Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

پچھتاوؤں کو بھلا کر۔۔۔

$
0
0

ہماری روز مرہ کی گفتگو سے لے کر ہماری سوچ تک ’’کاش‘‘ کے لفظ کا تناسب روزبہ روز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

زندگی میں بہت کچھ پا کر بھی ناآسودگی کا احساس پچھتاوؤں کو جنم دیتا ہے۔ نامکمل خواہشات، ارمان اور آرزوؤں کی دوڑ میں وقت گزرنے کے ساتھ جب پچھتاوا بن جائیں تو زندگی جینے کی امنگ باقی نہیں رہتی۔

٭ کاش میں خوامخواہ ہی بے کار کی چیزوں میں وقت برباد نہ کرتی۔

٭میں دنیا گھوم سکتی۔

٭میں اپنی تعلیمی قابلیت بڑھا لیتی۔

٭میں پیسہ فضول خرچ نہ کرتی۔

٭میں پرانی سہیلیوں سے رابطے میں رہتی۔

٭میں بہت عرصے تک فلاں ناپسندیدہ ملازمت نہ کرتی۔

٭میرا کوئی ایک خواب تو پورا ہو جاتا۔

٭میں اپنوں سے اختلافات نہ بڑھاتی۔

٭میں اپنے لیے وقت نکال سکتی۔

٭میں اپنے والدین کی خدمت کرتی۔

یہ اور ایسے بہت سارے ’’کاش‘‘ ہم سب کی زندگیوں میں شامل ہوتے ہیں، جو سوچ کے دھاروں کو پچھتاوے کی جانب لے جاتے ہیں۔ زندگی خدا کی عطا کردہ ایک حسین نعمت ہے۔ اس کو پچھتاوؤں کی نذر نہ کریں۔ ہر لمحہ خدا کی طرف سے عطا کردہ خوب صورت تحفہ ہے۔ لہٰذا زندگی کی ناآسودگی نامکمل خواہشات پر پچھتانے، جلنے، کڑھنے کے بہ جائے نئی زندگی کا آغاز کریں۔ صرف سوچنا چھوڑیں، عملیت پسندی پر کاربند ہوں۔ آج ہی کے دن کوزندگی کا پہلا دن قرار دیں۔ اپنی خواہشات اور عزائم سے پچھتاوؤں تک سب ضبط تحریر میں لے آئیں۔ وہ سب کچھ جو آپ کرنا چاہتے تھے، نہیں کر سکے، لکھ لیں۔ ایک فہرست تیار کر لیں۔ اب منصوبہ بندی کریں۔ فہرست کا بغور جائزہ لیں۔ کون سی ایسی خواہشات ہیں۔ ایسے عزائم ہیں جو اب پچھتاوے بن گئے ہیں، لیکن اب ان پر عمل درآمد ممکن نہیں رہا۔

مثال کے طور پر والدین کی خدمت کرنا چاہتے تھے، لیکن عمر بھر مصروف شب و روز یا غم روزگار نے فرصت نہ دی اور والدین انتقال کر گئے۔ اب صرف پچھتاوا رہ گیا، لیکن آپ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں، آپ کی ہر نیکی ان کے لیے ایصال ثواب کا باعث ہوگی، ان کے لیے دعائے مغفرت کیجیے۔ ان کے عزیز و اقارب اور دوستوں سے رابطے میں رہیے کہ اس طرح ان کی روح خوش ہوگی۔

اسی طرح فہرست میں کچھ ایسی خواہشات بھی ہوں گی جن پر عملدرآمد ممکن ہوگا۔ چاہے مشکل سہی، لیکن ناممکن کچھ نہیں۔

مثال کے طور پر اپنے لیے وقت نکالنا۔ اگر دن بھر کے معمولات طے کر کے کام کیا جائے تو ہم بہ آسانی اپنے لیے وقت نکال سکتے ہیں۔ اسی طرح تعلیمی قابلیت بڑھانا۔ تعلیم کے لیے عمر کی قید نہیں۔ عمر کے کسی بھی حصے میں تعلیم کے سلسلے کا دوبارہ آغاز کیا جا سکتا ہے، اسی طرح پرانی سہیلیوں سے رابطہ۔ سوشل نیٹ ورکنگ نے یہ فاصلے بھی مٹا دیے۔ اپنی سہیلیوں کے نام لکھ کر تلاش کیجیے اور اپنی دوستی کے رشتے کو دوبارہ استوار کیجیے۔ اسی طرح اپنوں سے اختلافات ہو گئے ہیں، تو کوئی بات نہیں خود آگے بڑھ کر معذرت کر لیجیے۔ یقین جانیے اس عمل سے اپنوں کے درمیان پیدا ہونے والی دوریاں ہی ختم نہیں ہوں گی، بلکہ رب کی رضا بھی یہی ہے۔ اتنی مختصر سی زندگی میں جہاں مسائل و مصائب نے انسان کو الجھا رکھا ہے۔ وہاں دلوں میں نفرتیں اور حسد پالنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ دل تو خدا کا گھر ہے۔ اس کو ہمیشہ صاف رکھیے۔

اب فہرست میں موجود ان خواہشات و عزائم کے متعلق سوچیں جن کے لیے منصوبہ بندی درکار ہے۔

مثال کے طور پر فریضہ حج یا عمرے کی ادائیگی، گھومنا پھرنا اور سیاحت، گاڑی یا مکان خریدنا وغیرہ۔ اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کیجیے، پروردگار سے مدد مانگیے، محنت کیجیے اور اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لائیے۔ جلد ہی آپ کی خواہشات ضرور پوری ہوں گی۔

زندگی ایک ہی دفعہ ملتی ہے، اس لیے خواہشات کی تکمیل ہر انسان کا حق ہے۔ ملازمت پیشہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد ایسے پچھتاوؤں کا زیادہ شکار ہو جاتے ہیں، تو خواتین کو بھی بڑھتی عمر کے ساتھ ان کی زندگی کی ناآسودہ آشائیں بیمار کر دیتی ہیں، جب کہ ایسے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کی زندگی ابھی بھی برقرار ہے، لہٰذا اپنی ذات سے جڑے تمام پچھتاوؤں کو اپنی حکمت و قابلیت سے بدل کر نئی زندگی کا آغاز کریں۔ ساتھ ہی اپنے رب کی رضا کو ہر لمحہ مدنظر رکھیں تو زندگی خوش گوار ہو جائے گی۔


مطالعے کی عادت کیسے ڈالی جائے؟

$
0
0

ہمارے ہاں بیشتر لوگ کتاب کی اہمیت اور افادیت تسلیم تو کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود خود کو کتاب پڑھنے پر آمادہ کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔

موبائل فونز اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس نے بھی ہمارے معاشرے میں مطالعے کی روایت پر کاری ضرب لگائی ہے۔ کچھ لوگ یہ شکایت کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ کتاب پڑھنا انہیں بوریت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی صحت مند رجحان نہیں۔ لوگوں میں مطالعے کا فقدان ایک عام مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔اس کااندازہ ہمیں روزمرہ زندگی میں لوگوں کی گفتگو کے موضوعات اور ان کی آراء کی سطحیت دیکھ کر ہوتا ہے۔ مطالعہ انسان کی فکری نشوونما کے لئے مستقل غذا کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ ہماری شخصیت میں نکھارکے ساتھ ساتھ ہمارے سماجی تعلقات میں بھی خوشگوار تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔ آج جب کتاب کلچر کے فروغ کی بات کی جاتی ہے تو اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ مطالعے کی عادت کیسے ڈالی جائے؟ سب سے پہلے ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مطالعہ ایک دلچسپ سرگرمی ہے، جو آپ سے بہت کم لے کر بدلے میںآپ کو بہت کچھ دیتی ہے۔ مطالعے کی عادت کو بہتر بنانے کے لئے یہ تراکیب بروئے کار لائی جا سکتی ہیں۔

وقت مقرر کیجئے:مطالعے کی عادت ڈالنے کے لئے روز مختلف اوقات میں مختصر وقت کے لئے مثلاً دس منٹ کے لئے مطالعہ ضرور کریں۔ یہ وقت ناشتے، دوپہر کے کھانے کے بعد یا پھر رات کو سونے سے پہلے کا ہو سکتا ہے۔ اس طرح اگر آپ دن میں فارغ ملنے والے چھوٹے چھوٹے چھوٹے وقفو ں کو استعمال میں لائیں گے تو یہ ایک اچھی شروعات ہو سکتی ہے۔ شروع میں زیادہ دورانیہ اکتاہٹ کا سبب بن سکتا ہے ۔

ہمیشہ کتاب ساتھ رکھیے: گھر سے نکلتے ہو ئے کتاب ساتھ رکھنا کبھی نہ بھولیے۔آپ کی گاڑی، دفتر،کام کی جگہ غرض کتاب ہر جگہ آپ کے ساتھ ہونی چاہیے۔ بہت مرتبہ آپ کو کسی سے ملاقات کیلئے یا کسی اور کام کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آپ یہ وقت کتاب کے ساتھ گزار کر اپنے فارغ وقت کو مفید بنا سکتے ہیں۔ مطالعے کے شوقین لوگ اکثر ریلوے اسٹیشن، ایئر پورٹ وغیر ہ کی انتظار گاہوں میں کتابوں میں غرق نظر آتے ہیں۔

فہرست بنائیے: اچھی کتابو ں کی فہرست مرتب کیجیے۔ مطالعے کے شوقین لوگوں سے اچھی کتابوں کے بارے میں پوچھیے۔ اپنی ذاتی ڈائری میں اہم اور قابل مطالعہ کتابوں کے نام درج کریں اور وقتاً فوقتاً اس فہرست میں اضافہ بھی کریں۔ پھر ان کتابوں کا باری باری مطالعہ کریں۔کتاب مکمل ہونے کے بعد اسے نشان زد کریں۔ خیال رہے کہ مطالعے کے دوران اہم جگہوں کے نوٹس لینا بہت مفید رہتا ہے۔ یہ بعد میں حوالے تلاش کرنے میں آپ کی مددکر سکتا ہے۔

پرسکون جگہ تلاش کیجیے: مطالعے کی عادت پختہ کرنے کے لئے ضروری ہے کی کسی ایسی پر سکون جگہ بیٹھا جائے جہاں موسیقی یا دیگر آوازیں آپ کے ارتکاز کو متاثر نہ کر سکیں۔اس کے علاوہ بیٹھ کر پڑھنازیادہ بہتر ہے۔گھر میں کوئی ایک کمرہ یا پھر لائبریری کا ماحول اس حوالے سے بہترین ہو سکتا ہے۔

انٹر نیٹ اور ٹی وی کا محدود استعمال: اس مشورے پر عمل آ ج کل یقیناً آسان نہیں لیکن اگر آپ مفید مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو مطالعے کے مقررہ اوقات میں ٹی وی یا دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سے گریز کرنا ہو گا۔ یہ چیزیں بار بار آپ کی توجہ کو متاثر کر کے مطالعے کا تسلسل توڑ دیتی ہیں۔

اپنے بچوں کی کتابیں بھی پڑھیے: اگر آپ صاحب اولادہیں تو بچوں کے لئے اچھی کتابیں لائیے۔انھیں مطالعے کی عادت ڈالئے اور ساتھ ہی ساتھ خود بھی ان کتابوں کو پڑھئے۔اس طرح ایک طرف تو بچوں میں مطالعے کا ذوق پروان چڑھے گا جبکہ دوسری جانب آپ کی مطالعے کی عادت بھی مزید بہتر ہو گی۔ بچوں کے لئے لکھی گئی مشہور اور اچھی کتابوں کا انتخاب کیجیے۔ ان کے مطالعے کے لیے اخلاقی اور سبق آموز کہانیاں کی فہرست ضرور بنائیے۔

بُک شاپس کا رخ کریں:کبھی آپ کوفرصت کے لمحات میسر ہوں تو کتب خانوں پر ضرور وقت گزاریے۔ وہاں آپ کی ملاقات مطالعے شوقین لوگوں سے بھی ہو سکتی ہے جو آپ کو اچھا مشورہ دیں گے۔اس کے علاوہ کتابیں الٹتے پلٹتے ہوئے شاید آپ کے ذوق کی دو چار کتابیں سامنے آ ہی جائیں۔

لائبریری ضرور جائیں: ہمارے ہاں لائبریریاں اب سنسان پڑی رہتی ہیں۔ مطالعے کی عادت پر کام کرنے والے لوگوں کے لئے بہتر ہے کہ ہفتے میں ایک دن لائبریری کے لئے مقرر کریں۔ نئی پرانی کتابوں سے خود کو متعارف کرائیں۔ شروع میںوہاں جم کر بیٹھنا مشکل ہو گا مگر آہستہ آہستہ آپ کو لائبریری میں وقت گزارنے میں لطف آنے لگے گا۔

خوش دلی سے پڑھئے: مطالعہ خوش دلی سے کیجیے۔ اچھے ستھرے ماحول کے ساتھ کچھ چائے، کافی یا پھر اپنے ذوق کی کوئی چیز بھی ساتھ رکھئے۔ صبح اور شام کے اوقات مطالعے کا بہت لطف دیتے ہیں۔اگر قدرتی ماحول مثلاً باغیچہ وغیرہ میسر ہو تو مطالعے کا عمل مزید دلچسپ ہو جاتا ہے۔

اپنابلاگ بنائیے: آج کل انٹر نیٹ نے مفت بلاگ بنانے کی سہولت دے رکھی ہے۔آپ اپنا بلاگ بنائیے اور کتاب پڑھنے کے بعد اُس کے دلچسپ پہلووں کو اپنے بلاگ کی زینت بنائیے۔ دوستوں سے بھی اپنا بلاگ شیئر کیجیے۔کتاب کے متعلق پوچھے گئے سوالات اور دوسرے لوگوں کی اس کتاب کی بابت رائے غور سے سنیے۔آپ کے ارد گرد موجود لوگ اس قسم کی مزید کتابوں سے آپ کومتعارف کروائیں گے۔ یہ عمل آپ کی لکھنے کی صلاحیت میں بھی بہتری لا سکتا ہے۔کتاب سے متعلق اپنی رائے فیس بک وغیرہ پر بھی دوستوں سے شیئر کیجیے۔

مقصد بڑا رکھئے: مطالعے کی عادت ڈالنے کے لئے آپ کو عزم کرنا ہو گا۔ مثلا ً اس سال میں پچاس کتابیں پڑھوں گا۔ ہر ماہ چار سے پانچ کتابیں مکمل کروں گا۔ پھر پوری دلچسپی اور لگن سے اپنے عزم کو پایہ تکمیل تک پہنچا ئیے۔ خیال رہے کہ اس مقصد کے لئے اپنی روز مرہ اہم سرگرمیوں کو متاثر کئے بغیر وقت نکالا جا سکتا ہے۔ بس ذرا سی توجہ کی ضرورت ہے۔

کوئی موضوع لیجیے: آپ کے سامنے ادب، مذہب ، سائنس، سماجیات سے متعلق بے شمار موضوعات بکھرے پڑے ہیں۔ اپنی پسند کا موضوع منتخب کیجیے اور اس حوالے سے مطالعے کے شوقین افراد سے مشورہ کریں۔ اہم کتابوں کے نام نوٹ کر کے ان کی جستجو شروع کر دیجیے۔ مثلاًاگر آپ کی دلچسپی افسانوں میں ہے تو اب تک لکھے گئے اہم افسانوں کی فہرست بنا کر یکے بعد دیگرے ان کا مطالعہ کریں۔ چند ہی مہینوں میں آپ افسانوں پر مدلل اور مضبوط گفتگو کے قابل ہو جانے کے علاوہ خود میں ایک عجیب قسم کی خود اعتمادی محسوس کریں گے ۔

تجزیہ کیجیے: ہر کتاب کے مطالعے کی تکمیل پر اپنی معلومات کا تجزیہ کیجیے۔ یہ دیکھئے کہ اس کتاب نے کس انداز میں آپ کو متاثر کیا۔آپ کی معلومات میں کیا اضافہ کیا۔ یہ عمل آپ کو مزید پڑھنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ اور ہمت دے گا۔ یہ چند بنیادی نکتے ہیں جنہیں کام میں لا کر آپ زندگی بھر کے لئے ایک ایسی مسرت بخش دنیا سے روشناس ہوں گے جو آپ کو سکون، اعتماد اور بصیرت سے ہمکنار کرے گی۔

کیا اب عام آدمی کے خواب پورے ہوں گے؟

$
0
0

عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروندکیجری وال سمیت پارٹی کے ہرکارکن کو چیونٹی کی وہ کہانی پوری تفصیل سے ازبر ہے ۔

جس میں ننھی چیونٹی جب دانہ لے کر چلتی ہے، دیواروں پر چڑھتی ہے، سوبارپھسلتی ہے لیکن اس کے اندر کا یقین کم ہونے کے بجائے بڑھتاہے، چڑھ کر گرنے اور گرکر چڑھنے کا عمل جاری رہتاہے، اس کی کوشش بے کار نہیں ہوتی کیونکہ کوشش کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی۔ کیجری وال اور ان کے ساتھی ایک دوسرے کو یہ کہانی بارباریاد دلاتے رہے حتی کہ وہ گزشتہ ماہ دہلی کی 70رکنی ریاستی اسمبلی میں67سیٹیں لے کر جاپہنچے۔

سب جانتے ہیں کہ اس سے پیشتر انتخابات ہوئے تو عام آدمی پارٹی کو اکثریت حاصل نہ تھی، اسے70میں سے محض 28نشستیں ملیں، تاہم اس نے کانگریس سے مل کر حکومت قائم کر لی۔ جب کیجری وال نے اپنے منشورپر عمل درآمد میں مشکلات محسوس کیں تو وہ حکومت چھوڑ کر اسمبلی سے باہرآگئے۔

دہلی کے عوام کو جہاں ان کا حکومت چھوڑنا پسند نہ آیا وہاں انھیں کیجری وال کی مجبوریوں کا بھی احساس تھا۔ چنانچہ انھوں نے اس بار اسمبلی کی قریباً ساری سیٹیں کیجری وال کی جھولی میں ڈال دیں۔ 2013ء کے انتخابات میں 28نشستیں ملیں، ووٹوں کا حساب کتاب کیاجائے تو اسے23لاکھ 22ہزار 330ووٹ ملے تھے یعنی مجموعی ووٹوں کا29.49فیصد۔سن2015ء کے انتخابات میں70سیٹیں ملیں،48لاکھ 79ہزار127ووٹ ملے۔ اب کی بار ووٹوں کی شرح تھی54.3فیصد۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے لیے یہ انتخاب بڑے دھچکے کی صورت میں سامنے آیا جن کی جماعت نے گذشتہ سال انتخاب یہ نعرہ لگا کر بھاری اکثریت سے جیتا کہ وہی محب وطن ہیں، وہی قوم پرست ہیں اور وہ تو پیدائشی ہندوبھی ہیں۔اس لئے وہی بھارت کا دیا روشن کریں گے۔ تاہم دہلی انتخابات میں ان کی جماعت کو صرف تین نشستیں ملیں۔

کانگریس جو دہلی میں سب سے بڑی سیاسی جماعت رہی ہے کا ان انتخابات میں صفایا ہوا۔ اروِند کیجری وال نے اپنے ملک کے وزیراعظم کو بھی اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی مگر مودی نے اْن کی دعوت ٹھکرا دی۔ شاید وہ جس طرح اپنے علاوہ کسی کو محب وطن نہیں مانتے، اسی طرح اس علاقے کو اپنا علاقہ ماننے سے بھی انکار کردیتے ہیں جہاں انھیں مخالف بری طرح پٹخ دے۔

کیجری وال نے اس بار اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو فوراً ہر دہلی والے مخاطب ہوئے کہ

’’ہم نے آپ سے کہاتھا کہ حکومت بنتے ہی گھروں میں مفت پانی پہنچائیں گے، ہم نے اپنا وعدہ پورا کردیاہے،یکم مارچ سے آپ کے گھر تک 20ہزار لٹر پانی مفت آئے گا۔ ہم نے آپ سے کہاتھا کہ حکومت بنتے ہی بجلی کے دام آدھے کریں گے، ہم نے وہ وعدہ بھی پورا کیا، یکم مارچ سے آپ کے بجلی کے بل 400یونٹوں تک آدھے ہوں گے۔

ذرا سوچئیے کہ یہ سب کس نے کیا، یہ میں نے نہیں کیا،یہ آپ سب نے کیا۔ آپ نے اعتمادکیا،آج 67عام آدمی دلی کی ریاستی اسمبلی میں آپ کی آواز سن رہے ہیں۔دلی کو ایک بہترشہربنانے کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرناپڑے گا۔ میں آپ سے وقتاًفوقتاً بات کرتارہوں گا۔ ہم سب مل کر دلی کو خوشحال بنائیں گے‘‘۔

دہلی کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’مجھے علم ہے کہ دہلی والے مجھ سے محبت کرتے ہیں مگر یہ نہیں معلوم کہ اتنی محبت کیوں کرتے ہیں۔‘ انھوں نے عہد کیا ہے کہ وہ دہلی سے ’وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کریں گے جس کے نتیجے میں سیاستدانوں کو عام لوگوں پر ترجیح دی جاتی ہے،انہیں اجازت دی جاتی ہے کہ وہ شہر کی بھیڑ اور ٹریفک میں سے بچ کر نکل جائیں۔ ’ترقی یافتہ ممالک میں اراکینِ پارلیمان بھی بس کے اڈے پر انتظار کرتے ہیں تو ایسا یہاں کیوں نہیں ہو سکتا؟

انہوں نے عہد کیا کہ وہ اگلے پانچ سال میں ’دہلی کو بھارت کی پہلی بدعنوانی سے پاک ریاست بنائیں گے۔‘انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی رشوت مانگے تو انکار مت کریں بس موبائل جیب سے نکال کر ریکارڈ کر لیں۔ اس کے بعد یہ آکر مجھے دے جائیں ہم خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کریں گے۔‘

کیجری وال بھارت کے روایتی سیاست دانوں کے لئے بہت خطرناک ثابت ہورہے ہیں، اس عام آدمی کی موجودگی میں روایتی سیاست دانوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جائے گی کیونکہ عام لوگوں کا پرانے سیاست دانوں کے ساتھ چلنا ممکن نہیں ہوتا، عام آدمی پارٹی کے سیاست دانوں کے ساتھ ان کا سفر اس لئے بھی آسان ہوتاہے کہ کیجری وال وی آئی پی کلچر کو کسی بھی سطح پر قبول نہیں کرتے۔

مثلاً بھارت کی تاریخ میں انوکھی مثال قائم ہوئی کہ کیجری وال نے دونوں مرتبہ وزیر اعلیٰ کا حلف عام لوگوں کے درمیان ہی اٹھایا۔ وہ انتخابی نتائج آنے کے فوراً بعد بار بار دہلی کے عام لوگوں سے اپیل کرتے رہے کہ وہ تقریب حلف برداری میں ضرور شریک ہوں۔ان عام لوگوں کو یاد ہوگا کہ چند ماہ پہلے بھارتی عوام سے بے شمار وعدے کرنے والے نریندرمودی نے روایتی سیاست دانوں کی طرح ایک مخصوص طبقہ کے منتخب لوگوں کے درمیان ہی حلف اٹھایاتھا۔

کیجری وال نے جس روز وزیراعلیٰ کا حلف اٹھایا، اگلی صبح وہ معمول کے مطابق اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر اسی راستے پر صبح کی سیر کرتے دکھائی دئیے جہاں روز نظرآتے تھے۔ ان کے ساتھ کوئی باڈی گارڈ نہ تھا، راستے میں حسب سابق ہر کسی کے ساتھ ہنستے مسکراتے، ہاتھ ملاتے، آگے بڑھتے رہے۔

روایتی سیاست دان اب ایسا طرززندگی اختیار نہیں کرسکتے، اس لئے وہ کیجری وال سے مقابلہ مشکل محسوس کرتے ہیں۔ پرانے سیاست دان گاڑیوں اور محافظوں کے لمبے چوڑے قافلے کے عادی ہوچکے ہیں، وہ وی آئی پی کلچر سے باہر آنہیں سکتے، کیجری وال اسی طبقہ کے خلاف میدان میں اترے ہیں، اسی طبقہ کے خلاف سیاست میں عام لوگوں کا مفاد ہے۔ ان کی ایک تقریر بہت مقبول ہوئی، وہ اسمبلی کے اجلاس میں کہہ رہے تھے:

’’اس دیش کے نیتائوں(رہنما) کو لگا کہ اس دیش کا عام آدمی مرا ہوا آدمی ہے، کچلا ہوا آدمی ہے، یہ چنائو کیالڑے گا۔ وہ بھول گئے اس دیش کے کھیتوں کے اندر عام آدمی ہل جوتتا ہے، یہ ہل جوتنے کے لئے نہیں جاتے۔ اس دیش کا عام آدمی مکان بناتاہے، یہ تو مکان نہیں بناتے۔ اس دیش کا عام آدمی آٹو چلاتا ہے، یہ تو آٹونہیں چلاتے۔ اس دیش کا عام آدمی چاند پر جاتا ہے۔

نیتا چاندپر نہیں جاتے۔اس دیش کا عام آدمی ریسرچ کرتا ہے، نیتا ریسرچ نہیں کرتے۔جب اس دیش کے عام آدمی کے پاس کوئی چارہ نہیں بچاتواس دیش کے عام آدمی نے طے کرلیا کہ ٹھیک ہے، اس بارچنائوبھی لڑ کر دکھائیں گے۔

بھگوان، ایشور، اللہ یہ سچائی کا ساتھ دیتے ہیں، سچائی ہارنہیں سکتی، دلی کے عام لوگوں نے دیش سے بھرشٹ راج نیتی (ناپاک حکومتی نظام) کو اکھاڑنے کی طرف پہلا قدم اٹھانے کی جرات کی ہے۔یہ لڑائی دیش کی بھرشٹ راج نیتی سماپت (ختم) کرکے سچائی اور ایمان داری کی راج نیتی قائم کرنے کی لڑائی ہے‘‘۔

حقیقت یہی ہے کہ کیجری وال کی ساری سیاست اور حکمرانی مذکورہ بالا فلسفہ پر استوار ہے۔ وہ عام لوگوں کے لئے بھرپور اور منظم اندازمیں کام کررہے ہیں۔

انھوں نے عوامی خدمت کے لئے اپناسفر وہاں سے شروع کیاہے، جہاں سے چھوڑاتھا۔ مفت میں پینے کا صاف پانی فراہم کرنے اور بجلی کے نرخ آدھے کرنے کا وعدہ فوراً پورا کردیا، تاہم ابھی انھیں دہلی کو ایسا شہر بناناہے جہاں بجلی 24گھنٹے ہی رہے، وہ اسے شمسی توانائی استعمال کرنے کا شہر بناناچاہتے ہیں۔

، صرف دہلی شہر کو نہیں بلکہ یہاں کے دیہاتی علاقوں میں بھی 24 گھنٹے بجلی فراہم کرنی ہے، ان دیہاتوں کے ہرگھر میں ہرماہ 20ہزار لیٹر پانی فراہم کرناہے، پانچ برسوں میں ہرگائوں کے ہر گھر میں سرکاری پانی کا پائپ پہچانا ہے، دہلی کے لئے ایک پاور پلانٹ لگانے کا وعدہ بھی پورا کرناہے، موجودہ 70کالجز میں طلبہ وطالبات کی تعداد کو دوگنا کرناہے، دہلی کے نواحی علاقوں میں کم ازکم 20نئے کالجز بنانے ہیںاور سٹیڈیم بھی تعمیر کرنے ہیں، ہر گائوں کا اپنا لوکل ڈویلپمنٹ فنڈ قائم کرناہے۔

آٹھ لاکھ لوگوں کو روزگارفراہم کرناہے، 10لاکھ نوجوانوں کو پروفیشنل ٹریننگ فراہم کرنی ہے، دہلی میں VATکی شرح ملک کے باقی حصوں کی نسبت کم کرنی ہے، 29انڈسٹریل ایریاز بہترین سہولیات کے ساتھ قائم کرنے ہیں، دہلی کو منشیات سے مکمل طورپر پاک کرناہے، یہاں وائی فائی کی سروس مکمل طورپر مفت فراہم کرنی ہے، طلبہ وطالبات کو ایجوکیشن لون فراہم کرناہے تاکہ کوئی محض اس لئے تعلیم ادھوری نہ چھوڑدے کہ پیسے نہ تھے۔

بڑی تعدادمیں نوجوانوں کوسرکاری خرچ پر تعلیم اور کھیلوں کی بیرون ملک تربیت کے لئے بھیجناہے، دہلی میں 4000سکول گرائونڈز کو نوجوانوں کے لئے کھیلوں کی تربیت کے لئے کھولناہے، ای۔ رکشہ منصوبہ دوبارہ شروع کرناہے۔ان سمیت دیگرمنصوبوں کی تکمیل کے لئے کیجری وال نے مجموعی طورپر20ٹاسک فورسز قائم کی ہیں۔

ان میں سب سے پہلی ٹاسک فورس کا کام ہے کہ وہ ہرقیمت پر عام آدمی پارٹی کی طرزحکمرانی کوصاف اور موثر بنانے کا منصوبہ عمل بنائے، اس پر عمل درآمد کرائے اور حکومتی معاملات پر نظر رکھے۔ اسی طرح عام آدمی پارٹی کے منشور کے مطابق بجلی اورپینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے بھی ٹاسک فورسز ہیں۔ ایک ٹاسک فورس کا کام دریائے جمنا کو صاف ستھرا رکھنا ہے۔

