Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

7500 قبل مسیح سے آج تک اسکاٹ لینڈ کی تاریخ کا اجمالی جائزہ

$
0
0

دھرتی پر انسانوں کی آباد کاری اور نقل مکانی بنیادی ضروریات زندگی اور سازگار ماحول کی مرہون منت رہی ہے، جہاں حالات زیادہ بہتر رہے، وہاں انسانی آبادی کی تاریخ اتنی ہی قدیم رہی، جہاں موسمی شدت، ضروریات زندگی اور جنگ وجدل کے مسائل زیادہ رہے، وہاں انسانی زندگی کے آثار اتنے ہی محدود رہے۔

یورپ کی ایک سمت میں واقع اسکاٹ لینڈ کی زمین طویل عرصے تک برف سے ڈھکی رہی۔ لگ بھگ 11000 قبل مسیح میں موسم کروٹ لیتا ہے۔۔۔ آکاش پر سورج کی نرم کرنیں جاگتی ہیں۔۔۔ فلک سے ’بدلی‘ کی دبیز تہ گھٹتی ہے۔۔۔ زمین پر جمے برف کے ساگر دھیرے دھیرے پرے کھسکتے ہیں۔۔۔ اور آہستہ آہستہ یہاں زندگی سانسیں لینا شروع ہوجاتی ہے۔۔۔ موسم کی بہتری یہاں مویشیوں سے معاش حاصل کرنے والے کچھ لوگوں کو متوجہ کرتی ہے۔ ساتھ ہی کچھ چوپائوں کے رکھوالوں کی آمدورفت شروع ہوتی ہے۔۔۔ کچھ جانوروں کے شکار سے پیٹ پوجا کرنے والے ہیں۔۔۔ لگ بھگ 7500 قبل مسیح کے زمانے میں اسکاٹ لینڈ میں تعمیر ہونے والے پتھروں کے مکانات یہاں لوگوں کی مستقل رہایش کا پتا دیتے ہیں۔

تاریخ کے اوراق سے گرد ہٹائی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ 27 قبل مسیح میں جب رومن سلطنت کا قیام عمل میں آیا، تو انگلستان اور ویلز کے ساتھ اسکاٹ لینڈ بھی ان کے قبضے میں آگیا۔ رومیوں نے اسے برطانیہ کے ایک صوبے کی حیثیت دی۔ یوں اس سرزمین کے پہلی بار باقاعدہ طور پر برطانیہ سے ناتا جڑتا ہے۔۔۔ جس کے بعد باہمی تعلقات میں سردو گرم کے کئی دور آئے۔ برطانیہ کا نام دراصل برٹن قبائل کی بنا پر پڑا۔ یہ قبائل قرب وجوار کے خطوں سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے تھے۔

اس کے بعد اسکاٹ لینڈ کبھی پانچ حصوں میں منقسم نظر آتا ہے۔۔۔ کبھی فرانس کی راج دہانی، تو کبھی انگلستان کے زیرنگیں، اور کچھ عرصے رومیوں کے زیر اثر بھی رہتا ہے۔۔۔ پھر 1034ء میں چار حصوں میں منقسم اسکاٹ لینڈ باقاعدہ متحد ہوجاتا ہے۔43ء تا 84ء جنرل جولیس اگریکولا (Gnaeus Julius  Agricola ) کی زیرقیادت یہاں رومیوں کو فتح حاصل ہوتی ہے۔

ایک رومی مورخ ٹیسی ٹس (Tacitus) رقم طراز ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے باشندوں نے رومیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مسلح جدوجہد کی۔ اسکاٹ لینڈ کے بپھرے ہوئے قبائل کو قابو میں رکھنے کی خاطر یہاں ایک دیوار بھی تعمیر کی جاتی ہے، لیکن عوام کی مزاحمت کے مقابل، یہاں رومیوں کا قبضہ 40 سال سے زیادہ نہیں رہ پاتا اور مختلف مقامی گروہ اقتدار حاصل کر لیتے ہیں۔ مارچ 1286ء میں الیگزینڈر سوئم (Alexander III) کی وفات کے بعد اس کی نواسی مارگریٹ (Margaret) کی تاج پوشی ہوتی ہے، لیکن 1290ء میں اس کی بھی وفات ہو جاتی ہے۔

یوں اسکاٹ لینڈ پر شاہی خاندان کا دو سو سال پرانا تسلسل منقطع ہوجاتا ہے۔ اس بنا پر انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ اول (Edward I) سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اسکاٹ لینڈ کے لیے نئے بادشاہ کا انتخاب کریں، لہٰذا 17 نومبر 1292ء کو اسکاٹ لینڈ کی فرماں روائی کے لیے جان بلیول (John Balliol) کو چن لیا جاتا ہے۔ انگلستان کی جانب سے اپنے مقرر کردہ نئے شاہ سے تابع داری کی توقع باندھ لی جاتی ہے۔۔۔ لیکن یہ امید اس وقت خاک میں مل جاتی ہے، جب اسکاٹ لینڈ، فرانس کے خلاف انگلستانی فوج کا حصہ بننے سے صاف انکار کردیتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ اسکاٹ لینڈ کی جانب سے فرانس سے اتحاد کے لیے وفود بھیجے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں 23 اکتوبر 1295ء کو فرانس اور اسکاٹ لینڈ کے درمیان معاہدہ ہو جاتا ہے۔ یہ معاہدہ 1560ء تک نافذ رہا۔ انگلستان نے اسکاٹ لینڈ اور فرانس کا یہ معاہدہ قبول ہی نہیں کیا اور یوں اسکاٹ لینڈ اور انگلستان کے درمیان کشیدگی باقاعدہ ایک جنگ کا روپ دھار لیتی ہے۔۔۔ جس کے نتیجے میں انگلستان کا بادشاہ ایڈورڈ، اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ جان بلیول کو بے دخل کر کے اسکاٹ لینڈ پر قبضہ کرلیتا ہے، یوں جبراً اسکاٹ لینڈ پر انگلستان کا جھنڈا لہرا دیا جاتا ہے۔

اسکاٹ لینڈ کے عوام اس قبضے کے خلاف بھی آزادی کا عَلم لیے سرِ میدان آجاتے ہیں۔ اینڈریو مرے (Andrew Murray) اور ولیم ویلس (william wallace) حریت پسند راہ نما بن کے ابھرتے ہیں۔ انگلستان سے آزادی کی یہ جنگ کئی دہائیوں تک جاری رہتی ہے۔ بالآخر اسکاٹ لینڈ کے حریت پسند انگریز افواج کو شکست سے دوچار کرتے ہیں اور 1328ء میں اسکاٹ لینڈ کو آزاد کرالیا جاتا ہے۔ یہ انگلستان کے ایڈورڈ دوم (Edward II) کا دور ہے اور اس شکست کے نتیجے میں اسے انگلستان میں بھی اپنے تخت سے دست بردار ہونا پڑ جاتا ہے۔

انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے معاملات کچھ عرصے کے لیے جدا ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد 1468ء میں اسکاٹ لینڈ کے فرماں روا جیمز سوم (James III) کچھ خارجی معاملات حل کرنے کی خاطر ڈنمارک کی شاہ زادی مارگریٹ (Margaret) سے شادی رچا لیتا ہے۔ دوسری طرف انگلستان کی نظریں بھی اسکاٹ لینڈ پر جمی رہتی ہیں، 1482ء میں جیمز سوم کی وفات کے بعد موقع پا کر اسکاٹ لینڈ کے ایک قصبے Berwick-upon-Tweed پر انگلستان اپنا تسلط قائم کر لیتا ہے۔

1502ء میں اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان تعلقات ایک نئی کروٹ لیتے ہیں، جب جیمز چہارم (James IV) انگلستان کے ہنری ہفتم سے باہمی امن کا معاہدہ کرلیتا ہے۔ دونوں ممالک کی بادشاہت کو یک جا کرنے کی خاطر جیمز چہارم، ہنری ہفتم (Henry VII) کی بیٹی مارگریٹ  ٹوڈو (Margaret Tudo)  سے شادی کر لیتا ہے۔ 1603ء میں اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ جیمز ششم (James VI) کو انگلستان کی بادشاہت بھی وراثت میں ملتی ہے۔ یوں دونوں ممالک کے یک جا ہونے کا خواب حقیقت سے قریب تر ہوتا ہے۔

معاملات شاید اسی ڈگر رفتہ رفتہ آگے بڑھتے رہتے کہ 1690ء کے آخر میں اسکاٹ لینڈ میں شدید قحط پڑتا ہے۔ بھوک وہاں کی آبادی کے پانچویں حصے کو نگل لیتی ہے۔ شدید غذائی بحران سے نکلنے کی سبیل کے طور پر 1698ء میں اسکاٹ باشندوں کی ایک بہت بڑی تعداد پاناما میں تجارت کے لیے اپنی جمع پونجی لگاتی ہے، شومئی قسمت۔۔۔ یہ سرمایہ بھی ڈوب جاتا ہے۔ شدید معاشی مسائل کا شکار پورا اسکاٹ لینڈ اب دیوالیہ ہوجاتا ہے۔ حالات سے تنگ آکر برطانیہ سے مدد مانگی جاتی ہے۔

22 جولائی 1706ء کو اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے انضمام کا معاہدہ دونوں ممالک کے اراکین پارلیمان کے درمیان طے پاتا ہے۔ اگلے سال اس سمجھوتے کو دونوں طرف کے پارلیمان منظور کر لیتے ہیں اور یوں یکم مئی 1707ء کو یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ برٹن (United Kingdom of Great Britain) وجود میں آجاتی ہے۔ماضی میں اکثر ایک دوسرے کے حریف اور اچھے ہم سائے نہ رہنے والے اب حالات کے تحت یک جا ہونے پر آتے ہیں، تو اب ایک پرچم تلے باہم شیرو شکر ہونے لگتے ہیں۔

اس اتحاد سے اسکاٹ لینڈ کے معاشی حالات سنبھلنے لگتے ہیں۔ تاہم بحران سے نکلنے کے بعد اب اسکاٹ لینڈ باقاعدہ برطانیہ کے لیے معاشی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اسکاٹ لینڈ (گلاسگو) کی بندرگاہ کے ذریعے بڑے پیمانے پر تجارت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح انیسویں صدی میں لوہے سے تیار شدہ مکانات کا اسکاٹش فن نہایت تیزی سے برطانیہ اور پھر پوری دنیا میں پھیلتا ہے۔ چوں کہ اسکاٹ لینڈ میں لکڑی کی قلت کی وجہ سے پہلے ہی بڑے پتھروں کے ذریعے مکانات بنانے کا رواج موجود تھا۔ اس کے بعد پہلی اور دوسری عالم گیر جنگ میں بھی اسکاٹ لینڈ نے برطانیہ کے لیے افرادی قوت، بحری جہاز، مشینری سمیت سرمایہ بھی فراہم کرتا ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران 1911ء میں 48 لاکھ کی کل آبادی میں سات لاکھ کے قریب جوان بھیجے جاتے ہیں، جن میں سے 74 ہزار مارے جاتے ہیں۔1707ء میں دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے میں یہ بات یقینی بنائی گئی تھی کہ اسکاٹ لینڈ میں اس کے اپنے قوانین ہوں گے۔ انگلستان اور ویلز کے قوانین کا اطلاق اسکاٹ لینڈ پر نہیں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے ملاپ سے قبل کے بے شمار قوانین اسکاٹ لینڈ میں بعد تک موثر رہے۔ برطانیہ میں اگرچہ ’’بینک آف انگلینڈ‘‘ کو مرکزی حیثیت حاصل رہی، تاہم اسکاٹش بینک بھی اپنے پائونڈ جاری کرتا ہے۔

تاج برطانیہ کا حصہ بننے کے بعد اسکاٹ لینڈ کا سربراہ بھی برطانوی بادشاہ یا ملکہ ہوتی ہے۔ اس وقت ایلزبتھ دوم (Elizabeth II) کو اس سربراہ کی حیثیت حاصل ہے۔ 6 فروری 1952ء کو جارج ششم کی وفات کے بعد جب ان کی صاحب زادی ایلزبتھ دوم کی تاج پوشی کی گئی، تو اسکاٹ لینڈ میں خاصی ہلچل مچی، کیوں کہ ایلزبتھ اول ) 1558ء تا 1603ء (کے زمانے میں اسکاٹ لینڈ ایک بالکل علیحدہ ریاست کی حیثیت کا حامل تھا، اس لیے ایلزبتھ اول کبھی بھی اسکاٹ لینڈ کی سربراہ نہیں رہیں، لیکن ایلزبتھ دوم برطانیہ کی ملکہ کی حیثیت سے اب اس کی سربراہ قرار پائیں۔

انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے علاوہ برطانیہ میں ویلز اور شمالی آئرلینڈ کے ممالک بھی آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملکہ ایلزبتھ دوم مزید 14 ممالک کی بھی ملکہ ہیں، جن میں کینیڈا، آسٹریلیا، جمیکا، بارباڈوس، پاپوا نیوگنی (Papua New Guinea)، گریناڈا (Grenada)، بہاماس(The Bahamas) جزائر سولومن Solomon Islands) (، ٹوویلو(Tuvalu)، سینٹ لوشیا Saint Lucia) (، سینٹ وینسنٹ اینڈ دی گرینڈائنس (Saint Vincent and the Grenadines) بیلیز (Belize)، اینٹیگا اینڈ باربوڈا (Antigua and Barbuda) اور سینٹ کیٹس اینڈ نیوس (Saint Kitts and Nevis) شامل ہیں۔

اسکاٹ لینڈ کے چند قابلِ ذکر پاکستانی

2011 کی مردم شماری کے مطابق اسکاٹ لینڈ میں تقریباً 77 ہزار مسلمان بستے ہیں۔ ان میں پاکستانیوں کی تعداد 30 ہزار سے زیادہ ہے اور ان کی اکثریت اسکاٹ لینڈ کے سب سے بڑے شہر، گلاسگو میں مقیم ہے۔ یہ لگ بھگ 20 ہزار ہیں۔

٭ برٹش لیبر پارٹی سے وابستہ انس سرور کے والد چوہدری محمد سرور پاکستان میں پنجاب کے گورنر کے عہدے پر فائز ہیں۔ برطانیہ میں قیام کے دوران چوہدری سرور گلاسگو سے تین بار برطانوی پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے اور 2011 کے انتخابات میں انہی کی نشست پر ان کے بیٹے انس سرور نے کام یابی حاصل کی۔ انس کی پیدائش اسکاٹ لینڈ کی ہے، جب کہ ان کے والد پنجاب کے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھتے ہیں۔

٭ بشیر مان کا تعلق پاکستان کے شہر گوجرانوالا سے ہے۔ مان نامی ایک گاؤں سے برطانیہ جانے والے بشیر مان کو آج اسکاٹ لینڈ میں سیاست داں، بزنس مین، سماجی کارکن اور لکھاری کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ 1970میں انہیں مقامی حکومت کے انتخابات میں کام یاب ہونے پر ’گلاسگو کارپوریشن‘ کے تحت شہر کے ایک وارڈ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

٭ عامرانور کے اجداد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ وہ 1986 میں انگلینڈ سے اسکاٹ لینڈ منتقل ہوئے اور یہاں طلبہ سیاست سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ اسکاٹ لینڈ آنے کا مقصد انجینئرنگ کی تعلیم کا حصول تھا، لیکن اسے ادھورا چھوڑدیا اور سوشل سائنسز کے مضامین میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد قانون کی تعلیم مکمل کی اور وکالت کا پیشہ اپنایا اور آج انہیں نام ور وکلا میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ اسکاٹ لینڈ میں مساوات اور انصاف کی فراہمی کے لیے سرگرم ہیں۔

٭ حمزہ یوسف بھی اسکاٹش نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست میں سرگرم ہیں اور 2011 میں انہیں پارلیمنٹ کا رکن منتخب کیا گیا ہے۔

ان کے علاوہ اسکاٹ لینڈ میں مختلف شعبوں میں سرگرم شخصیات میں شبانہ اختر بخش کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں مقیم شبانہ بہ طور اداکارہ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن ان کی شناخت کا اہم حوالہ اسکاٹ لینڈ میں عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرمیاں بھی ہیں۔ اسی طرح 1954 میں پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہونے والی امتیاز دھارکر ایک سال کی عمر میں والدین کے ساتھ گلاسگو آگئی تھیں اور آج وہاں شاعرہ اور ڈاکومینٹری فلم میکر کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ لاہور ہی سے تعلق رکھنے والے حسن غنی بھی ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں، لیکن انہیں براڈ کاسٹ جرنل ازم کا تجربہ بھی ہے۔ وہ پاکستان، افغانستان، غزہ، ترکی، مصر اور صومالیہ میں کٹھن حالات میں صحافتی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ ماجد حق اور رانا عمر حسین اسکاٹ لینڈ میں کرکٹر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔

محلِ وقوع

براعظم یورپ کے شمال مغرب میں واقع اسکاٹ لینڈ کی شمالی سرحد انگلینڈ سے ملتی ہے، جب کہ تین اطراف سے یہ بحرِاوقیانوس سے گھرا ہوا ہے۔ یہ جزیرہ نما 78,387 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ 790 دیگر چھوٹے جزائر بھی اسکاٹ لینڈ کا حصّہ ہیں۔ اسکاٹ لینڈ کا دارالحکومت اور دوسرا بڑا شہر ایڈن برگ ہے۔ اسے یورپ میں ایک اہم تجارتی مرکز مانا جاتا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا شہر گلاسگو ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے بالائی علاقے اور جزائر شمال اور مغرب میں واقع ہیں اور یہ زیادہ تر پہاڑی علاقے ہیں۔ وسطی نشیبی علاقوں کو معاشی اعتبار سے اہم قرار دیا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں لوہے اور کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ جنوبی بالائی علاقے میں 200 کلومیٹر طویل پہاڑی سلسلہ ہے اور یہ خوب صورت وادیوں پر مشتمل ہے۔n

اسکاٹ لینڈ کے وسائل اور معیشت

اسکاٹ لینڈ کی تجارت یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک سے جڑی ہوئی ہے۔ ایڈن برگ کو معاشی سرگرمیوں میں اہم کردار کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ بحری جہازوں کی تیاری، کوئلے کی صنعت اور فولادسازی کے علاوہ تیل کے ذخائر سے بھی اس جزیرہ نما نے اپنی معیشت کو مضبوط بنایا، لیکن گذشتہ کئی سال سے اسکاٹ لینڈ مختلف مصنوعات کی تیاری کے میدان میں سرگرم ہے۔ 2005 میں اس کی برآمدات کا 70 فی صد انہی مصنوعات کا حاصل تھا۔ اس کے علاوہ اسکاٹ لینڈ قدرتی وسائل، جیسے گیس، تیل، زنک، کوئلے کے ذخائر سے بھی فائدہ اٹھارہا ہے۔ تیل کے ذخائر کے اعتبار سے اسکاٹ لینڈ یورپی یونین میں الگ پہچان رکھتا ہے اور اس کا تیسرا بڑا شہر ایبرڈین یورپ میں ’تیل کا مرکز‘ کہلاتا ہے۔

اس کے شمالی سمندر میں تیل کے ذخائر برطانیہ کے لیے نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔اس کے ساتھ پچھلے چند سال کے دوران ٹیکسٹائل انڈسٹری، کمپیوٹر سافٹ ویئرز، برقی آلات کی تیاری کے علاوہ بینکاری، انشورنس، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں میں خدمات کی فراہمی پر توجہ دیتے ہوئے اسکاٹ لینڈ نے اپنی معیشت کا حجم بڑھانے میں کام یابی حاصل کی ہے۔ اس جزیرہ نما کے مختلف علاقے پھلوں کے علاوہ سی فوڈ کی برآمدات سے معیشت کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ توانائی کے مختلف شعبوں میں بھی اسکاٹ لینڈ کی خدمات یورپ میں اہمیت رکھتی ہیں۔

انگلینڈ کے ساتھ کاروبار کے علاوہ یورپ کی مارکیٹ اسکاٹ لینڈ کے لیے اہم ہے۔ امریکا، ہالینڈ، جرمنی، فرانس اور اسپین جیسے اہم ممالک اس کی برآمدات کا مرکز ہیں۔ سیاحت کا شعبہ بھی اسکاٹ لینڈ کی معیشت میں اہمیت اختیار کرچکا ہے اور یہ ملک اس شعبے سے معاشی ترقی ممکن بنا رہا ہے۔ یہاں کے پانچ ہوائی اڈّے بین الاقوامی آپریشن سے ملکی آمدن کا باعث بن رہے ہیں۔ ان ہوائی اڈّوں سے 150ممالک کے لیے فضائی سفر کی سہولت دی جاتی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے 340 ریلوے اسٹیشنز سے سالانہ چھے کروڑ 20 لاکھ مسافر سفر کرتے ہیں اور ریاست کو مالی نفع پہنچاتے ہیں۔


نہیں! ریفرنڈم میں اسکاٹش عوام نے برطانیہ سے علیحدگی رد کردی

$
0
0

بے یقینی کی کیفیت، اضطراب، ’ہاں‘ اور ’نہیں‘ کی کشمکش نے چند گھنٹوں بعد ہی دم توڑ دیا، لیکن اس دوران تین صدی پرانا تعلق شدید کرب سے گزرا ہو گا۔ عوامی ریفرنڈم کے وہ چند گھنٹے برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کا اتحاد ختم کرسکتے تھے، لیکن ایسا ’نہیں‘ ہوا۔

برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کا سوال لیے 18 ستمبر کا ریفرنڈم نتیجے کے اعتبار سے اسکاٹش نیشنل پارٹی کی امنگوں کے خلاف رہا۔ اسکاٹ لینڈ کی 32 کونسلز میں ہونے والے اس ریفرنڈم میں اتحاد کے حق میں 55 فی صد ووٹ پڑے، جب کہ 45 فی صد نے علیحدگی کی خواہش ظاہر کی۔ تمام کونسلوں کے نتائج کے مطابق20 لاکھ ایک ہزار 926  ووٹرز نے اس سوال پر ’نہیں‘ جب کہ 16 لاکھ 17 ہزار 989 نے ’ہاں‘ کی۔

مکمل خودمختاری کی مہم کے سربراہ اسکاٹش نیشنل پارٹی کے ایلیکس سلمنڈ تھے، جب کہ اتحاد کی حمایت میں برطانوی وزیرِاعظم اور برٹش لیبر پارٹی کے ایلسٹر ڈارلنگ سرگرم رہے۔ ایلیکس سلمنڈ کی جماعت اسکاٹ لینڈ کی حکم راں بھی ہے، اور وہ ملک کے وزیرِاعلیٰ تھے، لیکن ریفرنڈم کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔

ریفرنڈم کے نتائج کے بعد انہوں نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے برطانیہ سے اپنے ملک کو وعدوں کے مطابق مزید اختیارات دینے کا مطالبہ کیا، جب کہ برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے عوام کو اختیارات کی منتقلی کا یقین دلایا۔ وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کی ہدایت پر ٹیکس، اخراجات اور حکومت کی جانب سے غرباء کی مالی امداد کے مختلف شعبوں میں اسکاٹ لینڈ کو اختیارات کی منتقلی کا آغاز کیا جارہا ہے، جب کہ 25 جنوری 2015 تک ’اسکاٹ لینڈ ایکٹ‘ کے نام سے مجوزہ قوانین کا ایک مسودہ برطانیہ کے دارالعلوم میں بحث اور منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

اس ریفرنڈم میں اسکاٹ لینڈ میں مقیم 16سال اور زاید عمر کے شہریوں کو براہ راست فیصلہ دینے کا حق دیا گیا تھا۔ ووٹرز کے لیے ضروری تھا کہ وہ برطانوی یا یورپی یونین کے ممبر، یا دولتِ مشترکہ کے شہری ہوں اور انہیں برطانیہ میں داخلے اور رہائش کی اجازت حاصل ہو۔ اس کے علاوہ بیرونِ ملک مقیم رجسٹرڈ ووٹر بھی اس ریفرنڈم کا حصّہ بن سکتے تھے۔ ریفرنڈم میں 42 لاکھ  85 ہزار 323 ووٹرز نے حصّہ لیا اور 2608 پولنگ اسٹیشنز پر ووٹ ڈالے گئے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اسکاٹ لینڈ کی آبادی 52 لاکھ سے زیادہ ہے۔

ریفرنڈم سے قبل متحدہ برطانیہ کے حق میں عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون اور برطانیہ کی اہم سیاسی جماعتوں کا عہدنامہ بھی سامنے آیا تھا۔ تین سیاسی جماعتوں، کنزرویٹیو، لیبر اور لبرل ڈیموکریٹس کے سربراہان نے علیحدہ نہ ہونے کا فیصلہ دینے پر اسکاٹ لینڈ کو مزید اختیارات دینے کا وعدہ کرتے ہوئے دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ اس عہد نامے میں اسکاٹ لینڈ کی پارلیمان کو ’وسیع اختیارات‘ طے شدہ وقت پر دینے کا وعدہ سرِفہرست تھا۔

یہ بھی کہا گیا کہ اس کا فیصلہ تینوں سیاسی جماعتوں کے سربراہان کریں گے۔ دوسرے حصّے میں کہا گیا کہ تینوں سربراہان نے اتفاق کیا ہے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے ہی برطانیہ سب کے لیے مواقع اور سیکیوریٹی فراہم کرنے کو یقینی بناسکتا ہے۔ تیسرے حصے میں کہا گیا کہ ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کی فنڈنگ کے بارے میں اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ کا کُلی اختیار حاصل ہوگا اور وہ فنڈز اکٹھے کرنے میں آزاد ہوگی۔

اسکاٹ لینڈ ایک نیم خودمختار علاقہ ہے، جس کی پارلیمنٹ کے اختیارات محدود ہیں۔ خود مختاری کے حامی اور اسکاٹش نیشنل پارٹی، برطانیہ سے علیحدگی کو اسکاٹ لینڈ کی ترقی اور خوش حالی کا واحد راستہ قرار دیتے ہیں۔ اسکاٹش نیشنل پارٹی نے 2011 کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کی اور ریفرنڈم کا انعقاد ممکن بنایا۔ اس سے قبل 2007 کے الیکشن میں یہ جماعت واضح برتری حاصل نہیں کرسکی تھی۔ برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کا الحاق 1707 میں ہوا تھا، جس کے تین سو برس بعد اختیارات کی تقسیم کا مطالبہ سامنے آیا۔

یہ 11 ستمبر 1997 کی بات ہے، جب عوام نے اختیارات کی تقسیم کے حق میں ووٹ دیا اور اسکاٹش پارلیمنٹ قائم ہوئی۔ برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کی حکومتوں کے مابین مختلف امور پر اختلافات ہیں۔ ان میں قدرتی وسائل اور کرنسی کا معاملہ کچھ عرصے سے سرِفہرست ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے شمالی سمندر میں تیل اور گیس کے بڑے ذخائر کو علیحدگی کی خواہش کی بڑی وجہ قرار دیا جارہا ہے۔ شمالی بحیرہ کے مشرقی ساحل کو تیل کی ترسیل کا مرکز مانا جاتا ہے اور نوّے فی صد ذخائر اسی جگہ ہیں۔ علیحدگی کی صورت میں یہ اسکاٹ لینڈ کی ملکیت ہوتا۔ اسکاٹش وزیراعلیٰ ایلیکس سلمنڈ تیل کی دولت کو ترقی کا ضامن بتاکر علیحدگی کے لیے عوام کو قائل کرتے رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ زرِ مبادلہ کے سالانہ ایک ارب پاؤنڈ کی بچت کرنے سے ایک نسل کے بعد یہی ذخیرہ 30 ارب پاؤنڈ کا ہوجائے گا۔ اسکاٹ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس علاقے میں 24 ارب بیرل تیل موجود ہے، جب کہ برطانوی حکومت 15 ارب کے لگ بھگ کہتی ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے کہا تھا کہ شمالی سمندر کے ذخائر برطانیہ کی ترقی کا ذریعہ رہے ہیں، لیکن اب یہاں سے تیل اور گیس کا حصول نہایت مشکل ہو گیا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس صنعت کا انتظام متحدہ برطانیہ سنبھالے رہے۔ اسکاٹش حکومت غذائی اجناس اور مشروبات، قدرتی توانائی، آبی وسائل اور برآمدات کی سالانہ آمدنی میں زیادہ حصّہ چاہتی ہے۔

اسکاٹش پارلیمنٹ اور اس کے اختیارات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ پارلیمنٹ ’تفویض شدہ امور‘ سے متعلق قوانین وضع کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ان میں زراعت، دیوانی اور فوج داری امور، انصاف، نظامِ تعلیم، صحت اور ماحول، آبادکاری، مقامی حکومت، کھیل اور فنون کے علاوہ ذرایع نقل و حمل شامل ہیں۔ دوسری طرف اسکاٹ لینڈ کے بعض امور، جن کے اثرات برطانیہ یا عالمی سطح پر مرتب ہو سکتے ہیں، کا اختیار برطانوی پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ ان میں امورِخارجہ، دفاع، امیگریشن اور سماجی تحفظ کے قوانین شامل ہیں۔

اسکاٹش پارلیمنٹ 129 منتخب نمائندوں پر مشتمل ہے۔ یہ پارلیمنٹ اسکاٹ لینڈ سے متعلق مختلف نوعیت کے مقامی امور پر کسی قانون کی منظوری دے سکتی ہے اور آمدنی ٹیکس کی بنیادی شرح میں مخصوص اضافہ یا تخفیف کرسکتی ہے۔ اسکاٹ لینڈ ایکٹ 2012، اسکاٹش پارلیمنٹ کو ٹیکس کے نفاذ کا اضافی اختیار دیتا ہے، لیکن اس کا اطلاق 2016 سے پہلے نہیں ہوسکتا۔

اسکاٹش حکومت، اسکاٹش پارلیمنٹ سے مختلف ایک تنظیم ہے اور اس کی حیثیت اور فرائض الگ الگ ہیں۔ پارلیمنٹ تفویض شدہ امور پر قانون ساز مجلس ہے اور حکومت کے کام کی چھان بین اور نگرانی کرتی ہے جب کہ حکومت تفویض شدہ امور پر پالیسی وضع کرنے اور اس کے نفاذ کی ذمہ دار ہے۔

اس اتحاد کے حق میں عوام کا فیصلہ آنے کے بعد جہاں برطانیہ میں جشن منایا گیا، وہیں موجودہ حکومت اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرنے کی تیاریاں اور اسکاٹ لینڈ کی حکومت کے مطالبات پر بھی غور کررہی ہے۔ اس کا مقصد متحدہ بادشاہت کا مستقبل محفوظ بنانا ہے۔

یورپ اور دنیا کے مختلف خطوں میں علیحدگی پسند تحریکیں

یورپ کے مختلف ممالک میں علیحدگی کی تحریکیں جاری ہیں۔ ان خطوں کے باسی اختیارات کے ذریعے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے اور ترقی و خوش حالی کا سفر طے کرنے کے خواہش مند ہیں۔ بیلجیئم، اسپین، جنوبی جرمنی، قبرص، چیک ری پبلک، فن لینڈ، پولینڈ، پرتگال اور سویڈن کے لیے اس ضمن میں مشکلات سر اٹھارہی ہیں۔ یہاں ہم دنیا کے اُن چند علاقوں کا ذکر کررہے ہیں، جو مرکزی حکومت سے آزادی اور خود مختاری چاہتے ہیں۔

٭ کیٹالونیا

کیٹالونیا اسپین کے زیرانتظام 17خود مختار آبادیوں میں سے ایک ہے۔ کیٹالونیا چار صوبوں بارسلونا، گرونا، للیڈا اور ٹیراگونا پر مشتمل ہے۔ اس کا دارالحکومت بارسلونا یورپ کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ 32114 مربع کلومیٹر پر محیط کیٹالونیا اسپین کے زیرانتظام سب سے تیزی سے کرتا ہوا خودمختار علاقہ ہے۔ 1975 سے 1982 کے دوران، جب کہ اسپین بادشاہت سے جمہوری طرزحکومت اختیار کررہا تھا، کیٹالونیا نے خودمختاری حاصل کی ترقی کی منازل طے کیں۔ کیٹالونیا کا نیم آزاد علاقہ اسپین کے تسلط سے نکل کر ریاست کے طور پر دنیا سے جڑنا چاہتا ہے اور وہاں کی حکومت نومبر میں اس سلسلے میں ریفرنڈم کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ گذشتہ تین برسوں سے کیٹالونیا میں شہریوں کے اسپین سے آزادی کے مطالبے میں شدت آئی ہے۔

٭ کیوبک

1995 میں کیوبک میں کینیڈا سے علیحدگی کے لیے پندرہ برسوں کے دوران دوسری بار ریفرنڈم ہوا ۔ اس سے قبل 1980 میں منعقدہ ریفرنڈم کے دوران شہریوں کی اکثریت نے علیحدگی کو مسترد کردیا تھا۔ تاہم دوسرے ریفرنڈم میں علیحدگی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان فاصلہ بہت کم تھا۔ 2006 میں کینیڈا کی پارلیمان نے کیوبک کے شہریوں کو ’متحدہ کینیڈا کے اندر ایک قوم‘ کے طور پر تسلیم کیا تھا۔

٭ فلینڈرز

بیلجیئم میں آزادی کی کئی تحریکیں چل رہی ہیں۔ جغرافیائی اور ثقافتی اعتبار سے بیلجیئم کو تین علاقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور ہر علاقہ اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔ ’’فلیمش ریجن‘‘ میں رہنے والی کمیونٹی ’’ فلینڈرز‘‘ کہلاتی ہے جس کی زبان فرانسیسی ہے۔ ملکی آبادی میں ان کا تناسب 59 فی صد ہے۔ دوسرا بڑا علاقہ ویلون آبادی کا ہے جس کی مادری زبان ڈچ ہے۔ آبادی میں ان کا تناسب 41 فی صد ہے۔ ان کے علاوہ بہت کم تعداد میں جرمن بولنے والے بھی ہیں۔ اس طرح یہ ملک لسانی بنیادوں پر تین حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ شمالی حصہ ویلون جب کہ جنوبی حصہ فلینڈرز پر مشتمل ہے، اور ان کے درمیان جرمن بولنے والے رہتے ہیں۔

٭ موراویا

یہ چیک ری پبلک کا نیم خودمختار علاقہ ہے۔ موراویا کے عوام کی جانب سے مرکزی حکومت پر آزادی کے لیے دباؤ ہے۔ یہاں آزادی کے لیے سیاسی جدوجہد جاری ہے اور اس علاقے کے عوام خود کو لسانی، ثقافتی اعتبار سے ایک قوم مانتے ہیں اور مرکزی حکومت سے مکمل اختیارات کا مطالبہ کررہے ہیں۔

٭ کورسیکا

یہ ایک جزیرہ ہے، جہاں بسنے والے فرانس سے خودمختاری کا مطالبہ کررہے ہیں۔ 1769 سے اس جزیرے پر فرانس کی حکومت ہے۔ یورپ کے دیگر علاقوں کی طرح مکمل آزادی کی جدوجہد کرنے کے بجائے 2003 میں اس جزیرے کے لیے مزید اختیارات کا مطالبہ کیا گیا، جسے مرکزی حکومت نے مسترد کردیا تھا۔

٭ سنکیانگ

چین کو خطے میں تبت کے علاوہ ہانگ کانگ میں بھی علیحدگی پسندوں کا سامنا ہے۔ یہ بیجنگ کا تسلط پسند نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ بھی چین میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، جن میں صوبہ سنکیانگ میں چلنے والی تحریک سب سے اہم ہے۔ یہاں ایغور نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی اکثریت ہے، جو آزادی کے لیے آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ چینی فورسز، علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائی بھی کرتی رہی ہیں۔

٭  کردستان:

کرد عوام برسوں سے آزاد وطن کے لیے بے تاب ہیں، اور اب جب کہ داعش کے خلاف ایک عالمی اتحاد بننے جارہا ہے تو ان کے پاس شمالی عراق میں زیادہ سے زیادہ خودمختاری حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ کرد آبادی صدام حسین کے دورحکومت میں مشکلات کا شکار رہی۔ علاوہ ازیں شام، ترکی اور ایران میں بھی مصائب ان کا پیچھا کرتے رہے۔ کردوں کی اکثریت اپنا الگ وطن چاہتی ہے، جہاں وہ مکمل مذہبی، ثقافتی آزادی کے ساتھ ترقی کا سفر طے کرسکیں۔

خونی چاندوں کی نمود، صہیونیوں کا پانچ صدیوں سے انتظار

$
0
0

اسلام آباد: سالِ رواں کے آغاز میں جب ماہرین فلکیات نے پیش گوئی کی کہ 15 اپریل سے آسمان پرسرخ چاند گرہن کا آغاز ہونے والا ہے تو ساتھ ہی کار پوریٹ عالمی میڈیا میں نجوم کے ماہرین کے بیانات بھی آنے لگے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کا گرہن اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب زمیں، سورج اور مریخ ایک ہی قطار میں آ جاتے ہیں۔ اس ترتیب کے نتیجے میں چاند کا رنگ خون کی طرح سرخ ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ اس طرح کی خونی رنگت والے چاند کے نظارے کو دنیا کے خاتمے اور حضرت عیسیٰ ؑ  کے ظہور کی نشانی قرار دیتے ہیں لیکن ایسے گرہن کے بعد جب چاند سرخ ہو جاتا ہے تو اہل یہود اس کو دنیا کی بادشاہت حاصل ہونے کی سنہری نوید قرار دیتے ہیں۔ خونی چاند گرہن مکمل چاند گرہن کو کہا جاتا ہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا نے بھی سال 2014 اور 2015 میں ’’بلڈ مون‘‘ کے بارے میں تصدیق کی ہے کہ یہ چاند وقفے وقفے سے چار مرتبہ نمودار ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میںیہودی بادشاہت کی بحث کو بہت ہی غیر محسوس طریقے سے چھیڑ دیا گیا، جس میں اب بہ تدریج گرمی لائی جا رہی ہے۔ رواں سال 15 اپریل کو پہلی بار اور اب 8 اکتوبر کو دوسری بار خونی چاند کا یہ نظارہ آسمان پر دیکھا جا سکے گا۔ اپریل میں یہ منفرد نظارہ ایک ہفتہ تک دیکھا گیا۔ یہ مننظر اُس وقت تک قائم رہا جب تک مریخ اور زمین کے درمیان  فاصلہ نو کروڑ 20 لاکھ میل نہ ہو گیا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ صدیوں کے دوران ایسے خونی چاند گرہن تین بار وقوع پذیر ہو چکے ہیں۔

یہودیوں کی مقدس  کتاب تالمود میں لکھا ہے کہ جب ایسا چاند گرہن لگتا ہے تو وہ بنی اسرائیل کے لئے بُرا شگون ہوتا ہے، دنیا پر تلوار کا سایہ پڑ جاتا ہے مگر ’’یہ ہماری فتح کی نشانی بھی ہے‘‘۔ یہودی بہ ظاہرعلم نجوم پر یقین نہیں رکھتے لیکن دو ہزار سال سے وہ سرخ چاند گرہن کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ وہ سورج اور چاند گرہنوں کے دوران کرۂ ارض کی تبدیلیوں کا مشاہدہ و مطالعہ اپنی مقدس کتابوں کی روشنی میں ضرور کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ ایک سیل قائم کیا گیا ہے، جس کے مطابق ماضی میں جب بھی خونی چاند گرہن ایک ترتیب سے ظاہر ہوئے تو بنی اسرائیل پر ہمیشہ آفت آئی مگر ان کے عقیدے کے مطابق اس آفت میں اُن کی یقینی فتح بھی پوشیدہ رہی ہے، تاریخ میں ایسا متعد بار ہوچکا ہے۔

چاند کا یہ خونی نظارہ ہمیشہ سے یہودیوں کے مذہبی تہواروں کے دوران ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس سے قبل یہ چاند گرہن دو یہودی مذہبی تہواروں کے دوران مسلسل رونما ہوئے، 2014 میں دو بار اور 2015 میں بار دگر دو بار ان ہی دنوں میں رونما ہونے والے ہیں۔ گزشتہ پانچ صدیوں میں تین مرتبہ ایسا ہوا کہ جب کسی ایک سال میں دو خونی چاند گرہن لگے تو اس سے اگلے برس بھی دو ایسے ہی خونی چاند چڑھے۔

پہلی مرتبہ 93-1492 میں جب اسپین کو ملکہ ازابیلا اور فرڈیننڈ نے فتح کیا تو یہودیوں اور مسلمانوں پر افتاد پڑی اور انہیں جبراً  عیسائی بنایا گیا، جو نہیں ہوئے انہیں بہت بڑے پیمانے پر تہِ تیغ کیا گیا اور غلام بنایا گیا۔ یہودیوں کو خاص طور پر ہفتے کے دن کاروبار کرنے اور سُؤر کھانے پر مجبور کیاگیا۔ دوسری بار چار خونی چاند گرہنوں کی سیریز، 50 -1949 میں شروع ہوئی تو اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی اور ڈیوڈ بن گوریاں کی حکومت بنی مگر عرب ممالک نے مل کر اسرائیل پرحملہ کیا۔

تیسری مرتبہ 68 -1967 میں چار سرخ چاند  چڑھے تو عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں اسرائیل کی مدد امریکا نے کی اور یوں دو ہزار سال بعد بیت المقدس (یروشلم) پر یہودیوں کا قبضہ ہو گیا۔ گزشتہ کئی سال سے چار خونی چاند کی سیریزکا انتظار والے اب پھر پراُمید ہیں کہ دنیا پر ان کی باد شاہت قائم ہونے والی ہے۔ یوں سرخ چاندوں کے حوالے سے یہودیوں کا عقیدہ خاصا پیچیدہ ہے، ان چاند گرہنوں کے برسوں میں جہاں انہیں المیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں وہ اسے اپنے مالی استحکام اور اقتدار کے لیے باعثِ برکت بھی قرار دیتے ہیں۔ یہ ان محاوروں کے عین مصداق ہے جن میں ہر غم کے بعد خوشی کی نوید دی جاتی ہے۔

اکیسویں صدی کا پہلا خونی چاند گرہن اپریل 2014 میں لگ چکا ہے۔ اس دوران  اُن کا سات روزہ مشہور تہوار’’ یدش‘‘ جاری تھا۔ اس تہوار پر یہودی اپنی مخصوص روٹی پکاتے ہیں اور اپنے معبد (Cinagog) کے سامنے قربانی بھی دیتے ہیں۔ اب دوسرا خونی چاند  8 اکتوبر 2014 کو چڑھے گا ۔ اس دوران یہودیوں کا مشہور مذہبی دن اسکوٹ آ رہا ہے، جس کے آخر میں یوم کپور آنے والا ہے۔ اس تہوار کو یہودی مصر سے صحرائے سینا میں آمد اور وہاں اپنی چالیس سالہ ’در بہ دری‘ کی یاد کے طور پر مناتے ہیں۔

نئے سال میں تیسرا خونی چاند 4 ۔اپریل 2015 کو طلوع ہو گا اور یہ ’’ یدش‘‘ کے دنوں میں آرہا ہے۔ اس کے بعد چوتھا خونی چاند 28 ستمبر 2015 کو نمودار ہو گا اور یہ اسکوٹ کے دنوں میں آئے گا۔ اس پس منظر میں عالمی منظر نامہ کیا ہو گا ؟ اس پر جہا ں دیگر اقوام سوچ رہی ہیں تو وہیں یہودی بھی یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ  اس دوران اسرائیل کے ساتھ کسی جنگ کا آغاز ہو گا اور اس کے آخر میں فتح اسرائیل کی ہوگی۔ اس وقت جہاں اسرائیل بھر کے معبدوں میں دعاؤں اور دیوار گریہ پر روایتی گریے کا سلسلہ جاری ہے، وہیں دوسری جانب ان کے زیر سایہ کام کرنے والا عالمی میڈیا اس سارے عمل کو Tragedy and then Triumph   کے نام سے یاد کر رہا ہے یعنی پہلے اندوہ پھر کام یابی۔

