Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

ہم جان پہ کھیل کے پڑھتے ہیں

$
0
0

یونیسکو کے مطابق اس وقت دنیا میں لگ بھگ 57ملین بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ دوسری جانب دنیا میں سیکڑوں بچے ایسے بھی ہیں جو بہت دور افتادہ اور دشوار گزار مقامات پر رہتے ہیں۔

ان کے علاقے میں آس پاس اسکول بھی نہیں ہیں، مگر تعلیم حاصل کرنے کا شوق انہیں مشکل ترین سفر کرنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ کسی بھی طرح اسکول پہنچ جاتے ہیں۔ وہ ہر روز ناقابل یقین انداز سے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر اسکول جاتے اور وہاں سے واپس گھر آتے ہیں۔ یہاں ہم تعلیم حاصل کرنے کے چند ایسے ہی شوقین بچوں کے بارے میں بتارہے ہیں، جن کا تعلق دنیا کے مختلف ملکوں سے ہے۔

بھارتی ریاست میگھالیہ کے بچے:

میگھالیہ انڈیا کی وہ ریاست ہے جہاں Mawsynramنامی گائوں واقع ہے۔ یہ دنیا کا وہ حیرت انگیز مقام ہے جہاں سب سے زیادہ یعنی 467 انچ سالانہ بارش ہوتی ہے۔ یہاں کھیتوں میں کام کرنے والے کسان اور مزدور کیلے اور بانس کے پتوں سے تیار کردہ ایسی برساتیاں پہنتے ہیں جو ان کے پورے جسم کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو ربر کے درختوں کی جڑوں سے قدرتی پل اگانے کی تربیت دی گئی ہے۔

ایسے پلوں کو ’’زندہ پل‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ لکڑی کے پلوں سے زیادہ پائے دار ہوتے ہیں۔ ان کے نیچے سے پانی طوفانی ریلوں کی صورت میں گزرتا ہے اور ان پلوں سے روزانہ اسکول کے بچے گزرتے ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں نے درختوں کی جڑوں سے ’’زندہ سیڑھیاں‘‘ بھی بنالی ہیں جنہیں حسب ضرورت موڑا بھی جاسکتا ہے۔ ان سیڑھیوں کے ذریعے گائوں والے پہاڑیوں سے نیچے اتر سکتے ہیں۔ اس طرح Mawsynram کے طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرنے کے لیے روزانہ ایسے ہی زندہ پلوں اور زندہ سیڑھیوں سے گزرتے ہیں، مگر تعلیم کے حصول سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹتے۔

گولو، چین کے بچے:

چین میں گولو نام کا ایک پہاڑی گائوں دریائے دادو کی وادی کے عین اوپر واقع ہے۔ اس گائوں کے بچے پڑھنے کے بہت شوقین ہیں اور اسکول جانے کے لیے روزانہ معلق پہاڑی چھجوں کے آڑے ترچھے اور خطرناک راستوں سے گزرتے ہیں۔ اس گائوں میں بچوں کے لیے بنائے گئے ایلیمینٹری اسکول کی بہت اچھی عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ اسکول کے سامنے خالی جگہ پر باسکٹ بال کورٹ بھی بنایا گیا ہے، جہاں اسکول کے بچے باسکٹ بال نیٹ کے بغیر کھیلتے ہیں، مگر وہ گیند کو ہٹ نہیں کرتے، کیوں کہ اس صورت میں گیند لڑھکتی ہوئی پہاڑوں سے نیچے جاسکتی ہے جو انہیں پھر کبھی نہیں ملے گی۔

زانسکر، کوہ ہمالیہ کے بچے:

تعلیم حاصل کرنے اور اسکول جانے کے شوقین یہ بچے ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع زانسکر نامی گائوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بچے بھی اسکول جانے کے لیے بڑا خطرناک سفر طے کرتے ہیں۔ ان کی راہ میں بعض اوقات برف کی پتلی پرتیں بھی آجاتی ہیں جو اگر ٹوٹ جائیں تو یہ بچے ان میں گرسکتے ہیں، جہاں سرد اور یخ بستہ پانی ان کی حالت خراب کرسکتا ہے، یہاں تک کہ ان کی جان بھی لے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ برفانی میدان سخت بھی ہوتے ہیں اور پھسلواں بھی اور بعض اوقات ان میں جگہ جگہ شگاف اور جھریاں بھی نمودار ہوجاتی ہیں جو نظر نہیں آتیں۔ اگر ان میں پھنس کر کوئی گرجائے تو خوف ناک گھاؤ لگ سکتے ہیں۔ لیکن زنسکار کے بہادر اور تعلیم حاصل کرنے کے شوقین بچے کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتے، وہ ہر صورت اسکول جانا چاہتے ہیں اور جارہے ہیں۔

لیبک، انڈونیشیا کے بچے:

انڈونیشیا میں  Sanghiang Tanjung نامی ایک گائوں ہے جو دریائے Ciberang کے دوسری طرف واقع ہے۔ اس گائوں کے بچوں کو اسکول جانے کے لیے روزانہ ایک ٹوٹا ہوا معلق پل عبور کرنا پڑتا ہے۔ ان کا اسکول پل کے دوسری طرف کے علاقے میں ہے۔ حالاں کہ ان کے لیے ایک متبادل پل موجود ہے، مگر اس سے سفر کرنے کے لیے انہیں لگ بھگ آدھا گھنٹہ زیادہ لگے گا۔ اس لیے یہ بچے پرانے پل ہی سے آنا جانا کرتے ہیں جہاں ان کی حفاظت و سلامتی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔

اس خطرناک معلق پل کر عبور کرنے کے لیے بچوں کو بہت آہستہ چلنا ہوتا ہے۔ جب کبھی ان کے جوتے اس پر پھسلتے ہیں تو ان کے منہ سے چیخیں نکل جاتی ہیں۔ جب ان بہادر بچوں کے اس خطرناک سفر کی کہانی منظر عام پر آئی تو پورے انڈونیشیا میں دھوم مچ گئی۔ اس ملک میں PT Krakatau Steel نامی فولاد تیار کرنے والا ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے، جس نے کچھ این جی اوز کو ساتھ ملاکر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قدم اٹھایا اور ان بچوں کے لیے ایک نیا پل تعمیر کرایا۔

Zhang Jiawan (جنوبی چین) کے بچے:

جنوبی چین کے Zhang Jiawan نامی اس گائوں کے بچوں کو اسکول جانے کے لیے لکڑی کی ایسی تنگ اور چھوٹی سیڑھیاں استعمال کرنی پڑتی ہیں جو بالکل غیرمحفوظ ہیں۔ ان پر چڑھتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر خوف محسوس ہوتا ہے، مگر یہ بچے بلاخوف وخطر روزانہ ان سیڑھیوں پر چڑھتے اور اترتے ہیں اور روزانہ ہی یہ خطرہ خوشی سے مول لیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سیڑھیوں پر کسی بھی طرح کے حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے۔Zhang Jiawan نامی یہ دور افتادہ پہاڑی گائوں بیڈاگونگ پہاڑوں میں واقع ہے جو زیادہ تر عمودی بھی ہیں اور پھسلواں بھی۔

اسکول جانے کا ایک دوسرا راستہ بھی ہے، مگر اس کے ذریعے سفر کرنے میں پورے چار گھنٹے زیادہ لگیں گے اور اسکول جانے کے شوقین یہ بچے اپنا وقت ضائع کرنا پسند نہیں کرتے، وہ تو اپنے وقت کے ایک ایک منٹ کو کام میں لانا چاہتے ہیں اور پڑھنا چاہتے ہیں۔

ان بچوں کے والدین اپنے بچوں کی سلامتی کے لیے ہر وقت فکرمند رہتے ہیں، مگر وہ اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم نہیں دیکھ سکتے، اس لیے بے بسی سے روزانہ اپنے بچوں کو یہ خطرات مول لیتے دیکھتے ہیں۔ کیا خوف ناک سیڑھیوں کا یہ سفر ان کے بچوں کو تعلیم کی دولت سے مالا مال کرے گا؟ یہ سوال انہیں ہمہ وقت پریشان کرتا رہتا ہے۔ مگر انہیں امید ہے کہ ان کے بچوں کی محنت ضرور رنگ لائے گی اور وہ بچے ایک دن تعلیم کی دولت سے مالا مال ہوں گے۔

کولمبیا کی ڈیزی:

اس بہادر اور بے خوف بچی کا تعلق کولمبیا سے ہے جو ایک فولادی رسے (کیبل وائر) پر لٹک کر ہر روز دریائے ریونیگرو عبور کرکے اسکول جاتی ہے۔ یہاں فولادی رسوں کی مدد سے وادی کے ایک گوشے کو دوسرے گوشے سے ملایا گیا ہے۔ یہ جگہ دارالحکومت بگوٹا کے جنوب مشرق میں چالیس میل دور بارانی جنگل میں واقع ہے جہاں محض چند خاندان رہتے ہیں۔ یہ معلق فولادی رسے ایک بپھرے ہوئے دریا سے 400میٹر کی بلندی پر لگائے گئے ہیں۔

اس دریا کی لمبائی کم و بیش 800میٹر ہے۔ اس مضمون کے ساتھ جو تصویر دی جارہی ہے، اس میں ڈیزی مورا اپنے چھوٹے بھائی جمید کے ساتھ یہ سفر کررہی ہے۔ اس کا چھوٹا بھائی صرف پانچ سال کا ہے اور اس کے ساتھ ایک بوری میں لٹکا ہوا ہے۔ ڈیزی اس فولادی رسے پر ایک زپر کی مدد سے سفر کرتی ہے جو رسے پر لگائی گئی پلی سے منسلک ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک برانچ نظر آرہی ہے جو ایک پرانے طرز کے بریک کے طور پر کام کرتی ہے۔ دیکھنے میں یہ کوئی جادوئی کہانی لگ رہی ہے، مگر یہ سب سچ ہے اور ڈیزی روزانہ اسی طرح رسے پر لٹک کر اسکول جاتی ہے۔ شاباش ڈیزی!

Cilangkap انڈونیشیا کے بچے:

جب سے دریائے  Ciherangپر بنا ہوا پل ٹوٹا ہے، اس وقت سے اس علاقے کے بچے اسکول جانے کے لیے اس دریا کو بانس سے بنائے گئے عارضی تختوں کے کے ذریعے عبور کررہے ہیں۔ وہ روز اسکول جانے کے لیے خود کو خطرے میں ڈالتے ہیں، لیکن تعلیم حاصل کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔

ارباب اختیار کا فرض تھا کہ وہ یا تو ٹوٹنے والے پل کی مرمت کراتے یا اس کی جگہ نیا پل تعمیر کراتے، مگر جب کسی نے کچھ نہیں کیا تو ان بچوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہ انتظام کیا، مگر اپنی تعلیم کے حصول میں کوئی وقفہ نہیں آنے دیا۔ اصل میں یہ پل 2013کے شروع میں سیلاب کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا۔ اس وقت سے یہ بچے اس خطرناک انداز سے اسکول جارہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ جگہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتی ہے اور وہ یہاں کے سفید دودھ جیسے جھاگ اڑاتے پانی کو دیکھنے بڑے شوق سے اس ملک میں آتے ہیں۔

چین کے گاؤں pili کے بچے:

چین میں piliنام کا ایک دور افتادہ گائوں ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب بھی اس کے بچوں کا تعلیمی سال شروع ہوتا ہے تو اسکول کے عہدے داران اس انتہائی دور افتادہ گائوں کے80 بچوں کو اسکول لے جانے کے لیے خود آتے ہیں اور 125طویل خطرناک سفر طے کرکے بورڈنگ اسکول پہنچاتے ہیں۔ ان کا یہ سفر دور افتادہ خود مختار علاقے Xinjiang Uighurسے گزرتا ہے۔ دوران سفر بعض راستے تو ایسے آتے ہیں جو ڈھلوانی پہاڑوں کی تنگ درزوں میں تراشے گئے ہیں، ان میں سے بعض راستے صرف چند انچ چوڑے ہوتے ہیں۔

اس خطرناک سفر کو طے کرتے ہوئے انہیں بورڈنگ اسکول تک پہنچنے میں پورے دو دن لگ جاتے ہیں۔ اس دوران انہیں چار منجمد دریا عبور کرنے پڑتے ہیں، ایک 650فٹ طویل آہنی زنجیروں سے بنائے گئے پل کو عبور کرنا ہوتا ہے اور چار ایسے خوف ناک پل پار کرنے پڑتے ہیں جو درخت کے واحد لٹھے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اور یہ سب خطرناک کام یہ بچے خود کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ ہے نا قابل فخر بات؟

سماترا (انڈونیشیا) کے بچے:

سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنا خطرناک سفر کرنے کی ہمت ان بچوں میں کہاں سے آتی ہے؟ یہ سوال اس وقت ذہن میں اٹھتا ہے جب ہم مضبوط ارادے کے مالک ان بچوں کی اس تصویر کو دیکھتے ہیں جو ایک تنی ہوئی فولادی رسی (اسٹیل کیبل) پر آہستہ آہستہ چلتے ہیں۔ یہ رسی دریا کے اوپر باندھی گئی ہے جس کی اونچائی تیس فٹ ہے۔ اس سفر کے بعد یہ بچے سات میل دور جنگل سے گزر کر اپنے اسکول پہنچتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ اسکول Padangنامی قصبے میں واقع ہے۔

تعلیم کے شوقین ان بیس بہادر بچوں کا تعلق Batu Busukنامی گائوں سے ہے۔ یہ بچے جس انداز سے اس تنی ہوئی فولادی رسی (اسٹیل کیبل) پر اپنا توازن برقرار رکھتے ہیں، وہ حیران کن ہے۔ پہلے اس دریا پر ایک پل بنا ہوا تھا، مگر موسلادھار بارشوں اور طوفان نے اسے تباہ کردیا تھا جس کے بعد ان بچوں کو اپنے اسکول جانے کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنا پڑا۔ اپنے اسکول وقت پر پہنچنے کی کوشش میں کئی بار بچے یہاں زخمی بھی ہوئے اور بعض تو پانی میں ڈوب کر دنیا سے رخصت بھی ہوگئے۔

جو بچے یہاں سے گزرتے ہوئے ڈرتے تھے، انہیں ان کے والدین نے اسکول پہنچانے کی ذمے داری قبول کی، لیکن اب بھی بہت سے بچے یہاں آتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں، وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں دریا کا طوفانی پانی انہیں پل سے گزرنے کی کوشش میں بہاکر نہ لے جائے۔ ایسے بچوں کو بھی ان کے والدین سنبھالتے ہیں اور اسکول تک پہنچاتے ہیں، مگر انہیں یہ ہرگز گوارہ نہیں کہ ان کے بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جائیں۔ اس قصبے میں مناسب سڑکیں نہیں ہیں، اسی لیے ان بچوں کو یہ خطرناک راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے اور ہر روز ہی بہت سے بچوں کو اپنی جانوں کا نذرانہ بھی دینا پڑجاتا ہے۔


بیٹا سراپا ہمت، ماں داستانِ عظمت

$
0
0

گذشتہ دنوں شایع اور نشر ہونے والی ایک خبر نے ہر ایک کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ خبر یہ تھی کہ جی سی یونی ورسٹی، فیصل آباد کے کانووکیشن میں ایم بی اے میں پہلی پوزیشن اور گولڈمیڈل حاصل کرنے والے طالبعلم عرفان حسن نے اپنے والدین کے قدموں میں گرکر ان کے پیر چوم لیے۔

ہر عزم وحوصلے کو ریزہ ریزہ کردینے والی خوف ناک غربت سے لڑکر حالات کے سفاک پنجوں سے کام یابی چھیننے والے عرفان کی ہمت کی کہانی دراصل اس کے والدین خاص طور پر ماں کی عظمت کی داستان ہے۔ یہ کہانی پڑھ کر کس کا دل نہ چاہے گا کہ اس بیٹے کی روشن پیشانی اور ماں کے پاؤں عقیدت سے چوم لے۔

پنجاب کے خطہ ساندل بار کی ایک گرم دوپہر تھی، 29 ستمبر کا دن، جی سی (گورنمنٹ کالج) یونیورسٹی فیصل آباد کا 5 واں کانووکیشن جاری تھا، جس میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے۔ کام یاب طلبہ وطالبات ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے گاؤن اور کیپ پہنے پنڈال سے نکل رہے تھے۔ اچانک ایک نوجوان باہر آتا ہے اور والہانہ محبت کے ساتھ اپنے والدین کے پاؤں چومنے لگتا ہے۔ تمام ٹی وی چینلز کے کیمروں کا رخ اس کی طرف ہوگیا اور پوری قوم نے یہ منظر دیکھا۔

یہ نوجوان جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کا طالب علم عرفان حسن تھا، جس نے ایم بی اے میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور یونیورسٹی کے کانووکیشن میں گولڈمیڈل ملنے کے بعد جذباتی انداز میں اپنے والدین کے قدموں میں گر گیا۔

اس نوجوان کا تعلق پنجاب کے پس ماندہ ضلع ننکانہ صاحب کے ایک دورافتادہ گاؤں کالونی شوکت آباد سے ہے، جو ضلع قصور کے ساتھ لگنے والی سرحد کے ساتھ ہیڈ بلو کی سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ عرفان کا اپنے چھے بہن بھائیوں میں پانچواں نمبر ہے۔ ایک بھائی حافظ عمران حسن گاؤں کے قریب ہی ہیڈ بلو کی مسجد میں امامت کرتے ہیں، دوسرا بھائی ٹی وی مکینک ہے۔ دونوں بڑے بھائی شادی شدہ ہیں۔ ان کے علاوہ دو بڑی بہنیں رخسانہ کوثر اور رضوانہ کوثر ہیں۔ دونوں شادی شدہ ہیں۔ ایک بھائی رضوان عزیز، عرفان سے چھوٹا ہے جو لاہور میں آئی کام کررہا ہے۔ وہ آئی کام کے بعد بی کام میں داخلہ لینا چاہتا ہے۔ عرفان کے والد عبدالعزیزمزدور ہیں، جو آس پاس کے دیہات میں جہاں کام مل جائے جاکر راج گیری کا کام کرتے ہیں۔ والدہ امیراں بی بی گھریلو خاتون ہیں۔ تین چچا بھی محنت مزدوری کرتے ہیں۔

عرفان حسن نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے ایک اسکول سے مکمل کی۔ وہ کہتے ہیں کہ پرائمری میں ڈاکٹر علی نے مجھے کافی سپورٹ کیا۔ ابتدائی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی گاؤں کے مدرسے سے حاصل کی۔ میرے خاندان خصوصاً والدہ کو نعتیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ میں نے موڑکھنڈا ہائر سیکنڈری اسکول سے میٹرک کیا۔ اسکول گاؤں سے 10 کلومیٹر دور تھا، بسوں میں لٹک کر اسکول جانا پڑتا تھا۔ دو کلو میٹر روزانہ پیدل بھی چلتا تھا، کئی بار لیٹ ہونے کی وجہ سے اسکول کے اندر جانے کی اجازت نہ ملتی۔

میٹرک میں اکرم کرمانی نے میری کافی مدد کی۔ والد کی دیہاڑی سے تو گھریلو اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے تھے۔ والدہ کو کپڑوں کی سلائی سے خرچہ پورا کرنا پڑتا تھا۔ میٹرک سے ہی مالی مشکلات شروع ہوگئی تھیں۔ میں نے کئی بار دل برداشتہ ہوکر سوچا کہ تعلیم چھوڑدوں، مالی حالات کے باعث میٹرک کے پیپر نہ دینے کا بھی سوچا لیکن قدم قدم پر میری والدہ میری ہمت بندھاتی رہیں اور زبردستی میٹرک کے پیپر دلوائے۔ میٹرک کے بعد فیکٹری میں کام کیا، سیلزمین کا کام کرتا رہا۔ سائیکل پر بسکٹ فروخت کیے۔ تمام دن مزدوری کرنے سے 30 روپے بچتے تھے۔

جوتیوں کی فیکٹری میں ملازمت کی، وہاں 100 روپے دیہاڑی ملتی تھی۔ ایک وقت کا کھانا چھوڑ کر گزارا کرتا رہا۔ بہت کم زور ہوگیا تو گھروالوں نے کام سے روکنا شروع کردیا۔ کچھ دنوں بعد ضد کرکے کام پر واپس گیا تو فیکٹری والوں نے جواب دے دیا۔ پھر پھول نگر میں ایک دوسری فیکٹری میں کام کیا۔ اوورٹائم کے ساتھ 96 روپے دیہاڑی ملتی تھی۔ میٹرک میں سیکنڈ ڈویژن تھی۔ اوکاڑہ جاکر کالج میں داخلہ لیا۔ انٹر میں سیکنڈ ڈویژن آئی۔ تھرڈ ایئر میں کہیں داخلہ نہ ملا۔ مالی مشکلات کے باعث تعلیم کا ایک سال ضائع ہوگیا۔ ایک موبائل شاپ پر3500 روپے ماہانہ پر جاب شروع کردی۔

میرے حالات دیکھ کر والدین پریشان رہتے تھے۔ انہوں نے پھر مجھے تعلیم کی طرف موڑا۔ والدہ نے رقم ادھار لی، ادھار کپڑا پکڑا، سلائی کے ساتھ گھر سے 10 کلومیٹر دور تک کے علاقے میں جاکر کپڑا فروخت کرنے کا کام بھی شروع کردیا۔ یہ ہماری خاندانی روایات کے خلاف تھا۔ سپریئرکالج میں بی کام میں داخلہ لیا تو ایک ٹیچر نے میری محنت دیکھ کر کہا تم ٹاپ کرسکتے ہو۔ بی کام کے دوران 16 گھنٹے پڑھتا تھا۔66 فی صد نمبروں کے ساتھ فرسٹ ڈویژن آئی۔

بی کام کرنے کے بعد جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں ایم بی اے فنانس ایوننگ کی کلاسوں میں داخلہ لیا۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ صبح کی کلاسوں میں داخلہ مل جائے گا، لیکن میرٹ لسٹ لگی تو صبح کی کلاسوں میں بھی میرا نام میرٹ آگیا۔ چوں کہ میں نے پراسپیکٹس ہی شام کا لیا تھا، فارم بھی اسی کے لیے جمع کروائے تھے، اس لیے شام کی کلاسوں میں ہی پڑھنا شروع کردیا۔ اپنی پڑھائی کے بعد گھروں میں جاکر بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ اس سے تعلیمی اخراجات میں کافی مدد ملنے لگی۔ پھر بھی کچھ خرچہ والدین کو دینا پڑتا تھا۔ پہلے سمسٹر میں ٹاپ کیا۔

میرا طریقۂ کار یہ تھا کہ جب کلاس سے فارغ ہوتا تو ساتھی طلبہ کو جن جن باتوں کی سمجھ نہ آتی میں انہیں سمجھاتا تھا۔ اس سے طلبہ کے ساتھ میرا اپنا فائدہ بھی ہوتا، کیوں کہ جو کچھ پڑھا تھا، ازبر ہوجاتا۔ میں نے ایم بی اے کے پانچ سمیسٹرز میں ٹاپ کیا۔ میری پڑھائی میں میری والدہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ والد کی آمدنی محدود تھی۔ میری والدہ نے کبھی مجھے گرنے اور مایوس نہ ہونے دیا۔ گھر میں کوئی بیمار پڑتا تو دوائی کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ میری ماں اپنی بیماری کو بھول کر میری فیس کے پیسے جمع کرتی رہتی تھی۔

جب کانووکیشن میں میرے گولڈمیڈل کا اعلان ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے بہت بڑی کام یابی حاصل کرلی ہے۔ یہ والدین کی قدر اور ان سے میری محبت کا صلہ تھا۔ میں جب کبھی گھر جاتا تھا تو اپنے والدین کے پاؤں دباتا رہتا اور ساتھ ساتھ دعائیں بھی مانگتا رہتا کہ یااﷲ ان کے صدقے مجھے کام یابیوں سے ہم کنار فرما۔ کانووکیشن میں گولڈمیڈل کے اعلان کے بعد مجھے احساس ہوا کہ یہ سب میرے والدین کی دعاؤں اور کوششوں سے ممکن ہوا ہے۔ اسی لیے میں بے ساختہ اپنے والدین کے قدموں میں گر گیا اور انہیں چومنے لگا۔

غیرنصابی سرگرمیوں کے بارے میں سوال پر عرفان نے کہا کہ بچپن میں مجھے کرکٹ کا شوق تھا، لیکن باقاعدہ کھلاڑی نہ بن سکا۔ تعلیم سے فرصت ہوتی تو مزدوری تلاش کرنے لگتا۔ ایم بی اے میں داخلہ لیا تو فارغ وقت میں گھروں پر جاکر ٹیوشن پڑھاتا رہا۔ یونی ورسٹی کی تعلیمی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ کالج کے سیمینارز سمیت دیگر سرگرمیوں میں مجھے بہت دل چسپی تھی۔ بزنس ایگزیکٹیوکلب کے ذریعے سیمینارز کے انعقاد، کوئز مقابلوں کے ساتھ ہم بزنس ماڈلز بناتے تھے، یہ ہمارا پریکٹیکل تھا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا میری کام یابی کے بعد دور دراز سے مجھے مبارک بادوں کے پیغامات ملے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق، فرید پراچہ نے فون کرکے مبارک باد دی۔گاؤں پہنچنے پر سپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال کے بھانجے رانا ذوالقرنین نے میرا استقبال کیا، مجھے ہار پہنائے، میری تعلیم میں اعانت کا اعلان کیا۔ عرفان نے کہا کہ مجھے آج تک کہیں سے کبھی تعلیم کے لیے سپورٹ نہیں ملی۔ اب اپنے خاندان میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا فرد ہوں۔ میرے گاؤں کے لوگوں نے مجھے حوصلہ دیا ہے۔

میں اب پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہوں، اگر وظیفہ مل جائے تو بیرون ملک جاکر تعلیم مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میں ٹیچر بنوں، اپنے جیسے طلبہ کی ٹیم تیار کروں جو غریب بچوں کا مستقبل سنوارنے کی جدوجہد میں میرا ساتھ دے۔ غریب بچوں کے لیے فری ایجوکیشن میرا خواب ہے۔ فری اسکول، کالج اور یونی ورسٹی بنانا چاہتا ہوں، جہاں صرف میرے جیسے غریبوں کے بچے تعلیم حاصل کریں۔ سی ایس ایس کا امتحان بھی دوںگا، لیکن میری پہلی ترجیح پی ایچ ڈی ہے۔

تعلیمی نظام کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہمارے تعلیمی نظام میں بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ تھیوری پڑھائی جاتی ہے، پریکٹیکل کام نہیں کروایا جاتا۔ طلبہ تعلیم سے فارغ ہوکر عملی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ عملی کام زیادہ ہونا چاہیے۔ پاکستان کی ترقی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے سیاسی نظام میں بہتری آنی چاہیے۔ عام آدمی کی بھلائی کے بارے میں سوچا جائے۔ ملک کے مفاد کو ذاتی مفادات پر ہرحال میں ترجیح دینی چاہیے۔ اسی طرح ہی ہم ترقی کرسکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بہت محنتی لیڈر ہیں۔ وہ دن رات صوبے کی ترقی کے لیے کام کرتے ہیں۔ انہیں خود اتنی محنت کے بجائے سسٹم کو ٹھیک کرنا چاہیے کہ تمام کام خود بخود ہوتے جائیں۔ وہ صرف سسٹم پر نظر رکھیں۔ اس کے لیے انہیں محنتی ٹیم بنانی چاہیے۔ انہوں نے تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس یونینز کے وجود کی مخالفت کی اور کہا کہ سیاسی جماعتوں کی بغل بچہ یہ تنظیمیں تعلیمی ماحول خراب کرنے کے سوا کوئی کام نہیں کرتیں۔ طلبہ کی فلاح وبہبود کے ساتھ ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا، بل کہ یہ تعلیمی اداروں میں منفی سرگرمیوں کو فروغ دیتی ہیں۔

جی سی یونیورسٹی کے ماحول کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین نے اسے حقیقی معنوں میں یونی ورسٹی بنادیا ہے۔ ان کے آنے سے پہلے یونیورسٹی کے حالات بہت خراب تھے۔ اب اساتذہ بھی بہت محنت کروا رہے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے یونی ورسٹی کے اساتذہ ڈاکٹر حضور صابر، مسعودکلیار، احمدبشیر، قمر علی وینس اور حمادزیدی کی خاص طور پر بہت تعریف کی۔ انہوں نے طلبہ کو پیغام دیا کہ وہ مالی مشکلات کے باعث اپنی تعلیم نہ چھوڑیں، ہمت نہ ہاریں، اپنے ہدف کو سامنے رکھ کر سچی لگن کے ساتھ کام کریں گے تو منزل مل جائے گی۔ انہوں نے صاحب حیثیت لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ذہین، محنتی اور غریب طلبہ کی امداد کریں تو تعلیم کے میدان میں پاکستان پوری دنیا سے آگے نکل سکتا ہے۔

غربت کے باعث دو بیٹوں نے تعلیم چھوڑی تو میں نے عرفان سے آس لگالی: والدہ کے تاثرات

عرفان حسن کی والدہ نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بچوں کو پڑھانے کا بڑا شوق تھا۔ بڑے بیٹے نے خراب مالی حالات کے باعث مڈل کے بعد تعلیم چھوڑ دی، دوسرے بیٹے نے بھی غربت کے باعث تعلیم کو چھوڑا تو میرا دل ٹوٹ گیا۔ اب میں نے عرفان سے آس لگالی۔ اس نے ایف اے کیا تو مزید تعلیم جاری رکھنے کی ہمت نہیں تھی۔ اس کا ایک سال ضائع ہوگیا، جس سے مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ آخر میں نے اس کو حوصلہ دیا کہ میں ایک وقت کا کھانا چھوڑدوں گی، مزید محنت مزدوری کرلوں گی لیکن تمہارے تعلیمی اخراجات پورے کروں گی۔ میں نے محنت مزدوری کی۔ کئی کئی میل پیدل سفر کیا۔ بیمار پڑتی تو دوائی نہ لیتی اور یہی سوچتی کہ یہ رقم میرے بیٹے کی فیسوں کے کام آئے گی۔ اپنے بیٹے کے لیے اﷲ سے دعا کرتی رہتی۔ جب اسے گولڈمیڈل ملا تو خوشی کی انتہا نہ تھی۔ اﷲ کا شکر ادا کیا۔

میری وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف سے استدعا ہے کہ میرے بیٹے کی مدد کی جائے۔ اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجا جائے۔

عرفان کے بچپن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ بچپن میں شرارتی نہ تھا، بڑا صلح جو بچہ تھا۔ بہن بھائیوں سے کبھی لڑائی نہیں کرتا تھا۔ نہ کبھی کچھ کھانے کی فرمائش کرتا تھا۔ ہمارے خاندان کی طرح یہ بھی سادگی پسند ہے۔ بچپن میں دوبار گُم ہوا، لیکن اﷲ کے فضل سے مل گیا۔ اس کے والد عبدالعزیز نہایت شریف اور حوصلے والے آدمی ہیں، کبھی گاؤں میں دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ ان کی شرافت کی وجہ سے پورے گاؤں کے لوگ ان کی عزت کرتے ہیں۔

یہ بچہ ہماری یونی ورسٹی کے لیے رول ماڈل بن گیا ہے، وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی ڈاکٹر ذاکر حسین

جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین نے عرفان حسن کے بار ے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عرفان بہت محنتی بچہ ہے۔ اس نے دن رات محنت کی، گولڈمیڈل ملنے کے بعد یہ بچہ دوسروں کے لیے مثال بن گیا ہے، جس پر ہمیں فخر ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ ایسے بچوں کی یونیورسٹی فیسیں معاف کردیتے ہیں، ’’بل کہ ہم نے انڈولمنٹ فنڈ سے درجنوں بچوں کو سپورٹ بھی کیا ہے۔ یہ بچہ ہماری یونی ورسٹی کے لیے رول ماڈل بن گیا ہے۔ اس بچے نے نہ صرف گولڈمیڈل حاصل کیا ہے بل کہ والدین کی محبت کا سبق بھی دیا ہے۔ ہمارے لیے جہاںتک بھی ممکن ہوا ہم اسے سپورٹ کریں گے۔

کیلاش یاترا

$
0
0

لواری ٹاپ سے گزرنا بچوں کا کھیل نہیں، رات کی برف باری نے راستہ اور مشکل کردیا تھا، ہمارے آگے پیچھے ٹرکوں کی طویل قطار تھی، کوئی دو ڈھائی سو ٹرک اور فور وہیل گاڑیاں تو ہوں گی، جو دس ہزار فٹ بلند لواری ٹاپ سے گزر کر ’’دیر‘‘ یا دوسری طرف چترال جارہی تھیں۔

بلندی سے بل کھاتے راستے پر یہ ٹرک اور گاڑیاں کھلونے لگ رہے تھے، سفید مٹیالے برف کے تودوں کے درمیان لال، نیلے، ہرے، گلابی ننھے منے ٹرک۔ مٹہ خوڑ کے تنگ درے سے ایک ایک کرکے گاڑیاں گزر رہی تھیں، برفیلے پانی کے تیز ریلے نے کچے راستے کو ادھیڑ کر رکھ دیا تھا۔

چھوٹی گاڑیاں تو قدرے آسانی سے نکل جاتیں لیکن ٹرک اور ٹرالر گزارنے میں خدا یاد آجاتا، طرح طرح کے جتن کرنا پڑتے، ڈرائیور اپنی مدد آپ کے تحت پتھر اور لکڑیاں رکھتے جن پر سے گزر کر ٹرک اور ٹرالر آگے بڑھ پاتا، انجن کا پورا زور لگانے کے باوجود بعض اوقات دھکا لگانے کی نوبت آجاتی، چند ایک ٹرکوں کو تو ’’ٹو‘‘ کرکے کھینچنا پڑا، تنگ درے کے اس موڑ سے گزرنے میں ہر ٹرک کو پندرہ سے بیس منٹ لگ رہے تھے، میں ڈرائیور کے کہنے پر گاڑی سے اتر کر پیدل ہی درے کے دوسری طرف آتو گیا مگر اب بری طرح کانپ رہا تھا۔

گیلے جوتے ہاتھوں میں لٹکا رکھے تھے، موزے خشک ہونے کے لیے ایک چٹان پر پھیلادیے تھے، معمولی سوتی قمیص میں برفانی ہوا جسم کو چھری کی طرح کاٹ رہی تھی۔ یا اﷲ! ہماری باری کب آئے گی، کب یہ امتحان ختم ہوگا۔ کوئی ایک گھنٹہ تو ہوگیا تھا برف کے پہاڑوں میں کاٹ دار ہوا کا مقابلہ کرتے۔ اب تو ہمت جواب دینے لگی تھی۔ دوسری طرف ہماری جیپ ایک انچ نہیں ہل سکی تھی۔ ہلتی بھی کیسے، یہ بڑے بڑے دیوہیکل ٹرکوں کی قطار نمٹتی تو چھوٹوں کی باری آتی۔ دیر سے یہاں تک کئی جگہ چنگی ناکوں پر ادائیگی کرنا پڑی۔

کوئی آدھ درجن چوکیوں پر شناخت کرائی، یعنی جگہ جگہ سرکاری اہل کاروں سے ملاقاتیں ہوئیں، لیکن لواری ٹاپ کے اس مقام پر گویا لاوارث ہوگئے۔ کیا چنگی کی رقم سے مسافروں پر اتنی عنایت بھی نہیں ہوسکتی کہ یہاں دو چار مزدور ہی لگادیے جاتے؟ مجھے شہری لباس میں دیکھ کر ایک غیر مقامی نوجوان قریب آگیا، کہنے لگا کہ فوجی ہے اور نیچے چوکی پر تعینات ہے۔ نہ جانے یہاں کیوں آگیا تھا، کیوں کہ یہ کام تو چوکی سے بھی ہوسکتا ہے۔ مٹہ خوڑ کی طرف بڑھنے والی ہر گاڑی کو دیکھ کر اس کا ورد شروع ہوجاتا،’’یا اﷲ گاڑی گزر جائے، یااﷲ گاڑی گزر جائے۔‘‘ دو گھنٹے میں میری قلفی جم چکی تھی۔

جیپ کو سرکتا دیکھ کر حوصلہ ہوا کہ امتحان ختم ہونے کو ہے۔ اﷲ اﷲ کرکے جیپ درے کے موڑ سے نکل آئی اور اب اس قطار میں لگ چکی تھی جو درے سے نیچے سرک رہی تھی۔ جیپ میں بیٹھے بیٹھے چار سال کا محمد اور میری دو سال کی بیٹی خدیجہ بری طرح ڈرچکے تھے، میں نے بیوی بچوں کو نیچے اتارلیا کہ کچھ دور تک چہل قدمی کے بعد جیپ میں سوار ہوجائیں گے۔ ابھی چند قدم ہی گئے ہوں گے کہ ہبڑدبڑ مچ گئی، گاڑیاں تیزی سے آگے بڑھنے لگیں۔

معلوم ہوا جس ٹرالر کی سست رفتاری سے گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں وہ راستے سے ایک طرف ہوگیا۔ ہم بھی جیپ کی طرف دوڑ پڑے، ابھی محمد پوری طرح سوار نہیں ہوا تھا کہ جیپ آگے بڑھ گئی، وہ منہ کے بل کنکروں اور کیچڑ پر آگرا، ڈرائیوروں کا شور، محمد کی چیخیں، عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ اسی اثناء میں بیگم کی چیخ سنائی دی، جیپ کا پچھلا ٹائر ان کے پاؤں پر چڑھ گیا تھا۔ وہ چیخ رہی تھیں، محمد رورہا تھا، دوسری گاڑیوں کے ڈرائیور شور مچارہے تھے۔

کچھ دیر کے لیے مجھے لگا کہ ہر طرف سناٹا چھا گیا لیکن فوراً ہی حواس پر قابو پائے۔ بیٹے اور بیوی کو جیپ میں سوار ہونے میں مدد دی، کپڑوں سے برف جھاڑتے ہوئے خود بھی اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا، جیپ آگے بڑھنے لگی تھی، ماحول میں کچھ سکون آگیا تھا، محمد کا رونا بھی بند ہوگیا تھا، اچانک پیچھے سے آواز آئی،’’بابا! آپ کو یہاں لانے کو کہا کس نے تھا۔‘‘

کیلاش کون؟

چترال شہر سے کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے سڑک دائیں جانب نیچے اترتی ہے جہاں آیون کا قصبہ ہے۔ اوپر سے دیکھیے تو لگتا ہے جیسے کسی پیالے میں بہت سارے چھوٹے چھوٹے گھر رکھے ہیں۔ آیون میں ٹھیک ٹھاک گرمی پڑتی ہے۔ شاید اسی لیے فصلیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔ خاصا آباد قصبہ ہے۔

لوگ بھی قدرے خوش حال اور تعلیم یافتہ۔ یہاں آدھ گھنٹہ رکنے کے بعد کیلاش یا کافرستان کی پراسرار اور دیومالائی بستی کی جانب بڑھنا تھا۔ آیون کے پیالے سے نکل کر پھر چڑھائی کا سفر شروع ہوا۔ دو پہاڑوں کے بیچ تنگ راستہ تھا جس پر ہماری جیپ کبھی سست اور کبھی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ ایک طرف پہاڑ دوسری جانب کھائی، جس میں تیزرفتار شور مچاتا برفانی نالہ اور اس کے ساتھ دوسرا پہاڑ، گویا یہ نالہ اور کچا پکا راستہ دو پہاڑوں میں سینڈوچ۔

ہم مسلسل اوپر کی طرف بڑھ رہے تھے، کوئی چار گھنٹے بعد منزل کے آثار نظر آئے۔ پہاڑوں کے بیچ کیلاش کے تین دیہات میں سے سب سے بڑے بمبورت میں چلم جوش کا تہوار ہمارا منتظر تھا۔ بمبورت میں داخل ہونے سے پہلے فوجی چوکی پر زبردست پوچھ گچھ ہوئی۔ شناختی کارڈ دیکھے گئے، اندراج ہوا، تب کہیں جاکر جان چھوٹی، پہلے یہ تردد صرف غیرملکیوں کے لیے تھا اب ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو ’’وی آئی پی‘‘ ٹریٹمنٹ ملتی ہے۔ بمبورت میں کہاں ٹھیریں؟ علم تھا کہ پی ٹی ڈی سی کے گیسٹ ہائوس میں کھال اترے گی، لیکن فی الحال کوئی رسک نہیں لیا جاسکتا تھا۔

آرام دہ بستر اور گرم غسل کی شدید خواہش کے ساتھ بچوں کی تھکاوٹ بھی پیش نظر تھی۔ 8سال کی طوبیٰ تو اس سے پہلے بھی کراچی سے ہنزہ کا طویل سفر کرچکی ہے، لیکن محمد اور خدیجہ کی پہلی باری تھی۔ پی ٹی ڈی سی کے خوب صورت اور آرام دہ گیسٹ ہائوس ہی میں اتر پڑے۔ گرم غسل کیا، نرم بستر پر تھکن اتاری اور تازہ دم ہوگئے کہ آج چلم جوش کی مرکزی تقریب تھی۔ کچھ دیر میں رقص کی محفل جمنے والی تھی۔ کیلاشی حسینائوں کا وہ رقص جو ٹی وی اور تصویروں میں دیکھ کر تعجب اور تجسس ہوتا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں، کہاں سے آئے، کب سے آباد ہیں اور ان کا کلچر اتنا مختلف اور منفرد کیسے ہے؟

ایک طرف افغانستان اور دوسری طرف چترال جیسے روایتی مسلم معاشروں میں گھری یہ کیسی بستی ہے؟ یہ لوگ کیا آسمان سے اترے ہیں؟ نہیں! زمین سے آئے ہیں تو پہلے کہاں بستے تھے۔ ایک مقبول نظریہ یہ ہے کہ یہ سکندر اعظم کے ان فوجیوں کی اولاد ہیں جو یہاں رک گئے تھے، کچھ دہائیوں پہلے جب دنیا کو کیلاشیوں کا علم ہوا اور یہ نظریہ پھیلا تو یونانی اور دوسرے یورپی دوڑ پڑے۔

کسی نے تعلیم کا بیڑا اٹھایا تو کچھ نے تعمیر و ترقی میں مدد دی، درجنوں این جی اوز کمر بستہ ہوگئیں۔ مضامین لکھے گئے، فلمیں بنیں، ان کے رہن سہن، لباس اور مذہب کی حفاظت کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا، کیلاشیوں کے بارے میں نقلی اور عقلی تحقیق کے گھوڑے دوڑائے گئے تو جانکاری ملی کہ یونانیوں سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں رکھتے۔ سکندراعظم کی فوج یہاں سے گزری ہی نہیں تو اس کے سپاہی کیسے رکتے۔ ڈی این اے اور دوسرے ٹیسٹ بھی یونانیوں اور کیلاشیوں کی رشتے داری کا سراغ نہ لگاسکے۔ علمی سطح پر مان لیا گیا کہ کیلاشی یونانی نہیں۔ تو پھر کون ہیں؟ اﷲ ہی جانے؟

یہ تو کوئی رقص نہیں:

ایک دوسرے کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مسلسل گھومنا، بیچ بیچ میں چیخیں مارنا، یہ کیسا رقص ہے؟ طبلہ نہ سارنگی اور تو اور گھنگھرو بھی نہیں، بس گھومے جائو، گھومے جائو، گھومے جائو، ہاتھ سے بھائو بتانا یا کمر لچکانا تو دور یہاں تو کوئی انکھڑیوں سے تیر تک نہیں چلاتا۔ ایسے رقص کا اچار ڈالنا ہے؟ آپ اچار ڈالیں یا مربہ بنائیں، کیلاشی حسینائیں تو ایسا ہی رقص کرتی ہیں۔ گھومے جائو گھومے جائو، رقص میں ہے سارا جہاں، نہیں چکر میں ہے سارا جہاں۔ جیسا کیسا بھی ہے لیکن کیلاشیوں کے لیے ان کا رقص آدھی زندگی ہے۔ خوشی ہی نہیں وہ تو غمی پر بھی رقص کرتے ہیں۔

یعنی موت پر بھی رقص۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ان کا ایک بڑا فوت ہوگیا تھا تو اس کی میت سامنے رکھ کر کئی دن تک رقص کیا جاتا رہا۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی بتادوں کہ آنجناب کی میت کے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں، کرنسی نوٹ یہاں تک کہ پسندیدہ برانڈ کی سگریٹ کی ڈبیہ بھی رکھی گئی تھی۔ خیر کیلاشیوں کی آخری رسومات کا ذکر اپنے مقام پر آئے گا۔ فی الحال بات رقص کی ہورہی تھی۔

پہلی نظر میں تو یہ بڑا سادہ، معصومانہ اور ابتدائی نوعیت کا رقص لگتا ہے لیکن ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ جوں جوں گھومنا تیز تر اور چیخیں بلند تر ہونے لگتی ہیں، رقاصاؤں کے چہرے تمتمانے لگتے ہیں، اچانک کچھ نوجوان بھی رقص میں شامل ہوجاتے ہیں۔ درمیان میں لڑکا دائیں بائیں کاندھے پر ہاتھ رکھے لڑکیاں۔ گھومنا اور تیز، چیخیں اور بلند۔ سارے ماحول پر عجیب سی ہیجانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اسی عالم میں جب خون کا دبائو کنپٹیوں پر بڑھنے لگا، خراماں خراماں رقص تمام ہوتا گیا۔ ہوسکتا ہے یہ میرے ہی دماغ کا خناس ہو لیکن مجھے تو یہ رقص اعضا کی شاعری سے زیادہ افزائش نسل کا حیلہ معلوم ہوا۔

