Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

عید کی روایتی خوشیاں کہاں کھو گئیں…؟

$
0
0

 عید عربی زبان کا لفظ ہے، جو عود سے مُشتق ہے عود کا مطلب کسی چیز کا بار بار آنا اور چوں کہ عید ہرسال آتی ہے، اس لئے اس کا نام عید (الفطر) رکھا گیا۔

رمضان المبارک کے روزوں، نزول قرآن، لیلۃ القدر، اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کے باعث عید کو مومنین کے لئے ’’خوشی کا دن قرار‘‘ دیا گیا ہے۔عید شادمانی اور خوشیاں منانے کا دن ہے، اس دن بچے، جوان اور ضعیف العمر مرد وخواتین نئے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں اور مرد حضرات عیدگاہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں، جہاں وہ شکرانہ کے طور پر دو رکعت باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ عیدگاہ سے واپسی کے بعد دومسلمان بھائی آپس میں گلے ملتے ہیں۔ ایک دوسرے سے اپنی کوتاہیوں، زیادتیوں اور غلطیوں کی معافی طلب کرتے ہیں، پھر کھاؤ اور کھلاؤ کا دور شروع ہوتا ہے۔

اگر کوئی شخص مالی اعتبار سے کمزور ہے، تب بھی وہ اپنی طاقت کے بقدر عمدہ سے عمدہ اور بہترین کھانے بنا کر مہمانوں کی اوردیگر احباب واقارب کی ضیافت کرتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی عید روایتی اور مذہبی جوش و خروش سے منائی جاتی ہے، یہاں ہر طبقہ عید کی خوشیوں میں اپنے تئیں شریک ہونے کی کوشش کرتا ہے… لیکن ابتر ملکی حالات، غربت، مہنگائی، بے روزگاری، منفی سماجی رویے، بگڑتے خاندانی نظام اور جدید دور کی ایجادات (موبائل فون اور کمپیوٹر وغیرہ) کے غیرضروری استعمال کے باعث آج عید کی خوشیوں میں روایتی جوش، ولولہ، امنگ، خلوص، محبت اور پیار ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

عید کا انتظار اور اسے منانے کے ساتھ منسلک جوش و خروش اب کہیں دکھائی نہیں دیتا، آج عید بہت مکینکل ہو گئی ہے، اس کی خوشی میں وہ خلوص اور فطری پن نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ عید کی حقیقی خوشی وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑتی جا رہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ عید کے چاند کو غربت، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بد امنی، عدم تحفظ، ناانصافی اور دیگر مسائل کا گہن لگتا جا رہا ہے۔ متعدد مسائل میں گھرے عوام کے لئے ماہ صیام کے روزوں کے بعد سب سے زیادہ خوشی دینے والا تہوار اب واجبی سا رہ گیا ہے۔

روز افزاں ترقی نے راستے سمیٹنے کے بجائے مزید بڑھا دیئے ہیں، اب عید کے روز شہری مصنوعی خوشیوں کی تلاش میں حقیقی عزیز و اقارب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ آج سے تین، چار دہائی قبل عید کے رنگ ہی نرالے تھے۔ صبح صبح نماز عید کے بعد رشتے داروں کا ایک دوسرے کے گھروں کا چکر لگانا، بچوں کی عیدی کے لئے ضد، تحائف کا تبادلہ بھی اب کہیں کہیں ہی دیکھنے میں آتا ہے، جس کی بڑی وجہ تو مہنگائی کو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سماجی رویوں نے بھی ہمارے اطوار پر بڑا اثر ڈالا ہے۔

اب تو صرف موبائل فون کے ذریعے ’’فاروڈ‘‘ ایس ایم ایس بھیج کر اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرلی جاتی ہے۔ عید پر بھیجے جانے والے تنہتی کارڈ ایک دہائی قبل موبائل فون کی آمد کے ساتھ ہی قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ ہمارا اجتماعی خاندانی نظام زوال پذیر ہونے سے اب عید تہوار پر ہی خاندان اکٹھے ہو پاتے ہیں، وہ بھی چند لمحوں کے لئے، اس دوران بھی خاندان کے بیشتر نوجوان، بچے موبائل اور کمپیوٹر پر وقت گزاری کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ بڑے، بوڑھے پرانے وقتوں کو یاد کرکے کڑھتے نظر آتے ہیں۔ بڑوں کے ذہنوں اور دلوں پر عید کے جو نقوش کندہ ہیں، موجود زمانے میں وہ اسے یاد کر کے صرف آہیں ہی بھر سکتے ہیں۔

رمضان المبارک کے آخری روز چھتوں پر چڑھ کر مشترکہ طور پر چاند دیکھنے کی رسم بھی معدوم ہو چکی ہے، اب تو گھر والے اکٹھے ہو بھی جائیں تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر باقاعدہ اعلان ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ چاند رات کو رشتہ داروں، ہمسایوں کے گھر عیدی لے کر جانے کا رواج دم توڑ گیا ہے، اس کے برعکس چاند نظر آنے کا اعلان ہوتے ہی سارا خاندان بازاروں کا رِخ کرتا ہے تاکہ خریداری میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اسے پورا کرلیا جائے۔ ساری رات بازاروں میں گزارنے کے بعد گھر کے بیشتر افراد صبح سو جاتے ہیں اور محلہ یا شہر کی عید گاہ میں اکٹھے ہو کر نماز عید کی ادائیگی کے لئے جانے کی بجائے گھر میں نیند پوری کی جاتی ہے۔

ملک میں ایک دہائی سے جاری دہشت گردی، لاقانونیت اور شدت پسندی کے زخم بھی عید کے روز گہرے ہو جاتے ہیں اور ملک کے 50 ہزار سے زائد افراد (سرکاری رپورٹس کے مطابق) جو دہشت گردی کی آگ کا ایندھن بن چکے ہیں، عید پر ان کے گھروں میں حقیقی خوشی کی توقع کرنا درست نہ ہوگا، یوں براہ راست لاکھوں خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ جن لوگوں کے اپنے پیارے دہشت گردی کی نذر ہو چکے ہیں اُن کے لیے زندگی اپنے معمول سے ہٹ چکی ہے اور عید پر بھی دکھ کا ماحول برقرار رہتا ہے۔

ایسا ماحول بن گیا ہے کہ شہروں میں عید کے روز بھی شہری گھروں میں دبک کر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ کسی اندھی گولی یا کسی خودکش بمبار کا نشانہ بننے سے بہتر گھر میں رہنا ہے۔ ہر شخص اپنی ذات کے خول میں بند اپنی جان اور عزت بچانے کے لئے جہدوجہد میں مصروف ہے۔ بچوں کی معصوم خواہشات پوری کرنے کے لالے پڑے ہوتے ہیں۔

ماضی کی عید کی روایات اور خوشیاں قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہیں۔ لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لئے وقت نہیں، ہر شخص اپنی مصروفیات کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔ کچھ تو معاشی اور سماجی مسائل، کچھ ہم نے خود ہی اپنی عیدیں ویران کردی ہیں۔

ملک کے بڑے بڑے شہر پردیسیوں کی اپنے شہروں، دیہاتوں کو روانگی کی وجہ سے ویران ہو جاتے ہیں جبکہ جو پردیسی ہفتوں، مہینوں، سالوں بعد اپنے آبائی علاقہ میں قدم رکھتے ہیں تو وہاں کا نقشہ بھی تبدیل ہو چکا ہوتا ہے، وہاں ان کے سب جاننے والے اپنی زندگی کی مصروفیات میں مگن ہو چکے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے پردیسی اپنے آبائی علاقوں میں بھی پردیسیوں جیسی عید گزار کر واپس پردیس روانہ ہو جاتے ہیں۔

آج ہماری عیدیں مہنگائی، عدم تحفظ، افراتفری، منافقت سے آلودہ ہیں جبکہ ماضی میں ایسی چیزیں بہت کم دیکھنے میں آتی تھیں۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج نے بھی عیدوں کا رنگ پھیکا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چاند رات پر ایک مخصوص طبقہ خریداری پر بے دریغ رقم لٹاتا نظر آتا ہے تو دوسری طرف لاکھوں افراد عید کے روز بھی گھر کا چولہا روشن رکھنے کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی ان خوشگوار اور محبت بھری روایات کو پھر سے زندگی بخشنے کی کوشش کی جائے، جس کے لئے سب سے ضروری نکتہ ہمارا خود پر انحصار کرنے کے ساتھ اپنے اندر دوسروں میں خوشیاں بانٹنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے، کیوں کہ اسی مشق سے ہم اپنی پھیکی پڑتی زندگیوں میں دوبارہ سے رنگ بھر سکتے ہیں۔

مہنگائی، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ جیسی مشکلات پر قابو پانا تو ہمارے بس کی بات نہیں، لیکن اگر ہم اپنے طرز عمل میں معمولی تبدیلی لے آئیں تو عید کی خوشیوں کو دوبالا کیا جا سکتا ہے۔ عید سے قبل ہم اپنے قریبی رشتہ داروں، ہمسائیوں کے حقوق کا بھی خیال کریں اور انہیں اپنی خوشیوں میں شامل کریں تو ہماری اپنی مسرتیں بھی دوبالا ہو جائیں گی۔ عید کا دن گھر پر سو کر گزارنے کے بجائے رشتہ داروں، دوست احباب کیساتھ گزارا جائے۔ پرانی رنجشیں بھلا کر سب کو معاف کر کے نئے سرے سے شروعات کی جائے تو بیشتر پرانے زخم مندمل ہو سکتے ہیں اور رنجشیں بھلانے کیلئے عید سے بہتر کون سا موقع ہو سکتا ہے؟

