی ضرورت ہوتی ہے:
شوگر کے کنٹرول کے لیے کچھ مریضوں کو انسولین کے انجکشن مسلسل استعمال کرنے پڑتے ہیں اور اس کے بغیر شوگر بہتر طریقے سے کنٹرول نہیں ہو سکتی۔ ان مریضوں میں بعض اوقات انجکشن کے استعمال سے خون میں شوگر کی مقدار میں کمی واقع ہو سکتی ہے اور یہ امکان ان مریضوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جو شوگر کے لیے گولیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے وہ مریض جو انسولین استعمال کرتے ہیں ان کے لیے عمومی طور پر روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہوتا ہے اور ان کو فدیہ دینا چاہیے، کیوںکہ اس بات کا امکان کم ہوتا ہے کہ مریض اتنا ٹھیک ہوجائے کہ اس کو انسولین کی ضرورت بھی نہ رہے اور روزہ رکھنے کے قابل بھی ہوجائے۔

شوگر کے وہ مریض جو گولیوں کا استعمال کرتے ہیں:
گولیاں عمومی طور پر دو گروپس کی ہوتی ہیں۔ ایک گروپ (Biguanides) کہلاتا ہے جو بازار میں Glucophage اور دوسرے ناموں سے دست یاب ہیں۔ اگر مریض صرف ان کا استعمال کررہا ہے تو یہ مریض عام طور پر روزے رکھ سکتا ہے۔ دوسرا گروپ Sulphonylurea کہلاتا ہے اور بازار میں یہ Daonil اور دوسرے ناموں سے دست یاب ہے۔ یہ مریض روزے رکھ سکتے ہیں، لیکن اگر ان میں شوگر کے کم ہونے کی پرانیHistory موجود ہے تو ڈاکٹر کو چاہیے کہ اس صورت میں مریض کو مکمل طور پر دوا کے اثرات سے بھی آگاہ کرے اور باہمی تبادلۂ خیال کے بعد روزے رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کریں۔

عام طور پر دوا کا استعمال صبح اور شام کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حضرات دوا کی مقدار میں ضروری تبدیلی کرکے سحری میں کم اور شام میں زیادہ کرسکتے ہیں تاکہ دن میں روزے کے دوران خون میں شوگر کی کمی کا امکان کم سے کم ہوجائے۔ پھر بھی اگر مریض کو روزے کے دوران یہ علامات (دل کی دھڑکن کا تیز ہو جانا، ہلکے ٹھنڈے پسینے آنا، زیادہ بھوک لگنا اور میٹھی چیز کھانے کی فوری خواہش پیدا ہونا، ذہنی حالت کا متغیر ہونا (Disorientation) یا بے ہوشی طاری ہونا) ظاہر ہوں تو وہ روزہ توڑکر کوئی میٹھی چیز کھالے اور بعد میں قضاء روزہ رکھ لے۔

آخر الذکر دو علامات مریض خود نہیں بل کہ دوسرے لوگ ہی دیکھ پاتے ہیں اور اس صورت میں موجود آس پاس کوئی شخص اس مریض کو روزے کی حالت میں ہی کوئی میٹھی چیز فوراً کھلاکر نزدیکی ڈاکٹر کے پاس یا ہسپتال لے جائے۔ یہ روزہ بعد میں قضاء رکھا جا سکتا ہے۔

شوگر کے تمام مریضوں کو عموماً اور رمضان کے دوران خصوصاً اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی میٹھی چیز مثلاً چینی، ٹافیاں وغیرہ ضرور رکھنی چاہیے، تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں اس کا استعمال کیا جاسکے۔ نیز شوگر کے مریض ہمیشہ اپنے ساتھ ایک کارڈ رکھیں جس میں نشان دہی کی گئی ہو کہ وہ شوگر کے مریض ہیں تاکہ بے ہوشی کی صورت میں انہیں ابتدائی طبی امداد مہیا کی جاسکے۔

یاد رکھیے کہ شوگر کے نیم بے ہوش مریض کو خون میں شوگر کم یا زیادہ ہو سکتی ہے لیکن اصول یہ ہے کہ اگر کمی یا زیادتی کا فیصلہ کرنے میں شک ہو تو انتظار کیے بغیر مریض کو روزے کی حالت میں ہی فوری طور پر چینی دی جائے، کیوںکہ ایسا نہ کرنے سے مریض کو زیادہ خطرہ ہوگا اور اگر مریض کا شوگر کم ہے تو یہ مریض کی موت کا سبب بن سکتا ہے۔ لیکن اگر مریض کا شوگر زیادہ ہے اور آپ اس کو کچھ مزید بھی دے دیں تو وقتی طور پر شوگر کی زیادتی زندگی کے لیے خطرے کا سبب نہ بنے گی۔

٭معدے کی بیماریاں (السر یا زخم معدہ) اور تیزابیت
معدے کی تیزابیت کم کرنے اور السر کے علاج کے لیے الحمدللہ بہت سی ادویات دست یاب ہیں اور ان کا اثر چند گھنٹوں سے لے کر ایک یا دو دن (24 سے 48 گھنٹے) تک ہوتا ہے۔ اس لیے دوا کے استعمال کے بعد اب اس بات کا امکان بہت کم ہوتا ہے کہ مریض کو کوئی خطرہ مثلاً تیزابیت کے بڑھنے یا (Perforation) کا خطرہ لاحق ہو۔ اگر مریض سحری میں زیادہ اثر والی اور زیادہ دیر تک اثر رکھنے والی (Long Acting) دوا استعمال کریں تو بغیر کسی تکلیف کے روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ بہت کم مریض ایسے ہوتے ہیں جو دوا کے کم استعمال کے باوجود تکلیف میں ہوسکتے ہیں، جن کو روزہ نہ رکھنے کی رعایت دی جاسکتی ہے۔