کیلاش اور شادی

کیلاشیوں میں شادی صرف محبت کی ہوتی ہے۔ رقص کی محفل یا کہیں اور لوگ ایک دوسرے کو بھاگئے تو بھاگ گئے، بعد میں گھر والوں کو منالیا۔ اﷲ اﷲ خیر صلا۔ ہاں البتہ لڑکے کو اچھی خاصی رقم لڑکی والوں کو دینا پرتی ہے، تبھی خاندان برادری کے ساتھ رہ سکتا ہے، ورنہ بھٹکتے پھرو پہاڑوں، جنگلوں میں۔ کیلاشیوں میں شادی کوئی ایسا سات جنموں کا رشتہ نہیں۔ اگر آپ کی نہیں بن رہی تو کیا ضرورت ہے گھر کو جہنم بنانے کی۔ سنا ہے شادی شدہ کیلاشی خاتون کو کوئی اور پسند آجائے تو بلاجھجک اس کے ساتھ روانہ ہوجاتی ہیں۔ نیا شوہر پرانے کا نقصان پورا کردیتا ہے۔ ایک خاتون ایک کے بعد دوسرے، تیسرے اور پھر چوتھے شوہر کے ساتھ بھی چلی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں، بس پچھلوں کا نقصان پورا ہوجانا چاہیے۔

واﷲ اعلم بالصواب۔ ویسے ماضی میں جنسی لحاظ سے کیلاشی خاصے آزاد خیال تھے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ہر سال قبیلے کے سب سے طاقت ور اور خوب صورت نوجوان یعنی قبیلے کی آنکھ کے تارے کو بھیڑ بکریوں کے ساتھ اوپر جنگل میں بھیج دیا جاتا تھا۔ وہ سال بھر وہیں تازہ دودھ، دہی، مکھن، پنیر اور پھل وغیرہ کھا پی کر مزید ہٹا کٹا ہوجاتا۔ چلم جوش میں پورے اعزاز و اکرام کے ساتھ اس کی بستی میں واپسی ہوتی، رقص کے دوران جس کسی دوشیزہ یا تین چار دوشیزائوں کو پسند فرماتا اس کے ساتھ شب بسری کرتا اور کچھ مزید جوانان رعنا کے بیج بوتا۔ کہتے ہیں اب یہ سلسلہ موقوف ہوگیا ہے۔

زمانہ گزرا کہ کیلاش کا ایک بادشاہ تھا۔ اس نے اپنی سرکار کے سبھی مردوں کو جبراً جنگل میں بھیج دیا۔ بستیوں میں صرف عورتیں رہ گئیں، جو روز مرہ کے امور انجام دیتیں۔ بادشاہ کی اس بے تکی ضد کو کئی سال گزر گئے تو بستی کی عورتیں سونا، زیور اور بھیڑ بکریاں لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ درخواست کی کہ یا تو مردوں کو واپسی کی اجازت دے دیں یا یہ مال و متاع لے کر ہمیں چھوڑدیں، کہ جہاں سینگ سمائے چلی جائیں۔

بادشاہ نے کہا کہ بی بیو! اپنے گھروں میں جا براجو، مردوں کو واپسی کی اجازت دی جاتی ہے۔ کہتے ہیں اس رات کی ہم بستری سے جو حمل ٹھہرے ان سے چار ہزار لڑکے تولد ہوئے، بادشاہ نے ان سب کو اپنی تربیت میں لے لیا، وہ چار کے چار ہزار جوان بڑے ہوکر ایسے سپاہی بنے کہ ایک ایک ہزار ہزار پر بھاری۔ بادشاہ نے ان چار ہزار سپاہیوں کی فوج سے دشمن کو نیست و نابود کردیا۔ رہے نام اﷲ کا۔

کیلاش میں سری دیوی

ارے کیلاش کہیں ہندو تو نہیں؟ ہندو ہوتے تو پوجا پاٹ تو کرتے، چڑھاوے تو چڑھاتے، دیوی دیوتا مندر کچھ تو ہوتا، یہاں تو ایسا کچھ نہیں۔ عجیب سا مذہب ہے۔ معبد خانے بھی رقص گاہیں ہیں، جہاں بتوں کو تو نہیں پوجتے شاید روحوں کی عبادت کرتے ہیں۔ تہوار کے تہوار بھیڑ بکریوں کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ اپنے مذہب کے بارے میں زیادہ نہیں کُھلتے۔ سرکاری گائیڈ بکس بھی اس معاملے میں خاموش ہیں۔ البتہ رقص کی افراط سے میری بیگم کو خیال گزرا کہ ہو نہ ہو یہ ہندو ہیں۔

یاد آیا کہ کراچی میں جب میں انٹرنیٹ پر کیلاش میں ہوٹل ڈھونڈرہا تھا تو دو تین بڑے شان دار ہوٹلز کی ویب سائٹس کھلیں۔ ابھی میں حیران ہی ہورہا تھا کہ کیلاش میں ایسے شان دار ہوٹل کہاں سے آگئے تو پتا چلا کہ یہ تو کیلاش ہوٹل دیرہ دون اور کیلاش ہوٹل امر تسر وغیرہ ہیں۔ اس وقت بھی جھٹکا لگا کہ بھلا دیرہ دون کا کیلاش سے کیا تعلق، پھر یہ خیال بھی آیا کہ کیلاش نام کا کوئی بھارتی اداکار بھی تو ہے۔ اب جوگائیڈ بک میں ایک کیلاش لڑکی کا نام سری دیوی پڑھا تو یقین آگیا کہ یہ کیلاشی یونانی وونانی کچھ نہیں ہندو ہیں ہندو۔

بمبورت کے قبرستان کی سیر کرتے ہوئے اپنے گائیڈ شیر خان سے جب کیلاشی لڑکی کا نام سری دیوی ہونے کا ذکر کیا تو اس کے جواب نے پھر الجھادیا۔ کہنے لگا کہ یہاں تو آپ کو عامر خان، سلمان خان بلکہ امیتابھ بھی مل جائیں گے۔ میں خود کیلاش یعنی آپ کے مطابق کافر ہوں اور میرا نام ہے شیر خان ولد دلیر خان۔ نام میں کیا رکھا ہے صاحب! آدمی کیلاش ہونا چاہیے۔ قبرستان میں کھلے تابوتوں میں ہڈیاں دیکھتے ہوئے یہ دوسرا جھٹکا تھا۔ ظاہر ہے پہلا جھٹکا زمین پر رکھے تابوت اور ان میں موجود ہڈیاں تھیں۔

کیلاشی اپنے مردوں کو دفناتے نہیں بلکہ تابوت میں بند کرکے قبرستان میں رکھ آتے تھے۔ اب یہ رواج بھی کم ہوکر ختم ہوچکا ہے اور کیلاش مردے بھی شرافت سے دفن ہونے لگے ہیں۔ بات ہورہی تھی کیلاشی سری دیوی اور امیتابھ کی۔ کلچر سے تو کہیں کہیں کیلاش ہندو لگتے ہیں لیکن چہرے مہرے چال ڈھال اور لباس وغیرہ سے تو بالکل بھی نہیں۔ کہاں یہ سرخ و سفید رنگت، نیلی آنکھیں، کھڑی ناک اور کہاں سیاہ رنگ، موٹے ہونٹ اور پچکی ناک والے ہندو، ارے بھائی یہ کیلاش تو ہو نہ ہو یورپی ہیں۔ بھلا ہندوئوں کا ان سے کیا مقابلہ۔

یہی سوچ رہے ہیں ناں آپ، لیکن ذرا ماضی میں جھانکیے۔ یہی کوئی چار پانچ ہزار سال پہلے۔ مشرقی یورپ میں ڈینوب کے کنارے سے آریائوں کے دَل بادل اٹھے اور آدھے ایشیا پر چھاگئے۔ یہ جو ہندو مذہب اور سنسکرت ہے یہ بھی وہی آریائی لائے تھے۔ راجپوت اور جاٹ وغیرہ بھی غالباً آریائی ہیں۔ انھیں آریائوں میں سے کچھ راستے میں ان دو پہاڑوں کے بیچ آبسے یا آپھنسے۔ ہزاروں سال سے یہیں آباد ہیں، وہی آبائو اجداد جیسا اونی لباس، وہی رسم و رواج اور نظریات، وہی بولی ٹھولی۔ جی ہاں، یہ کیلاش قدیم آریائی ہیں جنھیں شاید تاریخ بھی بھلا بیٹھی تھی، لیکن سائنسی دور میں جہاں اور بہت سی دریافتیں ہوئیں انسانی نسل کا یہ گم گشتہ جتھا بھی سامنے آگیا۔

کراچی سونامی کی زد میں

$
0
0

’’خطرے کو پہچان کر حفاظتی اقدامات کرلینا وقت و توانائی کا ضیاع نہیں ذہانت کی نشانی ہے۔‘‘ (سماجی رہنما‘ مولانا عبدالستار ایدھی)

26دسمبر 2004ء کا واقعہ ہے۔ بحیرہ ہند میں آسٹریلوی۔انڈین اور برمی پلیٹوں کے ٹکراؤ سے سمندر کی تین میل گہرائی میں زبردست زلزلہ آیا۔ ٹکراؤ کے نتیجے میں آسٹریلوی۔انڈین پلیٹ برمی پلیٹ کے نیچے جا گھسی۔ چنانچہ برمی پلیٹ قدرتی طور پہ اوپر اچھل پڑی۔

تقریباً ایک ہزار میل لمبی برمی پلیٹ جب زلزلہ آنے پہ بہ سرعت اوپر اٹھی تو قدرتاً اس پر موجود سارا پانی بھی اُچھل گیا۔ یوں سمندر میںایسی اچھال یا بلند لہر پیدا ہوئی جسے ’’سونامی‘‘ کہا جاتاہے۔

دسمبر2004ء کے زلزلے کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ’’آٹھ تا دس منٹ‘‘ جاری رہا۔ یہ اب تک کا ریکارڈ شدہ طویل ترین زلزلہ ہے۔ چنانچہ برمی پلیٹ چند بار اوپر نیچی ہوئی اور سونامی لہریں پیدا کرتی رہی۔ یہ لہریں 30میٹر (100 فٹ) تک بلند تھیں۔ ان لہروں نے کئی ممالک کے ساحلی شہروں میں زبردست تباہی مچائی اور ’’دو لاکھ تیس ہزار‘‘ انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ واقعہ انسانی تاریخ کے الم ناک ترین قدرتی حادثوں میں شمار ہوتا ہے۔

اس بھیانک زلزلے کے بعد 2005ء میں اقوام متحدہ کے تعاون سے بحرہند پر واقع ممالک نے ’’سونامی کی پیش گی اطلاع دینے والا نظام‘‘ (Indian Ocean Tsunami Warning System ) قائم کر لیا۔ اس نظام کے تحت بحر ہند کے 25 ساحلی شہروں میں سیسموگرافک (seismographic) اسٹیشن کام کر رہے ہیں۔ وہاں چوبیس گھنٹے بحر ہند میں آنے والے زلزلوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس نظام کی مدد سے زلزلہ آنے کے صرف پانچ منٹ بعد تمام ساحلی شہروں تک اطلاع پہنچ سکتی ہے کہ سونامی نے جنم لیا یا نہیں۔ ایک سیسموگرافک اسٹیشن کراچی میں بھی کام کر رہا ہے۔

9تا 10ستمبر کواقوام متحدہ کے زیر اہتمام درج بالا نظام سے منسلک پچیس ممالک نے ’’انڈین اوشن ویو 2014ء‘‘ (IOWAVE14) نامی مشق میں حصہ لیا۔ اس مشق کا مقصد نظام کی خرابیاں سامنے لانا اور یہ جاننا تھا کہ سونامی آنے کی صورت میں سبھی ممالک اس خوفناک آفت سے کیا بخوبی نمٹ سکیں گے۔

مشق کے تحت دو مقامات جنوبی جاوا(انڈونیشیا) اور ساحلِ مکران (پاکستان) میں 9 میگنا ٹیوڈ( magnitude) والے (شدید) زلزلے مصنوعی طور پر پیدا کیے گئے ۔ پھر دیکھا گیا کہ بحر ہند کے ساحلی مقامات پر وہ کس قسم کی تباہی لاتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تجربہ محکمہ موسمیات‘ کراچی کے مرکزی ماہر ِموسمیات‘ محمد توصیف عالم کی زیر قیادت انجام پایا۔

سونامی ارلی وارننگ سینٹروں میں انجام پانے والے دونوں تجربات سے انکشاف ہوا کہ بحر ہند میں 9 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ آنے سے سوفٹ اونچی سونامی لہریں پورے سمندر میں پھیل جائیں گی۔ قدرتاً وہ ان ساحلی مقامات میں زیادہ تباہی مچائیں گی جو زلزلہ آنے کی جگہ کے قریب ہوں گے۔ یہ حقیقت پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔

کراچی دراصل ’’مکران سب ڈکشن زون‘‘(Makran subduction zone) کے قریب ہی واقع ہے۔ یہ بحیرہ عرب میں واقع وہ علاقہ ہے جہاں تین پلیٹیں… یوریشائی‘ آسٹریلوی۔ انڈین اور عرب ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ یہ ٹکراؤ وہاں وقتاً وفوقتا معمولی اور غیر معمولی ارضیاتی تبدیلیاں لاتا رہتا ہے۔ مثلاً انہی کی وجہ سے ستمبر  2013 ء میں ساحل مکران پہ  7.7میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ آیا ،تو گوادر کے قریب ایک نیا جزیرہ ظہور پذیر ہو گیا۔

ہو ایہ کہ تہ سمندر جمع میتھین گیس نے تقریباً 515 فٹ چوڑا اور623 فٹ لمبا طبقہ الارض سطح پہ ابھار دیا۔دیکھنے والوں نے اسے بجا طور پہ ’’زلزلہ جزیرہ ‘‘کا نام دیا۔مٹی،ریت اور چٹانی مادے سے بنا یہ جزیرہ اب رفتہ رفتہ ڈوب رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے، ساحل مکران میں کسی بھی لمحے 9 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ آیا تو وہ دوطرح سے کراچی اور دیگر بلوچستانی ساحلی شہروں مثلاً گوادر‘ اورماڑا ، پسنی،جیوانی وغیرہ میں تباہی پھیلا سکتا ہے۔ اول زلزلہ وہاں مکانات اور عمارتیں گرا کر بربادی لائے گا۔ دوم سمندر میں جنم لینے والی سونامی لہریں ان شہروں کا اکثر حصّہ پانی میں شرابور کر دیں گی۔

وطن عزیز کے درج بالا شہر تزویراتی طور پر اہم ہیں۔مثال کے طور پہ کراچی ملک کا سب سے بڑا تجارتی و صنعتی مرکز ہے۔ وہاں مضافاتی علاقوں سمیت تقریباً دو کروڑ لوگ بستے ہیں۔ گوادر میں چین نئی بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے۔ جبکہ اورماڑا میں پاک بحریہ کی بیس واقع ہے۔

مشق کے بعد محکمہ موسمیات پاکستان کے توصیف عالم نے بریفنگ میں انکشاف کیا کہ پاکستانی ساحلِ سمندر کے آس پاس پر 9 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ آیا تو 23فٹ بلند سونامی لہریں پیدا ہوں گی۔ چنانچہ وہ کراچی میںاچھی خاصی تباہی پھیلا سکتی ہیں۔ خصوصاً ساحل سمندر کے نزدیک واقع علاقے مثلاً کلفٹن ‘ ڈیفنس‘ صدر‘ کیماڑی‘ کورنگی وغیرہ سمندری لہروں کی زد میں آ کر برباد ہو جائیں گے۔

یاد رہے کہ 28نومبر1945ء کی صبح پسنی سے اٹھانوے کلو میٹر دور بحیرہ عرب میں سمندر میں زلزلہ آیا تھا۔ اس کی شدت 8.1 میگنا ٹیوڈ تھی۔ زلزلے کے باعث ایسی ’’40 فٹ بلند‘‘ زبردست سونامی لہروںنے جنم لیا کہ انہوں نے پسنی اور اورماڑا کو تباہ کر ڈالا ۔

سمندر کی 15 کلو میٹر گہرائی میں آنے والا زلزلہ آدھ منٹ تک جاری رہا۔ اس نے بلدیہ عظمی کراچی میں لگا گھنٹہ گھر بند کر ڈالا جبکہ جھٹکے ہزاروں میل دور کلکتہ تک محسوس کیے گئے۔ کراچی تک پہنچنے والی سونامی لہریں 10 فٹ بلند تھیںمگر انہوں نے بھی ساحلی تنصیبات کو بہت نقصان پہنچایا۔

ماہرین ارضیات کے مطابق یہ بحیرہ عرب میں آنے والی ریکارڈ شدہ سب سے خطرناک سونامی تھی۔ ان لہروں کی زد میں آکر چار ہزار ہندوستانی ہلاک ہو گئے۔نیز آج کے لحاظ سے اربوں روپے کا نقصان ہوا۔

خطرناک بات یہ ہے کہ پچھلے پچاس برس میں مکران سب ڈکشن زون میں زیر سطح ارضیاتی سرگرمی بہت بڑھ چکی۔ ظاہر ہے ،جب تین پلیٹیں آپس میں ٹکرا رہی ہوں‘ تو زمین یا سمندر کے نیچے واقع چٹانوں میں کسی نہ کسی جگہ زبردست دباؤ جنم لیتا ہے۔بنیادی طور پہ چٹانیں ٹوٹنے کے بعد یہ دباؤ خارج ہونے پر ہی زلزلہ پیدا ہوتا ہے۔

ارضیاتی سرگرمی بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں خدانخواستہ مکران سب ڈکشن زون میں 9میگنا ٹیوڈ سے زیادہ بڑا زلزلہ بھی آ سکتا ہے۔ گویا تب کم ازکم 80 تا100 فٹ بلند سونامی لہریں جنم لیں گی۔ اور ایسی زبردست سمندری لہریں وسط کراچی کے علاقوں مثلاً گلشن اقبال اور نارتھ ناظم آباد تک بھی تباہی پھیلا سکتی ہیں۔

ماہرین ارضیات کی تحقیق افشا کرتی ہے کہ 9 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ دس سے پچاس سال میں جنم لیتا ہے۔ جبکہ ہر سال 8 تا 8.9 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ ضرور آتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس علاقے میں پلیٹیں ٹکرا رہی ہیں‘ وہاں جتنی دیر بعد کوئی بڑا زلزلہ آئے‘ اس کی شدت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر 2005ء میں اکتیس سال بعد کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں 7.8مگینا ٹیوڈ کا زلزلہ آیا۔ یہ رچر اسکیل کی رو سے زیادہ شدت کا نہیں تھا ‘ مگر آبادی کے قریب آنے کی وجہ سے زلزلے نے تقریباً ایک لاکھ انسان مار ڈالے۔ ہزار ہا زخمی ہوئے۔

مکران سب ڈکشن زون میں آخر ی بڑا زلزلہ 1945ء میں آیا تھا۔ وہ 8.1 میگنا ٹیوڈ کا تھا اور اس کی شدت 22میگاٹن والے ایٹم بم پھٹنے کے برابر تھی۔ گویا اس علاقے میں جب بھی زلزلہ آیا تو بڑا خوفناک ہو گا اور اس کی شدت 9 میگنا ٹیوڈ تک پہنچ سکتی ہے۔ (گویا وہ 480 میگا ٹن والے ایٹم بم جتنی طاقت کا حامل ہو گا)

یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ بلوچستان و سندھ کے ساحلی علاقوں میں مقیم بیشتر لوگ یہ حقیقت نہیں جانتے کہ وہ جلد یا بدیر خوفناک سونامی لہروں کا نشانہ سکتے ہیں۔ یہ بات بڑی خطرناک ہے کیونکہ وہ حفظ ماتقدم کے طور پہ زلزلے اور سونامی سے بچنے کی تدابیر سے ناواقف ہیں۔حکومت سندھ و بلوچستان کو یہ خبر مشتہر کرنی چاہیے کہ دونوں صوبوں میں زیر زمین واقع چٹانوں میں جنم لیتی ارضیاتی تبدیلیوں میں شدت آ رہی ہے۔

محکمہ موسمیات کی رو سے حالیہ سال میں 14 اگست تا 13 ستمبر یعنی صرف ایک ماہ کے دوران وطن عزیز میں ’’سات زلزلے‘‘ آئے۔ ان میں سے تین زلزلوں نے نواب شاہ اور لاڑکانہ کے قریب جنم لیا۔ جبکہ ایران‘ پاکستان اور افغانستان میں 75 زلزلے آئے۔ ان حقائق سے عیاں ہے کہ ہمارا خطہ زلزلوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اور پلیٹوں کے اوپر نیچے یا پہلو بہ پہلو ٹکراؤ سے جلد یا بدیر شدید زلزلہ جنم لے سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور بلوچستان و سندھ کی صوبائی حکومتوں نے دونوں تباہ کن قدرتی آفات زلزلے اور سونامی سے نمٹنے کے لیے کیا موثر اقدامات کر رکھے ہیں۔ خصوصاً کراچی پر سونامی نے حملہ کیا‘ تو سمندری طوفان کیسے روکا جائے گا؟

ترقی یافتہ ممالک مثلاً جاپان اور امریکا بھی درج بالا قدرتی آفتوں کا نشانہ بنے رہتے ہیں۔ وہاں حکومتیں ان سے ٹمٹنے کی خاطر باقاعدہ منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ مثلاً دونوں ممالک کے ساحلی شہروں میں تمام بلند عمارتیں اس طرح ڈیزائن و تعمیر کی جاتی ہیں کہ شدید زلزلے برداشت کر سکیں۔ کیا کراچی میں بھی بلند و بالا عمارتیں زلزلے مد نظر رکھ کر تعمیر کی گئی ہیں؟

ایک اور خوفناک امر یہ ہے کہ کراچی میں ہمارا ایک ایٹمی ری ایکٹر واقع ہے۔ گو وہ ساحل سمندر سے 5 کلو میٹر دور ہے‘ لیکن شدید زلزلے سے پیدا شدہ سونامی وہاں پہنچ سکتی ہے۔ اس ری ایکٹر کو زلزلہ پروف طور پر بنایا گیا ہے‘ لیکن اسے بلند وبالا سونامی سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی بہترین انتظام ہونا چاہیے۔ ورنہ خدانخواستہ جاپان کے فوکو شیما ایٹمی پلانٹ کی مانند تباہ کن واقعہ پیش آسکتا ہے۔

یاد رہے‘ مارچ 2011ء میں پینتالیس فٹ بلند سونامی لہروں نے اس جاپانی ایٹمی پلانٹ میں لگے تین ری ایکٹر تباہ کر ڈالے۔ ان ری ایکٹر میں موجود تاب کار مادہ پانی سے مل گیا۔ چنانچہ مادے کے زہریلے اثرات سے بچنے کی خاطر علاقے کے تین لاکھ باشندوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔

کراچی کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مختلف وجوہ کی بناپہ پچھلی نصف صدی کے دوران سمندری پانی خاصا پیچھے ہٹ چکا۔ چنانچہ نمودار ہونے والی نئی زمین پر نئی آبادیاں بس چکیں۔ لیکن عالمی گرماؤ کے باعث سمندروں کی سطح پھر بلند ہورہی ہے۔ لہٰذا بیس پچیس سال میں سمندری پانی ان آبادیوں میں داخل ہو جائے گا۔ یہی نہیں‘ مکران سب ڈکشن زون میں محض 7.5 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ بھی ان ساحلی بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔

بدقسمتی سے سونامی کی شدت میں انسان خود بھی اضافہ کر رہا ہے۔ پچاس ساٹھ سال قبل سندھ اور بلوچستان کے ساحلی مقامات پر چمرنگ (Mangrove) کے درخت بکثرت تھے۔ یہ درخت سمندری طوفان یا سونامی آنے کی صورت میں قدرتی ڈھال کا کام دیتے اور زمین کو شکست وریخت سے بچاتے ہیں۔ لیکن زمین حاصل کرنے کی ہوس کا شکار انسان گزشتہ برسوں میں لاکھوں چمرنگ کاٹ چکے۔ یوں زمین اپنے قدرتی محافظوں سے محروم ہو گئی۔

تاریخ افشا کرتی ہے کہ پاکستان میں جب کوئی قدرتی آفت حملہ کرے‘ تب ہی سرکاری ادارے متحرک ہوتے ہیں۔ مگر تب تک قدرتی آفت اچھی خاصی تباہی مچا دیتی ہے۔ لہٰذا یہ نہایت ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں خصوصاً سونامی سے بچاؤ کے اقدامات اور منصوبے تیار کریں تاکہ یہ قدرتی آفت آنے پر کم سے کم جانی و مالی نقصان ہو۔

زمین کی حرکت کرتی پلیٹیں

چودہ کروڑ سال پہلے زمین پہ صرف دو براعظم گونڈوانا (Gondwana) اور لورشیا واقع تھے ۔پھر یہ دونوں براعظم ارضیاتی قوتوں کے دباؤ پر رفتہ رفتہ ٹوٹنے لگے۔ آج کے افریقہ‘ برصغیر پاک و ہند‘ جزیرہ نما عرب ‘ جنوبی امریکا‘ آسٹریلیا اور انٹارٹکا گونڈوانا ہی کے باقی ماندہ حصے ہیں۔ جبکہ روس (بلقان کو چھوڑ کر) یورپ اور شمالی لورشیا کی یادگار ہیں۔

درج بالا تمام حصے اپنا علیحدہ قطع زمین رکھتے ہیں۔ یہ ارضیاتی اصطلاح میں’’ پلیٹ‘‘ (Plate) یا تختہ کہلاتے ہیں۔یاد رہے،زمین کا بالائی حصہ’’ قشر ارض‘‘ (Lithosphere)کہلاتا ہے۔یہ تقریباً 100 کلومیٹر موٹا ہے۔یہی مختلف چھوٹی بڑی پلیٹوں پہ مشتمل ہے۔ یہ پلیٹیں یا تختے پگھلے چٹانی مادے پہ ہولے ہولے حرکت کر رہی ہیں۔ اسی حرکت کے باعث پانچ کروڑ سال پہلے انڈین (برصغیر پاک وہند کی) پلیٹ یورشیائی (روس اور یورپ کی) پلیٹ سے آ ٹکرائی ۔ دونوں پلیٹیں جہاں جہاں سے ٹکرائیں‘ وہاں ٹکرائو کی شد ت کے باعث چھوٹے بڑے پہاڑوں نے جنم لیا۔ ان میں ہمالیہ‘ قراقرم اور ہندو کش کے بلند وبالا سلسلہ ہائے کوہ بھی شامل ہیں جہاں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں پائی جاتی ہیں۔

یہ ٹکراؤ یقیناً زبردست تھا کہ اس کی وجہ سے پلیٹوں کے کناروں کی زمین ہزاروں فٹ اوپر اٹھ گئی۔ انڈین اور یوریشیائی پلیٹوں کے مابین تصادم جاری ہے۔ یہ تقریباً ایک دوسرے کی سمت بڑھ رہی ہیں۔ اسی ٹکراؤ کے باعث علاقے میں زلزلے جنم لیتے ہیں۔ زلزلہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب پلیٹوں کے باہمی تصادم سے چٹانیں سرک جائیں۔ سرکاؤ جتنا بڑا ہو گا‘ زلزلہ بھی اتنا ہی زیادہ شدید آئے گا۔

کروڑوں سال کے عرصے میں انڈین اور آسٹریلین پلیٹیں ایک دوسرے میں جذب ہو کر ایک بڑی پلیٹ کی شکل اختیار کر چکیں۔ اسی لیے یہ انڈین۔ آسٹریلوی پلیٹ کہلاتی ہیں۔ یہ پلیٹ یوریشیائی کے علاوہ بحر الکاہل اور عرب پلیٹوں سے بھی ٹکرا رہی ہے۔ جس جگہ پلیٹیں ٹکرائیں‘ وہ ارضیاتی اصطلاح میں فالٹ (Fault) کہلاتی ہے۔فالٹ کے اوپر، سطح زمین پر طویل دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ ان دراڑوں کو ’’فالٹ لائن کا نام دیا گیا۔ ٹکراؤ کے مقام پر واقع دراڑ سب سے بڑی اور لمبی ہوتی ہے۔ اور وہیں چٹانوں کی شکست و ریخت سے زلزلے بھی آتے ہیں۔

پلیٹوں کے ٹکراؤ کی تین اقسام ہیں: اول وہ آمنے سامنے ٹکراتی ہیں۔ یوں زمین بھنچ جاتی ہے۔ دوم ایک پلیٹ کا دوسری کے نیچے گھس جانا۔ سوم وہ پہلو بہ پہلو ایک دوسرے سے رگڑ کھاتے ہوئے حرکت کرتی ہیں۔ جس علاقے میں ایک پلیٹ دوسری کے نیچے چلی جائے‘ وہ ارضیاتی اصطلاح میں ’’تداخلی منطقہ‘‘ یا ’’سب ڈکشن علاقہ‘‘ کہلاتا ہے۔

وطن عزیز کو ارضیاتی طور پر یہ خصوصیت حاصل ہے کہ پاکستان‘ برما اور الاسکا دنیا کے واحد خطے ہیں جن کا جغرافیہ دو پلیٹوں میں منقسم ہے۔ ہمارے پنجاب اور سندھ کے صوبے انڈین۔ آسٹریلوی پلیٹ میں شامل ہیں۔ جبکہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کا بیشتر حصہ مع کشمیر یورشیائی پلیٹ کا حصّہ ہے۔

برما کا بالائی حصہ یورشیائی جبکہ نچلا انڈین۔ آسٹریلوی پلیٹ میں شامل ہے۔ انہی دونوں پلیٹوں کے سب ڈکشن علاقے واقع بحر ہند میں 2004ء کا زلزلہ آیا۔ ہوا یہ کہ 1600کلو میٹر طویل لائن پر ایک پلیٹ کا حصہ دوسری کے نیچے جا گھسا۔ اس کے باعث دوسری پلیٹ کاتقریباً 100کلو میٹر تہہ سمندر واقع طویل حصہ بلند ہو گیا۔ چونکہ یہ اچانک ہوا لہٰذا اس حصے پر موجود پانی بھی اچھل پڑا اور یوں زبردست سونامی لہروں نے جنم لیا۔

ہمارے بحیرہ عرب میں بھی ایک ایسا ہی سب ڈکشن علاقہ واقع ہے جو اصطلاح میں ’’مکران ٹرینچ‘‘(Makran Trench)کہلاتا ہے۔ یہ سمندر میں ہنگول نیشنل پارک سے لے کر خلیج عمان کے کونے میں واقع ایرانی بندرگاہ‘ جاسک تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی لمبائی 700 کلو میٹر سے زیادہ ہے۔

پچھلے سال برطانوی یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹن اور پیسفک جیو سائنس سینٹر ‘ کینیڈا کے ماہرین ارضیات نے ایک ماہ تک مکران ٹرینچ کا جدید ترین آلات کے ذریعے مطالعہ کیا تھا۔ اس ٹیم کی قیادت ڈاکٹر جیما اسمتھ کر رہی تھیں۔تحقیق کے بعد ڈاکٹر جیما اسمتھ نے اپنے مقالے میں لکھا:

’’ مکران ٹرینچ میں 350 کلومیٹر طویل ایسا علاقہ ہے جہاں مستقبل میں 8.7تا9.2 میگناٹیوڈ کا زلزلہ آ سکتا ہے۔ چنانچہ زلزلے آنے کے لحاظ سے یہ دنیا کا ایک خطرناک علاقہ بن چکا۔‘‘

مکران ٹرینچ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ تین پلیٹوں… انڈین۔ آسٹریلوی‘ یورشیائی اور عرب پلیٹوں کے ادغام پر واقع ہے۔ اسی لیے یہاں دنیا کے بعض انوکھے ارضیاتی مظاہر پائے جاتے ہیں‘ جیسے ریت ومٹی سے بنے آتش فشاں(Mud volcano)‘ ابلتے گرم چشمے اور سمندروں میں ابھرتے ڈوبتے جزیرے۔

عرب اور یورشیائی پلیٹوں کا آمنے سامنے ٹکراؤ جاری ہے۔ جبکہ عرب اور انڈین۔ آسٹریلوی پلیٹیں پہلو بہ پہلو رگڑ کھاتی شمال کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ ان تینوں کے متناقص ٹکراؤ کی وجہ سے بھی علاقہ مکران میں عجیب و غریب ارضی کرشمے جنم لیتے ہیں۔

یہ یاد رہے کہ کراچی کے قریب ہی ایک اور سب ڈکشن علاقہ، ’’مری پہاڑیاں‘‘ ( Murray Ridge) بھی واقع ہے۔ اس نے انڈین۔ آسٹریلوی اور عرب پلیٹوں کے ٹکراؤ سے بحیرہ عرب میں جنم لیا۔ مگر اس سب ڈکشن علاقے میں پلیٹیں ایک دوسرے سے دائیں بائیں رگڑ کھاتی جانب شمال رواں دواں ہیں۔ اس لیے یہاں کتنی ہی شدت کا زلزلہ آئے‘ وہ زیادہ بلند سونامی پیدا نہیں کرے گا۔

کراچی اور دیگر بلوچستانی ساحلی مقامات کو مکران ٹرینچ میں آنے والے زلزلے سے خطرہ ہے۔ یہ سب ڈکشن زون ساحل بلوچستان سے صرف 100 کلومیٹر دور زیر سمندر واقع ہے۔

پاکستان کے شمال میں انڈین۔ آسٹریلوی اور یورشیائی پلیٹوں کا ٹکراؤ جاری ہے۔ اول الذکر پلیٹ ہر سال جانب شمال مشرق دو انچ سرک جاتی ہے۔ ان دونوں بڑی پلیٹوں کے تصادم سے کشمیر اور خیبر پختون خوا میں کئی چھوٹی بڑی فالٹ لائنیں پیدا ہو چکی جن کی چٹانیں بے حساب بوجھ برداشت کرتی ہیں۔

2005ء میں مظفر آبادکے قریب واقع ایک فالٹ لائن میں چٹانوں نے ٹکرائو کا دباؤ نہ سہارتے ہوئے وسیع پیمانے پر حرکت کی اور 7.6 میگا ٹیوڈ زلزلے کو جنم دیا۔ ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ انڈین۔ آسٹریلوی پلیٹ درمیان سے ٹوٹ رہی ہے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ درج بالا زلزلے نے اسی غیر معمولی عمل کے دباؤ سے جنم لیا۔

کراچی کو گھیرے میں لیے فالٹ لائنیں

پاکستانیوں کی اکثریت یہ سچائی نہیں جانتی کہ پاکستان کا بیشتر علاقہ فالٹ لائنوں پر آباد ہے۔ ان فالٹ لائنوں میں کسی بھی وقت زلزلہ آ کر جانی و مالی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

پاکستان ماہرین ارضیات نے فالٹ لائنوں کے مطابق وطن عزیز کو 19 علاقوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں سے چھ علاقوں …شمالی علاقہ جات‘ مکران‘ کوئٹہ‘ آزاد کشمیر‘ اسلام آباد‘ اور کوہستان نمک میں زلزلے آنے کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔ خطرے سے دوچار ان علاقوں میں بڑے شہر بھی واقع ہیں مثلاً کراچی‘ پشاور‘ ایبٹ آباد‘ کوئٹہ‘ گلگت‘ چترال ‘ مظفر آباد وغیرہ۔

کراچی کو بھی زلزلوں سے خطرہ ہے ۔وجہ یہ کہ یہ شہر یورشیائی ، انڈین ۔ آسٹریلوی اور عرب پلیٹوں کے نقطہ تصادم کے قریب ہی واقع ہے۔ مزید برآں بحیرہ عرب میں صومالیہ اور یمن کے قریب افریقی پلیٹ بھی درج بالا پلیٹوں سے ٹکرا رہی ہیں۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مالدیپ سے نیچے انڈین اور آسٹریلوی پلیٹیں الگ ہونے کے لیے پر تول رہی ہیں۔

چار پلیٹوں کے ٹکراؤ اور دو کی شکست و ریخت ہی نے بھارتی صوبہ گجرات سے لے کر مکران تک کئی چھوٹی بڑی فالٹ لائنیں پیدا کر دیں۔ ان میں سب سے بڑی ’’کچھ فالٹ لائن‘‘ ہے۔ یہ بھارتی شہر احمد آباد سے شروع ہو کر بھوج سے گزرتے ساحل مکران تک جاتی ہے۔

چار چھوٹی فالٹ لائنوں میں ’’اللہ بند‘‘ تو کراچی کے قریب ہی اسٹیل مل سے گزرتی ہے۔ ’’پب فالٹ لائن‘‘ بھی کراچی کے نزدیک واقع ہے۔ انہی فالٹ لائنوں کی وجہ سے ہی کراچی کے قریب چھوٹی پہاڑیاں بھی وجود میں آ گئیں۔

ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ ماضی میں یہ تمام فالٹ لائنیں زلزلوں کا مرکز رہی ہیں اور اب بھی ان میں چٹانوں کی حرکت جاری ہے۔ ماضی کے زلزلوں میں سب سے اہم دیبل کا زلزلہ ہے جو 893ء میں آیا تھا۔ تب تک مسلمان سندھ کا یہ اہم شہر فتح کر چکے تھے۔

اس زلزلے نے دیبل کے علاوہ منصورہ اور برہمن آباد کے شہروں کو بھی بہت نقصان پہنچایا۔ خیال ہے کہ تب ڈیڑھ لاکھ لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ زلزلے کی وجہ سے ہی دیبل زوال کا شکار ہو گیا۔ بعد ازاں یہ شہر بھنبھور کہلایا لیکن وہ بھی ماضی کی یاد گار بن چکا۔

بعض ارضیات دانوں کا خیال ہے کہ کراچی کی جغرافیائی پوزیشن فطری طور پر ایسی ہے کہ اسے سونامی بلکہ زلزلوں سے بھی زیادہ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن بیشتر ماہرین ارضیات ان سے اتفاق نہیں کرتے۔

مثال کے طور پر جنوری 2012ء میں جب دالبندین (بلوچستان) کے قریب زلزلہ آیا‘ تو کراچی میں بھی شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔ حالانکہ دالبندین کراچی سے 400 کلو میٹر دور واقع ہے۔ مزید برآں کراچی میں قانون کی پروا کیے بغیر عمارتوں و گھروںکی تعمیر بھی زلزلے کے اعتبار سے اسے خطرناک شہر بنا ڈالتی ہے۔

پچھلے سال وسطی فلپائن میں زلزلہ آیا‘ تو اس نے ’’73 ہزار‘‘ عمارتیں اور مکانات تباہ کر دیئے۔ بعدازاں تحقیق سے انکشاف ہوا کہ ان کی تعمیر میں ناقص بلڈنگ میٹریل اور فولاد استعمال ہوا تھا۔ چنانچہ عمارتیں 7.2 میگنا ٹیوڈ والا کم شدت کا زلزلہ برداشت نہ کر پائیں اور ڈھے گئیں۔

فلپائنی شہروں کی طرح کراچی میں بھی ناقص بلڈنگ میٹریل اور فولاد سے تیار کردہ عمارتوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اسی لیے ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ خدانخواستہ کراچی کے قریب محض 6 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ بھی آیا تو عمارتیں گرنے سے بہت تباہی پھیلنے کا امکان ہے۔ لاکھوں لوگ ملبے تلے دب جائیں گے۔

یاد رہے‘ کراچی کی مارکیٹوں میں دو اقسام کا اسٹیل اور سیمنٹ دستیاب ہے‘ عمدہ اور ناقص ۔ عمدہ سیمنٹ و اسٹیل معیاری سامان کے ذریعے سّکہ بند فیکٹریوں میں تیار ہوتا ہے۔ جبکہ چھوٹے کارخانے غیر معیاری سامان کی مدد سے ناقص سیمنٹ و اسٹیل تیار کرتے ہیں۔ اس ناقص میٹریل سے بنی عمارتیں زلزلے کے جھٹکے برداشت نہیں کر پاتیں اور چند سیکنڈ میں ڈھے جاتی ہیں۔

لہٰذا یہ نہایت ضروری ہے کہ کراچی میں مکان یا عمارت تعمیر کرنے والا ہر شخص اپنے ذہن میں یہ بات ضرور رکھے کہ شہر سرگرم فالٹ لائنوں کے قریب واقع ہے ۔ مستقبل قریب میں کسی بھی وقت ان لائنوں کا طبقتہ الارض الٹ پلٹ ہو سکتا ہے۔ تب زلزلے کے جھٹکے برداشت نہ کرنے والی عمارتیں اور گھر اپنے ہی مکینوں کا مدفن بن جائیں گے۔

کراچی والوں کے لیے خوش خبری

بعض ماہرین ارضیات اور موسمیات دانوں کا دعوی ہے کہ اگر مکران سب ڈکشن زون میں8.1 تا8.5 شدت کا زلزلہ آیا‘ تو جنم لینے والی سونامی پسنی‘ گوادر‘ جیوانی اور دیگر بلوچستانی‘ ایرانی و عمانی ساحلی شہروں کو ہی نشانہ بنائے گی۔ کراچی اس سے زیادہ متاثر نہیں ہو گا۔ وجہ یہ کہ شہر کا محل وقوع کچھ اس قسم کا ہے، سونامی تین چار کلو میٹر دور ہی کمزور پڑ جاتی ہے لیکن 9 میگنا ٹیوڈ سے بڑے زلزلے سے جنم لینے والی سونامی لامحالہ اپنی پوری خوفناکی سے کراچی پر حملہ آور ہوگی۔

یاد رہے‘ 9 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ 480 جبکہ 9.15  والا 800 میگا ٹن ایٹم بم کے پھٹنے جتنی شدت رکھتا ہے۔ اس زبردست شدت کا اندازہ یوں لگایئے کہ امریکا نے ناگا ساکی پر صرف 20 کلو ٹن والا ایٹم بم گرایا تھا۔ (1000 کلو ٹن برابر ایک میگا ٹن)۔ کشمیر میں آنے والا زلزلہ 7.6میگا ٹن یا 76ہزار کلو ٹن ٹی اینڈ ٹی طاقت والا تھا۔

1945ء میں جب زلزلہ و سونامی آئی تو کراچی کی آبادی بہت کم تھی۔ اب کراچی میں ڈیڑھ کروڑ انسان بستے ہیں جبکہ شہری منصوبہ بندی کا ابتر حال ہے۔ زلزلے و سونامی سے نمٹنے کا کوئی جامع منصوبہ موجود نہیں۔ یہی امر قدرتی آفت کو انتہائی تباہ کن بنا دیتا ہے۔ گویا اصل مسئلہ منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔

پاکستان کا محکمہ موسمیات

2005ء سے قبل وطن عزیز کا محکمہ موسمیات زیادہ فعال نہ تھا۔ مزید برآں پاکستانی ماہرین موسمیات کے زیر استعمال آلات بھی فرسودہ اور قدیم تھے۔ تاہم سونامی 2004ء اور زلزلہ 2005ء کے بعد حکومت پاکستان نے مناسب قدم اٹھاتے ہوئے نہ صرف ماہرین کو جدید ترین آلات مہیا کیے بلکہ محکمہ موسمیات کو جدید خطوط پر استوار کیا۔

اس وقت پاکستان بھر میں محکمے کے ’’20‘‘ ریموٹ سیسمک مانٹیرنگ اسٹیشن کام کر رہے ہیں۔ ان مراکز میں نصب جدید حساس سینسر پلیٹوں اور فالٹوں کی زیر زمین سرگرمیوں و تبدیلیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ نیز کراچی میں سونامی وارننگ مرکز بھی کام کر رہاہے۔

آیوڈین کی کمی… ماں اور بچے کی صحت و نشوونما کیلئے خطرے کی گھنٹی

$
0
0

آیوڈینکی کمی پاکستان میں عوامی صحت سے متعلق ایک سنجیدہ مسئلے کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 50 فیصد آیوڈین کی کمی کا شکار ہے۔

ماؤں میں آیوڈین کی کمی کی وجہ سے ہر سال تقریباً 2  ملین (20 لاکھ) بچے دماغی کمزوریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جبکہ بقیہ آبادی میں سے 72فیصد بچے آیوڈین کی کمی کا شکار ہیں۔ان حالات کے پیشِ نظر ’’ دی نیٹ ورک‘‘ نامی تنظیم نے عوام الناس میںآیوڈین کے بارے میں شعور پیدا کرنے کیلئے یونیسف کے تعاون سے “Advocating and promoting the consumption of iodized salt to combat iodine deficiency disorders” کے زیرعنوان ایک عوامی آگہی مہم کا آغاز کیا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ آیوڈین کی کمی ماں اور بچوں پر کیا منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کو زندگی بھر اپنے ’تھائی رائیڈ گلینڈز‘ کی نشونما کے لیے ’آیوڈین‘ کی ضرورت رہتی ہے۔ لیکن ماں بننے والی خاتون کے لیے آیوڈین اس لیے بہت ضروری ہے کہ رحم ِ مادر میں پلنے والے بچے کی ذہنی نشوونما کا دارومدار آیوڈین پر ہوتا ہے۔ مطالعاتی جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ ایسی مائیں جن میں دوران ِ حمل آیوڈین کی شرح کم ہوتی ہے، ان کے بچوں کی ذہنی استعداد اپنے ہمعصر ساتھیوں کی نسبت کم ہوتی ہے۔ یہ بچے اپنی کلاسوں میں املاء، گرامر اور دیگر امور میں دیگر بچوں کی طرح نتائج نہیں دے پاتے۔ تحقیق کے مطابق دوران ِ حمل آیوڈین کی کمی سے بچوں کی ذہنی نشوونما کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق دوران ِ حمل چند چھوٹی چھوٹی چیزوں کو نظر انداز کرنے سے بڑے بڑے مسائل جنم لے سکتے ہیں اور بچوں پرمنفی اثرات ڈالتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک نے کہا ہے کہ آیوڈین کی کمی پاکستان کا سنگین مسئلہ ہے۔ صوبہ سرحد، آزاد کشمیر اور فاٹا کے اضلاع سب سے زیادہ آیوڈین کی کمی کا شکار ہیں جو تشویشناک ہے کیونکہ آیوڈین کی کمی گلہڑ، رسولی اور دیگر بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ اس تشویشناک صورتحال کے باعث عالمی ادارہ خوراک، مائیکرو نیوٹرینٹ ، یونیسف اور وزارت صحت مشترکہ طور پر شمالی علاقہ جات اور دیگر علاقوں میں اس مسئلہ کو روکنے اور اس کا حل نکالنے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ منصوبہ کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ملک میں آیوڈینائزیشن کو فروغ دیا جائے اور ایسے طریقہ کار وضع کئے جائیں کہ یہ پروگرام زیادہ عرصہ تک جاری ر ہے۔