دارالحکومت کو صاف شفاف رکھنے لئے قائم ایک ٹاسک فورس ’صاف ستھری دلی‘ کے نام سے قائم کی گئی ہے۔ تعلیم اور صحت کے لئے الگ الگ فورسز قائم کی گئی ہیں۔ ’تحفظ خواتین‘ کے لئے بھی علیحدہ فورس نے کام شروع کردیاہے۔ دہلی کی دیہاتی آبادی کو بھی نظراندازنہیں کیاگیا، اس کا معیارزندگی بہتر بنانے کے لئے بھی ٹاسک فورس قائم کی گئی ہے۔

تجارت، ملازمت اور تحفظ ملازمت، ماحولیات، ٹرانسپورٹ، غیرقانونی آبادیوں، جھگی جھونپڑی میں زندگی بسر کرنے والوں کے لئے بھی الگ ٹاسک فورسز ہیں۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے، ٹریفک کے حسن انتظام کے لئے، فوری انصاف کی فراہمی کے لئے بھی ٹاسک فورسز ہیں۔ ایک ٹاسک فورس ’موبائل پر سرکار‘ کے نام سے حکومت اور عوام کے براہ راست رابطے کو بہتر سے بہترین بنانے کی سعی کرے گی۔

 

اسی طرح وائی فائی اور سی سی ٹی وی کے سسٹم کی بہتری کے لئے بھی ٹاسک فورس بنی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ٹاسک فورسز میں کام کرنے والے عوامی خدمت کے جذبے کے تحت کام کریں گے، ہمارے ہاں حکمران جماعتیں اپنے بڑے بڑے حامیوں کو لاکھوں روپوں کی تنخواہوں پر ’افسر بغیرکام‘ بنادیتی ہیں۔ تاہم کیجری وال خود بھی اور اپنے ساتھیوں کو بھی عوام پر بوجھ نہیں بننے دیناچاہتے۔انھیں یقین ہے کہ ان کی ٹاسک فورسز موثر حکمرانی میں انھیں معاونت فراہم کریں گی۔

اگرچہ کیجری وال67سیٹوں کے ساتھ دہلی میں اپنا رعب ودبدبہ قائم کرچکے ہیں لیکن ان کے لئے چیلنجز وہی ہیں۔ دہلی کی پولیس جو وزیراعظم مودی کے ماتحت ہے،دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی وزارت شہری ترقی کے ماتحت ہے۔ پولیس کا معاملہ پھر سے کیجری وال اور مرکزی حکومت کے درمیان لڑائی کا سبب بنے گا ، کیونکہ دہلی کے حکمران کو اپنی ریاست کا امن وامان مثالی بناناہے۔ اسی طرح کیجری وال شہر میں ناجائز آبادیوں کے مکینوں کو گھر دیناچاہتے ہیں، ان کی اس معاملے پر بھی شہری ترقی کی وزارت سے کشمکش ہوگی۔

مودی سرکار اور اس کے باقی اہلکاروں کا طرزعمل دوسروں کو برداشت کرنے والا نہیں ہے، یہ سب سے بڑا چیلنج ہے جو کیجری وال کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگا۔ یہ بات طے ہے کہ اب کیجری وال مرکزی حکومت کے عدم تعاون یا مخالفانہ طرزعمل سے تنگ آکر استعفیٰ نہیں دیں گے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے دہلی میں اپنا دیا جلا کر باقی ریاستوں میں بھی دیاجلانا ہے۔ اغلب امکان ہے کہ کیجری وال ہزار رکاوٹوں کو عبور کرکے بڑی کامیابی سمیٹ لیں گے۔

میں تجھے قبول نہ تو مجھے قبول ؛بولی وڈ اسٹارز، جو ایک دوسرے کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے

$
0
0

فلمی دنیا اتفاقات سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں ہر قدم پھونک پھونک کے رکھنا پڑتا ہے کیوںکہ میڈیا اتنا زیادہ ایڈوانس ہوچکا ہے کہ اسٹارز کے پل پل کی خبر بنتی رہتی ہے۔ ایسے میں اگر کچھ منفی چیز سامنے آجائے تو اس کا اثر بھی منفی ہی پڑتا ہے۔

بولی وڈ اسٹارز اپنے ہر معاملے میں احتیاط برتتے ہیں، لیکن کچھ باتیں یا اتفاقات ایسے بھی پیش آجاتے ہیں جن پر وہ کبھی سمجھوتا نہیں کر پاتے ۔ اسے آپ ان کی انا کہہ لیں یا مس انڈراسٹینڈنگ یا پھر اسے مس کمونیکیشن بھی کہا جا سکتا ہے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی ویلیو بڑھانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

بولی وڈ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ کئی اسٹارز نے ایک دوسرے کے ساتھ کبھی کا م نہیں کیا یا ایک دو فلمیں ایک ساتھ کام کرکے آئندہ کے لیے ایک ساتھ کام کرنے سے معذرت کرلی۔ ذیل کے مضمون میں ایسے ہی نام ور اسٹارز کا ذکر ہے کہ جنہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے سے منع کردیا۔

٭دلیپ کمار، راج کپور اور دیو آنند:
1940اور پچاس کی دہائی کے یہ سپراسٹارز کے جن کے نام کا ہر جگہ طوطی بولتا تھا، ایک دوسرے کے ساتھ کام نہیں کر پائے۔ صرف 1949میں لیجنڈ دلیپ کمار اور راج کپور نے ایک فلم انداز میں ایک ساتھ کام کیا۔ اس فلم کی ہیروئن نرگس تھیں اور کہانی ٹرائی اینگل لو اسٹوری پر مشتمل تھی۔ اس فلم نے بلاک بسٹر کام یابی پائی تھی۔

فلم میں جب یہ دونوں میگااسٹارز کام کر رہے تھے تب اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ راج کپور دلیپ کمار کو اداکاری کے میدان میں پچھاڑ دیں گے، لیکن فلم کی ریلیز کے بعد اس بات کا فیصلہ خود ہی خود ہو گیا کہ ان میں سے بڑا اور اصل اداکار کون ہے۔ دلیپ کمار نے اپنے ہر کردار میں نیا پن اور ورائٹی دی، جب کہ راج کپور لگے بندھے انداز میں اداکاری کرتے تھے۔ فلم انداز کی کام یابی کے باوجود ان دونوں اسٹارز نے ساتھ کام نہیں کیا۔ شاید راج کپور دلیپ کمار کے مقام پر نہ پہنچ پائے۔

اسی طرح دیو آنند جنہیں انڈین فلم انڈسٹری میں ہولی وڈ اسٹار گریگوری پیک کے مشابہ قرار دیا جاتا تھا، نے بھی اپنے پورے کیریر میں راج کپور اور دلیپ کمار کے ساتھ کام نہیں کیا، حالاں کہ آف اسکرین دیو آنند ، راج کپور اور دلیپ کمار میں بہت اچھی دوستی اور اچھے تعلقات تھے اور اکثر فنکشنز میں یہ تینوں ایک دوسرے کی تعریفوں رطب السان نظر آتے تھے، لیکن آن اسکرین ان کا اکام دیکھنے میں نہیں آیا۔

٭امیتابھ بچن اور راجیش کھنہ:
راجیش کھنہ کو بولی وڈ کا پہلا سپراسٹار کہا جاتا ہے۔ جن دنوں کاکا جی اپنے عروج پر تھے وہ امیتابھ بچن کی جدوجہد کا دور تھا۔ وہ فلموں میں کام یابی اور شہرت حاصل کرنے میں مصروف تھے۔

ان ہی دنوں ان دونوں نے فلم آنند اور نمک حرام میں ایک ساتھ کام کیا۔ بہ ظاہر ان دونوں فلموں میں راجیش کھنہ ہیرو تھے اور امیتابھ کا سائڈ رول تھا، لیکن جب بگ بی کی فلم زنجیر سپرہٹ ہوئی اور فلم سازوں کی توجہ ان کی طرف مبذول ہونے لگی، تب راجیش کھنہ کا زوال شروع ہوگیا اور اس وقت سے راجیش کھنہ نے امیتابھ کے لیے اپنے دل میں عناد پال لیا۔

اس وجہ سے ان دونوں اسٹارز نے پھر کبھی کسی فلم میں ساتھ کام نہیں کیا، کیوں کہ راجیش کھنہ جی امیتابھ کی مقبولیت سے خائف تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ کسی فلم میں امیتابھ ان پر حاوی ہوں۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ ان تقریبات میں بھی کم ہی جاتے تھے، جہاں بگ بی کی موجودگی کا امکان ہو تا تھا۔

٭سلمان خان اور شاہ رخ خان:
بولی وڈ کے یہ دو سپراسٹارز جن کے نام پر ہی فلمیں بکتی اور کام یاب ہوتی ہیں،کے درمیان تنازعات کی بڑی لمبی دیوار ہے اور دونوں ہی اسے پھلانگنے کی لاحاصل کوشش کر رہے ہیں۔

ان دونوں اسٹارز نے ابتدا میں فلم کرن ارجن کے علاوہ کرن جوہر کی فلم کچھ کچھ ہوتا ہے میں کام کیا تھا۔ اس کے بعد ان دونوں کے درمیان ایسے تنازعات نے جنم لیا کہ پھر یہ ایک دوسرے کے ساتھ کام نہیں کرپائے۔ ان دونوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بھی اس تنازعے کا حصہ بنی رہی، لیکن 2014 میں سلمان خان کی بہن ارپیتا کی شادی کے موقع پر جب سلمان کی جانب سے شاہ رخ خان کو بھی دعوت دی گئی، تب ان دونوں اسٹارز کے تعلقات کے درمیان جمی برف کچھ پگھلی۔

شاہ رخ نے زیادہ وقت سلمان کی فیملی کے ساتھ گزارا۔ ان دونوں اسٹارز نے ایک ساتھ تصاویر بھی کھنچوائیں۔ تعلقات کے اچھے آغاز کے باوجود ابھی تک دونوں کی طرف سے ایک ساتھ کام کرنے کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔ حالاں کہ ان دونوں کے پرستار انہیں ایک ساتھ آن اسکرین کام کرتے ہوئے دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔ بہت سے فلم میکرز کی خواہش بھی ہے کہ انہیں ایک ساتھ کاسٹ کرکے دھماکا کردیں، لیکن ان دونوں سپر اسٹارز کی جانب سے اس قسم کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔

٭ عامر خان اور سلمان خان:
یہ دونوں ہی اپنے ہر انداز میں پرفیکٹ ہیں۔ دونوں ہی بہت اچھے دوست بھی ہیں۔ اس کے باوجود ان کے ایک ساتھ کام نہ کرنے کی بہ ظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ عامر اور سلمان کی ایک واحد مشترکہ فلم کامیڈی کلاسک انداز اپنا اپنا تھی اس فلم نے باکس آفس پر شان دار بزنس کیا تھا اس فلم کی کامیابی کے بعد ان دونوں نے شاید قسم کھالی کہ وہ ایک ساتھ کام نہیں کریں گے۔

ان کے درمیان کوئی تنازعہ بھی نہیں حالاں کہ ان سے جب یہ سوال کیا جاتا کہ آپ ایک ساتھ کام کیوں نہیں کرتے، تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ جیسے ہی کوئی اچھوتا اور منفرد اسکرپٹ ملا جس میں ا ن دونوں کے کردار انتہائی جان دار ہوں تب ہی وہ ایک دوسرے کے ساتھ کام کریں گے۔ اگر فلم انداز اپنا اپنا کا سیکوئل بنا یا جائے تو ان کے کردار کے لیے ڈائریکٹر کو سلمان اور عامر ہی کو کا سٹ کرنا پڑے گا، کیوں کہ اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کرداروں کے لیے کوئی متبادل نہیں ہونا چاہیے لیکن کیا وہ یہ فلم دوبارہ کریں گے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔

٭شاہ رخ خان اور اجے دیو گن:
کنگ آف بولی وڈ شاہ رخ خان کا اجے دیوگن کے ساتھ ابھی تک کام نہ کرنا حیرت انگیز بات ہے۔ اجے کا شمار انڈسٹری کے بہترین اداکاروں میں ہوتا ہے۔ خاص طور سے ایکشن فلموں میں وہ کام یاب ہیرو تصور کیے جاتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ شاہ رخ اور اجے کے درمیان سرد مہری اور تنازعے کی بڑی وجہ کاجول ہیں۔ اجے کو کاجول کا شاہ رخ کے ساتھ کام کرنا پسند نہیں اور اس بات کا وہ کئی بار برملا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ کاجول کی اجے کے ساتھ اب تک جتنی فلمیں ریلیز ہوئیں جیسے ہلچل، غنڈا راج، تون پور کا سپر ہیرو وغیرہ سب ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ اس کے برعکس کاجول اور شاہ رخ کی جوڑی کو آن اسکرین ہمیشہ بڑ ی کام یابی ملی۔

ان دونوں نے جتنی فلمیں کیں وہ سب کی سب سہر ہٹ ہوئیں، جیسے بازی گر، کچھ کچھ ہوتا ہے، دل والے دلہنیا لے جائیں گے، کبھی خوشی کبھی غم وغیرہ ۔ اجے کو اس فلمی جوڑی کی کام یابی پسند نہیں اور وہ کاجول کو شاہ رخ کے ساتھ کام کرنے سے روک بھی نہیں سکتے کہ بہرحال وہ ایک اداکارہ ہے اور اس کے مداح اسے شاہ رخ کے ساتھ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اسی پروفیشنل جیلسی کے باعث ان دونوں یعنی اجے اور شاہ رخ نے ابھی تک ایک ساتھ کام نہیں کیا۔

٭کترینہ کیف اور دیپکا پاڈوکون:
ان دونوں کا شمار بولی وڈ کی ٹاپ کلاس ہیروئنز میں کیا جاتا ہے۔ دونوں ہی باکس آفس پر سپر ہٹ اداکارائیں مانی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود ان دونوں نے ابھی تک ایک دوسرے کے ساتھ کام نہیں کیا۔ اس کی بڑی وجہ رنبیرکپور ہیں۔ سب ہی جانتے ہیں کہ دیپکا اور رنبیر کے درمیان زبردست لوافیئر تھا اور بات رنبیر کے والدین تک بھی پہنچ گئی تھی۔

رنبیر کی مان نیتو سنگھ نے دیپکا کو اپنی بہو بنانے سے انکار کردیا۔ یوں ان دونوں کے درمیان تعلقات ختم ہوگئے۔ رنبیر جلد ہی کترینہ کی زلفوں کے اسیر ہوگئے اور اب ان دونوں کی شادی کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ ایسی صورت میں دیپکا اور کترینہ ایک دوسرے کو ذاتی طور پر بالکل پسند نہیں کرتیں، کیوںکہ دونوں کا بوائے فرینڈ ایک ہی رہ چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ہیروئنز نے ابھی تک ایک ساتھ کام کرنے کی آمادگی ظاہر نہیں کی ہے۔

٭سلمان خان اور ابھشیک بچن:
بگ بی کے بڑے صاحب زادے جو ابھی تک فلم انڈسٹری میں کام یاب اداکار نہیں بن پائے ہیں، تقریباً سب ہی بڑے اسٹارز جیسے شاہ رخ خان، عامر خان، ریتھک روشن، اجے دیو گن اور سنجے دت وغیرہ کے ساتھ کام کر چکے ہیں، لیکن پتا نہیں کیوں ابھیشیک نے سلمان کے ساتھ کام نہیں کیا، حالاں کہ ان دونوں کے درمیان کوئی تنازعہ بھی نہیں اور آف اسکرین ان کے تعلقات بھی مثالی ہیں۔

ابھیشیک سلمان کو اپنا بڑا بھائی مانتے ہیں۔ ان کے ایک ساتھ کام نہ کرنے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے سلمان کی سابق گرل فرینڈ ایشوریا رائے، جو اب ابھیشیک کی بیوی ہیں۔ اسی وجہ سے سلمان ابھیشیک کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے۔

٭کرینہ کپور اور پریانکا چوپڑہ:
دونوں ہیروئنز ابتدا سے ہی پروفیشنل جیلسی کا شکار رہی ہیں۔ کرینہ نے پریانکا کے ساتھ دو فلموں ڈان اور اعتراض میں کام کیا تھا اور ان دونوں فلموں میں کرینہ نے پریانکا کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ان فلموں میں کرینہ کی موجودگی نے پریانکا کو پس منظر میں ڈال دیا تھا فلم بینوں کا کہنا تھا کہ دونوں فلموں میں ہر جگہ کرینہ ہی چھائی رہی اور اس کی کام یابی کا کریڈٹ بھی بیبو لے گئی۔

یوں پریانکا اس کی حریف بن گئی۔ دونوں میں تعلقات بھی سرد مہری کا شکار ہیں، جس کی ایک اہم وجہ یہ بھے کہ شاہدکپور ان دونوں ہیروئنز کا بوائے فرینڈ رہ چکا ہے۔ اس لیے ان دونوں ہیروئنز میں کشیدگی اتنی زیادہ ہے کہ دونوں کسی فنکشن میں بھی ایک ساتھ شرکت نہیں کرتیں فلمیں ساتھ کرنا تو دور کی بات ہے۔

٭رنبیر کپور اور سوناکشی سنہا:
رشی کپور اور نیتو نگھ کا ہونہار بیٹا رنبیر جس نے اپنی فلم فیملی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بہت جلد فلموں میں کام یابیاں حاصل کیں اپنے چاکلیٹی لُک اور زبردست ڈانس اسٹائل کی بدولت نوجوان نسل خصوصاً لڑکیوں میں خاصے پسند کیے جاتے ہیں۔ دوسر ی طرف ماضی کے اداکار شترو گھن سنہا کی بیٹی سوناکشی نے بھی بڑی تیزی سے فلموں میں اپنی پہچان بنائی ہے۔

دبنگ کی کام یابی نے انہیں دبنگ گرل کا ٹائٹل بھی دے دیا۔ دونوں اسٹارز کا فلمی سفر خوش گوار چل رہا ہے۔ کئی فلم میکرز نے ان دونوں کو ساتھ کاسٹ کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار رنبیر نے سوناکشی کے ساتھ کام کرنے سے معذرت اختیارکرلی رنبیر کا کہنا ہے کہ ہماری فلمی جوڑی کبھی کام یاب نہیں ہوسکتی کیوں کہ آن اسکرین سوناکشی مجھ سے بڑی نظر آئے گی اسی لیے میں اس کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتا۔

٭ابھیشیک بچن اور کرینہ کپور:
دونوں کا تعلق ہی ویل خاندان سے ہے، جن کے آپس کے تعلقات بھی خوش گوار ہیں، لیکن اس کے باوجود ان دونوں نے ابھی تک ایک ساتھ کام نہیں کیا۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کرینہ کی بڑی بہن کرشمہ کپور کی منگنی پہلے ابھیشیک کے ساتھ ہوئی تھی لیکن کچھ عرصے بعد یہ منگنی ختم ہوگئی اور اسے کرشمہ نے خود ختم کیا۔ یہ ابھیشیک کے لیے شاک تھا لیکن بہت جلد اس نے خود کو سنبھال لیا۔ اس وجہ سے ابھیشیک کرینہ کے ساتھ اب تک کام نہیں کر پائے اور کسی فلم میکر نے انہیں ابھی تک اپروچ ہی نہیں کیا۔

جنگل کی آگ ہمارے کرۂ ارض کو ٹھنڈا کررہی ہے؟

$
0
0

 حال ہی میں سائنس دانوں نے ایک اسٹڈی کے بعد یہ انکشاف کیا ہے کہ جنگل میں لگنے والے آگ جب شدت اختیار کرتی ہے تو اس کے شعلے اور دھواں سورج سے زمین پر پڑنے والی سورج کی شعاعوں کو منعکس کردیتے ہیں، یعنی انھیں واپس خلا میں بھیج دیتے ہیں جس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ میں قدرتی طور پر کمی واقع ہوجاتی ہے اور ہماری زمین نسبتاً ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔

یہ اسٹڈی امریکی ریاست میساچوسٹس کے وڈز ہول ریسرچ سینٹر کے مقام پر کی گئی تھی جہاں کے ماہرین نے کافی غور وخوض کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ جب جنگل میں لگنے والی آگ شدت پکڑتی ہے تو پہلے وہ کرۂ ارض سے قدرتی نباتات کو جلاکر صاف کردیتی ہے جس کے بعد زمین کا رنگ بدل جاتا ہے۔ رنگ کی اس تبدیلی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سورج سے زمین پر آنے والی ان شعاعوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے جو ہماری زمین سے ٹکرانے کے بعد منعکس ہوکر واپس خلا میں جاتی ہیں۔

ان سائنس دانوں نے یہ بھی دیکھا کہ شمالی امریکا میں لگنے والی جنگل کی آگ کے بعد اس خطے کے کئی مقامات کافی ٹھنڈے ہوگئے۔ اسی طرح سائبیریا کے جنگلات نے بھی یہی کام کیا اور شمالی یورپ کے جنگلات بھی اسی انداز سے گلوبل وارمنگ کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔جنگل کی آگ کا تصور خاصا ہول ناک ہے۔

اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنگل میں جب آگ لگتی ہے تو ایک قیامت مچادیتی ہے۔ جنگل کی آگ بڑی بے دردی اور تیزی سے جنگل کی قدرتی دولت کو تو چاٹ ڈالتی ہی ہے، ساتھ ہی اس کی بے تحاشا شدید گرمی چند گھنٹوں میں ہی جانوروں کی آبادیوں کو بھی نیست و نابود کرڈالتی ہے اور وہ قیمتی جانور جو ہمارے کرۂ ارض کا زیور ہیں، لمحوں میں صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔

اس قیامت خیز آگ کی وجہ سے دھوئیں کے ایسے خوف ناک اور سیاہ گاڑھے بادل پیدا ہوتے ہیں جن کی وجہ سے سارے منظر اوجھل ہوجاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ حصہ کسی تاریک دنیا میں واقع ہے جہاں روشنی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سب کی وجہ سے شدید قسم کی آلودگی پھیل رہی ہے جو ایک طرف تو ہماری دنیا کو گلوبل وارمنگ میں مبتلا کررہی ہے اور دوسری جانب اس کی وجہ سے کرۂ ارض پر انسانی حیات کو بھی ختم ہونے کے امکانات پیدا ہورہے ہیں۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ جنگل کی یہ آگ ہمارے لیے اور ہماری زمین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے، کیوں کہ یہ خوف ناک اور بھیانک آگ ہمارے کرۂ ارض کو ٹھنڈا کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات ہم سبھی کو عجیب لگے، مگر یہ سچ ہے کہ جنگل کی آگ ہمارے قدرتی ماحول کو متوازن رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہے۔

ہمارے ان محققین اور سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگل کی یہ آگ اپنے ساتھ تباہی اور بربادی بھی لاتی ہے جیسا کہ شمالی امریکا کے جنگلات میں ہورہا ہے، یہی صورت حال یوریشیا (یورپ و ایشیا) میں بھی ہے، اس کے باوجود اسی آگ کی وجہ سے زمین کا درجۂ حرارت کم ہوسکتا ہے۔

اوپر بیان کردہ جنگل کی آگ ہماری زمین کی نباتات کو جلاکر راکھ کررہی ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں کی شادابی بھی ختم ہورہی ہے، مگر یہ بھی ایک سائنسی حقیقت ہے کہ ہمارے یہی علاقے سورج کی شدید حرارت اور تپش کو بڑی مقدار میں منعکس کرکے واپس خلا میں بھیج رہے ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہی جنگل کی آگ ہماری زمین یا ہمارے لینڈ اسکیپ کو تبدیل کررہی ہے اور اس کی وجہ سے برف کو زیادہ سے زیادہ علاقے پر چھانے کا موقع مل رہا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ سورج کی زیادہ حرارت یا شعاعوں کو واپس منعکس کررہے ہیں۔درختوں کے گہرے سبز پتے بھی سورج کی حرارت اور تپش کو جذب کرتے ہیں اور اسی کی وجہ سے برف سے ڈھکے ہوئے میدان اور علاقے انعکاس کا کام زیادہ تیزی سے کرتے ہیں۔

اس اسٹڈی کی قیادت ڈاکٹر برینڈن راجرز نے کی تھی اور اس کا اہتمام میساچوسٹس کے وڈز ہول ریسرچ سینٹر میں کیا گیا تھا۔اسٹڈی کے دوران ماہرین نے یہ بھی دیکھا کہ جن علاقوں میں جنگل کی آگ نے زیادہ شدید تباہی مچائی، ان میں زمین کے ٹھنڈے ہونے کے اثرات بھی زیادہ دکھائی دیے۔

مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ قدرتی طور پر ٹھنڈا کرنے کے عمل کے مقابلے میں زمین کے ٹھنڈا ہونے کا یہ عمل لگ بھگ دگنا رہا۔ان نتائج کی روشنی میں موسم کے حوالے سے اب سائنس دانوں کو اپنی پیش گوئیوں میں تبدیلی کرنی پڑے گی۔ جیسے جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج بڑھے گا، ویسے ویسے کرۂ ارض کی آب و ہوا بھی تبدیل ہوگی۔

ڈاکٹر راجرز نے کہا:’’اب آب و ہوا کو جانچنے اور اس پر نظر رکھنے والے سائنس داں اپنے ماڈلز میں گلوبل وارمنگ اور جنگل کی آگ کے اثرات کے تعلق کو ڈھونڈیں گے۔ گلوبل فائر کے موجودہ ماڈلز ان کے اثرات کو نظرانداز کرتے ہیں اور یہ حضرات شمالی علاقوں کے جنگلات میں لگنے والی آگ کا تعلق آب و ہوا کے گرم ہونے سے جوڑتے ہیں۔

اب ہمیں اپنے انداز فکر کو بدلنا ہوگا اور موسم کی تبدیلی میں درختوں کی اصل نمائندگی کو بھی دیکھنا ہوگا۔اور مذکورہ بالا معلومات کو سامنے رکھ کر جنگل کی آگ کا وہ کردار دیکھنا ہوگا جو وہ ہماری زمین کو ٹھنڈا رکھنے میں ادا کررہی ہے، اسی حوالے سے ہمیں اپنی پالیسی بدلنی ہوگی اور ان کے مطابق اپنے فیصلوں میں بھی تبدیلی کرنی ہوگی۔

گویا ہمیں جنگل کی آگ پر قابو پانے کے لیے مناسب حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی، تاکہ اس موسمی اور ارضی صورت حال پر قابو پایا جاسکے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں یہی تاثر عام ہے کہ جنگل کی آگ گلوبل وارمنگ کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ ہے ، کیوں کہ اس آگ کی وجہ سے ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بہت بڑی مقدار ہمارے پورے کرۂ ارض کے موسم میں شامل ہوتی ہے جس کے مضر اثرات ہماری زمین کے ماحول پر بھی پڑتے ہیں۔ جنگل کی اس آگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاہ کالک ہماری زمین کو ڈھک سکتی ہے اور اس کے بعد یہ سورج کی حرارت کو بھی اپنے اندر جذب کرسکتی ہے جس سے موسموں میں تبدیلی کے آثار بڑھ جاتے ہیں۔

اس موضوع پر ریسرچ کرنے والے ماہرین نے ان مقامات پر جہاں سورج کی روشنی یا حرارت نے اپنا جلوہ دکھایا تھا، ان مقامات پر ‘albedo’ اثرات بھی دیکھے، وہاں زمین کے بدلے ہوئے رنگ بھی دیکھے اور دھوپ کی تباہ کاریوں کے ساتھ جنگل کی آگ کی حشر سامانیاں بھی ماہرین نے نوٹ کیں اور پھر انہی ماہرین نے یہ نتیجہ بھی نکالا کہ ان علاقوں میں خاص طور سے موسم سرما کے سرد مہینوں میں جنگل کی آگ نے یہاں کرۂ ارض پر سب سے زیادہ سرد اثرات ڈالے اور یہاں کا موسم گرم نہ ہوسکا۔

ان ماہرین کا کہنا ہے کہ الاسکا اور کینیڈا کے جنگلات میں پائے جانے والے وہ تمام درخت سیاہ کالک سے ڈھکے ہوئے تھے جنہیں جنگل کی آگ نے نہایت شدت سے جلاکر خاکستر کردیا تھا۔ مگر یہ کالک زمین کے لیے مفید ثابت ہوئی ہے۔ اس کا انہوں نے سیدھا سادہ سا مطلب یہ نکالا کہ جنگل کی آگ کرۂ ارض کی آب و ہوا کو بہت زیادہ ٹھنڈا کررہی ہے۔

شمالی یورپ اور سائبیریا میں جہاں Scots Pineاور larch کے درخت بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، یہاں کی آب و ہوا دیگر مقامات کے مقابلے میں 69 فی صد کم زور تھی۔ Scots Pineاور larch صنوبر کی قسمیں ہیں جو عمارتی لکڑی کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ یہ لکڑی بہت مضبوط ہوتی ہے۔

ماہرین اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں:’’اس کا بنیادی سبب جنگل کی آگ کی وجہ سے ان نباتات کا خاتمہ ہے جنھوں نے پوری زمین کو ڈھک رکھا تھا۔ جب نباتات صاف ہوگئی تو یہاں کھلے حصوں پر زیادہ برف باری ہوئی اور ہر طرف جہاں درختوں کی حکم رانی تھی، وہاں برف ہی برف نظر آنے لگی۔

اسی لیے ماہرین نے اپنا حساب کتاب لگانے کے بعد یہ انکشاف کیا کہ شمالی امریکا کے جنگلوں میں لگنے والی آگ یہاں کی آب و ہوا کو لگ بھگ 6واٹ فی مربع میٹر تک ٹھنڈا کرسکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوریشیا میں جنگل کی آگ یہاں کی آب و ہوا کو 1.9واٹ فی مربع میٹر تک ٹھنڈا کرسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنگل کی آگ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے باعث گلوبل وارمنگ کو نہایت مناسب حد تک توازن میں رکھ سکے گی۔‘‘

ڈاکٹر راجرز اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے:’’ہمارے نتائج اس بات کا کھلا ثبوت فراہم کررہے ہیں کہ دو براعظموں سے آگ سے متعلق آب و ہوا کا جو فیڈ بیک ہمیں ملا ہے، وہ یقینی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگل سے لگنے والی آگ کے اثرت ہماری زمین کے لیے مثبت علامات ہیں اور ان کی وجہ سے ہمارا کرہ گلوبل وارمنگ سے کسی حد تک محفوظ رہ سکتا ہے۔‘‘

مویشی ہمیں گلوبل وارمنگ سے بچاسکتے ہیں
ہوسکتا ہے ہمارے قارئین کو یہ بات عجیب لگے، مگر یہ سچ ہے کہ متعدد مویشی جب اپنی خوراک ہضم کرتے ہیں تو میتھین نامی گیس کی بڑی مقدار پیدا کرتے ہیں جو گلوبل وارمنگ کی بڑی وجہ ہے۔

تاہم ماہرین حیاتیات نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ جس انداز سے مویشی میدانوں اور چراگاہوں میں گھاس چرتے ہیں، اس طریقے میں تھوڑی بہت تبدیلی کرنے کے بعد ہم گایوں کو اس قابل کرسکتے ہیں کہ وہ مٹی میں اس گیس کو تلاش کرکے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم کرسکتی ہیں۔

ان ماہرین نے ایک ٹیکنیک بھی استعمال کی تھی جسے انہوں نے adaptive multi-paddock grazing management کا نام دیا۔ اس طریقے میں چھوٹے سائز کے میدان اور چراگاہیں استعمال کرنا شامل تھا اور ایسے میدانوں یا چراگاہوں کو کم وقت کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد ان میدانوں یا چراگاہوں کو ری کَوَر کرنے یا سنبھلنے کے لیے ایک لمبا وقفہ دیا جاتا ہے جس کے بعد یہ دوبارہ اس قابل ہوتے ہیں کہ جانور اور مویشی ان پر گھاس پھوس چرسکیں۔ اس دوران ان میدانوں میں اگنے والے پودوں کو یہ موقع بھی مل جاتا ہے کہ ان کی جڑیں زیادہ لمبی ہوجائیں اور یہ اپنے ٹشوز میں ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی ذخیرہ کرلیں۔ جب یہ پودے مرجاتے ہیں تو ان میں ذخیرہ کی ہوئی کاربن مٹی کے اندر جاکر پھنس جاتی ہے۔

یہ طریقہ جنگلی جانوروں کے گروہوں کی قدرتی نقل مکانی کی یاد دلاتا ہے جیسے یورپی ہرن، ارنا بھینسا اور دوسرے ہرن وغیرہ۔

ہواؤں کو دیتی ہوں خوشبو کا تحفہ

$
0
0

 نہ جانے کون سا لمحہ تھا جو فراغت اور فرصت کے طویل دنوں میں کانٹے کی طرح میرے دل میں چبھا اور مجھے ناکارہ پن کے احساس سے بے تاب کرگیا،’’میرا وجود کس کام کا ہے‘‘ کے الفاظ میرے اندر باہر کے خالی پن میں بھرگئے۔

اداسی، مسلسل اداسی، ایسے ہی ایک اداس دن میری نظر اپنے دل کی طرح کمہلائے ہوئے گھر آنگن کے پودوں پر پڑی اور میں نے انھیں تازگی دینے کا فیصلہ کیا۔ میری دیکھ بھال سے پودوں اور درختوں پر ایک بار پھر سبزہ لہلہانے لگا، پھول کِھل اٹھے، مہکنے لگے۔

یہ تازگی، یہ لہلہاہٹ، یہ خوشبو میرے اندر بہار لے آئی۔ میں خالی جھونکوں کو خوشبو کا تحفہ دے رہی ہوں، آلودگی سے بوجھل ہوا ہو موقع دے رہی ہوں کہ وہ میرے گھر کے آنگن کو خوب صورت بناتے پودوِں اور درختوں کو چھو کر خود کو نکھار لے۔ میں اس شہر، سماج اور دنیا کو خوش بو کا تحفہ دے رہی ہوں، مجھے اپنے ہونے کا جواز مل گیا ہے۔ کتنا حسین ہے یہ احساس۔

پرستارہوں توایسے،افغان بروس لی اورچیچنیا کے آرنلڈ شوازینگرسے ملیے!

