Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4894 articles
Browse latest View live

بادشاہی مسجد

$
0
0

شہر لاہور کی نمائندہ تاریخی‘ ثقافتی عمارات میں ایک اہم ترین عمارت بادشاہی مسجد ہے۔

یہ مسجد اپنی تعمیر کے ابتدائی ایام میں شاہی مسجد کہلائی اور اس کے بعد اہل لاہور میں ایک طویل عرصہ جامع مسجد کے نام سے بھی جانی گئی۔ تعمیرات میں فنون لطیفہ کا ایک نایاب نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اپنی تعمیر کے بعد تین سو برس سے زائد عرصہ غیر متنازعہ طور پر نمازیوں کی تعداد کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی مسجد مانی گئی۔ یہ مسجد 1084ھ بمطابق 1673ء میں مغل شہنشاہ اورنگززیب کے حکم پر ان کے رضاعی بھائی فدائی خان کوکہ نے قلعہ لاہور کے اکبری دروازے کے سامنے شمال مغربی سیدھ میں تعمیر کی۔ اس وقت اس کی تعمیر پر چھ لاکھ روپے کی خطیر رقم خرچ آئی اور مسجد کے روز مرہ اخراجات کے لئے ملتان کے خراج کو وقف کر دیا گیا تھا۔

مسجد کی جائے تعمیر کے بارے میں مؤرخین دو الگ الگ گروہوں میں تقسیم دکھائی دیتے ہیں۔ اول وہ مؤرخین ہیں جن کا کہنا ہے کہ مسجد کی تعمیر کے مقام پر ایک خالی میدان تھا‘ دوئم وہ مؤرخین ہیں جن کا یہ ماننا ہے کہ قلعے کی شمال مغربی سیدھ میں نور جہاں کے بھائی آصف جاہ کا ایک عظیم الشان محل تھا جو کہ اس نے اس وقت کے ممکنہ جانشین سلطنت دارشکوہ کو تحفے میں دے دیا تھا۔ دارشکوہ نے یہاں پر ایک فقید المثال کتب خانہ قائم کر رکھا تھا۔ اورنگ زیب نے جب تخت ہندوستان سنبھالا تو اس نے وہ محل گرا دیا اور تمام کتب دہلی بھجوا دیں۔

مسجد کی جائے تعمیر کے بعد اس مسجد کی تعمیر میں استعمال ہونے والا سنگ سرخ بھی مؤرخین کا موضوع بحث رہا۔ اس حوالے سے مؤرخین کی تین الگ الگ آراء دکھائی دیتی ہیں۔ اول یہ کہ یہ پتھر اورنگزیب کے حکم سے اجمیر اور جے پور سے منگوایا گیا تھا۔ دوئم یہ کہ دارا شکوہ نے یہ پتھر اپنے پیرو مرشد حضرت میاں میر رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ کی عمارت کے لئے منگوایا تھا۔ سوئم یہ کہ داراشکوہ اپنے محل سے حضرت میاں میر ؒ کی درگاہ تک ایک سڑک تعمیر کرنا چاہتا تھا جس میں اس پتھر نے استعمال ہونا تھا یا یہ کہ وہ راستہ تعمیر کرواچکا تھا اور بعدازاں اس پتھر کو اکھڑوا کر مسجد کی تعمیر میں استعمال کیا گیا تھا۔ اب ایک نگاہ مسجد کے طرز تعمیر پر ڈالتے ہیں۔

سید لطیف نے اپنی کتاب میں مسجد کا طرز تعمیر اس وقت الحجاز (موجودہ سعودی عرب) میں موجود مکہ مکرمہ کے مقام پر ایک مسجد الوالد سے متاثر بیان کیا ہے۔ اگر ہندوستان میں دیگر تاریخی مساجد کے طرز تعمیر کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس مسجد کا طرز تعمیر کافی حد تک جامع مسجد فتح پور سیکری سے مماثلت کھاتا ہے۔ یہ مسجد حضرت سلیم چشتیؒ کے عہد میں 1571-1575ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔ اس حوالے سے دوسری اہم ترین مسجد‘ دہلی کی جامع مسجد ’’جہاں نما‘‘ ہے جو کہ اورنگ زیب کے والد شاہ جہان نے 1650-1656ء میں تعمیر کی تھی۔ پہلی نظر میں یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ دونوں مساجد ایک ہی جیسی ہیں۔ اورنگزیب کے کئی کام باپ اور بھائیوں کے مقابلے میں تھے۔ یہی معاملہ تعمیرات کے ساتھ بھی رہا۔ شاہی مسجد لاہور اور موتی مسجد آگرہ اس کی اہم ترین مثالیں ہیں ۔ دہلی اور لاہور کی بادشاہی مسجد کی مماثلت کے بارے میں تحریر انگریز سرکار کے عہد میں چھپے لاہور گیزئٹیر نمبر 1883-84ء کے صفحہ نمبر(175-176) پر بھی ملتی ہے۔ اس میں ان دونوں مساجد کو جامع مسجد کے نام سے تحریر کیا گیا۔ لیکن طرز تعمیر میں نفاست کے حوالے سے دہلی کی جامع مسجد کو زیادہ بہتر مانا گیا۔ روایات کے مطابق دہلی کی جامع مسجد پر اخراجات دس لاکھ روپے آئے تھے جوکہ لاہور کی مسجد سے چار لاکھ زائد تھے جبکہ لاہور کی مسجد صرف دو برس کی قلیل مدت میں تعمیر ہو گئی تھی اور دہلی کی مسجد پر پانچ برس سے زائد کا عرصہ لگا۔

مسجد اپنی بنیادی تعمیر کے بعد لاہور شہر سے باہر کئی میل دور سے دیکھی جا سکتی تھی۔ مسجد کی اسی شان و شوکت کے باعث لاہور میں آئے سیاح اور مؤرخین نے اپنی تحریروں میں اس عظیم الشان مسجد کا بہت ذکر کیا۔ اس مسجد کا ذکر کنہیالال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور (ص156-57) پر یوں کیا ہے۔

’’یہ عالی جاہ مسجد لاہور کی قدیم مساجد سے بہت بڑی ہے۔ سب عمارت اس کی سنگ سرخ و سنگ مرمر کی ہے۔ تینوں گنبد کلاں سنگ مرمر کے نہایت بلند ہیں۔ چاروں میناروں کے اوپر کی گبندیاں بھی سنگ مرمر کی تھیں مگر اب موجود نہیں ہیں۔ باقی عمارت سنگ سرخ کی ہے۔ قلعہ لاہور کے غربی دروازے کی طرف چھوٹا سا میدان جس کو اب حضوری باغ کہتے ہیں، چھوڑ کر مسجد کی سیڑھیاں شروع ہوتی ہیں، اور بہت بلند کرسی دے کر مسجد کی دیوار کا آغاز ہوتا ہے۔ دروازہ اس مسجد کا بھی سنگ سرخ سے برجی دار نہایت عمدہ و مقطع بنا ہوا ہے۔‘‘

’’یہ مسجد بہت بڑی مسجد ہے۔ صحن نہایت چوڑا و وسیع ہے۔ چاروں مینار نہایت بلند ہیں، گنبد بھی اتنے بلند ہیں کہ میناروں کے برابر معلوم ہوتے ہیں، صحن مسجد میں خشتی فرش ہے۔ اور سب عمارت دیواروں کی سنگی ہے۔ جامع مسجد دہلی سے یہ مسجد بڑی ہے۔ اس مسجد کے شمال و جنوب ومشرق کی طرف سنگین حجرے درویشوں اور طالب علموں کے اپنے لئے بنے ہوئے ہیں۔ مگر اب شمالی و جنوبی حجرے موجود ہیں۔ شرقی حجرے انگریزی عہد میں کسی مصلحت کے وقت گرا دے گئے تھے، بلکہ شرقی دیوار بھی مسمار کرا دی گئی تھی۔ صرف ڈیوڑھی کلاں اور زینہ باقی رکھ لیا گیا تھا۔ چاروں میناروں کی سنگ مرمر کی بالائی برجیاں نہایت خوبصورت بنی ہوئی تھیں، تین سکھی حاکموں کے وقت ان میں سے ایک برجی بھونچال کے صدمے سے گر گئی تھی اور تین مرمت طلب و خراب ہو گئی تھیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ان تینوں کو بھی مسمار کرا دیا اور چاروں مینار بے گنبدی رہ گئے۔ دور دراز زینہ میناروں کے اندر بنا ہوا ہے جسکے ذریعے سے لوگ اوپر چڑھ جاتے ہیں۔ اوپر کھڑے ہو کر چاروں طرف نظر آتا ہے۔ شمال اور غروب (غرب) کی طرف تو دریائے راوی لہریں مارتا ہوا اور پریڈ کا میدان دکھائی دیتا ہے اور شرق و جنوب کی طرف شہر کی آبادی کی عمارات نہایت خوبصورت نظر آتی ہیں۔‘‘

مغل سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی زمانے کے بدلتے رنگوں کے ساتھ اس عظیم الشان مسجد نے بھی کئی اہم ادوار دیکھے۔ وہ مسجد جس کے اخراجات کے لئے پورے ایک ضلع کی آمدنی وقف تھی۔ وہ انتہائی برے حالات میں رہی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس مسجد کے وسیع و عریض میدان کو اپنی سپاہ کے گھوڑوں کا اصطبل بنا دیا۔ مسجد کے صحن کی شمالی اور جنوبی سیدھوں میں موجود حجرے جو مسلمان طالب علموں کے زیر استعمال رہا کرتے تھے ان کو سکھ فوجیوں نے اپنی رہائش گاہیں بنا لیا۔ گھوڑوں کے کھروں کے باعث مسجد کا خوبصورت فرش جس میں کھڑی اینٹ کا استعمال کیا گیا تھا وہ تباہ و برباد ہو کر رہ گیا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ مسجد کے وہ باوقار مینار جو کہ اپنے اندر ایک بھید سمائے ہوئے ہیں کہ جہانگیر کے مقبرے کے کسی بھی ایک مینار پر کھڑے ہو کر مسجد کی جانب دیکھا جائے تو اس کے تین مینار دکھلائی دیتے ہیں اور یونہی مسجد کے کسی بھی مینار پر کھڑے ہو کر مقبرے کے میناروں کو دیکھا جائے تو تین ہی مینار نظر آتے ہیں ان میناروں کے ساتھ کیا بیتی‘ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد مسجد اور میناروں کا احوال ڈاکٹر سید عبداللہ کی کتاب ’’لاہور سکھوں کے عہد میں‘‘ (ص۔39) پر یوں ملتا ہے۔

’’مسجد اسی طرح رنجیت سنگھ کے جانشینوں کے قبضہ میں رہی اور کوئی مسلمان مسجد میں داخل نہیں ہو سکتا تھا اور سکھوں نے نہایت آزادی سے اس مسجد کے سازو سامان و پتھر کو خراب کیا۔ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ 1840ء میں مسجد کے میناروں کی برجیاں بھونچال سے گر گئی تھیں۔ ان میناروں پر راجہ شیر سنگھ نے جو رنجیت سنگھ کا دوسرا لڑکا تھا جنوری1841ء میں اپنے برقندازوں کو تعین کر د یا تھا‘ جنہوں نے کھڑگ سنگھ جانشین اور لڑکا اور رنجیت سنگھ کی بیوہ مہارانی چندر کور کے ہامیوں کو بھگا دیا تھا مگر جب ہری سنگھ لڑکا دھیان سنگھ نے شیر سنگھ کے قتل کے بعد سندھیا والا کا محاصرہ کیا تو اس نے بھی یعنی ہلکی توپوں کو مسجد کے میناروں پر رکھ کر استعمال کیا‘‘۔

مسجد کی مضبوط عمارت نے اتنے حوادث دیکھے لیکن وہ تاریخ کے ان اوراق کو اپنے ساتھ سنبھالے کھڑی رہی۔ مسجد کے وہ مینار جو وہ چھوٹی توپوں کی آماجگاہ بھی رہے، وہ تعمیراتی تکینک کے حوالے سے کیا کمال تھے ان پر ہمیں عامر شہزاد کی ایک تحریر ان کی کتاب ’’لاہور کے مینار‘‘ (ص۔63) پر یوں ملتی ہے۔

’’مسجد مربع قطعہ اراضی 528-8X528-4پر مشتمل ہے۔ جس کے چاروں کونوں پر دو سو فٹ اونچے مینار ایستادہ ہیں جو دیکھنے والوں کے دلوں پر عظمت اسلام اور اسلامی تعمیرات کے جاہ و جمال کے نقوش ابھارتے ہیں۔ ان میناروں کی مشابہت ایک لحاظ سے مقبرہ جہانگیر کے میناروں سے ہے۔ جو 1637ء میں تعمیر کئے گئے تھے اور جن کی بلندی قریباً سو فٹ ہے۔ مسجد وزیرخان کے میناروں کے برعکس یہاں میناروں کی تینوں منزلیں اپنے سطحی نقشہ میں مثمن ہیں اور مخروطی شکل لئے ہوئے ہیں۔ بالائی پویلین والے حصے کو نکال کر باقی بلندی 176-4ہے جس کے مرکزی حصے میں گول چکر کھاتی ہوئی سیڑھی اوپر تک چلی گئی ہے۔ مینار کا زمینی محیط 67 فٹ بنتا ہے۔ مسجد کے ایوان کے چاروں کناروں پر چار مینارچے بھی تعمیر کئے گئے ہیں جو تعمیراتی مشابہت میں بڑے میناروں سے ملتے ہیں۔‘‘

انگریز عہد میں مسجد کی حالت کو دوبارہ ایک بار نئے سرے سے بہتر کرنے کی کوشش شروع کی گئی اس کی ایک بڑی وجہ انگریزوں کا دوسرے ملکوں سے آئے وفود کو اپنی عظمت کے نشان بھی دکھانا تھا۔ مسجد کے صحن کے دائیں جانب کمروں کو گرا کر برآمدوں کی شکل دے دی گئی۔ مسجد کے صحن میں اگائے گئے درختوں کو بھی کاٹ دیا گیا جو گھوڑوں کو سایہ دینے کے لئے اگائے گئے تھے۔ مسجد کو مکمل طور پر واگزار کر کے مسلمانوں کے حوالے کر دیا گیا۔ مسجد کو شہر لاہور کے حسن کا جھومر مانا گیا اور اس کی تعمیر نو میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور یہ کہا کہ یہ مسجد تو لاہور کی شان ہے۔ 1864ء میں یہ مہم شروع ہوئی جو کہ قیام پاکستان کے بعد تک جاری رہی۔ اس حوالے سے ایک تحریر نقوش لاہور نمبر (ص۔571) پر یوں ملتی ہے۔

’’اگلے سال حکومت نے پانچ ہزار روپیہ اس شرط کے ساتھ مرحمت فرمانا منظور کیا کہ اس کا دو چند اس ملک کے لوگوں سے بطریق چندہ جمع کیا جا ئے۔ چندہ دینے والوں کی فہرست میں مسلمانوںکے علاوہ یہ نام بھی ملتے ہیں۔

’’راجہ ہربنس سنگھ (ان کے چندے سے بڑھ کر کسی شخص واحدہ کا چندہ اس فہرست میں نہیں) پنڈت موتی لعل‘ پنڈت بدری ناتھ‘ منشی ہرسکھ رائے مالک‘ اخبارکوہ نور ‘ لال نہال چند وغیرہ۔

ایڈورڈ ہفتم جب شہزادگی کے زمانے میں تشریف لائے تو انہوں نے بائیس ہزار روپیہ مسجد کی تعیمر کے لئے دیا۔ دس ہزار روپیہ ڈسٹرکٹ بورڈ کی طرف سے بھی ملا۔‘‘

1939ء میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ سرسکندر حیات خان نے مسجد کی مرمت‘ تزئین و آرائش کی مہم ایک بار پھر سے شروع کی جو کہ تقسیم ہند کے بعد تک جاری رہی اور یہ مسجد 1961ء میں دوبارہ اپنی آج کی حالت میں دکھائی دی۔ میناروں کی گنبدیاں دوبارہ سے پہلے کی مانند دکھائی دینا شروع ہو گئیں۔ اس وقت پراجیکٹ ڈائریکٹر ولی اللہ خان صاحب تھے۔

انگریز عہد میں جن مسلمانوں کی شہرت کا ڈنکا زمانے بھر میں بجا ان میں سرڈاکٹر علامہ اقبال بھی تھے۔ 1938ء میں ان کی وفات کے بعد ان کو بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کی شمالی سیدھ میں ایک خوبصورت مقبرے میں دفن کیا گیا۔ سرسکندر حیات جن کی وفات 1942ء میں ہوئی ان کو بھی مسجد کے ایک پہلو میں دفن کیا گیا۔

مسجد کے داخلی دروازے کی جنوب شرقی سیدھ کے کمروں میں ایک چھوٹا سا اسلامی عجائب خانہ بھی معرض وجود میں آیا۔ اس میں دیگر اسلامی نوادرات کے علاوہ 23 تبرکات بھی تھے۔ ان کی تفصیل خوش قسمتی سے نقوش لاہور نمبر(ص۔569) پر یوں ملتی ہے۔

’’ان تبرکات میں جن کی مجموعی تعداد23 ہے‘ ایک تو آنحضرت ﷺ کا سبز عمامہ اور ٹوپی ہے‘ ایک سبز جبہ‘ سفید پاجامہ‘ نعلین ‘ نقش قدم مبارک‘ سفید علم جس پر قرآن شریف کی آیات منقوش ہیں‘ حضرت علی ؓ کے قرآن پاک کا سپارہ اول خط توفی‘ عمامہ مع کلاہ اور ایک تعویذ اور حضرت سیدۃ النساؓء کا رومال‘ جائے نماز‘ امام حسینؓ کا صندلی عمامہ‘ کلاہ علم اور رومال خون آلود ‘ جناب غوث اعظمؒ کا عمامہ‘ لحاف اور جائے نماز۔ کربلائے معلی کی سرخ مٹی اور خواجہ اویس قرنیؓ کا شکستہ دانت اور دیگر بہت سے تبرکات بھی شامل ہیں۔‘‘

ان تبرکات کا احوال بھی جانیئے یہ بات قریباً 2004ء کے لگ بھگ کی ہے۔ جب ملائیشاء میں ایک اسلامی نمائش کا انعقاد کیا گیا اور سرکاری طور پر ان تبرکات کو وہاں منگوانے کی درخواست کی گئی۔ مسجد جو کہ محکمہ اوقاف کی زیر نگرانی ہے۔ وہاں پر بھیجے جانے والے تبرکات شدید ترین بدانتظامی کا شکار ہوئے اور کئی تبرکات کو چوری کر لیا گیا(معاذ اللہ) ان میں نعلین مبارک بھی شامل ہے۔ اس سانحے کے بعد ایک طویل عرصہ یہ معاملہ اخبارات اور ٹی وی چینلز کی شہ سرخیوں میں رہا۔ لیکن ان تمام سوالات کا جواب نہ مل سکا جو اس معاملے سے متعلق تھے اور نہ ہی یہ تبرکات بازیاب ہوئے۔ ہمارے تحقیقاتی اداروں اور انتظامیہ کے لئے یہ معاملہ بڑی پشیمانی سے کم نہیں اگر محسوس کیا جائے۔ اس تحریر کی وساطت سے ایک بار پنجاب سرکار کو درخواست کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کے ان مقدس تبرکات کو بازیاب کرایا جائے اور ذمے داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔

قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بھی یہ مسجد اہل لاہور کے لئے عزت کا نشان ہے۔ 1960ء میں ملکہ برطانیہ نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو بطور خاص اس مسجد کی زیارت کو آئیں۔ 1974ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر لاہور آئے تمام سربراہان نے مسجد کا دورہ کیا اور شاہ فیصل کی امامت میں مغرب کی نماز بھی ادا کی گئی۔ دیگر ممالک سے آئے وفود اور خاص طور پر اسلامی ممالک سے آئے وفود اس مسجد میں آنے کی شدید خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ معروف سماجی کارکن اور تاج انگلستان کی بہو لیڈی ڈیانا بھی اس مسجد میں تشریف لائیں۔ 2008ء میں جب امام کعبہ لاہور تشرف لائے تو انہوں نے یہاں پر ایک نماز کی امامت کی۔ اہل نظر نے اتنا جم غفیر پہلے کبھی بھی اس مسجد کے گرد نہ دیکھا تھا۔ مسجد کا ہال‘ برآمدے‘ صحن‘ حضوری باغ کا مکمل احاطہ‘ راہداریاں اور باہر تک لوگ اس نماز میں شامل ہونے کے لئے کھڑے رہے۔

عہد حاضر میں مسجد اپنی تمام تر شان کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ اس کے مینار روز اول کی مانند روشن ہیں اور مسجد کے قریب کی وہ تمام دیگر عمارات جو دور جدید کا شاخسانہ ہیں ان کا حسن ماند ہے۔ سڑکوں کی توسیع کی باعث اس کی رسائی منٹو پارک (اقبال پارک) ہی سے ہے۔ قلعے کی مغربی سیدھ میں رنجیت سنگھ کی مڑھی کے ساتھ ہی شمالی جانب مسجد کی اونچی سیڑھیاں ہیں مسجد کے مشرق داخلی دروازے پر یہ تحریر ملتی ہے۔

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
مسجد ابوالمظفر محی الدین محمد عالمگیر بادشاہ غازی
زندہزار و ہشتا و چہار ہجری ا تمام یافت
باہمتام کمتریں خانہ زاداں فدائی خاں کوکہ

تمام مسجد میں صرف یہ واحد تحریر دکھائی دیتی ہے۔ اگر ہم اس کا موازنہ مسجد وزیر خان‘ مسجد ملا صالح کمبوہ سے کریں تو ان میں خطاطی کے نادر اور نایاب نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس سے قرین قیاس ہے کہ مسجد کی ابتدائی تعمیر میں عین ممکن ہے کہ اس طرح کی نایاب خطاطی اپنی جگہ پر موجود ہو۔ 1960میں بادشاہی مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ مہم ختم کر دی گئی تھی۔ لیکن آج بھی مسجد میں داخل ہوتے ہی یہ چندہ مختلف طریقوں سے وصول کیا جاتا ہے۔ مسجد کے صحن میں حوض آج بھی لوگوں کیلئے وضو کی سہولت فراہم کرتا ہے لیکن اس کی صفائی اور ستھرائی کا کوئی انتظام نہیں۔ مغرب سے شمالی سیدھ میں مینار سے ایک نچلا راستہ امام صاحب کی قدیم رہائشگاہ تک جاتا ہے۔

1980ء کی دہائیوں سے مولانا عبدالقادر آزاد بادشاہی مسجد کے امام رہے ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند مولانا عبدالخبیر آزاد حاضر امام ہیں۔ پنجگانہ نماز کے ساتھ ساتھ یہاں پر جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے اجتماع ہوتے ہیں ۔ مسجد کی ابتدائی تعمیر میں مؤذن کی آواز کی باہر تک رسائی کے لئے تعمیر کی ایک خاص تکنیک کو مد نظر رکھا گیا تھا لیکن دور حاضر میں بجلی کے سپیکر نصب کئے گئے ہیں۔ مسجد کی مغربی سیدھ میں گنبدوں کے نیچے ہال میں کاشی کاری کا ایک خاص رنگ دکھائی دیتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بادشاہی مسجد میں موجود کاشی کے یہ نمونہ جات پوری دنیا میں نایاب اور اپنی مثال آپ ہیں۔ مسجد میں دیگر افراد کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے سکولوں کے طالب علم تعلیمی اور معلوماتی دوروں پر آتے ہیں۔ لیکن مسجد کے باہر اور اندر نصب معلوماتی تختیاں کسی بھی طور پر جامع نہیں۔ مسجد کے لئے انتظامات کسی بھی طور پر اس کے شایان شان نہیں۔

لاہور میں دیگر اہم تاریخی مساجد جو کہ محکمہ اوقاف کی زیر نگرانی ہیں ان کے معاملات بھی کچھ خاص درست نہیں۔ دنیا کا اگر کوئی دوسرا ملک ہوتا تو مسجد کے صحن میں لگے پتھروں کو اکھڑوا کر مسجد کی ابتدائی تعمیر میں بنا ہوا کھڑی اینٹ کا فرش بحال کرنے کی کوشش ضرور کی جاتی ۔ مسجد کی انتظامیہ کی جانب سے ایک انتہائی احسن اقدام پچھلے چند برسوں سے د کھائی دے رہا ہے۔ شام ہوتے ہی مسجد کی تمام عمارت میں مدھم برقی روشنیاں جگمگا دی جاتی ہیں جس سے مسجد دور سے نظر آنے لگ جاتی ہے اور اس کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ مسجد روز اول کی مانند روشن ہے۔ اس کی بہتری کے لئے مزید اقدامات کر کے اس کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔


خوشیوں کی ہریالی، پاکیزگی کی سفیدی

$
0
0

14 اگست وہ دن ہے جب مسلمانان ہند کی کئی عشروں پر محیط کاوشیں اور قربانیاں رنگ لائیں اور ہم اس قطعہ ئے زمین کو حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے۔

یہ دن جب بھی آتا ہے آنکھوں کو تراوٹ دیتے سبز اور دل کو پاکیزگی سے بھرتے سفید رنگ ہر طرف پھیل جاتے ہیں۔

یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں، ایک ایسی قوم جس نے طویل جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر ایک خوب صورت اور وسائل سے مالا مال ملک حاصل کیا۔

جشن آزادی کی تیاریاں، کوچہ کوچہ قریہ قریہ آنے والی سبزہلالی پرچموں کی بہار، پرچم کے رنگوں پر مشتمل لباس، دوپٹے، چوڑیاں اور کیپس، چہروں پر مسرت کی چمک۔۔۔یہ سب بتاتی ہیں کہ لاکھ مشکلات اور مسائل سہی مگر پاکستانی قوم دل گرفتہ ضرور ہے مگر مایوس نہیں اور وطن کی محبت ہر دل میں جاگزیں ہے، یہی محبت ان دنوں چہروں پر دمک رہی ہے اور پرچموں، جھنڈیوں اور لباس وغیرہ کی صورت ہماری فضا کو ہمارے پرچم کے خوب صورت رنگوں میں ڈھال رہی ہے۔

بُک شیلف

$
0
0

 ہم نشینی
شاعر: نوید سروش
ناشر … رنگ ادب پبلی کیشنز5 کتاب مارکیٹ اردو بازار کراچی
صفحات:192،قیمت … 400 روپے

میرپور خاص، سندھ کا ایک چھوٹا سا مگر ادبی لحاظ سے بہت زرخیز شہر ہے۔ کوئی شک نہیں کہ تاج قائم خانی، یعقوب خاور، رفیق احمد نقش، ڈاکٹر سید رضی محمد، میرپورخاص کے نمایاں اور معتبر نام ہیں جن کی ادبی حیثیت سے انکار ممکن نہیں۔ تاہم پچھلے چند سال سے جواں سال نوید سروش نے بہت تیزی سے میرپورخاص میں اہم مقام حاصل کیا ہے۔

انہوں نے ادب کی ترقی و ترویج کے لیے نہ صرف ادبی پرچے ’’پہچان‘‘ کا اجراء کیا بلکہ مشاعرے کراکے شعراء کو ایک جگہ اکٹھا بھی کیا۔ ’’ہم نشینی‘‘ نوید سروش کا پہلا شعری مجموعہ ہے، جو اہتمام سے شائع کیا گیا ہے۔

نوید سروش بنیادی طور پر روایتی اور جدید شاعری کے سنگم پر کھڑا شاعر ہے جسے اپنی روایت بھی عزیز ہے اور وہ جدید عہد کے تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس کی شاعری کے مختلف رنگ ہیں جن میں رومانوی رنگ بھی ہے تاہم وطن سے محبت، دوستوں سے محبت اس کے شعروں میں جا بہ بجا جھلکتی ہے، وہ بنیادی طور پر حساس طبیعت کا مالک ہے اور محبتوں کے گل دستے تقسیم کرنے کا قائل ہے۔

چل دیے ساتھ ترے پھول ستارے جگنو
راہ الفت میں ترا ساتھ نبھانے کے لیے
۔۔۔۔۔
گھر بھی ہے کتابیں بھی ہیں احباب بھی لیکن
محسوس کیوں ہوتی ہے مجھے تیری کمی روز
۔۔۔۔۔
جو آتے نہیں ملنے ان دوستوں سے
گھروں پر میں خود جاکے ملتا رہا ہوں

نوید سروش کی غزلوں کی طرح ان کی نظمیں بھی پڑھنے والے کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتیں۔ یہ نظمیں بھی بنیادی طور پر ایک حساس فطرت طبیعت کی غماز ہیں۔ ان نظموں میں ’’ہم دوست کیوں نہیں بنا پاتے، انفرادیت، کسی بھی طرح ذلیل کیا جاسکتا ہے اور ذی شان ساحل کے لیے لکھی گئی نظم عرض داشت شامل ہے۔ ان نظموں میں طنز کا عنصر بھی کمال مہارت سے ملتا ہے۔ شعری مجموعے ’’ہم نشینی‘‘ میں غزلیں، نظمیں، نعت، حمد، ہائیکو، قطعات سمیت مختلف شعری پیراہن پر طبع آزمائی ملتی ہے۔ نوید سروش کے فن کے حوالے سے سید مشکور حسین یاد، شبنم شکیل (مرحومہ) ڈاکٹر انور سدید، شہناز شورو، ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش اور خود نوید سروش کا مضمون شامل کتاب ہے۔ ڈاکٹر انورسدید نے لکھا ہے،’’میرپورخاص کے گردونواح میں دور دور تک جو دودھیا روشنی نظر آتی ہے اس کے فروغ میں نوید سروش کا حصہ نمایاں ہے۔ شہناز شورو نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے،’’اس کی شاعری میں ایک باوقار ٹھہراؤ ہے، تھر کی تپتی ریت پہ اپنے پنجے گاڑے آنے والے مسافر کے لیے زمین و آسمان کے درمیان اپنی شاخیں پھیلائے ہوئے درخت ایسا ٹھہراؤ۔ وہ گر شدت کی آندھی سے دولخت ہوتا بھی ہے تو اپنا منصب نہیں بھولتا جو سرتا سر محبت ہے۔‘‘

اعجاز سخن
شاعر: اعجاز رضوی
ناشر: کمبائن گرافک، 444 سنی پلازہ، حسرت موہانی روڈ، کراچی
صفحات:144،قیمت: 200 روپے

اس شعری مجموعے ’’اعجاز سخن‘‘ میں اولین صفحات فرید بلگرامی، امجد اسلام امجد، فراست رضوی، ڈاکٹر جاوید منظر، عارف شفیق، عبدالرؤف صدیقی، شاہین بیگم شاہین، ناصر سوری، وقار مانوی دہلوی، ڈاکٹر عفت زریں، سید حسن احمد رضوی خیرآبادی، سید برکت علی ہاشمی، سارہ کنول اور سید اعجاز احمد رضوی کی آراء پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تعلق پاکستان سے تو کچھ کا بھارت سے خاص کر خیر آباد سے ہے۔ خیر آباد (بھارت) اردو شاعری کے حوالے سے ایک مقام رکھتا ہے۔

اعجاز رضوی کا بھی خیر آباد سے تعلق ہے۔ فاطمہ ثریا بجیا اور ڈاکٹر یونس حسنی کی آراء بھی کتاب میں شامل ہیں۔ کچھ آراء کے اقتباسات ملاحظہ ہوں، امجد اسلام امجد لکھتے ہیں،’’سید اعجاز رضوی شاعر کی حد تک ایک بے نیاز اور گوشہ نشین قسم کے انسان ہیں۔ اس مجموعہ کلام کی اشاعت بھی ان سے زیادہ ان کے عزیزوں کی محبت اور خواہش کا عکس کہی جاسکتی ہے۔ سو اس کا ادبی مرتبہ متعین کرتے ہوئے اسے اسی محبت اور شاعر کے انسان دوست اور اقدار پسند رویے کے حوالے سے دیکھنا چاہیے کہ یہی اس کے مرکزی اور بنیادی محرک ہیں۔‘‘

فاطمہ ثریا بجیا نے اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے،’’اعجاز رضوی کی شاعری میں سب سے زیادہ جو بات ان کے اشعار کو پرکشش بنارہی ہے وہ ان کی لفظیات اور بیان کی سادگی ہی ہے جس کو انھوں نے سیدھی سادھی عام سی زبان میں ڈھال کر بڑی بڑی باتیں اور مضامین آسانی سے بیان کردیے ہیں۔

قائد کی کرن، معمار قوم، عصر نو اور سانپ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔‘‘ اعجاز رضوی نے لکھا ہے،’’اس شعری مجموعے کی کمپوزنگ کے بعد جب اسے طباعت کے لیے بھیجا جائے گا تو یہ سوچ کر میرے دل و دماغ کی حالت ناگفتہ بہ ہورہی تھی کہ کیا یہ کتاب اسی کتب خانے اور لائبریری میں رکھی جائے گی جہاں میر تقی میر، استاد ذوق، داغ دہلوی، غالب اور اقبال کی کتابیں رکھی ہوں گی۔ اس خیال کے آتے ہی مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس شدت سے ہوا۔‘‘

اس شعری مجموعے کی اشاعت کا سہرا اعجاز رضوی کی بہو سارہ کنول کے سر ہے، جنھوں نے بکھری ہوئی شاعری یک جا کی، اس پر مختلف جگہ سے آراء اکٹھی کیں اور اسے کتابی شکل دی۔ سارہ کنول مبارکباد کی لائق ہیں۔ یقیناً کئی اور شاعروں کی طرح اعجاز رضوی کا کلام بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ خدا ایسی بہو یا بیوی ہر ادیب شاعر، افسانہ نگار کو دے۔ اعجاز رضوی کی شاعری جدید و قدیم دونوں رنگوں سے مزین ملتی ہے اور یہ ساری شاعری ان کے احساسات کی ترجمانی کرتی ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

ساقی یہ روک ٹوک بری ہے شراب پر
بگڑے گی محتسب سے کسی دن حساب پر
۔۔۔۔۔
دیدۂ قلب سے رضوی یہ جہاں دیکھتے ہیں
چشم ظاہر سے ہم اتنا بھی کہاں دیکھتے ہیں

کتاب مناسب طور پر شائع کی گئی ہے۔ قیمت بھی مناسب ہے۔

میں حاضر ہوں
مصنف: ڈاکٹر عبدالحق
قیمت: 200 روپے
ناشر: مثال پبلشرز رحیم سینٹر پریس مارکیٹ امین پور بازار فیصل آباد

حج، ایک مقدس و معتبر اسلامی رکن ہے جسے ادا کرنے کی ہر مسلمان دلی خواہش رکھتا ہے، مگر اسے اتنا منہگا کردیا گیا ہے کہ ہر چاہنے والے کی حسرت پوری نہیں ہوسکتی۔ صاحب استطاعت لوگ اس فرض کو ادا کرنے کے بعد اپنے ملنے والوں سے اپنے الفاظ میں اپنے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں جو لکھنے کا شوق اور اسے کتابی شکل میں شائع کرنے کی توفیق رکھتے ہیں وہ اسے کتابی صورت دے دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحق نے حج کی سعادت 2010 میں حاصل کی۔

پھر 2013 میں عمرہ کیا اور اس دوران لیے گئے نوٹس کو احاطہ تحریر میں لاکر ’’میں حاضر ہوں‘‘ تخلیق کی۔ میں حاضر ہوں روایتی لگے بندھے جذبات اور جذباتی کیفیت کو سمیٹنے کے ساتھ ساتھ منصف پر گزرنے والے ذاتی مشاہدے، تکالیف، سعودی رعایا کے رویے پر مبنی واقعات سے پر ملتی ہے اور مصنف نے بے تکلفی، سادگی سے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے۔ بعض جگہ ان کا لہجہ استعجابیہ بھی ہوجاتا ہے۔

اس کتاب کے ذریعے ڈاکٹر عبدالحق نے خود پر گزرنے والے حالات اختصار کے ساتھ لکھے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ’’ایں سعادت بزور بازو نیست‘‘ قسمت والے ہی اس در پر پہنچتے ہیں اور کم کم ہی وہاں پہنچ کر حج کی حقیقی معراج کو پاتے ہیں، زیادہ تر رقم خرچ کرکے کھجوریں، آب زم زم، تسبیح، ٹوپیاں لے کر پلٹ آتے ہیں۔ مصنف کی یہ ایک اچھی کاوش ہے مگر اسے ہم صرف اظہار عقیدت کہہ سکتے ہیں کہ اس حوالے سے لکھی گئی کتابوں میں ایک کتاب کا اضافہ ’’میں حاضر ہوں‘‘ کی شکل میں ہوا ہے۔ کتاب معیاری انداز میں شائع کی گئی۔

گل ہائے سخن
مرتب: علی جان سخن
ناشر: ارتقائے ادب، قدیر پلازہ مین بازار، دیونہ منڈی، گجرات
صفحات:152،قیمت: 350 روپے

علی جان سخن، گجرات کے نوجوان شاعر ہیں۔ ’’گل ہائے سخن‘‘ ان کا پاکستان کے مختلف علاقوں اور بیرون ملک سے منتخب کردہ 60 شعرا کے کلام کی اشاعت کا نام ہے۔ گو یہ کوئی نئی روایت نہیں، کتنے ہی افراد اور ادارے شاعری اور افسانوں کے انتخاب مرتب کرتے رہے ہیں جو بازار میں دستیاب ہیں۔

یہ کتاب بھی اسی تسلسل کا ایک حصہ ہے۔ علی جان سخن نے یہ خصوصی اہتمام ضرور کیا ہے کہ انتخاب میں شامل شعرا کے کلام و تصویر کے ساتھ اس کے فن پر کسی دیگر ادبی شخصیت کی رائے بھی شامل کرتے ہوئے اسے ایک عنوان کے تحت دیا ہے، مثلاً معروف شاعر و صحافی جاوید صبا پر خالد معین، جو خود بھی معروف شاعر صحافی ہیں، کی تعارفی سطور بہ عنوان ’’دشت حیراں کا مسافر‘‘ شامل کی گئی ہیں۔ اسی طرح نداعلی کی تعارفی سطور مختصر مضمون علی جان سخن کی شاعری پر بہ عنوان ’’در خدائے مست درویش است‘‘ شامل ہوا ہے۔

کتاب کا انتساب علی جان سخن نے ’’بابا جان کی شفقت اور ماں جی کی دعاؤں کے نام‘‘ کرکے اپنے والدین سے محبت کا اظہار کیا ہے۔ کتاب میں شامل شاعری پر ڈاکٹر محمد امین (ملتا) ظہور احمد فاتح (تونسہ شریف) اور شہناز نور (کراچی) کے مضامین شامل ہیں۔

علی جان سخن نے ’’گل ہائے سخن ‘‘ محنت سے مرتب کی ہے اور بڑے اہتمام سے شائع کی ہے، تاہم مجھے اس کی قیمت 350 روپے زیادہ لگی۔ علی جان سخن نے کتاب میں شامل شعراء کی تصاویر پر مبنی تعارفی پمفلٹ بھی نکالا ہے جو کتاب کی فروخت میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک معیاری کتاب ہے جسے ہر لائبریری میں ہونا چاہیے کہ اس کتاب کی مدد سے بیک وقت آپ 60 شعراء کے کلام سے متعارف ہوجاتے ہیں۔

ریکی (شفا بخش توانائی)
مصنف: عبدالحسیب خان
ناشر … امپریٹن پرنٹنگ ہاؤس، کورنگی انڈسٹریل ایریا، کراچی
صفحات:122،قیمت: 500 روپے

عبدالحسیب خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ایک دوا ساز ادارے کے سربراہ کے ساتھ ساتھ ادبی حلقوں میں دل چسپی بھی ان کی پہچان ہے۔ پھر ایک سیاسی جماعت سے وابستگی اور سینیٹر منتخب ہونے کے بعد ان کی مصروفیات کا دائرہ مزید وسیع ہوا ہے۔