آیوڈین ملا نمک بنانے والے اداروں کی بھی تربیت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس قابل ہو سکیں کہ پوٹاشیم آیوڈیٹ اپنے ذرائع سے حاصل کر سکیں جبکہ محکمہ صحت کو آیوڈین ملے نمک کی فروخت اور تقسیم کے طریقہ کار کو بھی منصوبے کا حصہ بنانا چاہئے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا ایک اہم مسئلہ غیر متوازن خوراک کا استعمال یا غذائیت کی کمی سے ہونے والے امراض ہیں جن میں آیوڈین کی کمی سے ہونے والے امراض سر فہرست ہیں ۔ پاکستان کے بہت سے علاقے خاص طور پر شمالی علاقہ جات دنیا بھر میں آیوڈین کی کمی سے ہونے والے امراض کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2014/10/Iodine.jpg

آیوڈین ایک اہم غذائی عنصر ہے۔ آیوڈین غدود میں جا کر اہم کیمیائی مرکبات بناتی ہے۔آیوڈین ایک ایساکیمیائی مادہ ہے جو تھائرائیڈ ہارمون کی کیمیائی ساخت کا ایک لازمی جز ہے۔ تھائرائیڈ انسان کے جسم کی گردن کے سامنے والے حصے میں تتلی کی شکل سے مشابہہ ایک اہم ترین گلینڈ ہے۔یہ گلینڈ دو ہارمونز، تھائروکسین (T4) اور ٹرائی آیڈوتھائرونین (T3) بناتا ہے۔ یہ دونوں ہارمون خون میں شامل ہونے کے بعد مخصوص اعضاء (جگر، دل، دماغ اور گردوں) کی کارکردگی میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔

غذا چاہے نباتات سے حاصل کی جائے یا حیوانات سے، اس میں موجود آیوڈین کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ جس زمین میں وہ کاشت کئے جا رہے ہیں یا جس ماحول میں وہ پرورش پا رہے ہوتے ہیں اس میں آیوڈین کی کتنی مقدار موجود ہے۔ ایسی زمین جس میں آیوڈین کی کم مقدار موجود ہو اس پر اگنے والی فصلوں میں بھی آیوڈین کی کم مقدار موجود ہوتی ہے۔اس کے علاوہ آیوڈین کی کمی کا شکار زمین پر چگنے چرنے والے جانوروں میں بھی آیوڈین کی کمی ہو جاتی ہے۔

ہماری پوری زندگی کے لئے چائے کے چمچے سے بھی کم آیوڈین کی ضرورت ہوتی ہے۔ قدرتی طور پر آیوڈین کی ایک اچھی مقدار سمندری خوراک جیسے مچھلی،، جھینگے وغیرہ میںپائی جاتی ہے لیکن عام مشاہدے میں یہ بات دیکھنے میںآئی ہے کہ آج کل اس مہنگائی کے دور میں قدرتی آیوڈین کی حامل سبزیاں، مچھلی  اور گوشت وغیرہ عام مطلوبہ مقدار میں نہیں کھائے جا سکتے لہٰذا آیوڈین کی کمی ایک یقینی امر ہے اور اس کی کمی سے مختلف عوارض پیدا ہو جاتے ہیں،جن میں گلے کا گلہڑ صاف نظر آتا ہے، لیکن نظر نہ آنے والے عوارض بہت خطر ناک ہیں۔

آج لاکھوں افراد ذہنی اور جسمانی عوارض کی پسماندگی کا شکار ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان کو یہ بھی خبر نہیں ہے کہ ان کی یہ کیفیت آیو ڈین کی کمی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ایک بالغ فرد کو ہر روز 150 مائیکرو گرام آیوڈین کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف حاملہ ماؤں کو روزانہ 220 مائیکروگرام آیوڈین جبکہ دودھ پلانے والی ماؤں کو روزانہ 290 مائیکروگرام آیوڈین کی ضرورت ہوتی ہے۔ خوراک میں آیوڈین کا ایک بڑا ذریعہ دودھ ہے لیکن بہت سی مچھلیوں اور سبزیوں میں بھی آیوڈین پایا جاتا ہے۔ بازار میں ’آیوڈین ملا نمک‘ بھی بآسانی دستیاب ہے۔آیوڈین کی کمی درج ذیل نقائص پیدا کر سکتی ہے۔

٭ تھائرائیڈ گلینڈ کا سائز بڑھ جانا
٭ گلہڑ
٭ ذہانت میں بے حد کمی
٭ بانجھ پن
٭ حمل کا گرنا
٭ ہایپوتھائرائڈ ازم
٭ ماں کے شکم میں بچے کی موت
٭ بچے کا پیدائش سے ہی نابینا،گونگا،بہرا یا بدصورت ہونا
٭ دماغی نقائص
٭ عضلات اور نسوں کی کمزوری اورپیچیدگیاں

نمک سے اشیائے خورد و نوش نمکین اور خوش مزہ ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ شے ہے جو دنیا کے ہر گوشے میں پائی جاتی ہے ۔ نمک انسانی جسم کے ہر محلول میں موجود ہے۔پیشاب ہو یا فضلہ، خون ہو یا مادہِ تولید یا جسم کا کوئی بھی خلیہ ہو،نمک اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ جس نمک کے بارے میںہم بات کر رہے ہیں اسے ڈاکٹری اصطلاح میں سوڈیم کلورائیڈ کہا جاتا ہے۔ یہ قدرتی ذرات کا ایک مخصوص مرکب ہے جو انسانی جسم کے ہر ایک خلیہ (Cell) میں پایا جاتا ہے۔

نمک اور پانی جسم کے خلیات کی زندگی کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں جسم کے سبھی خلیات کی مخصوص کارکردگی کیلئے اہم ترین اجزاء ہیں۔ اہم نمکیات میں کلورائیڈ، کاربونیٹ،سلفیٹ اور بائی کاربونیٹ قابل ذکر ہیں جو سوڈیم،پوٹاشیم،کیلشیم اور میگنیشیم کے ساتھ گھل مل کر جسم کیلئے کام کرتے ہیں۔ یہ مختلف قسم کے نمکیات جسم میں پانی اور خون کا توازن برقرار رکھنے کے علاوہ ایک مناسب تیزابی ماحول قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نمک بالخصوص دانتوں اور ہڈیوں کو لازمی غذائی اجزا سپلائی کرنے کیلئے ضروری ہے اور یہ عضلات و نسوں کی فعالیت کیلئے بھی لازمی ہے۔

آیوڈین بھی آکسیجن ، ہائیڈروجن اور آئرن کی طرح ایک ایسا قدرتی کیمیائی جز ہے جو کئی کیمیائی صورتوں میں دستیاب ہوتا ہے۔ سب سے اہم آیوڈین، آیوڈیٹ اور آیوڈائیڈ ہے۔ یہ سمندری پانی میں وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ زمین اور سادہ تازہ پانی میں اس کی مقدارنہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اونچے پہاڑوں،ان کے دامن اور سیلابی علاقوں میں اس کی کمی ہوتی ہے۔ایک سروے کے مطابق آیوڈین کی کمی 130ممالک میں صحت عامہ کا ایک اہم اور توجہ طلب مسئلہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں740 ملین لوگ آیوڈین کی کمی کے شکار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی آبادی کے ایک تہائی حصہ کو آیوڈین کی کمی سے پیدا ہونے والے نقائص کا خطرہ لاحق ہے۔ گلہڑاور آیوڈین کی کمی سے پیدا ہونے والے دوسرے نقائص مثلاًذہنی کمزوری، نابیناپن،گونگا پن اور بہرا پن ہیں۔

آیوڈین کی ضروری مقدار اور اسے حاصل کرنے کے ذرائع

چونکہ تھائرائیڈ ہارمون صحت مند زندگی کیلئے لازمی ہے کئی بین الاقوامی گروپوں نے آیوڈین کی جو مقدار تعین کی ہے وہ عالمی ادارہ صحت یونیسیف اور آئی سی سی آئی ڈی ڈی جیسی تنظیموں سے میل کھاتی ہے۔ ایک فرد واحد کیلئے آیوڈین کی درج ذیل مقدار ضروری ہے۔

0 تا 7 سال تک…… 90 مائیکروگرام

7 تا 12 سال تک…… 120 مائیکروگرام

12 سال کے بعد…… 150 مائیکروگرام

حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی عورتوں میں …… 6200 مائیکروگرام

آیوڈین کا کچھ حصہ اشیائے خورد و نوش سے ملتا ہے۔ سمندری غذائوں میں آیوڈین وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ تازہ پانی میں پائی جانے والی مچھلی سے ہمیں اس پانی میں پائے جانے والی آیوڈین کی مقدار کا پتہ چل سکتا ہے۔ دوسری غذائوں میں آیوڈین کی مقدار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ غذائیں کہاں سے حاصل کی گئی ہیں اور ان میں کیا کیا ملایاگیا ہے۔ اگر کسی زمین میں آیوڈین موجود نہیں ہے تو اس زمین میں اُگنے والے پودوں میں بھی آیوڈین کی کمی ہوگی ۔دودھ اور دودھ سے بنی اشیائے خوردنی میں آیوڈین موجود ہوتا ہے بشرطیکہ دودھ دینے والے جانور کو غذائی صورت میں آیوڈین ملتا رہا ہو۔

آیوڈائز ڈسالٹ یعنی وہ نمک جس میں آیوڈین ملایاگیا ہو، ایک خصوصی نمک ہے جو آیوڈین کی کمی پورا کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جو نمک عام طور استعمال کیا جاتا تھااس میں قدرتی طور پر آیوڈین نہیں ہوتا تھا، اس لئے عام نمک میں آیوڈین ملایاگیا تاکہ عام انسان اس کی کمی کے شکار نہ ہوں۔ آپ آیوڈین نمک یا بغیر آیوڈین نمک خرید سکتے ہیں لیکن دونوں کی قیمت تقریباً مساوی ہے۔

عمومی طور ہمیں یہ پتہ نہیں چل سکتا ہے کہ ہم کتنا آیوڈین لے رہے ہیں کیونکہ بازاری غذائوں میں اس کی نشاندہی نہیں کی جاتی ہے۔ درج ذیل نقاط کو بنیاد بنا کرآپ سرسری اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کتنا آیوڈین لے رہے ہیں۔ کیا آپ کے نمک میں آیوڈین ہے ۔ روزانہ کتنا نمک استعمال کرتے ہیں ٭ وٹامنز یا کوئی سپلیمنٹ لے رہے ہیں جس میں آیوڈین موجود ہے۔ آپ کی روز مرہ ڈائٹ کیا ہے۔ کیا آپ گوشت، دودھ، دودھ سے بنی اشیاء اور سمندری غذا کھاتے ہیں۔

آیوڈین کی کمی سے عورت کے شکم میں پروان چڑھتے ہوئے بچے اور پھر نوزائیدہ شیر خوار بچے کی صحت پر زبردست منفی اور خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ایک عورت کے جسم میں آیوڈین کی کمی ہو تو وہ بانجھ پن،اسقاطِ حمل اور حمل کی کئی پیچیدگیوں کا شکار ہوسکتی ہے۔ تھائرائیڈ ہارمون دماغ کی نشو و نما کیلئے انتہائی ضروری ہے۔

اگر نوزائیدہ بچہ آیوڈین کی کمی کا شکار ہوا ہو تو وہ ذہنی اور جسمانی طورپر کمزور ہوتا ہے، اس کا وزن بھی کم ہوتا ہے اور اس کی زندگی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے جبکہ بچہ پوری طرح ذہنی طور پر ناکارہ ہونے کے علاوہ بہرا، گونگا، نابینا،پست قامت، فالج زدہ ہونے کے علاوہ عضلات اور نسوں کی پیچیدگیوں کا شکار ہوسکتا ہے۔ان مضر اثرات کے علاوہ آیوڈین کی کمی سے سماجی ڈھانچے پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں، ایسے علاقے اقتصادی طور بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔

عام آبادی میں آیوڈین کی مقدار کا اندازہ پیشاب کی جانچ سے لگایا جاسکتا ہے۔کسی بھی ذریعہ سے جو آیوڈین آپ کے جسم میںپہنچتا ہے اس کا90فیصد پیشاب کے ذریعہ خارج ہوتا ہے اس لئے پیشاب کا تجزیہ، آیوڈین کی مقدار کا پتہ لگانے کا ایک اہم طریقہ ہے۔ الٹراسائونڈ مشین کے ذریعہ تھائرائیڈ گلینڈ کے سائز کا پتہ چلتا ہے او ریہ آیوڈین کی کمی کا پتہ لگانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔

آیوڈین کی کمی دور کرنے کیلئے اسے عام نمک کے ساتھ آسانی سے ملایا جاسکتا ہے کیونکہ ہر انسان نمک کا استعمال کرتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ کے گھر میں کونسا نمک استعمال ہورہا ہے، آپ ہر روز نمک استعمال کرتے ہیں لیکن کیاآپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے نمک میں آیوڈین ہے یا نہیں۔

آپ ذرا اپنی شریک حیات سے پوچھیں کہ وہ آپ کو کونسا نمک کھلا رہی ہے۔اگر اسے نہیں معلوم توآپ ذرا کشٹ کریں ،ایک آلو کو چھیل کر اس کے قتلے بنائیں اور پھر ایک قتلے پر چٹکی بھر نمک چھڑکیں۔ تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد اگرآلو کے قتلے کا رنگ بینگنی ہو جائے توآپ کے نمک میں آیوڈین ہے اور اگرآلو کے قتلے کا رنگ نہیں بدلا توآپ بازار کا رخ کر یں، وہاں سے ’’آیوڈین ملا نمک‘‘ ( SALT IODISED) خرید کر لائیں اور کھانے پکانے میں یہی نمک استعمال کریں تاکہ آپ اورآپ کے اہل و عیال آیوڈین کی کمی کا شکار ہو کر عوارض میں مبتلا نہ ہوں۔

بھارتی فلمیں چور دروازے سے پاکستان آرہی ہیں

$
0
0

تعارف:

پاکستان خصوصاً پاکستانی پنجابی فلموں کے لیجنڈ اداکار مصطفیٰ قریشی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ساڑھے چھے سو سے زاید فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے مصطفیٰ قریشی نے زمانۂ طالب علمی ہی میں فلم ’لاکھوں میں ایک‘ سے اپنے کیریر کا آغاز کیا۔ تاریخ اسلام میں ایم اے کی سند رکھنے والے مصطفیٰ قریشی کا مقصد اداکاری نہیں تھا، لیکن قسمت کی دیوی نے خود ان کے در پر دستک دی۔ ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں بننے والی فلم ’’مولاجٹ‘‘ کے کردار نوری نت نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ایکسپریس نے مصطفی قریشی سے ملاقات کا اہتمام کیا، جس میں ہونے والی گفتگو قارئین کے لیے پیش ہے۔

ایکسپریس: آپ نے پاکستان کی فلمی صنعت کا عروج بھی دیکھا اور زوال بھی، اس صنعت کی تباہی کا ذمہ دار کسے سمجھتے ہیں؟

مصطفیٰ قریشی: پاکستان میں فلمی صنعت کے زوال کی زیادہ تر ذمے داری حکومت ہی پر عاید ہوتی ہے۔ اس مسئلے پر میری آصف علی زرداری سے اُن کے دورِ حکومت میں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ گورنر ہائوس پنجاب میں ان سے ملاقات میں اپنے ساتھ ریما، بہار بیگم، اسلم ڈار اور غلام محی الدین کو بھی لے گیا تھا۔ ہم نے انہیں فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے کئی تجاویز پیش کیں۔ انہوں نے بہت عزت و احترام سے ہماری تجاویز کو سنا۔ میں نے انہیں کچھ دستاویزات بھی پیش کیں، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان سب باتوں پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوا۔

ایکسپریس: فلمی صنعت کی بحالی کے لیے انفرادی اور حکومتی سطح پر کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟

مصطفی قریشی: حال ہی میں میری ملاقات پیپلزپارٹی کے راہ نما اویس مظفر اور شرمیلا فاروقی سے ہوئی۔ میں نے فلم انڈسٹری کی بحالی کے حوالے سے انہیں ایک تجویز دی اور آج ایک بار پھر ایکسپریس اخبار کے ذریعے اُن تک یہ تجویز پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ وہ تجویز یہ تھی کہ چوں کہ اب پیپلزپارٹی کی حکومت صرف سندھ میں ہے۔ وہ مرکز میں تو ’’نیٖ فڈیک‘‘ بنا نہیں سکتے تو سندھ کے حوالے سے سندھ فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (سیفڈیک) کے نام سے ادارہ قائم کریں۔ سیفڈیک کے تحت فلمیں، سنیما بنائیں جس میں نہ صرف سندھی بل کہ اُردو فلمیں بھی بنائی جائیں۔ اس تجویز کو دونوں راہ نمائوں نے بہت سراہا تھا اور شرمیلا فاروقی نے تو ڈائریکٹر جنرل ثقافت کو ہدایت بھی کی تھی کہ یہ اچھی تجویز ہے۔ آپ اس کی سمری بنا کر وزیر اعلی قائم علی شاہ کو بھیجیں۔

اُس کے بعد نہیں پتا کہ سمری بھیجی گئی یا نہیں بھیجی گئی، جس طرح میں نے سندھ میں SEFDEC بنانے کی بات کی اسی طرح دوسرے صوبوں میں بھی اسی طرح کے ادارے بنائے جائیں۔ دوسرے اداروں کی طرح فلم انڈسٹری کے لیے بھی بجٹ میں رقم مختص کی جائے۔ اس انڈسٹری کی تو سنہری تاریخ ہے۔ انڈسٹری میں بننے والی فلمیں کچھ ہی عرصے میں اس سے زیادہ کما کر دے دیں گی جتنی لاگت آئی ہے۔ ہمارے ٹیکنیشنز، ہدایت کاروں اور دیگر افراد کو فلم میکنگ میں آنے والی جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کرانے کے لیے پاکستان اور بیرون ملک تربیت دی جائے۔ انہیں جدید کیمرے اور پروڈکشن کے آلات دیے جائیں تو جلد ہی ہماری فلم انڈسٹری کا شمار بھی دنیا کی بہترین فلمی صنعتوں میں ہوگا۔

ایکسپریس: فارمولا فلموں کو آپ شوبز انڈسٹری کی زبوں حالی میں کس حد تک ذمہ دار قرار دیں گے؟

مصطفیٰ قریشی: برصغیر میں تو شروع سے یہی طریقہ چلا آرہا ہے کہ فلم ایک مخصوص فارمولے پر مشتمل ہوتی ہے، جس میں کچھ گانے، لڑائی، مزاح اور رومانس دکھائی دیتا ہے اور یہ فارمولا ہمارے ناظرین نے قبول بھی کر رکھا ہے۔

ہمارا المیہ یہ رہا کہ نام ور فن کار اپنا فن دوسروں کو منتقل کیے بغیر اس دار فانی سے کو چ کرگئے۔ انہوں نے اپنے جانشین تیار نہیں کیے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے فن کو اس طرح فروغ نہیں دیا گیا جس کے وہ حق دار تھے۔

ایکسپریس: پچھلے چند برسوں میں بڑے پردے پر کچھ فلموں کی کام یابی سے پاکستانی فلمی صنعت کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود سرمایہ کار اس صنعت میں پیسہ لگانے پر کیوں تیار نہیں؟

مصطفیٰ قریشی: دیکھیں پاکستان میں حال ہی میں جو فلمیں کام یاب ہوئیں اُن میں سے زیادہ تر ’’کسی ادارے‘‘ کے تعاون سے تیار کی گئی تھیں۔ ہر پروڈیوسر کروڑوں روپے کے بجٹ سے فلم نہیں بناسکتا۔ خصوصاً ان حالات میں۔ ایسا نہیں کہ پاکستان فلم انڈسٹری کا مستقبل روشن نہیں ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور میڈیا ہمارے فن کاروں کی حوصلہ افزائی کرے، تو پھر یقیناً سرمایہ دار بھی پیسہ لگانے میں تذبذب کا شکار نہیں ہوں گے۔

ایکسپریس: فلم مولا جٹ کے ولین کے کردار ’’نوری نت‘‘ نے آپ کو زبردست کام یابی دی۔ یہ کردار قبول کرتے وقت آپ کو اندازہ تھا کہ یہ لازوال بن جائے گا؟

مصطفیٰ قریشی: کسی بھی اداکار کو اپنا کردار قبول کرتے وقت اندازہ نہیں ہوتا کہ ہٹ ہوگا یا نہیں۔ یہ تو عوام کی رائے ہوتی ہے کہ وہ اس کو پاس کرے یا فیل کرے۔ ہمارے پاس ایسی کئی مثالیں ہیں کہ کسی اداکار کو اپنا کردار سمجھ میں نہیں آیا اور اسی کردار نے دوسرے اداکار کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ریلیز ہونے والی ’’مولاجٹ‘‘ میں عوام کو سیاسی صورت حال کا عکس نظر آیا تھا، اور حکم راں اس فلم سے خائف ہوگئے تھے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

مصطفیٰ قریشی: ضیا دور میں فلم انڈسٹری کو بڑا نقصان پہنچا۔ بہت پابندیاں تھیں۔ نہ صرف فلم بل کہ ٹی وی ڈراموں پر بھی بہت سختی تھی۔ میری فلم ’مولاجٹ‘ بھی اُسی دور میں بنی تھی۔ ضیاء الحق نے اس فلم کو دو تین بار دیکھنے کے بعد پابندی لگا دی۔ اُس کا کہنا تھا کہ یہ فلم ’وائلینس‘ پیدا کر رہی ہے، جب کہ سب سے بڑا ’وائلینٹ‘ وہ خود تھا۔ فلم کے پروڈیوسر سرور بھٹی نے ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر لیا جس کے بعد ساڑھے تین سال تک یہ فلم چلتی رہی۔ اس فلم اور نوری نت کے کردار پر مجھے پاکستان اور پاکستان سے باہر سینکڑوں ایوارڈ ملے۔

ایکسپریس: آپ ہمیشہ مختلف کردار ادا کرنے کے خواہش مند رہے لیکن فلم سازوں نے آپ کو ایک جیسے کرداروں کی پیش کش کی۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟

مصطفیٰ قریشی: ایسا نہیں ہے۔ میں نے فلموں میں مختلف کردار بھی ادا کیے۔ فلم’ آبرو‘ میں، میں محمد علی کا چچا بنا، حالاںکہ وہ مجھ سے عمر میں بڑے اور اداکاری میں بھی مجھ سے کافی سنیئر تھے۔ لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں اگر کوئی کردار ہٹ ہوجائے تو پھر فلم ساز اس اداکار کو اُسی نوعیت کے کرداروں کی آفر کرتے ہیں اور مولاجٹ کی کام یابی کے بعد میرے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ شائقین میرے کردار کو نہیں مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔ اور یہ میرا فرض ہے کہ میں اُن کی امیدوں پر پورا اتروں۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش سے سنیما انڈسٹری کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا موقع ملا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

مصطفیٰ قریشی: بھارتی فلموں کی نمائش کے لیے ایک مخصوص طبقے کے لیے تو پُرآسائش سنیما بنائے گئے ہیں لیکن چھوٹے سنیما آج بھی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ایک زمانے میں ساڑھے نو سو سنیما ہال ہوتے تھے، جن میں سے اکثر کو توڑ کر شاپنگ مال بنادیے گئے۔ کسی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ بہت سے دیہات اور چھوٹے شہروں میں ایک سنیما بھی نہیں ہے۔

کسی زمانے میں حیدرآباد میں 33 سنیما تھے آج دو یا تین ہیں۔ آج ایک غریب آدمی اس سستی تفریح سے محروم ہے۔ اس گُھٹی ہوئی فضا میں ان کے مرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ لانے کا موثر طریقہ فلم ہے۔ اس کے لیے حکومت کو ہمارے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا۔ ملک کے چند بڑے شہروں میں سینی پلیکس سنیما بنائے گئے ہیں لیکن اُن کا ٹکٹ صرف طبقۂ اشرافیہ ہی افورڈ کر سکتا ہے اور یہ سنیما پاکستانی فلمیں نہیں لگاتے، میری اُن تمام سنیما مالکان سے گذارش ہے کہ وہ پاکستانی فلمیں لگا کر اپنی حب الوطنی کا اظہار کریں۔

ایکسپریس: آپ بھارت کے ساتھ فلم ڈپلومیسی کی بات کرتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کے خلاف ہیں۔ اسے ہم کیا کہیں؟

مصطفیٰ قریشی: بھارت کے ساتھ ہمارے نہ صرف فلم بل کہ دوسرے تعلقات بھی استوار ہونے چاہییں، لیکن برابری کی بنیاد پر۔ میں نے حکومت پنجاب سے کئی بار گزارش کی کہ وہ بھارتی پنجاب میں پاکستانی فلموں کو فروغ دینے کے لیے کام کرے، کیوں کہ نہ صرف وہاں کے عوام بل کہ حکومت کی بھی خواہش ہے کہ پاکستانی پنجابی فلمیں وہاں آئیں۔ لیکن حکومت نے کبھی اس تجویز پر غور نہیں کیا۔ میرے نزدیک فلم کیا پاکستان میں بننے والی ہر چیز، اور اس دھرتی کی مٹی میرے لیے بہت مقدس ہے۔ آج کل جو بھارتی فلمیں آرہی ہیں ان کا کو ئی قانون نہیں ہے۔ یہ چور دروازے سے آرہی ہیں۔

یہ کاغذات میں خانہ پری کرتے ہیں کہ لندن، دبئی سے امپورٹ کی گئی ہیں۔ ہم بھارتی فلموں سے خائف نہیں ہیں۔ وہ کروڑوں روپے میں فلم بناتے ہیں۔ ہم لاکھوں روپے میں فلم بناتے ہیں۔ ماضی میںہم نے ثابت کیا ہے کہ ان کی میگا بجٹ فلموں کے باوجود ہماری فلمیں ہٹ ہوئیں۔ ہماری فلمیں اُن کی فلموں کے سامنے سلور جوبلی کرتی تھیں۔ بھارتی فلمیں بے شک آئیں، لیکن ہمیں حکومتی سپورٹ چاہیے۔

پاکستانی سرمایہ کار چاہییں جو کروڑوں روپے دوسرے کاروبار میں لگاتے ہیں۔ محب وطن سرمایہ دار فلمیں بنائیں، پاکستانی فن کاروں اور ثقافت کو دنیا میں روشناس کرائیں۔ ہم اپنی فلموں کے ذریعے دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم دہشت گرد نہیں امن پسند قوم ہیں۔ ہم محبت وامن کے متوالے ہیں۔ امن کی آشا کی خواہش ہماری بھی ہے لیکن امن کی آشا امن کا تماشا نہیں ہونی چاہیے۔

امن و محبت ایک طرفہ نہیں ہوتی۔ آج جو امن کی آشا چل رہی ہے وہ یک طرفہ ہے۔ بھارت نے اپنی فلموں سے ہم پر ثقافتی یلغار کی ہوئی ہے۔ ہمیں اپنے ملک کا وقار، اپنے فن کاروں کا روزگار ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ مجھے پاکستانی میڈیا سے بھی شکایت ہے کہ جتنا فروغ وہ بھارتی فلموں، بھارتی فن کاروں، بھارتی پروگرامز کو دیتا ہے اتنا پاکستانیوں کو نہیں دیتا۔ ہمارا میڈیا ہیڈلائنز میں خبر دیتا ہے کہ امیتابھ بچن کے پیٹ میں درد ہوگیا، ریکھا 55 سال کی ہوگئیں، پریانکا چوپڑا کا فلاں سے افیئر چل رہا ہے۔ ہمارے کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے والے فن کاروں کی خبر کہیں نظر نہیں آتی۔ اُن کے مر جانے کے بعد رسم پوری کرنے کے لیے مختصر سی خبر چلا دی جاتی ہے۔ یہ پاکستان سے محبت کا اظہار نہیں ہے، یہ حب الوطنی نہیں ہے۔

ایکسپریس:کئی فلمی اداکار بڑے پردے سے ٹیلیویژن اسکرین کی طرف آئے۔ ان میں جاوید شیخ اور ندیم بھی شامل ہیں۔ آپ نے بھی چھوٹی اسکرین کا تجربہ کیا۔ دونوں میں کیا فرق دیکھتے ہیں اور یہ تجربہ کیسا رہا؟

مصطفیٰ قریشی: سنیما اور ٹیلی ویژن دونوں کا اسکوپ یکسر مختلف ہے۔ سنیما میں فلم دیکھنے کے لیے لوگ اپنا قیمتی وقت نکال کر، گرمی، سردی میں لائنوں میں کھڑے ہوکر تین گھنٹے کی فلم دیکھنے کے لیے پیسے خرچ کر تے ہیں۔ فلم کے فن کاروں کو اسکرین پر دیکھنے کے لیے لوگ خود آتے ہیں، جب کہ ٹی وی میں جو فن کار کام کرتے ہیں وہ خود ٹی وی سیٹ کے ذریعے لوگوں کے گھروں تک پہنچتے ہیں۔ ٹی وی ڈراما دیکھنے کے ساتھ ساتھ لوگ اپنے دوسرے کام بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی لیے معاشرے پر فلم کے اثرات زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔ اور ناظرین پر ٹی وی ڈراموں کی نسبت فلم کا اثر زیادہ عرصے تک رہتا ہے۔

ایکسپریس: پاکستانی ڈراموں کا مستقبل روشن ہے یا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی یکسانیت کا شکار ہورہے ہیں؟

مصطفیٰ قریشی: پاکستانی ڈراموں کا مستقبل ہی نہیں حال بھی بہت روشن ہے۔ ہمارے یہاں انوکھے اور اچھوتے موضوعات پر ڈرامے بن رہے ہیں۔ نئے آنے والے اداکار، ہدایت کار بہت اچھا کام کر رہے ہیں، لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ ہمارے ڈرامے یکسانیت کا شکار ہو رہے ہیں۔ بیرون ملک سے فلم میکنگ اور ٹی وی پروڈکشن کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بے شک اچھے اور منفرد ڈرامے اور فلمیں بنا رہے ہیں۔ میں اُن کی کام یابی کے لیے دعا گو ہوں۔

ایکسپریس: پاکستان میں تھیٹر زوال پذیر ہے۔ اس بارے میں کچھ کہیں۔

مصطفیٰ قریشی: کسی زمانے میں ہمارے ہاں بہت اچھا تھیٹر کیا جاتا تھا۔ لیکن اب ہم اصل تھیٹر کو چھوڑ کر جگت بازی کی طرف چلے گئے ہیں۔ اگر تھیٹر کو آرٹس کونسل کی سرپرستی میں دے دیا جائے تو اس دم توڑتے کلچر کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ بس اسے پرکھنے اور فن کاروں کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس: کئی پاکستانی فن کار خصوصاً فلمی دنیا کے لوگ بھارتی فلموں میں کام کررہے ہیں۔ کیا آپ کو وہاں سے کوئی آفر ہوئی؟

مصطفیٰ قریشی: بھارت میں ہمارے فن کاروں کو اُن کا فن دیکھ کر بلوایا جاتا ہے اور وہ ہم پر کوئی احسان نہیں کرتے، کیوں کہ وہ ہمارے فن کاروں کی وجہ سے کروڑوں روپے کماتے بھی ہیں۔ جہاں تک وہاں کام کرنے کی آفر کی بات ہے تو تقریباً ہر فن کار کو بھارت میں کام کرنے کی آفر ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بھارت میں کام کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن قومی وقار کی قیمت پر نہیں۔ قومی وقار کو قائم رکھتے ہوئے آپ بھارت کیا دنیا کے کسی بھی ملک میں کام کرسکتے ہیں۔ اس سے پاکستان کا نام بھی روشن ہوگا۔

اگر میں بھارت میں کام کرنے کی آفر قبول کرتا ہوں تو اس بات پر انہیں فخر ہونا چاہیے کہ میں نے اُن کی آفر کو قبول کیا۔ وہ ہمارے فن کاروں کو وہ عزت نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہاں کے ہیرو کو وہ ایکسٹرارول میں لیتے ہیں، تو میں ایسے کام پر لعنت بھیجتا ہوں۔ عام طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فن کاروں کی سرحد نہیں ہوتی۔ میں اس بات سے متفق نہیں، فن کاروں کی سرحد ہوتی ہے۔ یہ سرحد اپنے ملک سے وفاداری ہے، لیکن فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر لتا کو ہم بچپن سے سن رہے ہیں۔ کبھی دیکھا نہیں کبھی ملاقات نہیں، لیکن وہ فن کے ذریعے ہمارے پاس ہیں۔

ایکسپریس: پاکستانی کے موجودہ سیاسی حالات اور دھرنے کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟

مصطفی قریشی: میں ان دھرنوں کی حمایت کرتا ہوں۔ جب قانون کے مطابق انصاف نہ ملے تو احتجاج اور مطالبات پیش کرنے کا یہی طریقہ رہ جاتا ہے۔ معیشت کو نقصان دھرنوں کی وجہ سے نہیں حکومت کی وجہ سے ہوا ہے۔ وہ لوگ تو پُرامن طریقے سے ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں، جس دن عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر امریکا کو للکارا، اُس دن مجھے اُس میں بھٹو کی روح نظر آئی۔ بھٹو نے بھی پنڈی کے راجا بازار میں اسی طرح امریکا کو للکارا تھا ۔ اسی پاداش میں انہیں پھانسی پر چڑھایا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے قائدین و کارکنان کو چاہیے کہ عمران خان کا ساتھ دیں۔ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو دو بھائیوں نے قید کیا ہوا ہے۔ ان دو افراد کو بچانے کے لیے پوری قوم کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

یہ لوگ دن رات جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں، جمہوریت کے لیے قربانی دینے کی باتیں کرتے ہیں تو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ عوام کے لیے یہ چھوٹی سی قربانی بھی دے دیں۔ آئین اور قانون وہ اپنے لیے تو سمجھتے ہیں دوسروں کے لیے نہیں۔ میں تو ڈاکٹر طاہرالقادری کو سنتا رہا ہوں ۔ آئین کی کتاب اٹھارہ کروڑ عوام میں سے کچھ ہی لوگوں نے پڑھی ہوگی۔ میں نے خود نہیں پڑھی۔ لیکن اس دھرنے سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ جب ڈاکٹر صاحب آئین کی شقیں پڑھ کر سناتے اور سمجھاتے ہیں تو ہماری آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ آئین کیا کہتا ہے اور ہو کیا رہا ہے۔ ان کے مطالبات بالکل جائز ہیں ۔ پارلیمینٹیرینز جمہوریت کو خود ڈی ریل کر رہے ہیں۔

ستر فی صد پارلیمینٹیرینز منفی سیاست کر رہے ہیں۔ یہ چور دروازے سے آئے ہیں۔ منفی سیاست کرنے والے سیاست داں بہت شاطر ہوتے ہیں۔ ہوا کے رُخ پر چلتے ہیں۔ ہمارے پارلیمینٹرینز پُر آسائش زندگی کے عادی ہیں۔ اب آپ سیلاب کی مثال ہی لے لیں کہ محکمۂ موسمیات کے انتباہ کے باوجود حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے۔ انہیں پتا ہے کہ ہر سال سیلاب آتا ہے۔ انہیں چاہیے تھا کہ موٹر وے، میڑو ٹرین جیسے منصوبوں پر اربوں روپیہ ضایع کرنے کے بہ جائے چھوٹے چھوٹے ڈیم بناتے۔ سیلاب بھارت میں بھی آتا ہے لیکن وہ اسی سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کرکے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔

انہوں نے تو اپنی شوگر ملیں، زمینیں بچانے کے لیے بند توڑ دیے، کئی بستیوں، دیہات کو ڈبو دیا ہے۔ یہ حکومت کی ناکامی ہی نہیں بل کہ نا اہلی ہے۔ ان کا سارا زور اپنی حکومت بچانے پر ہے انہیں عوام کے مفاد سے کوئی غرض نہیں ہے۔ موٹر وے بے شک بنائیں لیکن ہر کام کو ترجیحی بنیادوں پر کرنا چاہیے پہلے آپ تعلیم اور صحت کے مسائل کو حل کریں۔ میٹرو بس سے پہلے بھی لوگ سفر کر ہی رہے تھے، لیکن اس کام میں اربوں روپے کمیشن مل رہا ہے۔ اس معاملے میں عدالت کو ازخود نوٹس لینا چاہیے۔

ایکسپریس: آپ کا پاکستان پیپلزپارٹی سے قریبی تعلق رہا ہے۔ آپ ذوالفقار بھٹو کے حامی رہے، بے نظیر بھٹو کے ساتھ کام کیا، اس وقت کی پیپلز پارٹی اور آج کی پیپلز پارٹی میں کیا فرق دیکھتے ہیں؟

مصطفیٰ قریشی: میں زمانۂ طالب علمی ہی سے ذوالفقارعلی بھٹو کا بہت بڑا مداح تھا۔ میں اس وقت ریڈیو میں کام کرتا تھا، جہاں اکثر میر رسول بخش تالپور آیا کرتے تھے۔ ان سے ہمارا خاندانی تعلق بھی تھا۔ ایک دن وہ مجھے حیدرآباد ٹھنڈی سڑک پر واقع ایک ہوٹل میں لے گئے جہاں ذوالفقار علی بھٹو کی ایک میٹنگ تھی۔ اُس وقت تک پاکستان پیپلزپارٹی وجود میں نہیں آئی تھی۔ میں نے میٹنگ کی ساری کارروائی بڑے انہماک سے سنی، بھٹو کو قریب سے دیکھا اور اُن کی پارٹی کے منشور کو جانا۔ ہم تو پہلے ہی بھٹو کے عاشق تھے۔

پاکستان اور جمہوریت کے حوالے سے اُن کے خیالات نے بھی بہت متاثر کیا۔ تقریب ختم ہونے کے بعد جب میں نے اُن سے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میر صاحب نے بھٹو مرحوم سے کچھ اس طرح میرا تعارف کروایا ’’بابا! ریڈیو فن کار‘‘ یہ سن کر بھٹو صاحب نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور آگے بڑھ کر گلے لگا لیا۔ اُس گلے لگانے کا لمس آج بھی محسوس کرتا ہوں اور تاحیات میں اُسے نہیں بھول سکتا۔ پھر پنجاب میں ڈاکٹر مبشر کے گھر پر پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی گئی اور ہم تمام تحریکوں اور جلسے جلوسوں میں بھٹو صاحب کے ساتھ رہے۔ جہاں تک بات ہے بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کی تو وہ ایک انقلاب تھا، ظلم و بربریت کے خلاف، آمرانہ حکومتوں کے خلاف، اُس کے بعد میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی رہا۔

انہوں نے مجھے پاکستان پیپلزکلچرل ونگ کا چیئر مین بنایا۔ لیکن بعد میں سابق چیئر مین کو دوبارہ یہ عہدہ دے دیا گیا اور مجھے پیپلز کلچرل ونگ پنجاب کا چیئر مین بنایا گیا، جو میں آج تک ہوں۔ یہ کلچرل ونگ ایک طرح سے دانش وروں، فن کاروں، ادیبوں، شاعروں کے لیے ایک تھنک ٹینک تھا، جس کے تحت ہم مختلف موضوعات پر سیمینار منعقد کرتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ کافی سال چلتا رہا لیکن بی بی کی شہادت کے بعد حالات تبدیل ہوگئے۔ جب میں نے دیکھا کہ میری کوئی اہمیت اور قدر نہیں ہے تو خاموشی اختیار کرلی۔

پیپلز پارٹی سے میرا تعلق آج بھی ہے، لیکن مجھے آج کی پیپلزپارٹی سے کچھ تحفظات ہیں۔ میری جتنی پذیرائی شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کرتی تھیں وہ اہمیت بعد میں نہیں دی گئی۔ جہاں تک بلاول بھٹو کی بات ہے تو میری ابھی تک اُن سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی میں اس خوش فہمی میں ہوں کہ وہ مجھے جانتے ہیں۔ البتہ دوسرے راہ نما ضرور مجھے جانتے ہیں اور پیپلزپارٹی کے نئے قائد سے میرا تعارف کروانا اُن کا کام ہے۔ حال ہی میں بلاول ہائوس میں فلم انڈسٹری کے مسئلے پر ایک میٹنگ کروائی گئی جس میں ’’ڈھائی‘‘ آرٹسٹ شامل تھے۔

جاوید شیخ کا تو فلم سے گہرا تعلق ہے، اسی طرح زیبا بختیار نے بھی فلمیں بنائی ہیں اور ایک دو فلموں میں کام بھی کیا ہے۔ اسی طرح ہمایوں سعید نے دو فلمیں بنائی ہیں اور ایک دوفلموں میں کام کیا ہے۔ اسی لیے میں نے کہا کہ اس میٹنگ میں ’’ڈھائی‘‘ آرٹسٹ شریک تھے۔ میٹنگ کروانے والو ں کو سوچنا چاہیے تھا کہ ندیم، مصطفی قریشی، سنگیتا، سید نور، گلاب چانڈیو، صلاح الدین تینو، قیصر نظامانی جیسے سنیئر فن کار بھی کراچی میں ہیں۔

فلمی صنعت کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دینے والے کچھ پروڈیوسر اور ڈسٹری بیوٹر ز بھی کراچی میں ہیں۔ انہیں بلاول بھٹو کے شایان شان میٹنگ کروانی چاہیے تھی۔ بلاول، بھٹو شہید کا نواسہ اور بے نظیر بھٹو شہید کا بیٹا ہے۔ میرے نزدیک میٹنگ کروانے والوں نے بلاول بھٹو کی توہین کی ہے۔ فلم انڈسٹری کے مسائل پر ہونے والی میٹنگ میں اس صنعت کے لیے خدمات سر انجام دینے والے فن کاروں کو ضرور بلانا چاہیے تھا۔ کیوں کہ انہوں نے پاکستان فلم انڈسٹری کا عروج و زوال دونوں دیکھا ہے۔

ایکسپریس: ذوالفقارعلی بھٹو نے نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (نیفڈیک) قائم کی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ادارہ بند نہیں ہوتا تو آج فلم انڈسٹری کا شمار پاکستان کی منافع بخش صنعتوں میں ہوتا؟

مصطفی قریشی: ذوالفقارعلی بھٹوکو ثقافت سے دل چسپی تھی۔ پاکستان میں قائم کیے گئے تمام آرٹس کونسل بھٹو صاحب ہی نے بنائے تھے۔ لوک ورثہ، اکیڈمی آف لیٹرز، پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کا قیام بھی بھٹو صاحب کی کوششوں سے عمل میں آیا۔ انہوں نے پاکستان میں فلمی صنعت کے فروغ کے لیے نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (نیفڈیک) کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جس کے تحت کچھ فلمیں بھی بنائی گئیں۔

اس ادارے کے تحت فلمی صنعت میں اچھی کارکردگی کے حامل افراد کو ہر سال نیشنل ایوارڈ دیے جاتے تھے۔ وہ فلم انڈسٹری کے عروج کا دور تھا۔ بعد میں آنے والوں نے اتنے اچھے ادارے کو غیرفعال قرار دے کر محض اس لیے بند کردیا کیوں کہ یہ بھٹو کا بنایا ہوا ادارہ تھا۔ اگر نیفڈیک کو ختم نہیں کیا جاتا تو یقیناً آج فلمی صنعت اپنے عروج پر ہوتی۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ ایسے ادارے قائم کیے جائیں۔ جو فلم انڈسٹری کے فروغ کے لیے کام کریں۔ فلم انڈسٹری تو ہمیشہ منافع بخش صنعتوں میں شمار ہوتی ہے، جس دور میں سالانہ ڈیرھ سو دو سو فلمیں بنتی تھیں ریونیو کی مد میں حکومتی خزانے میں کروڑوں روپے جاتے تھے۔

فلم میں کام کرنے والے ٹیکنیشنز، اداکار، ہدایت کار، ڈسٹری بیوشن سمیت 32 شعبوں میں کام کرنے والے سب لوگ انکم ٹیکس ادا کرتے تھے۔ آج بھی دو چار فلمیں جو بن رہی ہیں وہ بھی حکومت کو ٹیکس ادا کر رہی ہیں۔ کئی بار یہ بات حکومت کے علم میں لائی گئی ہے۔ اس صنعت کی تباہی سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں، ہمارے کئی فن کار کسمپرسی کی حالت میں انتقال کرچکے ہیں۔ اپنے عروج کے دور میں فلم انڈسٹری نے دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت کروائی تھی۔

ایکسپریس: کبھی خود فلم بنانے کا خیال نہیں آیا؟

مصطفیٰ قریشی: بھٹو کے دور میں ’ندیا کے پار‘ کے نام سے ایک فلم پروڈیوس کی تھی۔ یہ مغلیہ دور کے پس منظر کی میوزیکل فلم تھی، جس میں ایک طرف تان سین ہے جو درباری گویا ہے، نو رتنوں میں سے ایک رتن ہے۔ دوسری طرف جان خان، سورج خان ہیں جو بہت اچھے لیکن غریب گائک ہیں، عوامی فن کار ہیں۔ اس فلم میں عوامی فن کار اور درباری فن کار کے درمیان چپقلش دکھائی گئی تھی۔ اس فلم میں پاکستان کے تما م نام ور کلاسیکل فن کار اور اداکار شامل تھے، لیکن ریلیز کے لیے غلط تاریخوں کا انتخاب اور کچھ لوگوں کے دھوکے کی وجہ سے یہ فلم ناکام رہی اور مجھے نقصان ہوا۔ دوبارہ کئی بار فلم بنانے کا ارادہ کیا، لیکن مصروفیات کی وجہ اس منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہناسکا۔