پہلے دبے دبے لفظوں میں جب میڈیا نے اس یہودی فلسفے کے تحت بات شروع کی کہ اب امریکا اس قابل نہیں رہا کہ دنیا میں امن قائم رکھ سکے لہٰذا اسرائیل کو اب خود آگے بڑھ کر دنیا سے دہشت گردی ختم کرنا ہوگی تو اس پر امریکا، اسرائیل سے وقتی طور پر ناراض بھی ہوا تھا مگر اب یہ سمجھنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوتی کہ اسرائیل نے اکتوبر 2o14 سے بہت ہی پہلے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں پر جو وحشیانہ حملے شروع کیے ، وہ کس لیے اور کیوں  تھے؟ ۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کارروائی مسلمانوں کی بچی کھچی حمیت کو آزمانے کا ٹیسٹ کیس تھا۔ اس ٹیسٹ کیس میں اُن کو بہارِ عرب کے منظر نامے سے جو کام یابی ملی تھی، وہ اُسے بھی رواں سال کے پہلے خونی چاند سے تعبیر کر رہے ہیں۔

پاکستان اور چارخونی چاند

آج یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد سے اہلِ یہود کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں، اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بہار عرب سے داعش تک کی صورت حال کے بعد اُن کا اصل ہدف پاکستان کے وہ ایٹمی اثاثے ہیں، جن کا ذکر معروف کتاب ’’اوباما وار‘‘ میں ہوچکا ہے کہ کس طرح سال 2014-15 کے دوران پاکستان کو ان ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنا ہے۔ اب اسرائیلی اور امریکی میڈیا میں ان آنے والے دنوں کے بارے میں جو عجیب وغریب پیش گوئیاں پیش کی جا رہی ہیں، اُن کے پیچھے کارفرما عوامل کو فوری طور پر سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے ’’اندوہ کے بعد کامیابی‘‘ کے فلسفے پرگذشتہ چار سال سے کام شروع کر رکھا ہے اوربہار عرب اس کا ایک شاخ سانہ ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر پاکستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی، سماجی اقتصادی اور عسکری صورت حال کے پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھ کر بہت کچھ کرنے کی اشد ضرورت ہوگی۔

آگے بڑھنے سے پہلے ہم اگر سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی کے خاص نمبر ’’اسلام اور مغرب‘‘ مورخہ 16 اپریل 1991 میں مولانا مودودی صاحب کا ایک اہم مضمون بہ عنوان ’’یہودیوں کا چوتھا منصوبہ‘‘  کے چند اقتباس پڑھ لیں، توان خدشات کی تفہیم ممکن ہے، جو اب بھی ذہنوں میں اٹھتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں ’’اب درحقیقت جس چیز سے دنیائے اسلام کوخطرہ درپیش ہے، وہ یہودیوں کا چوتھا اور آخری منصوبہ ہے، جس کے لیے وہ دو ہزار سال سے بے تاب ہیں اور جس کی خاطر وہ 90 سال سے باقاعدہ ایک اسکیم کے مطابق کام کرتے رہے ہیں۔

اس منصوبے کے اہم ترین اجزا دو ہیں:  ایک یہ کہ مسجد اقصیٰ اور قبۂ صخرہ کو گرا کر ہیکلِ سلیمانی پھر سے تعمیر کی جائے کیوں کہ اس کی تعمیر ان دونوں مقاماتِ مقدّسہ کو ڈھائے بعیر ممکن نہیں۔ دوسرا یہ کہ اس پورے علاقہ پر قبضہ کیا جائے، جسے اسرائیل اپنی میراث سمجھتا ہے۔ منصوبے کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ میراث کے تصور کے تحت پورے ملک (فلسطین) پر قبضہ کیا جائے۔  میراث کا ملک کیا ہے؟ اسرائیل کی پارلیمنٹ کے سامنے یہ الفاظ لکھے ہیں ’’اے اسرائیل ! تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں‘‘۔

اس منصوبے کی جو تفصیل صہیونی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں دی گئی ہے۔ اس کی رُو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریائے نیل تک مصر، اردن، شام، لبنان کا سارا علاقہ، عراق کا ایک بڑا حصہ، ترکی کا جنوبی علاقہ اور (جگر تھام کر  سُنیے) مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے‘‘۔ مولانا مزید لکھتے ہیں ’’مسجد اقصیٰ اس وقت تک محفوظ نہیں ہوسکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے اور خود بیت المقدس کا علاقہ بھی محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ فلسطین کو یہودیوں کے غاصبانہ تسلّط سے آزاد کرانے کا ہے۔

ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد نہ صرف مسجد اقصیٰ بل کہ مدینہ منورہ کو بھی آنے والے خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی طاقت کو یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقامات کو مستقل طور پر محفوظ کرنے کے لیے مجتمع کیا جائے‘‘۔

مگر مسلم اُمہ کی تازہ ترین صورت حال کی ایک جھلک یہ ہے۔ حال ہی میں امریکا اور مغرب کے میڈیا میں مسڑ ڈیوڈ ڈی کریک پیٹرک کا ایک تجزیاتی مقالہ شائع ہوا ہے، جس کے مطابق ’’حَمّاس اسرائیل سے زیادہ خطرناک اور بدتر تنظیم ہے۔ مصر، متحدہ عرب امارات ، اردن ، کویت وغیرہ سب حماس کو کچلنے کے مشن میں اسرائیل کے حامی ہو چکے ہیں‘‘۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کے حالیہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے سعودی عرب کی حمایت سے مصر نے جو تجاویز پیش کی ہیں، وہ فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیل اور نیتن یاہو کے مقاصد سے ہم آہنگ ہیں۔ مغرب اور امریکی میڈیا میں سعودی عرب کو ایک عرب ملک تو لکھا جارہا ہے لیکن اس کی تکرار اتنی زیادہ ہے کہ اب بچے بچے کی سمجھ میں آرہا ہے کہ یہ کون ملک ہے۔

مغربی میڈیا یہ بھی لکھتا ہے کہ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ایک عرب ملک شام میں جن جہادی تنظیموں کو حربی اور مالی امداد دینے  کے بعد امریکا سے مطالبہ کررہا تھا کہ فضائی حملے سے شام کے حکم رانوںکو پاش پاش کردیاجائے تاکہ جہادی تنظیموں کو غلبہ حاصل ہو، اب محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نے اس ملک کو اس امر کی یقین دہانی کرادی تھی، جس کے عوض اس عرب ملک نے مصر میں الاخوان المسلمون کی منتخب حکومت کو فوج کے ذریعے معزول کرایا اورجنرل السیسی کی مالی اور سیاسی حمایت بھی کی۔ گو کہ یہ امریکا کا ایجنڈا تھا اور اسی کے نتیجے میں بہار عرب، خزاںمیں بدلی تھی‘‘۔

اب صورت حال یہ بھی ہے کہ ایک طرف امریکا اور اسرائیل عربوں کو استعمال کرتے ہیں تو دوسری جانب یہودی اپنے کارپوریٹ میڈیا سے ان کے لیے استعمال ہونے والوں کوسامنے لاکر انہیں ذلیل بھی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلم حکم رانوں کی مسلم اْمّہ کے مسائل سے بے حمیّتی، بے حسّی اور لاتعلقی کو غیر محسوس طریقے سے دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔ مثلاً ’’ یہ حکم ران اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اُسی کفر کی قوتوں کے درپردہ حامی ہیں، جن کو یہ بہ ظاہر بُرا بھلا کہتے ہیں‘‘۔

اگست 2014  کے وسط میں سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ نے ایک فتویٰ دیا، جو میڈیا میں بھی رپورٹ ہوا ۔ اس کی رو سے مفتیٔ اعظم نے جن تین تنظیموں کو دہشت گرد اور اسلام دشمن قرار دیا، اُن کے نام داعش، القاعدہ اور النصر فرنٹ ہیں۔ داعش مخفَّف ہے ’’دولت اسلامیۂ عراق وشام‘‘ کا۔ عالمی پریس اس کو Islamic State of Iraq and Syria  (ISIS) کہتا ہے۔ دراصل یہ خلافتِ اسلامیہ کااعلان ہے۔ اس فتوے کو عالم اسلام میں سراہا گیا لیکن درپردہ ان تنظیموں کی امداد کے عمل پر تشویش بھی ظاہر کی جا رہی ہے۔

اب ان تنظیموں کی اسرائیل سمیت بہت سے دیگر مسلم ممالک کی درپردہ حمایت نے عام مسلمانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ یہ پریشانی ایک اشتعال کی صورت میں سامنے آرہی ہے اور انتقام کے جذبات پیدا کر رہی ہے۔ ایسے میں ان مشتعل جذبات کو مزید ابھار کر ان تنظیموں کے منتظمین عوام کو مشتعل کر کے آج بھی اپنی جانب مائل کررہے ہیں۔ ایسے میں اگر اسرائیل چار خونی چاند کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اپنے کسی خفیہ منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیتا ہے تو اب وہ مسلمان، جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آرہے ہیں، کس طرح ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں گے؟

خبرِ وحشت اثر کچھ یوں بھی ہے کہ یہودی لابی ایک منظم سازش کے تحت حرمین الشریفین کے گرد 31 اڈے قائم کرچکی ہے۔ دوسری خطرناک سازش یہ ہے کہ انہیں بحیرۂ احمر (Red Sea) پر قبضہ کرنا ہے، اس لیے کہ بحیرۂ احمر کے مشرقی کنارے پر اسلام کے دونوں مراکز مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ واقع ہیں۔ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ بادشاہ ابرہہ نے بحیرۂ احمر ہی عبور کرکے بیت اللہ کو منہدم کرنے کی ناپاک کوشش کی تھی، جسے ہمیشہ کے لیے ذلت و عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔

حدیث شریف میں ہے کہ قیامت سے پہلے حبشہ سے جو کافر بیت اللہ پر حملہ آور ہوں گے، وہ بھی بحیرۂ احمر سے گزر کر آئیں گے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی بحریہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ ’’ہم ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں بحیرۂ احمر ہمارے زیرِ نگیں آجائے گا، تب اس کا نام بحرِ یہود یا بحر ِاسرائیل رکھ دیا جائے گا۔‘‘ یہودیوں کے یہ تمام منصوبے اور سازشیں اسی منظم سازش کا حصہ ہیں جو وہ مکہ اور مدینہ کے خلاف کر رہے ہیں۔ وہ قبلۂ اول کے بعد اب قبلۂ آخر کے خلاف خطرناک سازشوں میں مصروف ہیں۔

اس پس منظر میں اگر ہم پاکستان کی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھیں تو وہ سیاسی عدم استحکام کے خاتمے اورعسکری مضبوطی کی متقاضی ہے۔ یہ دونوں اہداف اُس وقت تک حاصل کرنا ممکن نہیں جب تک ملک کے سیاسی رہ نما ؤں اور فوج کے درمیان مکمل ہم آہنگی پیدا نہیں ہو جاتی۔ نائین الیون سے لے کر نواز شریف کی تیسری وزارتِ عطمیٰ تک کے عرصے کا اگر غیرجانب دار ی سے تجزیہ کیا جائے تو پاکستان میں سیاسی سطح پر انتشار میں اضافہ قابل تشویش ہے۔

ملک میں معاشی اور سماجی سطح پر ابتری کی داستان اس کے علاوہ ہے۔ غیر جانب دار تجزیہ تو یہ بھی کہتا ہے کہ اس مجموعی صورت حال کی وجوہات میں بیرونی عوامل سے زیادہ ملک کے اندر کرپشن اور میرٹ کی خلاف ورزی سب سے زیادہ اہم ہے ۔ گروہ بندیوں، ذاتی مفاد اور ہر سطح پر لوٹ کھسوٹ نے اس مجموعی صورت حال کو گود لے رکھا ہے اور اس ’’گود بھرائی‘‘ کی رسم کو ہمارے حکم رانوں نے مکمل تحفظ دیا ہوا ہے۔

دیوارِ گریہ

یہ مقام دنیا کے قدیم شہر یروشلم یا یروشلیم (بیت المقدس) میں واقع یہودیوں کی ایک اہم یادگار ہے، جس کے سامنے رونا گڑگڑانا اہل یہود کا ایک اہم مذہبی فریضہ ہے۔ اُن کے مطابق یہ مقام جو دراصل ایک دیوار ہے، تباہ شدہ ہیکل سلیمانی کا بچ جانے والا حصہ ہے۔ یہ یہودیوں کے لیے انتہائی اہم زیارت ہے۔ دو ہزار سال قبل بھی یہودی اس دیوار کے سامنے کھڑے ہو کر رویا گڑگڑایا کرتے تھے، اسی لیے اس کا نام دیوار گریہ پڑ گیا، جب کہ مسلمان اس کو ’’دیوارِ براق‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس دیوار کے قریب ہی یہودیوں کا ایک اور مقدس ترین عبادت گاہ ہے۔ اسے بنیادی پتھر بھی کہا جاتا ہے۔

متعدد یہودی ربیوں کے مطابق اس مقدس پتھر کے اوپر کوئی یہودی پائوں نہیں رکھ سکتا، جو  ایسا کرتا ہے وہ عذاب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہودیوں کے عقیدے کے مطابق یہ پتھر دیوارِ گریہ کے بالکل مخالف سمت میں واقع الکاس آب شار کے نزدیک ہے۔ یہودی روایات کے مطابق دیوارِ گریہ کی تعمیر حضرت داؤد علیہ السلام نے کی اور موجودہ دیوارِ گریہ اْسی دیوار کی بنیادوں پر قائم ہے، جس کی تاریخ ہیکلِ سلیمانی سے جاملتی ہے لیکن مسلمان اس دیوار کو مسجد اقصٰی کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ دراصل مسلمان اس دیوار کو یوں مقدس سمجھتے ہیں کہ اس دیوار کو واقعۂ معراج سے نسبت ہے، معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا براق اسی مقام پرآ کر رْکا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں نہ صرف تمام شکست خوردہ عیسائیوں کو عام معافی دے دی گئی تھی بل کہ یہودیوں کو بھی برابری کے حقوق دیے گئے تھے، قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا اور ہیکل سلیمانی کی مغربی دیوار سمیت تمام علاقوں کو مقدس قرار دیا گیا تھا۔ مغربی دیوار کو مضبوط کیا گیا اور تمام انتظامات یہودیوں کو سونپ دے گئے۔ یہودی آج تک اس دیوار کو ہاتھ لگا کر گڑگڑاتے ہیں اور روتے پیٹتے ہیں، توبہ اور معافی طلب کرتے ہیں۔ مغربی دیوار کا تازہ ترین سروے یہ بتاتا ہے کہ دیوار مضبوط اور توانا ہے، اس  کی دیکھ بھال اب یہودی خود کرتے ہیں۔ اب یہ ہی دیوار ان کا قبلہ ہے لیکن وہ ہیکل سلیمانی کی مکمل و مستحکم تعمیر کے خواہاںہیں۔

آج کل اس دیوار پر  دُعاؤں اور حاجات کے پوسٹر چسپاں کرنے کے کا نیا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ یہودیوں نے فیس بْک کے ذریعے آن لائن دعائیہ پیغامات کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق یہودیوں کا دیوار گریہ کے لیے دعائیں  وصول کرنے کا طریقہ  یہ ہے کہ کاغذ پر اپنی حاجات اور دعائیں لکھ کر دیوار پر چسپاں کر دیاجاتا ہے۔ فیس بک پر یہودیوں نے ایک مخصوص صفحہ تخلیق کیا ہے، جس میں یہودی صارفین کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اسرائیل کے اندر ہوں یا باہر، اپنی دعا فیس بک پر درج کرائیں۔

یہودی رضاکار اس صفحے سے خود ان حاجات کے پرنٹ حاصل کر کے دیوار پر چسپاں کریں گے۔ یہ کام ایک یہودی تنظیم ’’یوتھ فار جیروسیلم‘‘ کے زیر اہتمام کیا جا رہا ہے۔ تنظیم پوری دنیا بالخصوص اسرائیل سے یہودی نوجوانوں کو بیت المقدس کے ساتھ وابستہ رکھنے کے لیے سرگرم ہو چکے ہیں۔ فیس بک کے ذریعے دیوار گریہ تک یہودیوں کے پیغامات کی رسائی بھی اسی تنظیم کے منصوبوں کا ایک حصہ ہے۔ فیس بک پر صہیونی تنظیم کی ترغیب پر بڑے پیمانے پر یہودیوں نے اپنی دعائیہ حاجات تحریر کی ہیں۔ اس صفحے کے پس منظر میں دیوار کی تصویریں مختلف زاویوں سے دکھائی گئی ہیں۔ بعض یہودیوں کا خیال ہے کہ دیوار پر چسپاں کی گئی وہی دعا  قبول ہوگی جو ہاتھ سے لکھی ہو گی جب کہ بعض روشن خیال صہیونی کمپیوٹر پرنٹ کو بھی جائز قرار دیتے ہیں۔

صہیونیت

صہیونیت ایک ایسی تحریک کا نام ہے جس کا مقصد یہودی قوم کی تعمیر نو ہے۔ صہیون یا زائن (Zion)  بیت المقدس (یروشلم) کا ایک حصہ ہے۔ انجیل میں اسے حضرت داؤد کا شہر کہا گیا ہے، جس کو یہودی حیات نو اور اسرائیلی حکومت کا نشان سمجھتے ہیں۔ صدیوں پہلے جب رومن سلطنت نے یہودیوں کی بادشاہت کا خاتمہ کیا اور یہودیوں کو جلاوطن کردیا تو وہ اس وقت سے  فلسطین واپس لوٹنے اور اپنی ریاست کو پھر سے قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ صدیوں سے انہوں نے یہ خواب اپنے دل میں چھپا رکھا ہے ۔ اس عرصہ میں وہ جہاں بھی گئے اور جہاں بھی رہے، انہوں نے ہر جگہ اپنے مذہب اور اپنی الگ پہچان کو برقرار رکھا۔

یورپ میں جب صنعتی انقلاب شروع ہوا تو وہ اپنے خول سے باہر نکلے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں وہ ایک حکمت عملی کے تحت اپنے آپ کو بہت حد تک دوسری اقوام  کے قریب لانے میں کام یاب ہوئے لیکن  یہودیوں نے اپنے وطن کا خواب ترک نہ کیا۔ معاشی سطح پر مضبوط ہونے کے بعد جب وہ یہ کہنے لگے کہ چوںکہ وہ ایک الگ قوم ہیں اس لیے ان کے واسطے ایک علیحدہ وطن ضروری ہے، تو اُس پر کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا مگر مشرقی یورپ کے یہودی اپنی پرانی ضد پر قائم رہے، وہ کہتے تھے کہ ان کا وطن فلسطین ہی ہو گا اور یوں دنیا میں ایک نئے فساد کا آغاز ہوگیا ۔

شروع میں صہیونیت کی تحریک سیاسی نہیں تھی بل کہ محض تہذیبی  تھی لیکن جب تھیوڈور ہرزلی نے پہلی مرتبہ باقاعدہ تجویز پیش کی کہ اقوام عالم کی یہود دشمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک یہودی ریاست کا قیام ضروری ہے تو اُس کے بعد صہیونیت کے اہداف بدل گئے۔ چناں چہ 1897 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر بیل میں پہلی صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی اور یوں اس کی شاخیں اُن ملکوں میں قائم کی گئیں، جہاں یہودی کافی تعداد میں پہلے سے موجود تھے۔ ان سرگرمیوں میں امریکا کے یہودیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

اس تحریک میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی جب انگلستان کے یہودیوں نے 1905 کی کانفرنس میں یہ تجویز پیش کی کہ لازمی نہیں کہ یہودیوں کا وطن فلسطین ہی ہو، یہ کہیں اور بھی ہوسکتا ہے۔ برطانیہ کی طرف سے اس کے لیے یوگنڈا (مشرقی افریقہ) کا علاقہ پیش کیا گیا لیکن اکثریت نے یہ تجویز رد کردی۔ یوں اکثریت کے رہ نما ویزمان کی سرکردگی میں یہ تحریک منظم  رہی۔ ویزمان نے خلافت عثمانیہ (ترکی کے سلطان) سے فلسطین میں یہودیوں کے لیے کچھ حقوق حاصل کر لیے تو اس کے بعد اُن کے حوصلے بڑھے۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی، اتحادیوں کے خلاف جرمنی کا حلیف تھا۔

اس وقت بالفور برطانیہ کا وزیر خارجہ تھا اور وہ برطانوی سیاست میں با اثر بھی تھا چناں چہ اس نے ایک اعلان نامہ جاری کیا، جس میں اس بات کا عہد کیا گیا کہ یہودیوں کی بھرپور مدد کی جائے گی کہ وہ اپنا وطن فلسطین میں قائم کرسکیں۔ پہلی جنگ عظیم میں جب جرمنی کے ساتھ ترکی کو  بھی شکست ہوئی تو مشرق کا بڑا علاقہ فرانس اور انگلستان نے آپس میں بانٹ لیا۔ فلسطین پر انگریز قابض ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں یہودیوں نے فلسطین میں رہائشیں اختیار کرنا شروع کر دی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد صہیونیت کی تحریک نے مزید زور پکڑا اور برطانیہ کی مدد سے اسرائیل کی ریاست قائم ہوگئی۔

اس کے بعد اس تحریک نے اسرائیل سے بہ ظاہر اپنے آپ کو الگ کرلیا لیکن در پردہ اس تحریک کا تمام دنیا کے یہودیوں سے تعلق قائم رہا،جو اب تک ہے۔ اب بھی یہ تنظیم ساری دنیا کے یہودیوں کی تہذیبی و تعلیمی سرگرمیوں کو منظم کرنے اور دوسرے ملکوں سے یہودیوں کو اسرائیل بھیجنے کا انتظام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ اسرائیل کے حق میں امریکا اور یورپی ملکوں میں اپنے نظریات کے پرچار کو منظم اور مالی امداد بھی جمع کرتی ہے۔ اس کا ایک بڑا مقصد اسرائیلی ریاست کو اتنا وسیع کرنا ہے، جس میں ساری دنیا کے یہودی آکر بس سکیں۔ اس توسیع پسندی کے نتیجہ میں اب تک فلسطین کے لاکھوں عرب بے وطن ہوچکے ہیں اور آج فلسطین اہم ترین عالمی مسئلہ بنا ہوا ہے۔

مشرقی یورپ میں صہیونیت کے فروغ نے خاص طور پراس قضیے  میںاہم کردار ادا کیا تھا، جسے یہودیوں کی سیاسی اصطلاح میں ’’مسئلۂ یہود‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح روس میں یہودیوں کے خلاف ایکشن نے بھی صہیونی تحریک کے برپا ہونے میں ا ہم کردار ادا کیا۔ امریکا اور یورپ میں یہودیوں کا بڑھتا ہوا اثر ونفوذ اور دوسری طرف یہوودیوں میں ’’تحریک تنویر‘‘ (عقائد میں ایسی لچک پیدا کرنا جو یورپ کے لیے قابل قبول ہو، یا ایمانیات کو سماجی مسئلے سے زیادہ اہمیت نہ دینا) کی نا کامی نے بھی صہیونیت کے فروغ کو مہمیز دی۔

اس نسل پر ستانہ  تحریک کو پروان چڑھانے کے لیے اس اصول کو مدنظر رکھا گیا کہ فلسطین کے اصل باسیوں کے حقوق چھین کر یہودیوں کو دیے جا سکتے ہیں۔ ایک بار صہیونی تحریک کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد مذہبی یہودی اور سیکولر یہودی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ جب تک کوئی بھی یہودی صہیونی تحریک کا رکن ہے، وہ ان ہی مقاصد کی تکمیل میں اپنی صلاحیتیں کھپائے گا، جس کے لیے صہیونی تحریک برپا کی گئی تھی۔

نیلا انقلاب

$
0
0

امریکی ریاست ورجینیا میں بلیورج نامی پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ایک تاریک اور نم دار گودام میں بل مارٹن بھورے رنگ کے پلیٹس (Pellets) سے بھری ٹوکری اٹھا کر کنکریٹ کے ایک بڑے حوض میں انڈیلتا ہے۔

ڈنر پلیٹ کے سائز کی ، سفید رنگ کی موٹی تازی تلاپیا (مچھلیوں کی قسم) پانی کی سطح پر ابھرتی ہے۔ مارٹن دنیا میں تلاپیا مچھلی کی ان ڈور فارمنگ کرنے والوں میں سب سے بڑا نام ہے۔ مچھلیوں کو خوراک دیتے ہوئے مارٹن کا چہرہ وفورمسرت سے چمک رہاتھا۔ وہ ہر روز بارہ ہزار پائونڈز کے قریب تلاپیا واشنگٹن سے لے کر ٹورنٹو تک پھیلے اپنے مراکز سے ایشیائی منڈیوں کو برآمد کرتا ہے۔ وہ مسلسل نئے مچھلی فارم بنائے جارہاہے۔ وہ پولٹری انڈسٹری کو اپنے سامنے مثال کے طورپر رکھتاہے۔ اس کی مچھلیاں اس سے خوش رہتی ہیں۔ کیسے بھلا؟ مارٹن کاکہنا ہے: ’’مچھلیاں جب خوش نہیں ہوتیں تو مرنے لگتی ہیں،تاہم میں نے اب تک مچھلیوں کا ایک ٹینک بھی نہیں گنوایا‘‘۔

یہ ایک جھلک ہے امریکا میں ایکواکلچرکی۔ محض فش فارمنگ ہی ایکواکلچرنہیں بلکہ دوسری سمندری مخلوق جو انسانی غذا میں شامل ہوتی ہے، کی فارمنگ بھی اس کا حصہ ہے۔ حیرت انگیز امریہ ہے کہ امریکا اور یورپ ابھی تک فش فارمنگ میں بہت پیچھے ہیں، دنیا میں فارمی مچھلیوں کی پیداوار میں براعظم ایشیا کا حصہ 92فیصد سے زائد ہے۔ اس براعظم کی صورت حال بھی خاصی دلچسپ ہے۔ یہاں ایسے ممالک( مثلاً پاکستان) بھی ہیں جہاں لوگوں کی بڑی تعداد کو یہی معلوم نہیں کہ ایکواکلچر ہے کیا؟ لیکن ایسے ممالک بھی ہیں جہاں مردوخواتین پورے جوش وخروش سے فش اور دیگرسی فوڈز کی فارمنگ میں جُتے ہوئے ہیں۔ چین کا کردار نہ صرف ایشیائی ممالک بلکہ مجموعی طورپر دنیا میں سب سے نمایاں ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش ایسے ممالک بھی پیچھے نہیں ہیں۔

ذرا!! بھارت کے کرشن کی کہانی پڑھئے، بھارتی ریاست راجستھان روہت گائوں کا یہ بے زمین کسان اب ایک خوشحال آدمی ہے کیونکہ وہ ٹھیکے پرتالاب لیتا ہے، مچھلیاں پالتا ہے اور خوب کمائی کرتاہے۔ ایگریکلچرل ٹیکنالوجی مینجمنٹ ایجنسی آف فشریز کی طرف سے ملنے والی تکنیکی تربیت کی وجہ سے کرشن دوسروں سے مسابقت کرنے کے لئے پر اعتماد اور فش فارمنگ کے ذریعے معقول کمائی کر رہا ہے۔ روہت گاؤں میں چند تالاب موجود ہیں جو دیہی زندگی کے کئی قسم کے مقاصد کو پورا کرتے ہیں۔ ان میں سے تین تالاب 2002 میں سات سال کی مدت کے لیے بائیس سو روپے کے عوض کرشن کو ٹھیکے پر ملے۔

شروع میں اپنی تمام تر کوشش اور خواہش کے باوجود وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہتاتھا۔ البتہ جب ایگریکلچرل ٹیکنالوجی مینجمنٹ ایجنسی نے کرشن پر دست شفقت رکھاتو قسمت کی دیوی بھی مہربان ہونے لگی۔ فش فارمنگ کی تربیت اس کیلئے بہت مددگار ثابت ہوئی۔ اس بے زمین آدمی کے ایک تالاب کا رقبہ ایک اعشاریہ پانچ ہیکٹر ہے، گزشتہ سال اسے ایک لاکھ روپے کا منافع ملا۔اس نے مچھلیوں کی نشوونما اور تندرستی کا خیال رکھا اور آکسیجن کی مناسب سطح کو برقرار رکھنے کے لیے وقتاًفوقتاً ماہرین کی مدد بھی لی۔ بے زمین کرشن کواب روزگار کی تلاش میں گاؤں چھوڑ کر شہر جابسنے کی ضرورت نہیں رہی۔

اب احسان علی کی کہانی بھی پڑھ لیجئے جو بنگلہ دیش کے ضلع بریسل کا رہائشی اور ایک عدد فش نرسری کا مالک ہے۔ اپنے سات افراد پر مشتمل گھرانے کی خاطر اس نے گزشتہ نوکری چھوڑی تاکہ کاشت کاری کاکام سنبھال سکے۔ فش نرسری آمدن میں اضافے کا ذریعہ بنی۔ کسی بھی قسم کی تربیت یا تجربے کے بغیر وہ اس سفر میں اکیلا تھا۔ نرسری سے ملنے والا منافع اگرچہ حوصلہ افزا نہ تھا مگروہ اسے چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ یہ اس کی بڑے خاندان کے اخراجات پورے کرنے میں معاون تھا۔ جب مسلسل نقصان اسے یہ کام ٹھپ کرنے پر مجبور کرنے لگا، تب اس کی ملاقات ایک غیرملکی ادارے کے افسران سے ہوئی، وہ ایک پراجیکٹ کے تحت احسان جیسے لوگوں کو فنڈز مہیا کر رہے تھے۔

جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور مینجمنٹ کی مشق کی بدولت اس کی کہانی اب بدل چکی ہے۔اب وہ مچھلی کے بیج کا کامیاب اور پر اعتماد کاروبارکررہاہے۔ احسان نے اس کام کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی اور اسی پراجیکٹ کے لوگوں سے ہیچریز سے کارپ (میٹھے پانی کی مچھلی) کے معیاری بیج حاصل کرنا شروع کیے۔ تالاب کی تیاری، باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے سٹاک کرنا،مناسب خوراک اور کھادوں کا انتظام، درست وقت پر سیمپلنگ اور ہارویسٹنگ کے متعلق اس کے حاصل کردہ تازہ ترین علم کی بدولت خسارے میں پہنچ جانے والا اس کا کاروبار اب مثالی صورت اختیار کر چکا ہے۔ احسان ٹھیکے پر مزید دو تالاب حاصل کر کے اپنے کاروبار کی توسیع کا ارادہ رکھتا ہے۔

یہ دو ایسی کہانیاں ہیں جو انفرادی سطح کی ہیں، تاہم بھارت، بنگلہ دیش سمیت دیگر کئی ایشیائی ممالک میں اس سے بڑے پیمانے کی کہانیاں بھی آگے بڑھ رہی ہیں، صرف مچھلی کی فارمنگ ہی نہیں ہورہی بلکہ ایکواکلچر کو پورے کا پورا اختیارکیاجارہاہے۔ چین میں نیلاانقلاب بھرپوراندازمیں موج زن ہے۔ چینی کسانوں نے2500 سال پہلے چاول کے کھیتوں میں کارپ پالنا شروع کی تھی۔ لیکن اب یہاں کے دریاؤں، ندیوں اور سمندر کے ساحلوں پرقائم شدہ فش پینز کی بدولت ایکواکلچرکی سالانہ پیداوار42 بلین ٹن تک پہنچ گئی ہے۔

فارمرز اپنے تالابوں کو کارپ اور تلاپیا کی ایسی نسلوں سے بھر لیتے ہیں جن کی افزائش تیزی سے ہوتی ہے اور اسی مناسبت سے موزوں خوراک دی جاتی ہے۔ چین کی ’شنگھائی اوشن یونیورسٹی‘ کے فش جینیات کے ماہر لی سفاکو ’فادر آف تلاپیا‘ کہاجاتا ہے کیونکہ انہوں نے تیزی سے افزائش پانے والی مچھلی کی نسل متعارف کرائی جس کی سالانہ پیداوار 1.5 ملین ٹن ہے۔ یہ مچھلی زیادہ تر برآمد کی جاتی ہے۔

یقینا تیزی سے افزائش پانے والی مچھلیوں کوپالنا ہرکسی کی خواہش ہوتی ہے۔تاہم اس کے نتیجے میں بہت سے نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً آبی آلودگی۔ ما ہرین کاکہناہے کہ بیماری اور آلودگی پھیلائے بغیر ایکواکلچر کی افزائش اور بڑھوتری ممکن ہے۔ مارٹن کے پاس اس کابہت آسان حل ہے کہ سمندر یا جھیل میں پینزکی بجائے زمین پر ٹینکوں میں ماہی پروری کی جائے۔ان کے خیال میں نیٹ پینز میں سمندری جوؤں، بیماریوں، مچھلیوں کی اموات اور دیگر مسائل کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔

مارٹن کی ’فش فیکٹری‘ میں مچھلی کو زندہ رکھنے کیلئے ایک واٹر ٹریٹ منٹ سسٹم ہوتا ہے جو ایک چھوٹے قصبے کی نسبت کافی بڑا ہوتا ہے،کوئلے سے بننے والی بجلی کا یہاں اہم کردار ہوتاہے۔ مارٹن 85 فیصد پانی دوبارہ ٹینکوں میں بھرتا ہے باقی کا15 فیصد پانی جس میں امونیا اور مچھلی کے فضلات کی خاصی مقدار ہوتی ہے مقامی سیویج پلانٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ٹھوس فضلات کو گندگی کے گھڑوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔

ضائع شدہ پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلیے مارٹن زیر زمین پانی کے ذخیرے سے یومیہ آدھا ملین گیلن پانی نکالتا ہے۔ استعمال شدہ پانی کے 99 فیصد حصے کو دوبارہ قابل استعمال بنانا، کم کاربن والے مرکبات سے بجلی حاصل کرنے کیلئے فضلات سے میتھین کا حصول مارٹن کے اہداف میں شامل ہیں۔ وہ یکسوہے کہ ری سرکولیٹنگ سسٹم کا مستقبل میں اہم کردار ہوگا۔

وسطی امریکا کے ملک پاناما کے ساحل سے آٹھ میل کی دوری پر برین او ہینلن بالکل مختلف تدبیر اختیارکررہاہے۔ یہ شخص ہیرے جیسی بناوٹ کے مچھلی کے بہت بڑے پنجرے کوبیا مچھلیوں کو پالنے کے لئے استعمال کرتاہے۔ یہ پنجرے سطح سمندر سے 60فٹ نیچے ہوتے ہیں، اس کے پنجروں میں 40ہزارکوبیا مچھلیاں ہیں۔ اوہینلن تیسری نسل ہے ماہی پرورخاندان کی، وہ نیویارک شہر کی ایک مچھلی مارکیٹ میں پیدا ہوا، ادھرہی کھیلا کودا۔ اس کے والد اور چچا کہتے تھے کہ مستقبل فارمی مچھلی کا ہے۔

چنانچہ لڑکپن ہی میں، اس نے اپنے گھر کے تہہ خانوں میں، ٹینکوں میںسرخ سناپر(مچھلی ایک قسم)کی افزائش شروع کر دی تھی۔ اب پانامہ کے ساحلوں سے دور، وہ دنیا کا سب سے بڑا مچھلی فارم چلارہا ہے، اس کے پاس قریباً 200 ملازمین اور ایک بڑی ہیچری (وہ جگہ جہاں مچھلیوں کے انڈوں سے بچے نکالے جاتے ہیں) ہے، اوردرجن بھر دیوقامت پنجروں پر مشتمل چمک دار زرد رنگ کے بانس نما جہازی برتن جن میں دس لاکھ سے زیادہ کوبیامچھلیاں رکھنے کی گنجائش موجودہے۔

ساحل سے دورپانیوں میں ایکواکلچر کو برقرار اور فعال رکھنے کے اخراجات کافی زیادہ ہیں۔ اگرچہ سالمن کے ذخیرے ساحل کے پاس محفوظ غلافوں کے اندر چھوٹے چھوٹے پنجروں میں پرورش پا رہے ہیں جہاں سمندری لہریں بیس فٹ یا اس سے زیادہ کی بلندی سے اوہینلن کے پنجروں سے ٹکراتی ہیں ۔تاہم پانی کی آمیزش کا یہ طریقہ آلودگی اور بیماریوں سے بچائوکیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

روایتی سالمن فارم کے گنجان آباد پنجرے ہی نہیں بلکہ گہرے پانی میں موجود سٹاک بھی بہتے پانی کی لہروں سے مسلسل دھل رہے ہیں۔ ابھی تک ہینلن کو کوبیا کی اینٹی بائیوٹکس سے علاج کرنے کی ضرورت نہیں پڑی نہ ہی میامی یونیورسٹی کے محققین کو پینز کے باہر موجود مچھلی کے فضلات میں کسی بیماری کے ذرات ملے ہیں۔ اس کے خیال میں پانی کی لہروں کے ساتھ بہہ جانے والے پتلے فضلات سمندر میں موجود پلانکٹن (سمندری حیوانات و نباتات) کی خوراک بن جاتے ہیں کیونکہ ساحل سے دور والا پانی نیوٹرینٹس کی کمی کا شکار ہے۔

بھلے آپ ساحل سے دور پانیوں میں پنجرے میں مچھلیاں پالیں یا زمین پر فلٹرڈ ٹینکوں میں، بہرحال آپ کو انہیں خوراک دینی پڑے گی۔ مچھلیوں کو زمینی جانوروں پر ایک اہم فوقیت حاصل ہے، آپ کو انہیں نسبتا بہت کم کھلانا پڑتا ہے۔ مچھلی کو کم کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ کولڈ بلڈڈ جاندار ہیں اور قوت اچھال رکھنے والے ماحول کی بدولت انہیں کشش ثقل کے خلاف کم مزاحمت کرنی پڑتی ہے۔ ایک پائونڈ کی فارمی مچھلی پالنے کیلئے اندازاً ایک پاؤنڈ ہی خوراک استعمال ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف ایک پاؤنڈ مرغی پالنے کے لئے دو پاؤنڈ خوراک درکار ہوتی ہے۔

جانوروں سے حاصل شدہ پروٹین کے ماخذ کے طورپر یہ9 بلین لوگوں کی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے اور اس کی پیداوار کیلئے کم سے کم زمینی وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایکواکلچر خاص طور پر تلا پیا، کارپ اور کیٹ فش جیسے ہمہ خور(وہ جانور جو پودے اور گوشت دونوں کھاتے ہیں) آبی جانوروں کی پرورش ایک اچھا جوا محسوس ہوتی ہے لیکن متمول صارفین کی کچھ مرغوب فارمی مچھلیاں غیر مفید بھی ہوتی ہیں کیونکہ یہ پیٹو قسم کی ہوتی ہیں اور گوشت خور بھی۔ نشوونما کا تیز رفتار عمل کوبیا کو اچھا فارمی جانور ثابت کرتا ہے، اسے قدرتی مسکن میں چھوٹی مچھلیاں یا کرسٹیشنز (خول دار سمندری جانور) بطور خوراک دی جاتی ہیں جو بشمول او میگاتھری فیٹی ایسڈ( امراض قلب کے ماہرین کا پسندیدہ ) کے مختلف نیوٹرینٹس کا بہترین آمیزہ فراہم کرتا ہے۔

چین میں تانگ بادشاہت کے دور میں کسانوں نے کارپ مچھلی‘ بطخوں اور سبزیوں پر مشتمل گنجلک قسم کا پولی کلچر قائم کیا۔ اس پولی کلچر کے مطابق گھریلو فارمز قائم کئے جاتے تھے جہاں بطخوں وغیرہ کے فضلات کو تالابی الجی کی بہتر نشوونما کیلئے بطور کھاد استعمال کیاجاتا، یہ الجی کارپ کی خوراک بنتی، بعدازاں کارپ کو دھان کے کھیتوں میں چھوڑ دیا جاتا جہاں خود خوراک بننے سے پہلے یہ ہمہ خور مچھلی طاعون زدہ موذی کیڑوں مکوڑوں کو نگلتی۔ یہ کارپ پیڈی پولی کلچر چین کی روایتی خوراک مچھلی اور چاول کا صدیوں تک اہم حصہ رہا، صدیوں تک وہ لاکھوں چینیوں کی زندگی کا باعث بنا۔ یہ کلچر اس وقت بھی ملک کے سات ملین ایکٹر پر پھیلے دھان کے کھیتوں میں پروان چڑھ رہاہے۔

برٹش کولمبیا کے ساحل پر موجود ایک لمبی سی تنگ کھاڑی میں سٹیفن کراس نے ایک ذاتی پولی کلچر بنا رکھا ہے لیکن وہ مچھلی کی ایک ہی قسم کو پالتا ہے۔ یہ قسم شمالی بحر الکاہل کی باسی ہے۔ اسی چکنی سی مخلوق کو ’سیبل فش‘ یا ’بلیک کوڈ‘ کہتے ہیں۔ اس نے پینز سے نکلنے والے پانی کے بہاؤ کے نیچے گھونگوئوں، کستورا مچھلی، صدفی مچھلی اور میوسلز سے بھری ہوئی ٹوکریاں لٹکا رکھی ہیں۔ یہ سمندری جانور مچھلیوں کے فضلات پر پلتے ہیں۔ ان ٹوکریوں سے اگلے حصے میں وہ سوپ اور سوشی (نیم پختہ مچھلی کی جاپانی ڈش) کے علاوہ بائیو ایتھانول جیسے کیمیکل کی تیاری میں استعمال ہونے والی میٹھی بحری کائی اگاتا ہے۔

یہ آبی پودے فش پینز سے آنے والے پانی کو مزید فلٹر کرتے ہوئے باقی ماندہ نائٹروجن اور فاسفورس کے مرکبات کو پودے کی بافتوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ فش پینز سے80 فٹ نیچے سمندری تہہ میں موجود سی کوکمبر(سمندری مخلوق جو کہ چین اور جاپان میں لذیذ غذا سمجھی جاتی ہے) کسی طور پر بچ جانے والے بھاری نامیاتی فضلات کا صفایا کر دیتے ہیں۔کرس کہتا ہے کہ سیبل فش کو نکال کر اس کے فش فارمز پانی کو بڑے پیمانے پر فلٹر کرتے ہوئے اضافی خوراک اور منافع کا باعث بنتے ہیں۔

امریکی جزیرے روڈ (Rhode) کے رہائشی پیری راسو پولی کلچر کی بجائے مونو کلچر کے مالک ہیں لیکن وہ اپنے آبی جانوروں کو سرے سے کچھ کھلاتے ہی نہیں ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے ان جانوروں سے 12 ملین ڈالرز کمائے ہیں۔ راسو جھینگے پالتے ہیں۔ یہ جھینگے چکنائی کے کم ازکم اور اومیگا تھری کے زیادہ سے زیادہ تناسب سے بھرپور صحت مندانہ پیداوار دینے کے ساتھ ساتھ پانی کو اضافی نیوٹرینس سے بھی پاک کرتے ہیں۔ راسو اب میٹونک اوسٹر بار پر یومیہ آٹھ سو لوگوں کو بھگتاتا ہے۔

شمال سے کچھ میل پرے کیسکو بے کے شفاف سرد پانیوں میں مین (Maine) ریاست کے دو ملاح پاؤل ڈوبنز اور ٹولیف اوسلن فوڈچین کے مزید نچلے درجوں تک جا پہنچے۔ انہوں نے سن 2009ء میں امریکا کے پہلے کیلپ (بحری کائی کی قسم) فارم کا افتتاح کیا۔ پچھلے سال 30 ہزار فٹ کے علاقے میں کاشت کاری کی، انہوں نے کائی کی تین انواع حاصل کیں جو شدید سردی میں بھی یومیہ تین انچ تک نشوونما پانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہسپتالوں، سکولوں اور ریستورانوں میں سمندری کائی کو بطور تازہ اور غذائیت سے بھرپور سبز سلاد اور پاستہ کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔ سمندری جھاڑی کی یہ صنعت مشرقی ایشیا میں پانچ بلین ڈالر سالانہ کا کاروبارکررہی ہے۔

اب آخر میں پاکستان کا ذکر کرتے ہیں کہ دنیا صرف مختلف انواع کی مچھلیوں ہی کی فارمنگ نہیں کررہی بلکہ وہ کائی تک کو اپنی غذائوں کے لئے نکال رہی ہے، عالمی سطح پر ایکواکلچر کے نتیجے میں پیداہونے والی آبی آلودگی پر مباحث ہورہے ہیں لیکن ہمارے یہاں ایکواکلچر کا شعورنہ ہونے کے برابر ہے۔ حالیہ برسوں میں تباہ کن سیلابوں نے پاکستان کی زراعت کو غارت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب وقت آگیاہے کہ پاکستان بھی زراعت کے علاوہ خوراک کے دیگر ماخذ تلاش کرے۔ اس سلسلہ میں سنجیدگی سے ’نیلے انقلاب‘ میں شامل ہوناپڑے گا تاکہ خوراک کے بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹا جاسکے۔

بنیادی طورپر پاکستانی معیشت کی جڑیں شعبہ زراعت سے منسلک ہیں اور ہمارے یہاں ایکواکلچر کا شعور نہ ہونے کے برابر ہے۔ شاید ہی کبھی کسی کے ذہن میں سوچ پیدا ہوئی ہو کہ ایکواکلچربھی ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ لہٰذاپاکستان میں ایکواکلچر کو متعارف کرانا آسان کام نہیں ہوگا۔ ہمسایہ ممالک میںیہ ایک ابھرتی ہوئی صنعت ہے۔2009ء میں، ایکواکلچر میں دنیاکے پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل آٹھ ممالک کا تعلق ایشیا سے تھاجو پروڈکشن میں آگے تھے۔ یہ ریکارڈ ابھی تک قائم ہے۔

پاکستان میں کوٹری کے مقام پر دریائے سندھ کے دہانے پر پانی کے بہائو کی وجہ سے ایکواکلچر کے قیام کے شاندار امکانات موجود ہیں۔ کراچی کے جنوب مشرقی علاقے میں موجود مینگرووز اور ایسچوریز(قدرتی آبی مساکن) اس سرگرمی کے لئے دنیا کے باقی مساکن سے کسی بھی طورپر کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ دیگرجگہیں جہاں پر ایکواکلچر کی صنعت کا قیام ممکن ہے ، ان میں سن میانی، کھورکلمت، پسنی گوادر اور جیوانی کے علاقے شامل ہیں۔

پاکستان میں سمندری حیات کی بڑی ورائیٹی موجود ہے جو ہربی وورز ہیں اور جنھیں ایکواکلچر میں کاشت کرکے نہ صرف ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کیاجاسکتا ہے بلکہ برآمد کرکے مفید زرمبادلہ بھی کمایاجاسکتاہے۔ ہمارے ساحلوں پر موجود منفردآبی مسکن بین الاقوا می سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایکواکلچر کے کامیاب آغاز کے لئے پاکستان اپنے قریبی دوست چین سے فنی معاونت آسانی سے حاصل کرسکتاہے۔ پاکستان کا آبی ماحول کوبیا جیسی مچھلی کے لئے بہت مناسب ہے جو اپنی تیزرفتار نشوونما کی خصوصیت کی بدولت دنیا بھر میں ایکواکلچر کی صنعت کا ابھرتاہواستارہ ہے۔

اک دھیان ادھر بھی!