ریکی ماسٹر کی حیثیت سے ان کی جو بھی شناخت ہے، کم از کم میں اس کتاب کی توسط ہی سے ان کے اس سے مطلع ہوپایا ہوں۔ عبدالحسیب خان نے ریکی جیسے طریقۂ علاج کے حوالے سے یہ معیاری کتاب تحریر کی ہے اور ریکی کیا ہے؟ ریکی کی خصوصیات کیا ہیں، ریکی کے درجات اور علاج کے راہ نما اصول سمیت مختلف موضوعات کو تحریری اور تصویری شکل میں یک جا کیا ہے۔ انھوں نے ریکی سیکھنے میں جو مشکلات سہیں کتاب میں ان کا بھی ذکر ملتا ہے۔

اس کے ساتھ ریکی ماسٹرز کی تصاویر اور ان کا تعارف بھی کافی معلومات افزا ہے۔ ریکی ایک جاپانی لفظ ہے جس کے معانی قوت حیات کی روحانی رہبری بتایا گیا ہے، ریکی قوت جسمانی، ذہنی، جذباتی اور روحانی تکالیف دور کرنے اور سکون پہنچانے میں موثر تھراپی سمجھی جاتی ہے۔ عبدالحسیب خان نے ریکی کے راہ نما اصول، ضوابط و طریقہ کار کے متعلق تفصیل سے لکھنے کے ساتھ تصویری اور گرافیکل جسمانی ڈھانچے کو بھی قاری کے سامنے واضح کیا ہے۔

ریکی کے عمل کی کام یابی کو ذہنی سکون سے مشروط کیا گیا ہے۔ اگر ذہن بے سکون اور پریشان ہو تو ریکی کی لہریں نہ کوئی ارتعاش پیدا کرسکتی ہیں اور نہ ہی تکلیف دہ جگہ پر پوری طرح اثر انداز ہوسکتی ہیں۔

اس کتاب میں مراقبے پر بھی مضمون شامل ہے جو اس کی افادیت کو واضح کرتا ہے، نیند کی اہمیت، دماغی قوت، موٹاپا، امراض قلب، ذیابیطس، چہل قدمی کے فوائد، ایکو پنکچر، جیسے موضوعات پر بھی عبدالحسیب خان نے دل چسپ معلومات اور حفاظتی تدابیر بیان کی ہیں۔ یہ کتاب عمدہ کاغذ پر بڑے اہتمام سے خوب صورتی کے ساتھ شایع کی گئی ہے اور ریکی کے حوالے سے یہ ایک اہم دستاویز ہے، جو علم میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔

شان حسنین کریمینؓ بِلسانِ سید الکونینؐ
مصنف: علامہ قاری گلزار احمد انڑ
تصدیق و نظر ثانی: علامہ پروفیسر مفتی رضا محمد انڑ غفاری
ناشر: خدیجہ پبلی کیشن، نواب شاہ۔ حیدرآباد
صفحات:92 ،قیمت 200 روپے

یہ تالیف خالصتاً مذہبی موضوع کی کتاب ہے، جس میں ہمارے مذہبی لٹریچر کی مختلف کتابوں میں موجود ان روایات کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو رسول اکرمؐؐ کے نواسوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی توصیف پر مبنی ہیں۔ قاری گلزار احمد انڑ نے بڑی محنت سے مختلف ضخیم کتابوں میں موجود ان روایات کو جمع کرکے انھیں کتابی شکل دی ہے۔ کتاب میں مولف نے منقبتیں بھی شامل کی ہیں۔ کتاب کا ہر ہر لفظ مولف کی حسنین کریمینؓ سے محبت کا عکاس ہے۔

سائنسی حقیقتیں اور فسانے
مصنف: پروفیسر احمد نسیم سندیلوی
ناشر … الجلیس پاکستانی بکس پبلیشنگ سروسز، کراچی
صفحات:152،قیمت: 300 روپے

پروفیسر احمد نسیم سندیلوی، سنیئر صحافی ہیں اور سائنس اور صحافت کے موضوعات پر تواتر سے لکھتے رہے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ’’سائنسی حقیقتیں اور فسانے‘‘ میں بھی مجموعی طور پر وہ مضامین شامل ہیں جو مختلف رسائل و جرائد کے لیے نسیم صاحب نے لکھے۔ کچھ موضوعات ملاحظہ ہوں ’’نظام شمسی کے سیاروں پر موسموں کا ارتقا، سائنس کے پراسرار گوشے، ٹیسٹ ٹیوب بے بی، درد کی رنگین تصویریں، جین کی جلوہ گری، چاند کے دل چسپ حقائق۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد سائنسی معلومات میں خاطر خواہ حد تک اضافہ ہوتا ہے اور سائنسی ترقی و کمال سے آگاہی کے ساتھ انسانی زندگی کو کریدنے کا عمل بہت سفاکی سے عمل پذیر ہوتا ہے۔

نسیم صاحب نے اردو میں یہ کتاب لکھ کر بہت سی معلومات عام افراد کی رسائی تک پہنچائی ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ سائنس کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے بعض مقامات پر قدرت اسے اس کی مقررہ حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتی۔

پروفیسر احمد نسیم سندیلوی حساس طبیعت کے باعث اپنے مضمون ’’جین کی جلوہ گری‘‘ اپنے پاکستانی سائنس دانوں سے جو کہ جین پر تحقیق کررہے ہیں یا کریں گے ایک گزارش کی ہے کہ وہ ایسے جین کی دریافت پر پوری توجہ دیں جو انسان میں شعور انسانیت اور محبت و اخوت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ ایسے جین دریافت کریں اور ان کو ابھاریں کہ ہمارے جسم بے شک سرطان میں مبتلا ہوں لیکن ہم سر تان کر چلیں، سر جھکا کر نہیں۔ کتاب میں نام ور پاکستانی سائنس داں ڈاکٹر سعید اختر درانی کا ایک انٹرویو اور ان کی ایک غزل بھی شامل کی گئی ہے، اس غزل میں بھی سائنسی رنگ نمایاں ملتا ہے۔

152 صفحات پر مشتمل کتاب ’’سائنسی حقیقتیں اور فسانے‘‘ عام کاغذ پر شائع کی گئی ہے اور چھپائی کی بہت سی خامیاں اس میں ملتی ہیں۔ کئی جگہ حروف مٹے ہوئے ملتے ہیں ایک صفحہ بھی غلط پیسٹ ہوگیا ہے۔ ان خامیوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو یہ کتاب ہر پڑھنے والے کو کچھ نہ کچھ معلومات ضرور فراہم کردیتی ہے۔

دیس بدیس کے کھانے

$
0
0

چکن چیز کپس
اجزا:
مرغی کا قیمہ (آدھا کلو)
اسکوائر مانڈا پٹی (چار عدد)
کھانے کا تیل (دو کھانے کے چمچے)
باریک کٹا ہوا لہسن (ایک کھانے کا چمچا)
نمک (ایک چائے کا چمچا)
کُٹی ہوئی لال مرچ (ایک چائے کا چمچا)
کُٹی ہوئی کالی مرچ (ایک چائے کا چمچا)
کتری ہوئی پیاز (آدھی پیالی)
ٹماٹر (ایک عدد) بیج نکال لیں
شملہ مرچ (ایک عدد) باریک کاٹ لیں
زیتون (ایک کھانے کا چمچا)کٹے ہوئے
کدو کش کی ہوئی چیڈر چیز (200 گرام)
باریک کٹی ہوئی ہری مرچ (حسب ضرورت)
باریک کٹا ہوا ہرا دھنیا (حسب ذائقہ)

ترکیب:
اوون کو پہلے سے 180 ڈگری سینٹی گریڈ پر گرم کرلیں۔ مانڈا پٹی کو ایک سائز کے چار اسکوائر میں کاٹیں۔ کپ ٹرے کو آئل سے برش کریں۔ پھر کپ ٹرے میں ایک اسکوائر ڈال کر تیل کی برشنگ کریں، پھر دوسرے اسکوائر کو کراسنگ میں رکھیں۔

پھر آئل سے برشنگ کرکے تیسری اسکوائر اور اسی طرح پھر برشنگ کے بعد مزید ایک اور اسکوائر کو کراسنگ میں رکھ کر دبا دیں۔ اسی طرح باقی کے ٹرے کپس کو بھی بنا کر اوون میں بیک کرلیں۔ رنگ تبدیل ہو جائے، تو نکال کر کپس کو ٹھنڈا کرلیں۔ ایک پین میں آئل گرم کرکے اس میں لہسن کو بھون لیں۔

اب اس میں قیمہ شامل کر کے تیز آنچ پر قیمے کا پانی خشک کر لیں۔ جب قیمے کا رنگ تبدیل ہوجائے، تو اس میں نمک، لال مرچ اور کالی مرچ ڈال کر ملائیں۔ اس کے بعد پانچ سے 10منٹ پکانے کے بعد چولھا بند کر کے اس میں چیڈر چیز شامل کرکے پیالے میں نکال لیں۔ سبزیوں میں سے تھوڑی تھوڑی سبزیاں گارنشنگ کے لیے نکال کر ایک طرف رکھ دیں۔ پھر قیمے والے مکسچر میں شملہ مرچ، ٹماٹر، پیاز اور زیتون ڈال کر اچھی طرح ملائیں۔ اب اس مکسچر کو چمچے کی مدد سے کپس میں بھریں۔ پھر ٹماٹر، شملہ مرچ ار پیاز سے گارنش کر کے نوش کریں۔

ملائی بوٹی سینڈوچز
اجزا:
چکن بوٹی (آدھا کلو)
مکھن (ایک پیکٹ)
پودینہ (ایک گٹھی) باریک کاٹ لیں
ڈبل روٹی (ایک عدد)
پیاز (دو عدد) لچھے میں کاٹ لیں
لیموں (دو عدد)
ہری مرچ (چار عدد) باریک کاٹ لیں
تازہ گرم دودھ (آدھی پیالی)
کُٹی ہوئی کالی مرچ (ایک چائے کا چمچا)
ادرک کا آمیزہ (ایک کھانے کا چمچا)
تندوری مسالا (دو کھانے کے چمچے)
تیل (دو کھانے کے چمچے)
فریش کریم (تین کھانے کے چمچے)
مایونیز (حسب ضرورت)
نمک (حسب ذائقہ)

ترکیب:
لچھے میں کٹی ہوئی پیاز دھو کر نمک کے پانی میں دو منٹ کے لیے ڈال کر نکالیں، پھر اس میں لیموں کا رس، نمک، باریک کٹا ہوا پودینہ اور باریک کٹی ہوئی ہری مرچ ملا دیں۔ اب چکن بوٹی میں ادرک کا آمیزہ اور نمک لگا کر ہلکا سا کچل لیں، پھر تندوری مسالا، فریش کریم اور کُٹی ہوئی کالی مرچ ملا کر پانچ منٹ کے لیے رکھ دیں۔

اس کے بعد فرائنگ پین میں تیل گرم کر کے چکن اسٹر فرائی کریں۔ جب پانی خشک ہو جائے، تو چکن کو ٹھنڈا کر کے باریک ٹکڑے کریں۔ اب الگ پیالے میں مایونیز اور مکھن ملائیں، پھر گرم دودھ شامل کر کے تین منٹ کے لیے فریج میں رکھ دیں۔ اس کے بعد ایک ایک توس پر پہلے مایونیز اور مکھن لگائیں اور چکن پھیلاکر رکھیں۔ اب تیار کی ہوئی تھوڑی سی پیاز ڈال کر اوپر دوسرا توس رکھیں اور کنارے کاٹ دیں۔ درمیان میں سے اس کے دو ٹکڑے کر کے مزے دار سینڈوچز نوش کریں۔

اسپائسی ویجیٹیبل چاؤمن
اجزا:
بند گوبھی (ایک عدد) باریک کاٹ لیں
شملہ مرچ (دوعدد) باریک کاٹ لیں
گاجر (دوعدد) باریک کٹی ہوئی
بین اسپروٹس (ایک پیالی) صاف کر لیں
ہری پیاز (دو گٹھی) باریک کاٹ لیں
نوڈلز (آدھا پیکٹ)
تیل (پانچ کھانے کے چمچے)
پیاز (ایک عدد) باریک کاٹ لیں
ادرک لہسن کا آمیزہ (ایک چائے کا چمچا)
سویاسوس (دوکھانے کے چمچے)
سفید سرکہ (دوکھانے کے چمچے)
نمک (حسب ذائقہ)
ہری مرچ (چھے عدد) لمبی باریک کاٹ لیں
چلی سوس (دوکھانے کے چمچے)
کُٹی ہوئی لال مرچ (ایک چائے کا چمچا)
چکن کیوب (ایک عدد)
تل کا تیل (ایک چائے کا چمچا)
چکن کیوب والا میدہ (ایک کھانے کا چمچا)

ترکیب:
ایک دیگچی میں پانی گرم کر کے اس میں نوڈلز اور دو کھانے کے چمچے تیل ڈال کر ابالیں۔ جب نوڈلز گل جائیں تو پانی نتھار لیں۔ اب نوڈلز کو ٹھنڈے پانی سے دھو کر ذراسی چکنائی دوبارہ ملائیں۔ پھر ایک کڑاہی میں تین کھانے کے چمچے تیل گرم کر کے پیاز ہلکی گلابی کر لیں۔

اب اس میں ادرک، لہسن کا آمیزہ ڈال کر ہلکا سا تل لیں اور بند گوبھی، شملہ مرچ، گاجر، سویا سوس، سفید سرکہ، نمک اور ہری مرچ شامل کر کے دو منٹ بھون لیں۔ پھر نوڈلز ڈالیں اس کے بعد چلی سوس، لال مرچ، چکن کیوب اور نمک ڈال کر جلدی جلدی اچھی طرح ملائیں اور تل کا تیل ڈال دیں۔ اب اوپر سے بین اسپروٹس اور ہری پیاز کے پتے ڈال کر گرم گرم نوش کریں۔

چین کی نئی نسل چئیرمین ماؤ کا فلسفہ بھلا چکی ہے

$
0
0

 11اپریل 2014ء کو ہم بیجنگ جانے سے قبل ٹرانزٹ کے لیے چین کے چھنگتو ایئرپورٹ اترے تو ہمارے ذہن میں تھا کہ چھنگتو نواب شاہ یا سکھر جیسا چھوٹا سا شہر ہوگا، لیکن جہاز سے اترے تو وسیع و عریض ایئرپورٹ کو دیکھتے ہی ہمارا ذہن تبدیل ہوگیا۔

ایئرپورٹ پر ہر جانب طیارے ایسے کھڑے تھے کہ ہمارے ہاں اتنی ٹیکسیاں ٹیکسی اسٹینڈ پر نہیں ہوتیں۔ طیاروں کی لینڈ اور فلائی کرنے کی رفتار کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ چھنگتو چین کا بہت بڑا شہر ہے۔

ایئرپورٹ پر اترتے ہی ہمیں بس میں سوار کر کے ایئرپورٹ کی ایک خوب صورت لابی میں بٹھادیا گیا۔ اب ہمارے ساتھ صرف وہ مسافر تھے جو بیجنگ جانا چاہتے تھے۔ ہم نے واش روم کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ چینی عوام واش روم میں پانی کا استعما ل نہیں کرتے۔ ہم فوری طور پر واش روم سے باہر آگئے۔

وفد کے پرانے ساتھیوں بتایا کہ چین میں کہیں بھی واش روم میں پانی نہیں ہوتا واش روم سے باہر آکر آپ پانی سے ہاتھ ضرور دھو سکتے ہیں۔ ہم نے پانی کی تلاش شروع کی ایک چھوٹا سا اسٹال دکھائی دیا جہاں سے ہم نے پانی کی چھوٹی بوتل کا معلوم کیا تو پتا چلا کہ 15 آرایم بی (چینی کرنسی کا معروف نام) یعنی پاکستانی 250 روپے بنتے ہیں۔ ہم نے 20آرایم بی دیے تو خاتون نے ہمیں 5 واپس کیے اس طرح ہمارا واش روم کا مسئلہ حل ہوا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد تمام مسافروں کو امریگشن کے مراحل کے بعد ڈومیسٹک طیارے میں سوار کیا گیا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم بیجنگ پہنچے۔

امیگریشن کے بعد باہر آئے، جہاں سے ہمیں ہوٹل کے لیے انڈرگراؤنڈ ٹرین میں سوار ہونا تھا، جو کہ ایئرپورٹ سے چلتی ہے۔ لفٹ نے ہمیں انڈر گراؤنڈ ریلوے اسٹیشن چھوڑا جہاں سے دونوں جانب ٹرینیں آ جا رہی تھیں۔ چین میں اسٹیشنوں پر متعلقہ علاقے کے نام کے ساتھ نقشہ دیوار پر لگا ہوتا ہے۔ مسافر اپنی منزل پر جانے سے قبل اس نقشے سے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔ جاوید انصاری ہمارے وفد کے سنیئر رکن تھے، جنہیں بغیر نقشے کے بھی علاقوں کا پتا تھا۔ وہ ہمیں گائیڈ کر رہے تھے۔ ہم خوب صورت ایئرکنڈیشنڈ ٹرین میں سوار ہوئے۔ ہم نے دیکھا کہ ٹرین میں نوجوان بڑی تعداد میں آئی فون اور آئی پیڈ سے کھیل رہے تھے۔

چین میں نوجوان لڑکے لڑکی کا آپس میں گلے ملنا ہمارے لیے حیران کُن تھا۔ چین نے بلاشبہہ خود کو دنیا کی بہت بڑی معاشی طاقت میں تبدیل کردیا ہے، لیکن چین کی نئی نسل اپنے قائد چئیرمین ماؤ کے فلسفے کو بھلا چکی ہے۔ ہم یہاں چین کو اپنے مشرقی آداب سے ناپنے اور تولنے کی کوشش ہرگز نہیں کررہے، لیکن ہر سوشلسٹ معاشرے کے بھی اپنے آداب اور رسم و رواج ہوتے ہیں جس سے چین کی نئی نسل بے بہرہ دکھائی دیتی ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سٹرکوں اور ٹرینوں میں اس طرح بغل گیر ہوکر چلتے ہیں کہ یورپ کا منظر دکھائی دینے لگتا ہے، جب کہ ہم نے یہ چیز نے برادر ملک نارتھ کوریا میں کہیں نہیں دیکھی۔

بلٹ ٹرین کے ذریعہ ہم مختصر سفر کے بعد QIANMAN ا سٹیشن پر اترے جہاں کے انڈر گراؤنڈ راستے سے گزر کر ہم گریٹ عوامی ہال TIANMAN اسکوائر کے سا منے والی سٹرک پر تھے اور چیئرمین ماؤ کی یادگار اور گریٹ ہال ہمارے سامنے تھے۔ ہم نے فوراً کیمرا نکال کر تصاویر لینا شروع کردیں۔

ہم اس عظیم شہر میں تھے جسے دیکھنے کی خواہش ایک عرصے سے ہمارے دل میں تھی۔ چین کے عظیم انقلاب کو ہم نے اپنی طلبہ سیاست کے دور میں اتنا پڑھا کہ چین کے عوام کے ساتھ ہمارا ذہنی و نظریاتی اور فکری رشتہ بہت مضبوط ہوچکا تھا اور اب ماؤ کا چین جدید چین کا روپ دھا ر کر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ چین میں سب سے بڑی سواری سائیکل ہوا کرتی تھی اب وہ اکا دکا ہی نظر آتی ہے۔ اس کی جگہ جدید اور نایاب بڑی گاڑیاں آگئی ہیں۔ صبح 6بجے لوگوں کی بہت بڑی قطار ماؤ کو خراج ِعقیدت پیش کرنے ان کی یاد گار کے سامنے جمع ہوتی ہے۔

چینی عوام بھی صبح چھے بجے تک اپنے کام کے لیے گھروں سے نکل پڑتے ہیں۔ چیئرمین ماؤ اسٹریٹ سے بیجنگ شہر کی تمام شاہراہیں نکلتی ہیں، جو ختم بھی وہاں ہوتی ہیں۔ بس میں سفر کے لیے آپ کو ایک آرایم بی کا ٹکٹ لینا ہوگا۔ سیٹ کے لیے الگ اور بس میں کھڑے ہوکر سفر کرنے والوں کی علیحدہ قطار ہوتی ہے، جو اپنی منزل پر کھڑے ہو کر جلد پہنچا چاہتا ہے وہ بس کی اس قطار میں کھڑا ہوتا ہے۔ بس ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت کے لیے اسٹاپ پر رکتی ہے اور اگر کوئی مسافر نہیں تو بھی وہ اپنے روٹ پر روانہ ہوجاتی ہے۔ ہم ایک آرایم بی میں پورا بیجنگ گھوم سکتے ہیں۔ ایک وہ وقت تھا جب چینی ماہرین حبیب بینک کی عمارت دیکھنے خاص طور پر کراچی آئے تھے، جب کہ جدید دور کا چین بڑی بڑی شان دار عمارتوں کا شاہ کار بن چکا ہے۔ پورے شہر کو رنگ برنگے پھولوں سے اس طرح سجایا گیا ہے کہ آنکھوں میں ایک ٹھنڈک سی محسوس ہوتی ہے۔

چین کا دارالحکومت بیجنگ آلودہ شہروں میں سرفہرست ہے۔ گاڑیوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ تاہم کوئی گاڑی دھواں چھوڑتی ہوئی دکھائی نہیں دی اور نہ ہی کوئی ٹریفک جام ہونے پر جذباتی ہوکر ہارن بجاتا ہے۔ کاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بیجنگ کیٹریفک کو کنٹرول سے باہر کردیا ہے۔

ٹریفک پر کنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے جو فوری اقدامات اٹھائے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ’’A‘‘ نمبر کی تمام گاڑیوں کو ایک روز کے لیے بند کر دیا جاتا ہے، جب کہ دوسرے روز ’’B‘‘ نمبر کی گاڑیوں کی باری آتی ہے۔ اس طرح تیل کی بھی بچت ہوتی ہے اور آلودگی کے ساتھ ٹریفک میں بھی کسی حد تک کمی واقع ہوتی ہے، لیکن ان اقدامات کے باوجود گاڑیوں کا ایک سیلاب ہے جو شہر کی بڑی شاہراہوں پر رواں دواں رہتا ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں ہوٹل سے ایئرپورٹ پہنچنے میں دو گھنٹے لگے اور ہم نے جب ٹریفک جام کا منظر دیکھا تو ہم کراچی میں شام کے وقت شارع فیصل پر ہونے والے ٹریفک جام کو بھول گئے۔

بیجنگ میں ایک اور چیز جس نے سب سے زیادہ آلودگی پھیلائی ہوئی ہے وہ روئی کے جیسے گالے ہیں، جو پورے شہر میں فضا سے زمین کی طرف آتے دکھائی دیتے ہیں۔ کار کا شیشہ اگر کھلا ہوا ہے تو کار میں، ہوٹل کے کمروں، لابیوں اور بازاروں میں وہ ہوا میں اڑ اڑ کر نیچے زمین کی طرف آتے ہیں۔ ان کی وجہ سے لوگ سانس کی تکلیف کا شکار ہورہے ہیں۔ لوگوں نے ان سے بچاؤ کے لیے ماسک پہنا شروع کردیے ہیں۔ بیجنگ میں کوئی درخت ہے جس سے یہ گالے اُڑ اُڑ کر پورے شہر کو اپنے نرغے میں لے چکے ہیں۔

چینی حکومت نے اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا۔ چین نے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔ ایک بچے سے زیادہ پر پابندی عاید ہے۔ بیجنگ میں ہمیں اکا دکا ہی چھوٹے بچے دکھائی دیے۔ بزرگ خود کو تنہائی کا شکار محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ ان کی جوان اولاد انہیں چھوڑ کر جاچکی ہے۔ وہ اب تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بیجنگ میں بوڑھے لوگ صبح کے وقت یا شام کو اپنے پالتو کتوں کے ساتھ چہل قدمی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی بقیہ زندگی ان جانوروں سے محبت کرتے ہوئے گزرتی ہے۔ چین میں نوجوان نسل آزاد زندگی گزارنے کا تصور رکھتی ہے۔ اس طرح چینی معاشرہ جوائنٹ فیملی سسٹم سے بہت دور مکمل آزاد بلکہ بے راہ روی کے معاشرے میں تبدیل ہوچکا ہے۔

ہم نے جس ہوٹل کا انتخاب کیا وہ شہر کے بالکل وسط میں ہے۔ مشی اسٹریٹ پر ہوٹلوں کی قطار واقع ہے۔ جاوید انصاری اور بشیر جان پچھلے سال جس ہوٹل میں ٹھہرے تھے وہاں پہنچنے پر اس ہوٹل کی مالکہ نے ہمیں کمرہ دینے سے انکار کردیا۔ ہم نے اسے بہت سمجھایا کہ ہم ٹورسٹ ہیں، لیکن وہ کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھی۔ ہمیں آرام اور نیند کی ضرورت تھی لیکن کوئی جائے پناہ نہیں مل رہی تھی۔ جاوید انصاری نے راستے میں بتایا تھا کہ وہ خاتون ہمارے ساتھ بہت فرینڈلی ہوچکی تھی، اس لیے ہم نے اس ہوٹل کا انتخاب کیا، لیکن یہاں تو معاملہ ہی مختلف تھا۔ اب جاوید انصاری اور بشیر جان کسی اور ہوٹل کی تلاش میں گئے، ریاض گل اور ہم اسی ہوٹل کی لابی کے صوفے پر بیٹھ گئے۔

اس دوران ہم نے دیکھا کہ بڑی تعداد میں نوجوان جوڑے آتے اور Receptionپر موجود خاتون انہیں روم فراہم کرتی۔ معلوم ہوا کہ ہفتے اور اتوار کو یہاں کے تمام ہوٹلوں پر اسی طرح کا رش ہوتا ہے۔ بعدازاں مین روڈ ہی پر ہمیں ایک بہت ہی اچھے ہوٹل میں دو کمرے مل گئے۔ کچھ دیر آرام کے بعد ہم بینک آف چائنا گئے جہاں سے ہمیں اپنے ڈالرز سے آر ایم بی میں ایکسچینج کروانے تھے۔ بیجنگ میں ڈالرز یا کسی بھی کرنسی کا تبادلہ صرف بینک آف چائنا سے ہوتا ہے۔ جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے وہاں مین روڈ اور برابر کی گلیوں میں کھانے پینے کے مراکز تھے، جہاں ہر قسم کے چینی کھانے دست یاب تھے۔ کھانوں کی عالمی چینز کے مراکز بھی دکھائی دیے۔

ہمارا دل نہیں مان رہا تھا کہ ان ریستورانوں میں جاکر کھانا کھائیں، جہاں جاؤ رش ہی رش، روڈ اور اطراف کی گلیوں اور ہوٹلوں میں کھانے والوں کی تعداد سیکڑوں میں، لیکن کہیں بھی حلال کھانے کی کوئی جگہ دکھائی نہیں دی۔ پچھلے سال جس ہوٹل پر پاکستانی وفد کے ارکان نے کھانا کھایا تھا، وہاں اب کوئی اور ہوٹل کھل چکا تھا، بڑا سفر کرکے آئے تھے اور راستے میں کہیں پیٹ بھر کر کھانا دستیاب نہیں تھا۔ اس کا اس لیے کچھ وقت کا نیند اور آرام کے بعد سخت بھوک لگ رہی تھی اور ہم ہر ہوٹل میں جاتے Menueکارڈ دیکھتے وہاں کی Smellسونگھتے اور باہر آجاتے۔ ایک جگہ ایک ہوٹل میں ہم نے بڑی مشکل سے چینی خاتون سے انگریزی میں اپنا مدعا بیان کیا۔ اس نے Menueکارڈ سے Fishکے آئٹم دکھائے اور ہم نے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے ایک ڈش فش بمعہ سبزی آرڈر دیا۔

چین کے تمام ہوٹلوں میں کھانے کی ٹیبل پر ایک فرد کے سامنے ایک چھوٹی پلیٹ، چھوٹی پیالی، دو اسٹک، گرم پانی کے لیے چھوٹا مگ پلاسٹک کے کور کے اندر بڑے اہتمام کے ساتھ موجود ہوتا ہے، جنہیں استعمال کے بعد دھونے کا وہاں کو ئی رواج نہیں، انہیں باہر ایک ٹرالی میں رکھ دیا جاتا ہے جہاں سے یہ اسٹریم کے لیے جاتے ہیں اور دوبارہ اسی طرح پیکنگ میں واپس ہوٹل پہنچادیے جاتے ہیں۔ صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، لیکن بڑی شاہراہوں پر سگریٹ کے ٹوٹے اور ٹشو پیپر دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے سامنے گرما گرم مچھلی ایک پلیٹ میں سبزی کے ساتھ موجود تھی۔ اب سوال یہ تھا کہ کیسے کھائیں۔

ہم نے ایک پیالی میں بوائل چاول منگوائے اور مچھلی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے کھانے لگے۔ گویا کھانے پر ٹوٹ پڑے اس ڈش میںNodellsبھی موجود تھے۔ اچانک نظر اٹھا تو دیکھا کہ دیگر ٹیبلز پر موجود چینی ہنستے ہوئے ہم چاروں کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ اب ہم کچھ محتاط ہوئے، لیکن بھوک ایسی ظالم چیز ہے کہ تمام آداب بھلا دیتی ہے۔ Beijing King’s Joyhotelمیں صبح سات سے 9بجے 25 آرایم بیمیں ڈائننگ ہال میں ناشتے کا بوفے لگا ہوتا تھا، جس میں انگلش ناشتہ بریڈ مکھن اور جام کے ساتھ دوددھ کارن فلور چائے، کافی ، گرین ٹی اور چائنیز ناشتے کے لوازمات بھی ہو تے تھے۔ اس طرح ہمارے ناشتے کا مسئلہ تو حل ہوگیا تھا۔

ہم ناشتہ ڈٹ کر تے اور شام تک شاپنگ کرتے۔ جاوید انصاری نے اپنی کاوشوں سے ایسی جگہ تلاش کی جہاں ایک خاتون چکی میں آٹا پیس کر اس کے پراٹھے بناتی تھی، جن میں دو قسم کے پراٹھے ایک سادہ اور ایک سبزی والا ہوتے تھے۔ جاوید انصاری نے اس چینی خاتون کو پانچ انڈوں، ٹماٹر اور پیاز کے ساتھ آملیٹ بنانا سکھایا اور ہم نے پراٹھے اور آملیٹ کے ساتھ فروٹ اور جوس کو اپنا کھانا بناکر پیٹ کس دوزخ بھرا۔ اس طرح کسی حد تک ہمارے کھانے کا مسئلہ بھی حل ہوگیا۔

بیجنگ میں بڑے بڑے شاپنگ مال ہیں، جہاں دنیا کی ہر چیز ارزاں قیمت پر دستیاب ہوتی ہے، گھر والوں کی جانب سے ایک لمبی فہرست ہمارے بیگ کے ایک خانے میں رکھ دی گئی تھی۔ اب مرحلہ شاپنگ سینٹر میں ان اشیاء کی تلاش کا تھا۔ مختلف اسٹاپس کے بعد جب بس موشیان سینٹر پہنچی تو ہمیں اترنے کا اشارہ کیا گیا۔ موشیان شاپنگ سینٹر بیجنگ کے بالکل وسط میں واقع بہت بڑا شاپنگ پلازہ ہے، کیوں کہ جاوید انصاری یہاں سے خریداری کرتے رہے ہیں، اس لیے یہ مشکل مرحلہ بھی آسان ہوگیا۔

تمام اشیاء نہایت خوب صورت تھیں اور بہت ہی سستے دام میں دستیاب تھیں۔ اس شاپنگ سینٹر میں ایک پورا فلور خواتین کے بیگز کا تھا، جہاں ہر قسم کے چھوٹے، بڑے ہر کلر اور ڈیزائن کے بیگ دکانوں میں سجے ہوئے تھے اور ہر دکان کے باہر کھڑی خوب صورت لڑکیاں خریداروں کو اپنی اپنی دکان کی طرف بلارہی تھیں۔ آپ نے جس پرس کو ہاتھ لگادیا اور اس کی قیمت پوچھ لی بس سمجھیں کہ سیلز گرل ہر قیمت پر آپ کو وہ پرس دے کر چھوڑے گی۔ ایسے ہی ایک اور فلور پر جوتے تھے۔

بشیرجان نے ایک جوگر دیکھا، دکان دار نے تین سوآرایم بی کہے، بشیرجان نے مذاق میں پچاس آرایم بی لگائے، اب تو بشیر جان پھنس گئے، کیوںکہ دکان دار وہ جوتے پچاس آرایم بی میں دینے پر راضی ہوگیا تھا اور بشیر جان اپنی جان چھڑانے میں لگے ہوئے تھے۔ بالآخر ہم نے بشیر جان کو راضی کیا اور انہوں نے وہ جوگر خرید لیا۔ ایسا نہیں کہ وہ جوگر کوئی سستا اور معمولی تھا، بلکہ پاکستان میں اس خوب صورت اور مضبوط جوگر کی قیمت کم از کم 3 ہزار کے قریب ہے۔

اس مارکیٹ میں ہمیں بہت سے پاکستانی ملے، جو صرف یہ کاروبار کرتے ہیں کہ بڑی تعداد میں جوتے، پرس، موبائل فون اور خواتین کے استعمال میں آنے والی اشیاء بیجنگ سے خرید کر پاکستان کی مارکیٹ میں منہگے داموں فروخت کرتے ہیں۔

دیوارِچین کا ہر ملک سے آنے والے سیاح ہر صورت دورہ کرتے ہیں۔ ہوٹل سے صبح 6بجے بسیں سیاحوں کو لے کر دیوار چین کی طرف روانہ ہوتی ہیں اور شام ڈھلے ان کی واپسی ہوتی ہے۔ اس ایک دن کے سفر کے لیے فی کس وہ 380آرایم بی وصول کیے جاتے ہیں، جس میں کوچ کا کرایہ، دوپہر کا کھانا اور دیگر مقامات کا دورہ بھی شامل ہوتا ہے۔ ہم دیوار چین جانے کے لیے مقررہ وقت صبح 6بجے مقررہ مقام پہنچے تو وہاں موجود چینی نے بتایا کہ کوچ تو پانچ منٹ پہلے روانہ ہوچکی ہے اور ہم دس منٹ لیٹ ہیں، جب کہ ہم اسے سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ ہم پورے ٹائم پر آئے ہیں، لیکن وہ کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔

بڑی مشکل سے اس نے ہماری بات سمجھی اور ہمیں ایڈوانس میں دی گئی رقم واپس کی۔ ہم نے دیوارچین جانے کے لیے پرائیویٹ ٹیکسی کی تلاش شروع کردی، کیوں کہ دوسرے روز ہماری واپسی کی فلائیٹ تھی اور ہم اس قیمتی وقت کو کسی بھی صورت کھونا نہیں چاہتے تھے۔ ایک ٹیکسی والے سے بات کی۔ اس نے دیوارچین جانے، واپسی اور ایک گھنٹہ وہاں رہنے کے 500 آرایم بی مانگے، جو بہت زیادہ تھے۔ بالآخر ایک ٹیکسی والا 300آرایم بی پر راضی ہوگیا، لیکن اس نے ہمیں پابند کیا کہ وہ وہاں ایک گھنٹہ سے زیادہ نہیں رکے گا۔ اس طرح ہم بیجنگ سے ایک گھنٹے میں دیوارِچین پہنچ گئے۔ واقعی دیوارچین کو دیکھ کر چینیوں کی عظمت کو سلام کرنے کا دل چاہتا ہے۔

لاکھوں، کروڑوں، چینیوں نے اس دیوار کو جس طرح تعمیر کیا ہے اس کا تصور بھی محال ہے۔ 45 آرایم بی کا ٹکٹ لے کر ہم دیوار چین کی سیڑھیوں پر چڑھے۔ بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ میں ہم سیڑھیاں چڑھتے گئے۔ اس جذبے کو یوں بھی جِلا مل رہی تھی کہ بڑی تعداد میں بوڑھی خواتین اور مرد دیوار چین کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے، ہنس رہے تھے، گارہے تھے اور فوٹو گرافی کررہے تھے، جب کہ ہم ایک چوکی کے بعد تھک کر بیٹھ گئے۔ جب ہم سے کہا گیا کہ یہاں ایک بات مشہور ہے کہ جس شخص نے تین چوکیاں نہیں دیکھیں وہ مرد ہی نہیں تب ہماری مردانگی نے جوش مارا اور ہم بڑی تیزرفتاری سے دو چوکی بعدازاں آہستہ آہستہ ایک اور چوکی تک پہنچ کر سانس پھولنے کے باعث بیٹھ گئے۔ تیسری چوکی سے بڑی تعداد میں غیرملکی فوٹو گرافی کرتے رہے۔

ہم ایک گھنٹے سے پانچ منٹ قبل ہی واپس آگئے۔ سیڑھیاں اترتے ہوئے چڑھنے سے زیادہ تکلیف ہوئیْ ہم سمجھ رہے تھے کہ چڑھنے سے اترنا بہت آسان ہوگا لیکن سیڑھیوں کے اسٹیپس بہت اونچے اور کھڑے تھے، لہٰذا اترتے ہوئے نیچے دیکھنے کے بجائے اسٹیپ پر نظر رکھنی پڑ رہی تھی۔

ٹیکسی تک پہنچتے ہی ہمیں پہلی بار ہمارے گھٹنوں میں درد شروع ہوگیا۔ مردانگی کے جوش جوش میں ہم نے تین چوکیاں کراس تو کرلیں لیکن ہم گھٹنوں کے درد میں مبتلاء ہوگئے، جو اس لیے اہم نہیں تھا کہ ہم اس عظیم دیوار چین کو دیکھے بغیر چین کے دورہ کو نامکمل سمجھتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہماری ہر جگہ مدد کی اور اس طرح ہم ایر چائنا کی پرواز سے 28اپریل کی رات دس بجکر بیس منٹ پر کراچی پہنچ گئے۔

خلا میں زندگی کی کھوج

$
0
0

 امریکی خلائی ایجنسی ناسا کی ’جیٹ پروپلژن لیب‘ سے برقیاتی سگنل ایک روبوٹ گاڑی تک پہنچتا ہے اور اس پر نصب اسپاٹ لائٹ روشن ہوجاتی ہے۔

یہ روبوٹ گاڑی الاسکا کی منجمد جھیل کی سطح کے نیچے برفیلے پانی میں تیر رہی ہے۔ جھیل کی سطح پر کچھ ہی دور گڑے ہوئے خیمے میں ایک نوجوان انجنیئر موجود ہے۔ اسپاٹ لائٹ کے روشن ہوتے ہی وہ جوش کے عالم میں پکار اٹھتا ہے،’’ہُرّا۔۔۔ بات بن گئی!‘‘ اگرچہ اس تجربے کی کام یابی ٹیکنالوجی کے میدان میں کسی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوگی، مگر اس پیش رفت کو دوردوراز فاصلے پر واقع ایک چاند کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کی جانب پہلا قدم ضرور کہا جاسکتا ہے۔

اس مقام سے جنوب کی طرف 4000 میل کے فاصلے پر میکسیکو کے ایک غار میں ارضی خردحیاتیات کی ماہر ( geomicro­biologist ) پینے لوپ’ مٹر گشت ‘ کررہی ہے۔ غار سطح زمین سے 50فٹ کی گہرائی میں ہے اور اس کی تہہ میں بہتا ہوا پانی پینے لوپ کے گھٹنوں تک پہنچ رہا ہے۔ اپنے دیگر ساتھی سائنس دانوں کی طرح پینے لوپ نے آلۂ تنفس پہنا ہوا ہے۔ ہائیڈروجن سلفائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسی زہریلی گیسوں سے بچاؤ کے لیے، جو اکثر غاروں میں پائی جاتی ہیں، اس کے پاس آکسیجن کا ایک اضافی سلنڈر بھی موجود ہے۔