$
0
0

کہتے ہیں کہ شوق کا کوئی مول نہیں اور جنون کی انتہا نہیں! اسی شوق اورجنون میں دنیا میں غیر معمولی لوگوں نے اپنے اپنے شعبوں میں بڑے بڑے کام کیے اور خوب نام کمایا۔

ان میں نمایاں طور پر کھلاڑی اور گلیمر کی چکاچوند کردینے والی شوبزنس کی دنیا سے تعلق رکھنے والے گلوکار اوراداکار جب شہرت کی بلندیوں کو چھولیتے ہیں تو ان کے پرستاروں کا ایک وسیع حلقہ پیدا ہوجاتا ہے۔

ان کے پرستار اپنی محبوب شخصیت سے والہانہ عقیدت عقیدت کے ساتھ انکے ہر انداز طرز عمل کی نقالی کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔

ان میں بعض تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ اپنے آئیڈیل سے اس حد تک پیا ر کرتے ہیں کہ ان جیسا بن جانے کے جنون میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان پر مرمٹنے کو بھی تیار رہتے ہیں۔ یہاں ہم ایسے آج کے دور کے دو غیرمعمولی پرستاروں کا ذکر کررہے ہیں جن کا تعلق کھیلوں کی دنیا سے ہے اور وہ اپنے عظیم لیجنڈز کے نقش قدم پر اس طرح چلے ہیں کہ انھیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ ان میں اپنے محبوب آئیڈیل کی روح سما گئی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مشن میں کتنے کام یاب جارہے ہیں۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ جب آپ کسی بڑے انسان کی دل سے قدر کرتے ہوں اس کی زندگی سے متاثر ہوں تو پھر اس جیسا بن کر دکھائیں۔ یہ دونوں منفرد فینز مسلمان ہیں، جو عظیم انسانوں مارشل آرٹ کے جادوگر بروس لی اور باڈی بلڈنگ کی دنیا کے لیجنڈ اور اداکار آرنلڈ شوازنگر کے نقش قدم پر گام زن ہیں۔ یہ پرستار ہیں افغانستان کے عباس علی زادہ (افغان بروس لی) اور چیچنیا سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور اور ابھرتے ہوئے باڈی بلڈر محمد ابراہیموف۔

٭ عباس علی زادہ
ابھی کچھ ہفتوں پہلے کی بات ہے جب وہ ایک عام سا افغان نوجوان تھا، جس کے وسائل نہایت محدود تھے، مگر اس کے خواب بہت بڑے اور سب سے الگ تھے، لیکن مارشل آرٹ لیجنڈ بروس لی کی تصویر کے ساتھ اپنی تصویر فیس پر شیئر کرکے کابل کا یہ ’’کنگ فو‘‘ کا مداح سماجی ویب سائٹوں پر بے حد مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔

پہلی نظر میں آپ شاید دھوکا کھاجائیں۔ بروس لی سے اس کی اس قدر مشابہت ہے کہ نہ صرف اپنی شکل صورت بل کہ جسمانی ساخت سے بھی بروس لی کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ اس نے اپنے جسم کو اس طرح بنایا ہوا ہے جس سے اس پر بروس لی کا گمان ہوتا ہے۔

یہ افغانستان کے 21 سالہ نوجوان عباس علی زادہ ہیں، جو کہ سوشل میڈیا میں زبردست پذیرائی کے ساتھ دنیا بھر کے اخبارات میں بروس لی کے حوالے سے ایک افغان ہیر و بن کر ابھرے ہیں، جن کی صلاحیتوں کو پریس میں جگہ دی جارہی ہے اور وہ گفتگو کا موضوع بن چکے ہیں۔ ’’بروس ہزارہ‘‘ کے نام سے وہ فیس بک پر اپنے مداحوں کا ایک حلقہ بناچکے ہیں جن کے لیے روزانہ سیکڑوں دوستی کے پیغامات موصول ہورہے ہیں۔ جیکی چن اور جیٹ لی جیسے بین الاقوامی شہرت کے حامل مارشل آرٹسٹوں کے لیے بھی افغان بروس لی کی دریافت ایک سرپرائز سے کم نہیں۔

بروس لی کی کہانی ہر اس لڑاکا انسان کی زندگی کی کہانی ہے جس میں کھیل، فن اور طاقت کا خوب صورت ملاپ موجود ہے۔ خاص طور پر فزیکل آرٹ کی دنیا میں ایک انسان کی عالم گیر کہانی! یہ ہر لڑنے والے کا خواب بن چکا ہے، جس نے بہادری کے ساتھ کھیل اور فنون کی ایک مثال رقم کی ہے۔

بروس لی کے ہونہار بیٹے کی وفات کے اگلے ہی سال5ستمبر1994 ء کو پیدا ہونے والے عباس علی زادہ عرف ’’افغان بروس لی‘‘ کا پچپن سے ایک ہی خواب تھا ’بروس لی ‘ اور صرف بروس لی! اس کی زندگی کی کہانی بروس لی ہی سے شروع ہوتی ہے۔ اپنے نیم معزور والد کی حوصلہ افزائی کے باعث 14سال کی عمر میں اس نے کھیلوں میں سنجیدگی سے حصہ لینا شروع کیا۔ وہ چینی انداز کی فائیٹنگ کی مشقیں کرتا رہا تھا۔

کنگ فو کے داؤ پیچ کی مشق کے ساتھ ساتھ کھیل کو باقاعدہ سیکھنے کے غرض سے ’’کنگ فو‘‘ سکھانے والے اسپورٹس کلب “catena of Konk Fu Toa”ـ  میں داخلہ لیا اور انتہائی مالی پریشانیوں کے لڑتے ہوئے کابل میں دو سال پریکٹس جاری رکھی پھر اسے یہ کلب چھوڑنا پڑا۔ وہ بروس لی کے مقبول لڑائی کے طریقوں کنگ فو کے علاوہ نن چکو، ,Shkhsytm Pdrmhrbanincوغیرہ سے بہت رغبت رکھتا ہے۔ چینی مارشل آرٹ کی روایتی لڑائی جسے  Wing chun, Wi Tsun/Vingtum کہا جاتا ہے، اسے عرف عام میں Weng Chun Kung Fu” ” کہتے ہیں جس کا چینی مطلب “Eternal Spring” ہے۔

یہ لڑائی اپنے دفاع میں لڑی جاتی ہے، جس میں لچک، متوازی لائن، مکّے، لاتوں اور دوسری تیکنیکوں کا استعمال کیا جاتا ہے او ر اس لڑائی میں چاقوؤں اور ڈنڈوں کو مخالف پر آزمایا جاتا ہے۔ علی زادہ نے ایک سال جمناسٹک کی بھی تربیت لی ہے، اس کے بعد کچھ ماہ سے وہ گھر پر ہی پریکٹس کرتا ہے۔

 

علی زادہ چودہ سال کی عمر سے ہی بروس لی کی فلمیں دیکھتا آیا ہے۔ تب سے وہ ایک لڑاکا بننا چاہتا تھا۔ افغانستان میں بروس لی اور جیکی چن کے طرز کے مارشل آرٹ ہیرو ہمیشہ سے مقبول عام رہے ہیں۔ ان کی فلمیں یہاں کے بازاروں میں بہ آسانی دست یاب ہیں۔ علی زادہ نے کابل میں ہونے والے چینی انداز کی لڑائی کے مقابلے میں اپنے وزن کی کیٹیگری میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ عباس علی زادہ کو نہ صرف ایکشن تصاویر بنوانے کا فن آتا ہے، بل کہ اس نے بروس لی کی فلموں کی کاپی کرتے ہوئے نن چکو اور کنگ فو کے ساتھ فوٹو سیشنز کروائے ہیں جس کا انھوں نے کابل کے اجڑے ہوئے مشہور ’’دارالامان محل ‘‘ کے پس منظر میں شان دار مظاہرہ کیا ہے۔

یہ لوکیشن بالکل کسی کلاسک ہالی وڈ فلمی منظر کا عکس دکھائی دیتی ہے۔ ان کی تصاویر کے بارے میں پہلے اکثریت کا خیال تھا کہ یہ جعلی ہیں اور وہ اس پر کم ہی یقین کرتے تھے، لیکن اب ان کا کہنا ہے میں ہی افغان بروس لی ہوں۔ وہ ایک مشہور مارشل آرٹسٹ یا اداکار بننے کے خواہاں ہیں، مگر ان کے خیال میں کبھی بھی اپنے ہیرو آئیڈیل جیسا مشہور نہیں ہوسکتے۔ انھوں نے یقینی طور پر لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے کچھ لوگ ان کی تصاویر کو جعلی ہی سمجھتے ہوں گے، لیکن عباس علی زادہ کو اس بات پر فخر ہے کہ انھوں نے ایک لیجنڈ بروس لی کی یاد نئے انداز سے تازہ کردی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بروس لی ایک اچھائی کا ماڈل ہے۔ اگرچہ اس جیسا دوسرا نہیں ہوسکتا ہے، مگر وہ جب تک زندہ ہیں اپنے محبوب کے نقش ِقدم پر گام زن رہیں گے۔ بروس لی کے اس جنونی مداح کے وسائل اب بھی اتنے ہی ہیں جتنے پہلے تھے، لیکن اس کی سوشل میڈیا میں تصاویر کی مقبولیت نے اس کی امیدوں کو اور بھی بڑھادیا ہے، جس میں اس کی مستقل مزاجی اور جفاکشی شامل ہے۔ اس نوجوان نے میٹرک کی تعلیم مکمل کرلی ہے اور اسے مزید تعلیم کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے۔

اس کے والد رضا باوجود اس کے کہ وہ اپنے بیٹے کو کھیلوں کی اعلیٰ تربیت نہ دلاسکے خواہش رکھتے ہیں کہ ان کا بیٹا اپنے وقت کا بروس لی بنے۔ بظاہر افغان بروس لی کا مستقبل روشن دکھائی دے رہا ہے کہ وہ بروس لی کو دوبارہ سنیما کے پردے پر بھی زندہ کرسکتا ہے۔ اسے ابھی مناسب تربیت، سرپرستی اور راہ نمائی کی ضرورت ہے۔ اس میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو اسے ایک بہترین ایتھلیٹ اور کام یاب اداکار بنا سکتی ہیں۔

٭ محمد ابراہیموف
محمدابراہیموف باڈی بلڈنگ لیجنڈ اور اداکار آرنلڈ شوازنگر سے بڑی عقیدت و محبت رکھتا ہے۔ اس کا تعلق روس کی جمہوریہ چیچنیا سے ہے۔ یہ خوب صورت نوجوان نیوگروزنی کے علاقے اِیوستریا گراٹس(Avstriya Grats)میں پیدا ہوا تھا، جو کہ دریائے “Sunzhas” پر واقع ہے۔ ابراہیموف اپنے خوابوں میں خود کو آرنلڈ جیسا بنتا دیکھتے آئے ہیں، جن کے وہ مدّاح ہیں۔

پہلی نظر میں ابراہیموف آرنلڈ کے بھائی یا بیٹے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی جسمانی ساخت اور قدکاٹھ ہوبہو آرنلڈ جیسا ہے اور ان کے چہرے کے خدوخال میں بھی آرنلڈ کی جھلک نظر آتی ہے۔ اسی لیے انہیں دیکھ کر نوجوان آرنلڈشوازنگر کا گمان ہوتا ہے۔ آرنلڈ نے باڈی بلڈنگ کیریر میں آرنی بننے تک سخت جدوجہد کی اور اپنے خوابوں کو پانے کے لیے جان توڑ محنت کی۔

15سال کی عمر میں آرنلڈ اَلائس شیوازنیگر ( Arnold Alois Schwarzenegger ) نے باڈی بلڈنگ کی ابتدا کی تھی۔ آسٹرین نژاد امریکی آرنلڈ عرف ’’آرنی‘‘ نے اپنی پہلی آسٹرین فوجی سروس کے دوران 18 سال کی عمر میں ’’مسٹر یورپ جونیئر‘‘ کا ٹائٹل حاصل کرلیا تھا۔ 1968 ء میں 21 سالہ نوجوان آرنی کے خواب کی تکمیل ہوئی جب وہ پہلی بار امریکہ آئے اور پھر نیک نامی و شہرت کے افق پر ستارہ بن کر چمکے اور امیر سے امیر ہوتے گئے۔

ابراہیموف بھی بڑی جاںفشانی سے اپنے کیریر میں کام یابیوں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ان کی ملاقات اپنے آئیڈیل سے ’’آرنلڈکلاسک اسپورٹس‘‘ میں ہوئی تھی۔ کھیلوں کا یہ منفرد سالانہ ایونٹ امریکی ریاست کولمبس، اوہایو میں ہوتا ہے، جوکہ آرنلڈ کے نام سے اور ان کی سرپرستی میں پچھلے 25 سالوں سے منعقد کیا جارہا ہے اور اب یہ ایک بڑا انٹرنیشنل اسپورٹس فیسٹول بن چکا ہے۔ آرنلڈ بھی اپنے اسپیشل فین سے مل کر بہت خوش ہوئے اور اس کی صلاحیتوں سے بے حد متاثر ہوئے۔

ابراہیموف کی لگن، جستجو اور جنون دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بھی آنے والے دنوں میں عظیم باڈی بلڈر کی طرح شہرت و نیک نامی حاصل کریں گے۔ ابراہیموف آرنلڈ کے انداز کی کاپی کرتے ہوئے بڑی خوشی محسوس کرتے ہیں اور اس پر انہیں فخر ہے۔ آرنلڈ کے فین ہونے کے علاوہ وہ عظیم باکسر محمد علی کے بھی پرستار ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں۔ ابراہیموف محمد روسی زبان کے علاوہ انگلش اور ڈچ زبانوں کی بھی سوجھ بوجھ رکھتے۔ وہ آج کل ماسکو میں رہائش پذیر ہیں۔

دنیا میں بہت کم پرستار ایسے ہیں جوکہ اپنے آئیڈیل کی جستجو میں اپنے خوابوں اور منزل کو پالیتے ہیں۔ انہیں میں عباس علی زادہ اور محمد ابراہیموف بھی شامل ہیں خوش قسمت انسان ہیں جو اپنے عظیم لیجنڈز کے نام سے شناخت بنارہے ہیں۔

کشمیر کا تاریخی ورثہ خطرے میں

$
0
0

اسلام آباد: ستمبر 2014ء میں بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے کنٹرول لائن کے دونوں اطراف بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ خاص طور پر سری نگر شہر میں ہونے والی بارشوں کی شدت جموںو کشمیر میں ہونے والے ماضی کے تمام سیلابوں سے زیادہ تھی۔

کنٹرول لائن کے جنوبی اطراف میں دریائے جہلم اور اس کی نزدیکی پہاڑی بستیاں بھی اس طغیانی کی زد میں آئیں، جس کی وجہ سے انسانی جان و مال کے ضیاع کے علاوہ جموں و کشمیر کے مشترکہ تاریخی ورثہ کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا، جس میں سردست آثار قدیمہ کی باقیات، کشمیری لکڑی کے بنے ہوئے روایتی گھروں کے علاوہ لکڑی پر کندہ کاری و نقوش سے مزین نایاب اشیاء بھی شامل ہیں۔

خطۂ کشمیر کی تاریخ چار ہزار سال قبل مسیح سے لے کر اٹھارویں صدی عیسوی کے قدیم ورثہ پر محیط ہے، جو کلاسیکل اور قرون وسطی کی یادگاروں کی صورت میں وادی کے طول وا رض میں پھیلی ہوئیں ہیں۔ کشمیر کے مسحور کن ماحول نے یہاں کے باشندوں کو ہنرو فکر سے نوازا اور انہیں اس قابل بنایا کہ وہ فن کاری کے شاہ کار تخلیق کرسکیں۔

جغرافیائی اعتبار سے یہ علاقہ برفانی چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے۔ زمانۂ قدیم سے پہاڑوں کے مشکل درے، اجنبی دیس سے کشمیر آنے والوں کی گزرگاہ ہیں۔ یہاں کے باشندوں نے بیرونی اثرات کو اس حد تک قبول کیا کہ وہ اس تہذیب کا حصہ محسوس ہونے لگے۔

کشمیر کی پہاڑوں میں گھری وادیوں کے جدا ماحول نے خود انحصاری کی روایت کو تقویت دی۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موجود وادیٔ نیلم خود انحصاری او ر مقامی روایتی سوچ فکر کی ایک اچھوتی مثال ہے۔ مشرق میں وادی نیلم، سری نگر شہر کے ساتھ منسلک ہے، جو ماضی بعید میں خوشانہ (Khusana) بادشاہوں کا دارالحکومت رہا ہے، جس میں بدھ ازم، شیو مت اور ہندو ازم کے آثار قدیمہ کے مقامات کے علاوہ اسلامی دور کے فن تعمیر کے نمونے بھی شامل ہیں۔

اس طرح وادیٔ نیلم میں بھی قدیم ترین تہذیبوں کے شواہد موجود ہیں اور یہ علاقہ 1990ء سے فوجی تنازعے کا مرکز رہا ہے۔ کشمیر کے زیادہ تر قدیم مقامات بھارت کی قابض فوجوں کے زیراستعمال ہیں اور ان کا بڑا حصہ بم باری سے تباہ ہوچکا ہے۔ ان جھڑپوں کے علاوہ یہاں کے باشندوں کو سیلاب او ر زلزلے جیسی آفات کا بھی سامنا ہے۔

ان قدرتی اور انسان کی پیداکردہ تباہ کاریوں نے کنٹرول لائن کے دونوں اطراف شدید گزند پہنچایا ہے، جس کو رسک مینجمنٹ کے پلان کے ذریعے ختم کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ کشمیر کی تنازعاتی حیثیت کی وجہ سے یہاں کی انتظامیہ کے پاس اس ثقافتی ورثے کو بچانے کے لیے کو ئی منصوبہ نہیں اور مقامی انتظامیہ سیکڑوں کی تعداد میں آثار قدیمہ اور ورثہ کو بچانے میں ناکام رہی ہے۔ کشمیر کا ثقافتی ورثہ شہری علاقوں، مغربی وادیوں، جنگلوں کے علاوہ Silk Road (سلک روڈ) سے منسلک راستوں پر پھیلا ہوا ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ 1828ء میں آنے والے زلزلے نے کشمیر میں زبردست تباہی پھیلائی، جس میں سری نگر، وادیٔ کشمیر، وادیٔ نیلم، وادیٔ جہلم کا علاقہ بھی شامل تھا۔ 1885ء کے بعد 1909ء اور پھر 1959ء کی قدرتی آفات میں یہاں کے باشندے زیرعتاب رہے۔ تاریخی کتب سے اس بات کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ 1515ء کے زلزلے میں ویٹاسٹا (دریائے جہلم) نے اپنا راستہ بدل دیا‘ جس کی وجہ سے انسانی ، جان و مال کا نقصان ہوا۔

2005ء کے زلزلے میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں کے ایچ خورشید لائبریری مظفر آباد میں موجود تاریخی نسخہ جات اور نادر کتب کے علاوہ تاریخی قلعہ مظفر آباد بھی تباہ ہوا۔ اور اس قلعہ میں موجود تاریخی و ثقافتی میوزیم کے قیمتی نوادرات لوٹ لیے گئے۔

 

یہ قلعہ ابھی تک دوبارہ تعمیر نہیں ہو سکا ہے۔ اس زلزلے کے دوران کشمیری لکڑی کے کندہ، کھڑکیاں، دروازے، گھریلو اشیاء، آرٹ اور کرافٹ نہ صرف ضائع ہوئے بل کہ ان کو غیر قانونی طریقے سے بڑے پیمانے پر علاقے سے باہر بھیجا گیا۔

کشمیر کے کچھ اور ورثے کو منظم طریقے سے تباہ کرنا بھی اس برائی کا ایک پہلو ہے، تاکہ یہاں کے باشندوں کو ان کے مشترکہ ورثے سے جدا کردیا جائے، جس کی بہت ساری سیاسی اور نظریاتی وجوہات ہیں۔

ہمارے سامنے تقسیم برصغیر کے وقت نیلم ویلی میں شاردہ تہذیب کے کلاسیکل ادب کو تباہ کرنے کے شواہد بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ 1990ء کی مسلح لڑائی کے دوران درجنوں کاری گروں اور آرٹ و کرافٹ کے ماہرین کو ہندوستانی زیرانتظام کشمیر میں شہیدکیا گیا۔ بہت سے کاری گر جو کنٹرول لائن کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کو مسلسل فائرنگ کی وجہ سے اپنا پیشہ بدلنا پڑا۔ آٹھ مقام ضلع وادی نیلم کا وہ مقام ہے جو عمومی طور پر روایتی ہنر مندوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ یہ علاقہ بھی بھارتی فائرنگ سے تباہ کیا گیا۔

آٹھ مقام بازار میں موجود دکانوں پر مسلسل ہونے والی فائرنگ کی وجہ سے بہت سے کاری گروں کو یہ علاقہ اور روایتی پیشے چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہاں کے روایتی فن کاروں، ہنر مندوں کو حکومت کی طرف سے کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا گیا تاکہ وہ اپنا کاروبار دوبارہ شروع کر سکیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بہت سے سیاحتی اور مذہبی مقامات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا قبضہ ہے۔

دنیا بھر میں ثقافت، آثار قدیمہ اور سیاحتی مقامات کو معاشی پروگراموں کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے جنوبی ایشیا خاص طور پر پاکستان میں اس پہلو کو اجاگر کرنے کو اہمیت نہیں دی گئی۔

جنگیں، تنازعات موسمی تبدیلیاں اور قدرتی آفات کے پس منظر میں یہ ضروری ہے کہ جموں و کشمیر کے تباہی کا شکار، مشترکہ ورثے کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ متعلقہ اداروں اور لوگوں کو ثقافتی ورثہ کی حفاظت کی جانب راغب اور متوجہ کیا جائے جو ایک مشترکہ سوچ اور عمل سے ممکن ہوسکتا ہے۔

یہ عمل UNESCO کی متنازعہ علاقوں کے کلچر کی تباہی کے حوالے سے پالیسی پر عمل درآمد سے شروع ہونا چاہیے۔ ثقافتی انتظام کے حوالے سے پالیسیاں وضع ہونی چاہییں اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے جموں و کشمیر کے مشترکہ ورثے او ر شناخت کو بچانے کے لیے پیشگی اقدامات کیے جائیں۔

(پی ایچ ڈی سکالر، ایشین سویلائزیشن قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد)


تہمت اُسے ایک چہرہ پہنادیا گیا تھا

$
0
0

گندمی رنگ، گول چہرہ، مختصر سی ٹھوڑی، چھوٹی سی ستواں ناک پر جمی عینک، جس سے جھانکتی دو بے ضرر اور قابل اعتبار سی آنکھیں، جو شناختی کارڈ پر لگی تصویر کو گھور رہی تھیں، کیوں کہ اس وقت اس کے پاس اپنی یہی ایک تصویر تھی۔

بہ غور اور بار بار دیکھنے پر بھی اسے اپنے چہرے پر رومانویت کی کوئی جھلک اور کَجی کا کوئی رُخ نظر نہ آیا۔ نظر پھسل کر ’’شناختی علامت‘‘ کے خانے پر جا ٹکی۔ ’’پورے چہرے پر شرافت کی لعنت‘‘ اس نے تصور میں ’’کوئی نہیں‘‘ کی جگہ نئی عبارت کندہ کردی، میز پر دھیرے سے مُکا مارا اور گھڑی کی طرف دیکھ کر کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’جارہے ہیں عامر بھائی!‘‘، رفعت نے کمپیوٹر مانیٹر سے نظر ہٹاکر اسے دیکھا۔

’’ہاں‘‘ اس کے اندر سے نکلنے والی غراہٹ لبوں پر آکر ’’میاؤں‘‘ بن چکی تھی۔ ’’منحوس! تیرے بھائی مرگئے ہیں جو مجھے بھائی کہتی ہے، سارے دفتر میں، میں ہی ملاہوں۔۔۔۔۔‘‘ فقرہ ایک موٹی سی گالی پر ختم ہوا۔ گالی اتنی موٹی تھی کہ فقرے سمیت حلق میں پھنس گئی اور وہ کھنکھارتا ہوا دفتر کی عمارت سے باہر نکل آیا۔

’’شمیم موٹو کو شمیم صاحب کہتی ہے۔ عارف، عظیم، سراج کا نام لیتی ہے۔ رانا جبار اور ندیم صدیقی کو سر کہتی ہے، اور مجھے بھائی۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اس کے دماغ میں رفعت اب تک اپنے ’’بھائی‘‘ سمیت پھنسی ہوئی تھی۔ یہ معقول صورت اور دفتر کی واحد لڑکی آج صبح تک اسے بہت اچھی لگتی تھی۔

اگرچہ وہ شروع دن سے اُسے ’’عامر بھائی‘‘ ہی کہہ رہی تھی، لیکن عامر کو انداز تخاطب میں نیت کا کوئی ’’فتور‘‘ نظر نہیں آتا تھا، وہ اسے رسماً ہی سمجھتا تھا، کیوں کہ وہ اپنے دس رفقائے کار میں سے صرف اسی کے ساتھ دفتری معاملات سے ہٹ کر بات چیت کرتی تھی۔ ایک روز جب شہر میں کچھ لوگوں کے قتل کے خلاف لوگ بہ طور احتجاج لوگوں کی گاڑیاں جلا رہے تھے اور سڑکوں پر ہنگامہ مچا تھا، رفعت نے بڑے رسان سے کہا تھا،’’عامر بھائی! پلیز مجھے گھر چھوڑ دیں گے۔‘‘ عامر کو یوں لگا تھا جیسے وہ کہہ رہی ہو،’’چُن لیا میں نے تمھیں، سارا جہاں رہنے دیا۔‘‘