ماند پڑتی عید کی خوشیوں پر مذہبی، سماجی اور معاشی ماہرین کیا کہتے ہیں…؟

ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب چیزیں کمرشلائز ہوتی ہیں تو پھر تہوار امیروں تک ہی محدود ہو جاتے ہیں۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی کُل آبادی کا 85 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔

عید خوشی کے بجائے ان کیلئے ایک خوف بنتی جا رہی ہے کیوں کہ اس تہوار پر اٹھنے والے اخراجات کی ان میں استعداد ہی نہیں۔ یہ لوگ رشتہ داروں حتی کہ اپنے بچوں سے بھی منہ چھپاتے پھرتے ہیں، تو کون عید کی خوشیاں منائے گا؟۔ استاد جامعہ دارالقرآن فیصل آباد مفتی محمد یونس چیمہ نے بتایا کہ اسلامی نقطہ نظر سے عید خالص دینی تہوار ہے، جس کے مخصوص اعمال اور احکامات ہیں۔ عید کا رسومات سے کوئی تعلق نہیں، کیوں کہ رسم و رواج ہردور اور علاقہ کے اپنے اپنے ہوتے ہیں، جو وقت کے ساتھ بدلتے بھی رہتے ہیں۔

بازاروں کو سجانا اور نوجوانوں کی ٹولیوں کی صورت میں ہلڑبازی، فلم دیکھنے کے لئے سینماؤں میں جانے سمیت دیگر خرافات کو عید کی روایتی یا حقیقی خوشی نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں وطن عزیز میں عید کی فطری خوشی میں کمی ضرور آئی ہے، جس کی وجوہات امن و امان کی ابتر صورت حال، گھریلو تنازعات، جرائم کی شرح میں اضافہ، فرقہ واریت، موسمی سختی اور لوڈشیڈنگ جیسے عوامل ہیں۔ سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ پنجاب یونیورسٹی کے سربراہ و ماہر سماجیات پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر کا کہنا ہے کہ ہم کس چیز کی خوشی منا رہے ہیں؟

ماہ صیام کا بنیادی مقصد تو دیانتداری اور معاشرے میں بہتری لانا ہے لیکن ہمارا معاشرہ تو ابتری کی طرف گامزن ہے، کیوں؟ کیوں کہ ہمارے رویے اور اعمال درست نہیں، رمضان المبارک کے دوران سرکاری دفاتر میں چلے جائیں تو ہر بندہ کہہ رہا ہوتا ہے، آج کل تو کوئی کام نہیں ہو رہا، عید کے بعد آئیے گا، حتی کہ چھابڑی والا بھی سبزی مہنگی کر دیتا ہے، تو ایسے میں ہمیں عید کی فطری خوشی کیسے نصیب ہو گی۔ پھر ہمارے ہاں بجلی اور پانی نہ ہونے سے لوگ پتھر کے دور میں رہے ہیں، وسائل کم اور مسائل بڑھنے سے خوشیاں ہم سے روٹھ رہی ہیں۔

معروف دانش ور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے مطابق مصنوعی ماحول کی وجہ سے حقیقی خوشیاں ہم سے دور ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ عید کے موقع پر خوشی ایک دوسرے سے ملنے اور مل بیٹھنے سے حاصل ہوتی ہے لیکن باقاعدہ ملنے کے بجائے جب موبائل کے ذریعے ایس ایم ایس کر دینے کو کافی سمجھ لیا جائے گا، تو پھر خوشیاں کہاں سے آئیں گی؟


کشادہ گھروں کی بجائے حبس زدہ خیموں میں عید کیسی ہوگی ؟

$
0
0

 پہاڑی علاقوں کے سُہانے جون سے میدانی علاقوں کے آگ برساتے چھٹے اور ساتویں ماہ تک، خوش گوار سورج سے چبھتی دھوپ، سرسراتی ہوائوں سے لو کے تھپیڑوں، یخ بستہ زمین سے تپتے میدانوں، موسیقی بکھیرتے جھرنوں سے ٹریفک کے بے ہنگم شور، روح افزا چشموں سے روح فرسا آلودگی، باغات سے صحرائوں اور پرسکون گھروں سے حبس زدہ خیموں تک کا جاں سوز سفر، کس مپرسی کی حالت میں رخت سفر باندھنے والے شمالی وزیرستان کے باشندوں کی اپنے علاقے اور گھروں سے دوری، اپنوں کے بچھڑنے کے دکھ اور معاشی مسائل نے ان کے چہروں پر وہ اداسی طاری کردی ہے کہ گویا اس سے قبل انہوں نے زندگی کی رمق دیکھی ہی نہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ خوشی کا ایک اضافی رنگ بھی ان کے چہروں پر جھلکتا نظر آئے اور ظاہر ہے یہ رنگ آنے والی عید کا ہونا چاہیے مگر ’’زہ یومتاثریمہ اخترہ پہ ما مہ رازہ‘‘ (میں ایک متاثرہوں اے عید! میرے ہاں مت آنا) مسلمانوں کے لیے ماہ رمضان اور پھر اس کے بعد عیدالفطر کی خوشیاں اﷲ کی جانب سے انعام ہوتی ہیں اور ہر مسلمان چاہے بچہ ہو، جوان ہو یا عمررسیدہ شخص، ہر کوئی اس انعام یا نعمت سے ضرور فیض یاب ہوتا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب یہ خوشی اپنے گھر کی دہلیز کے اندر اپنوں کے سنگ منائی جائے۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے کیوں کہ نہ تو اپنے گھرکی دہلیز نہ حجرہ نہ اپنے۔ اس خوشی کی تیاری کا سامان ہی عنقا ہو تو کس طرح یہ خوشی منائی جاسکتی ہے۔

بڑے تو اپنی پلکوں میں داستان غم چھپاکر اس تہوار کو منالیں گے، لیکن ان کلیوں اور پھولوں کا کیا بنے گا جو رمضان کے پہلے روزے ہی سے عید کی تیاری میں ایک ایک لمحہ گِن گِن کر گزارتے رہے ہیں، کیوں کہ ان نقل مکانی کرنے والوں میں کم وبیش ساڑھے تین لاکھ تعداد بچوں کی ہے۔ جو بے گھر ہوئے ہیں وہ کس طرح عید کی خوشیاں روایتی طورطریقوں کے ساتھ مناسکیں گے، لیکن ان کے اس دکھ کا اندازہ کسی اور کو شاید ہی ہو اور اس صورت حال پر پشتو کی یہ ضرب المثل صادق آتی ہے کہ ’’زمین وہی جلتی ہے جہاں آگ لگی ہو۔‘‘ تاہم درد دل رکھنے والے جب ان کیمپوں میں مقیم لوگوں کے چہروں کو پڑھنے یا ان کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کریں تو اس آگ کی تپش ضرور محسوس کی جاسکتی ہے۔

کیوں کہ ان کیمپوں اور ان سے باہر جہاں جہاں بھی متاثرین آباد ہیں ہر فرد اور ہر خاندان کی دکھ بھری داستان گو کہ الگ الگ ہے، لیکن درحقیقت ایک ہی ہے، جسے سن کر ان لوگوں کی تکلیف اور غم کو کافی حد تک سمجھا جاسکتا ہے اور ظاہر ہے اس المیے کی ذمہ دار وہ قوتیں ہیں جنہوں نے سرسبزوشاداب وادی کو جہنم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

وہاں کے مکینوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا اور ان کی سیاست، ثقافت، رسم ورواج اور تہذیب کو پیروں تلے روند ڈالا، یہ پناہ گزین اگر ایک طرف عسکریت پسندوں کوکوستے رہتے ہیں، تو دوسری طرف حکومت اور فوج سے بھی شاکی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری حکومت اور ایجنسیوں نے عسکریت پسندی کے موجودہ تناور درخت کو اس وقت کیوں جڑ سے نہیں اکھاڑا جس وقت یہ ایک معمولی سا کم زور پودا تھا؟ بہرکیف ہم نے ابھی ان سے آنے والی عید کی تیاریوں اور یہ تہوار منانے کے حوالے سے اپنا سوال مکمل کیا ہی نہیں تھا کہ ان کی آنکھیں یکدم یوں چھلک پڑیں جیسے برسوں کا لاوا پھٹ پڑتا ہے۔ ان میں سے ایک نے آسمان کی طرف نظریں اٹھاکر ایک لمبی آہ بھری۔ وہ پشتو کے اس ٹپے کی تصویر نظر آرہے تھے:

اول بہ ماتہ خلق ناست وہ
اوس بیاج گر شوم جولئی بل تہ غوڑاومہ

(پہلے لوگ مجھ سے مانگا کرتے تھے اب میں دوسروں کے سامنے جھولی پھیلاکے کھڑا ہوں)

اپنی داستانِ الم سناتے ہوئے شمالی وزیرستان کے گائوں دتہ خیل سے ہجرت کرکے بنوں پہنچنے والے اصل مرجان نے کہا،’’خدا ایسا وقت کسی پر بھی نہ لائے وہ منظر اُف خدایا! توپوں کی گھن گرج، گولیوں کی بارش اور تڑتڑاہٹ، بچوں کی چیخ وپکار جب ہمارے گائوں میں اچانک آپریشن شروع کیا گیا اور ہر طرف ’’ڈز ڈز‘‘ کی آوازیں، تو ہمارے سمیت بہت سے خاندانوں کو اپنے بال بچوں کو بچانے کی فکر لاحق ہوئی اور ہم بے سروسامانی کے عالم میں گھروں سے بھاگ نکلے اس وقت میری جیب میں صرف آٹھ سو پچاس روپے تھے اور اتنا وقت نہیں تھا کہ مزید رقم کا بندوبست کیا جاتا۔