نئے ’نیلے انقلاب‘ نے جہاں سستے ویکیوم پیکنگ میں جھینگے، سالمن اور تیلاپیا کو گروسری سٹور کے فریزروں تک پہنچایا، وہاں اس کے کچھ نقصان دہ پہلو بھی ہیں۔ مثلاً جانداروں کے مسکن کی تباہی،پانی کی آلودگی اور غذا کی حفاظت کے لئے خطرات۔ 80ء کے عشرے میں وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے فارمز کی تعمیر کی غرض سے دریائوں اور سمندر کنارے اگے ہوئے درخت مینگرووز کو اکھاڑدیا گیا ، یہاں اب جھینگے بڑی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ نائٹروجن ، فاسفورس اورمری ہوئی مچھلیوں کی وجہ سے پیداہونے والی آلودگی ایشیا میں بڑا خطرہ بن کر پھیل رہی ہے۔

کچھ ایشیائی فارمرز اپنی مچھلیوں کی حفاظت کیلئے ایسی اینٹی بائیوٹکس اور حشرات کش ادویات کا استعمال کرتے ہیں جن کا استعمال امریکا،یورپ اور جاپان میں ممنوع ہے۔امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن(ایف ڈی اے) کے مطابق ایشیا سے آنے والی مچھلی کی کھیپوںمیں متعدد میں ممنوعہ مادے پائے گئے جن میں سے بعض کے بارے میں یقین ہے کہ وہ سرطان کا باعث بنتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے حصوں میں قائم فش فارم بھی مسائل سے آزاد نہیں ہیں۔

پچھلے تین عشروں سے زائد کے عرصہ میں ناروے سے پیٹا گونیا تک قدیم چٹانی کھاڑیوں میں پھیلے ہوئے سالمن مچھلیوں کے ذخیروں پر مشتمل جدید سالمن انڈسٹری بیماریوں اورآلودگی کی آماج گاہ بن چکی ہے۔2012 میں سکاٹش سالمن فارمز کی 10فیصد مچھلی ضائع ہوگئی، سبب گلپھڑوں کی وہ بیماری تھی جو امیبا سے پیدا ہوتی ہے۔ جبکہ چلی کے علاقے میں2007 ء سے لے کر اب تک وبائی انیمیا نے دو بلین ڈالر مالیت کی سالمن مچھلیاں مار ڈالی ہیں۔2011 میں پھوٹ پڑنے والی ایک بیماری نے جنوب مشرقی افریقہ کے ملک موزمبیق کی جھینگا انڈسٹری کا تقریباً صفایا کر دیا۔

پاکستان اور ایکواکلچر

ماہی پروری کا پاکستانی معیشت میں نمایاں کردار ہے۔ ہمارے ساحلوں کی لمبائی تقریباّ 814 کلومیٹر ہے۔ سندھ اور بلوچستان کی ساحلی آبادی کا انحصار ماہی پروری پر ہے۔اس کے علاوہ یہ زرِمبادلہ کمانے کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔ماہی پروری کی صنعت کا منتظم فش ڈویلیپمنٹ کمشنر (ایف۔ڈی۔سی) ہے جو مشترکہ طور پر محکمہ زرعت ،محکمہ خوراک اور محکمہ لائیو سٹاک کے ماتحت کام کرتا ہے۔ ایف۔ڈی۔سی پالیسیاں بنانے، منصوبہ بندی کرنے، صوبائی ماہی پروری کے محکموں اور قومی و بین الاقوامی ایجنسیوں کے درمیان معاونت جیسے فرائض سرانجام دیتا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل سمیت کئی یونیورسٹیاں ماہی پروری کی صنعت سے متعلق بنیادی نوعیت کی تحقیقات سرانجام دیتی ہیں۔ اس سب کے باوجود فش فارمنگ سے متعلق بہت سے وسائل کو بروئے کار لانا ابھی بھی باقی ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں صرف سمندری ایکواکلچرکی سالانہ پیداوار کی صلاحیت ایک ملین ٹن کے قریب ہے۔ پاکستان میں پائی جانے والی تجارتی پیمانے پر اہمیت کی حامل مچھلیوں کی کل ملا کر تین سو پچپن انواع ہیں۔ اس کے علاوہ قابلِ کاشت جھینگوں کی پندرہ اور لوبسٹر کی پانچ انواع بھی تجارتی اہمیت رکھتی ہیں۔

دوسری طرف دریائے سندھ صدیوں سے کانٹینینٹل شیلف کو غذائی مادوں سے بھر پور پانی مہیا کر رہا ہے۔ ملک میں ماورائے ساحل پانی کے ذخائر وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں جو کہ ایکواکلچر کے قیام کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ دریاؤں ،ڈیموں، ندی، نالوں اور جھیلوں سمیت یہ ذخائر ملک کے آٹھ میلن ہیکٹر کے رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ محض سندھ میں سو سے زائد چھوٹی بڑی جھیلیں پائی جاتی ہیں جو کہ ایک لاکھ ہیکٹر کے رقبہ پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ماہی پروری کے لیے ان میں منچھر جھیل، ہالجی جھیل اور کینجھر جھیل اہم ہیں۔ ان میں سے صرف منچھر جھیل ہی مچھلیوں کی قریباّ دو ہزار اقسام کا مسکن ہے۔ پنجاب میں بہنے والی جھیلوں کا رقبہ سات ہزار ہیکٹر ہے۔

زرعی ملک ہونے کے ناتے ایکواکلچر پاکستان جیسے ملک کے لیے نئی چیز ہے۔ البتہ آبی وسائل کے پیشِ نظرملک میں اس صنعت کے قیام کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ 2006ء کے بعد ایکواکلچر کی پیداوار میں دس سے پندرہ ہزار ٹن کا اضافہ ہو اجو 2007ء میں بڑھ کر ایک لاکھ ٹن ہو گیا۔ پاکستان میں ساحلِ سمندر(میری کلچر) پر ایکواکلچرکا قیام ابھی تک ناپید ہے۔البتہ بعض غیرملکی اداروں کی مدد سے سن میانی میں قابلِ نوش جھینگوں کے میری کلچر کے قیام کی کوشش کی گئی ہے۔

کچھ سائنسی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں اوسٹرسمیت بہت سے کرسٹیشینزکی ہیچریز ( مچھلیوں کے بیج اگانے کی نرسریاں) کا قیام ممکن ہے۔ جبکہ اس وقت ملک میں اوسٹر کی ایک بھی ہیچری موجود نہیں۔ مزید برآں پاکستان کے شمالی علاقہ جات ٹراؤٹ کی کاشت کی اچھی خاصی صلاحیت رکھتے ہیں مگراس لحاظ سے پیداوار کا تناسب بہت کم ہے۔ ملک بھر میں بارہ ہزار سے زائد نئے فش فارم قائم کیے گئے ہیں۔ صرف پچاس ہزار افراد کا روزگار اس سیکٹر سے وابستہ ہے۔ کیونکہ ایکواکلچرکی پیداوار سے متعلق ماہرین کی محدود دستیابی اور مچھلیوں کی سستی خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے وسیع پیمانے پر اس صنعت کا قیام ابھی تک ممکن نہیں ہوا۔

ایکواکلچر کی دنیا

دنیا میں مچھلی کی پیداوارکا جائزہ لیاجائے تو سن1950ء میں 97فیصد مچھلیاں سمندروں اور دریائوں سے پکڑی جاتی تھیں، تب فارمی مچھلیوں کی پیداوارصرف3فیصد تھی۔80ء کی دہائی میں فارمی مچھلیوں کی پیداوار میں نمایاں اضافہ شروع ہوا۔ اس وقت فارمی مچھلیوں کی انڈسٹری کا حصہ 47فیصد تک پہنچ گیاہے۔ دلچسپ بات ہے کہ زیادہ تر فارمنگ براعظم ایشیا میں ہورہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فش فارمنگ میں 90فیصد حصہ ایشیاء کا ہے۔ ایکواکلچر میں ایشیا باقی براعظموں سے کہیں آگے ہے۔ دنیا میں سی فوڈ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے میں اس براعظم کا کردار بھی بڑھ رہاہے۔

اس ضمن میں ایشیائی ممالک میں سب سے پہلا نام چین کاہے جو دوتین برس قبل تک، ایکواکلچر میں 55ملین ٹن کی پیداواردے رہاتھا۔یادرہے کہ ایشیا کی مجموعی پیداوار84ملین ٹن سے کچھ زیادہ ہے۔ سن2001ء سے اب تک اس میںاضافہ کی شرح 92فیصد ہے۔ یورپ کی پیداوارتقریباً تین ملین ٹن ہے ، سن2001ء سے اب تک وہاں اضافہ کی شرح28فیصد رہی۔ براعظم افریقہ کی پیداوار بہت کم یعنی1.69ملین ٹن ہے لیکن اضافہ کی شرح 215فیصد ہے۔امریکی براعظموں میں پیداوار3.26ملین ٹن جبکہ اضافہ کی شرح67فیصد ہے۔

فوڈ چین کیا ہے؟

کیاآپ جانتے ہیں کہ روزمرہ کی سرگرمیوں کو سرانجام دینے کے لئے ہمارا جسم توانائی کہاں سے حاصل کرتاہے؟ یقیناً آپ کا جواب ہوگا: خوراک۔ ہرطرح کے افعال کو سرانجام دینے کے لئے پہلے ہمیں توانائی درکارہوتی ہے۔ مثلاً اٹھنے، بیٹھنے، بولنے حتیٰ کہ سوچنے کے لئے بھی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جو ہم خوراک کے اندرموجود کیمیائی بانڈز سے لیتے ہیں مگر یہ توانائی ایک ترسیلی سلسلہ کار کے ذریعے سورج سے ہماری خوراک تک پہنچتی ہے جسے سائنسی اصطلاح میں ’فوڈچین‘ کہتے ہیں۔ مثلاً گھاس گائے کھاتی ہے اور گائے کو انسان۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ زمین پر زیراستعمال ہرطرح کی توانائی کا اصل منبع سورج ہے لیکن زمین پر پہنچنے والی سورج کی کل حرارت کا صرف 1 فیصد حصہ ہی اس غذائی سلسلہ میں داخل ہوپاتاہے۔ پودے اس توانائی کو کیمیائی تعامل کے ذریعے خوراک کے کیمیائی بانڈز میں منتقل کرکے ہم تک پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ جانور جب ان پودوں کو کھاتے ہیں تو یہ توانائی ان جانوروں کی بافتوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ غذائی سلسلے میں نچلے درجوں سے اوپر کے درجات تک منتقلی کے دوران توانائی کا بیشتر حصہ جانوروں کی سرگرمیوں کی وجہ سے ضائع ہوجاتاہے۔

سورج سے حاصل ہونے والی ایک فیصد توانائی کا صرف دس فیصد حصہ ہی پودوں سے ہربی ووزر( براہ راست پودے کھانے والے جانور) میں منتقل ہوپاتاہے۔ اسی طرح ہربی وورز میں منتقل ہونے والی اس توانائی کا بھی صرف دس فیصد حصہ ان جانوروں میں منتقل ہوپاتا ہے جو ان ہربی وورز کو کھاتے ہیں۔ اسے ’ ٹن پرسنٹ‘ کا قانون کہتے ہیں لہٰذا ہم براہ راست پودوں سے خوراک حاصل کرتے ہیں تو ہم ’ٹن پرسنٹ‘ کے قانون کے تحت ہونے والے توانائی کے اس ضیاع سے بچ سکتے ہیں۔

اس کی سادہ سی مثال یوں دی جاسکتی ہے۔ گہیوں کا ایک کھیت اندازاً 200افراد کی غذائی ضروریات کو پورا کرسکتاہے جبکہ اسی کھیت پر صرف پانچ بکریاں پالنا ممکن ہے جو محض چالیس سے پچاس افراد کا پیٹ بھر سکتی ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی غذائی طلب کو پورا کرنے کے لئے ایسے ذرائع تلاش کئے جائیں جو سستے ، صحت مندانہ ہونے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ افراد کی غذائی ضروریات کو پوراکرسکیں۔

دیس بدیس کے کھانے

$
0
0

انچلا داس

اجزا: چکن کی فلنگ کے لیے:

چکن بون لیس (آدھا کلو)،  پیاز (دو عدد)، کٹی ادرک (ایک چائے کا چمچا)، سفید زیرہ (دو چائے کے چمچے)،  نمک (حسب ذائقہ)، کالی مرچ (ایک چائے کا چمچا)، کٹا ہوا تازہ دھنیا (دوکھانے کے چمچے)، آئل (دوکھانے کے چمچے)۔

ٹماٹر ساس کے لیے:

پیاز (ایک عدد)، کْٹی لال مرچ (ایک کھانے کا چمچا)، کٹے ہوئے ٹماٹر (چار سے چھ )، ٹماٹر پیسٹ (ایک پیالی)، لیموں کا رس (دوکھانے کے چمچے)، براؤن شوگر (دوکھانے کے چمچے)،  نمک (آدھا چائے کا چمچا)، کالی مرچ (ایک چائے کا چمچا)، کٹی ادرک (ایک چائے کا چمچا)، موزریلا چیز (ایک پیک)،  آئل (دوکھانے کے چمچے)، مکئی کی چپاتیاں (چارعدد)۔

ترکیب:

ایک پین میں آئل گرم کر کے کٹی ہوئی ادرک کو ہلکا سا تل لیں۔ ایک منٹ تک تلنے کے بعد اس میں بون لیس چکن، کٹی پیاز، سفید زیرہ، نمک، مرچ اور کٹا ہوا دھنیا شامل کردیں۔ چکن کے گلنے تک پکائیں۔ ٹماٹر سوس بنانے کے لیے ایک الگ پین میں آئل گرم کر کے اس میں کٹی ہوئی ادرک، اچھی طرح کٹے ہوئے ٹماٹر، براؤن شوگر، نمک اور کٹی لال مرچ ڈالیں۔ ٹماٹروں کے گلنے تک پکائیں۔ اس کے بعد ٹماٹر کا آمیزہ، لیموں کا رس اور کالی مرچ ڈال کر اچھی طرح ملائیں اور چولھا بند کر دیں۔ اس کے بعد ایک بیکنگ ٹرے میں چپاتیاں  بچھائیں۔ اب اس کے اوپر ایک تہہ چکن کی اور ایک تہہ  ٹماٹر سوس کی بچھائیں۔ اسی طرح باری باری دونوں چیزوں کی تہہ لگانے کے بعد آخر میں اوپر موزریلا چیز ڈال دیں۔ اس کے بعد اسے 190 ڈگری سینٹی گریڈ پر دس منٹ تک بیک کریں۔

لزانیہ (اٹالین ڈش)

اجزا:

قیمہ (آدھا کلو)، کٹی ہوئی پیاز (آدھی پیالی)، تیل (چار کھانے کے چمچے)، کالی مرچ (ایک چائے کا چمچا)، نمک (حسب ضرورت)، مسٹرڈ پاؤڈر (ایک چائے کا چمچا)، ادرک، لہسن (ایک چائے کا چمچا)، سرکہ (دو کھانے کے چمچے)، گرم مصالحہ (آدھا چائے کا چمچا)، ٹماٹر کا پیسٹ (آدھی پیالی)، اوریگانو لیو (ایک چائے کا چمچا)، لزانیہ اسٹریپس (چھ عدد)

چیز سوس کے لیے:

مکھن (تین کھانے کے چمچے)، میدہ (چار کھانے کے چمچے)، نمک (حسب ذائقہ)، دکنی مرچ (آدھا چائے کا چمچا)، مسٹرڈ پاؤڈر (آدھا چائے کا چمچا)، دودھ (دوپیالی)، چیڈر چیز (دو کھانے کے چمچے)

ٹماٹو سوس کے لیے:

ٹماٹر کا آمیزہ (آدھی پیالی)، نمک (حسب ذائقہ)، کالی مرچ (آدھا چائے کا چمچا)، تیل (دوکھانے کے چمچے)، پسا ہوا لہسن (آدھا چائے کاچمچا)، چینی (ایک کھانے کا چمچا)، سرکہ (ایک کھانے کا چمچا)۔

ترکیب:

قیمے کے لیے:

پین میں تیل گرم کر کے اس میں پیاز تلیں۔ پھر پیاز میں قیمہ، نمک، کالی مرچ، مسٹرڈ پاؤڈر، ادرک لہسن، سرکہ، ٹماٹر کا آمیزہ شامل کر کے پکنے کے لیے رکھ دیں۔ جب گل جائے تو بھون کر اتار لیں اور اوریگانو شامل کردیں۔

لزانیہ کے لیے:

لزانیہ کے اسریپس کو ابالیں۔

چیز سوس کے لیے:

مکھن گرم کرکے اس میں میدہ بھون لیں۔ پھر نمک، دکنی مرچ اور مسٹرڈ پاؤڈر شامل کرکے دودھ اور پانی ڈال کر سوس تیار کر لیں۔ چولھے سے اتارتے وقت اس میں چیز بھی شامل کریں۔

ٹماٹو سوس کے لیے:

تیل گرم کر کے لہسن، ٹماٹر کا آمیزہ اور پانی ڈالیں۔ اب نمک، سرکہ اور چینی شامل کر کے گاڑھا ہونے پر اتار لیں۔

اسمبل کرنے کے لیے:

اوون فروٹ ڈش میں اس کو گریس کرلیں۔ لزانیہ کی اسٹریپس بچھائیں اور پکا ہوا قیمہ ڈالیں۔ پھر اوریگانو چھڑکیں، ٹماٹو سوس، چیز سوس ڈالیں اور پھر یہی عمل دُہرائیں۔ آخر میں چیڈر چیز، مکھن، کیچپ اوریگانو چھڑک کر نمبر چار پر بیس سے پچیس منٹ کے لیے بیک کریں اور نوش فرمائیں۔

اٹالین اسٹائل پوٹاٹو سیلیڈ

اجزا:

آلو آدھا کلو (اُبلے ہوئے)،  پیاز (ایک عدد)، ٹماٹر (دو عدد)، لہسن کے جوے (چار عدد)، کُٹی ہوئی کالی مرچ (آدھا چائے کا چمچا)، پرمزان چیز (دوکھانے کے چمچے)، ہرا دھنیا (دوکھانے کے چمچے)،  سِرکہ (دوکھانے کے چمچے)، زیتون کا تیل (دو کھانے کے چمچے)، نمک (ایک چوتھائی چائے کا چمچے)۔

ترکیب:

ایک شیشے کے پیالے میں لہسن، زیتون کا تیل، سرکہ، نمک اور کالی مرچ شامل کریں۔ اب اس میں ہرا دھنیا، پیاز، ٹماٹر اور آلو شامل کر کے اچھی طرح سے ملا لیں۔ اس کو نکالتے وقت پرمزان چیز شامل کر کے سرو کریں۔

سیب کا حلوہ

اجزا:

سیب (آدھا کلو)، ملائی (آدھا پاؤ)، کھویا (آدھا پاؤ)، چینی (ایک پیالی)، کیوڑہ (چند قطرے)، بادام کی گری (ایک چھٹانک)، پستہ (آدھی چھٹانک)

ترکیب:

سیبوں کو چھیل کر ابال لیں اور پھر ٹھنڈا ہونے کے بعد پیس لیں، اب سیبوں کو دوبارہ چولھے پر رکھیں، ساتھ ملائی یا کریم ڈال دیں۔ تھوڑا پک جائے تو چینی ڈال کر ہلکی آنچ پر پکائیں۔ اس کے بعد کیوڑہ ڈال کر مزید پکائیں۔ جب حلوہ تیار ہو جائے، تو چولھے سے اتار کر ڈش میں پھیلا دیں اوپر بادام اور پستہ چھڑک دیں۔ مزے دار سیب کا حلوہ تیار ہے۔

یہ مِلتے جُلتے چہرے

$
0
0

بولی وڈ کی حسین دنیا کی رنگینی اور چمک دمک اسٹارز ہی کی مرہون منت ہے۔ اس دنیا میں آئے دن کچھ نہ کچھ واقعات ایسے ہوتے رہتے ہیں جن کی مدد سے ان سیلیبریٹیز کی شہرت میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

چاہے وہ کوئی تنازعہ ہو یا پھر کسی ساتھی اداکار سے عداوت، فلموں کی ناکامی ہو یا نمبروں کی دوڑ۔ ہر کوئی اس قسم کی منفی چیزوں کا فائدہ اٹھا کر مقبول ہورہا ہے، حالاں کہ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ سب سستی شہرت حاصل کرنے کے پرانے طریقے ہیں۔ ایسے ہتھکنڈوں سے ملنے والی شہرت دیرپا نہیں ہوتی۔ اصل شہرت تو اپنے کام ہی سے ملتی ہے۔ بولی وڈ میں بہت سے اسٹارز نے صرف اس لیے شہرت پائی کہ ان کی شکل وصورت میں کسی مشہور شخصیت کی جھلک نظر آتی تھی۔ ذیل میں چند ایسی ہی شخصیات کا ذکر ہے:

٭ رانی مکرجی اور ڈیزی شاہ: سلمان خان کی فلم جے ہو میں مرکزی رول کرنے والی اداکارہ ڈیزی شاہ نے جب اس فلم میں کام شروع کیا تو پریس میں اس بات کے چرچے ہونے لگے کہ ڈیزی بڑی حد تک اداکارہ رانی مکرجی سے مشابہت رکھتی ہے۔ حالاںکہ خود ڈیزی اس بات سے انکار کرتی ہے، کیوںکہ اس کے خیال میں ان دونوں کی شخصیت میں واضح فرق موجود ہے۔ ڈیزی لمبی ہے، جب کہ رانی کا بوٹا سا قد ہے، لیکن اگر صرف چہرہ دیکھا جائے تو یہ بات ماننا پڑے گی کہ ڈیزی کسی حد تک رانی سے مشابہت رکھتی ہے ۔

٭ ایشوریا رائے بچن اور سنہیا اولال:کیا اسے محض ایک اتفاق کہیں گے کہ سلمان خان نے اپنی ہوم پروڈکشن فلم لکی، نو ٹائم فار لو کے ذریعے واقعی انہوں نے فلم انڈسٹری کے ٹیلنٹ میں اضافہ کرنا چاہا تھا یا وہ اپنی سابقہ گرل فرینڈ ایشوریا سے کسی قسم کا بدلہ لینا چاہتا تھا؟ کیوںکہ سنہیا میں صرف نام کی حد تک ہی مماثلت تھی۔ اس میں اداکارانہ صلاحیتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ فلم لکی میں اس کے ہٹ ہونے کی صرف دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ سلمان خان نے اس کی اداکارانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے اس پر بہت کام کیا۔

اسے اداکاری کے اسرارورموز بتائے چہرے کے تاثرات سے کب اور کیسے کام لیا جائے یا اسکرپٹ اور کہانی کے حساب سے باڈی موومنٹ کیسی ہونی چاہیے۔ ان سب کے علاوہ سنہیا کو ڈانس کی بھی مکمل تربیت دی گئی کہنے والے کہتے ہیں کہ ان دنوں سلمان کو ایشوریا سے بریک اپ کا صدمہ بہت زیادہ تھا اور اسی غم کو غلط کرنے کے لیے انہوں نے سنہیا کو مکمل تیاری کے ساتھ فلم انڈسٹری میں متعارف کرایا، تاکہ لوگ اصل ایشوریا کو بھول جائیں اور صرف سنہیا کو یاد رکھیں، لیکن اتنی محنت اور اتنی بڑی فلم کرنے کے بعد سنہیا ایک ناکام اداکارہ تصور کی گئی، جس میں خوب صورتی یا ایشوریا سے مماثلت کے سوا کچھ نہ تھا۔

٭ بھاگیہ شری اور بھومیکا چاولہ: فلم انڈسٹری میں ایک دوسرے میں مشابہت تلاش کرنا ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔ بھاگیہ شری سلمان خان کی پہلی ہیروئن تھی۔ ان کی مشترکہ فلم میں نے پیار کیا ایک سپر ہٹ فلم تھی۔ بھاگیہ کی جوڑی کو سلمان کے ساتھ اتنا پسند کیا گیا کہ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ انہیں شادی کرلینی چاہیے، لیکن ایسا ممکن نہ تھا۔ سلمان کا جھکائو بھاگیہ کی طرف بہت زیادہ تھا۔ اپنی پہلی فلم کی کام یابی کے بعد وہ زیادہ سے زیادہ فلمیں بھاگیہ کے ساتھ کرنے خواہش رکھتے تھے، لیکن اس فلم کے بعد بھاگیہ نے اداکار ہمالہ سے شادی کرلی اور ہمالہ نے یہ شرط عاید کردی کہ بھاگیہ صرف اس کے ساتھ ہی کام کرے گی۔

اس کے بعد ساؤتھ انڈیا کی اداکارہ بھومیکا چاولہ نے جب سلمان کے ساتھ فلم تیرے نام میں کام کا تو بھاگیہ کے ساتھ شکل وصورت کی مشابہت کی بنا پر یہ کہا گیا کہ سلمان کو بھاگیہ کا نعم البدل مل گیا ہے۔ ان دونوں اداکاراؤں میں بے حد مشابہت تھی۔ دونوں ہی معصومیت اور سادگی کا پیکر تھیں۔

٭ انوشکا شرما اور نازیہ حسن:یش راج بینر کی دریافت انوشکا شرما کو پہلی بار شاہ رخ خا ن کے ساتھ فلم رب نے بنادی جوڑی میں متعارف کرایا گیا تھا۔ جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ انوشکا کی شکل وصورت پاکستانی گلوکارہ نازیہ حسن سے بہت ملتی جلتی ہے۔ اس بارے میں انوشکا کا یہ کہنا ہے کہ مجھے کئی بار اس بات کا احساس دلایا گیا کہ مجھ میں نازیہ حسن کی مشابہت آتی ہے تو میں نے بہ طور خاص ان کی تصاویر نیٹ پر دیکھیں تو مجھے بھی یوں لگا کہ لوگ غلط نہیں کہتے۔

٭ عامر خان اور ٹام ہینکس:لی وڈ اسٹار ٹام ہینکس اب عمر رسیدہ ہوگئے ہیں، لیکن اگر ان کی پرانی فلمیں جیسے Splashاور You have got mailمیں ٹام ہینکس کو دیکھا جائے تو یوں محسوس ہو گا کہ ٹام ہینکس نہیں بلکہ بولی وڈ مسٹر پر فیکشنسٹ عامر خان ہیں ان دونوں گریٹ اسٹارز کی اتنی زیادہ مشابہت کو کسی طرح سے بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

٭ راکھی ساونت اور Haifa wehbe:بولی وڈ کی متنازعہ ماڈل راکھی ساونت نے کئی بار پلاسٹک سرجری کا سہارا لے کر خود کو اس حد تک تبدیل کر لیا ہے کہ اب ان کی شکل وصورت میں لبنانی گلوکارہ حفیہ کی مشابہت نظر آتی ہے۔ شکل کے علاوہ دونوں میں ایک بات اور بھی مشترکہ ہے اور وہ یہ کہ دونوں ہی ہر حد تک بولڈ، بے باک اور منہ پھٹ ہیں۔

٭ دیپکشکا اور پروین بوبی: انڈین ٹی وی اداکارہ اور ماڈل دیپکشا Deepshikha کو ماضی کی حسین اداکارہ پروین بوبی سے تشبہیہ دی جاتی ہے دیپکشکا کچھ فلموں میں بھی کام کر چکی ہیں، لیکن ان کا فوکس فلموں سے زیادہ ٹی وی رہا ہے۔ ان کے سلکی برائون بالوں سے لے کر مسکراہٹ تک دیپکشکا کو پروین بوبی ہی سمجھا جاتا ہے۔

پریتی زنٹا اور ڈری بیری مور: ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اس بات سے اتفاق نہ کریں، لیکن اکثریت کا یہی کہنا ہے کہ بولی وڈ کی چلبلی اداکارہ کی شکل وصورت ہالی وڈ اسٹار ڈری بیر مور سے ملتی ہے۔ دونوں اداکارائوں کا نہ صرف فیس کٹ ایک جیسا ہے، بل کہ چہرے پر پڑنے والے ڈِمپل کی وجہ سے بھی ان میں مشابہت نظرآتی ہے۔

٭ ریتھک روشن اور ہرمن باویجہ۔:بولی وڈ سپراسٹار ریتھک روشن نے جس تیزی سے مقبولیت اور کام یابی کی منزلیں طے کیں ایسا بہت کم ہی دیکھنے میں آتا ہے ریتھک نے اپنی اداکاری کے ساتھ ساتھ ڈانس میں بھی خود کو یکتا ثابت کیا اس طرح کہ نئے آنے والے اس کی کاپی کرنے لگے۔

ہرمن نے جب اپنی پہلی سائنس فکشن فلم لواسٹوری 2050میں کام کیا تو اس کے کام میں ہر جگہ ڈانس سے لے کر ایکٹنگ تک اور لباس سے لے کر چلنے پھرنے کے انداز تک میں ریتھک کی جھلک نظر آتی تھی۔ فلم انڈسٹری میں ہرمن کو ریتھک کی کاپی کہا جاتا ہے۔

٭ مادھوری ڈکشٹ اور مدھوبالا:بولی وڈ کی ایک ایسی اداکارہ جنہوں نہ صرف ہر روپ میں کمال کے جوہر دکھائے بلکہ اپنی دل موہ لینے والی مسکراہٹ سے ابھی تک لوگوں کے دلوں پر راج کررہی ہیں اور شاید رہتی دنیا تک کرتی رہیں گی۔ مدھو بالا جنہیں اپنے دور کی کام یاب اور پرکشش ترین اداکارہ مانا جاتا تھا۔

ان کی موت کے بعد کافی عرصے تک یہی سمجھا جاتا رہا کہ مدھوبالا کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا، لیکن جب مادھوری نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھے تو ان کی بھی دل کش مسکراہٹ اور فطری اداکاری کو دیکھ کر یہی گمان ہوا کہ مدھوبالا واپس آگئی ہیں۔ مادھوری ڈکشٹ کو بڑی حد تک لوگ مدھو بالا ہی کی طرح سمجھتے ہیں۔ خود مادھوری کو بھی خود کا مدھو بالا کہلوانا پسند ہے۔

٭ کترینہ کیف اور زریں خا۔ فلم انڈسٹری یہ دونوں ہیروئنز سلمان خان کی دریافت ہیں کترینہ کو جب سلمان نے سہیل خان کی فلم میں نے پیار کیوں کیا میں متعارف کرایا۔ تب سب کو ایسا ہی لگا کہ کترینہ پر سلمان کی غیرمعمولی توجہ ہے، کیوں کہ سلمان کترینہ کو فلم میں لانے سے پہلے ہی جانتے تھے۔ اس فلم کی کام یابی کے بعد ان دونوں کے تعلقات بھی منظر عام پر آگئے اور یہ بات گردش کرنے لگی کہ ایشوریا کے بعد سلمان کو اپنی پسند کی لڑکی مل گئی ہے اور وہ دونوں بہت جلد شادی کرنے والے ہیں، لیکن فلم کی کام یابی کے بعد کترینہ مزید کام کرنے کی خواہش رکھتی تھی، جب کہ سلمان ایسا نہیں چاہتے تھے کترینہ نے سلمان کو چھوڑ کر اکشے کمار کے ساتھ اپنی جوڑی بنالی اور ان کی فلم نو پرابلم کے سپر ہٹ ہونے کے بعد کترینہ سلمان کی دوستی نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔

اسی لیے جب سلمان نے اپنی ذاتی فلم ویر کے لیے کترینہ سے رابطہ کیا تو اس نے انکار کردیا۔ تب سلمان نے کترینہ جیسی اداکارہ ڈھونڈھنے کی کوشش شروع کردی، جو انہیں زریں خان کی شکل میں مل گئی۔ زریں خان کو بنی بنائی کترینہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ ان دونوں ہیروئنز میں بے حد مماثلت ہے۔ شکل و صورت سے لے کر بالوں اور کپڑوں کے اسٹائل تک ان میں یکسانیت محسوس ہوتی ہے۔ زریں خاں نے فلم ویر کے بعد ایک آدھ فلم میں مزید کام کیا، لیکن وہ کام یاب اداکارہ نہ بن سکی۔

٭ امیتابھ بچن اور سونو سود:بولی وڈ لیجنڈ امیتابھ بچن کے ہر ہر انداز کو کاپی کرنے کی کوشش ان کے طویل کیریر میں کئی لوگوں نے کی۔ کچھ نے وقتی کام یابی حاصل کی اور کچھ نے فلم انڈسٹری ہی چھوڑدی، کیوں کہ امیتابھ کو کاپی کرنا تو شاید آسان ہو لیکن ان جیسا بننا بہت مشکل ہے۔

فلموں کے ایک ابھرتے ہوئے اداکار سونو سود کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سونو امیتابھ سے مماثلت رکھتے ہیں۔ ویسا ہی دراز قد، مضبوط جبڑے، بالوں کا انداز اور چہرے کی بناوٹ انہیں بہت حد تک امیتابھ جیسا بناتی ہے۔ خود سونو اپنے لیے سب سے بڑا اعزاز سمجھتے ہیں کہ انھیں امیتابھ سے ملایا جاتا ہے۔ سونو کا کہنا ہے کہ امیتابھ بچن کی فلم دیوار ان کی پسندیدہ فلم ہے اور اگر کبھی دیوار کا ری میک بنایا گیا تو وجے کا کردار کرنے پر انہیں بہت خوشی ہوگی۔

کرشمہ ساز ہیں اندازِ گیسو

$
0
0

بال خواتین کی خوب صورتی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لمبے اور خوب صورت بال ہر خاتون کا خواب ہوتے ہیں، لیکن اگر آپ کے بال لمبے نہیں ہیں تو پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں، نرم ملائم، چمک دار بال چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں، اگر انہیں مناسب انداز سے سیٹ کیا جائے تو وہ بھی بے حد حسین لگتے ہیں۔

بالوں کی بہترین صحت کے لیے ان کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ مختلف طریقوں سے بال بنانا بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ بعض خواتین بال کھلے رکھنا پسند کرتی ہیںِ، جب کہ اس کے ساتھ بعض خواتین بالوں کو مختلف انداز میں گندھوانے کو بھی پسند کرتی ہیں۔ جس میں جوڑا بنانا سرفہرست ہے۔ زیر نظر تصاویر میں ہماری ماڈلز نے بھی مختلف انداز کے جوڑوں کو اختیار کیا ہے، جو دیکھنے والی آنکھوں کو خاصے بھلے معلوم ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ہماری شخصیت کو ایک اچھوتا تاثر بھی دیتے ہیں۔

بال چاہے کسی بھی قسم کے ہوں اگر انہیں مناسب انداز میں سیٹ نہ کیا جائے تو بہترین سے بہترین میک اپ بھی آپ کو پرکشش نہیں بناسکتا۔ بال خواتین کی شخصیت کو یکسر تبدیل کردیتے ہیں اگر بہترین میک اپ اور خوب صورت ، قیمتی لباس زیب تن کرنے کے بعد کس کر چٹیا بنالی جائے تو وہ بے قیمت لگے گا، لہٰذا چہرے کی ساخت اور بناوٹ کے لحاظ سے ہیئر سٹائل کا انتخاب آپ کے حسن کو چارچاند لگادے گا۔

کچھ خواتین کا چہرہ بالکل گول ہوتا ہے، کچھ کا لمبا، بعض خواتین بیضوی چہرے کی حامل ہوتی ہیں اور بعض چوکور۔ اس لیے سب سے پہلے تو اس بات کا تعین کرنا بے حد ضروری ہے کہ آپ کے چہرے کی بناوٹ کیسی ہے ۔ اس کے بعد اختیار کیے جانے والے ہیئر اسٹائل آپ کے حسن کو چار چاند لگادے گا۔

مود ی کے ’’زعفرانی‘‘ دعوؤں کی قلعی کھل گئی

$
0
0

بھارت میں گزشتہ ہفتے لوک سبھا (پارلیمنٹ) کی تین اور ریاستی اسمبلیوں کی 33 خالی نشستوں پر ہونے والی پولنگ کے نتائج کو حیران کن قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ نتائج قطعی طور پرحیران کن نہیں بلکہ توقع کے عین مطابق ہیں۔

دس ریاستوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) پوری زورآزمائی کے باوجود صرف 12سیٹیں حاصل کرسکی اور 18 نشستیں دوسری پارٹیاں جیت گئیں۔ چار ماہ قبل ہونے والے عام انتخابات میں اس وقت کی حکمراں جماعت کانگریس اور اس کی اتحادی سماج وادی پارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن ضمنی انتخابات میں ان دونوں جماعتوں کی خاص تیاری نہ ہونے کے باوجود ان کی پوزیشن کافی حد تک بہتر ہوئی ہے۔

بی جے پی کو سب سے زیادہ موثر دھچکا جماعت کا گڑھ سمجھی جانے والی ریاست گجرات میں لگا ہے جہاں مودی کی جماعت نو میں سے صرف چھ سیٹیں حاصل کرسکی اور تین نشستیں کانگریس کو ملیں جبکہ پہلے یہ تین سیٹیں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس تھیں۔ اسی طرح ریاست راجستھان میں اسمبلی کی چار میں سے تین پرکانگریس کامیاب ہوئی اور بی جے پی کو ایک پراکتفا کرنا پڑا، البتہ مغربی بنگا ل سے بی جے پی نے ایک سیٹ حاصل کرلی ہے۔ پچھلے انتخابات میں وہاں سے جنتا پارٹی ہارگئی تھی۔ ضمنی انتخابات میں ریاستی اسمبلیوں کی مجموعی طورپر33 خالی نشستوں پر پولنگ کرائی گئی۔ ان میں اترپردیش کی گیارہ، گجرات کی نو،شمال مشرقی ریاستوں کی 5، راجستھان کی 4، چھتیس گڑھ میں ایک اور مغربی بنگال میں 2 نشستیں تھیں۔ ان میں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو12، سماج وادی پارٹی کو 8 اور کانگریس کو 7 سیٹیں ملیں، باقی نشستیں دوسری پارٹیوں نے جیت لیں۔

لوک سبھا کی جن تین خالی سیٹوں پر پولنگ ہوئی ان میں بڑودا کی نشست پر بی جے پی کو کامیابی ملی ہے اور یہ سیٹ وزیراعظم نریندر مودی نے خالی کی تھی۔تاہم اس بار جیت کا فرق کافی کم ہوگیا ہے۔ پارلیمنٹ کی ایک سیٹ سماج وادی پارٹی اور ایک تلنگانہ کی راشٹریہ سمیتی کے حصے میں آئی۔

جہاں تک بھارت میں ہوئے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج اور ان کے اسباب ومحرکات کا سوال ہے تو یہ کوئی غیرمتوقع نتیجہ نہیں تھا۔ عام انتخابات سے قبل نریندری مودی صاحب اور ان کے ’’نورتنوں‘‘ کی جانب سے جس سطح کے بلندبانگ دعوے اور وعدے کیے گئے تھے حکومت بننے کے بعد ان کا عشر عشیر بھی عمل میں نہیں لایا جاسکا ہے۔گوکہ کسی بھی حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا معیار معلوم کرنے کے لیے اس کی 100دن کی کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے تاہم کسی بھی حکومت کے پہلے سو دن یہ پیشن گوئی ضرور کردیتے ہیں کہ آنے والے ایام کیسے ہوں گے اور حکومت مزید کیا تیر مارسکتی ہے۔

نریندر موودی کی حکومت کے پہلے سو دنوں کی کارکردگی رپورٹس بھی مختلف اداروں کی جانب سے تیار کی گئیں اور ان میں حکومت کی ناکامیوں اور کامیابیوں کے تذکرے کھلے ڈلے انداز میں کیے گئے ہیں۔ ان میں ایک بات مشترک ہے ، وہ یہ کہ مودی حکومت اپنے دعووں اور وعدوں کے برعکس ترقی معکوس کی طرف بڑھ رہی ہے۔

غربت کی سطح کم کرنا،کسانوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنا، بے گھر لوگوں کو رہائش کی فراہمی میں مدد کرنا، روزگا ر کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنا، معیشت کو پٹری پرلانا،انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک سونامی اٹھا دینا، ملک کو ایمپوٹر سے ایکسپورٹر کی طرف لے کر جانا، بلٹ ٹرین چلانا وغیرہ وغیرہ ۔ ہر چند کہ ان کے دعووں کی ایک طویل فہرست ہے جسے احاطہ تحریر میں لانے کے لیے کئی صفحات چاہئیں، لیکن حکومت کے وہ تمام دعوے اور وعدے کم ازکم اب تک نقش برآب ثابت ہوئے ہیں، جن کا عملًا کوئی وجود تک نہیں ہے۔