سائنس داں کے اردگرد بہتا ہوا پانی سلفیورک ایسڈ سے بھرپور ہے۔ اچانک اس کے ہیڈلیمپ سے پھوٹتی روشنی غار کی دیوار کے ایک حصے پر پڑتی ہے جہاں سے گاڑھا سفید اور نیم شفاف مایع قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے۔ یہ مایع ہیڈلیمپ کی روشنی میں چمک اٹھتا ہے۔ یہ دیکھ کر بے ساختہ پینے لوپ بول پڑتی ہے،’’ارے! کیا زبردست منظر ہے‘‘

یہ دونوں مقامات۔۔۔۔قطب شمالی کی منجمد جھیل اور ایک زہریلا استوائی غار۔۔۔۔ اس قدیم ترین سوال کا جواب ڈھونڈنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں جو سیکڑوں ہزاروں سال سے حضرت انسان کے ذہن میں کلبلا رہا ہے۔ وہ سوال ہے کہ آیا ہماری زمین کے علاوہ بھی کسی سیارے پر زندگی پائی جاتی ہے؟ دوسری دنیاؤں میں زندگی، چاہے وہ ہمارے نظام شمسی کا حصہ ہوں یا دوسرے ستاروں کے گرد محوگردش ہوں، ممکنہ طور پر منجمد سمندروں یا پھر بند اور گیس سے بھرے ہوئے غاروں ہی میں پائی جاسکتی ہے۔ منجمد سمندر زحل کے چاند یوروپا موجود ہے، جب کہ گیسوں سے بھرے ہوئے غار مشتری پر بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ زمین پر اسی طرح کی جگہوں پر زندگی کی اشکال کو کیسے شناخت اور علیحدہ کیا جائے تو کرۂ ارض سے باہر حیات کی کھوج بہتر طور پر کی جاسکتی ہے۔

اگرچہ یہ بتانا مشکل ہے کہ کب خلا میں زندگی کی تلاش سائنس فکشن سے نکل کر عملی سائنس کا حصہ بنی، مگر اس ضمن میں ایک اہم سنگ میل نومبر 1961ء میں فلکیات کے موضوع پر ہونے والا اجلاس تھا۔ یہ اجتماع ایک نوجوان ماہرفلکیات فرینک ڈریک کی کوششوں کا رہین منت تھا۔ فرینک دراصل ریڈیائی فلکیات کا ماہر تھا، جسے خلائی مخلوق کی جانب سے بھیجے جانے والے ممکنہ ریڈیائی اشارات پکڑنے کا خیال پُرجوش بنائے ہوئے تھا۔

ڈریک اب عمر کے چوراسی ویں سال میں ہے، مگر اس وقت کی تمام باتیں آج بھی اسے ازبر ہیں۔ اپنی یادداشت کو کھنگالتے ہوئے ڈریک کہتا ہے،’’جن دنوں میں نے وہ اجلاس بلایا تھا۔ اس زمانے میں خلائی مخلوق کی تلاش فلکیات میں ایک ممنوعہ موضوع کی حیثیت رکھتی تھی اور مجھے امید نہیں تھی کہ میں اجلاس کے انعقاد میں کام یاب ہوپاؤں گا۔‘‘ تاہم ڈریک جس تجربہ گاہ سے وابستہ تھا، اس کے ڈائریکٹر کی کوششوں سے وہ ماہرین فلکیات، کیمیا دانوں، ماہرین حیاتیات اور انجنیئروں کی اچھی خاصی تعداد کواجلاس میں بلانے میں کام یاب ہوگیا۔

ان ہی میں سیاریات کا نوجوان ماہر کارل سیگن بھی شامل تھا۔ اپنے اپنے میدان کے یہ ماہرزمین کی حدود سے پرے زندگی کی سائنس پر گفتگو کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے جو اب خلائی یا فلکیاتی حیاتیات کہلاتی ہے۔ ڈریک خاص طور پر چاہتا تھا کہ چند ماہرین یہ تعین کرنے میں مدد کریں کہ ریڈیائی دوربین پر خلائی مخلوق کی جانب سے مبینہ طور پر نشر کیے گئے سگنلز کو سننے کے لیے زیادہ وقت مختص کرنا کتنا سود مند ہوگا اور خلا میں زندگی کی تلاش کے لیے کون سا طریقہ سب سے مؤثر ہوگا۔ وہ یہ سوچ کر حیران تھا کہ خلا میں کتنی تہذیبیں ہوسکتی ہیں۔ چناں چہ اجلاس میں شرکاء کی آمد سے پہلے اس نے تختۂ سیاہ پر جلدی جلدی ایک تحریر گھسیٹ دی۔

یہ تحریر جو اب ’ ڈریک کی مساوات‘ کہلاتی ہے، اس کے سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ایک طریقہ وضع کرتی ہے۔ آپ ہماری کہکشاں ’مِلکی وے‘ میں سورج جیسے ستاروں کی تشکیل سے شروع کرتے ہیں، پھر انھیں ان ستاروں کی کسر ( fraction) سے ضرب دیتے ہیں، جو ہمارے نظام شمسی کی طرح سیاروں کا باقاعدہ نظام رکھتے ہیں۔ اب ان کے حاصل ضرب کو ہر نظام شمسی میں موجود ان سیاروں کی تعداد سے ضرب دیں جو حیات کی نمو کے لیے موزوں ہیں، یعنی زمین سے مشابہ سیارے جو اپنے سورج سے اتنے فاصلے پر ہوں کہ ان کا سطحی درجۂ حرارت زندگی کی بقا کے لیے موزوں ہو۔ اب اس حاصل ضرب کو ان سیاروں کی تعداد سے ضرب دیں جہاں زندگی نظر آتی ہے اور حاصل ضرب کو ایک بار پھر ان سیاروں کی تعداد سے ضرب دیں جہاں حیات سمجھ بوجھ رکھتی ہو۔ بعدازاں حاصل ضرب کو ان سیاروں کی تعداد سے ضرب کریں جہاں زندگی ریڈیائی سگنلز نشر کرنے کے قابل ہو جنھیں ہم وصول کرسکیں۔

اور سب سے آخر میں ریڈیائی سگنلز نشر کرنے کی اہلیت رکھنے والی تہذیبوں کی تعداد کو وقت کی اس مقدار سے ضرب دیں جو وہ ممکنہ طور پر سگنلز نشر کرنے یا اپنی بقا کی جدوجہد میں صرف کرتے ہیں۔

یہ مساوات منطقی لحاظ سے بالکل درست ہے، مگر اس سے ایک مشکل بھی جُڑی تھی۔ کوئی بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ سیاروں کی کسر یا تعداد کیا ہے۔ وہ صرف اس مساوات کے ابتدائی متغیر یعنی سورج جیسے ستاروں کے وجود میں آنے کی شرح ہی سے واقف تھے۔ باقی تمام اعدادوشمار خالصتاً اندازوں پر مبنی تھے۔ خلا میں زندگی کی کھوج کرنے والے سائنس داں اگر بیرونی دنیا سے آنے والا کوئی سگنل پکڑنے میں کام یاب ہوجاتے تو پھر ظاہر ہے کہ ان نامعلوم مقداروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ تاآنکہ ایسا ہو ماہرین کو ڈریک کی مساوات کے متغیرات کی قدر معلوم کرنے کے لیے سرگرداں رہنا ہوگا۔

ڈریک کی مساوات وضع ہونے کے ربع صدی بعد سائنس داں اس قابل ہوسکے کہ اس کے متغیرات کی قدریں اندازاً پُر کرسکیں۔ 1995ء میں جنیوا یونی ورسٹی کے مائیکل میئر اور ڈیڈیئرکوئلوز نے ہمارے نظام شمسی کی حدود سے باہر پہلا سیارہ دریافت کیا جو سورج جیسے ستارے کے گرد چکر لگا رہا تھا۔ نودریافت شدہ دنیا جسے 51 Pegasi b کا نام دیا گیا تھا، ہماری زمین سے پچاس نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اس گیسی سیارے کا حجم مشتری کے حجم سے نصف ہے۔ اس کا مدار اتنا چھوٹا ہے کہ یہ محض چار دن میں اپنے سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرلیتا ہے۔ یعنی اس کا سال صرف چار دن پر محیط ہے۔ اپنے سورج سے بے حد قریب ہونے کی وجہ سے اس کا سطحی درجۂ حرارت انتہائی بلند 1100 ڈگری سیلسیئس ہے۔

کسی کے لیے یہ سوچنا بھی ممکن نہیں تھا زندگی اتنے بلند ترین درجۂ حرارت پر نمو پاسکتی ہے، مگر اس سیارے کی دریافت بہت اہم پیش رفت تھی۔ اگلے برس کے اوائل میں سان فرانسسکو اسٹیٹ یونی ورسٹی کے جیفری مرسی اور ان کی ٹیم نے نظام شمسی سے باہر دوسرا اور پھر تیسرا سیارہ دریافت کرلیا۔ اس کے بعد تو جیسے لائن ہی لگ گئی۔ ماہرین فلکیات اب تک ایسے قریباً دوہزا سیاروں کی موجودگی کی تصدیق کرچکے ہیں۔ ان میں زمین سے چھوٹے اور مشتری سے بڑے، ہر طرح کی جسامت رکھنے والے سیارے شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر سیارے کیپلر دوربین کی مدد سے دریافت کیے گئے ہیں جو 2009ء میں ارضی مدار میں پہنچائی گئی تھی۔ ان کے علاوہ بھی ماہرین فلکیات ہزاروں دیگر سیاروں کا سراغ لگا چکے ہیں مگر ان کی تصدیق ہونا باقی ہے۔

ان سیاروں میں سے کوئی بھی اپنی خصوصیات میں زمین کے بالکل مشابہ نہیں ہے مگر سائنس داں پُراعتماد ہیں کہ بہت جلد وہ زمین کا جڑواں سیارہ دریافت کرلیں گے۔ اب تک دریافت ہونے والے بڑی جسامت کے سیاروں سے متعلق حاصل کردہ تفصیلات کا جائزہ لینے سے ماہرین فلکیات کے علم میں یہ بات آئی کہ سورج جیسے 20 فی صد ستاروں کے گرد زمین سے ملتے جُلتے سیارے موجود ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق ان میں سے قریب ترین سیارہ ہم سے بارہ نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ فلکیاتی اصطلاح میں یہ فاصلہ بہت زیادہ نہیں ہے، اور ہم اسے اپنا پڑوسی سیارہ کہہ سکتے ہیں۔

یہ خلائی حیاتیات کے ماہرین کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں سیاروں کے کھوجیوں نے اس حقیقت کا ادراک کیا ہے کہ انھیں اپنی تلاش صرف سورج جیسے ستاروں تک محدود نہیں رکھنی چاہیے۔ ہارورڈ یونی ورسٹی سے وابستہ ماہر فلکیات ڈیوڈ چار بونے کہتا ہے،’’اسکول کے زمانے میں ہم سمجھتے تھے کہ زمین ایک درمیانی جسامت کے ستارے گرد ہی گردش کرسکتی ہے، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بات درست نہیں تھی۔‘‘ درحقیقت ’’ملکی وے‘‘ کے 80 فی صد سے زاید ستارے جسامت میں بہت چھوٹے، ٹھنڈے، مدھم اور سرخی مائل ہیں، جنھیں M dwarfs کہا جاتا ہے۔ اگر زمین جیسا کوئی سیارہ ایک M dwarf ستارے کے گرد مناسب فاصلے پر رہتے ہوئے گردش کرتا ہے تو اس پر زندگی کے آغاز اور نمو کے لیے موزوں ماحول پایا جاسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ اس سیارے کا ستارے سے فاصلہ زمین اور سورج کے درمیانی فاصلے سے کم ہو تاکہ اسے مناسب تپش حاصل ہوتی رہے۔

مزید برآں اب سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ کسی سیارے پر حیات کی موجودگی کے لیے اس کی جسامت کا زمین کے مساوی ہونا ضروری نہیں جیسا کہ ڈریک اور کانفرنس کے شرکاء نے 1961ء میں فرض کرلیا تھا۔ علاوہ ازیں درجۂ حرارت اور کیمیائی فضا کی حد یا رینج بھی ڈریک اور اس کے ساتھیوں کی تصور کردہ رینج سے زیادہ ہوسکتی ہے جس میں نامیاتی عضویے پرورش پاسکیں۔

1970ء کی دہائی میں بحری جغرافیہ دانوں جیسے نیشنل جیوگرافک کے رابرٹ بیلارڈ، نے سمندر کی تہہ میں انتہائی گرم سوراخ یا گڑھے دریافت کیے تھے جہاں بیکٹیریا پرورش پارہے تھے۔ پانی میں شامل ہائیڈروجن سلفائیڈ اور دوسرے کیمیکلز پر زندہ رہتے ہوئے یہ بیکٹیریا کثیرالخلوی نامیوں کی خوراک بنتے ہیں۔ سائنس دانوں کے علم میں زندگی کی ایسی اشکال بھی آئی ہیں جو گرم اُبلتے ہوئے چشموں، قطب شمالی میں بچھی برف کی دبیز تہہ سے ہزاروں فٹ کی گہرائی میں، انتہائی تیزابی یا انتہائی اساسی اور بہت زیادہ نمکین یا تاب کار جگہوں ہر، اور سطح ارض سے ایک میل کی گہرائی میں موجود ٹھوس چٹانوں میں پڑے ہوئے رخنوں میں زندہ تھیں۔

ماہرین حیاتیات وجودِحیات کے لیے ضروری جس عامل پر زیادہ بحث کرتے ہیں وہ پانی ہے۔ یہ طاقت ور محلل حل شدہ نمکیات اور اجزا کو ایک نامیاتی جسم کے تمام حصوں تک پہنچاتا ہے۔ 1971ء میں مریخ کی جانب روبوٹ خلائی مشن Mariner 9 روانہ کیا تھا۔ اس وقت سے ہم جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں ’ سُرخ سیارے ‘ پر پانی روانی سے بہتا تھا۔ لہٰذا ممکنہ طور پر وہاں زندگی ، کم از کم جراثیم کی صورت میں وجود رکھتی تھی۔ اور یہ بات قرین قیاس ہے کہ اس جراثیمی زندگی کی باقیات زیرزمین موجود ہوں، جہاں پانی اب بھی بہتا ہو۔ مشتری کے چاند ’یوروپا‘ کی برف سے ڈھکی سطح پر دراڑیں نظر آتی ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ برف کے نیچے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ سورج سے نصف ارب میل دور ہونے کی وجہ سے یوروپا پر پانی منجمد شکل ہی میں ہونا چاہیے، لیکن اس فلکیاتی جسم پر مشتری اور اس کے کئی دوسرے چاند کی تجاذبی قوتیں مستقل اثرانداز ہورہی ہیں۔ اس کھینچا تانی کے نتیجے میں یوروپا پر حرارت پیدا ہورہی ہے، جس کی وجہ سے برف کی دبیز تہہ کے نیچے پانی مایع شکل میں پایا جاسکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس پانی میں زندگی بھی موجود ہوسکتی ہے۔

2005ء میں ناسا کے خلائی جہاز Cassini نے زحل کے چاند Enceladus کی سطح سے دھار کی صورت میں نکلتے پانی کی نشان دہی کی تھی۔ رواں برس اپریل میں مذکورہ خلائی جہاز کی تحقیق سے ثابت ہوگیا کہ اس چاند پر زیرزمین پانی کا منبع موجود ہے۔ سائنس دانوں کو ابھی تک یہ اندازہ نہیں ہے کہ زحل کے چاند کی سطح پر بچھی برف کی دبیز تہہ کے نیچے پانی کتنی مقدار میں ہوسکتا ہے۔ اور کیا پانی کا یہ ذخیرہ اتنی مدت سے موجود ہے کہ اس میں زندگی پنپ رہی ہو؟ زحل کے سب سے بڑے چاند Titan کی سطح پر دریا اور جھیلیں موجود ہیں یہاں تک کہ وہاں بارش بھی ہوتی ہے، مگر یہ بارش مایع ہائیڈروکاربنز جیسے میتھین اور ایتھین کی ہوتی ہے، پانی کی نہیں۔ وہاں وجود حیات پایا جاسکتا ہے مگر اس کی ہیئت کیا ہوگی، اس بارے میں کچھ کہنا بہت مشکل ہوگا۔

مریخ ان دورافتادہ چاند کے مقابلے میں بڑی حد تک زمین سے مشابہ ہے۔ یہ سیارہ زمین سے باہر حیات کی تلاش کے لیے بھیجے جانے والے ہر مشن کی منزل چلا آرہا ہے۔ ناسا کی خلائی تحقیقی گاڑی Curiosity ان دنوں سرخ سیارے کے Gale crater نامی حصے کو کھنگالنے میں مصروف ہے۔ یہاں اربوں سال قدیم ایک جھیل موجود ہے۔ تحقیق کے نتیجے میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کسی زمانے میں یہاں کی کیمیائی فضا جراثیم کی پرورش کے لیے سازگار تھی۔

ظاہر ہے کہ میکسیکو کا ایک غار مریخ نہیں ہوسکتا ، اور نہ ہی شمالی الاسکا میں واقع جھیل یوروپا ہوسکتی ہے، مگر یہ خلا میں زندگی کی تلاش کی جستجو تھی جس نے جیٹ پروپلژن لیب کے ماہر خلائی حیاتیات کیون ہینڈ اور اس کی ٹیم کے دوسرے ارکان کو الاسکا کے سب سے بڑے شہر بارو سے بیس میل دور واقع جھیل سکوک تک آنے پر مجبور کیا۔ اور یہی جستجو پینے لوپ بوسٹن اور اس کے ساتھیوں کو کئی بار میکسیکو کے اس زہریلے غار میں لے آئی جو Cueva de Villa Luz کہلاتا ہے۔ ان دونوں مقامات پر محققین نے خلائی زندگی کی تلاش کے لیے نئی تیکنیکوں کی آزمائش ایسے ماحول میں کی جو اس ماحول سے بڑی حد تک مشابہ تھا جس کا خلائی تحقیقی جہازوں کو دوسرے سیاروں پر سامنا ہوسکتا ہے۔ یہ سائنس داں بالخصوص ایسی حیاتیاتی نشانیوں کی کھوج میں ہیں جن سے اُن جگہوں پر، ماضی یا حال میں، حیات کی موجودگی کے اشارے ملتے ہوں، جہاں مشکل حالات کی وجہ سے ان کے لیے بڑے پیمانے پر تجربات کرنا ممکن نہ ہو۔

میکسیکو کے اس غار ہی کو لیجیے۔ سرخ سیارے کے مدار میں گردش کرتے خلائی جہازوں کی ارسال کردہ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ مریخ کی سطح پر بھی غار پائے جاتے ہیں، اور امکان ہے کہ جب تین ارب سال پہلے سیارہ اپنی فضا اور پانی سے محروم ہونے لگا ہوگا تو جراثیمی حیات غار جیسے ہی مقامات پر پناہ گزین ہوگئی ہوگی۔ البتہ بقائے حیات کے لیے ضروری تھا کہ یہ جان دار سورج کے بجائے کسی اور ذریعے سے توانائی حاصل کرتے۔ جیسا کہ میکسیکو کے غار کی دیوار میں سے قطرہ قطرہ ٹپکتا ہوا مایع۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ مایع دراصل یہاں پائے جانے والے جراثیم ہی خارج کرتے ہیں۔ وہ ہائیڈروجن سلفائیڈ کی تکسید کرتے ہیں، جو ان کے لیے توانائی کا واحد ذریعہ ہے ، اور یہ لیس دار لعاب نما مایع خارج کرتے ہیں۔

سائنس داں ان مخصوص قسم کے جراثیم کو Snottites کا نام دیتے ہیں۔ نیو میکسیکو انسٹیٹیوٹ آف مائننگ اینڈ ٹیکنالوجی اور نیشنل کیو اینڈ کارسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ بوسٹن کے مطابق اس غار میں جراثیم کی ایک درجن کے لگ بھگ اقسام کی موجودگی کا اندازہ لگایا گیا ہے جو اپنی طبعی خصوصیات میں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں اور ہر ایک قسم حصول خوراک کے لیے جدا جدا نظام پر انحصار کرتی ہے۔ ان میں سے ایک قسم بوسٹن اور اس کے ساتھیوں کی خصوصی دل چسپی کا باعث ہے۔ یہ جراثیم سیال کے قطرے خارج نہیں کرتے، اس کے بجائے یہ غار کی دیواروں پر داغ دھبّے اور لکیریں وغیرہ بناتے ہیں۔

بوسٹن کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر اس طرح کے نقش ونگار صرف خردبینی جان دار ہی نہیں بناتے بلکہ بنجر علاقوں میں گھاس اور درخت بھی اپنی مصورانہ صلاحیتوں کے اظہار پر اُتر آتے ہیں۔ یہی ’کارنامہ‘ مٹی کی پرتیں بھی انجام دیتی ہیں جو کہ بیکٹیریا، کائی اور اسی طرح کے دوسرے خردبینی پودوںکا مسکن ہوتی ہیں۔

اگر یہ مفروضہ درست ہے تو پھر بوسٹن اور اس کے دیگر ساتھی سائنس داں ایک بہت اہم دریافت کرچکے ہیں۔ اس وقت تک خلائی مخلوق کی تلاش میں سرگرداں ماہرین فلکیات کی توجہ گیسوں پر رہی ہے جو وجود حیات کا اشارہ ہیں۔ مثال کے طور پر آکسیجن، جس پر زمین کے باسیوں کا دارومدار ہے۔ مگر ایسے جان دار بھی موجود ہیں جو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کے محتاج نہیں ہوتے۔ بوسٹن کا کہنا ہے کہ غار کی دیواروں پر موجود ’نقش و نگار‘ حیات کی موجودگی کا ’کائناتی اشارہ‘ ہوسکتے ہیں۔ یعنی اس نوع کے نقش و نگار ممکنہ طور پر کائنات میں کہیں بھی پائے جاسکتے ہیں۔ غاروں میں، جراثیمی آبادیوں کے مٹ جانے کے بعد بھی ان کی یہ نشانی برقرار رہتی ہے۔ اگر کوئی خلائی گاڑی مریخ کے کسی غار کی دیوار پر اس نوع کی ’مصوری‘ دریافت کرلیتی ہے تو اس سے سائنس دانوں کی جستجو کو ایک واضح راستہ مل جائے گا۔

شمالی امریکا کے دوسرے سرے پر سکوک جھیل میں سردی سے ٹھٹھرتے سائنس داں اور انجنیئر بھی اسی طرح کے مشن پر ہیں۔ وہ جھیل کے دو مختلف مقامات پر سرگرم عمل ہیں۔ ایک مقام کو سائنس دانوں نے Nasaville کا نام دیا ہے، جہاں ان کے تین خیمے نصب ہیں جب کہ دوسرا نصف میل کی دوری پر ہے، جہاں ایک خیمہ ایستادہ ہے۔ یہ ماہرین کی جائے رہائش ہونے کے ساتھ ساتھ جائے کار بھی ہے۔ جھیل کی تہہ میں سے نکلتی میتھین گیس کی وجہ سے سطح آب پر بلبلے بنتے اور پھوٹتے رہتے ہیں جس کے باعث کئی مقامات پر پانی برف کی شکل اختیار نہیں کرسکا یا وہاں برف کی تہہ مہین ہے۔ اسی لیے سائنس داں دونوں مقامات کے درمیان آمدورفت کے سلسلے میں بے حد احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ مبادا کہیں پیر پڑتے ہی وہ جھیل کے یخ بستہ پانی میں غوطے کھارہے ہوں۔

میتھین گیس ہی کی وجہ سے 2009ء میں سائنس داں پہلی بار سکوک اور قرب وجوار میں واقع دوسری جھیلوں کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔ عام پائی جانے والی یہ ہائیڈروکاربن گیس جراثیم پیدا کرتے ہیں جو ’’میتھوجینز‘‘ کہلاتے ہیں۔ میتھین گیس نامیاتی مادّے کی تحلیل کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہے۔ اسی لیے یہ گیس وجودِ حیات کا ایک اشارہ بھی ہے۔ تاہم یہ گیس آتش فشاں کے پھٹ پڑنے اور دیگر غیرحیاتیاتی مآخذ سے بھی وجود پاتی ہے۔ اور جسیم سیاروں جیسے مشتری اور زحل کے چاند ’ٹائٹن‘ کی فضا میں قدرتی طور پر بھی پائی جاتی ہے۔ لہٰذا سائنس دانوں کے لیے حیاتیاتی اور غیرحیاتیاتی میتھین میں امتیاز کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر وہ کیون ہینڈ کی طرح زحل کے برف پوش چاند یوروپا ہی پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس سلسلے میں میتھین سے بھری سکوک جھیل پر مصروف عمل رہنا کوئی برا آئیڈیا نہیں ہے، جہاں کا ماحول یوروپا کی فضا سے مشابہت رکھتا ہے۔

کیون ہینڈ، نیشنل جیوگرافک کا ہونہار محقق ہے۔ وہ حیاتیاتی فلکیات کے تجربات کے لیے یوروپا کو مریخ سے بہتر سمجھتا ہے، اور اس کی ایک ٹھوس وجہ ہے۔ کیون کا کہنا ہے فرض کرلیجیے کہ ہم مریخ کی سطح پر اُترچکے ہیں اور وہاں جان دار نامیوں کا سراغ بھی لگالیتے ہیں جن کا انحصار زمین پر پائے جانے والے جان داروں کی طرح ڈی این اے پر ہو۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈی این اے زندگی کا کائناتی مالیکیول ہے۔ اور یہ بات بالکل ممکن ہوسکتی ہے۔ تاہم اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زمین اور مریخ پر پائی جانے والی حیات کا نقطۂ آغاز ایک ہی ہو۔ یہ بات تو ہم جانتے ہی ہیں کہ مریخ کی سطح پر سیارچوں کے گرنے کی وجہ سے جو چٹانیں ٹوٹ کر خلا میں بلند ہوئی تھیں، وہ بالآخر زمین پر آگری تھیں۔ ممکن ہے کہ اسی طرح زمین سے بھی چٹانیں مریخ پر پہنچ گئی ہوں۔

اگر ان چٹانوں کے اندر جراثیمی حیات موجود تھی اور خلا میں سفر کے دوران وہ زندہ بھی رہی، جو کہ قرین قیاس ہے، تو پھر مریخ یا جس سیارے پر وہ چٹانیں گری ہوں گی، وہاں ان جراثیم کی افزائش ضرور ہوئی ہوگی۔ کیون کا کہنا ہے،’’اگر مریخ پر ڈی این اے کے حامل جان دار دریافت ہوتے ہیں، تو پھر میرا خیال ہے کہ ہم اس مخمصے میں پڑ جائیں گے کہ زمین کے باسیوں اور ان کے ڈی این اے کا منبع ایک ہے یا نہیں۔‘‘ مگر یوروپا زمین سے بہت زیادہ فاصلے پر ہے۔ اگر وہاں زندگی کا سراغ ملتا ہے، اور اگر وہاں پائے جانے والے جان دار ڈی این کے حامل ہوتے ہیں تو پھر اس ڈی این اے کا ماخذ ارضی جان داروں کے ڈی این اے کے ماخذ سے مختلف ہوگا۔

یوروپا پر افزائشِ حیات کے تمام ناگزیر بنیادی عوامل نظر آتے ہیں۔ وہاں اگرچہ پانی دستیاب نہیں مگر زمین کی طرح وہاں بھی برفیلے سمندر کی تہہ میں گیس خارج کرنے والے بڑے بڑے سوراخ یا گڑھے ہوسکتے ہیں، جواردگرد موجود جان داروں کو ( اگر ہوئے) زندہ رہنے کے اسباب کی فراہمی کا ذریعہ ہوسکتے ہیں۔ مخصوص وقفوں سے دُم دار ستارے یوروپا کی سطح سے ٹکراتے ہیں۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں زحل کے چاند کی سطح پر نامیاتی کیمیکلوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ یہ کیمیکل زندگی کی نمو کا سبب بن سکتے ہیں۔ مشتری کی تاب کار پٹیوں کی جانب سے آنے والے ذرات برف کو آکسیجن اور ہائیڈروجن میں توڑ دیتے ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں لامحدود تعداد میں مالیکیولوں کا اخراج ہوتا ہے جنھیں جان دار اجسام سمندر کی تہہ میں موجود گڑھوں سے حاصل ہونے والے غذائی اجزا کی توڑ پھوڑ میں استعمال کرسکتے ہیں۔

اس تمام طریق کار میں سب سے بڑا سوالیہ نشان یہ ہے کہ نامیاتی کیمیکل برف کی 10 سے 15 کلومیٹر دبیز تہہ میں سے کیسے گزر سکتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ Voyager اور Galileo نامی خلائی جہازوں کی ارسال کردہ معلومات سے سامنے آئی تھی کہ برف کی انتہائی دبیز پرت میں جگہ جگہ دراڑیں پڑی ہوئی ہیں۔ 2013ء کے اوائل میں کیون ہینڈ اور اس کے ساتھیوں نے Keck II نامی دوربین کی مدد سے پتا چلایا تھا کہ یوروپا کے برفانی سمندر کی سطح پر نمکیات اُبھر آئے تھے، جو غالباً ان ہی دراڑوں کے راستے اوپر پہنچے تھے۔ گذشتہ سال کے اواخر میں مشاہدہ کاروں کی ایک اور ٹیم نے ہبل خلائی دوربین سے مشاہدہ کرتے ہوئے خبر دی تھی کہ یوروپا کے جنوبی قطب میں پانی فواروں کی صورت میں سطح سے نکلتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یوروپا کی سطح پر جمی برف ناقابل نفوذ نہیں ہے۔

ان معلومات نے یوروپا کے مدار میں کھوجی خلائی جہاز پہنچانے کی ضرورت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ 2011ء میں امریکا کی نیشنل ریسرچ کونسل نے یوروپا کی جانب خلائی مشن کی روانگی پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ لگایا تھا جو4.7 ارب ڈالر تھا۔ اگرچہ سائنسی اور تحقیقی لحاظ سے یوروپا کی جانب مشن کی روانگی ناگزیر تھی مگر اس مشن پر آنے والی لاگت توقع سے کہیں زیادہ تھی۔ چناں چہ رابرٹ پاپا لارڈو کی سربراہی میں جیٹ پروپلژن لیبارٹری کی ٹیم خلائی مشن پر نظرثانی کرنے کے لیے ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھی، اور پھر یہ تجویز سامنے آئی کہ Europa Clipper نامی خلائی جہاز یوروپا نہیں بلکہ مشتری کے مدار میں بھیجا جائے گا، اس سے مشن کی روانگی پر کم لاگت آئے گی۔ تاہم مشتری کے مدار میں رہتے ہوئے یہ خلائی جہاز 45 بار یوروپا کے قریب سے گزرے گا۔ اس دوران یہ زحل کے چاند کی سطح اور فضا کی کیمیائی تشکیل، اور بالواسطہ طور پر منجمد سمندر کی کیمیائی تشکیل کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

پاپالارڈو کا کہنا ہے کہ نظرثانی شدہ خلائی مشن کی مجموعی لاگت دو ارب ڈالر سے کم ہوگی۔ منظوری ملنے کی صورت میں یہ مشن 2020ء سے 2025 ء کے درمیان خلا میں روانہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ مشن Atlas V راکٹ کے ذریعے بھیجا جاتا ہے تو اسے اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں چھے برس لگیں گے۔ تاہم اس مشن کی روانگی ’اسپیس لانچ سسٹم‘ کے ذریعے بھی ممکن ہے جو کہ ان دنوں تیاری کے مراحل میں ہے۔ ایس ایل ایس کے ذریعے Europa Clipper پونے تین سال میں مشتری کے مدار میں پہنچ جائے گا۔

Europa Clipper اگرچہ زحل کے چاند پر زندگی کا سراغ لگانے کے قابل نہیں ہوگا، لیکن اس کی حاصل کردہ معلومات اگلے مشن کے لیے راہ ہموار کریں گی، جو مریخ کی طرح یوروپا کی سطح پر اُترکر تحقیق کرے گا۔ خلائی تحقیقی گاڑی کے اترنے کے لیے موزوں مقام کا تعین بھی Europa Clipper سے حاصل ہونے وال معلومات کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ یوروپا کے منجمد سمندر پر کھوجی گاڑی اتارنا ہوگا۔ یہ کام قدرے مشکل ثابت ہوسکتا ہے، کیوں کہ اس کے لیے سائنس دانوں کو پہلے برفیلی تہہ کی دبازت کو جانچنا ہوگا۔ متبادل کے طور پر وہ سکوک سے ملتی جلتی منجمد جھیل کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

سائنس دانوں کی ان سرگرمیوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خلائی مخلوق کی تلاش کے سلسلے میں کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ دوسری جانب ڈریک کی مساوات میں موجود خالی جگہوں کو پُرکرنے میں مدد دینے کے لیے نئے ذرائع بھی جلد دست یاب ہوں گے۔ ناسا نے Transiting Exoplanet Survey Satellite نامی ایک نئی دوربین کی منظوری دے دی ہے جس کی مدد سے نامعلوم سیاروں کا سراغ لگایا جائے گا۔ یہ دوربین 2017ء میں ارضی مدار میں پہنچائی جائے گی۔ اس کے اگلے ہی برس ’جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ‘ بھی زمین سے باہر رہ کر دوسرے سیاروں پر حیاتیاتی اشارات تلاش کرنے میں سائنس دانوں کی معاونت کرے گی۔

مسجد شاہ چراغ کی تعمیر کے لیے نواب زکریا کی والدہ بیگم جان نے اپنے گہنے وقف کئے

$
0
0

لاہور میں مزارات کے ساتھ مسجد کی تعمیر کی روایت خاصی پرانی ہے۔ مزارات کے ساتھ موجود مساجد ان ہی صاحب مزار کے نام سے منسوب ہو جاتی تھیں، جیسا کہ مسجد داتا دربار ؒ ، مسجد شاہ محمد غوثؒ اور اسی طرح کی کئی اور مساجد بھی صاحب مزار ہی کے نام سے جانی جاتی ہیں۔

مسجد شاہ چراغ، عہد شاہ جہانی کے ایک بزرگ حضرت شاہ چراغ ؒ کے نام سے نسبت رکھتی ہے۔ ان کا پیدائشی نام سید عبدالرزاق تھا بعدازاں اپنے دادا کے دیئے پیار کے نام کے باعث دنیا بھر میں شاہ چراغ کے نام سے جانے گئے۔ ان کا شمار لاہور میں مدفون ان اولیاء اللہ میں ہوتا ہے جن کے معتقدین میں اس وقت کے بادشاہ اور اہل حکم بھی رہے۔ ان کے آباؤ اجداد اوچ شریف ریاست بہاولپور سے تھے۔

جنوبی پنجاب میں ملتان کو مزارات کی سرزمین مانا جاتا ہے۔ اسی طرح بہاولپور اور چشتیاں کے علاقے کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ یہاں سے کئی بزرگان دین حق کی شمع تھامے یوں اٹھ کھڑے ہوئے کہ پورے ہندوستان کی سرزمین جگمگا اٹھی۔ شاہ چراغؒ کے پرکھوں کا سفر جو اوچ شریف سے شروع ہوا وہ لاہور تک کس طرح آیا اس حوالے سے ایک تحریر نقوش لاہور نمبر (ص305) پر یوں ملتی ہے۔

’’ان کا اصل نام سید عبدالرزاقؒ تھا۔ والد کا نام عبدالوہاب بن سید عبدالقادر ثالث بن محمد غوث بالا پیر سادات گیلان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بزرگ قصبہ اوچ (بہاولپور) سے ست گرہ ( منٹگمری) میں آئے۔ ست گرہ سے ان کے جد امجد محمد غوثؒ بالا پیر پہنچے۔ یہ زمانہ غالباً ہمایوں بادشاہ کا تھا۔

آپ نے شہر سے باہر جنوب مشرق کی طرف قیام کیا اور اپنے علاقے کا نام (بقول صاحب تحقیقات چشتی) رسول پورہ رکھا۔ لیکن جب ہمایوں نے لنگر خان بلوچ کو لاہور میں جاگیر دی اور لنگر خان  نے یہاں اپنے عالیشان مکانات تعمیر کرائے اور رفتہ رفتہ یہاں ایک محلہ آباد ہو گیا تو رسول پورہ کی جگہ  لنگر خان نے لے لی۔ اب نہ رسول پورہ ہے نہ محلہ لنگر خان، نہ عالیشان مکانات کے کوئی آثار، جب سید عبدالرزاق پیدا ہوئے تو ان کے جد امجد صاحب حیات تھے۔ انہوںنے فرمایا ’’در خانہ چراغے پیدا شدہ است کہ خانہ خاندان ماز منور گردد‘‘۔ اس لئے شاہ چراغ کے خطاب سے مشہور ہو گئے اور یہ نام کچھ ایسا مشہور ہوا کہ عوام اصل نام کو بھی بھول گئے‘‘۔

جگہوں اور مقامات کے نام کو تبدیل کرنے کی روایت دنیا بھر میں موجود رہی۔ جس طرح مقامات مقدسہ کی سرزمین صدیوں سے الحجاز کہلاتی رہی اور جب سعود قبیلے کی حکمرانی دور جدید میں سامنے آئی تو یہ نام سعودی عرب میں تبدیل ہو گیا۔ ہندوستان اور پاکستان میں بھی یہ رواج بطور خاص رہا۔ ہندوستان میں کلکتہ شہر کا نام تبدیل کر کے کول کتہ رکھ دیا گیا۔ دلی کو دہلی کا نام دے دیا گیا۔

بمبئی کا نام بومبے ہوا اور پھر ممبیٔ رکھ دیا گیا۔ اسی طرح پاکستان میں لائلپور کا نام فیصل آباد رکھ دیا گیا‘ چوہڑ کاہنہ کا نام فاروق آباد ہو گیا‘ مغل عہد کا ست گرہ ‘ انگریز سرکار کے عہد میں منٹگمری میں تبدیل ہوا اور تقسیم کے کافی عرصہ کے بعد ساہیوال رکھ دیا گیا۔ نام کی تبدیلی کی جو بھی وجوہات ہوں، ان کو ان کے پرانے ناموں کے ساتھ بھی زندہ رکھنا ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلیں اپنی تاریخ سے بہر کیف آگاہی ضرور رکھیں۔

حضرت شاہ چراغ ؒ کی وفات 1068ھ بمطابق 1657ء کو ہوئی۔ مزار کی تعمیر کے حوالے سے مؤرخین کے ایک گروہ کا یہ ماننا ہے کہ مزار کی تعمیر بحکم شاہ جہاں ہوئی اور کچھ مؤرخین کا یہ کہنا ہے کہ مزار مبارک کی تعمیر اورنگزیب عالمگیر کے احکامات سے ہوئی اگر وفات کے ان کے ایام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو شاہجہاں اتنی طاقت ہی میں نہیں تھا جس سے ایسے احکامات جاری کئے جاتے۔ اسی لئے اورنگزیب کے حوالے سے جڑی روایت زیادہ مستند دکھائی دیتی ہے۔

مزار اور اس سے ملحقہ مسجد کی عمارت کے بارے میں کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب ’’تاریخ لاہور‘‘ (ص26) پر یوں تحریر کیا۔

’’یہ مقبرہ مربع صورت کا پختہ چونے کی عمارت کا بنایا گیا ہے۔  دروازہ جنوب کی سمت ہے۔ مقبرے کے اندر آٹھ قبریں ہیں۔ ایک تو شاہ چراغ کی اور سات ان کی اولاد کی۔ چھ خشتی قالبوتی داد اور اوپر عالی شان گنبد ہے۔ مسجد بھی چونہ گچ ہے جس کی پانچ محرابیں اور پانچ گنبد ہیں۔ انگریزوں کی عمل داری ہوئی تو اس کو کوٹھی بنا لیا گیا اور میجر میگریگر صاحب و ویڈربرن صاحب وسمم صاحب بہادر ڈپٹی کمشنران اس میں رہتے رہے۔ پھر اکاؤنٹنٹ کا دفتر اس میں مقرر ہو گیا۔ اب کوٹھی یعنی مسجد کا احاطہ علیحدہ ہے اور مقبرے کا علیحدہ اور مقبرے پر قبضہ سادات گیلانی کا ہے۔ ہر سال یہاں میلہ ربیع الثانی کی سترھویں تاریخ کو ہوتا ہے اور خلقت بہت جمع ہوتی ہے۔‘‘