معاملہ آج اس وقت خراب ہوا جب رفعت نے باس کے سامنے عامر کی شرافت کا قصیدہ پڑھ دیا۔ اس وقت کمرے میں وہ تینوں ہی موجود تھے۔ باس نے یوں ہی گزرتے ہوئے رفعت سے پوچھ لیا،’’کوئی شکایت تو نہیں۔‘‘

’’کوئی خاص نہیں سر، بس مردوں کے درمیان ایک تنہا لڑکی کو کچھ مسائل کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘

باس نے مسکرا کر عامر کی طرف دیکھا:’’کیوں عامر صاحب! کیا کہہ رہی ہیں۔‘‘

’’ارے نہیں، عامر بھائی تو بہت شریف انسان ہیں، میں ان کی بات نہیں کررہی۔‘‘

ایک نازک سا ہاتھ عامر کی مردانگی کا چہرہ سُرخ کرگیا اور رفعت، رفعت کھوکر پستی میں جاگری۔ کچھ دیر بعد وہ اپنا شناختی کارڈ تھامے اپنے چہرے پر برستی شرافت پر لعنت بھیج رہا تھا۔

یہ کوئی آج کی بات نہیں، شرافت کی تہمت اس کے ساتھ بچپن سے چِپکی چلی آرہی تھی۔ جہاں تک اسے یاد تھا ’’شریف‘‘ کی گالی پہلی بار اسے آٹھ نو سال کی عمر میں پڑی تھی۔

اس کے والد سید اسرارالحق ان لوگوں میں سے تھے جو دوسروں کی غلط فہمی اور اپنی خوش فہمی کی وجہ سے شرفاء اور خاندانی کہے جاتے ہیں۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب یہ خاندانی معیشت کے تھپڑ یا ہجرت کا تھپیڑا کھاکر گرتے، پڑتے، لڑھکتے۔۔۔۔رذیلوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اسرارالحق بھی اس بستی میں اسی طرح پہنچے تھے۔

وہ اپنی شرافت ونجابت کے آبگینوں کو بڑا سنبھال سنبھال کر رکھتے تھے۔ ان میں سے بڑے آبگینے کو آس پڑوس کی عورتوں سے ملنے جُلنے کی اجازت نہیں تھی اور چھوٹا آبگینہ محلے کے بچوں کے ساتھ نہیں کھیل سکتا تھا۔ چھوٹا آبگینہ۔۔۔۔۔معاف کیجے گا، اپنا عامر جب آٹھ نو سال کا ہوا تو پابندیاں کچھ نرم پڑ چکی تھیں۔ دراصل، بہ وقتِ ضرورت ہم سایوں سے آٹا، دال، چاول، پیاز، مرچ، ٹماٹر اور سالن کے تبادلے نے شرافت کے معیار کی دیوار کو قلعے کی فصیل سے مُنڈیر بنادیا تھا، سو ’’عصر سے مغرب‘‘ تک اسے باہر کھیلنے کی اجازت مل گئی تھی۔

ایک روز عامر کے ہم جولیوں نے شرارتاً جگو چاچا کے دروازے پر کھڑا ان کا خالی ٹھیلا دھکیل کر ساتھ والی گلی میں پہنچادیا۔ اس شرارت میں عامر کے ننھے ہاتھ بھی پوری طرح ملوث تھے۔ ٹھیلا ملنے کے بعد شرارت رچانے والے بچوں کی ڈھنڈیا مچی۔

’’تم تو نہیں تھے ناں؟‘‘ عامر کی ماں نے گھر آئی محلے دارنیوں سے اس واردات کا تذکرہ سُنتے ہی پاس بیٹھے عامر کی کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے یوں پوچھا جیسے اس پر کسی گھناؤنے جرم کا الزام لگنے کا خدشہ ہو۔

’’نہیں امی‘‘ سہما ہوا جھوٹ سُن کر اس کی ماں کو یقین آگیا۔
’’یہ کیوں ہوگا، یہ تو بڑا شریف بچہ ہے‘‘ خالہ صابرہ کا اعتماد اسے شرمندہ کرگیا۔

’’تم کبھی ایسا نہیں کرنا، اچھے بچے ایسی حرکتیں نہیں کرتے۔‘‘ ماں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

یہ اچھا بچہ اعتماد کی بیڑیاں پہنے لڑکپن کے اَدھ کُھلے کواڑوں سے گزر کر جوانی کے پُراسرار گلیارے میں آگیا تھا، جہاں بند دروازوں کے پیچھے کھنکتی آوازیں اور ان سے جھانکتے منظر اسے متوجہ کرتے رہے، لیکن وہ ناک کی سیدھ میں چلتا رہا، کیوں کہ وہ اچھے بچے سے ترقی کرکے شریف لڑکا بن چکا تھا۔
حالات، محلہ، عمر ۔۔۔۔زندگی میں بہت کچھ بدل چکا تھا، لیکن اس کے بارے میں لوگوں کی رائے اور ماں باپ کا یقین جوں کے توں تھے۔ ایک روز ثمینہ پھوپھی نے اسے بڑی محنت سے بال بناتے دیکھ کر کمر پر دھپ لگاتے ہوئے کہا تھا،’’کیوں، کس سے ملنے کی تیاری ہے؟‘‘

’’ارے میرا بچہ ایسا نہیں ہے۔‘‘ ماں کا دفاعی جواب اس تیزی سے آیا کہ اس کے ہونٹوں پر پھیلتی مسکراہٹ اور چہرے پر اُترتی سُرخی کہیں راستے ہی سے لوٹ گئیں۔

عمر کے تقاضے تربیت کے سرخی غازے کو دھو نہ سکیں تو بھی اسے کسی حد تک کُھرچ ضرور دیتے ہیں۔ عامر بھی کھرچا گیا اور فطرت کا رنگ کہیں کہیں سے جھلکنے لگا۔ پھر اس رنگ نے رنگین مزاج دوستوں کا رنگ پکڑا اور نازش کے مَکھن سے رنگ پر جا پھسلا۔ ایک دن وہ بڑی ہمت کرکے ٹیوشن سینٹر کی جانب تیزتیز قدموں سے رواں نازش کے نقش قدم پر چل پڑا۔ ایک جگہ سناٹے نے موقع فراہم کیا تو وہ تیز تیز چلتا ہانپتا کانپتا اس کے قریب پہنچ گیا:’’س س سنیے!‘‘

وہ چونک کر پلٹی اور عامر کو دیکھ کر مطمئن لہجے میں بولی،’’جی عامر بھائی۔‘‘ وہ چند لمحے گُم صُم کھڑا رہا، پھر ٹیوشن سینٹر کی فیس اور معیار معلوم کرکے واپس ہولیا۔

اﷲ اﷲکرکے چھے آٹھ ماہ میں نازش دماغ سے اُتری تو پڑوس میں آبسنے والی سحر دل میں اُتر گئی۔ رابطے کی ابتدا اسی نے کی تھی، سبب بنی تھیں نصابی کتابیں اور نوٹس۔

’’محلے کے سارے لڑکوں کو چھوڑ کر اسے نے مجھ ہی سے کیوں مدد لی۔‘‘ عامر پورے کا پورا خوابوں سے مہک اُٹھا۔ خوب صورت الفاظ اور اشعار ڈھونڈ ڈھانڈ کر محبت نامہ لکھا اور نوٹس کے پُلندے میں رکھ کر سحر کو تھمادیا۔

’’وہ پرچہ دیکھتے ہی سمجھ جائے گی، بابے‘‘ شریف لڑکے کے بگڑے ہوئے دوست نے اس کے اندیشے گھٹائے اور ہمت بڑھائی تھی۔
مگر یہ کیا، وہ پلندے سے پھسل کر گرجانے والا رقعہ اسے واپس کررہی تھی۔ ’’آپ کا یہ پرچہ غلطی سے آگیا شاید‘‘ چہرے کی طرح آواز بھی ہر تاثر سے عاری تھی۔

اور اب شادی کے بعد اسے اپنی بیوی نازیہ کا اندھا اعتماد حاصل تھا۔ یہ عامر کی دور کی کزن سہی، لیکن رہتی بہت قریب تھی۔ اس لیے عامر کی شرافت پر اسے پورا بھروسا تھا۔

’’وہ ایسے نہیں‘‘، ’’وہ دوسرے مردوں جیسے نہیں‘‘، ’’ان پر مجھے پورا اعتماد ہے‘‘ یہ اسناد اس نے اپنی بہنوں اور سہیلیوں کی عامر سے چھیڑ چھاڑ پر جاری کی تھیں اور عامر کو لگا تھا جیسے اُسے کلنک کے ٹیکے لگائے گئے ہوں۔

گھر پہنچا تو اسے دروازے پر تالا پڑا نظر آیا۔ اسے یاد آگیا کہ نازیہ نے صبح کہا تھا کہ وہ آج شام اپنی بہن کے ہاں جائے گی۔ وہ اندر گیا اور نڈھال سا سوفے پر گرگیا۔

نازش، سحر اور رفعت کے چہرے اس کی نگاہوں میں آتے اور بھائی بھائی کہہ کر چلے جاتے۔ پھر نازیہ کے اظہارِ اعتماد سے لتھڑے فقرے اسے کی سماعت میں چبھنے لگے۔

بیل کی آواز نے اس شور کو سناٹے میں بدل دیا۔ دروازہ کھولا تو سامنے بلاوے دیتے میک اپ اور لباس مہک رہے تھے۔

’’جی، کیئر والوں نے نئے صابن انٹروڈیوس کرائے ہیں۔ ایک بار استعمال کرکے دیکھیں۔ تعارفی قیمت صرف دس روپے ہے۔‘‘
وہ ٹیپ ریکارڈ کی طرح بجنے اور ٹی وی کی طرح ادائیں دکھانے لگی۔ عامر کی محویت نے اسے کام یابی کا یقین دلادیا۔ ’’کتنے دوں سر؟‘‘

’’سب۔‘‘ عامر کے جواب نے اس کے ہونٹ مزید متبسم اور آنکھیں کچھ اور نشیلی کردیں۔’’آ آ آپ بیٹھیں، میں پیمنٹ کررہا ہوں۔‘‘ عامر پیچھے ہٹا اور وہ آگے بڑھ کر ڈرائنگ روم میں یوں اطمینان سے آبیٹھی جیسے دیر تک اُٹھنے کا ارادہ نہ ہو۔

’’تو آپ کب سے یہ کام کررہی ہیں۔‘‘ قیمت چُکانا بھول کر وہ اس کے سامنے آبیٹھا۔ ابھی وہ جواب نہ دے پائی تھی کہ ڈور بیل کی چنچناتی آواز سے گھر بھر گیا۔ اس بار دروازے پر اس کی بیوی کھڑی تھی۔ اندر کا منظر دیکھ کر وہ چونک اُٹھی۔ ’’ی ی یہ سیلزگرل ہیں۔۔۔۔ میں نے یہ صابن خریدے ہیں۔۔۔۔۔ سستے تھے۔۔۔۔یہ پانی پینے اندر آگئیں۔‘‘ گھبراہٹ میں فقرے ٹوٹ ٹوٹ کرگرنے لگے۔ وضاحت دینے کے ساتھ وہ نوٹ بھی گِن رہا تھا۔ سیلز گرل نے نوٹ تھامے اور دھواں دھواں چہرہ لیے باہر نکل گئی۔

’’آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ پتا نہیں کس کو بُلا کر گھر میں بٹھالیا۔ کوئی دیکھ لیتا تو کیا سمجھتا۔ اب ہر ایک تو نہیں جانتا ناں کہ آپ کتنے شریف انسان ہیں۔۔۔۔۔‘‘ وہ بولے جارہی تھی اور عامر حیرت اور بے بسی سے اُسے دیکھے جارہا تھا۔

امراضِ قلب سے بچاؤ کیلئے قدرتی خوراک

$
0
0

معروف مفکر بقراط کا قول ہے کہ ’’ بیماری کا علاج سب سے پہلے غذا سے کرنا چاہیے‘‘ اور گزشتہ پچاس برس سے ہونے والی تحقیقات نے بقراط کی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مناسب غذا کے استعمال سے متعدد مہلک امراض، جن میں دل کی بیماریاں بھی شامل ہیں سے یقینی تحفظ حاصل ہوسکتا ہے۔

آج دنیا بھر میں دل کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے ہونے والا اضافہ انتہائی تشویشناک ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں سہل طرز زندگی اور ناقص خوراک شامل ہے۔ بلاشبہ دل کے امراض جان لیوا اور ان کا علاج بہت مہنگا ہے لیکن سادہ غذا، زیادہ پھل اور سبزیوں کے ذریعے کافی حد تک ان سے بچا جا سکتا ہے۔ یہاں ہم آپ کو ایسی غذاؤں کے بارے میں بتائیں گے، جن کے استعمال سے امراض قلب لاحق ہونے کے خدشات میں واضح کمی آسکتی ہے۔

دہی: تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دہی کا استعمال مسوڑھوں کے امراض سے محفوظ رکھتا ہے اور مسوڑھوں کی بیماری سے امراض قلب کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ جاپانی ماہرین نے ایک ہزار ایسے بالغ افراد پر تحقیق کی، جو دودھ یا اس سے بنی چیزوں مثلاً دہی وغیرہ کا زیادہ استعمال کرتے تھے۔ نتائج کے مطابق ایسے افراد میں مسوڑھوں کی بیماریاں نہ ہونے کے برابر تھیں اور ماہرین کا ماننا ہے کہ دودھ اور دہی میں شامل اجزاء منہ میں جنم لینے والے دشمن بیکٹیریا کی نشوونما کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

کشمش: کشمش میں پایا جانے والا اینٹی ٹاکسائیڈ ایسے بیکٹیریا کو بڑھنے سے روکتا ہے، جو مسوڑھوں کے امراض کو جنم دیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں مسوڑھوں کے بیماریوں میں مبتلا 50 فیصد لوگ امراض قلب کا شکار ہو جاتے ہیں، لہٰذا ایک بیماری کے خلاف جیت دوسری کو حاوی ہونے سے روک دیتی ہے۔

اناج: متعدد تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ اناج کا استعمال کرنے والے لوگوں میں امراض قلب پیدا ہونے کے خدشات، ان لوگوں کی نسبت بہت کم ہوتے ہیں، جو اس کا استعمال نہیں کرتے۔ اناج میں اینٹی ٹاکسائیڈ، فیٹوس ٹروجنز اور فیٹوس ٹیرولز جیسے مادے ہوتے ہیں، جو امراض قلب سے بچاؤ میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ پھر اناج میں شامل ریشے کے بارے میں اکثر ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ امراض قلب کے خدشات کو کم کر دیتے ہیں۔

لوبیا: لوبیا کا باقاعدہ استعمال آپ کے دل کی صحت کے لئے نہایت مفید ہے۔ نیوٹریشن جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پکائے ہوئے لوبیا کا روزانہ آدھا کپ جسم میں کولیسٹرول کی سطح کو کم کئے رکھتا ہے۔

مچھلی: ہفتہ میں ایک یا دو بار باقاعدگی سے مچھلی کھانے سے امراض قلب کے خدشات میں 30فیصد تک کمی واقع ہو جاتی ہے۔ مچھلی میں پائے جانیوالے اومیگا تھری نامی پروٹین کے باعث خون کی روانی میں بہتری آتی ہے، جس سے نہ صرف امراض قلب بلکہ بلڈ پریشر کے خطرات بھی کم ہو جاتے ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق ان غذاؤں کے علاوہ بادام، چاکلیٹ، ٹماٹر، سیب، بیری، انار، کیلا، مکئی کے بھنے ہوئے دانے(پوپ کارن) اور سبز چائے کے مناسب استعمال سے بھی امراض قلب سے بچا جا سکتا ہے۔

نظامِ تولید کی بہتری،کیا کھائیں کیا نہ کھائیں۔۔

$
0
0

بانجھ پن بیماری کے ساتھ ایک ایسی محرومی کا نام ہے کہ جس کا شکار لوگ مایوسیوں کے اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں، اور لوگوں کے طعنوں سے تنگ بعض مایوس لوگ تو خود کشی کو ہی اس مسئلہ کا حل تصور کر لیتے ہیں۔

یہاں ہم آپ کو ایسی غذائوں کے بارے میں بتائیں گے،جن کے استعمال سے نہ صرف تولیدی صلاحیتوں میں بہتری آتی ہے بلکہ یہ عمومی صحت کے لئے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ یہ غذائیں جسم میں خون کے اضافے کا باعث بھی بنتی ہیں۔ اس کے ساتھ کچھ ایسی غذائوں کے بارے میں بھی بات ہوگی، جن کا استعمال نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

نامیاتی سبزیاں اور پھل: روایتی طور پر مختلف زہروں سے پیدا ہونے والی سبزیاں یا پھل تولیدی نظام کو متاثر کر سکتی ہیں، لیکن نامیاتی (قدرتی) سبزیاں اور پھل تولیدی صلاحیتوں کو قوت بخشتی ہیں۔

تازہ بادام : دودھ اور پنیر کا زیادہ استعمال جسم کو فربہ کر دیتا ہے، اور یہ موٹاپہ کسی حد تک نظام تولید کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتا ہے، لہٰذا ان کے بجائے تازہ بادام کا استعمال زیادہ فائدہ مند ثابت ہوگا۔

مچھلی: مچھلی کو اپنی خوراک کا ضرور حصہ بنائیں کیوں کہ اس میں قدرتی طور پر شامل اومیگاتھری نامی پروٹین ہارمونز کی بڑھوتری کا باعث بنتا ہے۔

قدرتی گھاس پر پلنے والے مویشیوں کا گوشت: روایتی طور پر پلنے والے مویشیوں کے گوشت میں نہ صرف ہارمونز بڑھانے کے استعداد زیادہ ہوتی ہے بلکہ اس میں شامل اینٹی بائیوٹکس ایسٹروجن(خواتین کا خاص ہارمون) کے غلبہ کے لئے بھی نہایت مفید ہے۔ قدرتی گھاس پر پلنے والے مویشیوں کے گوشت میں پروٹین کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے، جو تولیدی صلاحیتوں کے لئے نہایت سودمند ہے۔ تاہم بڑے گوشت سے کچھ پرہیز کرنا چاہیے۔

نامیاتی چکن: مصنوعی خوراک پر پلنے والی مرغیوں کا گوشت انسانی ہارمونز کو متاثر کر سکتا ہے، لہذا ہمیشہ ایسا چکن استعمال کرنے کی کوشش کریں، جو براہ راست کسی دیسی فارم سے حاصل کیا گیا ہو۔

اناج: اناج مختلف وٹامنز اور ریشوں پر مشتمل ہوتا ہے، جو قوت مدافعت میں اضافہ کا باعث ہے۔ اناج کے ریشوں کی یہ خاصیت ہے کہ یہ جسم کو اضافی ہارمون سے پاک کرنے کے ساتھ خون میں شوگر کی سطح کو متناسب رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ ریشوں سے بھرپور خوراک اورصاف پانی کا زیادہ استعمال کریں۔ سویا بین سے بنی چیزوں اور مختلف ڈبوں میں پیک بازاری جوسز سے پرہیز آپ کے نظام تولید کو بہتر بنا سکتا ہے۔

ہالی وڈ کے لیجنڈ اداکار لیام جان نیسن اب تک آسکر ایوارڈ سے محروم

$
0
0

دیومالائی اور ایکشن کردار توگویا لکھے ہی ان کے لئے گئے ہیں، یوں لگتا ہے افسانوی دنیا کے کردار جیتے جاگے روپ میں آپ کے سامنے آ گئے ہیں ، ہالی وڈ کے لیجنڈ اداکار لیام نیسن کو اداکاری میں ایسا ہی ملکہ حاصل ہے ۔

قدرت کی طرف سے عطا کردہ وجیہہ شکل و صورت اور قد کاٹھ والے کرداروں میں رنگ بھرنے میں ان کے بھرپور معاون ہوتے ہیں ، یونانی دیوتا کے روپ میں ہوبہو دیوتا اور فوجی کمانڈڑ کے کردار میں سخت اور درشت لب ولہجہ اور آہنگ انھیں کردار کی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے۔ تاہم انھیں اس مقام تک پہنچنے میں بہت نشیب و فراز سے گزرنا پڑا مگر انھوں نے ہمت نہ ہاری ۔

لیام جان نیسن شمالی آئر لینڈ کی کائونٹی اینٹرم کے علاقے بیلی مینا میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد برنارڈ نیسن بیلی مینا کے ایک پرائمری سکول کے منتظم تھے جب کہ ان کی والدہ بطور شیف ملازمت کرتی تھیں ۔

گویا ان کے خاندان میں سے کسی کا بھی دور دور تک شوبز کی چکاچوند دنیا سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ تاہم انھیں والد کی ملازمت سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ پرائمری کی سطح پر تعلیم کی بہتر سہولت میسر آگئی ۔ لیام چار بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں۔9 سال کی عمر میں انھیں باکسنگ کا شوق چرایا تو انھوں نے آل سینٹ یوتھ کلب سے باکسنگ کی تربیت لینا شروع کر دی اور تھوڑے ہی عرصہ میں السٹر امیچور سینٹر باکسنگ چیمپئن بن گئے۔

جب وہ گیارہ سال کے تھے تو ان کی خوبصورتی کو دیکھتے ہوئے سکول کے تھیٹر میں انھیں ایک کردار کرنے کا کہا گیا جو انھوں نے محض اس لئے قبول کر لیا کہ ان کی ایک کلاس فیلو بھی اس ڈرامے میں شریک تھی ، یوں انھوں نے اداکاری کے میدان میں قدم رکھا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور انھوں نے سکول تھیٹر میں کافی کام کیا۔

سکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد 1971ء میں لیام نے کوئینز یونیورسٹی بلفاسٹ شمالی آئر لینڈ میں فزکس اور کمپیوٹر سائنس میں داخلہ لیا،گویا ان کے ذہن میں سائنس کے میدان میں ملازمت کی خواہش تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے فٹ بال کے کھلاڑی کے طور پر اپنی جگہ بنائی اور دبلن میں فٹبال کلب شمراک روورز کے خلاف اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا مگر بدقسمتی سے انھیں کنٹریکٹ کی آفر نہ ہوئی یوں وہ فٹبال کے کھلاڑی نہ بن سکے۔ شائد قدرت ان کی صلاحیتوں سے کوئی دوسرا کام لینا چاہتی تھی ۔

یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد لیام نیسن واپس بیلی مینا آ گئے اور ملازمت کے لئے کوششیں شروع کیں مگر انھیں تعلیم کے مطابق کوئی ملازمت نہ مل سکی ۔

زندگی گزارنے کے لئے کوئی نہ کوئی کام تو کرنا تھا اس لئے انھوں نے بطور فورک لفٹر اپنی عملی زندگی کا آغاز کر دیا ، چند ماہ اسی طرح کے کام کرنے کے بعد انھوں نے نیوکیسل میں معلم کا دوسالہ کورس کرنے کے لئے داخلہ لے لیا اس کا مقصد بھی ملازمت کا حصول تھا مگر انھیں پھر بھی کسی تعلیمی ادارے میں ملازمت نہ مل سکی اور انھیں واپس اپنے آبائی شہر لوٹنا پڑا اور پیسہ کمانے کے لئے کئی کام کئے۔

1976ء میں لیام نیسن اپنے اصل رجحان کی طرف لوٹے اور انھوں نے بلفاسٹ میں ایک معروف تھیٹر لیرک بلیئرز میں ملازمت کر لی یعنی تھیٹر میں اداکاری کو بطور پیشہ اپنا لیا ۔ 1977ء میں انھیں پہلی مرتبہ ایک مذہبی فلم پلگرم پروگرس میں کام کرنے کا موقع ملا جس میں ان کا کردار بہت اہم تھا، یوں انھیں فلم میں کام کرنے کا تجربہ حاصل ہوا ۔

1978ء میں انھیں دبلن میں ایک تھیٹر ڈرامے میں کام کرنے کی پیشکش ہوئی، چونکہ یہ پیشکش بہت اہم تھی اور مستقبل میں انھیں بہت فائدہ ہوتا اس لئے انھوں نے ہامی بھر لی، یوں انھیں آئر لینڈ کے قومی تھیٹر ایبے میں کام کرنے کا موقع ملا اور انھوں نے متعدد ڈراموں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ 1980ء میں فلم ساز جان بورمین نے لیام کو تھیٹر میں کام کرتے دیکھا تو اس کی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوئے اور اسے فلم میں کام کرنے کی پیشکش کی جسے انھوں نے قبول کر لیا اور لندن چلے گئے۔

یہاں پر انھیں اداکارہ ہیلن مرن کا ساتھ میسر آیا جو شوبز کی دنیا میں اپنی جگہ بنا چکی تھیں ، وہ لیام کے لئے کافی معاون ثابت ہوئیں ، یوں انھیں چھوٹے بجٹ کی فلموں اور ٹی وی میں کام ملنا شروع کر دیا ۔ 1982ء سے 1987ء کے دوران لیام نے پانچ فلموں میں کام کیا جس میں انھیں فلم دی بونٹی میں معروف ہالی وڈ اداکارمل گبسن اور انتھونی ہوپکن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جبکہ فلم دی مشن میں رابرٹ ڈی نیرو اور جیرمی آئرن کے ساتھ کام کیا ۔

یوں انھیں اداکاری کے میدان میں جان پہچان کا کافی موقع ملا ۔ لیام نیسن نے اگلے سال ہالی وڈ میں بسیرا کیا اور فلم سسپکٹ مں چیر اور ڈینس کوئڈ کے ساتھ کام کیا ۔ 1990ء میں فلم ڈارک مین میں اہم کردار ادا کیا ، تاہم ابھی زندگی میں کٹھن منزلیں باقی تھیں اسی لئے اگلے دوسال انھیں کوئی بڑا کام نہ مل سکا تب پھر انھوں نے براڈوے میں ایک تھیٹر ڈرامے میں کام کیا ، خوش قسمتی سے فلم ڈائریکٹر سٹیون سپیلبرگ بھی اس ڈرامے کو دیکھنے کے لئے موجود تھے۔

وہ ان کی اداکارانہ صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے فلم سچنڈر لسٹ میں لیام کو اہم کردار کرنے کی پیشکش کی حالانکہ اس سے قبل بہت سے نامور اداکار اس کردار کو کرنے کی ہامی بھر چکے تھے مگر قدرت نے یہ کردار شائد ان کے لئے تخلیق کیا تھا اسی لئے انھوں نے ہی کیا اور ان پر خوب جچا ، یہ فلم بہت پسند کی گئی اور اس نے متعدد ایوارڈ حاصل کئے۔

اس فلم کی کامیابی پر لیام نیسن کا شمار ہالی وڈ کے بڑے اداکاروں میں ہونے لگا ۔ اس کے بعد 1995ء میں انھوں نے فلم راب رائے اور 1996ء میں مائیکل کولنز میں کام کیا اور خوب شہرت کمائی ۔ 1998 ء میں وکٹر ہیوگو کی فلم لس مزرایبل میں کام کیا، اس کے بعد فلم دی ہانٹنگ میں کام کیا ۔ 1999ء میں ہی انھیں ٹی وی فلم سیریز سٹار وارز کی طرز پر بننے والی بڑی سکرین کی فلم دی فینٹم مینیس میں کام کرنے کی پیشکش ہوئی جو انھوں نے قبول کر لی ۔

ناقدین کی سخت تنقید کے باوجود فلم کامیاب رہی اور بزنس کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر رہی ۔ 2001ء میں انھوں نے ایک دستاویزی فلم جرنی ان ٹو امیزنگ کیوز میں صداکاری کی جس پر انھیں متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا ۔ 2002ء میں فلم کے 19 دی وڈو میکر اور گینگز آف نیویارک میں کام کیا ، اس کے بعد فلم لو ایکچوئلی اور فلم کنسے میں کام کیا جو بہت پسند کی گئیں ، خاص طور پر گینگز آف نیویارک اور کنسے فلمی ایوارڈز کے لئے نامزد ہوئیں ۔

ہالی وڈ بلاک بسٹر فلم دی کرانیکل آف نارنیا میں شیر کے کردار اسلان کے لئے صدا کاری کی، یہ فلم بھی بزنس کے لحاظ سے بہت کامیاب رہی۔ 2007ء میں امریکی خانہ جنگی پر بننے والی فلم سیرافم فالز میں کام کیا ، 2008ء میں ایکشن فلم دی ٹیکن میں کام کیا ۔ اس فلم نے پوری دنیا میں 223.9 ملین ڈالر کا بزنس کیا ۔ اسی طرح فلم کلیش آف دی ٹائی ٹن میں یونانی دیوتا زیوس کا دیومالائی کردار کیا، یہ فلم باکس آفس پر بہت کامیاب ثابت ہوئی اور اس نے 475 ملین ڈالر کا بزنس کیا ۔

اس کے بعد فلم دی اے ٹیم میں فوجی کمانڈر کا کردار ادا کیا جو ایک فوجی مشن کے لئے سابقہ گوریلا فوجیوں کو اکٹھا کر کے لڑاکا ٹیم بناتا ہے ، ان میں سے ہر فوجی کسی نہ کسی فن میں ماہر ہوتا ہے اور بے خوف وخطر لڑائی میں کود پڑتا ہے ۔ فلم ان نون بھی بہت پسند کی گئی ۔ 2012ء میں لیام نیسن کو فلم دی گرے میں بہت پسند کیا گیا ۔ اسی طرح انھوں نے ٹیکن 2 اور بیٹ مین سیریز کی فلم دی ڈارک نائٹ رائزز میں کام کیا ۔