انتخابی نتائج کو چونکہ نریندر موودی اوران کی جماعت کی بدترین شکست سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ صرف چارماہ قبل بڑے طمطراق کے ساتھ ریاستی اور قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے والی جماعت اتنی تیزی سے زوال کا شکار کیوں ہوئی ہے۔ بھارت کے ایک کثیرالاشاعت اردو اخبار’’انقلاب‘‘ کو ’’مودی کے زعفرانی غرور کا سرنیچا‘‘ کے الفاظ سے سرخی کیوں جمانا پڑی۔ اس کی بنیادی وجہ حکمران جماعت کا ٹریک ریکارڈ کہ اس کے نزدیک کوئی قابل عزت ہے تو وہ صر ف ہندو ہیں اور مسلمان تمام دہشت گرد ہیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بی جے پی کا ماضی مذہبی منافرت پھیلانے کے الزامات سے داغدار رہا ہے۔ حکومت بننے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ مودی صاحب گجرات کے واقعات کی اپنے دامن پرلگی سیاہی دھونے کی مقدور بھر کوشش کریں گے لیکن ان کی پوری ٹیم نے ہندو مسلم منافرت کو ہوا دینے کے مزید ایسے ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کیے جس کے نتیجے میں ان کے خلاف بیدای نہیں بلکہ ’’بیزاری‘‘ کی لہر پیدا ہوئی ہے۔ مثال کے طور پرجنتا پارٹی کے’’لو جہاد‘‘ ہی کے نعرے کو لیجیے۔

یہ نعرہ دراصل بھارت میں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند ہندؤں کے ووٹ متحد کرنے کی ایک سیاسی کوشش سہی مگر اس کے منفی اثرات تادیر باقی رہیں گے۔ بی جے پی نے اس نعرے سے بھی سبق نہیں سیکھا حالانکہ ’’لوجہاد‘‘ نامی منافرت پرمبنی مہم کا مقصد ضمنی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ہندوؤں کی وفاداریاں حاصل کرنا تھا، لیکن نتائج اس کے برعکس رہے ہیں۔ گویا نریندر مودی اور ان کے نورتن اب بھی بھارت میں ہندو مسلم فسادا ت کو ہوا دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

بھارتی میڈیا نے بھی حکومت کے اس منافقانہ طرز عمل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں نریندرمودی اور ان کی جماعت کے عمائدین کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ سیاست کی آڑمیں ملک کے سیکولر ڈھانچے کوختم کرنے کی کوشش نہ کریں۔’’لوجہاد‘‘ نامی مہم کے باوجود بھارتی عوام نے ضمنی انتخابات میں شعور اور آگہی کا مظاہرہ کیا ہے اور انہوں نے فرقہ واریت کی حمایت کے بجائے بھارت کے سیکولر نظام کی حمایت کی ہے۔

مبصرین جہاں نریندر مودی کی معدودے چند کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہیں، جس میں خاص طورپر ان کی چین اور جاپان جیسے ممالک کے ساتھ قربت بھی شامل ہے، وہیں ان کی اب تک کی ناکامیوں کی ایک تفصیل بھی بیان کرتے ہیں۔ مودی کے پہلے ایک سو دنوں کے دوران ملک میں مذہبی منافرت میں اضافہ ہوا، غربت کا گراف اونچا ہوگیا اور حد یہ ہے کہ نئی دہلی اور دیگر مرکزی شہروں میں گھر بار سے محروم افراد کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک موقر بھارتی روزنامہ کی رپورٹ کے مطابق نریندر مودی کی حکومت سے قبل نئی دہلی کے فٹ پاتھوں پر اگر دس افراد رات کھلے آسمان تلے بسرکرتے تھے تواب یہ تعداد چالیس سے پچاس تک جا پہنچی ہے۔ ہوسکتا ہے اس دعوے میں مبالغہ ہو مگر کیا یہ مودی حکومت کی بدترین ناکامی کا نقطہ آغاز نہیں ہے؟

یہ درست ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد کسی حد تک اپنی زبان کو بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور ان کے اہم ساتھی بھی خاموش ہیں، مگر کیا ان کی پارٹی کی دوسری اور تیسری درجے کی قیادت اور کارکن بھی اعتدال پسندانہ پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔ مودی جی کی جماعت کو اسی وجہ سے سخت تنقید کا سامنا ہے کہ ان کی صف اول کی قیادت خاموش اور دوسری اور تیسری صف کے لوگ نفرت پھیلانے میں مسلسل سرگرم عمل ہیں۔

عراق اور شام پر امریکا کی نئی یلغار کی تیاری

شام اور عراق کے کم و بیش 90 ہزار مربع کلو میٹر رقبے پردولت اسلامی ’’داعش‘‘ نامی ایک انتہا پسند گروپ کے قبضے اور ایک خود ساختہ اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دنیائے عرب بالخصوص شورش کاشکار دونوں پڑوسی ملک(عراق اور شام) امریکا اور اس کے عالمی اتحادیوں کی قیادت میں ایک نئی جنگ کا سامنا کرنے جا رہے ہیں۔

خلیجی ممالک، یورپ اور امریکا نے’’داعش‘‘ کو عالمی سلامتی کے لیے اسی طرح خطرہ قراردیا ہے جس طرح سنہ 2001ء میں امریکا میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد اسامہ بن لادن کی قائم کردہ القاعدہ کو اور سنہ 2003ء میں عراق کے صدرصدام حسین اور اس کے مبینہ اسلحہ کے ذخائر کو دنیا کے لیے نہایت مہلک قرار دے کر ان کے خلاف افغانستان اورعراق میں جنگ مسلط کی گئی تھی۔

جہاں تک داعش کی شدت پسندانہ سرگرمیوں اور اپنے نظریاتی مخالفین کے بہیمانہ انداز میں قتل عام کا تعلق ہے تو اسے کوئی بھی باشعور مسلمان قبول نہیں کر سکتا۔ داعش نے اپنی فتوحات میں تیزی کے ساتھ ڈرامائی انداز میں اضافہ کیا ہے تو یہ شائد اس تنظیم کی شدت پسندانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ داعش کا ٹڈی دل لشکر جس علاقے میں گھستا ہے وہاں کے باشندے حتیٰ کہ پیشہ ور فوج کے بھی ہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔ اس کی مثالیں عراق، شام اور لبنان کے سرحدی علاقوں میں ہونے والی لڑائیوں میں بہ کثرت ملتی ہیں۔ داعش کا یہ طریقہ واردات نہ صرف قابل مذمت بلکہ اسلامی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

اس تنظیم سے وابستہ مبلغ دین حنیف میں کھلے عام تحریف کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ من گھڑت احادیث کے ذریعے اپنی ناجائز کارروائیوں کو بھی عین اسلامی تعلیمات کا لبادہ اوڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ داعش جیسے لوگوں کے خلاف کارروائی پہلے تو مسلمان ممالک کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے بہت سے مسلمان ممالک محض اپنے علاقائی مفادات کی خاطر اس قماش کے بدمعاش گروپوں کی نشوو نما میں حصہ بقدر جثہ تعاون فراہم کرتے ہیں۔ یہ مسلم دنیا کی ناکامی ہے کہ وہ اپنے مسائل کے خود حل کے بجائے امریکا اور مغرب کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت ہی نہیں بلکہ گاہے بگاہے جنگ کی بھی دعو ت دیتے ہیں۔

عراق کے سابق وزیراعظم نوری المالکی نے پچھلے سات سال تک عراق میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکائے رکھی۔ داعش جیسے عناصر اسی فرقہ واریت کی جنگ کا نتیجہ ہے۔ مسلم دنیا شیعہ اور سنی کے بلاکوں میں منقسم رہی اور کسی نے تباہی کے دھانے پر کھڑے عراق کو بچانے کی کوشش نہ کی۔ اس سے بھی بدتر صورت حال سنہ2011ء میں شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف عوامی بغاوت کے بعد شروع ہوئی۔ شام کی خانہ جنگی نے بڑے مسلمان ممالک کو مختلف بلاکوں میں واضح طورپر تقسیم کردیا۔ ایران نے شامی بغاوت کی کھل کرمخالفت اور سعودی عرب اور دیگرخلیجی ملکوں نے بغاوت کو انقلاب قراردیا۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان پائے جانے والے تضادات نے شام کا مسئلہ توحل نہ ہونے دیا البتہ اس کے نتیجے میں شام میں داعش اور النصرہ فرنٹ جیسے گروپوں کو جنم دیا۔ اب یہ گروپ عراق اور شام کے بعد دوسرے عرب ممالک حتیٰ کہ یورپ اور امریکا تک کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ یہ خطرہ کس حد تک حقیقی ہے اس پرالگ سے تفصیل سے بات ہونی چاہیے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس گروپ میں غیر مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان حتیٰ کہ نو مسلم بھی شامل ہو رہے ہیں۔ یور پ اور امریکا کی یہی سب سے بڑی پریشانی ہے۔

اسی پریشانی کی آڑمیں امریکا نے اپنے اتحادیوں سے مل کر داعش کو انجام سے دوچار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔آج سے تیرہ سال پیشتر امریکا اور اس کے حامیوں نے اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ القاعدہ کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ کئی سال گزرجانے کے باوجود القاعدہ کا بھوت ابھی تک اپنی جگہ نہ صرف موجود ہے بلکہ وہ اپنے رنگ و روپ بدل بدل کرسامنے آ رہا ہے۔

دولت اسلامی اس کی ایک زندہ مثال ہے۔ القاعدہ کو ٹھکانے لگانے کی آڑ میں عراق افغانستان، پاکستان اور دوسرے ملکوں میں پچھلے تیرہ سال میں سات لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں۔ شام اور عراق میں داعش کا تعاقب کرنے کے بہانے نہ معلوم مزید کتنے معصوم انسان اپنی جانوں سے گزریں گے۔ امریکا کے پاس جنگ کے ہزار جواز موجود ہیں لیکن مسلمانوں کے پاس اس جنگ کو روکنے اور اپنی شکست تسلیم کرنے کا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔

ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک امریکا شام اور عراق میں باضابطہ اور منظم حملہ شروع کردے اور مغربی دنیا کی قیامت خیز جنگی بلائیں معصوم مسلمانوں کا خون چوسنا شروع کردیں۔ معصوم اس لیے کہ گوریلا گروپوں کے خلاف فضائی حملے چاہے جس نوعیت کے بھی ہوں وہ بہرحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتے اور ان حملوں کا بے گناہ لوگ نشانہ بنتے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دوسرے خلیجی ملکوں نے داعش کے خلاف امریکی جنگ میں معاونت کا اعلان کیا ہے کاش یہ ممالک ایسے گروپوں کی روک تھام کے لیے امریکی سہارے کے بغیر کوئی قدم اٹھا سکیں۔


عالمی تنازعات؛ امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے میں رکاوٹ

$
0
0

انسان اکیلا رہ نہیں سکتا اور اکٹھا رہتا ہے تو آپس میں جھگڑتا ہے۔ انسانی فطرت کا یہ انوکھا امتزاج دنیا میں تشدد کے فروغ اور امن کو تہہ وبالا کرنے میں ابتدا سے ہی کار فرما رہا ہے۔

ملکیت کا حصول اسے برقرار رکھنے کی کوشش اور اپنی برتری کے اظہار نے انسان کو ہمیشہ تشدد کی راہ دکھائی اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ معاشی، مذہبی، لسانی، تہذیبی اور سیاسی عوامل کی بنیاد پر ہونے والے تنازعات نے سرحدوں کے اندر اور سرحدوں کے باہر مسلح تصادم اور جنگوں کے بہت سے دلخراش واقعات رقم کئے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔امن کو سبوتاژ کرنے والا ہر انسانی رویہ اور عمل چاہے وہ سرحدوں کے اندر شورش برپا کرے یا سرحدوں کے باہر جارحیت کا باعث بنے ہمیشہ سے قابلِ مذمت اور قابلِ گرفت رہا ہے۔ اور ایسے ہر عمل کی فوری روک تھام اور تنازعات کے مذاکرات کے ذریعے تصفیہ کے لئے دنیا بھر میں مختلف ادارے اور فورمز کی بنیاد ڈالی گئی جن میں لیگ آف نیشن اور اقوامِ متحدہ قابلِ ذکر ہیں۔

لیگ آف نیشن اپنے قیام کے مقاصد کے عدم حصول کے باعث اپنی موت آپ مرگئی جبکہ اقوامِ متحدہ (جس کے تحت ہر سال 21 ستمبر کو امن کا عالمی دن منایا جاتا ہے ) بعض طویل عرصہ سے موجود تنازعات (مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین) کے حل میں ناکامی کے ساتھ ساتھ بعض تنازعات ( مشرقی تیمور، سوڈان) کے حل میں جانبدارانہ تیزی کے ساتھ دنیا میں امن کے قیام کے لئے سرگرم عمل ہے۔

دنیا میں موجودہ تنازعات کا حل منتج ہے امن پر۔ اس کی ایک بڑی واضح مثال سری لنکا میں تامل ٹائیگرز اور سرکاری افواج کے مابین سالہاسال سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ اور امن کا قیام ہے۔ دنیا میں سرد جنگ کے اختتام پر تنازعات اور تشدد کے واقعات میں کمی کی امید کی جا رہی تھی۔ لیکن 9/11 کے واقعہ نے دنیا کو ایک نئے چیلنج دہشت گردی سے متعارف کروادیا ہے۔ جس کی روک تھام کے سلسلے میں ہونے والے اقدامات (ردعمل ) نے دنیا کو پُر امن بنانے کی بجائے مزید بے امن کر دیا ہے۔ اور پاکستان، افغانستان اور عراق اس ردعمل ( دہشت گردی کے خاتمہ) کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔

امریکا کے نیشنل کائو نٹر ٹیرر ازم سینٹر کے اعداد وشمار کے مطابق 2005 سے 2011 تک دنیا بھر میں دہشت گردانہ کاروائیوںکے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا آدھے سے زائد حصہ عراق، افغانستان اور پاکستان میں ہونے والی ہلاکتوں پر مشتمل تھا۔ 2005 میں دنیا بھر میں دہشت گردی کے باعث ہونے والی 64 فیصد ہلاکتیں ان تینوںممالک میں ہوئیں۔ 2006 میں یہ تناسب بڑھ کر 74 فیصد ہو گیا۔ 2007 میں اس تناسب میں مزید اضافہ ہوا اور یہ 77 فیصد تک جا پہنچا جبکہ 2008 میں یہ کم ہوکر 59 فیصد پر آگیا لیکن اُس کے بعد اس تناسب میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا گیا اور یہ 2011 تک 68 فیصد تک پہنچ گیا۔

دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ نے پاکستان کو دہشت گردی کے جس آسیب کا شکار بنایا ہے۔ اس عفریت نے 2003 میں 189 افراد کو لقمہ اجل بنایا جبکہ 2013 میں اس کے شکنجے میں4160 افراد آئے۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسڈیز اسلام آباد کے ریسرچ پیپر ’’ امپیکٹ آف ٹیررازم آن پاکستان ‘‘ کے ان اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ عرصہ کے دوران پاکستان میں دہشت گردی سے وابستہ اموات میں 2101 فیصد اضافہ ہوا۔ ان اموات میں اضافہ کی بڑی وجہ امریکی ڈرون حملے اور افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے قریب بھارت کے بڑی تعداد میں قائم ہونے والے قونصل خانے ہیں جو پاکستان کے امن کو تہہ و بالا کرنے کا موجب بنے اور بن رہے ہیں۔

مستقبل کا یہ امکانی منظر نامہ قابلِ بحث ہو سکتا ہے۔ لیکن ماضی سے حال تک امن کے قیام اور اس کو تہہ و بالا کرنے کا سفر حقیقت کا حامل ہے۔ جو اس پہلو کو عیاں کر رہا ہے کہ ماضی کی طرح اس وقت بھی دنیا کے امن کو نقصان پہنچانے والے تنازعات موجود ہیں۔ جو 2013 کے دوران 20 جنگوں، 25 محدود جنگوں اور 176 تشدد پر منتج ہونے والے بحرانوں کی صورت میں ظہور پذیر ہوچکے ہیں۔

جرمنی کے Heidelberg انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل کانفلیکٹ ریسرچ کے جاری کردہ کانفلیکٹ بیرو میٹر 2013 کے یہ اعدادو شمار اور غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت، روس یو کرائن تنازعہ، شام، عراق اور پاکستان کی اندرونی سکیورٹی کی صورتحال، پاکستان بھارت سرحد پر بھارت کی اشتعال انگیزی پر مبنی جارحانہ اقدامات، پاکستان افغانستان سرحد پر افغانستان کی جانب سے غیر ریاستی عناصر کی دہشت گردانہ کاروائیاں، افریقہ کے مختلف ممالک میں خانہ جنگی، نسل کشی اور قتلِ عام کے واقعات وغیرہ پُر امن دنیا کے خواب کو چکنا چور کر رہے ہیں۔

اس تمام صورتحال میں ایک طرف جنگی طاقت میں اضافہ کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں تو دوسری طرف جارحیت کے خطرات کے دفاع کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اندرونی سکیورٹی بہتر کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ تو عسکریت پسند اپنے عزائم کو پورا کرنے کا سامان حاصل کرنے کی سعی بھی کر رہے ہیں۔ یہ تمام صورتحال اسلحہ کے زیادہ سے زیادہ حصول کے سلسلے میں اس کی دھڑا دھڑ خرید پر آکر ٹھہرتی ہے۔

عالمی امن پر کام کرنے والے بین الاقوامی تھنک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری)کے مطابق2011 میں دنیا میں 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں ( چین کی کمپنیوں کے علاوہ) نے 410 ارب ڈالر مالیت کا بھاری اسلحہ فروخت کیا۔ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے ڈیپارٹمنٹ آف پبلک انفارمیشن کے مطابق دنیا میں ہر سال 04 ارب ڈالر مالیت کے ہلکے ہتھیار فروخت ہوتے ہیں۔ 410 ارب ڈالر مالیت سے زائد اسلحہ سازی کی یہ صنعت کیا دنیا میں تنازعات کوختم ہونے دے گی؟ یہ ایک غور طلب سوال ہے کیونکہ جو ممالک دنیا میں اس وقت امن کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔

ان ہی ممالک کی اسلحہ ساز کمپنیاں دنیا بھر میں اسلحہ کی فروخت سے اپنے ممالک کو معاشی توانائی مہیا کر رہی ہیں۔  SIPRI کے اعداد و شمار اس پہلو کی پردہ کشائی یوں کرتے ہیں کہ 2008 سے 2012 تک دنیا میں فروخت ہونے والے اسلحہ کی کل مالیت کا 30 فیصد امریکی کمپنیوں نے کمایا جبکہ 26 فیصد اسلحہ کی عالمی کمائی روس کی کمپنیوں کے حصہ میں آئی۔ جرمنی نے اس عرصہ کے دوران اسلحہ کی فروخت سے دنیا کی تیسری بڑی مالیت حاصل کی جو عالمی فروخت کا 7 فیصد تھی۔

اس کے علاوہ فرانس، چین،برطانیہ، اسپین، اٹلی، یوکرائن اور اسرائیل یہ اُن دس ممالک کی فہرست ہے جنہوں نے 2008 سے 2012  کے دوران سلحہ کی فروخت کی عالمی مالیت کا مجموعی طور پر 87 فیصد حاصل کیا۔ ان ممالک میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے وہ تمام مستقل ارکان موجود ہیں جو دنیا میں قیام امن کے مقاصدکو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں جو ایک طرف امن کی بات کرتے ہیں تودوسری طرف امن کو برباد کرنے والے ہتھیاروں کی فروخت میں مصروف ہیں یعنی بغل میں چھری منہ میں رام رام۔ اسی طرح 2009 سے 2013 کے دوران امریکا، روس، جرمنی، چین اور فرانس ان پانچ بڑے اسلحہ بر آمد کنندگان نے عالمی مارکیٹ کا 74 فیصد حصہ کمایا۔

اسی سکیورٹی کونسل کی مستقل رکنیت کے حصول میں مصروف بھارت اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے اپنی جنگی قوت میں مسلسل اضافہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کی وجہ سے اُس نے 2008 سے 2012 کے دوران اسلحہ کی سب سے زیادہ مالیت کی خریداری کی جو دنیا میں فروخت ہونے والے اسلحہ کا 12 فیصد حصے پر مشتمل تھی۔ دوسری بڑی خریداری چین کی تھی جس نے مذکورہ عرصہ کے دوران 6 فیصد عالمی اسلحہ درآمد کیا۔ پاکستان عالمی سطح پر اسلحہ کی درآمد کے حوالے سے 5 فیصد حصہ کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔ پاکستان کی اس خریداری کی بنیادی طور پر دو بڑی وجوہات باعث بنیں۔

ایک تو ملک کی اندرونی سکیورٹی کو دہشت گردوں کی صورت میں درپیش چلینجز اور دوسری بھارت کا بڑھتا ہوا جنگی جنون ۔کیونکہ یہ امر روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت اسلحہ کے جو ڈھیر لگانے میں مصروف ہے اس کا پہلاہدف پاکستان دوسرا خطہ میں اپنی دھونس اور بالا دستی قائم کرنا اور تیسرا ہدف ایک بڑی فوجی قوت کی صورت میں ابھرنا ہے۔ بھارت کے یہ جارحانہ عزائم پاکستان کو اپنے اندرونی اور بیرونی دفاع کے لئے ہر ممکن انتظام کرنے کے حوالے سے چوکس کئے ہوئے ہیں۔

بھارت، چین اور پاکستان کے علاوہ 2008 سے 2012 کے دوران جن دیگر ممالک نے سب سے زیادہ مالیت کا اسلحہ خریدا ان میں بالترتیب جنوبی کوریا، سنگاپور، الجیریا، آسٹریلیا، امریکا، متحدہ عرب عمارات اور سعودی عرب شامل ہیں۔ ان 10 ممالک نے مجموعی طور پر مذکورہ عرصہ کے دوران عالمی سطح پر فروخت ہونے والے اسلحہ کا نصف حصہ درآمدکیا۔ اگر ہم 2009 سے 2013 کے دوران دنیا میں اسلحہ کے پانچ بڑے درآمد کنندگان کی فہرست پر نظر ڈالیں۔ تو بالترتیب بھارت، چین، پاکستان، متحدہ عرب عمارات اور سعودی عرب اس فہرست میں موجود ہیں ۔ ان پانچ ممالک نے مذکورہ عرصہ کے دوران عالمی سطح پر درآمد شدہ اسلحہ کا 32 فیصد حصہ (مالیت کے حوالے سے) حاصل کیا۔

بھارت کی اسلحہ خریداری میں 2004  سے 2013 تک 111 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اور اس عرصہ کے دوران بھارت نے عالمی سطح پر ہونے والی اسلحہ کی درآمدات کا 14 فیصد حاصل کیا جو پاکستان اور چین سے تقریباً تین گنا زائد ہے۔ یوں اس وقت بھارت دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ بھارت اپنے اسلحہ کی درآمدات کا 75 فیصد روس، 7 فیصد امریکا اور  6 فیصد اسرائیل سے حاصل کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان اپنے اسلحہ درآمد کا 54 فیصد چین اور  27 فیصد امریکا سے لیتا ہے۔ پاکستان کا 2004  سے  2008 اور 2009   سے 2013 کے عرصہ میں اسلحہ درآمدات میں119  فیصد اضافہ ہوا۔

دنیا میں اسلحہ کی تیاری اور حصول کا آخر کار نتیجہ انسانی ہلاکتوںاور انفاسٹرکچر کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 1989  سے اب تک دنیا میں 128  مسلح تصادم نے ہر سال کم ازکم اڑھائی لاکھ افراد کی جانیں لیں۔ جبکہ تنازعات سے مبرا علاقوںمیں ہتھیاروں کا استعمال ہر سال 3 لاکھ افراد کو موت کی آغوش میں سلا دیتا ہے۔ یہی ہتھیار تشدد کے واقعات میں استعمال ہوتے ہیں اور لوگوں کی اموات اور اُنھیں زخمی کرنے کا موجب بنتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار سے مرتب کردہ تشدد کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی عالمی درجہ بندی میں گوٹیمالہ سرفہرست ہے۔ جہاں تشدد کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 74.9  اموات فی لاکھ آبادی ہے۔ اس فہرست کے پہلے دس ممالک میں زیادہ تر کا تعلق افریقہ کے خطے سے ہے۔ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں نیپال 10.4  اموات فی لاکھ کے ساتھ خطے میں سر فہرست اور دنیا میں 73 ویں نمبر پر ہے۔ جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش دوسرے، بھوٹان تیسرے، پاکستان چوتھے، بھارت پانچویں، سری لنکا چھٹے، افغانستان ساتویں اور مالدیپ آٹھویں نمبر پر ہے۔

تشدد، مسلح تصادم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں یہ سب کچھ امن کے متضاد عوامل ہیں۔ جن کی وجہ سے ایک اور انسانی المیہ سرحدوںکے اندر اور سرحدوں کے باہر ہجرت کی صورت میں جنم لیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق دنیا میں ایک کروڑ 67 لاکھ مہاجرین اپنے ممالک کو چھوڑ کر دیگر ملکوں میں زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی دنیا میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعدادکی میزبانی کر رہا ہے اور اب ملک میں آئی ڈی پیز کی بھی تعداد قابلِ ذکر ہے۔ جو جون 2014 تک IDMC کے مطابق 11 لاکھ 50 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اگر امن اسلحہ کے استعمال سے خراب ہوتا ہے تو اُس کی بحالی اور اس کا قیام بھی اسلحہ کے استعمال اور اُس کی موجودگی ہی سے ممکن ہے۔ شاید یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ جتنی رقم دنیا بھر میں فوجی ضروریات اور انتظامات پرخرچ کی جاتی ہے۔ اس کا اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر حصہ بھی اگر تعلیم، صحت، خوراک ، پینے کے صاف پانی اور سینی ٹیشن جیسی بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی پر خرچ کیا جائے تو شاید 1747 ارب ڈالر مالیت کے فوجی اخرجات کی نوبت ہی نہ آئے۔دنیا کو بسانے اور اُجاڑنے کے اخراجات کا موازنہ اس امر کی زیادہ بہتر وضاحت کرتا ہے۔

2010 میں اقوامِ متحدہ نے ترقیاتی اور انسانی فلاح وبہبود اور امداد پر 24 ارب ڈالر خرچ کئے۔ یہ رقم دنیا میں انسانی ترقی کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے یقیناً کم ہے۔ اقوام متحدہ نے 2020 تک بنیادی سماجی ضروریات کی یونیورسل کوریج کے حصول کے لئے 206 سے 216 ارب ڈالر سالانہ ضرورت کی نشاندہی کی ہے۔ لیکن جو عالمی برادری اپنی فلاح کے لئے اقوامِ متحدہ کو فنڈز اُس کی ضرورت کے مطابق آج بھی مہیا نہیں کرتی وہ کس طرح 2020 کے ترقیاتی اہداف کے حصول کے لئے اس کی مالی ضروریات پورا کرے گی؟ اس کے برعکس دنیا کے معاشی وسائل کا ایک بڑا حصہ فوجی اخراجات پر ہر سال صرف کیا جاتا ہے۔ جس کی مالیت 2013 میں 1747 ارب ڈالر تھی۔

جنوبی ایشیاء کے چھ ممالک جو سارک تنظیم کے ارکان ہیں۔ ان ممالک نے 2013 کے دوران 60231 ملین ڈالر فوجی اخراجات کئے۔ خطے کی سطح پر بھارت فوجی اخراجات کے حوالے سے سرفہرست رہا جبکہ پاکستان دوسرے، سری لنکا تیسرے، بنگلہ دیش چوتھے، افغانستان پانچویں اور نیپال چھٹے نمبر پر رہے۔ خطے میں 1992  سے 2011 تک فوجی اخراجات میں مسلسل اضافہ جاری رہا جس کے بعد 2011 سے 2012 کے دوران اس میں کمی ہوئی لیکن اگلے سال اس میں پھر اضافہ ہوا۔

گزشتہ عشرے (2004-13 ) میں ہونے والے اضافہ کی ایک وجہ افغانستان کے فوجی اخراجات کا آغاز اور اس میں مسلسل اضافہ ہے۔ افغانستان دنیا کے اُن 23  ممالک میں اس عرصے کے دوران اول نمبر پر رہا جنہوں نے اپنے فوجی اخراجات میں دگنا سے لے کر چھ گنا تک اضافہ کیا۔ 557 فیصد کا اضافہ افغانستان کے ملٹری بجٹ میں 6 گنا اضافہ کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اور 2012-13 کے دوران دنیا بھر میں سب سے زیادہ انفرادی فیصد اضافہ بھی افغانستان کے فوجی اخراجات کیصورت میں سامنے آیا۔ جہاں ایک سال کے دوران ان اخراجات میں 77 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

دنیا میں ایک سال کے دوران فوجی اخراجات میں 26 فیصد اضافہ عالمی سکیورٹی کی صورتحال کی واضح نشاندہی کر رہا ہے کیونکہ کئی پرانے تنازعات کی موجودگی میں نئے تنازعات بھی جنم لے رہے ہیں جو حال سے مستقبل تک عالمی امن کو متاثر کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان تنازعات میں پاک بھارت آبی تنازعہ نہایت اہم ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستانی دریائوں پر ڈیموں کی تعمیر نے اس تنازعہ کی بنیاد ڈالی اور پاکستان کے پانی کو روکنے اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے سیلابی پانی چھوڑنے کے واقعات اس تنازعہ کی شدت میں اضافہ کر رہے ہیں۔

اسی طرح ISIS اور داعش کی صورت میں ابھرتے چیلنجز بھی مستقبل میں عالمی سکیورٹی کے لئے کسی آزمائش سے کم نہ ہوں گے۔ اس کے علاوہ اور بہت سے تنازعات کا بیج بویا جا رہا ہے۔ اور جب ان کی فصل پکے گی تو عالمی امن کی کیا صورتحال ہوگی۔ اس کی ایک جھلک پولیٹیکل سائنٹسٹ James G. Blight  اور سابق امریکی ڈیفنس سیکرٹری  Robert McNamara  کی اس پیش گوئی سے واضح ہوتی ہے کہ اکیسویں صدی میں دنیا بھر میں جنگوں سے وابستہ اموات کی تعداد اوسطً30  لاکھ سالانہ تک ہو سکتی ہے۔

امن کی بربادی نام ہے ڈر اور خوف کا اور انسان میں ڈر اور خوف کا مادہ ہی اسے اپنی اصلاح کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ ماضی سے سبق سیکھنا اور مستقبل میں ان غلطیوں کو دوہرانے سے بچنا ہی دانشمندی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ انسان پھر بھی نہیں سمجھتا اور اپنی تخریب کا سامان کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے۔

لذتیں بقرعید کی

$
0
0

توا قیمہ

اجزا :
بکرے کا قیمہ (چار سو گرام)
تیل (ایک چوتھائی پیالی)
ادرک (ایک کھانے کا چمچا)
لہسن (دو کھانے کے چمچے)
کتری ہوئی پیاز (آدھی پیالی)
کلیجی (دو سو گرام)
ٹماٹر (ایک عدد)
نمک (ایک چائے کا چمچا)
پسی ہوئی لال مرچ (ایک چائے کا چمچا)
ہلدی (ایک چوتھائی چائے کا چمچا)
گرم مسالا (ایک چائے کا چمچا)
قصوری میتھی (ایک کھانے کا چمچا)
ہری مرچ (ایک چوتھائی پیالی)
ہرا دھنیا (ایک چوتھائی پیالی)

ترکیب:سب سے پہلے توے پر تیل گرم کرکے ادرک، لہسن، پیاز اور بکرے کا قیمہ تل لیں۔ جب قیمہ کچاپکا ہو تو کلیجی ڈال دیں اور ساتھ ہی ٹماٹر، نمک، لال مرچ اور ہلدی ڈال دیں اور بھونتے جائیں۔ ضرورت پڑنے پر حسب ضرورت پانی استعمال کریں۔ جب قیمہ اور کلیجی اچھی طرح پک جائیں، تو کلیجی کو چمچے کی مدد سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر لیں۔ اب اسے اچھی طرح ملا لیں۔ آخر میں گرم مسالا، قصوری میتھی اور ہری مرچ ڈال کر ملا لیں۔ اب ڈش میں نکال کر ہرا دھنیا چھڑک کر نوش کریں۔

تلے ہوئے گولا کباب
اجزا:
قیمہ (آدھا کلو)
پیاز (چار عدد) تلی ہوئی
کچا پپیتا (ایک چائے کا چمچا)
جاوتری (ایک چوتھائی چائے کا چمچا)
جائفل (ایک چوتھائی چائے کا چمچا)
انڈا (ایک عدد)
پسا ہوا گرم مسالا (ایک چائے کا چمچا)
دہی (ایک کھانے کا چمچا)
ادرک لہسن کا آمیزہ (ایک کھانے کا چمچا)
پسی ہوئی لال مرچ (دو چائے کے چمچے)
پسی ہوئی الائچی (آدھا چائے کا چمچا)
نمک (حسب ذائقہ)
تیل (حسب ضرورت)

ترکیب:قیمے میں پیاز اور کچا پپیتا ڈال کر اچھی طرح باریک پیس لیں۔ اب جائفل اور جاوتری کو باریک پیس کر قیمے میں ڈال دیں۔ انڈا، پسا ہوا گرم مسالا، دہی، ادرک لہسن کا آمیزہ، پسی ہوئی لال مرچ، پسی الائچی اور نمک شامل کرکے ملا لیں، پھر انہیں گولا کباب کی شکل دے کر گرم تیل میں فرائی یا باربی کیو کر کے نوش کریں۔

الہ آبادی چانپ
اجزا:
بکرے کے چانپیں (آدھا کلو)
تیل (تلنے کے لیے)
ادرک لہسن کا آمیزہ (دو کھانے کے چمچے)
پسی ہوئی جائفل جاوتری (آدھا چائے کا چمچا)
نمک (حسب ذائقہ)
پسی ہوئی کالی مرچ (آدھا چائے کا چمچا)
پسی ہوئی دار چینی (آدھا چائے کا چمچا)
پسی ہوئی لال مرچ (ایک چائے کا چمچا)
ہلدی (آدھا چائے کا چمچا)
دہی (آدھا پاؤ) پانی کے بغیر
پسا ہوا زیرہ (ایک چائے کا چمچا)
میدہ (آدھی پیالی)
انڈے (دو عدد) پھینٹے ہوئے
تل (دو سے تین کھانے کے چمچے)
لیموں (ایک عدد)
پیاز (ایک عدد)

ترکیب:پہلے چانپوں کو تھوڑا سا اسٹیک ہیمر سے پریس کر لیں۔ کڑاہی میں دو سے تین کھانے کے چمچے تیل گرم کرکے ادرک لہسن کا آمیزہ اور چانپیں شامل کر کے دو سے تین منٹ تک بھونیں، پھر اس میں پسی جائفل جاوتری، نمک، کالی مرچ، دار چینی، لال مرچ، ہلدی، دہی اور زیرہ شامل کرکے ملا لیں۔ ایک کپ پانی ڈال کر ڈھک دیں اور بیس سے پچیس منٹ تک پکنے کے لیے چھوڑ دیں۔ جب چانپیں گل جائیں، تو انہیں نکال کر میدے میں کوٹ کریں۔ پھینٹے ہوئے انڈے میں کوٹ کر کے اوپر سے تل چھڑک کر گرم تیل میں تل لیں۔ تیار ہونے پر لیموں اور پیاز کے ساتھ پیش کریں۔

شاہی گوشت
اجزا:
بکرے کا گوشت (ایک کلو)
دہی (آدھا پاؤ)
بادام (بیس گرام)
تازہ کریم (سو گرام)
پسا ہوا گرم مسالا (ایک کھانے کا چمچا)
پسی ہوئی ہلدی (ایک کھانے کا چمچا)
پسی ہوئی جائفل جاوتری (آدھا چائے کا چمچا)
پسی ہوئی لال مرچ (دو کھانے کے چمچے)
پسا ہوا لہسن ادرک (دو کھانے کے چمچے)
ہرا دھنیا ایک چوتھائی گٹھی (چوب کرلیں)
نمک (حسبِ ذائقہ)
تیل (ایک چوتھائی پیالی)
باریک کٹی ہوئی ادرک اور ہرا دھنیا (سجاوٹ کے لیے)

ترکیب:ایک دیگچی میں تیل گرم کر کے لہسن ادرک سنہری کریں اور گوشت ڈال کر رنگ تبدیل ہونے تک پکائیں۔ ہرا دھنیا، پودینہ، گرم مسالا، ہلدی، جائفل جاوتری، لال مرچ، نمک دہی اور ایک پیالی پانی ڈالیں اور ڈھکن ڈھانک کر پکنے دیں۔ بادام اور پستے اُبالیں اور چھلکا اْتار کر باریک کاٹ لیں۔ جب گوشت گل جائے تو اسے بھون (Roast) لیں۔ ساتھ میں کریم، بادام اور پستے شامل کر کے پانی خشک ہونے تک بھونیں اور ڈش میں نکال کر پیش کریں۔ بکرے کا مزے دار شاہی گوشت ہرے دھنیے اور ادرک سے سجاکر پیش کریں۔

کوفتہ میکرونی
اجزا:
کوفتوں کے لیے:
گائے کا قیمہ (تین سو گرام)
بھنے ہوئے چنے (دو کھانے کے چمچ)
خشخاش (دو کھانے کے چمچ)
چاول (ایک کھانے کا چمچا)
ہلدی (آدھا چائے کا چمچا)
پسی ہوئی لال مرچ (ایک چائے کا چمچا)
نمک (آدھا چائے کا چمچا)
گرم مسالا (ایک چائے کا چمچا)
چاٹ مسالا (ایک چائے کا چمچا)
ادرک (ایک کھانے کا چمچا)
ہری مرچ (دو عدد)
گریوی کے لیے:
تیل (ایک چوتھائی پیالی)
کٹی ہوئی پیاز (ایک پیالی)
ادرک لہسن کا آمیزہ (دو کھانے کے چمچے)
ٹماٹر کی پیوری (ڈیڑھ پیالی)
دہی (ایک چوتھائی پیالی)
پسی ہوئی لال مرچ (ایک چائے کا چمچا)
نمک (ایک چائے کا چمچا)
ہلدی (ایک چوتھائی چائے کا چمچا)
گرم مسالا (ایک چائے کا چمچا)
چاٹ مسالا (ایک چائے کا چمچا)
کلونجی (ایک چوتھائی چائے کا چمچا)
میتھی دانے (ایک چوتھائی چائے کا چمچا)
اْبلی ہوئی میکرونی (چار پیالی)

گارنش کے لیے:
ہرے دھنیے کی پتیاں (ایک چوتھائی پیالی)
ہری مرچ (دو سے تین عدد) کتر لیں

ترکیب: کوفتوں کے لیے: چنے، خشخاش اور چاول گرائینڈ کرلیں۔ اب انھیں گائے کا قیمہ، ہلدی، پسی لال مرچ، نمک، گرم مسالا، چاٹ مسالا، ادرک اور ہری مرچ میں ملا کے چوپر میں پیس لیں اور کوفتے بنالیں۔
گریوی کے لیے: پین میں تیل گرم کر کے پیاز کو فرائی کر لیں۔ جب پیاز نرم ہو جائے تو ادرک لہسن کا پیسٹ، ٹماٹر کی پیوری، دہی، لال مرچ، نمک، ہلدی، گرم مسالا، چاٹ مسالا، کلونجی اور میتھی دانے ڈال کر بھون لیں۔ اب کوفتوں کو احتیاط کے ساتھ گریوی میں رکھ کر پانی کا چھینٹا لگا کر پین کو ڈھک دیں۔ جب کوفتے پک جائیں تو میکرونی کو گریوی میں احتیاط سے ملالیں اور ڈش میں نکال کر ہرے دھنیے کے پتیوں اور ہری مرچ سے گارنش کرکے پیش کریں۔

احمد داؤد اوغلو؛ نئے ترک وزیراعظم کے دور میں ترکی کیسا ہوگا؟

$
0
0

دو برس قبل، دسمبر کی ایک شام ، ترک دارالحکومت انقرہ کی یلدرم بایزید یونی ورسٹی کے اتاترک ٹیچنگ اینڈ ریسرچ ہسپتال میں اس وقت کے ترک وزیرخارجہ احمد داؤد اوغلو غزہ سے یہاں پہنچنے والے زخمی فلسطینیوں کی بری حالت دیکھ کر زاروقطار روپڑے۔ یہ تمام زخمی اسرائیلی جارحیت کا شکارہوئے تھے۔یہ منظرعجیب تھا، کیونکہ اس سے پہلے فلسطینیوں کی حالت زار دیکھ کر کسی مسلمان بالخصوص عرب حکمران کو رونا تو دور کی بات، ترس بھی نہیں آتاتھا۔ 

وزیرخارجہ احمد داؤد اوغلو اپنی اہلیہ سارہ داؤداوغلو کے ہمراہ ایک ایک بستر پر جارہے تھے، زخمیوں کو ہمت، تسلی کی تلقین اور جلد صحت یابی کی دعا دے رہے تھے، لیکن جب وہ ایک فلسطینی خاتون مونا الشوا کے پاس پہنچے تو اس کی کہانی سن کر احمد اوغلو پھوٹ پھوٹ کر رودیئے۔ مونا کی 15سالہ بیٹی اسرائیلی بمباری میں شہید ہوگئی تھی۔ وزیرخارجہ نے عثمانی دور کے فلسطین کی تصاویر پرمشتمل ایک کتاب اور ترک پرچم مونا کو پیش کیا۔ فلسطینی خاتون نے ترک پرچم کو تین بار بوسہ دیا۔ اس سے پچھلے نومبر میں جب احمد داؤد اوغلو نے غزہ کا دورہ کیا، تب بھی فلسطینیوں پر مظالم دیکھ کر ان پر رقت طاری ہوگئی تھی، وہ مونا الشوا کی شہید بیٹی کی میت کے اوپر جھکے ہوئے تھے اور زاروقطار رو رہے تھے، ان کی یہ تصاویر ترک اخباروں کے صفحہ اول پر شائع ہوئی تھیں۔ تب انھوں نے مونا کو قرآن مجید کا ایک نسخہ تھماتے ہوئے کہا تھا:’’آپ کی بیٹی ترکی کی بیٹی ہے‘‘۔

احمدداؤد اوغلو ایک ایسی جماعت کے اہم ترین رکن ہیں جس کے بانی اور چند روز پہلے تک سربراہ طیب اردگان کو 2009ء میں اسرائیلی وزارت خارجہ نے باقاعدہ طورپر یہودمخالف شخصیت قراردیاتھا۔ سبب یہ ہے کہ 1974ء میں انھوں نے ایک ڈرامہ میں ہدایت کاری اور اداکاری کی تھی، جس کا نام تھا’’ “Mas-Kom-Ya” ‘‘۔ اس میں فری مشنری ، کمیونزم اور یہودیت کو برائی قرار دیا گیا تھا، یہی طیب اردگان تھے جنھوں نے2009ء میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں اس وقت کے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کو کھری کھری سنادی تھیں، انھوں نے کہاتھا:’’ مسٹر پیریز! آپ مجھ سے عمر میں بڑے ہیں، مجھے یاد ہے کہ آپ نے ساحل پر بچوں کو قتل کیا‘‘۔

اس پر پروگرام کے کمپیر نے کھانے کے وقت کا بہانہ کرکے جناب طیب اردگان کو تقریر ختم کرنے کو کہا ، اس پر  ترک وزیراعظم نے یہ کہتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کردیا کہ اسرائیلی صدر کو تقریرکا زیادہ وقت دیاگیا جبکہ انھیں کم۔ انھوں نے آئندہ کبھی اس اجلاس میں شریک نہ ہونے کا اعلان کردیا۔

بعدازاں صہیونیت کو انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب بھی قراردیتے رہے، اسی طیب اردگان کے دورمیں اسرائیل پہلی بار دنیا میں تنہا ہوا اور تاریخ میں پہلی بار دنیا کے مختلف ممالک نے غزہ جارحیت کے ردعمل میں اسرائیلی سفیروں کو اپنے ملکوں سے نکال باہر کیاتھا اور یہ بھی تاریخ میں پہلی بارہواتھا کہ فریڈم فلوٹیلا کے واقعے کے بعد اسرائیل کو ترکی سے معافی مانگنا پڑی تھی۔ نئے ترک وزیراعظم احمد داؤداوغلو اردگان کی فکر اور طرزعمل ہی کا تسلسل ہیں۔