نواب زکریا خان کی والدوہ بیگم جان کو حضرت شاہ چراغؒ کے مزار سے انتہائی عقیدت تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اس مزار کے ساتھ ملحقہ جگہ پر مسجد کی تعمیر شروع کروائی اور ساتھ ساتھ یہ بھی وصیت کی کہ اگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی تو ان کے بعد ان کے زیورات بیچ کر مسجد کی تعمیر مکمل کی جائے۔

لاہور میں مساجد کی تعمیر میں خواتین کا کردار شہنشاہ اکبر کی بیگم مہارانی جودھا بائی سے شروع ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی تعمیر کردہ مسجد ’’بیگم شاہی مسجد‘‘ آج بھی قلعہ لاہور کی مشرقی سیدھ میں دکھائی دیتی ہے۔ ان کے بعد یہ سلسلہ دائی لاڈو‘ دائی انگہ‘ رانی موراں کی تعمیر کردہ مساجد میں دکھائی دیتا ہے۔

عہد حاضر تک یہ سلسلہ دیکھا جا سکتا ہے۔ جس میں خواتین نے مسجد کی تعمیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہاں پر بطور خاص میں اردو کے معروف شاعر ضمیر جعفری مرحوم کی بھانجی میمونہ اکبر کا ذکر کرنا چاہوں گا جو کہ جاوید اکبر کی اہلیہ ہیں۔ انہوں نے پچھلے چند ماہ میں دن رات محنت کر کے سوتر منڈی باٹا پور لاہور میں مسجد غوثیہ محمدیہ کی تعمیر پایۂ تکمیل تک پہنچائی ۔ میمونہ جاوید نے نہ صرف مسجد کی تعمیر کے معارف کا انتظام کیا بلکہ مزدوروں اور مستریوں کے ساتھ کام پر جڑی رہیں۔

اب کچھ تذکرہ بیگم جان کا کرتے ہیں جن کے نام پر لاہور میں بیگم پورہ کی آبادی ہے۔ وہ تو نواب عبدالصمد خان کی اہلیہ اور نواب زکریا خان کی والدہ تھیں۔ نواب زکریا خان والی لاہور کا عہد  1726-1745ء تک کا ہے۔ اس لئے قرین قیاس ہے کہ مسجد کی تعمیر اس عہد کی ہے۔ اس حوالے سے ایک اقتباس نقوش سالنامہ   1989 (ص83)  پروفیسر اسلم کی لکھت میں یوں ہے۔

’’بیگم جان بڑی عالمہ، فاضلہ اور خداشناس خاتون تھی۔ اس کا نسب بھی خواجہ ناصر الدین عبیداللہ امرادؒ سے جا ملتا ہے۔ اس نے اپنی وفات سے پہلے یہ وصیت کی تھی کہ اس کے زیورات فروخت کر کے ان کی آمدنی سے ایک مسجد بنوا دی جائے۔ چنانچہ حضرت شاہ چرا غ ؒ کے مزار سے ملحقہ مسجد ان ہی زیورات کی آمدنی سے پایۂ تکمیل کو پہنچی۔

نواب زکریا خان کے عہد کے بعد اس مسجد نے بے شمار حوادث دیکھے۔ ان حوادث کے باعث مسجد کی اصل عمارت محض پرانی کتابوں کی تحریروں کا حصہ بن کر رہ گئی۔ لاہور کی کئی دیگر مساجد کی مانند سکھی عہد میں یہ مسجد بھی بارود سے بھری رہی۔ انگریز سرکار کے عہد میں انتظامی مسائل کے باعث کئی تاریخی مساجد کو افسران کی رہائش گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا اور اسی مقام پر سیشن جج کی عدالت بھی لگنے لگی۔ اکاؤنٹنٹ جنرل کا دفتر بھی قائم رہا۔ اس حوالے سے ایک اقتباس نقوش لاہور نمبر(ص307) سے درج ذیل ہے۔

’’آج سے چند سال پیشتر یہ جگہ بالکل اجاڑ اور غیر آباد سی تھی۔ احاطے میں جھاڑیاں اور درخت اگے ہوئے تھے۔ چار دیواری خستہ حال تھی۔ لیکن 1935ء میں مسجد شہید گنج کی ایجی ٹیشن کے بعد جب مسجد شاہ چراغ مسلمانوں کو مل گئی اور سرکار نے اپنا قبضہ اس پر سے اٹھا لیا تو اس جگہ ریزو بینک کی عالیشان عمارت تعمیر ہو گئی اور اس چار دیواری کو جس میں والدہ نواب خان بہادر کی قبر بیان کی جاتی ہے، از سر نو تعمیر کر کے اس کے گرد جنگلہ لگا دیا گیا۔‘‘

آج سے ستر، اسی سال پہلے کی تصنیف تحقیقات چشتی میں لکھا ہے کہ معلوم ہوتا ہے اس چار دیواری کے گرد ایک چھوٹا سا باغ تھا اس لئے کہ اس جگہ اب بھی پختہ خیابان کے آثار نظر آتے ہیں۔ درختوں کے جھنڈ میں ون کے درخت زیادہ نہ تھے۔ راقم نے بھی یہاں دیکھے تھے۔ بہر حال اب مقبرہ شاہ چراغ، مسجد شاہ چراغ اور اس مختصر سی چار دیواری کی حالت نسبتا بہتر ہے۔ جمعہ اور جماعت کی نمازوں میں اچھی خاصی رونق ہوتی ہے۔‘‘

عصر حاضر میں جب مال رورڈ پر جی پی او چوک میں پہنچا جائے تو بائیں جانب ایک سڑک نیچے کو پرانے اسٹیٹ بینک کی بلڈنگ کو جاتی ہے جس سے آگے ایک چرچ ’’سکینڈ بیوز پریسن کیبرین چرچ ‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ پرانے اسٹیٹ بینک کی یہ عمارت اب سپریم کورٹ آف پاکستان کے استعمال میں ہے۔ اس بلڈنگ سے بائیں جانب ایک انتہائی خوبصورت عمارت دکھائی دیتی ہے جس میں مغل اور انگریز طرز تعمیر ملا جلا دکھائی دیتا ہے۔

یہ جگہ کچھ برس قبل تک سڑک سے گزرنے والے لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہائی کورٹ کے داخلی دروازے سے مغربی سیدھ تک سرکار کی مدح سرائی میں بڑے بڑے سائن بورڈ نصب تھے جو کہ بعدازاں ہٹا دیئے گے اور وہاں پر لوہے کے جنگلے نصب کر دیئے گئے جس کی وجہ سے اب یہ عمارت عوام کی نظروں میں ہے۔ لب سڑک لوہے کے ایک جنگلے پر ’’ایوان اوقاف‘‘ ماتھے پر تحریر دکھائی دیتا ہے۔ اندر داخل ہوں تو بائیں جانب اکاؤٹننٹ جنرل کے پرانے دفاتر اب وکلاء اور چیمبرز کے استعمال میں ہیں۔

ان سے پیچھے مشرقی سیدھ میں محکمہ اوقاف کے دفاتر‘ لائبریری اور ان میں ایک دفتر محکمہ آثار قدیمہ کا بھی موجود ہے۔ لاہور جیسے عظیم تاریخی ورثے کے مالک اس شہر میں ان دونوں محکموں کی خاص اہمیت ہے کیونکہ زیادہ تر تاریخی عمارتیں، آثار قدیمہ اور مذہبی تاریخی عمارتیں محکمہ اوقاف کے زیر نگرانی ہیں۔ ان دفاتر میں وہ تمام سہولتیں اوردور جدید کے ذرائع موجود ہونے چاہئیں جو اس طرح کی تاریخی عمارات کی حفاظت کے لئے دنیا کے کئی دیگر ممالک استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ محکمے پرانے فائلوں کے نظام میں گڑ ے دکھائی دیتے ہیں۔

ان میں کام کرنے والے افراد کی ان جدید علوم تک رسائی تو کجا ان میں سے اکثریت شہر لاہور کی تاریخ سے نابلد ہے۔ ان میں ان ملازمین کا کوئی قصور نہیں بلکہ اس کی ذمے دار وہ سرکاریں ہیں جن کو لاہور کی تاریخ سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ تو دوسرے دیسوں کا رنگ بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان دفاتر سے آگے گاڑیوں کی پارکنگ‘ اے جی آفس اور لاہور ہائیکورٹ کی عمارت کی شمال جنوب سیدھ کا پچھلا حصہ ہے۔ اوقاف کے دفاتر کے سامنے ہی چند سیڑھیاں اوپر کو جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ سیڑھیاں چڑھ کر بائیں جانب حضرت شاہ چراغؒ کا مزار شریف ہے اور بائیں جانب مسجد کی عمارت ہے۔

دائیں جانب مزار کے گنبد کی چار دیواری اور عمارت میں عالمگیری عہد کی تعمیر کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ مزار کی عمارت کے چاروں کونوں پر انتہائی چھوٹے مینار ہیں جن کے نیچے محرابی طرز تعمیر دیواروں میں نمایاں ہے اور یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ کبھی ان پر کاشی کاری کا کام ضرور موجود ہو گا۔ مگر اب  وہاں پر سوائے سفیدی کے اور کچھ نہیں دیکھا جا سکتا۔ ان کے اوپر مزار کا خوبصورت گنبد ہے جس پر سبز رنگ کا روغن کر کے قدامت کے تمام نشان ختم کر دیئے گئے ہیں۔ اندرونی احاطے میں ایک سے زائد قبور ہیں اور ایک قبر کے سرہانے یہ تختی نصب ہے۔

مرقد انوار

سید عبدالرزاق

 المعروف حضرت بابا شاہ چراغؒ لاہوری

گنبد کے اندرونی حصوں میں کاشی کے پرانے کام کو از سر نو کیا گیا ہے جو کہ عہد رفتہ سے ہرگز میل نہیں کھاتے۔ مزار کے داخلی دروازے کے ساتھ ہی باہر معلوماتی تختیاں نصب ہیں۔ مزار کے اندرونی اور بیرونی احاطے میں دیگر افراد کی قبور بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان قبور کے ساتھ مغربی سیدھ میں ایک قدیم درخت آج بھی موجود ہے۔ مسجد کے صحن میں لوہے کے جنگلے نصب کرکے نمازیوں کی سہولت کے لئے پنکھے لگائے گئے ہیں۔

مسجد کی پانچ پرانی محرابیں آج بھی پھول پتیوں کے کام سے منقش ملتی ہیں۔ لیکن کاشی کا تمام پرانا کام سفیدی کی تہوں میں گم ہو چکا ہے۔ محرابوں سے سجی عمارت طولانی سیدھ میں زیادہ اور چوڑائی میں انتہائی کم ہے۔ محرابوں کے ساتھ اور اندرونی درمیانی عمارت مقطع ہے۔ ان کی چھت کے نیچے سے اوپر نمایاں طور پر گنبد مترور تعمیر کا شاخسانہ دکھائی دیتے ہیں۔ جب کہ چھت کے اوپر گنبد اردگرد کی عمارات کی چھتوں ہی سے دکھائی دے سکتے ہیں۔

مسجد کے حاضر امام کا نام قاری فقیر حبیب الرحمن ہے۔ اگر مسجد کی تمام موجودہ عمارت سے سفیدی کو کھرچا جائے اور پرانی عمارات کے ماہرین کے ذریعے قدیم رنگ بحال کرنے کی کوشش کی جائے تو مسجد اپنے ابتدائی ایام کی مانند دکھائی دینے لگے۔ مسجد کی پانچ محرابوں میں سے وسطی محراب کلاں ہے اور دیگر خورد، وسطی محراب کے ماتھے پر مشرقی سیدھ میں کلمہ شریف اور دور جدید کی خطاطی میں اللہ اور محمد ﷺ دائیں اور بائیں سیدھوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

دھوپ کے چشمے، فیشن کے ساتھ آنکھوں کے محافظ

$
0
0

دھوپ کے چشمے جدید دور کے فیشن کا حصہ نہیں بلکہ تیز دھوپ اور سورج کی خطرناک شعاعوں سے حفاظت کے لیے بھی از حد ضروری ہیں۔

کچھ عرصہ قبل تک ان کا استعمال نہایت محدود پیمانے اور محدود طبقے میں کیا جاتا تھا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں عوام میں صحت کے حوالے سے شعور میں اضافہ ہوا ہے ویسے ویسے دھوپ کے چشموں کے استعمال میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق سن گلاسز یا دھوپ کے چشموں کو فیشن کا حصہ سمجھنا غلط رجحان ہے، کیوں کہ اس کے استعمال سے آنکھ کی نازک پتلی سورج کی الٹراوائلٹ شعاعوں سے محفوظ رہتی ہے۔ اس حوالے سے دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ ذاتی استعمال کی دیگر اشیا کے مقابلے میں دھوپ کے چشموں کو کسی مشہور ماڈل یا ایکٹر نے متعارف نہیں کرایا بلکہ چند دہائیوں قبل دوران پانی میں سورج کے عکس سے پریشان مچھیروں نے ان چشموں کو فروغ دیا تھا اور یوں وقت کے ساتھ ساتھ ان کا استعمال رواج پکڑتا گیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ خواتین کی اکثریت اپنے لباس کے ہم رنگ جوتے اور میک اپ کے علاوہ سن گلاسز کا انتخاب کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

دھوپ کے چشموں کی خواتین میں اس درجہ بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر لباس، جیولری اور جوتوں کی طرح چشموں کے ڈیزائنز بھی باقاعدہ متعارف کروائے جاتے ہیں۔ یہ چشمے آنکھوں کو دھوپ ہی سے نہیں بچاتے بل کہ چہرے کو ایک نیا لُک بھی دیتے اور شخصیت کو جاذب نظر بناتے ہیں۔


جب میڈیا سے ٹھن گئی

$
0
0

کہا جاتا ہے کہ شوبز اور میڈیا کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم سمجھے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے بنا ادھورے  ہیں۔

اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے شوبز کی چٹ پٹی اور مسالے دار خبریں جاننے کے لیے ہر کوئی بے چین رہتا ہے۔ دنیا بھر میں خاص طور سے ہالی وڈ میں میڈیا شوبز اسٹارز کی پرسنل لائف میں اس حد تک مداخلت کرتا ہے کہ اسٹارز اس سے چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ بولی وڈ میں بھی ہوتا ہے،  جہاں سپراسٹارز کی ہر موومنٹ پر نہ صرف نظر رکھی جاتی ہے بلکہ اسٹارز نے کسی بھی شو میں کیا کہا اس بات کو جاننے کی بھی میڈیا کو جلدی رہتی ہے۔

چناں چہ فلم انڈسٹری کے اکثروبیشتر اسٹار صحافیوں اور پریس فوٹو گرافر سے نالاں رہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر جرنلسٹ باتوں کو اپنے انداز میں توڑ موڑ کر نہ صرف پیش کوتے ہیں بلکہ کسی بھی بات کو اپنے طریقے سے بڑھا چڑھا کر بھی مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے اب اسٹارز انٹرویو دیتے ہوئے اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے خاص طور پر بہت محتاط رہتے ہیں۔ اس مضمون میں بولی وڈ کے چند ایسے اسٹارز کا ذکر کیا گیا ہے جو میڈیا سے خائف اور ناراض رہتے ہیں۔

سونم کپور

بین الاقوامی شہرت کے اداکار انیل کپور کی بڑی بیٹی سونم کپور کا شمار ان اداکاراؤں میں ہوتا ہے جو اپنے منہ پھٹ انداز کی وجہ سے خاصی مشہور ہیں۔ سونم کو ایک کام یاب اداکارہ نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ باکس آفس پر اس کی کوئی بھی فلم دھماکا نہیں کرپائی ہے، حالاں کہ اس نے اب تک جتناکام بھی کیا اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس کی فلموں میں سانوریا، آئشہ، دہلی 6، آئی ہیٹ لو اسٹوری، بے وقوفیاں، بھاگ مکا سنگھ بھاگ، پلئیرز اور موسم شامل ہیں۔ ان تمام فلموں میں سونم کے کردار زبردست رہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی فلم دھوم نہ مچاسکی۔ ایک پریس کانفرنس میں اسی موضوع پر ایک صحافی کی طرف سے کیے گئے اس سوال سونم کو چراغ پا کردیا کہ آپ ابھی تک باکس آفس پر ایک ناکام اداکارہ تصور کی جاتی ہیں اس کی کیا وجہ ہے۔ اس  نے کسی کا بھی لحاظ نہ کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں صحافی کو خوب سنائیں۔

’’کافی ودھ کرن‘‘ میں جب کرن کی جانب سے سونم سے پوچھا گیا کہ شاہد کپور کے ساتھ آپ کی بہترین فلم موسم کے فلاپ ہونے کی وجہ یہ تو نہیں کہ آپ ایک ناکا م اداکارہ ہیں، تو وہ برا مان گئی تھی۔

روینہ ٹنڈن

فلم انڈسٹری میں مست مست گرل کے نام سے شہرت پانے والی روینہ ٹنڈن کو ایک اچھی اور کام یاب اداکارہ مانا جاتا ہے، کیوںکہ اس نے چند بامعنی فلموں میں کام کیا، بلکہ اس کی کچھ فلموں جیسے پتھر کے پھول، انداز اپنا اپنا، دل والے، مہرہ، میں کھلاڑی تو اناڑی، آنٹی نمبر ون اور گھر والی باہر والی کا شمار کام یاب فلموں میں کیا جاتا ہے۔ ایک میگزین کے لیے کرائے گئے ناقابل اعتراض فوٹو شوٹ کے حوالے سے صحافیوں کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں تابڑ توڑ سوالات پوچھنے پر روینہ غصے میں آگئی اور اس نے صحافیوں پر نہ صرف چیخنا چلانا شروع کردیا بلکہ گالم گلوچ بھی کی، جس کی وجہ سے صحافیوں نے اس کا بائیکاٹ کردیا تھا ۔

پریتی زنٹا

ایک لمبے عرصے سے بولی وڈ کی یہ شوخ اور چنچل اداکارہ سلور اسکرین سے غائب ہے۔ اسکرین یا خبروں میں اس کی انٹری صرف آئی پی ایل تک محدود رہتی ہے۔ فلموں سے طویل دوری کے بعد جب پریتی نے فلم لو ان پیرس فلم میں کام کیا تو سب ہی کو اس کی ریلیز کا بے صبری سے انتظار تھا لیکن فلم کے ڈائریکٹر پریم سونی  اپنے ہارٹ پرابلم کی بنا پر ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہوگئے اور یوں فلم کی ریلیز کا معاملہ التواء کا شکار ہوتا گیا۔ اسی لیے جب بھی کبھی کسی صحافی کی جانب سے یہ سوال کیا جاتا کہ اس کی فلم لو ان پیرس کب ریلیز ہو گی تو وہ چراغ پا ہوجاتی اور سوال کرنے والے کو بے نقط سناتی۔

سلمان خان

بولی وڈ کا سب سے زیادہ تنازعات کا شکار رہنے والا اسٹار سلمان خان کبھی  بھی میڈیا سے خوش نہیں رہا ہے اور شاید میڈیا والے بھی اکثر  اس سے ناراض رہتے ہیں۔  سلمان کا ہمیشہ سے یہ ہی کہنا ہے کہ میڈیا والے اس کی پرسنل لائف کے بارے میں جاننے کے لیے بے چین رہتے ہیں اور یہ بات اسے پسند نہیں۔ فلم جے ہو کی پرموشن کے لیے جب ایک پریس کانفرنس میں کرینہ سے یہ پوچھا گیا کہ سلمان کے حوالے سے کترینہ کیف کیا آپ کی بھابی ہیں تو اس سوال پر سلمان کا موڈ بہت خراب ہوگیا۔ اس نے نہ صرف  کانفرنس ختم کردی بلکہ اس صحافی کو بھی بیت بر بھلا کہا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے، سلمان اور میڈیا کے درمیان ہر روز ایک نیا تنازعہ جنم لیتا ہے۔

شاہ رخ خان

میڈیا کے ساتھ شاہ رخ خان کے تعلقات سے سب ہی آگاہ ہیں اور سب ہی جانتے ہیں کہ شاہ رخ میڈیا کے سامنے خود کو کتنا کمپوزڈ اور ریزرو رکھتے ہیں۔ خاص طور سے پرنٹ میڈیا کے سامنے وہ بہت نپے تلے انداز میں سوچ سمجھ کر گفتگو کرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ فلم انڈسٹری کا حصہ ہوتے ہوئے وہ اس میڈیا کی ہوشیاریوں سے بہ خوبی واقف ہیں۔ فلم  ڈان میں پریانکا کے ساتھ جوڑی کو ان میڈیا والوں ہی نے غلط رنگ دیا تھا اور یہ بات پھیلا ئی گئی تھی کہ ان دونوں کے درمیان کچھ کچھ نہ ضرور ہے۔

حالاں کہ سب ہی جانتے ہیں کہ شاہ رخ کا اتنے طویل فلمی کیریر میں کبھی کسی ہیروئین سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ فلم جب تک ہے جان کی پریس کانفرنس میں، جس میں شاہ رخ کے ساتھ انوشکا شرما اور کترینہ کیف بھی موجود تھیں، ایک رپورٹر نے شاہ رخ سے کہا کہ وہ کچھ سنجیدہ قسم کے سوالات پوچھنا چاہتا ہے، جس پر شاہ رخ نے کہا ضرور۔ اور جب اس نے غیر مہذبانہ قسم کے سوالات پوچھنا شروع کیے تو شاہ رخ کا انتہائی ضبط کے باوجود ٹیمپر لوز ہوگیا اور پھر اس رپورٹر کو شاہ رخ نے خوب سنائیں۔

ایشوریا رائے بچن

ایک پریس میٹنگ میں سابق مس ورلڈ سے جب شاہ رخ خان اور امیتابھ بچن کے درمیان تعلقات کے بارے میں کسی میڈیا پرسن کی جانب سے یہ سوال کیا گیا کہ ان دونوں میں بولی وڈ کا حقیقی سپر اسٹار کون ہے؟ اور کیا ان دونوں اسٹارز کے درمیان کوئی سرد جنگ چل رہی ہے؟ تو اس سوال پر ایشوریا نے بہت برا مانا اور سب ہی رپورٹرز کی خبر لی اور کہا کہ یہ سب کنٹروورسی آپ لوگوں یعنی میڈیا والوں کی ہی پھیلائی ہوئی ہے، ان دونوں کے تعلقات بہت شان دار ہیں۔

دھرمیندر

فلم انڈسٹری کے پنجابی سپوت دھرمیندر پریس اور میڈیا والوں سے دور دور ہی رہتے ہیں۔ یہ روش ان کے دونوں بیٹوں سنی اور بوبی دیول نے بھی اپنائی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے دھرمیندر اور ہیمامالنی کی بیٹی ایشا دیول کی شادی کے موقع پر مدعو ایک رپورٹر نے جب دھرمیندر سے ایشا کے دونوں سوتیلے بھائیوں کی غیرموجودگی کی وجہ جاننا چاہی تو دھرمیندر کو خوب غصہ آیا اور نہ صرف اس رپورٹر کو بے بھائو کی سنائیں بلکہ اس کو وہاں سے نکلوا بھی دیا۔

جیا بچن

جیہ بچن اور میڈیا کی کبھی نہیں بنی۔ جیا کو کسی بھی بات پر غصہ آسکتا ہے اور وہ صحافی کے کسی بھی سوال کا برا مان سکتی ہیں۔ ایک تقریب کے موقع پر جب ایک رپورٹر کی جانب سے ان سے امیتابھ کی صحت کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا امیتابھ کو کینسر ہے؟ اس سوال پر جیا چراغ پا ہوگئیں اور اس رپورٹر کو اس تقریب سے نکلوا دیا۔

شردھا کپور

ایک فوٹو گرافر کو فوٹو شوٹ کے لیے شردھا جب گھنٹوں انتظار کرانے کے بعد پہنچی تو تمام میڈیا پرسنز نے اس کا بائیکاٹ کردیا اور عاشقی ٹو کی پرموشن کی کوریج کرنے سے منع کردیا، لیکن جب شردھا نے معافی مانگی تب ایک پریس کانفرنس کی گئی، جس میں شردھا کے اس رویے کے بارے میں ایک رپورٹر کی جانب سے پے درپے سوالات کرنے پر شردھا نے اس رپورٹر کو سب کے سامنے خوب بر بھلا کہا۔

رنبیر کپور

رنبیر کپور فلم انڈسٹری میں اپنے شوخ اور مزاحیہ انداز کی بدولت پسند کیا جاتا ہے اور وہ کسی سے الجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتا لیکن جب بات اصول کی ہو تب رنبیر کسی کی بھی نہیں سنتے۔ ایک نجی پارٹی میں مدعو رنبیر کے منع کرنے کے باوجود ایک سر پھرے فوٹو گرافر نے اس کی تصاویر لیں تب رنبیر کو غصہ آگیا اور اس نے اس فوٹو گرافر کا کیمرا لے کر توڑ دیا۔

ارجن رام پال

فلم انڈسٹری میں ہر قسم کے اسکینڈل سے دور رہنے والے ارجن رام پال نے بہ حیثیت اداکار اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔ خاص طور سے شاہ رخ خان کی فلموں اوم شانتی اوم، ڈان اور راون میں ولین کے منفرد کرداروں نے ارجن کو ایک اچھا اداکار ثابت کیا ہے۔ راون کی کام یابی کے بعد جب وہ اور شاہ رخ خان ایک گاڑی میں سفر کررہے تھے، تب ایک پریس فوٹوگرافر نے ان کا پیچھا کرنا شروع کردیا اور ان دونوں کی چند تصاویر لینے کی کوشش کی جس پر ارجن نے اس فوٹو گرافر کی خوب خبر لی۔

سنجے دت

سنجے دت انتہائی ٹھنڈے اور دھیمے مزاج کا انسان ہے، حالاںکہ  شوبز کے کیریر میں جتنی مشکلات کا سامنا اس نے کیا ہے وہ شاید انڈسٹری میں کسی نے بھی نہیں کیا۔ اس کے با وجود تلخی اس کے مزاج کا حصہ نہیں بن پائی لیکن پریس فوٹو گرافر اور صحافیوں سے سنجے کی بہت کم ہی بنتی ہے، کیوںکہ بہت دفعہ منع کرنے کے باوجود فوٹو گرافر اس کی تصاویر لینے کی کوشش کرتے ہیں، جس پر سنجو بابا کی اکثر ان سے تلخ کلامی ہوتی رہتی ہے۔

کترینہ کیف

کترینہ کیف کو میڈیا سے اکثر شکایت رہتی ہے کہ وہ اس کی ذاتی زندگی میں بہت زیادہ مداخلت کرتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا جب چھٹیوں کے دوران رنبیر کپور کے ساتھ اس کی پرسنل تصاویر نہ جانے کس طرح سے منظر عام پر آگئیں، جس کی وجہ سے کترینہ بہت زیادہ اپ سیٹ رہی اور اس نے میڈیا ایسوسی ایشن والوں کو اس سلسلے میں شکایت پر مبنی کھلا خط بھی لکھا۔

دولت مند امریکا میں بھی بھوک کے دہکتے جہنم

$
0
0

ریاست ہائے متحدہ امریکا دنیا کی سپر پاور ہے اور وہ دولت مند ملک ہے جو نہ جانے کتنے ملکوں کو اقتصادی امداد دے کر ان کے شہریوں کے پیٹ بھرتا ہے، انہیں بھوک اور بیماری سے بچاتا ہے۔

مگر کیا آپ یقین کریں گے کہ اس ملک میں بھی بھوک اور غربت نے ایسے پنجے گاڑے ہیں کہ اس کے بعض دیہی اور مضافاتی علاقوں کے رہنے والے ایک وقت کھاتے ہیں تو دوسرے وقت کے لیے سوچتے رہتے ہیں کہ کیا ہوگا۔ یہ لوگ جس طرح فاقے کرتے ہیں، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی ترقی یافتہ ملک کے شہری نہیں بلکہ کسی افریقی ملک جیسے سوڈان، زیمبیا وغیرہ میں رہتے ہیں جہاں کے لوگ بھوک کا بھی شکار ہیں اور غذائیت کی کمی سے بھی دوچار ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

مچل کائونٹی لووا کی ایک سنہری و خاکستری صبح کو کرسٹینا ڈریئر اپنے تین سالہ بیٹے کیگان کو ناشتے کے بغیر اسکول بھیج رہی تھی۔ کیگان پھولے ہوئے پیٹ والا ایک ضدی بچہ ہے جو پِری اسکول میں مفت ملنے والی خوراک کھانے سے انکار کرتا ہے۔ امریکا کے اسکولوں میں بچوں کے لیے مفت ناشتے اور خوراک کا انتظام کیا جاتا ہے، مگر اکثر بچوں کو یہ خوراک اچھی نہیں لگتی، اس لیے وہ بھوکے رہتے ہیں۔

اسی طرح جب کرسٹینا کے بیٹے کیگان نے اپنے گھر پر ناشتہ کرنے سے صاف انکار کردیا تو تنگ آکر کرسٹینا نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ کیگان کو بھوکا ہی اسکول بھیج دے گی، جہاں اسے مفت ناشتہ تو مل جائے گا۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ گھر پر اس کے حصے کا کھانا بچ جائے گا جو دوسرے بچوں کے کام آجائے گا۔ مگر پھر سوچا کہ کہیں چال الٹی نہ ہوجائے، اور وہی ہوا۔ کیگان نے اسکول کی طرف سے دیا جانے والا مفت ناشتہ کھانے سے انکار کردیا اور لنچ کے وقت تک بھوکا رہا۔ مجبور ہوکر کرسٹینا کو اپنے ریفریجریٹر سے بچے کھچے ٹکڑے نکال کر کیگان اور اس کی چھوٹی بہن کا پیٹ بھرنا پڑا۔

ایسا اکثر ہوتا ہے کہ کرسٹینا بھوکی رہتی ہے، بچوں کی پلیٹ میں بچے ہوئے آلو کے ٹکڑے کرسٹینا کا لنچ ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہے:’’اگر کچھ بچتا ہے تو میں کھالیتی ہوں ورنہ نہیں، میرے لیے بچے اہم ہیں، انہیں پہلے کھلانا چاہیے، میرے بھوکے رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

کرسٹینا کے سر پر ہر وقت یہ خوف منڈلاتا رہتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ کیسے بھرے گی۔ وہ اور اس کا شوہر جم ایک کے بعد دوسرا بل ادا کرنے کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں، فون کا بل، گیس بجلی کے بل، جن کے لیے انہیں رقم بچانی پڑتی ہے۔ پھر خوراک کی فراہمی کا مسئلہ الگ ہے۔ ایک شام کرسٹینا اپنی فیملی وین کے لیے پریشان تھی جو بے حد بوسیدہ ہوچکی تھی۔ دونوں میاں بیوی کو بینک اکائونٹ بھی کھولنا ہے۔

اس کے لیے جم کو اپنا کام جلد نمٹانا ہوگا۔ فصل کاٹنے کا وقت قریب آرہا ہے، جم راتوں کو دیر تک کام کرتا ہے، وہ تجارتی کھیتوں پر جراثیم کش دوائوں کا اسپرے بھی کرتا ہے جس کی مزدوری اسے 14ڈالر فی گھنٹہ ملتی ہے۔ اس اوور ٹائم سے وہ گھریلو ضرورت کی چیزیں خریدتا ہے۔ کرسٹینا کہتی ہے کہ اکثر ہمارے بلوں کی ادائیگی نہیں ہوپاتی، ہم اپنا اور بچوں کا پیٹ بھریں یا بل ادا کریں۔ بچوں کو بھوکا تو نہیں مارسکتے۔ ناکافی بجٹ میں ہم اپنی فیملی کو خوراک کیسے فراہم کریں۔

حالاں کہ امریکا میں فوڈ بینک یا فوڈ پینٹریز قایم ہیں جہاں سے غریبوں کو مفت خوراک فراہم کی جاتی ہے، اس کے علاوہ فوڈ اسٹیمپس سے بھی انہیں مالی امداد ملتی ہے۔ فوڈ اسٹیمپس کیا ہوتے ہیں؟ فوڈ اسٹیمپس اصل میں حکومت کی جانب سے کم آمدنی والے افراد کو جاری کردہ ایک خوراک نامہ یا تصدیق نامہ ہوتا ہے، جو خوراک کے خوردہ فروشوں کی دکانوں پر قابل قبول ہوتا ہے۔ اس کی مدد سے کم آمدنی والے لوگوں کو سستی چیزیں مل جاتی ہیں۔ یہ فوڈ اسٹیمپس یا خوراک نامے سپلیمینٹل نیوٹریشن اسسٹنس پروگرام (SNAP)  جاری کرتا ہے۔ مگر ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، بہرحال عام لوگوں کے لیے یہ امداد غنیمت ہے، جس سے کم از کم لوگ بھوکے تو نہیں مرتے۔

کرسٹینا کی شکل و صورت دیکھ کر امریکا میں بھوک کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ وہ سفید فام اور کسی حد تک صحت مند عورت بھوک اور غربت کی سچی تصویر پیش نہیں کرسکتی۔

آج امریکا میں بھوک کی تصویر ماضی سے کافی مختلف ہے۔

جینٹ پوپن ڈیک سٹی یونی ورسٹی آف نیویارک کی ماہر عمرانیات ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’یہ آپ کی دادی کے زمانے کی بھوک نہیں ہے۔ آج زیادہ لوگ اور خاندان کام کرتے ہیں، اس کے باوجود وہ بھوکے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اجرتیں بہت کم ہوگئی ہیں۔‘‘

امریکا میں نصف سے زیادہ بھوکے سفید فام ہیں اور بچوں والے دو تہائی لوگوں میں کم از کم ایک کام کرنے والا بالغ ضرور ہے، یعنی وہ فل ٹائم جاب کرتا ہے، سوال یہ ہے کہ ایک اکیلا انسان پورے گھر کو کیسے پالے گا اور پورے گھر کا پیٹ کس طرح بھرے گا۔

2006میں امریکی حکومت نے“food insecure” یعنی غذائی طور پر غیرمحفوظ کی اصطلاح کی جگہ “hunger” یعنی بھوک کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ یہ ان لوگوں کے لیے تھی جنہیں گذشتہ سال کھانے کو کافی خوراک میسر نہیں تھی۔ نام جو بھی ہو، امریکا میں بھوکے لوگوں کی تعداد ڈرامائی طور پر بڑھ رہی ہے۔ 2012 تک یہ 48 ملین پر پہنچ چکی تھی، گویا 1960 کے عشرے سے اس میں پانچ گنا اضافہ ہوا، جس میں 1990کے عشرے سے ہونے والا 57 فی صد اضافہ بھی شامل ہے۔

نجی طور پر چلائے جانے والے پروگرام جیسے فوڈ پینٹریز اور سوپ کچنرز بھی اچھے خاصے پھیل چکے ہیں۔ 1980 میں ملک بھر میں خوراک کے چند سو پروگرام تھے، لیکن آج ان کی تعداد 50,000تک پہنچ چکی ہے۔ خوراک کی تلاش لاکھوں امریکیوں کے لیے سب سے بڑی درد سری بن چکی ہے۔ یہ لوگ ہر وقت خوراک کے لیے فکرمند رہتے ہیں، اگر ایک وقت پیٹ بھرلیتے ہیں تو دوسرے وقت کی بھوک کا خیال ان کو پریشان کرتا رہتا ہے۔

رپورٹس کی مطابق ریاست ہائے متحدہ امریکا کے ہر چھے افراد میں سے ایک کو سال میں کم از کم ایک بار خوراک سے محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب کہ یورپی ملکوں میں یہ تعداد بیس میں سے ایک ہے۔

آج امریکا میں بھوک کی گواہی وہ ریفریجریٹر دے رہے ہیں جو کھانے پینے کی اشیا سے خالی ہیں۔ ان میں چند ایک بیجوں، ان سے تیار کردہ کیچپ اور سرسوں کے سوا کچھ نہیں ہے، لیکن پھر بھی یہ لوگ پریشان نہیں ہیں۔ یہاں میکرونی اور پنیر کو ملاکر کھانے کی بعض اچھی اور صحت بخش چیزیں تیار کی جاتی ہیں۔ تازہ پھل اور سبزیاں مہینے کے چند ابتدائی دنوں میں مل سکتے ہیں ورنہ کم آمدنی والے غریبوں کے لیے ان کا تصور بھی محال ہوچکا ہے۔

یہاں آپ کو بھوکے کاشت کار بھی ملیں گے اور ریٹائرڈ اسکول ٹیچرز بھی، بعض خاندان بھی بھوکے ہیں اور ضروری کاغذات سے محروم نقل مکانی کرنے والے بھی خوراک سے محروم ہیں۔ غرض یہاں بھوک کا مقابلہ کرنا مشکل ہے، مگر یہ کام ہنگامی بنیادوں پر کیا جارہا ہے۔ ایک چیز یہ ہے کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک کے لوگ بھوکے ہوسکتے ہیں، یہ کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ بعض لوگ بھوکے خاندانوں سے کہتے ہیں کہ تمہیں خوراک کی کیا ضرورت ہے؟ تم تو شکل سے بھوکے نہیں لگتے۔ ذرا اپنا وزن دیکھو، تم سبھی لوگ موٹے تازے اور صحت مند ہو، بھوکے تو ایسے نہیں ہوتے۔

پورٹی اینڈ پراسپیرٹی پروگرام آف دی سینٹر فار امریکن پراگریس کی نائب صدر میلیسا بوٹیک کا کہنا ہے:’’حقیقت یہ ہے کہ صحت اور مٹاپا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اگر کوئی انسان موٹا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ صحت مند بھی ہو، بلکہ اکثر موٹے لوگ ہی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بعض لوگ کھانا کھاکر اپنا پیٹ تو بھرلیتے ہیں، مگر اس سے انہیں مطلوبہ غذائیت نہیں ملتی جس کے وجہ سے بعض مٹاپے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔‘‘

امریکا میں بہت سے لوگوں کے لیے وزن میں اضافہ ناقص غذا کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے، یہ ایک بلاواسطہ نقصان ہے جس کے بذات خود بھی نقصان ہوتے ہیں۔ اب چوں کہ بھوک کا روپ بدل چکا ہے، اس لیے اس کا پتا بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ امریکی ریاست ٹیکساس کا ٹائون آف اسپرنگ آڑی ترچھی گلیوں، سایہ دار درختوں اور مکانوں کے سامنے لگے ہوئے احاطوں کا شہر ہے۔

دیکھنے میں تو یہ جگہ ٹھیک لگتی ہے، لیکن یہاں بھی بھوک کا مسئلہ موجود ہے۔ مضافاتی علاقے امریکی خوابوں کی تعبیر ہیں، لیکن یہاں غربت بھی مسلسل پروان چڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے یہ علاقے بھی منہگے ہونے لگے ہیں اور کام کرنے والی افرادی قوت خسارے میں مبتلا ہوگئی ہے۔ آج مضافاتی علاقے شہری علاقوں سے بھی زیادہ تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ 2007 سے اب تک یہ تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔

امریکا کے مضافاتی علاقے ’’بھوکے‘‘ دکھائی نہیں دیتے، وہاں کے لوگ سستی کاریں بھی چلاتے ہیں، اب کار کے بغیر ان کا گذارہ نہیں ہوسکتا، بلکہ کار ان کے لیے ایک اہم اور بنیادی ضرورت بن چکی ہے، ہاں، لگژری کاریں ان کے پاس نہیں ہیں۔ وہاں سستے لباس اور سستے کھلونے ملتے ہیں جس سے یہ مضافاتی علاقے اوسط درجے کے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کنزیومر گڈز یا اشیائے صارفین قسطوں پر مل جاتی ہیں، اس لیے بھوکوں کے پاس فون اور ٹی وی بھی ہوتے ہیں۔