یہ فلمیں بھی بہت کامیاب ہوئیں ۔ فلم نان سٹاپ اور اے واک امنگ دی ٹامب سٹونز بھی بہت پسند کی گئی ۔ لیام نیسن نہ صرف فلم کے بڑے اداکار ہیں بلکہ ٹی وی سیریز سٹاروار اور دستاویزی فلموں میں بھی اپنے فن کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ سٹار وار سیریز یوں تو عوام میں پہلے سے ہی کافی مقبول تھی مگر اس میں ان کے کیپٹن بننے کے بعد اسے مزید مقبولیت حاصل ہوئی ۔ اسی طرح انھوں نے اینی میٹڈ فلموں میں بھی کافی کام کیا جو بہت بزنس کے لحاظ سے بہت کامیاب رہیں ۔

لیام نیسن نے اداکارہ نتاشا رچرڈسن سے شادی کی ۔ نتاشا سے ان کی پہلی ملاقات 1993ء میں ایک تھیٹر ڈرامے اینا کرسٹی میں کام کے دوران ہوئی جو محبت میں تبدیل ہو گئی ۔ انھوں نے 3 جولائی 1994ء میں شادی کی ، ان کے دوبیٹے مائیکل اور ڈینیل ہیں ۔ لیام نیسن کی بیوی نتاشا کو 2009ء میں ایک حادثہ پیش آیا جس میں ان کے سر پر شدید چوٹ لگی اور وہ چل بسی ۔ لیام کو 2011 ء میں یونیسف کی طرف سے گڈ ول ایمبیسیڈر مقرر کیا گیا۔

لیام نیسن کا شمار ہالی وڈ کے ایسے 100بہترین اداکاروں میں کیا جاتا ہے جن کی فلمیں عوام میں ہمیشہ مقبول رہتی ہیں ۔ تاہم ہالی وڈ سپر سٹار ہونے کے باوجود فلم کا سب سے بڑا ایوارڈ آسکر ان کی پہنچ سے ابھی تک دور ہے۔

لیام نیسن کا اسلام کی طرف رجحان:
گزشتہ سال دسمبر میں برطانوی اخبار سن سے گفتگو کرتے ہوئے لیام نیسن نے دین اسلام کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ ایک فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں جب میں ترکی کے شہر استنبول میں تھا تو وہاں میں نے نماز کے لئے دی جانے والی اذان سنی جو گویا میری روح میں اتر رہی تھی، استنبول میں چار ہزار سے زائد مساجد ہیں ظاہر ہے یہ تجربہ کا فی مرتبہ ہوا ۔ روح میں اتر جانے والا یہ تجربہ اتنا خوبصورت تھا کہ اس نے مجھے مسلمان ہونے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا۔

اعزازات :
٭ ملکہ ایلزبتھ نے 1999ء میں لیام نیسن کو آفیسر آف آرڈر آف دی برٹش ایمپائر کے اعزاز سے نوازا
٭ دی امریکن آئر لینڈ فنڈ نے 2008ء میں پرفارمنگ آرٹ ایوارڈ دیا۔
٭ کوئنیزیونیورسٹی بلفاسٹ نے 2009ء میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا
٭ فلم سچنڈلر لسٹ میں بہترین اداکار کے طور پر شکاگو فلم کریٹک ایسوسی ایشن ایوارڈ، لندن فلم کریٹک ایوارڈ، اکیڈمی ایوارڈ ، بفٹا ایوارڈ ، دلاس فورٹ ایوارڈ ، فلم کریٹک ایسوسی ایشن ایوارڈ اورگولڈن گلوب ایوارڈ سے نوازا گیا
٭ بیلی مینا بورو کونسل کی طرف سے فریڈم آف بورو ایوارڈ دیا گیا
٭ فلم مائیکل کولن میں بہترین اداکار کے طور پر ایوننگ سٹینڈرڈ برٹش فلم ایوارڈ دیا گیا
٭ فلم کنسے میں بہترین اداکار کے طور پر آئرش فلم ایوارڈ سے نوازا گیا۔
٭ فلم دی گرے میں بہترین اداکار کے طور پر فینگوریا چین سا ایوارڈ سے نوازا گیا

ہنرمند خواتین کا میلہ۔۔۔

$
0
0

کراچی: شہرِ علم جامعہ کراچی کے اس گوشے میں آسمانی شامیانے تلے، تِل دھرنے کو بھی جگہ نہیں۔۔۔ قناتوں کے ساتھ ساتھ کوئی درجن بھر اسٹال سجے ہیں، اور ہر اسٹال کیا ہے، گویا ہنر کا ایک مکمل نمونہ ہے۔۔۔ دیکھیں تو آنکھیں پھیل جاتی ہیں۔۔۔ کہ فن کا یہ مظاہرے فقط صنف نازک کی دست کاری ہے، کسی مشین کا نمونہ نہیں۔

کہیں کھَڈی ایستادہ ہے، جس پر ہاتھ سے غالیچہ بُنا جا رہا ہے۔۔۔ کہیں کڑھائی کا ’’اڈہ‘‘ بچھا ہوا ہے۔۔۔ کسی گوشے میں قریشیہ کی بہار ہے، تو کسی کونے میں نگوں اور موتیوں سے جَڑی آرایشی اشیا سجی ہیں۔۔۔ کہیں سلائی، کڑھائی اور کپڑے پر ہنر کاری ہے، کہیں شیشوں سے آراستہ چِق (سرکنڈوں کی آرایشی چلمن) چمچما رہی ہیں۔۔۔

یہ میلہ عالمی یوم خواتین کے سلسلے میں جامعہ کراچی کے ویمنز اسٹڈیز کے سائے میں جاری تھا۔۔۔ جس میں ایسی خواتین کی ہنر کاری کی نمایش کی جا رہی تھی، جو اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنے معاش کی گاڑی کو دھکیلتی ہیں۔ چاہتی ہیں کہ گھر کی چار دیواری میں رہ کر ہی کسی طرح اپنے مسائل حل کریں۔۔۔ بہت سی ایسی بچیاں بھی ہیں، جو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر اس میدان میں اتری ہیں۔۔۔ ایسی بیویاں بھی ہیں، جو معاش کی جنگ میں مکمل طور پر اپنے نصف بہتر کے شانہ بشانہ ہیں۔۔۔ کچھ ایسی ہیں جو بے سہارا اولاد کی کفیل بنی ہوئی ہیں۔۔۔

یہاں ویمنز اسٹڈیز کے طلبا تو بڑی تعداد میں موجود ہیں ہی، ساتھ ہی دیگر شائقین فن بھی ان دست کاریوں کے لیے ٹھہر ٹھہر جاتے ہیں۔۔۔ کچھ طالبات ہیں، جو عن قریب پیا گھر سدھارنے والی ہیں، ان کی خواہش ہے کہ وہ ان منفرد دست کاریوں کو اپنے جہیز میں لے جائیں۔ ظاہر ہے اس پروگرام کا مقصد ایسی خواتین کے کام کو مشتہر کرنا ہی نہیں، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی ہے، یہی سلسلے ان کے کام کو مہمیز کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ بہتیری خواتین مستقبل میں ان سے کام بنوانے کی خواہش مند نظر آئیں، مگر یہ خواتین اپنے گھروں میں کام کرتی ہیں، اور ذرایع اِبلاغ میں آنے سے گریز کرتی ہیں۔ تاہم کچھ ہنر مند خواتین ’’ایکسپریس‘‘ سے بات کرنے پر تیار ہو گئیں، جس کا احوال قارئین اگلی سطروں میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

٭اس نمایش میں جہاں دیگر ہنر مند خواتین موجود تھیں، وہاں دو خواتین ایسی بھی تھیں، جن کو کچھ معذوری لاحق تھی۔ انہیں جو بھی دیکھتا، ان کی ہمت پر عَش عَش کر اٹھتا۔ ایسی ہی ایک خاتون اریبہ ہیں۔ پیدایشی طور پر ان کے ہاتھ ٹھیک نہیں۔۔۔ گزشتہ ایک سال سے اپنے گھر میں سلائی کا کام کر رہی ہیں۔ نگوں وغیرہ کا کام بھی کرتی ہیں۔ مہینے کی آمدنی ایک ہزار تک ہو پاتی ہے۔ بڑا مسئلہ گھر کا کرایہ ہے۔ اپنا کام پھیلانے کی خواہش ہے۔

انہی کے برابر میں ایسی ہی دوسری خاتون ثمرین پہیا کرسی پر سلائی مشین لیے بیٹھی ہیں۔ ہاتھوں کی معذوری کے باوجود ان کی ہمت، عزم اور حوصلہ قابل دید ہے۔ وہ بچوں اور بڑوں کے کپڑے سیتی ہیں۔ جان پہچان کے لوگ ان سے اپنے کپڑے سلواتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کڑھائی کا کام بھی بخوبی کر لیتی ہیں۔ سلائی کے مقابلے میں اس میں زیادہ محنت ہوتی ہے۔ دن میں دو تین فراکیں بنا لیتی ہیں۔ بڑا جوڑا بنانے میں ایک دن صرف ہو جاتا ہے۔

٭لانڈھی میں رہائش پذیر رمشہ تین سال سے فیبرک پینٹنگ کا کام کر رہی ہیں، کپڑے پر نقش و نگار سانچوں کی مدد سے بنائے جاتے ہیں۔ کہتی ہیں کہ نہم جماعت کی طالبہ ہیں اور اس کام سے بس ان کے پڑھائی کے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Women.jpg

٭نمائش میں شریک نوشین کی تعلیمی قابلیت میٹرک ہے۔ یہ شیشوں سے بنے ہوئی دست کاری کا کام کرتی ہیں۔ مختلف شکلوں میں کٹے ہوئے شیشے چِق پر لگاتی ہیں۔ اس سے پہلے سلائی کا کام کرتی رہیں۔ سلائی میں بہتر، جب کہ اس کے پیسے کم ملتے ہیں، کام بھی زیادہ نہیں۔ اس لیے چاہتی ہیں کہ بڑے پیمانے پر کام بڑھے اور مناسب منافع ملے۔

٭شوہر کی ناکافی آمدنی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے سدرہ اپنے گھر میں مینا کاری والی بیل اور فیتے تیار کرتی ہیں۔ چار بچے ہیں، جو پڑھ رہے ہیں۔ بچوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے گزشتہ چار سال سے اس کام سے وابستہ ہیں۔ گھر میں ہی کام کرنا چاہتی ہیں۔ تعلیم یافتہ نہیں۔ منافع کم ہے، بعض اوقات صرف لاگت ہی کے پیسے ملتے ہیں، محنت کے نہیں۔

وسائل اتنے نہیں کہ کام کو بڑھا سکیں۔ کسی کی مالی مدد یا قرض حسنہ کا ذکر ہوا تو انہوں نے نفی کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو اس کا اہل خیال نہیں کرتیں۔ بس چاہتی ہیں کہ لوگ صحیح پیسے دیں، ہمارا کام خود بخود بڑھ جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کارخانوں کے لیے کام کروں گی، تو ان کی مانگ پوری نہیں کر سکوں گی۔ اس لیے بس تھوڑا بہت کام کر کے قریبی دکان میں دے دیتی ہوں۔ فیتے کا ایک رول ایک ہفتے میں تیار ہوتا ہے۔ اس پر صرف 20، 30 روپے بچتے ہیں۔

٭نعیمہ کے ہنر مند ہاتھ چُٹلوں (پراندوں) کے ذریعے صنف نازک کی زلفوں کو سجاتے ہیں۔ ہفتے میں پندرہ سے بیس چٹلے بنا لیتی ہیں۔ صرف 25 روپے ملتے ہیں۔ یوں ہفتے میں 500 روپے تک بچ جاتے ہیں۔ کام کے لیے مواد فراہم کیا جاتا ہے، انہیں صرف مزدوری ملتی ہے۔ پچاس روپے کی لاگت (پچیس روپے کے میٹریل اور پچیس کی مزدوری) سے تیار ہونے والا چُٹلا بازار میں ڈیڑھ سو روپے کا فروخت ہوتا ہے۔

شوہر مزدوری کرتے ہیں، لیکن 10، 11 ہزار میں تین بچوں کے ساتھ گزارہ نہیں ہوتا۔ خود باہر آ، جا نہیں سکتیں۔ اس لیے مال لانا اور لے جانا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ چاہتی ہیں کہ باہر کے کام میں کوئی ان کی مدد کرے۔ بچوں کی عمریں دس گیارہ سال ہیں۔ شوہر صبح چھے بجے کے نکلے ہوئے رات نو بجے لوٹتے ہیں، زیادہ پڑھے لکھے نہیں کہ اچھی ملازمت کر سکیں۔ اس لیے گھر کے کام کاج کے ساتھ سودا سلف لانے کی ذمہ داری بھی انہی کے کندھوں پر ہے۔ کام بڑھانے کے لیے وسائل کی کمی ہے۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Women1.jpg

٭مدیحہ کی تعلیمی قابلیت میٹرک ہے۔ کپڑوں اور دوپٹوں میں لگائی جانے والی چھوٹی چھوٹی بالیں بناتی ہیں۔ چھوٹی پلاسٹک کی ان گولیوں پر پہلے کیمیکل لگایا جاتا ہے، پھر اس پر نہایت چھوٹے چھوٹے ایک ایک نگ کو اٹھا کر چپکایا جاتا ہے۔ دن میں لگ بھگ 50 کے قریب بن تیار کر لیتی ہیں۔ تین سال سے یہ کام کر رہی ہیں۔ 10 روپے کی ایک فروخت کرتی ہیں۔ جس میں لاگت ان کی اپنی ہوتی ہے۔ مال بنانے کے لیے دیا جائے تو دو روپے فی تین بالیں مزدوری ملتی ہے۔ ان کے مال کی کھپت دو، تین دکانوں میں ہے۔ آمدنی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ بس اخراجات پورے ہو جاتے ہیں۔

٭ثنا گزشتہ پانچ سال سے آئس کریم اسٹکوں کی مدد سے آرایشی اشیا تیار کرتی ہیں۔ روزانہ ایک یا دو دانے ہی تیار ہو پاتے ہیں۔ ایک دانہ 500 روپے تک کا فروخت ہو جاتا ہے۔ لانڈھی کی بابر مارکیٹ میں رکھواتی ہیں، وہاں بک جائے تو پھر مزید بنا کر دے دیتی ہیں۔ صرف اس کام سے گزار نہیں ہوتا، اس لیے زنانہ کپڑے بھی سیتی ہیں۔

٭گلگت سے تعلق رکھنے والی عابدہ قریشیہ اور ہاتھ کی کڑھائی میں ملکہ رکھتی ہیں۔ بلوچی، کشمیری اور سواتی ٹانکے پر بھی عبور حاصل ہے۔ جان پہچان کے لوگوں کے لیے کپڑوں کی سلائی بھی کرتی ہیں۔ سالانہ آمدنی 15 ہزار تک ہے۔ البتہ اس طرح کے میلے یا نمایشوں میں فروخت اور آرڈر ملنے سے چھے، سات ہزار مل جاتے ہیں۔ شوہر کمپیوٹر ہارڈویئر کا کام کرتے ہیں۔ پانچ بچے ہیں۔ بڑی بیٹی بھی ابھی اسکول کی طالبہ ہے۔ لہٰذا منہگائی میں اخراجات کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے وہ گزشتہ ایک عشرے سے اپنے ہنر کو کام میں لا رہی ہیں۔ گھر کی ہنڈیا روٹی نمٹا کر روزانہ دو سے پانچ گھنٹے اس کام کو دیتی ہیں۔ عابدہ کی تعلیمی قابلیت پرائمری ہے۔ انہیں شکایت ہے کہ محنت زیادہ اور منافع کم ہے۔ قریشیہ کے بعض نمونے تیار ہونے میں ایک ہفتہ لگ جاتا ہے، جس میں صرف 400 روپے تک ہی بچتے ہیں۔

٭کانچ کی چوڑیوں کو رنگنے کا دقت طلب کام کرنے والی خاتون کا نام نسیم ہے۔ بے رنگ چوڑیوں کو طرح طرح کے رنگ دینے کے لیے ایک، ایک چوڑی کو اٹھا کر رنگ لگانا پڑتا ہے۔ یہ برسوں سے اپنے گھر میں یہ کام کر رہی ہیں۔ شوہر بھی مددگار ہیں۔ اب اپنے بچوں کی شادیاں کر چکی ہیں۔ روزانہ ڈیڑھ سو روپے تک کا کام کر لیتی ہیں۔

٭شفق آرایشی پھول پتیوں کا کام کرتی ہیں۔ اس کے سانچے مشینوں سے کٹوا کر اس پر نگ لگائے جاتے ہیں۔ روزانہ آمدنی 150تک ہو جاتی ہے۔ شوہر کی بھی مکمل معاونت حاصل ہے۔ بالخصوص بازار میں مال لانے اور لے جانے کا کام ان کے سپرد ہے۔ دن میں 40، 50 بنا لیتی ہیں۔ شفق کو شکایت ہے کہ ایک دانہ 20 روپے کا جاتا ہے۔ تین روپے بچتے ہیں۔ چاہتی ہیں کہ کم سے کم پانچ روپے تو بچیں۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Women2.jpg

٭سینڈلکے نگ لگی پٹیوں کا اسٹال لانڈھی کی رہایشی ناہید کا ہے۔ چھے بہن بھائیوں میں ان کا نمبر چوتھا ہے۔ پانچ سال پہلے والدہ کا انتقال ہوا تو ساتویں جماعت کی ناہید کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ بڑے بھائی کی شادی کے بعد ایسے حالات ہوئے کہ انہیں یہ کام کرنا پڑا، دوسرے بھائی سب سے چھوٹے ہیں، سات سال کے۔ وہ دو سال سے یہ کام کر رہی ہیں۔ ایک جوڑی کے 10 روپے ملتے ہیں۔ مہینے کے ہزار روپے ہی جوڑ پاتی ہیں۔ گوند کی مدد سے پہلے پٹیاں چپکاتی ہیں، پھر سوئی دھاگے سے جوڑتی ہیں۔ کارخانے میں یہ جوتیوں اور سینڈلوں پر لگایا جاتا ہے۔ ناہید ایک طرف معاشی تنگی سے پریشان ہیں، تو دوسری طرف ادھوری تعلیم کو پوری کرنے کے خواب آنکھوں میں سجائی ہوئی ہیں، مگر پہلے گھر کے حالات تو سنبھلیں۔ خواہش ہے کہ کم سے کم میٹرک یا انٹر ہو جائے۔

٭میمونہ قیصر گھر میں اپنے شوہر کے ساتھ ایک کارخانے کے لیے جینز کی سلائی کا کام کرتی ہیں، یوں 500 روپے روز کے مل جاتے ہیں۔ ایک پیس پر 15 روپے ملتے ہیں، چاہتی ہیں کہ 25 روپے تو ملیں۔ انہیں کپڑا کٹا ہوا ملتا ہے، جسے سینا ہوتا ہے۔ روزانہ 10، 12 بنا لیتی ہیں۔ بجلی نہ ہو تو رات تک بیٹھنا پڑتا ہے۔ اس کام کو کرتے ہوئے دس برس بیت گئے ہیں۔ ہر ماہ گھر کا کرایہ نکالنا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

٭کرسٹل کے کام پر اپنے ہنر کا مظاہرہ کرنے والی افشین کہتی ہیں، یہ بہت محنت طلب کام ہے، لوگ صحیح پیسے نہیں دیتے۔ مال بھی خود لے کر آتی ہیں۔ ایک دانے پر 10 سے 50 روپے تک بچتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی چیز پر 100 روپے کی صرف لاگت ہے، تو محنت کے بعد اس کے 100 روپے تو ملنے چاہئیں، مگر 10سے 20 ہی مل پاتے ہیں۔ یہ اشیا لانڈھی کی بابر مارکیٹ کے کچھ سیلز مین لے جاتے ہیں۔ صدر وغیرہ کے دکان دار صحیح پیسے نہیں دیتے۔ انہیں طلاق ہو چکی ہے، تین بچے ہیں۔ بڑا بیٹا ساڑھے پانچ سال کا ہے۔ تین بھائی اور دو بہنیں اور امی ساتھ ہیں۔

شوہر سے علیحدگی کے بعد اپنے بچوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے یہ کام شروع کیا۔ اس کے علاوہ برقعے بھی سیتی ہیں۔ اس میں بہتر پیسے مل جاتے ہیں۔ صبح سات بجے سے رات تک کرتی ہیں۔ اپنے کام سے مطمئن ہیں کہ گزارا ہو جاتا ہے۔ اس لیے مستقبل کے حوالے سے کوئی خاص ارادے نہیں۔ افشین نے خصوصی طور پر خواتین کے پیغام میں کہا کہ گھر کے کام تو سب ہی کر لیتے ہیں، گھروں میں بیٹھی معاش میں بھی انہیں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔

دیدہ زیب جیولری کےاستعمال شخصیت نکھارئیے

$
0
0

’’کاسٹیوم جیولری‘‘ کی اصطلاح یوں تو نئی نہیں، بلکہ خاصی پرانی ہے اور بیسویں صدی کے اختتام سے کافی مقبول ہے، لیکن ہمارے ہاں اس کے لیے زیادہ آرٹیفیشیل یا میچنگ اور فیشن جیولری کی اصطلاحیں استعمال ہوتی آئی ہیں۔ گو کہ ان سب کا مطلب ایک ہی ہے۔ یعنی وہ مصنوعی زیورات جو آپ کے میک اپ کو چار چاند لگاتے ہیں۔

خواتین میں مصنوعی زیورات پہننے کا رواج کئی صدیوں سے چلا آرہا ہے، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اس میں مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ظاہر ہے کہ ہوش ربا گرانی کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے۔ تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ گوٹھ، پلاٹینم اور ڈائمنڈ جیولری کے مقابلے میں ’’کاسٹیوم جیولری‘‘ کے ڈیزائنروں نے اس کے اتنے خوب صورت اور منفرد ڈیزائن متعارف کرائے ہیں کہ ان پر نظر ٹھہر ہی جاتی ہے اور خواتین اسے خریدے بنا نہیں رہ پاتیں، پھر کیوں نہ خریدیں، آخر انہیں اپنایا ہی ان کے لیے جاتا ہے۔

’’کاسٹیوم جیولری‘‘ کو یہ نام دینے کا سبب یہ ہے کہ یہ آپ کے لباس کی شان بڑھاتی ہے۔ تاہم اگر آپ موقع محل اور اپنے لباس کی مناسبت سے اسے پہنیں، تو آپ کی شان یقینا دوبالا ہو جائے گی۔ ان دنوں مارکیٹ میں موجود فیشن کے مطابق انتہائی دیدہ زیب رنگوں اور جگ مگ کرتے نگینوں سے جڑی جیولری دست یاب ہے، لہٰذا آپ کی تقریب کی نوعیت اور اپنے لباس کی مناسبت سے ان میں سے کچھ زیورات منتخب کر سکتی ہیں۔ موسم چاہے کوئی بھی ہو، کاسٹیوم جیولری کے دل فریب رنگ آپ کی زندگی میں عجب سماں پیدا کر سکتے ہیں۔

تاہم یہاں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ لباس اور زیورات آپ کی شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں۔ اس لیے محض فیشن کی دوڑ میں شامل رہنے کے شوق میں اپنے ہیئر اسٹائل یا مزاج کے برخلاف کوئی چیز منتخب نہ کریں کیوں کہ اس سے آپ کی شخصیت میں نکھار کے بہ جائے بگاڑ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیولری کے کسی بھی انفرادی انداز کے پیس کی کو اسٹیٹمنٹ جیولری سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔

زائد جہیز کی روک تھام کے لئےقوانین کب متحرک ہوں گے؟

$
0
0

جہیز کے معنی تیار کرنے کے ہیں۔ جہیز دینے کی رسم ہر علاقے میں ہی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔

ابتداً امیر خاندانوں کی طرف سے اپنی بیٹیوں کی شادی کے وقت انہیں قیمتی سامان دیا جاتا تھا، کہ ان کی بیٹی گھر جیسی اچھی باسہولت زندگی گزار سکے۔ تاریخ مختلف راجاؤں کی طرف سے جہیز دینے کی مثالیں ملتی ہیں۔ یہ 1661ء کی بات ہے جب ممبئی میں شاہ زادی کیتھرین کی کنگ چارلس سے شادی ہوئی، تو شاہ زادی کو بادشاہ کی طرف سے قیمتی ساز وسامان دے کر رخصت کیا گیا تھا۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔

شادی دو افراد کے درمیان پیار کا بندھن اور دو خاندانوں کے ملاپ کا ذریعہ ہے۔ صرف جہیز کے لالچ نے اس مقدس بندھن کے معنی آج کے دور میں بدل کر رکھ دیے ہیں۔ جہیز کے لالچ کی وجہ سے شادی کاروبار کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ امیر والدین اپنی بیٹیوں کو بیاہتے ہوئے قیمتی سامان، تحائف اور نقدی جہیز میں دیتے ہیں، تاکہ معاشرے میں ان کی امیری کا رعب قائم رہے۔ دوسری طرف کتنی ہی لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ یا کم جہیز کی وجہ سے کئی لڑکیوں کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ بہت سے پس ماندہ گھرانوں میں اس بنا پر مارپیٹ اور جلائے جانے کے واقعات عام ہیں۔

ہمارے ہاں آئے روز ایسے واقعات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ ’’جہیز نہ لانے پر سسرال والوں نے دلہن کو جلا دیا‘‘ یا ’’جہیز نہ ملنے یا کم ملنے پر سسرال والوں نے لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔‘‘ لوگوں کے اسی رویے کی وجہ سے جہیز غریب گھرانوں کے لیے ایک بڑے سنگین مسئلے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر والدین یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اپنی بیٹی کو زیادہ جہیز دیں گے تو سسرال میں اسے عزت ملے گی۔ اس کی قدر ہو گی اور خاندان میں ان کی ناک اونچی رہے گی۔ غریب لوگ تو مجبوراً قرض لیتے ہیں، جب کہ امیر لوگ اپنی امارت کی دھاک بٹھانے کے لیے اس کا سہارا لیتے ہیں۔

جس کے بعد نتیجے میں ان کی ساری زندگی لیے ہوئے قرض کو چکانے میں گزر جاتی ہے۔ آج کے دور میں غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بہت مشکل ہو گیا ہے، ایسے میں بیٹی کا باپ اُ س کی شادی کی ہی فکر میں دُہرا ہوا جاتا ہے۔ بیٹی کی شادی میں تاخیر ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب یا حل بہت مشکل ہے تاہم ناممکن نہیں ہے۔

لڑکے والے یہ جاننے کے باوجود کہ لڑکی والوں کی اتنی حیثیت نہیں، پھر بھی لڑکی والوں سے قیمتی جہیز کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایک تصور جہیز ماں باپ کی حیثیت اور استطاعت کے مطابق دینے کا ہے، لیکن ماں باپ کی طرف سے بیٹی کو جہیز دینا فرض یا واجب ہرگز نہیں ہے۔ دوسری طرف ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دیکھنے میں انتہائی مذہبی لگتے ہیں، لیکن دوسرے کی مشکل حل کرنے کے لیے کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ شادی کے لیے وہ ساری دین داری فراموش کر دیتے ہیں۔

شادی جیسے پاکیزہ اور مقدس رشتے کے متعلق واضح احکامات ہونے کے باوجود بھی لوگ قیمتی جہیز کو ہی لڑکیوں کی کام یاب اور خوش گوار زندگی کا ضامن سمجھتے ہیں۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جہیز شادی کا لازمی حصہ بن چکا ہے، حالاں کہ جہیز کے حوالے سے قانون بھی بن چکا ہے۔ 2005ء میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے مذہبی امور کے اس وقت کے چیئرمین مولانا سمیع الحق نے بے جا جہیز دینے کو کنٹرول کرنے کے لیے جہیز کی حد بندی کے بل کی منظوری دی تھی۔ جس کے تحت 50ہزار روپے سے زائد کا جہیز دینے پر پابندی لگائی گئی تھی۔ فیملی کورٹس کے ججوں کو اس قانون کی خلاف ورزی پر ایک سال کی قید اور جرمانے کا اختیار دیا تھا، لیکن آج تک اس قانون پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ جب کہ ہمارے سامنے جہیز نہ ملنے کے باعث بے شمار واقعات موجود ہیں۔

راول پنڈی کی تین بہنوں سمیرا، صائمہ اور آسیہ نے غربت اور جہیز نہ ہونے کی وجہ سے خان پور نہر میں چھلانگ لگا کر خودکُشی کی کوشش کی تھی۔ موقع پر موجود لوگوں نے انہیں بچا لیا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ ان کی شادی کی بات پکی ہو چکی تھی، لیکن لڑکے والوں کی جہیز کی مانگ پوری نہ کرنے کی وجہ سے ان کی شادیاں نہیں ہو رہی تھیں۔

ایک سروے کے مطابق بھارت، پاکستان اور بنگلا دیش میں والدین کی ایک بہت بڑی تعداد جہیز نہ ہونے کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کر پاتے، جس کی وجہ سے کنواری لڑکیوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔ بھارت میں تو جہیز نہ لانے کی پاداش میں لڑکیوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ انڈین نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال میں جہیز نہ لانے کی وجہ سے چار ہزار کے لگ بھگ خواتین کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ جہیز نہ لانے کے ’’جرم‘‘ میں خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بھی بنتی ہیں۔ انہیں خودکُشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے یا قتل کر دیا جاتا ہے۔ سیکڑوں خواتین چولھا پھٹنے سے ہلاک ہو جاتی ہیں۔ یہ واقعات خاصے پراسرار ہوتے ہیں۔ یہ کیسے حادثے ہوتے ہیں کہ صرف بہو ہی چولھا پھٹنے سے ہلاک ہوتی ہے، کبھی بیٹی نہیں ہوتی۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق 40 فی صد طلاقوں میں جہیز کا عمل دخل ہوتا ہے، جب کہ سرال کی طرف سے تشدد کا نشانہ بننے والی 90 فیصد خواتین یہ ظلم صرف اس لیے سہتی ہیں کہ ان کے والدین سسرالیوں کی خواہشات پوری کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ والدین بھی اپنی جگہ درست ہیں کہ بیٹی کو جہیز کم دیا تو سسرال والے طعنے دے کر اس کا جینا دوبھر کر دیں گے، حالاں کہ شادی ایک ایسے بندھن کا نام ہے، جس میں دو افراد کو ساری عمر ایک ساتھ گزارنی ہوتی ہے اور جو رشتے مادی اشیا کی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں، وہ زیادہ دیر قائم نہیں رہتے۔ رشتوں کی مضبوطی اعلیٰ اخلاق، اچھی تعلیم و تربیت، سلیقہ مندی اور ذہنی ہم آہنگی سے ہوتی ہے۔ یہ ساری زندگی کام آتا ہے۔