کچھ خصوصی حالات جن میں معدے کی تیزابیت اور زخم بہت زیادہ ہوتے ہیں، مثلاً (Zolinger Ellison Syndrome) تو ان میں روزہ رکھنے سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔ یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ معدے کی کئی دوسری بیماریاں مثلاً بدہضمی (Dyspepsia) وغیرہ روزے میں بہتر ہوجاتی ہیں، بشرطے کہ سحری اور افطاری میں احتیاط برتی جائے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ رمضان میں افطاری کے بعد چٹ پٹے اور چٹخارے دار پکوانوں سے اجتناب کرنے سے نہ صرف نظام ہضم ٹھیک رہتا ہے بلکہ انسان رمضان کی راتوں میں شب بیداری اور عبادت کرکے اللہ کی رحمتیں اور بخشش بھی سمیٹتا ہے۔

٭دل کی بیماریاں
Congestive Heart Failure ایک ایسی بیماری ہے جس میں دل اپنی پوری قوت سے خون کو پمپ نہیں کرسکتا اور دل کا سائز بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں مریض کو سانس لینے میں تکلیف واقع ہوتی ہے اور سانس جلد پھول جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پاؤں میں سوجن بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات یہ بیماری کم ہوتی ہے اور صبح شام دوائی استعمال کرنے سے مریض ٹھیک رہتا ہے اور اس کو سانس کی تکلیف یا پاؤں کی سوجن وغیرہ نہیں ہوتی ایسے مریض روزہ رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ محسوس کریں کہ سانس کی تکلیف ہے تو پھر روزہ رکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

یہ بیماری جب زیادہ ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ معمولی کام کرنے سے بل کہ بعض اوقات تو بیٹھے بیٹھے یا لیٹنے سے بھی سانس کی تکلیف ہوتی ہے۔ ایسے مریضوں کو اور دوسری دواؤں کے ساتھ ساتھ اکثر پیشاب آور دوائیں بھی استعمال کرنا پڑتی ہیں جس کی وجہ سے پیاس بھی زیادہ لگتی ہے۔ ایسے مریض جن کو بیماری زیادہ ہو، ان کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور بعد میں جب حالت بہتر ہو جائے تو قضاء روزے رکھے جاسکتے ہیں۔

چند صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں مکمل صحت یا بی کا امکان نسبتاً کم ہوتا ہے۔ مثلاً (Cardiomyopathy)۔ ایسے مریضوں کو فدیہ دینا ہی بہتر ہے۔

دل کی ایک اور بیماری جسے Anginaکہتے ہیں، میں مریض کو سینے یا ہاتھ میں درد کی شکایت ہوتی ہے۔ درد اگر صبح شام دوا کے استعمال سے کنٹرول ہوسکے تو روزہ رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر درد کنٹرول کرنے کے لیے دن میں بھی دوا استعمال کرنی پڑرہی ہو تو ایسے مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے، کیوںکہ درد زیادہ وقت ہو تو دل کی تکلیف خطرناک صورت بھی اختیار کرسکتی ہے۔ ایسے مریضوں کو اکثر اوقات دواؤں کے استعمال سے افاقہ ہوجاتا ہے اور یہ بعد میں قضاء روزے رکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ بصورت دیگر فدیہ ادا کرسکتے ہیں۔

٭گھبراہٹ / اْداسی کی بیماری (Anxiety / depression)
ان بیماریوں کے شدید دور کے گزر جانے کے بعد مریض، ڈاکٹر کے مشورے سے، ہر24 گھنٹے میںAntidepressants اور/یا Benzodiazepines کی بالعموم ایک یا دو خوراکوں کے استعمال سے اپنی صحت کو برقرار رکھتے ہوئے روزے کو قائم رکھ سکتا ہے۔ یہ خوراک حسب ہدایت افطار کے بعد یا سحری کے وقت لی جاسکتی ہے۔

٭مرگی (Epilepsy)
اس بیماری میں استعمال ہونے والی وہ دوائیں جو دو وقت دی جاتی ہیں، وہ بہ آسانی سحر و افطار میں دی جاسکتی ہیں۔ تاہم اس بیماری کے علاج میں استعمال ہونے والی کچھ دوائیں دن میں تین مرتبہ بھی تجویز کی جاتی ہیں۔ تاہم رمضان میں اس کی خوراک کو تبدیل کیا جاسکتا ہے، جیسے سحروافطار اور بعد از تراویح، کچھ صورتوں میں دوائی کی مقدار بڑھاکر اسے دو وقت (سحر و افطار) بھی دیا جاسکتا ہے۔