نارتھ ویسٹ ہیوسٹن کے مضافاتی علاقے اوسط درجے کے لوگوں کے لیے بہترین جگہیں ہیں جہاں معمولی اجرت والا بھی پیٹ بھرسکتا ہے۔ یہاں حکومت کی امداد حاصل کرنے والے خاندان بھی آباد ہیں جن کے پاس سبھی ضروریات زندگی موجود ہیں اور یہ لوگ اپنے بھرے پرے خاندان کے ساتھ یہاں رہ رہے ہیں جن میں کئی افراد کام کرتے ہیں اور باقی سب کھانے والے ہیں۔ ان علاقوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کام کرنے والے افراد کو اجرت بہت کم ملتی ہے جس سے گذارہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے انہیں خوراک کی فراہمی کی ذمے داری یا تو حکومت پر عائد ہوتی ہے یا پھر سوسائٹی پر۔

جیفرسنز ہر ماہ 125ڈالرز خوراک کی امداد کی صورت میں وصول کرتے ہیں اور ان کی بستر علالت پر پڑی بوڑھی ماں کی خوراک کا انتظام ایک فلاحی ادارہ کرتا ہے۔ ایسے گھرانوں میں کچھ ڈبا بند پھلیاں یا خشک سبزیاں اور مشروبات کی بوتلیں تو ہیں، مگر یہ تازہ خوراک جیسے پھلوں اور سبزیوں سے محروم ہیں۔ ایسے گھرانوں کی مائیں اپنے بچوں کو سمجھاتی ہیں کہ وہ خوراک دیکھ بھال کر استعمال کریں، اسے ضائع نہ کریں اور جو مل جائے صبر شکر کے ساتھ کھائیں ورنہ انہیں فاقے کرنے پڑیں گے اور وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

ہیوسٹن کی جیکولین کرسچین ایک ایسی ماں ہے جو کل وقتی ملازمت کرتی ہے، اس کے پاس سیڈان ہے اور وہ سادہ لباس پہنتی ہے۔ وہ ایک ہوم شیلٹر (سرکاری پناہ گاہ) میں رہتی ہے۔ اس کا پندرہ سالہ بیٹا جوزا ریان اچھے لباس پہننے کا شوقین ہے، لیکن غربت کے ہاتھوں مجبور ہے۔ اس فیملی کو 325 ڈالرز ماہانہ خوراک کی امداد کی صورت میں ملتے ہیں، لیکن جیکولین کو مستقبل کی فکر ہے، کیوں کہ اسے دکھائی دے رہا ہے کہ اس کے پاس نصف سال کے لیے خوراک کا انتظام نہیں ہے۔

وہ ایک گھریلو معاون صحت کے طور پر کام کرتی ہے جس کا اسے 7.75ڈالر فی گھنٹے کے حساب سے معاوضہ ملتا ہے۔ وہ اپنا زیادہ وقت کام میں لگانا چاہتی ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ کماسکے اور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرسکے، اسی لیے وہ اکثر جنرل اسٹورز سے بنی بنائی خوراک لے لیتی ہے۔ اس کے پاس گھر جانے اور کھانا پکانے کا وقت نہیں ہے۔ اس کے بچے سڑکوں اور دکانوں پر لگے کھانوں کے اشتہارات دیکھ کر اس سے انہیں لینے کی ضد کرتے ہیں، مگر جیکولین انہیں پیار سے سمجھا بجھاکر آگے لے جاتی ہے۔

Osage, Iowaکی کیئرا ریمز کا کہنا ہے کہ امریکا میں سستی اور غذائیت سے بھر پور خوراک حاصل کرنا مشکل نہیں، شرط یہ ہے کہ آپ کو یہ معلوم ہو کہ یہ کام کس طرح کرنا ہے۔ امریکا کے کم آمدنی والے لوگوں کو اس کے بارے میں بہت کم معلوم ہے۔ کیئرا 650ڈالرز ماہانہ کی امدادی رقم وصول کرکے بڑی احتیاط کا مظاہرہ کرتی ہے اور اپنے بچوں کے لیے توانائی سے بھرپور خوراک کا انتظام کرتی ہے۔ اس نے اپنے صحن میں سبزیاں اگا رکھی ہیں۔ وہ مشروم کا استعمال بھی سیکھ چکی ہے اور زہریلی اور بے ضرر کھمبیوں میں فرق کرسکتی ہے۔ اس نے کتابوں کا مطالعہ کرکے صحت بخش خوراک کا حصول سیکھ لیا ہے۔

لیکن امریکا کے بیش تر غریبوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ یہ معلوم کرسکیں کہ صحت بخش غذا کونسی ہے اور یہ کس طرح حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ لوگ متعدد کام کرتے ہیں، فل ٹائم بھی اور پارٹ ٹائم بھی، نائٹ شفٹوں میں کام کرتے ہیں اور بھاگتے دوڑتے کھانا کھاتے ہیں، اسی لیے یہ اپنی خوراک سے بالکل لطف اندوز نہیں ہوپاتے، ایسے میں وہ خوراک ان کا جزو بدن کیسے بنے گی؟

آج کل فاسٹ فوڈ سستے ہوتے ہیں، ان میں کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا، صرف بازار جانا ہوتا ہے۔ اسی طرح پراسیسڈ فوڈز ہوتے ہیں۔ جب غریب کو بھوک لگتی ہے تو وہ اس خوراک کا انتخاب کرتا ہے جس کا حصول اس کے لیے آسان ہو اور جس میں اس کی فیملی کی بھلائی بھی ہو یعنی وہ خوراک سستی ہو۔ یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ دیہی لووا کے لوگ غذائیت کی کمی کا شکار ہیں جب کہ وہ اس علاقے میں رہتے ہیں جہاں دور افق تک صحت بخش اناج کے جنگل پھیلے ہوئے ہیں۔

لووا کی زمین زرخیز ترین ہے، وہاں کے لوگ اپنی زمین کو ’’بلیک گولڈ یا سیاہ سونا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ 2007میں امریکا میں پیدا ہونے والے مجموعی اناج اور سویابین کا ایک بٹا چھ اسی علاقے میں پیدا ہوتا ہے، اس کے باوجود اسی جگہ کے لوگ بھوک کا شکار ہیں اور غذائیت سے محروم ہیں۔

انہی فصلوں پر پلنے والی گایوں کا گوشت یہاں کے لوگ استعمال کرتے ہیں اور یہاں کے پہاڑوں کی شبنم سے اناج سے تیار کردہ مشروب میٹھے کیے جاتے ہیں، اسی علاقے کی مرغی کے گوشت سے نگٹس تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ وہ فوڈز ہیں جنہیں امریکی حکومت اپنے شہریوں کو بھی فراہم کرتی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔2012  میں امریکی حکومت نے 11بلین ڈالر کی رقم ان اشیا کی سبسڈی کے لیے فراہم کی تھی۔ حکومت تازہ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کے لیے بھی اچھی خاصی رقم خرچ کرتی ہے اور اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ ان سے شہریوں کو تمام ضروری غذائیت مل سکے۔

عام جنرل اسٹورز پر تازہ فوڈز کی قیمتیں کافی زیادہ ہیں۔ 1980 کے عشرے کے شروع سے پھلوں اور سبزیوں کی اصل قیمت 24فی صد تک بڑھ گئی ہے۔ دوسری جانب الکحل سے پاک مشروبات، بنیادی سوڈے، اناج کے شربت سے تیار کردہ مشروبات کی قیمتیں 27فی صد تک کم ہوگئی ہیں۔

خوراک کے ایک عالمی ماہر راج پٹیل کا کہنا ہے:’’ہم نے ایسا سسٹم تخلیق کیا ہے جس کی وجہ سے فوڈز کی مجموعی قیمتیں کم ہوں گی، لیکن اس سے صحت بخش اور معیاری فوڈز نہیں مل سکیں گے۔ لوگوں سے صرف یہ کہنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا کہ وہ پھل اور سبزیاں کھائیں، کیوں کہ اصل اور بنیادی مسئلہ ان کی آمدنی کا ہے، ان کی غربت انہیں یہ سب نہیں کھانے دیتی۔‘‘

جب کرسٹینا کا فریج خالی ہونا شروع ہوتا ہے تو وہ بچوں کو سمجھاتی ہے کہ شام کی چائے میں اسنیکس وغیرہ نہ لیں، مگر جب بھی موقع ملتا ہے تو یہ بچے نمکین بسکٹ کھالیتے ہیں، کیوں کہ یہ فوڈ بینک سے مل جاتے ہیں۔ وہ دکھ بھرے لہجے میں کہتی ہے:’’میں جانتی ہوں کہ یہ نمکین بسکٹ ان کی صحت کے لیے اچھے نہیں ہیں، مگر جب بچے بھوکے ہوتے ہیں تو میں انہیں یہ نہیں بتاتی، بلکہ خاموش رہتی ہوں اور میرے بچے مجبوری کے عالم میں وہ غیرصحت بخش نمکین بسکٹ کھالیتے ہیں، اس طرح کم از کم وہ بھوکے تو نہیں رہتے ناں!‘‘

کرسٹینا اور اس کے شوہر نے آج بھی اپنی کوششیں ترک نہیں کی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اور ان کے بچے اچھی اور صحت بخش خوراک لیں۔ اب تو انہوں نے بھی اپنے گھر کے عقب میں کچھ سبزیاں بودی ہیں، ساتھ ہی شکرقندی بھی لگادی ہے۔ اس سب کے بعد بھی کرسٹینا جب سپر مارکیٹ یا فوڈ بینک جاتی ہے تو اسے ہر بار ایک جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ دونوں مقامات پر صحت بخش خوراک اس کی پہنچ سے باہر ہے۔

جب بھی فوڈ اسٹیمپس آتے ہیں تو کرسٹینا کوشش کرتی ہے کہ کسی طرح وہ انگور اور سیب ضرور لے لے کرسٹینا کے بچے پھل بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر غذائی امداد گوشت، انڈے اور دودھ کی خریداری پر خرچ ہوجاتی ہے، کیوں کہ مذکورہ بالا اشیا فوڈ بینک فراہم نہیں کرتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم بھوکے نہیں رہتے، ہمیں کھانے کو کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے، چاہے وہ صحت بخش ہو یا نہ ہو، لیکن بعض اوقات ہمیں بھوکا بھی رہنا پڑتا ہے۔

یہ امریکا میں بھوک اور غربت کی ایک سچی تصویر ہے جو دنیا بھر کے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ اگر دنیا کے ایک دولت مند اور ترقی یافتہ ملک کے شہریوں کی یہ حالت ہے تو غیرترقی یافتہ یا بنیادی سہولیات سے محروم لوگوں کی حالت کس قدر سنگین ہوگی۔ کیا ہمارے پاس اس کا کوئی حل موجود ہے یا وقت پڑنے پر ہی اس کے لیے بھاگ دوڑ کی جائے گی؟

حلال کی اسلامی اصطلاح ۔۔۔ اب سرمایا داری نظام معیشت کے پنجے میں

$
0
0

اسلام آباد: آج کل عالمی سطح پر حلال خوراک اور اس کی ذیلی مصنوعات کی صنعت کی مالیت کئی سو ارب ڈالر لگائی جارہی ہے۔

مسلمان صارفین کے لیے تیار کردہ حلال فوڈ اور حلال پروڈکٹس کی بین الاقوامی منڈی اس لیے بھی تیزی سے پھیل رہی ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی آبادی اور قوت خرید میں تیزی سے اضافہ ہواہے جس کی وجہ سے حلال مارکیٹ میں جگہ بنانے کے لیے جہاں مسلم ممالک ہاتھ پاوں مارہے ہیں وہیں اس کاروبار اور پیداواری صنعت سے فائدہ اٹھانے کے لیے غیر مسلم بھی سرفہرست ہیں۔

ورلڈ حلال فورم کے مطابق بین الاقوامی سطح پر 2009 میں حلال فوڈ کی مارکیٹ 632 ارب ڈالر تھی۔ جب کہ حلال انڈسٹری کے ماہرین کاکہنا ہے کہ عالمی سطح پر حلال مارکیٹ کا سالانہ حجم ایک سے دو کھرب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔صرف یورپ میں قریباً 66 ارب ڈالر سالانہ کاحلال گوشت  فروخت ہوتا ہے ۔ امریکی مسلمان تقریباً 13ارب ڈالر سالانہ حلال فوڈ پر خرچ کرتے ہیں جب کہ خلیجی ممالک حلال درآمدات  پر سالانہ تقریباً 44 ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں ۔ بھارت میں حلال فوڈ کی فروخت کا اندازہ21 ارب ڈالر سالانہ ہے جب کہ انڈونیشیا میں یہ درآمد70 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے ۔

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کی کل آبادی کا اندازہ 1.6 ارب لگایا جارہا ہے،اس آبادی کی بہت بڑی اکثریت سؤر کا گوشت یا اس سے تیار کردہ مصنوعات اور شراب پینے سے پرہیز کرتی ہے جب کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد ایسی مصنوعات کا استعمال ہی نہیں کرتی۔ لیکن دوسری جانب عام صارف کو علم ہی نہیں ہوتا کہ پانی کس طرح حلال یا حرام ہوسکتا ہے؟

منرل واٹر جس پلانٹ کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی کچھ آمیزش لازمی ہوتی ہے جو کئی ذرائع سے ممکن ہے ان میں ایک ذریعہ ہڈیاں بھی ہیں، اگر ہڈیاں خنزیر (سور) کی ہوں تو پانی حلال کے زمرے میں نہیں آئے گا۔چاولوں کی پا لشنگ میں استعمال ہونے والے کیمیکل میں کوئی بھی ایسا عنصر شامل نہیںہونا چاہیے جو حرام اشیاء سے تیار ہو۔ لیدر مصنوعات اور جینز بنانے میں جو کیمیکل استعمال ہوتے ہیں وہ سور کی چربی سے حاصل ہوتے ہیں، شرعی اعتبار سے ان کے ساتھ نماز پڑھنا درست نہیں۔

اسی طرح پرفیومز میں عموماً الکوحل اور ایتھانول استعمال ہوتا ہے جو حلال نہیں، اس کو لگاکر عبادت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر مصنوعات کی فنانسنگ کے لیے بینکنگ کا سودی نظام استعمال ہو تو یہ بھی حلال نہیں رہتا۔ اس لیے حلال فوڈ سے مراد محض مختلف قسم کا گوشت ہی نہیں بل کہ اس اصطلاح  میں اب سروسز (خدمات)، مشروبات، کاسمیٹکس، فارماسیوٹیکلز، پرفیوم ، چاول، پانی، پولٹری کی خوراک، چمڑے اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات بھی شامل ہو چکی ہیں۔

ان مصنوعات کی تیاری کے طریقہ کار میں تمام کیمیکلز اور اجزاء اسلامی نقطہ نظر سے حلال ہونے چاہیں اور حرام عنصر کسی بھی لحاظ سے شامل نہیں ہونا چاہیے۔ حلال کا تصور ایک اسلامی قدرہے جس کی رو سے ان مصنوعات کی فنانسنگ، سورسنگ، پروسیسنگ، اسٹوریج اور مارکیٹنگ میں کوئی حرام عنصر یا عمل شامل نہیں ہونا چاہیے ۔ حلال سرٹیفکیشن کرتے وقت پروڈکٹ اور اسے بنانے کے پروسیس دونوں کو ٹیسٹ کیا جانا لازمی ہوتا ہے اور اگر ان دونوں میں کوئی حرام چیز استعمال نہیں کی گئی تو اس کا حلال سرٹیفکیشن جاری کیا جاسکتا ہے۔

دل چسپ امر یہ بھی ہے کہ انڈونیشیا کو سب سے زیادہ بیف آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ فراہم کر رہا ہے۔ اسی طرح برازیل ایک ملین حلال چکن 100 سے زائد ممالک کو برآمد کرنے کے علاوہ 3 لاکھ میٹرک ٹن حلال بیف سعودی عرب، خلیجی ممالک، مصر اور ایران کو  برآمد کرتا ہے۔دوسری جانب فرانس سالانہ ساڑھے سات لاکھ میٹرک ٹن حلال چکن سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، یمن اور دوسرے اسلامی ممالک کو برآمد کرتا ہے۔

امریکا اب دنیا میں بیف کا تیسرا بڑا ایکسپورٹر ہے، جس کی حلال بیف کی برآمد 80 فی صد تک پہنچ چکی  ہے۔ نیوزی لینڈ دنیا میں بیف کا چوتھا بڑا ایکسپورٹر ہے اور اس کی حلال بیف کی برآمدات 40 فی صد ہے۔ دبئی انڈسٹریل سٹی کے سربراہ عبداللہ بلھول کے مطابق حلال مصنوعات کی صنعت اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ عالمی سطح پر اس کی مالیت اگلے پانچ سال کے دوران دگنی ہو جائے گی۔ چین، یورپ اور امریکا اسلامی ممالک میں حلال فوڈ برانڈ متعارف کروا کے ملین ڈالرز کی ایکسپورٹ کررہے ہیں۔

سعودی عرب میں عمرے اور حج کے دوران اربوں ڈالر کی تسبیح ، جائے نماز اور ٹوپیاں چین سے درآمد کی جاتی ہیں جو مسلم امہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آج کل حلال مصنوعات حفظان صحت اور کوالٹی کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف ہوچکی ہیں اس لیے ان کی طلب صرف مسلمان صارفین تک ہی محدود نہیں بل کہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکار بھی حلال اشیاء خریدنے لگے ہیں۔ دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی حلال مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ حصے کیلئے کوشاں ہیں۔

حلال اشیاء کی سرٹیفکیشن( اسٹینڈرڈ کی سند) انڈونیشیا، ملائیشیا اور بہت سے غیر مسلم ممالک بشمول چین، تھائی لینڈ، فلپائن، فرانس، نیدرلینڈ، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، برازیل اور امریکا میں نافذ العمل ہے۔ اس وقت دنیا کے 25 ممالک میں حلال اشیاء کی  سرٹیفکیشن کے 200 سے زیادہ ادارے کام کر رہے ہیں لیکن بد قسمتی سے ان ممالک میں زیادہ ملک غیر مسلم  ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب ہے۔ 2050 تک دنیا کی یہ آبادی بڑھ کر نو ارب ہو جائے گی۔ تب عالمی آبادی میں اضافے کا 70 فی صد حصہ مسلمان ملکوں میںہو گا۔

امریکا میں حلال مصنوعات کے تیار کنندگان کو سرٹیفیکیٹ جاری کرنے والے ادارے فوڈ اینڈ نیوٹریشن کونسل آف امریکا کے مطابق دنیا میں حلال مصنوعات کی منڈی کی مالیت کا اندازہ 20 ارب ڈالر لگایا جارہا ہے، یہ ادارہ اس کی مارکیٹنگ تو کر رہا ہے لیکن دوسری یہ نہیں بتاتا کہ  یورپ میں ٹافیوں اور میک اپ پراڈکٹس کی 80 فی صد ورایٹی میں100 فی صد سْور کی چربی استعمال ہوتی ہے۔حال ہی میں ایک الجیرین نژاد فرانسیسی مسلمان نے ایک کتاب حلال فوڈ اور حلال گوشت کے حوالے سے لکھی ہے جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ نوے فی صد حلال گوشت حقیقت میں غیر اسلامی طریقے سے ملتے جُلتے طریقے سے ذبح کر دیا جاتا ہے، جو حلال نہیں رہتا۔

اُن کا کہنا ہے کہ یورپ بھر میں ذبح کرتے وقت ایک لمبی چین پر مرغی کوچونچ سے لٹکادیا جاتا ہے پھر جب یہ مرغی کٹر یعنی کہ چْھری کے سامنے پہنچتی ہے تو آڈیو ٹیپ سے تکبیر کی آواز آتی رہتی ہے یوں چکن کو ذبح کر کے  حلال کہ دیا جاتاہے۔ ان کا یہ موقف ہے کہ جب چکن کو ذبح کیا جاتاہے تو اس وقت کسی مسلمان تکبر پڑھنے والے کو وہاں کھڑا ہونا چاہیے  یہ مکینکل ذبح کاعمل اسلامی نہیں ۔ اس لئے  ایسے گوشت کو حلال نہیں کہا جا سکتا۔  شاید یہی وجہ ہے کہ وہ یورپ میں بکنے والے چکن کو نوے فی صد حرام قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آڈیو ٹیپ سے تکبیر پڑھنے کا انتظام بھی صرف تیس فی صد ذبح خانوں میں ہے باقی تمام ذبح خانے یورپی طریقے سے ہی مرغیوں کو ہلاک کرکے ہی حلال کا اسٹیکر لگا کر گوشت مارکیٹ میں سپلائی کردیتے ہیں۔

ماضی قریب میں یورپ کے اندر کوئیک فاسٹ فوڈ کے منافع کو دیکھتے ہوئے تمام بڑے اسٹور حلال اشیا ء بیچنے کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔ عوامی ضرورت کو دیکھتے ہوئے ہر اسٹور میں حلال گوشت،حلا ل ٹافیاں،حلال بیکری اور حلال میک اپ کا سامان بھی فروخت ہورہا ہے۔ فرانس بھر میں چکن شاپ،چکن کارنر اور چکن سپاٹ کے نا م سے بہت سے حلال فاسٹ فوڈ کھل چکے ہیں جن کی اکثریت کے مالک  تومسلمان ہیں لیکن ان فاسٹ فوڈز کوگوشت سپلائی کرنے والی کمپنی غیر مسلموں کی ہی ہے۔ اس لیے اس بات کی گارنٹی نہیں کہ جوگوشت مہیا کیا جارہا ہے وہ حلال ہے۔

بیلجیم سے تعلق رکھنی والی ایک مسلم تنظیم کے سربراہ کریم جینارق کا کہنا ہے کہ اگرمیں حلال کے معاملے میں نرمی سے بھی کام لوں، تو پھر بھی میں یہ کہوں گا کہ صرف پانچ فی صد مرغیاں ہی حلال ہوتی ہیں۔آج تک جتنے بھی گوشت کے لیبارٹریز ٹیسٹ سامنے آئے ہیں۔ان سب میں سْور کے گوشت کے نشانات پائے گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی مشین سے حلال اور حرام جانور کاٹے جاتے ہیں۔ بیلجیم میں بھی یہ قانون ہے کہ جانور کو تکلیف نہ ہواس لیے جانور کو ذبح کرنے سے قبل الیکٹرک شاک لگا کر ماربنا ضروری قرار دیا گیا ہے، جسے اسلامی نکتہ نظر میں حرام قرار دیا گیا ہے۔

فرانس کی کیٹل فارمر کی تنظیم کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ پیرس میں عام شہریوں کے پاس یہ چوائس نہیں ہے کہ وہ کیا کھائیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ جانوروں کو یورپی اندازمیں ذبح کرنے ساتھ مذہبی طریقے سے ذبح کرنے کا بھی انتظام ہو جائے۔ قوم پرست جماعت کی طرف سے حلال گوشت کا اسکینڈل سامنے لانے کا مقصد سراسر سیاسی تھا حالاں کہ انہیں بہ خوبی علم ہے کہ ملک بھر کے سیکڑوں ذبح خانوں میں سے صرف چار ذبح خانوں میں حلال گوشت کا انتظام ہے۔ باقی فرانس میں جو گوشت سب کو سپلائی کیا جارہا ہے وہ حلال نہیں ہوتا ۔ فرانس میں گوشت کی ہول سیل مارکیٹ میں تین لاکھ ٹن سالانہ گوشت فروخت کیا جاتا ہے جس میں دس فی صد حصہ حلال بھی بتایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے اسے کنٹرول کرنا مشکل ہی نہیں بل کہ ناممکن ہے۔

ایک بین الاقوامی گروپ نے فرانس میں حلال مصنوعات کی شناخت کے لیے ایک سافٹ وئیر” Halal  “Just  بنایا ہے یہ سافٹ وئیرآئی فون اور اینڈورائڈ موبائل فون کے ذریعہ کام کرے گا ۔ایران کی ایک خبررساں ایجنسی نے  media”  “agro نیٹ ورک حوالے سے کہا ہے کہ یہ سافٹ وئیر کوڈ ریڈر ہے اور پچاس ہزار غذائی مصنوعات کی پہچان کرسکتا ہے، یہ سافٹ وئیرمطلوبہ مصنوعات کو تین قسموں حلال ، حرام اور مشتبہ قرار دیتا ہے۔

اسمارٹ گیگ کمپنی کے ڈائریکٹر جنرل ”ریس مابیک نے اس سافٹ وئیر بنانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا: میں مسلمان ہوں اور اسلامی تعلیمات پر اعتقاد رکھتا ہوں اور مجھے علم ہے بڑے بڑے سپر سٹورز سے حلال مصنوعات کی خریداری بڑا مشکل کام ہے ۔ کیوں کہ کھانے کی مصنوعات میں 1200 کے قریب غذائی اجزاء استعمال ہوتے ہیں۔اب ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم جو کچھ کھارہے ہیں اس میں استعمال ہونے والا مواد حلال ہے یا حرام ہے۔ یہ سافٹ وئیر رمضان المبارک میں فروخت کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔

حلال اور حرام مصنوعات کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ بیس سے پچیس فی صد مہنگی فروخت ہوتی ہیں اسی لیے اس میں فراڈ کی گنجائش بہت زیادہ ہے۔ حلال فوڈ کے بارے میں  بہت سے شبہات پائے جاتے ہیں کیوں کہ یورپ میں جتنی بھی کمپنیاں حلال فوڈسپلائی کرتی ہیں،اُن میں سے زیادہ تر یورپی طرز کے گوشت کی اسپلائی کا کام بھی کرتی ہیں اسی لئے شکو ک شبہات پائے جاتے ہیں کہ وہ منافع کمانے کی خاطر عام گوشت کو بھی حلال کا نام دے بڑی آسانی سے فروخت کرجاتے ہیں۔

فرانس بھر میں ٹرکش سینڈوچ، ڈونرکباب اور برگر کا رواج عام ہے ان کے مالکا ن کی اکثریت کْرد نسل کے ترکوں کی ہے جنہیں حلال اور حرام اور اسلامی تعلیمات سے زیادہ لگاؤ نہیں،وہ صرف اپنے گاہکوں کو مطمئن کرنے کے لیے دوکانوں پر حلال سرٹیفکیٹ چپکائے رکھتے ہیں۔

اسی طرح حلال ریسٹورنٹس کی اکثریت شراب بھی فروخت کرتی ہے ان سے حلال گوشت کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی قوت خرید اور آبادی بڑھنے کے خوف اور اس مارکیٹ میں یہود و نصارہ کو اپنی مرضی کا حصہ نہ ملنے کے خوف سے اب حلال گوشت پر پابندی لگوانے کے لیے یورپ میں ایک طبقہ متحرک ہو چکا ہے جس کا خیال ہے کہ اگر یورپ میں اسکارف، نقاب اور برقع پر پابندی کے بعد حلال مصنوعات پر بھی پابندی لگوا دی جائے تو بہت سے مسلمان یورپ چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یعنی مسلمانوں کو یورپ اور اسلامی تعلیمات میں اب  ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

اِن لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمان حلال کھانے پر سودا بازی نہیں کریں گے اور یوں وہ یورپ چھوڑدیں گے۔نائن الیون کے مسلمانوں اور اسلام پر تنقید کا یہ ایک نیا ہتھیار سامنے آیا ہے۔جب کہ دوسری طرف حلال اور حرام کی تمیز سے نا بلد غیرمسلم ممالک اور ان کے ماہرین اس صنعت سے وابستہ ہو چکے ہیں۔  پاکستان میں حلال مصنوعات کی سرٹیفکیشن کے لیے پارلیمنٹ سے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے لیکن حکم رانوں کے پاس  اس کام کے لیے وقت ہی نہیں۔

گذشتہ دنوں کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے حلال مصنوعات کی سرٹیفیکیشن کے حوالے سے پارلیمنٹ سے قانون سازی کرنے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیاہے اگر قانون سازی میں مزید تاخیر کی گئی تو علماء و مشائخ سمیت اس ضمن میں کی جانے والی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی۔

کے سی سی آئی نے حلال مصنوعات کی سرٹیفیکیشن سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا۔ اُن دنوں کراچی چیمبر آف کامرس کے دورے پر تھائی حلال سائنس سینٹر چولالونگ کورن (Chulalongkorn) یونیورسٹی (ایچ ایس سی سی یو)کے ایک4 رکنی وفد نے بھی اس بات زور دیاتھا ۔اس موقع پر تجویز پیش تھی کہ حلال سرٹیفیکیشن اور اس کے تصور کو اجاگر کرنے کے لئے اسٹیک ہولڈرز، ماہرین اور علماء و مشائخ کو ایک چھت تلے مشترکہ طور پر تحقیقی کام سرانجام دینے کی دعوت دی جانی چاہیے تاکہ حلال سرٹیفیکیشن کے حوالے سے درپیش چیلنجز سے باآسانی نمٹا جا سکے۔

غزہ کے خون نے اسرائیل کو کیسے رسوا کیا؟

$
0
0

غزہ فلسطین پر وحشت ناک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ ایک بارپھرملبے کا ڈھیر بنا، اب تک اس کے دوہزار سے زائد شہری شہید اور نوہزار زخمی ہوئے۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان  نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیاکہ انھوں نے اہداف حاصل کرلئے۔ حماس کے ترجمان سمیع ابوزہری کہتے ہیںکہ اسرائیل غزہ میں 100فیصد ناکام رہاہے۔کس کا دعویٰ درست ہے ، یہ اہم ترین سوال ہے ۔ اسرائیلی وزرا کے بیانات دیکھیں تو اسرائیلی فوجی ترجمان کا دعویٰ غلط ثابت ہوتاہے۔ ظاہر ہے اسرائیلی وزرا حقیقت سے آنکھ چرا نہیں سکتے جبکہ فوج کا مسئلہ نوکری بچاناہے۔

اسرائیلی وزیرانصاف زیپی لیونی نے دوران جارحیت اعتراف کیا کہ اسرائیل کوسنگین حالات اور بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان کا سامنا ہے۔تین روزہ جنگ بندی کے بعداسرائیلی وزیر سیاحت عوزی لانڈو نے بیان دیاکہ اسرائیلی فوج اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان کے بقول:’’ ہم غزہ کی پٹی میں ایک اسٹرٹیجک معرکہ میں ہار چکے ہیں۔

اسرائیلی فوج کی مدمقابل کو ڈرانے کی صلاحیت ڈرامائی طور پر تبدیل( کم) ہوئی ہے، اسرائیل نے غزہ پر زمینی، فضائی اور بحری حملے کئے لیکن وہ حماس کا زور توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسرائیلی وزیر سیاحت کے بقول اب فوج حماس کے ساتھ فیصلہ کن لڑائی میں پس و پیش کر رہی ہے۔ اخبار لکھتاہے کہ لانڈو بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت پرسخت غم زدہ تھے۔

حالیہ جارحیت کے بعد سامنے آنے والے ابتدائی اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی جنگ کے اخراجات9 کھرب اسرائیلی شیکل سے بڑھ چکے ہیں۔ ایک طرف یہ بھاری بھرکم جنگی اخراجات، دوسری طرف معاشی نقصان۔ سب سے زیادہ نقصان سیاحت کے شعبے کو پہنچا۔’نیوز ون‘ نامی پورٹل نے دعویٰ کیا ہے کہ سیاحت کے شعبے میں فضائی کمپنیوں کی پروازوں اور اس سے قبل ہوٹلوں میں کنفرم بکنگ کی منسوخی کے باعث اسرائیلی معیشت کو 2.2 کھرب کا نقصان پہنچا۔غزہ پر اسرائیلی حملے کے باعث صنعتی سرگرمیاں ماند پڑنے سے 445 ملین شیکل کا نقصان پہنچا۔

جنوبی اسرائیل میں واقع فیکٹریوں میں کام بند رہا، ملازمین راکٹ حملوں کے باعث کام پر نہیں آسکے۔ ایسی صورتحال غزہ سے 40کلومیٹر دور اسرائیلی علاقے کے اندر قائم صنعتی زون میں بھی دیکھنے کو آئی، وہاں قائم انڈسٹری کو 180 ملین شیکل جبکہ اسرائیل کے وسطی علاقے سے حیفا تک موجود صنعتی اداروں کو بھی غزہ جنگ کی وجہ سے 220 ملین شیکل  خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ راکٹ باری سے کل 350 (کاروباری اور رہائشی )عمارتیں متاثر ہوئیں، ان کی مرمت پر 50 ملین شیکل لاگت آئے گی۔ جنوبی ریجن میں غزہ جنگ کے باعث عمومی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ 500 ملین شیکل لگایا گیا۔

اسرائیلی فوج کے ایک اعلی عہدیدار نے اعتراف کیا ہے کہ اگر ان کی پیادہ اور آرمڈ انفنٹری کو اسرائیلی فضائیہ کے ایف سولہ، ایف پندرہ طیاروں سمیت ہیل فائر میزائلوں سے لیس جاسوسی طیاروں کا کور حاصل نہ ہوتا تو وہ غزہ میں ایک ملی میٹر تک بھی اندر آنے کی جرات نہ کرتے۔ اسرائیل میں گرما گرم خبروں کی اشاعت کے لئے مشہور متعدد ویب پورٹلز نے اسرائیلی فوجی افسر کا یہ بیان جلی سرخیوں میں شائع کیاکہ پیادہ اسرائیلی فوج کے غزہ میں داخلے سے ایف سولہ اور ایف پندرہ طیاروں نے ایک سے ڈیڑھ ٹن وزنی بم گرا کر غزہ کی عمارتیں تباہ کیں۔

یہ عمارتیں اسرائیل غزہ سرحد پر واقع تھیں، اس کے بعد صہیونی فضائیہ نے مختلف طرز کے لڑاکا طیاروں کی مدد سے علاقے میں 250 کلوگرام وزنی بم گرائے۔ اتنے بڑے پیمانے پر بمباری کے بعد بھی پیدل فوج کے سورمائوں نے اس خوف سے غزہ کے علاقے میں پیش قدمی نہیں کی کیونکہ انہیں خوف تھا کہ کسی زیر زمین سرنگ سے القسام بریگیڈ کاکوئی مجاہد نکل کر انہیں ہلاک نہ کر دے۔

10دن کی فضائی بمباری کے بعد اسرائیلی فوجیوں کو غزہ کی جانب پیش قدمی کا حوصلہ ہوا۔ زمینی کارروائی کی سست روی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٹینک تین میٹر کا فاصلہ تین تین گھنٹوں میں طے کرتے کیونکہ انہیں مسلح فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے بچھائی جانے والی سرنگوں کی موجودگی کا خوف لاحق تھا۔ فوجی عہدیدار کے بقول :’’ہمیں فضائی مدد حاصل نہ ہوتی تو غزہ سے ہمارا ایک بھی فوجی زندہ سلامت واپس نہ آتا‘‘۔

مقبوضہ فلسطین میں سدیروت شہر کے اسرائیلی میئرمسٹر ڈیویڈ نے صہیونی وزیردفاع موشے یعلون پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کے بالمقابل یہودی کالونیوں اور دیگراسرائیلی شہروں کو فلسطینی راکٹ حملوں سے بچانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی میئر آلون ڈفیڈی نے سوشل میڈیاکی ویب سائٹ پر پوسٹ میں موجودہ حکومت اور فوج کی کارکردگی پر بھی عدم اطمینان ظاہر کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے:’’یہودی آباد کاروں کو فلسطینی راکٹوں سے دفاع کے لیے جس نوعیت کے دفاعی اقدامات کی ضرورت تھی، حکومت نے نہیں کئے۔ غزہ کی پٹی سے ایک مرتبہ پھر راکٹ حملوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل کی ایک ماہ کی مسلسل بمباری کے باوجود فلسطینی مزاحمت کار پرعزم ہیں۔ مزاحمت کاروں کا انفراسٹرکچر تباہ کرنے اور ان کی کمر توڑنے کے اسرائیلی دعوے قطعی بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو اسرائیلی فوج کے حملوں کا خوف نہیں ہے۔ وہ پوری آزادی اور بے باکی کے ساتھ اسرائیلی کالونیوں پر راکٹ حملے کرکے یہ ثابت کررہے ہیں کہ فلسطینی مزاحمتی طاقت اب بھی مضبوط ہے‘‘۔

حماس کے ہاتھوں اپنے ڈیڑھ سو سے زائد فوجی ہلاک کرانے کے بعد صہیونی قیادت کیلئے یہ بات بہت پریشان کن ہے کہ وہ گزشتہ چندبرسوں سے بین الاقوامی محاذ پر مسلسل تنہائی کا شکار ہورہی ہے۔ بالخصوص 2010ء میں فریڈم فلوٹیلا کے واقعے کے بعد یہ تنہائی شدت اختیارکرگئی۔31مئی2010ء کو جب ترکی کی طیب اردگان حکومت کے تعاون سے ’فری غزہ موومنٹ‘ نے غزہ کے محصور ومظلوم لوگوں کیلئے امدادی سامان بھیجنے کی کوشش کی تو اسرائیل نے آزاد پانیوں سے گزرنے والے اس بحری جہاز پر حملہ کردیا اور 9امدادی کارکنوں کو گولیوں سے بھون ڈالا جبکہ زخمیوں کی تعداد درجنوں میں تھی۔

بعدازاں سب کارکن گرفتارکرلئے۔ ان کارکنوں میں ترکی اور مختلف مغربی مماک کے ارکان پارلیمان بھی تھے اور انسانی حقوق کے کارکنان، امدادی اداروں سے وابستہ لوگ بھی۔ اس واقعے کے نتیجے میں اسرائیل کو ترکی کے شدید غیظ وغضب کا سامنا کرناپڑا۔ مغربی ممالک نے بھی اسرائیل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ، انھوں نے غزہ کے محصورین کے حق میں آواز بلند کی۔ بعدازاں ان آوازوں میں اضافہ اور شدت پیدا ہوتی گئی۔

حالیہ اسرائیلی جارحیت کے بعد مسلم دنیا کے علاوہ غیرمسلم ممالک میں بھی فقیدالمثال احتجاج دیکھنے کو ملا۔ جارحیت کی سب سے پر زور اور شدید مذمت لاطینی امریکی رہنماؤں نے کی۔ سب سے سخت علامتی احتجاج بائیں بازو کے رہنما اور بولیویا کے صدر ایوو مورالیس کی طرف سے سامنے آیا۔ انہوں نے اسرائیل کو نہ صرف ’دہشت گرد ریاستوں‘ کی فہرست میں شامل کیا بلکہ اپنے ملک میں تمام اسرائیلیوں کیلیے ویزا فری انٹری جیسی سہولت بھی ختم کر دی۔

برازیل کی خاتون صدر ڈلما روسیف نے غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی آپریشن کو ’قتل عام‘ قرار دیا۔ وینزویلا کے صدر نیکولس مادورو نے اسرائیلی آپریشن کو فلسطینیوں کے خلاف ’’تقریبا ایک صدی پر محیط قتل کی جنگ‘‘ قرار دیا۔ پورے خطے میں میکسیکو سے لے کر چلی تک فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوئے۔ اس مرتبہ عرب ملکوں کی نسبت یورپ اور لاطینی امریکا میں ہونے والے اسرائیل مخالف احتجاجی مظاہرے زیادہ بڑے تھے۔

مغربی ممالک میں بھی سینکڑوں نہیں ہزاروں کے مظاہرے تھے، کسی ملک نے اسرائیل مخالف مظاہروں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہ کی، صرف فرانسیسی حکومت نے ان مظاہروں پر پابندی عائد کی لیکن مظاہرین نے اسے ماننے سے انکارکردیا۔ بعدازاں حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، جرمنی، کینیڈا، فرانس، سپین، آئرلینڈ، بلجیم، ہالینڈ اور ڈنمارک میں احتجاج اس قدر بڑے پیمانے پر ہوا اور لوگ اس قدرغم وغصے میں تھے کہ یہاں یہودی معبدوں اور یہودی شہریوں کی سلامتی خطرے میں پڑگئی۔بعض ممالک میں یہودیوں کی املاک پر حملے ہوئے۔ ایکواڈور نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجاً تل ابیب سے اپنا سفیر واپس بلا لیاتھا۔ایکواڈور کے وزیر خارجہ ریکارڈو پٹینو نے کہا کہ ہم غزہ پٹی میں اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کرتے ہیں۔ امریکی جریدے لاس اینجلس ٹائمز نے لکھاہے کہ دنیا بھر میں یہودیوں کے خلاف نفرت کا سبب غزہ پر اسرائیلی حملے ہیں۔

