Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4713 articles
Browse latest View live

گھر میں پلے ہیں شیر، مگرمچھ، سانپ اور اژدہے

$
0
0

لاہور: ہم اکثر و ریئلٹی شوز یا دستاویزی فلموں میں اس قسم کے مناظر دیکھتے رہتے ہیں کہ جنگل کا بادشاہ شیر ایک پالتو بلی طرح مالک کے قدموں میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہا ہے یا فٹ بال کھیل رہا ہے۔

ایک بڑے نے اژدہے نے پیار کا اظہار کرنے کے لیے کسی نوجوان کی بانہوں میں کنڈلی ماری ہوئی ہے، کسی نوجوان نے درندگی کے لیے مشہور مگرمچھ کے بچے کو ہاتھوں میں تھام رکھا ہے یا کوئی نوجوان سانپ کا بوسہ لے رہا ہے۔ لیکن اب پاکستان میں یہ شوق ٹی وی اسکرین کی حد تک ہی محدود نہیں رہا۔ جنگلی حیات سے پیار کرنے والے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے گھر والوں کی مخالفت اور وسائل نہ ہونے کے باوجود شیر، اژدہے، مگرمچھ اور سانپ جیسے خطرناک جانوروں اور پالنے کے حوالے سے غیرروایتی جانوروں کو بڑی تعداد میں گھروں میں پالا ہوا ہے۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ خطرناک اور منہگا شوق ک پالنے والے نوجوان نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ ہیں بلکہ وہ جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے ہر ممکنہ سطح پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ آئیے یہ دل چسپ فیچر پڑھیے اور ان افراد سے ملیے جنھوں نے گھروں میں جنگل بسایا ہوا ہے۔

٭ثقلین جاوید خان

ثقلین جاوید خان جنگلی جانوروں سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے گھر میں افریقی نسل کے شیر کے دو بچے بھی پال رکھے ہیں، جن کی عمریں تقریباً دس ماہ ہیں۔ اپنے اس انوکھے مگر خطرناک شوق کے بارے میں ثقلین کا کہنا ہے: جانوروں سے محبت کا عنصر تو بچپن ہی سے موجود تھا کیوں کہ دادا نے گھر کے قریب ہی ایک چھوٹا سے چڑیا گھر بنایا ہوا تھا۔ جس میں شیر، پوما (امریکی تیندوا) ، مور اور دیگر جنگلی جانور رکھے ہوئے تھے۔ شیر مجھے بچپن ہی سے بہت پسند تھا اور اسی شوق کے ہاتھوں میں نے شیر پالنا شروع کیا۔

2007 میں پانچ لاکھ روپے میں سمبا نام کا ایک شیر خریدا۔ یہ وہی شیر تھا جس نے طارق روڈ پر انتظامیہ کی دوڑیں لگوادی تھیں۔ اس واقعے کی بابت ثقلین کا کہنا ہے،’ایک سال کا سمبا گھر میں کُھلا رہتا تھا۔ ایک دن غلطی سے گھر کا دروازہ کھُلا رہ گیا اور سمبا گھر سے نکل کر سامنے موجود ایک شوروم میں گھُس گیا۔ اس واقعے میں سمبا یا کسی انسان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ بعد میں ایک صوبائی وزیر نے اُسے خرید کر فیڈرل بی ایریا کے ایک پارک میں بننے والے منی زو میں بھیج دیا تھا۔‘‘

ثقلین کے پاس اس وقت موجود شیر جو ان کے اطراف بلی کی طرح دُم ہلا تے ہوئے گھومتے رہتے ہیں۔ شیر کے یہ بچے ثقلین کے بچوں کے ساتھ بھی اسی طرح کھیلتے ہیں جس طرح پالتو بلیوں کے بچے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ اپنی خونخواری کی بدولت جنگل کا بادشاہ کہلانے والے شیر کو گھر میں پالتو جانور بنا کر رکھنے والے ثقلین کا کہنا ہے کہ یہ کافی منہگا شوق ہے، کیوں کہ شیر کے ایک بچے کی قیمت تقریباً 8لاکھ روپے ہے اور اس کو گھر میں رکھنے کے لیے پرمٹ بھی ضروری ہے، جو محکمۂ جنگلی حیات کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے، جس کی سالانہ فیس دس ہزار روپے ہے۔

شیر کے کھانے پینے کے اخراجات کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ ایک بالغ شیر روزانہ تقریباً پانچ ہزار روپے کا گوشت کھاتا ہے، جب کہ یہ دونوں بچے دن میں تقریباً چار سے پانچ کلو بچھیا کا گوشت کھاتے ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ ان کی خوراک بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ثقلین جاوید نے بتایا کہ شیر کے بچوں کی پہلی ویکسی نیشن ڈھائی ماہ، دوسری چھے ماہ اور تیسری ڈیڑھ سال کی عمر میں ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ ویکسی نیشن کا دورانیہ بھی بڑھتا رہتا ہے۔

شیر جیسے خطرناک جانور کو پالتو بنا کر گھر میں رکھنے پر گھر والوں کے اعتراضات کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں گھر والوں کی طرف سے تو کسی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیوں کہ گھر میں تقریباً سب لوگ ہی جنگلی جانوروں سے مانوس ہیں۔ شروع شروع میں محلے والوں کو کچھ اعتراضات تھے جو اب نہیں ہیں اور اب شیر کے بچے گلی میں آزادی سے گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شیر کو پالتو جانور کی حیثیت سے پالنے والے کچھ لوگ اُس کے دانت گھسوا دیتے ہیں، جو جنگل کے بادشاہ کے ساتھ زیادتی ہے، کیوں کہ شیر کی خوب صورتی اُس کے نوکیلے اور تیز دانتوں ہی میں ہے۔

دانت گھسوانے سے نہ صرف ان کا حُسن بلکہ قیمت بھی کم ہوجاتی ہے۔ زیادہ تر لوگ صرف شیر کے ناخن نکلوا دیتے ہیں، کیوں کہ اس کے پنجے کی گرفت بہت مضبوط ہوتی ہے اور وہ حملہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنا پنجہ ہی استعمال کرتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ شیر ہو یا بکری کسی بھی جانور کو خود سے مانوس کرنے کے لیے وقت دینا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ میں کاروباری مصروفیات کے با وجود دن میں دو تین گھنٹے ان کے ساتھ گزارتا ہوں۔ اس دوران میرے چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ کھیلتے رہتے ہیں۔ جنگل کے بادشاہ سے بے انتہا محبت کرنے والے ثقلین کے لیے یہ شیر گھر کے ایک فرد کی ہی حیثیت رکھتے ہیں۔

ثقلین ان کے باقاعدہ چیک اپ اور ویکسی نیشن کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ انہوں شیر کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے دو مستقل ملازم بھی رکھے ہوئے ہیں، جو انہیں وقت پر کھلانے پلانے، پنجرے کی صفائی اور باہر ٹہلانے کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ پالتو جانوروں کے پنجروں کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے جس سے اُن میں بیماریاں پھیلتی ہیں۔ ہم ان کے پنجرے کی روزانہ باقاعدگی سے صفائی کرتے ہیں۔

پنجرے کی صفائی کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ پنجرے کی صفائی کرتے وقت دو سے تین افراد کی موجودگی ضروری ہے۔ پہلے ہم شیروں کو پنجرے کے اندر ہی موجود نسبتاً چھوٹے پنجرے میں بھیجتے ہیں، پھر ایک فرد اندر جاکر پنجرے کی صفائی کرتا ہے۔ پنجرے کی صفائی روزانہ کی جاتی ہے۔ ثقلین کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے وہ مور اور پوما (امریکی تیندوا)بھی رکھ چکے ہیں۔ تاہم اب ان کی توجہ کا مرکز جنگل کے بادشاہ شیر اور اُس کے ازلی شکار ہرن پر ہے۔

انہوں نے اپنے گھر میں ہرن بھی پال رکھے ہیں جو پنجرے میں قید خاموشی سے لوسن کھانے میں مصروف نظر آئے۔ خوب صورتی کی وجہ سے ضرب المثل بننے والی ہرن کی حسین آنکھوں میں قید کی اداسی کا عکس نمایاں نظر آیا۔ ہرن کی قیمت کے بارے میں ثقلین نے بتایا کہ ہرن کا بچہ 30ہزار اور بڑا ہرن 60 ہزار روپے تک میں ملتا ہے اور اس کی کھلائی پلائی کا خرچہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

٭حسن حُسین اور حمزہ حسین

طارق روڈ کے رہائشی حسن حسین اور اُن کے بھائی حمزہ حسین کو بھی بچپن ہی سے ریپٹائل (رینگنے والے جانور) پالنے کا شوق ہے۔ حسن کا کہنا ہے کہ ہم نے میٹرک میں تحفے میں ملنے والے سونی پلے اسٹیشن کو فروخت کرکے مگرمچھ کا بچہ خریدا تھا جو ہمارا پہلا ریپٹائل تھا۔ اس حرکت پر گھر والوں نے بہت ڈانٹ ڈپٹ بھی کی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میرا یہ شوق بڑھتا گیا۔ اس کے بعد میں نے ایک کلاسیفائیڈ ویب سائٹ کے ذریعے ’رشین سینڈ‘ نسل کا سانپ خریدا جو زہریلا نہیں ہوتا۔

اس تمام عرصے میں مجھے گھر والوں کی شدید مخالفت کا سامنا بھی رہا، لیکن اب گھر والوں نے بھی میرے پالتو اژدہوں کے لیے گھر کی چھت پر ایک کمرہ مخصوص کردیا ہے۔ تاہم مجھے انہیں اژدہوں کو گھر کے اندر لانے کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ حسن کا کہنا ہے کہ اس شوق کی وجہ سے مجھے بہت سے لوگوں نے دھوکا بھی دیا۔ ایک لڑکے نے مجھے غیر زہریلا بتا کر انتہائی زہریلا ’وائپر‘ سانپ منہگے داموں فروخت کردیا تھا۔ اسی طرح جب میں نے پہلی بار اژدہے درآمد کیے تو ایک صاحب کی غفلت کی وجہ سے میرے لاکھوں روپے کے اژدھے کسٹم والوں نے پکڑ کر چڑیا گھر کے حوالے کردیے جن میں سے زیادہ تر مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے مرچکے ہیں۔

اس کے بعد میں نے خود امریکا جا کر باب کلیر(Bob Clare)  (جنگلی حیات کے مشہور امریکی ماہر، اژدہوں کے حوالے سے گینیز ورلڈ ریکارڈ ہولڈر) سے ملاقات کی اور ان سے اژدہے خرید کر پاکستان درآمد کیے۔ حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ریپٹائل کو گھریلو جانوروں کے طور پر پالنے کا رجحان بہت کم ہے، اور اگر کوئی شوق کی بنا پر انہیں پالنا چاہے تو کچھ نوسر باز اُن کی لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی سستے اور زہریلے سانپ ہزاروں، لاکھوں روپے میں فروخت کردیتے ہیں، شروع میں میرے ساتھ بھی اس طرح کی کچھ دھوکے بازیاں ہوچکی ہیں۔

حسن کے بھائی حمزہ حسین نے بتایا کہ ہم نے چند ماہ قبل ہی امریکی ریاست اوکلوہاما سے 16مختلف نسلوں کے اژدہے درآمد کروائے ہیں، جن میں جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا اژدہا بھی شامل ہے۔ چار سال کے اس اژدہے کا تعلق ہیٹ البینو ریٹی کیولیٹڈ (Het albino reticulated ) نسل سے ہے، جس کی لمبائی 20فٹ ہے۔ اس کا نام انہوں نے ٹائنی رکھا ہے۔ اس طرح پاکستان کا پہلا، دوسرا، چوتھا اور پانچواں بڑا اژدہا بھی ہمارے پاس ہی ہے، جن کی لمبائی 20 سے 13فٹ کے درمیان ہے۔

حسین کے پاس ہیٹ البینو ریٹی کیولیٹڈ، ٹائپ ٹو البینو سپر ٹائیگر ریٹی کیولیٹڈ، پرپل موٹلے ریٹی کیولیٹڈ، البینو برمیز، بال، فائر البینو ریٹک اور انڈین روک نسل کے اژدہے موجود ہیں، جن میں تین ماہ کے بچے بھی شامل ہیں۔ ان کی غذا کے حوالے سے حسن نے بتایا کہ ایک بڑے اژدہے کے لیے ہفتے میں ایک بڑا خرگوش یا مرغی کافی ہوتی ہے۔ یہ اپنی غذا (مرغی، خرگوش، چوہے) کو جکڑ کر سانس روک دیتا ہے اور پھر اسے چبائے بغیر ثابت نگل جاتا ہے۔

سفید چوہے اژدہے کی مرغوب غذا ہیں، ہم انہیں یہ بھی کھلاتے رہتے ہیں۔ کسی ناخوش گوار واقعے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں حسن نے اپنا بازو آگے کردیا، جس پر کسی چاقو سے لگے زخم کی طرح کے نشانات واضح نظر آرہے تھے۔ اس زخم کی بابت حسن نے بتایا کہ یہ میری اپنی غلطی کی وجہ سے لگا ہے۔ ’ٹائنی‘ کو کھانا کھلاتے وقت تھوڑی سی بے پرواہی ہوگئی تھی، جس پر اس نے مشتعل ہوکر میرے بازو پر اپنے دانت گاڑ دیے تھے۔ تاہم اس کے علاوہ کبھی کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

حمزہ حسین کا کہنا ہے کہ ہم نے اس کام کو شوق کی حد تک ہی رکھا اور مستقبل میں بھی شوق کو کاروبار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص گھر میں پالنے کی غرض سے اژدہا خریدنے کا خواہش مند ہو تو ہم قیمت سے زیادہ اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ آیا وہ اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کر بھی سکے گا یا نہیں، سو فیصد مطمئن ہونے کے بعد ہی اژدہا یا اس کا بچہ کسی کے حوالے کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم اژدہوں اور جنگلی حیات کے تحفظ کا شعور اُجاگر کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں بلامعاوضہ ورکشاپ کرتے ہیں۔ کچھ نجی ٹی وی چینلز اپنے مارننگ شوز میں اژدہے لے جانے کے لیے بھی ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ لائسنس اور این او سی جاری کرنے سے قبل محکمۂ جنگلی حیات کے افسران نے ہمارے گھر کا معائنہ کیا۔ مطمئن ہونے کے بعد انہوں نے ہمیں لائسنس امپورٹ کے لیے اجازت نامہ ( پرمٹ) جاری کیا، جس کی فیس 400روپے فی اژدہا ہے۔ اژدہوں کی افزائش نسل کے حوالے سے حسن کا کہنا ہے کہ ملاپ کے تین چار ماہ بعد مادہ انڈے دیتی ہے، جن کی تعداد سو تک بھی ہوسکتی ہے۔ انڈوں سے بچے نکلنے میں دو ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔ جب مادہ کھانا کم کر دے اور اس کی کھال اترنے لگے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ وہ حاملہ ہے اور پھر الٹراساؤنڈ کے بعد اس کی تصدیق کر لیتے ہیں۔

اس وقت مادہ کافی چڑچڑی ہوجاتی ہے، لہذا ہم اسے ہاتھ میں پکڑنے میں کافی احتیاط کرتے ہیں۔ جنگلی جانور پالنے والے دیگر افراد کی طرح دونوں بھائیوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر جنگلی جانوروں اور ریپٹائل کے حقوق اور ان کے بارے میں شعور اُجاگر کرنے کے لیے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔

٭جنید رفیق اور عبدالصمد

اژدہے، مگرمچھ اور سانپ جیسے ریپٹائل کو پالتو جانور کے طور پر پالنے والے ان دوستوں کی عمر تو گو کہ اتنی زیادہ نہیں لیکن ان کے حوصلے بہت بلند ہیں۔ جسم کے مختلف حصوں پر سانپ اور مگرمچھ کے کاٹنے کے نشانات لیے جنید عرف جمی کو دیکھ کر پہلی نظر میں تو یہ بات مبالغہ لگتی ہے کہ اتنا دھان پان سا نوجوان آٹھ، نو فٹ لمبے اژدہوں کی دیکھ بھال کرتا ہوگا۔ غیرملکی ٹی وی چینلز پر جانوروں پر بننے والی دستاویزی فلموں کو دیکھ جنید کو 16سال کی عمر میں ہی ریپٹائل سے ایک طرح کا عشق ہوگیا تھا۔ میٹرک میں انہوں نے پہلا سانپ خریدا، جس پر گھر والوں سے مار بھی کھانی پڑی۔

اس حوالے سے جنید کا کہنا ہے کہ میں اپنے والدین کا اکلوتا لڑکا ہوں اور اسی وجہ سے گھر والے میرے اس شوق کے سخت مخالف ہیں، لیکن اُن کی تمام تر مخالفت کے باوجود میں خود کو ِان (اژدہے، سانپ، مگر مچھ) سے دور نہیں کر پاتا۔ اپنے اس شوق کو برقرار رکھنے کے لیے مجھے سخت محنت کرنا پڑتی ہے، میں تعلیم کے معاملے میں والدین کو کسی قسم کی شکایت کا موقع نہیں دیتا۔ اس نے اپنا ہاتھ دکھایا جس پر تقریباً پانچ چھے انچ کے دو لمبے نشانات بنے ہوئے تھے۔ یہ نشانات ایک پالتو مگرمچھ سے محبت کی یادگار ہیں، جس نے اپنی فطری حیوانی جبلت سے مجبور ہوکر اپنے ہی رکھوالے کے ہاتھ کا گوشت ادھیڑ دیا تھا۔

جنید کے ہاتھوں پر کچھ اور زخموں کے نشانات بھی موجود ہیں، جو ان کے پالتو ’ریٹ اسنیک‘ کے کاٹنے سے لگے ہیں۔ جنید کا کہنا ہے کہ ریٹ اسنیک ایک خوب صورت اور غیرزہریلا سانپ ہے، لیکن یہ کاٹنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتا۔ اس کے کاٹنے سے بلیڈ کی طرح کٹ لگنے جیسی تکلیف ہوتی ہے۔ جنید اور عبدالصمد کے پاس اس وقت مگرمچھ کا بچہ، دو ریٹ اسنیک اور چار اژدہے موجود ہیں۔ جامعہ کراچی میں سوشیالوجی کے طالب علم جنید نے بتایا کہ پاکستان میں جنگلی حیات خصوصاً ریپٹائلز پر بالکل بھی کام نہیں ہورہا۔ ان کا مستقبل میں سانپ اور اژدہوں پر تحقیقی کام کرنے کا ارادہ ہے۔

اس شوق میں وہ حسن حسین (جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے) کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں اور اژدہوں سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات کے لیے وہ حسن ہی سے رابطہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو اژدہوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے بیس سالہ جنید رفیق نے کراچی چڑیا گھر کو ساڑھے آٹھ فٹ کے دو اژدہے بھی تحفتاً دیے، جس کے اعتراف میں کراچی چڑیا گھر کے ریپٹائل ہاؤس میں ان کے نام کا تہنیتی بورڈ بھی لگایا گیا ہے۔ اس انوکھے شوق میں جنید کا ہر قدم پر ساتھ دینے والے عبدالصمد بھی ریپٹائل سے محبت کرتے ہیں، اور اس شوق کی نشانی ان کے گھٹنے پر موجود مگرمچھ کے کاٹنے کا نشان ہے۔

عبدالصمد کا کہنا ہے کہ میں نے غلطی سے مگرمچھ کی دم پکڑ لی تھی، جس پر اس نے پلٹ کر مجھے کاٹ لیا۔ عبدالصمد کے گھر والے بھی کچھ عرصے قبل تک اُن کے اس شوق کے مخالف تھے، لیکن ایک بار اُن کی والدہ کو کسی سانپ نے کاٹ لیا اور انہوں نے دستاویزی فلموں میں بتائی گئی ہدایت کے مطابق اپنی والدہ کو فوری طبی امداد دی۔ اس واقعے کے بعد عبدالصمد کو ریپٹائل گھر میں رکھنے کی اجازت مل گئی ہے۔ لیکن اس ’’اجازت‘‘ کی حدود گھر کی چھت پر بنے کمرے تک ہے۔ یہ دونوں نوجوان اس وقت جنگلی جانوروں (چلنے اور رینگنے والے) کے تحفظ کے لیے ایک این جی او بنانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے جنید کا کہنا ہے کہ گذشتہ دنوں وائلڈلائف کے ایک پروگرام میں ہمیں بلایا گیا، وہیں میں نے این جی او بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ وہاں موجود محکمۂ جنگلی حیات کے افسران نے میری حوصلہ افزائی کی اور این جی او کے قیام کے لیے ہرممکن مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ اگلے ماہ اُن سے ایک ملاقات بھی طے ہے، جس میں این جی او کے قیام کے لائحہ عمل کو عملی شکل دی جائے گی۔ ان ریپٹائلز کی خوراک کے بارے میں جنید کا کہنا ہے کہ ہم انہیں مرغی، خرگوش اور سفید چوہے کھلاتے ہیں، ان کے کھانے پینے کا تما م خرچہ ہم اپنے جیب خرچ سے کرتے ہیں۔

٭جاوید احمد مہر (چیف کنزرویٹر محکمۂ جنگلی حیات سندھ)

گھروں میں خطرناک جانوروں کو پالنے کے حوالے سے محکمۂ جنگلی حیات سندھ کے چیف چیف کنزرویٹر جاوید مہر کا کہنا ہے کہ جنگلی جانوروں (شیر، اژدہے، مگرمچھ، سانپ) کو گھر میں رکھنے کے لیے وائلڈلائف کا لائسنس /پرمٹ لینا لازمی ہے۔ اگر ان کے بغیر کسی نے غیرقانونی طور پر سانپ، اژدہے، مگرمچھ، شیر یا اس طرح کے خطرناک جانور پال رکھے ہوں تو ہمارا محکمہ اطلاع ملنے پر فوراً کارروائی کر کے انہیں ضبط کرلیتا ہے۔ ضبط کیے جانے والا جانور اگر جنگلی ہے تو اسے جنگل میں چھوڑ دیا جاتا ہے یا پھر چڑیا گھر کے حوالے کردیا جاتا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے قبل ہم نے غیرقانونی طور پر امپورٹ کیے جانے والے 38 سانپ پکڑے تھے، جنہیں میڈیا کے نمائندوں کی موجودگی میں جنگل میں آزاد کردیا گیا تھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر کوئی جانور یا ریپٹائل (اژدہے، سانپ وغیرہ) باہر سے درآمد کروا رہا ہے تو اس کے لیے قانون الگ ہے اور اس طرح کے مقامی جانوروں کے لیے قانون الگ ہے۔ باہر سے آنے والے تمام جانور وہاں کی حکومت کے تمام قانونی تقاضے پورے کرکے آتے ہیں، تاہم انہیں پاکستان میں درآمد کرنے سے قبل ایک این او سی لینا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ لاعلمی میں یا جان بوجھ کر این او سی حاصل کیے بنا یہ جانور منگوالیتے ہیں، جو ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پکڑے جاتے ہیں۔

ہمارا محکمہ جانوروں کی سفری دستاویزات اور طبی رپورٹس کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد مالک پر معمولی جرمانہ عاید کرکے جانور اس کے حوالے کردیتا ہے۔ جنگلی جانوروں اور ریپٹائلز کے پرمٹ اور لائسنس کے حصول میں ہونے والی درپیش مشکلات کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے،’میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے محکمے میں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے، کچھ لوگ یقیناً اپنے مفادات کو بھی مدِنظر رکھتے ہیں۔ تاہم ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اگر کوئی اپنے شوق یا کاروبار کے لیے لائسنس لینا چا رہا ہے تو وہ اُسے جلدازجلد فراہم کردیا جائے۔‘

لائسنس حاصل کرنے کے طریقۂ کار کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ کسی بھی لائسنس کو جاری کرنے سے پہلے ہم اُس جگہ کا معائنہ کرتے ہیں جہاں اس جانور یا ریپٹائل کو رکھا جائے گا۔ معائنے میں اُس جانور کی ممکنہ رہائش کے محل وقوع، ہوا کی آمدورفت اور اس نوعیت کی اہم باتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ جانور کی رہائش اور اُس کے کھانے پینے کے حوالے سے مطمئن ہونے کے بعد محکمۂ جنگلی حیات کی جانب سے لائسنس جاری کردیا جاتا ہے، جس کی فیس دس ہزار روپے سالانہ ہے۔ تاہم خریدوفروخت کرنے کے لیے ٹریڈ لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔

نایاب نسل کے کُتے جو پاکستان میں کسی اور کے پاس نہیں

جنگلی جانوروں کے حوالے سے مرتب کی جانے والے اس فیچر کی تیاری میں ہمارا رابطہ شان نام کے ایک نوجوان سے بھی ہوا جن کا شوق نایاب نسل کے کتے پالنا ہے۔ شان کے پاس کتوں کی کچھ ایسی بریڈ (نسلیں) ہیں، جو پاکستان میں کسی اور کے پاس نہیں ہیں۔ اس حوالے سے شان کا کہنا ہے کہ میرے پاس سائبیرین ہسکی (الاسکا اور سائبیریا جیسے برفانی علاقوں میں سلیج کھینچنے والے کتے)، کو کو شین شیفرڈ، اطالوی پیسا کونر کیم کوسو، برطانوی انگلش بُل ٹینیئر اورآئرش ڈوگو جینٹینو جیسی اعلیٰ نسل کے کتے موجود ہیں جو پاکستان میں کسی اور کے پاس موجود نہیں ہیں۔ ان کے پاس ایک بہت کم پایا جانے والا سائیبرین ہسکی بھی ہے جس کی ایک آنکھ کے ڈھیلے کا رنگ سیاہ اور دوسری کا ڈھیلا سفید ہے۔

اس شوق کے بارے میں شان نے بتایا کہ مجھے بچپن ہی سے کتے پالنے کا شوق تھا اور ساتویں کلاس میں مجھے ایک دکان دار نے آوارہ کتے کو جرمن شیفرڈ بناکر بیچ دیا تھا۔ اسی بات نے مجھے کتوں کی نسلوں کے بارے میں تحقیق پر مجبور کیا اور اب میں کتے کو دیکھ کر اُس کی نسل کے بارے میں بتا سکتا ہوں۔

اس شوق کی خاطر انہیں اپنے گھر والوں کی شدید مخالفت کا سامنا بھی رہا اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے کتوں کو گھر سے دور ایک فارم پر رکھا ہوا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ صرف میرا شوق ہے کاروبار نہیں، لیکن اگر کوئی اصرار کرے تو پھر میں اپنی تسلی کے بعد کتے کو فروخت کرتا ہوں۔ وہ جرمنی، امریکا، سربیا، روس اور تھائی لینڈ سے بھی کتے درآمد کرتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے پستہ قامت نسل سے تعلق رکھنے والے پِگ ڈوگ جسے عرف عام میں ’ٹوائے ڈوگ ‘کہتے ہیں منگوایا ہے۔ اس کتے کی خاص بات یہ ہے کہ اس نسل کے کتے کا قد زیادہ سے زیادہ عام بلی جتنا ہوسکتا ہے۔

زیادہ تر مشہور شخصیات اس نسل کا کتا پالنے اور ساتھ لے کر چلنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ کتوں کی ویکسی نیشن کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ پہلی ویکسین سات ہفتے، دوسری ایک ماہ اور تیسری دوسرے ماہ دی جاتی اور ہر ایک سال بعد یہی عمل دہرایا جاتا ہے۔ شان کی کتوں سے محبت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے سڑک پر کار کی ٹکر سے زخمی ہونے والے ایک آوارہ کتے کو اپنے فارم پر رکھا ہوا ہے۔ لکی نام کے اس کتے کا نچلا ڈھر بالکل مفلوج ہوچکا ہے لیکن یہاں اُس کا بھرپور طریقے سے خیال رکھا جاتا ہے۔

آرمی ٹریننگ سینٹر سے کتوں کی تربیت سیکھنے والے عمران ولیم کا کہنا ہے کہ ہم ان کتوں کو دودھ، روٹی، چاول اور بار سے منگوائی جانے والی خصوصی خوراک دیتے ہیں، انہیں روزانہ ٹہلانے لے جاتے ہیں۔ شان کے فارم پر موجود سب سے خطرناک دکھائی دینے والا کتا ’روڈ وائلر‘ سب سے ٹھنڈے مزاج کا ہے۔ اس حوالے سے عمران کا کہنا ہے کہ 80کلو وزنی اس کتے کو اگر ہم حملہ کرنے کی تربیت دے دیں تو یہ بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے لیکن یہ بلا وجہ کسی کو تنگ نہیں کرتا اور پر سکون رہنا پسند کرتا ہے۔

٭مگرمچھوں سے متعلق چند اساطیر اور حقائق

مگرمچھوں سے منسوب ایک کہاوت ’مگر مچھ کے آنسو بہانا‘ ہم سب کو اچھی طرح یاد ہے۔ تاہم یہ سمجھنا درست نہیں کہ انسانوں کو کھاتے ہوئے مگرمچھ کے آنسو اپنے شکار انسان کی موت پر دکھ میں بہتے ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ کھاتے ہوئے مگرمچھ کے آنسو بہتے ہیں لیکن اس کا سبب کسی قسم کا تاسف ہرگز نہیں۔ کھاتے وقت مگرمچھ کی آنکھیں پوری طرح کُھل کر پھول جاتی ہیں، ہوا عضلات میں پیدا ہونے والی خالی جگہ سے گزر کر آنسوؤں کے غدود پر دباؤ ڈالتی ہے جس کا نتیجہ مگرمچھ کے مصنوعی آنسو کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

نرم اور پائے دار ہونے کی وجہ سے مگرمچھ کی کھال کی قیمت 15ہزار ڈالر( 15لاکھ پاکستانی روپے) تک ہوتی ہے۔ کچھ قبائلی معاشروں میں مگرمچھ کی کھال کو بلند مرتبے کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ نہ صرف اس جانور کی کھال بل کہ ہڈیوں کو بھی تیر، بھالے یہاں تک کہ گولیاں بنانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

مگرمچھ کی آنکھوں پر چمک دار خلیوں کی ایک تہہ چڑھی ہوتی ہے، جس کی بدولت اندھیرے میں اُس کی آنکھیں دور ہی سے چمکتی دکھائی دیتی ہیں۔ مگرمچھ کے شکار کے لیے برازیل کے شکاری انوکھا طریقہ اختیار کرتے ہوئے دور سے مگرمچھ کی آنکھوں میں کوئی نوک دار چیز گھونپ دیتے ہیں اور پھر اسے کشتی پر لاد کر زندہ مگرمچھ کی کھال اُتار لیتے ہیں۔

کئی مرتبہ مگرمچھ دریا کے کنارے منہ کھول کر لیٹے رہتے ہیں۔ یہ اُن کا جارح انداز نہیں بل کہ خود کر گرمی سے بچانے کا ایک طریقہ ہے۔ اس طرح مگرمچھ منہ سے پسینہ خارج کرتے ہیں۔

اکثر لوگ گھڑیال کو بھی مگر مچھ سمجھتے ہیں، دونوں الگ جانور ہیں۔ مگرمچھ کے نچلے جبڑے پر منہ بند ہونے کے بعد بھی چوتھا دانت واضح دکھائی دیتا ہے۔ مگرمچھ منہ میںسالٹ گلینڈ ہونے کی وجہ سے سمندری پانی میں کھڑا رہ سکتا ہے، جب کہ گھڑیال میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی۔

مگرمچھ کے 99 فیصد بچے پیدائش کے پہلے سال ہی بڑی مچھلیوں، چھپکلیوں اور بڑے مگرمچھوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ مگرمچھ اپنی طاقت ور دم کی بدولت 40کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیراکی اور پانی میں دو سے تین گھنٹے رہ سکتا ہے۔

دنیا کا پہلا مگرمچھ 240ملین سال قبل ظاہر ہوا تھا۔ اس دور میں ڈائنو سارز بھی کرۂ ارض پر موجود تھے۔

سانپوں سے متعلق اساطیر اور چند حقائق

سانپ کا ذکر کسی بھی طرح دل چسپی سے خالی نہیں۔ سانپ کے تذکرے پر ہمارے اندر تجسس جاگ اٹھتا ہے، جب کہ بعض لوگ اس کے نام سے ہی خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ یہ سب انہی قصّوں اور کہانیوں کی وجہ سے ہے، جو سانپوں کے بارے میں عام ہیں۔ خصوصاً ہندو مت میں سانپ سے متعلق تصورات اور عقائد کا اثر نمایاں ہے۔ سانپوں سے جڑی اساطیر کی اثر انگیزی کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ناگ کے قتل کا انتقام لینے کے لیے ناگن کا قاتل کا تعاقب کرنا، انسانی روپ دھار لینے کی صلاحیت، سانپ کی مخصوص قسم کا نایاب اور قیمتی پتھر کی حفاظت کرنا اور طرح طرح کے افسانے، باتیں۔ اس کے ساتھ سانپ کے زہر اور ہر سانپ کے زہریلے ہونے سے متعلق بھی کئی باتیں کہی جاتی ہیں۔

بعض کہتے ہیں کہ ہر سانپ زہریلا نہیں ہوتا اور کچھ سانپ ایسے ہیں جن کے راستے سے ہٹ جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔ماہرین جنگلی حیات اور محققین کہتے ہیں کہ زیادہ تر سانپ بے ضرر اور انسانوں کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ دنیا بھر میں سانپوں کی تقریباً 2,800 اقسام پائی جاتی ہیں، لیکن اِن میں سے 280 نسل کے سانپ ہی زہریلے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہر سال تقریباً 25 لاکھ افراد زہریلے سانپوں کا نشانہ بنتے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

زہریلے سانپوں میں سے بعض کا زہر نہایت سریع اُلاثر ہوتا ہے اور لمحوں میں اپنے شکار کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے، جب کہ سانپوں کی بعض اقسام اپنے راستے میں آنے والے کو ڈَسنے کے بجائے خود راہِ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس بات کا دارو مدار ماحول پر ہوتا ہے۔ سمندری سانپ کبھی نہیں کاٹتے، لیکن اگر کسی کو کاٹ لیں تو وہ اپنی جان سے جاسکتا ہے۔

ڈسنے اور زہر کے اثر کرنے کی رفتار انتہائی سست ہونے کی وجہ سے سمندری سانپوں کو شوقین افراد پالتے بھی ہیں۔ اکثر ملکوں میں سانپ کے گوشت کو غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔زہریلے سانپوں میں ’’سنگ چور‘‘ اور ’’کوبرا‘‘ کے بعد براعظم افریقہ میں پائے جانے والے ’’مامبا‘‘ سانپ کا نمبر آتا ہے۔ عام طور پر یہ سانپ خطرے کی بْو سونگھتے ہی فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اپنے بچاؤ کے لیے ڈسنے سے گریز نہیں کرتا۔

سریع الحرکت ہونے کی وجہ سے ’’مامبا‘‘ سانپ درختوں پر بسیرا کرنے والے مینڈک، پرندوں اور دیگر حشرات کو اپنی غذا بناتے ہیں۔ یہ لمحوں میں ادھر سے ادھر ہوجاتا ہے اور اپنے شکار تک پہنچنے میں بہت تیزی دکھاتا ہے۔زیادہ تر سپیرے کوبرا (شیش ناگ) کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سُننے کی صلاحیت سے محروم کوبرا بین کی آواز سن کر جھومنے لگتا ہے۔ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ کوبرا کے جھومنے کی وجہ بین کی آواز نہیں بل کہ بین بجانے والے کی حرکات و سکنات ہوتی ہیں۔

٭سانپ کے زہر کی اثر پذیری

مامبا، کوبرا اور سمندری سانپوں کا زہر دوسرے سانپوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتا ہے، یہ براہ راست انسان کے اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے اور متاثرہ شخص تھوڑی ہی دیر میں ہلاک ہو جاتا ہے۔

کچھ سانپوں کا زہر جسم کے سرخ خلیات کو تباہ کر دیتا ہے، جس سے جسم کے خلیے گلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق ہر سال سانپوں کے ڈَسے ہوئے تین لاکھ سے زاید افراد کی جان بچانے کے لیے ان کے جسم کے متاثرہ اعضا کاٹنا پڑتے ہیں۔

اژدہوں سے متعلق دل چسپ حقائق

اژدہے کا شمار بڑے سانپوں میں ہوتا ہے۔ سانپوں کی دیگر اقسام کے برعکس یہ زہریلے نہیں ہوتے۔

یہ ایشیا اور افریقہ کے گرم علاقوں میں رہتے ہیں۔ یہ بارانی جنگلات، بڑے میدانوں اور صحراؤں میں بھی پائے جاتے ہیں۔

اژدہے اُس وقت تک انسانوں پر حملہ نہیں کرتے جب تک انہیں مشتعل نہ کیا جائے۔اژدہے میں زہر نہیں ہوتا، یہ اپنے شکار کو اپنے عضلات سے جکڑ کر اس کا سانس روک دیتا ہے۔اژدہا اپنے شکار کو کاٹے بنا ثابت نگلتا ہے۔ اس کا معدہ کھال اور پروں کو چھوڑ کر سب کچھ ہضم کرلیتا ہے۔ پر اور کھال فضلے کے ذریعے خارج ہوجاتی ہے۔ اژدہا اپنے شکار کو مکمل طور پر ہضم کرنے میں بہت وقت لیتا ہے، اگر شکار بڑا ہے تو اس کا معدہ ہفتوں یا مہینوں میں اسے ہضم کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اژدہے بہت کم کھاتے ہیں۔

اژدہے پانی میں تیرنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔

اژدہے عموماً اپنا مسکن ایسی جگہ پر بناتے ہیں، جہاں کا رنگ اُن کے جسم کے رنگ سے ملتا جلتا ہو۔

خوب صورت ہونے کی وجہ سے اژدہے کی کھال کو بڑے پیمانے پر فیشن انڈسٹری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پینٹ، جوتے، واسکٹ بنانے کے لیے انہیں بے دردی سے مارا جا رہا ہے۔

اژدہوں میں حرارت کو محسوس کرنے والے اعضا ہوتے ہیں، جو اسے شکار کی جگہ ڈھونڈنے میں مدد دیتے ہیں۔

اژدہا ٹھنڈے خون والا جان دار ہے لیکن یہ دھوپ کے ذریعے اپنے جسم کا درجۂ حرارت بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’ریٹی کیولیٹڈ‘ نسل کے اژدہوں کو سب سے لمبی نسل جانا جاتا ہے۔ اس نسل کے اژدہوں کی لمبائی 30فٹ تک پہنچ سکتی ہے۔ ہموار سطح پر اژدہے 1میل فی گھنٹہ کی رفتار سے رینگ سکتے ہیں۔

٭ سانپ

سرگودھا کا30 سالہ حافظ محمد شہزاد سانپ پالنے کا اتنا شوقین ہے کہ اس شوق کی وجہ سے متعدد بار اسے گھر والوں کی طرف سے شدید برہمی کا سامنا کرنا پڑا اور بات گھر چھوڑنے تک پہنچ گئی، لیکن وہ ڈٹا رہا۔ کارپینٹر کا کام کرنے والے حافظ شہزاد کو سانپ پالنے کا شوق اس وقت پڑا جب وہ 10 سال کی عمر میں شہر کے قریب سے گزرنے والی نہر سے مچھلیاں پکڑا کرتا تھا۔ بقول حافظ شہزاد،’’ایک بار میں نے نہر میں کُنڈی لگائی تو اس میں مچھلی کے بجائے ایک سانپ لگ گیا۔

دیکھنے میں وہ مجھے بہت اچھا لگا تو میں نے اسے مارنے کے بجائے پالنے کا فیصلہ کر لیا اور یوں سانپوں سے ایک تعلق بن گیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ میرے پاس اس وقت درجنوں سانپ ہیں، جن میں اکثریت سنگ چور اور دو منہ والے سانپوں کی ہے۔ عموماً میں شہر سے گزرنے والے کھالوں سے سانپ پکڑتا ہوں، کیوں کہ یہ پانی نہر سے آتا ہے اور اس میں کافی سانپ ہوتے ہیں۔ چھوٹے سانپوں کو میں اپنے گھر کے ایک کمرے میں رکھتا ہوں، جہاں دودھ سے ان کی ’سیوا‘ کی جاتی ہے۔