گزشتہ پانچ برس وزیر اعظم اردگان کے ساتھ وزیر خارجہ کے فرائض انجام دینے والے احمد داؤد اوغلوکی فکراور پالیسی کو دیکھتے ہوئے تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ ’نیوعثمان ازم‘ ان کی خارجہ پالیسی کا عنوان ہے۔ بعض حلقے ان کی پالیسی کو پان اسلامسٹ فارن پالیسی قراردیتے تھے جبکہ بعض حلقے ان کی پالیسی کو مغرب نواز بھی قراردیتے رہے ہیں۔

چھبیس فروری 1959ء میں ترکی کے صوبہ قونیہ کے شہر تاشقند میں پیدا ہونے والے احمد داؤد اوغلو والد کے چاربچوں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے استنبول میں قائم ایک جرمن انٹرنیشنل سکول سے گریجویشن کی، بعدازاں استنبول ہی کی بوغازیچی یونیورسٹی سے اکنامکس اور پالیٹیکل سائنس میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ پھر پالیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل ریلیشنز میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔1993ء سے 1999ء تک وہ مرمرا یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے، 1999 میں مکمل پروفیسر بنے۔ پھر وہ بیکانت یونیورسٹی استنبول میں انٹرنیشل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی رہے۔ 1995ء سے1999ء تک ایک ترک ہفت روزہ میں کالم بھی لکھتے رہے۔

سارہ ان کی اہلیہ ہیں،1984ء میں شادی ہوئی، وہ گائناکالوجسٹ ہیں۔ احمد داؤداوغلو متعدد کتب کے مصنف ہیں جن میں Strategic Depth ترکی کی خارجہ پالیسی کو سمجھنے کے لئے خاصی موثرکتاب سمجھاجاتاہے۔ یہ کتاب یونان میں جولائی2010ء میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب قرارپائی۔ ان کی دیگرکتابوں میں Alternative Paradigms: The Impact of Islamic and Western Weltanschauungs on Political Theory بھی شامل ہے اورCivilizational Transformation and the Muslim World بھی۔ ایک کتاب The Global Crisis بھی ہے۔

فوج، تعلیمی اداروں اور وزارت خارجہ میں احمد داؤد اوغلو کا خاصا اثرورسوخ ہے۔انھیں انگلش، جرمن اور عربی زبانوں پر بھی عبور حاصل ہے۔ وہ 2003ء میں وزیرِاعظم اردگان کے مشیر برائے خارجہ پالیسی کی حیثیت سے جسٹس پارٹی میں شامل ہوئے، جس کے بعد 2009 ء میں انہیں ملک کا وزیرِ خارجہ مقرر کیا گیا اور 2014ء میں وزیراعظم۔

قریباً ڈیڑھ عشرے سے ترکی پر حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے طیب اردگان کے صدرمملکت منتخب ہونے کے بعد احمد داؤداوغلو کو نہ صرف وزارت عظمیٰ کے لئے منتخب کیا بلکہ پارٹی صدارت بھی انہی کے حوالے کردی۔ سبب یہ ہے کہ ترکی کے آئین کے مطابق تین مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے والے طیب اردگان بحیثیت صدرکسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں رکھ سکتے۔وہ ترک جمہوریہ کے پہلے صدر ہیں جن کا انتخاب اراکین پارلیمان کے بجائے براہِ راست عوام کے ووٹوں سے عمل میں آیا ہے۔

احمدداؤداوغلو کانام اس وقت سے اردگان کے جانشین کے طورپر گونج رہاتھا،جب سے سابق وزیراعظم نے صدرکا انتخاب لڑنے کا اعلان کیاتھا۔ اوغلو کی بطور وزیرِاعظم اور پارٹی سربراہ نامزدگی کا اعلان بھی خود طیب اردگان نے کیا اورکہا کہ انہوں نے یہ فیصلہ طویل مشاورت کے بعد کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بطور وزیرِ خارجہ سخت محنت اور کارکردگی کے باعث اوغلو اس انتخاب کے حق دار تھے اور انہیں ا مید ہے کہ وہ وزیرِاعظم بننے کے بعد بھی ملک کی اس ’’باشعور خارجہ پالیسی‘‘ کو جاری رکھیں گے، جس پر وہ ماضی میں کاربند رہے ہیں اور اے کے پارٹی کے ’’نئے ترکی‘‘ کے قیام کے خواب کو آگے بڑھائیں گے۔ احمد اوغلو نے بھی اردگان کے کام اور مشن کو جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ترکی کی نشاۃِ ثانیہ کی 12برس قبل شروع ہونے والی تحریک کو جاری رکھیں گے جس نے یورپ کے ’’مردِ بیمار‘‘ قرار دیے جانے والے ترکی کو ایک علاقائی طاقت بنادیا ہے۔ احمد اوغلو کا کہنا تھا کہ کامیابیوں سے بھرپور اے کے پارٹی کا سفر اپنی منزل تک پہنچے گا اور حقوق اور جمہوریت کے لیے پارٹی کی جدوجہد جاری رہے گی۔

ترک تجزیہ کاروں کے خیال میں 55 سالہ اوغلو اردگان کے قریب ترین اور انتہائی قابلِ اعتماد ساتھی ہیں۔ انھوں نے حالیہ برسوں میں ترک سیاست میں آنے والے اتار چڑھاؤ اور پیش آنے والے مختلف بحرانوں میں وزیرِاعظم اردگان کا مکمل ساتھ دیا۔جناب اوغلوکو ترکی کی نئی خارجہ پالیسی کا معمار سمجھا جاتا ہے۔

جس کا ہدف خطے کے ملکوں خصوصاً عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہے، جو ماضی میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کا حصہ رہ چکی ہیں۔ انھوں نے پڑوسی ملکوں کے ساتھ بھی ’زیرو پرابلم‘ پالیسی اختیار کی۔

سوال یہ ہے کہ احمد داؤداوغلو بطوروزیراعظم کیسے ثابت ہوں گے؟ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ طیب اردگان کی نسبت ایک کمزور وزیرِاعظم ثابت ہوں گے، سبب یہ ہے کہ روایتی سیاست دان ہیں نہ ہی ان کا کوئی حلقہ انتخاب ہے۔طیب اردگان نے ان کی اسی کمزوری کے باعث انھیں وزارت عظمیٰ کے منصب اور پارٹی صدارت پر بٹھایاہے۔ اردگان بطورصدرسابقہ صدور کی نسبت زیادہ اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔

طیب اردگان اعلان کرچکے ہیں کہ آئندہ سال پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کی صورت میں اے کے پارٹی ملک میں نیا آئین متعارف کرائے گی، جس میں ملک کا نظامِ حکومت پارلیمانی سے صدارتی کردیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایسا ہونے تک احمد اوغلو اردگان کی توقعات پر پورا اتریں گے اور ایک طاقت ور صدر کے تحت کمزور وزیرِاعظم کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔

مخالفین کو سخت خوفزدہ کرنے والے احمدداؤد اوغلوکا کہناہے کہ 2015ء کے عام انتخابات کے بعد ان کی سب سے بڑی ترجیح ایک نیاآئین ہوگا۔ انھوں نے اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دی ہے کہ وہ بھی اس عمل کا حصہ بنیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی نظام میں چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم کمزور ہے ۔

اس میں بہت سے رخنے موجود ہیں جبکہ موجودہ صورت حال میں سیاسی عمل میں لوگوں کی شرکت بھی کم ہے، سبب متعدد رکاوٹیں ہیں۔ نیا آئین ان رکاوٹوں کو دور کرے گا اور جمہوری نظام کو مزیدمضبوط کرنے کی ضمانت دے گا۔ نئے آئین میں مزید آزادیاں دی جائیں گی، شہریوں کی فلاح وبہبود کا دائرہ بڑھایاجائے گا۔ تاہم اپوزیشن کا کہناہے کہ داؤداوغلو کے حقیقی عزائم مصطفی کمال اتاترک کے اصولوں کاخاتمہ اور آزاد عدلیہ کو غلام بناناہے۔

تاہم ماہرین کاکہناہے کہ بحیثیت وزیرخارجہ ان کا ریکارڈ ظاہر کرتاہے کہ وہ ایک موثر اور مضبوط وزیراعظم ثابت ہوں گے۔ وہ ایسے وزیرخارجہ نہیں تھے جو محض حکومت کی طے کردہ خارجہ پالیسی پر آنکھیں بند کرکے چلتے رہے تھے بلکہ جب وہ اس منصب پر فائزنہیں ہوئے تھے، اس سے بہت پہلے وہ ایک مضبوط اور موثر خارجہ پالیسی کی فکر فراہم کررہے تھے۔ ثبوت ان کی کتب ہیں جن میں سے ایک ’آلٹرنیٹوپیراڈائمز‘ ہے جو1993میں شائع ہوئی۔ ’سویلائزیشنل ٹرانسفرمیشن اینڈ دی مسلم ورلڈ‘کے عنوان سے کتاب1994میں شائع ہوئی، ’سٹریٹیجک ڈیپتھ ‘کے نام سے کتاب2001ء میں آئی۔ اسی طرح ان کی دو ترک زبان میں کتابیں جن میں سے ایک عثمانی دور سے متعلق ہے اور دوسری گلوبل کرائسز پر، بھی ان کی فکر کی غمازہیں۔ یہ کتابیں 2005ء سے پہلے شائع ہوئی تھیں۔ اس اعتبار سے نئے ترک وزیراعظم ایک وژنری شخصیت ہیں۔ طیب اردگان کی ٹیم میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو محض ’کارکن ‘ نہیں بلکہ اپنی اپنی جگہ پر فکری اورقائدانہ صلاحیت رکھتے ہیں۔

بلاشبہ طیب اردگان اپنے دور وزارت میں ترکی میں اسلامائزیشن کے عمل کو آگے بڑھاتے رہے ہیں۔ انھوں نے ترک معاشرے میں مذہبی آزادیوں کو فروغ دیا۔ مثلاً حجاب کا اہتمام کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کے لئے سرکاری اداروں کے بند دروازے کھولے۔ 70فیصد ترک ان کے ایسے اقدامات کی حمایت کرتے تھے۔ یقیناً نئے وزیراعظم اپنے پیشرو سے زیادہ تیزی سے اس ایجنڈے پر عمل کریں گے جسے مخالفین اسلامائزیشن یا نیوعثمان ازم کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔

ڈاکٹر سارہ داؤد اوغلو…ترک میڈیا کا نیاشکار
وزیراعظم احمد داؤد اوغلوکی اہلیہ ڈاکٹرسارہ کے بارے میں بھی مخالفین خوب پروپیگنڈا کررہے ہیں، ان کا کہناہے کہ ڈاکٹرسارہ کے اسلامی حلقوں میں مضبوط رابطے ہیں۔ وہ استنبول کے ایک سرکاری ہسپتال میں ملازمت بھی کرتی ہیں اور اپنا پرائیویٹ کلینک بھی چلاتی ہیں۔ طیب اردگان کی بیٹی ڈاکٹرسارہ کی مریضوں میں شامل ہیں۔ وہ مدرسہ تعلیمی نظام کی مداح ہیں، وہ مریضوں کو ایسی ادویات تجویزنہیں کرتیں، جن میں سور اور بندر کے جسم سے حاصل ہونے والے مادے شامل کئے جاتے ہیں۔

اسی طرح وہ اسقاط حمل پالیسی کی مخالف ہیں۔ مردوں سے ہاتھ نہیں ملاتیں۔ اس صدی کے پہلے عشرے کے اوائل ، جب سے احمد داؤداوغلو بین الاقوامی امور کے ماہر کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں، 2009ء میں ان کے وزیرخارجہ بننے تک ، میڈیا میں ان کے بیوی بچوں کی تصاویر شائع نہیں ہوئی تھیں۔احمد اوغلو کی بطور وزیرخارجہ تقرری کے بعد پارلیمان میں منعقدہ تقریب میں ان کی اہلیہ نے شرکت کی ، تب لوگوں نے انھیں دیکھا۔ جب فوٹوگرافر نے ان کی اور بیٹی کی تصویر اتارنا چاہی تو دونوں نے اپنے چہروں کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا کیونکہ وہ اب بھی منظرعام پر آناپسند نہیں کرتیں۔ سارہ داؤداوغلو کوترک میڈیا اور سیکولرحلقوں کی طرف سے ایسے حملوں کا سامنا ہے جن کا واسطہ طیب اردگان اور عبداللہ گل کی بیگمات کو نہیں تھا۔

دونوں سابقہ خواتین اول کو سکارف کا اہتمام کرنے پر مظلوم، ناخواندہ اور دقیانوسی کہاجاتا تھا لیکن موجودہ وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کو ایسا ’’طاقتورجوڑا‘‘ کہا جا رہا ہے جسکی مثال ترک سیاست میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔

سوائے درد کوئی ہم سفر بھی ہے کہ نہیں، ’’ کام والی ‘‘ شہزادی

$
0
0

اس کا دن اندھیرے سے شروع ہوکر اندھیرے پر ختم ہوتا ہے اور نہ جانے ہوتا بھی ہے کہ نہیں۔ تھکن، بوریت اور طبیعت کی خرابی اس کی لغت میں نہیں ہے۔

اس نے نہ جانے کیسے کیسے خواب دیکھے تھے ہر لڑکی کی طرح خوب صورت اور سہانے خواب۔ لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ ہر خواب کی تعبیر بھی خواہش کے مطابق ہو۔ زندگی اس کے لیے بھاری پتھر بن گئی ہے، خواب عذاب ہوگئے ہیں۔ لیکن اب اسے اپنی نہیں، اپنے چار معصوم بچوں کی زندگی سنوارنی ہے۔

خواب دیکھنا اس نے اب بھی نہیں چھوڑا، لیکن ان خوابوں کی دنیا بدل گئی ہے اب وہ اپنے معصوم، پیارے اور سہمے ہوئے بچوں کے سہانے مستقبل کے خواب دیکھتی ہے اس کے لیے اب راستے کی کوئی رکاوٹ مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ تو صرف ایک ہی ہے اپنے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا، انھیں شرارت کرتے دیکھنا اور خوشی و سرمستی میں ان کے قہقہے سننا۔ وقت و حالات نے اس کے بچوں سے معصومیت، بچپن، شرارتیں، فرمائشیں اور ضد چھین لی ہے اور انھیں ڈر، خوف اور طعنے دیے ہیں۔ بلا کی صابر ماں اور اس سے زیادہ صبر کرنے والے معصوم بچے! اب وہ کسی کا اترن پہن کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ بچا ہوا کھانا کھاکر صبر کرتے ہیں اور ماں کی غیرموجودگی میں پورا گھر سنبھالتے ہیں۔

ضد کیا ہوتی ہے؟ وہ یہ سب کچھ بھول گئے ہیں۔ اس کے یہ سیاہ دن کب ختم ہوں گے؟ اتنی صابر ماں کو سماج نے کیا دیا ہے؟ طعنے اور کیا دے سکتا تھا یہ سماج؟ بعض بے حسوں نے اس کے کردار پر حرف زنی کی اور اس نے سب کچھ برداشت کیا۔

مجھے اس کے متعلق بہت کچھ معلوم تھا لیکن میں اس کی زبانی یہ سب سننا چاہتا تھا۔ وہ راضی نہیں تھی، وہ کیوں اپنی بپتا مجھے سناتی؟ کیوں مجھ پر اعتماد کرتی؟ آخر کیوں؟ کیا میں اس سماج سے الگ کوئی فرد تھا؟ اور پھر سچی بات تو یہ ہے کہ کسی اخبار نویس پر کم ہی لوگ اعتبار کرتے ہیں۔ ہم نے خود اپنا اعتبار کھودیا ہے۔ کیا ہم اسے بحال کرا سکیں گے؟ ابھی کچھ دن پہلے ہی وہ ایک مشہور ٹی وی آرٹسٹ کی کرایہ دار تھی۔

جب وہ دو ماہ کا کرایہ نہ دے سکی تو اسے ’’ کیا ہم نے سارے غریبوں کا ٹھیکا اٹھایا ہوا ہے، بچوں کو یتیم خانے میں جمع کراؤ اور خود اپنا ٹھکانا ڈھونڈو، ہمارا مکان خالی کرو‘‘ سننے کو ملا۔ پھر اس نے ایک کچی بستی میں چھوٹا سا کھنڈر کرائے پر حاصل کیا اور وہاں رہنے لگی۔ اس کے کھنڈر، جی ہاں اسے مکان کہنا غلط ہوگا، کے ٹوٹے ہوئے دروازے پر جب میں نے دستک دی تو ایک معصوم بچی نے دروازہ کھولا اور پھر اس نے اپنی آپ بیتی شروع کی۔ آپ میں ہمت ہے تو سنیے۔ سعود عثمانی نے کہا تھا:

نظام شام و سحر سے مفر بھی ہے کہ نہیں
فصیل درد مسلسل میں در بھی ہے کہ نہیں
سواد شام سے نور سحر کی منزل تک
سوائے درد کوئی ہم سفر بھی ہے کہ نہیں

بھائی جان! آپ تو پریشان ہوگئے۔ کیا کہانی سناؤں؟ سب قسمت کی باتیں ہیں، نصیب کا لکھا ہے اور نصیبوں کا لکھا کون مٹا سکتا ہے؟ انسان خود تو اپنی تقدیر لکھتا نہیں ہے۔ لکھنے والا لکھتا ہے وہ جیسی چاہے لکھ دے۔ اپنی طرف سے ہر آدمی اچھا سوچتا ہے، اچھا پروگرام بناتا ہے۔ کیا یہ ضروری بھی ہے کہ آدمی جو پروگرام بنائے وہی اچھا بھی ہو۔ اوپر والا تو اپنا پروگرام بناتا ہے۔ کس سے گلہ کریں؟ اﷲ سے ہی کرتی ہوں اور دعا مانگتی ہوں کہ اب مجھے اتنی ہمت بھی دے کہ یہ جو تو نے میرے نصیب میں لکھا ہے اسے صبر سے برداشت کروں، ان ننھی جانوں کو پال پوس لوں۔

میرے سات بھائی ہیں اور میں ان کی اکلوتی بہن ہوں۔ مجھے سب گھر والے پیار سے ’’شہزادی‘‘ کہتے تھے۔ کہتے تو اب بھی ہیں لیکن بھائی! اب میں کہاں کی شہزادی رہ گئی ہوں۔ ہمارے ماں باپ کا گذر بسر اچھا تھا۔ بھائی تو کچھ پڑھ پڑھا گئے، اپنے اپنے کام سے لگ گئے۔ مجھے ماں باپ نے نہیں پڑھایا۔ ویسے بھی ہمارے ہاں لڑکیوں کو نہیں پڑھاتے۔ وہ کہتے ہیں کیوں پڑھائیں؟ کیا ہم نے اس سے نوکری کرانی ہے؟ لیکن بھائی اب مجھے پتہ چلا کہ لڑکیوں کو تو پڑھانا زیادہ ضروری ہے۔

اس سے اونچ نیچ کا پتہ چلتا ہے۔ لڑکی کو ساری زندگی تو ماں باپ کے پاس رہنا نہیں ہوتا کہ لاڈ پیار سے رکھیں، دوسرے گھر جانا ہوتا ہے اسے وہاں کیا دیکھنے کو ملے؟ کسے کیا معلوم؟ ماں باپ کے گھر دن اچھے گزرے۔ پھر میری شادی ہوگئی۔ ہمارے ایک عزیز سیال کوٹ میں رہتے ہیں، انہوں نے رشتہ بھیجا، لڑکا اچھا کماتا کھاتا تھا۔ اس طرح میری شادی ہوگئی اور میں سیالکوٹ چلی گئی۔ میرا شوہر کام کرتا تھا، کام کیا کرتا تھا؟ ابھی بتاتی ہوں۔ شروع کے دن بہت اچھے گزرے۔

وہ صبح جاتا اور شام کو واپس آجاتا میں پوچھتی کیا کام کرتے ہو تو کہتا مزدوری کرتا ہوں، تمہیں خرچے سے مطلب ہے، اپنا خرچہ لو اور کیا پولیس والوں کی طرح پوچھ گچھ کرتی رہتی ہو؟ میں خاموش ہوجاتی اور پھر ہمارے ادھر کا ماحول بھی ایسا ہے کہ شوہر سے بیوی پوچھنے کی جرأت نہیں کرسکتی کہ وہ کیا کرتا ہے؟ پیسے پورے ملتے تھے، ساس سسر ساتھ تھے، گزارا اچھا ہو رہا تھا۔ مجھے اﷲ نے دو بیٹیاں اور دو بیٹے دیے۔ یہ آپ کے سامنے ہیں۔

ایک دن پولیس والے ہمارے گھر آئے اور میرے سسر سے کہا،’’تمہارا بیٹا حوالات میں ہے، اس سے مل لو‘‘ میں بہت پریشان ہوئی لیکن سسر صاحب آرام سے بیٹھے رہے۔ میں نے کہا کیا ہوا؟ تو انہوں نے کہا،’’آرام سے بیٹھ جا، تیرے کو کیا مصیبت ہے؟ ہم خود سنبھال لیں گے۔‘‘ میں نے کھوج لگائی تو پتا چلا کہ میرا شوہر شراب بیچتا تھا اور پکڑا گیا ہے۔ میں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی تھی۔ میں سوچتی تھی وہ اچھا آدمی ہے، نوکری کرتا ہے، مزدوری کرتا ہے، ہمارا خیال رکھتا ہے۔

مجھے کیا پتا تھا کہ وہ ہم سب کو حرام کھلا رہا ہے۔ اﷲ میاں سے آج تک معافی مانگتی ہوں کہ ہمیں معاف کردے۔ اس کے گناہوں کی سزا مجھے اور میرے معصوم بچوں کو نہ دے۔ بھائی! پھر یہ ہوا کہ اسے سزا ہوگئی۔ مقدمہ بازی ہوتی رہی۔ دو سال بعد وہ جیل سے رہا ہوکر گھر آگیا۔ گھر کا سب کچھ ختم ہوگیا تھا۔ برے کام کا برا انجام ہوتا ہے۔ حرام کے مال میں برکت نہیں ہوتی اور میں تو سوچتی ہوں اچھا ہی ہوا کہ وہ پکڑا گیا۔ اگر نہیں پکڑا جاتا تو ہم ساری زندگی حرام ہی کھارہے ہوتے۔

جیل سے رہا ہوکر وہ گھر آیا تو کم زور ہوگیا تھا۔ سگریٹ تو وہ شروع سے پیتا تھا۔ ایک دن میں چھت پر گئی تو میں نے دیکھا کہ وہ سفید سا پوڈر سگریٹ میں ڈال رہا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کیا کررہے ہو؟ تو کہنے لگا تم جاؤ دفع ہوجاؤ، میں کچھ بھی کر رہا ہوں تمہیں اس سے کیا؟ پھر جو اس نے مجھے مارنا شروع کیا تو بتا نہیں سکتی۔

ساس سسر تو قریب بھی نہیں آئے۔ مار پٹائی کے دوران اس کی جیب سے ایک پڑیا گرگئی جو میں نے اٹھالی۔ دوسرے دن میں نے اپنے پڑوسی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو اس نے بتایا کہ یہ ہیروئن ہے۔ بس بھائی! جب سے میری زندگی برباد ہوگئی۔ جیل میں اسے کسی نے یہ لت لگادی تھی۔ میں نے اپنے ماں باپ کو لکھا تو انہوں نے کہا،’’ہم نے تمہاری شادی کرادی ہے۔ وہ اب جیسا بھی ہے تمہارا شوہر ہے۔ اس کے ساتھ گزارا کرو، تم اب اکیلی جان تو ہو نہیں، تمہارے چار بچے ہیں۔ صبر کرو۔‘‘

تو بھائی میں کیا کرتی، صبر کرلیا۔ سارا زیور، سارا سامان ایک ایک کرکے بک گیا، کچھ پلے نہ رہا۔ سسر کا انتقال ہوگیا، عزیز رشتے دار آئے، میرا شوہر تو ملنگ بن گیا تھا۔ وہ آج بھی لاہور کے ایک مزار پر موجود ہے، بھیک مانگتا ہے اور ہیروئن پیتا ہے۔ اسے تو سب کچھ وہاں مل جاتا ہے، میں عورت ذات کیا کرتی؟ ایک رشتے دار سے کچھ پیسے لیے اور کراچی آگئی۔ مجھے روزانہ میری ساس کہتی تھی، اب یہاں کیا رکھا ہے جو تو یہاں بیٹھی ہے۔ جا اپنے بچوں کو لے کر ماں باپ کے پاس۔

میں ماں باپ کے پاس کراچی پہنچی۔ کچھ دن یہاں رہی تو بھابھی کا رویہ اچھا نہیں تھا۔ ماں باپ بھی اتنے ساہو کار نہیں ہیں کہ میرا خرچ برداشت کرتے۔ میں نے سوچا کب تک ان پر بوجھ بنوں گی۔ میں نے کام کی تلاش شروع کی۔ محلے کی ایک عورت نے ایک مکان کرائے پر دلا دیا۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ یہ تو اداکارہ کا مکان ہے۔ میں وہاں کام کرنے لگی۔ برتن دھونا، پونچھا لگانا۔ شروع میں تو مجھے بہت رونا آیا اور سچی بات یہ ہے کہ میں نے اپنی آنکھیں لال کرلیں۔ پھر یہ ہونے لگا کہ میں روتی تو بچے بھی رونے لگتے۔ میں نے سوچا یہ رونے دھونے سے کام نہیں چلے گا۔ پھر بچوں نے کیا قصور کیا ہے کہ یہ روئیں۔ بس بھائی میں نے رونا دھونا ختم کیا اور ہمت کرکے خود میدان میں آگئی۔

آپ لوگوں کے رویوں کا پوچھ رہے ہیں، تو یہ نہ پوچھیں۔ بہت بے حس ہیں لوگ۔ وہ سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کی نظر میں ہر کام کرنے والی عورت بدکردار ہوتی ہے۔ یہاں پر بے سہارا عورت پر ہر ایک نظر رکھتا ہے۔ ہر ایک ہم دردی کے روپ میں اسے گم راہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب کوئی گم راہ ہوجائے تو اسے زندہ در گور کردیتے ہیں۔ اس کی نسلیں بھی اس کی گم راہی کے چرچے سنتی ہیں اور خود کیا ہیں یہ شریف لوگ؟ سب جانتے ہیں۔ لیکن کہتے ہیں کہ پیسہ آپ کی برائی بھی اچھائی بنا دیتا ہے۔

میں کچھ کہنا نہیں چاہتی لوگوں کے بارے میں۔ لوگ ایسے ایسے روپ میں ملے ہیں کہ آپ نہ ہی پوچھیں۔ کیا فائدہ ہے گندگی میں تنکے مارنے کا۔ اس سے بدبو کے سوا کیا مل سکتا ہے؟ یہاں پر زندہ رہنا بہت مشکل ہے۔ میں تو کہوں گی کہ عورت اس وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک اس کا کردار سلامت اور ضمیر زندہ رہتا ہے۔ کردار اور ضمیر کے بغیر تو زندہ عورت بھی مردہ ہوتی ہے اور مردہ کو کیا ہے؟ آپ جو چاہیں سمجھ لیں، جو چاہیں کہہ لیں، جیسا چاہیں سلوک کریں۔

دن گزرتے گئے، کام اتنا تھا نہیں، مجھ پر دو ماہ کا کرایہ چڑھ گیا، ایک دن اس اداکارہ نے کہا،’’کیا ہم نے سارے غریبوں کا ٹھیکا اٹھایا ہوا ہے۔ بچوں کو یتیم خانے میں داخل کراؤ اور خود اپنا ٹھکانا ڈھونڈو۔ ہمارا مکان خالی کردو۔‘‘ مجھے اتنا افسوس ہوا جو میرا دل دکھا وہ خدا ہی جانتا ہے۔ میں نے کوشش کی، ہمت کی اور یہ مکان کرائے پر لیا۔ پیسے تھے نہیں ادھار لیے۔ یہاں کام بھی مل گیا ہے، صبح منہ اندھیرے گھر سے نکلتی ہوں۔ ایک اسکول کی صفائی کرتی ہوں۔ پھر اسکول کے قریب کے تین گھروں میں برتن دھونا، صفائی ستھرائی، پونچھا لگاتی ہوں، دوپہر میں چار گھروں کے کپڑے دھونا ہوتے ہیں، کبھی زیادہ کبھی کم، محلے میں کسی کے گھر کوئی تقریب ہو تو وہاں کام کے لیے چلی جاتی ہوں۔

اب میں یہاں ’’کام والی‘‘ مشہور ہوگئی ہوں۔ کام ایمان داری سے کرتی ہوں اس لیے لوگ مجھ پر بھروسا کرتے ہیں۔ اگر کبھی وقت مل جائے تو سلائی کرلیتی ہوں۔ کام سے جی نہیں چراتی، محنت کرتی ہوں اﷲ دیتا بھی ہے۔ سارے برے نہیں ہوتے، کچھ اچھے بھی ہوتے ہیں۔ وہ اپنا بچا ہوا کھانا دے دیتے ہیں تو گھر لے آتی ہوں۔ بچے اور میں کھاکر گزارا کرتے ہیں۔ اسی طرح کپڑے مل جاتے ہیں جب میں اپنے بچوں کو اترن کے کپڑے پہناتی ہوں تو دل میں ہوک اٹھتی ہے، آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ خود پہنوں تو کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ خرچ زیادہ ہے، دکھ بیماری ہے، ابھی بچیوں کو اسکول میں داخل کرایا ہے۔ وہاں بچے تنگ کرتے ہیں۔ معلوم نہیں اسکول کے بچوں کو کس نے بتا دیا ہے۔ کہتے ہیں تمہارا باپ ہیروئنچی ہے، فقیر ہے، تو وہ بہت دکھی ہوتے ہیں۔ اب تو میں نے کہہ دیا کہ سب کو کہہ دو ہمارا باپ مرگیا ہے، ہمارا صرف اﷲ ہے۔ ماں باپ میری کیا مدد کریں گے؟ وہ اپنا گزارا کرلیں تو اچھا ہے۔

پچھلے مہینے میں اپنی بھابھی کے گھر گئی تو اس نے کہا تم اپنی بچیوں کے لیے میرے بیٹوں پر نظر نہ رکھو، ہم کسی اچھی جگہ ان کا رشتہ کریں گے۔ یہ تو حال ہے بھائی رشتے داروں کا۔ آپ کہہ رہے ہیں بھائیوں کی مدد کا۔ ایک بھائی کے گھر ولادت ہوئی تو اس نے کہا ہمارے گھر کا کام بھی کردیا کرو۔ میں نے کردیا تو اس نے پانچ سو روپے دیے اور کہا روزانہ کردیا کرو اور مہینے کے پانچ سو لے لیا کرو۔ آپ معلوم نہیں کون سی دنیا میں رہتے ہیں؟ یہاں کوئی عزیز، کوئی رشتہ نہیں ہے۔ سب مطلبی ہیں۔

آپ کے پاس دھن دولت ہے تو سب رشتے دار ہیں، نہیں ہے تو کوئی بھی نہیں ہے بلکہ وہ آپ سے کنی کتراتے ہیں کہ ہم سے کچھ نہ مانگ لیں۔ ہم محنت بھی کرتے ہیں اور لوگ ہم پر احسان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم نے تمہیں ترس کھاکر کام پر رکھا ہے، اگر نہیں کرو گی تو بھوک سے مرجاؤ گی۔ یہاں تو سب خدا بن گئے ہیں۔ کوئی بندہ بننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ جس کے پاس پیسا ہے وہ سمجھتا ہے ساری دنیا اس کی غلام ہے اور وہ ان سب کو روزی، رزق دیتا ہے۔

میرے بچے بہت اچھے ہیں، کوئی ضد نہیں کرتے، جو کچھ دوں لے لیتے ہیں، جو پہناؤ پہن لیتے ہیں، لیکن محلے کے بچوں نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے اس لیے اب میں انھیں باہر نہیں نکلنے دیتی۔ ویسے بھی زمانہ بہت خراب ہے۔ میں نے انھیں کہا ہے کہ اسکول سے آکر دروازہ اندر سے بند کرلیا کرو۔ وہ اسی طرح کرتے ہیں۔ ابھی تھوڑے دن پہلے چھوٹے والے نے کہا امی عید پر مجھے ہوائی جہاز دلانا، میں نے کہا اچھا بیٹا اﷲ سے دعا کرو کہ وہ جہاز دے گا۔ محنت کروں گی اور اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے بناؤں گی۔ انہیں عید پر اترن نہیں پہناؤں گی۔ اس کے لیے میں نے کچھ پیسے جمع بھی کرلیے ہیں۔

ایک مرتبہ ایک پولیس والا میرا ہم درد بن کر آگیا۔ وہ ہمارے محلے میں ہی رہتا ہے، کہنے لگا آؤ تمہیں کسی بنگلے پر کام دلا دیتا ہوں، وہاں تمہیں بہت پیسے ملیں گے، یہ غریب لوگ ہیں بہت کم پیسے دیتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں بھائی مجھے زیادہ پیسے نہیں چاہئیں، اپنی عزت چاہیے۔

اس نے بہت اصرار کیا مگر میرے انکار پر چلا گیا۔ جب میں شروع میں یہاں آئی اور کام کے لیے صبح سویرے جانے لگی تو محلے کی عورتوں نے کہا یہ اچھی عورت نہیں ہے۔ نہ جانے کہاں جاتی ہے اور پھر رات کو آتی ہے، میری جیسی عورت کو یہی سننے کو ملتا ہے۔ کسی سے کیا گلہ کروں۔ ابتدا میں مجھے بہت برا لگتا تھا، میرا خون کھولتا تھا، مگر اب میں عادی ہوگئی ہوں۔ مجھے اﷲ جانتا ہے، بس یہ بہت ہے میں کیوں سارے لوگوں کو صفائی پیش کرتی پھروں۔

آپ کہہ رہے تھے، اتنا کام کرکے تھکن ہوجاتی ہے تو بھائی میں بھی انسان ہوں، بہت تھک جاتی ہوں۔ کبھی دل بھی نہیں چاہتا مگر میں نے خود کو مار لیا ہے اور فیصلہ کرلیا ہے کہ ساری زندگی محنت کروں گی۔ اﷲ اس کا صلہ دے گا، میرے بچے پڑھ لکھ جائیں گے۔ اﷲ سُکھ کے دن بھی دکھائے گا۔ یہ میرا ایمان ہے۔

انسان پر ایسے دن بھی آتے ہیں۔ اسے ہمت سے برداشت سے صبر سے کام لینا چاہیے اور اپنی محنت کرنی چاہیے۔ میرا خواب یہ ہے کہ میرے بچے کسی قابل ہوجائیں۔ وہ پڑھ لکھ جائیں اور خدا نے چاہا تو ایسا ضرور ہوگا۔ میں ان کی صرف ماں نہیں ہوں، باپ بھی ہوں، میں انہیں اچھا انسان بناؤں گی، اﷲ میری مدد کرے گا، بس یہ ہے میری کہانی اور کیا ہے؟ میں کسی کو یہ نہیں سناتی اس لیے کہ لوگ سن کر اور مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تو ہے نہیں کوئی سن کر آپ کی ہمت بڑھائے گا، حوصلہ دے گا بلکہ الٹا زمانہ ہے جو غریب ہے اسے ستاؤ، اتنا ستاؤ کہ وہ زندگی سے بے زار آجائے!

وادیٔ جنت نظیر قیامت خیز سیلاب میں غرق

$
0
0

وادیٔ کشمیر جسے اہل ہند’’جنت نظیر‘‘ کہتے اور اس کے دلفریب قدرتی نظاروں سے حظ اٹھانے دور دراز سے سیاح ا س کا رخ کرتے رہے ہیں، بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں خون کی ہولی سے گزرنے کے بعد آج سیلاب جیسی قیامت خیز قدرتی آفت کا سامنا کر رہی ہے۔

مقبوضہ وادی میں سیلاب کوئی پہلی مرتبہ نہیں آیا بلکہ یہ اس خطے کی ایک پہچان بن چکا ہے، لیکن ہر مشکل کا سامنا کرنے والی جری کشمیری قوم ہر آفت ارضی و سماوی کے بعد باردگر زندگی کی رونقیں بحال کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ البتہ ستمبرکے اوائل میں آنے والے سیلاب نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اچانک ہونے والی طوفانی بارشوں اور سیلاب نے تو تباہی مچائی تھی مگر رہی سہی کسر بھارت کی مرکزی اور ریاست کی کٹھ پتلی حکومتوں نے اپنی مبینہ غفلت اور لاپرواہی سے پوری کردی ہے۔

کشمیرمیڈیا واچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور آزاد کشمیر میں بارش تین دن رہی لیکن مقبوضہ وادی میں اس کا دورانیہ کم سے کم ایک ہفتے پر محیط ہے، جس سے تباہی اور بربادی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایک ہفتے تک جاری رہنے والی بارش نے مقبوضہ وادی کی فصلوں اور پھلوں کے لہلاتے باغات پر حقیقی معنوں میں پانی پھیر کر رکھ دیا ہے۔ وادی کے سب سے زیادہ پیداواری شہروں بالخصوص سری نگر، اسلام آباد( اننت ناگ)، بارہ مولا، کپواڑہ، سوپور پونچھ، جموں اور پہل گام میں وہ تباہی مچائی جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔

مجموعی طور سیلاب کے نتیجے میں تین لاکھ کشمیری باشندے براہ راست اور آٹھ لاکھ افراد بالواسطہ طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ بھارت کے مختلف شہروں سے کاروبارکی غرض سے وادی کا رخ کرنے والے سیکڑوں غیرمقامی افراد بھی کچھ اپنی جانوں سے گئے اورہزاروں اپنی جمع پونجی سے محروم ہوگئے ہیں۔

دھان کی فصل، زعفران،اخروٹ، سیب، بادام اور مکئی کے بڑے علاقوں پر محیط کھیت پانی میں بہہ گئے۔ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصانا ت کا فی الوقت اندازہ لگانا مشکل ہے مگر اب تک نقصانات کے جو تخمینے لگائے گئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ شہروں میں 90 فی صد فصلات اور انفرااسٹرکچر تباہ ہوگئے ہیں۔ وادی کشمیر کا سیب، اخروٹ اور زعفران دنیا میں مشہور ہیں لیکن مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ سیلاب نے نہ صرف ان کے پھلوں کے باغات اجاڑ دیے بلکہ زمین کو بھی کھنڈر بنا دیا ہے۔ ہرے بھرے لہلہاتے کھیت اور باغات اب ریت اور ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں جنہیں دوبارہ آباد کرنے اور قابل کاشت بنانے کے لیے کروڑوں ڈالر کا سرمایہ درکا ر ہے۔

بھارتی میڈیا اور ماہرین کے مطابق ریاست جمو ں و کشمیر میں اڑھائی لاکھ عمارتیں متاثر ہوئی ہیں۔ ا ن میں 20 ہزار مکانات اور دیگر عمارتیں مکمل طور پر زمین بوس ہو چکی ہیں جبکہ ہزاروں کھڑی عمارتوں کے محض ڈھانچے ہی بچے ہیں جو عملًا ناکارہ ہو چکی ہیں۔ چونکہ اب بھی بہت سے نشیبی علاقوں میں پانی موجود ہے اور وقفے وقفے سے ہونے والی بارشوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ایسے میں مکانات کی تباہی کا صحیح تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔

ریاستی حکومت کی جانب سے ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ مقامی حکومت نے وادی کے اہم مقامات پر 224 ریلیف کیمپ قائم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ چار ارب 30 کروڑ روپے کی رقم بھی سیلاب متاثرین کے یے مختص کی گئی ہے۔ حکومت کا دعوٰی ہے کہ ایک ہفتے کے دوران وادی میں سیلاب میں پھنسے افراد میں 1900 ٹن راشن تقسیم کیا گیا اور سری نگر شہر میں 14 ہزار گیس سلنڈر تقسیم کیے گئے ہیں۔ سیلابی پانی کی نکاسی کے لیے 200 پمپ فراہم کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔

ریاستی اور مرکزی حکومت کی توجہ منظور نظر افراد تک محدود

جمو ں و کشمیر ہائی کورٹ میں دو مقامی وکلاء کی طرف سے سیلاب متاثرین کی مدد میں دانستہ کوتاہی برتنے کے الزام میں ایک رٹ بھی دائر کی گئی ہے۔ امدادی کاموں سے متعلق حکومت کے مذکورہ بالا دعوے دراصل اسی رٹ کے جواب میں عدالت میں پیش کیے گئے ہیں۔ حکومتی دعوے اپنی جگہ مگر عملًا سیلاب متاثرین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں کم سے کم پانچ سو افراد بپھرے طوفانی سیلاب کی موجوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ لٹے پٹے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کمر سیدھی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حسب روایت بھارتی مرکزی اور کٹھ پتلی حکومتوں نے ملک کے طول وعرض میں فلاحی خدمات انجام دینے والے مقامی اور غیر ملکی اداروں کو بھی کھلے عام متاثرین کی مدد سے روک دیا ہے۔ حکومت خود بھی کچھ کرنے سے معذور رہی لیکن یہ سب سے بڑا ظلم ہے کہ این جی اوز کو بھی مدد کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ چند روز قبل نئی دہلی میں موجود کشمیری طلباء کے ایک گروپ نے اپنے طور پر ریلیف سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔ دہلی کے مسلمانوں اوردیگر کمیونٹیز نے طلبہ کو نقد امداد کے ساتھ خوراک ، کپڑے اور خیمے بھی فراہم کیے۔

وہ کئی ٹرک سامان جمع کرکے بیٹھ گئے مگر بھارتی حکومت نے انہیں سامان وادی میں منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر فراہم کرنے سے انکار کردیا، جس کے نتیجے میں خوراک کا بہت سا سامان بارش کی وجہ سے ضائع ہوگیا ہے۔ مقامی باشندوں کو سب سے زیادہ شکایت عمرعبداللہ کی کٹھ پتلی حکومت سے ہے جو متاثرین کی مدد کے بلند بانگ دعووں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سیلاب متاثرین کے پہلے اوردوسرے مرحلے میں حکومتی امدادی ٹیموں کی تمام تر توجہ سیاحوں کو بچانے، حکومت کے منظور نظر افراد اور وی آئی پیز کو بچانے پر مرکوز رہی۔ اننت ناگ (اسلام آباد) سے تعلق رکھنے والے ایک شہری نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کے ہمراہ تین دن تک ایک درخت پر رہے۔

ان کے سامنے بھارتی فوج کے ہیلی کاپٹر آتے اور اہم حکومتی شخصیات کو ان میں سوار کرکے محفوظ مقامات پر منتقل کرتے رہے۔ اس نے کئی بار سرخ کپڑا لہرا کر ان کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی مگر سب بے سود۔ آخر بارش تھمی اور وہ خود ہی اتر کر اونچائی پر موجود ایک پہاڑی علاقے میں اپنے دیگر عزیزوں تک پہنچے۔ یوں بھارتی حکومت اور فوج کی تمام توجہ صرف مخصوص افراد تک محدود رہی جب انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا تو اس کے بعد بھارتی فوج ہر طرف بندوقیں لہراتی اور شہریوں پر اپنی رعونت اور خوف طاری کرتی دکھائی دیتی ہے کیو نکہ ریاستی حکمراں نئی دہلی کی طویل یاترا پر ہیں انہیں پرتعیش تقریبات سے فرصت ملے گی تو وہ متاثرین کے پاس آسکیں گے، مقامی آبادی کا یہ سب سے بڑا سوال ہے۔

بھارتی حکومت کی لاپرواہی اور کھلی غفلت کے بعد ریاست کے سیلاب زدگان سخت غم وغصے میں ہیں۔ حال ہی میں مرکزی حکومت کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے بھیجا گیا اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف سامان شہریوں نے اٹھا کر دریا برد کردیا۔ اس طرح کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ بھارتی حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ متاثرہ شہریوں میں اب تک ایک ایک لاکھ روپے کی امداد فی خاندان تقسیم کی جا چکی ہے۔ تلاش کے باوجود کہیں سے اس کی تصدیق اور گواہی نہیں مل سکی ۔ عین ممکن ہے یہ امداد بھی انہی لوگوں کو دی گئی ہوگی جنہیں سیلاب سے نکالنے کے لیے بھارتی فوج نے ایمرجنسی ہیلی کاپٹرسروس دن رات چلا رکھی تھی۔