ایکسپریس: آپ نے سلطان راہی کے ساتھ ایک عرصہ کام کیا۔ انھیں آپ نے کیسا انسان پایا؟

مصطفیٰ قریشی: فلم کے کردار میں تو ہم ایک دوسرے کے دشمن تھے، لیکن حقیقت میں بہت، دوستی، محبت، ادب آداب تھا۔ وہ مجھ سے سنیئر تھے، وہ بہت اچھے انسان تھے۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے کہ ملک خصوصاً پنجاب میں تشدد کو بڑھاوا دینے میں پنجابی فلموں نے بھی کردار ادا کیا۔ آپ اس رائے سے کس حد تک متفق ہیں۔

مصطفیٰ قریشی: یہ الزام قطعی بے بنیاد ہے کہ پاکستان میں تشدد کو فلموں نے بڑھاوا دیا۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ میں اس بات سے قطعی متفق نہیں۔ فلم معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔ دنیا کا ہر رائٹر اطراف میں پیش آنے والے واقعات سے متاثر ہوتا ہے۔ ہمارا رائٹر بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔ ہیرو نیکی کی اور ولین بدی کی علامت ہے۔ نیکی اور بدی کی جنگ تو ازل سے چلی آرہی ہے اور ابد تک رہے گی ۔ جب سنیما کا وجود بھی نہیں تھا، جب دنیا قائم ہوئی تھی، اس وقت بھی ہابیل قتل ہوا تھا۔

ہمارے یہاں برادریوں اور قبائل میں جدی پشتی دشمنیاں چلی آرہی ہیں۔ تو وہ انتقامی جذبہ ہوتا ہے اور ہمارے یہاں اسی موضوع پر پنجابی میں زیادہ فلمیں بنی ہیں، جن کے آخر میں یہی پیغام دیا گیا ہے کہ اس انتقام سے دونوں طرف قتال ہوتا ہے۔ اس سے گُریز کیا جائے۔ نیکی و بدی، خیرو شر کی ایک جنگ جاری ہے۔ نیکی اجاگر کرنے کے لیے آپ کو بدی دکھانا پڑے گی۔ ہمارا رائٹر یہاں ہونے والی ناانصافی، ظلم و بربریت پر کہانی لکھتا ہے۔ وہ اپنے قلم سے معاشرے میں ظلم کرنے والے جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ داروں کے اصل چہرے سامنے لاتا ہے۔ جب قانون مظلوموں کا ساتھ نہیں دیتا تو پھر ہمارا ہیرو باغی ہوجا تا ہے اور گنڈاسا اٹھا لیتا ہے۔ بقول قتیل شفائیِ

دنیا میں قتیل اُس سا منافق نہیں کوئی

جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

تو ہم فلم کے ذریعے معاشرے کے بُرے کرداروں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ ہم ولین کا انجام بُرا دکھا تے ہیں۔ اس سے لوگوں کا ذہن تبدیل ہوتا ہے۔ فلم تو ایسا میڈیم ہے جس سے آپ پوری دنیا کو اپنے ملک کا روشن چہرہ دکھا سکتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ بھارت میں ہم سے زیادہ غربت ہے لیکن وہ اپنی فلموں میں دکھاتے ہیں کہ ہر طرف خوش حالی کا دور دورہ ہے۔ لوگ ہنس رہے ہیں، گارہے ہیں، غریبی کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ وہ اپنی فلموں میں بھارت کو حسین ترین دکھاتے ہیں۔ ہمارا ملک تو بھارت سے ہر لحاظ سے بہت اچھا اور دنیا کا حسین ترین ملک ہے، لیکن یہ ہم فلم کے ذریعے ہی دنیا کو دکھا سکتے ہیں۔ ہماری فلموں کے موضوعات بھی بہت اچھے ہوتے ہیں، ان میں انسانیت، احترامِ آدمیت اور امن کا پیغام ہی ہوتا ہے۔

ایکسپریس: آپ کی اہلیہ روبینہ قریشی سندھی کی معروف گلوکارہ رہی ہیں۔ وہ آپ کی زندگی میں کیسے آئیں؟

مصطفیٰ قریشی: روبینہ سے میری ملاقات حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن میں ہوئی۔ وہ شعبہ موسیقی میں تھیں اور میں ڈرامے کے شعبے میں تھا۔ وہیں ہماری ذہنی ہم آہنگی ہوئی۔ دونوں کی پسند پر کسی نے اعتراض بھی نہیں کیا اور گھروالوں کی رضامندی سے ہم نے شادی کرلی۔ میں آپ کو بتائوں کہ روبینہ بہت ہی باصلاحیت فن کارہ ہیں۔ بھٹوصاحب اِن کے مداح تھے۔ اس زمانے میں جب بھی غیرملکی سربراہان پاکستان کے دورے پر آتے تو وزیراعظم ہائوس یا لاڑکانہ میں المرتضی ہائوس میں ایک گھنٹے کا صوفیانہ کلام پر مشتمل موسیقی کا پروگرام منعقد کیا جاتا، جس میں روبینہ کی شرکت لازمی تھی۔

روبینہ کو بھٹو صاحب نے سرکاری وفود کے ساتھ ترکی، انڈونیشیا اور چین بھیجا، جہاں انہوں نے ان ممالک کی سرکاری زبان میں گانے گا کر دوستی کے رشتوں کو مضبوط کیا۔ وہ پاکستان کی تقریباً ہر علاقائی زبان میں ہزاروں گانے گاچکی ہیں، انہیں ’’بُلبُلِِ مہران‘‘ کا خطاب ملا تھا، لیکن آج تک اُنہیں ’پرائڈ آف پرفارمینس‘ نہیں ملا۔ آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں مسلسل تین سال پرائڈ آف پرفارمینس کے لیے اُن کی سی وی منگوائی گئی، لیکن ہر بار اُن کا نام نہیں آیا، جس سے دل برداشتہ ہوکر انہوں نے کہہ دیا ہے کہ ’’اب اگر میرے مرنے کے بعد بھی پرائڈ آف پرفارمینس دیا جائے تو اسے کوئی وصول نہ کرے۔ یہ میری وصیت ہے۔ یہ ایک فن کار کی بے عزتی ہے۔‘‘

اسی طرح میرے بیٹے عامر قریشی کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس کی صلاحیتوں کو درست طریقے سے استعمال نہیں کیا جا رہا۔ اُس کو وہ اہمیت نہیں مل رہی جس کا وہ حق دار ہے۔ عامر تین سال انگلینڈ میں اپنی تعلیم مکمل کرکے واپس آیا ہے۔ متعدد ڈراما سیریلز کے ٹائٹل سونگ اسی کے بنائے ہوئے ہیں۔ کئی پاکستانی ڈراموں اور بی بی سی کے زیراہتمام بننے والی ایک فلم میں بھی اداکاری کے جوہر دکھاچکا ہے۔ فلم ’سایۂ ذولجلال‘ میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ موسیقی ماں سے اور اداکاری کی صلاحیتیں مجھ سے ملی ہیں۔ لیکن وہ گروہ بندیوں کا شکار ہے۔

ایکسپریس: آپ کے پسندیدہ ادیب اور شاعر۔

مصطفیٰ قریشی: پسندیدہ ادیب منٹو اور کرشن چندر ہیں جب کہ فیٖض احمد فیض اور پروین شاکر کو بہت شوق سے پڑھتا ہوں۔

ایکسپریس: پسندیدہ گلوکار، گلوکارہ۔

مصطفیٰ قریشی: پاکستانی گلوکاروں میں نور جہاں، مہدی حسن جیسا کوئی نہیں اور بھارتی فن کاروں کی بات کی جائے تو لتا اور محمد رفیع کا جواب نہیں ہے۔

سہاروں نے کردیا بے سہارا

$
0
0

اس رنگارنگ دنیا میں کیسے کیسے انسان بستے ہیں۔ ہر انسان کہانی ہے، چلتی پھرتی کہانی۔ کوئی پل دو پل ان کے پاس ٹھہر جائے تو کہانیوں کا انبار لگ جاتا ہے اور پھر یہ انتخاب مشکل ہوجاتا ہے کہ کون سی کہانی صفحۂ قرطاس پر بکھیری جائے اور کون سی رد کردی جائے۔

کون سی سچی ہے اور کس میں مبالغہ اور رنگ آمیزی ہے۔ انہی میں بعض ایسے ہوتے ہیں جن پر اعتبار کرنے کو جی چاہتا ہے اور اگر اصرار کرنے پر وہ اپنی داستان سنانے لگیں تو یوں لگتا ہے کہ وہ کچھ سچائیاں دانستہ چھپا رہے ہیں۔ ان کے چہروں پر کندہ کہانی خود پکار رہی ہوتی ہے کہ اسے سنا جائے اور پھر جب وہ کہانی سن لی جائے تو دنیا کے ہر رشتے پر سے اعتبار اٹھنے لگتا ہے۔ ایثار، قربانی، خلوص و وفا سب کچھ مصنوعی لگنے لگتے ہیں۔

ایسی ایک کہانی ان کی بھی ہے۔ وہ مجھے ایک جگہ فٹ پاتھ پر بچوں کی ٹافیاں، بسکٹ بیچتے ہوئے نظر آگئے۔ لو پاگل ہوئی گھوم رہی تھی اور ان کے چہرے پر پسینہ بہہ رہا تھا۔ ٹریفک کے دھویں نے ان کی سفید داڑھی رنگ بدل ڈالا تھا۔ چشمے پر گرد کی ایک موٹی تہہ جمی ہوئی تھی اور وہ سر جھکائے نہ جانے کیا سوچ رہے تھے کہ میں ان کے قریب پہنچا اور پھر وہ میرے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوگئے دوسرے ہی لمحے انھوں نے بہ مشکل اٹھتے ہوئے مجھ سے دریافت کیا:

بیٹا! تم نے میری تصویر کیوں لی ہے؟

’’ویسے ہی، آپ سے کہانی سنیں گے اور پھر لوگوں کو سنا دیں گے‘‘۔ میرا جواب تھا۔ ’’نہیں بیٹا، یہ غضب نہ کرنا۔ میری تصویر نہ چھاپنا اور پھر میری تو کوئی کہانی بھی نہیں ہے جو تم سنو‘‘۔

انھیں منانے میں بہت وقت لگا اور پھر ہم میں ایک معاہدہ ہوگیا کہ میں ان کی تصویر نہیں چھاپوں گا اور وہ مجھے اپنی کہانی سنائیں گے۔ سنیے وہ کیا کہتے ہیں:

میں حیدرآباد (دکن) میں پیدا ہوا۔ میرے والد کی چھوٹی سی دکان تھی۔ ہماری کوئی اتنی لمبی چوڑی جائیداد نہیں تھی، بس گزر بسر ہورہا تھا۔ میں کچھ بڑا ہوا تو اسکول جانے لگا اور وہاں سے آٹھویں پاس کی۔ پھر تعلیم کو خیرباد کہہ دیا اور والد کی دکان پر ہاتھ بٹانے لگا۔ مجھے اچھا تجربہ ہوگیا تھا۔ ہمارے ہاں جلد شادی ہوجاتی تھی۔17 سال کی عمر میں میری شادی کردی گئی اور ہم میاں بیوی ہنسی خوشی رہنے لگے۔

ہماری شادی جس سال ہوئی اس وقت تحریک پاکستان زورشور سے چل رہی تھی۔ روزانہ جلسے جلوس، ماراماری ہورہی تھی، ہر طرف نعرے لگ رہے تھے اور ہندو مسلم فساد روز کا معمول تھا۔ لیکن یہاں پر میں یہ بتا دوں کہ میں اس تحریک میں شریک نہیں تھا، اب تو ہر بوڑھا آدمی کہتا ہے کہ اس نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی داستان شجاعت سناتا ہے۔ میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو میری طرح پاکستان کے مخالف تھے اور یہاں پہنچتے ہی ہیرو بن گئے، مگر میں آج بھی کہتا ہوں کہ میں بٹوارے کو اچھا نہیں سمجھتا تھا اور پھر میرے خدشات درست ثابت بھی ہوئے۔

یہ ہے وہ پاکستان جس کے لیے ہم نے ہزاروں لوگوں کی جان قربان کردی؟ آپ خود بتائیں یہاں پر کیا مسلمان بستے ہیں؟ یہاں تو چور لٹیرے حکم راں بن کر بیٹھ گئے ہیں اور سب کو غلام بنالیا ہے اور بھئی غلام ہی رہنا تھا تو وہاں کیا برے تھے؟ اب تک ہم وہاں ہوتے تو سب سے زیادہ ہماری وقعت ہوتی خیر رہنے دو اب کیا لکیر پیٹنا۔

جب 1947 میں پاکستان بن گیا تو ہمارا وہاں رہنا دوبھر ہوگیا۔ ہر وقت تنائو اور فساد کی کیفیت۔ وہاں جو ہمارے پڑوسی تھے جب انھوں نے بھی آنکھیں پھیر لیں تو ہم نے فیصلہ کیا کہ پاکستان چلتے ہیں۔ میں نے اپنے والد سے کہا کہ پاکستان چلیں تو انھوں نے انکار کردیا لیکن مجھے اجازت دے دی کہ میں چلا جائوں۔ اس داستان کو رہنے دیتا ہوں کہ یہاں کس طرح پہنچے، یہ سب کو معلوم ہے، بار بار دہرانے کا کیا فائدہ۔ ہم بچتے بچاتے لاہور پہنچے۔ یقین جانو مجھے خوشی ہوئی تھی کہ میں پاکستان پہنچ گیا۔ مگر ہمارا جو حال کیمپوں میں تھا وہ نہ پوچھو۔ سب کو اپنی اپنی پڑی تھی اور نفسانفسی کا عالم تھا۔ میں کچھ دن تو وہاں کیمپ میں رہا اور پھر حیدرآباد پہنچا، حالاں کہ لوگ کراچی پہنچ رہے تھے۔

میں حیدرآباد اس لیے پہنچا کہ مجھے اس نام سے محبت تھی، وہاں بھی حیدرآباد اور یہاں بھی حیدرآباد۔ کم از کم نام تو ایک جیسا تھا۔ یہاں پہنچ کر میں نے ایک کھاد کی ایجنسی میں نوکری کرلی۔ میں وہاں منشی بن گیا۔ کرائے کا چھوٹا سا مکان لے لیا۔ کلیم اس لیے داخل نہ کیا کہ یہ بددیانتی تھی۔ ہم وہاں بھی ایسے ہی تھے لیکن لوگوں نے کلیم داخل کرکے حب الوطنی کی قیمت وصول کی۔ جو وہاں بالکل کنگلے تھے یہاں آکر جاگیردار اور کارخانے دار بن بیٹھے۔ پھر ان کے تیور بدلے اور وہ انسان سے حیوان بن گئے۔

میں بار بار دوسری طرف نکل جاتا ہوں۔ میں نے بہت محنت اور دیانت داری سے کام کیا تو مالک بہت خوش ہوا اور مجھے ایک مکان خرید کر دے دیا۔ اچھا خاصا مکان تھا اور وہ ہر ما ہ میری تن خواہ میں سے کچھ رقم کاٹتا۔ اس طرح ایک دن میں اپنے مکان کا مالک بن گیا۔ میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی، ماشاء اﷲ حیات ہیں اور اچھے عہدوں پر ہیں۔ بڑے اور چھوٹے بیٹے کو میں نے ایک رشتے دار کے گھر کراچی بھیج دیا کہ یہاں کی پڑھائی اچھی ہے۔ وہ محنت کریں گے اور کچھ بن جائیں گے۔ انھوں نے بہت محنت کی اور اچھے عہدے بھی حاصل کرلیے۔

ہوا یوں کہ میرے دونوں بیٹوں نے انجینئرنگ کی ہے۔ اس دوران ان کا کسی امیر گھرانے میں آنا جانا ہوگیا۔ پھر وہاں انھوں نے رشتے کرلیے۔ جب ان دونوں کی شادی کا پروگرام بنا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ ہم فلاں جگہ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم میاں بیوی نے مخالفت کی ا ور کہا کہ عزیز رشتے داروں میں بہت رشتے ہیں اور ان کا حق بھی ہے اور خاص کر اس عزیز کا جن کے گھر وہ کراچی میں رہتے اور کھاتے پیتے رہے تھے، لیکن وہ نہ مانے اور انھوں نے اپنی مرضی کی۔ مجبوراً ہمیں بھی سر جھکانا پڑا۔

اب اخراجات کہاں سے لاتے؟ تو ہم نے اپنا حیدرآباد والا مکان بیچ دیا، اس طرح وہاں نوکری بھی ختم کرنا پڑی۔ میرے بیٹے کہتے تھے، اب پرانے دن گزر گئے ہیں، شادی کے بعد ہم بڑا سا گھر لے لیں گے اور ساتھ رہیں گے، آپ کو کمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہم نے سب کچھ بیچا اور کراچی پہنچے۔ یہاں آکر کرائے کا مکان لیا اور دھوم دھام سے بچوں کی شادی کی تیاری کرنے لگے۔ عزیز رشتے داروں نے تو ناراض ہوکر بائیکاٹ کردیا تھا۔

خیر وہ دن بھی آ یا جب شادی ہوگئی اور دونوں بیٹوں کی دلہنیں گھر پہنچ گئیں۔ ایک ہفتہ تو بہت اچھا گزرا۔ دونوں طرف دعوتیں ہوئیں، خوشیاں منائی گئیں اور پھر وہ منحوس گھڑی آپہنچی جب میری دونوں بہوئوں نے یہ مطالبہ کردیا کہ وہ علیحدہ رہیں گی۔ میرے بیٹوں کو نہ جانے انھوں نے کیا پلا دیا تھا یا وہ خود بے غیرت ہوگئے تھے۔ میں تو اپنا سب کچھ ان کی شادی پر لگا چکا تھا، اب میرے پاس کچھ بھی تو نہیں تھا۔

میرے بیٹوں نے ایک دن مجھ سے کہا کہ آپ اس فلیٹ میں رہیں، ہم الگ ہورہے ہیں لیکن آپ فکر نہ کریں، ہم آپ کو خرچ دیں گے۔ میں نے دل پر پتھر رکھا اور وہ اپنے سسرال کی مدد سے اچھے گھروں میں منتقل ہوگئے۔ ان کے پاس گاڑی بھی آگئی جب وہ الگ ہورہے تھے تو میری حالت بری تھی اور میں اس لمحے کو کوس رہا تھا جب میں نے نوکری چھوڑ دی اور اپنا مکان بیچ ڈالا تھا، صرف اپنے بچوں کی محبت میں مجھے یہ دن دیکھنا پڑا۔

پھر جب دو ہفتے گزر گئے اور بیٹے ہمیں دیکھنے تک نہ آئے تو میں ان کے گھر پہنچ گیا۔ مکان میں داخل ہوا تو بیٹے موجود تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ تم نے ہمارا پتا بھی نہیں کیا اور دو ہفتے سے گھر بھی نہیں آئے۔ تو صاحب پھر کیا تھا، بیٹے تو خاموش رہے لیکن بڑی بہو نے کہا اب یہ آپ کے گھر نہیں آئیں گے، ہماری بھی کوئی عزت ہے۔ آپ کبھی کبھی یہاں آکر ان سے مل لیا کریں۔ میں نے کہا کہ یہ میری ساری عمر کی کمائی ہیں، انھیں کیسے چھوڑ دوں؟ تو کہا گیا یہ آپ کا فرض تھا کہ آپ انھیں پڑھاتے، شادیاں کراتے۔ آپ نے کوئی احسان نہیں کیا، اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اور جب میں نے کہا اب یہ اپنا فرض کیسے اور کب ادا کریں گے؟

تو مجھے بے نقط سنائی گئیں اور کہا گیا کہ آپ نے بزنس کیا تھا کہ آج آپ انھیں پال رہے ہیں کل یہ آپ کو پالیں گے، تو بزنس میں کبھی کبھار نقصان بھی ہوجاتا ہے۔ آپ سمجھیں آپ کو نقصان ہوگیا اور پھر وہ مسکرانے لگی۔ میں نے بیٹے کی طرف دیکھا تو وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میں نے تہیہ کرلیا کہ اب کبھی ان سے نہیں ملوں گا۔ سچ ہی تو ہے مجھے نقصان ہوگیا تھا اور جس کا نقصان ہوجائے اسے تو کوئی بھی نہیں پوچھتا۔ میں گھر پہنچا اور بیمار ہوگیا۔ خاصے دن تک بیمار رہا، میری بیٹی نے ایک گارمنٹس فیکٹری میں ملازمت کرلی، ہم نے وہ فلیٹ چھوڑ دیا اور لائنز ایریا کے ایک چھوٹے سے مکان میں آکر رہنے لگے۔

عزیز رشتے داروں سے کچھ قرض لیا، انھوں نے بھی یہ کہہ دیا کہ اور امیر گھرانے میں بچوں کی شادی کرائو، کار بنگلہ دیکھو، لیکن وقت گزر چکا تھا، اب کیا ہوسکتا تھا۔ پھر میں نے ہمت کی، خود کو سنبھالا اور ملازمت تلاش کرنا شروع کی۔ ایک دکان پر صفائی ستھرائی اور سیلزمین کی نوکری مل گئی، انھوں نے بوڑھا آدمی سمجھ کر رکھ لیا، کوئی زیادہ کام نہ تھا، لیکن تن خواہ بہت کم تھی صرف ڈھائی ہزار روپے ماہانہ، اس میں کرایہ بھی دینا پڑتا تھا۔ اس حادثے کا اثر یہ ہوا کہ میری بیوی شدید بیمار ہوگئی۔ وہ ہر وقت اپنے بچوں کو یاد کرتی رہتی ہے اور اب تو یوں لگتا ہے کہ اس کے دن بھی قریب آگئے ہیں۔

مجھے اس کی تیمار داری کرنی پڑتی ہے اور یوں دکان پر ناغے ہونے لگے۔ ایک دن دکان کے مالک نے یہ کہہ کر نکال دیا کہ کام دھندا ختم ہوگیا ہے، اس لیے تن خواہ کے پیسے بھی نہیں نکل رہے، اس لیے چھٹی کرو، میں نے ایک ہزار روپے کی ٹافیاں، بسکٹ خریدے اور مختلف جگہوں پر بیچنے لگا، کسی ایک جگہ نہیں بیٹھتا کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ لیکن اب سب دیکھ لیں تو اچھا ہے اور مجھ سے سبق حاصل کریں۔ نہ کھانا اچھا لگتا ہے نہ پینا۔

بیوی گھر پر اپنی زندگی کے دن پورے کررہی ہے اور میں یہاں پر۔ میری بچی گارمنٹ فیکٹری میں کام کررہی ہے۔ اس کا رشتہ ہی نہیں آتا۔ میرے جیسے کے پاس کون لاتا ہے رشتہ! اب تو میں مایوس ہوگیا ہوں اور سوچتا ہوں کہ ہم دونوں کے مرنے کے بعد اس لڑکی کا کیا ہوگا؟ وہ بھی اکثر بیمار رہنے لگی ہے اور بھائیوں کو یاد کرتی ہے۔ اب کچھ دن سے ہم تینوں نے ایک فیصلہ کیا ہے کہ ہم انھیں بھول جائیں گے لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟

ایک روز میں کلفٹن میں بیٹھا یہ چیزیں فروخت کررہا تھا کہ میرا بڑا بیٹا اپنی بیوی اور بچے کو لے کر آگیا۔ ان کے پاس شان دار کار ہے، میرا دل چاہا کہ میں اپنے پوتے کو پیار کرلوں، مگر میں نے دل پر پتھر رکھ لیا اور سر جھکا کر بیٹھ گیا، وہ میرے سامنے سے گزر گئے تو میں وہاں سے کھسک آیا۔

اب میں نے تم سے جو التجا کی ہے کہ میری تصویر نہیں چھاپنا تو دل تو یہی چاہتا ہے کہ تم اسے چھاپ دو تاکہ انھیں پتا چلے کہ ان کے باپ کا کیا حال ہوگیا ہے؟ بل کہ میں تو کہتا ہوں میری بیوی اور بچی کی تصویر بھی چھاپو اور لوگوں کو دکھائو کہ دیکھو یہ ہے بھلائی کا انجام۔ مگر سوچتا ہوں کہ ان کی زندگی کیوں عذاب کروں، لوگ انھیں کہیں گے کہ خود عیش کررہے ہو اور ماں باپ بہن کی یہ حالت ہے۔ اس لیے نہیں چاہتا کہ تم تصویر چھاپو۔ انھوں نے جو کچھ کیا وہ بھی خدا دیکھ رہا ہے اور میں نے جو کچھ کیا وہ بھی۔ قیامت کا دن مقرر ہے، فیصلہ ہوجائے گا۔

میں تو پھر بھی دعا کرتا ہوں کہ وہ خوش رہیں اور پھلیں پھولیں، ہمارا کیا ہے، زندگی اتنی گزرگئی اور گزر جائے گی۔ ہم نے تو ساری زندگی کام کیا ہے، اب بھی کرلیں گے، مجھے تو اب زندگی کا اتنا بھروسا بھی نہیں رہا کہ گھر پہنچ سکوں گا، اس لیے یہ دیکھو! میں نے اپنی جیب میں لکھ کر رکھ لیا ہے کہ اگر میں کسی فٹ پاتھ یا سڑک پر مرجائوں تو اس پتے پر پہنچا دو، آپ کا بہت شکریہ اور مہربانی ہوگی۔

اب تم نے آکر میری کہانی پوچھ لی تو دل کے زخم ادھڑ گئے ہیں، لیکن خون رستے ہوئے نظر نہیں آرہا، جس پر بیتتی ہے اسے ہی معلوم ہوتا ہے ۔ بیٹا! تم کبھی ایسا نہ کرنا۔ ہمیشہ ماں باپ کی رکھوالی کرنا، اسی میں عزت بھی ہے اور سکون بھی۔ اب جائو، اﷲ تمہارا بھلا کرے۔ لوگ کہتے ہیں بیٹے سہارا ہوتے ہیں میری تو بیٹی میرا سہارا بنی ہے۔

رنگ کھنکتے ہیں کلائی میں

$
0
0

چوڑی ہر عمر کی خواتین کا من پسند زیور ہے۔ دنیا بھر میں دریافت ہونے والے صدیوں پرانے کھنڈرات سے بھی چوڑیوں کے مختلف نمونے دریافت ہوئے ہیں۔

پہلے چوڑیوں کی تیاری کے لیے مٹی، ہاتھی دانت اور لکڑی کا استعمال کیا گیا پھر دیگر دھاتوں کے کنگن بننے لگے۔ تاہم سب سے زیادہ شہرت و مقبولیت کانچ کی چوڑیوں کو حاصل ہوئی۔ آج کی پاکستانی عورت کا بناؤ سنگھار تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ کانچ کی چوڑیاں نہ پہن لے۔

یہ وہ زیور ہے جو موسم اور فیشن کی قید سے بھی آزاد ہے۔ اس کی بناوٹ میں ضرور تبدیلی آجاتی ہے، لیکن یہ کبھی آئوٹ آف فیشن نہیں ہوتی۔ برصغیر میں شادی شدہ عورت کی زندگی میں یہ نازک آبیگنے ’’سہاگ‘‘ کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔

نزاکت کے احساس سے نتھی کانچ کی چوڑیاں سستی ہونے کے علاوہ اپنی مخصوص جھنکار کے باعث خصوصی شہرت کی حامل ہیں۔ سونے چاندی کی طرح ان کے کھونے، اور چرا لینے کا ڈر ہوتا ہے اور نہ ہی یہ کسی خاص عمر کی خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔

کم سن بچیوں سے لے کر نوعمر لڑکیوں، اور شادی شدہ سے لے کر معمر خواتین تک ہر ایک کے لیے ہیں اور خوشی کا شاید ہی کوئی موقع ہو جو اس زیور کے بغیر مکمل تصور کیا جا سکتا ہو۔


اسکاٹش ریفرنڈم، مسئلہ کشمیر فلیش پوائنٹ مگر!

$
0
0

’’بات چل نکلی تو دورتک جائے گی، اس لیے اسے فی الحال یہیں پر روک دیں کیونکہ اسکاٹ لینڈ کی مثال کشمیر میں اپنانا فی الحال ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے‘‘۔

یہ الفاظ بھارت کے ایک سابق وزیر بلکہ باربار مختلف قلم دان وزارت سنبھالنے والے پرنب مکھرجی کے ہیں جو انہوں نے چند روز پیشتر ایک غیرملکی صحافی کے سوال کے جواب میں بیان کیے۔ مکھرجی نے گوکہ مختصر بات کہہ دی مگر جو کچھ انہوں نے کہا وہ بھارت کا ماضی اور حال ہے اور شاید مستقبل بھی یہی ہو، کیونکہ کم از کم اب تک بھارت کی کوئی ایسی حکومت نہیں آئی جس نے دل و جان سے کشمیر کے مسئلے کوکوئی متنازعہ حیثیت دے کر اس کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہو۔ ہرایک کی اولین ترجیح یہی رہی کہ فی الحال کشمیر ان کی ترجیح نہیں ہے۔

چونکہ ان دنوں اسکاٹ لینڈ کے چھ ملین لوگوں کو برطانیہ کے ساتھ رہنے یا اپنی آزاد ریاست قائم کرنے کے لیے رائے شماری کا حق دیاگیا۔آج نہیں تو کل برطانیہ کو یہ حق اسکاٹش عوام کو دینا تھا، لیکن یہ واقعہ قدرے خلاف روایت رہا۔ اسکاٹ لینڈ سے لاکھوں باشندے پچھلی کئی دہائیوں سے اپنی الگ ریاست اور تشخص کا مطالبہ کررہے تھے۔ ان کے بہت سے مطالبات ایسے بھی تھے جن میں زور بیان زیادہ اور دلیل کی طاقت کم تھی۔

اس کے باوجود برطانیہ نے کھلے دل سے اسکاٹش عوام کو حق رائے دہی کے اظہار کا موقع فراہم کیا۔ آج تک جہاں کہیں بھی کسی ریاست یا خطے کو کسی دوسرے ملک کے استبداد سے آزادی ملی تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی طویل خونی تحریک بھی رہی جس میں لاکھوں لوگوں کی جانوں کی قربانی کا دخل رہا۔ ظاہر ہے آزادی جیسے فطری حق کے حصول کے لیے بہایا جانے والا خون رنگ لاتا ہے اور قوموں کو بالآخر آزادی کی منزل سے ہمکنار کرتا ہے۔

اکیسویں صدی جسے انسانی حقوق، جمہوری اقدار اور انسانی آزادی کی صدی بھی کہا جاتا ہے۔ اس صدی کے اوائل پندرہ برسوںمیں مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان اور اسکاٹ لینڈ کا ریفرنڈم اقوام کی آزادی اور ان کی منشاء کے مطابق فیصلوں کے تین بڑے واقعات ہیں۔ پہلے دونوں واقعات کے پیچھے کشت وخون اور بربادی کا ایک طویل سلسلہ ہے، جس میں لاکھوں افراد اپنی جانوں سے گئے۔ اس سے کہیں زیادہ اپنے گھر بار سے محروم ہوئے اور ہزاروں اپاہج اور معذور ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوسروں کے سہاروں کے محتاج ہوگئے۔

مشرقی تیمور کی انڈونیشیا سے آزادی اور شمالی سوڈان سے جنوبی سوڈان کی علیحدگی یا آزادی کی منزل تک پہنچنے کے لیے بڑی طاقتوں اور اسلحہ کے سودا گروں کو ’’کمائی‘‘ کا خوب موقع ملا۔ کشمیر اور فلسطین جیسی تحریکیں آج بھی اسلحے کی عالمی تجارت کو پھلنے پھولنے میں بھرپور مدد کررہی ہیں۔ جب تک ان دونوں تنازعات کا منصفانہ اور دیرپا حل نہیں نکالا جائے گا تب تک بھارت اور اسرائیل اسلحہ کے انبار لگاتے رہیں گے۔

جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کے برعکس اسکاٹش عوام اور برطانیہ دونوں خوش قسمت نکلے کہ انہوں نے مسلح ماردھاڑ کے بجائے حقیقی معنوں میں جمہوریت پسندی کا مظاہرہ کیا۔ اس باب میں اسکاٹش عوام اور برطانیہ دونوں داد کے مستحق ہیں۔ اسکاٹ لینڈ نے آزادی کے لیے(گوکہ فی الحال نہیں ملی) بندوق کی زبان کے بجائے زبان کو بطور بندوق استعمال کیا۔

برطانیہ نے اس کے جواب میں بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکاٹ لینڈ میں گمنام قبرستان آباد کرنے،سوتے میں لوگوں کو اٹھا کر لے جانے، ان کی بوری  بند لاشیں پھینکنے،عقوبت خانوں میں اذیت کے تجربات سے گزارنے کی ریت نہیں ڈالی۔ ورنہ ڈیوڈ کیمرون اور ٹونی بلیر جیسے عالمی امن کے ٹھیکیداراسکاٹش عوام کو کچلنے کے لیے کچھ بھی کرسکتے تھے ۔

اسکاٹ لینڈمیں علیحدگی یابرطانیہ کے ساتھ شامل رہنے کے حوالے سے ہونے والے استصواب رائے نے مسئلہ کشمیر کو ایک مرتبہ پھر ’’فلیش پوائنٹ‘‘ بنا دیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت(بھارت) اسکاٹ لینڈ ریفرنڈم کے بعداپنا دامن بچانے کی کوشش میں ہے مبادیٰ رائے شماری، کشمیریوں کے بنیادی حقوق، آزادی اور استصواب جیسے مطالبات اور الفاظ کے چھینٹے اس پرنہ پڑسکیں۔ پرناب مکھر جی کے الفاظ سے تو کم سے کم ایسے ہی لگتا ہے۔

بھارتی سورماؤں کے لاکھ انکار کے باوجود اس زمینی حقیقت سے مفرکسی فریق کے لیے بھی ممکن نہیں کہ وہ کشمیری عوام کو ان کے حق خو د ارادیت سے محروم کر سکے۔ میرے خیال میں جس عالمی برادری نے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا ہے وہ باضابطہ ایک فریق کی حیثیت رکھتی ہے۔ گوکہ مدعی سست گواہ چست کے مصداق مسئلہ کشمیر کا دیرینہ فریق پاکستان بھی اپنے حصے کا کام کرنے میں  ناکام رہا ہے۔ جب بھارت خود سلامتی کونسل میں دو سے زائد قرار دادوں کے ذریعے تحریری طورپر کشمیر کوایک متنازعہ علاقہ تسلیم کرچکا ہے اس کے بعد پاکستان کے لیے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانے اور سفارتی اور سیاسی میدان میں جنگ لڑنے کا بھرپورموقع تھا، جسے ضائع کردیا گیا۔ جب ہم بار بار اسکاٹ لینڈ کی مثال دیتے ہیں تو وہاں ہمیں کوئی تیسرا فریق دکھائی نہیں دیتا۔

ایک طرف اسکاٹش عوام ہیں اور دوسری طرف تاج برطانیہ ہے، لیکن کشمیر کا مسئلہ اس سے مختلف نوعیت کا ہے۔ اگرچہ اسکاٹش عوام نے بھی اپنے حق خود ارادیت کے لیے عالمی سفارت کاری کے میدان کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا لیکن برطانیہ نے انہیں استصواب کا حق کسی دوسری طاقت کے دبائو یا مطالبے پر نہیں دیا ۔ یہاں تو پوری دنیا پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔ ایسے میں بھارت کی ہٹ دھرمی اور غنڈہ گردی کو بچھاڑنے میں ناکامی پاکستان کی سفارتی محاذ پرناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ اتفاق ہے کہ اسکاٹ لینڈ میں وہاں کے عوام کی منشاء معلوم کرنے کے لیے رائے شماری ایک ایسے وقت میں کرائی گئی جب اس کے چند روز بعد جنرل اسمبلی کا گرما گرم اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں اگرچہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ایک رسمی سہی کم سے کم کشمیر کا ذکر ضرور کیا۔ میرے خیال میں اس فورم پرذوالفقار علی بھٹو جیسا انداز تخاطب اختیار کرنے کی ضرورت تھی تاکہ  اس عالمی اجتماعی فورم پرعالمی قیادت کے کانوں تک کشمیر کا نام ضرور پہنچتا۔ ایک ہلکی سی گونج کوئی بڑی کامیابی ہرگز نہیں۔

جنرل اسمبلی کے اجلاس میںبھارت نے حسب معمول خواہ مخواہ کا وا ویلا کیا لیکن یہ واویلا بھی کشمیریوں کے حق ہی میں جائے گا کیونکہ ایک تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی’’جمہوریت پسندی‘‘ کا بھانڈہ پھوٹ گیا جو چھ دہائیوں سے کشمیریوں کے حق خود اردایت کو دبائے ہوئے ہے اور دوسرا کشمیری عوام کو اندازہ ہوگیا کہ  وہ بھارت کے واویلے کو پرکاہ کی حیثیت نہیں دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ نئی ابھرتی عالمی قیادت کو بھی معلوم ہوگیا کہ ’’ہو نہ ہو‘‘ کشمیر بھی کوئی متنازعہ مسئلہ اور کروڑوں لوگوں کے مستقبل کا معاملہ ہے۔

جنرل اسمبلی سے کئی روز قبل اسکاٹ لینڈ کا ریفرنڈم ہو اور اس کے نتائج بھی سامنے آ گئے۔ توقع تھی کہ اس کے بعد جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کشمیر کے مسئلے کو بھرپور طریقے سے اجاگر کرے گا، لیکن یہ توقع محض خیال خام ہی رہی ۔ پاکستان کی کامیابی تب ہوتی جب کم سے کم جنرل اسمبلی سے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت میں کوئی قرارداد پیش ہی کردی جاتی۔ ایسی کسی قرارداد ہی سے عالمی برادری کے موڈ کا بھی اندازہ  ہوتا ورنہ اجلاس میں ہرملک اپنے بکھیڑے ہی لے کران پرخامہ فرسائی کو اپنی سب سے بڑی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ یا کم سے کم پاکستان مسلم دنیا اور اپنے ہم خیال مسلمان سربراہان مملکت کے کان میں کشمیر کے تذکرے کی یاددہانی کرادیتا۔

مسئلہ کشمیر، سموک اسکرین

کشمیر کے مسئلے کا وہاں کے عوام کی منشاء کے مطابق دیرپا حل ہی نہ صرف پاکستان اور بھارت  بلکہ پورے خطے کے امن واستحکام اور ترقی کا ضامن ہے اور اس کا حل نہ ہونا دونوں ملکوں کی تباہی اور بربادی کا بھی موجب بن سکتا ہے۔ مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے منصفانہ حل قبول نہ کرکے بھارت خود ہی خطے کو آگ میں جھونکے کی کوشش کررہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی تاریخ کی دشمنی اور دوستی اسی دیرینہ مسئلے کے گرد گھومتی ہے۔

سنہ1948 کا جہاد کشمیر، معرکہ رن آف کچھ، آپریشن جبرالٹر، 1965ء کی پاک بھارت جنگ اور 1998ء میں کارگل کا محاذ یہ تمام معرکے مسئلہ کشمیر کے اردگرد گھومتے ہیں۔پاکستان نے کشمیر کے لیے دفاعی، معاشی، سیاسی اور جغرافیائی قیمت ادا کی ہے ۔ کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے موقف میں لچک موجود ہے لیکن تان بھارت کی ہٹ دھرمی پرٹوٹتی ہے ورنہ کشمیر کا مسئلہ ایسا بھی نہیں کہ وہ حل نہ ہوپائے۔

سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے تو اس  باب میں حد ہی کردی تھی او ر وہ اپنی پٹاری میں  ہروقت کشمیر کے سترہ سترہ حل لیے پھرتے تھے۔ ان کی کسی بھی تجویز سے اتفاق یا اختلاف اپنی جگہ مگر اس سے بھارت کی ہٹ دھرمی کھل کرسامنے آگئی۔ چونکہ دونوں ملک کشمیر کی بنیاد پر کئی جنگیں لڑ چکے ہیں اس لیے بعید نہیں کہ ایک مرتبہ پھر دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف طاقت آزمائی کا مظاہرہ کریں۔ خدا نخواستہ ایسا ہوا تو کشمیر کا مسئلہ تو اپنی جگہ پر رہے گا دونوں ملکوں کو اپنی اپنی بقاء کے لالے پڑ جائیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں بھی ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو پاکستان کے ساتھ حقیقی معنوں میں دوستانہ اور ایک اچھے ہمسائے جیسے تعلقات کے دلی طورپر متمنی ہیں مگرملک کی تمام بڑی  اور نمائندہ سیاسی جماعتیں امن کے خواب کوشرمندہ تعبیر نہیں ہونے دے رہی ہیں۔ اس سوچ کا بھیانک مظاہرہ ہمیں حالیہ بھارتی لوک سبھا کے انتخابات میں اس وقت دیکھنے کو ملا جب’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے سربراہ ارویند کجریوال نے اعلان کیا کہ ان کی پارٹی اقتدار میں آکر کشمیر کا مسئلہ حل کرائے گی۔

اس بیان پر ٹھنڈے دل سے سوچنے کے بجائے بھارت بھر میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ایسا لگ رہا تھا کہ تمام سیاسی قوتوں کا مقابلہ کجریوا ل سے اور وہ کوئی بہت بڑی فتح سے ہمکنار ہونے جا رہے ہیں۔ انہیں روکنے کے لیے بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے عام آدمی پارٹی کے سربراہ کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا اور مجبوراً اسے بھی اپنے بیان میں رد و بدل کرنا پڑا۔

بھارتی میڈیا کا منفی پروپیگنڈہ

بھارتی سیاست اور حکومت کی جانب سے تنازعہ کشمیر کے حل میں دانستہ غفلت اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے لیکن جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام بھارتی میڈیا نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ کسی گلی محلے کے اخبار سے لے کرقومی سطح کے روزناموں ، ٹی وی کے خبرناموں اور ٹاک شوز میں مسئلہ کشمیر کے حقائق کو جس بے رحمی کے ساتھ غلط پیش کیا جاتا ہے، اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

اس میں کوئی شک نہیں ہرملک کے ذرائع ابلاغ اس کی دفاع اور خارجہ پالیسیوں کی ترجمانی اپنا پیشہ وارانہ فریضہ سمجھتے ہیں اور مخالفین کو زچ کرنے کا کوئی ادنیٰ سا موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، لیکن بھارتی میڈیا کی ساخت و پرداخت سے تو یہ لگ رہا ہے کہ اس کا اصل مقصد پاکستان کو بدنام کرنا ، سفید جھوٹ کو سچ اور سچ کو کھلا جھوٹ ثابت کرنا بھارتی میڈیا کی پہلی اور آخری کاوش ہوتی ہے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا جلسے میں ایک جذباتی سا بیان بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے جس پر پورے بھارت میں ’’چائے  کی پیالی میں اٹھ کھڑا ہوا‘‘۔ اگرچہ انہوں نے  کوئی نئی بات نہیں کی۔

کشمیر کے بارے میں ہمارادیرینہ موقف ہی یہ ہے کہ یہ ہرلحاظ سے پاکستان کا حصہ  ہے بھارت عالمی قراردادوں کے ذریعے خود بھی اسے تسلیم کرچکا ہے۔ اس کے باوجود ارنب گوسوامی جیسے بھارتی صحافی کبھی بھی اس مسلمہ مسئلے کی پرامن راہ تلاش کرنے میں رکاوٹ رہیں گے۔بھارت کایہ مطالبہ مذاکرات کے لیے پاکستان ماحول ساز گار کرے، خود بھارتی تو’’پاکستان پے واری جانواں‘‘ کے منتر پڑھ پڑ ھ کر تھک چکے ہوں گے۔

شادی کی تقریبات کےلئے کڑھائی سے آراستہ پہناوے

$
0
0

 شادی بیاہ پر خواتین کا بناؤ سنگھار اور ملبوسات  دلہن سے کم نہیں ہوتے ، خاص طور پر پرکشش ، جاذب نظر رنگوں کے ساتھ کڑھائی کا کام ہوئے ڈریسز کا رحجان ایک بار پھر فروغ پارہا ہے۔

نوجوان لڑکیاں ماڈرن انداز میں کڑھائی کا کام اپنی مرضی سے کرواتی ہیں۔ مارکیٹ میں مشینی کڑھائی سے آراستہ  ڈریسز بھی اب عام دستیاب ہیں۔ خواتین ان ڈریسز کا انتخاب مہندی ، مایوں ، بارات اور ولیمے کی تقریب کے مطابق کرتی ہیں، پھر اسی ڈریس کے ساتھ میچنگ جیولری ، میک اپ اور جوتے پہنے ان کی شخصیت اور بھی زیادہ نکھر جاتی ہے۔

زیرنظر سنڈے ایکسپریس کے فوٹو شوٹ میں ماڈل سمعیہ نے فیشن ڈیزائنر یشعل جاوید کے ڈیزائن کردہ فینسی اور دیدہ زیب پارٹی ملبوسات پہنے ہوئے ہیں، جن پر ہاتھ سے کی گئی کشیدہ کاری نے اسے اور زیادہ خوبصورت بنا دیاہے ۔

یمن تباہی کے دھانے پر!!!