تھوڑا بڑا ہونے پر میں سانپ کے سامنے مینڈک یا چوزے چھوڑ دیتا ہوں تو وہ اسے کھا جاتا ہے۔ میں ان سانپوں کے ساتھ کھیلتا ہوں، ان کی لڑائیاں بھی کرواتا ہوں، یہ کبھی میرے پاس بیٹھ جاتے ہیں تو کبھی اوپر چڑھ جاتے ہیں۔ ہاں ایک بات جو نہایت اہم ہے وہ یہ کہ کبھی کبھار کوئی سانپ مجھے ڈس بھی لیتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ زہر کا میرے جسم پر اثر نہیں ہوتا۔ میں نے کبھی سانپوں کو پال کر فروخت نہیں کیا، جب ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جائے یا عمر میں بڑے ہو جائیں تو پھر میں ان میں سے کچھ دوستوں کو بطور تحفہ دیتا ہوں اور باقی کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘

٭ سُرخاب

ہمارے ہاں کسی امتیازی خصوصیت یا غرور پر اکثر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ’’کیا تمہیں سرخاب کے پَر لگے ہیں‘‘ لیکن حقیقت میں ایسا خال خال ہی ہوگا کہ لوگوں نے نادرونایاب سرخاب پرندے کو آنکھوں سے دیکھا ہو۔ سرخاب ہالینڈ سمیت مختلف افریقی ممالک میں پایا جانے والا نہایت خوب صورت پرندہ ہے۔ قدیم افریقی قبیلوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات پتا چلتی ہے کہ قبیلے کا سردار اپنے تاج پر سرخاب کا پَر لگاتا تھا جو اس کی سرداری کی پہچان بنتا تھا۔ سرخاب کی یہی وہ خصوصیات تھیں جس نے رحیم یار خان کے رہائشی ذوالفقار علی کو متوجہ کیا۔ ذوالفقارعلی اپنے شوق کی تسکین کے لیے پچھلے 14سال سے سرخاب کی مختلف اقسام پال رہے ہیں۔

انہوں نے نہ صرف سرخاب پالے ہیں بل کہ اپنے فارم ہاؤس میں جنگل کا مصنوعی ماحول پیدا کرکے انڈے اور بچے بھی حاصل کیے۔ ان کے مطابق اس خوب صورت پرندے کی 35 سے زیادہ اقسام ہیں۔ نر پرندہ خوب صورت رنگوں سے سجا ہوتا ہے اور ایک بہت خوب صورت دم کا مالک ہوتا ہے جو اس کے حسن کو چار چاند لگادیتی ہے، لیکن مادہ بہت کم رنگوں سے مزین ہوتی ہے اور تقریباً ایک عام گھریلو مرغی کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ مادہ سرخاب اپریل سے جون تک 8 سے 15 انڈے دیتی ہے اور خود ہی سیتی ہے۔ مادہ سرخاب کے انڈوں میں سے24،25 دنوں بعد بچے نکل آتے ہیں۔ پرندے کی لمبائی 23 سے 33 انچ ہوتی ہے، یہ باجرہ، مکئی، پھل اور بیج کھاتے ہیں۔

٭ نیولا

بلی کی مانند نظر آنے والا نیولا وہ جانور ہے، جس پر سانپ کا زہر بھی اثر نہیں کرتا اور یہی وجہ ہے کہ ان کی باہمی لڑائی میں جیت اکثر نیولے ہی کی ہوتی ہے۔ دنیا کے چند خطرناک ترین جانوروں میں شمار ہونے والے نیولے سے انسان ڈرتا اور بھاگتا ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر سرگودھا ڈی بلاک کا رہائشی احمر خان اسے پالنے کا شوقین ہے۔ احمر نے کئی برس سے اپنے گھر میں نیولے پال رکھے ہیں۔ اپنے اس شوق کی روداد سناتے ہوئے 38 سالہ احمر خان نے بتایا کہ ’’درحقیقت معاملہ کچھ یوں ہے کہ پہلے مجھے کبوتر رکھنے کا شوق تھا۔

ان کبوتروں سے مجھے بڑا لگاؤ تھا، لیکن اس میں قباحت یہ ہوتی تھی کہ ہمارے علاقے میں نیولے بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر کبوتر ان کے ہاتھوں مارے جاتے، جس کو پہلے تو میں نے نظرانداز کیا، مگر جب معاملہ حد سے زیادہ بڑھ گیا تو غصے میں نے فیصلہ کیا کہ اب انہیں نہیں چھوڑوں گا، لہٰذا چوہے پکڑنے والا پنجرا لگا کر میں نے ان کا شکار کیا۔ اس پنجرے میں دو تین نیولے پھنس گئے۔ میں نے جب ان نیولوں کو دیکھا تو پھر انہیں مارنے کو میرا دل نہیں چاہا۔ یہ نیولے مجھے بہت پسند آئے تو میں نے انہیں مارنے کے بجائے پالنے کا فیصلہ کرلیا۔

میں نے ایک موچی سے ان کے لیے پٹے بنوائے اور ان کی گردن میں ڈال دیے، یوں ان سے خطرے والا معاملہ ختم ہوگیا۔ ان نیولوں کے لیے میں نے اپنے گھر کی چھت پر مخصوص جگہ بنائی، جہاں وہ بہ آسانی سیروتفریح کر سکتے ہیں۔ خوراک میں انہیں روٹی اور گوشت دیا جاتا ہے، تاکہ وہ صحت مند رہیں۔ ان نیولوں کو میں 10 سال سے پال رہا ہوں، لیکن اب جاکر مجھے ان سے کچھ خطرہ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ یہ کسی شخص کو خود تو کچھ نہیں کہتے مگر گھر کے بچے انہیں تنگ کرتے ہیں، تو وہ کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ میرے خیال میں اب مجھے انہیں آزاد کر دینا چاہیے۔‘‘


موسم سرما اور مغربی ملبوسات کا ساتھ

$
0
0

فیشن کے رنگ توموسم کے ساتھ ہی بھلے لگتے ہیں۔ خاص طور پرنوجوان نسل تومغربی پہناؤں کوزیادہ ترجیح دیتی ہے۔

موسم سرما میں جہاں فیشن کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملبوسات کے رنگوں کا انتخاب منفرد ہوجاتا ہے، وہیں شارٹ اورلانگ کوٹ کے ساتھ جینز کی پتلون اورلانگ شوز شخصیت کو پرکشش بنانے میں اہم کرداراداکرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کالج اوریونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کے علاوہ فیشن کے ایونٹس میں شرکت کرنے والی خواتین کی بڑی تعداد بھی ان دنوں ہلکے اورشوخ رنگوں کے شارٹ باڈی اورلانگ کوٹ، جینز اورلانگ شوزمیں دکھائی دیتی ہے۔

اسی لئے ہمارے معروف ڈیزائنرز جہاں عروسی ملبوسات اور پارٹی ویئربناتے ہیں، وہیں کچھ ڈیزائنر شارٹ اورلانگ کوٹ بھی ڈیزائن کرتے ہیں جوخواتین کوسردی سے محفوظ رکھنے کے ساتھ فیشن کے نئے رجحانات کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔

حکومت کی نااہلی کا خلا فوج پر کر رہی ہے

$
0
0

چودھری پرویزالٰہی نے یکم نومبر 1945ء میں گجرات کے ایک معروف صنعت کار اور سیاسی گھرانے میں آنکھ کھولی۔

1967ء میں فارمین کرسچین کالج یونیورسٹی سے گریجوایشن کرنے کے بعد وہ والد چودھری منظورالٰہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لندن چلے گئے، جہاں انہوں نے 1971ء میں واٹفورڈ کالج آف ٹیکنالوجی سے انڈسٹریل مینجمنٹ میں ڈپلومہ کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد چودھری پرویزالٰہی نے اپنے کزن چودھری شجاعت حسین کے ساتھ خاندانی کاروبار سے منسلک ہو گئے۔ 1977ء میں پیپلزپارٹی کی طرف سے صنعتوں کو قومیانے (Nationalization) کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ میدان سیاست میں آ گئے، تاہم سیاست میں باقاعدہ طور پر شمولیت 1983ء میں چچا ظہور الہٰی کے قتل (1981ء) کے بعد کی۔

سابق ڈپٹی وزیراعظم نے ضلع کونسل گجرات کی چیئرمین شپ سے سیاست کی شروعات کی۔ 1985ء میں وہ پہلی بار آزاد امیدوار کی حیثیت سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہو کر پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ چودھری پرویزالٰہی کا شمار پاکستان کے ان چند سیاستدانوں میں ہوتا ہے، جو اب تک تمام جنرل الیکشنز میں کامیاب ہوئے۔ 1988ء، 1990ء، 1993ء، 1997ء، 2002ء، 2008ء اور 2013ء کے عام انتخابات میں وہ رکن صوبائی یا قومی اسمبلی منتخب ہوتے چلے آئے ہیں۔ اس دوران وہ وزیر برائے لوکل گورنمنٹ اور دیہی ترقی، ڈپٹی اپوزیشن لیڈر پنجاب، سپیکر پنجاب اسمبلی، وزیر اعلیٰ پنجاب، اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی اور ڈپٹی وزیراعظم کے عہدوں پر فائز رہے۔

چودھری پرویزالٰہی 1997ء تک میاں نواز شریف کی سربراہی میں قائم مسلم لیگ کے ساتھ جڑے رہے، لیکن پھر 1997ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پارٹی کی طرف سے مبینہ طور پر ان سے پنجاب کی وزارت اعلی کا وعدہ کیا گیا، جو پورا نہ ہونے پر دوریاں پیدا ہوئیں۔ 1999ء میں نواز حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو چودھری پرویزالٰہی اور شجاعت حسین کو نیب نے کرپشن کے الزامات پر حراست میں لے لیا، تاہم بعدازاں یہ الزامات ختم کر دیئے گئے۔ مشرف دور میں پاکستان مسلم لیگ (ق) نے جنم لیا، جس کی کمان چودھری برادران نے سنبھال کر مسلم لیگ نواز سے ہمیشہ کے لئے راہیں جدا کر لیں۔

سیاست میں اتار چڑھائو اپنی جگہ لیکن چودھری پرویزالٰہی نے بطور وزیر اعلیٰ، پنجاب کے باسیوں کے لئے چند مثالی کارنامے سرانجام دیئے، جن میں مفت تعلیم (پہلی جماعت سے میٹرک تک)، شرح خواندگی میں اضافہ، تعلیمی و طبی اداروں کا قیام، ٹریفک وارڈنز کا نظام اور ریسکیو 1122 نمایاں طور پر شامل ہیں۔ سیاست میں ’’روشن خیالی‘‘ کے فلسفے کے مقتدی رکن قومی اسمبلی نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ہمیشہ واضح موقف اپنایا۔

پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے صوبائی صدر کا سیاسی کیرئیر گو کہ تنقید اور اعتراضات سے مبرا نہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ان کے بغیر ادھوری ہے۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے ملک میں جاری موجودہ سیاسی اور معاشی بحرانوں پر سینئر سیاست دان کی رائے جاننے کے لئے ایک نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: وطن عزیز آج دہشتگردی، توانائی، لاقانونیت اور عالمی تنہائی سمیت متعدد بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ کیا اس صورتحال کا ادراک کیا جا رہا ہے اور اس سے نکلنے کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟

چودھری پرویزالٰہی: مسائل کا ادراک جن کا کام ہے، یعنی حکمران تو وہ بالکل بھی نہیں کر رہے۔ اور عالمی تنہائی کے مسئلہ پر قابو پانے کے لئے آرمی چیف دورے کر رہے ہیں۔ اگر اوباما بھارت گیا تو وہ چین کے دورے پر گئے، اس سے پہلے وہ امریکہ اور برطانیہ کے دورے بھی کر چکے ہیں۔ میاں نواز شریف تین بار وزیراعظم بن چکے ہیں، لیکن انہیں گارڈ آف آنر نہیں ملا، یہ اعزاز بھی آرمی چیف کے حصے میں آیا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب متعلقہ حکمران یا شخص کارکردگی نہیں دکھا پا رہا یا کام نہیں کر رہا تو کسی نے تو یہ جگہ پُر کرنی ہے۔ تو ظاہر ہے وہ جگہ آرمی نے لی ہوئی ہے۔

ایکسپریس: فوج کو اس معاملہ میں اپر ہینڈ ملنا صاف نظر آ رہا ہے تو اس میں ان کی مرضی شامل ہے یا یہ صورتحال خودبخود بن گئی ہے۔

چودھری پرویزالٰہی: اگر جگہ خالی ہے تو اس کو پُر کرنے کے لئے کسی کو پوچھنے کی ضرورت نہیں، وہ خود بخود ہو جاتی ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنا کام نہیں کیا۔ آپ دیکھ لیں کہ جب سے پاکستان بنا ہے، کتنی حکومتیں آئیں، چلے کوئی نالائق ہی سہی لیکن کبھی پٹرول کا بحران نہیں آیا۔ یہ واحد حکمران ہیں، جن کے دور میں پٹرول کا بحران آیا، انہیں بہت شوق ہے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام لکھوانے کا، انہوں نے پٹرول بحران میں یہ شوق بھی پورا کر لیا۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی کارکردگی، خاص طور پر پنجاب میں ان کا تیسرا دور اور مسلسل ساتواں سال ہے، چلیں وفاق میں تو پیپلزپارٹی کو یہ کہتے ہیں، لیکن خود تو اپنا حساب دیں، اسی لئے میں نے شہباز شریف کو یہ چیلنج کیا ہے کہ بھائی تمھارے دس سال میرے پانچ سال، آئو موازنہ کر لیتے ہیں۔

ہمارا جو ویژن تھا، اس میں ہم پنجاب کو پانچ، دس اور بیس سال کے بعد دیکھ رہے تھے، یعنی مستقبل کے پلان ہم نے تشکیل دیئے، اپنے دور میں ہم نے ایک سروے کرایا تو پتہ چلا کہ دس سال بعد سب سے زیادہ جو بیماری ہوگی وہ دل کی بیماری ہے، تو میں نے پی آئی سی کی صلاحیت کو دوگنا کر دیا، فوری طور پر ملتان اور فیصل آباد میں کارڈیالوجی ہسپتال بنائے، اسی طرح وزیرآباد جو ایک کروڑ کی آبادی کا ڈویژن ہے، وہاں بھی ہم نے کارڈیالوجی ہسپتال بنا دیا، لیکن ہماری حکومت ختم ہوگئی، اب ان کا حال دیکھ لیں کہ سات سال میں اس سنٹر کو چالو نہیں کیا جا سکا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ ڈویژن میں سات سال کے دوران ساڑھے چار ہزار اموات صرف دل کی بیماریوں کی وجہ سے ہو چکی ہیں۔

ہسپتال بنانے کے بجائے پیسا جنگلہ بس پر لگایا جا رہا ہے، مجھے بتائیں کہ حکومت کا یہ کام ہے کہ وہ لوگوں کو گجومتہ سے شاہدرہ چھوڑ کر آئے یا لے کر آئے، بھائی سارا پنجاب پڑا ہے، ترجیح کیاہے، اس وزیراعلیٰ کو یہ نہیں پتا کہ ترجیح کیا ہے؟ آپ چلے جائیں پی آئی سی، میں گزشتہ ماہ وہاں گیا تو ڈاکٹروں نے کہا جو آپ پیسا دے کر گئے تھے اس کے بعد کچھ نہیں ملا، ایک بیڈ پر تین تین مریض پڑے ہیں، آپریشن کی تاریخ ایک ایک سال بعد کی دی جا رہی ہے۔ دوسری طرف جنگلہ بس کے لئے ایک ارب روپے ماہانہ کی سبسڈی دی جا رہی ہے۔ جب پنڈی اور ملتان والی شروع ہو گی تو یہ سبسڈی تین ارب پر چلی جائے گی۔

ہم نے شعبہ تعلیم کی بہتری کے لئے انقلابی اقدامات کئے، لیکن انہوں نے ہمارے منصوبوں کو بند کر دیا۔ حالاں کہ دہشتگردی کو روکنے کا اصل حل لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے، کیوں کہ بنیاد یہ ہے۔ مدرسوں میں جو پڑھائی ہوتی ہے وہ کیا ہے، یہی ناںکہ وہاں کھانا، رہائش، پڑھائی ہر چیز فری ہوتی ہے تو سٹیٹ کیوں نہیں دے سکتی؟ مدرسے بند کرنا کوئی حل نہیں، ان کو کمپیٹ (مقابلہ) کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس: آپ کے دور میں پنجاب میں مدرسہ ریفارمز کے لئے کام شروع کیا گیا، لیکن وہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، اس کی وجوہات کیا تھیں؟

چودھری پرویزالٰہی: ہم نے تو مدرسہ ریفارمز کی تھیں، لیکن ہم نے ایسے نہیں کیا جیسے یہ کر رہے ہیں۔ ہم نے مدرسے والوں کو ساتھ ملایا، ان کے لوگ کون ہیں، قاری حنیف جالندھری، میں نے جو قرآن بورڈ بنایا یہ اس کے چیئرمین تھے، اس کے علاوہ تمام مکتبہ فکر کے علماء اس میں موجود تھے، یوں ان کو ساتھ لے کر کام کیا، ان سے فتوی یا حکم لے کر حکومت اس پر عملدرآمد کرتی تھی اور ان سے طے پایا تھا کہ اگر کوئی غلط تعلیم دے رہا ہے تو آپ نے ہمارے ساتھ جا کر انہیں پکڑنا ہے۔

پھر ہم نے انہیں کہا کہ اگر آپ ہمارا کورس پڑھائیں گے تو مفت کتابیں، فرنیچر اور گرانٹ بھی ملے گی، جس پر بہت سے مدرسے والوں نے ہمارا کورس پڑھایا۔ لیکن جہاں تک بات ان ( موجودہ حکومت) کے مدرسہ ریفارمز کی ہے تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ان کی نیت ہی ٹھیک نہیں، نیت اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ جو دہشتگرد ہے، اسے نواز شریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ نے پالا ہے، یعنی سیکٹیرین کلر، ان کے ساتھ مل کر رانا ثناء اللہ الیکشن لڑتے ہیں، ان کو پروٹوکول دیتے ہیں۔ کبھی بھی کوئی سٹیٹ کسی دہشتگرد تنظیم کو سپورٹ کرکے کامیاب نہیں ہو سکتی، دیکھیں اندرا گاندھی کے ساتھ کیا ہوا تھا اس نے سکھوں کی تنظیم بنائی تھی، پھر سکھوں نے ہی اسے مارا۔

ایکسپریس: کتنے فیصد مدرسوں کو اس دائرے میں لایا گیا؟

چودھری پرویزالٰہی : دیکھیں جی! بات یہ ہے کہ فیصد کی بات اس وقت ہوتی ہے، جب کام مسلسل چلتا رہے، انہوں نے اس کا تسلسل ہی توڑ دیا۔ میں آپ کو بتائوں کہ ہمارا تعلیم کا جو منصوبہ تھا وہ پندرہ سال کا تھا، لیکن پانچ سال بعد ہی مانیٹرنگ سسٹم کو تعلیم سے ہٹا کر گندم کی خریداری پر لگا دیا، تو پھر وہ خراب تو ہونا تھا۔

ایکسپریس: پٹرول بحران کسی ایک شخص یا ادارے کی غفلت کا نتیجہ ہے یا حکومت قصوروار ہے؟

چودھری پرویزالٰہی : ان کو اب یہ ماڈل تبدیل کر لینا چاہیے، یہ بہت پرانا ہو چکا ہے کہ بیورو کریسی کو ذبح کر کے خود نکل جائو۔ یہاں کوئی چیز ہوتی ہے تو ڈی پی او اور ڈی سی او معطل، اور یہ اب تک یہی کام کر رہے ہیں۔ اپنی غلطی کی اصلاح نہیں کرنی بلکہ اس کو کسی اور کے گلے ڈال دیتے ہیں، اور یہی کچھ پٹرول بحران میں بھی ہوا۔

ایکسپریس: اوباما کی طرف سے صرف بھارت کا دورہ کرنے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ حالاں کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہم امریکا کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں؟

چودھری پرویزالٰہی : دیکھیں جی! دو تین چیزیں ہیں، ایک تو ہمیں خطے میں کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا، امریکہ ہمیں نظرانداز نہیں کر سکتا، کیوں کہ خطے میں ہماری پوزیشن ایسی ہے۔ افغانستان میں اگر استحکام چاہیے تو وہ پاکستان کے بغیر نہیں ہو سکتا، بھارت کے ساتھ ہمارا کشمیر کا ایشو ہے، اور اس کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔

تیسری جو بہت بڑی زمینی حقیقت ہے کہ بھارت ہم سے بہت بڑا ملک ہے، جس میں امریکا کا بزنس انٹرسٹ ہے، امریکا کو بڑی مارکیٹ مل رہی ہے تو بھارت کو نئی ٹیکنالوجی مل رہی ہے۔ اس حوالے سے وہ ظاہر ہے کہ ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ پھر ایسے معاملات چلا کر امریکا چین کے خلاف ایک ’’پٹھہ‘‘ تیار کر رہا ہے۔ اور آخری بات یہ ہے کہ اگر امریکہ ہمارے ساتھ ایسا کر رہا ہے تو یہ حکمرانوں کی ناکامی بھی ہے، انہیں پہلے سے ہی چیزوں کو کائونٹر کرنا چاہیے تھا۔

ایکسپریس: فوجی عدالتوں کے بارے میں آپ کی جماعت کا کیا موقف ہے؟ تقریباً تمام جماعتوں نے ایوان میں تو حق میں ووٹ دیا لیکن بعد میں اکثر جماعتوں کے اراکین تنقید کرتے بھی نظر آ رہے ہیں؟

چودھری پرویزالٰہی : ہم نے تو ایوان میں سب جماعتوں نے جو بات کی اس پر عمل کیا ہے، اب یہ کام حکومت کا ہے کہ وہ کس طرح اور کب اس پر عملدرآمد کرتی ہے۔

ایکسپریس: نواز حکومت اور فوج کے تعلقات میں کشیدگی کی خبریں زبان زد عام رہیں اور اب بھی ہیں۔ آپ کے مطابق تعلقات کی کشیدگی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

چودھری پرویزالٰہی : یہ ذمہ داری نواز اور شہباز شریف پر عائد ہوتی ہے، یہ جو لوگ جدہ میں 8 سال بیٹھ کر بھی ٹھیک نہیں ہو سکتے ان کو میں اور آپ ٹھیک نہیں کر سکتے۔ اب خانہ کعبہ جا کر تو کوئی جھوٹ نہیں بولتا لیکن یہ وہاں بھی کہتے رہے کہ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں، لیکن پھر پانچ سال اور سات سال کے معاہدے کی بات کرتے رہے اور اب جو کرائون پرنس مقرن بنے ہیں، انہوں نے لہرا کر معاہدہ دکھایا کہ یہ دس سال کا تھا۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے اب کی بار حکومت اور فوج کی تعلقات کی کشیدگی کی ایک بڑی وجہ مشرف بنے، آپ کیا کہیں گے؟

چودھری پرویزالٰہی: بات یہ ہے کہ ان کے اندر اصلاح کا پہلو نہیں ہے، حالاں کہ بندہ وقت اور حالات سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ لیکن جب آپ نے ایک ہی تہیہ کر رکھا ہے کہ میں جب بھی آئوں گا تو لوگوں کی خدمت کے بجائے بدلے لوں گا، تو وہ بدلے لے رہے ہیں۔ کبھی جنرل مشرف کی شکل میں فوج سے لے رہے ہیں تو کبھی دیگر لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ایکسپریس: بحرانوں میں گھری موجودہ حکومت آپ کو کہاں تک چلتی نظر آ رہی ہے؟ یعنی کیا یہ اپنی آئینی مدت پوری کرے گی؟

چودھری پرویزالٰہی : اس حکومت کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، کیوں کہ سب سے زیادہ انہیں خود جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ ان کو کس نے کہا تھا کہ یہ چوتھی بار فوج سے لڑائی کریں۔

ایکسپریس: آپ اپنے بیانات میں اپنے دور حکومت کے عوامی منصوبوں کا ذکر کرتے ہیں، اس کے باوجود 2008 ء اور 2013 ء کے عام انتخابا ت میں عوام نے آپ کی جماعت کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیئے ؟اگر دھاندلی بھی ہوئی ہے تو یقیناً وہ سو فیصد تو نہیں ہوئی ہو گی؟کیا آپ نے اقتدار کا بھر پور دور گزارنے کے بعد دو انتخابات ہارنے کی وجوہات کا تجزیہ کیا؟

چودھری پرویزالٰہی : دیکھیں! پہلی بات تو یہ ہے کہ 2008ء کے الیکشن میں ہمیں ووٹ کم نہیں بلکہ بہت پڑے ہیں، 2008ء کے عام انتخابات کا رزلٹ دیکھیں، جس میں ووٹ حاصل کرنے والی دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ ق ہے۔ نواز شریف تو پنجاب میں دوسرے نمبر پر بھی نہیں تھے، وہ پیپلزپارٹی تھی، یہ تیسرے نمبر پر تھے۔

ان کو تو محترمہ کی شہادت کا فائدہ ملا، لیکن اب لوگ ہمارے کاموں کو یاد کر رہے ہیں کہ جی! مشرف صاحب والا دور اچھا تھا، اس زمانہ میں ترقی ہوئی، مہنگائی، توانائی جیسا کوئی بحران نہیں تھا۔ اب جرائم (چوری، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان وغیرہ) کی شرح کو دیکھ لیں جو تین سو گنا بڑھ گئی ہے اور یہ پولیس کی اپنی رپورٹ ہے۔ ہمارے دور میں ہر سال پنجاب کے اندر دس لاکھ ملازمتوں کو مواقع پیدا ہوتے تھے، جی ڈی پی کی شرح 8 فیصد تک پہنچ گئی تھی، جو آج پنجاب میں ساڑھے چار فیصد ہے۔

ایکسپریس: نائن الیون کے واقعہ کے وقت آپ کی حکومت تھی، تو آپ نے اس وقت کے پریشر کو کس طرح ہینڈل کیا، حکمت عملی کیا بنائی گئی؟ اور وہ کن حوالوں سے موجودہ حکمت عملی سے مختلف تھی؟

چودھری پرویزالٰہی : اس میں ہم نے سب سے پہلے یہ حکمت عملی بنائی کہ دہشتگرد کس راستے سے آتا ہے، تو سٹڈی کرنے کے بعد پتا چلا کہ وہ دیہات کی سڑکیں ہیں، کیوں کہ یہاں توجہ کم ہوتی ہے۔ تو ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ہم 5 سو پٹرولنگ پوسٹیں بنا دیں تو پورا پنجاب کور ہو سکتا ہے، جو کشمور سے لے کر اٹک سے آگے تک بنتا ہے۔

تو سوا تین سو پٹرولنگ پوسٹیں ہم نے بنا دیں، جس میں ہم نے پڑھے لکھے لوگوں کو شامل کرکے کمانڈوز ٹریننگ دلوائی، ان کو مانیٹرنگ اور پٹرولنگ کے لئے ایک ایک گاڑی، سپیشل الائونس دیا۔ انہیں قیام و طعام کی سہولت بھی پٹرولنگ پوسٹ کے اندر دی گئی، کیوں کہ یہ لوگ خراب اس وقت ہوتے ہیں، جب شام کو جواء وغیرہ کھیلنے باہر جاتے ہیں، اس میں ہم نے آرمی ماڈل کو فالو کیا، جس کے نتائج آپ کو کرائم ریٹ میں واضح کمی کی صورت میں نظر آئیں گے۔

پھر یہ لوگ فوری ریسپانڈ کرتے ہیں، لیکن شہباز شریف نے آتے ہی ’’اچھا‘‘ کام کیا کہ ان کا پٹرول اور الائونس بند کر دیا، اب یہ دس ہزار کی فورس ہے، جس کو تعلیمی اداروں میں دہشتگردی کو روکنے کے لئے موثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے، یعنی ہر پٹرولنگ پوسٹ اپنے علاقوں میں موجود سکولوں کی مانیٹرنگ اور حفاظت کر سکتی ہے۔ لیکن انہوں نے آتے ہی ان کا پٹرول بند کر دیا تو وہ اب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔

گاڑیاں پرانی ہو چکی ہیں، جو چل نہیں سکتیں۔ پھر ان پوسٹوں کے ذریعے دیہات میں گائے بھینس کی چوری کے واقعات بھی رک گئے، کیوںکہ جب کوئی مویشی لے کر گزرتا تو اس سے پوچھ گچھ ہوتی کہ وہ اسے کہاں سے لے کر آیا ہے، اگر خریدی ہے تو کوئی رسید دکھائے؟ پھر ٹریفک وارڈنز کو دیکھ لیں، ان کو ہم نے ٹریننگ کے ساتھ چھوٹے پسٹل بھی دیئے،کیوں کہ کرائم سین پر سب سے پہلے جس بندے سے واسطہ پڑنا ہے وہ سڑک پر کھڑا وارڈن ہے، لیکن انہوں نے ان سے پسٹل بھی چھین لئے۔

ایکسپریس: آپ کے دور حکمرانی میں قرضوں کی معافی کا میگا سکینڈل سامنے آیا، سٹیٹ بنک آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق 2000سے 2006ء تک 125 بلین روپے کے قرضے معاف کئے گئے جبکہ 1985سے1999تک رہنے والی تین حکومتوں (جونیجو، بے نظیر، نواز شریف) کے دور میں صرف 30 بلین روپے کے قرضے معاف ہوئے۔ آپ کیا کہیں گے؟

چودھری پرویزالٰہی : بنکوں کے قرضے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا، اسٹیٹ بنک جانے اور وہ جانیں۔ حکومت نے کوئی قرضے معاف نہیں کئے، یہ غلط اعداد و شمار ہیں۔ ہمارے خلاف قرضوں کے حوالے سے جو کام کیا گیا، وہ نواز شریف نے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے ذریعے کروایا، تاکہ ہم آئندہ الیکشن نہ لڑ سکیں۔

دیکھیں! امریکہ میں بھی جو بنک ہے وہ دیکھتا ہے کہ میری ساری رقم ڈوب جائے یا متعلقہ انڈسٹری کو تھوڑا ری شیڈول کردوں تاکہ یہ کھڑی ہو جائے اور میرا پیسا واپس مل جائے۔ اسٹیٹ بنک نے یہ پالیسی بنائی تھی ہمارے خلاف شہباز شریف سمیت متعدد لوگ عدالتوں میں گئے، اور افتخار چودھری کی موجودگی میں گئے، لیکن عدالتوں نے کہا کہ ثبوت لائیں جو جج خصوصی طور پر ہمارے کیس کے لئے تھا، انہوں نے بھی لکھا کہ الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔

ایکسپریس: دھرنوں کے موسم میں کچھ افواہیں یہ گردش کرتی رہیں کہ علامہ طاہر القادری نے جب دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو آپ نے انہیں روکنے کی کوشش کی، جس پر قائد عوامی تحریک نے آپ سے دھرنوں میں بندے لانے کا مطالبہ کیا لیکن آپ وہ پورا نہ کر سکے؟

چودھری پرویزالٰہی : اس دھرنے میں دو اڑھائی ہزار ہمارا بندہ تو پہلے ہی موجود رہتا تھا، بلکہ ہم تو ان کے بندوں کا بھی پہرہ دیتے تھے۔

ایکسپریس: لاہور ہائی کورٹ میں سیاست دانوں کے بیرون ملک اثاثوں سے متعلق ایک نہایت اہم کیس زیر سماعت ہے، ان سیاستدانوں میں آپ کا بھی ذکر ہے۔ کیا واقعی آپ کے اثاثے بھی بیرون ملک ہیں؟

چودھری پرویزالٰہی : ہمارے لئے یہ بڑی اچھی بات ہے، (قہقہہ لگاتے ہوئے) بیرون ممالک میں اگر ہمارے اثاثے ہیں تو ہمیں بھی بتا دیں تاکہ ہم وہ لے سکیں۔

ایکسپریس: حکومت نے غیرملکی بنکوں میں پڑا پاکستانی سرمایہ واپس لانے کا اعلان کیا ہے، کیا یہ ممکن ہے؟ لوٹی رقم کی واپسی کے ساتھ ملوث افراد کا احتساب ممکن ہے؟

چودھری پرویزالٰہی : میرے خیال میں یہ سوال آپ عمران خان سے پوچھیں وہ زیادہ اچھے طریقے سے آپ کو اس کا جواب دے سکتے ہیں۔ اور وہ یہ جواب دے بھی چکے ہیں کہ ’’اسحاق ڈار صاحب سب سے پہلے اپنے پیسے باہر سے واپس لائیں‘‘

ایکسپریس: عمران خان گزشتہ جنرل الیکشن کو آر اوز کا الیکشن قرار دیتے ہوئے اس میں تاریخی دھاندلی کے دعوے کر رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں انتخابی دھاندلی کا ذمہ دار کون ہے؟

چودھری پرویزالٰہی : اصل ذمہ دار سابق چیف جسٹس افتخار چودھری ہیں اور ماسٹر مائنڈ خلیل رمدے ہیں کیوں کہ آر اوز انہوں نے لگائے تھے۔ خلیل رمدے نے جی او آر میں بیٹھ کر آر اوز تعینات کئے اور پھر جو ٹریبونل کے جج بنے، وہ بھی رمدے نے لگائے تاکہ فیصلے ہی نہ ہو سکیں۔ 77ء کے بعد پاکستان میں یہ سب سے بڑی انتخابی دھاندلی تھی، جس میں مینڈیٹ کو چرایا گیا۔

ایکسپریس: انتخابی دھاندلی کو کس طرح سے ثابت کر کے ملوث افراد کو سزا دی جا سکتی ہے؟

چودھری پرویزالٰہی : اس کا بہترین حل عمران خان کا مطالبہ ہے، یعنی سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن سے اس مسئلہ کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام سے بلی تھیلے سے باہر آ جائے گی۔ دیکھیں! اتنا تو آراوز نے مجھے بھی بتایا کہ چودھری صاحب آدھے آدھے تھیلے ہمیں ملے اور اعتراض پر کہا گیا کہ جو کچھ مل رہا ہے، خاموشی سے لے لو۔

ایکسپریس: جنرل ایوب سے لے کر مشرف تک آپ کے طرز سیاست پر جمہوریت پسندی کے بجائے آمریت کے سائے چھائے رہنے کا تاثر عام ہے۔ مشرف دور میں آپ انہیں سوبار باوردی منتخب کروانے کے دعوے بھی کرتے رہے۔ کیا آپ اپنے اس سیاسی رویے کو درست سمجھتے ہیں؟

چودھری پرویزالٰہی : اس کا بہترین جواب ہماری تاریخ میں پوشیدہ ہے۔ ہماری تاریخ یہ ہے کہ 70ء کے الیکشن میں مغربی پاکستان سے چودھری صاحب اور سردار شوکت صاحب پیپلزپارٹی کے خلاف جیتے تھے، اس کے بعد بھٹو کے دور میں ہماری زمینیں بھی نیشنلائز ہو گئیں، ہمارا سب کچھ چلا گیا، میں، میرے والد اور شجاعت صاحب 1974ء میں پہلی بار جیل گئے، دو ماہ کوٹ لکھپت رہے، بڑے چودھری صاحب (ظہورالٰہی ) چار سال بھینس چوری جیسے کیسز میں جیلوں میں رہے، ہمارے خاندان پر 118 کیسز بنائے گئے۔

اس کے بعد یو ڈی ایف (یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ) ہمارے گھر میں بنا، چودھری صاحب اس وقت بھی جیل میں تھے۔ پی این اے (پاکستان قومی اتحاد) ہمارے گھر میں بنا، جس میں، میں اور چودھری شجاعت پیش پیش تھے، ہم 77ء میں بھی امیدوار تھے، اور اس وقت بھی جیل گئے۔ اسی گھر میں جس میں آپ بیٹھے ہیں، یہاں لیاقت بلوچ، جاوید ہاشمی، فرید پراچہ اور مجیب الرحمن شامی صاحب چھپے رہے۔ اس وقت مونس کی والدہ نے لاہور میں ایک جلوس کی قیادت کی، جس میں ان کی آنکھ پر آنسو گیس اور ڈنڈا لگا، جس سے بننے والا زخم پانچ سال بعد ٹھیک ہوا۔

ایکسپریس: مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر آپ نے الگ پارٹی بنا لی، میاں برادران کی جلاوطنی سے واپسی پر ایک بار پھر ن لیگ سے جڑنے کی خبریں آئیں اور کہا جاتا ہے کہ چودھری شجاعت کسی حد تک راضی تھے لیکن آپ نے سخت گیر رویہ اختیار کیا، وجوہات کیا ہیں؟

چودھری پرویزالٰہی : دیکھیں! ہم دس بارہ سال اکٹھے رہے ہیں اور اگر ہم اتنے عرصے میں ایک دوسرے کو نہیں سمجھ سکے تو پھر ہمیں یہ کام چھوڑ دینا چاہیے۔ ہم انہیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کہتے کیا ہیں اور کرتے کیا ہیں۔ مجید نظامی صاحب نے بہت کوشش کی، تو چودھری شجاعت نے کہا کہ لو جی نظامی صاحب ہماری طرف سے آپ صدر اور جائیں نواز شریف سے پوچھ آئیں، لیکن پھر وہ واپس ہی نہیں آئے۔

ایکسپریس: اس وقت پارلیمنٹ میں 3 مسلم لیگیں ہیں، کیا مسلم لیگ کے اتحاد کا کوئی امکان ہے؟ اگر نہیں تو وجوہات کیا ہیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟

چودھری پرویزالٰہی : ایک موٹی سی بات یہ ہے کہ آپ ان تینوں کو سامنے رکھیں اور جس جس کی حکومت رہی ہے، اس کی کارکردگی جانچ لیں، آپ کو پتہ چل جائے گا کہ حق کس کا زیادہ بنتا تھا، اس میں آپ سیاسی جدوجہد، تجربہ اور ڈلیوری دیکھ لیں۔ باقی تو کہتے ہیں کہ ہم آ گئے تو یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے، لیکن ہم نے تو کر کے دکھا دیا۔ جو اتحاد کی آپ نے بات کی تو اس میں یہ ہے کہ مائنس شریف فیملی مسلم لیگوں کا کسی سطح پر کوئی اتحاد بن سکتا ہے۔

ایکسپریس: موجودہ پنجاب حکومت کی پالیسیوں سے کسان غیریقینی صورت حال کا شکار ہیں، یہ ایک تاثر ہے، آپ کیا کہیں گے؟

چودھری پرویزالٰہی : درحقیقت مسلم لیگ ن کی حکومت کسان دشمن ہے، اب چاول، کپاس کو دیکھ لیں، کسان کو لاگت بھی پوری نہیں مل سکی، اور اب آئندہ گندم اور گنا کے کاشتکاروں کے ساتھ یہی سلوک ہونے جا رہا ہے۔ تواس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہمیں بھارت سے مقابلہ کرنا ہے۔ بھارت اپنے کسانوں کو 15 بلین ڈالر کی سبسڈی دے رہا ہے۔

امریکہ 22 بلین اور چاپان 40 بلین ڈالر کی سبسڈی دے رہا ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے، لیکن یہ ایک پیسے کی سبسڈی نہیں دے رہے۔ ہمارے دور حکومت میں کسان بجلی کا آدھا بل دیتا تھا، اسے ٹیل تک پانی ملا اور پختہ کھالے بنائے، ساڑھے 12 ایکڑ پر ٹیکس معاف کیا، لیکن شہباز شریف نے دوبارہ لگا دیا۔ پانی چوری کی سزا دو سال کرتے ہوئے مانیٹرنگ سسٹم بنایا، جس سے چوری رکی، پانی بڑھا اور مالیا بھی بڑھ گیا۔

ایکسپریس: اطلاعات کے مطابق کالاباغ ڈیم کے حوالے سے بھی آپ نے کام کیا، اس کو بنانے پر کوئی اتفاق رائے ہو سکتا ہے؟

چودھری پرویزالٰہی : سب سے پہلے آپ دیکھیں کہ اس کی اہمیت کیوں ہے؟ دنیا کا کوئی ملک 18 روپے فی یونٹ بجلی دے کر کبھی ترقی نہیں کر سکتا، یہ صرف پاکستان میں ہو رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں پانچ، سری لنکا ساڑے چار، بھارت میں پانچ روپے اسی پیسے اور ہم 18 روپے فی یونٹ لے رہے ہیں۔ یہ سب جھوٹ بولتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم بننے سے کسی ایک صوبے کو فائدہ ہوگا اور کوئی دوسرا ڈوب جائے گا۔ سب سے زیادہ پانی سندھ کو چار بلین ایکڑ فٹ ملے گا، جس سے تھر کا سارا علاقہ آباد ہو جائے گا، یہ جتنے بڑے جاگیر دار ہیں، یہ لوگ ڈیم نہیں بننے دے رہے کیوں کہ وہاں تو اصلاحات ہوئی ہی نہیں، یہ تو صرف پنجاب میں ہوئی تھیں۔