اسرائیل میں ڈھائی ہزار قدامت پرست یہودیوں اور اسرائیلی عربوں نے غزہ پر وحشیانہ مظالم کے خلاف احتجاج کیا۔لندن سمیت دیگرکئی مغربی شہروں میں بھی کم یا زیادہ تعداد میں یہودی سڑکوں پر نکلے اور انھوں نے کہا کہ صہیونی حکومت جو کچھ کررہی ہے، وہ ان کی مذہبی تعلیمات کا عکاس نہیں ہے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے اندر بھی صہیونی پالیسیوں کو مسترد کیا گیا ہے۔ اسی طرح اسرائیل دوست ممالک میں بھی اس کے حامی لوگ تیزی سے مخالف ہورہے ہیں۔

امریکیوں کی نئی نسل اسرائیل کی حامی نہیں ہے۔ رائے عامہ کاجائزہ لینے والے ادارے’ گیلپ‘ کے مطابق 18 سے 29 سال کی عمر کے امریکی نوجوانوں کی50 فیصد سے زائد تعدادسمجھتی ہے کہ اسرائیل جو کچھ کررہا ہے ، اس کا کوئی جوازنہیں ہے۔ ان کے مقابلے میں ایسے نوجوان جو اسرائیلی اقدامات کے حامی ہیں، کی تعداد 25 فیصد بھی نہیں۔

30 سے 49 برس کے امریکیوں میں43 فیصد اسرائیلی پالیسیوں کو ناجائز سمجھتے ہیں جبکہ اسی کیٹاگری میں جائز قراردینے والے امریکیوں کی شرح36 فیصد ہے۔ پچاس سال یا اس سے زائد عمر کے امریکیوں میں اکثریت اسرائیل کی حامی ہے لیکن اس اکثریت کو ’’بمشکل اکثریت‘‘ کہنا پڑے گا۔ 50 سے 64 برس عمر کے52 فیصد لوگ اسرائیل کی حمایت کرتے ہیںجبکہ 29 فیصد مخالفت۔ 65 سال سے زائد عمر کے54فیصد امریکی اسرائیل کے حامی ہیں جبکہ 29 فیصد مخالف۔ یادرہے کہ یہ سروے اسرائیل کی غزہ پر جارحیت سے قبل کیا گیا تھا۔

امریکا کے سیاسی طبقات میں اسرائیل کی حمایت اور مخالفت کاجائزہ لیاگیاتو ری پبلیکن پارٹی کے زیادہ تر لوگ اسرائیل کے پلڑے میں وزن ڈالتے ہیں جبکہ ڈیموکریٹس میں زیادہ تر اسرائیل مخالف ہیں، آزاد بھی ڈیموکریٹس جیسا رجحان رکھتے ہیں۔ ری پبلیکن پارٹی میں65فیصد لوگ اسرائیل کے اقدامات کے حامی ہیں جبکہ21فیصد مخالف۔ ڈیموکریٹس میں31فیصد اسرائیل کے حامی جبکہ 47فیصد اس کی پالیسیوں کے مخالف ہیں۔ آزاد میں بھی48فیصد لوگ مخالف جبکہ 21فیصد اسرائیلی اقدامات کے حامی ہیں۔

دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتی مخالفت کے علاوہ بہت سے دیگر پہلو ہیں جو اسرائیلی ناکامیوں کونمایاں کررہے ہیں۔ مثلاً ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسرائیل خطے میں مصر کے مفیدکردار سے محروم ہوگیاہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا اور اس کے ساتھ مختلف معاہدات میں بندھا ہوا مصر اسرائیلی مفادات کو مدنظررکھتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے لئے کردار اداکرتارہا۔ تاہم حسنی مبارک کے اقتدارکے ساتھ ہی یہ باب بند ہوگیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اسرائیل حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے دنوں خاصا پریشان رہا۔

بعدازاں نئے مصری صدر ڈاکٹرمحمد مرسی نے مصر کا کردار مکمل طورپر تبدیل کردیا۔ انھوں نے اسرائیل کے لئے رعایات وغیرہ ختم کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹرمرسی ان دنوں جیل میں مقدمہ بھگت رہے ہیں۔ ان کا تختہ الٹنے والے فوجی جرنیل سیسی نے مصرکے پرواسرائیل کردار کو نہ صرف بحال کردیا بلکہ حسنی مبارک دورکی نسبت زیادہ مضبوط کردیاہے۔

اسرائیل کی حالیہ وحشیانہ جارحیت شروع ہونے کے بعد جب اسرائیل کو القسام بریگیڈ کی طرف سے ٹف ٹائم ملنے لگاتو مصر نے (اسرائیل کے ایما پر ) اس اندازمیں جنگ بندی کی ایسی تجاویزپیش کیںجو اسرائیلی مفادات کی محافظ تھیں۔ حماس نے مصری تجاویز کو ماننے سے صاف انکارکردیا۔حماس نے مصرکو ناقابل اعتبار قرار دیا تو امریکا اور اسرائیل نے جنگ بندی کے لیے مصر کا متبادل ثالث تلاش کرناشروع کردیا۔ اس سلسلے میں ترکی اور قطر سے رابطہ کیاگیا۔ ترکی اور قطر پرو اسرائیل نہیں، اس لئے مصر جیسے دوست کا فلسطینیوں کے نزدیک غیرمعتبر ہونابھی اسرائیل کابڑا نقصان ہے۔

چلتے چلتے اس سوال کا جواب اس رپورٹ سے لے لیجئے کہ آگے کیاہونے والا ہے؟ غزہ پر12 جولائی 2014ء کو شروع ہونے والی وحشیانہ جارحیت کے مستقبل کے حوالے سے اسرائیلی فوج اور حکومت میں واضح تقسیم نظرآ رہی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاھو کی انتہا پسند کابینہ کی خواہش تھی کہ غزہ کی پٹی پر مستقل قبضہ کر لیا جائے اور علاقے کے تمام اہم مقامات پر فوج تعینات کر دی جائے لیکن فوج نے کابینہ کو بتایا کہ غزہ کی پٹی پر مستقل قبضہ اتنا آسان نہیں جتنا حکومت نے سوچ رکھا ہے۔کابینہ میں ہونے والی بحث کے منظرعام پرآنے پربھی اسرائیلی حکومت سخت پریشانی میں مبتلا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ راز خود وزیراعظم کے دفتر سے ا ن کی ہدایت کے مطابق ہی افشا ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق حال ہی میں اسرائیلی کابینہ میں غزہ کی پٹی میں مستقل بنیادوں پر فوج داخل کیے جانے کے معاملے پر بحث چل رہی تھی۔ اس دوران محکمہ دفاع، فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی جانب سے غزہ پر مستقل قبضے کے مضمرات کے حوالے سے رپورٹس پیش کی گئیںکہ غزہ کی پٹی پرایک مرتبہ پھرسے قبضہ نہایت مشکل اور اسرائیل کیلیے تباہ کن ثابت ہوگا، کیونکہ غزہ کے تمام مقامات تک فوج کا کنٹرول قائم کرنے کے لیے پانچ سال کا عرصہ لگے گا۔ اس عرصے میں اسرائیلی فوج کو کم سے کم 20 ہزار فلسطینی گوریلا جنگجوؤں کو ختم کرنا ہوگا۔

نتیجے میں اسرائیل کو اپنے ہزاروں فوجیوں اور سویلینز کی قربانی بھی دینا ہوگی۔ مصر اور اردن کے ساتھ امن معاہدے کھٹائی میں پڑ جائیں گے جبکہ معاشی میدان میں ہونے والا نقصان اس کے علاوہ ہوگا۔ فی الوقت اس خسارے کا تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا تاہم یہ کھربوں ڈالر ہوسکتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق اگراسرائیل غزہ کی پٹی پر مستقل قبضہ کرتا ہے توغزہ کی پٹی میں مزید تباہی پھیلے گی اور ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں زخمی اور بے گھر ہوسکتے ہیں۔

سینکڑوں اسرائیلی فوجی اغواء کیے جاسکتے ہیں۔ فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں میں غیرمعمولی اضافہ اسرائیل کو عالمی برادری میں مزیدتنہا کردے گا کیونکہ چوبیس روز تک جاری رہنے والی لڑائی میں اسرائیل کے کئی دوست ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر اسرائیلی معیشت کا بائیکاٹ کیا گیا، جس نے اسرائیلی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسرائیل کو غزہ کی پٹی میں دھماکہ خیز مواد تلف کرنے اور بارودی سرنگوں اور زمین دوز بنکروں کے خاتمے میں بھی بھاری قیمت چکانا ہوگی۔

اسرائیلی محکمہ دفاع کی رپورٹ بتاتی ہے کہ غزہ کی پٹی پر مستقل قبضے کے لیے لڑائی کے دوران اور اس کے بعد مقبوضہ مغربی کنارا، 1948ء کی جنگ میں اسرائیل کے زیرتسلط آنے والے علاقوں اور دیگر فلسطینی شہروں میں اسرائیل کے خلاف شدید رد عمل سامنے آئے گا۔ یہ رد عمل اسرائیل کے خلاف مسلح تحریک کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے۔

اگر فلسطینیوں نے اسرائیل کے خلاف مسلح بغاوت شروع کردی تو اس کے نتیجے میں فلسطین کے چپے چپے پرآباد کیے گئے یہودی آباد کاروں کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ اس لیے حکومت غزہ کی پٹی کے تمام علاقوں میں فوج داخل کرنا اور مستقل قبضہ چاہتی ہے تو اسے یہ تمام حالات سامنے رکھنا ہوں گے۔ ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ سیکیورٹی اداروں کی حقائق پر مبنی رپورٹس کے بعد صہیونی کابینہ خوف کا شکار ہوگئی اور اس مخمصے میں مبتلا تھی کہ آیا وہ غزہ کی پٹی کے مستقبل کے حوالے سے کیا فیصلہ کرے۔ یوں کابینہ میں دیکھاجانے والامستقل قبضہ ایک ڈراؤنا خواب بن کر رہ گیا۔

بین الاقوامی کھلاڑیوں نے بھی درد محسوس کیا

عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی بھی غزہ پر اسرائیلی جارحیت سے لاتعلق نہ رہے۔ گولڈن بوٹ حاصل کرنے والے کرسٹینا رونالڈو نے فلسطینی بچوں کو پندرہ لاکھ یورو عطیہ دیا۔ یہ گولڈن بوٹ انھیں سن2011ء میں ملا تھا۔ انھوں نے عطیہ رئیل میڈرڈ فائونڈیشن کی وساطت سے غزہ کے سکولوں کو دیاہے۔ یادرہے کہ رئیل میڈرڈ فائونڈیشن دنیا بھر کے 66ممالک کے 167سکولوں کی امداد کررہی ہے۔ رونالڈو نے گزشتہ برس بھی غزہ کیلئے امداد دی، انھوں نے اپنے متعدد سپورٹس شوز نیلام کئے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی غزہ بھجوائی تھی۔ اس طرح رونالڈو تاریخ میں پہلے عالمی فٹ بالر ہیں جو اہل غزہ کی امداد کررہے ہیں۔

یہ وہی رونالڈو ہیں جنھوں نے حالیہ ورلڈکپ کے کوالیفائنگ رائونڈ میں اسرائیل کے ساتھ میچ کے بعد اسرائیلی کھلاڑی کے ساتھ اپنی شرٹ تبدیل کرنے سے انکارکردیاتھا۔ انھوں نے ایسا اسرائیل کی فلسطینیوں کے ساتھ درندگی کے خلاف احتجاج کے طور پرکیا۔ یادرہے کہ رونالڈو متعدد بار آزادفلسینی ریاست کے حامیوں کے ساتھ اپنی یکجہتی ظاہر کرچکے ہیں۔

برازیل میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ فٹ بال ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والی الجزائر کی ٹیم نے بھی بونس میں ملنے والی رقم فلسطینیوں کو دیدی ۔ الجزائر کے کھلاڑی اسلام سلیمانی کاکہناتھا کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غزہ کے محصور فلسطینی ہم سے زیادہ اس رقم کے حق دار ہیں۔ یادرہے کہ الجزائر واحد عرب ملک ہے جس کی ٹیم نے برازیل میں ہونے والے فٹ بال عالمی کپ کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔

مغربی گلوکار بھی اسرائیل مخالف ہوگئے

مغربی دنیا کے عام لوگ ہی اسرائیل کی حمایت سے الگ نہیں ہوئے بلکہ خاص لوگ بھی تیزی سے اسرائیل مخالف طبقہ میں شامل ہورہے ہیں۔ ذرا! امریکی گلوکار واکا فلاکا فلیم کی ٹویٹ پڑھئے:’’ کس طرح میرے ملک کے بے غیرت حکمرانوں نے فلسطین پر مظالم توڑنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اے خدا! اس ملک( فلسطین) کو طاقت عطافرما‘‘۔ اسی طرح معروف برطانوی موسیقار، گلوکار، نغمہ نگار اور میوزک کمپوزر راجرواٹرز نے کینیڈین گلوکار نیل ینگ کے نام ایک کھلے خط میں کہا کہ وہ تل ابیب میں اپنا شو منسوخ کردیں۔

ان کے بقول:’’ہمیں ان لوگوں بلکہ ان تمام بہادر لوگوں کا ساتھ دینا چاہئے جو فلسطین اور اسرائیل میں رہتے ہیں، جو اسرائیلی حکومتوںکی وحشیانہ پالیسیوں کی مخالفت کررہے ہیں۔ براہ کرم! مظلوم اور محروم لوگوں سے اظہاریکجہتی کیلئے میرا اور دنیا کے دیگربے شمار فنکاروں کا ساتھ دیجئے۔‘‘امریکی گلوکارہ ریحانہ کی اس ٹویٹ نے بھی خوب شہرہ حاصل کیا جس میں انھوں نے ’’فری فلسطین‘‘ لکھاتھا۔

ساتھ ہی انھوں نے ایک فلسطینی اور ایک اسرائیلی بچے کی تصویر لگائی جو ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے کھڑے تھے۔ ریحانہ نے لکھا:’’آئیے! امن اور تنازعہ فلسطین کے فوری خاتمے کیلئے دعا کریں۔‘‘ نہتے فلسطینیوں پر صہیونیوںکی سفاکی و بربریت کے خلاف امریکی پاپ گلوکارہ سلینا گومز بھی خاموش نہ رہ سکیں، انھوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر بیان لکھا:’’ انسانیت کا تقاضہ یہی ہے کہ اس وقت غزہ کیلئے دعا کی جائے جبکہ ان خاندانوں اور بچوں کیلئے بھی دعا کی جائے جواس جنگ کے نتیجے میں متاثر ہوئے ہیں‘‘۔

ہم ہار گئے: اسرائیلی میڈیا

اسرائیلی صحافی بن یامین دایان کے مطابق حماس، اسلامی جہاد اور دیگر جنگجو ملیشیاؤں نے امن کے دنوں میں آرام نہیںکیا بلکہ اسرائیلی فوج کا ہر شعبے میں مقابلہ کرنے کی تربیت حاصل کرتے رہے جن میں اینٹی ٹینکس راکٹوں کا استعمال، چھپ کر حملہ کرنے کی صلاحیت، سرنگوں کی مدد سے اسرائیل کے اندر گھس کر کارروائیاں اور سنائپر رائفلوں سے نشانہ بازی کی مشق کی۔

اسرائیلی جریدے ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کو اپنے 60 فوجیوں کی ہلاکت کا تجزیہ کرنا ہوگا کہ آخر اسرائیلی انٹیلی جنس حماس جنگجوؤں کے الاقصیٰ اور عزالقسام بریگیڈ کی عسکری مہارت اور جنگی حکمت عملی کا درست اندازہ لگانے میں کیوں ناکام رہی؟ جریدے کے عسکری نامہ نگار ایوی شاؤل کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس جنگی حکمت عملی بنانے میں ناکام رہیں اور ان کا مرکزی ہدف عوامی مارکیٹیں، گھر، مساجد اور تعلیمی ادارے تھے جہاں حماس کے جنگجوؤں کے بجائے عام فلسطینی نشانہ بنے۔

اسرائیلی انٹیلی جنس کے حوالے سے فوجی کمانڈرز نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ جنگجوئوں اور ان کے کمانڈرز نے دوران جنگ موبائل فون کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور کمیونیکیشن کیلئے جنگی کوڈ ورڈز میں بات چیت کی جس کی وجہ سے انٹیلی جنس اور سپیشل آپریشن فورس کے اہلکار حماس کے خلاف موثر کارروائیوں میں ناکام رہے۔ اسرائیلی جریدے ’یروشلم پوسٹ‘ کے مطابق حماس کے اعلیٰ کمانڈرز اور رہنماؤں کو قتل کرنے کیلئے بنائی جانے والی ٹاسک فورس ایک بھی حماس رکن یا کمانڈر کو گرفتار یا ہلاک کرنے میں ناکام رہی۔

صہیونی دفاعی تجزیہ نگار پروفیسراوری یار یوسف نے حماس کے مقابلے میں اپنے ملک کی جنگی صلاحیت پر شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ڈر تھا، غزہ میںآپریشن میں حماس کے ہاتھوں صہیونی فوج کو بدترین شکست کا سامنا نہ کرنا پڑے کیونکہ فوج زمینی کارروائی کی متحمل نہیں تھی۔ اسرائیلی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ میں شائع ہونے والے اس تجزیہ میں بتایاگیاکہ غزہ جنگ کے بعد اسرائیلی فوج کی دفاعی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ فوج کا رعب کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری فوج نہ صرف حماس کو شکست دینے میں ناکام رہی ہے بلکہ ہمیں تو یہ خوف تھا کہ حماس کے خلاف جنگ میں ہماری فوج تباہی سے دوچار نہ ہوجائے۔

دفاعی تجزیہ نگار نے جہاں اسرائیلی فوج کی جنگی صلاحیت میں کمزوری کا اعتراف کیا وہیں فلسطینی تنظیموں بالخصوص حماس کی عسکری صلاحیت کو بھی تسلیم کیا۔ انہوں نے کہا:’’ہمیں ایک ماہ کی طویل جنگ کے بعد یہ بات مان لینی چاہیے کہ ہماری فوج حماس کے مقابلے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ہمیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری دفاعی اور فوجی صلاحیت کے بارے میں جو خیالات اس سے پہلے ظاہر کیے جاتے رہے ہیں وہ سب غلط تھے۔

حماس کے مقابلے میں اسرائیلی فوج کی ناکامی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہم نے حماس کے ٹھکانوں پر غیرمعمولی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے حملے کیے تاکہ حماس کے جنگجوؤں کی عسکری صلاحیت کو تباہ کیا جاسکے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایک ماہ کی طویل جنگ کے دوران حماس کے نیٹ ورک کو کتنا نقصان پہنچایا گیا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ حماس نے اپنے معمولی ہتھیاروں کی مدد سے ہمارے تمام شہروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے فوجی اور عام شہریوں کو راکٹ حملوں کے ذریعے کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔ حماس کی یہ بھی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے مقامی سطح پر ایسے راکٹ تیار کرلیے ہیں جو اسرائیل کے تمام شہروں تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘‘۔

اسرائیل جنگ ہارگیا: امریکی میڈیا

غزہ پر وحشیانہ جارحیت سے پہلے امریکا میں سابق اسرائیلی سفیر مائیکل اورن نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون لکھا، جس میں انھوں نے کہاکہ اب جنگ کو ایک موقع دیدیناچاہئے۔دراصل اس وقت تک اسرائیل میں یہ خیال مضبوط ہوچکاتھا کہ حماس کو حقیقتاً غزہ سے مکمل طورپر اکھاڑ پھینکناچاہئے۔ اسرائیلی سفیر اب تک حماس کا خاتمہ نہ ہونے کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے مذکورہ بالا حل پیش کررہے تھے۔ تاہم انھیں اور بہت سے دیگر اسرائیلی پالیسی سازوں کو اندازہ نہیں تھا کہ غزہ پر جارحیت کرکے حماس کا ایک فیصد بھی نقصان نہیں ہوسکے گا۔

حال ہی میں امریکا کے نہایت موقراخبار’’ واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے تجزیہ شائع کیاہے جس کا عنوان ہے:’’چاراسباب جن کی وجہ سے حماس کو غزہ کی جنگ میں شکست نہیں دی جاسکی‘‘۔ اخبارلکھتاہے کہ حماس کی شکست بہت دور کی بات ہے۔اس کے اسباب یہ ہیں:’’سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسرائیل میڈیا وار میں حماس سے شکست کھاگیاہے۔ اسرائیلی ڈیفنس فورس ٹویٹر پر حماس کے حربوں کو مختلف کارٹونوں اور تصاویر کے ذریعے دنیا کو دکھاتی رہی جبکہ جن تصویروں نے پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں کو آنسوبہانے پر مجبور کیا، وہ عام فلسطینی عوام کی اسرائیلی میزائل حملوں اور بمباری میں ہلاکت کی تھیں۔

پورے کے پورے خاندان ان حملوں میں ہلاک ہوگئے، ان کے گھر مکمل طور پر ملبے کے ڈھیر بن گئے اور جن سکولوں میں بچوں نے پناہ لی تھی، ان پر بھی بمباری کی گئی۔ اب رائے عامہ کے جائزے ظاہر کررہے ہیں کہ اسرائیل مغرب کے اندر حتیٰ کہ امریکا کے اندر بھی حمایت سے محروم ہوچکاہے۔ بین الاقوامی قائدین نے اس کے تشدد کی مذمت کی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اسرائیلی جنگی جرائم کی بات کی ہے۔

آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں حماس کے راکٹ حملوں اور اس کی سرنگوں کی باتیں پر وہ سوالات غالب آجائیں گے جو اسرائیل کے اقدامات کے قانونی طور پرجائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں اٹھ رہے ہیں۔ نقاد کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل نے جس قوت کا استعمال کیا، وہ غیرمتناسب تھی اور اسرائیل کو ’اجتماعی سزا‘ کے حوالے سے جواب دیناپڑے گا۔ یہ متعدد بین الاقوامی قوانین کی رو سے ناجائز ہے۔ ایک اسرائیلی صحافی عامرہ ہاس نے لکھاہے کہ’’اسرائیل کی اخلاقی شکست برسوں تک اس کا پیچھاکرتی رہے گی‘‘۔

حماس کی قیادت بخوبی آگاہ ہے کہ اسرائیل کو کون سی قیمت اداکرناپڑے گی۔ فلسطین کے سابق وزیراعظم اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کہتے ہیں:’’دنیا نے تباہی کی جو تصویر دیکھی ہے، وہ اسرائیلی فوج کی شکست اور بہادرمزاحمت کاروں سے لڑائی میں ناکامی کا ثبوت ہے‘‘۔اخبار لکھتاہے کہ حماس ایک ایسی تحریک ہے جو اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کررہی ہے۔ ہربار اسرائیل نے حماس کی گھاس کاٹنے کی کوشش کی لیکن آپریشن ختم ہونے کے بعد یہ گھاس پھرسے اگ آتی تھی۔

حالیہ آپریشن کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ حماس کی آپریشنل صلاحیتوں کو نقصان پہنچایا گیا، کمانڈ سنٹرز کو تباہ کیاگیا، حماس نے اسرائیل میں حملے کرنے کیلئے جو سرنگیں بنائی گئی تھیں، انھیں تباہ کردیاگیا اور حماس کے سینکڑوں جنگجوئوں کو ہلاک کردیاگیا۔ یہ بھی کہاگیا کہ حماس کا راکٹوں کا ذخیرہ بھی ختم کردیاگیاہے۔ واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ حماس کو غیرمسلح کرنا ابھی بہت دور کی بات ہے، فی الحال اسرائیل کے عقابوں کو مصالحت کی ضرورت کو تسلیم کرناہوگا۔

ہفنگٹن پوسٹ بھی مانتاہے کہ اسرائیل غزہ میں لڑائی ہارگیاہے۔ یہ شکست اسی وقت ہوگئی تھی جب اسرائیل کے پہلے میزائل یا گولے نے ایک گھرکوتباہ کیا اور بہت سی خواتین ، بچوں اور معصوموں کو ہلاک کیا۔ ’اجتماعی سزا‘ کے جرم پر جب مستقبل میں عوام کی عدالت میں مقدمہ چلے گا تو اسرائیل کو کم ہمدرد جیوری کا سامنا کرناپڑے گا۔

آؤ بلندی کا سفر شروع کریں!

$
0
0

لوئیس کیپون کنگ جارج پنجم سکول، ہانگ کانگ کی طالبہ اور پول والٹ( بانس کود) کی کھلاڑی ہے۔

اس کی کہانی پڑھئے اور جھومئے کہ  وہ کیسے اپنے آپ کو ناکامی اور مایوسی کی حالت سے نکالتی ہے اور ایک لچکدار بانس کا سہارا لے کر کیسے بلند فضا میں کودتے ہوئے ایسی کامیابی حاصل کرتی ہے جس کا اس نے خواب دیکھاتھا۔ یہ ایک خواب ہی تھا کہ جب ایک لچکدار بانس کا سہارا لیتی ہوئی ہوا میں بلندپرواز کرے گی، اوپر بادلوں کو دیکھتے ہوئے اس کا سانس رک جائے گا۔ کبھی وہ سوچتی تھی کہ  کیا ایسا لمحہ اس کی زندگی میں آئے گا؟

اس کے والدین نے  اس کی خوب ٹریننگ کرائی، اس پر اپنا بہت سا وقت خرچ کیا، اپنی کم آمدنی سے  جتنی  رقم بچاسکتے تھے، انھوں نے بچائی اور لوئیس کیپون کا یہ خواب پورا کرنے پر خرچ کرڈالی۔ انھوں نے اس کے لئے اپنا بہت سا وقت لگایا۔ انھوں نے ہرقسم کے حالات میں بیٹی کی ناکامیوں اور کامیابیوں پر اس کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ جب وہ پہلی باراصل مقابلے کے لئے منتخب ہوئی تو وہ عجیب وغریب احساسات کا شکار ہوگئی،  ان میں پریشانی بھی تھی اور جوش بھی۔جب کوچ سے پہلی ملاقات ہوئی تو اس نے کہا: ’’ لوئیس! تم اچھی ہو، لیکن تم اس سے بھی آگے جاسکتی ہو۔ہاں! اس سے پہلے تمہیں یہ ادراک کرنا ہوگا کہ کیا تم واقعی  اپنا یہ خواب پورا کرناچاہتی ہو؟ آگے جانے کے لئے جو لگن درکار ہوتی ہے، کیا وہ تم میں موجود ہے؟‘‘

لوئیس ٹریننگ سیشن میں ہوتی تو اس کے دوست اسے پریکٹس کرتا دیکھنے آتے اور چلے جاتے تھے۔ وہ کہتی ہے کہ ٹریننگ سیشن کچھ زیادہ پرلطف مرحلہ نہیں ہوتاکیونکہ آپ اسے چھوڑ نہیں سکتے، آپ کوبہرصورت اس میں شریک ہوناپڑتاہے، اور جب اگلے دن کسی مقابلے میں شریک ہونے کے لئے سفر درپیش ہوتوپھر آپ کو جلد سونا بھی پڑتا ہے۔ جب مقابلوں کا موسم ہوتوآپ کو رات کا کھانا بور بھی کرتاہے، کیونکہ آپ کو دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ جسمانی فٹنس کو یقینی بنانے کے لئے کیا کھایا جائے اور کیا نہیں۔ خیر یہ سب چلتا رہا۔

جب ایک روزٹریننگ کے دوران ٹخنے کی موچ آئی تو لوئیس کو لگا کہ اس کا کیرئیر جو ابھی شروع بھی نہیں ہواتھا، ختم ہوچکاہے۔  یہ سوچتے ہوئے کہ سارے خواب بکھر چکے ہیں، لوئیس گھنٹوں روتی رہی۔ مگر یہ فزیوتھراپسٹ ہی تھا جس نے اس کی خوداعتمادی کو بحال کیا، اس کا علاج کرتے ہوئے صبر وتحمل کے ساتھ اسے بہلاتا رہا۔ اس نے لوئیس کو اس کے خواب بہرصورت پورے ہونے کا یقین دلایا  کیونکہ اس وقت تک ناکامی اور مایوسی اس لڑکی کے سامنے  رکاوٹ بنتی جارہی تھی۔

شروع ہی سے لوئیس کے ساتھ ایسی ایک یا دوحریف کھلاڑی خواتین ہوتیں جو  اس سے برتر ہوتی تھیں، ایسے میں ہرکوئی اسے یہی کہتا تھا کہ اسے سخت تربیت لیناہوگی، اپنی تکنیکس میں کمال حاصل کرناہوگا۔  واقعتاً اسے فاتح بننے کے لئے یہ سب کرنا تھا لیکن کسی بڑے مقابلے کے دوران ہمیشہ لوئیس سے کچھ نہ کچھ غلط ہوجاتا۔ اور ہرایسے موقع پر وہ سوچتی کہ سبب کیاہے؟کوئی پریشانی؟ کیا وہ  حد سے زیادہ خوداعتمادی کا شکارتھی؟ یا پھر سیدھا سیدھا یہ کہ اس میں اپناخواب پورا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی ؟

پھر گزرتے وقت کے ساتھ معاملات میں بہتری آنا شروع ہوگئی ۔ لوئیس نے ایک ہاٹ فیورٹ کھلاڑی کو  ایک مقابلے میں ہرادیا۔ نہ صرف اس مقابلے میں اسے شکست دی بلکہ باقی مقابلوں میں بھی اسے ناکام ونامراد کردیا۔اس وقت کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ لوئیس کی کامیابی حادثاتی ہے لیکن ایسے لوگ بھی تھے جو لوئیس کی ہمت بندھارہے تھے، حوصلہ بڑھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ بالآخر تم اپنی صلاحیت منوانے میں کامیاب ہونے لگی ہو۔ حقیقت میں لوئیس اپنا لوہامنوانے لگی تھی۔

لوئیس کی کامیابی  واقعتاً حادثاتی نہیں تھی ، ہاٹ فیورٹ اور دوسری کھلاڑی لڑکیاں اپنی صلاحیت میں بہترین تھیں لیکن تبدیلی کاعمل شروع ہوچکاتھا، لوئیس کے اندربھی کچھ تبدیل ہورہاتھا۔آخرکار اسے یقین ہونے لگاکہ  اپنے خواب پورے کرنے کے لئے جو چیز درکار ہے وہ اس کے اندر موجود ہے۔ لوئیس نے حقیقتاً خود پر اعتمادکرناشروع کردیا تھا اور وہ آخر کار اپنی زندگی کے سب سے بڑے چیلنج اورمقابلے کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوچکی تھی۔

اسے یقین تھا کہ اب اس کا وقت شروع ہوچکاہے۔ لہٰذا اب وہ اپنے خواب کی تعبیر پانے کے لئے پرعزم تھی۔ والدین اوردوستوں کی مدد، حمایت اور حوصلہ افزائی کی بدولت اس نے اپنے مقاصد کا تعین کرلیاتھا۔ اب ہرشے اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اب جیسے ہی وہ سٹیڈیم میں داخل ہوتی،سورج کی تمازت تمام بدحواسیوں کو پرے کردیتی تھی۔ حتیٰ کہ خود سے آگے نکلتی لڑکیوں کو دیکھ کر بھی اسے اب کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس خوداعتمادی کی موجودگی میں کوئی شے اسے کوئی نفع دے سکتی ہے نہ ہی نقصان پہنچاسکتی ہے۔

لوئیس سٹیدیم میں ہے۔ مقابلہ شروع ہونے میں ابھی کچھ لمحات باقی ہیں۔ وہ دماغی اور جسمانی طورپر تیارہے اورہجوم کی طرف دیکھتی ہے۔ اس کے والدین  کا چہرہ دیکھو تو ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے وہ بیمار پڑنے والے ہوں۔ لوئیس کا کوچ اسکور بورڈ پر کچھ لکھ رہاہے۔ایسے میں باقی سب مناظر دھندلا گئے ۔ لوئیس بالآخر کودنے کے لئے چل پڑتی ہے۔ اور پھر وہ ہوجاتا ہے جس کے وہ خواب دیکھا کرتی تھی۔ سارا ہجوم ’لوئیس! لوئیس!!‘ پکارنے لگتا ہے۔ تالیوں کی ایک ہی تال میں بلندآواز۔ یہ بھی سچ ہے کہ شائقین کھلاڑی کے ساتھ ہوں تو یہ بات بہت مددگارثابت ہوتی ہے۔

بعض اوقات ہم بغیر کسی وجہ کے، خود ترسی اور احساس محرومی کا شکار ہوتے ہیں،  اردگرد کے لوگوں سے اپنا موازنہ کرنے میں اتنا ڈوب جاتے ہیں کہ  اپنی زندگی میں موجود نعمتوں کو دیکھ نہیں پاتے۔ حالانکہ زندگی کی انمول خوبصورتی ہماری نظر کی منتظر ہوتی ہے لیکن اس خوبصورتی پر احساسِ کمتری کا پردہ پڑجاتاہے ۔ ہمیں چاہئے کہ آگے بڑھ کر ایسے پردے ہٹائیں اور زندگی کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوں۔ ہماری اگلی کہانی کا کردار بھی ایسی لطافتوں کو محسوس کرنے سے قاصر تھا۔پھر ایک دن پردہ ہٹا تو اس نے خود کو خوبصورتی اور شادابی کے درمیان پایا۔ یہ کردار ہے لم سیوک ہانگ۔

کہتی ہے‘ جب میں کم سن تھی تو اپنے گھر والوں کے ساتھ ملائشیا کے ایک چھوٹے سے قصبے لمبانگ کے مضافات میں، لکڑی کے بنے ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہتی تھی۔ یہ لکڑی کی بنی ہوئی بیساکھیوں کے اوپر کھڑاتھا جس کی چھت تر چھی اور ڈھلوان دار زنک دھات کی نالی دارچادروں پر مشتمل تھی، اس کی وجہ سے دن کے وقت مکان  کے اندر شدید گرمی پیدا ہوجاتی۔چھوٹے چھوٹے کمروں کا مختصر سا مجموعہ یہ گھر بمشکل ہمارے گھرانے کے تمام افراد کو اپنے اندرجگہ دے پاتا۔ والد ، والدہ اور گیارہ بچے۔ میں دوسرے نمبر پر تھی۔ ہم بچے اکثر ادھر ادھر بھاگتے اور جب کبھی کھیل کود کے دوران اودھم مچاتے تو سارا مکان ہلنے لگتا۔

’’مکان گرنے لگا ہے!!!!‘‘ میری امی چلاتیں۔

ایسا محسوس ہوتا جیسے ہم مستقلا اندھیرے میں رہائش پذیر ہوں۔ دن کے وقت قرب وجوار کے درخت سورج کی زیادہ تر روشنی کو روکے رکھتے اور راتیں ہمیشہ بدشگونی سے بھرا منحوس وقت محسوس ہوتیں۔ یہ 50ء کی دہائی کے اواخر یاپھر60ء کے اوائل کی بات ہے، تب ہمارے پاس بجلی کی سہولت بھی نہیں تھی۔ ہم مٹی کے تیل کے لیمپ جلاتے جو مدھم سی روشنی ہی پیدا کرسکتے تھے۔ ماں کی طرف سے منتقل ہونے والے جنوں بھوتوں کے وہموں کی وجہ سے رات کی سیاہی مزید بھیانک محسوس ہوتی۔

بدھ مت، تائو مت اور چینی آبائواجداد کے ملے جلے اعتقادات کے تحت پرورش پانے کے سبب ہم بھوتوں اور بھٹکی پھرتی خبیث بدروحوں کے وجود پر یقین رکھتے تھے۔ بعض اوقات کم عمری کی وجہ سے ہم تاریکی سے ہی خوفزدہ ہوجاتے، تب ماں خوف سے سنسناتی ہوئی آوازمیں پوچھتی:’’ تم لوگ اتنے خوف زدہ کیوں ہو؟ کیادیکھ لیاہے تم لوگوں نے؟‘‘ اگرچہ ہم نے کچھ دیکھانہیں ہوتاتھا مگرماں کے اس قسم کے سوالات ہمیں مزید خوفزدہ کردیتے۔ میرے نزدیک بھوت سے ملاقات سے بڑھ کر کچھ بھی بھیانک نہ تھا۔

تاریکی سے ڈر اور گھر کی گھٹیا حالت کے پیش نظر ہمارے دوست شاذونادر ہی ہمارے ساتھ کھیلنے آتے۔ ایک دفعہ میں نے اپنے ایک رشتہ دار کے بچوں کو یہ کہہ کر ڈرا دیا کہ ہمارا گھر آسیب زدہ ہے۔ ہم قصبے کے وسط میں واقع بڑے سے سرسبز میدان میںکھیلنے کو ترجیح دیتے۔ شام کا دھندلکا پھیلنے پر میں خوف کے احساسات کے ساتھ بادل نخواستہ  گھر کو لوٹتی ۔

وقت گزرتا گیا، میں نوعمری کے دور کو پہنچی تو میری توہم پرستی شرم اور اضطراب میں تبدیل ہوچکی تھی۔ میری تمام سہیلیوں کے گھر بہترحالت میں تھے جہاں پانی اور فضلات کی نکاسی کے لئے نل مناسب طریقے سے لگے ہوئے تھے جبکہ ہمارے گھر میں سرے سے بیت الخلا ہی نہ تھا۔ ہم پیشاب دان استعمال کرتے تھے۔اگردوست کبھی پیشاب دان خالی ہونے سے پہلے اچانک آدھمکتے تو مجھے بہت خفت اٹھانی پڑتی۔ بعض اوقات پیشاب دان سامنے ہی دھونے والے کپڑوں کے بیچوں بیچ پڑے نظر آتے۔ اگر وہ بیڈروم میں کہیں چھپا کر رکھے ہوتے تب بھی مجھے یہی گمان ہوتا کہ میری سہیلیوںتک بدبو پہنچ رہی ہوگی۔

جب میں تیرہ سال کی ہوئی تو اسکول میں بھاگتے ہوئے ٹخنے میں موچ آگئی۔ میرے کینیڈین پرنسپل مسٹر سپارک مجھے گھر تک چھوڑنے آئے۔ ہم عین اس وقت گھر پہنچے جب میری چھوٹی بہن  پیشاب دان خالی کررہی تھی۔ یہ  سارا منظر بھرپور اذیت  اورسلوموشن کے اندازمیں مکمل ہوا۔ چھوٹی بہن چلتی ہوئی گھر کے سامنے موجود گزرگاہ کو کاٹنے والے چھوٹے سے نالے تک آئی اور پیشاب دان وہاں خالی کردیا۔ سب کچھ واضح تھا… بہن… پیشاب دان… غلاظت ملا کناروں سے چھلکتاہوا پیشاب۔ میرا دل چاہ رہاتھا کہ کاش ! میں اس وقت کہیں اور ہوتی۔ میں پرنسپل صاحب کو خود سے برتر خیال کرتی تھی ۔ اگرچہ انھوں نے کچھ نہ کہا مگر مجھے لگا کہ وہ سوچ رہے ہوں گے:’’کیسا ناقص اور غیر مہذب گھرانہ ہے؟‘‘ میں تسلیم کرتی ہوں کہ زندگی ہمیشہ اذیت ناک نہیں ہوتی۔