$
0
0

عرب ممالک میں پچھلے چار سال سے کشت وخون کی ایک ایسی لہر چل پڑی ہے جو تھمنے کا نام توکیا لیتی مسلسل ایک اژدھے کی طرح انسانوں کو نگلے جا رہی ہے۔مصر، لیبیا، تیونس، شام اور عراق کے بعد اب یمن اس کشت وخون کا تازہ ہدف ہے، جہاں ایک جانب سلطانی جمہور کے لیے بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے، ریلیاں ، ملین مارچ اور دھرنے ہورہے ہیں وہیں تباہ کن بم دھماکوں نے ملک کی چولیں ہلا دی ہیں۔

یہ عجیب اتفاق ہے کہ وسط اگست میں پاکستان اور یمن میں قریباً ایک ساتھ حکومت کے خلاف ملین مارچ اور دھرنوں کا آغاز ہوا۔ پاکستان میں عوامی تحریک کے انقلاب اور تحریک انصاف کے آزادی مارچ کی طرح یمن کے اہل تشیع مسلک کے زیدی قبیلے سے تعلق رکھنے والے حوثیوں نے بھی انہی مطالبات کے ساتھ حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جن کی بازگشت پاکستان میں دھرنا پارٹیوں کی جانب سے سنائی دے رہی تھی۔ جنوبی یمن کے حوثی قبیلے کے نوجوان سربراہ عبدالملک الحوثی نے حکومت مخالف ملین مار چ کا آغاز کرتے ہوئے دو اہم مطالبات پیش کیے اور صنعاء کی جانب مارچ سے قبل اپنے مرکز ضلع عمران میں اپنے حامیوں کے ایک جلوس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کی تبدیلی ، مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ان کی تحریک کے دو اہم مطالبات ہیں۔

یمنی حکومت نے اول تو حوثیوں کے مطالبات کو کوئی اہمیت نہ دی ۔ جب ملک کے طول وعر ض سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے دارالحکومت کی اہم تنصیبات، داخلی راستوں بالخصوص وزارت داخلہ کے ہیڈ کواٹر کا محاصرہ کیا تو صدر عبد ربہ منصور الھادی کو اندازہ ہوا کہ حالات واقعی ان کی توقع سے زیادہ خراب ہیں۔ انہوں نے کسی حد تک دانش مندی کا مظاہرہ کیا اور حوثیوں کے دونوں مطالبات تسلیم کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات پرختم کی گئی 50 فی صد سبسڈی بحال کرنے اور نئی کابینہ تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ یمن اور پاکستان میںجاری حکومت مخالف دھرنوں کو عرب میڈیا میں تقابل کے طورپر پیش کیا گیا۔

پاکستان میں عوامی تحریک اور تحریک انصاف نے بھی وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ اٹھا رکھا تھا۔ وقت کے ساتھ جس طرح پاکستانی دھرنا جماعتوں کے مطالبات کی فہرست میں تبدیلی آتی گئی، کچھ ایسے ہی یمن میں حوثیوں نے بھی حکومت کو کمزور پڑتے دیکھا تو اپنے مطالبات کی فہرست میں اضافہ کردیا۔ عبدالملک الحوثی نے صنعاء میں اپنے حامیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمارا مطالبہ صرف حکومت کی تبدیلی نہیں بلکہ جنوبی یمن کی خود مختاری بھی ہمارے مطالبات کا حصہ ہے۔ صدر عبد ربہ اور ملک کے دیگر سیاسی دھڑوں نے حوثیوں کا یہ مطالبہ غیرآئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا، تو حوثی جو پچھلے 25 سال سے ’’حزب الانصار‘‘ نامی ایک مسلح گروپ کی شکل میں منظم ہوچکے تھے سرکاری عمارتوں ، پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیراعظم سیکرٹریٹ پر پل پڑے۔

جواب میں سیکیورٹی فورسز کو دفاعی اقدام کرنا پڑا جس کے نتیجے میں تیس کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوگئے۔ حوثیوں نے ایک مرتبہ پھر مذاکرات کا عندیہ دیا اور اقوام متحدہ کے ایک متنازعہ کردار کے حامل جمال بن عمرو نامی مندوب کے ذریعے حکومت اور حوثی شد ت پسندوں کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوگیا۔بات چیت کئی بار آگے بڑھتی اور بوجوہ ڈیڈ لاک کا شکار ہوتی رہی۔ آخر کار حوثیوں اور صدر منصور ھادی کے درمیان مفاہمتی معاہدہ طے پا گیا۔حکومت نے اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کرنے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں سبسڈی بحال کرنے اور کابینہ تحلیل کرکے ایک قومی حکومت تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہے۔ فریقین میں معاہدہ ہونے کے دو روز بعد صنعاء میں حوثیوں کے ایک دھرنے میں دو سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے جن میں 70 افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔ القاعدہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن حالات ایک دفعہ پھر کشیدہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ تا دم تحریر فریقین مفاہمتی معاہدے پر تو قائم ہیں البتہ حوثیوں نے صدر عبد ربہ کے مقرر کردہ وزیراعظم محمد بن مبارک کو مسترد کردیا ہے۔ یوں قومی حکومت کی مساعی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ خود بن مبارک نے بھی یہ عہدہ قبول کرنے سے معذرت کی ہے۔ڈیڈ لاک کا سلسلہ برقرار رہا تو قومی حکومت کی تشکیل میں کئی ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔

اب یہ طے ہے کہ یمن میں وزیراعظم جو بھی ہوگا وہ یا تو حوثی قبیلے سے ہوگا یا کم از کم ایسی شخصیت ہوگی جو حوثیوں ہی کی ترجمانی کرے گی۔ قومی حکومت کی تشکیل تو کوئی ایسا پیچیدہ مرحلہ نہیں ۔ حوثیوں کی کسی من پسند شخصیت کو وزیراعظم منتخب کرکے بحران کو ٹالا جاسکتا ہے لیکن مبصرین جس بڑے خطرے کی نشاندہی کررہے ہیں وہ ملک کے ایک بار پھر تباہ کن خانہ جنگی کے اشارے ہیں۔یمنی حکومت کئی سال سے الزام عائد کررہی ہے کہ حوثیوں کو بیرونی مدد حاصل ہے اور وہ ایران اور بعض دوسرے ممالک کہ شہ پر یمن کے وفاق کو توڑنا چاہتے ہیں۔ اس وقت یمن جنوبی اور شمالی دو اکائیوں پر مشتمل ہے۔ جنوبی یمن میں اکثریت اہل تشیع مسلک 30فی صد باشندوں اور شدت پسند سلفیوں پر مشتمل ہے۔

سلفیوں کی ہمدردیاں القاعدہ کے ساتھ ہیں لیکن حوثی ایران کا دم بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ممکن ہے ایران براہ راست یمن میں افراتفری پھیلانے میں ملوث نہ ہو لیکن تہران سرکار کی جانب سے ایسے متنازعہ بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں جنوبی یمن کے علاحدگی پسندوں کی کھلم کھلا حمایت کی گئی ہے۔ یمنی حکومت کا کہنا ہے کہ صدرکے منتخب کردہ وزیراعظم بن مبارک کو حوثیوں نے نہیں بلکہ ایران نے مسترد کیا ہے۔ ایران اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے حوثیوں کے کندھے پر بندوق رکھ کرانہیں استعمال کررہا ہے۔

یمن میں کشیدگی کا آغاز نیا نہیں ہے۔ سنہ90 ء کے آغاز میں بھی ملک ایک بدترین خانہ جنگی سے گذر چکا ہے جس کے بعد ملک کی دونوں اکائیوں کو یکجا کیا گیا ۔ ملک میں جاری بد نظمی اور سیاسی افراتفری میں حوثیوں کی تحریک کے علاوہ خود صنعاء حکومت کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ سابق صدر علی عبداللہ صالح 33 سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ۔ انہوں نے نہ صرف فوج بلکہ اپنی سیاسی جماعت نیشنل کانگریس میں بھی اپنے ہی قبیلے کے لوگوں کو عہدے دیے۔ تین عشرے تک یمن میں عملا صرف ایک قبیلے کی حکومت قائم رہی جس نے باقی ماندہ قبائل اور عوام میں گہری مایوسی پیدا کی۔

علی عبداللہ صالح نے طاقت کے ذریعے مخالفین کو دبانے کی پالیسی اپنائی۔ اخوان المسلمون کی الاصلاح اور حوثی اس کا خاص نشانہ بنے۔ اخوان نے تو ملک میں انارکی پھیلانے کی کوئی کوشش نہیں کی لیکن بیرونی مدد پر ناچنے والے حوثیوں نے پندرہ برسوں میں یمنی حکومت کے خلاف چھ بار اور سعودی عرب کے ساتھ ایک مرتبہ باقاعدہ جنگ لڑی۔

عرب ذرائع ابلاغ اور یمن کی صورت حال پر گہری بصیرت رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملکوں کی سازش کے تحت یمن کے حوثیوں اور اخوان المسلمون کو دست وگریباں کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔زیدی قبیلے کے اہل تشیع جو اہل سنت مسلک کے پیروکاروں کے ساتھ ایک امام کی امامت میں نماز ادا کرنے کے بھی قائل ہیں کواب ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کی طرف مائل کیا جا رہا ہے۔

پچھلے ایک ماہ کے دوران حوثی مسلح جنگجوؤں نے صنعا میں اخوان المسلمون کے ان اہم رہ نماؤں کے گھروں اور دفاتر پرحملے کیے جو کسی نہ کسی شکل میں یمنی حکومت کا حصہ ہیں۔ مصرمیں اخوان المسلمون کو زیرعتاب لانے اور لیبیا میں متوقع کامیابی کی راہ روکنے کے بعد اب شہنشاہیت پرست عرب حکمران یمن میں بھی اخوان المسلمون کو حوثیوں کے بے لگام گھوڑے کے کھروں تلے روندنے کا مکروہ منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔

سعودی عرب کا کردار
یمن میں کشیدگی کے براہ راست اثرات پڑوسی ملک سعودی عرب پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ اگرچہ خلیجی ممالک میں شامل ہونے کے باوجود یمن کو خلیج تعاون کونسل میں شامل نہیں کیا گیا مگر سعودی عرب نے واضح کیا ہے کہ اگر یمن کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ اس کی حفاظت کے لیے ہرممکن اقدام کے لیے تیار ہیں۔ شام میں جاری خانہ جنگی میںبھی سعودی عرب او ر ایران جیسے دو بڑے ممالک سیاسی محاذ پر مد مقابل ہیں۔

عرب مبصرین کے خیال میں سعودی عرب خطے کے تمام ممالک کو اپنے وفاداروں میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ عرب ملکوں میں جہاں کہیں بھی سعودی حکومت کے مخالف لوگ برسراقتدار آئے تو ریاض نے انہیں برداشت نہیں کیا۔ اس کی ایک بڑی مثال مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کا ایک سالہ قیام بھی ہوسکتی ہے۔ اخوان حکومت کے ریاض کے ساتھ ایسے خوش گوار تعلقات نہیں تھے جتنے کے صدر محمد مرسی کی برطرفی کے بعد وہاں کی فوجی سرکار کے ہیں۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شام میں بھی سعودی عرب اپنی مرضی کی حکومت کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ دوسری جانب ایران اپنے دائرہ اثر بڑھانے کے لیے یمن تک اپنے ہاتھ پھیلا رہا ہے۔ دونوں ملکوں کی باہمی نظریاتی چپقلش یمن میں شام او ر عراق جیسے حالات پیدا کرنے کا موجب بن سکتی ہے۔ عرب ممالک اس وقت دولت اسلامی’’داعش‘‘ جیسے شدت پسندوں سے نمٹنے میں بھی مصروف ہے۔ ایسے حالات میں یمن میں استحکام ایران اور سعودی عرب دونوں کے مفاد میں ہے۔

خدا نخواستہ یمن میں حالات خراب ہوئے تو سعودی عرب اور ایران دونوں اس کی لپیٹ میں آئیں گے اور سلسلہ آگے چل نکلا تو دونوں بڑوں کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔یمن میں ایران نواز حوثیوں کے سیاسی غلبے کے خطے کے دوسرے عرب ممالک پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، یقینا ان خطرات کے بارے میں خلیجی ممالک غافل نہیں ہوں گے۔ لیکن بدقسمتی سے ان کے نزدیک اگر کوئی خطرہ ہے تو صرف اخوان المسلمون ہے جو ان کے اقتدار کا بستر گول کرسکتی ہے۔

القاعدہ کا گڑھ
یمن کی سرحدیں چونکہ عراق اور سعودی عرب دونوںسے ملتی ہیں۔ سعودی عرب میںسیکیورٹی اداروں کی منظم حکمت عملی اور ریاض حکومت کی گڈ گورننس کہ اس نے القاعدہ کو اپنی سرزمین پرپاؤں مضبوط کرنے کا موقع نہیں دیا۔ انفرادی طورپر سعودی شہریوں کی قابل ذکر تعداد القاعدہ اور اس کے نظریاتی حامی دوسرے گروپوں میں شامل ہوتی رہی ہے مگر وہ اپنے ملک میں کوئی غیرقانونی سرگرمی نہیں کرسکے ہیں۔

اسی طرح عراق کی سرزمین پر بھی القاعدہ نے خود کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ جب تک امریکی فوج عراق میں موجود رہی تب تک القاعدہ مقامی قبائل کے دلوں میں اپنی زیادہ ہمدردیاں پیدا نہیں کرسکی۔ صدام حسین حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی عراق کی فوج بھی ختم ہوگئی اور نئی سرکار کا سب سے بڑا سہارا امریکی اور دوسری غیرملکی فوج تھی۔ امریکی فوج کی بیساکھیوں پر چلنے والی عراقی حکومت نے جو سیکیورٹی ادارے تشکیل دیئے انہیں ایک پیشہ ور فوج میں تبدیل کرنے میں کئی سال کا عرصہ لگے گا۔ عراق میں منظم فوج نہ ہونے کے نتیجے میں القاعدہ کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔

چنانچہ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک سے نکلنے والے القاعدہ جنگجو یا عراق میں جمع ہوئے یا انہوں نے یمن اور سعودی عرب کے درمیان سنگلا پہاڑی علاقوں کو اپنا مرکز بنایا۔پاکستان اور افغانستان کی طرح امریکی فوج نے یمن میں بھی القاعدہ کے ٹھکانوں پر ڈرون طیاروں کے ذریعے حملوں کی پالیسی اپنائی۔ لیکن پالیسی کسی ایک ملک میں بھی کوئی موثر نتائج حاصل نہیں کرسکی ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں طالبان کی خاطر خواہ تعداد کے مارے جانے کے دعوے بھی کیے جاتے رہے ہیں لیکن القاعدہ کے انور العولقی کے سوا کسی دوسرے اہم ذمہ دار کی ڈرون حملوں میں ہلاکت کی تصدیق نہیں ہو سکی۔یمن حکومت کی بد انتظامی، سیکیورٹی اداروں کی کمزوری، قبائلی جھگڑے اور فرقہ وارانہ کشیدگی وہ اہم محرکات تھے جنہوں نے القاعدہ کے لیے یمن کو ایک محفوظ جنت بنا دیا۔ اس وقت عراق اور شام میں سرگرم دولت اسلامی داعش اور القاعدہ کی النصرہ فرنٹ میں لڑنے والے تمام جنگجوؤں کے ڈانڈے یمن میں القاعدہ کی تربیت گاہوں سے ملتے ہیں۔

سمادھی سرگنگارام

$
0
0

تاریخ کے اوراق اس بات کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں کہ جن اقوام، ممالک اور معاشروں نے اپنے محسنوں اور عظیم لوگوں کو بھلا دیا تو ہر عہد میں ان کی جگ ہنسائی ہوئی۔

عہد حاضر میں جو کچھ مملکت پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے اس کے دیگر اسباب کے ساتھ ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اس دیس کے باسیوں نے اپنے محسنوں کو نہ صرف بھلا دیا بلکہ ان کو مکمل طور پررد کردیا۔ اس کی ایک مثال زیر نظر شخصیت سے بھی ملتی ہے۔ لاہور میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو کہ گنگا رام اسپتالکے نام اور مقام سے واقف نہ ہو۔  اہل لاہور کی ابک بڑی تعداد اس اسپتالکے بانی سرگنگارام سے مکمل ناواقف ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر ان کو سرگنگارام کی زندگی کے بارے میں بتایا جائے اور یہ جانکاری بھی دی جائے کہ ان کی سمادھی لاہور میں راوی روڈ کے مقام پر ہے تو ان کا پہلا تاثرحیرانگی کا اور دوسرا پر مذاق اور تضحیک آمیز ہوتا ہے۔

’’چھڈو جی، اوہ ہیگاتاں اک ہندو سی‘‘ (چھوڑو جناب وہ تو ایک ہندو تھا)
پنجاب کی دھرتی کا یہ عظیم سپوت جو کہ انگریز عہد میں نئے لاہور کا بانی کہلایا، تعلیم کے اونچے مراتب پر فائر گنگارام اپنے عہد کے مانے ہوئے انجینئر اور انسان دوست شخص تھے۔ شہر لاہور سے عشق میں سرشار اس بندے کے قائم کردہ اداروں اور تعمیرات سے آج بھی اہل لاہور بہرہ مند ہیں۔ اب ایک نگاہ اس بے مثال شخص کی زندگی پر ڈالتے ہیں۔ گنگارام کا جنم 13 اپریل1851ء کو شیخوپورہ کے ایک نواحی علاقے مانگٹاوالا میں ہوا۔ ان کے والد کا نام دولت رام تھا جو کہ اس وقت ایک مقامی پولیس اسٹیشن میں سب انسپکٹر تھے۔ گنگا رام کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد وہ امرتسر میں ایک عدالت میں ملازم ہو گئے۔

گنگارام کو امرتسر میں پہلے ایک نجی سکول میں داخل کرایا گیا اور پھر اسی شہر سے دسویں کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر سے پاس کیا۔ دسویں تک آپ خطاطی اور فارسی زبان پر مہارت حاصل کر چکے تھے۔ 1869ء میں آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور اپنی تعلیمی قابلیت کی وجہ سے وظیفہ حاصل کیا۔ 1871ء میں انہوں نے تھامس انجینئر نگ کالج رودکی میں داخلہ لیا۔ 1873ء میں آپ نے یہاں سے امتحان نہ صرف گولڈ میڈل حاصل کر کے پاس کیا بلکہ اس کے ساتھ اس کالج سے گریجویشن کرنے والے پہلے ہندوستانی کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ وطن واپسی پر انہیں انگریز سرکار کی دہلی میں شاہی عمارات کی تعمیر کے کام پر فائز کیا گیا۔

ان کے کام کی اعلیٰ ترین مہارت کو دیکھتے ہوئے۔ لارڈ رپون نے ان کو مزید تربیت کے لئے انگلستان بریڈ فورڈ بھیجوا دیا۔ وہاں پر آپ نے شہروں میں پانی کی ترسیل گٹر کے جدید نظام میں عبور حاصل کیا۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد ان کو پنجاب کے کئی اضلاع میں سرکاری عمارات کی تعمیر کے لئے بھیجا گیا۔ لاہورکے علاوہ، پٹیالہ، شیخوپورہ، امرتسر، لائل پور (فیصل آباد) میں کئی عمارات دکھائی دیتی ہیں۔ لاہور میں انہوں نے اس وقت کے ایک بڑے نام رائے بہادر کنہیا لال ہندی کے معاون کے طور پر کام کیا۔ رائے بہادر کنہیا لال ہندی اپنے عہد کے انتہائی عالم فاضل انسان تھے جو کہ لاہور کے ایگزیکٹو انجینئر ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ لاہور اور تاریخ پنجاب جیسی شہرہ آفاق کتب کے مصنف بھی تھے۔ انہوں نے گنگا رام کے بارے میں کچھ یوں کہا۔

’’لالہ گنگارام نے میرے ذہن پر ایک روش تاثر چھوڑا ہے۔ مجھے ابھی تک ان کی سفید پگڑی اور کلہ یاد ہے۔ لباس میں ان کا خاص چناؤ‘ ان کا مسکراتا چہرہ اور ان سب سے بڑھ کر ایک ڈھلکتا ہوا زخم کا نشان جو کہ ان کی دائیں بھنوئوں کی جانب ہے جو کہ ایک ستارے کی مانند جگمگاتا ہے اور ان کی شخصیت کا خاص حصہ بھی ہے اور وہ جو کہ بوٹس (انگریزی جوتے) پہنتے ہیں‘ ان ایام میں بہت کم ہندوستانی پہنتے تھے۔‘‘

تعمیرات کے علاوہ ان کو زراعت پر خاص مہارت حاصل تھی۔ جدید تعلیم سے بہرہ مندی کے باعث انہوں نے منٹگمری (ساہیوال) اور لائلپور (فیصل آباد) میں کئی ہزار ایکڑ زمین جو کہ بنجر تھی پنجاب گورنمنٹ سے ٹھیکے پر حاصل کی اور پھر اس کو اپنی تعلیم اور ذہانت کے باعث سر سبزوشاداب علاقے میں تبدیل کر دیا۔ ان کے اس تجربے سے کئی ہزار بندے برسر روزگار ہوئے۔ وہ تمام بندے مذہب، ذات پات کی تقسیم سے باہر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مہاتما گاندھی کے چرخے اور انگریز سامراج کی لڑائی کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ وہ ایک خاص نقطۂ نگاہ سے کارل مارکس کی تعلیمات سے انتہائی متاثر تھے وہ ہندوستان سے غربت‘ بیماری‘ تعلیم کے فقدان اور بے روزگاری کے خلاف ساری عمر نبرد آزما رہے۔ وہ معاشرتی ترقی کو ایسی معاشی ترقی کے ساتھ جوڑتے تھے جس میں تمام انسانوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں۔ سر میلکم میلے جو کہ انگریز عہد میں کچھ عرصہ پنجاب کے گورنر بھی رہے، ان کا گنگارام کے بارے میں کہنا تھا۔

’’وہ ایک سورما کی مانند جیتتا ہے اور ایک صوفی کی مانند دان کرتا ہے‘‘۔
1885ء میں جب گنگا رام لاہور آئے تو ان کو رائے بہادر کے خطاب سے نوازا گیا۔ 1900ء میں لارڈ کرزن نے کنگ ایڈورڈ ہفتم کی تاجپوشی کے لئے شاہی دربار کی تعمیر کے لئے گنگا رام کو ذمے داری سونپی جو کہ انہوں نے کمال احسن طریقے سے پوری کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا نام ہندوستان کے ساتھ ساتھ انگلستان کی تاریخ کے صفحات پر بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ سرگنگا رام کی تمام زندگی انسانی فلاح و بہبود کے کاموں میں گزر گئی۔ اس حوالے سے ایک واقعہ طارق مقبول نے اپنے طالب علموں کو سنایا۔ طارق مقبول جو کہ ریلوے روڈ کالج میں انگریزی کے استاد تھے۔ آج کل کینیڈا میں ہوتے ہیں۔

ایک مرتبہ گنگارام کے گاؤں سے ان کے بچپن کا دوست آ گیا۔ اس نے ان سے ان کی بے پناہ شہرت اور دولت کے بارے استفسار کیا تو گنگارام نے اس طرح کا جواب دیا۔

’’جب میں شہر آیا تو میں نے ایک شراکت داری کی جو کہ پچاس‘ پچاس فیصد پر تھی۔ اس شراکت داری کے باعث مجھے یہ سب کچھ ملا۔‘‘
’’کس سے شراکت داری ہوئی‘‘ دوست نے حیرانگی سے پوچھا۔

’’بھگوان سے…‘‘ گنگا رام نے مسکرا کر کہا۔
’’بھگوان سے؟‘‘ دوست نے حیرانگی سے پوچھا۔

’’ہاں بھگوان سے ‘ میں جو کھاتا ہوں اس کا پچاس فیصد لوگوں پر خرچ کر دیتا ہوں‘‘ گنگارام نے اسی طرح مسکراتے ہوئے کہا۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے فلاحی منصوبے لاہور‘ امرتسر‘ پٹیالہ اور دہلی میں آج روز تک دکھائی دیتے ہیں۔ لاہور میں جی پی او‘ لاہور عجائب گھر‘ گورنمنٹ کالج لاہور کا کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ‘ میواسپتالکا البرٹ وکٹرونگ‘ ایچیسن کالج‘ میو سکول آف آرٹس (موجودہ این سی اے) مال روڈ کا ایک خاص طرز تعمیر ماڈل ٹاؤن اور گلبرگ جیسی اس دور کی جدید عمارات کی نئی کالونیوں کے نقشے‘ یہ سب سرگنگا رام کے تجربے اور دانش کے ثبوت ہیں۔

کچھ منصوبے ایسے تھے جن پر انہوں نے اپنی جیب سے پیسہ لگایا۔ ان میں سب سے پہلے ان کی رہائش گاہ کا ذکرکرتے ہیں جو کہ آج بھی اولڈ ہیلے کالج آف کامرس کے نام سے جین مندر کے قریب ہے۔ یہ عمارت انہوں نے کامرس کی تعلیم کے باعث سر میلکم ہیلے کو عطیہ کر دی تھی۔ جیل روڈ پر ان کا قائم کردہ سکول جو کہ سرگنگا رام ہائی سکول کے نام سے جانا جاتا تھا۔ تقسیم کے بعد اسی جگہ پر لاہور کالج آف گرلز کا قیام عمل میں آیا جو آجکل یونیورسٹی بن چکا ہے۔ راوی روڈ پر معذوروں کے لئے ایک گھر تعمیر کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ایک ڈسپنسری وچھووالی لوہاری میں بنائی۔

بعدازاں1921ء میں سرگنگارام اسپتالکی صورت اختیار کر گئی۔ ان کی وفات کے بعد 1943ء میں اس اسپتالکو کوئنز روڈ منتقل کر دیا گیا۔ یہاں پر سرگنگام رام کا قائم کردہ ایک میڈیکل کالج بھی تھا جو کہ ان کے بیٹے بالک رام کے نام پر تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس کالج کو محترمہ فاطمہ جناح کے نام پر کر دیا گیا جو آج تک قائم ہے۔ رینالہ خورد بھی سرگنگا رام کے احسانوں تلے دبا دکھائی دیتا ہے۔ رینالہ خورد میں اسپتاللیڈی میکلیگن سکول اور رینالہ خورد پاور پراجیکٹ اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ پٹھان کوٹ اور امرتسر کا ریلوے ٹریک بھی ان ہی کا بچھایا ہوا تھا۔ اپنی ریٹائر منٹ کے بعد وہ ریاست پٹیالہ کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ پٹیالہ میں کئی تعمیرات آج بھی ان کی تعمیرات کی یاد گار ہیں۔ موتی باغ پیلس‘ سیکرٹریٹ بلڈنگ‘ وکٹوریہ گرلز سکول۔

کئی پولیس اسٹیشن اور عدالتیں ا ن ہی کے زیر نگرانی تعمیر ہوئیں انہوں نے گھوڑا ٹرین کا بھی ایک بے مثال تجربہ کیا۔ یہ ٹرین ان کے قائم کردہ دیہات گنگا پور سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر بچیانہ ریلوے اسٹیشن تک تھی۔ اس ریلوے ٹریک پر گھوڑے بگھی نما گاڑی کو کھینچتے تھے۔ ریل کی تاریخ میں یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کی ایک انوکھی گاڑی تھی۔ گھوڑا گاڑی 1980ء تک چلی اور بعدازاں اس کو ختم کر دیا گیا۔ اس کے خاتمے کے تیس برس بعد ضلع فیصل آباد کی انتظامیہ میں کوئی ایسا اللہ کا بندہ آیا جس نے اس ریل کی اہمیت کو ایک ثقافتی جزو جانتے ہوئے اس کو ایک یادگار کے طور پر بحال کیا۔

پنجاب کے اس عظیم سپوت نے 10 جولائی 1927ء کو لندن میں وفات پائی۔ ان کی چتا کوادھر آگ لگائی گئی اور استھیاں ہندوستان بھجوائی گئیں۔ ان میں سے کچھ گنگا دریا میں بہا دی گئیں اور باقی استھیاں ان کے محبوب شہر لاہور بھجوا دی گئیں۔ یہاں پر راوی روڈ پر بڈھے راوی کے کنارے پر ایک عظیم الشان سمادھی تعمیر کی گئی جہاں آپ کی استھیاں دفن کی گئیں۔ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یونیورسٹی آف روکری نے 1957ء کو ان کے اعزاز میں ایک ہاسٹل تعمیر کیا جو کہ سرگنگا رام کے نام سے منسوب تھا۔1951ء میں گیارہ ایکڑ کے وسیع رقبے پر نیو دہلی میں ان کے نام سے اسپتالکی تعمیر کی گئی۔

اس اسپتالکا سنگ بنیاد اس وقت کے ہندوستان کے وزیراعظم شری جواہرلال نہرو نے رکھا۔ ان کا پوتا ایشوین رام‘ جارجیا سکول آف ٹیکنالوجی میں اسٹنٹ پروفیسر ہے۔ ان کی پوتیاں شریلہ فلیٹیز‘ اور ہیروٹس فلیٹیز انگلستان میں بطور استاد کام کرتی ہیں اور ادھر کی سیاست میں بھی خاصی سرگرم ہیں۔ لاہور کے اس عظیم سپوت کو لاہور کی یاداشتوں سے بڑی بے رحمی سے نکالا گیا۔ نقوش لاہور نمبر اور باقر جیسے مؤرخین نے بھی تقسیم کے بعد اپنی تحریروں کا حصہ نہ بنایا۔ صحافتی حلقوں میں انگریزی جرائد میں ایک آدھ مرتبہ ان پر کوئی مضمون ضرور چھیا۔ ان کی اس بے قدری پر مجھے سعادت حسن منٹو کی ایک تحریر یاد آ جاتی ہے جو ہمارے کلی رویئے کی غمازی کرتی ہے۔ ان کی اس تحریر کے حوالہ جات ملکی اور بیرون ملک تحریروں میں نظر آتے ہیں۔ یہ تحریر ان کی کتاب سیاہ ہاشیئے میں ’’جوتا‘‘ کے عنوان سے چھپی۔

جوتا
ہجوم نے رخ بدلا اور سرگنگا رام کے بت پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائی گئیں‘ اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے۔ ایک نے منہ پر تارکول مل دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کئے اور ان کا ہار بنا کر بت کے گلے میں ڈالنے کے لئے آگے بڑھا۔ مگر پولیس آ گئی اور گولیاں چلنا شروع ہوئیں۔

جوتوں کا ہار پہنانے والا زخمی ہو گیا۔ چنانچہ مرہم پٹی کے لئے اسے سرگنگارام اسپتالبھیج دیا گیا۔

اب کچھ تذکرہ ان کی سمادھیکا۔ 1927ء میں وفات پانے والے گنگا رام کی استھیاں اس وقت بڈھے راوی کے پاس سان کے علاقے میں دفن کی گئیں اور 1933ء میں وہاں پر ایک انتہائی خوبصورت سمادھیتعمیر کی گئی ۔ اس میں انتہائی اعلیٰ درجے کا سنگ مرمر استعمال کیا گیا۔ سمادھیکے دو جانب آبادی اور دو جانب دریا تھا۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس کے قریب ہی محلہ مسان میں ان کا شمشان گھاٹ بھی موجود تھا۔ سمادھیدور سے کسی مندر کی مانند دکھائی دیتی تھی، جس کا گنبد خاص ہندو روایتی طرز تعمیر کا تھا۔ سمادھیکا احاطہ کئی کنال پر مشتمل تھا۔

جس میں چھ انتہائی خوبصورت برجیاں بھی تھیں جو کہ سمادھیکے تالاب سے آگے اس کے گنبد کے چاروں جانب تھیں۔ اس کے علاوہ زائرین کے لئے کچھ پکے مکانات بھی تعمیر کئے گئے تھے۔ تالاب کے گرد سنگ مرمر کے آٹھ بنچ بھی تھے۔ جن کے سامنے تالاب کی تین جانب سے پانچ پانچ سیڑھیاں نیچے کو جاتی تھیں۔ یہ تمام معلومات کا ذریعہ عصر حاضر میں سمادھیکے قریب رہائشی بزرگ شخصیات ہیں کیونکہ کسی بھی کتاب میں اس سمادھیاور سرگنگارام کا تذکرہ نہیں۔ تقسیم کے بعد بڈھا راوی ایک نالے کی شکل اختیار کر گیا اور اس کے قریب گھاس منڈی اور سمادھیکے گرد کا علاقہ رہائشی گھروں میں تبدیل ہو گیا۔

عصر حاضر میں جب داتا دربار سے مینار پاکستان کی جانب جایا جائے تو نئے تعمیر کردہ پلوں کے ساتھ نیچے سے ایک راستہ راوی روڈ قصور پورہ کی جانب جاتا ہے۔ اس سڑک سے بائیں گھومتے ہی پہلے کبھی لب سڑک بابا چھتری والا کا مزار تھا جو ان پلوں کی تعمیر کے باعث منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس مزار والی جگہ کے ساتھ ہی بائیں جانب نیچے کو ایک گلی جاتی ہے یہ سارا علاقہ کچا راوی روڈ سمادھی گنگا رام کہلاتا ہے۔  یہ سڑک نیچے کو جا کر ایک چوک میں کھلتی ہے اس چوک سے بائیں جانب سڑک سمادھی کو جاتی ہے جبکہ سیدھا راستہ سن رائز بلائنڈ سکول کو جاتا ہے۔ یہ سکول زمانے بھر میں مشہور ہوا کیونکہ اسی سکول کی کرکٹ ٹیم نے دو مرتبہ بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ جیتا۔ سمادھی کے چاروں جانب مکانات ہیں۔ سمادھی کی عمارت کو دیکھ کر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اب جو اس کا رقبہ چار پانچ کنال پر محیط ہے۔ اصل عمارت میں یہ رقبہ زیادہ ہی ہوگا، سمادھی کی چار دیواری 1997ء میں تعمیر کی گئی جبکہ 1992ء میں بابری مسجد کے تنازعہ کے بعد سمادھی کی چاردیواری میں جو چھ برجیاں موجود تھیں وہ تمام کی تمام گرا دی گئیں محض مغربی سیدھ میں موجود ایک برجی کی بنیاد ابھی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

سنگ مرمر کے بنچ‘ فرش پر موجود سنگ مرمر اور ایک بارہ دری کے چبوترے میں بنی سمادھیپر سے سنگ مرمر اتار کر بازار میں کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دیا گیا۔ سمادھیکے رقبے میں صرف اور صرف بارہ دری کا چبوترہ بچا، جس کی جنوبی سیدھ کی دیوار پر ہمیں تین کتبے ہندی میں لکھے نظر آتے ہیں۔ تالاب کو فرش کے برابر کر دیا گیا۔ سمادھیکے گنبد اور فرش پر انتہائی اوسط درجے کا پتھر لگایا گیا جبکہ سمادھیکی جنوب مغربی سیدھ میں اپنے وقت کے وفاقی وزیر بہود آبادی جے سالک کا بھی گھر تھا۔ وہ ایک اقلیتی رکن اسمبلی رہے لیکن انہوں نے بھی اس جگہ کی حرمت اور تقدس کو نہ جانا۔ سمادھیکے جنوب میںایک گلی کے پرانے مکان میں معروف غزل گائیک مہدی حسن کے رشتے دار کا گھر ہے۔ جب مہدی حسن خان صاحب لاہور تشریف لائے تو ایک برس کے قریب انہوں نے اس گھر میں ریاض کیا۔

سمادھی کے گرد کی زیادہ آبادی امرتسر اور سہارنپور کی ہے۔ پیتل اور سلور کے برتنوں پر نفیس کام کا فن بھی سہارنپور سے ایسا اس محلے میں آیا کہ آج ہینڈی کرافٹ ایسوسی ایشن کے صدر امیر حسین بھی اسی جگہ کے رہائشی ہیں۔ عصر حاضر کے ایک دو معروف صحافی بھی اسی محلے کے رہائشی ہیں۔ جنوبی سیدھ کے محلوں میں کبھی ایک اکھاڑہ بھی تھا جو کہ ’’اچھے کا اکھاڑہ‘‘ کے نام سے معروف تھا۔ اب گھاس منڈی کے ساتھ ساتھ اکھاڑہ بھی محض ماضی کی یاد ہے۔ سمادھی کی جنوب مغربی سیدھ میں جامع مسجد بلال ہے جس کے امام صاحب سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سمادھی کے کھلے صحن میں بچے کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے ہیں اور نائٹ کرکٹ بھی کھیلی جاتی ہے۔ محکمہ متروک وقف املاک کی اجازت سے سمادھیمیں شادی بیاہ کی تقریبات کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔

بارہ دری کے وسط میں ایک کمرے میں سمادھیموجود ہے جس کے اندر کی چھت قدیم ہے۔ سمادھیکے کمرے کے چاروں جانب دروازے موجود ہیں۔ چبوترے کی چاروں سیدھ میں چاروں جانب شیر کے سر باہر کو نکلے ہوئے ہیں جو کہ تعداد میں آٹھ بنتے ہیں۔ سمادھیکے کمرے کی پچھلی جانب ایک بزرگ بہادر علی صاحب کی رہائش ہے اور سمادھیمیں ہی اس کی حفاظت کے لئے متعین مظہر اقبال بھی رہتا ہے۔ سمادھیکی پچھلی جانب ریڑھیاں کھڑی ہیں اور انتہائی گندگی کی حالت میں موجود ہیں۔ گنبد کے نیچے شمالی سیدھ میں ہمیں ہندی میں اوم لکھا ملتا ہے۔ اورمضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جنوبی سیدھ میں اردو میں اوم لکھا نظر آتا ہے۔ سمادھیکی شمال مغربی سیدھ میں بھی ایک کھلا میدان ہے جس کے بائیں جانب ایک قدیمی حکمت کی دکان ہے اس میدان کے سامنے وارثی سلسلہ کے ایک بزرگ سید اکرم علی شاہ وارثی احرام پوش کا بھی مزار ہے۔ یہ عمارت جمعرات کو مغرب سے عشاء تک کے لئے کھلتی ہے۔ عمارت کی قدامت اس کو انگریز سرکار کی عمارت بتلاتی ہے۔

اس کے قریب ہی گلی میں ایک بزرگ کی قبر بھی ہے جن کے نام کے نیچے ممبر صوبائی مسلم لیگ کونسل دہلی تحریر ہے۔ یہ کھلا میدان بطور نماز جنازہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ سمادھیمیں موجود رہائشی بابا بہادر علی ایک ریڑھی پر کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ سمادھیکے قریب رہائشی محلے دار انتہائی زندہ دل لوگ ہیں۔ تعطیل کے علاوہ اگر دیگر ایام میں لاہور کی کسی جگہ پر جایا جائے تو لوگ فراغت سے عاری ملتے ہیں۔ لیکن یہاں پر نوجوان پرانے لاہور کی نشانی دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ لوگ ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس جماعت نے ان کے لئے کبھی کچھ نہیں کیا لیکن وہ صرف اس لئے اس کے ساتھ ہیں کہ ان کی ایک فون کال پر ادھر کا نمائندہ آ جاتا ہے۔

لاہور کی دیگر عمارات کی مانند یہ لوگ گنگا رام کے نام اور تاریخ سے کافی بہرہ مند ہیں اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کچھ برس قبل ہندوستان سے کچھ لوگ ادھر آئے اور سمادھیمیں ایک تقریب منعقد کی اور لوگوں کو معلوماتی کتابچے بھی تقسیم کئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ادھر کے نوجوان ’’گنگا رام لورز سوسائٹی‘‘ بنانا چاہ رہے ہیں۔ وہ سمادھی کی حرمت سے بھی آشنا ہیں۔ اس کے باوجود یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر تمام محلے میں موجود قربانی کے جانور اسی سمادھیمیں باندھے جاتے ہیں۔ جدید طرز تعمیر آج کے کسی بھی سماج کی بنیادی ضرورت ہے لیکن پرانے طرز تعمیر اور ثقافت کی حامل یادگاروں سے ناروا سلوک سماج کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہ ایک سوال آج بھی موجود ہے کہ عہد حاضر کے لوگ ان عظیم لوگوں کی یادگاروں سے بدسلوکی کر رہے ہیں تو آنے والی نسلیں، آج کی نسلوں سے کیا کریں گی، یہ سوچ لیں ۔

ایجاد کردہ زبان ’’ اسپرانتو‘‘سے متعلق دل چسپ حقائق

$
0
0

 سال رواں میں اسپرانتو زبان اور یونیسکو کے باہمی تعاون (1954-2014) کے 60 برس مکمل ہوگئے ہیں۔ اسپرانتو بین الاقوامی رابطے کی مستعد زبان ہے، جسے 1887 ء میں پولینڈ کے ماہرلسّانیات زامن ہوف نے ایجاد کیا تھا تاکہ یورپی اقوام اپنے باہمی مسائل کے حل اور موثر رابطے کے طور پر ایک غیرجانب دار زبان کو ذریعہ بنائیں۔

یہ زبان اپنی عالم گیر افادیت اور بین الاقوامی اہمیت کے پیش نظر یورپ کے علاوہ سارے براعظموں میں پھیل چکی ہے۔ 127 سالہ اپنی تاریخ میں دنیا کی بڑی زبانوں کے شانہ بشانہ مصروف عمل نظر آتی ہے، جس نے انٹرنیٹ کی بدولت تیز ی سے ترقی کی ہے اور اسکا استعمال سرعت کے ساتھ بڑھ گیا ہے۔ دنیا بھر کے اسپرانتو دانوں کی نمائندہ عالمی تنظیم یونیورسل اسپرانتو ایسوسی ایشن (UEA) ہے۔ یہ تنظیم اقوام متحدہ کی پیش رو عالمی ادارہ مجلس اقوام (لیگ آف نیشنز) سے پہلے وجود میں آئی تھی۔ اسے 1908 ء میں جنیوا میں قائم کیا گیا۔ جب نوجوان اسپرانتودانوں نے ہیکٹر ہولڈلر کے اطراف جمع ہوکر ذاتی حیثیت میں بین الاقوامی یونیورسل اسپرانتو ایسوسی ایشن بنائی تھی۔

ہیکٹرہولڈلر ایک صحافی تھے اور سوئزرلینڈ کے مشہور قومی مصّور Ferdinand Holdler کے بیٹے ہیں۔ UEA اس وقت اسپرانتو بولنے والوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے، جس کے 127 ممالک میں نمائندے ہیں، جب کہ 70 قومی اسپرانتو تنظیموں کا UEA سے الحاق ہے۔ اس تنظیم کی رکنیت کے لیے بھی بنیادی شرط یہ یہی ہے کہ اس کے ممبر ان پہلے سے اپنے ملک کی نمائندہ اسپرانتو تنظیم کی ترجمانی بھی کرتے ہیں۔ کینڈا کے پروفیسر مارک فیٹس تنظیم کے موجودہ صدر ہیں ۔UEA کا صدر مقام نوٹرڈیم (ہالینڈ) میں ہے جب کہ اس کا ایک بین الاقوامی آفس اقوام متحدہ کی نیویارک بلڈنگ میں بھی واقع ہے۔

اسپرانتو عالمی کانگریس اسپرانتودانوں کا سب سے قدیم اور روایتی سالانہ تبادلۂ خیال اور اظہاررائے کا ذریعہ ہے اس کے اجلاس 1905 ء سے ماسوائے دو عالمی جنگوں کے متواتر جاری ہیں جب کہ 1920 ء سے اس کی سرپرستی UEA کررہی ہے۔ اسپرانتو کا پہلا اجلاس فرانس میں ہوا تھا۔

99 واں اجلاس حالیہ برس بیونس آئرس (ارجنٹائن) میں کام یابی سے اختتام پذیر ہوا ہے، جب کہ اسپرانتو کانگریس کا یادگاری 100 واں اجلاس 2015 ء میں فرانس کے شہر للی (Lille) میں متوقع ہے۔ UEA کے قیام کی 100 ویں سال گرہ کے موقع پر 24 اپریل 2008 ء کو اقوام متحدہ کے جنیوا دفتر میں ایک سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا تھا۔ یہ عالمی حقوقِ انسانی کے اعلان کی 60 ویں سال گرہ کا موقع بھی تھا تب انسانی حقوق کے حوالے سے سب سے زیادہ اہمیت لسّانی حق اور جمہوریت کو ملی۔

اقوام متحدہ کے قیام کے ایک سال بعد ہی 4 نومبر 1946 ء کو ’’یونیسکو‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم ہے، جس کا مرکزی خیال ہے دنیا کے عوام تعلیم، سائنس اور کلچر کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس سے پائے دار عالمی امن قائم کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ یہ تنظیم دنیا کی اقوام کے درمیان تعلیم، سائنس اور کلچر کے بنیاد پر ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے جس میں جنگ سے نفرت اور امن سے محبت کی جائے، جیسا کہ اس کے دستور کی تمہید میں لکھا ہے،’’کیوں کہ جنگ پہلے انسانوں کے دلوں میں شروع ہوتی ہے، اس لیے امن کی حفاظت بھی انسانوں کے دلوں میں شروع ہونا چاہیے۔‘‘

عالمی ادارہ صحت و بین الاقوامی مزدور یونین کا یونیسکو سے گہرا تعاون حاصل ہے۔ یونیسکو کا ہیڈ کوارٹر پیرس میں ہے، جس نے اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ کام یابیاں حاصل کی ہیں۔ یہ تنظیم وقتاًًفوقتاً مختلف ممالک میں سیمینار منعقد کراتی ہے، جن میں ان ممالک کے نمائندے اہم تعلیمی و تمدنی مسائل پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں، سائنس کی ترقیوں اور اس کے امکانات پر غور کرتے ہیں اور اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ تعلیم زیادہ سے زیادہ عام اور بہتر ہو۔ مختلف تمدنوں اور تمدنی مسائل کو مختلف ممالک سمجھیں، تاکہ جو اختلافات پائے جاتے ہیں وہ رفع ہوسکیں۔

اس تنظیم کا کہنا ہے کہ کسی بھی نئی ایجاد کے فوائد تمام ممالک کے لوگوں کو پہنچنا چاہییں۔ یونیسکو کے قیام سے دنیا کے مختلف ممالک اب ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے ہیں اور اس کے ذریعے بین الاقوامیت کو کافی فائدہ پہنچا ہے اور دوسری طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یونیسکو اور اسپرانتو کا ساتھ پرانا ہے۔ UEA کا یونیسکو سے تعلق 1954 ء میں قائم ہوا تھا، جسے اب 60 برس کا عرصہ ہوچکا ہے۔ یہ ایک عمومی اجلاس تھا جس میں اسپرانتو کو اپنانے کی سفارش کی گئی۔ یہ جنرل کانفرنس یونیسکو کا آٹھواں سیشن تھا جوکہ یوراگوائے کے شہر Montevideo میں منعقد ہوا اور اٹھارھویں ابتدائی میٹنگ کے اجلاس میں اسپرانتو کے یونیسکو میں استعمال کے بارے میں تاریخی قرارداد 10 دسمبر 1954 ء کو منظور کرلی گئی۔