پھر کے پی کے کو 3 ملین ایکڑ پانی ملے گا، اسی طرح بلوچستان اور پنجاب کو 2.2 ملین ایکڑ پانی ملے گا، جس سے سارا بنجر علاقہ ، چولستان آباد ہو جائے گا اور اڑھائی روپے فی یونٹ کی بجلی بھی عوام کو میسر آئے گی۔ کالاباغ ڈیم بنانے پر اتفاق کی جو آپ نے بات کی تو اس کے لئے سب سے پہلی چیز نیت ہے، اگر اُس وقت ضیاء الحق کی نیت ہوتی تو یہ بن چکا ہوتا، جہاں بھی دنیا میں ڈیم بنے ہیں وہاں جھگڑے ہوئے ہیں، لیکن قومی مفاد میں انہوں نے ڈیمز بنائے ہیں۔ ہمارے دور حکومت میں، ہم نے بھی کالاباغ ڈیم بنانے کی کوشش کی۔

ہوا یوں کہ این ایف سی ایوارڈ میں سندھ نے یہ شرط لگائی کہ جو چیز جہاں پیدا ہوتی ہے، اس کے استعمال کا پہلا حق اسے ملنا چاہیے، آبادی کا فارمولہ ختم کر دیا جائے۔ مگر میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہماری آبادی زیادہ ہے، تو ہمیں زیادہ سکول، ہسپتال اور فورس چاہیے۔ دوسرا بجلی اگر آپ کے ہاں پیدا ہوتی ہے تو وہ استعمال تو زیادہ پنجاب میں ہوتی ہے، جس کی ادائیگیاں کی جاتی ہیں، آپ لوگ تو بل بھی نہیں دیتے۔ اسی طرح پنجاب سے گیس اور بجلی کی مد میں ملنے والا ریونیو دیکھ لیں، یہ کتنا زیادہ ہے۔

مشرف صاحب نے پھر مجھے کہا کہ اب دوسال رہ گئے ہیں تو اس معاملہ پر نظرثانی کر لیں، میں نے کہا ٹھیک ہے۔ ہم سب جب مل کر بیٹھے تو میں نے کہا تینوں چیف منسٹرز کالاباغ ڈیم بنانے پر دستخط کر دیں، میں آپ کی بات مان لیتا ہوں، پانی بھی ان کو زیادہ دیں، بجلی بھی دیں، کیوں کہ اس سے ملک کو تو بجلی ملے گی، لیکن پھر کیا، وہ سب بھاگ گئے۔ مگر جب پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو نواز شریف نے اپنی تیسری باری لینے کے لئے ان کی بات مان کر پنجاب کو کنگال کر دیا، اب دیکھیں ان کی صنعتیں چل رہی ہیں، لیکن ہماری بند ہیں۔ آئینی ترمیم کرکے یہ سب کچھ اپنی باری کے لئے کیا گیا۔

امرتسر سے لاہور۔۔۔۔ براستہ دہلی

بھارتی پنجاب کے وزیراعلی کو 4 سو قیدیوں کی رہائی کا تحفہ

لاہور سے دہلی بس سروس ہمارے دور میں شروع کی گئی، اس وقت مجھے سکھوں کا ایک وفد ملنے آیا کہ ہمیں ایک مسئلہ درپیش ہے، جس کا حل صرف آپ کے پاس ہے، پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ بس سروس کے ذریعے ہمیں پاکستان آنے کے لئے پہلے امرتسر سے دہلی جانا پڑتا ہے اور پھر وہی گاڑی گھر (امرتسر) کے سامنے سے گزر کر لاہور جاتی ہے۔ آپ انہیں کہہ کر امرتسر سے سیدھا لاہور آنے کا بندوبست کروا دیں۔ میں نے کہا ’’یار! تسی مائنڈ نہ کرنا۔۔۔۔ فیر تاں تُساں سکھاں والا کم ہی کیتا ناں‘‘ پھر میں بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کی دعوت پر فیملی سمیت وہاں گیا، تو میں نے انہیں کہا کہ ہمیں یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے بلکہ ہمیں ایک سڑک بنانی چاہیے، ہم ننکانہ صاحب کو ضلع ڈکلیئر کرتے ہیں،کیوں کہ یہ آپ کے لئے ایک مقدس جگہ ہے اور آپ اپنی طرف سڑک بنائیں۔

کیپٹن امریندر سنگھ نے مجھے کام کرنے کی تھوڑی یقین دہائی کرائی،اُس وقت امریندر سنگھ کا برادر نسبتی نٹور سنگھ وزیر خارجہ تھا، وہ بھی ہمیں اچھی طرح جانتا تھا، کیوں کہ وہ یہاں ہائی کمشنر رہا تھا۔ میں نے اسے بھی کہا کہ یہ کام کر دیں، تو اس نے کہا کہ میں نے وزیراعظم کے ساتھ آپ کی میٹنگ رکھوائی ہے، آپ وہاں بات کرنا، میں بھی وہیں ہوں گا۔ اچھا۔۔۔ اب جب ہم وزیراعظم سے ملے تو میں نے انہیں ایک تصویر دکھائی، جو پاکستان میں رہنے والے ان کے ایک دوست کی تھی، جس کے بعد وہ میرے ساتھ تھوڑا کھل کر گپ شپ کرنے لگے، جس دوران میں نے سکھوں کا مسئلہ بھی بیان کر دیا، جس پر انہوں نے نٹور سنگھ کو یہ مسئلہ حل کرنے کی ہدایت کر دی۔

واپسی پر انہوں نے ایک گوردوارے پر بھی ہمارے استقبال کا اہتمام کر رکھا تھا، جہاں موجود لوگوں نے مجھے ایک اپیل کی کہ گزشتہ 8 سال سے ہمارے چار سوبندوں کو آئی ایس آئی نے جاسوس سمجھ کر پکڑ رکھا ہے، حالاں کہ وہ عام آدمی ہیں، وہ سب تو باہر کے ملک جانے کی خواہش میں ایجنٹوں کا نشانہ بن گئے، جنہوں نے پیسے لے کر انہیں ایران کے بارڈر پر چھوڑ دیا، جہاں سے آئی ایس آئی نے انہیں اٹھا لیا۔ اچھا جو افراد پکڑے گئے تھے، ان کے گھر والے بھی وہاں موجود تھے، جو بڑی دردمندانہ اپیل کر رہے تھے، تو میں نے ان سے وعدہ کیا کہ اگر یہ لوگ بے گناہ ہیں، تو میں انہیں چھڑوائوں گا۔ پھر یہ ہوا کہ برطانیہ کے وزیرخارجہ جیک سٹرا نے مجھ سے برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں سے ووٹ لے کر دینے کی بات کی، تو میں نے برطانیہ میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ان کا کام کروا دیا۔

پھر میں نے اسے کہا کہ ایک کام ہمارا بھی کر دیں کہ آپ بھارت جائیں گے تو انہیں کہیں کہ لاہور دہلی بس سروس کے روٹ پر نظر ثانی کریں، تو اس نے کام کرنے کا وعدہ کر لیا۔ اچھا۔۔۔۔ جب وہ جیت گیا تو میں نے اسے مبارکباد دی کہ دیکھ لیں ہم نے آپ کا کام کر دیا، تو اس نے جواب میں کہا کہ وہ بھی میرا کافی کام کر آئے ہیں، لیکن انہیں (بھارتی حکومت) سکھوں کے حوالے سے پاکستان پر شکوک و شبہات ہیں۔ بعدازاں نٹور سنگھ یہاں پاکستان آیا تو اس نے مجھے کہا کہ آپ کے کہنے پر بس والا کام کر دیا گیا ہے۔ پھر امریندر سنگھ بھی میری دعوت پر پاکستان آیا، تو میں نے مشرف صاحب کو کہا کہ اس نے بھارت میں میرا بڑا استقبال کیا۔

مشرف صاحب نے کہا کہ اچھا تو پھر اسے کیا تحفہ دیں، میں نے ایک دو پُرانے پسٹل دیکھے ہیں۔ میں نے انہیں کہا آپ پسٹل کو چھوڑیں ان کے چار سو قیدی ہیں، ان کا پتہ کروا دیں۔ میرے کہنے پر انہوں نے پتہ کروانے کی حامی بھر لی۔ پھر جاننے پر معلوم ہوا کہ وہ چار سو بندے بے گناہ ہیں، تو میں نے مشرف صاحب کو کہا کہ آپ انہیں ان چار سو بندوں کی رہائی کا تحفہ دے دیں۔ پھر جب امریندر سنگھ آیا تو میں نے مشرف صاحب کو کہا کہ آپ کی مہربانی ہے، جو آپ نے بندوں کی رہائی کا فیصلہ کیا ہے تو ایک اور مہربانی کر دیں کہ یہ بندے بھارتی پنجاب کے وفد کے ساتھ ہی واپس چلے جائیں، جس پر وہ مان گئے تو پھر ہم سب انہیں واہگہ بارڈر پر چار سوبندوں سمیت چھوڑنے گئے۔ آپ یقین کریں اس وقت ان سب کی آنکھیں نم تھیںکہ میں نے ان کا اتنا بڑا کام کر دیا۔

ہاکی، دلیپ کمار، مہدی حسن

میں نے سکول کے زمانے تک ہاکی کھیلی ہے اور اسے پسند بھی کرتا ہوں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کرکٹ پسند نہیں وہ بھی بہت پسند ہے، لیکن کھیلی صرف ہاکی ہے۔ غیرسیاسی لوگوں کی بائیوگرافی پڑھتا ہوں، تاکہ ان کے تجربات سے سیکھ سکوں۔ فارغ وقت اپنی فیملی کے ساتھ گھر میں گزارنا پسند کرتا ہوں۔ وقت ملے تو فلم اور ڈرامہ دونوں دیکھ لیتا ہوں۔ پسندیدہ اداکار دلیپ کمار جبکہ گلوکار مہدی حسن ہیں۔ پاکستانی گائیگی پسند ہے۔

اڈیالہ جیل کے دن ۔۔۔۔!

پیپلزپارٹی کے دور میں جب مجھے قید ہوئی تو وہاں ہم سب ساتھ تھے۔ شہباز شریف کمر درد کا بہانہ بنا کر باہر چلے گئے، لیکن ان کا بیٹا حمزہ ہمارے ساتھ ہی رہا۔ 6 ماہ ہم اڈیالہ جیل میں رہے، جہاں بے نظیر نے ہم پر بڑی سختی کی اور آئی بی کا ایک بندہ وہاں تعینات کیا گیا تاکہ ہمیں کوئی شخص نہ مل سکے، لیکن ہم نے اسی بندے کے ساتھ تعلق بنا لیا اور پھر وہ ویسے رپورٹ بناتا جیسے ہم کہتے تھے، یعنی اس نے ہمیں فلاں شخص سے ملنے دیا نہ فلاں سے، یوں ہم اس سے اپنا سارا کام لیتے رہے۔ جیل میں جو کھانا ہمارے لئے آتا تھا، اس کا مینیو حمزہ طے کیا کرتا تھا۔

یمن سُلگ رہا ہے

$
0
0

20 اور 21 جنوری کے دو روز یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی اور ان کے پشتی بان مغرب پر خاصے بھاری رہے اور بالیقین ان حالات کے سبک رو ہونے کی کوئی پیش گوئی فی الحال کی بھی نہین جا سکتی۔

باغیوں نے دارالحکومت صنعا میں صدارتی محل پر قبضہ کر لیا ہے، صدر عبد ربّہ خوش بخت نکلے کہ ان کے محافظ انہیں بچا لے گئے ورنہ باغیوں کے تیور کچھ اچھے نہ تھے۔ ان کی وزیراطلاعات نادیہ الثقف ان کے محفوظ ہونے کی اطلاع دیتی ہیں۔ صدارتی حفاظتی دستے کے لیڈر کمانڈر صالح الجمالانی نے اس کارروائی کو بغاوت قرار دیا ہے۔ اِدھر صنعا میں یہ صورتِ حالات جاری تھی اور اُدھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس نے فوری طور پر اس کی مذمت کر دی۔

اجلاس کے شرکاء نے فریقین کے مابین مذاکرات پر زور دیا اور کہا کہ صدر عبد ربّہ ہادی منصورکی صدارت صد فی صد جائز ہے۔  دنیا میں کہیں بھی ایسی یا ایسی صورتِ حال کے مماثل کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو واشنگٹن کو پسو پڑ جاتے ہیں کہ کوئی امریکی نہ مارا جائے سو وہ یمن میں اپنے سفارت خانے کو بند کرنے پر غور فرما رہا ہے۔

باغیوں کے سردار عبدالمالک الحؤثی نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ سیاسی اصلاحات کرو ورنہ صورتِ حال کا حلیہ مزید بگڑ سکتا ہے، کتنا بگڑ سکتا ہے؟ وہ کہتے ہیں اس کی کوئی حد متعین نہیں۔ حؤثی گروپ کے ٹی وی نیٹ ورک پر انہوں نے ایک طویل تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے منظور کردہ امن سمجھوتے پر عمل درآمد تیز تر کیا جائے۔ اب انہوں نے یہ مطالبہ کر تو لیا لیکن حکومت کے لیے یہ لوہے کا چنا چبانا ایسا آسان نہیں کیوں کہ اس امن سمجھوتے پر عمل درآمد ہو جائے تو ’’باغی‘‘ بہت مضبوط پوزیشن میں آ جاتے ہیں اور وہ کمیٹی جو، یمن کے لیے نیا آئین مرتب کر رہی ہے، اس کا اب تک کا سارا کیا دھرا چوپٹ ہو جاتا ہے۔

خیر! صدر ہادی ’’باغیوں‘‘ سے مذاکرات کر رہے ہیں تاکہ  جنگ بندی کی کوئی صورت نکل آئے۔ پیر کے روز دارالحکومت مکمل طور پر حؤثی ’’باغیوں‘‘ کے قبضے میں تھا اور انہوں نے شہر میں جگہ جگہ اپنے چیک پوائنٹس قائم کر لیے تھے، سرکاری ذرائع ابلاغ بھی ان ہی کے زیر قبضہ تھے۔ پیر کو بگڑنے والی صورتِ حال میں تب تک 9 افراد ہلاک اور 67 زخمی ہوچکے تھے، اندیشہ ہے کہ تعداد بڑھے گی۔

چند روز قبل دارالحکومت میں ایک کار میں نصب بم پھٹا تھا جس کے نتیجے میں پچاس سے زیادہ افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے تھے۔ یہ دھماکا پولیس کالج کے سامنے کیا گیا تھا اور بہ ظاہر یہ لگتا ہے کہ اس کا مقصد کالج میں زیر تربیت کیڈٹوں کو زد پر لینا تھا۔ دھماکے کی ذمہ داری کسی نے قبول کی یا نہیں البتہ یہ اظہر ہے کہ القاعدہ، حؤثی باغی گروپ یا پھر داعش میں سے کوئی ایک ہے۔ حؤثی قبیلے کا تعارف کرانے سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ حقائق یمن کے بارے میں آشکار کیے جائیں۔

یمن جزیرہ نما عرب کے جنوب مغرب میں 2 لاکھ 3 ہزار 800 مربع میل پر پھیلا ہوا ہے، ساحلی پٹی اس کی 12 سو میل طویل ہے۔ شمال کی جانب سے یہ ملک سعودی عرب سے متصل ہے اور اس کے مغرب میں بحیرۂ قلزم، خلیج عدن، جنوب میں بحیرۂ عرب اور مشرق میں اومان ہے، صنعا صدر مقام ہے، دو سو جزائر بھی اس کی عمل داری ہیں۔ تاریخی طور پر یہ سبائیوں کا وطن رہا ہے اور حضرت سلیمانؑ کے حوالے سے معروف، سبا یا شیبا یہیں کی ملکہ تھی۔ یمن کا زریں عہد دس صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ ایک وقت میں حبشہ اور ایرٹریا بھی اس کا حصہ رہے ہیں۔

275 عیسوی میں اس پر یہودی حماریہ بادشاہت مسلط رہی۔ مسیحیت یہاں چوتھی صدی عیسوی میں پہنچی اور ساتویں صدی میں اسلام یہاں قبول کیا گیا۔ یہاں کی حکم رانی آغاز ہی سے مشکل رہی ہے البتہ تیرہویں سے پندرہویں صدی کے دوران میں یہاں بَنو رسول کے حکم رانوں نے جم کر حکومت کی۔ یہ دراصل اوغوز ترکمان محمد بن ہارون کی آل تھی، رسول جس کا لقب تھا۔ بیسویں صدی میں یہاں برطانیہ گھس آیا اور ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا، آدھا برطانیہ اور آدھا حصہ اس کا سلطنت عثمانیہ کے پاس رہ گیا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد شمالی حصے میں زیدی متوکلی حکم ران ہوئے جب کہ جنوبی یمن 1967 تک برطانیہ کی عمل داری میں رہا۔ جدید جمہوریۂ یمن 1990 میں معرض وجود میں آئی۔ علی عبداللہ صالح کی سربراہی کے دوران میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے انڈیکس کے مطابق یہ ایک Kleptocratic ریاست کہلائی۔ یہ اصطلاح ایسی ریاست کے لیے استعمال ہوتی ہے، جس کے حکم ران عوام کو بھاڑ میں جھونکتے ہیں اور صرف اپنی تجوریاں بھرتے ہیں، دوسرے لفظوں میں اسے ’’چوروں کی حکومت‘‘ کہیے۔

182 بدعنوان ترین ریاستوں میں اس کا نمبر 2009 میں 164 تھا۔ اس کے تمام تر وسائل پر پاکستان کی طرح بالائی طبقہ قابض تھا بھی اور ہے بھی۔ یہ بالائی طبقہ تین شخصیات اور ایک ریاست پر مشتمل تھا۔ ایک تو اس کے سربراہ علی عبداللہ صالح، میجر جنرل علی محسن الاحمر اور اسلامی اصلاح پارٹی کے لیڈر شیخ عبداللہ الاحمر اور چوتھے نمبر پر ریاستی مداخلت اس میں سعودی عرب کی ہے جو، یہاں کے قبائلی شیوخ پر اثر و رسوخ رکھتا ہے اور ان کی مالی ضروریات کا خاص خیال رکھتا ہے۔

2011 میں جب صدر علی عبداللہ صالح نے اپنی مرضی کی ترامیم آئین میں گھسیڑنے کی کوشش کی تو ان کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ غریب ملکوں کے عوام کو آئین کی پے چیدگیوں سے دل چسپی الا ماشاء اللہ کم کم ہی ہوتی ہے، دراصل یمنیوں کے ردعمل کے پیچھے انتہا کو پہنچی ہوئی غربت،  حکم رانوں اور افسر شاہی کی لوٹ مار وغیرہ کارفرما تھی۔ علی عبداللہ صالح اپنے کرتوتوں کے آئینے میں اپنی صورت دیکھے بغیر ہی خود کو یمن کا تاحیات صدر تسلیم کرنے کے چکر میں تھے اور بادشاہوں کی طرح اپنے صاحب زادے احمد صالح کو ولی عہد بنانے کی تمنا رکھتے تھے جو، اس وقت نیشنل ری پبلیکن گارڈ کے کمانڈر تھے (جو یمنی فوج کو نکیل ڈالنے کے لیے قائم کی گئی تھی) جب کہ سعودی عرب اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ علی عبداللہ صالح کو اقتدار چھوڑنا پڑا، سو انہوں نے چھوڑ دیا مگر اس شرط پر کہ انہیں کوثر و تسنیم میں دھلا دھلایا قرار دے کر محفوظ راستہ دیا جائے، سو صدارت موجودہ صدر عبد ربّہ منصور ہادی کے ہاتھ آ گئی۔ ایسے ملکوں میں مواخذہ و احتساب چہ معنی دارد ! عبد ربّہ بھی اندھے ہی تھے، دو آنکھیں درکار تھیں، ’’بیچ دے‘‘ کا نعرہ مارا اور کرسی پر ٹک بیٹھے۔ انہوں نے قومی مکالمے کی مجلس (نیشنل ڈائیلاگ کانفرنس) کا ڈول ڈالا جو دو سال تک چلا کی اور 25 جنوری 2014 کو اس کا اختتامی اجلاس ہوا۔

فیصلہ یہ برآمد ہوا کہ یمن کو کثیر علاقائی وفاقی (ملٹی ریجن فیڈرل ری پبلک) جمہوریہ بنایا جائے۔ صدر ہادی کی مدت صدارت میں ایک سال کی توسیع کی گئی تاکہ دو کمیٹیاں اپنا کام مکمل کرلیں؛ ایک کمیٹی آئین بنا رہی ہے اور دوسری یہ کہ طے کر رہی ہے کہ یمن کے ریجن دو ہوں یا چھے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ یہ دونوں کام جاری جنوری میں مکمل ہو جائیں گے، اب ۔۔۔۔۔۔ بات یہاں سے بگڑنے کو ہے۔

فروری 2014 میں ایک صدارتی پینل اس امر پر راضی ہو گیا کہ یمن کو چھے ریجن پر مشتمل وفاق بنایا جائے لیکن اس پر ملک میں بے چینی کا اظہار ہونا شروع ہو گیا۔ اس بے چینی کا اظہار حؤثی ملیشیا کر رہی تھی، جس نے دارالحکومت کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس پر ان کے اور حکومت کے درمیان میں ساجھی حکومت کے قیام اور امن کا ایک معاہدہ طے پایا۔ اس کے نتیجے میں ایک  نئی مشترک سی حکومت قائم ہوئی، جس میں متعدد یمنی فریق شامل ہو گئے۔ اس کہانی کو کچھ دیر کے لیے یہیں چھوڑتے ہیں۔

جاری صورتِ حال میں یمن کا اپنا اور مغربی میڈیا، جس گروہ کو باغی قرار دے رہا ہے، اس کا تعلق حؤثی قبیلے سے ہے، یہ حؤثی کون ہیں؟ آیے دیکھتے ہیں !

2011 میں حؤثیوں نے یمنی انقلاب اور نیشنل ڈائیلاگ کانفرنس میں بھی شرکت کی تاہم انہوں نے گلف کوآپریشن کونسل کا ایک سمجھوتہ، نومبر 2011 میں مسترد کردیا تھا، جس میں علی عبداللہ صالح اور اتحادی حکومت کی اسٹیبلشمنٹ کو امان دینے کی شق بھی شامل تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ 2011 میں حؤثیوں نے یمن کی دو علاقائی حکومتوں سعدہ اور جوف کو زیر نگیں بھی کر لیا تھا اور تیسری حکومت حجہ بھی ہتھیا لینے کے قریب تھے لیکن نہیں کر سکے۔

اگر یہ حکومت بھی ان کے ہاتھ لگ جاتی تو وہ صنعا پر براہ راست حملہ کر سکنے کی پوزیشن میں آ جاتے۔ بہرحال 2014 میں یہ لوگ دارالحکومت کے مختلف حصوں پر کنٹرول پانے میں کام یاب ہو گئے، جن میں ریڈیو اسٹیشن سمیت متعدد سرکاری عمارتیں بھی شامل تھیں۔ جاری جنوری میں بھی وہ صنعا اور البیداء حکومت کے شہر رضا پر قابض ہیں تاہم انہیں القاعدہ کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا بھی ہے۔ یورپ اور امریکا، ایران پر حؤثیوں کی پشت پناہی کا الزام دھرتے ہیں جب کہ سعودی عرب پر حؤثیوں کے مخالفین کو کمک پہنچانے کا الزام آتا ہے۔

یہ وہ پس منظر ہے، 20 جنوری کے واقعات جن کا نتیجہ ہیں یعنی یہ کہ حؤثیوں نے صدارتی محل پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کے موقع پر صدر عبد ربّہ محل کے اندر ہی تھے تاہم باغیوں نے انہیں نکل جانے دیا۔ یمن پوسٹ کا اندازہ ہے کہ حؤثی جنگ بازوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے جب کہ حؤثی احمد البحر کا کہنا ہے کہ حؤثی تحریک کے ارکان کی کل تعداد ایک لاکھ سے لگ بھگ سوا لاکھ تک ہے، جن میں جنگ باز اور غیر مسلح، دونوں طرح کے اراکین شامل ہیں۔

اب القاعدہ کی سنیے! کہ یہ بھی یمن میں سرگرم ہے۔ اس سرگرمی کے خلاف امریکا، یمن کا مددگار ہے، دامے، درمے، سخنے اور ۔۔۔۔ قدمے بھی۔ القاعدہ نے 2001 میں یہاں پر پرزے نکالے اور 2010 تک وہ ایک بھرپور عفریت بن گیا تو حکومت یمن نے اس کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کر دیا۔ 2011 کے یمنی انقلاب کے دوران میں جہادیوں نے یمن کی گورنری (Governorate) کے غالب حصے پر غلبہ حاصل کر لیا تھا بل کہ اسے اپنی امارت قرار دے دیا تھا۔ 2012 کے آغاز میں انتہا پسندوں نے جنوب مشرقی علاقوں میں شدید شورش برپا کی اور حکومت کو مصیبت میں ڈالے رکھا گیا۔

مئی 2013  میں ان ہی شورش پسندوں نے یمن کی تیل کی سب سے بڑی پائپ لائن دھماکے سے اڑا دی، جس سے خام تیل کا بہائو تل پٹ ہو گیا۔ امریکا نے اس سلسلے میں یمن کی امداد کا سلسلہ اس لیے شروع کیا کہ القاعدہ نے 2000 میں ایک امریکی بحری جہاز یو ایس ایس کول اور 2008 میں امریکی سفارت خانے پر بمباری کی اور غیر ملکی سیاحوں کو بھی زد پر لیا۔ تنظیم نے 25 دسمبر 2009  کو ڈیٹرائٹ جانے والے ایک امریکی ائیر لائنر پر بھی حملے کی کوشش کی تھی۔

داعش (دولت اسلامیۂ عراق و شام) ایک اور تنظیم ہے، جو یمن میں حال ہی میں اپنے لیے الگ سے جگہ بنا رہی ہے۔ ایک یمنی افسر نے چند روز پہلے بتایا کہ داعش (آئی ایس آئی ایس) کم از کم تین جنوبی صوبوں اور وسطی یمن میں موجود ہے۔ اس کی سب سے بڑی رقیب القاعدہ ہے۔ مذکورہ افسر کے مطابق دونوں تنظیموں، القاعدہ اور داعش کے مابین گزشتہ ماہ، مشرقی یمن کے صوبوں میں رن پڑ چکا ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ ان مقابلوں میں دونوں طرف سے کتنے افراد کھیت رہے۔

گویا یمن ایک ملک کم اور مختلف جنگ جو گروپوں کا میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ حکم رانی کی کیفیت یہ ہے کہ جو شخصیت منصب صدارت و وزارت پر براجمان ہوتی ہے، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ملک کے تمام تر وسائل پر مکمل تصرف حاصل کرے اور اس مقصد کے لیے وہ ہر کلیدی عہدے پر اپنے عزیزوں، اقرباء اور وفا داروں کو متعین کر لیتا ہے۔ اندازہ کیجیے ! سابق صدر علی عبداللہ صالح کا بیٹا، بیٹی، چار بھتیجے، داماد اور دو سوتیلے بھائی، ملک کے اہم ترین عہدوں پر تعینات تھے۔ یہ ذات شریف تین دہائیوں تک ملک کے سفید و سیاہ کو لوٹتے رہے۔ انہوں ملک کی فوج کے دکھانے والے دانت باقی رکھے اور کھانے والے نکلوا دیے اور جب معزول ہونے لگے تو شرط یہ رکھی کہ انہیں اور ان کے کسی بھی اپنے کو چھو کر میلا نہ کیا جائے۔

ملک بدعنوانی کا گڑھ ہے اور حقوقِ انسانی کا تصور انتہائی مبہم ہے، ناپُرسانی میں پاکستان سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ غریب کی جورو، سب کی بھابی! سرکار کے علاوہ چار فریق اس کے دیور بنتے ہیں، اس رشتے کی پاداش میں عوام کٹ، پس رہے ہیں۔ یمن دنیا کے نادار ترین ممالک میں سے ایک ہے، شہریوں اور خاص طور پر بچوں کو، بھوک کھا رہی ہے۔ دو کروڑ اور لگ بھگ چالیس لاکھ افراد کا یہ ملک 21 گورنریوں اور 2014 کے آئین کے مطابق چھے علاقوں (Regions) میں بٹا ہوا ہے۔

صدارتی محل پر قبضے کے بعد صدر عبد ربّہ مستعفی ہو گئے تھے تاہم ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا گیا۔ شریف آدمی لگتے ہیں، بہ دستور پرانی تنخواہ پر ہی کام کرتے رہیں گے۔ آپ تو جانتے ہیں ! ملک جتنا غریب ہوتا ہے، ایسے مناصب پر کام کرنے والوں کو تن خواہ اتنی ہی فیاضی سے پیش کرتا ہے۔

بُک شیلف

$
0
0

حج کی آرزو

تالیف: محمودہ ممنون حسین
تدوین: صوفیہ یزدانی
طباعت: فضلی سنز

سفر نامہ اردو ادب کی وہ تخلیقی صنف ہے جس میں سفرنامہ نگاروں نے جہاں اپنی واردات قلبی، تاریخ وجغرافیہ کے بارے میں معلومات اور واقعات و ملاقاتوں کے تذکرے شامل کیے ہیں وہیں بعض مصنفین نے اپنے اسفار کو ایک روداد کی صور ت میں بھی بیان کیا ہے۔

حج جہاں مسلمانوں کی ایمان کی تکمیل کا ذریعہ ہے وہیں تجربات و مشاہدات اور مختلف قومیتوں کے لوگوں سے ملنے جلنے کے ساتھ ساتھ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ قلبی و ایمانی تعلق میں گہرائی و گیرائی بھی پیدا کرتا ہے۔ موجودہ دور میں اردو ادب میں کئی مشہور شخصیات مثلاً قدرت اللہ شہاب اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی وغیرہ کے حج کے سفر نامے موجود ہیں، جن میں سفرنامہ نگاروں نے سفری روداد کے علاوہ حالات و واقعات اور قلبی وارداتوں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ محمودہ ممنون حسین برصغیر پاک و ہند کے مرکز ِدہلی کی تہذیبی وراثت کا ایک شائستہ نمونہ ہیں۔

اس حقیقت کا اظہار ان کے سفر نامے ’’حج کی آرزو‘‘ میں جگہ جگہ ہوتا ہے۔ اس سفرنامے میں بہت ہی خوب صورت انداز میں جہاں دہلی کی تہذیبی و ثقافتی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں وہیں محمودہ ممنون حسین کی سادگی ، ایمان کی پختگی اور اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ مثلاً وہ کہتی ہیں،’’جب میں نے اپنے والد کو پہلی بار اپنے حج پر جانے کی خبر سنائی اور انہیں بتایا کہ ممنون صاحب اپنی مصروفیات کے سبب میرے ساتھ حج پر نہیں جاسکیں گے تو ان کے والد نے انہیں مشورہ دیا کہ بیٹا شادی کے بعد لڑکیوں کو سفر پر ہمیشہ اپنے شوہر کے ساتھ ہی جانا چاہیے۔

ایسے اکیلے جانا مناسب نہیں ہے‘‘۔ محمودہ ممنون حسین کہتی ہیں کہ ’’مجھے اپنے والد کی یہ راہ نمائی بہت اچھی لگی اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ حج ہی نہیں بلکہ کسی سفر پر بھی ممنون صاحب کے بغیر نہیں جاؤں گی‘‘۔ اسی طرح آزادی سے قبل اور اس کے فوراً بعد برصغیر کے گھرانوں میں بچوں اور بچیوں کو قرآن کی تدریس اور نماز کی تربیت ایک لازمی جزو تھی۔ یہ رویے اور روایات موجودہ معاشرے میں ناپید ہوتے جارہے ہیں۔

یہ سفرنامہ حج جس انداز میں تحریر کیا گیا ہے، وہ عازمین حج کے لیے جہاں ایک تربیتی مینول کا کام دے گا وہیں ان کے روحانی تجربات میں بھی اضافے کا سبب بنے گا۔ مصنفہ نے اپنے دونوں حجوں کی تفصیل اور ان کے فرق اور حج پر جانے والی خواتین کی راہ نمائی کے لیے جو باتیں بیان کی ہیں وہ عمرہ اور حج پر جانے والوں خصوصاً خواتین کے لیے یقیناً راہ نمائی کا ذریعہ بنیں گی۔ کتاب کا خوب صورت سرورق عاصم نور نے بنایا ہے۔

وِلائے محمدﷺ

شاعر: یوسف راہی چاٹگامی
ناشر: نام درج نہیں
صفحات:155
قیمت: 250

اردو اصنافِ سخن میں حمد اور نعت گوئی کو خاص درجہ حاصل ہے۔ نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے واقعات، معجزات کا بیان، اوصاف کا تذکرہ اور شان میں اشعار کہنا یقیناً باعثِ سعادت و ثواب ہے۔ پیشِ نظر کتاب یوسف راہیؔ چاٹگامی کی نعتیہ شاعری پر مشتمل ہے اور عقیدت و محبت کے اظہار کا یہ سلسلہ نقد و نظر کا محتاج نہیں۔ اس سے قبل یوسف راہیؔ کی غزلوں کا ایک مجموعہ بھی منظرِ عام پر آچکا ہے۔ انہوں نے بنگلادیش کے شہر چاٹگام میں آنکھ کھولی اور اسی نسبت سے وہ اپنے نام کے ساتھ چاٹگامی لکھتے ہیں۔

1983میں بنگلادیش سے لاہور آئے اور بعدازاں کراچی میں رہائش اختیار کی۔ یوسف راہی لکھنے لکھانے اور مطالعے کا شوق رکھتے ہیں۔ نعت گوئی قدیم فن ہے اور جہاں اس فن کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے وجہِ تخلیقِِ کائناتﷺ سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے، وہیں شعرا کو مذہبی نقطۂ نگاہ سے بھی کئی باریکیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک مشکل صنف ہے۔

نگارشات

صابر بدرؔ جعفری
ناشر: ادارہ انوارِ ادب، 371، بلاک c 1/، یونٹ نمبر 8، لطیف آباد، حیدر آباد
صفحات:292،قیمت:400

اخباری کالموں، مقالوں، ادبی تخلیقات پر تبصروں اور تجزیوں کے ساتھ حالاتِ حاضرہ اور بعض سماجی مسائل کی نشان دہی کرتی ہوئی تحریروں نے نگارشات کو وجود بخشا ہے۔ صابر بدر جعفری کی یہ کتاب ان کے وسیع مطالعے اور تنقیدی بصیرت کا اظہار بھی ہے۔ اردو اصنافِ سخن میں انہوں نے افسانہ نگاری اور شاعری کو اپنانے کے ساتھ علمی اور ادبی تحقیقی مضامین تحریر کیے۔ مختلف موضوعات پر سنجیدہ تحریروں کے ساتھ طنزومزاح میں قلم کو آزمایا ہے۔

انگریزی ادب کو اردو کا پیراہن دیا، اور دونوں زبانوں پر اپنی گرفت کا ثبوت دیا۔ ان کی پیشِ نظر کتاب میں قارئین حکیم سعید اور سردار عبدالرب نشتر سے متعلق مضامین کے علاوہ مرزا غالبؔ، علامہ اقبال، حسرتؔ موہانی، نظیرؔ اکبر آبادی و دیگر کے فکروفن پر تبصرے اور ان کی تخلیقات کا تجزیہ بھی پڑھیں گے۔ جونؔ ایلیا کی شاعری کا ’’پوسٹ مارٹم‘‘ اور عبدالعزیز خالد کی رباعی پر نقدونظر کے ساتھ پروفیسر عنایت علی خاں کی شاعری کا ’’جائزہ‘‘ بھی اس کتاب کا حصّہ ہے۔

ادب میں تنقید جہاں متعلقہ صنف کی باریکیوں اور موضوع سے مکمل واقفیت کے ساتھ زبان و بیان میں مہارت کا تقاضا کرتی ہے، وہیں نقاد کا کھرا اور بے لاگ انداز اسے جامع اور بامقصد بناتا ہے۔ صابر بدر نے بھی رفتگاں اور ہم عصروں کو ادبی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے کسی رعایت سے ’’دوچار‘‘ نہیں کیا اور یہ جرأت اب شاذ ہی کی جاتی ہے۔

یارِ ترکی

مصنف: فیروز شاہ گیلانی
اہتمام: فرخ سہیل
صفحات: 152،قیمت: 350

پاکستان اور ترکی کی حکومتیں آپس میں برادرانہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون کے ضمن میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کرتی آئی ہیں۔ حکومتی سطح پر عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں، مختلف تجارتی معاہدوں کے ساتھ دونوں ملکوں کے عوام میں مذہبی، سماجی اور ثقافتی قدروں کی یک رنگی بھی قریبی اور خوش گوار تعلقات برقرار رکھنے کا باعث بنی ہے۔ ترکی اپنے دورِ خلافت میں مسلمانوں کی مذہبی اقدار، مقاماتِ مقدسہ کا محافظ اور عالمِ اسلام کا مرکز رہا ہے۔

خلافتِ عثمانیہ کا تاریخ میں کردار، باہمی اختلافات اور مسلمانوں کے انتشار کا شکار ہونے اور سازشوں کے نتیجے میں مسلمانوں کے اکٹھ کا شیرازہ بکھرنے سے متعلق تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ ترکی کی تاریخ، مشہور مقامات اور اہم شخصیات کے بارے میں کئی کتابیں لکھی گئیں اور انہی میں سفرنامے بھی شامل ہیں۔ اعلیٰ حکومتی اہل کاروں، ادیبوں اور سیاحت کی غرض سے ترکی میں قیام کے بعد وطن لوٹنے والوں نے وہاں کی سیر کے دوران جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، اسے کتابی شکل میں ہمارے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔

فیروز شاہ گیلانی کی یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے ترکی میں قیام کے دوران اپنے تجربات اور مشاہدات کے ساتھ ساتھ ترک تاریخ اور مختلف ادوار کے سیاسی اور سماجی حالات بھی بیان کیے ہیں۔ بشریٰ رحمن نے اس سفرنامے پر رائے دیتے ہوئے لکھا ہے،’’فیروز شاہ گیلانی کی تحریر رواں دواں، سادہ اور دل موہ لینے والی ہے۔ ان کا فطری خلوص اور رومانی رغبت اس سفرنامے کے ایک ایک لفظ میں بول رہے ہیں۔ اختصار اس سفرنامے کی اضافی خوبی ہے۔ غیرضروری واقعات، غیراہم کردار جابجا لاکر سفرنامے کو بوجھل نہیں کیا گیا۔‘‘

ایک جیسی کہانیاں ان کی

$
0
0

بولی وڈ کی دنیا ایک طلسماتی دنیا ہے۔ یہاں ہر روز کچھ نہ کچھ نیا ضرور ہوتا ہے۔

ایک دوسرے سے مقابلہ بازی، کچھ الگ سے کرنے کا جنون اور خود کو سُپر کہلوانے کا یہاں ہر ایک ہی کو شوق ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود فلمی دنیا سے وابستہ افراد کسی نہ کسی حوالے سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ بولی وڈ کی نئی کھیپ میں تو آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں۔ کوئی کسی فلم میکر کا بیٹا ہے تو کوئی کسی اسٹار کا بھائی یا بہن اور کچھ نہیں تو آپس میں دور پرے کی رشتہ داری بھی نکل آتی ہے۔ ان تمام باتوں کے علاوہ انڈسٹری کے نوجوان اسٹارز میں درمیان اور بھی بہت سی باتیں مشترکہ ہیں مثال کے طور پہ ۔

٭عالیہ بھٹ اور شردھا کپور: بولی وڈ کی ان دو خوب صورت اور ذہین ہیروئنز کا تعلق فلمی گھرانے سے ہے۔ عالیہ فلم پروڈیوسر اور ڈائرکٹر مہیش بھٹ اور ان کی دوسری بیوی روزی رازدان کی بیٹی ہے، جس نے بہت کم وقت میں اپنے آپ کو باصلاحیت اداکارہ ثابت کیا۔ بالکل اسی طرح شردھاکپور فلم انڈسٹری کے سنیئر اداکار شکتی کپور جنہوں نے فلموں میں کئی قسم کے کردار کر کے خود کو ورسٹائل اداکار ثابت کیا، کی بیٹی ہیں۔ ان دونوں ہیروئنز کا کیریر تقریباً چار، پانچ سال پہلے ایک ساتھ ہی شروع ہوا۔ شردھا کی پیلی فلم 2010میں تین پتی اور عالیہ کی پہلی فلم اسٹوڈنٹ آف دی ایر تھی۔ دونوں کی یہ فلمیں باکس آفس پر کوئی کمال نہ دکھاسکیں۔