اس لیے ہزاروں لوگوں کی طرح میں بھی اپنے پانچ بچوں اور بیوی کو لیے پیدل روانہ ہوگیا، لیکن بنوں پہنچنے تک ان پیسوں پر ہم نے صرف بچوں کے لیے بسکٹ اور چپس خریدے، علاقے میں پیش آنے والے حالات اور راستے کی تکالیف تو ایک طرف یہاں پہنچنے پر مزید کئی مصائب نے ہمارا استقبال کیا اور کئی روز تک دردر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد کیمپ میں پہنچے، پہلے توہم نے تین راتیں کھلے آسمان تلے بسر کیں، تین دنوں کے بعد امدادی ٹیم کے نمائندوں کی منت سماجت کرنے کے بعد ہمیں رہنے کے لیے ایک خیمہ تو دے دیا گیا لیکن یہاں بھی سکون کی ایک سانس میسر نہیں ہوئی، کیوں کہ اتنے مسائل ہیں کہ زندگی بوجھ محسوس ہونے لگی ہے۔

اگر ہمیں اس بات کا علم ہوتا کہ یہاں آکر یہ ذلت اٹھانی پڑے گی، ایک وقت کی روٹی کے لیے ترستے رہیں گے اور پھول جیسے معصوم بچوں کو بھیک تک مانگنا پڑے گی، تو ہم یہاں آنے کے بجائے وہیں اپنے ہی گائوں پر موت کی آغوش میں جانے کو ترجیح دیتے۔‘‘ اصل مرجان ایک پائوں سے معذور ہے اور گردوں کا مریض بھی ہے۔ اس کا ایک لمبے عرصے سے علاج چل رہا ہے، لیکن کیمپ میں اس کو جو دوائیں دی جارہی ہیں وہ کتنی معیاری ہیںِ ان سے اسے افاقہ ہوجائے گا یا تکلیف مزید بڑھ جائے گی؟ اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ کہتا ہے کہ اس کی معصوم بچیاں صبح سویرے خیمے سے نکل کر سڑک کے کنارے بھیک مانگتی ہیں۔

بچپن وہ دور ہے جس میں چہروں پر زندگی اور خوشی رقص کرتی دکھائی دیتی ہے، لیکن شمالی وزیرستان سے ہجرت کرنے والے بچوں اور بچیوں کے چہروں پر ایک عجیب سی خوف کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور ایک ٹراما کی سی کیفیت ہے۔ وہی ہوائی جہاز جس کی آواز سن کر گائوں کے بچے گھروں سے نکل کر تالیاں بجاتے یا گھرکی چھت پر کھڑے ہوکر اس کا نظارہ کرتے، ان بچوں کے لیے خوف کی علامت ہے۔ بنوں کیمپ میں موجود بچے اب جہاز کی آواز سن کر چیخیں مارتے ہوئے خیموں کی طرف بھاگ کر مائوں کی آغوش میں جا چھپتے ہیں۔

جہاز کی آواز سنتے ہی بچوں پر کپکپی سی طاری ہوجاتی ہے۔ انہیں بہت سمجھایا گیا کہ یہ بم باری کرنے والا جہاز نہیں ہے لیکن ان کو کسی طور یقین نہیں آرہا اور جہاز کی آواز سنتے ہی وہ مختلف خیموں میں جاچھپتے ہیں۔

کیمپ کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں کسی قبرستان کا گمان ہوتا ہے۔ زندہ لوگوں کا قبرستان۔ جگہ جگہ لگے خیمے قبروں کی مانند نظر آتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں ’’درگور‘‘ لوگ فریاد کی حد تک لب کھول ہی لیتے ہیں۔ ایف آر بنوں کے علاقے میں قائم بکا خیل کیمپ ایک وسیع وعریض اور چٹیل میدان پر مشتمل ہے، جہاں گردوغبار اُڑتا رہتا ہے۔

یہاں موجود پناہ گزین جنہوں نے ساری زندگی سرسبزوشاداب پہاڑوں، لہلہاتے کھیتوں، رنگ برنگے پرندوں کی چہچہاہٹ میں آبشاروں اور جھرنوں کی مدھر موسیقی سنتے ہوئے گزاری ہے، ان کے لیے اس کیمپ میں وقت گزارنا کسی جیل یا صحرا سے کم نہیں، کیوں کہ یہاں تو کسی سایہ دار درخت اور پرندے کا نام ونشان تک نہیں، یہاں انہیں ایک چیز وافر مقدار میں میسر ہے اور وہ ہے چلچلاتی ہوئی دھوپ، شدید گرمی، گردوغبار، خطرناک سانپ بچھو اور مچھروں کا بسیرا۔

جب ہم نے ہمت کرکے وہاں کی چند باپردہ خواتین سے آنے والی عید کی تیاریوں کے بارے میں سوال کیا تو اپنے مخصوص لب ولہجے میں وہ کہنے لگیں،’’بھائی! آپ کس عید کی بات کررہے ہیں۔ یہ عید تو آپ لوگوں کی ہوگی۔ آپ لوگ ہی خوشیاں منائیں گے۔ اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے، جوتے اور طرح طرح کی چیزیں خریدیں گے، لیکن بھائی! نہ ہم یہ سب کچھ خرید سکتے ہیں اور اگر خرید بھی لیں تو اسے استعمال کرنے سے ہمیں کوئی خوشی نہیں ہوگی۔

ہاں یہ خوشی تب ہوتی جب ہم اپنے گھروں، اپنے علاقوں میں ہوتے۔ روایتی طور پر ہر عید کو نمازفجر کے فوراً بعد ہم ٹولیوں کی شکل میں قریبی قبرستان جاکر اپنے پیاروں کی قبروں پر حاضری دیتی تھیں، انہیں یاد کرتیں، تلاوت کرتیں اور ان کی بخشش کی دعائیں مانگتی تھیں، لیکن اب ہم خود زندہ لاشیں ہیں۔ ایسے حال میں ہم کس طرح عید کی خوشیاں مناسکتی ہیں۔ اسی دوران ایک عمررسیدہ خاتون بھرائی ہوئی آواز میں بولی کہ ہمارے ہاں ہاں عید اچھی ہوتی ہے۔

رمضان کے پہلے ہی روز سے اپنے اور بچوں کے لیے نئے کپڑوں کی خریداری اور ان کی سلائی کا کام شروع ہوجاتا ہے۔ ہم لوگ عید سے ایک ہفتے قبل چوڑیوں، سرمے، کاجل، دنداسے اور میک اپ کے سامان کا بندبست کرلیتی ہیں۔ تین دن تک گائوں کی عورتیں اور لڑکیاں ایک مخصوص مقام پر عید منایا کرتی ہیں، جہاں مردوں کا آنا ممنوع ہوتا ہے۔

رات گئے منہدی لگائی جاتی ہے اور صبح ناشتے کے لیے سویوں، حلوے، انڈے اور دیسی گھی میں تلے ہوئے پراٹھوں کے لیے تیاریاں شروع کردی جاتی ہیں اور جب عید کو علی الصبح ناشتے کی تیاری شروع ہوجایا کرتی ہے تو اڑوس پڑوس میں روایتی سویوں اور حلوے کی پلیٹیں بھربھر کے ان کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس روز بچوں کو عیدی دینے، اڑوس پڑوس اور رشتے داروں سے عید ملنے کا مزہ اور خوشی اس دفعہ ہمیں بہت تڑپائے گی۔

ان خواتین کا کہنا ہے کہ اس دفعہ کیمپوں اور دیگر مقامات پر رہائش پذیر متاثرہ خاندانوں کو اگرچہ کئی مشکلات درپیش ہیں، تاہم سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ہم خواتین ہیں، جو کہ شدید تپتی اور جھلستی گرمی میں، اپنے کلچر کی وجہ سے، کیمپوں کے اندر رہنے پر مجبور ہیں۔ پناہ گزینوں میں بیش تر خاندان صاحب ثروت ہیں، لیکن اس افتاد نے انہیں لاچار بنادیا ہے۔ یہ خاندان کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے، ان کی عورتیں بھی سات پردوں میں یہ مصیبت کے دن کاٹ رہی ہیں۔ سرخ و سپید رنگت شدید گرمی میں جھلس کر رہ گئی ہے۔

ایک خاتون نے اپنا نام گل پری بتاتے ہوئے کہا کہ میرا خاوند دو سال قبل ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہوچکا ہے۔ میرے چھے بچے ہیں جن میں چار بیٹیاں ہیں۔ ہم پہلے ہی سے غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔ اب ان حالات میں، میں کس طرح اپنے بچوں کو عید کے حوالے سے چیزیں دے سکتی ہوں اور کس طرح ہم عید کی خوشیاں مناسکتے ہیں؟

شمالی وزیرستان کے متاثرین کے ساتھ آنے والے ساڑھے تین لاکھ سے زاید بچوں کا مستقبل دائو پر لگ گیا ہے۔ اسکول جانے والے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے غیریقینی کی صورت حال ہے، جب کہ ان کے والدین اس حوالے سے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ بھوک، پیاس، شدید گرمی، غربت اور غریب الوطنی کی کیفیت سے دوچار اور عید کی خوشیوں سے محروم یہ بچے جب اپنی اور اپنے والدین کی حالت زار دیکھتے ہیں تو مزید ذہنی اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ان کے لیے عید کی خوشیاں منانا تو دور کی بات، سیکڑوں بچے گردش ایام کے باعث محنت مزدوری پر مجبور ہوگئے ہیں۔ مزدوری کرنے والے بچوں میں بڑی تعداد ان بچوں کی ہے جو عام لوگوں کے گھروں یا اسکولوں اور کالجوں میں رہائش پذیر ہیں۔ متاثرین اپن میزبان گھرانوں کے افراد کے ساتھ مختلف کاموں میںہاتھ بٹاتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ حکومت یا کسی بھی غیرسرکاری تنظیم نے بچوں کے تحفظ کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے ہیں، چناں چہ ان بچوں کے غلط ہاتھوں میں استعمال ہونے کا خدشہ بھی پایا جاتا ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، لکی مروت اور سرائے نورنگ میں اس وقت حکومت اور غیرسرکاری امدادی اداروں کی تمام تر توجہ راشن کی تقسیم پر مرکوز ہے لیکن آنے والی عیدالفطر کے حوالے سے متاثرین اپنے بچوں کے کپڑوں اور نئے جوتوں کے لیے بھی پریشان ہی۔ دیگر متاثرین کی طرح نوجوانوں کی عید بھی اس دفعہ افسردگی کی عالم میں گزرے گی، کیوں کہ تاریخی طور پر ہر سال عید کے تہوار پر شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ٹولیاں رزمک، بنوں اور دیگر شہروں میں اپنے روایتی انداز میں عید مناتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ پورے سال میں صرف دو بار عیدین کے موقع پر خوب ہلا گلا کرنا وزیرستان کے نوجوانوں کی واحد تفریح ہے۔