اس کے مطابق یونیسکو نے اپنے ممبرز ممالک سے درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے ملکوں میں اسکول اور ہائی تعلیمی اداروں میں اسپرانتو کا استعمال کریں اور اس کے علاوہ باہمی بین الاقوامی تعلقات کے سلسلے میں سائنسی اور ثقافتی روابط میں اسپرانتو کا عمل دخل بڑھائیں۔ اس موقع پر یونیسکو نے عوام کے درمیان بین الاقوامی تبادلہ خیال اور افہام وتفہیم کے لیے اسپرانتو کو بطور ایک اہم ذریعہ یا ٹول تسلیم کیا اور کہا کہ اس سے مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ اسپرانتو کے عزائم یونیسکو کے مقاصد ونظریات سے ہم آہنگ ہیں۔ یونیسکو نے اس بات کا بھی اقرار کیا کہ اسپرانتو بہت زیادہ پوٹنشل رکھتی ہے۔

جس کے ذریعے دنیا کے مختلف علاقوں اور قوموں کے مابین بین الاقوامی دانش وروں کو قریب لایا جاسکتا ہے اور ان سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ یہ زبان عوام اور مختلف اقوام کے لیے بین الاقوامی تبادلۂ خیال اور رابطے کے لیے موزوں ترین ہے۔ اس موقع پر اسپرانتو تحریک کے لیے UEA کی خدمات کو بھی سراہا گیا۔ ڈائریکٹر جنرل یونیسکو نے اسپرانتو کی ترقی کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی درخواست کی، تاکہ مختلف قوموں اور ثقافتوں کے مابین تعلقات کو بہتر بنایا جاسکے۔1985 ء میں یونیسکو نے ایک بار پھر اپنے ممبر ممالک سے کہا کہ وہ اپنے ملکوں میں اسپرانتو کو تعلیمی اداروں میں تعلیم اور بین الاقوامی معاملات کے لیے استعمال میں لائیں۔

8 نومبر 1985 ء کو سوفیا (بلغاریہ) میں جنرل کانفرنس یونیسکو کا 23 واں سیشن منعقد ہوا تھا اور یہ 36 واں ابتدائی فل سیشن اجلاس تھا، جس میں دوسری بار سابقہ قرارداد کو پیش کیا گیا اور منظور کیا گیا۔ 1996 ء میں اسپرانتو کے سالانہ اجلاس کے موقع پر بھی اسپرانتو کو یونیسکو کی بھر پور معاونت حاصل رہی اور اس تعاون کے نتیجے میں عالمی اسپرانتو ایسوسی ایشن نے اپنا منشور یا مینی فیسٹو ترتیب دیا۔ یوں جمہوریہ چیک کے دارالحکومت ’’پراگ‘‘ میں 1996 ء کا سال اسپرانتو کے لیے یادگار سال قرار دیا گیا تھا۔ اس منشور میں سب سے زیادہ زور دنیا کے تمام بنی نوع انسان کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع پیدا کرنے پر دیا گیا۔ اگر اقوام متحدہ اور یونیسکو کے چارٹر کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس کے مقاصدونصب العین اور اسپرانتو کے منشور میں زبردست مماثلت پائی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ بھی تعلیم حاصل کرنے کے یکساں اور بہتر مواقع پیدا کرنے پر زور دیتا ہے اور وہ کسی بھی قوم کی مادری زبان ہی میں تعلیم دیے جانے کو ترجیح اور اولیت دیتا ہے، کیوںکہ یہ انسان کے لسّانی حقوق کے اصول کے عین مطابق ہے۔ مادری زبان یا قومی زبان میں تعلیم بچوں کے ذہنوں کو کھولتی ہے اور ان کی نشوونما کے لیے بہترین مواقع پیدا کرتی ہے۔ اگر اسپرانتو کے منشور کے سات نکات کا مطالعہ کیا جائے، تو یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے زبان و جمہوری آزادی کی کیا اہمیت ہے:

٭دنیا میں تہذیب و ثقافت کی طرح زبانیں بھی اپنے حلقہ ہائے اثر میں اہمیت رکھتی ہیں۔ غالب اقوام کی زبانوں کی طرح کم زور اقوام کی زبانیں بھی اپنے اند ر بہت کچھ رکھتی ہیں، لہٰذا ان کی حفاظت بھی ضروری ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ کسی خاص زبان کو دوسری زبان پر بالادستی نہ ہو۔

٭زبانوں کی کثرت اور اختلاف بین الاقوامی روابط وتعلقات کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے اسے کسی غیر جانبدار زبان کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔

انسان آزادی چاہتا ہے ہم سمجھتے ہیں غالب اقوام نے اپنی بالادستی کے ذریعے کمزور اقوام کی آزادی اور بالخصوص زبان، تہذیب اور ثقافت کی آزادی کو سلب کررکھا ہے۔

٭غیرملکی زبان کے ذریعے تدریس ہو تو تحصیل علم کا کام مشکل ہوجاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ درس وتدریس کے میدان میں عالمی سطح پر ایک ایسی آسان سادہ اور عام فہم زبان کو اپنا جائے جو تما م قوموں کے لیے یکساں ہو۔

٭درس وتدریس کے فروغ میں بالادست اقوام اپنی زبان کے ذریعے دنیا پر چھائی ہوئی ہیں، کم زور اقوام کو حصولِ علم کے لیے غیرملکی زبان میں مہارت حاصل کرنے کے لیے زاید محنت کرنی پڑتی ہے۔

٭دنیا میں ذرایع ابلاغ کی ترقی اور سائنسی ایجادات کی بدولت بعض اقوام نے محض زبان کی برتری کے ذریعے کمزور اقوام اور ان کی تہذیب و ثقافت کو دبا رکھا ہے، جمہوریت کا تقاضا ہے کہ اس اجارہ داری کا خاتمہ ہو۔

٭جمہوریت، درس وتدریس، فروغ علم و دانش، علاقائی زبانوں کے تحفظ، لسانی حقوق اور بین الاقوامی روابط کے ایسی زبان کا اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے جو غیرجانب دار، آسان اور جامع ہو، لیکن کسی مقام، ملکی اور مذہبی زبان کی مخالف نہ ہو، یہ زبان صرف اسپرانتو ہی ہے۔

اسپرانتو زبان نے اپنے آبائی وطن یورپ میں سب سے زیادہ ترقی اور پذیرائی حاصل کی ہے۔ UEA کا اشتراک یونیسکو کے علاوہ بچوں کے ہنگامی فنڈ (Unisef) سے بھی تعاون ہے، جب کہ یہ کونسل آف یورپ اور یورپین لینگویج کی بھی ممبر ہے۔ اسپرانتو اب یورپ یونین کی آفیشلی 25 ویں زبان بھی بن چکی ہے اور یونین میں مستعد زبان کے طور پر کام کررہی ہے، جب کہ یورپین یونین کی واحد نمائندہ زبان کے نظریہ پر بھی کام ہورہا ہے۔ یاد رہے کہ یورپین یونین کے ممبرممالک کی تعداد70 کے لگ بھگ ہے۔ اسپرانتو کے حوالے سے یورپین یونین میں اہم پیش رفت 2003 ء میں ہوئی تھی جب اسٹارزبرگ (فرانس) میں نظریۂ لسّانی حقوق کی بنیاد پر یورپ کو اور زیادہ جمہوری یونین بنانے کے لیے ایک نیا پلیٹ فارم Europe-Democracy-Esperanto کے نام سے ترتیب دیا گیا۔

اس تحریک میں لسّانی حقوق کے علاوہ اسپرانتوازم اور Finvenkismo کو فروغ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یورپین یونین کے ممالک کا اسپرانتو گروپ ’’یورپین اسپرانتو یونین‘‘ بھی ہے، جس کے دو سال میں اجلاس بلائے جاتے ہیں۔2007 کی کانفرنس میں 256 ڈیلی گیٹس تھے، جنہوں نے 28 یورپی ممالک کی نمائندگی کی۔ اس کانفرنس کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں یورپی پارلیمنٹ کے دو اہم رکن بھی شریک ہوئے جن کا تعلق پولینڈ اور سلووینیا سے ہے۔ 2009 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپین اسپرانتو یونین نے فرانس کے اخبار “Le Mode” کے پورے صفحے پر یہ اشتہار لگوایا تھا، جس میں انگریزی کے بجائے اسپرانتو زبان کا استعمال کرنے کو کہا گیا۔

مجرم کی شناخت آج بھی کھوجی سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا

$
0
0

جیسے ایک انسان کی انگلیوں اور انگوٹھے کے نشانات کسی دوسرے سے نہیں ملتے، اسی طرح دنیا کے اربوں انسانوں کی چال یا زمین پر قدم رکھنے کا انداز بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق چال کی مدد سے کسی کو شناخت کرنا دوسرے تمام طریقوں کی نسبت آسان اور بہتر ہے۔ چال سے کسی شخص کی شناخت کا فن بہت پرانا ہے۔

قدیم ہندوستان میں مجروموں کی تلاش کے لئے عموماً کھوجی کی مدد حاصل کی جاتی تھی۔ وہ زمین پر قدموں کے نشان دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ مجرم چلتا کس طرح ہے۔اس کا وزن اور عمر اندازاً کتنی ہے، اس کی شخصیت کے کون سے منفرد پہلو ہیں؟ کھوجی کے اس قیاس کی مدد سے پولیس کو مجرم کا حلیہ تیار کرنے اور اسے پکڑنے میں نہایت مدد ملتی تھی۔ کھوجیوں کے اندازے اکثر اوقات حیرت انگیز حد تک درست ہوتے تھے۔ کھوجی اپنے ہنر میں اتنے ماہر تھے کہ وہ جانوروں کے کھروں کے نشان دیکھ کر ان کے بارے میں غیر معمولی حد تک درست اندازہ لگا لیتے تھے۔ مثلاً یہ کہ گھوڑے یا دوسرے کسی دوسرے جانور کی جسامت کیسی ہے، وزن کتنا ہے، اس کے چلنے کا قدرتی انداز کیا ہے اور اس پر سوار شخص اسے کس انداز میں چلانے کی کوشش کی تھی؟ برطانوی حکمرانوں نے بھی ہندوستان میں اپنے دور اقتدار میں کھوجیوں کے فن کی حوصلہ افزائی جاری رکھی اور دیہی پولیس سٹیشنوں کے ساتھ کئی کئی کھوجی منسلک کئے جاتے تھے۔

پاکستان قائم ہونے کے بعد، ابتدائی برسوں میں یہ سلسلہ جاری رہا مگر بعد ازاں پختہ اور نیم پختہ سڑکوں کی تعمیر، جرائم کے لئے گاڑیوں اور دیگر جدید ذرائع کے استعمال کے بعد کھوجیوں کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی اور وہ ماضی کا قصہ بن گئے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے باوجود عصر حاضر میں بھی کھوجی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، کیوں اور کیسے؟ کا جواب لینے کے لئے ’’ایکسپریس‘‘ نے ایک کھوجی سے نشست کا اہتمام کیا، جس کی روداد نذر قارئین ہے۔

52 سالہ احمد علی کھوجی کا تعلق کمالیہ کے گائوں 724 گ ب سے ہے، ان کے والد موکھے خاں علاقہ کے معروف ترین کھوجی تھے۔ دیہی زندگی میں پڑھائی لکھائی کا زیادہ رجحان نہ ہونے کے باعث احمد علی خود ایک بھی جماعت پڑھ سکے نہ آگے انہوں نے اپنی بیٹیوں کو پڑھایا، البتہ اپنے بیٹے کو میٹرک تک تعلیم دلوائی ہے۔ احمد علی کی عمر صرف 20 سال تھی، جب انہیں مقامی روایات کے مطابق رشتہ ازدواج میں باندھ دیا گیا۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں اور 5 بیٹیوں سے نوازا، تاہم ان کے دو بیٹے فوت ہو چکے ہیں۔

گھر کے معاشی حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’’ہمارا گزارا صرف کھوجی کے کام پر نہیں، کیوں کہ میں نے کبھی کسی سے اس کام کا معاوضہ طلب نہیں کیا، کوئی اپنی خوشی سے دے تو اور بات ہے، کیوں کہ یہ پیشہ سے زیادہ میرے لئے ایک جنون اور شوق کا درجہ رکھتا ہے۔ والد کی طرف سے ہم سب بھائیوں کو دو دو چار چار ایکڑ زمین ملی، جس پر کھیتی باڑی کرکے گزر بسر ہو رہی ہے۔‘‘ کھوجی کے پیشے سے وابستگی اور اپنے استاد کے بارے میں بتاتے ہوئے احمد علی کا کہنا تھا کہ ’’ کھوجی کا کام سیکھنے کے لئے کئی سال جوتے تڑوانے پڑتے ہیں، استاد کے ساتھ ساتھ چلنا پڑتا ہے، ایک کھرا نکالنے کے لئے کئی کئی کلومیٹر کا پیدل سفر بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ استاد شاگرد کو سمجھاتا ہے کہ پائوں کے نشانات کی شناخت کیسے کی جاتی ہے، ہاتھ اور پائوں کی لکیروں، چال ڈھال کو یاد کرکے سمجھنا پڑتا ہے۔

استاد بتاتا ہے کہ دیکھو! اس کی ہتھیلی، انگوٹھے اور پائوں کی یہ نشانی ہے، جو کسی اور شخص سے نہیں ملتی۔ اپنے خاندان کی بات کروں تو یہ کام ہم نسلوں سے کرتے آ رہے ہیں، میرے پردادا، دادا، والد، چچا اور کزن بھی یہ کام کر رہے ہیں، لیکن اپنے اکلوتے بیٹے کو یہ کام نہیں سکھایا کیوں کہ اس میں جان کو خطرہ بھی ہوتا ہے، اسی لئے وہ زمیندارہ کر رہا ہے۔ میں نے کھوجی کا کام 22 سال قبل شروع کیا، میرا استاد میرے والد نہیں بلکہ سمندری کے رہائشی استاد اویس ہیں،جو اپنے علاقے کے بڑے نامور کھوجی ہیں، میرا ان سے بہت زیادہ پیار تھا تو میں نے کام بھی انہیں سے سیکھا۔ میں آج تک سینکڑوں، ہزاروں کھرے نکال چکا ہوں۔ آج تک کوئی ایسا کیس نہیں جس میں چور یا ڈکیت تک نہ پہنچا ہوں۔‘‘

کھوج کیسے لگائی جاتی ہے؟ کے جواب میں احمد علی گویا ہوئے کہ ’’ کسی ڈیرے یا گھر سے بھینس چوری ہو گئی تو ہم سب سے پہلے چور اور بھینس کے پیروں یا جوتے کے نشان کو اچھی طرح محفوظ کر لیتے ہیں۔ بھینس کے 8 کُھر ہوتے ہیں، جنہیں ایک ایک کرکے ذہن نشین کر لیا جاتا ہے کہ آیا یہ ایک کُھر کو دوسرے پر چڑھا کر چلتی ہے یا پھیلاکر چلتی ہے، دبا کر چلتی ہے، چلتے ہوئے پائوں سیدھے رکھتی ہے یا ٹیڑھے کر لیتی ہے وغیرہ وغیرہ، پھر پائوں کے انہی نشانات کی پیروی کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اگر یہ بھینس دیگر کئی بھینسوں میں بھی شامل کر دی جائے تو ہم بڑی آسانی سے پیروں کے نشانات کی وجہ سے اسے پہچان لیتے ہیں۔

بالکل اسی طرح چور کے پیروں کے نشانات کو بھی اچھی طرح ذہن نشین کرکے آگے بڑھا جاتا ہے۔ اچھا چور اگر ننگے پائوں ہو تو پھر اس کا ’’کھرا‘‘ (کھوج) نکالنا بہت ہی آسان ہوتا ہے، یعنی ہاتھوں کی طرح اس کے پیروں کے تلووں پر موجود لکیروں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جاتا ہے، لیکن جوتا پہنے ہونے کی صورت میں بھی ہم اسے تلاش کر لیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ پختہ سڑک پر کسی گاڑی میں سوار نہ ہو جائے، اس صورت میں چور کی چال سمجھنا پڑتی ہے کہ وہ پائوں اندر کی طرف رکھ کر چلتا ہے یا باہر کی طرف نکالتا ہے، چلتے ہوئے پنجوں پر زور دیتا ہے یا ایڑھی پر وغیرہ وغیرہ۔

وں ہم چور اور مسروقہ مال تک پہنچ جاتے ہیں اور الحمداللہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میرے پاس کوئی کیس آیا ہو اور میں متعلقہ چور، ڈکیت یا مسروقہ مال تک نہ پہنچ سکا ہوں، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس میں کبھی دیر لگ گئی ہو،کیوں کہ بعض اوقات چور بہت ہوشیاری سے سارے کام سرانجام دیتا ہے یا پھر علاقہ کا نہیں ہوتا۔ اس صورت میں ہم چور اور جانور کے نشانات کو دماغ میں پختہ کر لیتے ہیں اور ہم پر اللہ تعالیٰ کی کچھ خاص عنایت ہوتی ہے کہ ایک بار پیروں یا جوتے کے جو نشانات ہم ذہن نشین کر لیں، پھر وہ نشانات ہمیں پانچ سال بعد بھی کسی اور جگہ دیکھے تو ہم اسے فوراً پہچان لیتے ہیں۔

جیسے ایک بار کسی کے گھر کوئی چوری ہوئی، میں نے ’’کھرا‘‘ نکالا لیکن وہ ایک جگہ پر جا کر گم ہو گیا، لیکن ایک سال بعد کسی اور جگہ پر چوری کی صورت میں جب میں وہاں پہنچا تو میں نے فوراً پہچان لیا کہ یہ وہی چور ہیں اور اس بار وہ پکڑے بھی گئے۔ اسی طرح ایک بار میرے چچا کے گھر سے چوروں نے دو بکریاں چرا لیں، انہوں نے کھرا نکالا لیکن وہ چوروں تک نہ پہنچ سکے کیوں کہ وہ ہمارے علاقے کے نہیں تھے۔

اچھا اس دوران ان میں سے ایک نے بکری کو کندھے پراٹھاتے ہوئے زمین پر ہاتھ لگا لیا، میرے چچا نے وہ ہاتھ کا نشان ذہن نشین کر لیا اور کئی سال بعد ایک میلے میں میرے چچا کسی ٹھیلے کے سامنے موجود تھے کہ وہی چور وہاں آ کر کھڑا ہو گیا اور کوئی چیز لیتے دیتے اس کا ہاتھ کسی ایسی جگہ پر پڑا جہاں نشان پڑ گیا تو میرے چچا نے فوراً اسے پہچان لیا۔

چچا اس شخص کو پکڑ کر دوسری طرف لے گئے اور اس سے پوچھا کہ سچ بتا تو نے فلاں سال میں کسی گھر سے بکریاں چرائی تھیں تو وہ صاف مکر گیا لیکن جب میرے چچا نے اسے بتایا کہ میں کھوجی ہوں اور میں نے تیرے ہاتھوں کے نشانات کو پہچان لیا ہے تو وہ رونے لگا کہ مجھے معاف کر دیں، اس نے ہی بکریاں چرائی تھیں کیوں کہ وہ اس وقت بھوکا تھا اور کھانے کو کچھ نہیں تھا، میرے چچا نے اسے معاف کر دیا۔‘‘

سراغ رساں کتے، سکینر اور کمپیوٹر کے دور میں کھوجی کے کام میں ایسا کیا ہے، جو جدید ٹیکنالوجی ابھی بھی نہیں کر سکتی؟ اس سوال پر انہوں نے بتایا: ’’ میرے خیال میں مجرم کی شناخت آج بھی کھوجی سے بہترکوئی نہیں کر سکتا ، کھوجی کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن کتے کی نہیں، کیوںکہ ایسا متعدد بار ہو چکا ہے کہ لوگ کتے کے ذریعے اپنی چوری کا کھوج لگواتے ہیں لیکن وہ درست نہ ہونے پر پھر وہ ہمارے پاس ہی آتے ہیں، میں خود کئی ایسے کیس حل کر چکا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ کتے کی گواہی پر اعتبار نہیںکرتے اور مکر جاتے ہیں۔ پھر جاننے والے جانتے ہیں کہ ذرا سی ہوشیاری سے کتے کو بہکانا نہایت آسان ہے۔

کھوج کے کام میں شرح کامیابی تقریباً سو فیصد ہے کیوں کہ بعض اوقات یوں ہوتا کہ کسی ایسے چور نے چوری کی جس کے پیروں کے نشانات ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے، تو اس میں تھوڑا وقت لگ جاتا ہے، لیکن اس صورت میں ہم نشانیوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیتے ہیں اور چھ ماہ یا سال بعد پھر کوئی اور واردات میں وہی نشانیاں ملنے پر چور تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔

اس کام کا معاوضہ کبھی طے نہیں ہوتا، میں نے تو کبھی کسی سے مانگا نہیں لیکن جو کھوجی مانگتے ہیں، وہ ہزار سے لے کر پانچ ہزار روپے تک مانگ لیتے ہیں۔ کھوجی کے کام کا سیزن سارا سال اندھیری راتیں ہوتی ہیں، یعنی ایک ماہ میں پندرہ سولہ روز جب رات کو چاندنی ہوتی ہے تو وارداتیں بہت کم ہوتی ہیں اور باقی پندرہ یا چودہ روز وارداتیں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔‘‘

کام کے دوران زندگی کے خوف اور دیانت داری کا ذکر کرتے ہوئے کھوجی نے بتایا کہ ’’ کھوجی کے بھی بیوی، بچے اور والدین ہوتے ہیں، اسی لئے کھوجی ڈر بھی جاتے ہیں اور جب دیکھا کہ یہ نشانات کسی بڑے چور یا ڈکیت کی طرف چل رہے ہیں تو وہ کوئی بھی بہانہ بنا کر کام چھوڑ دیتے ہیں، لیکن الحمداللہ میں آج تک نہیں گھبرایا، جو سچ آنکھوں سے دیکھا وہ بتا دیا، اس رویے کی وجہ سے مشکلات بھی پیش آتی ہیں، لیکن کیا ہم نے اللہ تعالیٰ کو منہ نہیں دکھانا؟ چوری کے نشانات کی پیروی کرتے ہوئے جب کسی گھر پر پہنچتے ہیں تو وہ بندہ انکار کی صورت پھر قرآن اٹھاتا ہے اور اگر وہ واقعی سچا ہو تو یہ سارا بھار پھر کھوجی پر ہی پڑتا ہے۔

پھر اگر غلط آدمی پر مقدمہ بن جائے اور وہ تھانوں یا عدالت کے چکر کاٹتا پھرے تو اس کو جتنی تکلیف پہنچے گی اس کا سارا گناہ بھی ہمارے سر ہو گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کھوجی جھوٹا ’’کھرا‘‘ نہیں نکالتے، ایسے واقعات ہوتے ہیں، لیکن ہم ایسا نہیں کرتے اور نہ اسے پسند کرتے ہیں۔ تاہم اس میں ایک چیز یہ بھی ہے کہ کچھ کھوجی پیسے نہ ملنے کی وجہ سے کام کو لٹکائے رکھتے ہیں، یعنی وہ مختلف حیلے بہانوں سے چور کا نام نہیں بتاتے اور جب انہیں پیسے مل جائیں تو وہ فوراً نام بتا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملتی ہیں، تاہم اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج تک اس کام کے نتیجے میں جنم لینے والی دشمنیوں کی وجہ سے میرے علاقہ میں کسی کی جان نہیں گئی، لیکن ہاتھ پائوں ضرور کٹے ہیں۔

یہاں ہمارے پاس ایک کھوجی تھا،جس کے کام کی وجہ سے چور اس سے سخت ناراض رہتے تھے۔ چوروں نے اس کھوجی سے کہا کہ ہم چوری میں تمہیں حصہ بھی دیں گے، لیکن جب چوری ہوئی تو مذکورہ کھوجی نے سچ کا ساتھ دیتے ہوئے کھرا انہیں کی طرف نکال دیا تو انہوں نے کھوجی کا بازو کاٹ دیا۔ اسی طرح ایک اور کھوجی کو اس کام کی وجہ سے اپنی ٹانگیں کٹوانا پڑیں۔ اس کام کی وجہ سے ایک بار مجھ پر بھی حملہ ہو چکا ہے۔ یہاں کچھ بااثر افراد نے مجھے اس کام سے روکنے کی کوشش کی، منع نہ ہونے پر انہوں نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں تو میں نے انہیں جواب دیا کہ ٹھیک ہے، اس وقت میں اکیلا ہوں اور جو تمھارا دل کرتا ہے کر لو لیکن یاد رکھنا میرے خاندان والے بھی تمہیں نہیں چھوڑیں گے، جس پر وہ پیچھے ہٹ گئے۔‘‘

موجودہ دور میں اگر حکومت آپ کو جرائم کی روک تھام کے لئے کوئی ذمہ داری سونپے یعنی پولیس سٹیشنوں میں باقاعدہ تعیناتیاں کی جائیں تو آپ کیا نتائج دے سکتے ہیں؟ وہ کہنے لگے: ’’جرائم کی روک تھام کے لئے کھوجیوں کا پولیس کے ساتھ جوڑا جانا نہایت ضروری ہے، اس سے جرائم کی روک تھام اور مجرموں کو لگام ڈالنے میں واضح بہتری آئے گی۔ لیکن ہمارے ہاں اب سرکاری طور پر ایسا کیا نہیں جاتا، حالاں کہ غیر سرکاری طور پر پولیس ہم سے مدد حاصل کرتی رہتی ہے اور میں آپ کو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کھوجی پولیس اہلکاروں سے زیادہ اچھا کام کرتے ہیں۔ پھر پولیس اہلکار متعدد جرائم کی تحقیقات میں ہم سے مدد لیتے ہیں، رات کو کہیں ڈکیتی یا چوری ہو جائے تو پولیس اہلکار رات کو ہی ہمیں اٹھا کر لے جاتے ہیں اور ہم بخوشی چلے بھی جاتے ہیں، لیکن یہ صرف انسانیت کے ناطے ہوتا ہے، کیوں کہ پولیس والوں نے تو ہمیں کچھ دینا نہیں، الٹا ڈر یہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ مانگ ہی نہ لیں۔‘‘

دیس بدیس کے پکوان

$
0
0

روغن جوش
اجزا:
مٹن: 1 کلو
پیاز: (باریک کٹی ہوئی) دو عدد
ہینگ: 1 چٹکی
لونگ: 3 عدد
دارچینی: 3 عدد
بڑی الائچی: 2 عدد
سونف: 3 چائے کے چمچے
زیرہ: 1چائے کا چمچے
لال مرچ پاؤڈر: 1 چائے کا چمچہ
ادرک لہسن پیسٹ: 1کھانے کا چمچہ
پپریکا پاؤڈر: 1 چائے کا چمچہ
سونٹھ: 1/2چائے کا چمچہ
ہلدی: 1 چائے کا چمچہ
بادیان کا پھول: 1عدد
پسا گرم مسالا: 1چائے کا چمچہ
دہی: 1/2 کلو
نمک حسب ذائقہ
تیل: 1 کپ
لال آٹا: 2 کھانے کے چمچے

ترکیب:
کھلے منہ کی دیگچی میں تیل گرم کرکے پیاز ہلکا براؤن کرکے ادرک لہسن پیسٹ بھون لیں۔
گوشت ڈال کے تیز آنچ پر فرائی کریں جب گوشت کی رنگت بدل جائے تو لال مرچ پاؤڈر، ہینگ، ہلدی، سونٹھ، پپریکا پاؤڈر اور نمک ڈال کے پکائیں۔ کچھ دیر بعد دہی شامل کردیں۔

ایک ململ کے کپڑے کی پوٹلی میں سونف، لونگ، دار چینی، زیرہ، بڑی الائچی اور بادیان کا پھول ڈالیں اور پوٹلی رکھ دیں۔ ڈھک کے ہلکی آنچ پر پکنے دیں۔
گوشت گل جائے تو پوٹلی نکال دیں اور لال آٹا تھوڑے سے پانی میں مکس کریں اور اسے گریوی میں شامل کر کے مزید پانچ منٹ پکائیں۔
آٹا ڈالنے سے پہلے گریوی کے اوپر سے روغن پیالے میں نکال لیں۔
سرونگ باؤل میں نکالیں، اوپر روغن ڈال دیں، پسا گرم مسالا چھڑک کے سرو کریں۔
اگر گوشت گلانے کے لیے پانی کی ضرورت ہو تو دہی ڈال کے بھوننے کے بعد پانی شامل کریں۔

کوفتہ پلاؤ
اجزا:
قیمہ: آدھا کلو
پیاز: تین عدد (درمیانے سائز کے بلینڈ کرلیں، پیسٹ بنالیں)
خشخاش: دو کھانے کے چمچے (پسی ہوئی)
بھنے ہوئے کالے چنے: آدھا کپ (پسے ہوئے)
بیسن: آدھا کپ
نمک: حسبِ ذائقہ
لال مرچ: ایک کھانے کا چمچہ
گرم مسالا: ایک چائے کا چمچہ

پلاؤ کے لیے:
چاول: دو گلاس (صاف کرکے بھگو دیں)
آلو: آدھا کلو (لمبائی کے رخ کاٹ لیں، فنگر چپس کی طرح)
پیاز: دو عدد (باریک کاٹ لیں)
ادرک: ایک کھانے کا چمچہ (پسی ہوئی)
لہسن: ایک کھانے کا چمچہ (پسا ہوا)
ٹماٹر: تین عدد (چوکور کاٹ لیں)
اچارمسالا: ایک کھانے کا چمچہ (اچھی طرح بھرا ہوا)
نمک: حسبِ ذائقہ
لال مرچ: آدھا کھانے کا چمچ
گرم مسالا: آدھا چائے کا چمچ
سفیدزیرہ: ایک چائے کا چمچ
ہری مرچ: دس عدد (لمبائی کے رخ کاٹ لیں)
ہرا دھنیا: حسبِ ضرورت (باریک کٹا ہوا)
تیز پات: چار پتے
کوکنگ آئل: تین کھانے کے چمچ

ترکیب:
کوفتے کے لیے: قیمہ میں یہ سب اشیاء ڈال کر مکس کرلیں اور اس کے گول کوفتے بنالیں۔
اگر قیمہ نرم ہو تو مزید بیسن ڈال کر مکس کرلیں۔
پھر ان کو ڈیپ فرائی کرلیں۔ ہلکی آنچ پر۔
پلاؤ کے لیے: ایک دیگچی میں تیل گرم کریں اور پیاز ڈال دیں۔
جب وہ گولڈن ہونے لگے تو زیرہ اور تیز پات ڈال دیں اور فرائی کریں۔

جب پیاز لائٹ پنک ہونے لگے تو ادرک اور لہسن ڈال کر فرائی کریں اتنا کہ لہسن پیاز سمیت براؤن ہوجائے پھر آدھا کپ پانی ڈال کر ڈھکن رکھ دیں۔
تیس سیکنڈ بعد ڈھکن اٹھا دیں۔ پھر ٹماٹر، ہری مرچ، اچار، لال مرچ اور نمک ڈال کر بھونیں۔ اتنا کہ سبمسالہ یک جان ہوکر گھی چھوڑ دے۔
پھر آلو ڈال کر بھونیں۔ دو منٹ بعد کوفتے ڈال کر ایک کپ پانی ڈال کر ڈھکن رکھ کر پکنے دیں۔
دس منٹ بعد ڈھکن اٹھا کر دیکھیں کہ آلو گَل گئے کہ نہیں۔

آلو گَل جائیں اور پانی خشک ہو جائے تو تھوڑا سا بھونیں احتیاط سے کہیں کوفتے ٹوٹ نہ جائیں۔
پھر چار گلاس پانی کے ڈال کر ڈھکن رکھ دیں۔ جب پانی پکنے لگے تو چاول ڈال دیں اور ڈھکن رکھ کر درمیانی آنچ پر پکائیں۔
جب پانی خشک ہو جائے اور چاول بھی تقریباً پک جائیں تو گرم مسالا اور ہرا دھنیا چھڑک کر ہلکی آنچ پر پانچ منٹ دَم دے لیں۔
پانچ منٹ بعد دیکھیں چاول پک گئے ہیں تو آنچ بند کردیں۔ مزے دار کوفتہ پلاؤ تیار ہے۔

میتھی قیمہ
اجزا:
قیمہ: آدھا کیلو
گھی: آدھا کپ
زیرہ پاؤڈر: ایک چائے کا چمچ
ہرا دھنیا: ایک گٹھی پتے کاٹ لیں
گرم مسالا: آدھا چائے کا چمچ
ہری مرچ: چار تا پانچ عدد
پیاز: چار عدد سلائس کٹے ہوئے
نمک: حسب ذائقہ
ٹماٹر: چار کٹے ہوئے
ادرک لہسن: دو کھانے کے چمچ
سُرخ مرچ: ایک چائے کا چمچ
کڑی مرچ: ایک چائے کا چمچ
قصوری میتھی: دو کھنے کا چمچ

ترکیب:
گھی کو گرم کریں۔ پیاز گرم کریں حتیٰ کہ شفاف ہوجائے۔ قیمہ ڈال کر اچھی طرح فرائی کرلیں ادرک لہسن، نمک ملاکر اچھی طر ح فرائی کریں۔ زیرہ پاؤڈر، سُرخ مرچ، کڑی مرچ ملادیں۔ ڈھانپ کر پانچ منٹ تک پکنے دیں۔ ٹماٹر، کٹی ہوئی ہری مرچ شامل کریں۔ اتنا فرائی کریں کہ ٹماٹر نرم ہوجائیں اور قیمے کے ساتھ اچھی طرح پک جائیں۔ اب ہرے دھنیے کے پتے ہری مرچ کاٹ کر ڈال دیں اور بھون لیں۔ گرم مسالا، قصوری میتھی ڈال کر چولہے پر سے اُتارلیں اور ڈش میں ڈال کر پیش کریں۔


ادائیں۔۔۔ رویے۔۔۔ ناز۔۔۔۔ دورانِ پرواز

$
0
0

کہا جاتا ہے کہ کسی بھی انسان کا رویہ یا مزاج کے بارے میں جاننا ہو تو اسے اس وقت جانچنا چاہیے جب وہ اجنبی یا غیر جان پہچان کے لوگوں سے ملے فلم اسٹارز کے بارے میں عام آدمی کا یہ ہی تاثر پایا جاتا ہے کہ جیسے وہ اسکرین پر یا فلموں میں اپنے کرداروں میں نظر آتے ہیں عام زندگی میں بھی ویسے ہی ہوں گے یعنی فلمی ہیرو یا ہیروئن کے بارے میں یہ ہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنے کسی کردار کی طرح نرم دل، ملنسار ، ہنس مکھ اور خوش مزاج ہوں گے اور ولین کے لیے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ظالم، سخت دل اور مار دھاڑ کرنے والے ہوں گے، لیکن اکثر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔

کوئی بھی اسٹار خواہ وہ کسی بھی قسم کا کردار کرر ہا ہو اپنے کردار سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ اس کی اپنی لائف اور مزاج ہو تا ہے۔ کچھ مزاج کے سخت ہوتے ہیں اور اپنے مداح تو کیا کسی سے بھی بات کرنا پسند نہیں کرتے اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو عام پبلک میں گھل مل جاتے ہیں۔ بولی وڈ کے چند بڑے اسٹارز کا دوران فلائٹ مزاج کیسا ہوتا ہے یہ جاننے کے لیے یہ مضمون پڑھے:

شاہ رخ خان: بولی وڈ کنگ شاہ رخ خان کے بارے میں عام طور پر یہ ہی تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ بہت کول مائنڈ انسان ہیں اور بہت ساری دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ وہ پبلک میں اپنا غصہ کنٹرول کرلیتے ہیں، کیوںکہ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ ذرا سی بھی منفی بات کسی آرٹسٹ کے حوالے سے پھیل جائے تو اس آرٹسٹ کے کیریر پر اس کے بر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس لیے شاہ رخ میڈیا اور پبلک کے درمیان محتاط رہتے ہیں، لیکن اس بات سے قطع نظر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شاہ رخ دوسروں کو عزت دینے اور ان کا احترام کرنے سے کبھی گریز نہیں کرتے، بل کہ وہ اپنے مداحوں میں بھی گھلتے ملتے ہیں، لیکن ایک جگہ ایسی بھی جہاں کسی بھی فن کار کی اصلیت سامنے آجاتی ہے اور وہ یہ کہ جب یہ اسٹارز ہوائی جہاز میں سفر کررہے ہوتے ہیں تب فلائٹ اسٹیوارڈ اور دیگر عملے کے ساتھ ان کے برتائو کیسا ہوتا ہے۔

شاہ رخ خان نے یہاں پر بھی سب کو مات دے دی اور ثابت کر دیا کہ وہ واقعی کنگ خان ہیں فلائیٹ کے دوران اگر شاہ رخ اپنی فیملی کے ساتھ سفر کررہے ہوں تو ان کا زیادہ تر وقت اپنے بچوں کو مینرز اور ایٹی کیٹس سکھانے میں گزرتا ہے۔ کس کو کب شکریہ، ایکسیوزمی اور پلیز کہنا ہے۔ کھانا کس طرح کھانا ہے فضائی عملے کے ساتھ کس طرح سے اچھا برتائو رکھنا ہے وغیرہ وغیرہ۔

امیتابھ بچن: بولی وڈ کے اس عظیم اداکار کے بارے میں ایک عام انسان کی بھی یہی رائے ہے کہ امیت سر کیا چھوٹا اور کیا بڑا سب ہی کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ وہ فلم کی شوٹنگ کے دوران بھی چائے لانے والے تک سے حال احوال پوچھتے ہیں سچ ہے کہ کسی بھی انسان کے بڑے ہونے کا اندازہ اس کے مزاج اور رویہ سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔

امیتابھ بچن جب ایر ٹریول کررہے ہوتے ہیں تو ان سے کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوتی بلکہ اگر جہاز میں موجود لوگ ان کے ساتھ تصویر بنوانا چاہیں یا ان کا آٹوگراف لینا چاہیں تو وہ کبھی بھی انکار نہیں کرتے۔ امیتابھ کیوںکہ اپنے اسسٹنٹ کے ساتھ سفر کرتے ہیں اس لیے ان کا زیادہ تر وقت اپنے اسٹنٹ سے باتیں کرنے میں گزرتا ہے، اگر فلائیٹ لمبی تو پھر وہ کتابیں، خاص طور سے شاعری کی کتابیں پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ایشوریا رائے بچن: کہتے ہیں کہ خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ سابق مس ورلڈ ایشوریا رائے کے ساتھ ہے۔ ایشوریا بہت زیادہ ڈیمانڈنگ پرسن ہیں اور ان کو ہینڈل کرنا یا قائل کرنا مشکل ترین کام ہے۔ وہ بہت کم ہی کسی بات پر سو فی صد مطمئن ہوپاتی ہیں۔ وہ ایک مشکل ترین خاتون ہیں جنہیں مینیج کرنا چیلینجنگ کام ہے۔ دوران پرواز وہ کسی بھی بات پر مطمئن نہیں ہوپاتی ہیں اور کھانے کے آئٹم کیا کیا ہیں؟ اس سے زیادہ وہ اس با ت پر توجہ دیتی ہیں کہ کھانے کی پریزنٹیشن کس طرح کی گئی ہے۔ جتنی قسم کی ڈشز تیار کی گئی ہوتی ہیں وہ سب سے پہلے ایشوریا کے سامنے پیش کی جاتی ہیں اور جس فوڈ کی پریزنٹیشن انہیں بھاجاتی ہے اس کو وہ اپنے لیے پسند کرتی ہیں۔ فلائٹ اسٹیوارڈ کے ساتھ ان کا رویہ بہت سرد ہوتا ہے اور انہیں وہ اپنے جوتے کی نوک پر رکھتی ہیں۔

کترینہ کیف: جو جیسا نظر آتا ہے وہ ویسا ہوتا نہیں۔ کترینہ عام زندگی میں بہت تنک مزاج ہیں اور اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتیں۔ اپنے پرستاروں سے بھی ان کا رویہ بدتمیزی پر مبنی ہوتا ہے۔ فلائٹ کے دوران جب وہ سفر کررہی ہوتی ہیں تو جہاز میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتیں اور اپنا تمام وقت خاموشی سے گزارتی ہیں، اگر انہیں ایک گلاس پانی بھی درکار ہوتا ہے تو اس کے لیے بھی وہ اپنے منیجر سے کہتی ہیں کہ انہیں پانی منگوا کردیں فضائی عملے کو گھاس ڈالنا پسند نہیں کرتیں۔ ایک بار جب کترینہ ممبئی سے لندن جارہی تھیں۔ تب ایک ایئرہوسٹس نے انہیں سیٹ بیلٹ باندھنے کے لیے کہا، جس پر کترینہ اس ایئرہوسٹس پر چراغ پا ہوگئی تھیں اور اس بے چاری ہوسٹس کو خوب برا بھلا کہا اور کہا کہ وہ جانتی نہیں کہ میں کون ہوں؟

سلمان خان: بولی وڈ کا بیڈ بوائے کا امیج پانے والا دبنگ خان سلمان خان جب بھی فلائٹ سے سفر کرتے ہیں تو ان کا رویہ فضائی عملے کے ساتھ ساتھ پیسنجرز کے ساتھ بھی کافی اچھا ہوتا ہے۔ ان کی موجودگی میں جہاز کے اندر ایک تھرل محسوس ہوتا ہے۔ وہ بڑی آسانی سے جہاز میں یہاں وہاں گھومتے ہیں۔ لوگوں سے باتیں کرتے تصویر کھنچواتے اور آٹو گراف دیتے ہیں۔ ان کے رویہ کی کم لوگ ہی شکایت کرتے ہیں سلمان دورانِ سفر اسٹیوارڈز کے کیبن تک جاتے ہیں اور ان سے بھی گپ شپ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ڈشز بھی چیک کرتے ہیں اور جو ڈش ان کی پسندیدہ ہوتی ہے اسی کا آرڈر کرتے ہیں۔ فضائی سفر اگر طویل ہو تو سلمان زیادہ تر وقت سوتے میں گزارتے ہیں اور لمبی نیند سے جاگنے کے بعد وہ چائے یا پھر کافی طلب کرتے ہیں اور پھر اسے پینے کے بعد دوبارہ سو جاتے ہی۔

سیف علی خان: فلم انڈسٹری کے نواب خاں جب بھی فلائٹ لیتے ہیں تو کسی کو بھی بور نہیں ہونے دیتے دوران سفر وہ ہلہ گلہ کرنے اور عملے کے ساتھ گپ شپ کرتے رہتے ہیں۔ بقول سیف کے کہ ان سے سفر خاموش رہ کر نہیں کٹتا اس لیے اپنے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کو بھی مصروف رکھتے ہیں۔ اپنی سیٹ پر وہ بہت کم پائے جاتے ہیں اگر فلائٹ میں بچے ہوں تو بس سیف کا سفر کیسے گزرا انہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوپاتا۔ البتہ جب ان کی نصف بہتر ان کے ہمراہ ہوں تب پھر کسی اور طرف توجہ کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ فلائٹ کے دوران سیف کی ہمیشہ یہ ہی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی سیٹ کرینہ کے ساتھ ہو ایک بار ایسا بھی ہوا تھا جب دونوں ساتھ سفر تو کررہے تھے لیکن ان کی سیٹ الگ الگ تھی تب سیف نے جہاز میں خوب ہنگامہ کیا کہ انہیں کرینہ کے ساتھ والی ہی سیٹ چاہیے۔ اس وقت ان کا رویہ بالکل بچوں جیسا تھا۔ اس لیے جہاز کے ہیڈ اٹینڈنٹ کو بلوا کر ان کی سیٹ کا مسئلہ حل کرایا گیا تھا۔

کرینہ کپور اور کرشمہ کپور: کرینہ اور کرشمہ کپور جب بھی سفر کرتی ہیں انہیں کبھی کسی سے کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ وہ جہاز میں موجود اپنے مداحوں کے ساتھ بات چیت کرتی ہیں۔ ان کے ساتھ تصاویر بنواتی ہیں اور ان کی فرمایش پر انہیں آٹوگراف بھی دیتی ہیں۔ دونوں بہنیں ہی مثالی رویہ روا رکھتی ہیں۔ ان کی خوش مزاجی اور اچھی عادت کی بنا پر کوئی انہیں پسند کرتا ہے۔

دیپکا پاڈوکون: آج کل بولی وڈ کی سب سے مہنگی اور کامیاب اداکارہ دیپکا پاڈوکون فضائی سفر سے ڈر لگتا ہے لیکن فلموں کی بیرون ممالک شوٹنگ کی وجہ سے آنا جانا تو لگا ہی رہتا ہے۔ اس لیے کافی حد تک انہوں نے اپنے خوف کے اظہار پر قابو پالیا ہے، لیکن اب بھی ہر سفر کے دوران وہ دل ہی دل میں ڈرتی رہتی ہیں۔ اسی لیے جب وہ جہاز میں سفر کررہی ہوتی ہیں تو اپنے آپ کو مصروف رکھتی ہیں اور سفر کے آدھے سے بھی زیادہ وقت وہ مطالعے میں گزارتی ہیں۔ ان کے سامان میں کتابوں کا ایک الگ چھوٹا سا بیگ بھی ہوتا ہے۔ ا س کے علاوہ دیپکا کے پاس انواع واقسام کی کینڈیز بھی موجود ہوتی ہیں۔ اس لیے وہ فلائٹ کے دوران کھانا نہیں لیتیں بل کہ کینڈیز سے اپنا پیٹ بھرتی رہتی ہیں۔