البتہ یہ ضرور ہو ا کہ لوگ انہیں پہچاننے لگے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ابتدا میں ان دونوں کی شناخت کا حوالہ ان کے مشہور والد ہی تھے، تین پتی کے بعد شردھا نے ایک اور فلم لو کا دی اینڈ میں بھی کام کیا۔ عالیہ اور شردھا دونوں ہی کسی ہٹ فلم کی تلاش میں تھیں اور ان کی تلاش جلد ختم ہوگئی۔ شردھا نے عاشقی ٹو اور عالیہ نے ہائی وے میں کام کیا۔ ان دونوں فلموں کی کام یابی نے اس بات کا احساس مضبوط کردیا کہ اس بار ان دونوں ہی نے بہترین فلموں کا انتخاب کیا ہے۔ ان فلموں میں شردھا اور عالیہ کی اداکاری اور کام کی تنقید کرنے والوں نے بھی تعریف کی۔ یوں ان دونوں کا کام یاب فلمی سفر شروع ہوا۔

عالیہ اور شردھا نے فلموں میں گانے بھی گائے۔ عالیہ نے فلم ہائی وے کے گانے سوہا سہا سے گائیکی کا آغاز کیا اور پھر اپنی اگلی فلم ہمٹی شرما کی دلہنیا میں سمجھاواں گانا بھی گایا۔ یہ سلسلہ اداکاری کے ساتھ ساتھ جاری ہے۔ دوسری طرف شردھا نے فلم ایک ولین میں گلیاں سونگ گا کر بے پناہ کام یابی سمیٹی یہ سال کا سب سے ہٹ سونگ تھا۔ اس کے بعد شردھا نے فلم حیدر میں دو جہاں گانا بھی گایا۔ اب یہ دونوں ہیروئنز ایک ساتھ فلم راک اسٹار کے سیکوئیل راک اسٹار ٹو میں کام کر رہی ہیں۔ اس فلم میں تمام گانے ان دونوں ہی کی آواز میں ریکارڈ کیے جائیں گے۔

٭ارجن کپور اور ورون دھون: ان دونوں نوجوان اسٹارز کا تعلق بھی فلمی گھرانے سے ہے۔ ارجن کپور مشہور فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بونی کپور کا بیٹا اور ورون دھون ڈائریکٹر ڈیوڈ دھون کا بیٹا ہے۔ ارجن اور ورون کے لیے فلم دنیا اجنبی نہیں تھی اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی سپورٹ کی ضرورت تھی کیوںکہ ان دونوں کے والد انڈسٹری کی کام یاب ترین شخصیت ہیں۔ ارجن اور ورون نے اپنے کیریر کا آغاز بہ طور اسٹنٹ ڈائریکٹر کیا۔ ارجن فلم کل ہو نہ ہو اور ورون مائی نیم از خان میں اسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کرچکے ہیں۔

دونوں کے ساتھ ایک ہی اتفاق ہوا کہ دونوں کے والد نے ان کے لیے کوئی فلم لانچ نہیں کی (ابتدا میں) اسی لیے ارجن نے اپنے کیریر کا آغاز یش راج فلمز کی عاشق زادے سے اور ورون نے کے جے او ادارے کے ساتھ فلم اسٹوڈنٹ آف دی ایر سے اپنا کیریر شروع کیا۔ ان دونوں کی یہ فلمیں 2012  میں ایک ساتھ ریلیز ہوئیں اور باکس آفس پر سپرہٹ ہوئیں۔ دونوں لڑکے راتوں رات اسٹار بن گئے۔ اس کے بعد ان کے فادرز نے انہیں پروڈیوس کرنے کا ارادہ کیا اور ڈیوڈ دھون نے اپنے بیٹے ورون کے لیے میں تیرا ہیرو فلم ڈائریکٹ کی اور بونی کپور نے ارجن کے لیے تیور بنائی۔

ایک انٹرویو میں ورون نے کہا تھا کہ ارجن اس کے بڑے بھائی جیسا ہے۔ وہ کہتا ہے،’’وہ میرے گھر ہی کا ایک حصہ۔ اس لیے انڈسٹری میں اور سب سے تو کمپیٹیشن ہوسکتا ہے ارجن سے میرا کوئی موازنہ نہیں۔‘‘ ارجن اور ورون دونوں بھائی اب ڈائریکٹر روہیت شیٹھی کی فلم میں ایک ساتھ کام کر رہے ہیں اور اس کے لیے سلمان خان نے ان کی سفارش کی کیوںکہ سلما ن نے ان دونوں اسٹارز کا مستقبل کا سپراسٹار قرار دیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان دونوں کے فادرز سے سلمان خان نے خاص تعلقات ہیں۔

٭سوناکشی سنہا اور پرینتی چوپڑہ: پرینتی کا ایک حوالہ پریانکا چوپڑہ کی کزن ہونا بھی ہے، لیکن اب اس نے اپنی پہچان بنالی ہے۔ اس لیے کسی دوسرے حوالے سے پہچانے جانا پرینتی کو پسند نہیں۔ سوناکشی کا بیک گراؤنڈ بھی فلمی ہی ہے۔ اس کے والد شترو گھن سنہا سے سب ہی واقف ہیں۔ پرینتی اور سوناکشی فلم انڈسٹری میں آنے سے پہلے کافی عرصے تک ملازمت کرتی رہی ہیں۔ پرینتی نے یش راج فلمز کے ساتھ بہ طور اسسٹنٹ کوآرڈینیٹر کام کیا، جب کہ سوناکشی فیشن ڈیزائنر کے طور پر کام کرتی رہی۔ دونوں ہی وزن کے مقابلے میں ایک جیسی تھیں۔ سوناکشی کی پہلی فلم دبنگ تھی جس میں اس کے مقابل سلمان خان تھے۔

اس فلم کے لیے سلمان خان کے اصرار پر سوناکشی کا کاسٹ کیا گیا تھا اور فلم کی کام یابی نے ثابت کیا کہ سلمان کا انتخاب بالکل درست تھا۔ پرینتی نے اپنے کیریر کا آغاز فلم لیڈیز ورس وکی بہل میں سپورٹنگ رول کرکے کیا تھا۔ تاہم اس کی کام یاب اور بہ طور سولو ہیروئن پہلی فلم عاشق زادے تھی۔ بولی وڈ کی ان دونوں ہیروئنز میں سب سے کامن یا ایک جیسی بات ان کا موٹاپا تھی۔ دونوں ہی بے انتہا موٹاپے کا شکار تھیں اور دونوں ہی نے فلموں میں کام یاب اور خوب صورت، سلم ہیروئن بننے کے لیے اپنے وزن کو کم کیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک دونوں میں کامن کنکشن بات یہ بھی تھی کہ دونوں ہیروئنز کا رنویر سنگھ کے ساتھ نام لیا جارہا تھا۔

٭سونم کپور اور رنویر سنگھ: انڈسٹری کے ان دو اسٹارز کی مشترکہ بات ان کا فیشن کے حوالے سے سینس آف ہیومر ہے۔ رنویر اور سونم کو فیشن نت نئے فیشن اور انداز اپنانے کا شوق ہے۔ کچھ دنوں پہلے ممبئی میں ایک مشہور اور بین الاقوامی فیشن برانڈ کی دسویں سال گرہ منائی گئی اور پوری فلم انڈسٹری میں رنویر اور سونم وہ واحد اداکار تھے جنہیں اس تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر دعوت دی گئی تھی۔ اس فنکشن میں ان دونوں کی فیشن کے حوالے سے دل چسپی اور معلومات کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا۔ دونوں ینگ اسٹارز اپنے لُک اور اسٹائل کے ساتھ کسی بھی قسم کا تجربہ کرنے سے نہیں شرماتے اور بلاجھجک فیشن کے نئے نئے انداز اپناکر فیشن کی دنیا میں بھی نام کمانا چاہتے ہیں۔ چاہے آف اسکرین ہو یا پھر آن اسکرین دونوں ہی ہر طرح کا اسٹائل اپناتے ہیں۔

انہیں لوگوں کی تنقید کا بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دونوں ہی من موجی ہیں جو خود کو اچھا لگتا ہے بس وہی کرنا ہے۔ اس کے علاوہ لباس کے معاملے میں بھی دونوں اپنی بولڈ چوائس کے لیے مشہور ہیں۔ سونم کپور کو بولی وڈ انڈسٹری میں فیشن کی ملکہ بھی کہا جاتا ہے اور رنویر کے لیے بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ جس قسم کا لباس بھی پہن لے اسے نظرانداز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سب سے دل چسپ اتفاق یہ ہے کہ فیشن کی دنیا کے یہ دونوں آئی کون آپس میں دور کے کزن بھی ہیں سوم کی ماں سنیتا کپور اور رنویر کے والد جگجیت سنگھ بھاوانی آپس میں رشتہ دار ہیں ۔

٭ادیتہ رائے کپور اور ایوشمان کھرانہ: بولی وڈ کے ان دونوں ینگسٹرز نے اپنے کیریر کا آغاز ٹیلی ویژن کے ایک چینل پر بہ طور وی جے کیا۔ ادیتہ رائے کپور نے چینل وی کے ایک پروگرام کو ہوسٹ کیا تھا، جب کہ ایوشمان نے ایم ٹی وی ڈسکوری پر کام کیا۔ دونوں ہی کی فلمی دنیا میں آمد ان کے ایک مشترکہ دوست کی وجہ سے ہوئی۔ دونوں ہی نے پہلے کچھ عرصے تک ماڈلنگ کی اور پھر اپنی قسمت آزمائی کے لیے بولی وڈ کا رخ کیا۔ ادیتہ رائے کپور اور ایوشمان دونوں ہی کا تعلق فلمی گھرانے سے نہیں۔ دونوں کے بارے میں ایک اور بات مشترک ہے کہ دونوں ہی سیلف میڈ اسٹارز ہیں۔ ادیتہ نے فلم لندن ڈریمز میں ایک چھوٹے سے رول سے اپنے کیریر کا آغاز کیا، جب کہ ایوشمان نے بڑے پردے پر فلم وکی ڈونر سے انٹری دی۔

اداکار اور وی جے ہون کے ساتھ ان میں ایک مشترکہ بات یہ بھی ہے کہ دونوں ہی کو میوزک سے بے حد لگاؤ ہے۔ ادیتہ کو گٹار بجانے اور اس پر نت نئی دھنیں بنانے کا جنون ہے اور بہت جلد وہ اپنی البم بھی لانچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جب کہ ایوشمان کو گلوکاری کے ساتھ ساتھ کمپوزنگ کا شوق بھی ہے اور وہ کچھ سولو سونگز بھی گا چکا ہے۔ دونوں ہی فطری انداز میں کام کرتے ہیںاور ان کی اداکاری کے بارے میں انڈسٹری کے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اگر انہیں بہترین کردار دیے جائیں تو بہت جلد ان کا شمار بولی وڈ کے سپر اور کام یاب اسٹارز میں ہونے لگے گا۔

٭ایشا گپتا اور ملائکاشیراوت: بولی وڈ کی ان دو ہیروئنز کے درمیان کئی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں ہی کا تعلق غیرفلمی خاندان کے مڈل کلاس طبقے سے ہے۔ دونوں ہی نے کیریر کی ابتدا ماڈلنگ اور کمرشلز سے کی۔ ملائکا اور ایشا دونوں نے اپنے آبائی گھر کو چھوڑ کر ممبئی کا رخ کیا تھا۔ ایشا نے فلمو ں میں آنے سے پہلے کئی بار مقابلۂ حسن میں شرکت کی، جب کہ ملائکہ نے ٹی وی کمرشلز سے اسٹارٹ لیا۔

ایشانے مہیش بھٹ کی فلم جنت ٹو سے اپنے فلمی کیریر کا آغاز کیا، جب کہ ملائکہ نے بھی مہیش بھٹ کی ہی فلم مرڈر سے فلموں میں انٹری دی بولی وڈ کی یہ دونوں ہیروئنز اپنے کام سے زیادہ اپنی بے باکی اور بولڈنیس کی وجہ سے جانی جاتی ہیں اور کسی بھی قسم کا کردار خواہ وہ کتنا ہی بولڈ کیوں نہ ہو کرنے سے نہیں گھبراتیں۔ ملائکہ نے ایک چائنیز فلم The Myth میں جیکی چن کے ساتھ کام کیا اور ایشا بھی انڈیا اور برطانیہ کے اشتراک سے بنائے جانے والی ایک فلمی پروجیکٹ کا حصہ ہیں۔

بے دام خریدی ڈھیر ساری خوشی

$
0
0

بہت بے زار لگ رہی ہو، کیا ہوا؟

یکسانیت کا احساس، بوریت، کچھ نیا کرنے کو دل چاہتا ہے۔

تو پھر چلو۔ کچھ شرارت کریں، چند لمحے جیئیں۔

کہاں؟

خواب میں۔۔۔۔۔۔۔ جیتے جاگتے۔

کیا مطلب؟

مارکیٹ چل کر ونڈو شاپنگ کرتے ہیں۔ خوب صورت اشیاء کا لمس اپنی ہتھیلیوں پر اتاریں گے۔ رنگ اور نقش آنکھوں میں سجائیں گے۔ کچھ خرچ کیے بغیر بس ذرا سا وقت دے کر ڈھیر ساری خوشی خرید لائیں گے۔

واہ ہ ہ ہ ہ میری پیاری دوست۔

تو پھر چلو و و و و و۔

کلاس، معصوم سی اُلجھن کا بھولابھالا سُلجھاؤ

$
0
0

سفیدی اور نیلاہٹ میں رنگی عمارت کی ساخت اور حدود سے لگتا ہے کہ یہ ایک رہائش گاہ ہے، لیکن سیاہ چھوٹے سے گیٹ سے ذرا ہٹ کر دیوار پر لگا ’’ایجوکیشن سٹی‘‘ کے الفاظ لیے کناروں پر زنگ کھاتا بورڈ غلط فہمی دور کرکے بتادیتا ہے کہ یہ اسکول ہے۔

ابھی کچھ دیر پہلے تک عمارت میں اندھیرا سناٹے سے لپٹا سورہا تھا، مگر اب اِدھراُدھر سے راستے بناکر آتی دھوپ اور کسمساکر جلتی ٹیوب لائٹوں کی روشنی میں کمروں میں ترتیب سے لگی بینچوں اور دیواروں پر پین پینسلوں سے بنی لکیریں، بھدی لکھائی کے یک لفظی نمونے، لکیریں اور آڑھی ترچھی تصویریں چمک اٹھی ہیں۔ جھاڑو کی کُھرکُھراہٹ سے شروع ہونے والا آوازوں کا سلسلہ شور بنتا جارہا ہے۔ کتھئی قمیصوں اور بادامی سے رنگ کی پتلونوں اور شلواروں میں ملبوس بچے اور بچیاں، چھوٹی کلاسوں میں کہیں تواتر سے روتی ننھی منی آواز اور اسے ’’اچھا بس، چووووپ‘‘ کہہ کر خاموش کرانے کی کوششیں، جو استانیاں پیشہ ورانہ ممتا کے ساتھ کرتی ہیں۔

بڑی کلاسیں جو دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں ہیں، باتوں اور سرگوشیوں سے بھرتی جارہی ہیں۔ عمارت کے دروازے کے قریب لگی پانچویں کلاس کی دہلیز پر سینڈل کی کھٹ کھٹ ابھرتی ہے اور ہاتھ میں اسکیل تھامے پختہ عمر استانی اندر داخل ہوتی ہے۔ اس کے آتے ہی ’’گڈ مارننگ مس‘‘ کی مشترکہ آواز کے ساتھ شور کی اونچی نیچی لہریں تھم جاتی ہیں۔

یہ ایک چھوٹے شہر، جس کی زندگی میں دیہی رنگ گھلا ہوا ہے، کا بڑا نجی اسکول ہے۔ شہر کی مضافاتی بستی گلشن ٹاؤن میں واقع، جہاں چھوٹے چھوٹے گھروں کی قطاروں سے آگے بنگلوں اور کوٹھیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جن میں مضافات میں بڑے بڑے باغات اور دور تک پھیلے کھیتوں کے مالک زمیں دار، شوگر ملوں کے مالکان، وکلاء، ڈاکٹر اور بڑے بڑے تاجر آسودہ زندگیاں گزار رہے ہیں۔ شہر کے بڑے نجی اسکول بھی اسی علاقے میں قائم ہیں، ’’ایجوکیشن سٹی‘‘ بھی ان میں سے ایک ہے، شہر کی متمول اور بااثر شخصیات کی تنظیم ’’سٹی ویلفیئر ایسوسی ایشن‘‘ کا قائم کردہ یہ اسکول مناسب فیس کی وجہ سے اعلیٰ طبقے کے ساتھ ملازمت پیشہ افراد کی دسترس میں بھی ہے۔

اس وقت پورے اسکول کے کمروں اور راہ داری میں استانیوں کی نسوانیت کی نرمی کھوکر کرخت ہوتی آوازیں اور سیاہ تختوں پر چاک کی ’’کھرچ کھرچ‘‘ گونج اور ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ صحن کے کونے میں ٹنگی زنگ بھری گھنٹی کی ’’ٹَن ٹَن‘‘ کے ساتھ ہی استانیوں اور ان کی نیل پالش لگی انگلیوں میں پکڑی چاک کی چیختی آوازیں رک گئیں۔ اِدھر مس فرزانہ پانچویں کلاس سے اپنا پرس کندھے پر جھلاتی نکلیں اور اُدھر ہیڈمس درشت چہرہ لیے وارد ہوئیں۔

’’مس انیس آج نہیں آئیں گی۔ آپ سب اپنی بُکس نکال کر پڑھیں۔ آواز بالکل نہیں آنی چاہیے۔‘‘ ہیڈمس نے وہ ہدایت کی جس کے روبہ عمل آنے پر انھیں ذرا بھی یقین نہ تھا، اور کلاس روم سے نکل گئیں۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘ گول مٹول شہزاد وہ قصہ سننے کے لیے بے تاب تھا جو صائم نے مس کے آنے کی وجہ سے ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ شاذ، سلیم اور خالد بھی متوجہ تھے۔

’’پھر ہمارا ہاری سائیکل پر شہر گیا۔ تین چار گھنٹے بعد مکینک کو لے کر آیا۔ اس نے گاڑی ٹھیک کی، رات نو بجے ہم لوگ گھر پہنچے۔ بابا سائیں نے کہا ہے کہ اگلے مہینے نئی گاڑی لوں گا، یہ کھراب ہوگئی ہے۔‘‘ زمیں دار دائم علی شاہ کے بیٹے کی آنکھوں میں نئی گاڑی کی چمک صاف دیکھی جاسکتی تھی۔

’’میرے ڈیڈی نے تو نئی گاڑی لے بھی لی۔‘‘ سلیم کے لہجے میں معصوم سا فخر چہک رہا تھا۔ ’’اتنی ی ی ی ی لمبی، کالے رنگ کی، لش پش‘‘ وہ ہاتھ جس قدر پھیلاسکتا تھا، پھیلا لیے، اس کوشش میں اسے اپنے ساتھ بیٹھے شہزاد اور صائم کو پیچھے دھکیلنا پڑا۔

’’میرے پاپا کہہ رہے تھے اگلے ہفتے تمھیں زمینوں پر لے جاؤں گا، اُدھر شکار کریں گے تیتر کا۔‘‘

اپنے گورے رنگ میں باپ کی زمیں داری اور وکالت سے کمائی دولت کی دمک لیے خالد اپنے پورے وجود کی سستی کے ساتھ بولا۔

’’ہم تو کٹائی کے ٹائم پر جاتے ہیں اپنے کھیتوں پر بس! مجھے تو پاپا دبئی لے کر جائیں گے، کچھ دن بعد۔‘‘ کھیت اور گاؤں سے شہزاد کی عدم دل چسپی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔

’’تمھاری زمینیں کہاں ہیں؟‘‘ صائم نے کاپی کے صفحے پر آڑی ٹیڑھی لکیریں کھینچتے ہوئے شہزاد سے پوچھا۔

’’وہ جو بڑی والی روڈ ہے ناں، وہ شہر سے باہر ایسے ے ے ے ے مڑتی ہے، اس سے آگے جاکر ہیں ہماری زمینیں!‘‘

’’اور تمھاری؟‘‘ شہزاد نے سلیم کو دیکھا، جو ڈیسک پر پینسل سے لکیریں کھینچ کر شاید مکان بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’اُدھر!‘‘ سلیم نے ہاتھ سے اسکول کی دائیں دیوار کی طرف یوں اشارہ کیا جیسے دیوار کے پار اس کے کھیتوں کی فصلیں لہلہا رہی ہوں۔

سوال کو جواب سے کوئی غرض نہیں تھا، کوئی مقصد نہیں تھا، باتوں کے سوا۔

’’ہماری زمینیں بہت دور تک ہیں، ڈیڈی ہم لوگوں کو صبح لے کر جاتے ہیں تو چلتے چلتے شام ہوجاتی ہے۔‘‘

’’تم اپنے کھیتوں پر پیدل کیوں جاتے ہو؟‘‘ شاذ حیران تھا۔

’’او بھائی! پیدل ویدل نئیں، گاڑی پر جاتے ہیں۔‘‘ سلیم نے شاذ کی طرف ہاتھ بڑھا کر گویا احتجاج کیا۔ اس کے لمبوترے گندمی چہرے پر ہلکی سی جھنجھلاہٹ تھی۔

’’خود ہی تو کہہ رہا تھا چلتے چلتے شام ہوجاتی ہے۔‘‘ خالد نے سلیم کی نقل اتاری۔

’’ابے بھائی وہ تو کھیتوں میں۔۔۔‘‘ سلیم اپنی بات کے غلط معنی لیے جانے پر جزبز تھا۔

’’تو کھیتوں میں گاڑی پر کیوں نہیں جاتے، ہم تو جاتے ہیں۔‘‘ صائم کے لہجے میں دوست کے لیے ہم دردانہ مشورہ گھلا تھا۔

’’بھئی کھیتوں میں بھی گاڑی پر جاتے ہیں، گاڑی پر چلتے چلتے تو صبح سے شام ہوجاتی ہے۔‘‘ سلیم نے پوری وضاحت کے ساتھ سمجھایا۔

’’ہماری زمینوں کے اُدھر اتے بڑے بڑے کُتے ہیں۔ بندے کو کھا جاتے ہیں۔‘‘ خالد نے شاید بے زار ہوکر موضوع کچھ بدلا۔ اس نے ڈیسک سے کوئی ایک فٹ اوپر ہاتھ لے جاکر کتوں کی اونچائی بتائی۔

’’ایک دفعہ ایک کتے نے ہمارے ہاری کے بچے کو کاٹ لیا تھا۔ مرگیا۔ بابا سائیں نے اس کے گھر جاکر پیسے دیے تھے۔ میں بھی گیا تھا۔‘‘ خالد کی زبان پر جاری ٹوٹا پھوٹا واقعہ بتارہا تھا کہ اب قصوں کہانیوں کا دور شروع ہورہا ہے۔

’’ہمارے کھیتوں میں تو اتے ے ے ے بڑے بڑے بھیڑیے آتے ہیں۔‘‘ سلیم کا ہاتھ خالد کی بتائی ہوئی اونچائی سے چند انچ مزید بلند تھا، وہ اس وقت تک فضا میں معلق رہا جب تک سارے دوستوں نے اپنے آنکھوں سے حیرت کا اظہار اور بھیڑیوں کی اونچائی پر کوئی سوال نہ اٹھا کر سلیم کی بات پر یقین نہ کرلیا۔

’’تمھیں ڈر نہیں لگتا۔‘‘ شہزاد نے ’’نہیں‘‘ کہتے ہوئے اپنی گردن دونوں سمت ہلائی۔

’’ڈر کیوں لگے گا۔ ہم لوگ تو جیپ میں ہوتے ہیں ناں جب کھیتوں پر جاتے ہیں۔‘‘ سلیم کا اطمینان دوستوں کو مزید حیران کرگیا۔

’’ایک دن پتا ہے کیا ہوا۔‘‘ سلیم نے اپنے مخصوص جملے سے قصے کا آغاز کیا، جس کے ساتھ ہی وہ اپنی ننھی منی ٹولی کی توجہ کا مرکز بن گیا۔

وہ سب ہی ایک دوسرے کو قصے سناتے تھے، لیکن سلیم کا چونکانے والا انداز، مربوط طرزِ بیاں اور حیرت انگیز واقعات انھیں اپنا اسیر کرلیتے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ اس کا سنایا قصہ انھیں کیوں جکڑ لیتا تھا، کیوں اچھا لگتا تھا، یہ سوالوں میں الجھنے کی عمر تھی ہی نہیں، یہ تو بس ہر حیرت ہر مسرت میں بے سوچے سمجھے کھوجانے کا دور تھا۔ سو سلیم کے بڑے بھائی کے ساتھ گاڑی چلاتے ہوئے چڑیل ملنے کا ماجرا ہو، ڈیڈی کے کہیں راستے میں کسی کار سے ریس لگاکر فتح یاب ہونے کی کہانی یا ممی کا کوئی کھوجانے والا زیور گھر کے نوکروں میں سے کسی سے برآمد ہونے کی جاسوسی بھری کتھا۔۔۔۔اس کا ہر قصہ دل چسپ روداد کے ساتھ بیان ہوتا۔ اس نوعیت کی کہانیاں وہ سب سناتے تھے، ٹوٹے پھوٹے لفظوں کے ساتھ، بغیراتارچڑھاؤ کے، ابھی شروع ابھی ختم، لیکن سلیم کا قصہ واقعات کے نشیب وفراز میں اترتا چڑھتا لمحہ لمحہ بڑھتا پھیلتا جاتا۔ مس کے نہ آنے پر میسر ہونے والا خالی پیریڈ ایسے کسی قصے سے بھرجاتا تھا، جیسے سادہ صفحے پر رنگین پینسلوں کے رنگ!

’’ہماری کوٹھی ہے ناں اس کے دس کمرے ہیں۔‘‘ سلیم نے قصے کو آگے بڑھایا:’’ایک دن ہم لوگ رات کو آئے گاڑی پر، گاڑی گیراج میں کھڑی کی اور اندر گئے، تو اندر سے ناں کسی کے بھاگنے کی آواز آئی۔‘‘ اس نے مٹھیاں بھینچ اور پاؤں زمین پر مار کر بھاگنے کا عمل اسٹیج کیا۔

قصے کا یہ سنسنی خیز موڑ دل چسپی اور تجسس کچھ اور بڑھاگیا۔ شہزاد نے گردن موڑ کر کلاس روم کے دروازے کی طرف دیکھا کہ کہیں کوئی مس آکر اس قصے کی ڈور نہ توڑ جائیں، اور پھر دونوں ہتھیلیاں ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر سلیم کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔ شاذ نے حسب عادت ڈیسک کو پینسل سے بجانا ترک کیا اور پینسل جیومیٹری باکس میں رکھ دی۔ خالد اور صائم ساکت ہوکر بیٹھ گئے۔

’’ڈیڈی نے زور سے پوچھا، کون ہے؟ کوئی بولا ہی نہیں۔ ڈیڈی نے بولا چور! تم سامنے آؤ۔ پھر ناں ڈیڈی نے گن نکالی چوکی دار اور دوسرے نوکروں کو آواز دے کر بلایا اور پوری کوٹھی میں چور کو ڈھونڈنے لگے۔ پھر سب باہر لان میں چور کو ڈھونڈنے گئے۔ ہماری کوٹھی کا اتناااا بڑا لان ہے۔‘‘ سلیم کے ہاتھوں کے پھیلاؤ سے گھبرا کر سب پیچھے ہٹ گئے۔

’’پھر ناں ڈیڈی کو ایک درخت کے پیچھے اس کی شرٹ نظر آئی۔ ڈیڈی تیزی سے گئے اور اسے پکڑ لیا۔ بہت مارا اسے، پھر پولیس کو دے دیا۔‘‘

عین اسی وقت ٹن ٹن ٹن نے نئے پیریڈ کا اعلان کیا اور کچھ ہی دیر بعد مس شمسہ کلاس روم میں داخل ہوئیں۔

چھٹی کی خوش خبری سناتی گھنٹی کی ٹن ٹن ٹن کے ساتھ ہی، شور بلند ہوا اور بچے اپنے اپنے بیگ سنبھالتے اسکول سے نکلنے لگے۔ شہزاد، خالد، صائم اور سلیم کے سارے کلاس فیلو اچھلتے کودتے روانہ ہوئے۔ بس شاذ، سلیم کے ساتھ بیٹھا رہا۔

’’اِس کی کوٹھی تو اسکول کے قریب ہی ہے، پھر یہ میری طرح گھر جانے کے لیے کس کا انتظار کررہا ہے، جاتا کیوں نہیں؟‘‘ سلیم نے شاذ کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ وہ کچھ دنوں پہلے ہی تو ہاف ٹائم میں شاذ کے گھر گیا تھا۔

’’تم کیوں نہیں جارہے؟‘‘ آخر اس نے پوچھ ہی لیا۔

’’میں آج صوفیہ آنٹی کے گھر جاؤں گا۔ تمھارے ساتھ تانگے پر، ٹخ ٹخ ٹخ‘‘ اس نے ہاتھوں میں خیالی لگام پکڑ کر گھوڑے کو عازم سفر کرنے کے لیے تانگے والوں کی مخصوص آواز نکالی۔ سلیم کو یاد آیا۔ ٹھیک اسی انداز میں اس نے اپنے دوستوں کو جواب دیا تھا:’’تانگے میں بہت مزہ آتا ہے، ٹخ ٹخ ٹخ، ٹپاٹپ ٹپاٹپ ٹپاٹپ۔‘‘ اس نے دونوں مٹھیوں میں تصوراتی لگام تھام کر اپنے جوتے فرش پر مار کر گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز نکالنے کی کوشش کی تھی۔

یہ جواب اس سوال کا تھا جو شاذ نے پوچھا تھا کہ ’’تم گاڑی میں اسکول کیوں نہیں آتے، تانگے پر کیوں آتے ہو؟‘‘

صوفیہ آنٹی شاذ کی خالہ تھیں، ’’ایجوکیشن سٹی‘‘ کے قریب ہی واقع ایک اور نجی اسکول کی پرنسپل، ٹیچنگ کا شوق تھا، ورنہ ڈاکٹر شوہر کے ہوتے ہوئے انھیں ملازمت کرنے کی کیا ضرورت؟ ان کا بنگلہ سلیم کے گھر کے قریب ہی تھا۔

شاذ تانگے کا انتظار کرنے اسکول کے دروازے کی طرف چلا گیا اور سلیم اپنا بیگ اٹھائے ہیڈ مس کے کمرے میں آگیا، جہاں اپنے اپنے تانگے یا لینے آنے والوں کا انتظار کرتے بچے بیٹھے تھے۔ ’’جا بیٹا تانگا آگیا!‘‘ کالے سفید بالوں اور مضبوط کاٹھی والی ماسی نے اس کے بالوں میں شفقت سے ہاتھ پھیر کر اطلاع دی۔ سلیم نے آہستگی سے بیگ اٹھایا اور تھکے تھکے قدموں سے دروازے کی طرف چل دیا۔

شاذ پہلے ہی تانگے میں بیٹھ چکا تھا۔ سلیم اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ پچھلی نشست پر شاذ کی صوفیہ آنٹی دو استانیوں کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک روز صبح اور بھری دوپہر سفر کرتے اس تانگے کی یہ مخصوص سواریاں تھیں۔ ان میں بس شاذ نیا تھا۔

سلیم مسلسل کسی سوچ میں گُم تھا۔ تانگا شہر کی سڑکوں پر اپنی ٹپاٹپ کی متوازن تال کے ساتھ چلتا ریلوے کالونی میں داخل ہوا اور کھردری سڑک پر چلتا ہوا ایک زرد رنگ کے چھوٹے سے کوارٹر کے دروازے پر رک گیا۔ دو چوکور کمروں کا کوارٹر، جس کے چھوٹے سے ٹوٹے پھوٹے صحن میں پوری دوپہر کی دھوپ بھری ہوئی تھی۔ سلیم کود کر تانگے سے اترا، لکڑی کے دروازے پر پہنچا اور بے تابی سے لوہے کی کنڈی کو دروازے پر پٹخا۔ دروازہ کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ کھلا۔

’’السلام علیکم امی!‘‘ اس نے دروازے پر کھڑی عورت کو سلام کیا۔

کپڑے بدلنے اور کھانا کھانے کے بعد وہ لیٹا ایک ہی بات سوچ رہا تھا۔

’’شاذ کہے گا کہ تمھارا تو چھوٹا سا گھر ہے، وہ سب کو بتادے گا۔‘‘

’’کل پتا ہے کیا ہوا۔ ہماری کوٹھی کے سامنے جو گلی ہے ناں وہاں اتنااااا بڑا گڑھا ہوگیا۔ پوری گلی بند تو تانگا گلی میں جا ہی نہیں سکتا تھا، تانگے والے نے جس گھر کے سامنے اتارا، وہ ہمارے جاننے والوں کا ہے، میں ان کے گھر گیا اور ان کے پچھلے دروازے سے نکل کر اپنے گھر چلاگیا۔ پوچھ لو شاذ سے، یہ کل میرے ساتھ گیا تھا۔‘‘

قصہ تیار تھا۔ وہ مسکرایا اور کروٹ لے کر سکون سے سوگیا۔


اُف ۔۔۔ یہ کپڑے!

$
0
0

عام طور سے گھروں میں کئی کام ایسے ہوتے ہیں، جو ہفتہ وار ترتیب سے کیے جاتے ہیں، اس کے لیے ہفتے کا کوئی ایک دن مقرر کر لیا جاتا ہے، جیسے گھر کی تفصیلی صفائی، سودا سلف کی خریداری یا پھر کپڑوں کی دھلائی وغیرہ۔ یہ وہ کام ہیں جو خواتین ہفتے یا پندرہ دن میں انجام دیتی ہیں۔

ان میں کپڑے دھونا سب سے زیا دہ دقت اور وقت طلب کا م ہے اور یہ ایسا کام ہے جو سو فی صد توجہ چاہتا ہے۔ بہت سی خواتین کپڑے دھوتے وقت اکثر لاپروائی سے کام لیتی ہیں۔ انہیں اس بات کا بالکل نہیں پتا ہوتا کہ کون سے کپڑے پہلے اور کون سے بعد میں دھونے چاہئیں۔ کپڑوں کو ایک دوسرے کا رنگ لگنے سے بچانے کے لیے کون سے طریقے آزمانے چاہئیں اور کپڑوں پر لگ جانے والے مختلف داغ دھبوں کو کس طرح سے دور کرنا چاہیے۔ کپڑوں کی دھلائی سے پہلے اگر آپ درج ذیل چند باتوں کو ذہن نشین کر لیں گی، تو آپ کسی بھی مشکل سے بچ سکتی ہیں۔

سب سے پہلے کپڑوں کی چھا نٹی کا کام کریں، جو کپڑے بہت زیادہ میلے اور گندے ہیں انہیں الگ کر لیں۔ اس کے بعد ان کپڑوں کو الگ کریں، جو ذرا کم میلے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہلکے اور بھاری کپڑوں کو بھی الگ الگ کر لیں۔ یاد رکھیں جینز، تولیے، بیڈ شیٹ اور پردے بھاری کپڑوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح رنگوں کے اعتبار سے بھی کپڑے الگ کریں۔ سب سے پہلے سفید اور اسی سے ملتے جلتے ہلکے رنگ کے کپڑوں کو الگ کریں، جن کپڑوں کا رنگ نکلتا ہو، جیسے نیلا، لال، میرون، کالا اور بعض اوقات ہرا رنگ بھی کچا ہوتا ہے۔ ان رنگوں کے کپڑوں کو دوسروں رنگوں کے کپڑوں کے ساتھ دھونا سراسر بے وقوفی ہے۔

کپڑوں کی چھانٹی کے بعد سب سے پہلے مشین میں ایک مقررہ مقدار تک پانی بھریں پھر اس میں ڈٹرجنٹ  پاؤڈر ڈالیں اور آخر میں کپڑے شامل کریں۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ مشین کا ڈرائر بھی ہر کپڑے کے لیے مناسب نہیں ہوتا۔ کچھ فیبرکس یا کپڑے کی بناوٹ اس قسم کی ہوتی ہے کہ اسے اگر ڈرائر میں ڈالا جائے تو سلوٹو ں سے بھر جاتے ہیں۔ جیسا کہ ٹریک سوٹ  یا پیرا شوٹ قسم کا کوئی کپڑا۔ اس قسم کے کپڑوں کو دھونے کے بعد ہینگر پر سوکھنے کے لیے لٹکا دیں۔

کپڑے دھوتے ہوئے موزوں کو سب سے آخرمیں دھوئیں۔ بالکل اسی طرح زپ اور ہک والے کپڑوں کو ہمیشہ زپ اور ہک بند کر  کے مشین میں ڈالیں۔ زپ، ہُک یا بٹن کھلے رہ جانے کی صورت میں ان کی رگڑ سے مشین کے اندر لائنیں یا خراشیں پڑ جاتی ہیں یا یہ بھی ممکن ہے کہ زپ وغیرہ مشین کے ڈرم میں پھنس جائیں، جسے نکالنا آپ کے لیے مشکل ہو جائے اور کپڑے آپس میں بھی الجھ سکتے ہیں۔

دھات سے بنی ہوئی کوئی بھی چیز اگر کپڑوں کے ساتھ مشین میں چلی گئی ہے، تو یہ کسی نہ کسی طرح مشین کو نقصان پہنچائے گی۔ مثال کے طور کپڑے مشین میں ڈالنے سے پہلے اگر ان میں موجود پاکٹ یا جیب وغیرہ خالی کر لیں اور ان میں موجود سکے نکال دیں، تو یہ بہتر عمل ہو گا کیوںکہ سکے بھی مشین میں زپ جیسا عمل کر سکتے ہیں۔ اس لیے کپڑے دھو نے سے پہلے شرٹس اور پینٹس کی تمام جیبیں خالی کر لیں۔

کپڑوں کو دھونے سے پہلے یہ پلان کر لینا ضروری ہے کہ اگرآپ ہفتہ یا پندرہ دن کے بعد دھلائی کر رہی ہیں، تو ان کا ایک ٹائم ٹیبل بنا لیں جیسے ایک بار میں سارے گھر کے پہننے یا استعمال ہو نے والے کپڑوں کی دھلائی کی جائے گی اس کے اگلی باری   میں بھاری کپڑے جیسے بیڈ شیٹ، تکیوں کے غلاف، پردے، کشن تولیے اور میٹس وغیرہ۔ اس تقسیم سے یہ فائدہ ہو گا کہ ایک ساتھ اتنے سارے کپڑوں کی دھلائی کے بہ جائے اگر آپ اسے وقفوں سے دھوئیں گی، تو نہ صرف تھکاوٹ سے بچیں گی، بلکہ آپ کا وقت بھی بچے گا۔

کپڑے دھوتے وقت ان باتوں پر عمل کریں  تو کسی بھی مشکل سے بچا جاسکتا ہے۔

٭کپڑوں کا رنگ ہلکا ہونے سے بچانے کے لیے انہیں الٹا کر کے دھوئیں اور سوکھنے کے لیے بھی الٹا ہی لٹکائیں۔ ایسا کرنے سے جن کپڑوں کا رنگ کچا ہو گا، وہ دھونے کے بعد کم نکلے گا اور ماند بھی نہیں پڑے گا۔

٭گہرے رنگ کا کوئی بھی کپڑا جسے آپ پہلی بار دھو رہی ہیں، تو اس کے لیے ٹھنڈے پانی میں نمک ملا کر دھوئیں اور گہرے رنگ کے وہ کپڑے جنہیں آپ پہلے کئی بار دھو چکی ہیں، ان میں چمک لانے کے لیے بھی یہ ہی عمل کریں۔ نمک ملا ٹھنڈا پانی ڈارک رنگ کے کپڑوں کی دھلائی کے لیے موزوں ہوتا ہے۔

٭بہت ساری دفعہ ایسا ہو تا ہے کہ کالے رنگ کے کپڑے مسلسل دھونے کے بعد برائون رنگ کے ہونے لگتے ہیں۔ کالے رنگ کی چمک برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کپڑوں کو دھونے کے بعد ایک بالٹی پانی میں کافی یا تیز چائے  ڈال کر اسے کچھ دیر کے لیے بھگو دیں اور پھر سکھا لیں۔

٭عموما شرٹس وغیرہ کی کالر بہت زیادہ میلی ہوتی ہیں، ایسی شرٹوں کو مشین میں ڈالنے سے پہلے ان کے کالر پر واشنگ پاؤڈر ڈال کر انہیں کسی فالتو ٹوتھ برش سے رگڑ کر صاف کر لیں پھر مشین میں ڈالیں۔

٭سلک کے کپڑے دھونے کے بعد انہیں ایک بالٹی پانی میں ایک چمچا بیسن ملا کر اچھی طرح ملا لیں اور سلک کے کپڑے اس میں بھگو دیں۔ ایسا کرنے سے سلک کے کپڑوں کی چمک ماند نہیں پڑے گی اور بالکل نئے محسوس ہوں گے۔

٭تولیے دھونے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ دھونے کے دوران یہ سخت ہو جاتے ہیں ایسے میں اگر واشنگ مشین میں واشنگ پاؤڈر کے ساتھ تھوڑا سا بورک پاؤ ڈر بھی ڈال لیا جائے تو یہ نرم رہے گا۔ بالکل اسی طرح گرم کپڑوں کی دھلائی کرتے ہوئے اگر گرم پانی میں ایک چمچا بورک پاؤڈر ملا لیا جائے، تو گرم کپڑوں پر رواں نہیں آئے گا۔

٭جینز اور اسی قسم کے دوسرے کپڑوں کو دھونے سے بعض اوقات ان کا رنگ ہلکا ہو جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دھونے سے پہلے جینز وغیرہ کو ٹھنڈے پانی میں کچھ دیر کے لیے بھگو کر رکھ دیں۔ اس کے بعد ہاتھ سے یا پھر واشنگ مشین میں دھوئیں۔

٭رنگین کپڑوں کو ٹھنڈے پانی اور سفید کپڑوں کو گرم پانی میں دھوئیں۔ موزوں کو دھونے سے پہلے انہیں سرکہ ملے پانی میں کچھ دیر کے لیے بھگو کر رکھ دیں۔

٭کپڑوں لگے مختلف داغ دھبے کیسے صاف کیے جائیں۔ خون کے دھبے صاف کرنے کے لیے پہلے ان کپڑوں کو خوب ٹھنڈے پانی میں بھگو کر رکھ دیں، پھر دھبے کے اوپر بورک پاؤڈر یا امونیا اور گلیسرین لگا کر دس منٹ بعد دھولیں اور استری کر لیں، دھبے ایک دم غائب ہو جائیں گے۔

٭چائے، کافی یا جوس کے داغ مٹانے کے لیے ان دھبوں پر نمک ڈال کر برف ملیں اور دھو کر استری کر لیں۔ اس سے داغ صاف ہو جائیں گے۔ آئس کریم کے نشان صاف کرنے کے لیے بورک پاؤڈ ر لگا کر دھوئیں۔

٭کپڑوں پر لگ جانے والے چکنائی کے داغ دھبوں کو دور کرنے کے لیے ان پر دہی لگا کر ہلکا  سا رگڑیں اور پھر دھولیں۔ دہی کپڑے کی چکنائی اپنے اندر جذب کر لے گا۔ ہئیر ڈائی کے نشان بعض اوقات کپڑوں پر بھی آجاتے ہیں۔ اس کے لیے تھوڑی سی گلیسرین داغ پر لگ کر کچھ دیر کے لیے چھوڑ دیں۔ پندر ہ منٹ بعد اسے واشنگ مشین میں ڈال کر اچھی طرح رگڑ کر دھولیں۔ زنگ کا داغ چُھٹانے کے لیے ان پر تھوڑی دیر کے  لیے لیموں یا سرکہ لگا کر چھوڑ دیں۔ داغ صاف ہو جائیں گے۔

پیچ و خم یہ گیسوؤں کے!