عربوں کے انوکھے ساتھی لارنس آف عربیا کی ’’خلافت‘‘

$
0
0

آج سے ٹھیک سو برس پہلے کا واقعہ ہے جب ایک انگریز ماہر آثار قدیمہ نے مشرق وسطیٰ میں عرب خلافت کے قیام کا سنہرا سپنا دیکھا۔ یہ ایک عجوبہ خیز بات تھی مگر وہ انگریز اپنے اس انوکھے خواب کو عملی تعبیر دینے نکل کھڑا ہوا۔ اس انگریز کا نام ٹی ای لارنس تھا جو دنیا بھر میں لارنس آف عربیا کے عرف سے زیادہ جانا گیا۔

لیکن ٹی ای لارنس کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا کیونکہ اس کی اپنی برطانوی حکومت نے فرانسیسیوں اور روسیوں کے ساتھ مل کر عرب علاقے ہتھیانے کا خفیہ پروگرام بنالیا۔ یوں مشرق وسطیٰ میں مصر سے لے کر ایران تک پھیلی وہ عرب خلافت معرض وجود میں نہ آسکی جس کا خاکہ کرنل لارنس نے تخلیق کیا ۔

حیرت انگیز بات یہ کہ تقریباً ایک سو برس بعد عربوں کا ایک گروہ عراق وشام میں اپنی خلافت قائم کرنے کا دعوی کر چکا۔گو مسلمانوں کی اکثریت اس خودساختہ خلافت کو تسلیم نہیں کرتی۔تاریخ عیاں کرتی ہے کہ سو برس قبل یورپی استعمار نے عثمانی ترک خلافت مٹانے کی خاطرعرب خلافت کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا۔

یورپی استعمار نے پھر جو تہ در تہ سازشیں کیں،ان کی داستان بہت عبرت اثر ہے۔ وہ عیاں کرتی ہے کہ جب بھی مسلمان اتحاد و یگانگت چھوڑ کر تقسیم ہوئے ذلت و زوال کے گڑھوں میں جاگرے۔

یہ داستان بتاتی ہے کہ شروع میں یورپی استعمار نے عثمانی ترک خلافت ختم کرنے کے لیے عربوں کو سہانے سپنے دکھائے۔ لیکن جوں جوں کامیابی نزدیک آئی،اس نے مشرق وسطیٰ پہ قبضہ کرنے کا تہیہ کر لیا…وہ یوں کہ نئی عرب ریاستیں تشکیل دے کر وہاں کٹھ پتلی حکمران بٹھا دئیے جائیں۔
٭٭
1888ء میں برطانوی علاقے ‘ ویلز میں پیدا ہونے والا ناجائز بچہ‘ تھامس ایڈورڈ لارنس بہ لحاظ پیشہ ماہر آثار قدیمہ تھا۔چھوٹا ہی تھاکہ تاریخی عمارات دیکھنے ذوق و شوق سے جانے لگا۔ 1909ء میں اکیس سالہ لارنس تن تنہا شام پہنچا اور وہاں آثار قدیمہ کا مطالعہ کرتا رہا۔ تاریخ میں گریجویشن کرنے کے بعد وہ 1910ء تا 1914ء لبنان‘ شام‘ مصر اور عراق میں آثار قدیمہ پر مصروفِ تحقیق رہا۔ اس دوران لارنس نے عربی زبان سیکھی نیز عرب قبائل کی روایات‘ معاشرت اور تاریخ سے آشنا ہوا۔

جنوری 1914ء میں لارنس عارضی طور پر برطانوی فوج کا جاسوس بن گیا۔ فوج نے اس سے موجودہ اسرائیل میں واقع صحرائے النقب (Negev) کا سروے کرایا۔ عثمانی ترک فوج اسے پار کر کے مصر پر حملہ آور ہو سکتی تھی جہاں انگریزوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔اس زمانے میں مصر کو چھوڑ کر بیشتر مشرق وسطی (شام‘ عراق‘ اردن‘ سعودی عرب‘لبنان اور اسرائیل) عثمانی ترکی خلافت میں شامل تھا۔

جولائی 1914ء میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔ اس میں جرمنی اور عثمانی ترکی اتحادی تھے جن کا برطانیہ و فرانس سے مقابلہ ہوا۔ برطانوی اور فرانسیسی اتنے طاقتور نہیں تھے کہ وہ مشرق وسطی میں لشکر کشی کر دیتے۔ لیکن انگریزجانتے تھے، مشرق وسطی میں بیٹھے ترک بحر ہند میں برطانوی تجارت کی ناکہ بندی کر کے برٹش ایمپائر کو معاشی طور پر تباہ کر سکتے ہیں۔ اس لیے مشرق وسطی میں ترکوں کے خلاف جنگ چھیڑنا اشد ضروری ہو گیا… مگر کس طرح؟

اس مسئلے کا حل مشرق وسطی میں موجود ’’عربسٹوں‘‘ نے نکالا۔ یہ اصطلاح ان عیسائی دانش وروں اور ادبا کے لیے استعمال ہوتی ہے جنہوں نے مغربی استعمار کی آشیر باد سے مشرق وسطی میں انیسویں صدی کے دوران عرب قوم پرستی کی بنیاد رکھی ۔اس تحریک کے ذریعے مختلف ہتھکنڈوں سے عربوں کو ترکوں کے خلاف ابھارا گیا۔ مگر یہ حقیقت ہے ،عثمانی ترک حکومت کی ناانصافیوں نے بھی عرب قوم پرستی کو پنپنے میں مدد دی۔

بیسویں صدی کے آغاز تک یہ تحریک جڑ پکڑ چکی تھی۔ چنانچہ برطانیہ اور فرانس نے طے کیا کہ عرب قبائل کو عثمانی ترکی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیاجائے۔ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوا کہ وہ کس طرح؟ لارنس آف عربیا ہی نے اس کٹھن سوال کا جواب دیا۔ٹی ای لارنس چار برس مشرق وسطی میں گذارنے کی وجہ سے عرب قبائل کی اقدار و روایات کے بارے میں خاصی معلومات رکھتا تھا۔

اسی خصوصیت کے باعث جنوری 1915ء میں ا سے بہ حیثیت جاسوس فارن آفس میں بھرتی کر لیا گیا۔تب برطانیہ کا یہی سرکاری ادارہ دنیا بھر میں برطانوی سلطنت کے مفادات کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اس کی پہلی تعیناتی فارن آفس کی قاہرہ شاخ میں ہوئی۔

یہ قاہرہ شاخ ہی ہے جہاں 1915ء میں لارنس اور دیگر برطانوی مدبریہ نظریہ سامنے لائے کہ کسی عرب سردار کو خلافت بنانے کا لالچ دیا جائے… ایسی عرب خلافت جو تقریباً پورے مشرق وسطی پہ محیط ہو۔ یوں وہ شان و شوکت اور طاقت میں عباسی خلافت کی ہمسر بن جاتی جو اپنے وقت میں دنیا کی سپر پاور تھی۔

درج بالا نظریے کے سلسلے میں ٹی ای لارنس ہی نے ایک مبسوط مقالہ لکھا اور اس میں عرب قبائل کی تاریخ‘ قبائلی اختلافات‘ تہذیب و معاشرت اور اطوار تفصیل سے بیان کیے۔ مقالے میں لارنس نے لکھا’’مشرق وسطی کے سنی عرب قبائل کو متحد کر کے وہاں ایسی خلافت کا قیام ممکن ہے جو طاقت و حشمت میں عباسی خلافت کے ہم پلّہ بن جائے۔‘‘

برطانوی حکومت نے فوراً اس عرب خلافت کے قیام کی تجویز منظور کر لی۔ چناں چہ اب مشرق وسطی میں ایسے طاقتور عرب سردار کی تلاش شروع ہوئی جو بغاوت کا سرغنہ بن سکے۔ انگریزوں کی نظریں شریف مکہ،حسین بن علی پر جا کر ٹھہر گئیں۔

حسین بن علی خادمِ حرمین شریفین کی حیثیت سے عرب قبائل میں شہرت رکھتا تھا۔ مزید براں پہلے ہی اس کے دل میں شاہ حجاز بننے کی تمنا سمائی ہوئی تھی۔ اس کی جاہ طلب خواہشات سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایا اور پُرکشش ترغیبات دے کر اسے عثمانی ترکی کے خلاف بغاوت کرنے پر آمادہ کر لیا۔ یہ جولائی 1916ء کی بات ہے۔

اکتوبر 1916ء میں ٹی ایس لارنس کو حجاز بھجوایا گیا تاکہ وہ حسین بن علی کی فوج کے ساتھ مل کر عثمانی ترکوں کی چوکیوں پہ حملے شروع کر سکے۔ تب تک وہ کیپٹن بن چکا تھا۔ عرب بغاوت میں کرنل لارنس کا اہم کردار یہ ہے کہ اس نے حسین بن علی اور اس کے بیٹے، شہزادہ فیصل کو قائل کر لیا کہ وہ برطانوی جنگی حکمت عملی کے مطابق عمل کریں۔

اس حکمت عملی پہ چلتے ہوئے باغی عرب قبائل چھاپہ مار کارروائیاں کرنے لگے اور ترکوں سے براہ راست مقابلہ نہیں کیا گیا۔ جلد ہی حجاز اور نجد کے کئی قبائل شریف مکہ سے آن ملے۔ انہوں نے حجاز ریلوے کو سخت نقصان پہنچایا جس سے ترک فوج کو سپلائی ملتی تھی۔ سپلائی کٹنے سے عرب شہروں میں مورچہ بند ترک فوج محصور ہوگئی۔

برطانیہ نے شریف مکہ کی عرب فوج کو جدید اسلحہ دیا اور مالی امداد بھی دی۔ آنے والے دو برس میں ٹی ایس لارنس کی راہنمائی میں اس عرب فوج نے حجاز و نجد میں کئی اہم قلعے ترکوں سے ہتھیا لیے۔ ان کامیابیوں کی بدولت وہ عرب فوج کے کمانڈر، شہزادہ فیصل کا دست راست اور لیفٹیننٹ کرنل بن گیا۔

دلچسپ بات یہ کہ جب مشرق وسطیٰ میں کرنل لارنس عربوں کے ساتھ مل کر ترکوں سے نبرد آزما تھا، تو برطانیہ، فرانس اور روس کی حکومتیں جنگ عظیم میں کامیابی یقینی دیکھ کر مشرق وسطیٰ کے حصّے بخرے کرنے کا معاہدہ تیار کرنے لگیں۔ نومبر 1915ء سے معاہدے پر بات چیت شروع ہوئی اور وہ مئی 1916ء میں پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔

تاریخ میں یہ معاہدہ ’’سائیکس پیکوٹ معاہدہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔اس معاہدے کی رو سے موجودہ عراق، کویت، اردن اور اسرائیل کے علاقے انگریزوں کے حصے میں آئے۔ لبنان، شام اور شمال مشرقی ترکی فرانسیسیوں کوملے جبکہ استنبول سمیت بقیہ سارا ترکی روسیوں کومل گیا۔

مغربی مورخین کا دعوی ہے کہ کرنل لارنس سائیکس پیکوٹ معاہدے سے بے خبر تھا۔ جب اواخر 1918ء میں مشرق وسطیٰ میں ترک فوج کو شکست ہوئی تو پھراسے معاہدے کا علم ہوا۔ اس کی بابت جان کر قدرتاً حسین بن علی کے علاوہ کرنل لارنس کو بہت صدمہ پہنچا۔

برطانوی حکمران اب ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ مشرق وسطیٰ میں طاقتور عرب خلافت کا قیام عمل میں آئے۔یوں عرب طاقت پاکر علاقے میں برطانوی تجارتی و معاشی مفادات کے لیے خطرہ بن جاتے۔ مغربی طاقتیں مشرق وسطیٰ میں چھوٹی عرب ریاستیں قائم کرنا چاہتی تھیں تاکہ عرب طاقت تقسیم ہوکر کمزور ہوجائے۔

مزید برآں برطانوی حکومت کا ایک بااثر رکن، وزیر خزانہ ڈیوڈ لائڈ جارج جو بعدازاں وزیراعظم بھی بنا، انتہا پسند عیسائی تھا۔ ان عیسائیوں کو آج کل عیسائی صیہونی (Christian Zionists) کہا جاتا ہے۔ یہ عیسائی سمجھتے ہیں کہ یہود ہی فلسطین کے اصل مالک ہیں ۔اور یہ کہ مسجد اقصیٰ کی شہادت کے بعد جب ہیکل سلیمانی تعمیر ہوگا، تب ہی حضرت عیسیٰؑ زمین پہ نزول کریں گے۔

دسمبر 1916ء میں یہی ڈیوڈ لائیڈ جارج برطانوی وزیراعظم بن بیٹھا۔ اس نے پھر صیہونی رہنماؤں سے وعدہ کیا کہ فلسطین میں انہیں ایک علیحدہ وطن (اسرائیل) دیا جائے گا۔ نومبر 1917ء میں ہونے والا ’’اعلان بالفور‘‘ اسی وعدے کی عملی شکل ثابت ہوا۔

پہلی جنگ عظیم میں حسب توقع عثمانی ترکوں کو شکست ہوئی اور ان کی خلافت سمٹ کر ترکی تک محدود ہوگئی۔ اگر مصطفیٰ کمال پاشا کی قیادت میں ترک فوج انگریزوں اور یونانیوں کو مار نہ بھگاتی، تو آج کا ترکی شاید کہیں چھوٹا اور کٹا پھٹا ہوتا۔اُدھر یورپیوں سے دھوکا کھا کر حسین بن علی سخت غصّے میں تھا۔ برطانوی حکومت نے اپنے حقیقی منصوبے پہ عمل درآمد کرتے ہوئے اس کے بڑے بیٹے، عبداللہ کو اردن جبکہ دوسرے فرزند فیصل کو عراق کا بادشاہ بنا دیا۔لیکن بظاہر اس اقدام سے یہ دکھایا گیا کہ برطانیہ نے عربوں سے کیے گئے اپنے وعدے کا پاس رکھا۔اسے کہتے ہیں مکارانہ سیاست!

ترکوں کے خلاف بغاوت کرنے والے شریف مکہ کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ وہ 1925ء تک ہی شاہ حجاز رہ سکا کہ ابن سعود نے اس کی حکمرانی کا خاتمہ کردیا۔برطانوی اب ابن سعود کی حمایت کر رہے تھے۔

اُدھر عراق میں 1958ء میں فوج نے شہزادے فیصل کی اولاد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اب صرف اردن میں حسین بن علی کے وارث بادشاہ بنے بیٹھے ہیں۔پچھلے ایک سو برس میں یہ بنیادی تبدیلی بھی آئی کہ اب مشرق وسطی میں جاری گریٹ گیم میں سلطنت ِانگلشیہ کی جگہ ریاست ہائے متحدہ امریکا لے چکا ہے۔

ٹی ای لارنس…ایک معّمہ
سوا پانچ فٹ کا پست قامت کرنل ٹی ای لارنس پُراسرار شخصیت کا مالک تھا۔ مغربی مورخین کا دعویٰ ہے کہ وہ عربوں کا حامی تھا۔ اسی کی سعی سے عرب ’’آزاد‘‘ ہوئے۔اس نظریے کو اصل تقویت لارنس کی آپ بیتی ’’Seven Pillars of Wisdom‘‘ سے ملی۔بتایا جاتا ہے ، اکتوبر 1918ء میں برطانوی شاہ جارج پنجم خدمات کے باعث کرنل لارنس کو ’’سر‘‘ کا خطاب دینا چاہا۔ مگر عربوں سے دھوکے بازی کرنے پر لارنس اپنی حکومت سے خوش نہیں تھا۔ اس نے سر کا خطاب لینے سے انکار کردیا۔ یہ واقعہ دلیل ہے کہ وہ دل سے عربوں کا خیر خواہ تھا۔

لیکن اسی کرنل لارنس نے دسمبر 1918ء میں صیہونی رہنما، ڈاکٹر حائیم ویزمان (پہلے اسرائیلی صدر) اور شہزادہ فیصل کی لندن میں ملاقات کرائی۔مدعا یہ تھا کہ مستقبل کے فلسطین میں صیہونیوں کے حقوق کو تحفظ دیا جاسکے۔

ڈاکٹر ویزمان نے شہزادے کو یقین دلایا ، فلسطین میں یہودی امن و امان سے رہیں گے ۔اور یہ کہ فلسطین میں مقیم ہونے والے چالیس پچاس لاکھ یہودی فلسطین عربوں سے کوئی تعرض نہیں کریں گے۔ اس پر شہزادہ فیصل نے صہیونی رہنما کو اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔

یاد رہے، اس وقت شہزادہ یہی سمجھے بیٹھا تھا کہ فلسطین کرنل لارنس کی تجویز کردہ ’’عرب خلافت‘‘ میں شامل ہوگا۔درج بالا واقعہ آشکارا کرتا ہے کہ کرنل لارنس عربوں کا دوست نہیں تھا، بلکہ بہ حیثیت جاسوس وہ اپنے ملک کے مفادات کو ہر ممکن تحفظ دیتا رہا۔نیز اس نے اپنی آپ بیتی میں خود کو تو ہیرو دکھایا،جبکہ عرب پس ماندہ،جھگڑالو اور اجڈ دکھائے گئے۔یہ امر لارنس کا تعصب عیاں کرتا ہے۔

کرنل لارنس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس نے کبھی رسمی جنگی تربیت نہیں پائی۔ تاہم اس نے کئی معرکوں میں عرب گوریلوں کی راہنمائی کی ۔موٹر سائیکل تیز چلانے کا شوقین تھا۔ یہی شوق مئی 1935ء میں اس کی جان لینے کا سبب بن گیا۔ وہ 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بائک بھگا رہا تھا کہ دو بچوں کو بچاتے بچاتے گرا اور شدید زخمی ہوکر چھ دن بعد چل بسا۔

بُک شیلف

$
0
0

قیامت کو ملیں گے
شاعر: م۔ حنیف
ناشر: بابر حنیف، جامعہ دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک
قیمت:150 روپے

’’۔۔۔ قیامت کو ملیں گے‘‘ اس صاحبِ مشق شاعر کا مجموعۂ کرب ہے۔ اس میں مرثیے ہیں، بین ہیں، غزل کے علاوہ آزاد، پابند اور نثری نظموں کا میڈیم بھی استعمال کیا گیا ہے، ’’دعا، جو قبول ہوگئی‘‘ کے عنوان سے ایک نثریہ بھی شامل ہے۔ اکثر نظمیں اور غزلیں اپنے جواں مرگ بیٹے فیصل کی یاد میں ہیں، بعض تخلیقات اپنے محبوب رشتہ داروں کی یاد میں بھی شامل ہیں۔ چھے نظمیں انگریزی میں اردو ترجمے کے ساتھ شامل ہیں۔

مجموعہ، تمام تر ذاتی تجربۂ اندوہ پر مبنی ہے اور اس میں کسی قسم کا تصنع یا ساختگی کی کھوٹ نہیں ہے، اسی لیے بہت سے مقامات پر قاری دل زدہ ہو جاتا ہے، متعدد جگہ پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور خاص طور پر وہ لوگ لامحالہ اس کی زد پر آتے ہیں، جو ایسے سانحات سے دوچار ہوئے ہوں گے۔ یوں بھی غم ایک آفاقی جذبہ ہے، اس کا سچا اور سادہ اظہار سبھی کو اپنا لگتا ہے۔ شاعر نے کسی مقام پر اپنی استادی کا مظاہرہ نہیں کیا، جیسا کہ ریاضت کی فراوانی بعض شعرا کو مجبور کرتی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے بیانیے کی تاثیر حد درجے بڑھی ہوئی ہے تاہم وہ محض سادہ نہیں ہیں ان کے ہاں پرکاری بھی وافر ہے۔

وہی کشادگی اور وسیع المشربی ہے، جو صوفیا کے ہاں فراوانی سے پائی جاتی ہے۔

اس مجموعے میں متعدد غزلیہ مرثیے غیر مردف ہیں، جو م حنیف صاحب کی مشاقی اور اظہار پر ان کی قدرت کی غمازی کرتے ہیں البتہ دو، تین مقامات ایسے ہیں، جہاں شاعر سے اپنے وفور میں بعض فروگذاشتیں بھی ہوگئی ہیں۔ حنیف صاحب نظرثانی کریں گے تو جہاں جہاں یہ موجود ہیں، وہاں وہاں ضرور ان کی نظر الجھے گی۔

خاکسترچنار
مصنف: خواجہ محمد بشیر بٹ
قیمت:200 روپے
ناشر:الحمد پبلی کیشنز

خواجہ محمد بشیر بٹ امورِ کشمیر کے محض ناظر و سائر نہیں بل کہ اس دشت میں ایک عمر گزار بیٹھے ہیں ۔ انہوں نے 1948 کے جہاد کشمیر میں عملی طور پر شرکت کرکے اپنی مجاہدانہ زندگی کا آغاز کیا۔ اس سے قبل وہ تحریک پاکستان میں بھی بہ طور طالب علم لیڈر اپنا حصہ ڈال چکے ہیں۔

خاکستر چنار دراصل ان کے 40 سے زیادہ ان مضامین کا مجموعہ ہے، جو ’’شیر کشمیر‘‘ شیخ محمد عبداللہ کی سوانح عمری ’’آتشِ چنار‘‘ کا جواب ہیں۔ خواجہ صاحب نے شیخ عبداللہ مرحوم کی فروگذاشتوں کو بڑے سلیقے سے آشکار کیا اور قرینے سے تنقید کا نشانہ بنایا۔ شیخ مرحوم کی سوانح عمری میں بہت سے ایسے حقائق ہیں جن پر بہ قول خواجہ صاحب انہوں نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور اپنے قاری کو گم راہ کیا۔

خواجہ صاحب نے ان حقائق پر سے پردہ بڑی خوب صورتی سے اٹھایا ہے۔خواجہ صاحب کہنہ مشق لکھاری ہیں۔ ان کا اسلوب تحریر نہایت سادہ اور دل نشیں ہے، قاری کسی بھی مقام پر بے زاری محسوس نہیں کرتا۔ کشمیر کے طالب علموں کی بک شیلف میں یہ کتاب ضرور ہونی چاہیے۔

نام کتاب: کالا اعتراف
مصنفہ : شازیہ باقر آغا
صفحات : 206
قیمت: 400 روپے
ناشر: وائٹل پبلی کیشنز، لاہور

’ ’ کالا اعتراف ‘‘ ایک اصلاحی ناولٹ ہے جس کا بنیادی موضوع محبت ہے ۔یہ ایک فطری جذبہ ہے جو دوانسانو ں میں پروان چڑھتا ہے ۔ شازیہ باقر آغا کا یہ ناولٹ دو دلوں کی ایسی کہانی ہے جس کاہیرو ایک بنیاد پرست مسلمان نوجوان ہے جب کہ ہیروئن ایک خوبصورت ، شوخ و چنچل مسیحی دو شیزہ ہے ۔وہ ایک دوسرے کی محبت میں اس طرح بندھے ہوتے ہیں کہ مذہبی حدودو قیود انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکتیں۔

’’کالااعتراف ‘ ‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ،بشریٰ رحمان کے بقول ’’ اﷲ کے ایک معصوم بندے کے اس اعتراف کا نام ہے جس میں اس کی نیت کا کوئی گناہ شامل نہیں تھا ‘‘۔ مصنفہ نے دو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کو قبول کرنے ، رواداری اور برداشت کے رویے کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے ۔فنی اعتبار سے شاید یہ ناول بہت اچھے معیار کا حامل قرارنہ پا سکے لیکن اس کے ذریعے جو پیغام دیا گیا ہے وہ بہرحال اہمیت کا حامل ہے۔

ہمارے ہاں مذہبی منافرت نے معاشرے کو جس انتشار اور بد امنی میں مبتلا کررکھا ہے وہ پورے سماج کو جہنم زار بنائے ہوئے ہے ۔ اسلام اور مسیحیت دونوں مذاہب کی الہامی کتب قرآن مجید اور انجیل مقدس کا ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی مضبوط تعلق ہے ۔

انجیل مقدس میں اگرچہ تحریف ہوچکی ہے اور آج وہ اپنی اصل حالت میں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس کا لافانی پیغام اور ابدی ہدایات وہی ہیں جو ہمیں قرآن مجید میں بھی ملتی ہے ۔جن پر عمل کر کے ہم ایک صالح اور فلاحی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں ۔زیر تبصرہ ناولٹ میں یہی جذبہ کارفرما دکھائی دیتا ہے ۔شازیہ باقرآغا کی یہ ایسی کوشش ہے جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

غزہ پہ کیا گزری؟
مصنف: میربابرمشتاق
قیمت:210روپے
ناشر…عثمان پبلی کیشنز ، 8-A بلاک13-B
ریلوے ہائوسنگ سکیم گلشن اقبال کراچی

’غزہ ‘ کے معنی ہیں’ ناقابل تسخیر‘۔ اگرچہ فلسطینی حریت پسند تحریک حماس کے زیراثر فلسطین کا یہ حصہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل کی صورت اختیارکرچکاہے لیکن ہے یہ ناقابل تسخیر۔ 12لاکھ آبادی کا یہ محبوس و محصورعلاقہ کئی مرتبہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے ملبے کا ڈھیر بن چکاہے لیکن آزادی اور حریت کا جذبہ کم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ تمام فلسطینی، چاہے وہ اسلام پسند ہوں یا سیکولر، آزادی سے کم کسی چیز پر سمجھوتہ کرنے کو تیارنہیں۔

زیرنظرکتاب غزہ اور غزہ والوں کی مکمل داستان ہے۔ اس میں ارض فلسطین کے تاریخی وسیاسی اور جغرافیائی حقائق، فلسطین کا محل وقوع، تاریخ، مسلمانوں کے ہاتھوں فلسطین کی فتح، صہیونیت کی ابتداء، حماس کی تاسیس، تعارف ، ارتقا، نصب العین، حماس کی اصلاحات اور پالیسیاں، حماس کی قوت کے بارے میں امریکہ کا اعتراف، حماس کی فتح،حماس کے بانی اورقائدین کا تعارف، غزہ پر کیا گزری، بیرونی دنیا کا ردعمل ، جیلوں میں قید غزہ کے ڈھائی ہزار بچوں کا احوال بھی بیان کیاگیاہے ۔

اسرائیل کے انجام سے متعلق کئی ابواب میں بحث کی گئی ہے۔اس میں اسرائیل بائیکاٹ مہم اور مغرب میں اسرائیل مخالف جذبات، اسرائیل کی پسپائی بھی شامل ہیں۔ کتاب ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔

دریچہء خیال
شاعر: محمود رضا محمود
قیمت: 275 روپے
صفحات:142

شاعری اظہار کا انتہائی خوبصورت وسیلہ ہے، محمود رضا محمود نے اپنے دل و دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے شاعری کو ذریعہ بنایا ہے ۔ گو یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے مگر ان کی فکر اور انداز بیاں میں پختگی کی جھلک نمایاں ہے ۔ جیسے کہتے ہیں

رسوائیوںکی لذتیں دوام کر گیا
کچھ اس طرح سے وہ مجھے بدنام کر گیا
ہر گام تہمتوں سے یوں مجھکو نواز کر
وہ میری پارسائی ہی نیلام کر گیا

کلام کی بے ساختگی اس کے حسن میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔ کتاب میں ایک حصہ پنجابی کا بھی شامل ہے جس میں نظمیں اور قطعات شامل کئے گئے ہیں۔ خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ مجلد کتاب کو شکیل پرنٹرز نے شائع کیا ہے ۔

نہ پنجرہ نہ آہلنا
مصنف: سہیل فدا
پنجابی ترجمہ: ریاض احمد
ناشر: پیرا مائونٹ بکس پرائیویٹ لمیٹڈ
پی ای سی ایچ ایس، کراچی۔ فون:34310030
قیمت:395 روپے

یہ 2002ء کی بات ہے جب منگورہ، سوات کے سترہ سالہ نوجوان، سہیل فدا کو ضلعی قاضی نے سزائے موت دی۔ سہیل پر الزام تھا کہ اس نے اپنے دوست کو قتل کیا ہے۔ مگر سہیل کا کہنا تھا کہ یہ جھوٹ ہے۔ لہٰذا اس نے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرلیا۔جب کسی بے گناہ کو سزائے موت ہو، تو غم و غصے کے مارے اس کے اعصاب شل ہوجاتے ہیں۔ ایسی دل گرفتہ حالت میں وہ کوئی کام نہیں کرپاتا۔ مگر سہیل فدا نے نوخیز پن اور ناتجربے کاری کے باوجود اپنی ہمت و حوصلہ برقرار رکھا اور زندگی سے ناتا نہیں توڑا۔سہیل فدا نے والدین کے ساتھ مل کر قانونی جنگ لڑی۔ ساتھ ساتھ وہ جیل میں تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ انہوں نے بی اے کیا اور پھر دو ایم اے بھی کرلیے۔ 2007ء میں وفاقی شرعی عدالت نے ان کی سزا عمر قید میں بدل دی۔ سہیل فدا پھر رہائی کی کوششیں کرنے لگے اور آخر 2012ء میں انہیںآزادی کی نعمت دوبارہ نصیب ہوگئی۔