ہم گھر کے اردگرد چھپن چھپائی اور دیگر مقامی کھیل کھیلتے ہوئے لطف اندوز ہوتے رہے تھے۔ کودنے کے لئے دیواریں شاندارتھیں۔ جب میں نوعمری کو پہنچی تو ہمیں بجلی کی سہولت بھی مل گئی ۔ ٹیوب لائٹ لیونگ روم کو روشن کرتی جبکہ بیڈرومز اور کچن میں الگ الگ بلب لگے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود مجھے اپنے گھر میں کچھ بھی اچھادکھائی نہ دیتا۔ میرے لیے یہ بدصورت، سڑا ہوا اور بھدا تھا۔ پھر جب میں سولہ سال کی ہوئی، میرے سکول کے کچھ اساتذہ ہمارے گھر آئے۔ یہ نئے چینی سال کا موقع تھا اور رواج کے مطابق ہمارا گھر کھلا تھا۔

جیسے ہی میرے آرٹ کے استاد میں داخل ہوئے تو انھوں نے کہا:’’تمہارا گھر بہت ہی خوبصورت مقام پر واقع ہے۔ مجھے گزرگاہ پر ہی رک کر اس کی تعریف کرنی پڑی۔ وہ تمام درخت اسٹیج کے پیچھے لٹکتے ہوئے پردے کی مانند تمہارے گھر کو تصویر جیسا دلفریب منظر بنادیتے ہیں۔  اپنے استاد کے ان تعریفی کلمات کے بعد پہلی مرتبہ میں نے اپنے گھر کو مسٹر ہوکے فنکارانہ نقطہ نظر سے  دیکھا اور اسے بالکل مختلف پایا۔ وہ پردہ جس نے ہروقت مجھے اس خوبصورتی کو دیکھنے سے محروم رکھا ہواتھا، ہٹ گیا تھا۔ میں اب اپنے گھر کی اس طرح ستائش کررہی تھی جیسے میں کوئی پینٹنگ کا مضمون  پڑھا رہی ہوں۔ اس روز میں نے پہلی دفعہ اردگرد پھیلے سرسبز پتوں کی بناوٹ اور شادابی کو محسوس کیا۔

’’ محمد ابراہیم جویو‘‘ ایک عہدسا ز شخصیت

$
0
0

سندھو دریا کے جنوبی کنارے سے دو میل کے فاصلے پر، کیرتھر کے کوہستانی سلسلے میں واقع ضلع دادو، تعلقہ کوٹری کے گوٹھ ’’آباد‘‘ کے ایک کاشتکار گھرانے کے سربراہ، اخوند میاں محبوب خان جویوؔ کے بڑے فرزند میاں محمد خان جویو کی دوسری بیگم ’’قائماں‘‘ عرف ’’کامل بائی‘‘ کے بطن سے 13 اگست 1915 کو متولد ہونے والے ’’میاں محمد ابراہیم خان جویو‘‘ کے کائناتِ فکر ونظر کی کہکشاںِ علم ودانش کے دمکتے ستارے ہونے کی گواہی ہر ذی فہم قلبی غیرجانب داری سے دینے پر بے اختیار ہے۔

جویو صاحب نسلاً راجپوت اور عملاً سندھ دھرتی کے سپوت ہیں۔ ان کے اجداد مشرقی پنجاب کے سرائیکی علاقے سے ہجرت کرکے سندھ میں آباد ہوئے تھے۔ اس آباد کاری کی ایک خاص وجہ جویوؔصاحب کے بزرگوں کی حضرت آدم شاہ کلہوڑہ سے عقیدت ِ خاص تھی، یہی سبب ہے کہ سکھر میں حضرت کے مقبرے کے احاطے میں جویوصاحب کے چند بزرگ بھی مدفون ہیں۔ آپ کے خاندان کو لکیاری سیدوں کی درگاہ شاہ صدرالدین سے قریبی نسبت رہی ہے۔

محمد ابراہیم جویو جیسی نابغۂ روزگار شخصیت کا احاطہ کرنا، خاص کر ایک اردو قلم کار کے لیے کتنا دشوار ہے اس کا بخوبی اندازہ سندھی کے اہلِ ادب ہی کرسکتے ہیں۔ جویو ؔصاحب کی ہر جہت اتنی ہمہ گیر ہے کہ اس پر کئی دقیق مقالات بھی کم ہوں گے۔ البتہ سید مظہر جمیل نے ’’محمد ابراہیم جویوؔ ایک صدی کی آواز‘‘ تالیف کرکے جہاں جویوصاحب سے نیازمندی کا حق ادا کیا ہے وہیں دبستان ِاردو کے خزانے میں جویوؔ صاحب کے افکار واذکار کو محفوظ کرکے ایک سچے لکھاری اور غیرجانب دار محقق ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے۔

جویوؔ صاحب آج سندھ کے عظمتِ دیرینہ کے نمایاں ترین نمائندہ دانش ور، مفکر، لکھاری، نقاد اور نظریہ ساز تسلیم کیے جاتے ہیں۔ وہ ایک آدرش وادی سیاسی مدبر اور سماجی مصلح کے منصب پر فائز رہبر وراہ نما کی حیثیت سے ملک کے قوم پرستوں میں عمومی طور پر اور سندھ میں خصوصی طور پر عزت وتکریم سے جانے اور مانے جاتے ہیں اور ’’سندھی دبستان ِ ادب‘‘ میں کوئی دوسرا پچھلی ایک صدی میں ان کے مقابل استقامت سے کھڑا نہ ہوسکا۔

یہ مقام انہیں ان تھک محنت، جہد ِمسلسل اور اپنے نظریات کی پاس داری کے بہ موجب حاصل ہوا ہے۔ اپنے سفرزیست میں انہوں نے ہمیشہ بلا رنگ ونسل ومذہب انسانیت کی توقیر کو اپنا نصب العین رکھا۔ جویوؔ صاحب کی عظمت، روشن خیالی، ترقی پسندی، سیکولرازم اور قومی تشخص کو فروغ دینے سے معمور ہے۔ ان کے افکاروخیالات اشتراکی نظریہ کے مقید اور مارکس ازم کی عملی تصویر ہیں۔ ان کی قوم پرستی کسی مقام پر بھی مارکسی بین الاقوامی محبت سے متصادم نظر نہیں آتی۔ جویوؔ صاحب اپنی یک صدی حیات میں سندھ کی کئی نسلوں کی تربیت اور ذہنی آبیاری کرنے کا تفخر رکھتے ہیں۔ مخدوم محی الدین کا یہ شعر:

حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو

چلوتو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

کے مصداق ان کی زندگی کی حقیقی تصویر ہے۔ سندھ کے رحجان ساز اہل دانش ان کے حلقۂ محبت میں شامل تھے ، جن میں خاص کر نظریاتی جہت کے حوالے سے سائیں جی ایم سید، کامریڈ سوبھوگیان چندانی اور پچاس کی دہائی کے اوائل میں شیخ ایاز ؔ اساسی اعتبار سے اور جویو ؔصاحب کے نظریات کو سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ میں شاید جویوؔ صاحب کی فکر انگیز ادبی شخصیت کی جانکاری سے محروم رہ جاتی، اگر میں اپنے تحقیقی کا م (پی ایچ ڈی) ’’شیخ ایازؔ کی اردو شاعری، سندھی سے تراجم کے تناظر میں‘‘ اپنے ممدوح کے نظریاتی، فکری اور تخلیقی محرکات کی پرکھ کے دوران، شیخ ایازؔ کی خودنوشت، ساہیوال جیل کی ڈائری اور اس کے خطوط میں بار بار ایسے کلمات نہ پڑھے ہوتے جن میں ایازؔ ؔخود اعتراف کررہا ہے،’’مجھے سندھی ادب کا سرخیل بنانے میں ابراہیم جویو ؔکا ہاتھ ہے۔‘‘

ایاز ؔکا یہ اعتراف ایک ایسے وقت میں جب وہ اپنی شہرت کے نصف النہار پر جگمگارہا تھا، کسی معاصر اور نقاد کے لیے فراخ دلی کی جہاں زندہ مثال ہے وہیں ابراہیم جویوؔصاحب کی علمی وتنقیدی بصیرت کا کھلا اعتراف بھی ہے۔ جویوؔصا حب آدرش وادی عظیم شخصیت ہیں۔ انسان دوستی، خردافروزی، روشن خیالی اور مساویانہ وسائل کا مطالبہ ان کے جہانِ فکر ودانش کے کلیدی فلسفے اور سرچشمۂ بالیدگی قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ادب میںان کا مجاہدہ سماجی ناانصافیوں کے خلاف ہے، ان کے نظریاتی اور روحانی تانے بانے حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؔ کے شعری اور ثقافتی ورثے سے ملتے ہیں۔

شاہ صاحب کا پیغامِ آفاقیت، انسان دوستی، مذہبی رواداری، تصوف اور سماجی ومعاشرتی مساوات کے عناصر کی عمل داری کی چھاپ، جویوؔ صاحبؔ کی تخلیقات اور نقد ونظر کی نگارشات میں بھر پور آہنگ کے ساتھ موجود ہے۔ ’’شاہ ؔ، سچلؔ، سامیؔ۔۔۔ ایک مطالعہ‘‘ جویوؔصاحب کے عمیق مطالعے اور عظیم تخلیقی وتحقیقی صلاحیتوں کا مظہر ہونے کے ساتھ ہی ان کے عمومی نظریات کو سمجھنے کے لیے ایک اہم دستاویز ہے۔

اس میں انہوں نے بڑی عمدگی کے ساتھ سماج کے لیے عمرانی اصول وضوابط کو اشتراکی اور مارکس ازم کے تناظر میں تصوف کے آہنگ میں پیش کیا ہے، جب کہ روحانی وابستگی شاہ لطیفؔ کے شعری فلسفے اور ثقافتی نظریے سے غیرمشروط پیوستہ ہے۔ ’’شاہؔ، سچلؔ، سامیؔ۔۔۔ ایک مطالعہ‘‘ ازخود ایک معرکے کی تخلیق ہے۔ اس میں جہاں انہوں نے اپنے تخلیقی جوہر دکھائے ہیں، وہیں فکرِ لطیف ؔ کو جغرافیائی سرحدوں سے آزاد کرتے ہوئے عالم گیر نظریۂ اشتراکیت کا حصہ بنادیا ہے۔ انہوں نے شاہ لطیفؔ سے نظریاتی اکتساب کواپنے مشترکہ فکری فلسفے کے پھیلائو میں بڑی مستعدی سے برتا ہے۔

جویوؔصاحب کے افکار حب الوطنی، سندھی تہذیب وتمدن، عوامی دکھ درد، ناآسودگی، استحصالی نظام کا خاتمہ اور ترقی پسندی، خوش حالی، امن وآشتی، صنفی ومذہبی آزادی اور فلاحی سندھ کی تعمیر سے عبارت ہیں۔ برِصغیر میں ترقی پسند تحریک کے زیراثر انجمن ترقی پسند مصنفین کی داغ بیل 1936 میں لکھنوء کے منعقدہ اجلاس میں پڑی۔ کچھ ہی عرصے میں سندھ کے روشن خیال دانش ور، جن میں نمایاں طور پر محمد ابراہیم جویوؔ شامل تھے، اس تحریک کے نظریاتی سفر میں شریک ہوگئے۔ سندھ میں مزاحمتی ادب کی تحریک بھی ترقی پسند تحریک کے زیرسایہ شروع ہوئی، اگر یہ کہا جائے کہ سندھ میں ’’سندھی ادبی سنگت‘‘ کا قیام انجمن ِ ترقی پسند مصنفین کے متبادل کے طور پر عمل میں آیا۔

جویوؔ صاحب کو کم سنی سے مطالعے کا شوق تھا اور سنِِ شعور میں داخل ہو نے تک انہوں نے عمرانیات، ادب، سیاسیات، مذہب، تا ریخ وفلسفہ اور علوم فنون کی کلاسیکل کتب کو اپنے ذہن وقلب میں منتقل کرلیا تھا۔ شوق ِمطالعہ کا اندازہ اس با ت سے لگائیے کہ جب کراچی سے بمبئی بحر ی سفر بہ غرض بی ٹی (ٹیچرز ٹریننگ) کے لیے کیا تو اس دوران بھی جہا ز کے کتب خا نے سے اپنے لیے کتا ب کا اجراء کرالیا۔

جویوؔصاحب ابتدائی عمر ہی سے طبقاتی تقسیم کے خلاف فکری رجحان رکھتے تھے۔ بمبئی پہنچے کے بعد انہیں بالشویک انقلابی تحریک کے فعال راہ نما اور ہندوستان کی کمیونسٹ تحریک کے بانی رکن ایم این رائے کے مضامین ’’ٹائمز آ ف انڈیا‘‘ میں پڑھنے کو ملے، جس سے ان کے اندر کا انقلابی جا گ اٹھا اور مارکسٹ تحریکوں کے منشور نے ان کے مستقبل کی راہ کا تعین کردیا۔ بمبئی سے واپسی پر جویوؔ صاحب کے خیالات اور تصورات میں تنوع پیدا ہوچکا تھا۔

اسی دوران انہوں نے سندھ کی سیا سی بساط کا گہرا مشاہدہ کیا تو انہیں گروہی مفادات کی سیا ست کے تنا ظر میں سند ھ کا مستقبل تاریک دکھائی دیا اور ان کے ذہنِ رسا نے روشن سندھ کا خواب دیکھا، ایک ایسا فلاحی سندھ جس میں حکم رانی کا مقصد تھا عوام کی فلاح۔ جویوؔ صاحب نے اپنے نظریات کو بڑے بے با ک، بے خوف اور استدلال کے سا تھ جون 1947 میں اپنی معرکۃالآرا ء کتاب “Save the Sindh, Save the Continent from Feudal Lords, Capitalists and their communalisms”میں پیش کیے گئے اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی فکر کتنی پختہ ہے۔

ملاحظہ فرمائیے،’’ہندوستان کا معاشرہ مکمل طور پر جاگیرداروں، زمیں داروں، ساہوکاروں اور ان کے گماشتوں کے ظالمانہ شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے اور پورے ہندوستان کا معاشرہ بھیانک طبقاتی تضادات کا شکار ہے، جس میں پچانوے فی صد عوام بھوک، افلاس، غربت، ناداری، ناآسودگی اور کسمپرسی کی چکی میں صدیوں سے پس رہے ہیں، جب کہ بمشکل مٹھی بھر غاصب طبقے ہندوستان کے معاشی اور پیداواری وسائل پر قابض ہیں اور صدیوں سے قائم اس استحصالی نظام کو ہر حکم راں نے تقویت دی ہے۔‘‘

جویوؔ صاحب کی کتاب نے سندھ کی سیاسی فضاء میں طوفان برپا کردیا۔ یہ پہلی دفعہ ہوا تھا کہ کسی نڈر قلم کار نے سندھ کے مقتدر طبقات کو للکارا تھا۔ جویوؔصاحب کی پیش کردہ سچائیوں اور کاٹ دار دلائل کی حقانیت کا براہ راست جواب دینے کی کسی کو مجال نہ ہوئی، جھنجھلاہٹ اور خوف کے مارے حکم رانوں نے جویوؔ صاحب کی کتاب کو بحق سرکار ضبط کرلیا۔ جویوؔ صاحب سندھ کے پس منظر میں اپنا سیاسی گرو، جی ایم سید کو تسلیم کر تے ہیں اور ان کے نظریات کو دوام دینے کے لیے انہوں نے ہر سطح پر بھر پور کر دار ادا کیا ہے۔

جویوؔ صاحب نے سندھی ادبی بورڈ کے سہ ماہی رسا لہ ’’مہران‘‘ حیدرآباد کے مدیر کی حیثیت سے سندھی ادب و صحافت میں جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اگرچہ اس دو ران ان پر مخصوص فکر کے پرچار کا الزام بھی عاید کیا گیا مگر ان کا سفر جاری رہا۔

جویوؔصاحب ایک صاحب ِ اسلوب نثرنگار اور مترجم بھی ہیں، ان کے سرمایۂ نقدونظر میں منطق، فلسفہ، تاریخ، شاعری اور انقلابی ادب کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے اپنے تراجم کے ذریعے سندھی ادب کو جدید فکرو نظر سے مالامال کیا ہے ان کے موضوعات کے تنوع اور فکری جہد کا اندازہ ان عنوانات سے لگایا جاسکتا ہے۔

اسلام کا تاریخی کارنامہ، بچوں کی تعلیم، فکر ی آزادی، گلیلیوکی زندگی، بچوں کا مسیح، مظلوموں کی تعلیم وتدریس، سماجی ابھیاس، شاعری کے سماجی تقاضے، جدید دور میں بین الاقوامی تعاون کا مسئلہ، باغی، غریبوں کا نجات دہندہ، بھٹو کی زندگی اور عہد اور پاکستان: خواب اور حقیقت۔ منظومات میں عنوانات کا پھیلائو دیکھیے، اُو سندھ، محنت کش کے غم محنت کش کے یا ر، آپ اپنی پرستش کرنے والے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جی ایم سید، عبداﷲ دائودپوتہ، پیر حسام الدین راشدی اور دیگر اہم علمی وادبی شخصیات کے خاکے بھی لکھے ہیں۔

جویوؔ صاحب بحیثیت نقاد اپنے ’’مہاگوں‘‘ یعنی پیش لفظ اور مقدمہ نگاری میں اُبھر کر سامنے آتے ہیں، جن میں مصنف کی حوصلہ افزائی، فنی مستقبل کی پیش گوئی کے ساتھ غیرجانب دارانہ اصلاحی اظہاریہ ہوتا ہے۔ ان ’’مہاگوں‘‘ میں بین السطور ان کا نظریاتی پرچار واضح طور پر جھلکتا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خیال ولفظ کا رشتہ ان کے قلم سے قرطاس پر منتقل ہوکر نظریاتی ادب کا لطیف حصہ بنتے ہیں۔

ایوبی آمریت ہو یاجنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف کا آمرانہ دورِ جویوصاؔحب کی باغی اور سرکش صدا پورے سندھ کی آواز بن کر گونجتی ہے۔ جویوؔصاحب بدی کی قوتوں سے کبھی بھی مرعوب ومغلوب نہیں ہوئے۔ عَلم انسانیت کو بلند کرنے کی پاداش میں شرپسند قوتیں انہیں روندتی رہیں، پابندسلاسل بھی کیا جاتا رہا، مگر جنون ِ عشق بڑھتا ہی رہا۔ انگلیاں فگار ہی سہی، دل پر جو گزری وہ ر قم کرتے رہے۔

یہاں یہ بات بھی ضبط تحریر میں لانا بے محل نہ ہوگا کہ انہوں نے بین الاقوامی ادب کے شہ پاروں کو جس چابک دستی اور زبان وبیان کی لطافت کے ساتھ سندھی ادب کا حصہ بنایا ہے، اس سے اذہان سازی میں جو انقلاب پیدا ہوا وہ ترقی پسند تحریک، روشن خیالی اور انسان دوستی کی ایسی راہوں کی کشادگی کا سبب ہوا کہ جس پر آج سندھ دھرتی کا ہر سپوت فخریہ کہتا ہے کہ میں جویو کا مقلد ہوں۔

جویوؔ صاحب کے بارے میں پورے اطمینانِ قلب سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ سماجی انقلاب کے لیے ادب کو کارگر جانتے اور علم وادب کے استحکام ہی کو معاشرتی انقلاب اور اس کی پائے داری کی ضمانت گردانتے ہیں۔

خوش نصیب ہیں جویوؔ صاحب جو نروس ’’نائنٹیز‘‘ سے نکل کر عمرِعزیز کی ’’سینچری‘‘ مکمل کر رہے ہیں۔

ڈاکیا، پینٹر اور ریل بابو

$
0
0

ایک زمانہ تھا کہ ہمارے یہاں ڈاکیے، پینٹر اور ریل بابو جیسے معاشرتی کرداروں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی، لوگ ان کے بارے میں نہ صرف عزت و احترام کا جذبہ رکھتے تھے بلکہ انھیں پسند بھی کرتے تھے، جب بھی ان میں سے کسی کے بارے میں بات چھڑتی تو بات کرنے والوں کا لب و لہجہ ہی بدل جاتا ، یوں جیسے وہ ان کی جگہ خود کو دیکھ رہے ہوں۔ گویا ان معاشرتی کرداروں کو افسانوی اہمیت حاصل تھی، لوگ ان کو دیکھنا اور ملنا چاہتے تھے۔

ڈاکیاجسم پر خاکی وردی پہنے، خطوط سے بھرا بیگ سنبھالے، سائیکل پر سوار جہاں سے گزرتا تھا ہر کسی کی نظر اس پر ہوتی تھی۔ گویا لوگ اس کے منتظر ہوں، بلکہ بہت سے تو ڈاک بابو یا چچا ڈا کیا کی آواز دے کر متوجہ کرتے تاکہ اگر ان کا کوئی خط یا منی آرڈر وغیرہ اس کے پاس ہے تو وہ انھیں دے جائے، ایسے میں ڈاکیا مسکرا کر اشارے سے خط نہ ہونے کے بارے میں بتاتا ہوا گزر جاتا تھا اور اگر خط یا منی آرڈر موجود ہو تو فوراً رک کر ان کے حوالے کرتا تھا۔ ڈاکیا معاشرے میں کتنا اہم اور پسند کیا جانے والا کردار تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکیے پر نظمیں لکھی گئیں جیسے

دیکھو ڈاکیا آیا ہے

ساتھ اپنے خط لایا ہے

یہ نظم بچوں کے نصاب میں شامل تھی ۔ اسی طرح ڈاکیے پر گیت لکھے گئے جیسے ملکہ ترنم نور جہاں کا گایا ہوا مشہور گیت

چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے

حال میرے دل کا تمام لکھ دے

ڈاکیے پر فلمیں بھی بنائی گئیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ڈاکیا معاشرے کا ایک اہم فرد بن جاتا ہے حتیٰ کہ بہت سی لڑکیاں اسے پسند کرنے لگتی ہیںاور بہت سی اسے اپنا رازداں بنا لیتی ہیں اور اپنے چاہنے والے کو اسی سے خط لکھواتی ہیں ۔ ڈاکیا بھی ان کے راز کو راز رکھتا ہے۔ مگر جہاں اسے کسی گڑ بڑ کی بھنک ملتی ہے تو ان لڑکیوں کو سمجھاتا ہوا بھی نظر آتا ہے اور ماں باپ کی عزت کو سب سے اہم قرار دیتا ہے۔

دور دراز علاقوں کی تو بات ہی مت پوچھیے وہاں تو ڈاکیے کو ہیرو کا سا مقام حاصل تھا ، کیونکہ وہاں کے لوگوں کا دوسرے ملکوں، شہروں یا علاقوں میں رہنے والوں سے رابطہ اسی کے ذریعے ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں ٹیلی فون یا دوسرے ذرائع رسل و رسائل عام نہ تھے، اگر کسی کے گھر میں ٹیلی فون کی سہولت ہوتی تھی تو پورے علاقے میں اس کی شہرت ہوتی تھی، وہ فون صرف اس گھر کا ہی نہیں گویا پورے محلے کا ہوتا تھا، کیونکہ رابطے کے لئے پورے محلے نے وہی فون نمبر اپنے عزیز، رشتہ داروں کو دیا ہوتا تھا اور وہ گھر والے بے چارے مروتاً کسی کو نہ بھی نہیں کر سکتے تھے اور رات ہو یا دن ہو جس کا فون آتا تھا اسے بلانے پر مجبور ہوتے تھے، آخر تعلق بھی تو نبھانا پڑتا تھا ، دل چاہے یا نہ چاہے۔

موبائل فون عام ہونے کی وجہ سے اب یہ صورتحال نہیں رہی۔ اس زمانے میں تعلیم عام نہ ہونے کی وجہ سے دیہاتوں کے رہنے والوں کی اکثریت ان پڑھ تھی ، اگر کسی گائوں میں کوئی پڑھا لکھا فرد ہوتا تو اس سے بہت زیادہ عزت و احترام سے پیش آیا جاتا تھا ، بعض بے روزگار پڑھے لکھے افراد تو خط یا درخواستیں وغیرہ لکھنے اور پڑھ کر سنانے کو بطور پیشہ اپنا لیتے تھے اور گائوں میں باقاعدہ وکیلوں کی طرح میز کرسی لگا کر بیٹھ جاتے تھے مگر ایسا بہت کم دیہاتوں میں ہوتا تھا۔

جن دیہاتوں میں کوئی پڑھا لکھا فرد موجود نہیں ہوتا تھا وہاں ڈاکیے کو خط پڑھ کر سنانے کا فریضہ بھی سرانجام دینا پڑتا تھا اور بہت سے لوگ تو لگے ہاتھوں اسی وقت جواب لکھوانے بھی بیٹھ جاتے تھے، یوں وہ دیہاتی گھرانوں کا راز داں بھی بن جاتا تھا مگر مجال ہے جو ایک گھر کی بات دوسرے کو بتاتا، وہ سب کے راز اپنے سینے میں چھپائے رکھتا ، اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت سے معاملات میں بہترین مشیر بھی ثابت ہوتا تھا، کسی گھر میں رشتے کا مسئلہ ہو یا کسی قسم کا جھگڑا ہو وہ ہمیشہ سب کو صائب مشوروں سے نوازتا تھا ، تاہم جو لوگ زیادہ بات نہیں کرتے تھے ان سے بھی اس کا رویہ ہمیشہ اچھا رہتا کیونکہ وہ سمجھ رہا ہوتا تھا کہ گھر والے بات کو راز رکھنا چاہتے ہیں مگر بالآخر اس سے بات کرنا ہی پڑتی تھی کیونکہ خط کا جواب تو وہی لکھتا تھا۔

یوں مشورہ نہ دیتے ہوئے بھی وہ ان کے گھریلو معاملات سے واقف ہو جاتا تھا ، مگر وہ اس گھر کی بات اس گھر تک ہی رہنے دیتا تھا۔ اسی وجہ سے دیہاتوں میں ڈاکیے کو گائوں کے چوہدری جتنی اہمیت حاصل ہوتی تھی اور اس کی آئو بھگت میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جاتی تھی ۔ مگر ڈاکیے میں چوہدریوں جیسی کوئی خصلت نہ پائی جاتی تھی وہ ہمیشہ منکسر المزاجی اور خلوص کا مرقع نظر آتا، بڑی محبت سے سب سے بات کرتا تھا اور میلوں سائیکل چلا کر آنے کے باوجود کبھی شکوہ نہ کرتا تھا۔

یہ الگ بات ہے کہ اگر کوئی گھرانہ اسے اپنا جانتے ہوئے گھر میں پڑی جنس جیسے گندم، چاول یا کوئی پھل اسے دے دیتا تو وہ بھی بخوشی لے لیتا تھا کیونکہ وہ اسے جس اپنائیت سے دے رہے ہوتے تھے وہ نہ کرکے اس میں غیریت کی دیوار کھڑی کرنا نہیں چاہتا تھا، گویا یہ اس کے لئے گھر کی ہی بات ہو جیسے کوئی فرد اپنے گھر سے ہی کوئی چیز لے لیتا ہے۔ بہت مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ڈاکیے کی حکمت عملی کی وجہ سے بہت سے گھرانوں کا نقصان ہونے سے بچ گیا، جیسے ایک واقعہ میں ڈا کیے نے ایک گھر کی بیٹی کا گھر اجڑنے سے بچا لیا اور خطوں میں پائی جانے والی ناچاقی کے بارے میں اس گھر والوں کو پتہ بھی نہ چلنے دیا اور اپنے سسرال والوں سے لڑ کر گھر آئی بیٹھی بیٹی کی طرف سے ایسے خطوط لکھے کہ اس کا شوہر جھگڑا بھول کر اسے لینے کے لئے خود ان کے گھر آن پہنچا۔

بھید تو تب کھلا جب وہ اپنے سسرال گئی اور اس کے شوہر نے بتایا کہ اس کی طرف سے لکھے گئے خطوط کی وجہ سے اس کا اور اس کی ماں کا دل پسیج گیا اور وہ اسے لینے گھر پہنچ گیا تب اس عورت کو یاد آیا کہ اس نے تو ڈاکیے سے خطوط بڑے غصہ بھرے لکھوائے تھے جبکہ اس نے اسے پتہ بھی نہ چلنے دیا اور اپنی طرف سے خطوط میں ایسی باتیں لکھ دیں کہ ان کا جھگڑا ختم ہو گیا، تب اسے یوں لگا جیسے وہ کوئی ڈاکیا نہیں بلکہ فرشتہ ہو جسے اللہ نے اس کی مدد کے لئے بھیجا تھا ۔

اسی طرح پینٹر کو بھی کسی دور میں بڑی اہمیت حاصل تھی، اس کے ہاتھ میں چھپا فن جب ظاہر ہوتا تھا تو کوئی نہ کوئی شہہ پارہ تخلیق ہو  چکا ہوتا تھا ، سڑک کنارے یا کسی دکان میں رنگوں کے تخت پر جلوہ افروز پینٹر جب اپنے فن کے جوہر دکھا رہا ہوتا تھا تو وہاں سے گزرنے والا ہر فرد ایک مرتبہ رک کر ضرور کینوس پر نظر ڈالتا تھا کہ دیکھیں کیا منصہ شہود پر آنے والا ہے، ایسے میں پینٹر دنیا و مافیہا سے بے خبر تخلیق کے عمل میں ڈوبا رنگوں سے لائنیں کھینچنے میں مصروف ہوتا تھا، وہ آڑی ترچھی لائنیں دیکھتے ہی دیکھتے کسی خوبصورت عورت یا حسین منظر میں ڈھل جاتی تھیں۔

اگر وہ پینٹر کسی گلی، محلے میں اپنا تخت لگائے بیٹھا ہوتا تو وہاں چھوٹوں، بڑوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو جاتا تھا، ہر کوئی تخلیق کے اس عمل کو دیکھ کر محظوظ ہو رہا ہوتا تھا ، اسی وجہ سے اسے عوام میں مقبولیت حاصل ہوتی تھی اس کی اسی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بچے بھی اس کی طرح تصاویر بنانا چاہتے تھے۔ پینٹر کا کمال یہ ہوتا تھا کہ وہ رنگوں سے نہ صرف تصویریں بناتا بلکہ خطاطی میں بھی مکمل مہارت رکھتا تھا اور نہ صرف فن پارے تخلیق کرتا تھا بلکہ تاجر طبقے کو اشتہاری بورڈ اور بینر بھی تیار کر کے دیتا تھا۔

اس زمانے میں جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کی وجہ سے تصاویر بنانے اور لکھنے لکھانے کا سارا کام پینٹر ہی سر انجام دیتا تھا حتیٰ کہ اشتہار بھی وہ لکھ کر دیتا تھا تب وہ چھاپہ خانے میں شائع ہونے کے لئے بھیجا جاتا تھا، مگر اب پینا فلیکس کی ایجاد کی وجہ سے پینٹر کے پاس کام بہت کم رہ گیا ہے۔ پینٹر کسی زمانے میں فلم انڈسٹری کی جان ہوتا تھا ، چھوٹے بڑے ہر قسم کے بینر اور پوسٹر وہ دیکھتے ہی دیکھتے تیار کر دیتا تھا، دن رات کام کرنے کے باوجود اس کے پاس کام ختم ہونے میں نہیں آتا تھا، اب یہ حال ہے کہ بہت سے پینٹر کام نہ ہونے کی وجہ سے سینما گھروں میں چوکیداری یا پھر ریڑھیوں پر کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔

ڈاکیے اور پینٹر کی طرح ریل بابو ( ٹی ٹی) کی بھی اپنی ہی اہمیت ہوتی تھی، جس کی وجہ ریل گاڑی کا سفر تھا جس کے ساتھ بہت سے رومانوی پہلو جڑے ہوتے تھے اور ریل گاڑی کا اصل روح رواں ریل بابو ہوتا تھا جس کے ایک اشارے پر شور مچاتی بھاگتی دوڑتی ریل گاڑی رک جاتی تھی اور اسی کے اشارے پر اپنی منزل کی طرف بڑھتی تھی ۔ ادیبوں نے ریل گاڑی کی چھک چھک اور دور سے سنائی دینے والے ہارن کی آواز کا اپنی تحریروں میں بڑے افسانوی انداز میں ذکر کیا ہے۔

جب ذکر ریل گاڑی کا آتا ہے تو ریل بابو کو بھلا کون بھول سکتا ہے، کیونکہ ریل کا سارا سفر اسی کے تو مرہون منت ہوتا ہے ، اسی لئے اس کے افسانوی کردار اور اہمیت کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ جب ٹرانسپورٹ عام نہ تھی تو ریل گاڑی کی اہمیت بہت زیادہ تھی کیونکہ بہت سے علاقوں میں یہ سفر کا واحد ذریعہ ہوتا تھا، دور دراز علاقوں کے لوگ ریل گاڑی دیکھنے اور اس میں شوقیہ سفر کرنے کے لئے بھی سٹیشن آتے تھے، تب ہر کسی کی نظر ریل بابو پر ہی ہوتی تھی ، بچوں کے لئے تو وہ افسانوی اہمیت رکھتا تھا اس کے ہاتھ میں پکڑی جھنڈی یا سیٹی ان کی نظروں کا محور و مرکز ہوتی تھی۔ ٹرانسپورٹ کے ذرائع میں جدت آنے کی وجہ سے معاشرے کے اس اہم کردار کی اہمیت وہ نہیں رہی جو اس زمانے میں تھی۔

گزرتا وقت بہت سی چیزوں کو بدل دیتا ہے، کئی چیزوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے یا ان کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں، اور ان سے منسلک افسانوی پہلو وقت کی دھول میں کھو جاتا ہے، ڈاکیے، پینٹر اور ریل بابو کے معاشرتی کرداروں کے ساتھ بھی یہی ہوا مگر یہ کردار اب بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور اپنا کردار بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔


بُک شیلف

$
0
0

دُھند میں لپٹا سفر

مصنف: ڈاکٹر صغیر خان

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر اسٹیڈیز، میرپور، آزاد کشمیر

صفحات: 128،قیمت:200 روپے

پونچھ کے مردم خیز خطے کی کوکھ سے افسانہ نگار کرشن چندر سے لے کر چراغ حسن حسرت تک نام ور ادیبوں اور قلم کاروں نے جنم لیا، حالانکہ یہ سرزمین عساکر کو سازگار ہے نہ کہ ادیبوں اور شاعروں کو۔ پونچھیوں کے بارے میں بلامبالغہ کہا جاتاہے کہ؎ سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری۔ جنگوں میں پونچھی جوانوں کی شجاعت لوک کہانیوں ڈھل چکی ہے، لیکن اب ادب، صحافت، شاعری اور سفارت کاری کے آسمان پر بھی کئی ستارے جگمگاتے نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر صغیرخان کی کتاب ’’دھند میں لپٹا سفر‘‘ دیکھ کر پونچھ کے ادیبوں اور شاعروں کی تصویریں حافظے کی اسکرین پر چمکتی اور غائب ہوجاتیں۔ یہ کتاب صغیر خان نے اپنے سفرِ جموں کے بارے میں لکھی ہے، جہاں وہ ایک سیمینار میں شرکت کی غرض سے گئے تھے۔ حقیقت میں یہ ان کی وطن یاترا کا ایک بہانہ تھا۔ ایک خواب کی تعبیر تھی جو وہ برسوں سے سینے میں چھپائے بیٹھے تھے لیکن بقول شاعر کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہ آتی۔

میں ان کا ہم سفر تھا لہٰذا کتاب کے مطالعے کے دوران بسااوقات ایسا لگتا کہ وہ میرے چشم دید واقعات بیان کررہے ہیں۔

امرت سر جہاں ہم نے پرتکلف ظہرانہ اڑایا۔ اے حمید کی سرزمین ہے۔ بٹالہ، پٹھان کوٹ اور گورداس پور سے گزرتے ہوئے، ڈاکٹر صغیر کی کتاب ماضی کے تلخ وشیرین واقعات سے پردہ اٹھاتی ہے۔ انہوں نے بڑی خوب صورتی سے تاریخ کے زخموں کو حال سے مربوط کرکے بیان کیا ہے۔ لکھن پور، جہاں سے ریاست جموں وکشمیر شروع ہوتی ہے، کا ذکر صغیر خان نے بڑی محبت سے کیا ہے۔ جموں جیسے کہ ڈاکٹر صغیر نے لکھا،’’عجیب شہر ہے جس کے ہیں ہزار رنگ۔ یہ ماضی کی شاندار روایات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ پرانے شہر کے عین قلب میں رگوناتھ مندر جموں کی اکثریتی شناخت کا اظہار کرتا ہے۔

اس کے نواح میں قائم جامع مسجد دن میں پانچ وقت رب العالمین کی کبریائی کی منادی کرتی ہے۔ کشمیر کو خانقاہوں کی سرزمین، لداخ کو بدھ بھکشوئوں کی دھرتی اور جموں کو مندروں کے شہر کے عنوان سے شناخت کیا جاتاہے۔ ایک سے ایک خوب صورت مندر۔ ایسا لگتا ہے کہ خون جگر میں انگلیاں ڈبو کر ہر اینٹ، ہر پتھر تراشاگیا ہو۔ یہ شہر 1947کی یاد بھی دلاتا ہے کہ ہزاروں بے گناہ عورتوں، بچوں اور مردوں کو شہید کردیا گیا۔ ۔

دھند میں لپٹا سفر کے مطالعے کے بعد یہ یقین راسخ ہوگیا کہ کشمیریوں کو باڑ لگا کر، مورچے بنا کر اور توپ وتفنگ کے ذریعے ایک دوسرے سے دور تو رکھا جاسکتا ہے، لیکن انہیں روحانی اور رومانوی طور پر جدا نہیں کیا جاسکتا۔

چاند کی دہلیز پر (کہانیاں)

کہانی کار: ارشد علی ارشد

ناشر: علی میاں پبلی کیشنز

صفحات: 286، قیمت: 350 روپے

تحریر، قلم کار کی شخصیت کی عکاس ہوتی ہے۔ ارتکاز کے ساتھ پڑھا جائے، تو نہ صرف تحریر اپنی خوبیوں خامیوں کے ساتھ پرت در پرت کھلتی جاتی ہے، بلکہ ہم تحریر کی توسط سے مصنف کے داخلی و خارجی معاملات تک بھی رسائی پالیتے ہیں۔ عالم گیریت کے اِس دور میں اردو زبان کو اس کے اصل حوالوں، خدوخال  اور پورے سیاق و سباق کے ساتھ بر قرار رکھنے کے لیے کتاب بہترین ذریعہ ہے۔

ارشد علی ارشد کی کتاب بھی ایک ایسا ہی ذریعہ ہے۔ یہ ادب کی دنیا میں اچھا اضافہ ہے۔ وہ لکھنے کا فن بہ خوبی جانتے ہیں۔ بڑی خوب صورتی سے انسانی رویوں، احساسات، خیالات اور سماج کی اونچ نیچ کو قلم بند کرتے ہیں۔ بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ زیرتبصرہ تصنیف اپنے اندر وہ تمام خوبیاں سموئے ہے، جو ایک اچھی کتاب کا خاصہ ہوتی ہیں۔

اچھا کہانی کار کرداروں میں ڈھل جاتا ہے، اور تب اس کے کردار قاری کے دل میں اترتے ہیں۔ ایسے ہی کردار ہمیں ’’ چاند کی دہلیز پر‘‘  میں ملتے ہیں، جو پڑھنے والوں سے مکالمہ کرتے ہیں۔ ان کرداروں میں ہمیں محبت کی چاشنی بھی ملتی ہے، نفرت کی آگ بھی۔ ہمیں وہ سب کردار نظر آتے ہیں جنھیں سماج پیدا کرتا ہے۔ لفظوں کا انتخاب قاری کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ یوں تو تمام کہانیاں اپنے اندر وسعت، لطافت اور مطالعیت لیے ہوئے ہیں، مگر حب الوطنی پر لکھی کہانیاں نمایاں ہیں۔ ’’ہم دیکھیں گے‘‘ اور ’’ہم ایک ہیں‘‘ جیسی تحریریں مصنف کے جذبہ حب الوطنی  کا  ثبوت ہیں۔ رواں طرز تحریر قاری کو باندھ لیتی ہے۔