$
0
0

خواتین کا اصل حسن ان کے بالوں میں ہوتا ہے۔ اپنے بالوں کو زیادہ دلکش بنانے میں انھیں قدرتی طورپر دل چسپی ہوتی ہے۔ اس کے لیے وہ طرح طرح کے ٹوٹکے آزماتی رہتی ہیں، جن میں سے بیش تر ان کے بالوں کو فائدہ پہنچانے کے بہ جائے نقصان پہنچاتے ہیں۔

ہر عورت اور نوجوان لڑکیاں اپنے بالوں کے حسن اور ان کی صحت پر خصوصی توجہ دیتی ہیں کیوں کہ وہ جانتی ہیں کہ خوش نما بال حسن اور وقار میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

خوب صورت اور صحت مند بالوں کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ وہ گھنے، چمک دار، نرم و ملائم اور سیاہ ہوں، ان میں خشکی اور کھردراپن نہ ہو، سر کے بالوں کا گرنا، خشکی کا ہونا اور بالوں کی کوئی خرابی جلد دور نہیں کی جا سکتی، کیوں کہ ان کا تعلق مجموعی طور پر جسمانی صحت سے ہوتا ہے۔ اس لیے جو خواتین اپنے بالوں کو صحت مند رکھنا چاہتی ہیں۔ ان کے لیے سب سے پہلے اور ضروری بات تو یہ ہے کہ وہ اپنی غذا پر خاص توجہ دیں، اچھے بالوں کا تعلق اچھی اور متوازن غذا، اچھی جلد اور صحت سے ہے۔

جو خواتین متوازن اور عمدہ غذا استعمال کرتی ہیں۔ ان کے بالوں میں کسی طرح کی کمی کا کوئی سبب نہیں ہوتا، عمدہ نرم اور گھنے بالوں کے لیے ایسی غذا کی ضرورت ہوتی ہے جس میں حیاتین اور پروٹین کے ساتھ ساتھ کیلشیم سبزیاں اور پھل استعمال کیے بغیر زیادہ عرصے تک بالوں کی مناسب نگہداشت اور صحت ممکن نہیں۔ اس لیے خوب صورت اور مضبوط بالوں کے لیے نہایت ضروری ہے کہ بالوں کی بیرونی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنی غذا کا بھی خاص خیال رکھا جائے تاکہ اندرونی طور پر بھی بال صحت مند رہیں۔

بالوں کی خوب صورتی کے لیے ان کی ساخت کے مطابق چند آزمودہ نسخے درجہ ذیل ہیں۔ ان پر عمل کر کے خواتین اپنے بالوں کو خوش نما بنا سکتی ہیں۔ قدرتی اجزا پر مشتمل یہ نسخے بالوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر ان کی حفاظت کے لیے موثر ثابت ہوتے ہیں۔

٭… بال سفید ہونے کی صورت میں دس گرام کالے تل اور دو سو پچاس گرام شکر کو پگھلا لیں اور جب وہ ابلنے لگیں تو اس میں کالے تل ڈال کر ملالیں اب اسے دن میں تین مرتبہ صبح، دوپہر اور شام استعمال کریں۔ یہ ایک دن کی خوراک ہے، دو ہفتے بعد سفید بال کالے ہونے لگیں گے۔

٭… بالوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ انہیں تیز دھوپ سے بچایا جائے اور ان کو نہاتے ہوئے یا سر دھوتے وقت بہت تیز گرم یا بہت سرد پانی سے نہ دھویا جائے بلکہ نیم گرم پانی یا نارمل پانی سے بالوں کو دھویا جائے۔

٭… بالوں کی حفاظت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بالوں کو بجلی کی گرمی یا برقی برشوں سے نہ سکھایا جائے، بلکہ انہیں قدرتی ہوا میں سکھایا جائے۔ سردیوں میں ہلکی دھوپ میں سکھائیں، برقی ہیئر ڈرائر بالوں کی قدرتی چمک کو نقصان دیتے ہیں۔ ان کی مصنوعی حدت اور رگڑ بالوں کی جڑوں کو کمزور کرتی ہے، بال کھردرے اور بدنما ہونے لگتے ہیں پھر دیکھتے ہی دیکھتے بالوں کا قدرتی رنگ اور خوب صورتی ختم ہونے لگتی ہے۔

٭… بالوں کو سلجھانے اور سنوارنے کے لیے لوہے کے تاروں والے برش کا استعمال نہ کریں، بلکہ سب سے بہتر کنگھا، سینگ یا ہاتھی دانت اور لکڑی سے تیار کردہ ہوتاہے۔ گھنگریالے بالوں کے لیے کیکر کی گوند اور سرسوں ہم وزن لے کر چھان لیں، پھر اس سفوف کو تھوڑے سے نیم گرم پانی میں  حل کرلیں، پانی اتنا ہو جس سے یہ ایک سیال مادہ بن جائے، اب اسے بالوں میں لگالیں اور پندرہ، بیس منٹ تک خشک کر لیں، روزانہ یہ عمل کریں کچھ دنوں کے بعد بال بہت گھنگریالے ہو جائیں گے۔

٭ … دھوپ زدہ بالوں کو محفوظ اور خوب صورت بنانے کے لیے دو سے تین چمچے دہی میں تھوڑی سی ملتانی مٹی اور ایک کیلا اچھی طرح ملا کے بالوں میں لگائیں اور دو گھنٹے بعد بالوں کو دھولیں۔ بالوں کا کھردرا پنٹھیک ہوجائے گا۔

٭… بالوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ گھر سے باہر نکلنے سے پہلے بالوں کو دوپٹے یا اسکارف سے خوب اچھی طرح ڈھانپ لیں تاکہ بال دھوپ کی شدت سے محفوظ رہیں اور ان کی قدرتی چمک اور نرمی متاثر نہ ہو سکے۔ موسم کوئی بھی ہو تھوڑی سی احتیاط ضروری ہے۔

آرام میرا بھی حق ہے!

$
0
0

ہمارے ہاں ملازمت پیشہ لڑکیوں کے لیے دُہرا معیار کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بالخصوص  جب وہ شادی کے بعد کسی ملازمت کا بار اٹھاتی ہیں، تو کئی گمبھیر مسائل ان کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ یہ معاشرہ مردو ں کا ہے۔ اس لیے اکثر باصلاحیت خواتین کو دوران ملازمت اپنے ساتھ کام کرنے والے مرد ساتھیوں کے مختلف رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات دفتری سیاست سہنا پڑتی ہے۔  پیشہ ورانہ دائرہ کار کو مردوں کا میدان سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائی میں مشکلات پیش آتی ہیں، کیوں کہ کوئی ان کے کام  پر اعتماد کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔

معاشرے میں ابھی بھی کھلے دل سے عورتوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کی روایات کلی طور پر قائم نہیں ہوسکی ہے۔ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا اور انہیں ہر شعبہ حیات میں ذہنی اور عقلی طور پر تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود معاشرے میں خواتین کی ملازمت کے حوالے سے خاصی تبدیلی آئی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، بینکاری، ذرایع اِبلاغ  اور تعلیم کے شعبوں میں خواتین ہی چھائی ہوئی ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک مرد شام کو گھر لوٹتا ہے، تو سب اس کے آگے پیچھے ہوتے ہیں۔۔۔ بیوی کھانے اور چائے کا اہتمام کر رہی ہے کہ شوہر پورے دن کی مشقت کے بعد تھکا ہارا آیا ہے، جب کہ نوکری پیشہ لڑکیوں کو تنہا ہی دو محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ ملازمت سے واپسی پر گھر کے مسائل منہ کھولے اس کے سامنے ہوتے ہیں اور وہ دَم لیے بنا ہی ان سے نمٹنے میں لگ جاتی ہے۔

ملازمت کے باوجود خواتین پر مکمل طور پر گھر کی ذمہ داریاں بھی ڈال دینا انتشار کا باعث ہے۔ بہت سے گھرانوں میں مردوں کو اونچے سنگھاسن پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ وہ گھر کے کسی بھی کام کو ہاتھ لگانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس طرح سارا بوجھ بار اس گھر کی عورت پر آجاتا ہے۔ دو کشتیوں میں سوار وہ عورت جلد ہی تھک جاتی ہے اور کسی ایک محاذ سے فرار اختیار کرنے لگتی ہے۔ متوسط طبقے میں ایسی خواتین بھی ہیں، جو اپنے چھوٹے بچوں کو گھروں پر چھوڑ کر نوکری کے لیے مجبوراً نکلتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنے خاندان کو ناکافی وقت دینے پر اپنے آپ کو قصوروار سمجھنے لگتی ہیں۔

نوبیاہتا لڑکیوں کی اکثریت اس بات سے بھی پریشان ہو جاتی ہے کہ جب وہ دفتر سے تھکی ہاری لوٹتی ہیں، تو معمول کے مسائل کے ساتھ  غیر منظم گھریلو امور ان کو کوفت سے دوچار کر دیتے ہیں۔ ایسے میں اگر وقت پر کھانا تیار نہ ہو سکے، تو تکرار اور تلخی در آنے لگتی ہے۔ ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بری لگنے لگتی ہیں اور گھر کی فضا میں ایک کھنچاؤ آجاتا ہے۔ اس طرح بھی نئی شادی شدہ زندگی کا حُسن گہنانے لگتا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ ایسے میں آپ اپنے مسائل شوہر کے گوش گزار کرائیے۔ اس طرح انہیں بھی اندازہ ہوگا کہ نوکری آپ کے لیے پھولوں کی سیج نہیں۔ آپ بھی انہی کی طرح پیشہ ورانہ دباؤ سے نبرد آزما ہوتی ہیں اور پھر گھریلو امور بھی دیکھتی ہیں۔ اس سے یقیناً ان کے اندر تبدیلی آئے گی، کیوں کہ گھر کا ماحول مرد اور عورت دونوں کی ہم آہنگی کے ہی مرہون منت ہے، اس لیے مردوں کو بھی دفتری امور کے بعد گھر والوں کو وقت دینا چاہیے۔ رات کا کھانا اہل خانہ کو ایک ساتھ کھانا چاہیے۔

فارغ وقت میں کچھ ایسا کرنا چاہیے، جس سے یک سانیت کا احساس نہ ہو اور سب تازہ دم ہو جائیں۔ کسی دوست یا عزیز کے گھر چلے جائیں، کہیں کھانا کھالیں، کسی تفریحی مقام کا رخ کر لیں۔ بہت سے ایسے چھوٹے چھوٹے کام ہوتے ہیں، جس سے گھر کا ماحول اچھا اور خوش گوار ہو جاتا ہے۔ ایسے چھوٹے چھوٹے کام آپس میں پیار محبت بڑھانے کی وجہ بنتے ہیں۔ گھریلو کاموں میںہاتھ بٹاتے ہوئے مردوں کو کسی قسم کی شرمندگی نہیں ہونی چاہیے۔

جب معاش میں ان کی شریک حیات حصے دار ہے تو گھر کے کاموں میں ان کی ساجھے داری کی کیا بات۔ مرد کا ذرا سا تعاون ان دونوں کی زندگی میں آسانیاں فراہم کر سکتا ہے، اور انہیں یہ احساس آپ دلا سکتی ہیں کہ زندگی کی خوب صورتی برقرار رکھنے کے لیے رشتے کو بھی وقت دینا ضروری ہے۔ یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ ملازمت پیشہ جوڑوں کے پاس وقت کی کمی ہوتی ہے، اس لیے یہ بات بھی پیش نظر ہونی چاہیے کہ کہیں معاشی معاملات کی درستگی میں ازدواجی تعلقات میں فرق نہ پڑے۔

چھٹا کراچی ادبی میلہ اختتام پذیر، سوا لاکھ سے زائد شہریوں کی شرکت (national)

$
0
0

کراچی: کراچی ادبی میلہ امن وآسودگی کی بہار پھیلا کراختتام پذیر ہوا،میلے کے3دنوں میں 85سیشن منعقد ہوئے ا ور 30کتابوں کی تقریب رونمائی ہوئی۔

منتظمین کے مطابق سوالا کھ سے زائد شہریوں نے ادبی میلے میں شرکت کی جبکہ پاکستان، بھا رت، امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، بنگلہ دیش اور روس سمیت دیگر ممالک کے200کے قریب شعرااورادیب بھی میلے میں شریک ہوئے۔ اختتامی تقریب میں امینہ سید، آصف فرخی اور ضیا محی الدین نے خطاب کیا۔ اختتامی تقریب میں ضیا محی الدین نے مشتاق احمد یوسفی کی کہانیاں حویلی،فنون لطیفہ کو اس شگفتہ اورسحر انگیزانداز میں پڑھاکہ شرکا داد دیے بغیرنہ رہ سکے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اس لیے یوسفی صاحب کی مزاح انگیز کہانیوں کا چنائوکیا ہے کیونکہ انشاکہہ گئے تھے کہ ہم عہد یوسفی میں ہیں ، اوراس ادبی تقریب کا اختتام ان کے ذکر کے بغیر ناممکن ہے۔

اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کراچی ادبی میلے کی شریک بانی اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی منیجنگ ڈائریکٹر چیئرمین امینہ سید کاکہنا تھا کراچی ادبی میلہ شہر میں امن وآشتی کے فروغ میں اہم کردارادا کررہا ہے ۔ آزاد مصنف ہرمعاشرے کے ضمیر کی عکاسی کرتے ہیں ۔اس سلسلے میں مل کر لائبریری کلچر کو ملک گیر سطح پر فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے اور ساتھ ہی معتبر لکھنے والوں کی ایوارڈ کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے ۔آصف فرخی نے تعلیم کی اہمت پر زور دیتے ہوئے نین تارا سہگل اور زہرہ نگاہ کی کتابوں کا حوالہ  دیا اورکہا کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم تعلیم یافتہ ہیں۔میلے کے آخری دن بھی 43سیشنزمنعقد کیے گئے۔

معروف بھارتی مصنفہ نین تارا سہگل کی کتاب سے ’ سیاسی تخیل‘  کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی اس موقع پر مصنفہ نین تارا سہگل نے ترقی پذیر ممالک سے لکھنے والے کردار کی اہمیت  پرگفتگو کی اور کتاب  کے مختلف پہلوں کواُجاگر کیا۔مصنفہ کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک  کے ادیبوں کواپنے ملک کے لیے لکھنا چاہیے۔ سندھ ساگر اور قیام پاکستان کے عنوان سے حمیدہ کھوڑو اور اعتزاز حسن  کے ساتھ سیشن کا انعقاد کیا گیا۔حمیدہ کھوڑو کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان میں سندھ کا بنیادی اور کلیدی کردار تھا۔ اعتزازحسن کا کہنا ہے کہ پاکستانی کے طور پر ہمیں اپنا تشخص تلاش کرنا چاہیے۔

پی ٹی وی اور آج کے ڈرامے کے عنوان سے  سے بھی ایک سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین ، سمیرا، امینہ شیخ سمیرا افضل، نیلو فر عباسی اور دیگر شریک ہوئے جبکہ میزبانی کے فرائض راجو جمیل نے انجام دیے۔دریں اثنامعروف ادیب مستنصر حسین تا رڑ  کے سفرنامہ  لاہور سے تاشقند تک  کے حوالے سے سیشن کا انعقاد کیا گیا، اصغر ندیم سید نے تاثرات  بیان کیے ۔ منٹو کی ڈرامہ نگاری اور فلم بطور پاور فل میڈیا کے  حوالے سے بھی سیشنز کا انعقا د کیا گیا ۔منٹو اور انتظار حسین کی کہانیوں کو فریال گوہر نے ڈرامائی انداز میں پڑھا اور حاضر محفل سے خوب داد وصول کی۔

میرا نے بھی فلم کے حوالے سے ایک سیشن میں شرکت کی،انھوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ مجھے اس قابل سمجھا گیا اور اس طرح کی محفل میں پہلی بار شرکت کرکے مجھے بہت خوشی ہوئی۔کراچی ادبی میلے میں تعلیم کے حوالے سے بھی سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں ممتازماہر تعلیم زبید ہ جلال، عارفہ سید زہرہ،عشرت حسین سبرینہ داود اورامینہ سید نے شرکت کی جبکہ میزبانی کے فرائض بیلہ رضا جمیل نے انجام دیے ۔مقررین نے پاکستان میں تعلیم کی موجودہ حالت پر توجہ دلائی۔

کراچی ادبی میلے میں معروف ادارکار بشریٰ انصاری کے ساتھ سیشن میں لوگوں کی دلچسپی قابل دید تھی، بشرہ انصاری  نے اپنے مخصوص انداز گفتگو سے حاضرین کوبے ساختہ قہقہے لگانے پر مجبور کردیا ۔ بشریٰ انصاری نے مختلف سیاسی لیڈروں سے کیے گئے انٹرویوز کے حوالے سے جوباتیں حاضرین سے شیئر کیں تو حاضرین مسکرا ئے بغیر نہ رہ سکے ۔بشریٰ انصاری کاکہنا تھاکہ اب انھیں عمران خان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا  تو پہلا سوال یہ کرینگی کہ ہ دھرنے کے دوران ڈیٹ پر کس وقت جاتے تھے ؟۔حاضرین سے  سوال وجواب کے سیشن میں بشریٰ انصاری کے بے ساختہ جوابات نے ہرطرف قہقہے بکھیر دیے۔

کراچی ادبی میلے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی،نہ صرف کراچی سے بلکہ پنجاب اوربلوچستان  سے بھی لوگ اس میلے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے،لوگوں کا کہنا تھاکہ اس طرح کے ایونٹ مزید ہونے چاہیے،حکومت کوچاہیے کہ وہ آگے آئے اوراس طرح کے پروگرام کروائے تاکہ ہم عوام اس طرح کی محفلوں سے مستفید ہوسکیں۔نہ صرف عوام بلکہ ہر مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والے افراد سیاسی وسماجی شخصیات،انسانی حقوق کے ترجمان،این جی اوز، شوبز ستارے،ادیب وموسیقار نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اہل کتاب کاکہنا تھاکہ یہ میلہ کراچی کی نمایاں ترین ادبی وثقافتی سرگرمی بن چکا ہے،اور زند گی کا حسن،اس کی نزاکت اورلطافت ادب ہی کے ذریعے ملتی ہے۔

کراچی ادبی میلے میں احتجاج بھی دیکھنے کوملا،نایاب پرندوں کے شکار کے حوالے سے جانوروں وپرندوں کے تحفظ کی تنظیم نے خاموش احتجاج ریکارڈ کرایا،انکا کہنا  تھا کہ تلور پرندہ نایاب ہے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اس کو تحفظ فراہم کریں۔

نقل ہوئی ناکام، بولی وڈ کی فلاپ ری میک فلمیں

$
0
0

فلمیں بنانا ایک مشکل ترین کام ہے اور اس کا بارے میں و ہی لوگ صیح طرح سے جانتے ہیں جو اس دشت کی سیاحی میں خاک چھانتے پھتے ہیں۔

کسی بھی فلم کی تیاری یا اس کے پہلے مرحلے میں اس کی کہانی ، پلاٹ یا اسکرپٹ شامل ہوتا ہے۔ رائٹرز سردھڑ کی بازی لگاکر اگر کوئی کہانی لکھتے ہیں وہ اگر پرڈیوسر کی سمجھ میں نہ آئے تو ساری محنت بے کا ر جاتی ہے۔ اس لیے اب بولی وڈ کی فلموں میں فلم کے اہم حصے یعنی کہانی کا فقدان نظر آتا ہے۔ فلم میکرز رائٹرز کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ کوئی بھی اوریجنل کہانی نہیں لکھوانا چاہتا۔ اسی لیے بولی وڈ کے فلم میکرز جن میں کامیاب فلم میکرز بھی شامل ہیں ہالی وڈ کی فلموں پر بڑی آسانی سے ہاتھ صاف کرتے ہیں اور ایسا آج سے نہیں بلکہ اس وقت سے ہو رہا ہے جب شاید بولی وڈ میں فلموں کا آغاز ہوا تھا۔ اب ہندی فلم میکرز ساؤتھ اور ملیالم کی فلموں کا ری میک بھی بنانے لگے ہیں۔ ایسی کئی فلمیں ہیں جو اپنے اصل ورژن میں تو کام یابی سے ہم کنا ر ہوئیں لیکن جب ان کا ری میک بولی وڈ میں بنایا گیا تو وہ بری طرح ناکام ہوگیا۔ یہاں ایسی ہی چند چیدہ چید ہ فلموں کا ذکر ہے۔

٭زنجیر: بولی وڈ کی یہ بلاک بسٹر فلم 1973میں ریلیز ہوئی تھی اور اس فلم کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس کے ذریعے امیتابھ بچن کو بریک ملا اور اسی فلم کی وجہ سے انہیں اینگری ینگ مین کا خطاب بھی ملا۔ زنجیر میں بگ بی کی پاورفل پرفارمینس نے شائقین کے دل موہ لیے تھے۔ نہ صرف یہ بل کہ فلم کی دیگر کاسٹ مثلاً پران (شیر خان)، جیہ بہادری (مالا) اور بندو (مونا ڈارلنگ) کے کرداروں کے ذریعے آج بھی فلمی شائقین کو یاد ہے۔ اس کے بر عکس جب زنجیر کا ری میک زنجیر ہی کے نام سے بنایا گیا تو دیکھنے والوں نے خوب بر ا بھلا کہا کہ یہ فلم کسی طرح سے بھی آڈینس کے معیار پر پوری نہیں اتری۔ اس فلم کے ڈائریکٹر اپرووا لاکھیہ تھے، جنہیں خود سمجھ نہیں آئی کہ فلم کے نام پر انہوں نے کیا چیز بنا ڈالی ہے۔ فلم کی کاسٹ میں پریانکا چوپڑہ، سنجے دت اور رام چرن شامل تھے۔ رام چرن نے ری میک زنجیر میں امیتابھ والا کردار ادا کیا ہے۔باکس آفس پہ یہ فلم ناکام ہوگئی۔ بہت سے لوگوں کو تو پتا بھی نہیں چلا کہ فلم کب آئی اور کب چلی بھی گئی۔

٭شعلے: امیتابھ بچن کی ایک اور بلاک بسٹر فلم شعلے جو کہ 1975 میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہ فلم بھی ایک انگلش فلم کا چربہ تھی، لیکن فلم کے ڈائریکٹر رمیش سپی نے ہندی ورژن میں اس انداز سے فلم بنائی کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ فلم کی کہانی رائٹر کی فلمی جوڑی سیلم جاوید نے لکھی تھی۔ کاسٹ میں بگ بی کے علاوہ دھرمیندر، ہیمامالنی، جیہ بہادری اور امجدخان شامل تھے۔ فلم کا تاریخی کردار گبر سنگھ کا تھا، جسے امجد خان نے کچھ اس طرح ادا کیا کہ فلمی تاریخ میں یہ کردار امر ہو گیا۔ فلم کے جان دار ڈائیلاگ، بہترین اسکرپٹ، یادگار کردار اور میلوڈیز سے بھرپور موسیقی اور گانے بولی وڈ کی سنہری تاریخ کا حصہ ہیں۔

بولی وڈ کے منفرد فلم میکر رام گوپال ورما نے جب شعلے کا ری میک بنانے کا اعلان کیا تو لوگوں کی اکثریت کا کہنا تھا کہ انہیں یہ فلم نہیں بنانی چاہیے، لیکن رام گوپال کا خیال تھا کہ ان کی فلم شعلے پرانی فلم سے زیادہ کام یابی حاصل کرے گی۔ 2007 میں رام گوپال ورما کی ریلیز ہونے والی فلم کی کاسٹ میں اجے دیوگن، سشمیتا سین، موہن لال اور امیتابھ بچن شامل تھے۔ اس فلم میں بگ بی نے گبر سنگھ کا رول کیا تھا۔ یہ فلم ہر طرح سے ناکامی سے دوچار ہوئی تھی۔ اس فلم کے بارے میں اس کی ریلیز کے بعد یہ کہا جانے لگا کہ یہ پرانی کلاسک فلم شعلے کا قتل تھا۔

٭قرض: اصل فلم قرض جو کہ 1980میں ریلیز ہوئی تھی، کا شمار انڈین فلم انڈسٹری میں کام یاب ترین فلموں میں کیا جاتا ہے۔ اس فلم کی کام یابی میں رشی کپور کا پاورفل کردار جسے انہوں نے اپنی پرفارمینس سے یاد گار بنادیا تھا، اس کے علاوہ سیمی گریوال کی بہترین اداکاری اور سب سے بڑھ کر فلم کی موسیقی اور گانے ایسے لوازمات تھے جنہوں نے اس فلم کی کامیابی اور مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا تھا، لیکن جب 2008 میں اس کا ری میک قرض کے نام ہی سے بنا گیا اور اس کی کاسٹ میں ہمیش ریشمیا کو کاسٹ کیا گیا تو سب ہی نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ کیا ہمیش، رشی کپور والے کردار سے پورا انصاف کر پائے گا۔ فلم کی دیگر کاسٹ میں ارمیلا ماتونڈکر بھی تھیں، جنہوں نے سیمی گریوال کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم میں ارمیلا نے بہترین کام کیا۔ فلم کی ناکامی میں سب بڑا کردار ہمیش کا تھا۔ سب ہی کا خیال تھا کہ ہمیش کو رشی کپور والا کردار ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا، کیوں کہ ان کی اداکاری میں وہ پختگی اور بے ساختگی نہیں جو ایک کام یاب اور اچھے اداکار میں ہوتی ہے۔

٭امراؤ جان: 1981میں ریلیز ہونے والی ڈائریکٹر مظفر علی کی کلاسک فلم امراؤ جان نے فلم انڈسٹری میں ایک نئے ٹرینڈ کو جنم دیا۔ یہ فلم باکس آفس پر سپرہٹ تو نہ ہوسکی تھی، لیکن فلم بینوں کی ایک مخصوص تعداد نے اسے پسند ضرور کیا تھا۔ اس فلم کے مر کزی کردار ریکھا، فاروق شیخ اور نصیر الدین شاہ نے کیے تھے۔ امراؤجان ریکھا کے فلمی کیریر میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی تھی۔ فلم کے گانے (غزلیں) تمام کی تمام آشا بھونسلے نے گائی تھیں اور امراؤجان کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ آشا جی کی آواز میں ان غزلوں کا گایا جانا تھا۔

ریکھا نے جو پرفارمینس اس فلم میں دی وہ ان کے پورے فنی کیریر میں دوبارہ کسی اور فلم میں نظر نہیں آئی ۔ فلم کے سیٹ، کاسٹیوم، ڈائیلاگ اور خالص لکھنوی انداز میں بولے جانے والی اردو اور شاعری کے باعث اس فلم نے بھارتی فلموں کی تاریخ میں کلاسک فلم کا مقام حاصل کیا۔ 2006 میں ریلیز ہونے والی ڈائریکٹر جے پی دتہ کی فلم امراؤ جان جس کا مرکزی کردار ایشوریا رائے نے کیا تھا باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوگئی تھی۔ سب ہی کا خیال تھا کہ اس فلم کا ری میک بنانا بے وقوفی ہوگی، فلم میں امراؤ کے کردار کے لیے ایشوریا انتہائی غلط انتخاب ثابت ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ فلم میں لب ولہجے کا بھی خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ اس ماڈرن امراؤ جان میں کہیں پر بھی کلاسک ہونے کا تاثر نہیں ابھرتا تھا۔ اس لیے فلم اپنی ریلیز کے فوراً بعد ہی سنیماؤں سے اتر گئی تھی۔

٭گاڈ تسی گریٹ ہو: بولی وڈ کی یہ فلم امریکن فلم Bruce Almightyکی ہو بہو کاپی ہے۔ کہتے ہیں کہ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس فلم کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کسی نے صرف کاپی کرنے کے لیے یہ فلم بنائی۔ بروس المائٹی میں جم کیری نے بروس کا مرکزی کردار کیا تھا، جو ہر وقت اپنی قسمت سے نالاں رہتا ہے۔ بروس ایک ٹی وی رپورٹر ہے، جو اپنی جاب سے مطمئن نہیں اور خدا سے خوب اچھے سے اچھے کی دعا کر تا ہے۔ گاڈ تسی گریٹ ہو کے اوریجنل ورژن یعنی بروس المائٹی نے ہولی وڈ میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے، جب کہ اس کا ری میک یا چربہ بنائی جانے والی فلم گاڈ تسی گریٹ ہو بولی وڈ میں بری طرح ناکام ہوگئی تھی۔

اس فلم میں بھگوان کا مرکزی کردار امیتابھ بچن نے کیا تھا اور جم کیری والا رول سلمان خان نے کیا۔ اس فلم کے لیے سلمان کی ڈریسنگ بے حد خراب تھی۔ وہ ایک جاب کرنے کے باوجود انتہائی غریب ہے۔ گاڈ تسی گریٹ ہو کا اسکر پٹ پر کاش مہرہ کی فلم جادو گر سے بھی کسی حد تک ملتا جلتا ہے۔ امیتابھ کی اچھی پرفارمینس کے باوجود یہ فلم باکس آفس پر فلاپ ہو گئی تھی کیونکہ نقل کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس فلم میں پروڈیوسر سہیل خان اور افضل خان تھے جب کہ ڈائریکشن رومی جعفری کی تھی۔ فلم میں ہیروئن کا رول اداکارہ پریانکا نے کیا تھا۔

٭وی آر فیملی: یہ فلم ہولی وڈ کی 1998میں ریلیز ہونے والی فلم step mom کی کاپی تھی۔ اس فلم میں جولیا رابرٹس، ایما واٹسن اور ایڈ ہیرس نے جان دار اداکاری کی تھی۔ فلم اپنے اسکرپٹ کی بدولت سپر ہٹ ہوئی تھی۔ انڈیا میں کرن جوہر نے وی آر فیملی کے نام سے اس کا ری میک بنایا۔ یہ فلم 2010 میں ریلیز ہوئی تھی، لیکن اس کا ہندی ورژن کسی کو بھی متاثر نہ کرسکا اور باکس آفس پر یہ فلم ناکام ہوگئی۔ حالاںکہ فلم کی کاسٹ میں کاجول، کرینہ کپور اور ارجن رام پال شامل تھے اور ان کی پرفارمینس بھی شان دار تھی، لیکن اس کے باوجود شاید اپنے اسکرپٹ کی وجہ سے یہ فلم فلاپ ہو گئی تھی۔ فلم کے گانے بھی متاثر کن نہ تھے۔ مجموعی طور پر اچھے اور منجھے ہوئے اداکاروں کی موجودگی کے باوجود یہ فلم فلاپ ہو گئی۔

٭کرودھ: کرودھ ملیالم فلم ہٹلر کا ری میک تھی۔ ہٹلر 1996میں ریلیز ہوئی تھی اور کرودھ 2000میں سنیماگھروں کی زینت بنی تھی ہٹلر کے ڈائریکٹر صدیقی تھے اور اس کی کاسٹ میں ماموٹی اور مکیش مرکزی کرداروں میں تھے۔ ہٹلر کمرشلی سطح پر سپرہٹ فلم ثابت ہوئی تھی اور اس فلم کے پروڈیوسر نے ہٹلر کے ذریعے اچھا خاصہ منافع کمایا تھا۔ فلم کی کہانی Madhavankutty کے گرد گھومتی ہے، جسے مقامی لوگ ہٹلر کے نام سے جانتے ہیں۔ ہندی ورژن میں بنائے جانے والی کرودھ میں سنیل شیٹھی نے مرکزی کردار کیا تھا یہ ایک ایسے بھائی کا کردار تھا، جو پانچ بہنوں کا اکلوتا اور سخت گیر بھائی ہے۔ یہ فلم ہندی زبان میں کسی بھی طرح سے آڈینس کو متاثر نہیں کر سکی تھی اور بہت جلد سنیماؤں سے اتر گئی تھی۔

٭خوشی: ہندی زبان میں بنائے جانے والی فلم خوشی 2003میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہ فلم ساؤتھ کی سپرہٹ فلم خوشی کا ری میک تھی جو کہ 2000 میں ریلیز ہوئی تھی۔ ساؤتھ میں اس فلم میں جیوتکا اور وکی نے مرکزی کردار کیے تھے۔ اپنے منفرد اسکرپٹ اور گانوں کی وجہ سے یہ فلم کام یابی سے ہم کنار ہوئی تھی۔ بعدازاں کرینہ کپور اور فردین خان کو لے کر اس فلم کا ری میک اسی کے نام سے بنایا گیا بولی وڈ کے اچھے اداکاروں کی موجودگی کے باوجود یہ فلم باکس آفس پہ بر طرح ناکام ہو گئی تھی تنقید نگاروں کا کہنا تھا کہ فلم کی باکس آفس پر ناکامی کی وجہ کرینہ کپور کی خراب ترین پرفارمینس تھی۔

٭دل بولے ہڑپا: یہ ہولی وڈ کی فلم she is the manکا ہوبہو ری میک تھی۔ اس فلم میں amanda bynes نے مرکزی کردار کیا تھا۔ ہندی میں اسے دل بولے ہڑپا کے نام سے بنایا گیا اور اس فلم کے ذریعے رانی مکرجی کی واپسی بھی ہوئی، جو کئی فلاپ فلمیں دینے کے بعد گوشہ نشیں ہوتی جارہی تھیں۔ اس فلم میں رانی کے مقابل شاہد کپور کو ہیرو کے طور کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ فلم باکس آفس پر بر ی طرح ناکام ہوگئی تھی۔

سوتے میں کھانے کی بیماری

$
0
0

بیس سالہ Kate Archibald کا وزن جب آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوا اور اس کا سائز دس فریم سے سولہ فریم تک چلا گیا تو وہ ایک دم پریشان ہوگئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔

کیٹ برطانیہ کی ایک یونی ورسٹی کی طالبہ ہے۔ واضح رہے کہ یونی ورسٹی آف ابردین اسکاٹ لینڈ کے شہر ابردین میں ایک پبلک ریسرچ یونی ورسٹی ہے۔ کیٹ اسی Aberdeenیونی ورسٹی کے پہلے سال میں پڑھ رہی تھی کہ اس نے محسوس کیا کہ یکایک وہ بہت بھاری بھرکم ہوگئی ہے اور اس کا وزن مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے، جب کہ اس کی خوراک نہایت نارمل تھی جس میں اسے چھریرے بدن کا حامل ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کیٹ کو تشویش ہوئی تو اس نے اپنے اس مسئلے کا سبب تلاش کرنے کی بہت کوشش کی، اس نے اپنے ڈاکٹر سے بھی بار بار مشورے کیے، مگر کچھ پتا نہ چل سکا۔

ایک روز جب کیٹ صبح نیند سے بیدار ہوئی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کا بستر کھانے پینے کی اشیاء کے درجنوں پیکٹس اور ریپرز سے بھرا ہوا ہے۔ یہ سب کیا تھا؟ اس چیز نے کیٹ کو الجھا کر رکھ دیا۔ کافی غور وخوض اور دوستوں سے مشورے کے بعد اس پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ سوتے میں کھانے کی بیماری میں مبتلا ہوگئی ہے اور رات کو سوتے ہوئے بے تحاشا کھاتی رہی ہے جبھی اس کا وزن بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسے اس کی خبر تک نہیں ہوئی اور اتفاق سے ہاسٹل میں بھی کسی دوست یا ساتھی نے اسے سوتے میں کھاتے ہوئے نہ دیکھا اور نہ ہی پکڑا۔

سوتے میں کھانے کی یہ بیماری Nocturnal sleep eating disorderنہایت نادر اور عجیب ہے۔ سوتے میں چلنے کی بیماری تو عام ہے جس میں مبتلا فرد سوتے میں چلنا شروع کردیتا ہے اور اسے کچھ پتا نہیں ہوتا کہ وہ کہاں جارہا ہے اور کیا کررہا ہے، اسی لیے سوتے میں چلنے کی بیماری میں مبتلا اکثر لوگ حادثات کا شکار بھی ہوجاتے ہیں، مگر سوتے میں کھانے کی بیماری نسبتاً کم کم دکھائی دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ Nocturnal sleep eating disorderان لوگوں کو ہوتی ہے جن کے تحت الشعور میں یہ بات ہوتی ہے کہ انہوں نے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا یا یہ کہ انہیں زیادہ کھانے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے وہ جب سوجاتے ہیں تو ان کا تحت الشعور انہیں اٹھا دیتا ہے اور کھانے کی طرف لے جاتا ہے۔

اس وقت کیٹ یونی ورسٹی آف ابردین کے تیسرے سال کی طالبہ ہے۔ وہ مسلسل اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہے، مگر اپنی اس کیفیت سے بھی پریشان ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Nocturnal-sleep-eating-disorder.jpg

اس حوالے سے کیٹ کا کہنا ہے:’’میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میرا وزن مسلسل اور تیزی سے کیوں بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب میرے ہاسٹل کے سبھی ساتھی مجھ سے یہ شکایت بھی کررہے تھے کہ ہاسٹل کے کچن سے مسلسل خوراک غائب ہورہی ہے۔ کبھی بسکٹ کے پیکٹ غائب ہوجاتے ہیں، کبھی چاکلیٹ کینڈیز چلی جاتی ہیں، کبھی پنیر کے پیکٹ کم ہوجاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے کچن کا راستہ کسی پیٹو جن نے دیکھ لیا ہے جبھی وہ چپکے سے ہمارے کچن میں گھستا ہے اور وہاں رکھی ہر چیز کھاجاتا ہے۔ میں ان سے کیا کہتی، صرف یہی کہتی تھی کہ بھئی یہ کام میں نہیں کرتی، آپ کی کوئی چیز میں نے نہیں کھائی۔ پھر یہ راز اس وقت کھلا جب ایک صبح میری آنکھ کھلی تو میں نے اپنے بستر پر چاکلیٹ، بسکٹ، ٹافیوں اور دیگر اشیا کے خالی پیکٹس اور ریپرز کے ڈھیر پڑے دیکھے۔ اس وقت مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ پیٹو چور میں ہی ہوں اور یہ کہ میں اس وقت Nocturnal sleep eating disorder میں مبتلا ہوچکی ہوں۔‘‘