یہاں یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ چوںکہ خون میں شکر کی مقدار کی کمی اور نیند کی بے قاعدگی سے دورے آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، اس لیے مریضوں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ سحری میں اچھی خوراک لیں اور افطاری میں دیر نہ کریں۔ جہاں تک نیند کی بے قاعدگی کا تعلق ہے، مریضوں کو رمضان میں سونے کے لیے نئے معمول پر چلنے کی ہدایت کی جاسکتی ہے جیسے تراویح کے فوراً بعد سوجانا اور سحری کے بعد نہ سونا، اس معمول پر عمل کرنے سے عبادت کے لیے بھی اچھا خاصا وقت مل سکتا ہے۔

٭خلاصہ
اگرچہ کئی صورتوں میں، بیماریوں میں مبتلا مریض بغیر کسی مسئلے کے روزہ رکھنے کے قابل ہوتے ہیں تاہم دوائیوں کی مقدار اور دوائی لینے کے اوقات کا خیال رکھنا اور اگر ضرورت پڑے تو ازسر نو متعین کرنا ضروری ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ کچھ مریض اپنی بیماری یا علاج کی ضروریات کی وجہ سے روزہ رکھنے پر قادر نہیں ہوں گے، تاہم جہاں تک ممکن ہو روزہ رکھنے کی خواہش کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، کیوںکہ روزہ انہیں اپنی خودی، اپنی روزمرہ معمولات پر دسترس، روحانی صحت اور اپنے دینی فرائض کی ادائیگی کے قابل ہونے کی وجہ سے ایک عظیم مسلم اْمہّ کا حصہ ہونے کا احساس دلائے گا جو ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لیے بھی بہت فائدہ مند ثابت ہوگا۔

The post روزہ اور طبّی مسائل appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈونلڈ ٹرمپ کا دورۂ سعودی عرب

$
0
0

سیاست کا منچ مقامی ہو یا بین الاقوامی۔۔۔ مفاد، طاقت، اختیار اور اقتدار کو ہر اصول اور نظریے پر فوقیت حاصل ہے۔۔۔ تب ہی تو ایسی باتیں کہی جاتی ہیں کہ ’’سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی‘‘ اور ’’یہاں کوئی بھی مستقل دوست یا مستقل دشمن نہیں ہوتا‘‘ ایسے میں ہم کسی بھی دوستی کو بحیرۂ عرب سے گہرا اور ہمالیہ سے بلند ہی کیوں نہ کہہ لیں، وہ بھی کچھ نہ کچھ مفاد کی تکمیل مانگتی ہے۔۔۔ کسی بھی مسئلے پر حمایت یا مخالفت کی نوعیت چاہے ’’اخلاقی‘‘ ہی کیوں نہ ہو، یہ بھی فریقین سے ’زیادہ سے زیادہ فائدے‘ کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ہی عمل میں آتی ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ عوام چاہے کسی بھی خطے کے ہوں، وہ ان مسائل کے لیے دھرم، عقیدے، رنگ ونسل سے لے کر اصول اور نظریے کی عینک کم ہی اتار پاتے ہیں۔۔۔ بہت سے لوگ عالمی مفادات کی تمام تر سفاکیت جان لینے کے باوجود وہ کسی نہ کسی سطح پر خود کو ایسے ہی کسی ’وسیلے‘ سے جوڑ رہے ہوتے ہیں، تب ہی شاطر سیاسی ساہوکار اپنے اپنے مفادات کی ہنڈیا جذبات کے کسی ایسے ہی الاؤ پر دہکاتے ہیں اور پھر جی بھر کے تالیاں بجواتے ہیں، ہاتھ ہلاتے ہیں اور تصاویر کھنچوا کر رخصت ہو جاتے ہیں، جب کہ درحقیقت اچھا یا برا، یہ سب کچھ ہی کسی نہ کسی مفاد کے حصول کے لیے ہوتا ہے۔

امریکا کے صدر منتخب ہونے سے پہلے ہی اپنے بیانات اور اعلانات سے متنازع ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے جب اپنے پہلے غیرملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا چناؤ کیا، تو عالمی منظر نامے پر بہت ہلچل مچی۔ یوں تو پہلے بھی کئی امریکی صدور سعود عرب کے دورے کر چکے ہیں، لیکن گذشتہ دنوں کیے جانے والے دورے کی خاص بات ’اسلامی عسکری اتحاد‘ میں شامل ممالک کے سربراہان سمیت 50 سے زاید ممالک کے سربراہان کا سعودی عرب میں موجود ہونا ہے۔ ساتھ ہی اس موقع پر عالم اسلام اور امریکا ومغرب کے درمیان مسائل کے حل یا مکالمے کے بہ جائے ایران کو ہدف بنائے رکھنا کچھ اور ہی احوال کہہ رہا ہے۔

گذشتہ کچھ برسوں سے مشرق وسطیٰ میں مختلف طاقتوں کے مفادات بدترین جنگی صورت حال اختیار کرچکے ہیں۔ کسی ملک میں حکومت کے ساتھ مفاد ہے، تو کہیں وہاں ہونے والی بغاوتوں سے ہم دردی ہے، کہیں کسی تنظیم سے مفادات حاصل کرنے کی کوشش ہے، تو کہیں کسی تنظیم کی مضبوطی اور کم زوری سے بہت سے مفادات کی تکمیل کی جا رہی ہے۔