مہاجرین اپنے پیارں کے غم میں نڈھال
خونی لکیر نے خطہ جنت نظیر کو دو حصوں میں پہلے ہی تقسیم کر رکھا ہے اور اس تقسیم کے نتیجے میں ہزاروں خاندان محض چند فرلانگ کے فاصلے پر موجود اپنے پیاروں سے ملنے سے محروم ہیں۔ بھارتی فوج کے مظالم سے تنگ آ کر بڑی تعداد میں کشمیری ھجرت کرکے آزاد خطے میںآباد ہوئے۔ حالیہ قدرتی آفت میں ان کے دکھوں پر مرہم رکھنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کو اپنے دیگر کھیل تماشوں سے اتنی فرصت کہاں کہ وہ ان مظلوموں کی حالت زار بھی بیان کرے۔

جن کے آدھے خاندان آزاد اور آدھے مقبوضہ کشمیر میں ہیں۔ مظفرآباد میں مقیم ایک کشمیری پناہ گزین نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیلاب کے بعد اس کی سوپور میں موجود والدہ اور ایک بھائی سے بات ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ سیلاب کے باعث ان کی 95 فی صد فصلات، باغات اور مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ وہ مسلسل چار روز تک ایک ویران علاقے میں بھوکے پیاسے رہے اور بھوک سے بچے نڈھال تھے۔ ان چار دنوں میں ان کی مدد کو کوئی نہیں پہنچا۔ یہ دکھڑا کسی ایک کشمیری خاندان کا نہیں بلکہ خونی لکیر میں بٹے ہزاروں کنبے عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے یہی سوال کرتے ہیں کہ یہ خونی لکیر آخر کب مٹے گی۔

ایک معمر خاتون جس کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا وادی میں اور ایک بیٹا آزاد کشمیر میں ہے نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت سے ہمیں کسی خیر کی توقع نہیں لیکن تقسیم کشمیر کی سرخ لکیر کو مٹانے میں پاکستانی حکومتوں نے بھی کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا۔ اس نے بتایا کہ جب سے وہ لوگ ہجرت کرکے آزاد خطے میں داخل ہوئے تو بھارتی فوج نے کارروائی کرکے ان کی تمام جائیداد اور اراضی پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس کے بچوں کو وہاں سے نکال دیا گیا اور ان کے کئی ایکڑ زرعی کھیتوں کو فوجی چھاؤنی میں بدل دیا گیا ہے۔ معمر کشمیری خاتون کا کہنا تھا کہ حالیہ سیلا ب میں اس کے آٹھ قریبی عزیز پانی میں ڈوب کرجاں بحق ہوئے۔ ان میں سے صرف تین کی لاشیں مل سکیں باقی پانچ کا کوئی نام و نشان تک نہیں ۔

حریت کانفرنس سے وابستہ توقعات
مقبوضہ وادی میں سیلاب زدگان کی مدد کے حوالے سے بھارتی اور کشمیری سرکار کی لاپرواہی نے عوام کی توجہ حریت قیادت کی جانب مبذول کردی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے جہاں ریاستی مشینری مکمل طورپر ٖغیر فعال دکھائی دی وہیں حریت کانفرنس اتنی ہی سرگرم رہی ہے۔

حریت رہ نما جو خود بھی براہ ر است سیلاب سے متاثرتھے اپنی مشکلات بھول کر کشمیر کے دورافتادہ علاقوں تک پہنچے اور متاثرین کی ہرممکن مدد میں ان کا ساتھ دیا ہے۔ گوکہ بھارتی میڈیا اپنے روایتی بخل سے کام لیتے ہوئے حریت قیادت کی مساعی کا کہیں بھی تذکرہ نہیں کر رہا ہے۔ ماضی میں کسی بھی قدرتی آفت بالخصوص سنہ 2005 ء کے زلزلے کے دوران بھی بھارتی حکومت ہاتھ پے ہاتھ رکھے بیٹھی رہی اور متاثرین تک پہنچنے میں پہل حریت قیادت نے کی تھی ۔ بعد ازاں خود بھارتی حکومت نے بھی حریت کانفرنس کی کوششوں کو تسلیم کیا تھا۔

حریت قیادت ان دنوں ایک دوسرے حوالے سے بھی سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کا حق تسلیم کرتے ہوئے وہاں کے عوام کو حق رائے دہی کے استعمال کا موقع دیا گیا۔ اسکاٹ لینڈ میں حق خود ارادیت کے حوالے سے ہونے والی رائے شماری نے بھارتی حکومت کو چوکنا کردیا ہے۔ چونکہ کشمیر کے معاملے پر برطانیہ ایک فریق کی حیثیت رکھتا ہے اور سنہ 1947ء کی تقسیم برصغیر کے تحت ریاست جمو ں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنا برطانوی حکومت کی اخلاقی اور آئینی ذمہ داری تھی جو کہ ادا نہیں کی گئی اور کشمیر کے مسلمان اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔

اسکاٹ لینڈ میں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد کشمیر کی حریت قیادت میں ایک نئی جان پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے لیکن ساتھ ہی بھارتی کٹھ پتلی رہ نماؤں اور سیاست دانوں کے ارادوں پر اوس پڑ چکی ہے۔ سیلاب متاثرین کی بروقت خبر گیری اور اسکاٹ لینڈ میں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد کشمیر ی عوام کا حریت کانفرنس کی قیادت پر اعتماد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ گوکہ کشمیری اس وقت ایک سانحے سے گزر رہے ہیں مگرجہاں کہیں سماجی رابطوں کا سلسلہ بحال ہوا ہے سوشل میڈیا پر یہ بحث پورے زور و شور سے جاری ہے کہ برطانیہ اسکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم کرا سکتا ہے تو اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکا اور برطانیہ مل کر کشمیری عوام کو یہ حق کیوں نہیں دے سکتے ہیں۔

عالم ِاسلام کے مقدس ترین شہر مکہ مکرمہ کا بدلتا روپ

$
0
0

یہ یکم جنوری 2004ء کی بات ہے، دوران حج ہزارہا حاجی منیٰ سے کنکر جمع کرکے رمی جمار کرنے چھبیس فٹ بلند دیواروں کی سمت بڑھے۔ پل کے راستے میں بہت ہجوم تھا۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب جانے اور آنے والے ہزاروں حاجی اپنا راستہ بنانے کی کوشش کرنے لگے۔

راستے میں ایک جگہ کچھ حاجیوں کا سامان رکھا تھا۔ جب پیچھے سے دباؤ آیا، تو کچھ حاجی سامان سے الجھ کر نیچے گرگئے۔ اس حادثے کے بعد راستے میں افراتفری پھیل گئی اور ہر کوئی اپنا راستہ بنانے لگا۔ اسی کشمکش میں کئی لوگ خصوصاً ضعیف افراد پیروں تلے آکر کچلے گئے۔اس بھگدڑ کے باعث 346 حاجی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔یہ افسوس ناک واقعہ دنیا بھر کے مسلمانوں خصوصاً سعودی حکومت پر واضح کرگیا کہ دورانِ حج خانہ کعبہ کے اطراف میں لوگوں کا ہجوم بہت بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا راستے کھلے کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ حاجی آرام و سہولت سے حج کا مقدس دینی فریضہ ادا کرسکیں۔

آج سے ساٹھ ستر سال پہلے ذرائع آمدورفت محدود تھے۔ خاص طور پر مسلمانوں کو پیدل یا اونٹوں پر سوار ہوکر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جانا پڑتا تاکہ وہ مقدس ترین مقامات کی زیارت کرسکیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ بہت بڑی تبدیلی آئی کہ ہوائی جہاز اور بحری جہاز بڑی تعداد میں چلنے لگے۔ کاروں اور بسوں کے ذریعے ایک سے دوسرے شہر جانا آسان ہوگیا۔ شعبہ آمدورفت میں اسی انقلاب کے باعث ممکن ہوا کہ دنیا بھر سے مسلمان سعودی عرب پہنچ کر حج یا عمرہ ادا کرسکیں۔

1950ء سے قبل ہر سال دوران حج ایک لاکھ حاجی جمع ہوتے تھے۔ آج یہ تعداد ’’تیس لاکھ‘‘ تک پہنچ چکی۔ ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ 2030ء تک ہر سال ’’پچاس لاکھ حاجی‘‘ حج کرنے آیا کریں گے۔ تب تک دنیا بھر میں ’’سوا دو ارب‘‘مسلمان آباد ہوں گے۔ اس وقت ان کی آبادی ایک ارب ساٹھ کروڑ ہے۔

دوسری طرف مکہ مکرمہ کی آبادی بھی تیزی سے بڑھی۔ چناں چہ رفتہ رفتہ انسانوں کے زبردست اکٹھ کی وجہ سے خصوصاً ایسے مسائل جنم لینے لگے جن کا تعلق رہائش کی جگہ، صحت و صفائی، آمدورفت اور پینے کے صاف پانی سے تھا۔ لاکھوں لوگوں کو نظم و ضبط سے سنبھالنا بہت بڑا مسئلہ بن گیا۔یہی مسائل مدنظر رکھ کر سعودی عرب کے حکمران پچھلے چالیس برس میں مسجد الحرام کو توسیع دے چکے تاکہ حاجیوں اور زائرین کی بڑی تعداد اس میں سماسکے۔ یاد رہے، ہر سال دنیا بھرسے ڈیڑھ کروڑ مسلمان حج یا عمرہ کرنے سعودیہ آتے ہیں۔

مسجد الحرام خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق نے خانہ کعبہ کے گرد تعمیر کرائی تھی۔ تب سے مسجد کے رقبے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ جب رمی جمار میں افسوس ناک سانحے پیش آئے، تو 2007ء میں مسجد الحرام کو وسیع کرنے کے نئے منصوبے پہ کام ہونے لگا۔ یہ مسجد الحرام کی تاریخ میں سب بڑا توسیعی منصوبہ ہے۔ مکہ مکرمہ کی تعمیر و ترقی (ڈویلپمنٹ) بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔

دراصل دنیا بھر سے مسلمان چند گھنٹے قیام کرنے کی خاطر مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ نہیں آتے، وہ کئی دن بلکہ ہفتوں قیام کرتے ہیں۔ چناں چہ انہیں رہائش، غذا، صفائی اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات درکار ہوتی ہیں۔ انہیں یہ سہولیات مہیا کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ اور مدینہ میں ہوٹلوں، مہمان خانوں اور ریستورانوں کا جال بچھ چکا ہے۔12 جنوری 2006ء کو جب رمی جمار میں دوبارہ بھگدڑ مچنے سے ’’346‘‘ مسلمان شہید ہوگئے، تو سعودی فرماں روا، شاہ عبداللہ نے اپنے مشیروں کو طلب کرلیا۔ اس اجلاس میں ہی مسجد الحرام کی توسیع کا فیصلہ ہوا اور یہ بھی کہ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ میں بس و ریل سے آمدورفت کا نیا نظام ڈیزائن کیا جائے۔اب سعودی حکومت ایسی ممتاز کمپنیوں کو تلاش کرنے لگی جو نئے منصوبے پر عملدرآمد کرسکیں۔ ’’30 سال‘‘ پر محیط اس منصوبے پر اندازاً ’’230‘‘ ارب ڈالر‘‘ (دو سو تیس کھرب روپے) خرچ ہونے ہیں۔ گویا یہ اپنی وسعت اور مالیت کے اعتبار سے انسانی تاریخ کے چند عظیم ترین توسیعی منصوبوں میں شامل ہو چکا۔

تلاش بسیار کے بعد آخر انہیں کینیڈا کے شہر، ٹورنٹو میں مطلوبہ معیار کی کمپنیاں مل گئیں۔ ہوا یہ کہ 1996ء میں سعودی حکومت سے منسلک انجینئر، حسنی الرحمن ایک کانفرنس میں شرکت کرنے کینیڈین دارالحکومت، اٹاوہ گئے۔ کانفرنس میں شریک کینیڈین انجینئر ہیوگ او ڈونیل ان کے اچھے دوست بن گئے۔ دونوں نے پھر بذریعہ خط یا ٹیلی فون ایک دوسرے سے رابطہ رکھا۔

2008ء تک حسنی الرحمن سعودی حکومت کے شعبہ منصوبہ بندی میں سیکرٹری بن گئے جبکہ ہیوگ کینیڈا کی مشہور انجینئرنگ کمپنی، ایم ایم گروپ (MMM Group Limited) میں شعبہ انٹرنیشنل آپریشنز کا سربراہ بن چکا تھا۔یہ 25 نومبر 2008ء کی بات ہے، ہیوگ کو حسنی عبدالرحمن کی طرف سے ایک خط موصول ہوا۔ اس میں مسجد الحرام، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے توسیعی منصوبے کی تفصیل درج تھی۔ حسنی چاہتے تھے کہ ہیوگ کی کمپنی اس عظیم الشان منصوبے کا ’’روڈ میپ‘‘ تیار کرے یعنی ماہرین کی مدد سے بتائے کہ اسے کیونکر انجام دیا جائے۔

دراصل ہیوگ ایک خاص ٹیکنالوجی، جی آئی ایس (Geographic Information Systems)کا ماہر ہے۔ اس کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک معین علاقے کا پورا جغرافیائی نقشہ تیار کرنا ممکن ہے۔ مطلب یہ کہ علاقے میں سڑکیں کہاں بنیں گی، سیوریج کے زیر زمین پائپ کہاں بچھیں گے، کون کون سی عمارتیں کہاں تعمیر ہوں گی۔ غرض جی آئی ایس کی مدد سے ماہرین تعمیرات کمپیوٹر کی سکرین پر مستقبل کا شہر آباد کر لیتے ہیں۔

حسنی عبدالرحمن اس ٹیکنالوجی کی افادیت سے خوب واقف تھے کیونکہ سعودیہ میں تیل کے کنوؤں والے علاقوں میں جی آئی ایس کی مدد ہی سے ڈویلپمنٹ انجام پائی تھی۔ اب عبدالرحمن جاننا چاہتے تھے کہ مکہ مکرمہ میں فلاں تیس منزلہ عمارت گرانے سے آمدورفت اور فضائی و ستھرائی کے نظام میں کس قسم کی بہتری آئے گی۔ جی آئی ایس ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ اندازہ لگانا ممکن ہے۔

اس وقت تک ایم ایم گروپ نے مقامی سطح پر ہی پروجیکٹ تیار کیے تھے۔ مثلاً وینکوور شہر میں گولڈن ایرز نامی پل بنایا۔ اب وہ ٹورنٹو کے ہوائی اڈے پر نیا ٹرمنل تعمیر کررہے تھے۔ ظاہر ہے، سعودی حکومت کا عظیم الشان منصوبہ کینیڈین کمپنی کو ملتا، تو اس کے وار ے نیارے ہوجاتے۔ تاہم ’’ہاں‘‘ یا ’’نہ‘‘ کرنے کے لیے ایم ایم گروپ کو صرف دو دن ملے۔

ہیوگ سعودی پروجیکٹ کی تفصیل لیے اپنے باس، بروس بوڈن کے پاس پہنچ گیا۔ تب وہ گروپ کا چیئرمین تھا۔ وہ بتاتا ہے ’’شروع میں مجھے اس منصوبے سے دلچسپی محسوس نہ ہوئی۔ پھر سعودی حکومت سے ہمارے تعلقات بھی نہ تھے۔ مجھے شک تھا کہ پسندیدہ تعمیراتی کمپنی کا انتخاب پہلے ہی ہوچکا۔ بہرحال ہم نے ایک شرط پر بولی میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔‘‘

ایم ایم گروپ چاہتا تھا کہ اس پروجیکٹ میں ایک کینیڈین تعمیراتی کمپنی، موری یاما اینڈ تشیما(Moriyama and Teshima) کو بھی شامل کیا جائے۔ حسن عبدالرحمن اور سعودی شعبہ منصوبہ بندی کے دیگر افسر ایم ایم گروپ کی اعلیٰ مہارت اور فرض شناسی کے مداح تھے۔ لہٰذا انہوں نے گروپ کی شرط منظور کرلی۔

ویسے بھی موری یاما اینڈ تشیما کمپنی سعودیوں کے لیے اجنبی نہ تھی۔ اسی نے 1996ء میں سعودی قومی عجائب گھر ڈیزائن کرکے تعمیر کیا تھا۔ پھر 2004ء میں ریاض میں واقع وادی حنیفہ کی حالت بحال کرکے محیر العقول کارنامہ انجام دیا۔ وادی حنیفہ دراصل 120 کلو میٹر طویل دریائی راستہ ہے۔ جب افتادِ زمانہ سے دریا خشک ہوگیا، تو سعودی دارالحکومت کا گندا پانی وہاں پھینکا جانے لگا۔ اس پانی نے وادی کو گندگی اور بدبو سے بھر دیا۔

2004ء میں سعودی حکومت نے وادی حنیفہ کی حالت سدھارنے کا فیصلہ کیا۔ چناچہ موری یاما اینڈ تشیما سے رابطہ کیا گیا۔ کمپنی کے ماہرین نے پانی میں جگہ جگہ الجی اگائی اور کوڑا کرکٹ کھانے والے جراثیم چھوڑ دیئے۔ ان کی مدد سے پانی صاف کرلیا گیا۔ اب وادی حنفیہ ایک تفریحی و زرعی مقام بن چکا ہے۔ وہاں ریاض کا گندا پانی صاف کرکے باغات اور جھیلوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔

جنوری 2009ء میں دونوں کینیڈین کمپنیوں نے سعودی پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کی بولی جیت لی۔ یہ 15 ملین ڈالر کا پروجیکٹ تھا۔ ایم ایم گروپ کے ماہرین کی ذمے داری یہ بتانا تھا : مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رہائشیوں اور عارضی مہمانوں کو آنے والے برسوں میں کتنی جگہ بہ غرض رہائش، پانی اور بجلی درکار ہوگی۔ جب یہ طے ہوجاتا تو پھر موری یاما اینڈ کو نئی تعمیر ہونے والی عمارتوں کی ڈیزائننگ کرنا تھی۔

لیکن پہلے دین اسلام، اسلامی تعلیمات اور تہذیب و ثقافت سے آگاہی دلانے کی خاطر دونوں کینیڈین کمپنیوں کے غیر مسلم اعلیٰ و ادنیٰ ملازمین کو مشہور انگریزی فلم ’’سفر مکہ‘‘ (Journey toMecca) دکھائی گئی۔ مزید براں ٹورنٹو یونیورسٹی کے مسلمان استاد، پروفیسر نعمان اشرف کی خدمات حاصل کی گئیں تاکہ وہ ملازمین کو اسلام کی خصوصیات سے آگاہ کرسکیں۔بروس بوڈن کہتا ہے:

’’میں نے سبھی ملازمین کو بتایا ،آپ سب کے لیے اس عظیم الشان منصوبے سے منسلک ہونا اعزاز کی بات ہے۔ ایسا موقع زندگی میں صرف ایک بار آتا ہے۔‘‘

لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کینیڈین ماہرین ان جگہوں کا وژن یا تصّوراتی ڈھانچہ کیونکر تیار کرتے جو انہوں نے دیکھی ہی نہیں تھیں؟ اور نہ ان کو دیکھنے کی اجازت تھی۔ حتیٰ کہ مجوزہ جگہوں پر جو (اسلامی) عبادات کی جانی تھیں، کینیڈین ان کے بارے میں بھی کم ہی جانتے تھے۔

ایم ایم گروپ نے ’’حرمین الشریفین پروجیکٹ‘‘ کا سربراہ مشہور انجینئر، سٹیفن ولز کو بنایا۔ وہ درج بالا مسئلے کی بابت کہتا ہے ’’چونکہ حرمین الشریفین پروجیکٹ سے ملتے جلتے منصوبے پہلے کبھی انجام نہیں پائے، اسی لیے ہم اس کا کسی سے موازنہ نہیں کرسکے۔ دنیا میں اولمپکس ہوتے ہیں اور فٹ بال ورلڈ کپ بھی۔ اسی طرح جب اوباما صدر منتخب ہوئے، تو واشنگٹن مال میں دس لاکھ لوگ جمع تھے۔ مگر یہ سب عارضی و چھوٹے مجمعے ہیں۔ حج نہ صرف ہر سال منعقد ہوتا ہے بلکہ اس موقع پر تیس لاکھ انسان ایک جگہ سمٹ آتے ہیں… ایسا عظیم الشان انسانی مظہر کہیں اور جنم نہیں لیتا۔‘‘

لاکھوں حاجیوں و زائرین آنے کی وجہ سے ہی سعودیہ کے بجلی، پانی اور سیوریج نظاموں پر بے پناہ دباؤ پڑ جاتا ہے۔ کہیں گٹر ابل پڑے، تو پھر اس سڑک پر معطل آمدورفت مسائل کو مزید گھمبیر بنا ڈالتی ہے۔ ایک بار سڑکوں پر اتنا ہجوم تھا کہ پولیس زچگی کا شکار ایک عورت کو تین گھنٹے بعد ہسپتال پہنچا پائی جو کچھ ہی دور تھا۔سعودی حکومت نے ہجوم پر قابو پانے کا یہ طریقہ نکالا کہ وہ حاجیوں کو پرمٹ جاری کرنے لگی۔ مثال کے طور پر پچھلے سال مکہ مکرمہ میں تعمیرات جاری تھیں، سو صرف 20 لاکھ حاجیوں کو مکہ و مدینہ آنے کی اجازت دی گئی۔

مکہ اور مدینہ میں خاص ہوائی اڈے بنائے گئے جو صرف دوران حج استعمال ہوتے ہیں۔ بہ موقع حج وہاں پچیس ہزار ہیلتھ ورکر روزانہ آنے والے ایک لاکھ حاجیوں کو مختلف بیماریوں کے طبی امتحانوں سے گزارتے ہیں۔ جن اسلامی ممالک میں غربت کے باعث امراض پھیلے ہوئے ہوں، وہاں سے آنے والے حاجیوں کو نرسیں مختلف بیماریوں کے قطرے پلاتی ہیں۔

حرمین الشریفین پروجیکٹ کی بے پناہ اہمیت کے پیش نظر دونوں کینیڈین کمپنیوں کے پچاس اعلیٰ افسر جدہ اور ریاض آئے۔ انہوں نے سعودی سرکاری افسروں کے علاوہ علماء، ادبا، اساتذہ اور معاشرے کے دیگر معززین سے ملاقاتیں کیں۔ ان کا مدعا سعودی اسلامی تہذیب و ثقافت کی خصوصیات جاننا تھا۔

اسی دوران کمپنیوں کے درجن بھر مسلمان نمائندوں نے مکہ و مدینہ کا دورہ کیا۔ وہ بھی ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے سعودی باشندوں سے ملے۔ بوڑھے سعودیوں نے بچپن کی یادیں تازہ کیں جب دونوں شہروں میں آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ انہوں نے بتایا کہ تب وہ شہر کے باہر واقع تالابوں میں نہایا کرتے تھے۔ ان کی آپ بیتیاں سن کر ہی کینیڈین ماہرین نے فیصلہ کیا کہ حرمین الشریفین کے نزدیک قدرتی مظاہر و خوبصورتی محفوظ رکھنے والے خصوصی علاقے بھی بنائے جائیں۔

موری یاما اینڈ تشیما کے چیف ماہر تعمیرات (آرکیٹیکٹ)، جین فلپی نے جدہ کے علاقے، البلاد میں ایک ہفتہ گزارا۔ دراصل اس قدیم علاقے کی گلیاں اور عمارتیں پرانے مکہ مکرمہ سے ملتی جلتی ہیں۔ یعنی پتھر سے بنی گلیاں، ساتھ ملے ہوئے گھر، گلیوں میں چیزیں بیچتے پھیری والے اور تھڑوں پر بیٹھے محو گفتگو لوگ !البلاد میں ایک ہفتہ گزارنے سے جین فلپی کو یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ مکہ اور مدینہ میں رہائشی سہولیات کیونکر بہتر بنائی جائیں۔ مثلاً طے پایا کہ گلیوں کا رخ شمال سے جنوب کی طرف ہو، تاکہ چلتے حاجیوں و زائرین پر عمارتوں کا سایہ آجائے اور دوپہر کی گرمی انہیں پریشان نہ کرے۔ مگر سڑکیں چوڑی نہیں رکھی گئیں ورنہ سایہ کام نہ دیتا۔ اسی طرح عمارتیں بھی زیادہ بلند نہیں ہونی چاہئیں ورنہ گلیوں میں ہوا کی آمدورفت رک جاتی۔

سعودی باشندوں کے لیے شہری منصوبہ بندی بہرحال ایک نئی چیزتھی۔ 1932ء میں جب سعودی مملکت کی بنیاد پڑی، تو لاہور کی مانند دارالحکومت ریاض بھی چاروں طرف قلعہ نما دیوار رکھتا تھا۔ شہر میں سبھی سڑکیں مٹی یا پتھر سے بنی تھیں اور گاڑیوں کا نام و نشان نہ تھا۔ (اس وقت کینیڈا میں دس لاکھ رجسٹرڈ گاڑیاں چل رہی تھیں)۔ چنانچہ ساحل سمندر سے ریاض بذریعہ اونٹ آنے پر تین دن لگ جاتے۔

1938ء میں تیل دریافت ہوا، تو اس سیاہ دولت نے حکمرانوں کو امیر بنا دیا، تاہم ملک کی حالت میں انقلاب نہ آسکا۔ حتیٰ کہ 1950ء میں بھی 85 فیصد سعودی دیہات میں آباد تھے…آج 80 فیصد سعودی باشندے شہروں میں بستے ہیں۔مکہ مکرمہ کا رہائشی ماہر تعمیرات، طارق علی بتاتا ہے :’’1950ء کے بعد غیر ممالک سے پروازیں سعودیہ آنے لگیں۔ مگر عام طور پر وہ گھنٹوں لیٹ ہوتیں۔ اس زمانے میں مکہ کے بیشتر گھروں میں بجلی تھی نہ پانی کا نلکا۔‘‘

لیکن اب خصوصاً مکہ و مدینہ کے آسمان پرجابجا کرنیں استادہ نظر آتی ہیں۔ سعودی حکومت مملکت میں ’’چھ نئے شہر‘‘ تعمیر کروارہی ہے جن پر کل ’’پانچ سو ارب ڈالر‘‘ (پانچ سو کھرب روپے) لاگت آئے گی۔ یہ شہر 2020ء تک مکمل ہوجائیں گے۔ وہاں ’’پچاس لاکھ‘‘ لوگ رہ سکیں گے جبکہ مزید دس لاکھ نئی ملازمتیں جنم لیں گی۔درج بالا شہروں میں ’’شاہ عبداللہ اکنامک سٹی‘‘ (مدینہ الملک عبداللہ اقتصادیہ) بھی شامل ہے۔ مکہ مکرمہ سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع اس زیر تعمیر سحر انگیز شہر کی جھلکیاں سائنس فکشن فلم ’’مائینیرٹی رپورٹ‘‘ (Minority Report) میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

اُدھر جدہ میں اکثر سڑکوں پر کارکن فولاد، اسٹیل اور پتھروں کے انباروں پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ جابجا جاری تعمیراتی کاموں کی وجہ سے جدہ کا ٹریفک خاصا متاثر ہوا۔ چناں چہ ہر بڑے شہر کی طرح جدہ کی سڑکوں پر بھی صبح اور شام، جب لوگوں کی اکثریت باہر نکلتی ہے،گاڑیوں کا زبردست ہجوم رہتا ہے۔

ترقیاتی منصوبے شروع ہونے کے علاوہ سعودی شہری معاشرہ بھی انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ جدہ اور ریاض میں ایسے کئی گروسری اسٹور اور مال کھل چکے جہاں خواتین ملازم ہیں۔ صرف تین سال قبل مرد ہی ان اسٹوروں میں کام کرسکتے تھے۔

جب کینیڈین کمپنیاں سعودی منصوبے سے منسلک ہوئیں تو کچھ عرصے بعد انہیں پتا چلا، اندرون و بیرون ممالک یہ پروجیکٹ تنقید کا نشانہ بھی بن چکا۔ ناقدوں کا کہنا ہے کہ توسیعی منصوبوں کی وجہ سے خصوصاً مکہ مکرمہ میں کئی تاریخی عمارات منہدم ہوچکیں۔ ان میں ایسی عمارتیں بھی شامل ہیں جنہیں بہت سے مسلمان مقدس و متبرک سمجھتے ہیں۔

تاہم سعودی حکومت نے کینیڈین ماہرین کو تلقین کی کہ وہ تنقید پر توجہ دیئے بغیر اپنا کام کرتے رہیں۔ سعودیوں نے انہیں بتایا کہ خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ کے علاوہ کسی اور عمارت سے عقیدت رکھنا ان کی نظر میں شرک ہے۔بہرحال کینیڈین کمپنیاں شروع میں مخمصے کا شکار رہیں۔ ولز بتاتا ہے:

’’ہم نے اپنے مسلمان دوستوں سے سنا کہ توسیعی پروجیکٹ کی خاطر حضرت محمد ﷺکی پہلی زوجہ محترمہ، ام المومنین حضرت خدیجہؓ کا مکان ڈھایا جاچکا اور وہ مکان (دارالارقم) بھی جہاں نبی ﷺلوگوں سے ملاقاتیں کرتے تھے۔چناں چہ ہمیں یہی محسوس ہوا کہ ہم کو کہا جارہاہے، روم پہنچ کر سینٹ پیٹر (کیتھریڈل) کا فلاں حصہ منہدم کردو۔ مگر ہمیں سعودی حکومت کے احکامات پر عمل کرنا پڑا۔‘‘

کینیڈین ماہرین نے گوگل ارتھ کی مدد سے مکہ مکرمہ کا دورہ کیا اور شہری جغرافیہ سمجھنے کی کوششیں کیں۔ دراصل سعودی حکومت نے پروجیکٹ سے متعلق جو معلومات کینیڈین کمپنیوں کو فراہم کیں، ان کا 90 فیصد حصہ عربی زبان میں تھا۔ چناں چہ منصوبے سے وابستہ مختلف معلومات حاصل کرنے کی خاطر کینیڈینوں کو خاصی تگ و دو کرنا پڑی۔

سعودی حکومت چاہتی تھی کہ جو کینیڈین ماہرین پروجیکٹ سے براہ راست منسلک ہیں، وہ اہل خانہ سمیت جدہ آجائیں۔ یوں وہ مکہ مکرمہ میں جاری سرگرمیوں کو بہ احسن سپروائز کرسکتے تھے۔ مگر اس تجویز کو کینیڈینوں نے مسترد کردیا۔ دراصل انہیں خطرہ تھا کہ سعودی عرب پہنچ کر ان کی آزادیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔

یہ تو ظاہر ہے کہ مغربی باشندے سعودی عرب پہنچ کر اپنی مادر پدر آزاد طرز زندگی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ مثلاً سعودیہ میں شاہراہ عام پر خاتون کی تصویر اتارنا منع ہے۔ مذہبی پولیس (مطوعین) کا کوئی افسر یا کارکن دیکھ لے، تو وہ فوراً یہ کارروائی روک دیتا ہے۔ اسی طرح مملکت میں اخبارات و رسائل کی سنسر شپ بہت سخت ہے۔ اسی باعث بہت سے مغربی باشندے سعودیہ آتے ہوئے گھبراتے ہیں۔

وسط 2009ء میں کینیڈین کمپنیوں کو شاہی سیاست کے پیچ وخم کا مزہ بھی چکھنا پڑا۔ ہوا یہ کہ شاہ عبداللہ نے اپنے چھوٹے بیٹے، شہزادہ نائف کو ولی عہد مقرر کردیا۔ اس پر بڑے بیٹے، شہزادہ متصب ناراض ہوکر بیرون ملک چلے گئے۔ تب وہی توسیعی پروجیکٹ کو دیکھ رہے تھے۔ شہزادہ متصب کی عدم موجودگی میں ان کے فرزند، شہزادہ منصور کو وزارت دیہی و شہری امور سونپ دی گئی۔

مگر شہزادہ منصور عمر میں گورنر مکہ، شہزادہ خالد سے چھوٹے تھے جنھوں نے پروجیکٹ کے معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ یہ تبدیلی کینیڈین کمپنیوں کو آفت میں گرفتار کراگئی۔ کیونکہ کینیڈین ماہرین اگلے ایک سال تک نئے سعودی منتظمین کو سمجھاتے بتاتے رہے کہ انہوں نے پچھلے چودہ ماہ میں پروجیکٹ سے متعلق کیا کام کیے اور کیوں! اس دوران کمپنیوں کو بطور تنخواہ ایک دھیلا نہیں ملا۔

بہرحال نئی سعودی انتظامیہ کینیڈین کمپنیوں کے کام سے مطمئن ہوگئی۔ چناں چہ کمپنیوں کے ماہرین نے پھیلاؤ پروجیکٹ کے سلسلے میں 41 بھاری بھرکم رپورٹیں تیار کیں جنہیں اب عربی میں منتقل کیا جارہا ہے۔ انہی رپورٹوں کی بنیاد پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں وسیع پیمانے پر ترقیاتی منصوبے شروع ہوں گے۔ گویا آنے والے عشروں میں حرمین الشریفین کی کایا پلٹ جائے گی اور ماضی کی نسبت ان کا نقشہ بالکل بدل جائے گا۔

کینیڈین رپورٹوں کی بنیاد پہ 2011ء سے مسجد الحرام کا توسیعی منصوبہ شروع ہوا۔اس کے ذریعے مطاف(خانہ کعبہ کے صحن )کا رقبہ ساڑھے تین لاکھ سے بڑھ کر ساڑھے سات لاکھ مربع میٹر ہو جائے گا۔پورا منصوبہ 2020ء میں ختم ہو گا۔تکمیل پہ بیس لاکھ فرزندانِ توحید میں حج کر سکیں گے۔ 2012ء سے مسجد نبویﷺ کی توسیع بھی شروع ہو چکی۔اس کی تکمیل کے بعد سولہ لاکھ عاشقان ِرسولﷺ مسجد مبارک میں سما سکیں گے۔

تصویر کا دوسرا رخ
مکہ مکرمہ توسیعی پروجیکٹ کچھ تنقید کا بھی نشانہ بنا ہوا ہے۔ وجہ یہ کہ اس کے باعث پچھلے تیس برس میں بہت سی اہم عمارات منہدم کی جاچکیں۔ مثال کے طور پر دارالارقم جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہؓ سے ملاقات کرتے تھے۔ وہاں اب ایک پنج ستارہ ہوٹل بن چکا۔ اسی طرح ام المومنین حضرت خدیجہؓ کا مکان ڈھا دیا گیا۔ وہاں اب عوامی بیت الخلا قائم ہیں۔

دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ سے منسلک آثار کو مقدس و متبرک سمجھتے ہیں۔ اسی لیے جب بھی سعودی حکمران کسی بھی وجہ سے انہیں نابود کردیں، تو بہت سے مسلمانوں کو دکھ ہوتا ہے۔

قدیم عمارات کے انہدام سے متعلق سعودی علمائے کرام کا کہنا ہے:’’ اول یہ عمارتیں بہت کمزور ہوچکی تھیں، لہٰذا وہ کسی بھی وقت ڈھے کر قیمتی انسانی زندگیاں ضائع کرنے کا سبب بن جاتیں۔ دوم اکثر جگہوں کو مسلمانوں نے عبادت گاہ کی حیثیت دے ڈالی تھی جو شرک ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر انہیں منہدم کرنے کے بعد ہی مسجد الحرام کا پھیلاؤ ممکن تھا جو تمام عمارات پہ مقدم حیثیت رکھتی ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر راستے میں آنے والی ہر عمارت کو گرانا پڑا۔‘‘

تاہم کئی غیر سعودی علماء درج بالا دلائل سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد الحرام کو ایسی سمتوں کی طرف وسعت دینی چاہیے تھی جہاں قدیم عمارتیں واقع نہ ہوتیں۔ اب تو یہ عمارات ڈھا کر اسلامی تاریخ اور ہماری تہذیب و ثقافت کا خزانہ برباد کردیا گیا۔

ڈاکٹر عرفان علوی لندن کی تنظیم، اسلامک ہیریٹیج ریسرچ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہیں۔ اس تنظیم نے مقامات مقدسہ کو تحفظ دینے کی مہم چلا رکھی ہے۔ ڈاکٹر عرفان کا دعویٰ ہے کہ سعودیہ میں مذہبی پولیس (مطوعین) بہت طاقتور ہوچکی اور وہی عمارتیں و مقامات منہدم کررہی ہے کیونکہ انہیں مراکزِ شرک سمجھا جاتا ہے۔ اسی نظریے کے باعث مطوعین پچھلے 80 برس میں سیکڑوں مقامات ِمقدسہ ڈھا چکی۔

بعض غیر سعودی علماء و دانشور مکہ مکرمہ کی کمرشلائزیشن سے بھی دل گرفتہ و ناراض ہیں۔ مثال کے طور پر آج خانہ کعبہ سے چند میٹر دور ہی بلند و بالا ہوٹل، شاپنگ سینٹر اور مال واقع ہیں۔ اور یہ ساری کمرشلائزیشن امرا کی خاطر ہوئی۔ مثلاً خانہ کعبہ کے قریب واقع ہوٹلوں میں ایک کمرے کا کرایہ فی رات 500 ڈالر سے 6500 ڈالر ہے۔ یہ چکا چوند اور شان و شوکت تعلیمات اسلامی اور فلسفہِ حج کے برعکس ہے جو تقویٰ، سادگی، بھائی چارے، اخوت، متانت اور دیگر اعلیٰ اخلاقی اقدار کی ترویج کرتا ہے۔

ایک سو سال قبل کے مسلمان اگر آج مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ آنکلیں، تو حرمین الشریفین کا نیا رنگ و روپ دیکھ کر دنگ رہ جائیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بدلتے وقت و زمانے میں ہر شے کو ہو بہو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ ممکن ہے کہ پانچ چھ سو برس بعد خانہ کعبہ کے سامنے نصب کلاک ٹاور بھی لوگوں کا پسندیدہ بن جائے جسے کئی مسلمان غلط نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

کینیڈین ماہرین کی تجاویز

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو وسعت دینے، خوبصورت بنانے اور اور زائرین و شہریوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے کی خاطر ایم ایم ایم گروپ اور موری یاما اینڈ تشیما نے ڈھائی برس میں ’’41‘‘ ضخیم رپورٹیں تیار کیں۔ ان میں سے اہم نکات درج ذیل ہیں:

خانہ کعبہ:حاجی خانہ کعبہ میں سات بار طواف کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ طواف ختم کرنے کے بعد وہ باہر جانے لگیں، تو ان کا آنے والوں سے تصادم ہوجاتا ہے اور کسی جگہ ہجوم جمع ہوجائے، تو وہاں بوڑھے ایک طرف، طاقتور جوان بھی منٹوں میں پیروں تلے آ کر ڈھیر ہوجاتے ہیں۔اس مسئلے کا حل نکالتے ہوئے کینیڈین ماہرین تعمیرات نے تجویز دی کہ ایک زیر زمین رستہ(Ramp) بنایا جائے جو خانہ کعبہ کے قریب آکر کھلے۔ حاجی وہاں سے برآمد ہوکر طواف کریں اور ہر چکر پر کعبہ سے دور ہوتے جائیں یہاں تک کہ مقامِ سعی پر جانکلیں۔ اس راستے کی بدولت خانہ کعبہ میں 52 کے بجائے 60 ہزار حاجی بیک وقت حج ادا کرسکیں گے۔

ماحول:سعودی عرب میں پانی نایاب ہے۔ بارش بہت کم ہوتی ہے۔ اسی لیے حکومت نے بحیرہ احمر میں سمندری پانی صاف کرنے والے پلانٹ لگا رکھے ہیں جہاں پینے کا پانی تیار ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پلانٹ میں جمع شدہ نمک واپس سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔ یوں سمندر مزید نمکین ہورہا ہے۔ماہرین تعمیرات نے تجویز کیا کہ مضافاتِ مکہ میں جدہ کے راستے پر زیر زمین مصنوعی جھیل بنائی جائے۔ جھیل میں جمع بارش کے پانی کو قابل استعمال بنایا جائے گا۔ جبکہ جھیل کے اوپر گرین بیلٹ یا درختوں کی قطار بنے گی۔ یوں حاجی مکہ آمد پر فرحت و انبساط محسوس کریں گے۔

نقل و حمل (ٹرانسپورٹیشن):مکہ میں صرف دو رنگ روڈ واقع ہیں اور ان میں سے بھی ایک نامکمل ہے۔ کینیڈین ماہرین کا مشورہ ہے کہ نامکمل رنگ روڈ کو زیر زمین تعمیر ہوتی شاہراہ سے ملا دیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ مکہ مکرمہ میں تین جبکہ مدینہ منورہ میں دو نئی رنگ روڈ تعمیر کی جائیں ۔زمین سے اوپر ایک ریل سسٹم بھی بنانے کی تجویز ہے۔ یہ ریلوے نظام خانہ کعبہ سے شروع ہوکر پورے مکہ میں پھیل جائے گا۔ اسی کے 50 اسٹیشن ہوں گے۔مسجد الحرام کے اردگرد واقع کئی عمارتیں 40 منزلہ یا زیادہ بلند ہیں۔ ماہرین کا مشورہ ہے کہ انھیں 9 منزلہ کر دیا جائے۔اس کے بدلے ڈویلپر اسٹیشنوں کے گرد بلند عمارات تعمیر کرلیں۔کینیڈینوں کی ایک تجویز یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے اردگرد جتنے بھی ہوٹل و دفاتر ہیں، دوران حج ان کی نچلی منزلوں کو عوامی مقامات بنا دیا جائے۔

تعمیر مکانات: ’’عرب بہار‘‘ سے قبل سعودی حکومت کو شہریوں کے لیے مکانات کی تعمیر سے دلچسپی نہیں تھی مگر جب بے گھر سعودیوں نے مظاہرے کیے، تو حکومت کو ہوش آیا۔ سعودی حکومت کی فرمائش پر کینیڈین ماہرین نے تجویز دی کہ مضافات مکہ میں سوا لاکھ کم قیمت مکان تعمیر کیے جائیں۔ ان میں سے 25 ہزار غیر ملکی کارکنوں کے لیے مخصوص ہوں گے۔

دھوکے بازی کے باعث مویشیوں کی آن لائن خریداری کے رجحان میں کمی

$
0
0

 عیدالضحیٰ کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر کے مختلف شہروں، دیہات میں چھوٹی بڑی مویشی منڈیوں کا قیام عمل میں آجاتا ہے۔لوگ سنتِ ابراہیمی پر عمل کرنے کے لیے ٹولیوں کی صورت میں مختلف علاقوں میں قائم مویشی منڈیوں کا رخ کرتے ہیں ۔ جانوروں کی خریداری کا یہ مرحلہ بعض اوقات کئی دنوں پر منحصر ہوتا ہے۔ کچھ عرصے قبل تک عید سے کئی دن پہلے جانور خرید کر اُس کی خاطر مدارت کی جاتی تھی، سجاوٹ کی جاتی تھی، قربانی کے جانوروں کو مہندی لگانا، جھانجھر پہنانا اور رنگ برنگے ’پٹے‘ پہنا کر گلیوں میں گھمانا، یہ سب وہ روایات تھیں جو نہ صرف چھوٹے بچوں بل کہ بڑوں کے لئے بھی باعث مسرت ہوتیں۔ لیکن افسوس اب یہ سب روایات آہستہ دم توڑتی چلی جارہی ہیں۔

ہماری اکثریت عید سے کئی روز قبل قربانی کا جانور لا کر گھر باندھنے کو بوجھ تصور کرتی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ عید سے صرف ایک یا دو روز قبل ہی جانور خرید کر گھر لایا جائے، ہم میں سے بہت سے لوگ جانور خرید کر باڑوں یا ڈیروں پر چھوڑ دیتے ہیں اور جانور کو عید کی صبح ہی گھر پر لایا جاتا ہے۔