کیٹ نے یہ بھی بتایا کہ میرے مقامی ڈاکٹر نے میرے اس مسئلے کی تشخیص کی اور میرا علاج بھی شروع کیا۔ انہوں نے مجھے اس بیماری سے محفوظ رہنے کے لیے دوائیں بھی دیں جو میں نے پابندی سے لیں، مگر چوں کہ ان کے سائیڈ افیکٹس بھی تھے، اس لیے کچھ عرصے بعد میں نے وہ دوائیں لینی بند کردیں، تاکہ کسی بھی ممکنہ سائیڈ افیکٹ سے بچ سکوں، ایسا نہ ہو کہ مزید کسی بیماری میں مبتلا ہوجاؤں۔

کیٹ، یونی ورسٹی آف ابردین میں فلسفے اور عالمی مذہب کی طالبہ ہے۔ اس نے ایک مقامی اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے کہا:’’میں کم عمری سے ADHDمیں مبتلا تھی جس کے لیے میں Adderall نامی دوا لیتی تھی۔ اس دوا کے سائیڈ افیکٹس یہ بھی تھے کہ یہ بھوک کو بالکل کچل ڈالتی ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں بورڈنگ اسکول میں رہتی تھی جہاں ہم اپنا ٹک بکس اپنے بستر کے نیچے چھپاکر رکھتے تھے، جب میں سوکر اٹھتی تو دوا کا اثر ختم ہوچکا ہوتا تھا اور اس وقت مجھے شدید بھوک محسوس ہوتی تھی تو میرا دل چاہتا تھا کہ دنیا کی ہر چیز کھاجاؤں۔ لیکن جب میں بڑی ہوئی تو میں نے اکثر دوا لینی بند کردی، مگر دوسری طرف یہ احساس کہ میں نے کچھ نہیں کھایا ہے، مجھے پریشان کرتا تھا اور پھر میں شدید بھوک بھی محسوس کرتی تھی اور ڈٹ کر کھاتی تھی۔ بہرحال اب یہ راز کھل چکا ہے کہ میں Nocturnal sleep eating disorder میں مبتلا ہوچکی ہوں۔‘‘

اپنی ان شبینہ ضیافتوں کے دوران کیٹ نے اس قدر کھایا کہ ہزاروں کیلوریز اپنے معدے میں اتارلیں، اس نے بے تحاشا چکنائیوں سے لبریز اشیا چٹ کرڈالیں جن میں چاکلیٹس، کاجو، بادام، چلغوزے بھی شامل تھے۔ ایک حیرت انگیز بات یہ ہے ان میں سے متعدد چیزوں کا ذائقہ کیٹ کو پسند نہیں تھا، مگر اپنی شبینہ دعوتوں میں وہ انہیں دیکھے بغیر کھاگئی۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Nocturnal-sleep-eating-disorder1.jpg

کیٹ نے بتایا کہ حالاں کہ مجھے مونگ پھلی سے الرجی ہے، اسے کھانے سے میرا چہرہ کچھ سوج جاتا ہے، اسی لیے میں ہمیشہ مونگ پھلی سے پرہیز کرتی تھی، مگر سوتے ہوئے جب میں نے مونگ پھلی کھائی تو مجھے اس کے نقصان کے بارے میں کچھ یاد نہیں تھا، اسی لیے اکثر صبحیں ایسی ہوتی تھیں کہ جب میں سوکر اٹھتی تو پتا چلتا کہ میرا پورا چہر سوج کر غبارہ بن گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ میں نے رات کو مونگ پھلی کھائی ہے۔

میری ایک روم میٹ کو اس کے کسی دوست نے چاکلیٹ کی بڑی بار دی تھی جو اس نے فریج میں رکھ دی تھی۔ اس کے بعد ہم لوگ سوگئے، صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ میرا پورا چہرہ چاکلیٹ سے بھرا ہوا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر میں اور میری سہیلی خوب ہنسے، لیکن جو ہونا تھا، وہ ہوچکا اور میں اس کے دوست کا دیا ہوا تحفہ کھاچکی تھی۔ ایک رات میں نے سوتے میں پنیر کا پورا پیکٹ کھالیا تھا۔ ظاہر ہے اسے کھانا کوئی معمولی بات نہیں، مگر چوں کہ یہ کام سوتے میں ہوا تھا، اس لیے میں نے آسانی سے کرلیا۔

شبینہ ضیافتوں میں کیٹ نے الماری سے متعدد چیزیں نکال کر خود تیار کیں، گیس کا چولھا بھی جلایا اور ان پر کئی چیزیں بنائیں جن میں اسپاگیٹی بھی شامل تھی اور انڈے والے توس بھی۔

کیٹ کہتی ہے:’’میں جس بیماری یا کیفیت میں مبتلا ہوں، یہ درحقیقت کوئی کھانے کا بگاڑ eating disorderنہیں ہے، بلکہ بظاہر اسے ہم parasomnia کہہ سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر میرا جسم ایسی کیفیت کا شکار ہے جہاں وہ رات کے وقت بھوک محسوس کرتا ہے اور خوراک مانگتا ہے، چاہے مجھے اس کی ضرورت نہ ہو۔ میں تو اسے کسی کھانے کے بگاڑeating disorder کے بجائے sleep-walking کہوں گی، یہ الگ بات ہے کہ سوتے میں چلتی ہوئی میں کچن میں پہنچ جاؤں اور وہاں رکھی کھانے پینے کی اشیا پر ہاتھ صاف کردوں۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Nocturnal-sleep-eating-disorder2.jpg

اب تو میں نے خود کو اپنے کمرے میں لاک کرنا شروع کردیا ہے جہاں میرے پاس صحت بخش اسنیکس ہوتے ہیں، مگر کیا کروں، پھر بھی میں کسی نے کسی طرح اپنے بند کمرے سے باہر نکلنے میں کام یاب ہوجاتی ہوں اور سیدھی ریفریجریٹر پر دھاوا بول دیتی ہوں۔ میری ساتھی لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ میں پاگل ہوں، لیکن میں ہمیشہ ان سے معذرت کرلیتی ہوں تو وہ چپ ہوجاتی ہیں۔ بہرحال اتنا سب کچھ کھانے کے بعد اس خوراک کو ہضم کرنے کا مسئلہ ہوتا ہے تو میں زیادہ سے جیم جاتی ہوں اور وہاں ورزش کرتی ہوں، تاکہ اپنے جسم کو صحیح شیپ میں رکھ سکوں اور بے ڈول نہ ہوجاؤں۔‘‘

کیٹ کی ساتھی لڑکیاں ایلی اور ایشلے اسے ہر بار سمجھاتی ہیں کہ ان کا کھانا نہ کھائے، مگر وہ نہیں رکتی جس پر ان میں جھگڑا بھی ہوتا ہے۔

ایلی کا کہنا ہے:’’اگر ہم اسے سمجھادیتے ہیں کہ ہماری فلاں فلاں چیز نہ کھائے تو وہ مان جاتی ہے کہ وہ نہیں کھائے گی۔ اس کا تحت الشعور ہماری بات کو سنتا اور مانتا ہے۔ لیکن اگر وہ ہماری خوراک کھاجاتی ہے تو پھر صبح اٹھتے ہی بازار جاکر ہمارے لیے کچھ نہ کچھ خرید کر لاتی ہے، تاکہ اس نے جو نقصان کردیا ہے اس کا مداوا ہوسکے۔ بس ہمیں زیادہ ڈر اس چیز سے لگتا ہے کہ کہیں اپنی شبینہ ضیافتوں کے دوران وہ چولھا جلاکر کسی حادثے کا شکار نہ ہوجائے۔ ایسے میں اگر ہمارے فلیٹ میں آگ لگ گئی تو کیا ہوگا۔‘‘

کیٹ کہتی ہے:’’میں رات کو اپنی نیند میں اٹھ کر جو بسیار خوری کرتی ہوں، یہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے، لیکن خدا کا شکر ہے کہ میں کبھی رنگے ہاتھوں پکڑی نہیں گئی۔ لیکن یہ راز بھی خود ہی کھل گیا کہ میں Nocturnal sleep eating disorderمیں مبتلا ہوں اور اسی لیے روز بہ روز موٹی ہورہی ہوں۔‘‘

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Nocturnal-sleep-eating-disorder3.jpg

Nocturnal sleep eating disorder رات کو سوتے میں کھانے کا خلل کیا ہے؟

یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسان سوتے میں اٹھتا ہے اور سیدھا کچن کا رخ کرتا ہے، جہاں رکھی ہوئی کھانے پینے کی اشیا پر ہاتھ صاف کرتا ہے اور واپس آکر اپنے بستر پر اس طرح سوجاتا ہے کہ اسے کچھ یاد نہیں رہتا۔ یہ بگاڑ یا خلل اصل میں دو بیماریوں یا دو کیفیات parasomnia اور eating disorder کا امتزاج ہے۔ اس خلل کو ہم ایسی کیفیت بھی کہہ سکتے ہیں، جس میں انسان سوتے میں چلتا ہے اور ایسے افعال انجام دیتا ہے جن کا تعلق اس کی شعوری خواہشات یا ضروریات سے ہوتا ہے۔

ہارورڈ میڈیکل اسکول کے اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر جان ونکل مین کہتے ہیں:’’اس کیفیت کا night eating syndrome سے قریبی تعلق ہے جس کو مختصراً NES کہتے ہیں۔ مگر اس بیماری میں مبتلا لوگ ایک تو اپنے اطراف سے پوری طرح باخبر یا جاگے ہوئے ہوتے ہیں، دوسرے وہ نشہ آور اشیا کے استعمال اور نقصان سے بھی اچھی طرح واقف ہوتے ہیں، مگر جو لوگ nocturnal sleep eating disorder میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ اپنے کاموں سے مکمل طور پر ناواقف ہوتے ہیں۔ لیکن یہ دونوں بگاڑ یا بیماریاں بالکل عام ہیں اور ایک سے پانچ فی صد بالغ ان کا شکار ہوتے ہیں، ویسے اس بیماری میں نوجوان بالغ خواتین بھی مبتلا ہوتی ہیں۔ یہ ایسی بیماریاں ہیں جو متاثرہ افراد کا وزن بڑھاتی ہیں، نیند میں خلل ڈالتی ہیں اور ان کی وجہ سے انسان خوراک کی طرف سے اپنا ہاتھ نہیں روک پاتا۔

اجڑے ہوئے کھیت، باغ ہیں ویران، کیسے ہوگا سرسبزوشاداب پاکستان؟

$
0
0

سب جانتے ہیں کہ پاکستانی معیشت کا انحصار زیادہ تر زراعت پر ہے۔ یہ شعبہ خوراک کا منبع ہونے کے ساتھ ملکی صنعت کوخام مال بھی مہیاکرتا ہے۔

ہمارا بیشترتجارتی مال براہِ راست زرعی پیداوارکی شکل میں ہوتا ہے یا پھر زرعی مصنوعات پر مشتمل۔ تجارت سے کمایا جانے والا زرِمبادلہ پاکستان کی کل برآمدات کا45 فیصد ہے۔ یوں زراعت مقامی سے عالمی تجارت تک ریڑھ کی ہڈی ثابت ہورہی ہے۔ ہمارے ہاں جی ڈی پی میں اس کا حصہ26فیصد ہے جبکہ وطنِ عزیز کی52 فیصد آبادی اس سے روز گار حاصل کرتی ہے۔ پاکستان کے دیہاتوں میں بسنے والے 67 فیصد لوگ براہ راست زراعت سے منسلک ہیں۔

1947ء میں پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 53 فیصد تھا جو سکڑ کر اب21 فیصد رہ گیا ہے۔ زرخیز دریائی مٹی سے بنے میدانوں کی وجہ سے پاکستان شاندار زرعی صلاحیت رکھتاہے لیکن ہم اس زمین کی صلاحیت سے50 فیصدکم پیداوار لے رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے خطے کے بیشتر ممالک زراعت کے شعبے میں انقلابی اقدامات کرکے ہم سے کہیں زیادہ پیداوار لے رہے ہیں۔ چین صحرائے گوبی میں بھی فصلیں اگا رہا ہے۔ جبکہ پاکستان میں ابھی تک پیرینئل کینال سسٹم پر انحصار کیاجارہاہے۔

آبی وسائل کے حوالے سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن دنیا کا یہ پانچواں بڑا ملک ہرسال تیرہ ملین کیوسک (368119کیوبک میٹرز فی سیکنڈ) دریائی پانی سمند میں بہا کر ضائع کر رہا ہے۔ اس پانی کے ساتھ زرخیز مٹی سمندر برد ہوتی ہے۔ اس ضیاع کی بڑی وجہ آبی ذخیروں کی نایابی ہے۔ ڈیمز کی کمی ہمارا قومی مسئلہ بنا ہوا ہے جس پر بولتے زیادہ ہیں، کام تھوڑا کرتے ہیں دوسری طرف بھارت مسلسل ڈیموں کی تعمیر میں مصروف ہے۔

کاشتکاری کے قدیم اور روایتی طریقوں کے نتیجے میں پاکستان کی اوسط فی ایکٹر پیداوار ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں تین گنا کم ہے۔ جبکہ خطے کے دوسرے ممالک نیپال، بنگلہ دیش اور بھارت جدید طریقوں کے ذریعے زیادہ پیداوار حاصل کر رہے ہیں۔ مثلاًموافق موسمی حالات اور مفید زمین کے باوجود پاکستانی پنجاب کی پیداوار بھارتی پنجاب کے مقابلے میں آدھی ہے۔ہمارا زیادہ تر زرعی رقبہ جاگیرداروں کے قبضے میں ہے جہاں کسان دن رات غلاموں کی طرح کام کرتے ہیں۔ پاکستان ہیومن رپورٹ 2003ء کے مطابق 57.4 فیصد افراد بغیر مناسب معاوضہ کے جاگیرداروں کے ہاں کام کرتے ہیں۔ ہمارا کسان معاشی لحاظ سے بہت پسماندہ ہے۔ زیادہ تر کسان دو ایکٹر سے بھی کم اراضی کے مالک ہیں۔ اس قدرکم اراضی کہ کسان اپنی ضروریات بھی پوری نہیں کرپاتا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Farming.jpg

دنیا میں ڈرپ اور سپرنکل جیسے جدید آبپاشی کے نظام چل رہے ہیں جبکہ ہمارے یہاں دستیاب پانی کو موثر طریقے سے کھیتوں تک پہنچانے اور اس کے ضیاع کو روکنے کے اقدامات نہیں ہورہے۔کھیتوں کی طرف جانے والے پانی کا25 سے35 فیصد پانی فرسودہ نظام آبپاشی کی بدولت ضائع ہو رہا ہے۔

بعض علاقوں میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کسان کھارا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ پانی میں نمکیات کی بہتات ہونے کے سبب زمین سیم اور تھور کا شکارہو رہی ہے۔ سیم اور تھور کی وجہ سے ہر سال قابلِ کاشت ایک لاکھ ایکڑ زمین دلدل اور نمکین زمین میں تبدیل ہو رہی ہے۔ پانی کی کم یابی کے ضمن میں یہ پہلو بھی سنگین ہے کہ پیندے میں مٹی اور کیچڑ جمع ہونے کی وجہ سے ڈیموں کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے، نتیجتاً فی ایکٹر پانی کی دستیابی مزید کم ہورہی ہے۔

کسان کی مارکیٹ تک رسائی بھی اہم مسئلہ ہے۔ اولاً مارکیٹ کھیت سے بہت فاصلے پر ہے۔ ثانیاً کسان کو مارکیٹ میں کسی قسم کی سہولت بھی میسر نہیں۔ پرائس کنٹرول پالیسیاں ناقص ہونے کے ساتھ کسان دشمن بھی ہیں۔ عالم یہ ہے کہ کسان اپنے مال سمیت مارکیٹ میں کئی کئی دن دھکے کھاتا رہتا ہے۔ کہیں غیرمنظم طریقہ کارکی وجہ سے ایسا ہوتاہے،کہیں جان بوجھ کر کسان کو انتظار کرایا جاتا ہے تاکہ وہ مجبور ہوکر کم نرخ پر اپنا مال بیچنے پر مجبور ہو۔ یوں کسان اپنی پیداوار کے کم دام پانے کی وجہ سے مایوس اور بد حال ہے۔ اس کے حصے کا میٹھا پھل صنعت کار کھا جاتا ہے۔ مثلاًمل مالکان گنے کی خریداری کے وقت کئی کئی دن کسان کو باہر انتظار کراتے ہیں، انتظار میں سوکھنے کی وجہ سے گنے کا وزن کم ہو جاتا ہے نتیجتاًکسان مکمل خسارے سے بچنے کے لئے ایک مڈل مین کے ذریعے گنا سوکھنے سے پہلے ہی فروخت کردیتاہے۔ مڈل مین بھی مل مالک کا ہوتاہے اور گنے کی قیمت خرید بھی مالک ہی طے کرتا ہے۔

2050ء میں دنیا کی آبادی 9ارب ہوگی۔ اس وقت دنیا کی 63فیصد آبادی بھوک کا شکار ہے۔ دنیا کی کل نوجوان آبادی کا 85 فیصد حصہ ترقی پذیر ممالک میں رہتا ہے جہاں آمدن کا بڑا ذریعہ زراعت ہے۔ یاد رہے کہ ہم اس عہد میں رہ رہے ہیں جہاںدیہی آبادی تیزی سے شہروں کا رخ کررہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق2030ء تک دس میں سے چھ افراد شہروں میں رہائش پذیر ہوں گے۔ شہروں کی طرف اس نقل مکانی کی وجوہات میں روزگار کی تلاش بڑی وجہ ہے ، نتیجتاً دیہی علاقوں میں زراعت سے متعلقہ افرادی قوت میں بتدریج کمی ہو رہی ہے۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہورہاہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Farming1.jpg

کھیتوں کھلیانوں میں کون اور کس عمر کے لوگ کام کررہے ہیں یہ بھی جان لیجئے۔ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن(FAO) کے مطابق دنیا میں27فیصد آبادی کی عمر 10یا اس سے کم ہے جبکہ 8فیصد آبادی کی عمر 65سال سے زائدہے۔ یورپ میں ہر ایک تہائی جبکہ افریقہ میں70 فیصد کسانوں کی عمر 35سال سے کم ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش، بھوٹان اور بھارت میں خواتین زرعی شعبہ میں دنیا کے باقی حصوں کی نسبت زیادہ تعداد میں کام کرتی ہیں، ان کی شرح 60فیصد سے زائد ہے۔پاکستان کے زرعی شعبہ میں سات سے چودہ سال عمر کے لڑکوں کی شرح 13فیصد ہے۔خواتین اور بچوں کی زرعی شعبے میںموجودگی کا واضح مطلب ہے کہ زرعی شعبہ نوجوانوں کو اپنی طرف بلارہاہے۔

پاکستان کے رقبے کا 79.6 فیصد رقبہ قابلِ کاشت ہے۔ جس میں سے محض 20سے 43 فیصد رقبہ زیرِ کاشت ہے۔ اسباب کا جائزہ لیاجائے تو زیادہ بڑی وجوہات یہ ہیں:

اول: زیادہ تر رقبہ جاگیر داروں کے قبضے میں ہے جو اتنی بڑی اراضی کو بہتر طریقے سے کاشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ نتیجتاًکچھ رقبہ کاشت کر کے باقی ویسے ہی چھوڑ دیا گیا ۔

دوم: صنعت کاری کی حالیہ ترقی، کیونکہ صنعت کاری نے زراعت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جسکی وجہ سے اچھے بھلے خاندان کاشتکاری چھوڑ کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں، لہلہاتے کھیتوں کی جگہ صنعتیں اور کالونیاں آباد کی جا رہی ہیں۔ اگر صنعت اہم ہے تو صنعت میں استعمال ہونے والا خام مال اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں سیکٹرز کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے توازن قائم کرنا ہو گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ زرعی شعبے میں ایسی اصلاحات متعارف کرائی جائیں جو اسے پرکشش اور منافع بخش بنائیں تاکہ لوگ اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔

سوم: یہ سبب بھی اہم ہے کہ نوجوان نسل جو زیادہ توانائی اور ہمت رکھتی ہے،زرعی شعبے سے دور ہے۔ نوجوان جدت کو جلدی قبول کرتے ہیں۔ تاہم رجحان یہ ہے کہ کسان اپنے میٹرک پاس نوجوان کوکاشت کاری کی طرف راغب کرنے کے بجائے ملازم دیکھنا پسند کرتاہے۔ بہتر اور پرتعیش طرزِ زندگی کے خواہاں نوجوان خود بھی روزبروز زراعت سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ کاشت کاری میں عزت، شہرت، دولت تینوں مفقود ہیں۔ زراعت کو مجبوراً یا آخری حل کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔ شہروں میں انھیں بے روزگاری سے واسطہ پڑتاہے۔ جس سے نپٹنے کا کوئی طریقہ فی الحال سجھائی نہیں دے رہا۔ حل کے طور پر نوجوانوں کو’اپنی خوراک آپ اگاؤ‘ کے ماٹو کے تحت زراعت میں کھپانا ضروری ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Farming2.jpg

دنیا میں بہت سے ممالک نے اپنے ہاں نوجوانوں کو زرعی شعبہ میں لانے کے لئے بھاری بھرکم مراعات دیں، پیسہ بھی دیا اور زمین بھی۔ نوجوانوں کو صرف مراعات دے کر چھوڑ نہیں دیاگیابلکہ ان ممالک نے رورل ایگروانڈسٹری ڈویلپمنٹ کو یقینی بنایا، دیہاتوں میں سرمایہ کاری کرائی، انفراسٹرکچر بہتر کیا اور زرعی اداروں کو اوپرسے نیچے تک مضبوط ومستحکم کیاگیا۔

پاکستان کوبھی پڑھے لکھے کسانوں کی سخت ضرورت ہے جو مناسب زرعی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ جدید زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقف ہوں۔ لہذا نوجوانوں کو معمولی ملازمتوں کے بجائے زراعت کے شعبہ میں آناچاہئے ، اس کے نتیجے میں نہ صرف خوشحالی ان کے گھروں میں اترے گی بلکہ ملکی پیداوار میں اضافہ بھی ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان میں نوجوانوں کوکاشتکاری کی طرف کیسے راغب کیاجائے؟

دنیا میں جہاںنوجوان کاشت کار موجود ہیں، انہیں یہاں بطورِ ماڈل متعارف کرا کے نوجوانوں کی ہمت افزائی کرنی چاہئے۔ 2013ء میں برطانیہ کے ایک ٹیلی ویژن نے ملک بھر سے نوجوان کسانوں کی کہانیوں پر مشتمل ’فرسٹ ٹائم فارمرز‘ کے نام سے ایک پروگرام نشر کیاتھا، ہماے یہاں بھی ایسے پروگرام نشرکرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے یہاں سکولوں میں زرعی تعلیم و تربیت کا فقدان ہے۔ اس دوران ان کی حوصلہ افزائی کا اہتمام نہیں ہوتا کہ وہ مستقبل میں زراعت کو پیشے کے طور پراختیارکریں۔ ضروری ہے کہ زراعت کو نصاب کا ناگزیر حصہ بنایاجائے، ہائی ویلیو فصلوں کا تعارف، ان کی کاشت کاری کا طریقہ کار، لائیو سٹاک کا قیام اور گلوبل مارکیٹ کے لیے مقامی منڈی کے قیام کے امکانات پر مشتمل نصاب پڑھایا جانا چاہیے۔ ایسے مقامی کسانوں کو پالیسی میکنگ لیول تک رسائی دی جائے تاکہ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں کچھ اقدامات تجویز کریں۔

بہتر پیداوار دینے کی صورت میں انعامی سکیموں کا اجراکیاجائے، زمین کے قطعے کو بلاکز کی صورت میں نوجوانوں میں تقسیم کیا جائے، پنجاب میں وزیراعلیٰ شہبازشریف نے اپنے پچھلے دور حکومت میں زرعی گریجویٹس کو زرعی اراضی دینے کا منصوبہ بنایا تھا،وہ منصوبہ وقت کی دھول میں گم ہوگیا۔ یہاں نوجوانوں کو ٹریکٹرز اور دوسرے لوازمات فراہم کیے جائیں۔ سالانہ کارکردگی کی بنیاد پر انہیں مزید مراعات دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

منظور شدہ معیاری بیجوں کا استعمال، مناسب کھادیں، زرعی ٹیکنالوجی میں مہارت اور پودوں کے حفاظتی اسلوب جیسے اقدامات بھی ضروری ہیں۔کسانوں کو زرعی مشینری خریدنے کے لیے بلاسود قرضے فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ قرضے گھریلو مد میں خرچ ہونے کی بجائے زرعی مقاصد کے حصول کے لیے خرچ ہوں۔یہ سب کچھ اس وقت ہوگا جب ہمارے حکمران ’کسان دوست‘ بنیں گے۔


خوشبو، اسیری اور بغاوت، افریقی دیس کا خالص اردو بولتا رکن قومی اسمبلی

$
0
0

(محمد حامد زمان امریکا کی بوسٹن یونی ورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انھوں نے پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے سلسلے میں افریقی ملک زنجبار کا دورہ کیا، جس کا دل چسپ سفرنامہ قارئین کی نذر ہے)

شہزادی سلمیٰ جرمنی میں مٹھی بھر زنجباری خاک کے ساتھ مدفون ہیں۔ زنجبار(Zainzibar)کی اس مشہور شہزادی کی کہانی زبان زد خاص و عام ہے۔ سلمیٰ کی کہانی وطن اور محبت کی خوشبو سے جنم لیتی ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز والدین کی موت اور محلاتی سازشوں سے محبت بھری یہ زندگی غلامی اور اسیری میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ محبت بھرے محل کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔

کبھی ایک بھائی کی برتری اور کبھی دوسری بہن کی سازش، کبھی ایک گھر میں نظربندی اور کبھی خاندان بھر سے قطع تعلقی۔ اسی اسیری میں ایک بغاوت جنم لیتی ہے، جو شہزادی سلمیٰ کو ایملی روئٹ (Emily Ruete)بنادیتی ہے۔ راتوں رات زنجبار سے یمن اور یمن سے سرد اور سرد مہر جرمنی لے جاتی ہے۔ اس بغاوت کے اثرات زنجبار کا عمانی محل بھی محسوس کرتا ہے اور خود شہزادی بھی مالی تکالیف، یورپ کی بے وفا سیاست اور اجنبیت سلمیٰ کا مقدر بن جاتی ہے۔ شاید اسیری بغاوت سے پہلے نہیں، اس کے بعد تھی۔ کہانی شاید محبت سے شروع نہیں ہوتی، شاید دیس کی محبت پر مٹھی بھر خاک سے گلے لگا کر ختم ہوتی ہے۔

خوشبو، اسیری اور بغاوت کی یہ داستان صرف شہزادی سلمیٰ ہی کی نہیں سرزمین زنجبار کی بھی ہے۔ خوشبو کے ذریعے جو تاجر اور سوداگر یہاں آئے انھوں نے غلاموں کی تجارت میں کمال حاصل کیا۔ اسیری صرف مقامی غریبوں کا مقدر ہی نہیں بنی بلکہ اس ثقافت کا بھی حصہ بن گئی جو یہاں پر یورپی تاجروں اور عمانی سلطانوں سے پہلے آباد تھی۔ اسیری نے بغاوت کو جنم دیا جس نے 60 کی دہائی میں ایک طرف تو مقامی لوگوں کو ’’آزاد‘‘ کرایا تو دوسری طرف غربت کی نئی اور تاریک اسیری کو جنم دیا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar.jpg

زنجبارسے میرا رشتہ اتفاقیہ تھا۔ میں کام کی غرض سے تنزانیہ جا رہا تھا۔ وہاں کی درس گاہوں کا دورہ کرنا تھا۔ بوسٹن میں ایک دوست نے صلاح دی کہ بھائی! اگر اس جانب جا رہے ہو تو لگے ہاتھوں زنجبار بھی ہو آؤ۔ میرے پاس زنجبار جانے کے لیے صرف ایک دن تھا، وہ بھی اتوار کا۔ اگلے روز یعنی سوموار کی دوپہر کو مجھے بہرصورت دارالسلام پہنچنا تھا۔ زنجبار کی کچھ تاریخ پڑھ رکھی تھی اور پاکستانی ہونے کے ناتے ادھر ادھر کی بھی سن رکھی تھی۔ ہر پاکستانی کی ہر جگہ کے بارے میں کچھ نہ کچھ تاثرات اور معلومات ضرور ہوتی ہیں، بھلے صحیح ہوں یا نہ ہوں۔ یہی عالم میرا بھی تھا۔ سوچا کہ کیا حرج ہے، وہاں جاکر ان کی نئی درس گاہ بھی دیکھ آؤں گا اور اتوار کو جو تھوڑا بہت وقت ملے گا اس میں شہر بھی۔ یوں بنا تیاری کے ہم زنجبار پہنچ گئے۔

دارالسلام ایئرپورٹ پر اتر کر جب ہم اندرون ملک پروازوں کے ٹرمینل پہنچے تو ایک گہماگہمی کا عالم تھا۔ کچھ نہ کرتے ہوئے بھی لوگ مصروف نظر آئے۔ کمپیوٹر سسٹم کام سے فارغ تھا۔ ٹکٹ ایجنٹ، جس کا نام موسیٰ تھا، ہوا میں نہ معلوم کون سے قلعے تعمیر کر رہا تھا۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا زنجبار جانے والے جہاز پر سیٹ ہے؟

’’ہے! ‘‘ وہ بولا۔

’’بھائی! ایک سیٹ چاہیے۔‘‘ میں نے کہا۔

اس نے ایک غیرمعمولی سے کاغذ پر ہاتھ سے لکھ کر ایک ٹکٹ عطا فرمایا۔

’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ٹکٹ۔‘‘ موسیٰ نے متاثر ہوئے بغیر جواب دیا۔

میں کچھ بوکھلا گیا۔ ٹکٹ ہاتھ سے بنا ہوا، بنا سیٹ نمبر۔ یہ کیا مجھے بے وقوف تو نہیں بنا رہا۔ میں نے قدرے درشتی سے پوچھا۔

’’موسیٰ! پکی بات ہے ناں، سیٹ مل جائے گی؟‘‘

اب موسیٰ نے مجھے یوں دیکھا کہ میں نے اس کی اور اس کی قابلیت کو نشانہ بنایا ہے۔ ٹکٹ جوکہ 50 ڈالر کا تھا اچانک 70 کا ہوگیا ۔ میرے پاس اب معافی مانگنے کے اور کوئی چارہ نہ تھا۔ بڑی منت سماجت کی، کہا کہ بھائی ابھی لمبا سفر کرکے آیا ہوں، دماغی صلاحیت جواب دے چکی ہے، مگر موسیٰ نہ مانا۔ بہرکیف مہنگا ٹکٹ لے کر ٹرمینل پر آگیا۔ ٹرمینل پر کچھ سیٹوں پر مسافر اور بقیہ جہاز پر جانے والا سامان براجمان تھے۔ ایک طرف ایک سیٹ خالی دیکھ کر میں بھی بیٹھ گیا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar9.jpg

میرے برابر کی خالی سیٹ پر سفید ریشمی یونیفارم میں ملبوس ایک باریش حضرت آکر بیٹھ گئے۔ قدرے بھاری حجم کے یہ حضرت شکل سے ہمارے جنوبی ایشیائی بھائی معلوم ہو رہے تھے۔ انگریزی صاف اور لہجہ مشفقانہ۔ اپنا تعارف کراتے ہوئے بولے کہ میں زنجبار ہوں، یہاں دارالسلام میں قومی اسمبلی کا ممبر ہوں اور پارٹی کی ایک تقریب کے لیے زنجبار جا رہا ہوں۔

میں نے دریافت کیا کہ حضرت! کیا آپ کے آباؤ اجداد بھارت سے آئے تھے، تو حضرت ناراض ہوگئے۔ بولے۔

’’میاں! ہم ہندوستان سے آئے تھے، یہ پاکستان اور بھارت وغیرہ تمہارا آپس کا معاملہ ہے۔‘‘

اب تو مجھے واقعی فکر لاحق ہوگئی کہ جسے دیکھو میری باتوں کا برا مانے چلا جا رہا ہے۔ میں نے ازراہ محبت پانی کی دو بوتلیں خریدیں اور ایک انھیں دی اور ایک خود رکھی۔ موصوف فوراً اٹھے اور کاؤنٹر پر واپس کرنے کو چلے گئے۔ میری گھبراہٹ اب شدت اختیار کرگئی اور زنجبار جانے اور ان تمام دوستوں کو کہ جنھوں نے وہاں جانے کی صلاح دی تھی، میں نے خوب کوسا۔

کیا دیکھتا ہوں کہ سفید وردی میں ملبوس حضرت مسکراتے ہوئے واپس آرہے ہیں۔ بولے بوتل کا بہت شکریہ، وہ والی بہت ٹھنڈی تھی اس لیے تبدیل کرنے کو گیا تھا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar0.jpg

جہاز اڑنے میں صرف دس منٹ باقی تھے اور بورڈنگ کے کوئی حالات نظر نہیں آرہے تھے۔ فکر ہوئی کہ کہیں فلائٹ چلی تو نہیں گئی؟ دل تو چاہا کہ پوچھوں کہ یہ کیا معاملہ ہے مگر بادل نخواستہ چپ سادھ لی کہ میرے کچھ کہنے پر پھر کوئی ناراض نہ ہوجائے۔

سفید وردی میں ملبوس، رکن پارلیمنٹ حضرت نے اپنا نام سلیم ترکی بتایا۔ گفتگو کے شوقین سلیم ترکی صاحب انگریزی کے بعد خالص اردو پر اتر آئے۔ میری حیرانی دیکھ کر بولے کہ گو میرے آباؤ اجداد قریباً دو سو برس پہلے جزیرے پر آئے تھے مگر تجارت اور تبلیغی سرگرمیوں کی بنا پر اردو سے تعلق جڑا رہا۔ اچانک سلیم صاحب کو الہام ہوا اور بولے،’’چلیے! جہاز تیار ہے۔‘‘ بظاہر تو کوئی اعلان نہیں ہوا تھا مگر حقیقتاً جہاز تیار تھا۔

یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ جہاز کو جہاز کہنا صحیح معنوں میں سچ نہیں ہے۔ ’’دبلی‘‘ سی ایک سفید ویگن اور برابر میں دو پر۔ اس گاڑی نما جہاز میں مسافرین کرام کو جلدی سے ٹھونس دیا گیا۔ اگلی سیٹوں پر مسافر اور پچھلی پر سامان رکھ دیا گیا۔ ایک بھاری بھرکم مسافر سے درخواست کی گئی کہ میاں آپ پچھلی سیٹ پر آجائیے، وزن برابر کرنا ہے۔ ایک اور قدرے دبلے شخص کو کپتان کے برابر ’’کو پائلٹ‘‘ والی سیٹ پر بٹھا دیا گیا کیوں کہ ’’کو پائلٹ‘‘ نامی چیز سے جہاز فارغ تھا۔

جہاز کا دروازہ بند ہوا اور ساتھ ہی گرمی اور گرمی کی وجہ سے چھوٹنے والے پسینوں سے جہاز مہک اٹھا۔ جہاز کی سیٹوں پر سیٹ بیلٹ برائے نام تھی اور جہاں سے مسافروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ہوا نکلتی ہے وہاں ہوا تو کیا، ہوا کی آواز بھی نایاب۔ جہاز کا کپتان سویڈن کے شمالی علاقہ جات سے تھا اور چوں کہ وہاں سے میرا گزر ہوچکا ہے، اس لیے مجھ سے مل کر وہ بہت خوش ہوا۔ میری شکل کے بارہ بجنے پر اس نے مجھے تسلی دی،’’ڈاکٹر صاحب! دیکھیے میں زندہ ہوں، آج تک حادثہ نہیں ہوا۔‘‘ خدا جانے کس قسم کی تسلی تھی یہ۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar1.jpg

جہاز میں میرے اور سلیم ترکی کے علاوہ دو امریکی، ایک تُرک اور ایک آسٹریلوی جوڑا تھا۔ سب کے سب اپنے اپنے پسینے کے تعفن سے ہمارے گردونواح کو مہکا رہے تھے۔

جہاز میں سلیم صاحب سے مزید گفتگو ہوئی۔ کافی موثر اور بڑے سرمایہ دار نکلے۔ جہاز میں موجود پانی کی بوتلیں بھی ترکی گروپ آف کمپنیز کی نکلیں۔ اس کے علاوہ زنجبار میں ہوٹل، فیکٹریوں، اسکول اور اسپتال کے بھی مالک نکلے۔

اتنے چھوٹے جہاز پر بیٹھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دائیں، بائیں اور سامنے جو کچھ تھا، سب صاف نظر آرہا تھا اور شاید وہ سب کچھ بھی جو مسافروں کو نظر نہیں آنا چاہیے۔ جب جہاز نے کچھ غیرضروری ہچکولے کھائے تو پائلٹ کے چہرے کے تاثرات بھی صاف نظر آئے۔ اس وقت ایک بار پھر ان دوستوں کو لعن طعن کی کہ جن کی صلاح پر ہم نے زنجبار آنے کی ٹھانی تھی۔

چند لمحوں بعد انتہائی حسین ساحل اور صابن کی جھاگ کی مانند موجوں کو دیکھا تو سب کچھ بھول گیا۔ سرزمین زنجبار صاف نظر آرہی تھی۔ ایسا لگا کہ برسوں بعد گہرے دوست سے ملاقات قریب ہے۔

ایئرپورٹ پہنچ کر سلیم صاحب نے کہا کہ وہ مجھے میرے ہوٹل پہنچادیں گے اور ان کا ڈرائیور حاضر ہے اگر کسی بھی قسم کی کوئی ضرورت پیش آئے۔ ایئرپورٹ کا تمام عملہ سلیم صاحب کو دیکھ کر چاق و چوبند ہوگیا۔ میرا تو خیال تھا کہ سلیم صاحب صرف آج سفید لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں، مگر ان کی نئی اور شان دار گاڑی کی نمبر پلیٹ دیکھ کر معلوم ہوا کہ حضرت جزیرے میں ’’مسٹر وائٹ‘‘ (Mr. White)کے نام ہی سے جانے جاتے ہیں۔ میری حیرانی دیکھ کر بولے کہ پورے زنجبار میں اب تک صرف ایک گاڑی کو خصوصی نام والی نمبر پلیٹ رکھنے کی اجازت ملی ہے۔ اب تک پولیس والوں کو معلوم نہیں کہ چالان کیسے کریں کہ ان کے فارم پر صرف نمبر لکھنے کی جگہ ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar4.jpg

ایئرپورٹ سے ہوٹل کی جانب نکلے تو زنجبار سے ملاقات ہوئی۔ پرانی طرز کی مساجد اور مینار، پختہ اور شکستہ گھر، پرانی طرز کے محلے اور ان میں نئی طرز کی گاڑیاں۔ مسجدوں کے نقوش، لوگوں کی چال ڈھال اور محلوں کا نقشہ زنجبار کو افریقہ کے دوسرے شہروں سے مختلف بنادیتا ہے۔ ہوٹل کے راستے ہی میں سلیم صاحب کا شان دار گھر تھا۔ وہ پہلے اتر گئے، چائے پر بہت بلایا مگر میں تھکن سے چور تھا اور چوبیس گھنٹے کی مسافرت کے بعد ہوٹل جانے کے لیے بے تاب۔

ہوٹل پہنچے تو باہر سے تو کچھ خاص معلوم نہ ہوا، مگر اندر آنے پر اس نے بہت متاثر کیا۔ اپنے اندر یہ چھوٹا سا ہوٹل تاریخ، ثقافت اور حُسن کے ذخائر سمیٹے ہوئے تھا۔ ابھی صبح کے دس بھی نہ بجے تھے اور کمرہ تیار ہونے میں کچھ دیر باقی تھی۔ میں ناشتہ کرنے کی غرض سے باہر بالکونی کی جانب چلا گیا۔