بدقسمتی سے مسلمان ممالک کے درمیان اختلافات کچھ نئے نہیں، لیکن اب ان اختلافات کا فرقہ ورانہ رنگ کافی گہرا اور نمایاں ہونے لگا ہے۔ ماضیٔ قریب میں دیکھا جائے، تو ایران اور عراق کی جنگ آٹھ برس جاری رہی، وہیں اس کے بعد صدام حسین کے عراق نے 1990ء میں کویت کی بھی اینٹ سے اینٹ بجائی اور سعودی عرب سمیت کئی ہم سائے ممالک کو آنکھیں دکھائیں، یوں امریکا نے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ’تحفظ‘ کے لیے اپنی فوجیں تعینات کیں، جو 2003ء میں صدام حکومت کے خاتمے تک وہاں موجود رہیں۔

اسی طرح لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی بھی سعودی عرب کی امریکانوازی پر خوب گرجتے برستے رہے ہیں، آخر میں انہوں نے خود بھی مغرب سے مفاہمت اختیار کی، لیکن شاید انہیں دل سے معاف نہ کیا جاسکا، اور وہ خانہ جنگی کے نتیجے میں اقتدار ہی سے محروم نہیں ہوئے، بلکہ انہیں باغیوں کے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں اپنی جان سے ہی ہاتھ دھونے پڑے۔

پہلے دنیا کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ اسرائیل کی درندگی اور قبلۂ اول بیت المقدس کی آزادی اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہوتا تھا۔ مسلم ممالک کے نمایاں راہ نما اسرائیلی مظالم پر آواز اٹھاتے، جب کہ کم زور اور لاچار مسلم ممالک بھی جیسے تیسے بیت المقدس کے لیے آواز اٹھاتے۔ پھر اکیسویں صدی کے اوائل میں ’دہشت گردی‘ کا مسئلہ منہ زور ہونے لگا۔ القاعدہ دنیا کا بہت بڑا ’مسئلہ‘ بن گئی۔

11 ستمبر کے حملوں کے بعد دنیا بھر میں اس کا خوف بہت پھیل گیا۔۔۔ پھر وقت پلٹا، دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی، افغانستان پر چڑھائی ہوئی، عراق پر بھی حملہ ہوا، دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں ہوئیں، یوں القاعدہ تو نہ رہی اس کی جگہ ’داعش‘ نامی تنظیم سامنے آگئی، جو القاعدہ سے زیادہ پرتشدد اور خطرناک معلوم ہوئی۔ اس نے جنگ زدہ عراق اور شام میں ابھرنے کے بعد دنیا میں اپنی ’خلافت‘ کے قیام کے لیے دنیا بھر میں کارروائیوں کا اعلان کیا۔ القاعدہ کی طرح داعش کی کارروائیاں بھی مغرب کی طرح مسلمان ممالک نے بھی خطرہ تصور کیں، لیکن اس کے ساتھ خطے میں متصادم ہونے کی وجہ سے اب اجتماعی مسائل کے بہ جائے مسلم ممالک کے باہمی اختلاف زیادہ اہمیت اختیار کر نے لگے۔

سعودی عرب و اتحادی عرب ممالک اور ایران کے درمیان ایک سرد جنگ کی کیفیت رہی۔ عراق، لبنان اوربحرین کے حوالے سے دونوں ممالک کے موقف یک سر مختلف ہیں، جب کہ شام کی حکومت ایران، جب کہ یمن کی حکومت کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے اور یہ دونوں ممالک گذشتہ کچھ برسوں سے شدید خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہیں۔ اسی اثنا میں 14 جولائی 2015ء کو امریکا نے ایران سے جوہری معاہدہ کیا، تو سعودی عرب نے اسے علی الاعلان خطے میں طاقت کے توازن کے خلاف قرار دیا۔ یوں واشنگٹن اور ریاض کے مابین خلیج بڑھتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔

دوسری طرف ستمبر 2016ء میں امریکی کانگریس نے ایک بل منظور کیا، جس کے تحت امریکی شہریوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ گیارہ ستمبر کے واقعات میں ملوث ہونے پر سعودی عرب پر باقاعدہ مقدمہ دائر کرسکتے ہیں۔ اس بل پر ریاض حکومت نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ یہی نہیں باراک اوباما نے اپنے آخری ایام میں سعودی عرب سے امریکی تعلقات کو ’پیچیدہ‘ قرار دیا۔ یہی نہیں رواں برس اقتدار سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران، عراق، لیبیا، شام، یمن، سوڈان اور صومالیہ سمیت سات ممالک کے شہریوں پر امریکا آنے پر پابندی لگائی اور جن تین ممالک کے شہریوں کی کڑی جانچ کا فیصلہ کیا ان میں افغانستان اور پاکستان کے علاوہ سعودی عرب بھی شامل تھا۔

ایران پہلے ہی روس کے قریب ہے، جب کہ سعودی عرب کے اتحادی امریکا کی ایران سے مفاہمت اور خود سے سردمہری کی وجہ سے ریاض حکومت شدید اضطراب کا شکار تھی، لہٰذا گذشتہ دنوں ڈونلڈٹرمپ کو پچاس سربراہان مملکت کی موجودگی میں سر آنکھوں پر بٹھا کر اسی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دورے میں امریکا نے سعودی عرب سے 350 ارب ڈالر کے مختلف سمجھوتوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے، جن میں سے 110 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار اور دفاعی آلات فوری طور پر لیے جائیں گے۔ اگر آپ عالمی سیاست کے پیچیدہ مسائل اور اختلافات کو نہیں سمجھتے، تب بھی بہ آسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امریکا بہادر نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی ٹھیک ٹھاک نفع بخش سودا کیا ہے۔ ’اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کے مطابق سعودی عرب امریکا سے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک بن گیا ہے۔

سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہا کہ ’اسلامی عسکری اتحاد‘ دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ڈونلڈٹرمپ نے جہاں مسلمانوں کے لیے نیک جذبات کا اظہار کیا، وہیں دہشت گردی کے خلاف عزم ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے القاعدہ اور داعش کے ساتھ ایران پر بھی شدید نکتہ چینی کی۔

ایران اور سعودی عرب کی کشمکش کے نتیجے میں نہ صرف ہتھیاروں کی عالمی صنعت خوب پھل پھول رہی ہے، بلکہ عالمی منڈی میں تیل کے نرخ بھی گراوٹ کا شکار ہیں۔ غیرجانب داری سے دیکھیے، تو یہ براہ راست عالمی قوتوں کی مضبوطی اور مفادات کی تکمیل کا راستہ ہے۔ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کے تحت مسلم ممالک ایک دوسرے کی بالادستی کے خوف کا شکار ہوکر طاقت وَر ممالک کو ہم نوا بنا رہے ہیں اور بہ جائے اپنے مسائل حل کرنے کے، باہم دست وگریباں ہونے میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔

دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں سلگتی آگ لاکھوں زندگیوں کو نگل چکی ہے، لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔۔۔ اگر اس موقع پر تمام مسلمان ممالک کو یک جا کرکے مغرب سے پُرامن دنیا کے لیے کسی نتیجہ خیز مکالمے کی شروعات کی جاتی، تو یقیناً مسلمان دنیا کے لیے اس کے خوش کُن نتائج سامنے آتے، لیکن اگر ایسا ہو جاتا، تو عالمی طاقتوں کے لیے سستے نرخ پر تیل کہاں سے خریدا جاتا اور ان کے اربوں ڈالر کے اسلحے کی کھپت کہاں ممکن ہوتی؟ لہٰذا مسلمان ممالک کی یہ فرقہ وارانہ تقسیم اور اختلافات امریکا و اسرائیل سے لے کر روس تک تمام عالمی طاقتوں کے لیے بے حد موافق ہیں۔

The post ڈونلڈ ٹرمپ کا دورۂ سعودی عرب appeared first on ایکسپریس اردو.

روشن راستہ

$
0
0

ڈپریشن اور بے خوابی کاایک علاج
سوال: میری عمر چالیس سال ہے۔ میرے شوہر بہت اچھے ہیں اور ہر طرح سے میرا خیال رکھتے ہیں۔ ہمارے چھے بچے ہیں۔ سب کچھ اچھا ہونے کے باوجود پچھلے چار سال سے مجھے گھبراہٹ اور شدید بے چینی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ میرے شوہر نے پہلے عام ڈاکٹروں کو اور پھر ماہرِنفسیات کو دکھایا۔ سب کا کہنا یہ ہے کہ یہ ڈپریشن ہے۔ مجھے خواب آور دوائیں لینے کے باوجود نیند بھی بہت کم آتی ہے۔ بلڈپریشر اکثر کم ہوجاتا ہے۔ محترم ڈاکٹر صاحب! میں آپ کا کالم ’’روشن راستہ‘‘ اور آپ کی دیگر تحریریں باقاعدگی سے پڑھتی ہوں۔ اب مجھے یقین ہورہا ہے کہ مراقبے اور رنگ و روشنی سے علاج کے ذریعے مجھے اس ڈپریشن سے نجات مل جائے گی۔
(مسز احمد: کراچی)
جواب: محترم بہن! میرا اندازہ ہے کہ آپ کے اس ڈپریشن کے اسباب موروثی بھی ہیں۔ آپ اپنے اردگرد جائزہ لیں آپ کے والد والدہ، خالہ ماموں، چچا پھوپھی میں سے یا آپ کے ننھیال اور ددھیال میں سے تو کوئی ڈپریشن یا کسی اور ذہنی بیماری میں مبتلا تو نہیں رہا۔ بہرحال۔ ڈپریشن کے اسباب کچھ بھی ہوں مناسب ادویہ اور چند تدابیر اختیار کرکے اس مرض سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔

میں نے ڈپریشن کے کئی مریضوں کو اللہ کے کلام کا ورد اور مراقبہ تجویز کیا۔ الحمد للہ بڑی تعداد میں مریضوں کو افاقہ ہوا۔ ڈپریشن اور بے خوابی سے نجات پانے کے لیے آپ ڈاکٹری دواؤں کے ساتھ ساتھ مراقبے سے بھی مدد لے سکتی ہیں۔ مراقبہ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ رات سونے سے پہلے وضو کرکے فرش یا کسی تخت پر آرام دہ نشست میں بیٹھ جائیں۔

ایک تسبیح درودِخضری اور ایک تسبیح اللہ تعالیٰ کے اسماء یا حی یا قیوم کا ورد کرلیں۔ اس کے بعد آنکھیں بند کرکے مراقبے میں یہ تصور کریں کہ آپ نیلی روشنیوں سے منور ماحول میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ اس مراقبہ کے ہم نیلی روشنی کا مراقبہ کہتے ہیں۔ مراقبہ اندازاً بارہ پندرہ منٹ تک کریں۔ درست طور پر مراقبہ کیا جائے تو سب سے پہلے تو نیند بہتر ہوتی ہے۔ جن لوگوں کو کم خوابی یا بے خوابی کی شکایت ہے اُنہیں آسانی سے نیند آنے لگتی ہے ۔ مراقبہ کرنے سے نیند کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے اور نیند گہری بھی ہوتی ہے۔