قربانی کی روایت میں تبدیلیوں میں ایک اہم کردار انٹر نیٹ کا بھی ہے۔ دور حاضر میں انٹرنیٹ تقریباً ہر انسان کی بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کردار دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ ایک طرف آپ اسے کاروباری اور تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں تو دوسری جانب انٹرنیٹ کے ذریعے گھر بیٹھے خریداری کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انٹرنیٹ پر خریداری کی سہولت فراہم کرنے والے ویب سائٹس جنہیں تیکنیکی زبان میں ’ای کامرس ویب سائٹ ‘ کہا جاتا ہے، کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔

کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ایجاد جہاں زندگی کے دوسرے شعبہ جات پر اثرانداز ہوئی تو دوسری جانب انٹرنیٹ کی بدولت ہی سماجی ابلاغ کے ایک نئے دور نے جنم لیا جسے ہم عام فہم زبان میں سوشل میڈیا کے نام سے جانتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ایک طرف پاکستانیوں کے لیے ہائیڈ پارک کا کردار ادا کیا تو دوسری طرف کاروباری افراد نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو اپنے کاروبار کی تشہیر کا ذریعہ بھی بنالیا۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر بنائے گئے فین پیجز کو تجارتی بنیادوں پر استعمال کیا جارہا ہے۔

ان صفحات پر مشہور زمانہ فوڈ چین سے لے کر برانڈڈ ملبوسات تک فروخت کے لیے پیش کیے جارہے ہیں، چند سال قبل کچھ بڑے کیٹل فارمز کے مالکان اور کاروباری افراد نے ویب سائٹ کے ذریعے جانوروں کی آن لائن خریداری کا رجحان متعارف کروایا، لیکن جانوروں کی آن لائن خریداری کا منصوبہ عوام میں اتنی پذیرائی حاصل نہیں کرسکا جس کی اہم وجہ صرف تصاویر یا ویڈیو دیکھ کر جانور کو پسند کرنا اور رقم کی ادائیگی کے حوالے سے چند تحفظات تھے۔

تاہم جانوروں کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور طریقے سے استعمال تاحال کیا جا رہا ہے۔ ہر سال کی طرح امسال بھی کیٹل فارمز کی جانب سے سوشل میڈیا پر جانوروں کے فین پیجیز بنائے گئے، جہاں مویشیوں کی تصاویر اور ویڈیو کے ساتھ ساتھ نمایاں خصوصیات بھی فراہم کی گئیں۔ ان صفحات پر کیے گئے تبصروں اور لائیکس کی تعداد بلاشبہ ہزاروں میں ہے، لیکن خریداروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور مویشیوں کی خریداری کے لیے روایتی طور پر منڈی سے ہی خریداری کو زیادہ ترجیح دی جارہی ہے۔ تاہم قربانی کے لیے جانوروں کی آن لائن خریداری کے رجحان میں کمی صرف پاکستان ہی میں دیکھنے میں آئی ہے۔ جس کا اہم سبب ای کامرس کے حوالے سے شعور نہ ہونا ہے۔

دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں شہری گھر بیٹھے بکرا، گائے، دنبہ، اور اونٹ کی آن لائن خریداری کرسکتے ہیں۔ ان ویب سائٹس پر جانوروں کی تصاویر، دانت، وزن، رنگ، نسل، عمر اور قیمت سمیت تمام معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ صارف کچھ ہی دیر میں اپنی قوت خرید کے مطابق گھر بیٹھے جانور خرید سکتا ہے، جو ایک یا دو روز میں آپ کے فراہم کیے گئے پتے پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ ان ویب سائٹ پر رقم کی ادائیگی کے لیے کیش آن ڈیلیوری، آن لائن ٹرانسفر سمیت دیگر طریقے بھی فراہم کیے گئے ہیں۔ آن لائن مویشی منڈیوں سے خریداری کے متعلق کچھ ویب سائٹ نے کئی مسالک کے مفتی صاحبان کے فتوے بھی فراہم کیے ہوئے ہیں، جن میں انٹرنیٹ کے ذریعے قربانی کے جانور کی خریداری کو جائز قرار دیا گیا ہے۔

جانوروں کی آن لائن قربانی کے حامی افراد کا کہنا ہے کہ آن لائن خریداری کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان افراد کی ہے جو شہر میں امن و امان کی مخدوش صورت حال کے باعث نقد رقم مویشی منڈی لے کر جانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے۔ اس صورت حال میں گاہکوں کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو وہ اپنے گھر کے نزدیک قائم منڈی سے جانور خریدیں یا ویب سائٹس ذریعے خریداری کرلیں۔ تاہم یہ رجحان چند بڑے شہروں تک ہی محدود ہے۔

جانوروں کی آن لائن خریداری کے حوالے سے ہر شخص کا الگ موقف ہے۔ کچھ شہریوں کے نزدیک آن لائن خریداری نے انہیں مویشی منڈیوں میں دھکے کھانے سے بچالیا ہے۔ امن و امان کی خراب صورت حال کے پیش نظر بھی کچھ صارفین آن لائن خریداری کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ آن لائن خریداری کے مخالفین کے نزدیک اس طرح خریداری میں دھوکے بازی کا زیادہ احتمال ہے اور وہ مویشی منڈی میں جا کر خود جانور خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس حوالے سے سپر ہائی وے اور شہر کے مختلف علاقوں میں قائم مویشی منڈیوں میں خریداری کے لیے آنے والے افراد کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے لیے قربانی اہم مذہبی فریضہ ہے اور اس اہم مذہبی فریضے کی ادائیگی اور جانوروں کی خریداری کے لیے تھوڑا وقت نکال لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ویسے بھی یہ فریضہ سال میں ایک بار ہی ادا کیا جاتا ہے۔آں لائن خریداری کے حوالے سے کچھ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ قربانی کے جانور کی آن لائن خریداری صرف اپنی ذات کی حد تک جائز ہے، لیکن جانور کو دیکھنے کے بعد اس کی قیمت ادا کی جائے۔

فرضی سودے بازی کا طریقہ درست نہیں۔ویب سائٹس کے ذریعے قربانی کے جانوروں کی خریداری ہمیں کس طرف لے جارہی ہے؟ خریداری کے ان طریقوں سے کیا ہم خود کو سچی اور حقیقی خوشیوں سے محروم نہیں کررہے؟ آج سے چند سال قبل تک عید سے کئی روز پہلے جانور کی خریداری اور پھر اس کی خدمت کو نہ صرف مذہبی فریضہ بل کہ اپنی شان دار روایات کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔

قربانی کے لیے جانور کی خریداری ایک اہم فریضہ ہے اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ ہماری بہت سی اچھی روایات بھی دم توڑ رہی ہیں۔ قربانی کے جانوروں کی خریداری کے بدلتے اور جدید رجحانات کی وجہ سے عیدالاضحیٰ کا مذہبی اور روایتی پن بھی متاثر ہو رہا ہے۔

جانوروں کی آن لائن خریداری کا رجحان ہوسکتا ہے کہ ہماری نئی نسل کو جانوروں کی خریداری کے لیے مویشی منڈی جانے کی خوب صورت روایت اور خوشی سے محروم کردے جس سے ہم اپنے بچپن میں لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔

پاکستان میں جانوروں کی آن لائن خریداری کا آغاز
2006 میں پہلی بار پاکستان میں قربانی کے جانوروں کی خریداری کے لیے ویب سائٹ کا قیام عمل میں لایا گیا، جس پر خریداروں کی سہولت کے لیے کریڈٹ کارڈ کیش آن ڈیلیوری اور دیگر طریقے متعارف کرائے گئے تھے۔ گھر بیٹھے خریداری کی سہولت نے بڑی تیزی سے اس رجحان کی ترویج کی۔

کیوں کہ اس طریقہ کار میں بیوپاریوں سے قیمتوں پر بحث و مباحثے سے بچنے کے علاوہ وقت کی بچت بھی معنی رکھتی تھی۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی مویشیوں کے کاروبار سے وابستہ پڑھے لکھے افراد اور چندکیٹل فارمز مالکان نے ویب سائٹس بناکر آن لائن کاروبار کا آغاز کردیا۔ ابتدا میں تیزی سے فروخت پاتے اس رجحان نے مڈل مین کا کردار ادا کرنے والے افراد کی توجہ بھی اس طرف مبذول کرادی۔

مسابقت کی فضا قائم ہونے سے جہاں ایک طرف آن لائن خریداری کے طریقۂ کار اور قیمتوں میں کمی ہوئی تو دوسری طرف کچھ مفاد پرست عناصر کی دھوکادہی نے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کردی۔ کچھ فرضی ویب سائٹس کی مدد سے کریڈٹ کارڈ نمبرز کی چوری اور نقص والے جانوروں کی فروخت عوام کو ایک بار پھر روایتی طریقے سے جانوروں کی خریداری کی طرف راغب کررہی ہے۔

کلاسیفائیڈ ویب سائٹس بھی جانوروں کی خرید و فروخت میں کسی سے کم نہیں
سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے جانوروں کی خرید و فروخت میں کلاسیفائیڈ ویب سائٹس بھی کسی طور پیچھے نہیں ہیں۔ مفت میں اشتہار لگانے کی سہولت کی وجہ سے کلاسیفائیڈ ویب سائیٹس پر دنبے سے لے کر اونٹ تک فروخت کرنے کے لیے اشتہارات نظر آئے اور حیرت انگیز طور پر اشتہار میں بیان کی گئی قیمتیں بھی ناقابل یقین حد تک کم تھیں۔

تاہم ممکنہ فراڈ یا لوٹ مار کے خدشے کے پیش نظر کلاسیفائیڈ ویب سائٹس پر جانوروں کی خریداری میں عوام کی دل چسپی بہت کم رہی۔


عید قربان: اللہ کی رضا کے لیے قربانی کا عہد

$
0
0

عیدالاضحی اﷲ کی رضا کے لئے ایثار اور قربانی کا درس دیتی ہے۔

اُمت مسلمہ اس دن کو انتہائی عقیدت واحترام کے ساتھ مناتی ہے۔ عید سے چند ہفتے قبل ہی جانوروں کی خریداری شروع ہوجاتی ہے۔

چھوٹے بڑے ٹولیوں کی صورت میں بڑے اہتمام کے ساتھ مارکیٹ جاتے ہیں جہاں سے قربانی کے لئے اپنی پسند کا جانور لاتے ہیں۔ کچھ تو گھر میں بھی قربانی کے جانور کو پالتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں اس کی خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے۔

نازنخرے اٹھائے جاتے ہیں، خا ص طور پر چھوٹے بچے گائے ، بکرا اور اونٹ کو دلہن کی طرح سجا کر رسیاں ہاتھ میں پکڑے خوشی کے ساتھ گلی محلے میں گھوم رہے ہوتے ہیں۔دوستوں کو خوشی سے بتا اور دکھا رہے ہوتے ہیں۔

ماڈل ریچل خان نے بھی عیدالاضحی کے حوالے سے ’’سنڈے ایکسپریس‘‘ کے لئے شوٹ کرواتے ہوئے کہا کہ امیر ، غریب مسلمان، ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق قربانی کا اہتمام کرتے ہیں لیکن قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ ہم اپنے بے وسیلہ بہن بھائیوں کو فراموش نہ کریں۔

گلی، محلوں میں جانور کی قربانی، ایک سماجی مسئلہ

$
0
0

عیدالاضحیٰ اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے، جو حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی تھی۔اپنی نوعیت اور تاریخ کے لحاظ سے یہ پہلی انسانی قربانی تھی، کیوں کہ یہ صرف اللہ تعالی کے لئے تھی۔ اللہ تعالی کو حضرت ابراہیم ؑ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک اسے ایک پسندیدہ ترین عبادت قرار دے دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے آج دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان قربانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے ہر سال قربان ہونے والے کروڑوں جانوروں میں کچھ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، لیکن پھر بھی ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے رب کا حکم بجا لائے۔

مہنگائی اور سیلاب جیسے مسائل کی وجہ سے پاکستان میں 2012ء سے قبل چند سال عیدالاضحی پر قربانی کی شرح میں کچھ کمی دیکھنے میں آئی، لیکن ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال عید قربان کے موقع پر پاکستانیوں نے تقریباً 75 لاکھ جانوروں کی قربانی دی تھی، تاہم امسال ملک میں 78 لاکھ 50 ہزار جانوروں کی قربانی کی جائے گی، جس سے لائیو سٹاک کے شعبہ میں 300 ارب روپے سے زائد کی اقتصادی سرگرمیاں پیدا ہوں گی۔ اقتصادی سروے آف پاکستان 2013-14ء کے مطابق زراعت کے شعبہ میں لائیو سٹاک کے شعبہ کا حصہ 55.91 فیصد تک ہے جبکہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں زراعت کے شعبہ کا حصہ 21 فیصد ہے۔ اقتصادی ولائیو سٹاک شعبہ کے ماہرین کے مطابق اس بار 63 لاکھ گائے اور 16 لاکھ کی تعداد میں بکروں کی قربانی کی جائے گی۔

وطن عزیز کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں عیدالاضحی جیسا مذہبی تہوار انتہائی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور ہر شہری کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی چادر کے مطابق قربانی کے فریضہ کی ادائیگی کو یقینی بنائے۔ بحیثیت مسلمان یہ جذبہ بلاشبہ ہمارے لئے نہایت خوش آئند اور قابل تحسین ہے، لیکن قربانی جیسے اہم ترین مذہبی فریضہ کی ادائیگی میں ہم سالہا سال سے ایک سماجی مسئلہ سے دوچار ہیں۔

تیزی سے بڑھتی آبادی اور سکڑتے رہائشی علاقوں کی وجہ سے گلی، محلوں میں ہونے والی انفرادی قربانیوں کی وجہ سے نہ صرف ہم طبی مسائل سے دوچار ہو رہے ہیں، بلکہ پرندوں کے جہازوں سے ٹکرانے کے باعث جانی اور مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ گلیوں، سڑکوں، بازاروں اور محلوں میں ہونے والی انفرادی قربانیوں کی وجہ سے جگہ جگہ جانوروں کا فضلہ اور الائشیں بکھر جاتی ہیں، جس کو بروقت اٹھانے کے لئے بڑے شہروں میں تو گزشتہ چند سال سے کچھ بہتری نظر آتی ہے، لیکن مجموعی طور پر ملک بھر میں یہ صورت حال آئیڈیل نہیں۔ گلیوں اور سڑکوں پر پڑا قربانی کے جانوروں کی الائشیں اور بہتا خون نہ صرف راہ گیروں کے لئے شدید پریشانی کا باعث بنتا ہے بلکہ اس غلاظت سے پیدا ہونے والا تعفن مختلف بیماریوں کا بھی سبب ہے۔

پھر جانوروں کی الائشوں پر پرندوں کے غول در غول امڈ آتے ہیں، جو بعدازاں جہازوں سے ٹکرانے کا باعث بنتے ہیں، یہ ٹکراؤ نہ صرف مالی نقصان کا باعث بنتا ہے بلکہ پائلٹ اگر ہوشمندی کا مظاہرہ نہ کرے تو ہمیں قیمتی جانوں کے ضیاع کا نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کی طرف سے گندگی کے ڈھیروں کے حوالے سے مہمات چلائی جاتی رہتی ہیں، پھر بھی کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور پیش آ جاتا ہے۔

گزشتہ ماہ کے اواخر میں تازہ ترین واقعہ اسلام آباد بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر بھی پیش آیا جہاں جہاز نے ابھی اڑان ہی بھری تھی کہ پرندہ ٹکرا گیا، جس پر پائلٹ نے بڑی کامیابی سے جہاز واپس ایئرپورٹ پر اتار لیا، جس سے 47 مسافروں کی قیمتیں جانیں تو بچ گئیں، لیکن جہاز کو کافی نقصان پہنچا۔ ماضی میں پرندوں کے ٹکرانے کی وجہ سے ہونے والے نقصان کے باعث کئی جہازوں کو گراؤنڈ بھی کیا جا چکا ہے۔

عید الاضحی کے موقع پر نہ صرف مسلم بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی جانوروں کی قربانی کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن ان ممالک اور پاکستان میں فرق یہ ہے کہ وہاں اپنے شہریوں کی صحت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق قربانی کے لئے باقاعدہ مقامات مختص کئے جاتے ہیں، مگر ہمارے ہاں حکومتوں کی عدم توجہی اور سہولیات کے فقدان کے باعث گھروں، گلیوں، سڑکوں، بازاروں اور محلوں میں ہی مذبحہ خانے بنا لئے جاتے ہیں۔

یورپ اور عرب ممالک میں عیدالاضحی کے موقع پر کوئی شخص اپنے گھر یا گلی میں جانور ذبح نہیں کر سکتا بلکہ اسے متعلقہ مخصوص جگہ کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں ویٹرنری ڈاکٹرز کی موجودگی میں ماہر قصاب جانور ذبح کرتے ہیں۔ عرب ممالک میں عیدالاضحی سے قبل گھر گھر باقاعدہ شعوری مہمات چلائی جاتی ہیں، قربانی کے لئے جگہیں مختص کرنے کے لئے مقامی انتظامیہ حرکت میں آتی ہے، قصابوں کی باقاعدہ تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور قربانی کے جانور کی باقاعدہ منظوری لی جاتی ہے، جس میں فٹنس کے معیار کی چانچ پڑتال کی جاتی ہے۔

بلاشبہ جانوروں کی قربانی کے محفوظ طریقے استعمال کرکے اپنی جان و مال اور ملکی اثاثہ جات کی حفاظت کا فریضہ شہریوں کو خود ہی سرانجام دینا ہے، لیکن ریاست کو بھی تو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ حکومتیں جب شہریوں کو جانوروں کی قربانی کے لئے ویٹرنری ڈاکٹرز، تربیت یافتہ قصاب اور دیگر سہولیات سے بھرپور مخصوص مقامات فراہم نہیں کریں گی، تو شہری مجبوراً گھروں، گلیوں اور محلوں میں قربانی کرتے رہیں گے۔ ہمارے حکمرانوں کی تو عوامی مسائل سے دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تحصیل سطح پر بھی مذبحہ خانے موجود نہیں۔

چاروں صوبوں میں 398 تحصیلیں ہیں جبکہ سرکاری مذبحہ خانوں کی تعداد صرف 3 سو کے لگ بھگ ہے، جو نہ صرف 18کروڑ عوام کو معیاری گوشت فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں، بلکہ یہاں سے بین الاقوامی منڈی میں بھی گوشت فروخت کے لئے بھجوایا جاتا ہے۔ اقتصادی سرگرمیوں سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ نئے مذبحہ خانوں کی تعمیر پر کوئی دھیان دینے کو تیار ہے نہ پہلے سے موجود ان سنٹرز کی مکمل فعالیت کے بارے میں کسی کو فکر ہے۔

لہذا نہ صرف مذبحہ خانوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے بلکہ عیدالاضحی جیسے مذہبی تہوار پر جانوروں کی قربانی کے لئے خصوصی طور پر سرکار کو ہر محلے اور ٹاؤن میں کوئی گراؤنڈ مخصوص کرنا چاہیے تاکہ الائشوں سے بیماری پھیلیں نہ جہازوں سے پرندے ٹکرانے کے واقعات رونما ہوں۔ مگر یہاں یہ بات بھی نہایت ضروری ہے کہ پھر اس گراؤنڈ کی بروقت صفائی کو بھی ممکن بنایا جائے کیوں کہ اگر صفائی کا بروقت انتظام نہیں کیا جاتا تو پھر بچے اور نوجوان کھیلنے کی جگہ دستیاب نہ ہونے سے کہیں کسی منفی سرگرمی میں مبتلا نہ ہو جائیں، کیوں کہ انہوں نے کھیل کا وقت تو گزارنا ہی ہے۔

ریاستی سہولیات نہ ہونے سے شہریوں کو مجبوراً پبلک مقامات پر قربانی کرنا پڑتی ہے: مفتی راغب نعیمی
معروف عالم دین مفتی راغب نعیمی نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حرم شریف اور مساجد کے علاوہ روئے زمین پر ہر جگہ قربانی کی جا سکتی ہے۔ مساجد کے حوالے سے کچھ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ علماء کرام شائد جو اجتماعی قربانیاں کرتے ہیں، وہ مساجد میں ہوتی ہیں، لیکن اجتماعی قربانی مسجد نہیں بلکہ اس کے صحن میں کی جاتی ہے۔

دوسرا گلی محلوں میں ہونے والی قربانی کے بارے میں جو آپ نے پوچھا اس میں ایک بات تو واضح ہے کہ قربانی ہر جگہ ہو سکتی ہے، لیکن عوامی مشکلات کے پیش نظر پبلک مقامات پر قربانی کی صورت میں صفائی اور احتیاطی تدابیر کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ دیگر ممالک کی طرح حکومت ہر ٹاؤن اور محلہ میں قربانی کے لئے باقاعدہ جگہ مختص کرے، لیکن ایسا نہیں ہو رہا تو پھر مجبوراً لوگوں کو گلیوں میں قربانی کرنا پڑتی ہے۔

ہمارے ہاں گلی یا محلے میں شادیوں کا عام رواج ہے، جو درست نہیں تو پھر قربانی جیسے اہم ترین مذہبی فریضہ کو کیوں کر یہاں ادا کیا جائے؟ یہ مجبوری ہی تو ہے جو لوگ گلی، محلوں میں قربانی کرتے ہیں، اگر ریاست انہیں مخصوص مقامات اور سہولیات فراہم کرے تو کسی کو بھی گلی میں قربانی کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ تاہم جب تک ایسی مخصوص جگہیں دستیاب نہیں پبلک مقام پر قربانی ہو سکتی ہے، لیکن اس کے بعد صفائی کا خاص خیال رکھا جائے، کیوں کہ گندگی کی صورت میں راہ گیروں کو پہنچنے والی تکلیف کا ذمہ دار متعلقہ شخص ہوگا اور اسلام میں کسی دوسرے شخص کو ایذا یا تکلیف پہنچانے کی سخت مذمت اور ممانعت کی گئی ہے۔

گلی، محلوں میں قربانی پر قانون خاموش، مخصوص مقامات کا تعین ہونا چاہیے: سابق صدر ہائی کورٹ بار عابد ساقی
عیدالاضحی کے موقع پر گلی، محلوں میں جانوروں کی قربانی کے بارے میں پاکستان کا قانون کیا کہتا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے سینئرقانون دان و سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار عابد ساقی کا کہنا تھا کہ اس معاملہ میں قانون خاموش ہے۔

ہمارا ہاں ایسا کوئی قانون نہیں ہے، جس کے تحت قربانی کے لئے کوئی خاص جگہ مختص ہو اور لوگ اسی جگہ پر جا کر قربانی کریں، حالاں کہ دیگر ممالک حتٰی کہ غیر مسلم ممالک میں بھی عیدالاضحیٰ کے موقع پر جانوروں کی قربانی کے لئے جگہیں مختص کی جاتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ الحمداللہ ہم ایک مسلم ملک میں رہتے ہیں۔

جہاں مذہبی رسومات کی ادائیگی کی کسی جگہ پر بھی ممانعت نہیں، لیکن حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کے لئے ہر محلے یا ٹاؤن میں جگہ مختص کرنی چاہیے، کیوں کہ جانوروں کے فضلہ اور خون سے پیدا ہونے والے تعفن سے بیماریاں جنم لیتی ہیں، جن کا شکار پھر ہم خود ہی بنتے ہیں۔ گلی میں پڑی گندگی اور نالی میں بہتے خون کی وجہ سے راہ گیروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جو اخلاقی و مذہبی کسی طور پر بھی درست نہیں۔ لہذا لوکل گورنمنٹ ایسی حکمت عملی تشکیل دے، جس کے تحت نہ صرف قربانی کے لئے مخصوص مقامات کا تعین بلکہ موثر شعوری مہمات کا بھی اہتمام کیا جائے۔ مذبحہ خانوں کی تعداد میں نہ صرف اضافہ بلکہ پہلے سے موجود مذبحہ خانوں میں تمام سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس کے علاوہ اگر قربانی کے لئے قانون سازی بھی ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیوں کہ قانون کسی بھی مہذب ملک اور شہریوں کی آسانی کے لئے ہوتا ہے۔

طبی لحاظ سے مخصوص مقامات پر ہی قربانی ہونی چاہیے:صدر پاکستان پیٹس پریکٹیشنر ایسوسی ایشن ڈاکٹر جمشید طاہر
پاکستان پیٹس پریکٹیشنر ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر جمشید طاہر نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت قربانی کے جانور سے کوئی بیماری نہیں لگتی، لیکن جانور کے خون سے احتیاط برتنا نہایت ضروری ہے، کیوں کہ بیماریاں پیدا کرنے والے تمام جراثیم اور وائرس جانور کے خون میں ہوتے ہیں، جو اچھی طرح بہہ اور صاف نہ ہونے کے باعث کوئی مشکل پیدا کر سکتا ہے۔ لہذا یہ انتہائی ضروری ہے کہ جانور کو ذبح اور کھال اتارنے کے بعد ایک سے دوگھنٹے کے لئے اسے لٹکا کر رکھیں تاکہ خون اچھی طرح بہہ جائے، وقت کم ہونے کی وجہ سے قصاب حضرات اور مالکان اس چیز کا خیال نہیں رکھتے تو پھر متاثرہ خون سے بیماری لگ سکتی ہے۔

قربانی کے لئے ہر ٹاؤن یا محلہ میں مخصوص جگہ کے تعین پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا ہونا تو چاہیے کیوں کہ اس صورت میں اگر کوئی جانور کسی بیماری سے متاثرہ ہے تو یہ بیماری ایک ہی جگہ مقید رہتی ہے، پھیلتی نہیں، جس کا سدباب کرنا آسان ہوتا ہے، لیکن جگہ جگہ قربانی کرنے کی صورت میں متاثرہ جانور کی وجہ سے وسیع پیمانے پر منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ لہذا قربانی انفرادی ہو یا اجتماعی فضلے اور خون کی صفائی کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ گزشتہ چند سالوں سے مساجد کمیٹیوں کے علاوہ مختلف اداروں کی طرف سے اجتماعی قربانی کا اہتمام کیا جا رہا ہے، جو طبی لحاظ سے درست ہے، کیوں کہ اجتماعی قربانی والی جگہ پر نہ صرف صفائی کا اچھا نظام ہوتا ہے بلکہ جگہ جگہ گندگی پڑی بھی دکھائی نہیں دے گی۔

اپنی دانست میں؛ ممتازادیب انتظارحسین کے بصیرت افروزمضامین کا مجموعہ

$
0
0

معروف ادیب شمس الرحمن فاروقی زبانی کلامی تو انتظار حسین کو دور حاضر کا ممتاز ترین فکشن نگار مانتے ہیں لیکن تحریری گواہی کاان کی طرف سے ابھی انتظار ہے،ہاں!البتہ انتظارحسین کی تنقید اور بطورقاری بصیرت کا اعتراف وہ قلم سے کر چکے ہیں،جیسا کہ انتظارحسین کی کتاب’’علامتوں کا زوال‘‘ پر اپنے مضمون میں انھوں نے لکھا ’’انتظارحسین کی تنقیداسی لیے قیمتی ہے کہ وہ جگہ جگہ ایسی ہی insightsسے بھری ہوئی ہے جن پر پورے پورے مضامین نثار ہو سکتے ہیں۔‘‘

نامور شاعر ظفر اقبال کی ’’آب رواں‘‘پراپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ’’انتظار حسین کا ذکرمیں نے اس لیے کیاکہ ان سے اچھا قاری کم ہی آج کے زمانے میںکسی کومیسرآئے گا۔وہ جتنے اچھے افسانہ نگار اور نثر نویس ہیں، اتنے ہی اچھے نقاد ہیں۔ اور کلاسیکی معاشرے، اس کی تہذیب،مفروضات اورتصورکائنات سے ان کی واقفیت گہری ہے۔یہی وجہ ہے کہ انھیں ظفراقبال کے کلام میں لطف آتاہے۔‘‘ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ شمس الرحمٰن فاروقی اور انتظار حسین کے تنقیدمیں گرومحمد حسن عسکری ہیں،جن کی تحریروں کو پہلے پہل پڑھ کر دونوں ہی ان کی علمیت کے اس قدر رعب میں آئے کہ نقاد بننے کاخیال ہی ذہن سے رفع کر دیا۔ انتظارحسین توفکشن کی طرف نکل گئے مگرشمس الرحمٰن فاروقی آدمی ہمت والے ہیں۔

اس لیے تھوڑا سنبھل کرنقاد بننے کا چیلنج قبول کیا اور پھر وہ وقت آیا کہ نقاد اور پھرآگے چل کرفکشن نگارکے طور پر اونچا مرتبہ پایا۔ بقول فاروقی ’’عسکری صاحب کے مطالعے کی وسعت نے شروع میں، میری بہت ہمت شکنی کی، اتنا پڑھنا، اور پھر اتنا دورجاکرکے مغرب کو دیکھنا اور پھراس کو مشرق سے بھی متعلق رکھنا تو میں نے سوچاکہ یہ تو میرے بس میں ہے ہی نہیں۔میں اس کو کیسے کروں گا۔‘‘

اس سے ملتے جلتے خیالات انتظارحسین کے ہیں ’’عسکری صاحب کے ساتھ جب کچھ وقت گزاراتومجھے احساس ہوا کہ نقاد تو میں نہیں بن سکتا۔ان کے علم و فضل سے میں اتنا متاثر اور مرعوب ہوا اوریہ جاناکہ نقاد بنناتواس شخص کو ہی زیبا ہے۔ اگر میں نقاد نہیں بن سکاتواس کی ذمہ داری عسکری صاحب پرعائد ہوتی ہے۔ ان کودیکھ کرہی مجھے محسوس ہواکہ اس قسم کی اہلیت مجھ میں کبھی پیدا نہیں ہوگی، اس لیے نقاد بننے کا خیال مجھے دل سے نکال دینا چاہیے۔‘‘

انتظارحسین کی تخلیقی شخصیت کا مرکز فکشن ہے،اوراس بات کو ان کے لفظوں میں بیان کیاجائے توکھونٹاان کا افسانہ وناول ہے اور باقی کے لکھے کوبشمول تنقید،وہ سیرکے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی کے زمرے میں ڈالتے ہیں۔’’علامتوں کا زوال‘‘ اور ’’نظریے سے آگے‘‘ میں تو وہ مضامین ہیں جو ادبی رسالوں کے اڈیٹروں کی فرمائش یا پھر وہ جو انھیں ادبی بحثوں کا چسکہ میدان ادب میں داخل ہوتے ساتھ پڑھ گیا تھا اس کے سلسلے میں لکھے۔

اب یہ جو مضامین کی تیسری کتاب جس پرہم بات کریں گے، اسے بھی ان کے تنقیدی عمل کا تسلسل جاننا چاہیے لیکن اس کا رنگ پہلی دوکتابوں سے اس واسطے الگ ہے کہ اس میں شامل زیادہ ترمضامین خطبات ،لیکچرز اور کلیدی مقالوں کی صورت میں سامنے آئے۔بیچ میں دوسرے رنگ کی تحریریں بھی ہیں۔کچھ کتابوں پرتبصرہ۔چند پیش لفظ۔’’اپنی دانست میں‘‘ ادب کی بات تو ہورہی ہے لیکن بیچ بیچ میں معاصرصورت حال کا بیان بھی درآتا ہے۔مثلاًطالبان کے ہاتھوں بچیوں کے اسکولوں کی تباہی کا رونا۔ سامراج کی گود میں پلوں کی طرف سے اب اسی کے بارے میںگھن گرج کا ذکر۔انتہاپسندی پررائے کا اظہار۔

نقاد  انتظارحسین کا تخلیقی ادیب کے طورپرنقادوں سے اٹ کھڑکا رہا۔ نقادوںکوگمراہ کرنے کا دعویٰ بھی انھوں نے کیا ۔ قاری کی تربیت کا اہتمام بھی کرتے ہیں، اوراس کا ذریعہ بھی ان کی تنقیدی تحریریںبنتی ہیں۔معروف شاعراور’’ذہن جدید‘‘کے مدیرزبیررضوی کا کہنا ہے کہ اس وقت اردو میںانتظارحسین کے سواکوئی ادیب ایسا نہیں جو قاری کی تربیت کرتا ہو۔ہم نے ایک ملاقات میں پوچھا:وہ کیسے؟ توکہنے لگے کہ ’’علامتوں کا زوال‘‘اور’’نظریے سے آگے‘‘ کو پڑھ لیجے ،آپ کواپنے سوال کاجواب مل جائے گا۔

انتظارحسین کی ترقی پسندوں سے چھیڑ چھاڑادب میں ورود کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ ترقی پسندوں نے انھیں ہدف تنقید بنایا تو یہ بھی نچلے نہ بیٹھے۔ جب ایک بارا نھوں نے یہ کہہ دیا کہ کہانی لکھنا نانی اماں سے سیکھا تو ترقی پسندوں نے خوب شور مچایا۔ ترقی پسندوں سے یدھ میں نانی اماں کا یہ فرمودہ کام آیا کہ لڑائی کے وقت ایک آنکھ کھلی رکھو اور ایک آنکھ بند،اس لیے ترقی پسندوں سے اختلاف اپنی جگہ مگر اس تحریک کے نمایاں افراد سے ان کے تعلقات بھی رہے، سینگ اگر پھنسائے تو چھٹ بھیوں سے نہیں اور متھا لگایا بھی توصفدر میر جیسے علاموں سے، اس عمل میں ان کا یہ اصول کارفرما رہا ’’آدمی چھوٹا نہ ہو تو لڑنے میں مجھے کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا۔ قدیم شجاعانِ عرب میدان میں اتر کر پہلے مقابل کا حسب نسب پوچھتے تھے، جب پتا چلتا کہ حریف حسب نسب والا ہے تو پھر اطمینان سے لڑتے تھے۔‘‘

لگتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتظارحسین نے ترقی پسندتحریک اوراس کے بڑوں کے بارے میں اپنے نقطۂ نظرکو ری وزٹ کیا ہے، جس کے نشان اس کتاب میں جابجا نظرآتے ہیں۔سجاد ظہیر،کرشن چندر، فیض احمد فیض، اورحسن عابدی جیسے ٹھیٹ ترقی پسندوں کے بارے میں ان کا لہجہ ہمدردانہ رنگ لیے ہوئے ہے۔ سجاد ظہیر پر کتاب میں ان کا عمدہ مضمون بعنوان ’’سجاد ظہیر،دودھ اورمینگنیاں‘‘شامل ہے۔وہ’’لندن کی ایک رات‘‘کے پیش لفظ سے یہ ٹکرانقل کرتے ہیں۔

’’یورپ میں کئی برس طالب علم کی حیثیت سے رہ چکنے کے بعداورتعلیم ختم کرنے کے بعد،چلتے وقت پیرس میں بیٹھ کر مخصوص جذباتی کشمکش سے متاثرہوکرسوڈیڑھ سوصفحے لکھ دینا اور بات ہے اورہندوستان میں ڈھائی سال مزدوروں ، کسانوںکی انقلابی تحریک میں شریک ہوکرکروڑوںانسانوں کے ساتھ سانس لینا اور ان کے دل کی دھڑکن سننادوسری چیزہے۔میں اس قسم کی کتاب اب نہیں لکھ سکتااورنہ اس کا لکھناضروری سمجھتاہوں۔‘‘

اب اس پران کا تبصرہ ہے ’’سن لیاآپ نے ۔وہی مضمون ہوا کہ بکری نے دودھ دیا، پھراس میں مینگنیاں کردیں۔‘‘سجاد ظہیرکے مذکورہ بالا بیان پرمحمد سلیم الرحمٰن ان کے ناولٹ پراپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ’’بظاہرلگی لپٹی بات کوئی نہیں۔جوکہنا ہے دو ٹوک کہہ دیاہے۔لیکن اس بیان پرتھوڑاساغورکیا جائے تو مضمرات پر نظر جاتی ہے۔پہلے تویہ کہ یہاں لکھنے کے عمل کے بارے میں ایک ڈھکاچھپاسا تحقیری رویہ موجودہے۔فکشن نگاری کو ایک انفعالی سرگرمی گرداناہے جوعمل پسندی،سرگرم شراکت، فعال مشغولیت وغیرہ کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ انھوں نے صرف یہ بیان دیاہے کہ وہ’’لندن کی ایک رات‘‘ جیسی کوئی چیزلکھنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اس کے بعدفکشن نہیں لکھااورقاری یہ نتیجہ اخذکرنے میںحق بجانب ہوگاکہ تمہیدی نوٹ میں مذمت یا حقارت کا جوپہلوبین السطوردکھائی دیتاہے اس کا اطلاق ہرطرح کے فکشن پرمقصودہے۔‘‘

انتظارحسین کے مضمون نے لکھنؤمیں بیٹھے ترقی پسندعابد سہیل کو ناراض کیاتومحمد سلیم الرحمن کا لکھاحمید اختر کو خفا کر گیا۔ سجاد ظہیر نے جب ایک بار کہا کہ وہ ادب میں کوئی بڑا کام انجام نہیں دے سکے تو عصمت چغتائی نے پلٹ کر انھیں جواب دیا تھا: ’’آپ نہیں جانتے۔مگرآپ نے کچھ دروازے کھولے ہیں، کچھ کھڑکیاں توڑی ہیں۔ راستے دکھائے ہیں۔کیا یہ تخلیق نہیں۔‘‘ انتظار حسین نے اپنے مضمون میں عصمت چغتائی کے بیان کے حق میں دلائل دیے ہیں۔

’’اپنی دانست میں‘‘کے مصنف، کرشن چندرسے ادبی سفر کے آغازمیں متاثرہوئے، لیکن بعد میں ان سے متنفر ہوگئے مگر اب پھر لگتا ہے کہ پرانی محبت عود کرآئی ہے اس لیے وہ کرشن چندر کا مقدمہ لڑتے نظرآتے ہیں۔’’ہندوستان میں بعض نقاد منٹو اور بیدی سے عقیدت کے جوش میں کرشن چندرکے مرتبے کو گھٹانے پہ تلے نظرآتے ہیں۔کرشن چندرکے باقی امتیازات سے قطع نظریہ امتیازایسا ہے یعنی بیسویں صدی کے انقلاب انگیز طرز اظہار کواپنانے اوراردومیں متعارف کرانے کا امتیاز جس میں اس کا کوئی ہمعصرافسانہ نگاراس کا شریک نہیں ہے۔ باقی یہ نقاد اپنے طوطامینااڑاتے رہیں۔‘‘

مضمون’’سرسید سے پہلے،سرسید کے بعد‘‘ کو اس مجموعے کا گل سرسبد سمجھنا چاہیے جس میں لڑکیوں کے اسکول جلانے کے واقعات پرلکھتے ہیں توکیا عجب نکتہ برآمد کرتے ہیں۔’’جب سوات سے لڑکیوں کے اسکولوں کے جلنے کی خبریں مستقل آتی چلی گئیں تومیں حیران ہواکہ یااللہ اس قبائلی علاقے میں آخرلڑکیوں کے کتنے اسکول تھے کہ سب مسلسل جل رہے ہیں مگر ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ پھرمجھے خیال آیاکہ وہ جو شیخ عبداللہ نے علی گڑھ میں ایک چھوٹاسااسکول کھولا تھا اور جس میں مسلمان شرفااپنی بیٹیوں کو بھیجنے کے لیے تیارنہیں تھے، اس نے علی گڑھ سے نکل کردوردورتک کتنے گل پھول کھلائے ہیں اور اب مجھے اپنے یہاں کے اخباروں میں شائع ہونے والی ایک تصویریاد آرہی ہے۔

جب سوات میں امن و امان قائم ہوا اور نکلے ہوئے لوگ اپنے گھروں میں واپس پہنچے تواسکولوں کی لڑکیوں نے بھی اپنے اپنے اسکول کا رخ کیا۔مگروہ تواب جلے پھنکے کھڑے تھے۔ کچھ کھڑے تھے،کچھ ڈھے گئے تھے۔ایسے ہی ایک ادھ جلے ادھ ڈھئے اسکول کی ایک تصویر ’’ڈان‘‘ میں شائع ہوئی تھی، جومیرے تصورمیں اٹک کررہ گئی ہے۔چند طالبات بغلوں میں بستے دبائے جلے پھنکے درودیوارکے بیچ بہت خوش خوش نظر آرہی ہیں۔میں سوچ رہا ہوں کہ سرسید جیساتواب کوئی ہمارے بیچ نہیں ہے لیکن شاید علی گڑھ کی تعلیمی تحریک ابھی ان طالبات کے روپ میں زندہ ہے۔ کیا عجب سوات کے دور دراز علاقے کی انھی طالبات کے بیچ سے ڈاکٹررشید جہاں سے بڑھ کر کوئی رشید جہاں نمودار ہو جائے۔‘‘

یہ بات جانے کس گھڑی ان کے قلم سے نکلی جو اتنی جلدی پوری ہوگئی اوراس علاقے سے ملالہ یوسف زئی سامنے آگئی جس کی دلیری اورذہانت کے وہ بہت قائل ہیں ۔اس کتاب کا مطالعہ ان حضرات کو بھی کرنا چاہیے جو فکشن نگارکی حیثیت سے انتظار حسین کے ہاں ہونے والے ارتقاء کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ کس طریقے سے حقیقت نگاری کے اسلوب سے دامن چھڑا کر علامتی کہانی اوراس سے بڑھ کرکتھا کہانی کی روایت سے استفادہ انھوں نے کیا، ساری کہانی بیان کردی گئی ہے۔

نوبیل انعام یافتہ معروف دانشورامریتا سین نے اپنی کتاب “Identity and Violence: The Illusion of Destiny”  میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ مخصوص شناخت یا تشخص پراصرارسے انتہا پسندی جنم لیتی ہے، اس لیے وہ مشترک شناخت اور تہذیبوں کے درمیان لین دین کے قائل ہیں۔ انتظار حسین بھی اسی نقطہ نظرکے موید ہیں۔ اور اس باب میں کھل کر بارہا اپنی رائے کا اظہار انھوں نے کیا ہے۔ یہ کتاب بھی ایسی معروضات سے خالی نہیں۔

’’اثرانداز ہونا اور اثر پذیر ہونا تہذیبوںکا ہمیشہ چلن رہا ہے۔اس عمل میں تہذیبیں پھلتی پھولتی ہیں اور توانائی حاصل کرتی ہیں۔‘‘ یا پھر ’’ کسی سیکولرسیاسی نظریے سے یک رنگی آئے ، یا مذہب کے حوالے سے ، بہرحال یک رنگ معاشرہ ایک سخت گیر معاشرہ ہوتا ہے،اس میں فرد کو اپنے حساب سے پرپرزے نکالنے کی آزادی نہیں ہوتی۔‘‘قومی شناخت کا بحران گذشتہ 68 برس سے ہمارا پیچھا کررہا ہے، اس پر رائے یوںدیتے ہیں ’’سچ پوچھو توکالاباغ ڈیم ہی ہماری قومی شناخت ہے یعنی اتفاق رائے نہ ہونے ہی میں ہماری قومی شناخت مضمرہے۔‘‘ ہند مسلم تہذیب میں روشن خیالی کی روایت بیان کرنے نکلتے ہیں تو کیسا کیسا حوالہ شاعری اورنثرسے ان کو یاد آتاچلاجاتا ہے۔

چینوا چیبے کے ناول ’’تھنگزفال اپارٹ‘‘ اوربیپسی سدھوا کے ناول ’’کروایٹرز‘‘کے اردو ترجموں پربھی مضامین شاملِ کتاب ہیں، جن میںناولوں کے بارے میں نکتہ آفرینی تو ہے مگراکرام اللہ اورمحمد عمر میمن کے ترجمے پررائے دینے سے وہ صاف دامن بچاگئے ہیں۔ منٹوکاذہنی قرب وہ نظیراکبرآبادی کے ساتھ تلاش کرتے ہیں کہ اس نے بھی اشرافیہ سے منہ مو ڑ کرعام خلقت سے ناتا جوڑا۔ قرۃ العین حیدرکے افسانے’’ قیدخانے میں تلاطم ہے‘‘ پرجو شاندارتحریر ہے وہ صرف انتظارحسین ہی لکھ سکتے تھے۔مسعود اشعر گلہ کرتے ہیںکہ ہمارے ہاں جو حالات ہے اس پرادب میں ایک ہولناک خاموشی کا احساس ہوتا ہے، اس پر وہ نسوانی شاعری سے تین نظموں کا حوالہ دے کراپنے دوست پر یوں گرجتے ہیں ’’تجھے اس کے باوصف ہمارے ادب میں سناٹا نظر آتا ہے۔