کنگنا رانوٹ: کنگنا نے زیادہ تر فلموں میں نفسیاتی قسم کے کردار ہی کیے ہیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسے کرداروں میں کنگنا ایک دم فطری اداکاری کرتی ہیں اور ان کے ساتھ رہنے والے اب یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ جس قسم کے نفسیاتی کردار کنگنا کرتی ہیں، ان کی اصل زندگی میں بھی اس کی جھلک نظر آنے لگی ہے۔ کنگنا کبھی بھی اکیلے سفر نہیں کرتیں بل کہ ان کا اسسٹنٹ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر وہ خود فرسٹ کلاس میں سفر کر رہی ہوں تو ان کا اسسٹنٹ اکانومی کلاس میں سفر کرتا ہے اور سارے معاملات بھی وہ خود ہی دیکھتا ہے۔ کنگنا دورانِ پرواز کسی سے بھی بات کرنا پسند نہیں کرتیں اگر ایئرہوسٹس ان سے کھانے یا کسی اور چیز کے بارے میں پوچھنے کے لیے آتی ہے تو وہ صرف یہ کہتی ہیں کہ جو پوچھنا ہے میرے اسسٹنٹ سے پوچھو۔ تب اسسٹنٹ بے چارہ کنگنا سے پوچھ کر ایئرہوسٹس کو کھانے کا آرڈر کرتا ہے۔

اکشے کمار: فلم انڈسٹری کا کھلاڑی اداکار جس کی ہر فلم ہی سپر ہٹ کا درجہ حاصل کر رہی ہے اپنی خوش اخلاقی کے باعث ہر جگہ پسند کیا جاتا ہے۔ اکشے کمار جب کسی فلائٹ سے سفر کر رہے ہوں تو جہاز میں موجود اپنے مداحوں کی فرمایش پر ان کے ساتھ تصاویر بنواتے اور انہیں آٹوگراف دیتے ہیں۔ فضائی عملے کے ساتھ ان کا رویہ دوستانہ ہوتا ہے اور فلائٹ کے دوران وہ کھانے کے معاملے میں نخرے نہیں دکھاتے۔ اس لیے ان کے ساتھ سفر کرنا سب ہی کو اچھا لگتا ہے۔

پریانکا چوپڑہ: سابق مس ورلڈ کی ساری خوش مزاجی صرف فلموں کی حد تک نظر آتی ہے۔ عام زندگی میں وہ بہت خشک مزاج اور منہ پھٹ لڑکی کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ اس لیے جب وہ سفر کررہی ہوتی ہیں تو ان کے تنک مزاج رویہ کی وجہ سے کوئی ان کے پاس بھی نہیں جاتا۔ فضائی عملے کے ساتھ بھی ان کا رویہ سرد ہی ہوتا ہے۔ پریانکا کیا زیادہ تر سفر مطالعہ کرتے یا پھر موسیقی سے لطف اندوز ہونے میں گزرتا ہے۔

شلپا شیٹھی : بین الاقوامی سطح پر مس کاسمیٹک کے طور پر مشہور ہونے والی اداکارہ شلپا شیٹھی جب سفر کررہی ہوتی ہیں تو صرف کھانے کے معاملے میں وہ بے حد حساسیت کا شکار رہتی ہیں، البتہ ان کے اچھے رویہ کی سب ہی تعریف کرتے ہیں ۔ وہ بہت کم ہی کسی بات کا برا مناتی ہیں۔

جان ابراہام: ماڈل اور ایکٹر جان ابراہام ایک اچھے اداکار ہی نہیں بلکہ اچھے انسان بھی ہیں۔ دورانِ پرواز فضائی عملے کے ساتھ ان کا برتائو بہت اچھا ہوتا ہے اور مسافروں کے ساتھ پورے سفر میں ان کی گپ شپ چلتی رہتی ہے۔ اسی لیے وہ ہر دل عزیز مانے جاتے ہیں۔ البتہ جان کھانے کے معاملے بڑے چوزی ثابت ہوئے ہیں اور ہوائی جہاز کے کچن میں موجود تمام ڈشزز کا خود جاکر معائنہ کرتے ہیں اس کے بعد اپنے لیے کھانے کا آرڈر کرتے ہیں۔

جوتا کتھا، پہلے جوتے سے آج تک، جوتا سازی کی کہانی

$
0
0

جوتے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر گئے تو رب العالمین نے فرمایا۔ ترجمہ: ’’تم اس جگہ جوتے اتاردو۔ اب تم طویٰ کی مقدس وادی میں ہو‘‘ (سورۃ طٰہٰ آیت 12)

جوتے کو کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے، پہلے عربی میں اسے نعل کہتے تھے اب حذا کہتے ہیں۔ اسے پاپوش، کفش، شو بھی کہتے ہیں۔ زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ جوتے کی بہت سی قسمیں ہوگئی ہیں۔ بوٹ، شو، گرگابی، سلیم شاہی، ملتانی، مکیشن، پمپی، ناگرا، سینڈل، سلیپر، چپل، کھڑائوں وغیرہ۔ اردو کے شاعرحضرات نے بھی اپنی شاعری میں جوتے کو مختلف ناموں سے اور صورتوں میں برتا ہے۔ ایک شاعر کا کہنا ہے:

جان جائے گی ان کی جائے گی

میری پاپوش بھی نہ آئے گی

مولانا الطاف حسین حالی نے کہا :

کمال کفش دوزی علم افلاطوں سے بہتر ہے

اکبر الٰہ آبادی کیسے خاموش رہتے۔ بڑا مزے دار شعر کہہ گئے

بوٹ ڈاسن نے بنایا، میں نے اک مضموں لکھا

ملک میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا

اس زمانے میں ’’ڈاسن‘‘ جوتے بنانے اور بیچنے والی ایک بہت بڑی کمپنی ہوا کرتی تھی۔ اس کے جوتے بہت مشہور تھے لوگ بڑے شوق اور فخر سے پہنتے تھے، اکبرالٰہ آبادی نے اس شعر میں علم کی ناقدری کی طرف اشارہ کیا ہے اور جوتے سے وابستہ ایک محاورہ بھی استعمال کیا ہے ’’جوتا چل گیا۔‘‘ جوتا واقعی چل گیا۔ آج کل لیڈروں کو جوتے پڑتے ہیں تو یہ محاورہ ضرور یاد آتا ہے۔ اساتذہ اور دیگر بزرگوں کی جوتیاں سیدھی کرنا باعث عزت سمجھا جاتا ہے۔

ایک وقت تھا جب پاؤں میں جوتا صرف امراء اور انہی کے عزیز و اقارب کے نصیب میں تھا۔ جو اپنے اعلیٰ ترین ملبوسات کے علاوہ عمدہ قسم کے جوتے بھی ترقی یافتہ ممالک سے منگوانے کا اہتمام کیا کرتے تھے، جب کہ عام عورتیں اور عام افراد تو طویل سفر بھی ننگے پائوں طے کرنے پر مجبور تھے جس سے راستے کے کنکر، پتھر، کیل، کانٹے اور دھول مٹی سے پائوں زخمی اور گردآلود ہوکر تکلیف اور کئی بیماریوں کا سبب بنتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ کسی بادشاہ کے زمانے میں یہی صورت حال تھی، مگر بادشاہ تو بادشاہ تھا اسے عام انسانوں کی طرح ننگے پائوں چلنا اچھا نہیں لگتا تھا، لہٰذا اس نے سیکڑوں جانور ذبح کروائے، ان کی کھالیں اتروائیں، ان کھالوں کو نرم کروایا اور ان کے بڑے بڑے ٹکڑے کرواکر اپنے سیکڑوں غلاموں کے حوالے کردیے، بادشاہ جب باہر نکلتا تو تو غلام اس کے آگے آگے چمڑے کے ٹکڑے بچھاتے جاتے تھے اور بادشاہ ان ٹکڑوں پر پاؤں رکھتا ہوا چلتا جاتا تھا۔ یوں بادشاہ زمین پر قدم رکھے بغیر سفر کرلیتا تھا۔

دنیا کے دوسرے بادشاہوں نے بھی اپنے لیے چمڑے کے ٹکڑوں کے اسکواڈ بنالیے، جو بادشاہوں کو چلنے پھرنے میں سہولت فراہم کرتے تھے۔ اس دور میں غالباً روم کے ایک بادشاہ نے اپنی سلطنت کے دورے کا اعلان کردیا، اس سفر کے لیے کروڑوں، اربوں جانوروں کی کھالیں درکار تھیں اور پھر بادشاہ کے قدموں میں چمڑے کے پارچے بچھانے کے لیے لاکھوں غلام بھی چاہیے تھے، چناںچہ اس اعلان کے بعد وزیر، مشیر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ ایک وزیر نے اس مسئلے کا ایک شان دار حل تجویز کیا۔ وزیر نے خرگوش کی نرم کھال کے موزے تیار کیے اور یہ موزے لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔

وزیر نے بادشاہ کو موزے پہننے کا مشورہ دیا کہ اس سے آپ کے پائوں بھی محفوظ رہیں گے اور کروڑوں جانوروں کی جان اور لاکھوں غلاموں کی مشقت بھی بچ جائے گی۔ بادشاہ کو موزے کا آئیڈیا پسند آگیا اور وہ چمڑے کے نرم موزے پہن کر سیر کے لیے نکل گیا۔ بس اس موزے نے دنیا کے پہلے جوتے کا اعزاز پایا۔ پھر بادشاہ کی دیکھا دیکھی وزیروں نے جوتے بنوائے پھر مشیروں اور امیروں نے بنوائے، پھر فوج کے لیے جوتے بنوائے گئے اور آخر میں ساری عوام نے بھی جوتے پہن لیے اور یوں جوتے ہر پائوں کی ضرورت بن گئے، تو دنیا کی بہت بڑی انڈسٹری کی بنیاد رکھی گئی۔

ترقی یافتہ دنیا میں جوتے نہ صرف عوام الناس تک پہنچ چکے تھے، بل کہ ان کے نت نئے ڈیزائنوں پر بھی تجربات کیے جانے لگے۔ پہلے زمانے میں عورتیں سپاٹ جوتی پہنتی تھیں۔ یعنی جوتوں کی وضع عورت مرد سب کے لیے ایک جیسی ہوتی تھی۔ وقت بدلا، ذرائع ابلاغ نے ترقی کی تو خواص کے زیراستعمال جوتوں کا علم عوام الناس کو بھی ہونے لگا۔ پھر گزرتے وقت کے ساتھ فیشن ڈیزائنرز کی بڑی تعداد بھی میدان میں آگئی، جس سے شخصیت، فیشن، موقع محل، موسم اور مقام و مرتبے کے علاوہ لباس سے میچ کرتے شوز پہننے کا رجحان عام ہوا تب ہی فارمل شوز، برائیڈل شوز، ایوننگ شوز، ڈریس شوز، آئوٹ ڈور شوز، انڈور سلیپرز اور واکنگ شوز حتیٰ کہ رین اینڈ سِنو شوز کی وسیع ورائٹی بھی مارکیٹ میں دست یاب ہونے لگی۔

اس طرح لوگوں کو اپنی ضرورت اور جیب کے مطابق مختلف اقسام کے جوتوں کی وسیع رینج مل گئی جس سے جہاں تیز رفتار فیشن کا مقابلہ آسان ہوا وہاں آرام دہ انداز بھی ملا۔ پھر جدید سے جدید قسم کے سینڈلز، ہیلز، چیل، جاگرز، فلیٹس، پمپس، بوٹس وغیرہ مارکیٹ میں دست یاب ہونے لگے اور جوتے کی صنعت میں ایسا انقلاب آیا کہ اب بڑی بڑی کمپنیوں کے شوز کی نقل انتہائی ارزاں نرخوں پر تمام دکانوں اور ٹھیلوں پر بھی موجود ہے، جن کا معیار اگرچہ پست ہوتا ہے، لیکن اسٹائل بعض اوقات انتہائی پرفکیٹ ہوتا ہے کہ نقل پر اصل کا گمان ہونے لگے۔ اب لباس سے ہم آہنگ شوز ہر جگہ دست یاب ہیں جن میں مختلف شوخ رنگوں کے علاوہ ہیلز کی بھی کافی ورائٹی ہوتی ہے۔

بدلتے ہوئے زمانے اور ترقی کے دور کے ساتھ ہر چیز صنعت بن گئی ہے۔ جوتے بنانے کی صنعت نے بھی بڑی ترقی کی ہے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں۔ لوگ جوتے بنا بناکر صنعت کار بن جاتے ہیں۔ امیر ہوجاتے ہیں، جوتا سازی کی صنعت نے بڑی تیزی سے ترقی کی ہے۔ کارخانوں کے علاوہ جوتا سازی نے گھریلو صنعت کا روپ اختیار کرلیا ہے، خصوصاً کراچی کے مختلف علاقوں میں لوگ گھروں میں جوتے بنانے کا کام کررہے ہیں۔

اس ضمن میں لیاقت آباد، لسبیلہ، سولجر بازار، رامسوامی، رنچھوڑ لائن، صدر، لائنز ایریا، عثمان آباد، جوبلی، گارڈن، بزنس روڈ وغیرہ گھریلو جوتا سازی میں مقبول علاقے ہیں۔ مکان یا فلیٹ میں لوگ اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہوتے ہیں اور وہیں جوتے بنانے کا کام بھی کرتے ہیں۔ جوتا سازی میں گھر کے تمام افراد شامل ہوتے ہیں اور سب مل کر جوتے بنانے کا کام کرتے ہیں، گھر کی خواتین بھی مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں حتیٰ کہ بچے بھی اس کام میں شامل ہوتے ہیں۔

گھریلو جوتا سازی سے جہاں لوگوں کو سستی چپلیں مل جاتی ہیں وہیں گھریلو جوتا سازی سے خطرات بھی جنم لیتے ہیں۔ جوتا سازی میں استعمال ہونے والا میٹریل، چمڑا، ربڑ، ریگزین، سلوشن اور دیگر کیمیکلز پر مشتمل ہوتا ہے، جو بہت جلد آگ پکڑ لیتا ہے، خاص طور پر سلوشن سے آگ لگنے کے بے شمار واقعات ہوچکے ہیں، جس سے نہ صرف مالی بلکہ جانی نقصان بھی ہوتا ہے۔ گھروں میں جوتا سازی اس لحاظ سے بھی خطرناک ثابت ہوتی ہے کہ گھروں میں کھانا پکانے کا کام بھی ہوتا ہے اور جوتے بنانے میں سلوشن ضروری ہوتا ہے۔

یوں سلوشن جلد ہی آگ پکڑ لینے کے باعث آگ لگنے کے واقعات جنم لیتے ہیں، جس کے باعث جوتا سازی میں کام آنے والے میٹریل کے علاوہ گھریلو سامان بھی جل جاتا ہے لیکن سب سے بڑا نقصان انسانی جانوں کا ہوتا ہے ان خطرات کے باوجود صرف کراچی شہر میں سیکڑوں گھروں میں جوتے بنانے کا کام زوروشور سے جاری و ساری ہے۔ یہی نہیں بل کہ گھروں میں جوتے بنانے کے باعث پڑوسیوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خاص طور پر فلیٹ میں کام کرنے والے لوگوں کے پڑوسی اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں کیوں کہ اگر فلیٹ میں اوپر جوتے بنانے کا کام ہوتا ہے تو لازماً نیچے فلیٹ والوں کو ٹھوکنے پیٹنے کی آواز آتی ہے جس سے انھیں اذیت ہوتی ہے اور ذہنی سکون برباد ہوجاتا ہے، کیوں کہ جوتے بنانے والے اکثر رات کو دیر تک کام کرتے رہتے ہیں اور سیزن کے دنوں میں تو ساری ساری رات کام کرتے ہیں، جو نیچے کے فلیٹ کے رہائشیوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔

قانون پر عمل در آمد نہ ہونے کے باعث گھریلو جوتا سازی کی صنعت بڑھتی جارہی ہے جوتے کا معیار کیسا ہے؟ اس سے قطعی نظر گھریلو صنعت ایک طرف خطرات لیے ہوئے ہے تو دوسری طرف پڑوسیوں کی پریشانی کا باعث ہے، اخلاقی طور پر لوگوں کو خود بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کی وجہ سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے تو ایسی جگہ پر کام کریں کہ کسی کو پریشانی نہ ہو۔

بہ ہر حال، جوتا سازی کی صنعت لاتعداد لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے۔ ضرورت بس اس بات کی ہے کہ اس حوالے سے قوانین پر عمل کیا جائے تاکہ جوتاسازی کا عمل یہ کام کرنے والوں کی صحت کو نقصان پہنچانے اور دوسرے لوگوں کے لیے اذیت کا باعث نہ بنے۔

’’دہشت گرد‘‘ بن گیا ہیرو

$
0
0

1979ء کے ڈھلتے ہوئے جاڑے میں ایک پرواز کراچی سے امریکا پہنچتی ہے۔۔۔ اس طیارے میں ملک کے ایک موقر انگریزی روزنامے سے وابستہ رہنے والے صحافی سلیم ہمدانی اپنی بیگم اور 13 ماہ کے بیٹے سلمان کے ساتھ موجود ہیں۔۔۔ سلیم ہمدانی امریکا کو اپنا مستقل ٹھکانا بنانے کے بعد یہاں اپنا کاروبار شروع کرتے ہیں اور ان کی اہلیہ طلعت ہمدانی ایک اسکول میں تدریس سے وابستہ ہو جاتی ہیں۔ سلیم ہمدانی کے کنبے میں دو بیٹوں کا اضافہ ہوتا ہے، عدنان اور ذیشان۔

وقت گزرتا ہے۔۔۔ سلیم ہمدانی کا بڑا بیٹا محمد سلمان ہمدانی اب 23 برس کا ہو چکا ہے۔۔۔ اپنے اسکول کی فٹ بال ٹیم کے اس فعال رکن نے کوئنز کالج سے سائنس میں گریجویشن مکمل کر لیا ہے اور فقط دو ماہ قبل جولائی 2001ء میں ریسرچ ٹیکنیشن کی حیثیت سے راکفیلر (Rockefeller)  یونیورسٹی سے منسلک ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ایمبولینس کے ڈرائیور کے طور پر بھی جز وقتی کام کر رہے ہیں۔ محمد سلمان ہمدانی نیو یارک سٹی فائر ڈیپارٹمنٹ (NYFD) کے ایمرجینسی میڈیکل ٹیکنیشن کی سند بھی حاصل کی ہے، ساتھ ہی نیویارک سٹی پولیس میں بھی شمولیت کے مراحل طے کر رہے ہیں۔

11 ستمبر 2001ء کی صبح سلمان ہمدانی حسب معمول گھر سے یونیورسٹی کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔۔۔ راستے میں اچانک ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت پر حملہ ہو جاتا ہے۔۔۔ سلمان ہمدانی فوری مدد کی نیت سے اس طرف لپکتے ہیں۔۔۔ نیویارک پر اس اچانک افتاد سے ہر طرف افراتفری مچی ہوئی ہے۔۔۔ گاڑیوں کا اژدہام ہے۔۔۔ صورت حال نہایت ہنگامی ہی نہیں، حساس بھی ہے۔ سرکاری اہل کار انہیں آگے بڑھنے سے روک لیتے ہیں۔۔۔ ان کا محض یہ کہنا کہ وہ اس حادثے کے شکار لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، ناکافی رہتا ہے۔۔۔ اس موقع پر وہ اپنی پولیس تربیت اور ایمرجینسی میڈیکل ٹریٹمنٹ کی شناخت استعمال کرتے ہیں اور آگے جانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔

حملہ بہت کاری ثابت ہوتا ہے، فلک بوس عمارت کچھ ہی وقت میں ڈھے جاتی ہے۔۔۔ آتش وبارود سیکڑوں زندگیوں کو چاٹ چکے ہیں۔۔۔ محمد سلمان ہمدانی بھی دوسروں کی زندگیوں کو بچاتے بچاتے اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔۔۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت راکھ اور ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہے۔۔۔ وسیع پیمانے پر ہونے والے اس جانی اور مالی نقصان کے بعد امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا جاتا ہے۔۔۔ ملبے سے بہت سی ناقابل شناخت لاشیں نکلنا شروع ہوتی ہیں۔۔۔ لاپتا محمد سلمان ہمدانی کو ابتداً مشتبہ قرار دے دیا جاتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر ان حملہ آوروں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں بھی ایک مضمون شایع ہوتا ہے، جس میں محمد سلمان ہمدانی کے تانے بانے دہشت گردوں سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سلمان کی والدہ طلعت ہمدانی اس زیادتی کے خلاف سرِ میدان آجاتی ہیں اور آواز اٹھاتی ہیں کہ ان کا بیٹا دہشت گرد نہیں تھا، بلکہ اس نے تو دوسروں کی جانیں بچاتے ہوئے اپنی جان قربان کی ہے!

تفتیش کے بعد اتنا ہوتا ہے کہ سلمان کا نام مشکوک افراد کی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے۔ پھر 11 ستمبر کے حملے کے 45 روز بعد کانگریس کی جانب سے ان کی قربانی کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ہیرو قرار دیا جاتا ہے۔

اکتوبر 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ملبے سے نکالی جانے والی ایک ناقابل شناخت لاش، مارچ 2002ء میں ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے شناخت کر لی جاتی ہے۔۔۔ یہ سلمان ہمدانی کی لاش ہے۔ اس کے بعد 5 اپریل 2002ء کو اسلامی ثقافتی مرکز میں نیویارک کے میئر بلوم برگ (Bloomberg) پولیس کمشنر کیلی اور کانگریس کے 500 ارکان انہیں ایک ہیرو کے طور پر خراج عقیدت پیش کر تے ہیں۔ طلعت ہمدانی اپنے بیٹے کی قربانی کے لیے اسے ناکافی گردانتی ہیں۔ 2002ء میں وہ سلمان ہمدانی کی یاد میں راکفیلر(Rockefeller) یونیورسٹی میں ایک تعلیمی وظیفہ قائم کرتی ہیں، جو اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے پاکستانی نژاد امریکیوں کے لیے مختص ہے۔

’’دہشت گرد‘‘ سلمان اب امریکا کا ایک ہیرو ضرور بننے لگا تھا، لیکن 2009ء میں پتا چلتا ہے کہ سلمان کا نام سانحہ 11 ستمبر کی نذر ہونے والے افراد میں شامل کیا جارہا ہے۔ یہ اقدام ایک طرح اس کی قربانی سے انکار تھا، کیوں کہ یہ فہرست تو اس واقعے سے متاثر ہونے والوں کی تھی، نہ کہ ان لوگوں کی جو مدد کے لیے گئے اور جاں سے گزر گئے۔

’’یہ تعصب ہے۔۔۔!‘‘ طلعت ہمدانی نے نیویارک پولیس کے سامنے صدائے احتجاج بلند کی۔ بہتیرے رابطے کیے۔۔۔ لیکن جواب ملنے کے لیے کوئی متعین وقت نہیں دیا گیا۔

2011ء میں نیشنل نائن الیون میوزیم(National 9/11 Memorial) کھل جاتا ہے، مگر حسب اطلاعات طلعت کے فرزند کا نام کسی علیحدہ زمرے کے بہ جائے عام فہرست ہی میں درج تھا، مگر طلعت ہمدانی پر عزم تھیں کہ ’’اس ناانصافی کے خلاف بولنے کے لیے سلمان اس دنیا میں نہیں رہا، لیکن میں مرتے دم تک اس کے لیے آواز اٹھاتی رہوں گی۔ وہ انسانیت کے لیے ایک مثال ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں اس نے بلاتفریق رنگ ونسل لوگوں کی جانیں بچائیں، لیکن اس کے باوجود اسے مسلمان ہونے کی بنا پر تفریق کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘‘

دوسری طرف نیویارک پولیس اعلان کرتی ہے کہ وہ اس واقعے کی نذر ہونے والے اپنے مقتول ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کوئی شاہ راہ ان سے منسوب کریں گے۔ طلعت ہمدانی چاہتی تھیں کہ ان کے بیٹے کی یاد میں کوئی شاہ راہ الگ سے صرف سلمان سے منسوب کی جائے، کیوں کہ وہ جائے وقوعہ پر سب سے پہلے پہنچ کر مدد کرنے والوں میں سرفہرست تھا۔ اس مقصد کے لیے وہ نیویارک کمیونٹی بورڈ تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔

نیویارک کے میئر مائیکل بلومبرگ (Michael Bloomberg) اور پولیس کمشنر ریمنڈ کیلی (Raymond Kelly) کو بھی عرضی لکھتی ہیں، مگر کوئی مثبت جواب نہیں ملتا۔ دو ہفتے کے بعد کمیونٹی بورڈ کی جانب سے ان کی درخواست اتفاق رائے سے منظور کرنے کی نوید ملتی ہے۔

اس وقت کے چیئرمین نیویارک کمیونٹی بورڈ جیری لینسس (Jerry Iannece) نے کہا کہ یہ ایک واضح غلطی تھی، اور مجھے فخر ہے کہ میں اس تصحیح کا ذریعہ بن رہا ہوں کہ میرے ایوان نے محمد سلمان کو خراج عقیدت کے لیے متفقہ فیصلہ دیا۔ اگلے دن ہی جیری لینسس(Jerry Iannece)  اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضلعی کونسل کو لکھ دیتے ہیں۔ ابھی یہ معاملات جاری تھے کہ میئر کی تبدیلی ہوگئی، جس سے یہ کام مزید التوا کا شکار ہوا۔ نئے میئربل ڈی بلاسیو (Bill de Blasio) آگئے۔ طلعت ہمدانی نیویارک کے نئے میئر سے بھی خط وکتابت جاری رکھتی ہیں۔

28 اپریل 2014ء کو بالآخر طلعت ہمدانی کی طویل جدوجہد رنگ لاتی ہے اور حکام کی جانب سے نیویارک کی ایک شاہ راہ سلمان ہمدانی کے نام سے منسوب کردی جاتی ہے۔ اس موقع پر حکام کے علاوہ سلمان ہمدانی کی والدہ طلعت ہمدانی، بھائی ذیشان ہمدانی کے علاوہ وہاں کے رہائشیوں نے بھی شرکت کی۔ طویل جدوجہد کے بعد حاصل ہونے والے اس ثمر پر طلعت ہمدانی مطمئن ہیں۔ وہ اسے درست سمت میں اٹھایا گیا ایک قدم قرار دیتی ہیں۔

بقول ان کے،’’اس بات کی ضرورت تھی کہ سرکاری طور پر نیویارک پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے اعتراف کیا جائے کہ سلمان نے کس طرح دوسروں کے لیے اپنی جان قربان کی۔ الٹا اسے دہشت گرد قرار دیا گیا، اگر میں اپنے بیٹے کے حق کے لیے نہ لڑتی تو اس کی قربانی کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ سلمان ہمدانی وے اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان بھی امریکا کا ایک حصہ ہیں اور یہاں سب کے لیے آزادی اور انصاف موجود ہے۔‘‘

امریکی صدر باراک اوباما نے بھی طلعت ہمدانی سے وائٹ ہائوس میں خصوصی ملاقات کی اور ان کے بیٹے کی موت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ مسلمان رکن کانگریس کیتھ ایلی سن انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں،’’سانحے کے وقت عمارتوں کے ٹوٹے ہوئے شیشے بکھر رہے تھے، ملبہ گررہا تھا، آگ اور دھوئیں کے بادل بلند ہو رہے تھے اور لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے دور بھاگ رہے تھے، مگر سلمان ہمدانی اپنی جان کی پروا کیے بغیر شعلوں میں گھس کر ملبے میں سے زخمیوں کو نکال رہا تھا۔

اس نے دوسروں کی جانیں بچانے کے لیے اپنی جان قربان کی۔ یہ مسلم نوجوان امریکا کا ہیرو ہے۔ دہشت گردی کی بات کرتے ہوئے ہمیں ان مسلمانوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے، جنہوں نے دوسروں کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔‘‘ رکن کانگریس کیتھی ایلی سن نے 10مارچ 2011ء کو اعتراف کیا تھا کہ سلمان ہمدانی کا نام سہواً مشتبہ افراد میں شامل ہو گیا تھا، صرف اس لیے کہ وہ ایک مسلمان تھا۔

11 ستمبر: جب حملہ ہوا۔۔۔

11 ستمبر 2001ء کو امریکا میں اغوا شدہ طیاروں سے ہونے والے حملوں میں ہلاکتوں کی کل تعداد 2 ہزار 977 تھی۔ طیاروں کے 19 خودکُش اغواکنندگان اس کے علاوہ تھے۔ امریکن ایئرلائنز کی پرواز 11 والا طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی شمالی عمارت سے صبح آٹھ بج کر 46 منٹ پر ٹکرایا۔ اسی سینٹر کے جنوبی ٹاور سے یونائیٹڈ ایئر لائن کی پرواز 175 کا طیارہ صبح نو بج کر تین منٹ پر ٹکرایا۔ یونائیٹڈ ایئرلائن کی فلائٹ 93 والا طیارہ صبح دس بج کر تین منٹ پر ریاست پینسلوینیا کے شہر شینکس ول کے قریب گر کر تباہ ہوا۔

امریکن ایئرلائنز کی فلائٹ 77 صبح نو بج کر 37 منٹ پر پینٹا گون کی عمارت سے ٹکرائی۔ اس واقعے میں ہلاک ہونے والے 373 غیرملکیوں میں آٹھ پاکستانی نژاد امریکی بھی تھے۔ دوسرے غیرملکیوں میں 41 بھارتی، چھے بنگلادیشی، 24جاپانی، 68 برطانوی اور پانچ اسرائیلی باشندے بھی شامل تھے۔ اس سانحے کی نذر ہونے والے سات پاکستانی ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں واقع دفاتر میں ملازمت کرتے تھے، جب کہ ایک پاکستانی محمد سلمان ہمدانی واقعے کے بعد لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے یہاں داخل ہوا اور جاں بحق ہو گیا۔

بدحال ریاست خوشحال کیسے بنتی ہے؟

$
0
0

کچھ عرصہ سے پاکستانی سیاست میں ایک بھارتی سیاست دان کا ذکر تواتر سے ہورہا ہے، ایک طرف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اس کی طرزحکمرانی کا حوالہ دیتے ہیں، دوسری طرف  مسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف بھی اس شخصیت کے گن گاتے ہیں۔ 

متعدد تجزیہ نگاربھی پاکستانی حکمرانوں کو اسی سیاست دان سے سبق حاصل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ ہیں نتیش کمار، بھارتی ریاست  بہار کے سابق وزیراعلیٰ ۔2005ء سے2014ء تک ایک مقبول اور موثر حکمران کے طورپر لوگوں کی آنکھوں کا تارہ بنے رہے۔ ان کی صبح بھی عوام کے درمیان ہوتی تھی اور شام بھی۔ بھارتی ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ ، میں ہر پیر کے روز نتیش کمار ’’جنتا دربار‘‘ لگاتے تھے، صبح سویرے لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوجاتی تھی، بعض گھنٹوں کی مسافت طے کرکے آتے تھے جبکہ  بعض کاسفر ایک یا دو دن پر محیط ہوتاتھا۔ سب سائلین کے چہروں اور کپڑوں سے غربت پوری طرح عیاں ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ ان میں سے بعض کے پائوں میں جوتے بھی نہیں ہوتے تھے۔

’جنتا دربار‘ ٹھیک ساڑھے دس بجے شروع ہوتا، میٹنگ ہال میں چھت والے پنکھوں کی ہوا میں سینکڑوں افراد کے درمیان  سفید کاٹن میں ملبوس بزرگ نتیش کماراور ان کے سامنے ایک سادہ میز دھری ہوتی تھی جس پرصرف ایک گھڑی ٹکی رہتی تھی، ساتھ ہی مائیکروفون پڑا ہوتاتھااور ایک قلم بھی۔ ایک ایک فرد ان کے سامنے آتا، اپنی درخواست انھیں تھماتا۔ ملازمت کے حصول کے لئے درخواستیں اورکرپٹ حکام کے خلاف شکایتیں، کسی درخواست میں پل کی تعمیر کا مطالبہ ہوتا اور کسی میں راشن شاپ کھولنے کی استدعاہوتی تھی۔

نتیش کمار ہردرخواست کا جائزہ لیتے، پھر اسے میز کے ایک طرف  قطار میں بیٹھے حکومتی وزرا اور بیوروکریٹس کی طرف بھیج دیتے۔ ایک کلرک درخواست دہندہ کو متعلقہ وزیر یا افسر کے پاس لے جاتا۔یہ سلسلہ چلتارہتا، حتیٰ کہ ساڑھے بارہ بجے نتیش کمار اپنے جوتے اتارکرمیز کے نیچے ہی ایک طرف رکھ دیتے اور کچھ دیرآرام کرتے۔ایک اندازے کے مطابق محض دو گھنٹوں کے اندر وہ اوسطاً 800 کیسز دیکھتے، سنتے اور انھیں آگے بھیجتے تھے۔

درخواست دہندگان میں رام نریش پانڈے بھی تھا،75سال کا بوڑھا کسان،اس کا کہناتھا کہ 1990ء سے اس کے کھیتوں کو ضرورت کے مطابق پانی نہیں ملا۔سبب یہ تھاکہ اس کے ہمسائیوں، جو ندی کے اس پار رہتے ہیں اور ایک دوسری برادری سے تعلق رکھتے ہیں، نہرکا پانی اپنی طرف کرلیاہے۔ پانڈے چاہتاتھا کہ نہر سے اسے اور اس کے گائوں کے دیگر کسانوں کو ایک نالہ نکال کر برابری کی بنیاد پر استفادہ کا موقع دیاجائے۔

اس کی درخواست وزیر ذرائع آب پاشی کی طرف بھیج دی گئی۔ رام نریش پانڈے نے دیکھا کہ اس کی شکایت کو اسکین کیا گیا، اس پر ایک نمبر لگایاگیا۔اب وہ نزدیکی قصبے میں جاکر انٹرنیٹ کے ذریعے خود چیک کرسکتا تھا کہ اس کے مسئلے کے حوالے سے کتنی پیش رفت ہوئی ہے۔ ایک اخبارنویس نے بزرگ سے پوچھا کہ وہ 124کلومیٹر کی مسافت طے کرکے یہاں کیوں پہنچا تو اس نے کہا کہ وہ یہاں نہ آتاتو کہاں جاتا؟ اسے پوری امید ہے کہ اس کا مسئلہ ضرور حل ہوگا۔

کسی دور میں ریاست بہار میں ایسی امید کا کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا۔ عشروں تک بھارت میں غربت، کرپشن اور تشدد کا جائزہ لیتے تھے تو ریاست بہار سے ہی بات شروع ہوتی تھی، تاہم یہ سب کچھ سن2005ء یعنی نتیش کمار کے وزیراعلیٰ بننے سے پہلے کی باتیں تھیں۔ قریباً 40 سالہ سیاسی زندگی کے دوران نتیش کمار نے نہایت سادہ زندگی گزارنے والے سیاست دان اورایک مضبوط قائد کی ساکھ کمائی۔ انجینئرنگ کے طالب علم اور کتابوں کے حقیقی معنوں میں رسیا نتیش کمار نے1970ء میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ کرپشن، بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف نوجوانوں کی ایک تحریک میں حصہ لینا، ان کا پہلا سیاسی تجربہ تھا۔

نتیش کمار کا فارمولا برائے بہترحکمرانی بہت سیدھا سادھا تھا۔ وہ تیز رفتار اقدامات کرتے تھے۔ انھوں نے تیزرفتاری سے مقدمات سننے اور فیصلہ دینے والی خصوصی عدالتیں قائم کیں جنھوں نے66ہزارمجرموں کو سزائیں سنائیں جن میں تین اراکین پارلیمان بھی شامل تھے۔ اپنے اقتدار کے پہلے پانچ برسوں میں33ہزارکلومیٹر طویل سڑکیں تعمیر کیں۔ امن وامان اور مواصلات میں بیک وقت تیزرفتار ترقی کی وجہ سے2006ء میں صوبے کی معیشت کی شرح11فیصد ہوگئی جواگلے برسوں میں 12فیصد بھی ہوئی۔ یہ شرح  ریاست گجرات کے بعد بھارتی ریاستوں میں بلندترین تھی۔

یادرہے کہ گجرات بھارت کا انڈسٹریل پاور ہاؤس قرار پاتا ہے۔ پورے بھارت میں سب سے زیادہ ماہانہ آمدن بہارکے لوگوں کی ہوتی ہے، انفراسٹرکچر بھی بہتر اور شرح خواندگی بھی سب سے زیادہ۔ پھر نتیش کمار کرپٹ حکام کے پیچھے پڑگئے۔ ان کے اقدامات پورے بھارت کی توجہ کا مرکز بن گئے ۔ پہلے پانچ برس پورے ہونے کے بعد رائے عامہ کا جائزے لیا گیا، 73فیصدریاستی شہری سکھ کا سانس لے رہے تھے، ان کا کہناتھا کہ نتیش کمار حکومت نے پچھلی تمام حکومتوں کی نسبت زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

عموماًکہا جاتاہے کہ  بیوروکریسی  حکومت کے بہت سے منصوبوں میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہے، یہ حکمرانوں اور عوام کے درمیان جم کے کھڑی رہتی ہے تاہم نتیش کمار نے اسی بیوروکریسی کو ایسا قابوکیا کہ لوگ عش عش کراٹھے۔انھوں نے منصوبوں کی تیز رفتار تکمیل میں  اسی بیوروکریسی سے کام لیا جو پہلے کام چوری اور کرپشن میں بدنام تھی ۔ نتیش کمار کا فارمولا بہت آسان تھا، انھوں نے بیوروکریسی پر دوہری ذمہ داریاں ڈال دیں۔ بیوروکریسی ایک طرف وزیراعلیٰ کو جوابدہ تھی تو دوسری  طرف اسے عوام کا بھی سامنا کرنا پڑتاتھا۔ اس سے پہلے یہ طریقہ کسی بھی دوسری ریاست میں نہیں آزمایا گیا تھا۔

انھوں نے بنیادی طور پر چار شعبوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔ امن وامان کو بہترکیا، سڑکوں کا نظام  بہترین بنایا، اسی طرح  صحت اور تعلیم کے شعبے بھی ان کی توجہ کا خاص مرکز رہے۔ چوبیس گھنٹے ان کی نظریں انہی شعبوں پر جمی رہتی تھیں۔ جہاں وہ خود جنتا دربار لگاتے تھے ، وہاںکلیدی جگہوں پر بیٹھے دیگرحکومتی افسران حتیٰ کہ ایس ایچ او بھی اپنے علاقوں میں دربار لگاتے ہیں۔اس طرح  سارے کا سارا دبائو فیلڈافسروں پر چلا گیا۔ انھیں بخوبی علم تھا کہ انھوں نے لوگوں کے مسائل فوری حل نہ کئے  تو وہ وزیراعلیٰ کے جنتادربارتک پہنچیں گے اور ان کا کچا چٹھا کھول دیں گے۔

وزیراعلیٰ نے اسی فارمولے کے تحت ریاست میں بدامنی اور فسادات پربھی قابو پایا۔کہیں فسادات ہوتے تو نتیش کمار ضلعی مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ پولیس سے فوراً رابطہ کرتے  اور لمحہ بہ لمحہ صورت حال کی خود خبر لیتے۔ انھوں نے افسروں کو پابند کررکھاتھا کہ جس گائوں اور قصبے میں بھی فساد کا کوئی واقعہ رونما ہو، وہاں پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ فوراً پہنچیں اور وہاں کیمپ لگالیں۔ جب تک فریقین کے درمیان مصالحت اور امن قائم نہ ہو، دن رات اسی جگہ پر گزاریں۔

چندمقامات پر جب اسی اندازمیں ضلعی مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ پولیس نے ڈیرے ڈالے اور اس عمل کی خبردیگرعلاقوں تک پہنچی تو باقی جگہوں پر بھی کشیدگی ہونے پر اکثریتی اور اقلیتی گروہ ضلعی مجسٹریٹ  اور ایس پی  کی فوری آمد کی توقع کرنے لگے۔لوگ اسی کسوٹی پر پولیس کو پرکھنے لگے کہ وہ کتنی تیزرفتاری سے جائے وقوعہ پر پہنچتی ہے اور جب تک وہ کیمپ میں رہتے ہیں،  ان کا لوگوں سے کیسا رویہ ہوتاہے۔ عوامی توقعات نے پولیس کو پہلے سے زیادہ تیزرفتار، مخلص اور ذمہ دار بنادیا۔

نتیش کمار  کہتے ہیں’’میں نے 2005ء کی انتخابی مہم کے دوران میں لوگوں سے وعدہ کیاتھا کہ میں پوری ریاست میں امن وامان قائم کرکے دکھائوں گا، یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔کہاجاتاتھا کہ یہاں جرائم ختم نہیں ہوسکتے۔تاہم میں نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا یہ وعدہ پورا کیا۔ مجھے پورے ملک سے رپورٹس موصول ہوتی تھیں کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں امن وامان قائم کرتے ہوئے  زیادتی کی مرتکب ہوتی ہیں۔چنانچہ میں نے اقتدارسنبھالتے ہی ایک بات سب پر واضح کردی کہ انسانی حقوق کی کوئی خلاف وزری برداشت نہیں کروں گا۔

سب سے پہلے میں نے ان مقدمات کی طرف توجہ کی جو طویل عرصہ سے عدالتوں میں پڑے ہوئے تھے۔ میں نے انھیں تیزی سے نمٹانے میں عدالتوں کی مدد کی۔ میں نے جائزہ لیا کہ ان میں سے بڑی تعداد میں ایسے مقدمات ہیں جو آرمز ایکٹ کے تحت قائم ہوئے تھے اور ان میں سوائے پولیس والوں کے کوئی عینی شاہد ہی نہیںتھا۔اس کیلئے محکمہ پولیس سے مل کر ایک سیل قائم کیاگیا جو ان مقدمات میں تعاون کرے۔ میں نے انھیں ہدایت کی کہ زیادہ سے زیادہ ایک تاریخ پر مقدمہ کا فیصلہ ہوناچاہئے‘‘۔

وہ کہتے ہیں’’یقیناً فیصلہ کرنا عدالتوں کا کام ہے لیکن حکومت ایک ایسا نظام قائم کرسکتی ہے جو تیزی سے انصاف کی فراہمی کو ممکن بنائے۔ سن2000ء میں جھاڑکھنڈ کے ریاست بننے کے بعد بہت سے عینی شاہدین وہاں منتقل ہوچکے تھے، ہم انھیں بہار واپس لائے اور عدالتوں کے سامنے پیش کیا۔ تیزی سے مقدمات کے فیصلے لینے کیلئے میں نے اس بات پر مطلق دھیان نہ دیا کہ ملزم کون ہے، کس طبقے اور پارٹی سے تعلق رکھتاہے۔

نتیجتاً بہار میں جو بھی جرم کرتا، زیادہ دن تک قانون کے ہاتھوں سے دور نہیں رہ سکتاتھا۔ ہماری اس حکمت عملی سے عام آدمی کا حکومت پر اعتماد بحال ہوا۔اسے یقین ہوگیا کہ قانون کی خلاف ورزی کے بعد کسی فرد کیلئے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ آزادی سے زندگی بسرکرسکے۔ حتیٰ کہ اب طویل مدت سے لٹکے ہوئے بہت سے مقدمات کے عینی شاہد خود ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے پاس آتے اور عدالت میں پیش ہونے کی بات کرتے‘‘۔

’’ میں نے سن2006ء میں ایک دوروزہ میٹنگ میں شرکت کی جس میں پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگرججز نے بھی شرکت کی، اس میں تمام پبلک پراسیکیوٹرز، ضلعی مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹس آف پولیس بھی حاضر تھے۔سب نے ایکشن پلان پر پوری جان مارکرعمل کرنے کا عزم ظاہرکیا۔نتیجتاً مختلف نوعیت کے ہزاروں مقدمات میں ملزموں کو سزائیں ملیں،ان میں ’’اعلیٰ سطحی‘‘ ملزمان بھی شامل تھے۔نتیجتاً ایسا خوف پیدا ہوا کہ معاشرے میں اسلحہ بردار لوگ چھپ گئے، حتیٰ کہ شادی بیاہ کے موقع پر اسلحہ لہرانے کا رواج بھی ختم ہوگیا۔

یوں پوری ریاست میں نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات کا خاتمہ ہوگیا۔  جب میں نے اقتدارسنبھالا توبہت سے پولیس تھانوں میں مکمل انفراسٹرکچر ہی نہیں تھا۔موثرکارکردگی کیلئے ان کے پاس بنیادی چیزیں ہی نہیں تھیں۔ اگر کوئی فرد ایف آئی آردرج کرانے کیلئے  تھانے جاتا تو اسے کہاجاتاتھا کہ وہ کاغذ، سٹیشنری اور دوسرا سامان بھی ساتھ لائے۔ ہماری حکومت نے پولیس تھانوں کی ایسی ضروریات پوری کرنے کیلئے علیحدہ سے ایک فنڈ قائم کیا۔ اسکے نتیجے میں عام آدمی کا نظامِ انصاف پر اعتماد بحال ہوا،اس کے ذہن سے خوف زائل ہوا، کئی برسوں کے بعد ایسا ہوا کہ لوگ رات گئے گلیوں، بازاروں میں اپنے گھر والوں کے ساتھ گھومنے پھرنے لگے‘‘۔