سوات کے اس نوجوان کو دوران اسیری جو تلخ و شیریں واقعات پیش آئے، وہ انہوں نے اپنی آپ بیتی میں تحریر کیے۔ یہ آپ بیتی پہلے اردو اور پھر انگریزی میں شائع ہوئی۔ اب زیر تبصرہ کتاب اس کا پنجابی ترجمہ ہے ،جو ریاض احمد کے قلم سے ہے، جواس سے قبل اس کتاب کااردوترجمہ بھی کرچکے ہیں۔دونوںزبانوں میں ان کے ترجمے شستہ اوررواں زبان میں ہیں۔ یہ آپ بیتی عیاں کرتی ہے کہ جیل میں انسانوں کو کس قسم کے تکلیف دہ اور کٹھن حالات سے واسطہ پڑتا ہے اور یہ کہ قیدیوں کی حالت زار کوکس طرح سنوارنا ممکن ہے۔ آپ بیتیاں پڑھنے کے شوقین قارئین اس کتاب کو مرعوب و دل پسند پائیں گے۔

کتاب کی طباعت عمدہ اور معیاری ہے۔ معنوی وظاہری لحاظ سے اس خوبصورت کتاب کو اپنے کتب خانے کی زینت بنائیے۔

سکوت ذات
شاعر: میر زا امجد رازی
ناشر : شمع بکس ، فیصل آباد
قیمت: 350/ روپے
صفحات:136

میرزا امجد رازی مشرقی علوم کے شناور اور ایک عالم ، فاضل ، زبان وبیان پر عبور اور شعروسخن اور علم عروض پر مکمل دسترس رکھنے والی ایسی شخصیت ہیں کہ قدرت نے جنہیں غیر معمولی ذوق اور جذبہ عشق کے ساتھ حددرجہ فصاحت و بلاغت سے نوازا ہے ۔

’’سکوت ِ ذات‘‘ میرزا امجد رازی کی خوبصورت اور وجد آفریں شاعری سے مزین وہ مجموعہ ہے جسے پڑھ کر قاری عجیب سی سرشاری محسوس کرتا ہے ۔ان کی شاعری مکیں کلاسیکی رچاو کے ساتھ ساتھ جدیدیت کا حسن بھی جلوہ گر دکھائی دیتا ہے ۔علامہ ضیاء حسین ضیاء کہتے ہیں ’’ رازی کے ہاں تجربات نے اس کے شعروں میں ایک صرفی تفکر پیدا کردیا ہے ، جو مختلف مراحل اور ذائقوں میں اپنی ایک الگ انفرادی شان کو منواتا ہے ‘‘۔

ڈاکٹر سعید احمد کے الفاظ میں ’’ رازی کے اسلوب میں کلاسیکی طہارت اور جدید لہجے کا خوبصورت امتزاج نظرآتا ہے ‘‘۔کتاب صوری اور معنوی ہر دو اعتبار سے خوبصورت اور جاذب نظر ہے جس کا جتنی مرتبہ بھی مطالعہ کیا جائے ہر بارقاری ایک نیے جہان معنی سے آشنا ہوتا ہے ۔

فہم قرآن… سرخ اور نیلے رنگوں کی روشنی میں

ہم قرآن مجید سے اپنا تعلق جوڑ لیں تو پوری ملت کی ہستی ایک نئی زندگی اور نئی توانائی سے مالامال ہوسکتی ہے۔ ہمارے اجڑے ہوئے گلستانوں میں بہارتازہ آسکتی ہے۔

دور مصیبت اور زمانہ معصیت سے بچ نکلنے کا واحد ذریعہ قرآن سے دلوں کا رشتہ بحال کرناہے۔ قرآن سے وابستگی کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ اور اپنے رسول خاتم النّبیین حضرت محمد ﷺ سے محبت واطاعت کے مقدس رابطے بحال کرلئے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں ایک عذر پیش کیاجاتاہے کہ قرآن عربی میں ہے اور ہم عربی نہیں جانتے، لیکن یہ عذر ہمیں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے نہیں بچاسکتا۔کیونکہ ہم دنیوی مفادات کی خاطر دنیا کی مشکل ترین اجنبی زبانیں، ہرقسم کے علوم وفنون، صنعتیں اور حرفتیں سیکھ کر ان میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا کلام سمجھنے میں کوئی عذر کیوں؟

یقینا اجنبی زبان سمجھنا آسان نہیں، لیکن قرآنی عربی سمجھنا کچھ زیادہ مشکل بھی نہیں۔ قرآن مجید کے بہت سے الفاظ اردو دان طبقہ روزمرہ سنتا، سمجھتارہتاہے۔ اگرکچھ مشکل تھی تو وہ ان لوگوں نے آسان کردی ہے جو سائنٹفک اندازمیں قرآن کا فہم دینے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایسے ہی لوگوں میں مرحوم سیدشبیر احمد تھے جنھوں نے قرآن مجید کے معانی سمجھانے کا ایک انتہائی کامیاب طریقہ تعلیم متعارف کرایا۔ انھوں نے تعلیمی نفسیات کے اصولوں کی روشنی میں پہلی بار قرآنی الفاظ کے معانی کی نشاندہی کے لئے دو رنگوں(سرخ اور نیلا( سے کام لیا۔ یعنی قرآن مجید کی آیت اور ترجمہ آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ جس رنگ میں قرآنی لفظ ہوتاہے، اسی رنگ میں اس لفظ کا ترجمہ ہوتاہے۔ اس ترجمہ کی مزید خوبی یہ ہے کہ یہ مزید سلیس، عام فہم اور رواں ہے۔

سیدشبیراحمد کی قائم کردہ ’’قرآن آسان تحریک‘‘ نے قرآن مجید کے تراجم مختلف سائز میں شائع کئے ہیں۔ کامل، دوجلدوںمیں، تین جلدوں میں، سٹینڈرڈ سائز،حمائل سائز، پاکٹ سائز، جہیزایڈیشن، اور تیس پاروں کی صورت میں الگ الگ بھی۔ تیرہ مختلف سورتیں ایک جلد میں، نماز، حرزاعظم، قرآنی ومسنون دعائوں سمیت احادیث اور فہم اسلام سے متعلق دیگرمتعدد اردو اور انگلش کتب بھی اسی اندازمیں شائع ہوچکی ہیں۔ طباعت سے لے کر پیشکش تک بہترین معیار کو ملحوظ خاطر رکھاگیاہے۔ملنے کا پتہ: قرآن آسان تحریک، 50، لوئرمال نزد MAOکالج لاہور۔

دوا، غذا اور شفا
مصنف:ڈاکٹرآصف محمود جاہ
قیمت:130روپے
ناشر:نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جہاں انسانی صحت شدیدبحرانوں سے دوچارہے۔ ہرپاکستانی بیک وقت کئی بیماریوں کے ہتھے چڑھا ہواہے۔

ایسے میں یہاں صحت کی سہولتیں پورے اخلاص کے ساتھ عام کرنے کی ضرورت تھی دنیا کی تمام حکومتیں اپنی اقوام کو دنیا کی سب سے صحت مند اقوام بناناچاہتی ہیںلیکن افسوس ناک امریہ ہے کہ ہمارے یہاں بیماریاں اور بیماریاں پھیلانے والے آزاد ہیں لیکن علاج معالجہ انتہائی مشکل۔ معالجین کی عظیم اکثریت مریضوں سے اس بات کا انتقام لیتی ہے کہ ان معالجین نے مہنگی فیس دے کر تعلیم حاصل کی تھی، اور اب انھیں اپنا مستقبل سنوارنا ہے۔ یہاں کی حکومتیں بھی اس لوٹ مار میں برابر کی شریک ہیں۔

اگریہ کہاجائے کہ پاکستان کے طبی مراکز مقتل بن چکے ہیں، تو غلط نہ ہوگا۔ اس تناظر میں اگر کسی معاشرے میں کچھ لوگ نہایت اخلاص کے ساتھ شعورِ صحت پھیلانے اور مریضوں کی بیماریوں سے جان چھڑانے میں کوشاں ہوں ، تو وہی اس معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ بھی ایسے لوگوں میں شامل ہیں۔

وہ جتنے اچھے انسان ہیں، اتنے ہی اچھے معالج ہیں اور اتنے ہی اچھے مصنف۔ پڑھنے والے اس کا اندازہ زیرنظرکتاب سے بھی کرلیں جس میں70سے زائد بیماریوں کے بارے انتہائی آسان اندازلیکن تمام ضروری تفصیل کے ساتھ رہنمائی کی گئی ہے۔ ہربیماری کے باب میں پہلے مفید ایلوپیتھک ادویات تحریرکی گئی ہیں، ساتھ ہی ان کے مضراثرات سے خبردار بھی کیاگیاہے، دوا کی نوعیت اور ضرورت کی اہمیت، بیماری کے اسباب، احتیاطی تدابیر بھی درج کی گئی ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ اس کے آسان اور متبادل علاج بھی تحریر کئے گئے ہیں۔ ڈاکٹرصاحب نے کتاب میں دوائوں کے مضراثرات، ان سے نمٹنے کی تدابیر، درد دور کرنے والی دوائوں پر الگ سے باب باندھے ہیں۔آخر میں شہد، صدقہ اور دعا کے انسانی صحت پر اثرات بھی تفصیل سے بیان کئے ہیں، قدرتی علاج کے 100 نسخے بھی شامل ہیں۔ یہ کتاب ہرگھر کی نہیں ہرفرد کی ضرورت ہے۔

عالمی طاقتوں کے مابین یوریشیائی کھچڑی

$
0
0

عالمی سطح پر کیا کھچڑی پک رہی ہے، یورپ کس چکر میں ہے، امریکا کے کیا عزائم ہیں، جرمنی کیا چاہتا ہے اور ایران کی خواہش کیا ہے؟ ان سب کا آپس میں کیا رشتہ ناتا ہے، اس کا ایک مختصر جائزہ یقیناً قارئین کے لیے دل چسپ رہے گا۔

یوروزون کے اندر سارے ممالک خوش حال نہیں۔ یونان، اٹلی، سپین وغیرہ جیسے، ایسے عناصر بھی اس میں شامل ہیں جو لاٹھی لے کر چل رہے ہیں اور ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس کے باعث ان کی صحت مسلسل گر رہی ہے۔ یہ بیماری ایڈز کی طرح متعدی ہے اور خدشہ ہے کہ دوسرے ممالک بھی اس سے متاثر ہوں گے۔ جرمنی کی تجوری اس وقت یورپ میں سب سے بڑی ہے لہٰذا وہی ان ملکوں کو طاقت کے ٹیکے لگا رہا ہے، ایک تو واقعی اس لیے کہ یہ ممالک صحت مند ہو جائیں اور خاص طور پر اس لیے کہ ان کی صحت سے جرمنی کی اپنی صحت بھی وابستہ ہے۔

یورو زون میں یونان کا وجود ایک بوجھ بنتا چلا جا رہا ہے اور اس کی حیثیت یورپ کے دوسرے ملکوں کے لیے اس چھپکلی کی سی ہے جو سانپ کے گلے میں اٹکی ہوئی ہے کہ نگلے بنتی ہے نہ اگلے۔ جرمنی اس وقت یورپ کی سب سے طاقت ور معیشت ہے اور یہ طاقت ور معیشت اپنی بنا رکھتی ہے اپنی برآمدات پر۔

اس کی کل قومی آمدنی کا نصف اس کی برآمدات سے حاصل ہوتا ہے، اگر برآمدات کا یہ سلسلہ رک جائے یا اس میں کوئی ایسا رخنہ پڑ جائے جس سے اس کا تسلسل مجروح ہو جائے تو جرمنی دھڑام سے نیچے آ کر ٹائیں ٹائیں فش ہو جائے اور خود بھی یونان جیسی معیشتوں کی صف میں کھڑا دریوزہ گری کرتا نظر آئے۔ اپنے کو اس حشر سے بچانے کی خاطر یورپ کی گرتی ہوئی معیشتوں کو سنبھالا دینے کے لیے اسے ان ملکوں کو قرضے دینا پڑتے ہیں۔

یہ قرضے دینے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ ان کا بہتر استعمال کرکے وہ اپنی معیشتوں کو بہ حال کریں اور دوسرا یہ کہ ان قرضوں کا ایک بڑا حصہ وہ جرمن ساختہ مال کی خریداری پر صرف کریں۔ یہ ہو بہ ہو ہم خرما وہم ثواب والا معاملہ ہے۔ اس طرح ایک تو ان ممالک پر جرمنی کے احسانات کا بار پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ ان کے معاشی و سیاسی معقولات میں کسی حد تک دخیل ہو جاتا ہے اور دوسرے وہ یورپ کے ایک بہت بڑے خطے کا ان داتا ہونے کا مقام حاصل کرتا ہے۔

یہ گر دیکھنے میں تو بڑا دل فریب اور متاثر کن ہے لیکن اس کے ساتھ بہت سے اندیشے اور خدشے بھی موجود ہیں، مثال کے طورپر یونانی ان قرضوں کے ذریعے جرمن مال تو اٹھا رہے ہیں لیکن اگر وہ اپنی معیشت کو مطلوبہ معیار پر نہ لا سکے تو جرمنی اپنی امدادیں اور قرضے کیسے وصولے گا۔

قرضوں کو ایک حد تک ہی معاف یا ری شیڈیول کیا جا سکتا ہے۔ جرمنوں نے یونانیوں کے بارے میں ایک قول تخلیق کیا ہے جس کا ذکر پہلے بھی ان صفحات پر کیا جا چکاہے کہ ’’یونانی صبح اٹھتے ہی پینا شروع کر دیتے اور ہم جرمن (کام سے فارغ ہو کر) شام کو پیتے ہیں۔‘‘

مفہوم یہ کہ یونانی سہولت پسند اور عیش کوش لوگ ہیں۔ کل کی فکر نہیں کرتے۔ کل کی فکر کرنا آپ مانیے انسانیت کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی لعنت ہے۔ یہ ہی فکر ہے جو انسان کو زیادہ سے زیادہ اینٹھ لینے پر مجبور کرتی ہے کیوں کہ اس نظام میں حکومتیں، شہریوں کی ذمہ داری اٹھانے سے گریز کرتی ہیں۔

روس بہ طور سوویت یونین بھلے جیسا بھی تھا، شہریوں کو روزگار، خوراک، رہائش اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کاپابند تھا، اسی لیے آج جب روسی کارکن قہر کی سرد راتیںفٹ پاتھوں پر بتاتا اور نان شبینہ کو ترستا ہے، تو اسے اپنا سوویت عہد بڑی شدت سے یاد آتا ہے بل کہ اب تو یورپ اور امریکا کا مزدور بھی ان مراعات سے محروم کر دیا گیا ہے جو اسے سوویت یونین کے خوف سے بڑی فیاضی کے ساتھ دی جارہی تھیں۔

جرمنی اس وقت یورپ کا قرضے فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ ظاہر ہے وہ ٹیکسال میں کرنسی چھاپ چھاپ کر دولت مند نہیں ہوا۔ اس کی دولت کا مدار اپنی برآمدات اور شہریوں کے ٹیکسوں پر ہے۔

وہ اپنی اسی آمدن میں سے قرضے فراہم کرتا ہے۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل انتہائی دور اندیش سربراہ ہیں، خوب جانتی ہیں کہ ان کی چادر کی پیمائش کیا ہے اور اس کے اندر کہاں تک ٹانگیں پساری جا سکتی ہیں لیکن جرمنوں کو اپنی شفیق صورت سربراہ کا اپنی ممتا کو بے فیضوں پر یوں نچھاور کرنا کھلتا ہے اور محترمہ مرکل کی اپوزیشن تو ظاہر ہے ناک بھوں چڑھائے رکھتی ہے کہ بڑی بی کہیں جرمنی کی لٹیا ہی نہ ڈبو بیٹھے۔

ابھی کچھ عرصے پہلے یونان کے رویے سے کچھ لیت و لعل کے آثار نمودار ہوئے تھے لیکن جرمنی نے برسلز میں اس معاملے پر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ فرانس، پرتگال، اسپین اور یورو زون کے وزرا خزانہ نے بھی اس کا ساتھ دیا کہ جرمنی ان کا بھی مربی ہے یا مستقبل میں ہو سکتا ہے۔

سو یونانی بلی کھل کر اپنے سائیں کو میاؤں نہ کر پائی۔ یونان نے جب پہلی بار بیل آؤٹ پایا تو تبھی اس نے وعدہ کر لیا تھا کہ اب وہ ’’اچھا بچہ‘‘ بن کر دکھائے گا، بے جا اصراف سے گریز کرے گا اور کفایت کا راستہ اپنائے گا، سادہ زندگی (Austerity) گزارنے کی کوشش کرے گا لیکن پوتڑوں (تاریخ) کے بگڑے ہوئے جلدی جلدی سنورتے تھوڑی ہیں ، صدیوں کی عادتیں ہیں، جاتے جاتے جائیں گی لہٰذا ابھی تک تو اس کے لچھن ویسے کے ویسے ہیں اور جلدی والی کوئی بات بھی نہیں لہٰذا ماہرین کو یقین سا ہے کہ تین چار ماہ بعد ایتھنز اور برلن ایک بار پھر ایک دوسرے کو ٹکریں مارتے دکھائی دیں گے کیوںکہ ’’ایتھنز بوائے‘‘ سدھرنے کا نہیں اور بڑی بی چھوڑیں گی نہیں، یوں یورو زون سارے کا سارا تماشا بھی بنے گا اور تماشائی بھی، جوتیوں میں دال بٹنے کا اہتمام ہونے کو ہے۔

بڑی بی (انجیلا مرکل) اِدھر یورو زون کا توازن برقرار رکھنے میں الجھی ہوئی ہیں اور ادھرجرمنی کامشرقی محاذ ایک اور طرح سے بھڑکا ہوا ہے۔ روس نے یوکرائن سے سینگ پھنسا رکھے ہیں، یوں کہ وہ یوکرائن کے علیحدگی پسندوں کا گرو بنا ہوا ہے۔ یہ معاملہ بھی کچھ ایسا نہیں کہ یورپ، یورو زون اور خاص طور پر جرمنی اس سے صرف نظر کرے۔ حالات کو اپنے معمول کی طرف لوٹانے کی کوششیں تو خیر دور کی بات ہے فی الحال تو اتنا ہی بہت ہے کہ فریقین کے درمیان متارکۂ جنگ کرا دیا جائے۔

جرمنی کی خاتونِ بزرگ نے خود پر نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور یہاں سے وہاں، وہاں سے یہاں مسلسل دوڑی پھرتی ہیں کہ کسی طرح فساد کی شدت کو کم کیا جا سکے۔ وہ بیلاروس کے دارالحکومت منسک (Minsk) میں فریقین کو جنگ کے امتناعی معاہدے پر رضا مند کر چکی ہیں۔ اس کارِ خیر میں بھی جرمنی کی اقتصادی برتری کام آئی ہے۔

بات بن تو گئی لیکن گڑبڑ یہ ہوئی کہ انہوں نے روس کی پشتی بانی میں لڑتے علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کو تسلیم کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ یوکرائن کے صدر پیترو یوروشنکو کسی طور میز پر بیٹھنے کو آمادہ نہ تھے لیکن بڑی بی انجیلا مرکل نے انہیں میدان جنگ کی حقیقت کو محسوس کرایا اور راضی کیا کہ فی الحال سامنے کی صداقت کو مان لو اور چندے دم سادھو۔ اس کوشش کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ روس اور امریکا کے درمیان کشیدگی کی بڑھتی ہوئی فضا کو معمول پر لایا جائے لیکن لگتا ہے یہ بھی ایک خواب عبث ہی نکلے گا کیوں کہ یہ دونوں عفریت (امریکا، روس) کسی طور ایک دوسرے کی حیثیت تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں، آخر کو رقابت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

روس کی بات کی جائے تو مغرب میں اس کا رقیب قریب قریب اس کے پہلو میں بیٹھا خنجر کی نوک چبھو رہا ہے۔ وہ بار بار ماسکو کو خبردار کر  چکا ہے کہ یوکرائن کا پنڈ چھوڑو، نہیں تو میں اسے زہر سے بھر دوں گا، مال و اسباب بھی فراہم کروں گا، تربیت بھی دوں گا اور امریکی ساخت کے بوٹوں والے بھی بھیجوں گا۔ اُدھر صدر پیوٹن ماسکو میں بیٹھ کر نقشہ سامنے بچھائے بیٹھے ہیں کہ کس کس جانب سے روسی سرحدوں کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

ان کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے کہ یوکرائن سے پیچھے ہٹتے ہیں تو واشنگٹن پڑوسیوں کے ہاں بیٹھ کر ان کا جینا حرام کر دے گا۔ پیوٹن خیال کرتے ہیں اور غالباً درست بھی، کہ امریکا اپنے ظرف سے باہر ہوا جاتا ہے، نیٹو کی سرحدوں کے پار پھیلنے کے چکر میں ہے اور دھیرے دھیرے روس کے اردگرد اپنے حمایتیوں کا مجمع لگا رہا ہے۔ اب عالمی سطح کے تجزیہ نگاروں کا قیاس یہ ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران میں وہ اپنی فوج کے لیے ترجیحات کا نیا ایجنڈا تیار کرلیں گے اور یوکریمیا کو ایک ارضی پل کے ذریعے خود سے جوڑ لیں گے۔ ملک گیری یوں تو شاہان روسیہ کا پرانا مشغلہ ہے تاہم اس بار اسے کچھ اور طرح کے حالات کا سامنا ہے، اس بار اس نے آنکھ جھپکی تو مال یاروں کا۔

امریکا بہادر کی تمام تر ریشہ دوانیاں اس کے اندر کے خوف کی مظہر ہیں۔ وہ یوکرائن وغیرہ کے سلسلے میں کسی بھی طرح کی فروگذاشت کی عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور ساتھ وہ یوریشیا کے اسٹیج پر کھیلے جانے والی تمثیل سے بھی غافل نہیں رہ سکتا۔ علاوہ ازیں یورپ میں اگر اس کا ناطقہ بند ہونے کے اندیشے ہیں تو مشرقِ وسطیٰ کی کھیر بھی خاصی ٹیڑھی ہے۔ مشرق وسطیٰ تک پہنچنے والی تنگ نائے کی فراخی کے لیے وہ ایران پر اس وقت توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے ایرانی ہم منصب جاوید ظریف فروری کے آخری ہفتے میں جنیوا میں ایک دوسرے سے ملے تاکہ 31 مارچ سے پہلے پہلے ایران کے ایٹمی قضیے پر مطلوبہ پیش رفت ہو سکے۔

31 مارچ اس لیے، کہ امریکی کانگریس نے صدر اوباما کو زچ کر رکھا ہے، اس تاریخ کو وہ کانگریس کوباور کرانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے ایران کے معاملے پر خاصی کام یابی حاصل کر لی ہے۔ ممکن ہے کانگریس ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں لگانے سے باز آ جائے۔ اگر اوباما تہران پر سے پابندیاں ہٹوانے میں کام یاب ہو جاتے ہیں تو اس سے ایک تو وہ روس کے خلاف یورپ میں اپنی فوج تعینات کرنے کے قابل ہو جائے گا اور اس کے کاندھوں پر سے مشرق وسطیٰ کا بوجھ بھی اترنے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔

یہ بوجھ وہ دوسری علاقائی طاقتوں کو منتقل کر دے گا۔ ایران اور امریکا اس امرپر ایک دوسرے کی پہلے سے بہتر تفہیم کر رہے ہیں کہ ایران کتنا یورانیم جمع کر سکتا ہے اور کتنا اسے افزودہ کرنے کی اجازت دی جائے اور یہ کہ ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کے لیے اسے اس پر عاید پابندیوں میں اسے کتنی نرمی دی جائے۔

اس سے ایرانی اثر و رسوخ کے خط و خال اور اس کا محیط بھی طے ہو جائے گا اور یہ بھی طے کرنے میں آسانی ہو جائے گی کہ دونوں اپنے مفادات کے حصول کے لیے کن کن شعبوں میں تعاون کر سکتے ہیں۔ شام اور عراق میں رونما ہونے والی صورت حال نے دونوں ملکوں کو یوں بھی ایک دوسرے کے قریب آنے کی راہ سجھا دی ہے۔

دونوں کو مل کر داعش وغیرہ کو روکنے میں عافیت کا احساس ہو گیا ہے۔ اس وقت دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف خاردار بیانات کا سلسلہ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کے لیے یہ کام ایسا کچھ سہل بھی نہیں ہے، اسے اسرائیل جیسے ملک سے نمٹنا درپیش ہے جو ایک انتہائی ’’بگڑا ہوا بچہ‘‘ ہے۔

امریکا کی طرف سے خطے میں حزب اللہ کے کردار کے لیے تعریفی جملے آ رہے ہیں اور ادھر اسرائیل تلملا رہا ہے کیوں کہ اسی ایرانی حمایت یافتہ تنظیم نے اسے خطے میں ’’نتھنیا‘‘ ڈال رکھی ہے۔ ہر چند امریکی فی الحال حزب اللہ کے حق میں کھلے بیانات دینے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں لیکن تنظیم کو وہ لبنانی رہ نماؤں کے ساتھ حالیہ ملاقاتوں میں نجی طور پر خراج تحسین پیش کر چکے ہیں۔

اب سطحی طور پر یہ معمولی بات لگتی ہے لیکن ایران ایسے موقع کی تاک میں ہے جب وہ حزب اللہ کو امریکا سے تسلیم کروا سکے تاہم یہ سارے سلسلے خاصے وقت طلب بھی اور دقت طلب بھی۔ نتائج کی واضح صورت کہیں اگلے برس جا کر دکھائی دے پائے گی۔ ایک بات بہرحال واضح کرنا ضروری ہے کہ جب یہ کہا جائے کہ مغرب، مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے دائرۂ اثر کا اندازہ بھی لگائے گا تو اس سے تو وہ پہلے سے آگاہ ہے لہٰذا اس معاملے سے نمٹنے کے لیے وہ سعودی عرب، ترکی وغیرہ کے مہرے آگے بڑھائے گا۔ وہ ان ملکوں کے درمیان پرانی رقابتوں کو تازہ رکھنے کی کوشش کرے گا تاکہ ان کے درمیان قوت کا پلڑا کسی طرف جھکنے نہ پائے۔

۔۔۔۔۔ سو برآمد یہ ہوا اس پے چیدہ صورتِ حال کو سامنے لانے سے کہ جرمنی یورو زون کے بحران کے حل کے لیے روسی بیل کو رام کرنے میں کوشاں ہے، روس، واشنگٹن کی یورپ میں تجاوزات محدود کرنے کی فکر میں ہے اور امریکا اس چکر میں ہے کہ اتھرے ایران کو قابو میں لائے تاکہ تمام تر توجہ روس کا ناطقہ بند کرنے پر صرف کیا جائے۔

ممکن ہے جرمنی اور روس کے درمیان میں کچھ بہتر پیش رفت ہو جائے، اسی طرح ایران اور واشنگٹن کے مابین بھی کچھ مثبت ہو جائے مگر ماسکو اور واشنگٹن…… ؟؟؟

کیا اب عام آدمی کے خواب پورے ہوں گے؟

$
0
0

عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروندکیجری وال سمیت پارٹی کے ہرکارکن کو چیونٹی کی وہ کہانی پوری تفصیل سے ازبر ہے ۔

جس میں ننھی چیونٹی جب دانہ لے کر چلتی ہے، دیواروں پر چڑھتی ہے، سوبارپھسلتی ہے لیکن اس کے اندر کا یقین کم ہونے کے بجائے بڑھتاہے، چڑھ کر گرنے اور گرکر چڑھنے کا عمل جاری رہتاہے، اس کی کوشش بے کار نہیں ہوتی کیونکہ کوشش کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی۔ کیجری وال اور ان کے ساتھی ایک دوسرے کو یہ کہانی بارباریاد دلاتے رہے حتی کہ وہ گزشتہ ماہ دہلی کی 70رکنی ریاستی اسمبلی میں67سیٹیں لے کر جاپہنچے۔

سب جانتے ہیں کہ اس سے پیشتر انتخابات ہوئے تو عام آدمی پارٹی کو اکثریت حاصل نہ تھی، اسے70میں سے محض 28نشستیں ملیں، تاہم اس نے کانگریس سے مل کر حکومت قائم کر لی۔ جب کیجری وال نے اپنے منشورپر عمل درآمد میں مشکلات محسوس کیں تو وہ حکومت چھوڑ کر اسمبلی سے باہرآگئے۔

دہلی کے عوام کو جہاں ان کا حکومت چھوڑنا پسند نہ آیا وہاں انھیں کیجری وال کی مجبوریوں کا بھی احساس تھا۔ چنانچہ انھوں نے اس بار اسمبلی کی قریباً ساری سیٹیں کیجری وال کی جھولی میں ڈال دیں۔ 2013ء کے انتخابات میں 28نشستیں ملیں، ووٹوں کا حساب کتاب کیاجائے تو اسے23لاکھ 22ہزار 330ووٹ ملے تھے یعنی مجموعی ووٹوں کا29.49فیصد۔سن2015ء کے انتخابات میں70سیٹیں ملیں،48لاکھ 79ہزار127ووٹ ملے۔ اب کی بار ووٹوں کی شرح تھی54.3فیصد۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے لیے یہ انتخاب بڑے دھچکے کی صورت میں سامنے آیا جن کی جماعت نے گذشتہ سال انتخاب یہ نعرہ لگا کر بھاری اکثریت سے جیتا کہ وہی محب وطن ہیں، وہی قوم پرست ہیں اور وہ تو پیدائشی ہندوبھی ہیں۔اس لئے وہی بھارت کا دیا روشن کریں گے۔ تاہم دہلی انتخابات میں ان کی جماعت کو صرف تین نشستیں ملیں۔