اس مرتبہ وزیرستان کے عوام کو رمضان المبارک کی خوشیاں نصیب ہوسکی ہیں اور نہ نوجوانوں کو امید ہے کہ ان کی حالت عیدالفطر تک بہتر ہوپائے گی اور وہ روایتی انداز میں عید منانے کے قابل ہوسکیں گے۔ فی الوقت شمالی وزیرستان کے نوجوانوں کی واحد مصروفیت امدادی سامان کا حصول، گھر کے افراد کے لیے چھت اور بیماریوں سے بچائو کی تدبیر کرنا ہے۔ یہ نوجوان سارا سارا دن راشن کے انتظار میں گزار دیتے ہیں۔ یہ وہی نوجوان ہیں جو عیدین کے موقع پر ٹولیوں کی صورت میں رزمک، بنوں شہر اور مضافاتی علاقوں، ہوٹلوں کے احاطے میں یا پھر پارکوں اور ٹرانسپورٹ اڈوں پر، جہاں ان کا دل کرتا، ڈھول کی تھاپ پر رقصاں ہوجاتے اور اپنا روایتی رقص ’’اتھن‘‘ یا ’’’اتھنڑ‘‘ پیش کرکے لوگوں کے دلوں کو گرماتے اور داد وصول کرتے ہیں۔

رزمک کے قریب گرڈی روغہ کے 20 سالہ منصوراﷲ سے ہم نے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اپنے علاقے میں عید کی تیاریوں کے سلسلے میں ہم نوجوان نئے کپڑے، نئے جوتے اور نئی ٹوپیاں خریدتے جب کہ بڑے مشران لنگیاں اور قبائلی دستار ضرور خریدتے ہیں، تاکہ عید کے دن پہن کر خوشی مناسکیں، لیکن اس بار یہ سب کچھ ممکن نہیں، کیوںکہ اگر ہم کپڑے خرید بھی لیں تو قبائلی ٹوپیاں، لنگیاں اور دستار کہاں سے لائیں گے۔ قبائلی عوام کھانے پینے کے زیادہ شوقین ہوتے ہیں، اس لیے عید کے دن مختلف قسم کے پکوان پکائے جاتے ہیں، جس میں دُنبے اور بکرے کا گوشت اور چاول شامل ہوتے ہیں۔

عید کے دن سیرو تفریح کے لیے ہم رزمک جاتے گاڑیوں کی چھتوں پر اپنا روایتی رقص کرتے ہیں، جب کہ گاڑیوں کے اندر ڈھول پارٹی ہوتی ہے۔ رزمک جانے کے لیے نئی انگوٹھیاں اور گھڑیاں ضرور پہنتے تھے، لیکن اس بار ہمیں لکی مروت کے لوگوں کی رسم ورواج کا کیا علم کہ یہ لوگ عید کس طرح مناتے ہیں۔ اس لیے اس مرتبہ ہم عید خاموشی سے گزاریں گے۔ میران شاہ کے علاقے لونڈ محمدخیل بویا کے 18سالہ سلیم خان داوڑ نے بتایا کہ ہم اپنے علاقے میں عید انتہائی جوش وخروش سے مناتے ہیں اور خوب ہلہ گلہ ہوتا ہے۔

وہاں جو خوشی ہوتی تھی وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ نہ ہی وہ احساس آپ کو دلاسکتے ہیں، گائوں میں مختلف پروگرام ہوتے اور ڈھول کی تھاپ پر خوب رقص ہوتا تھا، جیسی عید ہم اپنے گائوں میں دوستوں اور رشتے داروں سے مل کر مناتے اب یہاں ممکن نہیں، کیوں کہ نہ ہمارے گائوں والے موجود ہیں اور نہ ہی ہمارے رشتہ دار۔

شمالی وزیرستان کے علاقے موسکی کے رہنے والے 14سالہ حمیدالرحمٰن نے بتایا کہ ہماری عید تو ڈھول اور رزمک کے ساتھ منسلک ہے، کیوںکہ ڈھول کی تھاپ پراتھن (اتھنڑ) کرتے اور سیرسپاٹے کے لیے رزمک جاتے تھے، اس عید پر نہ تو ڈھول ہوگا اور نہ ہی رزمک جاسکتے ہیں۔ رزمک سے واپسی پر رات گئے تک محفل موسیقی ہوا کرتی تھی، جس میں مقامی شوقیہ گلوکار حصہ لیا کرتے تھے۔ اس محفل میں وزیرستان کے جوانوں اور بڑوں کے کارناموں پر مشتمل گیت گائے جاتے تھے، لیکن ہم یہاں کچھ بھی نہیں کرسکتے کیوںکہ یہ ہمارا اپنا علاقہ نہیں ہے۔

حکیم خیل عیدک میرعلی کا سات سالا حمید داوڑ اور گڑدی روغہ کا 8 سالہ عظمت اﷲ کہتے ہیں کہ عید کا مطلب ہے نئے کپڑے پہننا، نئے جوتے اور نئی ٹوپی پہن کر بازار جانا اور رقص کرنا، عید کے دن انڈے لڑانا، مگر اس بار یہ ممکن ہی نہیں۔ حمید نے اپنے بڑے بھائی کے MP-3کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس عید پر ہم MP-3پر رقص کریں گے۔

16سالہ طاہراﷲ نے افسردہ لہجے میں کہا کہ اب تو وہ دوست بھی نہیں رہے، پتا نہیں کہاں ہوں گے، جن کے ساتھ ہم ہلہ گلہ کرتے تھے۔80 سالہ اول گل جو خاصہ دارفورس سے ریٹائرڈ ہیں، نے بتایا کہ ملازمت کے دوران بھی کبھی عید اپنے گھر سے باہر نہیں منائی۔ اس بار تو عید پر نئے کپڑے بھی نہیں سلوائے۔ میرے خیال میں تو ہماری کوئی عید نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے نوجوانوں کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ عید کے موقع پر ایک ہی رنگ کے کپڑے زیب تن کرتے ہیں، بال بڑھاتے ہیں، لیکن اب یہ زندہ دل نوجوان آئی ڈی پیز بن کر حسرت و یاس کی تصویر بنے ہیں۔

شمالی وزیرستان متاثرین قومی کمیٹی کے صدر نثارعلی خان سے جب آنے والی عید کی تیاریوں کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ آبدیدہ ہوکر کہنے لگے،’’صبح ہی جب بچوں نے عید کے لیے نئے کپڑوں، منہدی، چوڑیوں اور دیگر چیزوں کا مطالبہ کیا تو اپنی بے چارگی، بے بسی اور غریب الوطنی پر خوب رونا آیا۔

کیمپ میں زندگی کی سہولیات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے گھر اور کیمپ میں قائم فرق کو سمجھنا ہوگا۔ ساتھ ہی مقامیت اور ہجرت کے حالات میں موجود فرق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، کیوں کہ کسی اچانک پیش آنے والے حادثے کے نتیجے میں ایسا ہی ہوتا ہے اور حادثاتی حالات میں ظاہر ہے کہ آپ کواپنے گھر جیسی زندگی اور سہولیات نہیں مل سکتیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ہم مصیبت کے ان دنوں کے لیے بھی تیار ہیں، کیوں کہ ہم پر جو گزری یا جو کچھ گزر رہی ہے ہم اسے صبر وتحمل سے برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے بنوں میں قائم بکاخیل کمیپ اور دیگر علاقوں میں اپنے رشتے داروں کے ہاں قیام پذیر متاثرین کی امداد کے لیے مربوط کوششیں شروع کررکھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی اور دیگر غیرسرکاری امدادی اداروں کو درست اعدادوشمار مہیا کرکے عیدپیکیج کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔ اس سلسلے میں سروے کا کام شروع کیا گیا ہے، جس کے تحت متاثرین کی نشان دہی کرکے ان کو حتی المقدور عید کی خوشیاں دینے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ آپریشن کے بارے میں نثارعلی خان کا کہنا تھا کہ موجودہ فوجی کارروائی ماضی کی طرح نہ ہو، بل کہ اس بار حقیقی معنوں میںاس وقت تک کارروائی نہ روکی جائے جب تک شرپسندوں کا مکمل صفایا نہیں ہو جاتا، جس کے فوراً بعد متاثرین کی بحالی کا عمل بھی جلد ازجلد مکمل کیا جائے اور نقل مکانی کرنے والوں کو جو نقصانات اٹھانا پڑے ہیں ان کا ازالہ کیا جائے۔

آپریشن ضرب عضب
دیرآید درست آید کے مصداق خیبرپختون خوا کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ملکی اور غیرملکی دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی15جون کو باقاعدہ طور پر شروع ہوئی، جب کہ اس سے ایک روز پہلے ٹارگیٹڈ کارروائی میں بھی درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔

ابتدائی دنوں میں علاقے میں کرفیو لگاکر مخصوص اہداف پر محض فضائی کارروائیاں کی گئیں، جن میں ساڑھے تین سو سے زاید دہشت گردوں کا صفایا ہوا۔ علاقے سے آبادی کے انخلا کے بعد30 جون سے میران شاہ میں زمینی کارروائی شروع ہوئی تو فورسز کو اہم کام یابیاں ملیں۔ دہشت گردوں کے تربیتی مراکز اور بم بنانے کی دو فیکٹریاں بھی پکڑی گئیں، جہاں سے بارودی مواد اور دو سو کے قریب سلنڈر ملے، جنہیں سڑکوں پر نصب کرکے فورسز کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔

متاثرین کی تعداد ساڑھے نو لاکھ سے تجاوز کرگئی
چیف سیکرٹری کنٹرول روم پشاور کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق آئی ڈی پیز کی رجسٹریشن کے دوران کل 84 ہزار781خاندانوں اور9 لاکھ 55ہزار 996 افراد کی رجسٹریشن کر ائی گئی ہے، جب کہ نقل مکانی کرنے والوں کے ساتھ بڑی تعداد میں مویشی بھی لائے گئے ہیں۔

ضلع بنوں میں پی ڈی ایم اے نے ریلیف کیمپس قائم کر دیے ہیں، تاکہ ضلعی انتظامیہ کی ریلیف سرگرمیوں میں بھر پور مدد کی جا سکے، صوبائی حکومت نے اب تک پی ڈی ایم اے بنوں ریلیف کیمپس کے لیے34کروڑ90لاکھ روپے جاری کیے ہیں۔ وفاقی حکومت نے بھی ایف آر بنوں میں کیمپس لگانے کا فیصلہ کیا ہے، جن کی نگرانی وفاقی ڈیزاسٹر منیجمینٹ اتھارٹی اور پاکستان آرمی مشترکہ طور پر کررہی ہے، تاکہ متاثرین کو تیار خوراک، پانی، رہائش اور دیگر ضروری سہولیات فراہم کی جا سکیں اور عید پر وہ کسی پریشانی کا سامنا نہ کریں۔

اس ضمن میں پاک آرمی کی جانب سے عید پیکیج کے طور پر متاثرین میں امداد کی تقسیم کا مرحلہ ایک ہفتے قبل ہی شروع کیا گیا ہے، تاکہ ان متاثرین کو عید کے موقع پر اجنبیت کا احساس زیادہ نہ ستائے، لہذا ضرورت اس امر کی ہے متاثرین کی بروقت دادرسی اور ان کو مزید محرومیوں سے بچانے کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ غیرسرکاری ادارے، مخیر افراد اور عام پاکستانی بھی اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے ان کی بھرپور امداد اور ہمت بڑھانے کے لیے کمربستہ ہوجائیں، تاکہ یہ متاثرہ خاندان عید کی خوشیاں بھرپور طریقے سے مناسکیں۔

وزیرستان ایک تعارف
وزیرستان کا علاقہ دریائے کرم اور بلوچستان کے علاقہ ژوب کے درمیان افغانستان کی مغربی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ مشرق کی جانب قدیم تاریخی شہر ضلع بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے چند علاقے ہیں۔ وزیرستان کا کُل رقبہ 4,172 مربع میل ہے۔ اس میں شمالی وزیرستان 1,617 مربع میل اور جنوبی وزیرستان 2,555 مربع میل ہے۔ اگرچہ وزیرستان کے جتنے بھی علاقے اور حصے ہیں۔ سبھی کو وزیرستان کہا جاتا ہے لیکن یہ انتظامی لحاظ سے دو بڑے حصوں میں تقسیم ہے، جسے شمالی اور جنوبی وزیرستان کا نام دیا گیا ہے۔

شمالی وزیرستان کے ساتھ افغانستان کا صوبہ خوست اور دیگر قبائلی علاقے جن میں شوال اور بیرمل، جب کہ جنوبی وزیرستان کے مشرق میں ضلع بنوں کے چند علاقے ہیں۔ شمالی وزیرستان کا بیش تر حصہ دشوار گزار پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ قبیلہ وزیر کے علاوہ قبیلہ داوڑ بھی انہی پہاڑیوں میں زندگی گزار رہا ہے چوںکہ یہاں قبیلہ وزیر کی واضح اکثریت ہے، اس لیے اس علاقے کا نام بھی وزیرستان رکھا گیا۔ شمالی وزیرستان کی کل آبادی تقریباً 2,52,200 نفوس پر مشتمل ہے، جن میں اکثریت وزیر قبیلے کے افراد کی ہے۔

وزیر قبیلے کے تعلق پختونوں کی ایک بہت بڑی شاخ کرلانڑی سے ہے اور یہ سلسلۂ نسب ایک نام ور بہادر سردار سلیمان سے جاملتا ہے، جو اپنے زمانے کا ایک رحم دل ، مہمان نواز اور جنگ جُو سردار تھا۔ سردار سلیمان کو قدرت نے ایک بیٹے سے نوازا تھا، جس کا نام ’’وزیر‘‘ تھا، وزیر کے دو بیٹے تھے ایک کا نام ’’خدرے‘‘ اور دوسرے کا ’’لالے‘‘ تھا۔ خدرے کے تین بیٹے موسیٰ ، محمود اور مبارک تھے۔ ان میں موسیٰ ’’درویش‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ موسیٰ درویش کے دو بیٹے تھے، ایک کا نام لقمان اور دوسرے کا احمد تھا، لقمان سے اتمان زئی اور احمد سے احمد زئی وزیر کی شاخیں وجود میں آئیں۔

ان دونوں شاخوں کو درویش خیل وزیر بھی کہا جاتا ہے۔ اتمان زئی شمالی اور احمد زئی جنوبی وزیرستان میں آباد ہیں، جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ ان دونوں شاخوں کے مشترکہ مورث اعلیٰ بزرگ (یا جسے پشتو زبان میں مشرنیکہ کہتے ہیں) موسیٰ درویش ہیں۔ موسیٰ درویش کا مزار احمد زئی علاقے کے مغربی کنارے پر ڈیورنڈ لائن کے قریب واقع ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان دونوں میں نو نو تحصیلیں ہیں۔ شمالی وزیرستان کی تحصیلوں میں شیوہ، سپین ورم، میرعلی، میران شاہ، دتہ خیل، دوسلی، رزمک، گڑیوم اور غلام خان شامل ہیں۔

ان نو تحصیلوں میں مرکزی حیثیت میران شاہ اور رزمک کو حاصل ہے، جب کہ قدرتی وسائل کی بنیاد پر علاقہ شوال سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ جنوبی وزیرستان کی تحصیلوں میں بیرمل، وانا، تیارزہ، لدھا، چلار توئے خولہ، سروکی، سراروغہ اور جنڈولہ شامل ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں وانا اور شکائی خوب صورت علاقے ہیں۔ وانا جنوبی وزیرستان ایجنسی کا صدر مقام ہے، جو احمد زئی وزیر کے علاقے میں پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ جنوبی وزیرستان میں احمد زئی وزیر اور محسود قبیلے کے علاوہ ارمڑ، متونڑی، سلمان خیل اور غلجی قبیلے بھی آباد ہیں۔

ہلال عید جیسے ہر طرف کرنیں لٹاتا ہے

$
0
0

عیدکی خوشیاں اورعید کے رنگ سب کو بھاتے ہیں۔

سب لوگ مل جل کر عید کی ساعتوں کو خوبصورت بناتے ہیں لیکن شوبز کی چمکتی دمکتی دنیا کے ستارے ان خوشیوں کامزہ دوبالا کرنے کیلئے خاص اہتمام کرتے ہیں۔ ان کے پروگرام اورفلمیں ان تہواروں کویادگاربنانے میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔

اس حوالے سے ہمارے ملک کی معروف اداکارہ میرا نے ’’ایکسپریس میگزین‘‘ کیلئے ہونیوالے والے فوٹو شوٹ کے دوران اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ عید کی آمد سے قبل ہی تیاریوں کیلئے خاص اہتمام کرتی ہوں۔ بچپن سے ہی چوڑیاں، مہندی، ملبوسات، جیولری سمیت دیگراشیا صرف اور صرف عید کیلئے لیتی تھی اور آج بھی ان سب چیزوں کے بغیر عید کا مزہ ادھورا لگتا ہے۔

بننا سنورنا توخواتین کی اولین ترجیح ہوتی ہے اور میں بھی خوب سجتی سنورتی ہوں، عید کے روز میرے احساسات بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے بچپن میں ہمیں ہر جانب ہلال عید چمکتا دمکتا نظر آیا کرتا تھا۔

سعودی عرب میں طلاق کے بڑھتے اور بدلتے ہوئے رحجانات

$
0
0

اسلام آباد:  سماجی رابطے کی ویب سائٹس جہاں اپنے صارفین کے لیے من چاہے جیون ساتھی کی تلاش میں معاون ثابت ہو رہی ہیں، تو وہیں سوشل میڈیا کو طلاق جیسے ناپسندیدہ عمل کے لیے بھی اب کھلے عام استعمال کیا جانے لگا ہے۔

احوال یہ ہے کہ اب سعودی عرب میں بھی سماجی روابطے کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے بیویوں کو طلاق دینے کا خطرناک رحجان فروغ پا چکا ہے۔ وہاں کی متعدد عدالتوں کے جج صاحبان نے  اعتراف کیا ہے کہ شوہر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی بیویوں کو بڑی تعداد میں طلاق دے دیتے ہیں۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ، بالخصوص سوشل میڈیا نے لوگوں میں رابطے کے لیے ایک پْل کا کام توکیا لیکن اب لوگ اس پل کو طلاق کے لیے بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔

طلاق کا لفظی معنی ترک کرنا یا چھوڑ دینا ہے۔ عام ازدواجی زندگی کی اصطلاحات میں بھی اس سے مراد میاں بیوی کے نکاح کی تنسیخ ہے۔ مگر

سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ایک شوہر اپنی بیوی کو ای میل کے ذریعے طلاق دے سکتا ہے؟ ای میل کے ذریعے طلاق کاغذ پرلکھی تحریر کے متبادل سمجھی جائے گی؟سعودی فقہاء کا کہنا ہے کہ اگر جعل سازی نہ ہو تو ابلاغ کے تمام جدید آلات ٹیلی فون، سوشل میڈیا اور ای میل کے ذریعے دی جانے والی طلاق، شرعی طور پر واقع ہوجاتی ہے۔ البتہ ٹیلی فون پردی جانے والی طلاق میں بیوی کے لیے شوہر کی آواز کا پہچاننا لازمی ہے۔

ملائشیا کے بعد اب سعودی عرب میں بھی شادی کا تربیتی پروگرام متعارف کرانے کا اعلان ہو چکا ہے۔ یاد رہے ملائشیا میں بھی اسی طرح کا پروگرام متعارف کرانے کے بعد طلاق کی شرح بتیس سے کم ہوکر سات فی صد تک آ گئی تھی۔ اب سعودی وزارت انصاف نے ملک میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کرنے کے لیے شادی کے بارے میں ایک لازمی تربیتی پروگرام متعارف کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے روزنامہ الشرق الاوسط کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے تمام شہروں میں شادی کے خواہاں افراد کے لیے تربیتی اور بحالی کا پروگرام متعارف کرانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

اس پروگرام کے ڈائریکٹر فواد الجوغمین نے کے مطابق ’’کوئی بھی شخص شادی شدہ زندگی سے متعلق تربیت اور طلاق کی شرح کو کم کرنے کے لیے اثرات سے انکار نہیں کرسکتا‘‘ ۔ ایک سعودی روزنامے الاقتصادیہ نے سال کے آغاز میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ سعودی عرب میں 2013 کے دوران روزانہ اوسطاً 82 طلاقیں رجسٹر ہورہی تھیں۔ جب کہ ایک لاکھ کے قریب نکاح نامے جاری کیے جاتے ہیں، اس لیے اب طلاق کی بلند شرح پر قابو پانے کے لیے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں اب ایک ہزار تربیت یافتہ ٹرینر تعینات کیے جائیں گے جو مستقبل قریب میں شادی کے خواہاں جوڑوں کو تربیت دیں گے۔ یہ تربیتی عمل آیندہ دوسال(2016) تک جاری رہے گا اور اس کے تحت مردوخواتین کو شادی شدہ زندگی گزارنے کے ایسے گرُ سکھائے جائیں گے جن کو بروئے کار لاکر وہ اپنے خاندان کے استحکام کو یقینی بنا سکیں گے تاکہ سعودی عرب میں ازدواجی زندگی سے عدم اطمینان کے باعث طلاق کے رجحان پر قابو پایا جا سکے۔

سعودی عرب میں معمولی بات پر طلاق لینے اور دینے کے واقعات پر سوشل میڈیا پر بحث نے اس ایشو کو مزید بڑھا دیا ہے مثلاً ڈرائیونگ کی پاداش میں بیوی کو طلاق دے دی جاتی ہے۔ سعودی عرب کے ایک شہری نے اپنی بیوی کو محض اس بناء پر طلاق دے دی کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر گاڑی لے کر کیوں نکلی؟گو کہ سعودی عرب میں اب خواتین کی ڈرائیونگ کے حامیوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے شاید اسی لیے اب صنف نازک کے گاڑی چلانے پر لوگ طلاق کے حامی کم ہو رہے ہیں۔

تاہم دوسری طرف سعودی شوہر کے اس اقدام کی حمایت میں بولنے والوں کی کمی نہیں۔ خیال رہے کہ سعودی عرب میں خواتین کے گاڑی چلانے پر قانوناً پابندی عائد ہے لیکن ڈرائیونگ کی شوقین خواتین اب اکثر شاہراوں پر اس قانون کی خلاف ورزی کرتی پائی جاتی ہیں۔  دوسری جانب سعودی عرب میں طلاق دینے سے انکار پر خاوند سے عدالت باز پرس کرسکتی ہے البتہ عدالت کے کہنے کے باوجود خاوند کے ساتھ جانے سے انکار پر بیوی مالی حقوق سے محروم ہوجاتی ہے۔ سعودی عرب میں عدالتوں میں بیویوں کی جانب سے خلع کے لیے دائر مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے ایک نیا نظام نافذ کرنے پر بھی کام مکمل ہو چکا ہے، جس کے تحت ناراض بیویوں کو طلاق دینے سے انکار کرنے والے خاوندوں کو زبردستی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ اب جو خاوند بیوی کو طلاق دینے،نان ونفقہ ادا کرنے یا بچوں کو ماں کے حوالے کرنے سے انکار کرے گا، اسے زبردستی عدالت میں لایا جائے گا۔ وزارت عدل نے وزارت داخلہ کو اس نئے نظام پر عمل درآمد کی ذمے داری سونپ دی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ بارہ ماہ کے دوران خاوندوں کی جانب سے عدالتوں میں 1802 مقدمات دائر کیے گئے ان مقدمات میں ناراض بیویوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئیں۔ سب سے زیادہ کیس دارالحکومت ریاض میں دائر کیے گئے اور ان کی تعداد 668 تھی جب کہ قطیف میں سب سے کم 16کیس دائر ہوئے، ان کیسوں میں خاوند بالعموم یہ دعوے کرتا ہے کہ اس کی بیوی مزاحمت کرتی ہے اور اسے گھر میں رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر ایسے کسی کیس میں مزاحمت ثابت ہوجائے تو عدالت بالعموم بیوی کو اپنے خاوند کے گھر میں لوٹنے کا حکم دیتی ہے لیکن اگر وہ پھر بھی خاوند کے ساتھ رہنے سے انکار کردے ہے تو اس کو ایسا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا بل کہ عدالتی نظام کی دفعہ 196 کے تحت اس کو تمام حقوق سے محروم کردیا جاتا ہے ۔

سعودی وزارت انصاف کے مرتب کردہ اعداد وشمار کے مطابق 2013 کے دوران 1371 خواتین سمیت 1650 طلاق کے کیس سامنے آئے ۔ سابق جج اور عائلی تنازعات طے کرنے کے لیے قائم بورڈ کے قانونی مشیر احمد ساقیہ نے میڈیا کو بتایا کہ اس نوعیت کے مقدمات عام طور پر خواتین کے آبائی شہروں اور قصبات میں دائر کیے جاتے ہیں۔

ایک خاتون طلاق لینے کے لیے عدالت سے رجوع کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ گھر اور خاندان کی سطح پر تصفیہ نہیں ہو سکا۔ روایت پسند معاشروں میں خواتین کو اس لیے بھی طلاق لینے میں شرم یا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ اب یہ ایک معمول بن چکا ہے اور عدالتوں میں اس طرح کے مقدمات آتے رہتے ہیں، بل کہ میں تو اس حیران ہوں کہ یہ مقدمات بعض لوگوں کے لیے چونکا دینے والے کیوں ہوتے ہیں؟ شادی کے بعد ایسے بہت سے جوڑے ہوتے ہیں جن کوانتہائی اہم اور نجی معاملات میں مشکلات یا مسائل کا سامنا ہوتا ہے لیکن وہ اپنے مسائل حل کر لیتے ہیں تاہم طلاق ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، یہ معاملہ سادہنہیں ہوتا۔ان معاملات میں زیادہ جذباتی ہونا اور میاں یا بیوی میں سے کسی ایک یا دونوں کا ایک دوسرے کے علاوہ کسی کے ساتھ غیر قانونی اور اخلاقی قدغنوں سے بے نیاز ہو کر تعلق رکھنا بھی اس مسئلے کو بڑھانے کا ایک بڑا سبب ہے۔

یہ مسئلہ بعض اوقات وکلاء بھی احسن انداز سے سمجھنے اور نمٹانے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے وکلاء عام طور پر اپنے موکلین کو نفسیاتی حل کی طرف مائل کرتے ہیں‘‘۔ سلطان ذاہم ایسے ہی امور کو نمٹانے کا تجربہ رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’ عدالتوں میں اس نوعیت بہت زیادہ مقدمات زیر سماعت ہیں۔ جن میں ازدواجی تعلقات کی عدم اطمینانی کے سبب طلاق لینے یا طلاق دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ سعودی عرب میں طلاق کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے‘‘۔

ایک رپورٹ کے مطابق سال2013 میں طلاق کے تیس لاکھ کیس رجسٹرڈ ہوئے یہ شرح ایک گھنٹے میں تین اور یومیہ 82 واقعات تک جا پہنچی ہے۔ سعودی عرب خلیجی ممالک میں طلاق کے رجحان میں سلطنت عمان کے بعد دوسرے نمبر پر آ چکا ہے۔ طلاق کے 92 فی صد واقعات میں سعودی شہریوں کے نام آتے ہیں۔ سعودی عرب میں سماجی اصلاح کے ادارے مودت  کے چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹر ڈاکٹرانس عبدالوھاب زرعا نے ملک میں طلاق کے بڑھتے واقعات کے اسباب پربات کرتے ہوئے کہا تھا’’طلاق کے جو اعداد و شمار میڈیا میں آئے ہیں وہ واقعی خوف ناک ہیں۔ ہمارا معاشرہ طلاق کے ناپسندیدہ عمل میں اس مقام تک جا پہنچا ہے ۔