بیٹی کو شک ہے کہ۔۔۔۔۔
سوال: میری لڑکی جو انٹر کی طالبہ ہے چار پانچ مہینوں سے مختلف پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ اُسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہت غصہ آرہا ہے۔ ضدی بھی بہت ہے۔ اگر پڑوس میں تیز آواز میں ٹی وی چل رہا ہو یا گھر میں کوئی تیزآواز میں بات کرے تو اُسے بہت برا لگتا ہے۔ اُسے کوئی نہ کوئی تکلیف رہتی ہے۔ ڈاکٹروں کو دکھایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ وہ سوچتی ہے کہ مجھ پر کسی نے جادو کروایا ہے۔ کہتی ہے کہ لوگ مجھ سے جلتے ہیں۔ کبھی اپنی خالہ پر شک کرتی ہے، کبھی اپنی پھوپھی پر۔ کبھی کہتی ہے ہمارے گھر میں اثر ہے۔
(س۔ط: فیصل آباد)
جواب: غصہ اور ذہنی دباؤ سے نجات کے لیے بطور روحانی علاج صبح اور شام اکتالیس اکتالیس مرتبہ: اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم ومن فتنتہ، گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے بیٹی کو پلائیں۔ یہ عمل کم ازکم دو ماہ تک جاری رکھیں۔ بیٹی سے کہیں کہ وہ وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یا ودود، یا رؤف یا رحیم کا ورد کر تی رہیں۔
کلرتھراپی کے اصولوں کے مطابق نیلی شعاعوں سے تیارکردہ پانی ایک ایک پیالی صبح اور شام انہیں پلائیں۔
طبی مسئلہ
سوال: میرا مسئلہ یہ ہے کہ چھینکنے اور کھانسنے کے دوران پیشاب پر قابو نہیں رکھ پاتی۔ میری عمر 50 سال ہے ۔ کافی علاج کیا لیکن یہ تکلیف ٹھیک نہیں ہوئی۔
(نام شائع نہ کریں)
جواب: مثانے کی تقویت کے لیے یونانی مرکب معجون ماسک البول کا استعمال مفید ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کلر تھراپی کے اصولوں کے مطابق بینگنی شعاعوں کا پانی صبح اور شام ایک ایک پیالی پییں۔

پیروں میں چھالے
سوال: گذشتہ 9سال سے گرمیوں میں پاؤں کی انگلیوں کے درمیان، نچلے حصے پر اور ایڑیوں پر چھالے نکلتے ہیں۔ ان کی وجہ سے پاؤں اور پنڈلیوں میں شدید درد ہوتا ہے۔ چھالا پھٹنے سے پانی اگر کہیں ٹانگ پر کسی جگہ لگ جائے تو وہاں بھی چھالا نکل آتا ہے اور آہستہ آہستہ ان میں پیپ سی بھرجاتی ہے۔
(نام شائع نہ کریں)
جواب: ان تکالیف میں یونانی مرکب عشبہ اور شربتِ مصفی خون کا استعمال مفید ہے۔ سبز شعاعوں میں تیار کردہ پانی صبح اور شام اور نیلی شعاعوں میں تیارکردہ پانی دوپہر اور رات کھانے سے پہلے ایک ایک پیالی پییں۔ گائے کے گوشت، فارمی مرغی، انڈہ اور مچھلی سے چند ماہ تک پرہیز کریں۔ کھانوں میں زیادہ تر سبزیاں، دالیں اور چاول استعمال کریں۔

مشکوک پڑوسی
سوال: کچھ دن پہلے میں اپنی بیمار بہن کی عیادت کے لیے اُس کے گھر گئی تھی۔ جب واپس آئی تو سارا گھر بکھرا ہوا تھا۔ گھر سے کافی نقدی اور کئی قیمتی اشیاء غائب تھیں۔ ہمیں اپنے ایک پڑوسی پر شک ہے کیوںکہ جب میں اپنی بہن کے گھر روانہ ہورہی تھی تو صرف اُنہیں ہی پتا تھا کہ آج ہمارے گھر میں کوئی نہیں ہے۔ ہمارے ان پڑوسی کے چار بیٹے ہیں جو کہ کوئی کام کاج نہیں کرتے اور دن بھر آوارہ گردی کرتے ہیں۔ ہم نے F.I.R کٹوادی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آئندہ ان پڑوسیوں کے شر سے محفوظ رہیں۔
(ت۔ ز: کراچی)
جواب: آپ نے سنا ہوگا کہ بد اچھا بدنام بُرا۔ چوںکہ آپ کے ایک پڑوسی کے لڑکے دن بھر ادھر اُدھر بے کار گھومتے رہتے ہیں اس لیے آپ کا شک اُن پر ہی گیا۔ اس واقعے میں یہ سبق بھی پنہاں ہے کہ پڑوس میں رہتے ہوئے ہر ایک کو اچھا طرزِعمل اختیار کرنا اور اعتماد اور بھروسا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کے لیے خیرسگالی کے جذبات رکھنے والے، ایک دوسرے کے کام آنے والے پڑوسی اہلِ محلہ کے لیے اعتماد، ذہنی سکون اور اطمینان کا سبب بنتے ہیں۔
پڑوسیوں کے شر سے نجات پانے کے لیے آپ صبح نہار منہ اکیس مرتبہ سورۂ الفرقان (25) کی آیت نمبر58 ، تین تین مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے ان پڑوسیوں کا تصور کرکے دم کردیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت اور دوسروں کے ساتھ اچھے سلوک کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ عمل کم ازکم چالیس روز تک جاری رکھیں۔