باہر بالکونی پر قدرتی حسن کے جلووں کا جلال دیکھا، تاحد نظر سمندر اور وہ بھی ایسا ہرا کہ آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ کچھ کشتیاں سطح پر لیٹی سمندر کی آغوش اور اس کی لوری سے دل بہلا رہی تھیں اور ان پر ان کے ملاح انھیں جگا کر اپنے روزگار زندگی کی تلاش میں کوشاں۔ دنیا کے نشیب و فراز سے بہت دور لہروں کے نشیب و فراز کی آسودگی کو تکتے جانے کتنے لمحے بیت گئے۔ اچانک سفر کی تھکن اور آسودگی ماحول میں بیداری اور خماری گڈمڈ ہوگئے۔ آنکھ کھلی تو اپنے کمرے کا رخ کیا۔

کمرہ قدیم افریقی اور عرب طرز میں سجایا گیا تھا۔ بستر آرام دہ تھا اور اس پر لیٹتے ہی سفر کی تھکن نے آلیا۔ دوپہر کو ظہر کی اذان سے آنکھ کھلی افریقہ میں اذان کا یہ تجربہ میرے لیے پہلا تھا۔

نہا دھو کر باہر آیا تو موسم گرم مگر پھر بھی خوش گوار تھا۔ ہوٹل کے مختلف جرائد میں یہاں کے مقامی جواہر TANZANITE کی دکانوں کا کافی ذکر تھا۔ سوچا کہ ان کی قیمت معلوم کی جائے۔ قیمت معلوم کی تو ہوش ٹھکانے آگئے۔ مگر دکانوں میں جانے کا فائدہ یہ ہوا کہ یہاں کے کچھ مقامی لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ جواہرات کی ہر دکان کے مالک ہندوستانی نژاد تھے اور تقریباً سبھی کسی زمانے میں گجرات سے تعلق رکھتے تھے۔ اکثر مسلمان تھے اور اردو (یا اس سے ملتی جلتی) کسی زبان سے قدرے واقف۔ ایک دکان دار خاتون جن کا نام نسیم تھا، سے کچھ بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ اور ان کا خاندان پاکستان میں بھی قیام کرچکا ہے۔ 1960کی دہائی میں جزیرے کے حالات بہت کشیدہ تھے۔ عرب مارے جا رہے تھے اور اب جارحیت ہندوستانی نژاد کاروباری خاندانوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ چوںکہ یہ لوگ مال و دولت میں مقامی لوگوں سے آگے تھے، اس لیے باغیوں کے عتاب کا نشانہ بنے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar3.jpg

نسیم کے خاندان کی کہانی بہت سے دوسرے ہندوستانیوں سے مختلف نہ تھی۔ بگڑتے ہوئے حالات، بڑھتی ہوئی اغوا کی صورت حال کے تحت نسیم کے دادا اپنے خاندان کو کراچی لے گئے۔ 1970 کے اوائل میں حالات قدرے بہتر ہوئے تو واپس زنجبار آگئے۔ مگر دو بار گھر اجاڑنے سے خاندان بکھر گیا۔ کچھ گھر والے دبئی اور کچھ کینیڈا چلے گئے۔ انہی دنوں مشرقی افریقہ میں ہندوستانیوں پر عیدی امین (یوگنڈا کا سابق صدر) نامی ایک اور عذاب گزرا۔ نسیم کے دوست احباب اور بھی کم ہوگئے۔ محنت اور کاروباری صلاحیتوں کی بدولت نسیم اور ان کے والد کو کچھ ہی عرصے میں کافی کام یابی حاصل ہوئی۔ نسیم جوکہ اردو، ہندی، گجراتی اور سواحیلی زبانوں پر دسترس رکھتی ہیں، اب اپنی شان دار دکان کی مالکہ ہیں اور کراچی کے اچھے دنوں کو یاد کرتی ہیں۔

نسیم کی دکان سے باہر نکل کر ایک دو اور دکانیں دیکھیں اور مقامی لوگوں سے پوچھا کہ بھئی! مقامی لوگ کہاں پر دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں؟ ہم بھی وہیں جائیں گے۔

ایک دکان دار نے صلاح دی کہ لقمان ریسٹورنٹ چلے جاؤ۔

پرانے شہر کی بھول بھلیوں سے گزرتے ہوئے لقمان صاحب کی دکان کی طرف چلے تو میری عمر کے ایک صاحب نے پوچھا کہ میاں کدھر کو چلے؟ میں نے فارغ کرنے کا سوچا۔ پھر ایک منٹ کے لیے توقف کیا کہ بات کرنے میں کیا حرج ہے، میرے پاس ہے ہی کیا؟ سو میں نے کہا کہ لقمان جا رہا ہوں۔

ان حضرت کا نام محمد تھا۔ محمد دوئم، انہوں نے بتایا محمد اول ان کے والد گرامی قدر ہیں۔ انگریزی اچھی بولتے تھے۔ کہنے لگے کہ جرمن بھی اور اطالوی زبان بھی بول لیتا ہوں۔ کہنے لگے کہ وہ بھی لقمان ہی جا رہے ہیں۔ راستے میں محمد دوئم نے بتایا کہ انھوں نے انگریزی ہالی وڈ کی فلمیں دیکھ کر سیکھی ہے۔ ہالی وڈ سے تو میں پہلے ہی متاثر تھا اس کی تدریسی قابلیت کو بھی مان گیا۔

حکیم لقمان کے دسترخوان پر بلا کا رش تھا۔ مقامی بھی اور غیرملکی بھی۔ چھوٹا سا ایک کمرہ کہ جس سے نکلتی ہوئی قطار سڑک پر آکر رکتی تھی۔ محمد دوئم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جناب! کبھی ہفتے میں کام والے دن آئیے گا، بلکہ مت آئیے گا، کیوں کہ جگہ ملنا ناممکن ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar2.jpg

محمد صاحب بڑے کاری گر آدمی نکلے۔ جانے کیا گُر دکھائے کہ قطار میں جگہ بھی مل گئی اور میز پر کرسی بھی۔ کھانے کی اس چوکور میز پر اور بھی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نظام میں ایک محبت اور حلاوت تھی، جوکہ مغرب کے اس نظام میں نہیں ملتی جہاں پر اپنی اپنی پلیٹ لے کر ہر شخص اپنی میز پر اکیلا ہوتا ہے۔

ہم نے محمد سے دریافت کیا کہ کھانے کو کیا ہے؟ بولا بریانی، چپاتی اور سالن۔ مجھے اس پر، اپنے آپ پر اور پچھلے ایک گھنٹے میں ملنے والے تمام دکان داروں پر شدید غصہ آیا۔ ہم نے خصوصاً کہا تھا کہ وہاں جانا ہے جہاں مقامی لوگ کھاتے ہیں، چند روز پہلے میں پاکستان میں تھا، اس لیے بدذائقہ بریانی کی قطعاً کوئی خواہش نہ تھی۔

میری شکل کے بداخلاق تاثرات دیکھ کر محمد ہنس دیا اور بولا کہ بریانی ہماری خاص چیز ہے، چکھو تو سہی، تمہارے ہاں کی بریانی سے یکسر مختلف۔ بھوک کی شدت نے بحث کے جرثومے مار دیے تھے، اس لیے کہا کہ اچھا لے آؤ اور ہاں چپاتی اور سالن بھی لیتے آنا۔ پہلا نوالہ کھا کر احساس شرمندگی کا غلبہ طاری ہوگیا۔ محمد صحیح اور میں مکمل طور پر غلط تھا۔ ذائقہ یکسر مختلف، معیار اعلیٰ اور مقامی محبت کا خلوص اور مٹھاس۔

زنجبار آہستہ سے مجھ سے مخاطب ہوا۔ بولا دوست پوری بات کا موقع تو دیا کرو! اب میں سنبھل گیا، بات سمجھ میں آگئی تھی۔ محمد نے پوچھا چائے پیوگے؟ میں بولا ’’چائے؟‘‘ دل میں سوچا کہ یہ خطہ تو کافی کے لیے مشہور ہے، ان کو چائے سے کیا واسطہ؟ پھر بھی اثبات میں سر ہلادیا۔

چائے آئی اور جب آئی تو سفید تھی۔ دل تو چاہا مگر۔۔۔۔۔

آنکھ بند کرکے جب پہلا گھونٹ پیا تو شرمندگی سے سر اٹھا ہی نہ سکا۔ اپنا اندازہ ایسا غلط پایا کہ کھانے کے بارے میں تمام تر فیصلے اور تمام تر دماغی صلاحیتوں پر سے ایمان اٹھ گیا۔ چائے میں اس قدر لذت کے دل چاہا کہ سب کچھ بھلا کر ساری دوپہر اور شام بیٹھ کر اسی ایک شکستہ سے کپ کے ساتھ خوش گپیاں کروں اور دنیا کے رموز اور فلسفے کے پیچ و تاب پر بحث کروں، اسی شکستہ کپ کے ساتھ لقمان سے باہر نکلے تو میں نے محمد سے کہا کہ مجھ کو کچھ پرانی مساجد دیکھنی ہیں اور اگر لگے ہاتھوں مسالوں کے مشہور بازار سے بھی ہولیں تو کیا مضائقہ؟ محمد مجھے پیچ دار گلیوں سے گزارتا ہوا، مساجد دکھاتا ہوا مسالوں کے سوق (بازار) کی طرف روانہ ہوا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar5.jpg

زنجبارکے اپنے اندر صدیوں کے کیا کیا خزانے چھپا رکھے تھے۔ پرانے مہربان دوستوں کی طرح جب زنجبار ان خزانوں کی داستانیں سنانے بیٹھا تو وقت کا اندازہ ہی نہیں رہا۔ زنجبار کا طرز تعمیر عرب اور افریقہ کے طرز تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ مساجد بوسیدہ مگر نمازیوں سے بھری ہوئی۔ دو مساجد اندر سے دیکھیں اور پھر سوق کی جانب چل دیے۔

سوق مراکش اور شام کے مشہور اسواق کی طرح باضابطہ تو نہیں مگر اپنی تاریخ سے مالا مال تھا۔ یہی تاریخ اس جزیرے کے ساحلوں پر عرب اور یورپی جہاز رانوں نے بھی لکھی اور غلاموں کے ان سوداگروں نے بھی جن کے ظلم سے ہر ذی روح کے ہوش اُڑجاتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں آج بھی لونگ، الائچی اور ونیلا کی خوشبو جاوداں ہے اور غلاموں اور ان معصوموں کی آہ و زاری بھی کہ جن کا قصور اس جزیرے کا باسی ہونا تھا۔

میں یہاں پر تاریخ کی اس رنگینی اور تکلیف کی اس آہ و زاری سنتے ہوئے رک گیا۔ میں زنجبار سے معلوم کرنا چاہتا تھا کہ کیا یہ حس حقیقی ہے یا پھر کسی بھیانک چہرے کا مصنوعی رنگ۔ کیا یہ وہ حسن ہے جس کی چاہت میں محبوب اپنی جان وارد کر دیتا ہے یا پھر وہ حسن جوکہ حسینہ کی جان لے لیا کرتا ہے۔

زنجبار نے پھر میرے کان میں سرگوشی کی،’’میں اپنے ان دکھوں کو سمیٹ کر آگے بڑھ چکا ہوں۔ یہ زخم بھی میرے ماضی اور میرے حُسن کا حصہ ہیں۔‘‘ زنجبار کی زندہ دلی دیکھ کر میں بھی آگے بڑھ گیا۔ سوق میں خوشبو کا جادو تھا۔ ان چیزوں اور قدرت کی نعمتوں کی خوشبو جن کے نام نہ تو میں اردو میں جانتا ہوں اور نہ انگریزی میں۔ اور بھلا خوشبو اور نام کا کیا رشتہ۔ اپنی کوتاہی پر ہنس دیا اور مالک کائنات کی رعنائی کا ایک اور پہلو دیکھ کر بازار سے باہر نکل آیا۔

محمد دوئم نے مجھے میرے ہوٹل کا راستہ بتایا۔ اپنا فون نمبر لکھوایا اور تاکید کی کہ اگر کسی بھی قسم کی کوئی بھی ضرورت پڑی تو اس کو اپنا بھائی سمجھ کر فوراً فون کرلوں۔ محبت سے بغل گیر ہوا اور اپنے گھر کو چل دیا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar6.jpg

تھکن اپنا زور دکھا رہی تھی مگر ابھی شام ہونے میں تقریباً دو گھنٹے باقی تھے۔ زنجبار نے کہا کہ بس اب میں اور تم ہیں داستان تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ گھر کس لیے جاؤگے؟

میں آہستہ آہستہ ہوٹل کے بجائے ساحل کے ساتھ ساتھ چل دیا۔ میری منزل عمانی سلاطین کا قدیم محل تھا جوکہ اب ایک میوزیم تھا۔ محل کا نام شروع ہی سے بیت العجائب تھا۔ مورخین کے مطابق افریقہ کے شمال اور مشرق میں اس محل سے پہلے بجلی کہیں بھی نہ تھی اور اس کے برقی قمقمے پورے علاقے میں اپنی شہرت کی وجہ سے مشہور تھے۔ اپنے عروج پر بیت العجائب سلطان اور اس کے اہل خانہ کا مسکن تھا، مگر اب اس کی حالت خستہ تھی۔ تین ڈالر میں ذاتی ٹور گائیڈ حاصل کرکے خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی۔ اسی زمانے کے محلات اور عجائب گھر یورپ میں کہیں بہتر حالت میں سیاحوں سے درجنوں بلکہ کبھی کبھار تو سیکڑوں ڈالر وصول کرتے ہیں۔ یہاں پر چینی سیاحوں کا غلبہ، جوکہ اب یورپ کے محلات کا خصوصی حصہ ہیں، نہ تھا۔ میرے علاوہ صرف ایک اور یورپی جوڑا تھا جوکہ پرائیویٹ ٹور بھی نہ لے رہا تھا۔ گویا ان کا ٹکٹ مجھ سے بھی سستا تھا۔

محل کی سب سے دل چسپ بات شہزادی سلمیٰ کا کمرہ اور خصوصاً وہ کمرہ تھی جہاں پر موجود کھڑکی اس کی جرمن سرمایہ کار اور سفارت کار روڈالف روئٹ (Rudolph Ruete) سے ہوئی۔ یہ دل لگی محلاتی اقدار کے منافی تھی۔ گوکہ محل میں ایک وسیع حرم تھا اور شہزادی سلمیٰ کی والدہ کنیزہ تھیں مگر اخلاق ثقافت سے جنم لیتا ہے اصول سے نہیں۔ بہرحال شہزادی سلمیٰ کے یہ تعلقات محل کو ناگوار گزرے۔ اس سے کچھ عرصہ قبل شہزادی سلمیٰ نے محلاتی سازشوں میں شکست خوردہ گروہ کا ساتھ دیا تھا۔ جانے اگر وہ کام یاب گروہ میں شامل ہوتیں تو آج تاریخ کیا ہوتی؟

شہزادی کی داستان طویل اور اداس ہے۔ راتوں رات شہزادی سلمیٰ زنجبار سے یمن پہنچ جاتی ہیں۔ وہاں پر ان کی باقاعدہ شادی ہوتی ہے اور وہ سلمیٰ سے ایملی روئٹ (Emily Ruete)بن جاتی ہیں۔ جرمنی پہنچ کر ان کے تین بچے ہوئے اور شروع کے چند برس خوش گوار گزرے۔ اچانک ایک دن ٹرام کے ایک حادثے میں ان کے مشفقانہ شوہر ہلاک ہوگئے۔ زنجباری شہزادی، غیرملکی عورت اور اب بیوہ ایملی کی مالی حالت گرتی چلی گئی۔ سیاست دانوں کے مالی اعانت کے وعدے وفا نہ ہوئے اور شہزادی کسمپرسی کا شکار ہوگئیں۔ کچھ روز اس ملک اور کچھ روز اس ملک میں بسر ہوئے۔ زنجبار یاد آیا اور واپس آنے کی کوشش کی تو سلطان نے اپنے خون کو زہر جانا اور محل کے قریب سے گزرنے بھی نہ دیا۔ شہزادی بندرگاہ سے شہر بھی نہ آسکیں۔ آخرکار لبنان میں کچھ وقت گزارنے کے بعد جرمنی واپس آئیں اور انتہائی مشکل حالات میں دنیا سے کوچ کرگئیں۔

مرتے وقت شہزادی کی وصیت تھی کہ ان کے ساتھ قبر میں مٹھی بھر زنجباری خاک بھی ان کے سرہانے رکھی جائے۔ یہ خاک شہزادی سلمیٰ ساری عمر اپنے ساتھ رکھے رہیں اور مرتے دم اور بعدازموت بھی جدا نہ کیا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar7.jpg

محل کے سامنے ہرا سمندر اپنے دیس کی بے وفائی کی پرواہ کیے بغیر اپنے جوش میں مگن تھا مگر میں اب تھک چکا تھا۔ ہوٹل کی جانب واپس چلنے لگا۔ راستے میں نسیم کی دکان پر دوبارہ رکا اور دریافت کیا کہ آیا آس پاس کوئی کتب خانہ ہے؟ جواباً نسیم نے برابر کی دکان کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ہاں، وہاں شاید کچھ کتابیں مل جائیں۔

برابر کی دکان جوس اور کافی بیچنے میں زیادہ اور کتب بیچنے میں کم دل چسپی رکھتی تھی۔ تشفی نہ ہوئی اور پھر ہوٹل کی جانب چل دیا۔ کپڑے کی ایک دکان کے باہر کباڑیہ کچھ کتابیں بیچ رہا تھا۔ اس کے پاس 1940 کی ایک نایاب کتاب ملی۔ چار ڈالر میں یہ کتاب زنجبار کی ثقافت اور 1940میں زنجباری حالات کی غمازی کر رہی تھی۔

مغرب سے کچھ پہلے ہوٹل پہنچا۔ معلوم ہوا کہ برابر کا مکان ٹپوٹپ(Tippu Tip) کی رہائش گاہ ہے۔ یہ حضرت، جن کا اصلی نام محمد بن محمد بن جمعہ بن رجب بن محمد بن سعید تھا، زنجباری کاروباری حضرات میں سرفہرست ہیں۔ ان ہی کی خدمات کی بدولت عربوں کو غلاموں اور کنیزوں کو خریدنے میں بہت آسانی رہی تھی۔ ان کا گھر دیکھ کر یک دم سمندر کی آواز اونچی ہوگئی۔ اس میں وہ آہ و زاری مل گئی جو اب تک پوشیدہ تھے میرے کان آہوں سے گونج اٹھے۔ مجھ سے اور نہیں رکا گیا اور میں پھر شہر کی طرف چلا گیا۔

بوسٹن میں احباب نے صلاح دی تھی کہ رات کو ساحل کے پاس ’’فورا دھانی‘‘ مارکیٹ ضرور جانا۔ وہاں پر سڑک کے ساتھ ساتھ ٹھیلے والے ایک قطار سے کباب، تکے اور دیگر حسین معاملات شکم کا کاروبار کرتے ہیں۔ میں بھی اس جانب چل نکلا۔ دوستوں کی صلاح سو فی صد صحیح ثابت ہوئی۔ ٹھیلے کم اور حجم کی بہشت صغریٰ زیادہ تھی۔ ایک پلیٹ میں کچھ سیخیں میں نے بھی بنوائیں۔ نت نئے سمندری کھانے اور مقامی مسالے۔ کھانے میں پناہ لذت تھی۔

خواہش ہوئی کہ کافی سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ معلوم ہوا کہ سب سے اچھی کافی کی دکان زنجبار کافی ہاؤس ہے۔ اپنے پاکستانی بھائیوں کی طرح ہر مقامی نے اپنی مرضی کا راستہ بتایا۔ بالآخر ایک بڑے میاں نے اپنے نو یا دس سالہ پوتے کو، جوکہ انگریزی سے ہر سو ناواقف تھا ہمارے حوالے کردیا۔ اندھیری گلیوں میں یہ نوعمر ایسے چل رہا تھا کہ جیسے سورج سوا نیزے پر ہو۔ بالآخر جب کافی ہاؤس پہنچے تو معلوم ہوا کہ زنجبار معقول لوگوں کا ملک ہے۔ کافی رات کو نہیں پیتے اور دکان شام چھ بجے ہی بند کردیتے ہیں۔ میرے جیسے نشئی (Addicted) حضرات کو چاہیے کہ اپنا راستہ ناپیں۔ ہم کب ماننے والے تھے گھومتے گھماتے ایک مغربی کیفے ڈھونڈ ہی لیا اور اپنی طلب پوری کی۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar8.jpg

نو اور دس بجے کے درمیان کمرے میں پہنچا۔ صبح اٹھ کر کچھ کام کیا اور زنجبار سے اگلی ملاقات کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ زنجبار سے اکیلے میں ملنا ضروری تھا۔ فجر کا وقت قریب تھا۔ آہستہ آہستہ چلتا ہوا ساحل کی مسجد پہنچا اور درجن بھر نمازیوں کے ساتھ سربسجود ہوا فجر کے وقت کا مزہ اپنا ہے مگر ساحل کی آواز اور قاری کی آواز کی آمیزش کا سحر اور تھا۔

نماز کے بعد ساحل کے برابر آہستہ آہستہ چلنا شروع ہوگیا۔ شہر نے پہلی انگڑائی نہیں لی تھی مگر زنجبار، اسی نیم روشنی میں اپنی داستانیں کھل کر بیان کر رہا تھا۔ محل کے برابر سے دوبارہ گزرا اور باہر سے شہزادی سلمیٰ کی کھڑکی دیکھی اس کھڑکی کے اس جانب کون سی یاد بیدار تھی اور کون سی ہمیشہ کے لیے سو گئی تھی؟

آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ایک مقامی ہوٹل نظر آیا۔ ساحل سے کچھ دور مگر ملاحوں کی گہما گہمی سے پر رونق چائے منگوائی اور ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا خریدا۔ باہر نکلا تو شہر بیدار ہو رہا تھا۔ ننھے منے فرشتے اسکول کی طرف اپنے بھاری بستے لیے نکل چکے تھے۔ آنکھوں میں نیند مگر پڑھائی کی لگن۔ ایک لمحے کے لیے مجھے اپنے پشاور کے بچے یاد آگئے۔ آنکھوں کے سامنے میرے اپنے بچے، پشاور کے بچے اور زنجبار کے بچے سبھی تھے۔ اب بولنے کی باری میری تھی۔ میں نے پرنم آنکھوں سے بچوں کے اسکول کو دیکھا اور زنجبار سے کہا ’’یار وہ نہ کرنا جو ہم نے کیا۔ خدارا ان پھولوں کو مرجھانے نہ دینا۔ تمہارا وجود اور ہمارا تمہارا رشتہ ان ہی کلیوں اور پھولوں سے ہے۔‘‘

سورج نکل چکا تھا۔ ہوٹل آیا اور تیار ہوکر ہوٹل کا بل ادا کیا اور باہر ڈرائیور کا انتظار کرنے لگا۔ جب ڈرائیور صاحب تشریف لائے تو دیر سے آنے کی معذرت چاہی۔ شاید یہی کہا تھا۔ شاید کچھ اور۔ انگریزی سے کچھ شغف تھا مگر صرف اتنا کہ وہ ہمارا سوال سمجھ لے مگر ہم ان کے جواب سے استفادہ نہ کرسکیں۔

گاڑی شہر سنگ (Stone) سے باہر نکلی۔ یہ علاقہ زنجباری سیاحوں کی دسترس اور ان کے ڈالر سے آزاد تھا۔ ہرا بھرا اور پُرامن۔ اس کے رخسار میں تاریخ کی سرخی کی رعنائی تو نہ تھی مگر محنت کش کے بدن کی سی سرعت اور جذبہ ضرور تھا۔

بیس منٹ کے سفر کے بعد ہم یونیورسٹی پہنچے تو وہاں پر وائس چانسلر ڈاکٹر ادریس راعی نے ہمارا والہانہ استقبال کیا۔

میٹنگ بہت کام یاب رہی۔ زنجباری مدرسوں اور محققوں میں خلوص بھی ہے اور لگن بھی۔واپسی کا وقت قریب آرہا تھا۔ ڈاکٹر ادریس بھی اسی روز دوپہر کی فلائٹ سے دارالسلام جا رہے تھے۔ ہمیں ایئرپورٹ چھوڑنے پر مصر ہوگئے۔ ایئرپورٹ پر گہماگہمی تو تھی مگر بے چینی نہ تھی۔جہاز اڑا تو زنجبار نے مشفقانہ انداز میں سرگوشی کی۔ یار حامد! دوبارہ آنے میں اڑتیس(38)برس مت لگا دینا۔

سمارٹ فون کے ٹھگ، ٹھگی وفراڈ کی نئی راہیں

$
0
0

یہ چھ مہینے پہلے کی بات ہے، امریکی شہر رانچو کورڈوا میں واقع سامان بجھوانے و منگوانے کی کمپنی، فیڈایکس (FedEx) میں خوب چہل پہل تھی۔ لوڈر سامان اِدھر اُدھر منتقل کررہے تھے۔ اچانک ایک بڑا سا ڈبا لوڈر سے گرا اور گرتے ہی کھل گیا۔ اس میں آئی فون کے ڈبے بھرے تھے جو فرش پر دور تک بکھر گئے۔

فیڈایکس کے مقامی منیجر کو شک ہوا کہ یہ آئی فون چوری شدہ ہیں۔ اس نے سکیورٹی کمپنی، ویریزون (Verizon) کے تعاون سے اپیل کمپنی سے رابطہ کیا۔ کمپنی نے آئی فونوں کے نمبر نوٹ کیے اور کچھ ہی دیر بعد بتا دیا کہ وہ واقعی چوری شدہ ہیں۔

دو گھنٹے بعد برائن فلیچر وہاں آ پہنچا۔ وہ ریاست کیلی فورنیا کے محکمہ قانون سے وابستہ ’’ای کرائم یونٹ‘‘(e Crime Unit) کا جاسوس تھا۔ اس سرکاری قانونی ادارے سے متعلق جاسوس دنیائے نیٹ میں ہونے والے جرائم اور الیکٹرونک اشیا کی اسمگلنگ کی چھان بین کرتے ہیں۔

برائن فلیچر نے ڈبے کا جائزہ لیا، اس میں 37 آئی فون موجود تھے۔ اس نے ڈبے پر درج ہر سمارٹ فون کا سیریل نمبر کاغذ پر لکھا اور ڈبا پھر بند کردیا۔ اب انتظار ہونے لگا کہ یہ سامان کون لینے آتا ہے۔ اگلے دن نزدیکی شہر، سکارمینٹو کا رہائشی، واصف شہزاد اسے لینے آپہنچا۔

واصف نے ڈبا لیا اور اپنی منزل کی سمت چل پڑا۔ برائن اپنی کار میں اس کا تعاقب کرنے لگا۔ واصف رانچو کورڈوا کے مضافات میں واقع ایک فلیٹ تک پہنچا۔ اس میں چینی نژاد امریکی، شولن وین اپنی بیگم یوتنگ تان کے ساتھ مقیم تھا۔ واصف نے وہ ڈبا ان کے حوالے کردیا۔

مزید چھان بین سے انکشاف ہوا کہ شولن وین چین میں پیدا ہوا۔ پچیس سال کا تھا تو ہجرت کرکے امریکا چلا آیا۔ اب وہ سکارمینٹو میں موبائل اور سمارٹ فون فروخت کرنے والی دکان کا مالک تھا۔چھان بین سے معلوم ہوا کہ وہ کسی جرم میں ملوث نہیں۔ پھر بھی برائن کی چھٹی حس نے اسے بتایا کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔ چناں چہ برائن کے آدمی جوڑے کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے لگے۔

چند دن بعد شولن نے ایک شپنگ کمپنی جاکر چار بڑے ڈبے بک کرائے۔ ان ڈبوں کو بذریعہ بحری جہاز ہانگ کانگ جانا تھا۔ جب جوڑا ڈبے بک کرا کر چلا گیا تو برائن نے اپنے ایجنٹوں کی موجودگی میں انہیں کھولا۔ اندر سے190 بالکل نئے آئی فون برآمد ہوئے۔ 37 سمارٹ فونوں کے سیریل نمبر اس کاغذ پر درج نمبروں سے مل گئے جو برائن کے پاس تھا۔ یوں برائن کا شک درست ثابت ہوا کہ آئی فون ہانگ کانگ اسمگل کیے جارہے ہیں۔

اب یہ معلوم کرنا باقی تھا کہ مجرموں کا طریق واردات کیا ہے! اگلے چند ماہ میں ای کرائم یونٹ کے جاسوسوں نے بڑی بھاگ دوڑ کی۔ وہ ان جگہوں پر گئے جہاں سے آئی فون خریدے گئے تھے۔ پھر بینک ریکارڈ دیکھے اور مختلف کمپنیوں سے رسیدوں کی نقول حاصل کیں۔ یوں رفتہ رفتہ طریق واردات کی تصویر سامنے آگئی۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Smartphone-theif.jpg

ہوتا یہ کہ شولن وین واصف جیسے بیروزگار پاکستانی، بھارتی اور چینی نوجوانوں کو ملازمت دیتا۔ یہ نوجوان مختلف امریکی شہریوں میں بکھر جاتے۔ وہ پھر غریب اور بے گھر امریکیوں کو پکڑتے، انہیں اپنے دام میں پھنساتے اور اپنا ’’کام‘‘ نکلوالیتے۔’’کام‘‘ یہ تھا کہ غریب امریکی اپنے نام سے قسطوں پر کسی ادارے سے عموماً آئی فون حاصل کرلیتا۔ شولن کا کارندہ پھر اس امریکی کو 100 ڈالر دیتا اور آئی فون لے لیتا۔ یہ نیا نکور آئی فون پھر شولن کے پاس پہنچ جاتا۔

جب شولن وین کے پاس ڈیڑھ سو آئی فون جمع ہوجاتے، تو وہ انہیں ہانگ کانگ میں بیٹھے اپنے آدمی کو بھجوا دیتا۔ وہاں ایک آئی فون دو ہزارڈالر تک میں فروخت ہوتا۔ گویا اس انوکھے طریق واردات سے شولن بڑا بھاری سرمایہ کما رہا تھا۔

امریکی سراغ رسانوں نے دریافت کیا کہ 2014ء میں شولن نے صرف فیڈ ایکس سے 111 پارسل ہانگ کانگ بھجوائے۔ تخمینہ ہے کہ اس کی سالانہ آمدن ڈھائی لاکھ ڈالر (ڈھائی کروڑ روپے) تک جاپہنچی تھی۔ شولن نے بے گھر اور غریب امریکیوں کی وساطت سے جو آئی فون خریدے، اس کی کوئی قسط ادا نہیں ہوئی۔ ظاہر ہے، غریب شخص کہاں سے رقم ادا کرتا؟ ویسے بھی حقیقتاً انہوں نے آئی فون خریدا ہی نہیں تھا۔ چونکہ قسطیں ادا نہ کرنا امریکا میں جرم ہے لہٰذا شولن اور اس کی بیوی کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر فراڈ اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ چلا اور انہیں تین سال قید ہوگئی۔

منافع بخش کاروبار

درج بالا چشم کشا واقعے سے عیاں ہے کہ دور حاضر میں سمارٹ فون کی اسمگلنگ بڑا منافع بخش کاروبار بن چکا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ دنیا بھر میں سمارٹ فونوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 2009ء میںیعنی صرف پانچ سال قبل کرہ ارض پر آباد محض ’’پانچ فیصد‘‘ لوگ سمارٹ فون رکھتے تھے۔ 2015ء میں ان کی تعداد ’’پینتیس فیصد‘‘ پہنچ جائے گی جو ڈھائی ارب بنتی ہے۔ یہ چین اور بھارت کی مجموعی آبادی کے برابر ہے۔

چونکہ پروسیر‘ چپیں اور سمارٹ فون کے دیگر آلات سستے ہو رہے ہیں۔ نیز نت نئی ٹیکنالوجیاں تیزی سے سامنے آ رہی ہیں۔ اسی باعث ماہرین کا کہنا ہے کہ 2017ء تک دنیا کی آدھی آبادی (ساڑھے تین ارب سے زیادہ انسان) سمارٹ فون کے مالک ہوں گے۔

آج اربوں لوگوں کے لیے سمارٹ فون اور موبائل روزمرہ زندگی کا ناگزیر حصہ بن چکے۔ ہم ان سے مختلف کام ہی نہیں کراتے بلکہ بطور تفریحی آلہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ پیغامات اور تصاویر کی صورت ہماری حسین یادیں اور جذبات و احساسات ان میں محفوظ ہوتے ہیں۔ غرض یہ ننھی مشینیں اربوں انسانوں کے واسطے چاندی سے کئی گنا قیمتی ہو چکیں۔

سمارٹ فون اور موبائلوں کی تعداد بڑھی‘ تو دنیا بھر میں یہ جدید آلات جرائم کا بھی نشانہ بننے لگے۔ کہیں چور سڑکوں پر چلتے لوگوں سے سمارٹ فون چھین کر فرار ہو جاتے ہیں۔ کہیں شولن وین جیسے لوگ اپنی ’’کاریگری‘‘ دکھاتے ہیں۔ امریکا سمیت مغربی ممالک میں قانون بڑا مضبوط ہے۔ لیکن وہاں بھی سمارٹ فون اور موبائل مجرموں کی گرفت سے نہ بچ سکے۔

امریکی رسالے ’’کنزیومر رپورٹس‘‘ کے مطابق پچھلے سال ’’اکتیس لاکھ‘‘ امریکی کسی نہ کسی طور اپنے سمارٹ فون سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ موبائل کی سکیورٹی فراہم کرنے والی امریکی کمپنی‘ لک آؤٹ کے ماہرین کہتے ہیں: ’’امریکا میںسمارٹ فون استعمال کرنے والے ہر 10 افراد میں سے ایک فرد کا فون چوری ہو چکا۔ اور ان میں سے ’’68فیصد‘‘ کبھی اپنا سمارٹ فون پھر نہیں دیکھ پاتے۔‘‘

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Smartphone-theif1.jpg

دنیا بھر میں سمارٹ فونوں کی بڑھتی چوریوں کے باعث فون کمپنیاں اب ہر نئے فون میں ’’ایکٹی ویشن لاک‘‘(Activation Lock) یا خودکار تالا متعارف کرا رہی ہیں۔ ادھر کئی امریکی ریاستوں میں ’’کل سوئچ لا‘‘(Kill-Switch Law) منظور ہوچکا۔ یعنی جوں ہی چور کوئی سمارٹ فون یا موبائل چرائے‘ فون کمپنیاں اسے لاک کر دیتی ہیں۔ وہ پھر قابل استعمال نہیں رہتا اور ردی بن جاتا ہے۔

تاہم کوئی سمارٹ فون امریکا سے باہر چلا جائے‘ تو پھر’’کل سوئچ لا‘‘ بے اثر ثابت ہوتا ہے۔ اسی لیے شولن وین کا کاروبار پھلا پھولا۔ وہ نئے آئی فون ہانگ کانگ بھجواتا اور وہاں ان میں نئے سم کارڈ ڈال کر انہیں قابل استعمال بنا لیا جاتا۔ اب صرف ہانگ کانگ کی حکومت ہی انہیں لاک کر سکتی تھی۔

دوسری طرف سمارٹ فونوں میں متعارف کرایا جانے والا ایکٹی ویشن لاک ایک سافٹ ویئر پروگرام ہے۔ اور ہیکر مسلسل سعی کرتے ہیں کہ اس پروگرام کا توڑ دریافت کر سکیں۔ مثلاً مئی 2014ء میں نامعلوم ہیکروں نے اعلان کیا کہ انہوں نے ایسا سافٹ ویئر ‘ ’’ڈول سی‘‘ (doulCi) ایجاد کر لیا ہے جو چرائے گئے آئی فون کا تالا توڑ اسے ری سیٹ کر کے نیا بنا دیتا ہے۔

مذیر براں ایکٹی ویشن لاک اسی وقت کام کرتا ہے جب سمارٹ فون فروخت کرنے والی کمپنی کی ویب سائٹ پر اس کا اکاؤنٹ بنا ہو، نیز چور دنیائے انٹرنیٹ میں گھومنے پھرنے لگے۔ لہٰذا چور کسی نہ کسی طرح چوری شدہ مہنگے سمارٹ فون کو قابل استعمال بنا لیتے ہیں۔

امریکا میں تو مجرموں نے نئے سمارٹ فون چرانے کا انوکھا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ وہ کاریں چراتے پھر انہیں سمارٹ فون بنانے والی کمپنیوں کے کسی گودام میں لے جاتے۔ وہاں موقع پاتے ہی کار سے ٹکر مار کر دروازے توڑتے اور نئے نویلے سمارٹ فون لوٹ کے فرار ہو جاتے۔ امریکی پولیس کی رپورٹ کے مطابق اب بیشتر شہروں میں مجرمانہ گروہ منشیات کا دھندا چھوڑ کر چوری شدہ سمارٹ فونوں کا کاروبار کرنے لگے ہیں۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ’’کل سوئچ قانون‘‘ سمارٹ فون کو قابل استعمال نہیں رہنے دیتا‘ مگر اس کے قیمتی آلات بھی چور کے کام آتے ہیں۔ لہٰذا امریکا اور مختلف یورپی ممالک میں سمارٹ فونوں کے آلات کی بلیک مارکٹ جنم لے چکی۔ اس مارکیٹ میں سمارٹ فون کی مختلف اشیا مثلا ریم ‘ کیمرے‘ ہارڈ ڈسکیں‘ کارڈ وغیرہ سستے دادموں مل جاتے ہیں۔

حال ہی میں ریاست کیلی فورنیا کے ای کرائم یونٹ نے لاس اینجلس میں ایپل این بیری نامی سٹور میں چھاپا مارا۔ اسی سٹور میں سمارٹ فونوں کے حصّے فروخت ہوتے تھے۔ اسی طرح پچھلے سال ریاست مینیسوٹا میں مصطفی خاندان نامی مجرمانہ گروہ پکڑا گیا۔ ریاست میں تیرہ الیکٹرونکس سٹور اس خاندان کے افراد کی ملکیت تھے اوروہاں چوری شدہ سمارٹ فونوں کی وسیع پیمانے پر خرید و فروخت ہوتی تھی۔

سمارٹ فونوں کی چوری روکنے کے لیے موبائل ساز کمپنیاں جدید ترین سافٹ ویئر اور طریقے متعارف کرا رہی ہیں۔ دوسری طرف مجرم بھی ان طریقوں کے توڑ دریافت کرنے میں مگن ہیں۔ گویا یہ مقابلہ بھی خیر و شر کے معرکے کی طرح دائمی بنتا جا رہا ہے جو شیطان کے اعلان بغاوت سے شروع ہوا اور تا قیامت جاری رہے گا۔ اسی باعث بنی نوع انسان کو سمارٹ فون اور موبائلوں کی چوریوں‘ اسمگلنگ اور فراڈ کا عذاب برداشت کرنا پڑے گا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Smartphone-theif2.jpg

فون کو بند کرائیے

وطن عزیز میں بھی سمارٹ فون اور موبائلوں کی چوریوں اور فراڈ کے عجیب وغریب طریقے سامنے آ رہے ہیں۔ پچھلے ایک ماہ کے دوران ایکسپریس میگزین کے ہمارے دو ساتھی‘ عبیداللہ عابد اور حسان خالد اُچکوں کے ہاتھوں اپنے موبائلوں سے محروم ہو چکے ۔ چونکہ اب ہر دوسرا پاکستانی موبائل یا سمارٹ فون رکھتا ہے لہٰذا مجرموں کے ہاتھ فوری کمائی کا گر ہاتھ لگ گیا۔

چوری چکاری کی روک تھام کے لیے پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) نے آئی ایم ای آئی (International Mobile Equipment Identity)نمبر کے ذریعے چوری شدہ فون بلاک کرنے کا طریقہ وضع کیا۔ کمپنی ہر سمارٹ فون اور موبائل کو یہ مخصوص نمبر الاٹ کرتی ہے۔ لہٰذا نیا فون خریدتے ہی یہ نمبر کسی کاغذ پر لکھ کر محفوظ کر لیںکیونکہ اس کے چوری ہونے پر آئی ایم ای آئی کی ضرورت پڑے گی۔ آپ اپنے فون پر #06#ڈائل کر کے اس کا یہ نمبر حاصل کر سکتے ہیں۔

جب بھی فون چوری ہو‘ پہلے پولیس میں اس کی رپٹ درج کرایئے۔ پھر پی ٹی اے کے ٹول فری نمبر: 0800-55055پہ اپنے موبائل یا سمارٹ فون چوری کی اطلاع دیجیے۔ آپ پی ٹی سی کی ای میل پر بھی یہ اطلاع بھجوا سکتے ہیں۔

کراچی کے شہریوں کو سی پی ایل سی (Citizen Police Liaison Committee) کی سہولت بھی حاصل ہے۔ وہ اس ادارے سے بھی رابطہ کر کے موبائل چوری کی اطلاع دے سکتے ہیں۔ اس قسم کا ادارہ پاکستان کے ہر شہر میں ہونا چاہیے تاکہ جرائم کی روک تھام مؤثر انداز میں ہو سکے۔