جہاں اب مزید گنجائش نہیں ۔ ہمیں اب اس مسئلے کا کوئی ٹھوس حل تلاش کرنا ہو گا۔ یہ ریاست کے ساتھ ساتھ عوام اور معاشرے کی بھی ذمہ داری ہے۔ پانچ سال قبل منشیات کا استعمال زوجین میں جھگڑوں اور طلاق کی بڑی وجہ تھی لیکن اب میاں بیوی کی بددیانتی سب سے بڑی وجہ سمجھی جا رہی ہے کیوںکہ طلاق کے جتنے بھی واقعات ریکارڈ پر آئے ہیں ان میں سے بیشتر کی وجہ شوہر یا بیوی پر بد دیانتی کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ مالی مسائل بھی طلاق کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ فیس بک اور ٹیوٹر کے بڑھتے نیٹ ورک نے بھی میاں بیوی کے درمیان فاصلے پیدا کیے ہیں، جس نے معاشرے میں انتشار کو مزید ہوا دی ہے۔

عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق طلاق کے واقعات میں سے اکثر معمولی اور کچھ مضحکہ خیز وجوہات کی بنا پر پیش آئے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے اپنی بیوی کو اس لیے طلاق دینے کی کوشش کی کیوںکہ اس نے شوہر کے کہنے پر اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند نہیں کیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک نامعلوم سعودی شہری نے شادی کے دس ماہ بعد اپنی اہلیہ کو سمارٹ فون کی ایپ کی مدد سے طلاق کا پیغام بھیجا اور پھر کہا کہ یہ پیغام حادثاتی طور پر چلا گیا تھا۔ تاہم اس کی اہلیہ نے یہ پیغام مقامی جج کی عدالت میں پیش کیا جس نے طلاق کو صحیح قرار دے دیا۔

معاشرتی معاملات کی سعودی مبصر ثمر فتانی کا کہنا ہے کہ ملک میں تقریباً 40 فی صد طلاقیں اس لیے ہوتی ہیں کہ شوہر اپنی بیویوں پر نوکری چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں جب کہ 60 فی صد کا تعلق بیوی کی تن خواہ پر شوہر کے کنٹرول کے معاملے سے ہوتا ہے۔خیال رہے کہ سعودی عرب میں قانوناً ایک خاتون اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کام نہیں کر سکتی۔ وہ اسے کام کرنے سے روک سکتا ہے اور اس امر کا تعین بھی کر سکتا ہے کہ وہ کہاں کام کرے اور کہاں نہیں؟ طلاق کے رجحان میں اضافے کی وجہ سعودی شوہروں کا اپنی بیویوں سے ناروا سلوک بھی ہے۔ ثمر فتانی کا کہنا ہے کہ ملک میں ہر چھ میں سے ایک خاتون کو روزانہ بدکلامی اور جسمانی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ استحصال کرنے والوں میں سے 90 فی صد ان کے شوہر یا والد ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر عالیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ طلاق لینے والے جوڑوں میں سے زیادہ تر جوان جوڑے ہیں جو کہ شادی کے ایک یا دو سال بعد ہی علیحدگی چاہتے ہیں۔ طلاق کے ان واقعات کی وجہ سے نوجوان سعودی خواتین میں شادی سے قبل اپنی تعلیم مکمل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے تاکہ مستقبل میں ایسی کسی صورت حال میں انھیں اپنے بل بوتے پر زندگی گزرانے میں مشکلات درپیش نہ ہوں۔

طلاق کی اور بھی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اس کا اصل علاج تو خدا کے حضور جواب دہی کاخوف ہی  ہے۔ طلاق کا توڑ کرنے، نئے جوڑوں کا اپنے گھریلو حالات کو بہتر بنانے، بچوں کے سامنے باہمی محبت و شفقت کا نمونہ بننے میں ان کی بچپن کی نیک تربیت پر بھی انحصارکرتاہے۔ مگر جب معاشرہ میں مادہ پرستی حد سے زیادہ بڑھ جائے، شخصی آزادی ناپید ہو ، جنسی بے راہ روی ، انانیت ، لالچ اور بخل پھیل چکا ہو تو بزرگوں کی باتیں مؤثر نہیں رہتیں۔ایسے میں بات بات پر طلاق نہ ہو تو کیا ہوگا۔ اسلام میں طلاق کو حلال چیزوں میں خدا نے بھی ناپسندیدہ قرار دیا ہے اور شاید اسی لیے طلاق میں جلد بازی سے منع کیا گیا ہے۔

طلاق سے متعلق سعودی اعداد و شمار پر سوالیہ نشان
سعودی عرب میں عائلی امور کی ایک معروف مشیر نے سعودی خواتین کی غیر ملکی مردوں سے ہونے والی شادیوں کی کام یابی کے بارے میں وازت انصاف کے جاری کردہ اعداد و شمار کی صداقت پر شک کا اظہار تو کیا ہے لیکن وہ اس ضمن میں کوئی ٹھوس دلائل نہیں دے سکیں۔ یاد رہے نے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں سعودی وزارت انصاف نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میںدعوی کیا گیا تھا کہ غیر ملکی مردوں سے سعودی خواتین کی 90 فی صد شادیاں کام یاب رہی ہیں جب کہ سعودی جوڑوں کے درمیان طلاق کی شرح 21 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ عائلی امور کی مشیر ڈاکٹر فوزیہ الاشمخ کا کہنا ہے ان اعداد و شمار کی تصدیق کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہو گا۔

سعودی خواتین کی غیر ملکیوں سے شادی کا لمبے عرصے تک چلتے رہنے کا یہ مطلب ہعگز نہیں کہ ان میں کوئی مشکل یا رکاوٹ پیش نہیں آتی۔ اس پارٹنرشپ کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خواتین کو معاشرے کے سامنے غیر ملکی شوہروں سے اپنی شادی کے فیصلے کو ہر صورت میں درست ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کو مکہ مکرمہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’مکہ‘‘ نے شائع کیا کے مطابق سعودی جوڑوں میں طلاق کی شرح 21 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ سعودی خواتین سے شادی رچانے والے غیر ملکی مردوں میں زیادہ تعداد یمنی اس کے بعد شامی اور پھر قطری مردوں کی ہے۔گذشتہ برس مقامی عدالتوں نے سعودی خواتین اور غیر ملکی مردوں کے درمیان 1925 شادیاں رجسٹرڈ ہوئیں جن میں سے 190 طلاق پر منتج ہوئیں جب کہ اس کے مقابلے میں سعودی مردوں اور غیر ملکی خواتین کی 2488 شادیاں رجسٹرڈ ہوئیں اوران میں سے 612 طلاق پر منتج ہوئیں۔

کام یاب ازدواجی زندگی کے لیے ذہنی مطابقت کا ٹیسٹ شروع
شادی کے بندھن میں بندھنے والے جوڑوں کے لیے ایک دوسرے کی عادات و اطوار جانچے کے لیے سعودی عرب میں کفاء ٹیسٹ تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔کثیر الاشاعت انگریزی روزنامے سعودی گزٹ کی رپورٹ کے مطابق اس ٹیسٹ سے گذرنے والی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ پہنچنے کا امکان ہے کیوں کہ عمومی طور پر وہ اپنے متوقع شوہر کے نام، تعلیم، پیشہ یا عہدے کے سوا، اس سے متعلق کچھ نہیں جانتی، جس کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں انہیں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کفاء ٹیسٹ سعودی عرب میں شادی سے پہلے لازمی میڈیکل ٹیسٹ کے حصے کے طور پر کیا جاتا ہے۔عنود الزامل کا کہنا ہے کہ نفسیاتی صحت اور مرد و زن کے درمیان موافقت کی اہمیت کا احساس سعودی معاشرے میں روز بروز بڑھ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طریقے پر عمل کر کے ازدواجی زندگی کے متعدد مسائل سے بچا جا سکتا ہے کیوںکہ شادی سے پہلے ہی دونوں فریقین کے اس اہم مرحلے سے متعلق رحجانات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ایک اور سعودی خاتون نے بتایا کہ انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ نفیساتی مطابقت اور ذہنی صحت کو ملک میں سنجیدگی سے لیا جانے لگا ہے۔ شہزادی نورہ بنت عبدالرحمان الفیصل سوشل سینٹر میں عائلی مشاورت یونٹ کی سربراہ بدریعہ الراشدی نے کفاء ٹیسٹ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے شادی شدہ جوڑوں کے رویوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے بچنے میں مدد ملے گی۔ اس کے ذریعے متوقع میاں بیوی کو ایک دوسرے کے بارے میں ایسے معاملات سے آگاہی ملے گی جن کے بارے میں عمومی طور پر وہ لا علم ہوتے ہیں۔

بولی وُڈ : کچھ ہٹ کے ؛ بولی وڈ کی غیرروایتی فلمی جوڑیاں

$
0
0

 بولی وڈ کی جگمگاتی اور طلسماتی دنیا میں کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

یہاں فلم میکر کبھی تو روایتی اور گھسے پٹے انداز میں فلمیں بنا کر کام یابی سمیٹ لیتا ہے، تو کبھی کوئی فلم ساز اپنی فلم میں مختلف نوعیت کے تجربے کرکے اسے دھماکاخیز انداز میں پیش کرتا ہے، جو لوگ اپنی فلموں میں مختلف تجربات کرتے رہتے ہیں، وہ کام یابی کی نئی منزلوں کی طرف گام زن ہوتے ہیں۔ آڈینس بھی تبدیلی کو پسند کرتے ہیں، کیوں کہ وہی روایتی انداز کی فارمولا فلمیں یا پھر بار بار دہرائی جانے والی فلمی جوڑیوں سے یکسانیت محسوس کرنے لگتے ہیں۔

کسی بھی فلم کا سب سے اہم جز اس کے بنیادی کردار ہوتے ہیں۔ بہت سے اداکاروں کی فلمی جوڑی نے کئی ہٹ فلمیں دیں اور ان کی جوڑیوں کو لوگوں نے بھی پسند کیا اور فلم سازوں نے بھی ان جوڑیوں کو اپنی فلموں میں کاسٹ کرکے خوب پیسہ کمایا۔