دوست جدا نہ ہو۔۔۔۔۔
سوال: میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ بچپن ہی سے تنہا زندگی گزارنے کی عادت پڑگئی ہے۔ والد اور والدہ دونوں ملازمت پیشہ تھے۔ اپنی تنہائی کو میں نے اچھے مقصد کے لیے استعمال کیا اور خوب دل لگاکر تعلیم حاصل کرتی رہی۔ کالج میں میری ایک بہت ہی اچھی دوست بنی۔ ایک اچھی اور مخلص دوست کی قدر وہی جان سکتا ہے جو ساری زندگی اس نعمت سے محروم رہا ہو۔ چند ہفتے پہلے اُس کا رشتہ اسلام آباد میں طے ہوگیا ہے۔ اس کے بعد میری عجیب حالت ہے۔ میں اپنی دوست کو کھونے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ میں چاہتی ہوں کہ میرا رشتہ بھی اسلام آباد ہوجائے یا پھر وہ یہیں ہمیشہ میرے شہر میں رہے۔
(نام شائع نہ کریں)
جواب: عزیز بیٹی! چند باتیں یا چند نکات ہمیشہ ذہن نشین رہنے چاہییں۔ انسان اس دنیا میں وقت کی ناؤ میں سفر کرتا ہے۔ آدمی اس ناؤ سے داخلی کیفیات اور احساسات کے تحت منسلک ہوتا ہے۔ جب میں بچہ تھا تو دنیا کو ایک بچے کی نظر سے دیکھتا تھا۔ میرے والد نے گھر کے باہر شہتوت، آم اور بادام کے درخت لگائے تھے۔ میں اپنے والدین کے ساتھ دو تین دن کے لیے کہیں اور جاتا تو مجھے یہ تینوں درخت بہت یاد آتے۔ گھر واپس آکر میں سب سے پہلے ان درختوں کے پاس جاتا اور ان سے حال احوال پوچھتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ درخت چند دنوں کی غیر حاضری پر مجھ سے ناراض ہیں۔

اس لیے میں انہیں مناتا۔ ان کی جڑوں میں، تنوں پر پانی ڈالتا اور پائپ سے پتوں کو بھی نہلانے کی کوشش کرتا تھا۔ چند سال بعد جب میں اسکول اور کالج جانے لگا اور بعض اوقات دو تین ہفتوں کے لیے گھر سے باہر رہا تو واپسی پر مجھے یہ درخت ماضی کی طرح اُداس نہیں لگے۔ تعلیمی اور دیگر غیرنصابی مشغولیات میں شاید میری توجہ ان درختوں پر کم ہوگئی تھی یا شاید بچپن کے دنوں میں درختوں کے ساتھ اپنے تعلق پر میں زیادہ حساس تھا۔

اپنا ایک اور تجربہ یا ایک احساس شیئر کرتا ہوں۔ جب ہم میٹرک کے بعد اسکول سے رخصت ہونے والے تھے تو اپنے انتہائی شفیق اساتذہ، بہت مخلص دوستوں حتیٰ کہ اسکول کے درودیوار سے جدائی کا خیال بھی ہمیں اُداس کررہا تھا۔ ہم میٹرک کے طالب علم آپس میں باتیں کرتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ امتحانات کے بعد ایک دوسرے سے ملے بغیر ہمارا کیا حال ہوگا۔ کئی دہائیاں گزر گئی ہیں۔ پرانے کئی تعلق برسوں نہ ملنے کے باوجود کسی نہ کسی طرح برقرار ہیں۔
وقت کی ناؤ ہمیں لے کر آگے بڑھتی رہتی ہے۔ مقامات اور مدارج کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہمارے کئی خیالات، تصورات اور نظریات میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ کچھ رشتے کچھ تعلق بہت مستحکم ہوتے ہیں۔ قربت یا دوری ان کے استحکام کو متاثر نہیں کرپاتی۔ اگر تمہارا تعلق اپنی دوست سے مستحکم ہے تو وہ کسی دوسرے شہر یا کسی دوسرے ملک میں بھی چلی جائے تمہارا تعلق اُس کے ساتھ کم زور نہیں ہوگا۔