ادب میں عہد کی گونج اورکس طرح سنائی دیتی ہے؟‘‘ یہ کہنے کے بعد وہ توجہ دلاتے ہیں ’’اصل میں آج کا،اس صدی کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ میڈیا کے عروج کے ساتھ صحافت نے ہمارے دل ودماغ پربہت غلبہ حاصل کرلیا ہے۔ سو اب ہم اکثر و بیشترادب کو بھی صحافت کے ہی پیمانوں سے ناپنے کی کوشش کرتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ اب ہمیں ایسے ناول بہت اپیل کرتے ہیں جہاں مسائل و معاملات کا اظہار سیدھا صحافیانہ رنگ میں ہوتا ہے، یعنی صحافیانہ اظہار ہی اب ہمارے لیے ادبی اظہار کا مرتبہ رکھتا ہے اور اگر یہ اظہار انگریزی میں ہو تو پھر سرخاب کا پر لگ جاتا ہے۔‘‘

داغ کے وہ اگر قائل ہوئے ہیں تو شاعری سے زیادہ جن باتوں کو دخل ہے، اس کے بارے میں آپ بھی جان لیں۔ ’’ایک اقبال کا مرثیہ داغ، اوردوسرے ان کی والدہ ماجدہ کا احوال شمس الرحمن فاروقی کے ناول میں پڑھ کر۔جسے ایسے طمطراق والی ماں نے جنا ہووہ چھوٹا بندہ تو ہونہیں ہوسکتا۔‘‘ آگے چل کربیان کرتے ہیں کہ شمس الرحمن فاروقی نے فکشن میں جو رنگ نکالا ہے وہ ایجاد بندہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے مولانا محمد حسین آزاد کی ’’آب حیات‘‘ہے، جس کو بھلے وقتوں میں انتظار حسین ناول قرار دے کرمحققوں کو اس سے دوررہنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔

بڑے لکھنے والوں کے ادب کے بارے میں خیالات کوہمیشہ دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے کہ تخلیقی ادیب جس بلند سطح سے معاملاتِ ادب کو دیکھتے ہیں،نقاد کی آنکھ کی وہاں تک رسائی نہیں ہوتی۔ عصر حاضر پر نظردوڑائیںتو بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیبوں میں میلان کنڈیرا، یوسا اوراورحان پاموک کا نام فوراً ذہن میں آجاتا ہے ، جن کی فکشن سے ہٹ کرادب کے بارے میں نگارشات کو، جنھیںان ادبا کی ذہنی سرگزشت قراردیا جاسکتا ہے، بڑی پذیرائی ملی۔ اردو میں ایسی مثالیں کم کم ملیں گی، مگر انتظارحسین گزشتہ 65 برس سے تخلیق ادب کے ساتھ ساتھ ادب اورتہذیب سے جڑے معاملات پر اپنی رائے کا برابراظہارکر رہے ہیں،اس بات کے ثبوت میں ان کی تنقیدی کتابوں کوپیش کیا جاسکتا ہے۔

مضمون کا آغاز جید ادیب شمس الرحمن فاروقی کے ذکر سے ہوا تو اب اس کو ختم بھی ہم ’’اپنی دانست میں‘‘ کے بارے میں ان کی اس رائے پر کرتے ہیں۔ ’’یہ کتاب نہیں ہے، ایک عمر،بلکہ ایک عہد کے مطالعے ، غوروفکر، روشن فکری اور غیر جانبداری سے حاصل کردہ عقل وحکمت کا افشردہ اور عطرمجموعہ ہے۔‘‘ یہ کتاب سنگ میل پبلی کیشنزنے شائع کی ہے، جس کے بانی نیازاحمد مرحوم کے نام ہی اسے معنون کیا گیا ہے۔

’’اپنی دانست میں‘‘سے چند اقتباسات

٭تہذیب کوڈبیا میں بند کرکے تونہیں رکھا جا سکتا۔ اثر انداز ہونا اور اثر پذیر ہونا تہذیبوں کا ہمیشہ سے چلن رہا ہے۔ اس عمل میں تہذیبیں پھلتی پھولتی اور توانائی حاصل کرتی ہیں۔۔۔۔۔ ڈرنا چاہیے اس وقت سے جب کوئی قوم تہذیبی خوف میں مبتلا ہو جائے۔ یہ اس کے زوال کے آثار ہوتے ہیں۔

٭ ۔۔۔۔مگر اس دوران ہندی مسلمانوں نے پھر ایک خواب دیکھ لیا تھا۔ خیر اس مرتبہ وہ بہت اونچے نہیں اڑے۔ برصغیر ہی کی حدود میں ایک مملکت کے قیام کا خواب دیکھا۔ جلدی جلدی اس کی پرورش کی اور عجب ہوا کہ جلد اس خواب کی تعبیر بھی نکل آئی اور بیسویں صدی میں رونما ہونے والا یہ واحد خواب تھا جس نے صدی کی حد کو پھلانگ کر اکیسویں صدی میں قدم رکھا۔

٭ یہ جو تھرڈ ورلڈ لٹریچرکی نئی روایت بن چلی ہے تو ابھی خود بھی ایک ٹانگ پرکھڑی ہے۔ناول ، ناول، ناول دوسری ٹانگ شاعری کے نام والی کا کچھ ایسا پتانہیں چل رہا۔

٭کتنا اچھا تھاوہ زمانہ جب حافظے کو حافظہ سے راہ تھی۔کہانی سنانے والااپنے حافظے پراعتبارکرکے کہانی سناتا تھا۔سننے والوں کے حافظے پرپرکہانی نقش ہوجاتی تھی۔ مگر اب زمانہ اور ہے۔برا ہوپرنٹنگ پریس کا جس نے ہم سے ہمارا حافظہ چھین لیا ہے۔

٭محققوں پرزیادہ اعتبارنہیں کرنا چاہیے۔ابھرے ہوؤں کو ڈبونے اورڈوبے ہوؤں کو ترانے کے شوق میں وقتاً فوقتاًان ڈوبے ہوؤں کوبھی ترانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں، جن کا ڈوب جانا ہی شاعری کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ زمانہ اپنی ناانصافیوںکی تلافی کرتا رہتا ہے۔بس اس کے طریقے ذرا آڑھے ترچھے ہوتے ہیں۔

٭اچھا شعرہویااچھی نثراس کے بارے میں یہ بتانا مشکل ہوتا ہے کم ازکم میرے لیے کہ یہ اچھا ہے کیا۔ بس ایک فقرے پربات ختم کروں گا۔کسی بھلے وقت میں ٹی ای ہیوم کی نثری تحریروں کے کسی انتخاب میں، میں نے نثرپراس کا مضمون پڑھاتھا۔اب اس مضمون کی کوئی بات یاد نہیں۔بس اس کاایک فقرہ حافظے میں اٹکارہ گیا۔شایدبات کچھ اس طرح کہی گئی تھی کہ اچھی نثرمیں بیچ بیچ میں فقرہ اس طرح آتاہے جیسے پھنیرسانپ پھن پھیلاکرکھڑا ہوجائے۔

٭ابھی پچھلے دنوں پرانے انقلابی اورمیرے عزیزدوست حسین نقی نے ایک محفل میں ایسی تقریرکی کہ امریکی سامراج کی ساری سازشوں کو بے نقاب کردیا۔میں نے بعد میں اس عزیزسے کہا کہ حسین نقی!کیا تمھیں یہ خبرنہیں ملی کہ تمھاری طرزفغاں چوری ہوچکی ہے۔اب اسی سامراج کی گودمیں پلے ہوئے اس گھن گرج سے اس طرزفغاں کوبلند کررہے ہیں کہ وہ انہی کی ایجاد لگتی ہے۔اب میں تمھاری آوازکوان کی آواز سے الگ کیسے پہچانوں۔

٭عجیب بات ہے کہ جنھیںاپنی یادداشتیںاورآپ بیتی لکھنی چاہیے تھی،انھوں نے لکھی نہیں۔جنھیں نہیںلکھنی چاہیے تھی انھوں نے بڑھ چڑھ کرلکھی۔مولانا حسرت موہانی کوآپ بیتی لکھنی چاہیے تھی مگراس بزرگ نے نہیں لکھی۔چودھری خلیق الزماں کو نہیں لکھنی چاہیے تھی مگرانھوں نے لکھ ڈالی۔

٭ “Things Fall APart”کو ہم اس وقت بہترطورپرسمجھ سکتے ہیں،جب ہم اچیبے کے ادبی نقطہ نظرکو سمجھ لیں۔ اس نے اپنے ادبی نقطہ نظرکی وضاحت کرتے ہوئے ایک طالب علم کا ذکرکیا ہے جسے اس کی استانی نے موسم پرمضمون لکھنے کی ہدایت کی۔مضمون دیکھ کراستانی نے کہاکہ تم نے اپنے یہاں کے موسم کا ذکرکرنے کی بجائے انگلستان کے موسم کا ذکرکس خوشی میں کیا ہے۔اس نے جواب دیاکہ اپنے یہاںکے موسم کا ذکرکرتاتوکلاس کے لڑکے مجھ پر ہنستے۔ اچیبے کہتا ہے کہ ’’ادیب کی حیثیت سے یہ میرے فرائض میںشامل ہے کہ میں اس لڑکے کوبتاؤں کہ افریقہ کے موسم میں کوئی برائی نہیں ہے اور یہ کہ ناریل کا پیڑ بھی شاعری کا موضوع بن سکتا ہے۔

بالی ووڈ اسٹارز کی شادیاں، جن کا انجام طلاق بنی

$
0
0

 کہا جاتا ہے کہ شادی کوئی گڈے گڑیا کا کھیل نہیں ہے۔اس لیے جب بھی کی جائے ہر طرح سے سوچ بچار اور چھان پھٹک کر ہی کی جائے، کیوں کہ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہوتا ہے شادی کے بعد اگر دونوں فریقوں میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہو اور دونوں مختلف وجوہات کی بنا پر ایک دوسرے کو برداشت کررہے ہوں تب یہ بندھن زندگی بھر چلنے سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ شادی وہ لڈو ہے جو کھائے پچھتائے جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ فلمی دنیا میں کسی بھی اسٹار کے لیے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اپنی شادی کو برقرار رکھنا ایک مشکل عمل ثابت ہوتا ہے۔

اس لیے بالی ووڈ میں شادی کے بعد جلد ہی طلاق ہوجانے کا رحجان بڑھنے لگا ہے۔ پچھلے وقتوں میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ ہیرو، ہیروئن نے آپس میں شادی کی اور پھر خواہ کیسے ہی حالات کیوں نہ گزرے ہوں انہوں نے اپنا ساتھ نبھایا ایسے رشتوں میں دلیپ کما ر اور سائرہ بانو، امیتابھ بچن اور جیہ بچن، شاہ رخ خان اور گوری کے علاوہ کئی اور اداکار، جیسے گووندا، انیل کپور، جیکی شیروف اور سنیل شیٹھی شامل ہیں، جو کام یاب ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے باوجود بالی ووڈ میں طلاقوں کا رحجان بڑھتا جارہا ہے۔ کئی نام ور اداکار اپنی بیویوں کو طلاق دے چکے ہیں اور دوسری شادی کرکے فی الوقت اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔

سیف علی خان، امرتا سنگھ: بالی ووڈ کے نٹ کھٹ اداکار سیف علی نے پہلی شادی 1991میں اداکارہ امرتا سنگھ سے کی تھی۔ یہ ایک دھواں دار قسم کی لو اسٹوری تھی امرت اور سیف کے کیریر کا وہ ابتدائی دور تھا اور دونوں ہی کے کریڈٹ پر کچھ خاص فلمیں نہ تھیں ایک فلمی پارٹی میں دونوں کی ملاقات ہوئی اور شوخ سی امرتا، سیف کے دل کو بھا گئی۔ دونوں میں چوری چھپے ملاقاتیں شروع ہوگئیں اور ایک وقت آیا جب سیف نے امرتا سے شادی کا اعلان کردیا۔

اس بات نے سب کو حیران کردیا، کیوں کہ امرتا سیف سے عمر میں تیرہ سال بڑی تھی اور ہم مذہب بھی نہ تھی۔ اسی لیے سب ہی کا خیال تھا کہ سیف صرف دل لگی کررہا ہے، لیکن اس نے اعلان کردیا کہ وہ شادی کرے گا تو صرف امرتا سے، اس کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کرے گا۔ یوں 1991میں ان کی شادی ہوگئی۔ شادی کے لیے امرتا مسلمان ہوئی تھی اور شادی کے تیرہ سال ایک ساتھ گزارنے کے 2004میں سیف نے امرتا کو طلاق دے دی۔ دونوں ہی نے طلاق کی کوئی خاص وجہ نہیں بتائی۔

البتہ یہ ضرور کہا جاتا رہا کہ برطانوی ماڈل روزا کیٹالونا کے ساتھ سیف کی بڑھتی ہوئی قرابت نے اس رشتے کو ختم کردیا۔ دونوں کے دو بچے ایک بیٹا ابراہیم اور بیٹی سارہ ہے۔ دونوں بچے سیف ہی کے پاس ہیں۔ امرتا سے طلاق کے بعد سیف نے بالی ووڈ کی نمبر ون اداکارہ کرینہ کپور سے شادی کرلی۔ کرینہ سیف سے پہلے شاہد کپور کے ساتھ رومانس کر چکی تھی۔

کرشمہ کپور اور سنجے کپور: ابھیشک بچن کے ساتھ منگنی ٹوٹنے کے بعد کرشمہ کپور نے بزنس مین سنجے کپور سے 2003 میں شادی کرلی تھی شادی کے ابتدائی دنوں میں سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ ان کے دو بچے سمائرہ اور کیان کے ساتھ دونوں ہی میرڈ لائف انجوائے کر رہے تھے کہ اچانک کرشمہ نے ممبئی شفٹ ہونے اور شوبز میں دوبارہ کام کرنے کا ارادہ کرلیا۔

سنجے اس بات کے خلاف تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کرشمہ ممبئی منتقل ہو یا فلموں میں کام کرے، لیکن ضدی کرشمہ نے سنجے کی بات نہ مانی اور اس خواہش کے برخلاف نہ صرف ممبئی منتقل ہوگئی، بل کہ فلموں میں کام شروع کردیا۔ اس کے علاوہ کرشمہ سنجے سے ہر ماہ بھاری جیب خرچ کی ڈیماننڈ بھی کرتی تھی یہاں ہی سے دونوں کے درمیان شدید قسم کے اختلافات پیدا ہو گئے اور بات بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھ گئی 2012 میں طلاق کی نوبت آگئی اور یوں یہ شادی اختتام کو پہنچی۔

ریتھک روشن اور سوزانے خان: ریتھک اور سوزانے کی آپس میں بے پناہ محبت اور انڈراسٹینڈنگ کی وجہ سے کوئی بھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ کبھی ان دونو ں کے بیچ میں نہ ختم ہونے والی جدائی بھی آجائے گی۔ ان کی لواسٹوری بالکل ایک فیری ٹیل جیسی محسوس ہوتی تھی۔ ان دونوں کی شادی کو تیرہ سال گزر چکے تھے اور ان کے دو بیٹے ہیریہان اور ہردیہان ہیں۔ دونوں نے نہایت خاموشی سے علحیدگی کا فیصلہ کیا اور 2013 دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے اور 2014  میں ان کی طلاق ہوگئی یہ بالی ووڈ میں سب ہی کے لیے ایک افسوس ناک تھی، کیوںکہ ان دونوں کو دیکھ کر کبھی کسی کے دل میں بھی یہ نہ آیا ہوگا ان کے درمیان طلاق ہوسکتی ہے۔

عامر خان اور رینا دتہ: دونوں بچپن کے نہ صرف گہرے دست تھے بلکہ ایک دوسرے کے پڑوسی بھی تھے۔ یہ بچپن کی دوستی وقت کے ساتھ پروان چڑھتی گئی اور بہت کم عمری ہی میں ان دونوں نے شادی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اپنی پہلی بلاک بسٹر فلم قیامت سے قیامت تک کی ریلیز سے پہلے عامر اور رینا شادی کر چکے تھے۔ یہ شادی 18اپریل 1986کو ہوئی تھی۔ شادی کے پندرہ سال کے بعد ان میں طلاق ہوگئی۔ 2001 میں یہ شادی ٹوٹ چکی تھی اور دونوں میں علیحدگی ہوگئی تھی۔

کورٹ کے ذریعے باقاعدہ طلاق 2002 میں ہوئی۔ ان کے دو بچے آئرہ خان اور جنید خان ہیں۔ عدالت میں طلاق کی وجہ یہ بتائی گئی کہ دونوں میں اب ذہنی ہم آہنگی نہیں رہی اور دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے ناقابل برداشت ہوچکے ہیں، جب کہ حقیقت تو یہ تھی فلم دل چاہتا ہے کی ریلیز کے بعد عامر اور پریتی زنٹا کے افیئر نے رینا کو دل برداشتہ کر ڈالا۔ اس کے بعد لگان کی اسسٹنٹ ڈائرکٹر کرن راؤ کے ساتھ عامر کی بڑھتی ہوئی قربت نے رینا کو اس سے الگ کردیا۔ کورٹ نے دونوں بچے ماں کی تحویل میں دے دیے، جب کہ عامر کو کورٹ کے آرڈر کے تحت ہفتے میں تین بار بچوں سے ملنے کی اجازت ہے۔ طلاق کے بعد عامر نے کرن سے دوسری شادی کرلی۔

سنجے دت اور ریہاپلائی: بالی ووڈ کے منا بھائی سنجے دت نے ماڈل کم اداکارہ ریہا پلائی سے 1999میں شادی کی۔ اس سے پہلے سنجے ایک شادی کرچکا تھا اور اس کی پہلی بیوی کینسر کے عارضے میں مبتلا ہو کر دنیا چھوڑ گئی تھی۔ تب سنجے نے ایک زبردست افیئر کے بعد ریہا سے شادی کی، لیکن جلد ہی دونوں ایک دوسرے سے بیزار ہوگئے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے ہونے لگے۔ دونوں میں ذہنی ہم آہنگی کا فقدان تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سنجے نے خود کو فلموں میں مصروف کرلیا اور ریہا نے آرٹ کلاسز جوائن کرلیں، لیکن جب غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں سنجے دت کو گرفتار کیا گیا تب ریہا نے اس سے طلاق کا مطالبہ کردیا۔ 2002 میں ان کے درمیان علیحدگی ہوچکی تھی۔ اس کے بعد سنجے نے آئٹم گرل مانیتا سے شادی کرلی۔ اب ان کے دو جڑواں بیٹے ہیں۔

کمل ہاسن اور ساریکا: ساؤتھ کے سپراسٹار کمل ہاسن اور بالی ووڈ کی نیلی آنکھوں والی حسینہ ساریکا نے جب شادی کی تو یہ سب ہی کے لیے شاکنگ نیوز تھی، کیوں کہ کمل ہاسن نہ صرف پہلے سے شادی شدہ تھے بل کہ عمر میں بھی ساریکا سے خاصے بڑے تھے۔ ساریکا نے کمل سے شادی کے لیے یہ شرط رکھی کہ وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے اور انہوں نے اپنی پہلی بیوی وینی گنپتی کو طلاق دے دی ساریکا اور کمل نے شادی کرلی ان کی دو بیٹیاں شروتی ہاسن اور آکشرا ہاسن ہیں شروتی نے کچھ فلموں میں کام بھی کیا لیکن وہ کچھ خاص کام یابی حاصل نہ کر پائی، جب کہ ان کی دوسری بیٹی آکشرا ایکٹنگ اور ڈائرکشن کا کورس کر رہی ہے۔

ساریکا اور کمل میں علیحدگی کا فیصلہ اس وقت ہوا جب کمل نے اپنے سے بائیس سال چھوٹی ساؤتھ انڈین اداکارہ سمرن سے پیار اور قربت کے تعلقات استوار کرلیے۔ ساریکا نے اس بات کو ایشو بناکر 2004 میں عدالت کے ذریعے طلاق حاصل کرلی۔ ساریکا نے طلاق کے بعد فلموں میں دوبارہ کام شروع کردیا ہے۔

منیشاکوئرالہ اور سمراٹ دہال: نیپالی نژاد بالی ووڈ اداکارہ منیشا کوئرالہ کا شمار انڈسٹری کی اپنے دور کی کام یاب اور بہترین اداکاراؤں میں کیا جاتا ہے۔ منیشا نے انڈسٹری میں بہت اچھا وقت گزارا، لیکن جب ان کی مصروفیات کم ہوگئیں۔ تب انہوں نے شادی پلان کی اور بزنس میں سمراٹ دہال سے 2010 میں شادی کرلی۔ یہ کام یاب شادی ثابت نہ ہوسکی۔ اس کی بنیادی وجہ خود منیشا ہی تھیں، کیوںکہ ان کی فطرت میں ایک جگہ ٹکنا نہیں ہے۔

وہ خود کو ایک جگہ پابند نہیں کرسکتی تھیں۔ سمراٹ نے کوشش کی کہ کسی طرح وہ منیشا کے مزاج کو سمجھ لے لیکن دونوں ہی کا حد سے زیادہ متضاد رویہ ان کے درمیان دوری کا باعث بنا اور دونوں کے درمیان طلاق ہوگئی۔ 2012 میں منیشا نے دوبارہ فلم انڈسٹری جوائن کرلی اور کچھ فلموں میں کام بھی کیا آج کل منیشا کوئرالہ امریکا میں اپنے کینسر کا علاج کرارہی ہیں۔

روینہ ٹنڈن اور اکشے کمار: بالی ووڈ کے ان دونوں اسٹارز کے بارے میں تقریباً سب ہی جانتے ہیں کہ اپنے عروج کے دور میں روینہ کا اکشے سے زبردست رومانس شروع ہوا تھا اور ان دونوں نے منگنی بھی کرلی تھی، لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان دونوں نے خفیہ شادی کرلی تھی، لیکن شادی کے چند ماہ بعد ہی اکشے کا ٹوئنکل کھنہ سے افیئر شروع ہوا اور اکشے ٹوئنکل سے شادی کی حد تک سنجیدہ ہوگیا۔ تب اس نے روینہ سے درخواست کی کہ وہ اسے طلاق دے دے۔ اس طرح یہ شادی چند ماہ ہی چل سکی اکشے اور ٹوئنکل خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔

سری دیوی اور متھن چکرورتی: اسی اور نوے کے دہائی میں فلم انڈسٹری پر راج کرنے والی اداکارہ سری دیوی اپنے پورے فلمی کیریر میں بہت محتاط رہی حالاںکہ میڈیا نے اسے کئی اسٹارز کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش بھی کی لیکن اس نے کبھی کسی بات یا افواہ پر کان نہیں دھرے، لیکن متھن کے معاملے میں سری دیوی سے چوک ہوگئی۔

ان دونوں میں محبت کے تعلقات پروان چڑھنا شروع ہوئے سری دیوی نہیں چاہتی تھی کہ اس افیئر کی بھنک بھی میڈیا والوں کو ملے۔ اس لیے اس کے بے حد اصرار پر متھن نے اس سے خفیہ شادی کی یہ شادی بہ مشکل ایک سال چلی، کیوںکہ متھن اپنی پہلی بیوی کو طلاق نہیں دینا چاہتا تھا اور سری دیوی چاہتی تھی کہ وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے تب وہ اپنی شادی کا اعلان کریں، لیکن متھن نے ایسا نہ کیا اور سر ی دیوی نے اسے طلاق دے کر بونی کپور سے شادی کرلی۔

جاوید اختر اور ہنی ایرانی: بالی ووڈ کے سب سے زیادہ کام یاب نغمہ نگار اور کہانی نویس جاوید اختر نے اپنی پہلی بیوی ہنی ایرانی کو طلاق دے دی تھی ان کے دو بچے زویا اور فرحان اختر ہیں۔ جاوید اور ہنی میں طلاق کی وجہ جاوید اختر کا شبانہ اعظمی کی طر ف جھکاؤ تھا۔ جاوید نے ہنی کو طلاق دے کر شبانہ سے شادی کرلی۔

’’نئی گریٹ گیم‘‘ کی اصطلاح کا تازہ منظر نامہ اور پاکستان

$
0
0

اسلام آباد: موجودہ دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے جب گذشتہ صدی میں روس کی شکست و ریخت کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے والی طاقتوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ روس کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہونے دیا جائے گا تو اُس کے بعد روس سے الگ ہونے والی ریاستوں کے ساتھ تیزی سے مغرب اور امریکا نے تعلقات بنانے کی کوششیں شروع کردیں مگر دوسری جانب روس نے جس احسن طریقے سے خود کو دوبارہ عالمی دھارے میں شامل کیا، اس سے روس کے بد خواہوں کو سخت دھچکا اور یوں نئی گریٹ گیم کا آغاز ہو گیا۔ اس اصطلاح کا یہ پس منظر اپنے دامن میں بہت کچھ لیے ہوئے ہے۔

یاد رہے انیسویں صدی  میں ایک انگریز مصنف رڈیارڈ کپلنگ نے ’دی گریٹ گیم‘ کی اصطلاح کو اپنے ناول ’کِم‘ میں متعارف کرایا تھا۔ بعد ازاں یہ اصطلاح دنیا بھر میں معروف ہوئی۔ دی گریٹ گیم سے مراد مشرقی ایشیائی ریاستوں پر قبضے جمانے کے لیے ایسے حیلوں اور حربوں کا وہ کھیل تھا، جو سلطنتِ برطانیہ اور روس کے درمیان سیاسی اور سٹریٹجک رقابت کے بعد شروع ہوا تھا۔ اُس وقت برطانیہ کو روس سے یہ خطرہ تھا کہ وہ کہیں اس کے زیر تسلط ہندوستان پر حملہ کرکے قبضہ نہ کر لے۔ آج متعدد دہائیوں کے بعد ایک مرتبہ پھر عالمی طاقتوں کی نظریں اسی خطے پر مرکوز ہیں اور اس خطے میں سیاسی اثر و رسوخ اور معاہدوں کا کھیل جاری ہے۔

اسی کو تاریخ دانوں اور تجزیہ نگاروں نے نیو گریٹ گیم کا نام دیا ہے لیکن اب یہ کھیل جغرافیائی وسعت کے بجائے قدرتی وسائل پر قبضے کا کھیل ہے اور اس مرتبہ عالمی طاقتوں کی نظر مشرقی ایشیائی ریاستوں میں پائے جانے والے پیٹرولیم اور قدرتی گیس کے ذخائر پر لگی ہوئی ہے، جن کو ابھی تک استعمال میں لایا نہیں گیا۔ روس اور فرنگیوں کے درمیان یہ آنکھ مچولی برصغیر کی تقسیم تک جاری رہی تھی، جو ایک لحاظ سے ابھی تک جاری ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اس گیم میں کھلاڑیوں نے جہاں اپنا رنگ اور روپ بدل لیا ہے، وہاں اس میں نئے کھلاڑی بھی شامل ہوچکے ہیں۔ سوویت یونین کا جب شیرازہ بکھرا تھا تو کچھ عرصے تک اس نے دھیما پن اپنائے رکھا لیکن اب روس پیوٹن کی قیادت میں ایک بار پھر وسطی ایشیا میں متحرک ہو چکا ہے۔

گو کہ فرنگی اس گیم میں اب زیادہ گرم جوش دکھائی نہیں دیتے اور اُن کی جگہ اب امریکا بہادر نے لے لی ہے لیکن اس کے باوجود فرنگی اپنا حصہ اس گیم میں کسی حد تک ڈال ضرور رہے ہیں۔ دوسری جانب چین اور بھارت بھی اس گیم میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اور تو اور، اس بار اس کھیل میں ایران بھی شرکت کا ارادہ رکھتا  ہے اور یوں روس‘ چین ‘ امریکا‘ بھارت‘ ایران اور افغانستان کے سیاسی مفادات ایک ہی نوع کے نظر آ رہے ہیں۔ وہ اس لیے کہ وسطی ایشیا میں تجارت کے بے پناہ مواقع موجود ہیں اور یہاں کے معدنی وسائل سے اب سارے کھلاڑی حصہ بہ قدر جُثہ لینے کے متمنی ہیں۔

اس گیم کے لیے ایک فریق نے کرۂ ارض کے جس خطے پراپنی بساط بچھائی ہے، وہ خاصی قابل غور ہے اس خطے میں روس سے آزاد ہونے والی سات ریاستوں کے علاوہ افغانستان، ایران، عراق، ترکی اور پاکستان شامل کیے گئے ہیں۔ گیم کے ابتدائی خاکے کے مطابق افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے قدرتی وسائل کو پاکستان اور ترکی کے راستے دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی منڈیوں اور فیکٹریوں تک لایا جائے گا اوراس مقصد کے لیے بین الاقوامی موٹر ویز، لنک روڈز اور ریلوے ٹریک کے لیے نقشے بھی تیار ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب تیل اور گیس کی طویل پائپ لائنوں کو بچھانے کے منصوبہ جات جہاں مکمل ہو رہے ہیں وہیںان پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کو جلد از جلد دور کرنے یا ان کی جگہ غیر متنازع اورمتبادل منصوبوں کو شروع کرنے کے لیے لائحۂ عمل بھی تیار ہو رہے ہیں۔

خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو قائم رکھنے کے لیے جنگی اڈے بنانا بھی اس گیم کا ایک اہم حصہ ہے۔ ان اڈوں کو  دراصل اپنے مفادات کو محفوظ بنانے اور دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے دنیا کے مختلف مقامات پر اتحادی افواج رکھنے کا پروگرام بھی طے ہو گیا ہے۔ اس سے دو فائدے ہوں گے۔ ایک، افواج کا خرچا تقسیم ہو کر کم ہوجائے گا اور دوسرا کسی بھی حملے کے حق میں یا جارحیت کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹ کی طاقت بڑھ جائے گی۔ اسی طرح پہلے سے موجود جنگی اڈوں کو کرائے پر حاصل کرنے اور نئے اڈے تعمیر کرنے کے لیے بھی اس جنگ میں دل چسپی لینے والے ممالک کے درمیان عسکری سطح پر خفیہ اور ظاہری معاہدے طے پاچکے ہیں۔

اس گیم کو سات، سات سال کے تین مرحلوں میں تقسیم کرنے کی بھی منصوبہ بندی ہوئی۔ گیم کا تیسرا مرحلہ2021 میں ختم ہوگا اور سال2025 تک مقررہ اہداف تک رسائی کو ممکن بنایا جائے گا۔ گریٹ گیم میں اب تک جو بڑے ممالک شامل ہو چکے ہیں، ان میں سرفہرست امریکا ہے، علاوہ ازیں اس کے مغربی اتحادی ممالک اورامریکی تسلط کے زیراثر ممالک بھی قابل غور ہیں۔

صدیوں پرانا ایک محاورہ، زن، زر اور زمین آج بھی ایک حقیقت کا درجہ رکھتا ہے۔ بر صغیر پاک وہند میں اس محاورے کے دو اہم ستونوں زن اور زمین کو آج بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے مگر باقی دنیا میں شاید یہ دونوں ستون زر کے سامنے ماند پڑ چکے ہیں۔ اب ہر جنگ چاہے وہ سرد ہو یا گرم، زر کے حصول کے لیے ہی ہوتی ہے اور موجودہ صدی کی نئی گریٹ گیم بھی اسی تناظر میں شروع  ہے۔ تاحال یہ ایک سرد جنگ ہے لیکن یہ کس بھی وقت گرم جنگ میں بدل دی جائے گی۔

اس سے متعلق کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ جنگ عن قریب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے والی ہے اور یہ بھی طے ہو چکا ہے کہ نئی گریٹ گیم اب کیمونیزم اورسرمایہ داری نظام معیشت کے لبادے کے بجائے، زیادہ سے زیادہ حُصول زر کے نظریے کے لیے لڑی جائے گی، جس کو جدید معاشیات میں وسائل کا نام دیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں جو جتنا زیادہ طاقت ور ہو گا اور اپنے اچھے اور برے کو مدنظر رکھ کر بر وقت فیصلے کرے گا، وہ ہی اس جنگ میں کام یاب ٹھہرے گا۔

گو کہ اس جنگ کے ضروری خد و خال کافی حد تک نمایاں ہو چکے ہیں اور فریقین کا بھی تعین ہو چکا ہے۔ اب صرف دیگر ممالک کی گروہ بندیاں ہو رہی ہیںکہ کس نے کیا کھونا ہے اور کیا پاناہے؟  گو کہ اس نئی گریٹ گیم کا ایک فریق تو اب بھی وہی ہے جو سابق سرد جنگ میں کیمونیزم کا علم بردار تھا مگر دوسری جانب اب برطانیہ کے بجائے امریکا نے سربراہی کا پر چم اٹھا لیا ہے۔ کس کے ساتھ کون ہو گا اور وہ کیا ذمہ داری انجام دے گا ؟ اس جنگ میں آج کل جوڑ توڑ عروج پرپہنچ چکا ہے۔

دوسری طرف اب چین، بھارت اورایران نے بھی اس جنگ سے مستفید ہونے کے لیے اپنی اپنی چالوں کو اپنے فائدے اور نقصان کے تناظر میں آگے بڑھانے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں جب کہ خطے میں صرف روس ہی وہ واحد ملک ہے جوپہلے سے موجود کئی ایک فوائد کو قائم رکھنے اور مستقبل کے ممکنہ نقصانات کو روکنے کی حکمت عملی تیار کر رہا ہے۔ روس کے موجودہ صدر ولادی میر پیوٹن، جو اپنے ملک کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سربراہ بھی رہے ہیں، خطے کی تازہ ترین صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اورمحسوس یوں ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی شطرنج کے مہرے آگے بڑھانے شروع کر دیے ہیں۔

نئی گریٹ گیم میں شامل بڑے کھلاڑیوں نے تو شاید اپنی تیاریاں مکمل کرلی ہوں مگر خطے کے متعدد ممالک ایسے بھی ہیں جن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ انہوں نے کرنا کیا ہے اور اگر کچھ کرنا بھی ہے تو کیسے کرنا ہے؟ گومہ گوکی اس کیفیت میں مبتلا ممالک میں سرفہرست ملک پاکستان ہے، جس کی خارجہ پالیسی سمیت دیگر پالیسیوںکی گذشتہ کئی سال سے خود ہمارے اربابِ اختیار کو سمجھ نہیں آرہی اور نہ ہی ہمارے خیر خواہوں اور بد خواہوں کو۔ اس ضمن میں دیگر ممالک کے سفرا سمیت غیر ملکی میڈیا بھی بہت کچھ کہ چکا ہے بل کہ اب تو وہ متواتر لکھ بھی رہا ہے۔

کہاجا رہا ہے کہ پاکستان کو بہت جلد جامع فیصلے کر نے ہوں گے۔ دیر کی صورت میں (اللہ نہ کرے) پاکستان کسی بڑے نقصان سے دوچار ہو سکتا ہے، جس کا ازالہ ممکن نہیں ہو گا۔ اس گریٹ گیم کے پس منظر میں اب تک پاکستا ن کے عوام نے جتنی مار بے وجہ کھائی ہے اور نہ جانے کب تک مزید کھانی ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ ہمارے فوجی اور سول حکم ران جس منظر نامے کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، وہ ہی منظر دھندلا نا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اب اس بارے میں باریک بینی سے سوچنا ہوگا۔

پاکستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ حالیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اب بھی امریکا کی جنگ سمجھتا ہے اورمزے کی بات یہ بھی ہے کہ جب پاکستان، افغانستان میں روس کے خلاف امریکا کی جنگ لڑ رہا تھا تو اس وقت بھی آبادی کا اتنا ہی بڑا حصہ اس کو اسلام کے خلاف جنگ سمجھتا تھا مگر سچ یہ ہے کہ قوم اُس وقت بھی غلطی پر تھی اور آج پھر غلطی پر ڈٹی ہوئی ہے جب کہ دوسری جانب ہمارے حکم رانوں نے قوم کو اعتماد میں نہ لینے اور ان سے مسلسل جھوٹ بولنے کی بنیادی غلطی کا جو عمل جاری رکھا ہوا ہے اُس کا خمیازہ پوری قوم، خوف کے عالم میں مبتلا ہو کر بُھگت رہی ہے۔

اس کی وجہ سے ملک سے ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری باہر منتقل ہونا شروع ہوگی ہے کیوں کہ آج بھی دہشت گردی، کرپشن اور بے یقینی کے جن  نے اب بوتل میں بند ہونے سے انکار کردیا ہے۔ بعض دانا تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے اپنے ہی نئی گریٹ گیم کے مُہرے بن چکے ہیں، اسی لیے تو جن قابو میں نہیں آ رہا ہے۔

تجزیہ نگارتو یہ بھی کہتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں تشکیل دی جانے والی یہ دوسری سرد جنگ مغربی اور امریکی تھنک ٹینکس کا مشترکہ کا رنامہ ہے کیوںکہ اس گیم سے نئے سرمایہ داری نظام کو ان وسائل تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے، جو آنے والے دنوں میں اس نظام کی بقا کے لیے اشد ضروری ہے۔ ان وسائل کی قدر و قیمت کا اندازہ ایک عام کیلکولیٹر سے لگانا مشکل ہے، اس کے تخمینے کے لیے ایک سپر کمپیوٹر کی ضرورت ہوگی۔

افغانستان میں سونے، تانبے اور لیتھیٔم کے ذخائر ہیں، روس سے آزاد ہونے والی ریاستوں میں تیل اور گیس کے ذخائر ہیں اوربلوچستان میں معدنیات کے ذخائر پر لگی گریٹ گیم کے فریقین کی نظریں اب کوئی پوشیدہ امرنہیں۔ ان ذخائرکو نکالنے، ان سے مصنوعات تیار کرنے، مصنوعات کو فروخت کرنے اور مال کمانے تک کے عمل کو ہی اگر نئی گریٹ گیم کا نام دیا جائے، تو یہ غلط نہ ہوگا۔

اس سے قبل اس جنگ کو تہذیبوں کے ٹکرائو، تیسری عالمی جنگ اور وسائل کی کش مکش جیسے نام دیے گئے تھے مگر میڈیا نے اس کا جو نام اب تجویزکیا ہے وہ اس کی روح کے عین مطابق ہے۔گریٹ گیم میں اسلحہ بارُود سے دور رہنے کی حکمت عملی بھی اپنائی گئی ہے، جس کے بعد پاکستان کا ایٹمی اورایران کا یورینیم افزودگی پروگرام گریٹ گیم کی زد پر آیا۔ ان دونوں ممالک سے گریٹ گیم کے متعدد کھلاڑی، خاص طور پر اسرائیل اور امریکا، سخت خائف ہیں کیوں کہ یہ ہی وہ واحد شے ہے، جو گیم کی راہ میں کسی بھی وقت حائل ہو کر بازی اُلٹ سکتی ہے۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2014/10/New-great-game.jpg

گریٹ گیم کا مکمل نفاذ، اس دہائی کے آخر تک ہونا طے پایا ہے اور یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ اسلامی ایٹمی ہتھیاروں سے کس طرح بچنا ہے۔ تجزیہ کرنے والے ماہرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مغرب اورامریکا کے حالیہ مالی بحران بھی اس ڈرامے کی ایک کڑی تھے تا کہ اپنے اتحادیوں کو یہ باور کرایا جا سکے کہ آنے والے دنوں میں اگر وسائل حاصل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو اس بھی زیادہ سخت مالی بحران پیدا ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ بھی سچ ہو گا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیر تسلط معروف عالمی ادارے جو رپورٹیں مرتب کرتے ہیں اور ان میں ماحولیاتی تغیرات اورغذائی کمی سے  ڈراتے ہیں، وہ بھی گریٹ گیم ہی کا کوئی خفیہ حصہ ہو۔

جدید نفسیات کی تحقیق اس امر کی گواہ ہے کہ افراد کو دیکھے اور ان دیکھے خوف میں مبتلا کر کے ان کے عقائد، اعتقاد، اعتماد اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ایک خاص انداز میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اسی طرح این جی اوز اوردیگر اداروں کی جانب سے شائع ہونے والی سروے رپورٹس پر، جو شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں، وہ بھی کسی نہ کسی طرح گریٹ گیم کی اصل حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ گریٹ گیم کو کام یاب بنانے اوراس کے اصل فیوض و برکات کو عام لوگوں کی نظروں سے دور رکھنے کے لیے انٹرنیٹ کو انفارمیشن تک رسائی کی آڑ میں عہد حاضر کی مقبول ترین مصنوعات بنا کر پیش کیا گیا  اور اس ٹیکنالوجی نے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کوسچ ثابت کرنا ممکن کردیا۔ انفارمیشن کی اصل حقیقت کیا ہے؟

انٹر نیٹ استعمال کرنے والے زیادہ تر صارفین اس سے لا علم ہیں۔ اب انٹر نیٹ سروسز اور مصنوعات ایک  ایسے نشے کی مانند پھیل چکی ہیِں، جن کو بغیر سوچے سمجھے من وعن تسلیم کیا جارہا ہے۔ اس سہولت سے جہاں مال کمایا جا رہا ہے وہاں زر (اخراجات) بھی بچایا جاتا ہے۔ لیپ ٹاپ کے بعد موبائل فون کے ذریعے نیٹ سے استفادہ کرنے والے اس سہولت کے مکمل محتاج ہو چکے ہیں بل کہ نئی نسل تو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے ہی عاری ہو چکی ہے۔

گریٹ گیم قوموں کے درمیان تدبر، تحمل، دور اندیشی اور منافقت سے بھر پور ایک ایسا کھیل ہے، جس میں ریفری میچ فکس بھی کرے گا تو کوئی یقین نہیں کرے گا،کھلاڑی مال کمانے کی خاطر ہار جائیں گے مگر شائقین انہیں بے گناہ تصور کریں گے۔ مذہب کی آڑ میں بلا سود کاروبار ہوگا، مگر فتویٰ بھی جاری ہو گا اور اس کاروبار کے خفیہ تانے بانے سود لینے اور دینے والوں سے ملے ہوں گے۔

بہت سے ممالک کی جغرافیائی حدود بدل جائیں گی، ملک سکڑ جائیں گے، بلاک پھیلنے لگیں گے، ہر جانب مال وزر کی حکم رانی ہو گی، جس کے سامنے ہر عمر کے مرد و زن سجدہ ریز ہوں گے لیکن پرچار آفاقی حقیقتوں کا ہی ہو گا۔ ہر آدمی بے جا تشویش میں مبتلا ہوگا، اس سے جان خلاصی کے لیے ادویات بھی کھا رہا ہو گا مگر وہ مانے گا نہیں۔ مصنوعات در مصنوعات ہوںگی، ترقی کا عروج ہوگا، علم ہی علم ہو گا لیکن کوئی صاحب علم نہیں ہوگا۔

گریٹ گیم کو ایسے ہی افراد کا ہجوم چاہیے، جو سارا دن اور ساری رات کمانے کی فکر میں مبتلا ہوں تا کہ وہ سب کچھ خرید سکیں، جو ملٹی نیشنل کمپنیاں تیار کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر اس سوچ سے سب سے پہلے جس ملک نے نہایت ہوش یاری سے استفادہ کیا، وہ چین ہے۔ اس نے ان افراد کو بھی صارف بنا دیا، جو خریداری کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ اس فریق نے نہایت مہارت سے سامنے آئے بغیرملٹی نیشنل کمپنیوں کا مقابلہ کیا ہے۔ کیا اب وہ اپنے مفادات کی قربانی دے گا؟ ہرگز نہیں۔ چین  اُس فریق کے ساتھ ہوگا، جس کا پلڑا بھاری ہو گا۔ مگر خطے میں اب واحد ملک پاکستان ہے، جس نے یہ سوچنا ہے کہ اس آگ کے دریا سے اُس نے کس طرح گزرنا ہے؟

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>