کانگریس جو دہلی میں سب سے بڑی سیاسی جماعت رہی ہے کا ان انتخابات میں صفایا ہوا۔ اروِند کیجری وال نے اپنے ملک کے وزیراعظم کو بھی اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی مگر مودی نے اْن کی دعوت ٹھکرا دی۔ شاید وہ جس طرح اپنے علاوہ کسی کو محب وطن نہیں مانتے، اسی طرح اس علاقے کو اپنا علاقہ ماننے سے بھی انکار کردیتے ہیں جہاں انھیں مخالف بری طرح پٹخ دے۔

کیجری وال نے اس بار اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو فوراً ہر دہلی والے مخاطب ہوئے کہ

’’ہم نے آپ سے کہاتھا کہ حکومت بنتے ہی گھروں میں مفت پانی پہنچائیں گے، ہم نے اپنا وعدہ پورا کردیاہے،یکم مارچ سے آپ کے گھر تک 20ہزار لٹر پانی مفت آئے گا۔ ہم نے آپ سے کہاتھا کہ حکومت بنتے ہی بجلی کے دام آدھے کریں گے، ہم نے وہ وعدہ بھی پورا کیا، یکم مارچ سے آپ کے بجلی کے بل 400یونٹوں تک آدھے ہوں گے۔

ذرا سوچئیے کہ یہ سب کس نے کیا، یہ میں نے نہیں کیا،یہ آپ سب نے کیا۔ آپ نے اعتمادکیا،آج 67عام آدمی دلی کی ریاستی اسمبلی میں آپ کی آواز سن رہے ہیں۔دلی کو ایک بہترشہربنانے کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرناپڑے گا۔ میں آپ سے وقتاًفوقتاً بات کرتارہوں گا۔ ہم سب مل کر دلی کو خوشحال بنائیں گے‘‘۔

دہلی کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’مجھے علم ہے کہ دہلی والے مجھ سے محبت کرتے ہیں مگر یہ نہیں معلوم کہ اتنی محبت کیوں کرتے ہیں۔‘ انھوں نے عہد کیا ہے کہ وہ دہلی سے ’وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کریں گے جس کے نتیجے میں سیاستدانوں کو عام لوگوں پر ترجیح دی جاتی ہے،انہیں اجازت دی جاتی ہے کہ وہ شہر کی بھیڑ اور ٹریفک میں سے بچ کر نکل جائیں۔ ’ترقی یافتہ ممالک میں اراکینِ پارلیمان بھی بس کے اڈے پر انتظار کرتے ہیں تو ایسا یہاں کیوں نہیں ہو سکتا؟

انہوں نے عہد کیا کہ وہ اگلے پانچ سال میں ’دہلی کو بھارت کی پہلی بدعنوانی سے پاک ریاست بنائیں گے۔‘انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی رشوت مانگے تو انکار مت کریں بس موبائل جیب سے نکال کر ریکارڈ کر لیں۔ اس کے بعد یہ آکر مجھے دے جائیں ہم خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کریں گے۔‘

کیجری وال بھارت کے روایتی سیاست دانوں کے لئے بہت خطرناک ثابت ہورہے ہیں، اس عام آدمی کی موجودگی میں روایتی سیاست دانوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جائے گی کیونکہ عام لوگوں کا پرانے سیاست دانوں کے ساتھ چلنا ممکن نہیں ہوتا، عام آدمی پارٹی کے سیاست دانوں کے ساتھ ان کا سفر اس لئے بھی آسان ہوتاہے کہ کیجری وال وی آئی پی کلچر کو کسی بھی سطح پر قبول نہیں کرتے۔

مثلاً بھارت کی تاریخ میں انوکھی مثال قائم ہوئی کہ کیجری وال نے دونوں مرتبہ وزیر اعلیٰ کا حلف عام لوگوں کے درمیان ہی اٹھایا۔ وہ انتخابی نتائج آنے کے فوراً بعد بار بار دہلی کے عام لوگوں سے اپیل کرتے رہے کہ وہ تقریب حلف برداری میں ضرور شریک ہوں۔ان عام لوگوں کو یاد ہوگا کہ چند ماہ پہلے بھارتی عوام سے بے شمار وعدے کرنے والے نریندرمودی نے روایتی سیاست دانوں کی طرح ایک مخصوص طبقہ کے منتخب لوگوں کے درمیان ہی حلف اٹھایاتھا۔

کیجری وال نے جس روز وزیراعلیٰ کا حلف اٹھایا، اگلی صبح وہ معمول کے مطابق اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر اسی راستے پر صبح کی سیر کرتے دکھائی دئیے جہاں روز نظرآتے تھے۔ ان کے ساتھ کوئی باڈی گارڈ نہ تھا، راستے میں حسب سابق ہر کسی کے ساتھ ہنستے مسکراتے، ہاتھ ملاتے، آگے بڑھتے رہے۔

روایتی سیاست دان اب ایسا طرززندگی اختیار نہیں کرسکتے، اس لئے وہ کیجری وال سے مقابلہ مشکل محسوس کرتے ہیں۔ پرانے سیاست دان گاڑیوں اور محافظوں کے لمبے چوڑے قافلے کے عادی ہوچکے ہیں، وہ وی آئی پی کلچر سے باہر آنہیں سکتے، کیجری وال اسی طبقہ کے خلاف میدان میں اترے ہیں، اسی طبقہ کے خلاف سیاست میں عام لوگوں کا مفاد ہے۔ ان کی ایک تقریر بہت مقبول ہوئی، وہ اسمبلی کے اجلاس میں کہہ رہے تھے:

’’اس دیش کے نیتائوں(رہنما) کو لگا کہ اس دیش کا عام آدمی مرا ہوا آدمی ہے، کچلا ہوا آدمی ہے، یہ چنائو کیالڑے گا۔ وہ بھول گئے اس دیش کے کھیتوں کے اندر عام آدمی ہل جوتتا ہے، یہ ہل جوتنے کے لئے نہیں جاتے۔ اس دیش کا عام آدمی مکان بناتاہے، یہ تو مکان نہیں بناتے۔ اس دیش کا عام آدمی آٹو چلاتا ہے، یہ تو آٹونہیں چلاتے۔ اس دیش کا عام آدمی چاند پر جاتا ہے۔

نیتا چاندپر نہیں جاتے۔اس دیش کا عام آدمی ریسرچ کرتا ہے، نیتا ریسرچ نہیں کرتے۔جب اس دیش کے عام آدمی کے پاس کوئی چارہ نہیں بچاتواس دیش کے عام آدمی نے طے کرلیا کہ ٹھیک ہے، اس بارچنائوبھی لڑ کر دکھائیں گے۔

بھگوان، ایشور، اللہ یہ سچائی کا ساتھ دیتے ہیں، سچائی ہارنہیں سکتی، دلی کے عام لوگوں نے دیش سے بھرشٹ راج نیتی (ناپاک حکومتی نظام) کو اکھاڑنے کی طرف پہلا قدم اٹھانے کی جرات کی ہے۔یہ لڑائی دیش کی بھرشٹ راج نیتی سماپت (ختم) کرکے سچائی اور ایمان داری کی راج نیتی قائم کرنے کی لڑائی ہے‘‘۔

حقیقت یہی ہے کہ کیجری وال کی ساری سیاست اور حکمرانی مذکورہ بالا فلسفہ پر استوار ہے۔ وہ عام لوگوں کے لئے بھرپور اور منظم اندازمیں کام کررہے ہیں۔

انھوں نے عوامی خدمت کے لئے اپناسفر وہاں سے شروع کیاہے، جہاں سے چھوڑاتھا۔ مفت میں پینے کا صاف پانی فراہم کرنے اور بجلی کے نرخ آدھے کرنے کا وعدہ فوراً پورا کردیا، تاہم ابھی انھیں دہلی کو ایسا شہر بناناہے جہاں بجلی 24گھنٹے ہی رہے، وہ اسے شمسی توانائی استعمال کرنے کا شہر بناناچاہتے ہیں۔

، صرف دہلی شہر کو نہیں بلکہ یہاں کے دیہاتی علاقوں میں بھی 24 گھنٹے بجلی فراہم کرنی ہے، ان دیہاتوں کے ہرگھر میں ہرماہ 20ہزار لیٹر پانی فراہم کرناہے، پانچ برسوں میں ہرگائوں کے ہر گھر میں سرکاری پانی کا پائپ پہچانا ہے، دہلی کے لئے ایک پاور پلانٹ لگانے کا وعدہ بھی پورا کرناہے، موجودہ 70کالجز میں طلبہ وطالبات کی تعداد کو دوگنا کرناہے، دہلی کے نواحی علاقوں میں کم ازکم 20نئے کالجز بنانے ہیںاور سٹیڈیم بھی تعمیر کرنے ہیں، ہر گائوں کا اپنا لوکل ڈویلپمنٹ فنڈ قائم کرناہے۔

آٹھ لاکھ لوگوں کو روزگارفراہم کرناہے، 10لاکھ نوجوانوں کو پروفیشنل ٹریننگ فراہم کرنی ہے، دہلی میں VATکی شرح ملک کے باقی حصوں کی نسبت کم کرنی ہے، 29انڈسٹریل ایریاز بہترین سہولیات کے ساتھ قائم کرنے ہیں، دہلی کو منشیات سے مکمل طورپر پاک کرناہے، یہاں وائی فائی کی سروس مکمل طورپر مفت فراہم کرنی ہے، طلبہ وطالبات کو ایجوکیشن لون فراہم کرناہے تاکہ کوئی محض اس لئے تعلیم ادھوری نہ چھوڑدے کہ پیسے نہ تھے۔

بڑی تعدادمیں نوجوانوں کوسرکاری خرچ پر تعلیم اور کھیلوں کی بیرون ملک تربیت کے لئے بھیجناہے، دہلی میں 4000سکول گرائونڈز کو نوجوانوں کے لئے کھیلوں کی تربیت کے لئے کھولناہے، ای۔ رکشہ منصوبہ دوبارہ شروع کرناہے۔ان سمیت دیگرمنصوبوں کی تکمیل کے لئے کیجری وال نے مجموعی طورپر20ٹاسک فورسز قائم کی ہیں۔

ان میں سب سے پہلی ٹاسک فورس کا کام ہے کہ وہ ہرقیمت پر عام آدمی پارٹی کی طرزحکمرانی کوصاف اور موثر بنانے کا منصوبہ عمل بنائے، اس پر عمل درآمد کرائے اور حکومتی معاملات پر نظر رکھے۔ اسی طرح عام آدمی پارٹی کے منشور کے مطابق بجلی اورپینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے بھی ٹاسک فورسز ہیں۔ ایک ٹاسک فورس کا کام دریائے جمنا کو صاف ستھرا رکھنا ہے۔

دارالحکومت کو صاف شفاف رکھنے لئے قائم ایک ٹاسک فورس ’صاف ستھری دلی‘ کے نام سے قائم کی گئی ہے۔ تعلیم اور صحت کے لئے الگ الگ فورسز قائم کی گئی ہیں۔ ’تحفظ خواتین‘ کے لئے بھی علیحدہ فورس نے کام شروع کردیاہے۔ دہلی کی دیہاتی آبادی کو بھی نظراندازنہیں کیاگیا، اس کا معیارزندگی بہتر بنانے کے لئے بھی ٹاسک فورس قائم کی گئی ہے۔

تجارت، ملازمت اور تحفظ ملازمت، ماحولیات، ٹرانسپورٹ، غیرقانونی آبادیوں، جھگی جھونپڑی میں زندگی بسر کرنے والوں کے لئے بھی الگ ٹاسک فورسز ہیں۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے، ٹریفک کے حسن انتظام کے لئے، فوری انصاف کی فراہمی کے لئے بھی ٹاسک فورسز ہیں۔ ایک ٹاسک فورس ’موبائل پر سرکار‘ کے نام سے حکومت اور عوام کے براہ راست رابطے کو بہتر سے بہترین بنانے کی سعی کرے گی۔

 

اسی طرح وائی فائی اور سی سی ٹی وی کے سسٹم کی بہتری کے لئے بھی ٹاسک فورس بنی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ٹاسک فورسز میں کام کرنے والے عوامی خدمت کے جذبے کے تحت کام کریں گے، ہمارے ہاں حکمران جماعتیں اپنے بڑے بڑے حامیوں کو لاکھوں روپوں کی تنخواہوں پر ’افسر بغیرکام‘ بنادیتی ہیں۔ تاہم کیجری وال خود بھی اور اپنے ساتھیوں کو بھی عوام پر بوجھ نہیں بننے دیناچاہتے۔انھیں یقین ہے کہ ان کی ٹاسک فورسز موثر حکمرانی میں انھیں معاونت فراہم کریں گی۔

اگرچہ کیجری وال67سیٹوں کے ساتھ دہلی میں اپنا رعب ودبدبہ قائم کرچکے ہیں لیکن ان کے لئے چیلنجز وہی ہیں۔ دہلی کی پولیس جو وزیراعظم مودی کے ماتحت ہے،دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی وزارت شہری ترقی کے ماتحت ہے۔ پولیس کا معاملہ پھر سے کیجری وال اور مرکزی حکومت کے درمیان لڑائی کا سبب بنے گا ، کیونکہ دہلی کے حکمران کو اپنی ریاست کا امن وامان مثالی بناناہے۔ اسی طرح کیجری وال شہر میں ناجائز آبادیوں کے مکینوں کو گھر دیناچاہتے ہیں، ان کی اس معاملے پر بھی شہری ترقی کی وزارت سے کشمکش ہوگی۔

مودی سرکار اور اس کے باقی اہلکاروں کا طرزعمل دوسروں کو برداشت کرنے والا نہیں ہے، یہ سب سے بڑا چیلنج ہے جو کیجری وال کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگا۔ یہ بات طے ہے کہ اب کیجری وال مرکزی حکومت کے عدم تعاون یا مخالفانہ طرزعمل سے تنگ آکر استعفیٰ نہیں دیں گے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے دہلی میں اپنا دیا جلا کر باقی ریاستوں میں بھی دیاجلانا ہے۔ اغلب امکان ہے کہ کیجری وال ہزار رکاوٹوں کو عبور کرکے بڑی کامیابی سمیٹ لیں گے۔

میں تجھے قبول نہ تو مجھے قبول ؛بولی وڈ اسٹارز، جو ایک دوسرے کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے

$
0
0

فلمی دنیا اتفاقات سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں ہر قدم پھونک پھونک کے رکھنا پڑتا ہے کیوںکہ میڈیا اتنا زیادہ ایڈوانس ہوچکا ہے کہ اسٹارز کے پل پل کی خبر بنتی رہتی ہے۔ ایسے میں اگر کچھ منفی چیز سامنے آجائے تو اس کا اثر بھی منفی ہی پڑتا ہے۔

بولی وڈ اسٹارز اپنے ہر معاملے میں احتیاط برتتے ہیں، لیکن کچھ باتیں یا اتفاقات ایسے بھی پیش آجاتے ہیں جن پر وہ کبھی سمجھوتا نہیں کر پاتے ۔ اسے آپ ان کی انا کہہ لیں یا مس انڈراسٹینڈنگ یا پھر اسے مس کمونیکیشن بھی کہا جا سکتا ہے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی ویلیو بڑھانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

بولی وڈ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ کئی اسٹارز نے ایک دوسرے کے ساتھ کبھی کا م نہیں کیا یا ایک دو فلمیں ایک ساتھ کام کرکے آئندہ کے لیے ایک ساتھ کام کرنے سے معذرت کرلی۔ ذیل کے مضمون میں ایسے ہی نام ور اسٹارز کا ذکر ہے کہ جنہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے سے منع کردیا۔

٭دلیپ کمار، راج کپور اور دیو آنند:
1940اور پچاس کی دہائی کے یہ سپراسٹارز کے جن کے نام کا ہر جگہ طوطی بولتا تھا، ایک دوسرے کے ساتھ کام نہیں کر پائے۔ صرف 1949میں لیجنڈ دلیپ کمار اور راج کپور نے ایک فلم انداز میں ایک ساتھ کام کیا۔ اس فلم کی ہیروئن نرگس تھیں اور کہانی ٹرائی اینگل لو اسٹوری پر مشتمل تھی۔ اس فلم نے بلاک بسٹر کام یابی پائی تھی۔

فلم میں جب یہ دونوں میگااسٹارز کام کر رہے تھے تب اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ راج کپور دلیپ کمار کو اداکاری کے میدان میں پچھاڑ دیں گے، لیکن فلم کی ریلیز کے بعد اس بات کا فیصلہ خود ہی خود ہو گیا کہ ان میں سے بڑا اور اصل اداکار کون ہے۔ دلیپ کمار نے اپنے ہر کردار میں نیا پن اور ورائٹی دی، جب کہ راج کپور لگے بندھے انداز میں اداکاری کرتے تھے۔ فلم انداز کی کام یابی کے باوجود ان دونوں اسٹارز نے ساتھ کام نہیں کیا۔ شاید راج کپور دلیپ کمار کے مقام پر نہ پہنچ پائے۔

اسی طرح دیو آنند جنہیں انڈین فلم انڈسٹری میں ہولی وڈ اسٹار گریگوری پیک کے مشابہ قرار دیا جاتا تھا، نے بھی اپنے پورے کیریر میں راج کپور اور دلیپ کمار کے ساتھ کام نہیں کیا، حالاں کہ آف اسکرین دیو آنند ، راج کپور اور دلیپ کمار میں بہت اچھی دوستی اور اچھے تعلقات تھے اور اکثر فنکشنز میں یہ تینوں ایک دوسرے کی تعریفوں رطب السان نظر آتے تھے، لیکن آن اسکرین ان کا اکام دیکھنے میں نہیں آیا۔

٭امیتابھ بچن اور راجیش کھنہ:
راجیش کھنہ کو بولی وڈ کا پہلا سپراسٹار کہا جاتا ہے۔ جن دنوں کاکا جی اپنے عروج پر تھے وہ امیتابھ بچن کی جدوجہد کا دور تھا۔ وہ فلموں میں کام یابی اور شہرت حاصل کرنے میں مصروف تھے۔

ان ہی دنوں ان دونوں نے فلم آنند اور نمک حرام میں ایک ساتھ کام کیا۔ بہ ظاہر ان دونوں فلموں میں راجیش کھنہ ہیرو تھے اور امیتابھ کا سائڈ رول تھا، لیکن جب بگ بی کی فلم زنجیر سپرہٹ ہوئی اور فلم سازوں کی توجہ ان کی طرف مبذول ہونے لگی، تب راجیش کھنہ کا زوال شروع ہوگیا اور اس وقت سے راجیش کھنہ نے امیتابھ کے لیے اپنے دل میں عناد پال لیا۔

اس وجہ سے ان دونوں اسٹارز نے پھر کبھی کسی فلم میں ساتھ کام نہیں کیا، کیوں کہ راجیش کھنہ جی امیتابھ کی مقبولیت سے خائف تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ کسی فلم میں امیتابھ ان پر حاوی ہوں۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ ان تقریبات میں بھی کم ہی جاتے تھے، جہاں بگ بی کی موجودگی کا امکان ہو تا تھا۔

٭سلمان خان اور شاہ رخ خان:
بولی وڈ کے یہ دو سپراسٹارز جن کے نام پر ہی فلمیں بکتی اور کام یاب ہوتی ہیں،کے درمیان تنازعات کی بڑی لمبی دیوار ہے اور دونوں ہی اسے پھلانگنے کی لاحاصل کوشش کر رہے ہیں۔

ان دونوں اسٹارز نے ابتدا میں فلم کرن ارجن کے علاوہ کرن جوہر کی فلم کچھ کچھ ہوتا ہے میں کام کیا تھا۔ اس کے بعد ان دونوں کے درمیان ایسے تنازعات نے جنم لیا کہ پھر یہ ایک دوسرے کے ساتھ کام نہیں کرپائے۔ ان دونوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بھی اس تنازعے کا حصہ بنی رہی، لیکن 2014 میں سلمان خان کی بہن ارپیتا کی شادی کے موقع پر جب سلمان کی جانب سے شاہ رخ خان کو بھی دعوت دی گئی، تب ان دونوں اسٹارز کے تعلقات کے درمیان جمی برف کچھ پگھلی۔

شاہ رخ نے زیادہ وقت سلمان کی فیملی کے ساتھ گزارا۔ ان دونوں اسٹارز نے ایک ساتھ تصاویر بھی کھنچوائیں۔ تعلقات کے اچھے آغاز کے باوجود ابھی تک دونوں کی طرف سے ایک ساتھ کام کرنے کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔ حالاں کہ ان دونوں کے پرستار انہیں ایک ساتھ آن اسکرین کام کرتے ہوئے دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔ بہت سے فلم میکرز کی خواہش بھی ہے کہ انہیں ایک ساتھ کاسٹ کرکے دھماکا کردیں، لیکن ان دونوں سپر اسٹارز کی جانب سے اس قسم کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔

٭ عامر خان اور سلمان خان:
یہ دونوں ہی اپنے ہر انداز میں پرفیکٹ ہیں۔ دونوں ہی بہت اچھے دوست بھی ہیں۔ اس کے باوجود ان کے ایک ساتھ کام نہ کرنے کی بہ ظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ عامر اور سلمان کی ایک واحد مشترکہ فلم کامیڈی کلاسک انداز اپنا اپنا تھی اس فلم نے باکس آفس پر شان دار بزنس کیا تھا اس فلم کی کامیابی کے بعد ان دونوں نے شاید قسم کھالی کہ وہ ایک ساتھ کام نہیں کریں گے۔

ان کے درمیان کوئی تنازعہ بھی نہیں حالاں کہ ان سے جب یہ سوال کیا جاتا کہ آپ ایک ساتھ کام کیوں نہیں کرتے، تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ جیسے ہی کوئی اچھوتا اور منفرد اسکرپٹ ملا جس میں ا ن دونوں کے کردار انتہائی جان دار ہوں تب ہی وہ ایک دوسرے کے ساتھ کام کریں گے۔ اگر فلم انداز اپنا اپنا کا سیکوئل بنا یا جائے تو ان کے کردار کے لیے ڈائریکٹر کو سلمان اور عامر ہی کو کا سٹ کرنا پڑے گا، کیوں کہ اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کرداروں کے لیے کوئی متبادل نہیں ہونا چاہیے لیکن کیا وہ یہ فلم دوبارہ کریں گے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔

٭شاہ رخ خان اور اجے دیو گن:
کنگ آف بولی وڈ شاہ رخ خان کا اجے دیوگن کے ساتھ ابھی تک کام نہ کرنا حیرت انگیز بات ہے۔ اجے کا شمار انڈسٹری کے بہترین اداکاروں میں ہوتا ہے۔ خاص طور سے ایکشن فلموں میں وہ کام یاب ہیرو تصور کیے جاتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ شاہ رخ اور اجے کے درمیان سرد مہری اور تنازعے کی بڑی وجہ کاجول ہیں۔ اجے کو کاجول کا شاہ رخ کے ساتھ کام کرنا پسند نہیں اور اس بات کا وہ کئی بار برملا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ کاجول کی اجے کے ساتھ اب تک جتنی فلمیں ریلیز ہوئیں جیسے ہلچل، غنڈا راج، تون پور کا سپر ہیرو وغیرہ سب ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ اس کے برعکس کاجول اور شاہ رخ کی جوڑی کو آن اسکرین ہمیشہ بڑ ی کام یابی ملی۔

ان دونوں نے جتنی فلمیں کیں وہ سب کی سب سہر ہٹ ہوئیں، جیسے بازی گر، کچھ کچھ ہوتا ہے، دل والے دلہنیا لے جائیں گے، کبھی خوشی کبھی غم وغیرہ ۔ اجے کو اس فلمی جوڑی کی کام یابی پسند نہیں اور وہ کاجول کو شاہ رخ کے ساتھ کام کرنے سے روک بھی نہیں سکتے کہ بہرحال وہ ایک اداکارہ ہے اور اس کے مداح اسے شاہ رخ کے ساتھ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اسی پروفیشنل جیلسی کے باعث ان دونوں یعنی اجے اور شاہ رخ نے ابھی تک ایک ساتھ کام نہیں کیا۔

٭کترینہ کیف اور دیپکا پاڈوکون:
ان دونوں کا شمار بولی وڈ کی ٹاپ کلاس ہیروئنز میں کیا جاتا ہے۔ دونوں ہی باکس آفس پر سپر ہٹ اداکارائیں مانی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود ان دونوں نے ابھی تک ایک دوسرے کے ساتھ کام نہیں کیا۔ اس کی بڑی وجہ رنبیرکپور ہیں۔ سب ہی جانتے ہیں کہ دیپکا اور رنبیر کے درمیان زبردست لوافیئر تھا اور بات رنبیر کے والدین تک بھی پہنچ گئی تھی۔

رنبیر کی مان نیتو سنگھ نے دیپکا کو اپنی بہو بنانے سے انکار کردیا۔ یوں ان دونوں کے درمیان تعلقات ختم ہوگئے۔ رنبیر جلد ہی کترینہ کی زلفوں کے اسیر ہوگئے اور اب ان دونوں کی شادی کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ ایسی صورت میں دیپکا اور کترینہ ایک دوسرے کو ذاتی طور پر بالکل پسند نہیں کرتیں، کیوںکہ دونوں کا بوائے فرینڈ ایک ہی رہ چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ہیروئنز نے ابھی تک ایک ساتھ کام کرنے کی آمادگی ظاہر نہیں کی ہے۔

٭سلمان خان اور ابھشیک بچن:
بگ بی کے بڑے صاحب زادے جو ابھی تک فلم انڈسٹری میں کام یاب اداکار نہیں بن پائے ہیں، تقریباً سب ہی بڑے اسٹارز جیسے شاہ رخ خان، عامر خان، ریتھک روشن، اجے دیو گن اور سنجے دت وغیرہ کے ساتھ کام کر چکے ہیں، لیکن پتا نہیں کیوں ابھیشیک نے سلمان کے ساتھ کام نہیں کیا، حالاں کہ ان دونوں کے درمیان کوئی تنازعہ بھی نہیں اور آف اسکرین ان کے تعلقات بھی مثالی ہیں۔

ابھیشیک سلمان کو اپنا بڑا بھائی مانتے ہیں۔ ان کے ایک ساتھ کام نہ کرنے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے سلمان کی سابق گرل فرینڈ ایشوریا رائے، جو اب ابھیشیک کی بیوی ہیں۔ اسی وجہ سے سلمان ابھیشیک کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے۔

٭کرینہ کپور اور پریانکا چوپڑہ:
دونوں ہیروئنز ابتدا سے ہی پروفیشنل جیلسی کا شکار رہی ہیں۔ کرینہ نے پریانکا کے ساتھ دو فلموں ڈان اور اعتراض میں کام کیا تھا اور ان دونوں فلموں میں کرینہ نے پریانکا کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ان فلموں میں کرینہ کی موجودگی نے پریانکا کو پس منظر میں ڈال دیا تھا فلم بینوں کا کہنا تھا کہ دونوں فلموں میں ہر جگہ کرینہ ہی چھائی رہی اور اس کی کام یابی کا کریڈٹ بھی بیبو لے گئی۔

یوں پریانکا اس کی حریف بن گئی۔ دونوں میں تعلقات بھی سرد مہری کا شکار ہیں، جس کی ایک اہم وجہ یہ بھے کہ شاہدکپور ان دونوں ہیروئنز کا بوائے فرینڈ رہ چکا ہے۔ اس لیے ان دونوں ہیروئنز میں کشیدگی اتنی زیادہ ہے کہ دونوں کسی فنکشن میں بھی ایک ساتھ شرکت نہیں کرتیں فلمیں ساتھ کرنا تو دور کی بات ہے۔

٭رنبیر کپور اور سوناکشی سنہا:
رشی کپور اور نیتو نگھ کا ہونہار بیٹا رنبیر جس نے اپنی فلم فیملی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بہت جلد فلموں میں کام یابیاں حاصل کیں اپنے چاکلیٹی لُک اور زبردست ڈانس اسٹائل کی بدولت نوجوان نسل خصوصاً لڑکیوں میں خاصے پسند کیے جاتے ہیں۔ دوسر ی طرف ماضی کے اداکار شترو گھن سنہا کی بیٹی سوناکشی نے بھی بڑی تیزی سے فلموں میں اپنی پہچان بنائی ہے۔

دبنگ کی کام یابی نے انہیں دبنگ گرل کا ٹائٹل بھی دے دیا۔ دونوں اسٹارز کا فلمی سفر خوش گوار چل رہا ہے۔ کئی فلم میکرز نے ان دونوں کو ساتھ کاسٹ کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار رنبیر نے سوناکشی کے ساتھ کام کرنے سے معذرت اختیارکرلی رنبیر کا کہنا ہے کہ ہماری فلمی جوڑی کبھی کام یاب نہیں ہوسکتی کیوں کہ آن اسکرین سوناکشی مجھ سے بڑی نظر آئے گی اسی لیے میں اس کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتا۔

٭ابھیشیک بچن اور کرینہ کپور:
دونوں کا تعلق ہی ویل خاندان سے ہے، جن کے آپس کے تعلقات بھی خوش گوار ہیں، لیکن اس کے باوجود ان دونوں نے ابھی تک ایک ساتھ کام نہیں کیا۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کرینہ کی بڑی بہن کرشمہ کپور کی منگنی پہلے ابھیشیک کے ساتھ ہوئی تھی لیکن کچھ عرصے بعد یہ منگنی ختم ہوگئی اور اسے کرشمہ نے خود ختم کیا۔ یہ ابھیشیک کے لیے شاک تھا لیکن بہت جلد اس نے خود کو سنبھال لیا۔ اس وجہ سے ابھیشیک کرینہ کے ساتھ اب تک کام نہیں کر پائے اور کسی فلم میکر نے انہیں ابھی تک اپروچ ہی نہیں کیا۔

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>