درج بالا اقدامات کے بعد صبر کیجیے اور امید رکھیے کہ آپ کا چوری شدہ فون واپس مل جائے گا۔ وہ نہ بھی ملے‘ تو ان اقدامات سے یہ یقینی ہو گا کہ چور آپ کا موبائل یا سمارٹ فون آزادی سے استعمال یا فروخت نہیں کر سکتا۔ یہ عمل دقت طلب اور کچھ پیچیدہ ہے‘ تاہم اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ نیز بہ حیثیت ذمے دار شہری ہمارا فرض ہے کہ ہر جرم کی رپورٹ درج کرائیں۔ یوں جرائم کی روک تھام میں آسانی ہوتی ہے۔

مزید براں جب بھی آپ نیا خصوصاً سیکنڈ ہینڈ موبائل یا سمارٹ فون خریدئیے تو پی ٹی اے کی ویب سائٹ پہ دستیاب آئی ایم ای آئی سرچ میں اس کا نمبر ڈال کے تصدیق کر لیجیے کہ وہ چوری شدہ تو نہیں۔ آئی ایم ای آئی سرچ کا ایڈریس یہ ہے:

http://imei.pta.gov.pk

2015ء خلائی تحقیق کے نئے سنہرے دور کا آغاز

$
0
0

بیسویں صدی کے وسط میں امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان خلائی دوڑ کا آغاز ہوا تھا۔

حریف ممالک کے درمیان خلا اور چاند کو تسخیر کرنے کی دوڑ سترہ برس ( 1955ء تا 1972ء ) جاری رہی تھی۔ یہ مسابقت مصنوعی سیاروں کی تخلیق؛ چاند، زہرہ، اور مریخ کی جانب تحقیقی خلائی جہازوں اور ارضی مدار میں خلابازوں کی روانگی کی بنیاد بنی اور پھر بالآخر تسخیر ماہتاب پرمنتج ہوئی۔ امریکا نے چاند پر اپنے خلانورد کام یابی سے اُتار کر خلائی دوڑ میں سوویت یونین کو شکست سے دوچار کیا۔ اُس دور میں خلائے بسیط کے اسرار جاننے کی سمت کلیدی پیش رفت ہوئی۔ اسی لیے وہ دور خلائی تحقیق کا سنہرا دور کہلاتا ہے۔

سائنس دانوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ 2015ء خلائی تحقیق کے دوسرے سنہری دور کا آغاز ثابت ہوسکتا ہے، کیوں کہ اس برس جہاں کئی اسپیس مشن اپنی تکمیل کو پہنچیں گے وہیں نئے مشن بھی روانہ کیے جائیں گے۔ ان میں نظام شمسی کے سابق رکن پلوٹو سے لے کر ایک بونے سیارے ( dwarf planet ) کی جانب خلائی جہاز کی روانگی شامل ہے۔ اس کے علاوہ خلائی تاریخ کا سب سے جسیم راکٹ بھی رواں برس ہی سطح ارض سے اڑان بھرے گا۔ ذیل کی سطور میں ان واقعات کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن کی بنیاد پر سائنس داں خلائی تحقیق کے نئے سنہری دور کے آغاز کی نوید سنارہے ہیں۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Space-research.jpg

یورپی خلائی ایجنسی کے تحقیقی اسپیس کرافٹ کی روانگی:

2015ء میں پہلا اہم واقعہ یورپی خلائی ایجنسی کی ’’انٹرمیڈیٹ ایکسپیریمینٹل وھیکل‘‘ کی لانچ تھی۔ یہ خلائی جہاز 11 فروری کو فرانس کے گیانا اسپیس سینٹر سے ارضی مدار کی جانب روانہ کیا گیا۔ انٹرمیڈیٹ ایکسپیریمینٹل وھیکل کی تیاری پر پانچ سال کے دوران یورپی خلائی ایجنسی نے پندرہ کروڑ یورو خرچ کیے ہیں۔ یہ کوئی تحقیقی خلائی جہاز نہیں ہے بلکہ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ ایک آزمائشی اسپیس کرافٹ ہے، جس کا مقصد یورپی خلائی ایجنسی کو ایسے خلائی جہاز تخلیق کرنے میں مدد دینا ہے جو خلانوردوں کو بالکل عام مسافر طیاروں کی طرح، بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک لے جاسکیں اور واپس لاسکیں۔ اس کے علاوہ انٹرمیڈیٹ ایکسپیریمینٹل وھیکل کی آزمائشی پرواز سے حاصل کردہ ڈیٹا کی معاونت سے یورپی خلائی ایجنسی وہ تحقیقی اسپیس کرافٹ تیار کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے جو مریخ کا چکر لگا کر واپس لوٹ سکے۔

اس وقت تک جتنے بھی مشن مختلف سیاروں کی طرف روانہ کیے گئے ہیں، ان میں زمین پر لوٹ آنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ وہ صرف اپنی منزل پر پہنچ کر معلومات زمین پر ارسال کرسکتے ہیں۔ اسی طرح خلابازوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک لے جانے والے اسپیس کرافٹ یا اسپیس کیپسول راکٹ کے ذریعے ارضی مدار میں پہنچتے ہیں۔ یہ راکٹ تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلا اور دوسرا حصہ راکٹ سے علیحدہ ہوکر زمین پر گرجاتا ہے، جب کہ راکٹ ابھی زمین کی فضائی حدود ہی میں ہوتا ہے۔ تیسرا حصہ خلائی جہاز کو لے کر ارضی مدار میں داخل ہوجاتا ہے۔ وہاں خلائی جہاز اس سے علیحدہ ہوجاتا ہے۔ عام طور پر راکٹ کا تیسرا حصہ بھی کشش ثقل کی وجہ سے زمین پر آگرتا ہے۔ تاہم خلا سے سطح زمین تک کے سفر میں کرۂ ہوائی میں موجود ذرات سے رگڑ کھانے کے باعث راکٹ کے حصے جل کر تباہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس طرح ہر بار خلابازوں کو ارضی مدار میں پہنچانے کے لیے نیا راکٹ درکار ہوتا ہے، جس کی تیاری پر کثیر لاگت آتی ہے۔ اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ عام مسافر طیاروں جیسے خلائی جہاز کی تخلیق انقلابی ثابت ہوگی۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Space-research1.jpg

’’ڈان ‘‘ ’بونے سیارے‘ کے مدار میں پہنچنے والا اوّلین خلائی جہاز:

مارچ کی چھے تاریخ کو خلائی جہاز ’’ڈان‘‘ Ceres نامی بونے سیارے ( dwarf planet) کے مدار میں داخل ہوگا۔ ماہرین فلکیات کو امید ہے کہ یہ ’داخلہ‘ اس کم جسامت کے حامل سیارے پر دکھائی دینے والے سفید نشان کا راز افشا کردے گا۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب کوئی خلائی جہاز کسی بونے سیارے کی کشش ثقل کے زیراثر آئے گا۔ سیریس، سورج سے قریب ترین بونا سیارہ ہے جو مریخ اور مشتری کی درمیانی پٹی میں موجود ہے۔ ’’ڈان‘‘، سیریس ( Ceres ) کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس دوران بونے سیارے کی جو تصاویر زمین تک پہنچی ہیں، ان میں اس کی سطح پر ایک سفید نشان واضح ہورہا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ نشان کسی وسیع گڑھے میں جمع شدہ پانی بھی ہوسکتا ہے جس سے ٹکرا کر روشنی منعکس ہورہی ہو۔ آنے والے دنوں میں ’’ ڈان ‘‘ اپنی منزل کی واضح تر تصاویر ارسال کرے گا جس کے بعد اس سیارے کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوسکیں گی۔

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ایک سالہ قیام:

27مارچ کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی جانب دو خلاباز روانہ کیے جائیں گے۔ اسکاٹ کیلی کا تعلق امریکا اور میخائل کورنیکوف کا روس سے ہے۔ ارضی مدار میں خلانوردوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ خلاباز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر چند دن قیام کرتے ہیں اور پھر زمین پر لوٹ آتے ہیں۔ مگر اس مشن کی خاص بات یہ ہے کہ اسکاٹ کیلی اور میخائل کورنیکوف ایک برس تک عالمی خلائی اسٹیشن کے مکین رہیں گے۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب خلانورد ارضی مدار میں محوگردش سب سے بڑے مصنوعی سیارے پر ایک سال گزاریں گے۔ ان کی واپسی مارچ 2016ء میں ہوگی۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Space-research2.jpg

ارضی مدار میں طویل قیام کا مقصد خلابازوں کو مستقبل میں مریخ کی جانب بھیجنے جانے والے مشنز کے لیے تیار کرنا ہے۔ مشن کے دوران یہ دیکھا جائے گا کہ خلا میں طویل تر قیام کے خلانوردوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماضی میں بھی اس نوع کے تجربات کیے گئے مگر ان تجربات کے دوران بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر خلابازوں کا قیام زیادہ سے زیادہ چھے ماہ تک رہا تھا۔ اس مشن کے دوران ماہرین خلا میں طویل قیام کے انسانی جسم کے مختلف نظاموں پر اثرات کا جائزہ لیں گے۔

کورنیکوف اور کیلی کا بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ایک سالہ قیام، خلا میں طویل ترین قیام نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے1994-95ء میں روسی خلانورد ولیری پولی کوف نے خلائی اسٹیشن ’ میر‘ پر437 دن گزارے تھے۔

موجودہ مشن سے مستقبل میں مریخ کی جانب مشن کی روانگی ممکن بنانے کے لیے اہم ڈیٹا حاصل ہوگا۔

’’میسنجر‘‘ کی موت!:

سیارہ عطارد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے امریکی خلائی ادارے، ناسا نے اسپیس کرافٹ ’’میسنجر‘‘ اگست 2004ء میں روانہ کیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب سورج سے قریب ترین سیارے کو کھوجنے کے لیے خلائی جہاز روانہ کیا گیا ہو۔ تحقیقی خلائی جہاز عطارد کے مدار میں سترہ مارچ 2011ء کو داخل ہوا تھا۔ چار برسوں کے دوران’’میسنجر‘‘ نے نظام شمسی کے پہلے سیارے کے بارے میں بے حد قیمتی معلومات فراہم کیں۔ دیگر چیزوں کے ساتھ ’’میسنجر‘‘ نے یہ بھی دریافت کیا کہ عطارد کے قطبین پر بڑی مقدار میں برف موجود ہے۔ ’’میسنجر‘‘ اپریل میں عطارد کی سرزمین سے ٹکرا کر تباہ ہوجائے گا۔ یوں خلائی تحقیق کا ایک شان دار باب اختتام کو پہنچے گا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Space-research3.jpg

ہبل دور بین کے 25 سال:

اپریل کی 25 تاریخ کو ہبل دوربین اپنی پچیسویں سال گرہ منائے گی۔ یہ بلاشبہ ایک اہم موقع ہوگا، بالخصوص اس تناظر میںکہ ابتدائی دنوں میں ہبل دوربین کو ناسا کی سب سے بڑی ناکامی قرار دیا گیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ 25 اپریل1990ء کو جب ہبل ارضی مدار میں پہنچی تو سائنس دانوں پر انکشاف ہوا کہ اس کے ابتدائی آئینے ( primary mirror ) کی ساخت ٹھیک نہیں تھی جس کی وجہ سے اس کی ارسال کردہ شبیہیں دُھندلی اور آڑی ترچھی تھیں۔ تاہم مرمت ہونے کے بعد ہبل بے انتہا کام یاب ثابت ہوئی۔ آج خلائے بسیط کے بارے میں دست یاب بیشتر معلومات اسی دوربین کی رہین منت ہیں۔ رُبع صدی کے دوران ہبل نے انسان کو اپنے نظام شمسی کے ساتھ ساتھ کائنات میں پھیلی کہکشاؤں میں جھانکنے کے قابل بنایا۔

سب سے بڑے راکٹ کی لانچنگ:

جون میں نجی اسپیس کمپنی ’’اسپیس ایکس‘‘ اپنا ’’فیلکن ہیوی‘‘ نامی راکٹ خلا میں روانہ کرے گی۔ 53000 کلوگرام وزن لے جانے کی صلاحیت کا حامل ’’فیلکن ہیوی‘‘ موجودہ کسی بھی راکٹ سے دگنا طاقت وَر ہوگا۔ اسپیس ایکس مریخ کو تسخیر کرنے کا عزم ظاہر کرچکی ہے۔ قوی امکان ہے کہ یہ راکٹ اس عزم کی تکمیل میں معاون ہوگا۔ فیلکن ہیوی کی اُڑان سے پہلے اسپیس ایکس اپنے تیارکردہ خلائی جہاز ’’ڈریگن‘‘ کی آزمائش کرے گی۔ توقع ہے کہ یہ خلائی جہاز 2017ء میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے لیے باقاعدہ پروازیں شروع کردے گا۔ ’’ ڈریگن‘‘ خلانوردوں کی آمدورفت میں استعمال ہوگا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Space-research4.jpg

’’ نیو ہورائزنز‘‘ پلوٹو کے مدار میں!:

سائنس دانوں کے مطابق ممکنہ طور پر سال رواں کا سب سے یادگار دن 14 جولائی کا ہوگا جب ’’نیوہورائزنز‘‘ نو سالہ سفر کے بعد پلوٹو کے مدار میں داخل ہوگا۔ اس خلائی جہاز نے اپنے سفر کا آغاز جنوری 2006 ء میں کیا تھا۔ اس کی تیاری اور روانگی پر ناسا نے 70 کروڑ ڈالر خرچ کیے تھے۔ فی سیکنڈ آٹھ میل کی رفتار سے سفر کرنے والا نیوہورائزنز جب مشتری کے قریب پہنچا تو سوائے ایک کمپیوٹر کے اس کے تمام آلات بند کردیے گئے تھے۔

سائنس دانوں کے اس اقدام کا مقصد خلائی جہاز کی زندگی بڑھانا تھا۔ بعدازاں وقفے وقفے سے مزید تین بار خلائی جہاز کو ’ سُلایا‘ گیا۔ آخری ’ نیند‘ سے نیوہورائزنز چھے دسمبر 2014ء کو بیدار ہوا تھا۔ نیوہورائزنز کی لانچ کے وقت پلوٹو نظام شمسی کا رُکن تھا جسے بعد میں سولر سسٹم سے خارج کرکے ’ بونے سیارے‘ کا درجہ دیا گیا تھا۔ ساڑھے نو سالہ سفر کے بعد نیو ہورائزنز پہلی بارپلوٹو کے قریب سے گزرے گا۔ یہ تاریخی لمحات ہوں گے جب کوئی خلائی جہاز نظام شمسی کے بعیدترین (سابق ) رکن کے مدار میں داخل ہوگا۔ ان لمحات میں خلائی جہاز پلوٹو کے بارے میں قیمتی معلومات زمین پر ارسال کرے گا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Space-research5.jpg

ملینیئم ڈویلپمنٹ گولزاورصنفی تفاوت کا شکار پاکستانی خواتین

$
0
0

’’با اختیار خواتین۔۔۔۔۔با اختیار انسانیت‘‘ تصور کی دہلیزسے حقیقت کا روپ دھارتا یہ سفر 1995 کو بیجنگ ڈیکلریشن کی صورت میں دنیا کی 189 حکومتوں نے شروع کیا اور آج2015 ء جیسے جیسے اپنے اختتام کی جانب رواں دواں ہے خواتین کے حقوق کے اس تاریخی ایجنڈے پر عملدرآمد کا جائزہ اقوامِ متحدہ کے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کی صورت میں اپنی منزل کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔

صنفی مساوات کے اس سفر میں دنیا نے کافی منزلیں طے کر لی ہیں اور بہت سی منازل حصول کے قریب تر ہیں جبکہ قابلِ ذکر مزید سفر کا تقاضا کر رہی ہیں۔ خواتین کے حقوق کی جدو جہد کا ماضی، حال اور مستقبل اس بار 8 مارچ کو دنیا بھر میں منائے جانے والے خواتین کے عالمی دن کی اہمیت کو دو چند کر رہا ہے۔کیونکہ ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز 2015 ء کے دوران آنے والا یہ خواتین کا آخری عالمی دن ہے اور اگلے سال یہ دن انشاء اللہ پوسٹ 2015 ء ڈویلپمنٹ ایجنڈا کے نئے سفر کی ابتداء کے ساتھ جلوہ افروز ہو گا۔ یوں اِمسال خواتین کا عالمی دن اُس تمام جدوجہد کو سلام پیش کرنے کا دن ہے جو خواتین کے حقوق کے حوالے سے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کے اہداف کے حصول کے سلسلے میں دنیا بھر نے کی اور کر رہی ہے۔

ان آٹھ ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز پر مشتمل جدوجہد کو مانپنے کے لئے 21 ٹارگٹ اور60 اشاریئے مقرر کئے گئے ہیں۔ ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کا تیسرا اور پانچواں گول اگرچہ براہ راست خواتین سے متعلق ہے لیکن اس کے باقی تمام گولز بھی دنیا کی تقریباً آدھی تعداد پر مشتمل خواتین کی عددی حیثیت اور صنفی عدم مساوات کی وجہ سے بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ پہلا گول شدیدغربت اور بھوک کے خاتمے کے حوالے سے ہے۔ اس کا تعلق خواتین کی غربت اور بھوک کا شکار آبادی میں تخفیف سے بھی ہے۔کیونکہ تر قی پذیر ممالک میں80 فیصد خوراک خواتین پیدا کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود مردوں کی نسبت بھوک کا زیادہ شکار ہیں اور زمین کی ملکیت کے حق سے بھی محروم ہیں۔

اس کے علاوہ دنیا کے کئی ایک ممالک میں خواتین کو اُن کے کام کی اُجرت کا نہ ملنا یا پھر مردوں کی نسبت کم اُجرت ملنا اور وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ زیادہ غربت کا شکار ہیں جس کا حاصل بھوک، تعلیم سے دوری، بیماری اورموت پر منتج ہوتا ہے۔ اسی طرح سب کے لئے پرائمری تعلیم پر مبنی دوسرا ملینیئم ڈویلپمنٹ گول خواتین کے لئے اس لحاظ سے اہم ہے کہ خواتین کی تعلیم اُن کے روزگار، بہتر اُجرت، اچھی خوراک، اچھی صحت اور اپنے حقوق کے شعور سے جڑی ہوئی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کی تعلیم ، بہترصحت اور فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی شرکت کو تقویت مہیا کرتی ہے۔

ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کا تیسرا گول خواتین کو با اختیار کرنے اور صنفی مساوات کے فروغ کے حوالے سے ہے۔ جبکہ چوتھا گول بچوں کی شرح اموات میں کمی سے متعلق ہے جس کا براہ راست تعلق خواتین سے بحیثیت ماں اور بچی دونوں صورتوں میں ہے اور بچوں کی اموات کا براہ راست تعلق خواتین کی صحت ان کی فلاح وبہبود اور حق سے جڑا ہوا ہے۔ پانچواں گول خواتین کی تولیدی صحت کی بہتری کے حوالے سے ہے۔ جبکہ چھٹا گول ایچ آئی وی/ ایڈز ، ملیریا اور دیگر بیماریوں کی روک تھام کے بارے میں ہے۔کیونکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین ایچ آئی وی سے متاثر ہونے کے زیادہ امکان کا شکار رہتی ہیں جس کے باعث یہ ملینیئم ڈویلپمنٹ گول بھی اُن کے لئے اہم ہے۔

اگلا ڈویلپمنٹ گول پائیدار ماحول کو یقینی بنانے کے حوالے سے ہے۔ دنیا میں خواتین کی اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی ہے جہاں اُن کی زندگی کا زیادہ تر دارومدارقدرتی وسائل پر ہوتا ہے۔ جبکہ پینے کے صاف پانی کی باآسانی عدم دستیابی کے باعث افریقی خواتین اور بچوں کو ہر سال 40 ارب گھنٹے پانی لانے کی مشقت پر خرچ کرنا پڑتے ہیںاور سینی ٹیشن کی سہولیات کی محرومی خواتین کے تقدس، حفاظت اورصحت کو متاثر کر تی ہے۔ یوں یہ گول بھی خواتین کے لئے اہم ہے۔ اور آخری ملینیئم ڈویلپمنٹ گول ترقی کے لئے عالمی پارٹنر شپ کی تشکیل کے حوالے سے ہے جس میں ترقی پذیر ممالک کو حاصل ہونے والی غیر ملکی ترقیاتی امداد خواتین کی محرومیوں کو دور کرنے اور اُن کے حقوق کے حوالے سے منصوبوں کے اجرا ء اور تکمیل کے لئے ضروری ہے۔

دنیا بھر میں ان ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کی انفرادی ملکی سطح پر صورتحال کہیں بہتر ہے تو کہیں حوصلہ افزاء اور کہیںابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں کہ مصداق ۔ پاکستان ان 8 ملینیئم ڈیولپمنٹ گولز کے حوالے سے 16 اہداف اور 41 اشاریوںکی منظوری دے چکا ہے جن کی روشنی میں ایم ڈی جیزکے آٹھ مقاصد پر ہونے والی پیشرفت کی پیمائش کی جاتی ہے۔ ان میں سے 33 انڈیکیٹرز کے حوالے سے دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی 9 انڈیکیٹرز میں اہداف کے حصول کے لئے پیش رفت درست سمت میں جاری ہے۔ جبکہ 24 اشاریوں پر اس کی پیش رفت صحیح ٹریک پر نہیں۔ اگر ہم ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کا ملکی سطح پر فرداً فرداً جائزہ لیں ۔ تو شدید غربت اور بھوک میں کمی کے گول کے قومی طور پر متعین کردہ تین اشاریوں میں سے صرف ایک پر ہماری رفتار درست ہے جبکہ باقی دو اشاریوں میں ہم آف ٹریک ہیں۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Women-protest1.jpg

اسی طرح سب کے لئے پرائمری تعلیم کے تینوں اشاریوں میں ہم درست رفتار سے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔ جبکہ خواتین کو با اختیار بنانے اور صنفی مساوات کے فروغ کے گول کے لئے ملکی سطح پر پانچ اشاریوں کا تعین کیا گیا۔ ان میں سے پہلا پرائمری سطح کے اسکولوں میں بچوں اور بچیوں کے داخلہ کی شرح میں موجود فرق کو ختم کرنا، دوسرا سیکنڈری سطح کے داخلوں میں بھی اس فرق کو ختم کرنا،تیسرا نوجوان لڑکیوں کی شرح خواندگی کو نوجوان لڑکوں کی شرح خواندگی کے برابر لانا یعنی اس فرق کو بھی دور کرنا، چوتھا زراعت کے علاوہ دیگر اُجرتی شعبوں میں خواتین کے تناسب کو بڑھانا اور پانچواں قومی اسمبلی میں خواتین کی نشستوںکے تناسب کا حصول۔ اس حوالے سے پہلے چار انڈیکیٹرز کے لئے اہداف کا تعین کیا گیا۔ لیکن ان چاروں انڈیکیٹرز کے حوالے سے ہم آف ٹریک ہیں۔

بچوں کی اموات میں کمی کے ڈویلپمنٹ گول نمبر 4 کے چھ اشاریوں میں سے ایک کو حاصل کر لیا گیا ہے۔ جبکہ باقی ماندہ پانچ میں ہم حسب روایت آف ٹریک ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولزکا پانچواں گول خواتین کی تولیدی صحت کے بارے میں ہے جس کے لئے ملکی سطح پر زچگی کے دوران خواتین کی اموات میں کمی، تربیت یافتہ طبی عملے سے زچگی کے کیسز کرانے کی شرح میں اضافہ، خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوںکے استعمال کی شرح میں اضافہ، فی شادی شدہ خاتون بچوں کی اوسط تعداد میں کمی اور حاملہ خواتین کا دورانِ حمل کم از کم ایک بار چیک اپ کی شرح میں اضافہ جیسے انڈیکیٹرز شامل ہیں۔

ان پانچ اشاریوں میں سے صرف ایک کی جانب ہمارا سفر درست سمت میں جاری ہے جبکہ باقی ماندہ چار پر ہم آف ٹریک ہیں۔ ایچ آئی وی/ ایڈز، ملیریا اور دیگر بیماریوں کے خلاف جنگ کے چھٹے گول میں پانچ انڈیکیٹرزمیں سے ایک کو حاصل کر لیا گیا ہے۔ ایک پر ہم ٹریک پر ہیں جبکہ دیگر تین پر ہم ابھی آف ٹریک ہیں۔ ساتواں گول اس حوالے سے قابلِ ذکر ہے کہ اس کے بیشتر انڈیکیٹرز پر ہمارا سفر درست سمت میں جاری ہے۔ دیر پا ماحول کو یقینی بنانے کے اس ہدف کے لئے 7 انڈیکیٹرز کا تعین کیا گیا ہے جس میں سے چار انڈیکیٹرز مثبت پیش رفت کی نشاندہی کر رہے ہیں جبکہ تین پر ہم آف ٹریک ہیں۔

پاکستان کی وزارت ِ منصوبہ بندی ، ترقیات و اصلاحات کی پاکستان ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز 2013 ء رپورٹ کا یہ منظر نامہ 1990-91 سے 2011-12 تک ملک کے ترقی کے اُس سفر کی عکاسی کرتا ہے جو اُس نے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کے سلسلے میںمختلف شعبہ جات میں کی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ رپورٹ اس امر کو بھی پیش کر رہی ہے کہ ابھی منزل دور ہے اور راستہ کٹھن ۔ کیونکہ اکثر ڈی ایم جیز کے ملکی اہداف کے حصول میں ہماری کارکردگی حوصلہ افزا نہیں اور بیشتر کا حصول موجودہ رفتار کے ساتھ ممکن نہیں۔

اگر ہم پاکستان ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز رپورٹ 2013 ء میں موجود انڈیکیٹرز کی پاکستان سوشل اینڈ لیوننگ اسٹینڈرڈز میئرمنٹ سروے 2012-13 ، یونیسیف کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرنز 2015، پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے2012-13 اورا نٹر پارلیمینٹری یونین کے دستیاب اعدادوشمارسے اپ ڈیٹ صورتحال مرتب کریں تو خواتین کو بااختیار کرنے اور صنفی مساوات کے فروغ اور خواتین کی تولیدی صحت کے ترقیاتی اہداف کے لئے متعین کردہ انڈیکیٹرز کی پیش رفت کی جو صورتحال سامنے آتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ بچوں کے مقابلے میں بچیوں کے پرائمری سکول میں داخلہ کا انڈکس اعشاریہ 89 تک آچکا ہے جو 1990-91 میں اعشاریہ 73 تھا اسے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کے تحت ایک تک پہنچانا ہے۔

اسی طرح سیکنڈری سطح پر داخلوں کے انڈکس کو اعشاریہ 94 تک لانا ہے جو کہ اعشاریہ 89 پر ہے جبکہ نوجوان لڑکوں کے مقابلے میں نوجوان لڑکیوں کی خواندگی کے انڈکس کو ایک تک لانے کا ہدف مقرر ہے جو ابھی عشاریہ 82 ہے اور 1990-91 میں یہ عشاریہ 51 ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ خواتین کے اُجرتی روزگار کا تناسب 1990-91 میں 8.07 فیصد سے بڑھ کر 10.45 فیصد ہو چکا ہے اور اس کا ہدف 14 فیصد مقرر ہے۔ اسی طرح پاکستان کی قومی اسمبلی میں خواتین کی نشستوں کا تناسب 20.7 فیصد ہے۔ اس حوالے سے کوئی ہدف تو مقرر نہیں کیا گیا ہے لیکن بین الاقوامی طور پر اسے 30 فیصد تک کرنے کی بات کی جاتی ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Women-protest.jpg

پاکستان کی خواتین کی تولیدی صحت کے شعبے میں کارکردگی اگرچہ اہداف کے حصول کے حوالے سے مشکل ہی کامیابی سے ہمکنار ہو لیکن انڈیکیٹرزمیں واضح بہتری کی ضرور نشاندہی کر رہی ہے۔ ملک میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی شرح جو1990-91 میں 533 اموات فی لاکھ کیسز تھی کم ہوکر آدھی تعداد یعنی 250 کیسز تک آچکی ہے۔ اور اسے مزید کم کر کے 140 کے ہدف تک لانا ہے۔ اس حوالے سے ہماری کارکردگی حوصلہ افزا ہے۔ اس کے علاوہ تربیت یافتہ طبی عملے سے زچگی کے کیسز کی شرح 18 فیصد سے بڑھ کر 52 فیصد تک آچکی ہے۔ جسے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولزکے تحت 90 فیصد سے زائد کرنا ہے۔

خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے استعمال کی شرح 12 فیصد کے بینچ مارک سے 35 فیصد ہو چکی ہے۔ اور اسے مزید بڑھاتے ہوئے 55 فیصد کرنا ہے۔ ملک میں فی شادی شدہ خاتون بچوں کی اوسط تعداد 5.4 سے کم ہوکر3.2 پر آچکی ہے اور اس کے لئے 2.1 کا ٹارگٹ طے کیا گیا ہے ۔ اسی طرح دوران حمل خواتین کے کم ازکم ایک بار تربیت یافتہ عملے سے چیک اپ کی شرح 15 فیصدسے بڑھ کر 73 فیصد ہو چکی ہے جسے 100 فیصد کے ہدف تک پہچانا ہے۔

ملک میں صنفی مساوات کی بہتری کا سفر جاری ہے اگرچہ اس کی رفتارمطلوبہ رفتار سے مطابقت نہیں رکھتی۔ لیکن اس جدوجہد کی بدولت بہت سے شعبوں میں صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہے۔ اور چند ایک ایسے امور میں بھی خواتین کی شرکت سامنے آرہی ہے جہاں ماضی میں کوئی ان کا پُر سانِ حال نہیں تھا۔ ان میں سے ایک فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی شمولیت ہے۔ ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا میں خواتین کی آج موجودگی قومی سطح کے فیصلوں میںان کی شرکت کو یقینی بنا رہی ہے تو گھر کی سطح پر فیصلوں میں خواتین کی شرکت آج ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے جامع حقائق پیش کرتا ہے۔

سروے کے مطابق ملک میں 15سے 49 سال کی عمر کی شادی شدہ خواتین کا 11.1 فیصد اپنی صحت کی دیکھ بھال کے حوالے سے ذاتی طور پر فیصلہ کرنے کی مجاز ہیں۔ جبکہ 40.8 فیصد اپنے شوہر سے باہمی مشاورت کی صورت میں مل کر کوئی بھی فیصلہ کرتی ہیں۔ اسی طرح گھر داری کے لئے مختلف اشیاء کی خریداری کے اُمور کے حوالے سے 7.8 فیصد ذاتی حیثیت میں فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ جبکہ 39.2 فیصدکوئی بھی فیصلہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر کرتی ہیں۔ علاوہ ازیںرشتہ داروں کے یہاں جانے کے حوالے سے 8.7 فیصدشادی شدہ خواتین اپنے فیصلوںمیں آزاد ہیں جبکہ 41.2 فیصد یہ فیصلہ وہ اور اُن کے شریک حیات مل کر کرتے ہیں۔ یعنی ملک میں آج خواتین کی محدود تعداد اپنے فیصلوں میں خود مختارہے۔ تو اکثریت باہمی مشاورت کے عمل کا حصہ بن رہی ہیں یعنی فیصلہ سازی کے عمل میں وہ بھی شریک ہیں۔

اس کے علاوہ خواتین آج اپنی آمدن کے استعمال کرنے کے حوالے سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ خود مختار اور شریکِ فیصلہ ہیں۔ پی ڈی ایچ سی2012-13 کے مطابق ملک میں 15 سے 49 سال کی شادی شدہ خواتین میں برسرروزگارخواتین کا 51.7 فیصد ذاتی حیثیت میں اپنی آمدن کو خرچ کر نے کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ جبکہ 35 فیصد یہ فیصلہ شوہر کی باہمی مشاورت سے کرتی ہیں ۔ خواتین کا جائیداد کی ملکیتی اختیار بھی ان کے حقوق میں سے ایک اہم حق ہے۔ جسے اکثر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ اگر چہ اس حوالے سے سروے کے اعدادوشماراتنے حوصلہ افزاء نہیں لیکن یہ بارش کا پہلا قطرہ ضرور ہیں ۔ ملک کی 2 فیصد شادی شدہ خواتین گھروں کی اور2 فیصد ہی زمینوں کی ملکیت رکھتی ہیں۔

صنفی حقوق میں ماضی کے مقابلے میں آنے والی تمام تربہتری کے باوجود ملک میں خواتین اور مردوں کے درمیان حقوق کی فراہمی کے حوالے سے ایک وسیع خلیج موجود ہے۔ جس کی وجہ سے ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2014 ء کے مطابق پاکستان دنیا کے 142ممالک میں سے 141 ویں نمبر پر ہے۔ جہاں صحت ، تعلیم ، معیشت اور سیاست میں صنفی تفاوت کی وسیع خلیج موجود ہے جسے کم کرتے ہوئے ختم کرنا اقوامِ متحدہ کے پوسٹ 2015 ڈویلپمنٹ ایجنڈا میں پاکستان کے لئے یقینا ایک مشکل چیلنج ہوگا۔

دیر آید درست آید، جرائم کی سنگینی مان لی گئی۔۔۔

$
0
0

ریاستیں اپنے شہریوں کے جان ومال کے تحفظ اور بہبود کے لیے مختلف قوانین وضع کرتی ہیں۔۔۔ پھر جب اس میں کوئی سقم سامنے آئے، تو اس میں ترامیم کر لی جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ دنیا بھر میں جاری رہتا ہے۔ کسی بھی قانون کو حرف آخر نہیں سمجھا جاتا۔

ریاستوں کے آئین میں بھی ترامیم کا راستہ کھلا رکھا جاتا ہے، کیوں کہ بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے یہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔ پھرعدالتوں میں جب ان قوانین کے تحت شنوائی ہوتی ہے، تو اس کے پوشیدہ اور کمزور پہلو سامنے آتے رہتے ہیں۔ جسے منتخب ایوان ترامیم کے ذریعے دور کر لیتا ہے، مگر اُس وقت شدید حیرت ہوتی ہے، جب واضح جرائم سے متعلق کچھ ایسی ترامیم کی بازگشت سنائی دیتی ہے، کہ حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے قوانین ابھی تک ان معاملات سے پہلو تہی کیے ہوئے تھے۔

یکم مارچ کو ایوان بالا (سینیٹ) میں غیرت کے نام پر قتل، زیر حراست تشدد اور عصمت دری کو سنگین جرم قرار دیتے ہوئے، خواتین کو ہراساں کرنے کو بھی تشدد میں شامل کر لیا گیا ہے۔

ایوان نے غیرت کے نام پر قتل، زیر حراست تشدد، عصمت دری اور گواہی کے قوانین میں ترامیم اتفاق رائے سے منظور دی۔ غیرت کے نام پر قتل کے ضابطہ فوج داری 1998ء اور قانون شہادت آرڈر 1984ء میں ترمیم کے بل سنیٹیر صغریٰ امام نے، جب کہ زیر حراست تشدد، زیر حراست ہلاکت اور عصمت دری کے عوامل کی روک تھام کا بل فرحت اللہ بابر نے پیش کیا۔ زیر حراست ہلاکت وعصمت دری پر 30 لاکھ روپے جرمانے اور عمر قید، زیر حراست تشدد پر پانچ سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی تجویز دی گئی ہے، ساتھ ہی تشدد کے ذریعے حاصل بیان کو بطور شہادت قبول نہ کرنے کے ساتھ کسی بھی ہنگامی حالت میں ان بلوں پر عمل درآمد سے احتراز نہ کیے جانے کی استدعا کی گئی ہے۔ یہ جرائم ناقابل ضمانت ہوں گے۔ کسی ملزم سے معلومات کے لیے کسی خاتون کو ایک خاتون ہی حراست میں لے سکے گی۔ تحقیقات 14 روز میں مکمل کی جائیں گی، اپیل کی میعاد 10 روز ہو گی، جس پر 30یوم کے اندر فیصلہ کیا جائے گا۔

’’دیر آید، درست آید‘‘ کے مصداق تو ان قوانین کا خیر مقدم کرنا چاہیے، لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ریاست اپنی عمر کے 68 ویں برس میں پہنچ چکی ہے، ہم نے اب تک ان جرائم کو سنگین ہی نہ سمجھا تھا۔ یہاں تک کہ ہم آج یہ طے کر رہے ہیں کہ ایک عورت کو عورت ہی حراست میں لے اور تشدد کے ذریعے لیا جانے والا بیان قبول نہ کیا جائے! ساتھ ہی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل، عصمت دری اور زیر حراست تشدد کی سنگینی ہم پر اب جا کر منکشف ہوئی ہے۔ بہرحال شہریوں بالخصوص خواتین کے تحفظ اور امان کی خاطر یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔

ہم جس معاشرے کے باسی ہیں، وہاں کے رکھ رکھاؤ اور ماحول کی مناسبت سے تو اس امر کے علاوہ کوئی گنجائش ہی نہ تھی کہ خواتین کے لیے خواتین پولیس رکھی جائے، سو یہ شعبہ ہماری پولیس میں ایک عرصے سے قائم ہے، تاکہ کبھی کسی خاتون سے کسی قسم کی کوئی تفتیش مطلوب ہو تو یہ کام خواتین پولیس اور خواتین اہلکار ہی انجام دے سکیں۔ جس طرح مرد مختلف غیر قانونی امور میں ملوث پائے جاتے ہیں، ایسے ہی بہت سی خواتین بھی ان کا ارتکاب کر بیٹھتی ہیں، شرح اگرچہ مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے، لیکن بہرحال یہ معاملات موجود ہیں۔

یہ کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے، نیکی اور بدی کی قوتیں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں اور سماج میں مرد اور عورت ہی ایسی قوتوں کے آلۂ کار بنتے ہیں۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ کسی خاتون نے کوئی جرم کیا ہو، تب ہی اسے حراست میں لیا جائے۔ بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں، جس میں اسے جرم سے متعلق اہم معلومات ہوتی ہیں، یا اس پر جرم میںملوث ہونے کے شبہات ہوتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہوتا ہے کہ اسے باقاعدہ شامل تفتیش کیا جائے اور قانون کے مطابق پوچھ گچھ بھی کی جائے۔ پہلے قانونی طور پر یہ روک نہیں تھی کہ کسی خاتون کو خاتون ہی گرفتار کر سکتی ہے، تاہم اب یہ قدغن لگا دی گئی ہے کہ کوئی مرد اہلکار کسی صورت عورت کو حراست میں نہیں لے سکتا۔ یہ ایک بہت اہم ترمیم ہے۔ اس سے یقیناً ایک طرف قانون کی عمل داری میں اضافہ ہو گا، تو دوسری طرف شہری حقوق کی پاس داری بھی ممکن ہوگی۔

ہمارے معاشرے کی عام خاتون کے لیے یہ تصور بھی محال ہے کہ اسے کسی بھی وجہ سے خدانخواستہ مرد پولیس حراست میں لے کر جائے۔ اگرچہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، اکثر وبیش تر خواتین ملزماؤں سے خواتین اہلکار ہی نبرد آزما ہوتی ہیں۔ تاہم قانون میں سقم ہونے کی بنا پر ایسے واقعات کا امکان موجود تھا، لیکن حالیہ ترمیم کے بعد اب ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے گی۔ جب خواتین کو خواتین اہلکار ہی حراست میں لیں گی، تو زیر حراست ہراساں کیے جانے جیسے سنگین واقعات کا بھی تدارک ہو گا۔

غیرت کے نام پر قتل اور عصمت دری جیسے جرائم تو روز اول سے ہی سنگین ترین تھے، اگرچہ ایوان بالا نے انہیں اب اس زمرے میں شامل کیا ہے۔ اسی طرح تشدد کے ذریعے کسی سے کوئی بات کہلوانا بھی مہذب معاشروں کا برتاؤ کسی طور پر نہیں ہے۔ ہمارے ہاں من چاہے بیان دلوانے کے لیے شدید تشدد جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اب اس کی روک تھام کے لیے بھی توجہ کی جا رہی ہے، جو خوش آئند ہے۔ اپنے شہریوں کا تحفظ تو ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے بلکہ ریاست کے وجود اور بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ ہر نظریہ ریاست میں اس حوالے سے دو رائے موجود نہیں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاستی سطح پر تمام شہریوں بالخصوص صنف نازک، بچوں، کمزوروں اور غریب طبقات کے حقوق کا بھرپور طریقے سے تحفظ کیا جائے۔

Viewing all 4713 articles
Browse latest View live