’’کوئی وقت تھا کہ پٹنہ کے بہترین ریسٹورنٹس میں رات کے وقت ایک یا دو گاہک ہی آتے تھے تاہم اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ رات گئے تک ہجوم ہی ہجوم ہوتاہے۔طویل عرصہ سے رات کے وقت تھیٹروں میں فلم دیکھنے کیلئے فیملیز نے آنا چھوڑدیاتھا تاہم اب رات گئے تک پورے کا پورا خاندان باہر ہوتاہے۔ امن وامان کی حالت بہتر ہونے کی وجہ ہی سے یہ ساری تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ جرائم کی شرح میں کمی نے زندگی کے مختلف شعبوں پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ٹھیکے داروں نے پوری ریاست میں سڑکوں کی تعمیر پر ازسرنوکام شروع کردیا، انھیں بہار کے دوردراز علاقوں میں بھی کام کرنے میںکوئی خوف محسوس نہیں ہوتاتھا کیونکہ اب پوری ریاست میں ان سے بھتہ وصول کرنے والا کوئی بھی نہیں تھا‘‘۔

’’پورے صوبہ بہار کی رئیل اسٹیٹ انڈسٹری میں تیزی آئی۔ ہمارے ایک فلیٹ کی قیمت ملک کے دوسرے ترقی یافتہ شہروں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔کچھ عرصہ پہلے معاشی مندی کی لہر آئی تاہم وہ بھی رئیل اسٹیٹ کی انڈسٹری پر اثرانداز نہ ہوسکی حالانکہ اس نے ملک کے دوسرے حصوں میں پراپرٹی کے کاروبار کو نقصان پہنچایا تھا۔یادرہے کہ مجھ سے پہلے کے حکومتی دور میں بڑی تعدادمیں بہار کے لوگ اپنی جائیدادیں فروخت کرکے دوسری ریاستوں میں منتقل ہوچکے تھے‘‘۔

’’جب ایک جاپانی سیاح لڑکی سے ریپ کا کیس سامنے آیاتومیں بہت پریشان ہوگیا، میں ساری رات سو نہ سکاتھا۔میں نے پولیس حکام کو ہدایت کی کہ مجرموں کے خلاف فوری  ایکشن لیاجائے اور تیزرفتارانصاف کے ذریعے انھیں کیفرکردار تک پہنچایاجائے۔چنانچہ مجرم پکڑے گئے، ان کے خلاف ایک ہفتے کے اندر چارج شیٹ تیارکی گئی، انھیں سزائیں سنادی گئیں۔

یہ بات درست ہے کہ جرائم کا معاشرے سے مکمل خاتمہ ممکن نہیں، تاہم موثر پولیس اور انصاف کے نظام کے ساتھ ان پر اثرانداز ضرور ہواجاسکتاہے۔ہماری حکومت نے عوام کا اعتماد اس لئے جیتا کہ  ہم نے ہر فرد کو ہرجرم کی سزا دی۔اب کسی فرد کیلئے ممکن نہیں کہ  وہ جرم کرے اور پھر بہار کے اندر آزادانہ زندگی گزارسکے۔ ہرکوئی جانتاہے کہ اسے کہیں نہ کہیں سے دیکھاجارہاہے‘‘۔

نتیش کمار نے صحت کے بنیادی مراکز کو بہتر کرنے کیلئے بھی یہی فارمولا استعمال کیا اور حیران کن نتائج حاصل کئے۔ نتیش کمار حکومت سے پہلے بنیادی مراکز صحت میں ادویات تھیں نہ ڈاکٹرز۔ مریضوں نے ادھر کا رخ کرنا ہی چھوڑدیاتھا۔ نتیش کمار نے نجی اداروں کو رعایات دے کرمراکز صحت کے تمام شعبے قائم کرنے کی طرف ملتفت کیا، ہرقدم پر ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ان مراکز میں ادویات کی مسلسل فراہمی کو بھی یقینی بنایا۔ساتھ ہی میڈیا کے ذریعے مراکز صحت کی حالت بہتر ہونے کی خبریں بھی نشر اور شائع کیں۔

نتیجتاً عوام نے بڑی تعداد میں ایک بار پھر ان مراکز میں آنا شروع کردیا۔ اس صورت حال نے ڈاکٹروں پر اخلاقی دباؤ بڑھادیا کہ وہ اپنے فرائض باقاعدگی سے سرانجام دیں۔ نتیش کمار نے ڈاکٹروں کا رویہ ٹھیک کرنے کیلئے صرف اور صرف عوامی اوراخلاقی دبائو کا سہارا لیا۔ان کے دور میں کسی ایک بھی ڈاکٹر کے خلاف ڈسپلنری ایکشن نہیں لیاگیا۔

کرپشن کے خاتمے کیلئے نتیش کمار نے ایک قانون منظور کیا جس کے مطابق ہرسرکاری ملازم کو اپنے اثاثوں کا اعلان کرنا ہوگا۔جائزہ لیاجائے گا کہ کسی کی جائیدادکرپشن کی کمائی تو نہیں، اگر ایسا ہوا تو وہ جائیداد بحق سرکار ضبط ہوجائے گی۔ اس قانون سے پہلے سرکاری ملازمین کے خلاف کرپشن کے مقدمات سالہاسال تک لٹکائے جاتے تھے۔ملزم انتہائی اعلیٰ پائے کا وکیل کرتااور خود اپنی غلط کمائی کا پھل کھاتارہتاتھا۔کوئی ایسا قانون نہیں تھا جس کے ذریعے مقدمہ کے دوران ملزم کی جائیداد ضبط کی جاتی۔

نتیش کمار کہتے ہیں’’ہم نے قانون بنالیا لیکن اب بھی ہمیں کچھ مسائل درپیش تھے، ہماری خصوصی عدالتیں جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیتی تھیں لیکن بالائی عدالتیں سٹے آرڈر جاری کردیتی تھیں۔چنانچہ میں نے جائیداد کی ضبطی کے فوراً بعد وہاں سکول کھولنے کی حکمت عملی اختیارکرلی۔ یوں میں نے اپنا پرانا انتخابی وعدہ بھی پورا کردیا کہ میں کرپٹ سرکاری ملازمین کے گھروں کو سکولوں میں بدل دوں گا‘‘۔

’’اس ساری مہم میں سب سے پہلے میں نے اور کابینہ کے ارکان نے اپنے اثاثے ظاہرکئے۔سب اعدادوشمار حکومتی ویب سائٹ پر بیان کردئیے گئے۔اپنی حکومت کے دوران ہم نے ریڈٹیپ ازم  اور مختلف سطح پر کرپشن کو چیک کرنے کیلئے متعدد شانداراقدامات کئے۔ ہم نے سرکاری ملازمین کی سستی  اور غفلت دور کرنے کیلئے بھی قانون سازی کی، انھیں حکومت کے مقرر کردہ ٹائم فریم میں مسئلہ حل کرنے کا پابند بنایا گیا۔ اس طرح لوگوں کو اب اپنے کاموں کیلئے سرکاری افسروں کے پیچھے نہیں بھاگناپڑتا۔ بس! انھیں ایک درخواست متعلقہ دفترمیں جمع کراناہوتی ہے، اس کے بعد مقررہ ٹائم فریم میں ان کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے‘‘۔

لڑکیوں میں شرح تعلیم بڑھانے کیلئے نتیش کمار نے انوکھا منصوبہ بنایا۔ آٹھویں جماعت میں کامیاب ہو کر نویں کلاس میں داخلہ لینے والی ہر لڑکی کو 2700روپے فراہم کئے گئے۔2000روپے بائیسکل اور 700 روپے یونیفارم خریدنے کیلئے۔ آنے والے برسوں میں اس سکیم کے تحت مستفید ہونے والی لڑکیوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئی۔ پھر طلباء کو بھی اس سکیم کا حصہ بنایاگیا۔

سائیکلیں صرف خط غربت سے نچلی سطح پر جینے والوں کیلئے ہی نہیں تھیں بلکہ جس طالبہ نے نویں کلاس میں داخلہ لیا، وہ بائیسکل کی مستحق ہوئی۔ اس سکیم کا فائدہ یہ ہوا کہ جو آٹھویں کلاس کے بعد گھر بیٹھنے کا سوچ رہی تھیں، انھوں نے بھی آگے تعلیم جاری رکھی۔11سے14سال کی عمرمیں سکول چھوڑنے والی طالبات کی شرح جو2006ء میں 17.6فیصد تھی، اگلے تین برسوں میں 6فیصد تک رہ گئی۔

’’حکومت سنبھالنے کے بعد میں مسلسل سوچ بچارکررہاتھا کہ سکول کے طلباء و طالبات (بالخصوص طالبات) کے سکول چھوڑنے کی شرح کو کیسے کم کیا جائے؟ چنانچہ آٹھویں، نویں اور دسویں پاس کرنے والی طالبات کو میں نے بائیسکلیں فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ میرا خیال تھا کہ اس منصوبے کی وجہ سے  خواتین خودمختاربننے کی شاہراہ پر گامزن ہوں گی۔ ہمارے اس منصوبے نے ایک بڑی مثبت معاشرتی تبدیلی پیدا کی ہے‘‘۔

نتیش کمار کہتے ہیں’’ اپنے رفاہی اقدامات میں مجھے سب سے زیادہ یہی منصوبہ پسند آیا۔اس نے پورے صوبہ بہار کا چہرہ بدل دیا۔ لاکھوں طالبات صبح سویرے سکول جارہی ہوتی ہیں تو میرا دل یہ نظارہ دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ اس سے پہلے کم ہی طالبات بائیسکل چلاتے دیکھی گئی تھیں۔ جب میں نے سکول سے ڈراپ آئوٹ کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی تو مجھے یک گونہ اطمینان نصیب ہوا۔دیہاتی علاقوں کی طالبات خاص طورپر پرائمری اور مڈل کے بعد مزید پڑھنا چھوڑ دیتی تھیں۔ان میں سے زیادہ تر کی فوراً شادی کردی جاتی تھی۔یوں ان کے پاس سماج کی معاشی حالت بدلنے کیلئے اپناکردار اداکرنے کے مواقع کم ہوجاتے تھے‘‘۔

نتیش کمار کہتے ہیں’’ طالبات کو بائیسکلیں فراہم کرنے کا خیال اس وقت آیا جب میں 2006ء میں پٹنہ کی ضلعی حکومت کے ایک پروگرام میں شریک ہوا،جب میں نے مستحق بچوں میں بائیسکلیں تقسیم کیں تو ان کے چہروں پر کبھی فراموش نہ کی جاسکنے والی عجب خوشی دیکھی۔ واپسی پر میں نے ہیومین ریسورس ڈیپارٹمنٹ کے حکام کے ساتھ ایک میٹنگ رکھی اور انھیں کہاکہ وہ ہائی سکول کی تمام طالبات کوبائیسکلیں دینے کا کوئی منصوبہ بنائیں۔ محکمہ نے ٹینڈر دئیے، ایک کمپنی نے 1840روپے فی بائیسکل (سب سے کم قیمت) دینے کی پیشکش کی۔

محکمہ نے تجویز دی کہ اس کمپنی سے بڑی تعداد میں بائیسکلیں خریدکر سرکاری مشینری کے ذریعے طالبات کو فراہم کی جائیں۔ انھوںنے یہ تجویز بھی دی کہ ہرسائیکل پر بہارحکومت کا انسگنیا بھی ہوناچاہئے۔ میں نے دونوں تجاویز مسترد کردیں۔ میراخیال تھا کہ ٹینڈرز کے ذریعے بائیسکلوں کی خریداری  مستقبل میں کرپشن کے بڑے بڑے دروازے کھول سکتی ہے۔ میں طالبات کو چیک کی صورت میں رقم فراہم کرنے پر یکسو تھا، میں سمجھتاتھا کہ رقم کی فراہمی کا یہ عمل آسان نہیں ہوگا لیکن  اس سے منصوبہ صاف وشفاف ضرور رہے گا‘‘۔

مئی2010ء میں، (اپنی  پہلی مدت حکومت پوری ہونے سے چند ماہ قبل ) نتیش کمار نے ریاستی عوام کا اعتماد مزید مضبوط کرنے کیلئے ’’وشواش یاترائوں‘‘ کا اہتمام کیا، اس کے تحت وہ چیف سیکرٹری اور ڈویلپمنٹ کمشنر کو ساتھ لیتے اور ایک ایک گائوں میں پہنچتے، وہاں اب تک ہونے والے ترقیاتی کام کا جائزہ لیتے، لوگوں کے مسائل نوٹ کرتے اور فوری طور پر ان کے حل کیلئے اقدامات بھی کرتے۔  بعدازاں ضلعی ہیڈکوارٹر میں ضلعی حکام کے ساتھ ایک میٹنگ بھی کرتے۔ ہرمیٹنگ کم ازکم چارگھنٹے تک جاری رہتی، انھوں نے ترقیاتی کاموں کاجائزہ لینے کیلئے 23سوالات پر مبنی ایک سوالنامہ بھی تیار کررکھاتھا، یہ سوالات میٹنگ میں حکام سے  پوچھے جاتے۔

نتیش کمار کہتے ہیں’’میری وشواس یاترائوں کا مقصد صرف ترقیاتی کاموں کا جائزہ  یا  اپنی حکومتی کارکردگی پر لوگوں کا فیڈبیک لینا ہی نہیں تھا بلکہ اس طرح مجھے پوری ریاست میں تبدیلی کی ہوائوں کو محسوس کرنے کا موقع بھی ملا۔ ان یاترائوں کے دوران میں نے بہت سی مثبت تبدیلیوں کو محسوس کیا۔مثلاً میں ضلع بھاگلپور کے ایک گائوں  ’ڈھارا‘ میں گیا، اس گائوں میں جب بھی کوئی لڑکی پیداہوتی ہے، گائوں والے پھلوں کے 10درخت لگاتے ہیں۔ یہ ایک شاندار بات تھی جس کی نہ صرف ماحولیاتی اعتبار سے اہمیت تھی بلکہ اس سے لڑکیوں کا مستقبل بھی محفوظ ہورہاتھا۔ میں اس روایت کو دیکھ کر اس قدر مسحورہوا کہ سوچا کہ کاش! بھارت کے باقی علاقوں میں بھی یہ روایت شروع ہوجائے‘‘۔

’’ضلع کاٹیھار کے ایک گائوں’بھوگائوں‘ میں ایک طالبہ خوشبو کے گھر گیا، لڑکی نے اس سال میٹرک کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس نمایاں کامیابی کے حصول میں اسے بہت سی مشکلات اور رکاوٹوں سے گزرناپڑا۔اس کا سکول گائوں سے پانچ کلومیٹر دورتھا لیکن یہ لمبی مسافت بھی اس کے آڑے نہ آسکی، وہ کہنے لگی کہ وزیراعلیٰ سکیم کے تحت ملنے والی بائیسکل نے امتحان کے دنوں میں اس کی بہت مدد کی، اس کا بہت سا وقت بچ گیا جو سٹڈی میں کام آیا۔ میں نے یہ سن کر سکون کا گہرا سانس لیا اور اس کی کامیابی پر خوش ہوکر ایک اور چیک اس طالبہ کو پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ وہ نوجوان نسل کیلئے مثال بنے گی۔‘‘

٭’’میں ضلع آراریا کے گائوں ’آوراہی ہنگنا‘ بھی گیا۔ یہ میرے لئے بہت جذباتی تجربہ ثابت ہوا۔ہندی کے مشہور ادیب پھانیشور ناتھ رینو اسی گائوں میں پیدا ہوئے تھے، انھوں نے بہت سے ناول اورافسانے لکھے جو بنیادی طورپر یہاں کے غریب لوگوں کی زندگی کے عکاس تھے۔ میں انھی لوگوں کو دیکھناچاہتاتھا۔ وہاںمیری ملاقات رینو جی کی دوبیویوں سے ہوئی۔ جب میں نے ان کے پائوں چھوئے، انھوں نے مجھے خوب پیارکیا۔ بعدازاں انھوں نے سرکٹ ہائوس میں میرے لئے ساگ اور روٹی بھی بھیجی‘‘۔

٭’’ضلع منگر کے ایک گائوں گیا، وہاں بڑی تعداد میں لوگ معذور دیکھے،سبب یہ معلوم ہوا کہ یہاں کے پانی میں فلورائیڈز کی مقدار ضرورت سے زیادہ ہے۔ یہ دیکھ کر میں بہت مایوس ہواکہ گزشتہ حکومتوں نے یہاں کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے میں کس قدر غفلت کا مظاہرہ کیا۔ ریاست کے بعض دیگرعلاقوں میں پانی کے اندر سنکھیا کی مقدار پائی گئی  جس نے بڑی تعداد میں لوگوں کو امراض میں مبتلا کر رکھا تھا‘‘۔

انھوں نے پوری ریاست کو مزیدسرسبزوشاداب بنانے کا ایک دلچسپ پروگرام ترتیب دیا۔ ’’سرسبزبہار‘‘ منصوبے کے تحت ریاستی حکومت اور نتیش کمار کی جماعت جنتادل نے سکڑتے ہوئے جنگلات کے پیش نظربڑے پیمانے پر شجرکاری کا پروگرام ترتیب دیا۔ نتیش کمار نے اپنی ایک ماہ کی تنخواہ98 ہزارروپے اس پراجیکٹ میں دیدی اور اپنی کابینہ کے ارکان، قومی و ریاستی اسمبلی کے ارکان کو بھی اس پراجیکٹ میں حصہ ڈالنے کو کہا۔

اس مہم کے تحت پوری ریاست میں55لاکھ درخت لگانے تھے۔ انھوں نے جنتا دل کی بنیادی رکنیت حاصل کرنے کیلئے نہایت دلچسپ شرط رکھی کہ وہی پارٹی رکن بن سکے گا جو کم از کم ایک درخت لگائے گا اور اس کی مکمل حفاظت کرے گا۔ یہ مہم صرف شہروں ہی میں نہیں چلائی گئی بلکہ قصبوں اور دیہاتوں کو بھی اس میں شامل کیاگیا۔ جنتادل کے تمام ارکان نے لوگوں کو ہرقسم کے  پودے مفت تقسیم کئے۔

نتیش کمار کے بعد بھی ان کے منصوبے جاری ہیں۔ جس رفتار سے منصوبے مکمل ہورہے ہیں، کامل امید ہے کہ 2015ء تک پورا بہار سوفیصد پڑھا لکھا، خوشحال اور سرسبزوشاداب ہوگا۔سابق وزیراعلیٰ کہتے ہیں:’’ میں سخت اہداف رکھنے کا عادی تھا، آسان کاموں سے خوش نہیں ہوتاتھا۔ ریاست بہار ایک ایسا علاقہ بناہواتھا جہاں قانون کا نفاذ نہیں تھا۔ پوری ریاست میں کچھ بھی ترقی نہیں ہورہی تھی۔ چنانچہ میں نے قانون کی حکمرانی قائم کی،لوگ خود ریاست میں ہونے والی شاندار تبدیلی کے عینی شاہد ہیں۔

مسائل بہت تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ ان کا حجم کم ہوتا گیا۔ان میں سب سے مشکل کام امن وامان کا قیام ہی تھا۔ہم نے ایک ایسا ماحول تیارکیا جس میں ریاست میں انڈسٹریاں زیادہ سے زیادہ لگائی جاسکیں۔ ہم نے مزدوروں کی دوسری ریاستوں کی طرف منتقلی کا جائزہ لیا۔ ہم نے ایک ایسی صورت حال کو تبدیل کیا، جہاں انڈسٹریاں موت کے گھاٹ اتر رہی تھیں، ہم نے انھیں جینا سکھایا، دم توڑتی ہوئی صنعتوں کو مرنے سے بچایا، اسی اثنا میں نئی صنعتیں بھی قائم کیں۔ حالانکہ یہاں انڈسٹریز کی صحت کیلئے اصل نسخہ مرکز کے پاس تھا لیکن اس کے باوجود ہم نے اس کا علاج معالجہ کیا‘‘۔

’’ہنر‘‘  اور ’’اوزار‘‘

نوری پروین پردے میں تھی لیکن اس کی مسکراہٹ پوری طرح محسوس کی جاسکتی تھی۔اس نے نہ صرف ایک سالہ تربیتی کورس مکمل کیا بلکہ ’’ہنر‘‘ پروگرام کے تحت 2500روپے بھی حاصل کئے۔ وہ اس سے ایک سلائی مشین خریدے گی اور سلائی کو بنیاد بناکر معاشی خوشحالی کی عمارت تعمیر کرے گی۔ یہ2500 روپے اسے اس وقت کے وزیراعلیٰ نتیش کمار  نے ایک تقریب میں دئیے ہیں۔ اسی تقریب میں گلشن بانو، حنا کوثر، شبنم، شمع سمیت بہت سی دوسری مسلمان لڑکیوں کو بھی ڈھائی ہزار روپے کے چیک ملے۔ یہ پروگرام جولائی 2009ء میں شروع کیا گیا تھا۔

پہلے ہی سال کے دوران 13768مسلمان لڑکیوں نے ’’ہنر‘‘ کے تحت ووکیشنل کورسز کرکے چیک وصول کئے ۔ دراصل نتیش کمار نے اپنی ریاست میں پوری کوشش کی کہ  مسلمانوں کے اندر یہ احساس باقی نہ رہے کہ وہ اقلیت میں ہیں۔ اس کیلئے انھوں نے بہت سے منصوبے شروع کئے۔ انہی میں سے ایک  خودروزگار کا یہ پروگرام ’’ ہنر‘‘ ہے، اس کے تحت سینکڑوں ادارے قائم کئے جو مسلمان تنظیموں ہی کے زیرانتظام ہیں۔

مسلمان لڑکیاں پورے اعتماد اور دلچسپی  سے ان اداروں سے ووکیشنل ٹریننگ حاصل کررہی ہیں۔ وزیراعلیٰ کا منصوبہ ہے کہ ان ووکیشنل اداروں  کے توسط سے مسلمان لڑکیوں کو مزید تعلیم کی طرف بڑھایا جائے۔ چنانچہ ایسی لڑکیاں ایک طرف کوئی نہ کوئی کاروبار شروع کرلیتی ہیں تو دوسری طرف  وہ سکولوں اور کالجوں میں داخلہ لینے کیلئے چل نکلتی ہیں۔ انھیں فیس وغیرہ میں غیرمعمولی رعایت دی جاتی ہے۔

نتیش کہتے ہیں:’’ اس پروگرام سے لڑکیوں کو خوداعتمادی حاصل ہوتی ہے، حوصلہ ملتاہے کہ وہ   اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر زندگی کے میدان میں آگے بڑھ سکیں‘‘۔یادرہے کہ ووکیشنل ٹریننگ کے کورسز میں کمپیوٹر پروگرام بھی شامل ہیں۔آنے والے برسوں میں اس پروگرام سے استفادہ کرنے والی لڑکیوں کی سالانہ اوسط میں کئی گنا اضافہ ہوا۔2012-13ء میں 50ہزار لڑکیاں کامیاب ہوئیں۔

اسی طرح ’’اوزار‘‘ کے نام سے بھی ایک ووکیشنل پروگرام شروع کیا۔نتیش کمار کے اقدامات واضح طورپر ظاہر کرتے تھے کہ وہ اپنی ریاست کے ایک ایک فرد کو تعلیم  اورہنر سے بہرہ مند کرناچاہتے ہیں۔ وہ آگے بڑھنے والے مسلم طلباء وطالبات کی حوصلہ افزائی کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ نتیش کمار ہرسال میٹرک کے امتحان میں فرسٹ ڈویژن حاصل کرنے والے تمام مسلمان طلباء وطالبات کو فی کس10ہزار روپے انعام دیتے تھے۔ ہرسال ان طالب علموں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی تھی۔

کبھی چھٹی نہیں کی

نتیش کمار نے وزارت اعلیٰ کے دوران کبھی چھٹی نہیں کی۔ بس! ایک بار ایک ایوارڈ لینے کیلئے ممبئی گئے، بنگلور میں ایک شادی میں شرکت کیلئے گئے تو وہاں ایک رات گزارنی پڑی، اسی طرح پنجاب اور کلکتہ  انتخابی مہم کے سلسلے میںگئے، بعض غیرملکی دورے بھی کئے۔ وہ روزانہ (بغیرکوئی وقفہ کئے) کام کرتے تھے۔ پوچھا گیاکہ آپ سیاست دان نہ ہوتے تو کیاہوتے؟ کہا کہ میں نے انجینرنگ میں ڈگری حاصل کی اور ریاست کے الیکٹریسٹی بورڈ سے وابستہ ہوگیا لیکن بادل نخواستہ۔ چنانچہ الیکٹریسٹی بورڈ میں جاب کا پہلا دن ہی میرا آخری دن ثابت ہوا۔ مجھے ہمیشہ سیاسی زندگی میں دلچسپی رہی تھی، میں کسی اتفاق کے نتیجے میں سیاست میں نہیں آیا۔

فسادات سے متاثرین کی زندگی کے رنگ کیسے بحال ہوئے؟

بھاگلپور میں مسلم کش فسادات ہوئے تو نتیش کمار کیلئے مجرموں کو ان کے برے انجام تک پہنچانا اور متاثرین کو انصاف کی فراہمی، انھیں خوف سے نجات دلانا اور پھر سے انھیں بہترزندگی فراہم  کرنا نہایت کٹھن کام تھا، تاہم انھوں نے بھاگلپور متاثرین کو نہ صرف انصاف دلایا بلکہ مالی امدادبھی فراہم کی، ان کے تمام تر قرضے معاف کرائے، ان کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کئے۔

اس سے پہلے وہ یہاں کے مسلمانوں کو برابری کی بنیادپر حقوق فراہم کرچکے تھے،انھوں نے یہاں کے سکولوں کا نظام بہتر بنایا، اسلامی مدارس کو مستحکم ہونے کیلئے ہرقسم کی مدد فراہم کی، مظہرالحق یونیورسٹی اور کش گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  کی شاخ کھولنے کیلئے تیز رفتار اقدامات کئے۔مطلقہ مسلمان خواتین کو چھوٹی چھوٹی رقوم فراہم کرنے کا سلسلہ ختم کرکے انھیں یکمشت رقوم فراہم کی گئیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں بہتری لانے کیلئے کوئی بڑا قدم اٹھاسکیں، ایسا ہی معاملہ دیگربے سہارا مسلم خواتین کے ساتھ بھی کیاگیا۔

صرف چھ ماہ میں 40لاکھ خواتین کو  پڑھنا لکھنا سکھایا

’’اکشار آنچل‘‘ کے نام سے  ایک منصوبہ بھی نتیش کمار کا حیران کن کارنامہ تھاجس میں صرف پہلے چھ ماہ میں قریباً 40 لاکھ خواتین کو پڑھنا لکھنا سکھایاگیا۔اس کیلئے تمام تر وسائل ریاستی حکومت اپنے خزانہ  سے اداکرتی رہی، مرکزی حکومت کا اس سے کوئی لینا دینا نہ تھا۔ پہلے سال اس کیلئے 55کروڑ روپے مختص کئے گئے اور دولاکھ اساتذہ کا بندوبست کیاگیا۔ ان اساتذہ کو ایک ہزار روپے اور تعریفی سند بھی عطا کی گئی۔ نتیش کمار کی کوشش تھی کہ ان کی ریاست میں کوئی ایک فرد بھی چٹا ان پڑھ نہ رہے۔ وہ تین سے چھ سال کی عمر کے بچوں کو 250روپے اور کلاس سوم سے پنجم کے بچوں کو 500روپے فراہم کرتے تھے۔

نتیش کمار کے اثاثے

کرپشن کے خاتمے کیلئے قانون سازی اور مہم کاآغاز کرتے ہوئے نتیش کمار نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات ویب سائٹ پر پوری قوم کے سامنے پیش کردیں۔اس روز ان کے پاس کیش کی صورت میں 31 ہزار 760 روپے تھے، بنک اکائونٹ میں57ہزار770روپے، ایک سنٹرو کار ماڈل 2003، ایک پرانا ٹی وی سیٹ، ایک پرانا ائیرکنڈیشنر، ایک فریج، ایک کولر، ایک لاکھ67ہزار مالیت کی گائیں، 34ہزار475روپے مالیت کا کمپیوٹر،35000روپے مالیت کی ایک جاگنگ مشین، نئی دہلی میں ایک گھر جس کی مالیت40لاکھ روپے ، سٹیٹ بنک آف انڈیا کی ایک برانچ سے قرض لے رکھاتھا، اس کی ادائیگی کی تفصیلات بھی شامل کی گئیں۔

نیند میں مست وزیر

$
0
0

ایک شخص اپنے دماغ کا ٹرانسپلانٹ آپریشن کرانے ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر نے اسے دو دماغ دکھائے اور کہا’’یہ والا دماغ ایک انجینئر کا ہے۔ اس کی قیمت ایک لاکھ روپے ہے۔ یہ دوسرا دماغ ایک سیاست داں کا ہے۔ یہ دس لاکھ روپے میں ملے گا۔‘‘

اس شخص نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا سیاست داں کا دماغ زیادہ عمدہ اور پائیدار ہے؟‘‘

ڈاکٹر بولا ’’جی ہاں‘ آپ کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ بہت کم استعمال ہوا ہے۔‘‘

اس لطیفے سے یقینا سبھی سیاست دانوں کا مذاق اڑانا مقصود نہیں۔ اس شعبے سے ابراہام لنکن‘ قائداعظم  محمد علی جناح‘ گاندھی جی‘ اورنیلسن منڈیلا جیسے عظیم المرتبت رہنما بھی وابستہ رہے جنہوںنے اپنے خیالات وجدوجہد سے تاریخ کا دھارا بدل ڈالا۔ گو ایسے انقلاب ساز سیاسی رہنماؤں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

کئی سیاست دانوں کا ایک پسندیدہ مشغلہ پارلیمنٹ‘ سرکاری میٹنگوں اور تقریبات میں اونگھنا بلکہ نیند لینا ہے۔ آئے دن خبر ملتی ہے کہ فلاں رکن اسمبلی یا وزیر پارلیمنٹ یا کسی محفل میں سوتا پایا گیا۔ عموماً خبر کے ساتھ بطور شہادت تصویر بھی ہوتی ہے جس میں موصوف دنیا و مافیہا سے بے خبر دکھائے جاتے ہیں۔

لیکن سکے کے دو رخوں کی طرح نیند لینے کے عاشق سیاست دانوں کی بھی دو اقسام ہیں۔ اول سیاست داں وہ ہیں جو اپنے قول و فعل سے غریب عوام کی کایا پلٹنا چاہتے ہیں اور دن رات مصروف عمل رہتے ہیں۔ ایسے سیاسی رہنما پارلیمنٹ یا کسی تقریب میں چند لمحے آنکھیں بند کر کے سستاتے اور اپنی ہمت ازسرنو مجتمع کرتے ہیں۔  چند منٹوں کی ایسی نیند شاید ان کا جائز حق ہے کہ ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لیے انہیں تازہ دم کر دیتی ہے۔

مزید براں بعض رہنما کسی تقریب میں آنکھیں بند کیے دوسروں کی تقریر سنتے اور توجہ اس پر مرکوز کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس عمل کو بھی سونا نہیں کہا جا سکتا۔ عموماً ایسے سیاست داں بھی کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتے ہیں۔

دوسری قسم کے سیاسی رہنما وراثت میں ملے کاروبار بڑھانے  اور اپنی پیٹ پوجا کرنے سیاست میں آتے ہیں۔ انہیں عوام کی فلاح و بہبود کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ وہ اس بات سے چڑتے ہیں۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں کا محور اپنی ذات یا زیادہ سے زیادہ خاندان ہوتا ہے۔ اسی قسم کے جعلی سیاسی رہنماؤں کی وجہ سے سیاست جیسا اعلیٰ شعبہ بدنام ہو گیا۔ حتیٰ کہ امریکہ کے بانیوں میں شامل اور نہایت عمدہ دانشور‘ تھامس جیفر سن کو کہنا پڑا: ’’سیاست ایسا عذاب ہے کہ میں اپنے سبھی پیاروں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہوں۔‘‘

شاید سرکاری آسائشات و مراعات بعض وزرا کو کاہل و تن آسان بن دیتی ہیں۔حتی کہ کچھ سیاست داں پارلیمنٹ میں خراٹوں کے ساتھ سوتے ہوئے نہیں ہچکچاتے اور اس مقدس قومی ادارے کا تقدس مجروح کرتے ہیں۔ اور جب عوام و خواص میں ان کی آلکسی و کاہلی کے چرچے پھیل جائیں‘ تو وہ اسے چھپانے کی خاطر عجیب ڈھونگ اپناتے ہیں۔

مثال کے طور پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) موسیٰ علی کو لیجیے۔ موصوف یوگنڈا کے تیسرے نائب وزیراعظم ہیں ۔ پارلیمنٹ اور عام تقریبات میں اکثر اونگھتے پائے جاتے ہیں بلکہ اس باب میں بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکے۔ بدنامی سے بچنے کا توڑ جناب موسیٰ علی نے یہ نکالا کہ پارلیمنٹ میں گہرے شیشوں والی عینک پہن کر آنے لگے۔ اب قریب بیٹھا شخص بھی یہ جان نہیں پاتا کہ وہ تقریریں دلچسپی و توجہ سے سن رہے ہیں یا نیند کی وادی میںپہنچ چکے ۔

تاہم موسیٰ صاحب کے اونگھنے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ وہ 75 سال کے ہو چکے ۔ چونکہ بوڑھا اور بچہ ایک جیسے ہوتے ہیں لہٰذا بڑھاپے میں اوقاتِ نیند میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔لگتا ہے ،موسیٰ صاحب  کو سیاست سے زیادہ ہی لگاؤ ہے۔وہ قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھے ہیں،مگر گھر آرام سے بیٹھنے کو تیار نہیں۔

ویسے یوگنڈا کی  پارلیمنٹ ’’نیند کے ماتوں‘‘ کی پناہ گاہ بلکہ خواب گاہ ہونے کی عالمی شہرت رکھتی ہے۔ اس یادگار و منفرد روایت کا آغاز چار برس قبل ہوا۔

2010ء میں صدر یوری موسنوی نے پارلیمان میں سالانہ بجٹ پیش کیا تب بہت سے ارکان حتی کہ وزیر اونگھتے و سوتے پائے گئے۔دن دیہاڑے انجام پائی ان کی یہ  چوری ٹی وی اور صحافیوں کے کیمروں میں محفوظ ہو گئی۔ اگلے دن یوگینڈین اخبارات نے اپنے اونگھتے رہنماؤں کی تصاویر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیں۔ ایک شرارتی اخبار نے یہ جلی سرخی جمائی:

’’سوتی قوم‘‘

ظاہر ہے ،بجٹ تقریر کے دوران ہر عوامی رہنما کا فرض ہے کہ وہ اسے بغور سنے اور سمجھنے کی سعی کرے۔ مگر پاکستان میں بھی عموماً دیکھا جاتا ہے کہ اسے سنتے ہوئے ارکان پارلیمنٹ جمائیاں اور انگڑائیاں لیتے رہتے ہیں۔ بعض تو یوں گم سم بیٹھے ہوتے ہیں جیسے بجٹ تقریر سر کے اوپر سے گزر چکی۔

آج کل یوگنڈین میڈیا میں ’’سوتے وزیروں‘ ارکان اسمبلی اور سرکاری افسروں‘‘ کی خوب شامت آئی ہوئی ہے۔ کالم نگاروں کا کہنا ہے کہ قوم کے یہ رہنما جب دن دیہاڑے اونگھنے و سونے سے نہیں گھبراتے تو اپنے دفاتر میں بیٹھ کر نیند کے خوب مزے لیتے ہوں گے۔ ایک کالم نگار‘ برنارڈ ٹائیر نے لکھا:

’’سونا کوئی بری بات نہیں‘ لیکن کام کے دوران یہ ناگوار و ناپسندیدہ حرکت بن جاتی ہے۔‘‘

ہنگامہ جاری تھا کہ ایک ٹی وی نیٹ ورک نے ایسی وڈیو دکھا دی جس نے جلتی پر تیل جیسا کام دکھایا۔ اس وڈیو میں صدر یوری بجٹ تقاریر سنتے ہوئے خود سوتے  پائے گئے۔ اب اینکروں اور کالم نگاروں نے صدر یووری کو آڑے ہاتھوں لیا۔ صدارتی ترجمان نے بیان دیا ’’صدر کی آنکھ نہیں لگی بلکہ وہ اپنے خیالوں میں مستغرق مراقبہ کر رہے تھے۔‘‘ یقیناً اس تنقید پہ صدر یوری نے دل ہی دل میں کہا ہوگا:

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

بعض یوگنڈین دانشوروں کا کہنا ہے کہ ملک میں بوڑھے سیاست دانوںکی کثرت ہو چکی۔ وہ زندگی کا ہر تلخ و شیریں ذائقہ چکھ چکے  لہٰذا اب پہلے کی طرح پرجوش نہیں رہے اور ان میں کچھ کر دکھانے کا ولولہ دم توڑ چکا۔ چنانچہ اب انہیں ریٹائر ہو جانا چاہیے۔ مگر سیاست بھی ایسا نشہ ہے کہ بقول چچا ذوق    ؎

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

میتھائس میگو یوگنڈا کا ممتاز مزاح نگار ہے۔ اس نے نیند میں مست وزرا کے معاملے کو اچھوتی نظر سے دیکھا ۔ 1986ء میں جب صدر یوری موسنوی  نے حکومت سنبھالی تو ملک سیاسی بحرانوں اور خانہ جنگی کا شکار تھا۔تبھی صدر نے قوم سے وعدہ کیا:’’ میں یوگنڈا میں امن لا کر دم لوں گا تاکہ عوام سکون کی نیند سو سکیں۔‘‘

چنانچہ میتھائس میگو کہتا ہے:’’اگر حکمران جماعت کے وزیر و مشیر پارلیمنٹ میں سوتے پائے جاتے ہیں‘ تو یہ حیران کن بات نہیں۔ صدر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہمیں پُرسکون نیند فراہم کریں گے۔ سو اب وہ اپنا وعدہ پورا کر رہے ہیں۔‘‘

اسی سال ماہ جولائی میں بھارتی جماعت‘ کانگریس کے ولی عہد‘ راہول گاندھی بھی پارلیمنٹ میں سوتے پائے گئے۔ تب پارلیمنٹ میں مہنگائی پہ بحث جاری تھی۔ حزب اختلاف نے اس ’’حکمرانی اونگھ‘‘ پر شور مچا دیا۔ بی جے پی کے ترجمان نے قوم کو بتایا ’’قیمتوں میں اضافے کے مسئلے پر کانگریس 10 سال سے سو رہی ہے۔ اور آج پارلیمان میں اسی مسئلے پر بحث جاری تھی تو یوراج (ولی عہد) سوتے پائے گئے۔‘‘

کانگریس کے ترجمان نے جواب دیا: ’’راہول گاندھی آنکھیں بند کیے تقاریر سن رہے تھے۔ اگر انہیں جھپکی آ  بھی گئی تو اس میں برائی کیا ہے؟ بی جے پی کے کئی ارکان پارلیمنٹ بھی دوران سیشن سو جاتے ہیں۔‘‘

اس اسکینڈل پر ایک عام بھارتی نے یہ پُرلطف تبصرہ کیا: ’’اگر راہول گاندھی جاگ رہے ہوتے‘ تو کیا تیر مار لیتے؟ ملک و قوم کی ترقی میں ان کی خدمات صفر ہیں۔‘‘

نیند دانشوروں کی نظر میں

٭ قہقہہ لگایئے‘ سب دنیا والے آپ کے ساتھ قہقہے لگائیں گے۔ خراٹے لیجیے اور تنہا سویئے۔ ( امریکی ادیب ‘ ارنسٹ ہیمنگوے)

٭ جو انسان الارم کلاک کی آواز پر بیدار ہو‘ وہ دنیا کو کچھ نہیں دے سکتا۔(سعادت حسن منٹو)

٭ چند لوگ نیند میں باتیں کرتے ہیں۔ جب لیکچرار باتیں کریں‘ تو لوگ سوتے ہیں۔(فرانسیسی ادیب‘ البرٹ کامیو)

٭ اگر دن اچھا گزرے تو نیند بھی اچھی آتی ہے۔ (اطالوی مصور‘ لیونارڈو وانچی)

٭ ایک فطری قہقہہ اور طویل نیند ڈاکٹر کی کتاب میں لکھے بہترین علاج ہیں۔ (آئرش روایت)

٭ یہ دیکھا گیا ہے کہ مسئلہ چاہے کتنا ہی پیچیدہ و کٹھن ہو ‘ جب رات کے وقت نیند کی کمیٹی بیٹھے‘ تو وہ صبح تک حل ہو جاتاہے۔(امریکی ادیب‘ جان سٹین بیک)

٭ سب انسان جب تک جاگتے رہیں‘ ایک ہی دنیا میں بستے ہیں۔ مگر جب وہ محو خواب ہوں‘ تو ہر انسان میں ایک نئی دنیا آباد ہو جاتی ہے۔ (یونانی مورخ‘ پلوتارک)

٭ بدترین وقت وہ ہے جب انسان سونے کی کوشش کرے مگر اسے نیند نہ آئے۔(انگریزلکھاری‘ سکاٹ فٹزجیرالڈ)

٭ سونے کو معمولی کام مت سمجھئے‘ کیونکہ اسے پانے کی خاطر انسان کو سارا دن جاگنا پڑتا ہے۔ (جرمن فلسفی‘ فریڈرچ نطشے)

٭ جو مردو زن خراٹے لیں‘ وہ ہمیشہ سب سے پہلے سوتے ہیں۔(اردو افسانہ نگار، انور)

جنہیں نیند ہی نہیں آتی

وارن زیون ممتاز امریکی شاعر گذرا ہے۔ اس نے ایک بار کہا تھا:’’میں مرنے کے بعد ہی سوؤں گا۔‘‘ وارن دراصل نیند کو وقت کا ضیائع سمجھتا تھا اور چوبیس گھنٹے میں محض چار پانچ گھنٹے ہی سوتا۔ مگر نیند کی کمی بہر حال صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ سو وارن صرف 56 سال کی عمر میں چل بسا۔

انسان بہر حال کم از کم  ’’11 دن‘‘ تک بغیر سوئے رہ سکتا ہے۔ 1964ء میں ایک امریکی طالب علم‘ رینڈی گارڈنر ایک طبی تجربے کے دوران مسلسل گیارہ دن تک جاگتا رہا۔ یوںاس نے ایک منفرد ریکارڈ قائم کر دیا۔ تاہم کم خوابی کے مریضوں کو چھوڑ کر بیشتر انسان نیند لیتے ہیں تاکہ خود کو ’’ری چارج‘‘ کر سکیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جن کے سر پر کسی کام کا بھوت سوار ہو جائے‘ تو پھر انہیں کھانے پینے اور سونے کا ہوش نہیں رہتا۔مثلاً ممتاز امریکی موجد‘ تھامس ایلوا ایڈسن رات کو صرف تین چار گھنٹے سوتے تھے۔ جیسے ہی بیدار ہوتے‘ نت نئی ایجادات کی تخلیق پر لگ جاتے۔ ان کا کہنا تھا: ’’نیند ہماری غاروں والی زندگی کی یاد گار ہے۔‘‘

تھامس  ایڈسن کے معاصر موجد‘ نکولا ٹیسلا (Nikola Tesla) سے کم ہی پاکستانی واقف ہیں۔ درحقیقت یہ سرب نژاد امریکی موجد ایڈسن سے بھی زیادہ ذہین‘ طباغ اور چاق و چوبند تھا۔ اس نے بنی نوع انسان کو تین سو سے زیادہ ایجادات دیں اور اس کی زندگی آسان بنائی۔ ان میں سب سے اہم بجلی کا نظام ہے۔ ٹیسلا چوبیس گھنٹے میں صرف دو تین گھنٹے سوتا تھا۔ البتہ دن میں چند بار کچھ منٹ کے لیے اونگھ لیتا تاکہ کھوئی ہوئی توانائی پا سکے۔

سائنس کی رو سے ہر انسان میں نیند کا نظام مختلف ہے۔ اسی واسطے بعض لوگ دس گھنٹے بھی محو خواب رہیں‘ تو ان کی نیند پوری نہیں ہوتی ۔جبکہ بہت سے مردوزن چار پانچ گھنٹے سو کر ہشاش بشاش ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ کئی لوگوں کو کام کا دباؤ یا کوئی پریشانی زیادہ عرصے سونے نہیں دیتی۔

مثال کے طور پر 39سالہ مرسیا مائیر کو لیجیے جو انٹرنیٹ دیو‘ یا ہو کمپنی کی صدر ہے۔ وہ رات کو صرف چار پانچ گھنٹے سوتی ہے۔ تاہم مرسیا ہر چار ماہ بعد ایک ہفتے کی چھٹیاں لیتی ہے تاکہ خود کو از سر نو ذہنی و جسمانی طور پر توانا کر سکے۔

دولت و شہرت کے عاشقوں سے بھی نیند روٹھی رہتی ہے۔ ایسے مردو زن کو ہوس جگائے رکھتی ہے۔ یا پھر وہ ہر قیمت پر سب سے آگے رہنا چاہتے ہیں۔ امریکی کاروباری‘ ڈونالڈ ٹرمپ ایسے ہی لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے’’جو مرد و زن دن میں آٹھ دس گھنٹے سوتے رہیں‘ وہ چار گھنٹے سونے والوں کا کیونکر مقابلہ کر سکتے ہیں؟‘‘

حسب توقع دنیا کے طاقتور ترین انسان‘ بارک اوباما بھی صرف پانچ چھ گھنٹے کی نیند لیتے ہیں۔ وہ رات ایک بجے سوتے اور صبح سات بجے اٹھ جاتے ہیں۔ مگر اکثر کوئی خاص واقعہ ہونے پر انہیں نیند توڑنا بھی پڑتی ہے۔

نیند کی کمی انسان پر کیسے منفی اثرات مرتب کرتی ہے‘ اس کی بہترین مثال بھی امریکی صدر ہی ہیں۔ 2008ء کے  اوباما ترو تازہ اور شگفتہ چہرہ رکھتے تھے۔ مگر کام کے شدید دباؤ‘ نیند کی کمی اور تفکرات نے اوباما کو صرف چھ سات برس میں بوڑھا کر دیا۔ اب ان کا چہرہ مرجھائے ہوئے پھول کے مانند ہے۔ چہرے پر جھریاں پڑ چکیں اور بال سفید ہو گئے۔

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>