اولادِ نرینہ کی خواہش
سوال: میری شادی 2007ء میں ہوئی۔ شادی کے پہلے سال میری اہلیہ نے ایک بیٹے کو جنم دیا، لیکن یہ محض تین دن بعد ہی اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اُس کے بعد ہمارے ہاں دو بیٹیاں ہوئیں۔ کچھ عرصے بعد ایک بار پھر میری اہلیہ نے ایک بیٹے کو جنم دیا، مگر وہ بھی چند دن بعد فوت ہوگیا۔ میری اہلیہ کے کئی آپریشن بھی ہوچکے ہیں۔ میری اہلیہ تو مطمئن ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اولاد کی نعمت سے نوازا ہے مگر میرا دل کرتا ہے کہ اللہ پاک مجھے ایک بیٹے سے بھی نواز دیں۔
(نام شائع نہ کریں)
جواب: صبح اشراق کے نوافل ادا کرکے سورہ الطارق (86) دھیمی آواز سے گیارہ مرتبہ تلاوت کی جائے۔ تلاوت کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں پر دم کرکے اپنے ہاتھ چہرے، گردن، کندھوں، سینے اور پیٹ پر پھیرلیں۔ یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔ میاں بیوی دونوں نے یہ عمل کرنا ہے۔ خاتون ناغہ کے دن بعد میں پورے کرلیں۔
شوہر عصر و مغرب کے درمیان اکتالیس مرتبہ سورہ انبیاء (21) کی آیت89 میں سے :
رب لاتذرنی فردا وانت خیر الورثینO، سات سات مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے پییں اور اپنے اوپر بھی دم کرلیں۔ یہ عمل حمل قرار پانے تک کرنا ہے۔
حمل قرار پانے کے بعد خاتون عصر و مغرب کے درمیان تین مرتبہ سورہ شمس پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیں۔ یہ عمل حمل قرار پانے کے بعد سے ولادت تک کرنا ہے۔

نشے کی لت
سوال: میرا ایک ہی بیٹا ہے جوکہ اب ماشاء اللہ سے 26 سال کا ہے۔ وہ پچھلے 4-5 سالوں سے نشہ کررہا ہے اور نشہ بھی پاؤڈر والا۔ ناک میں لیتا ہے، سگریٹ پیتا ہے اور تمباکو بھی کھاتا ہے۔ ہم نے اس کو ہسپتال میں بھی ایک مہینے کے لیے داخل کرایا تھا۔ میں نے بہت سی دعائیں بھی کیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بتائیں میں کیا کروں؟ مہربانی کرکے میری مدد کریں، کیوںکہ میں اب ہمت ہار چکی ہوں۔ اسی پریشانی میں میرا بلڈپریشر بھی ہائی رہنے لگا ہے۔ میری صحت روز بروز خراب ہورہی ہے۔
(ایک دکھی ماں)
جواب: نشے سے چھٹکارا پانے کے لیے بنیادی ضرورت نشہ کرنے والے کا اپنا ارادہ ہے۔ کوئی شخص خود نشہ چھوڑنے کے لیے پُرعزم ہو وہ جلد یا بدیر اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر ہی لیتا ہے۔ جو شخص نشہ چھوڑنے پر آمادہ نہ ہو اتو اچھے سے اچھا علاج خواہ طبی ہو، نفسیاتی ہو یا روحانی فائدہ مند نہیں ہوپاتا۔ آپ کو سب سے پہلے یہ کوشش کرنا چاہیے کہ آپ کے بیٹے میں اس لت سے بیزاری کے جذبات پیدا ہوں اور پھر وہ اس لت سے چھٹکارے کا ارادہ کرلے۔ ایسا ہوجانے کے بعد اس کا علاج انشاء اللہ آسان ہوجائے گا۔

پردے دار گھرانے میں رشتہ
سوال: میری بیٹی نے عالمہ کا کورس کیا ہوا ہے۔ اس کے لیے پردہ کرانے والا رشتہ نہیں مل رہا۔ رشتہ دیکھنے والے آتے ہیں۔ جب اُنہیں پردے کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ خاموشی سے واپس چلے جاتے ہیں۔ بیٹی کی عمر 26 سال ہوچکی ہے۔
(نام شایع نہ کریں: لاہور)
جواب: اپنی بیٹی سے کہیں کہ وہ عشاء کی نماز کے بعد 303 مرتبہ:
یرسل الریاح فیما کان فیہ، گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اچھی جگہ، ہم خیال گھرانے میں رشتہ طے ہونے کے لیے دعا کریں۔ یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔ مذکورہ بالا عبارت سفید کاغذ پر سیاہ روشنائی سے لکھ کر ایک تعویذ بنالیں اور بیٹی کو پہنادیں۔ ہر جمعرات کم از کم دو مستحق افراد کو کھانا بھی کھلائیں۔

بیماریاں۔۔۔۔۔۔
سوال: تقریباً چھے ماہ پہلے میرا ایک آپریشن ہوا تھا۔ اس کا زخم اب تک ٹھیک نہیں ہوسکا۔ درد بھی ہوتا ہے۔ مہربانی فرماکر اس کا روحانی علاج تجویز فرمادیں۔ میری تِلّی بھی بڑھی ہوئی ہے، پِتّے میں پتھری بھی ہے۔
(ش۔ی: سرگودھا)
جواب: صبح اور شام اکیس اکیس مرتبہ سورۂ اعراف (7)کی آیت 23، تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے پییں اور اپنے اوپر بھی دم کرلیں۔ وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یا شافی، یا سلام، یا رحیم یا کریم کا ورد کرتے رہیں۔

خط بھیجنے کے لیے پتا ہے۔
’’روشن راستہ‘‘ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
پی او بکس 2213 ،کراچی۔74600
ای میل: dr.waqarazeemi@gmail.com
فون نمبر: 021-36685469

The post روشن راستہ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4754 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>