’’عشق سمندر ہے ‘‘ کے بعد ارشد علی ارشد کی یہ دوسری تصنیف ہے۔ پہلی کتاب کے مانند اسے بھی پزیرائی ملی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے خود میں چھپے ہوئے قلم کار کو پوری طرح دریافت کر لیا ہے۔ حسن ترتیب کتاب کی خوبی ہے۔ پچیس کہانیوں کے مجموعے کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ قاری  اپنے میلان الطبع کے مطابق کہانی کا انتخاب کرسکتا ہے۔

ارشد علی ارشد کا انداز تحریر، مکالمے اور منظرنگاری کسی بھی لمحے قاری پر بوجھل فضا قائم نہیں کرتی۔ کہانی ’’شام سے پہلے‘‘ کا ایک ٹکڑا ملاحظہ فرمائیں:’’وہ خود کو قائل کرنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی ہمیں کوئی ایک ایسا ضرور ملتا ہے، جس کا ہم برسوں لاشعوری طور پر کھوج لگاتے ہیں۔‘‘

الغرض ہم کہہ سکتے ہیں کہ ارشد علی ارشد احساس کو مکمل گرفت کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امید ہے کہ ان کے آنے والے ناول ’’مکھنی‘‘ اور ’’دید بان‘‘  بھی پسند کیے جائیں گے۔

روز و شب اخبار کے

مصنف: محمد ارشد سلیم

صفحات: 188،قیمت:200 روپے

آپ بیتی یا زندگی کے مختلف ادوار اور پیشہ ورانہ زندگی کے واقعات کو کتابی شکل دینے کا سلسلہ بہت پرانا ہے، لیکن ایسی کتابیں کم ہوتی ہیں، جو قارئین کی دل چسپی کا باعث بننے کے ساتھ اپنے طرزتحریر کے باعث بھی ان کی توجہ حاصل کرلیں۔ محمد ارشد سلیم ادیب اور صحافی ہیں۔ ان کی یہ کتاب ان کے نظریات اور افکار کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ان کے وسیع مطالعے اور منفرد اسلوب کی عکاس ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستگی کے دوران انہوں نے کہانیاں، ناول اور افسانے لکھے۔

اخبار کے لیے کالم، فیچرز تحریر کرنے کے ساتھ مختلف شخصیات کے انٹرویوز کیے۔ پشتو اُن کی مادری زبان ہے، لیکن اردو پر بھی ان کی خوب گرفت ہے۔ اختصار کے ساتھ اپنی بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اس کے لیے الفاظ کا نہایت خوب چناؤ کرتے ہیں، محاورے اور اشعار کا موقع کی مناسبت سے استعمال ان کی تحریر کو مزید خوب صورت بناتا ہے۔ قلم اور کتاب سے اپنی دوستی کی ابتدا، ادب اور صحافت سے متعلق تحریروں کو انہوں نے مختلف عنوانات کے تحت اس کتاب میں سمیٹا ہے۔

کتاب کے پہلے باب ’’دیکھو یہ میرے خواب تھے‘‘ میں مصنف نے منفرد اسلوب میں اپنے پڑھنے اور لکھنے کے شوق، تعلیمی سفر اور صحافتی زندگی کے آغاز کو مختصراً مگر دل چسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ دوسرے حصّے میں ان کے چند اخباری کالمز کا انتخاب شامل ہے۔ اس کے بعد فیچرز اور پھر مختلف شخصیات کے انٹرویوز کو کتاب کا حصّہ بنایا ہے۔ آخر میں انہوں نے ’’انگارے ٹو‘‘ کے عنوان سے افسانوں کو جگہ دی ہے۔ کتاب کی طباعت اور اشاعت میں معیار کا خیال رکھا گیا ہے۔

انجمن طلبہ اسلام

ناشر: محمد حفیظ البرکات شاہ

مؤلف: معین الدین نوری

صفحات:764،قیمت:800 روپے

پاکستان بننے کے ساتھ ہی مختلف طلبا تنظیموں کا قیام بھی عمل میں آیا اور ان کے تحت مختلف سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ یہ تنظیمیں عالمی اور ملکی سیاسی، معاشی حالات کے زیرِاثر رہیں اور آنے والے برسوں میں انہوں نے پاکستان میں مختلف تحریکوں اور جدوجہد میں حصّہ لیا۔ پاکستان کی طلبا تنظیموں میں ’’انجمن طلبہ اسلام‘‘ کا نام نمایاں ہے۔

اس کی تشکیل کراچی میں 20 جنوری 1968 کو عمل میں لائی گئی اور جلد ہی یہ تنظیم پورے ملک میں پھیل گئی۔ یہ کتاب اسی حوالے سے ایک اہم کاوش ہے۔ اس میں انجمن طلبہ اسلام کے قیام کے پس منظر، فکری زاویوں، تنظیمی خدوخال، میڈیا و مطبوعات، انجمن اور طلبہ سیاست، ملکی سیاست اور انجمن، قومی و ملی تحریکوں میں کردار، انجمن کے اثرات، بانی اراکین اور انتظامیہ جیسے عنوانات کے تحت تفصیل شامل ہے۔

انجمن طلبہ اسلام نے بنگلادیش نامنظور تحریک، تحریک تحفظ ختم نبوت، تحریک نظام مصطفیٰ، تحریک ناموس رسالت، تحریک آزادی کشمیر، جہاد افغانستان اور تعلیمی، سماجی اور ملی محاذ پر جو کردار ادا کیا، کتاب میں اس پر بھی بات کی گئی ہے۔ آخر میں ’’انجمن تصاویر کے آئینے میں‘‘ کے عنوان سے تصویری سرگرمیاں بھی شامل کی گئی ہیں۔ مؤلف نے جہاں انجمن طلبہ اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں، وہاں مختلف طلبہ تنظیموں کا ذکر بھی کیا ہے اور طلبا کے سیاست میں کردار کی تفصیلات فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ کتاب معین الدین نوری کی تحقیق اور تالیف کا ثمر ہے۔ انہوں نے کتاب میں جہاں جہاں ضرورت محسوس کی ہے وہاں مختلف معتبر حوالوں سے کام لیا ہے۔ اس کتاب کے لیے ممتاز طلبا راہ نمائوں سے ملاقات، بات چیت اور سیکڑوں کتب سے معلومات اور حقائق اکٹھے کرنے کے ساتھ مؤلف نے دیگر ذرایع سے بھی استفادہ کیا ہے۔ کتاب کے مسودے پر اس تنظیم کے بانی رکن میاں فاروق مصطفائی سے اصلاح لی گئی ہے۔

یہ کتاب پاکستان میں طلبا سرگرمیوں کے آغاز، ان کے نظریاتی اور سیاسی کردار اور جدوجہد کے حوالے سے ایک اہم کارنامہ ہے، جس نے اس ضمن میں معلومات کا حصول اور حقائق سے آگاہی آسان کردی ہے۔ کتاب کے ابتدائی صفحات پر اہم اور معتبر شخصیات کی آراء اور تبصرے شامل ہیں۔ کتاب 764صفحات پر مشتمل ہے جن میں 16رنگین صفحات ہیں جب کہ بلیک اینڈ وہائٹ تصاویر الگ ہیں۔ کتاب کی طباعت اور اشاعت بہت معیاری ہے۔ یہ کتاب ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

عالمی رنگِ ادب (رسالہ)

صفحات: 640

قیمت: 500 روپے

یہ شمارہ بھی اپنی روایت کے مطابق مختلف ادبی موضوعات سے سجا ہوا ہے۔ ابتدائی صفحات حمد و نعت کے لیے مخصوص ہیں، جس کے بعد اردو شاعری کی مقبول صنف غزل، قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتی ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں مقیم اردو کے متوالوں نے غزل کی مخصوص بندشوں میں اپنی فکر اور کمال کو سمویا ہے۔ اسی حصّے میں نظمیں بھی شامل ہیں۔ تبصرے کے انداز میں ادبی جائزے پڑھنا چاہیں تو سب سے پہلے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی محسن ملیح آبادی کی رباعیات پر رائے نظر سے گزرے گی۔

اس کے بعد قارئین افسانوں سے لطف اندوز ہوں گے۔ صہبا اختر کی شاعری اور فن پر تحریر سے مضامین کے زمرے کا آغاز ہوتا ہے، جس میں کئی اہم موضوعات پر ادبی شعور اور تنقیدی بصیرت رکھنے والوں نے اپنے خیالات کو لفظوں کا پیراہن دیا ہے۔ ادبی تاریخ نویسی میں تحقیقی کا کردار کے عنوان سے سیدہ رضوانہ نقوی کی تحریر اہم ہے، جس میں انہوں نے متعلقہ کتب سے حوالے بھی دیے ہیں۔ دیگر مضامین شخصیات اور کتب پر تاثرات اور رائے پر مبنی ہیں۔ اس شمارے میں پروفیسر سحر انصاری اور عقیل احمد فضا اعظمی سے معروف صحافی اور ادیب حمیرا اطہر کی بات چیت بھی شامل ہے۔ حسبِ روایت آخری صفحات پر خطوط کو جگہ دی گئی ہے۔ عمدہ صفحات کے ساتھ کتابت میں معیار کا خیال رکھا گیا ہے۔

شاعر علی شاعر کی افسانہ نگاری (مقالہ)

مقالہ نگار: کنیز فاطمہ

ناشر: ظفر اکیڈمی، کراچی

صفحات:256،قیمت:300 روپے

یہ ایک ادبی تحقیق اور تجزیے پر مبنی کتاب ہے۔ کنیز فاطمہ اس کی مصنفہ ہیں اور یہ دراصل ان کا مقالہ ہے، جسے بعد میں کتابی شکل دی گئی۔ انہوں نے اپنا مقالہ یونی ورسٹی آف ایجوکیشن، لاہور کو پیش کیا تھا۔ اس تحقیق سے متعلق اس کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ اس کا مقصد شاعر علی شاعر کی افسانہ نگاری کے بارے میں معلومات اور حقائق جمع کر کے انہیں سامنے لانا ہے تاکہ ان پر دوسرے تحقیق کرنے والوں کے لیے راہ ہم وار ہو سکے۔ مقالہ نگار کا تعلق لاہور سے ہے اور ان کے مطابق یہ پانچ ابواب میں بٹا ہوا ہے، جس میں انہوں نے شاعر علی شاعر کے افسانوں کو موضوع بنایا ہے۔

بلوچ دیس سے بنگلادیش تک

مصنف: خالد میر

صفحات:80 ،قیمت:150 روپے

یہ ایک سفر نامہ ہے، جس کے مصنف خالدمیر کا تعلق بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے شہر اوستہ محمد سے ہے۔ خالد میر صحافت اور لکھنے لکھانے کے ساتھ اپنے آبائی علاقے میں نوجوانوں میں تعمیری سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے کوششوں اور دیگر سماجی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ 2011 میں انہیں بنگلادیش میں منعقدہ ساؤتھ ایشیا سوشل فورم میں شریک ہونے کا موقع ملا اور یہ کتاب اسی سفر کی روداد ہے۔

خالد میر کا اندازِبیاں دل کش اور تحریر عمدہ ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے بنگلادیش میں اپنی مصروفیت کے دوران وہاں جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، اسے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں اس سوشل فورم کے اغراض و مقاصد کو مختصراً بیان کرتے ہوئے اپنی نظر میں بنگلادیش کے سماج، سیاست اور معیشت کو جس طرح پایا اسے سادہ الفاظ میں قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

’’میری امی کہاں ہیں…؟‘‘

$
0
0

انسان کتنا مضبوط اور طاقت وَر ہے کہ بڑے بڑے کارنامے کر گزرتا ہے، اس کی یہ پختگی اور مضبوطی دراصل اس کی اچھی جسمانی اور ذہنی پرورش کا نتیجہ ہے، جس کی بنا پر وہ آسمان پر اڑنے اور چٹانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتا ہے… اور ماں ہی وہ شجر سایہ دار ہے، جس نے اس کے نازک سے وجود کو زمانے کے سخت تھپیڑوں سے بچا کر رکھا اور ہر سرد وگرم کو خود پر سہہ کر اس پر کوئی آنچ تک نہ آنے دی۔ یہ ایک ایسا رشتہ ہے کہ انسان عمر کے کسی بھی حصے میں اسے کھونے کا تصور تک نہیں کر سکتا۔زندگی کے کسی موڑ پر جب یہ جدائی مقدر بن جائے، تو چاہے، اس کی اولاد تک ہی صاحب اولاد کیوں نہ ہو، وہ بچوں کی سی طرح بلک بلک کر رو دیتا ہے۔

دنیا کے اس قریب ترین ناتے میں فطرت نے ایسی قوت اور محبت رکھی ہے کہ جسے الفاظ میں بیان کرنا محال ہے، لیکن بعض اوقات تقدیر میں ایسی چیزیں رقم ہوتی ہیں کہ ابھی ننھی کلیاں نازک اندام ہی ہوتی ہیں کہ ان سے یہ آغوش اور پناہ چھن جاتی ہے… حقیقتاً ان معصوم بچوں کے لیے یہ گھڑی قیامت کی سی ہوتی ہے۔ اپنے اب تک کے جیون میں انہوں نے فقط اُسی سے توسب کچھ سیکھا ہوتا ہے، ہر درد میں، ہر مرض میں اسی کی طرف دیکھا ہوتا ہے… اسے ہی پکارا ہوتا ہے… وہی تھی جس نے ان کی نگاہوں سے ہی اَن کہی بات جاننے کا فن سیکھ رکھا تھا…

کتنی ہی بار اندھیروں میں روشنی، مشکلات میں سہارا، درد میں دوا اور زخم پہ مرہم بنی… پھر وہ نہ رہی…! دور… بہت دور چلی گئی، کبھی نہ لوٹنے کے لیے…! وہ تو ماں کے ساتھ جان کی طرح لگے رہتے تھے۔ اب کیا ہوگا…؟ ان کے سُتے ہوئے چہرے ان کے مَن کی ویرانی کے بیان کو کافی ہوتے ہیں… بہت سوں کو پوچھنا نہیں آتا… مگر نگاہیں سوالی ہیں… ایسے میں ان کے عزیز واقارب بھی ایک اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ جب وہ معصوم سی کلیاں یہ پوچھتی ہیں کہ ان کی امی کہاں ہیں…؟

یہ سن کر ان کے زخمی کلیجوں پر آرے سے چل جاتے ہیں۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ ان فرشتوں سے بچوں کو کیا بتائیں اور کس طرح سمجھائیں…! اس گتھی کو سلجھانے کے لیے ماہرین نفسیات وعمرانیات کی رائے جانی گئی کہ آیا اس موقع پر ایسا کیا طریقہ اختیار کیا جائے، جو ان کے لیے بہتر ثابت ہو۔

ڈاکٹر ثوبیہ ناز: صدرشعبۂ عمرانیات، جامعہ کراچی

بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے کسی حادثے کے بعد بہت زیادہ چرچا کیا جاتا ہے کہ ماں چلی گئی، اب بچوں کا کیا ہوگا وغیرہ۔ 80 فی صد گھرانوں میں بچوں کی موجودگی سے بے نیاز اس طرح تبادلہ خیال کیا جاتا ہے، جو مناسب نہیں… ساتھ ہی دوسری شادی اور سوتیلی ماں کے منفی تاثر کا بھی خوب تذکرہ ہوتا ہے۔ اس سے مکمل طور پر گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ بچے اس طرح کی باتوں سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ دوسری ماں کے منفی تاثر کو بھی ختم کیا جانا ضروری ہے۔ بچے پر سختی تو سگی ماں بھی کرتی ہے، لیکن اس بنیاد پر سوتیلی ماں کو ظالم بنانے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔

ماں کا سایہ اٹھ جانے کے بعد اس کی کمی پوری کرنے کے لیے خالہ یا پھوپھی وغیرہ کو توجہ دینی چاہیے اور ماں کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بچے سے چھپانا نہیں چاہیے، بلکہ سچ بولنا چاہیے، جیسے ایک نانی نے اپنی نواسی کو بیٹی بنا کر رکھا اور اس کی ماں یعنی اپنی بیٹی کی دوسری شادی کرا دی، پھر جب اس لڑکی کی شادی ہوئی اور ایک دن یہ حقیقت کھلی، تو اس کی نئی زندگی میں پھر کافی مسائل کھڑے ہوئے۔ اس لیے ضروری ہے کہ شروع سے ہی سچ بولیں۔ اسے محبت سے حقیقت بتا دی جائے کہ آپ کی امی اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہیں۔ آج کل کے بچے سمجھ دار ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہا جا سکتا ہے کہ دعا کرو کہ وہ آجائیں۔ ساتھ ہی اس کا دھیان بانٹنے کے لیے اسے اس کے پسندیدہ مشاغل میں مصروف رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔

ڈاکٹرفرح اقبال: استاد، شعبۂ نفسیات، جامعہ کراچی

دنیا میں چاہے کوئی اور رشتہ کتنا ہی قریب تر کیوں نہ ہو، وہ ماں کا متبادل ہو ہی نہیں سکتا۔ جس طرح فطری طور پر اس کا رشتہ بچے سے جڑا ہوتا ہے کہ اسے بچے کی ضرورت اور تکلیف فوراً پتا چل جاتی ہے۔ اسی لیے یہ خلا تو رہے گا۔ تاہم ایسے مرحلے پر ضروری ہے کہ اس کا قریب ترین کوئی ایسا بڑا اس کی مادرانہ کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔ اس ضمن میں ثقافتی ہم آہنگی لازمی ہے۔ بہ صورت دیگر بچے کی شخصیت متاثر ہو سکتی ہے۔ قدرتی آفات کے بعد بھی اسی لیے بہت سے بچوں کو گود لینے سے روکا گیا کہ اگر پہاڑوں کے ماحول میں رچے بسے بچوں کو سمندر ی علاقے کا ماحول ملے گا، تو ان کے لیے نفسیاتی طور پر بہتر نہیں۔ گود لینے والے والدین چاہے کتنی ہی محبت اور خلوص سے کوشش کر لیں، لیکن ثقافتی خلیج کو پاٹنا ان کے بس میں نہیں ہوتا۔

ماں کے چلے جانے کے بعد بچے کو دھوکے میں نہ رکھیں، بلاواسطہ نہ بتائیں، لیکن بلواسطہ اسے یہ باور کرائیں کہ دنیا میں چیزیں ہوتی ہیں، پھر ختم ہو جاتی ہیں۔ اس کے قصے کہانیوں یا کارٹون وغیرہ کی مثالوں کے ذریعے اسے بتائیں، تاکہ اس میں اس وقت سے قبولیت پیدا ہو۔ اسے کھلونوں کے ٹوٹنے اور ختم ہونے کی مثال دی جا سکتی ہے، پھول اور پودوں کے حوالے دے کر سمجھایا جا سکتا ہے۔ اس سے جھوٹ نہ کہیں ورنہ پھر کچی عمر میں ہی آپ پر سے اس کا اعتبار اور اعتماد اٹھ سکتا ہے۔ اسے بتائیں کہ وہ دور گئی ہوئی ہیں۔ تم انہیں یاد کرو گے، تو وہ تمہارے پاس ہوں گی۔ تم ان کے لیے دعا کرو گے، تو وہ بہت خوش ہوں گی۔ اس طرح اسے باتوں باتوں میں حقیقت سے قریب کریں، تاکہ وہ اس حقیقت کو قبول کرنے کے قابل ہو۔ ساتھ ہی اسے بھر پور توجہ دیں۔ اگر اس کی دوسری ماں ہیں تو اسے یہ بھی بتا دیں کہ تمہاری دو ماں ہیں، ایک حقیقی امی تھیں اور یہ دوسری امی ہیں۔ یہ بھی آپ سے بہت محبت کرتی ہیں اور آپ کا خیال رکھتی ہیں۔

ڈاکٹر صابر خان: ماہر نفسیات

چھے سال کی عمر تک کا بچہ اس سانحے کو نہیں سمجھ پاتا۔ یہ حادثہ اس میں شدید ڈپریشن کا باعث ہوتا ہے۔ فوی ضرورت اس کے لیے مادرانہ شفقت اور ماں کی نفسیاتی کمی کو پورا کرنا چاہیے، یہ ذمہ داری اس کے کسی قریبی شخص کو انجام دینا چاہیے۔ ماں کے دنیا سے جانے کے بعد جب یہ پوچھے تو اسے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کہیں گئی ہوئی ہیں، آجائیں گی۔ اس طرح کہہ کر اسے ذہنی طور پر آہستہ آہستہ تیار کریں اور توجہ بانٹ کر اس کی ڈپریشن کم کرنے کی کوشش کریں، پھر سات سال کی عمر تک آہستہ آہستہ اس پر یہ حقیقت واضح کر دیں۔ اگر اس موقع پر بچے کی عمر سات آٹھ سال ہے، تو وہ ان چیزوں کو مکمل طور پر سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسے یقیناً حقیقت کے بارے میں مکمل طور پر معلوم چل ہی جاتا ہے۔

پروفیسر مہدی حسن زیدی: صدر شعبۂ عمرانیات، اسلامیہ آرٹس وکامرس کالج

ماں کا وجود ہر بچے کا ایک فطری تقاضا ہے۔ طبقاتی لحاظ سے دیکھیں تو کہیں کم اور کہیں زیادہ، لیکن ماں، ماں ہے۔ اس کے دنیا سے چلے جانے کے حادثے کے بعد امیر طبقوں میں بچوں کی دیکھ بھال کے لیے آیا رکھ لی جاتی ہے، جب کہ متوسط اور دیگر طبقوں میں قریبی رشتے یہ کمی پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ماں کے بعد سب سے زیادہ ضروری عمل یہ ہے کہ اس کی ضروریات اور خواہشات بالکل اسی طرح پوری ہوتی رہیں، جیسا ماں کی زندگی میں پوری ہو رہی تھیں۔ بہتر عمل یہ ہے کہ اس کی کوئی قریبی رشتے دار خاتون ماں کی یہ کمی پوری کرے۔ ہمارے معاشرے میں نانی، دادی، خالہ، چچی یا پھوپھی تائی وغیرہ یہ کردار ادا کر سکتی ہیں۔ یہی اس کا قریب ترین حل ہے۔

بچہ جب ماں کے بارے میں پوچھے تو اسے منطقی انداز میں جواب دیا جائے کہ دیکھو بیٹا، یہ ایک نظام ہے، یہاں ہر ایک اپنا اپنا وقت پورا کر کے چلا جاتا ہے۔ جیسے آپ اسکول جاتے اور آتے ہیں۔ وہاں آپ کا ایک متعین وقت ہے، آپ پہلے آجاتے ہیں، آپ کے ٹیچر تھوڑی دیر سے آتے ہیں۔ اسی طرح دنیا میں بھی لوگ آتے اور چلے جاتے ہیں۔ اسے دنیا سے چلے جانے والے رشتہ داروں کے حوالے سے بتایا جائے کہ دیکھو پہلے وہ بھی ہوا کرتے تھے، پھر ان کا وقت ختم ہوا تو وہ چلے گئے…

اسی طرح آپ کی امی کا بھی وقت ختم ہو گیا تھا، اس لیے وہ چلی گئیں۔ بچے کو غیر حقیقت پسندانہ جواب دینے سے گریز کریں، کیوں کہ یہ سائنسی دور ہے اس لیے پورے استدلال کے ساتھ مطمئن کریں۔ ٹال مٹول والے جواب دیں گے، تو پھر وہ دوبارہ بھی پوچھے گا اور آپ کو پھر اسی طرح اسے غیر حقیقی جواب دینا پڑے گا، جب کہ حقیقی بات اسے مطمئن کرے گی اور وہ آہستہ آہستہ حقیقت کو تسلیم کر لے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ اسے سچائی اور ٹھوس بات بتا کر مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے۔

گنے کے حیران کن فوائد

$
0
0

برصغیر پاک و ہند میں پائی جانے والی فصل گنا نہ صرف مالی بلکہ صحت کے حوالے سے بھی نہایت نفع بخش ہے۔گنے کا رس مختلف نیوٹرنٹس سے بھرپور ہوتا ہے، جو ہماری عمومی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہاں ہم آپ کو گنا کے رس کے چند اہم فوائد سے روشناس کروائیں گے۔

٭ گنے کا رس گلے میں خراش، دُکھاوٹ، نزلہ اور آدھے سرکے درد کے علاج کا بہترین گھریلو ٹوٹکا ہے۔

٭ گنا پٹھوں کی مضبوطی کو برقرار رکھنے کے لئے جسم کے لئے ضروری قدرتی گلوکوز کی فراہمی کا بہترین ذریعہ ہے۔

٭ بخار میں مبتلا شخص کو ڈاکٹرز خود ہدایات جاری کرتے ہیں کہ مریض کو گنے کا رس پلایا جائے۔

٭ یرقان کے مرض میں مبتلا مریضوں کے لئے گنے کا رس کسی اکسیر سے کم نہیں، کیوں کہ یہ جسم میں گلوکوز کی سطح کو مطلوبہ حد تک پہنچا کر مریض کی جلد بحالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

٭ نظام انہضام کی بہتری اور قبض کا بہترین علاج گنے کے رس کا استعمال ہے۔

٭ گنا سوکروس نامی شوگر کا حامل ہوتا ہے، جو قدرتی طور پر زخموں کو بھرنے میں معاون ثابت ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ شوگر کی قسم قوت مدافعت کو بھی بڑھاتی ہے۔

٭ گنے کا رس دل کے امراض سے حفاظت کا بھی ذریعہ ہے، کیوں کہ یہ جسم مں کولیسٹرول کی سطح کو بڑھنے نہیں دیتا۔

٭ گنے کا رس پیشاب کی نالی میں ہونے والی جلن کا بہترین قدرتی علاج ہے۔

٭گنے میں قدرتی طور پر الکلوی نامی جزو شامل ہوتا ہے، جو انسانی جسم کو غدود اور چھاتی کے کینسر سے لڑنے کے قابل بنا دیتا ہے۔

٭ گنے کے رس میں چوں کہ کیلشیم اور فاسفورس بھی شامل ہوتا ہے، اس لئے یہ ہڈیوں کی مضبوطی میں کردار ادا کرتا ہے۔

٭ خون کی کمی کا شکار افراد گنے کا جوس ضرور پیئں کیوں کہ اس میں آئرن کی اچھی خاصی مقدار پائی جاتی ہے۔

٭ مختلف تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ گنا کا رس گردے اور جگر کے لئے نہایت فائدہ مند ہے، یہ قدرتی طور پر جگر اور گردے کی صفائی کرکے ان کے ان کے کام کرنے کی استعداد کو بڑھا دیتا ہے۔

٭ گنے کے رس سے بنا گڑ آئرن کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے اور گڑ کی اسی خوبی کے باعث اس کا رنگ گہرا خاکستری ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ آئرن انسانی جسم کے لئے نہایت ضروری ہے کیوں کہ اس کی موجودگی سے خون کی کمی نہیں ہوتی۔

٭ مائیکرونیوٹرنٹس انسانی جسم کی ضرورت ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے ایک انسان متعدد نفسیاتی افعال سرانجام دیتا ہے، اور گُڑ ایسے مائیکرونیوٹرنٹس سے بھرپور ہوتا ہے۔n

ماہر تعلیم، پروفیسر انیتا غلام علی

$
0
0

ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم پروفیسر انیتا غلام علی تعلیم کے میدان میں گراں قدر کارہائے نمایاں انجام دینے کے بعد جمعہ 8 اگست 2014 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔

پروفیسر انیتا غلام علی 2 اکتوبر 1934 کو کراچی میں پیدا ہوئیں ان کے والد کا نام جسٹس فیروز نانا تھا۔ ابتدائی تعلیم سینٹ جوزف کانونٹ اسکول ’’پنج گنی‘‘ (مہاراشٹر، بھارت) اور سینٹ لارنس کانونٹ اسکول، کراچی سے حاصل کی۔ 1957 میں ڈی جے سائنس کالج سے بی ایس سی اور 1960 میں کراچی یونی ورسٹی سے ایم ایس سی (مائیکرو بیالوجی) سیکنڈ پوزیشن سے کیا۔

زمانۂ طالب علمی میں وہ نہ صرف مختلف طلبہ تنظیموں سے منسلک رہیں، بل کہ کالج اور یونی ورسٹی کی ٹیبل ٹینس، بیڈ منٹن اور نیٹ بال ٹیموں کی چیمپئن بھی رہیں۔ اس کے علاوہ انیتاغلام علی 1955 میں ٹوکیو میں ہونے والے ورلڈ یونی ورسٹی سروس سیمینار میں پاکستانی طلبہ کے وفد کی نمائندگی کرنے والی واحد ایشیائی طالبہ تھیں۔

پروفیسر انیتا غلام علی کی والدہ شیریں بیگم، شمس العلماء مرزا قلیچ ببیگ کی نواسی تھیں۔ مرزا قلیچ بیگ کا خاندان تین پشت پہلے جارجیا (روس) سے ایران کے راستے ہجرت کرکے حیدرآباد سندھ میں آکر آباد ہوا۔ یہ لوگ جارجین کرسچین تھے۔ نقل مکانی کے دوران انھوں نے آٹھ دس سال ایران میں قیام کیا۔

وہیں اسلام قبول کیا اور نام تبدیل کیے۔ پھر وہ ایران سے ہوتے ہوئے حیدرآباد سے ذرا باہر ایک گاؤں ’’ٹنڈو ٹھوڑو‘‘ میں آکر آباد ہوئے۔ اس گاؤں کے لوگ اب تک مرزا یا گُرجی کہلاتے ہیں۔ انیتا غلام علی کے نانا نادر بیگ مرزا، مرزا قلیچ بیگ کے سب سے بڑے صاحب زادے تھے۔ مرزا قلیچ بیگ کی تین بیویوں سے اکیس بچے تھے، جن میں لڑکیاں صرف دو تھیں اور دونوں ہی شاعرات تھیں۔ وہ دونوں مرثیے لکھا کرتی تھیں اور فارسی، عربی روانی سے بولتی تھیں۔

ان میں بڑی بیٹی یعنی انیتا غلام علی کی والدہ کی بڑی پھوپھو فخر النساء بیگم نے تو فارسی شاعری کے علاوہ سندھی اور اردو میں بھی بہت کچھ لکھا۔ انیتا غلام علی کے دادا خان بہادر نور الدین احمد غلام علی محکمہ تعلیمات میں تھے۔ وہ اپنی ملازمت کے سلسلے میں برصغیر کے کونے کونے میں تعینات ہوئے۔ راج کوٹ کے راج کمار کالج کے پرنسپل بنے، حیدرآباد کے ٹریننگ کالج کے پرنسپل رہے، جب وہ حکومت ہند کے شعبۂ تعلیم سے ریٹائر ہوئے تو انھیں چیف آفیسر وارسک کا عہدہ دے کر کراچی میں تعینات کردیا گیا۔ انیتا غلام علی کے دادا سندھ مدرسہ بورڈ کے ممبر تھے۔

اس بورڈ میں ہاشم گزدر، پیرالٰہی بخش، سر غلام حسین، ہدایت اﷲ اور ڈاکٹر داؤد پوتا بھی شامل تھے اور انہی کی کوششوں سے سندھ مدرسہ بورڈ کے تحت تقسیم سے قبل نو ادارے کھولے گئے، جن میں ایس ایم سائنس، ایس ایم آرٹس کالج کامرس کالج اور ایس ایم بی فاطمہ جناح کالج وغیرہ شامل ہیں۔ انیتا غلام علی کو اپنے آباواجداد اور والدین پر فخر رہا۔

انیتا غلام علی خاندان کی پہلی بیٹی تھیں۔ ان کی پیدائش پر ان کے دادا نے بے تحاشا خوشیاں منائیں۔ انھوں نے اپنے نام کے ساتھ اپنے دادا کا نام غلام علی کا اضافہ کیا۔ ان کا بچپن بہت ہی شان دار، دل کش اور بھرپور تھا۔ بچپن میں خوب شرارتیں کیں، تعلیم کی طرف ان کی توجہ ابتدا میں بہت کم رہی، بعدازاں کالج پہنچنے پر انھوں نے تعلیم کی طرف بھرپور توجہ دی اور کام یاب رہیں۔ زمانۂ طالب علمی میں 1953 سے آواز کی دنیا میں داخل ہوئیں اور ریڈیو اسٹیشن جاکر آڈیشن دیا، پاس ہوئیں اور باقاعدہ ریڈیو سے منسلک ہوگئیں۔

وہ نیوز کاسٹر کی حیثیت سے ریڈیو سے منسلک ہوئیں۔ 1960 سے 1972 تک ریڈیو پاکستان سے انگریزی میں قومی خبریں پڑھتی رہیں۔ ریڈیو کے بیس، بائیس سالہ عرصے کے دوران انھوں نے کالج، یونی ورسٹی سے پڑھا، ملازمت کی اور ساتھ ساتھ ریڈیو کے پروگرام کو بھی جاری رکھا۔ ریڈیو پر ابتدا اناؤنسمنٹ سے کی پھر چھوٹی موٹی کمنٹری شروع کی جو دراصل خبروں ہی کا ایک حصہ ہوتی تھی، جس میں سیاسی واقعات کا خلاصہ پیش کیا جاتا تھا۔

انیتا غلام علی تقریباً دو گھنٹے روزانہ ریڈیو کو دیتی تھیں۔ وہ بحیثیت اسٹاف آرٹسٹ کام کررہی تھیں۔ آغاز میں انھیں 80 روپے ماہوار ملا کرتے تھے اور جب ریڈیو کو خیر باد کہا تو ان کی تنخواہ 1100 روپے تھی۔ 1973 میں انھوں نے ریڈیو چھوڑدیا، کیوں کہ خبریں اسلام آباد سے ہونے لگی تھیں۔ انھوں نے بہ طور براڈکاسٹر بھرپور دور گزارا۔

پروفیسر انیتا غلام علی نے عملی زندگی کا آغاز 1961 سے سندھ مسلم سائنس کالج میں درس و تدریس سے کیا اور ساتھ ہی 1961 سے 1983 تک پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن سے سرگرم کارکن، نائب صدر اور صدر کی حیثیت سے بھی منسلک رہیں۔ وہ کالجوں کو قومیائے جانے کی تحریک کا حصہ بھی رہیں۔ 1980 میں اقوام متحدہ کی کانفرنس میں پاکستانی وفد کی ڈپٹی لیڈر تھیں۔

یونیسکو کے لیے تعلیم کی سفیر بنیں اور دنیا کی واحد خاتون تھیں جو انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (I.L.O) اور یونیسکو کی جوائنٹ کمیٹی آف ایکسپرٹس کے ساتھ رکن اور صدر کی حیثیت سے منسلک رہیں۔ 1983 میں سندھ ٹیچرز فاؤنڈیشن کی منیجنگ ڈائریکٹر بنیں۔ 1990 میں سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن قائم ہوا توا انیتا غلام علی اس کی منیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہوئیں۔ 1992 میں وہ اپنی سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئیں اور رواں سال جنوری تک مسلسل سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی منیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتی رہیں۔

سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن (SEF) کے تحت انھوں نے فروغ علم کے لیے جہاں اور بہت سے اقدامات کیے ان میں ایک اہم پروگرام Adopt A School بھی تھا، جس کے تحت کراچی میں مختلف لوگوں نے تقریباً 120 اسکولوں کی دیکھ بھال کا ذمہ لیا۔ SEF کے ا غراض و مقاصد میں چار باتیں شامل تھیں:

(1) تعلیمی سہولتوں کو وسعت دینے کے لیے ضروری اقدامات کرنا۔

(2) پس ماندہ یا محروم توجہ علاقوں میں تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لیے منصوبے تیار کرنا، یا ان منصوبوں کی تیاری میں حصہ لینا۔

(3) ایسے تعلیمی ادارے جو غیرتجارتی بنیادوں پر قائم کیے جارہے ہوں، کے لیے زمین کی خرید، عمارت کی تعمیر، فرنیچر، آلات، کتابوں، تعلیمی ساز و سمان اور اسٹیشنری وغیرہ کی خریداری پر مجموعی طور پر ایک تہائی حصہ نرم شرائط پر بطور مالی اعانت مہیا کرنا۔

(4) ایسے تعلیمی اداروں کو اپنے فنڈز میں سے غیر سودی قرضے فراہم کرنا یا شیڈولڈ بینکوں کے قرضے حاصل کرنے میں ان کی مدد کرنا۔

انیتا غلام علی ایک فعال رکن کی حیثیت سے کام کرتی رہیں۔ انھیں دو مرتبہ سندھ کی وزیر تعلیم رہنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔ نگراں حکومت میں تعلیم و ثقافت، سائنس و ٹیکنالوجی، نوجوان اور کھیل کی صوبائی وزیر رہیں۔ انیتا غلام علی کو لازمی پرائمری تعلیم کے سلسلے میں 2000 میں سینیگال میں منعقدہ ڈکار کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی اور اس کی دستاویزات پر دستخط کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ وہ سندھ کی سابق وزیر تعلیم کے علاوہ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی بانی منیجنگ ڈائریکٹر بھی تھیں۔ انھیں سابق صدر پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں سندھ کا صوبائی وزیرتعلیم مقرر کیا گیا تھا۔

انیتا غلام علی کی فروغ تعلیم اور اساتذہ کے حقوق، سندھ کی ثقافت، تہذیب و تمدن کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی اعلیٰ تعلیمی خدمات کے اعتراف میں انھیں تمغہ حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور بے نظیر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ بے شمار اعزازات اور اسناد سے بھی نوازی گئیں۔

اس کے علاوہ انھوں نے متعدد ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں، بالخصوص اقوام متحدہ کے زیراہتمام تعلیم اور خواتین سے متعلق کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ نیز تعلیمی اور معاشرتی مسائل پر سیکڑوں مضامین، مقالات اور تحقیقی رپورٹیں بھی لکھیں۔ پروفیسر ام سلمیٰ زمن نے انیتا غلام علی کے دس پندرہ مضامین کو کتابی صورت اور اردو ترجمہ کرکے ’’دکھتی رگ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔

یہ بات کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ انیتا غلام علی کو گَدھوں سے خاص لگاؤ تھا اور وہ ان کی تصاویر اپنے کیمرے میں محفوظ کرلیا کرتی تھیں۔ انھوں نے اپنی 80 سالہ زندگی بھرپور انداز میں گزاری، وہ بہت سادہ مزاج اور سادہ لباس تھیں۔ زندگی بھر ایک ہی طرز کے چائنیز کالر اور لمبی آستینوں کی قمیص اور سادہ شلوار پر مشتمل لباس کو ترجیح دی۔

بلاشبہ پروفیسر انیتا غلام علی کی زندگی ہمہ جہتی، رنگا رنگ، بھرپور اور بیک وقت سادگی اور جدوجہد کا بہترین نمونہ تھی۔

چوڑی دار پاجامہ اور فراک

$
0
0

 مشرقی ملبوسات کی بات کی جائے توشلوارقمیص، چوڑی دارپاجامہ اورفراک کوخاص اہمیت حاصل ہے۔

شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا کالج اوریونیورسٹیوں میں سالانہ تقریبات، ہر جگہ لڑکیاں فراک زیب تن کئے دکھائی دیتی ہیں۔ ہلکے اورشوخ رنگوںمیں بنے فراک کے ذریعے اپنے کلچرکی عکاسی کرنے کیلئے معروف ڈیزائنر جہاں چوڑی دار پاجامہ رکھتے ہیں، وہیں دوپٹہ بھی ضروری ہوتا ہے۔

’’ایکسپریس سنڈے میگزین‘‘ کیلئے کئے جانے والے فوٹوشوٹ میں ماڈل ماہی خان ایسے ہی ملبوسات کی عکاسی کررہی ہیں جوموسم اورتقریبات کی مناسبت سے شخصیت کوپرکشش بنانے میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔ماہی خان کہتی ہیں کہ ہمیشہ انہی ملبوسات کاانتخاب کیاجانا چاہئے جوآرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ شخصیت کو پُرکشش بنا سکیں۔

ویسے توشلوارقمیص ہماری ثقافت کی عکاسی کرتا ہے ، لیکن تقریبات میں شرکت کیلئے میری اولین پسند فراک اورچوڑی دارپاجامہ ہی ہوتے ہیں۔

Viewing all 4894 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>