دلیپ کمار۔ مدھو بالا، راجیش کھنہ۔ شرمیلا ٹیگور، دھرمیندر۔ ہیمامالنی، امیتابھ بچن۔ ریکھا، انیل کپور۔ مادھوری ڈکشٹ، شاہ رخ خان۔ کاجول، کا شمار ایسی ہی فلمی جوڑیوں میں کیا جاتا ہے، لیکن کچھ فلم میکر جو فلموں تبدیل پسند کرتے ہیں وہ اپنی تبدیل پسند آڈینس کے لیے روایتی فلمی جوڑی کو پیش کرنے کے بجائے ایک بالکل الگ انداز کی جوڑی کو لے کر فلم بناتے ہیں۔ ایسی ہی چند غیرروایتی فلم جوڑیوں کا اس مضمون میں ذکر کیا گیا ہے:

٭ ابھیشیک بچن۔ رانی مکھرجی:

دونوں ظاہری طور پر ایک دوسرے بالکل الگ نظر آتے ہیں۔ ابھیشیک کا قد لمبا اور رانی بوٹے سے قد کی۔ دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ ان کو کاسٹ کرنے میں بہت سے لوگوں نے اعتراضات اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ یہ جوڑ ی ناکام ہو جائے گی۔ لوگ انہیں پسند نہیں کریں گے، لیکن منی رتنم نے ان دونوں کو اپنی فلم ’’یووا‘‘ میں کاسٹ کرنے کا رسک لیا، اور سب ہی نے دیکھا کہ اس فلم اور جوڑی دونوں ہی کو آڈینس نے پسند کیا۔ یووا باکس آفس پر سپر ہٹ ہوئی تھی اس فلم کے رانی اور ابھیشیک کی فلمی جوڑی نے ایک ساتھ چند اچھی فلموں میں کام کیا جیسے بنٹی اور ببلی اور لاگا چنری میں داغ وغیرہ۔

٭ ملائکہ شراوت اور راہول بوس:

چھوٹے سے قد کے مالک راہول بوس کا شمار انڈسٹری کے سنجیدہ اور میچور اداکاروں میں ہوتا ہے، جب کہ دراز قد ملائکہ انتہائی گلیمرس اداکارہ کے طور پر اپنی پہچان رکھتی ہے۔ ان دونوں نے جب فلم ’’پیار کے سائڈ ایفیکٹ‘‘ میں ایک ساتھ کام کیا تب کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ فلم کے ساتھ ساتھ یہ جوڑی بھی ہٹ ہوجائے گی ملائکہ اور راہول ایک رومینٹک جوڑی کے طور پر کام یابی سے ہم کنار ہوئے۔

٭ بپاشا باسو اور آرمدھوان:

بنگالی ساحرہ بپاشاباسو کے فٹنس جنون سے سب ہی واقف ہیں مارکیٹ میں بپاشا کی اپنی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز موجود ہیں، جب کہ دوسری طرف آرمدھوان کی بابت سب ہی جانتے ہیں کہ اس میں سوائے اچھی اداکاری کے بولی وڈ ہیرو والی کوئی خصوصیت نہیں۔ جسمانی طور پر بھی وہ مٹاپے کی طرف مائل ہے۔ اس تضاد کے باوجود انہوں نے ایک فلم ’’جوڑی بریکر‘‘ میں مرکزی کردار کیا، لیکن بدقسمتی سے یہ فلم فلاپ ہوگئی اور ان کی جوڑی کو بھی آڈینس نے رد کردیا۔

٭ امیتابھ بچن اور جیا خان:

بولی وڈ کے لیجنڈ اداکار امیتابھ بچن کو فلم انڈسٹری میں انتہائی قابل احترام ہستی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جب رام گوپال ورما نے انہیں تیس سالہ جیا خان کے ساتھ فلم ’’نشبد‘‘ میں ایک ساتھ جوڑٰی کے طور پر کاسٹ کیا تو انڈسٹری میں اس وقت ہی اس حوالے سے کنٹروورسی شروع ہو گئی تھی۔ یہ ایک ایسے بولڈ موضوع کی فلم تھی جو انڈین معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ ایک عمر رسیدہ شخص کا نوجوان لڑکی کے ساتھ رومانس کرنا کسی کو بھی نہ بھایا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ فلم فلاپ ہوگئی اور اس سے امیتابھ کے امیج کو کو بھی دھچکا پہنچا۔

٭ نصیر الدین شاہ اور ودیا بالن:

اگر امیتابھ اور جیا خان سے موازنہ کیا جائے تو ان دونوں میں بھی بہت زیادہ عمر کا تضاد موجود تھا، لیکن کیوںکہ ان کی فلم کا موضوع عوام کا پسندیدہ تھا۔ اس لئے یہ فلمی جوڑ ی کلک کر گئی۔ آن اسکرین کیمسٹری شو کرنے میں ان دونوں ہی نے اپنی عمر کے فرق کو بالائے طاق رکھ دیا تھا۔ اس لیے ان کی دونوں فلمیں ’’عشقیہ‘‘ اور ’’ڈرٹی پکچرز‘‘ باکس آفس پر سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ کچھ لوگوں کو ان کی جوڑی پسند آئی تو کچھ نے اس پر اعتراضات بھی اٹھائے۔

٭ شاہد کپور، ودیا بالن اور رانی مکھرجی:

شاہد کپور فلم انڈسٹری میں کیوٹ اور چاکلیٹی ہیرو کے طور پر پسند کیا جاتا ہے۔ شاہد کی اداکاری میں دن بہ دن پختگی آتی جارہی ہے، لیکن ظاہری طور پر وہ ابھی بھی کالج اسٹوڈنٹ ہی نظر آتا ہے۔ ’’دل بولے ہڑپہ‘ میں رانی کے ساتھ اور قسمت کنکشن میں ودیا بالن کے ساتھ جب شاہد نے کام کیا تو ان کی جوڑی کو آڈینس نے یکسر مسترد کردیا کیوںکہ عمر کے فرق کی وجہ سے دونوں ہی ہیروئنز شاہد کی آنٹیاں نظر آرہی تھیں۔

٭ کترینہ کیف اور گووندا:

جب ڈائریکٹر ڈیوڈ دھون نے فلم پارٹنر کی کاسٹ میں خوب صورت اور دراز قد اداکارہ کترینہ کیف کے ساتھ ہیرو کے طور پر گووندا کو کاسٹ کیا تو سب ہی نے حیرت کا اظہار کیا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ انتہائی نامناسب فلمی جوڑی ثابت ہوگی، لیکن جب پارٹنر ریلیز ہوئی تو لوگوںنے انہیں پسند کیا۔

٭ سنجے دت اور لارا دتہ:

فلم ’’بلو‘‘ کے ڈائریکٹر انتھونی ڈی سوزا نے نہ جانے کیا سوچ کر ان دونوں کو اپنی فلم میں ایک ساتھ کاسٹ کیا، کیوںکہ ان دونوں میں عمر کا واضح فرق موجود تھا۔ اس لیے ان کی آن اسکرین جوڑی نے آڈینس کو خوب ہنسنے کا موقع فراہم کیا۔

٭ عمران خان اور کرینہ کپور:

دونوں ہی میں عمروں کا تفاوت ہونے کے باوجود آڈینس نے اس جوڑی کو پسند کیا، کیوں کہ دونوں ہی آن اسکرین بہت ینگ اور فریش محسوس ہوئے تھے۔ فلم ’’ایک میں اور ایک تو‘‘ میں کرینہ اور عمران کی کام یاب جوڑی بننے کے باوجود ان دونوں نے دوبارہ ایک ساتھ کام نہیں کیا۔

٭ رنبیرکپور اور کون کوناسین شرما:

ہر انداز سے ایک دوسرے سے مختلف ان دونوں ایکٹرز کو فلم ’’وویک اپ سد‘‘ میں کاسٹ کیا گیا۔ دونوں ہی کا شمار انڈسٹری کے ٹیلنٹڈ فن کاروں میں ہوتا ہے، اس لیے اس فلم میں بھی ان کی نیچرل اور بے ساختہ اداکاری کو پسند کیا گیا تھا۔ یہ فلم باس آفس پر اوسط درجے کی کامیابی حاصل کر پائی تھی۔

٭ فرحان اختر اور دیپکا پاڈوکون:

فلم میکرز اپنے فلموں میں جو مختلف انداز کے تجربات کرتے رہتے ہیں۔ وہ بسا اوقات ناکام بھی ہوجاتے ہیں۔ سب ہی کا خیال تھا فرحان اور دیپکا کی جوڑی بولی وڈ میں دھماکا کر دے گی، لیکن جب ان دونوں کو فلم کار تک کالنگ کار تک میں ایک ساتھ کاسٹ کیا گیا، تو دراز قد دیپکا کے سامنے چھوٹے قد کا فرحان بالکل غیر متوازن محسوس ہوا۔ یہ فلم ناکام ہوگئی تھی اور لوگوں نے بھی اس جوڑی پر کوئی ریسپانس نہیں دیا تھا۔

٭ بومن ایرانی اور فرح خان: فلم ’’شیریں فرہاد‘‘ کے تو بھاگ جاگ اٹھے جب اس میں ان دونوں کو کاسٹ کیا گیا۔ کسی کو بھی اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ باکس آفس پر یہ جوڑی کلک کر جائے گی۔ دونوں ایکٹرز نے آن اسکرین ایک میچور اور فریش لو کیمسٹری دکھائی اور شاید یہی ان کی کام یابی تھی۔

٭ عامر خان اور انوشکا شرما: ڈائریکٹر راج کما ر ہیرانی جن کے ساتھ عامر پہلے ’’تھری ایڈیٹس‘‘ میں کام کر چکے ہیں، اس بار ان کی فلم پی کے میں عامر کے ساتھ بولی وڈ کی شوخ اور چلبلی اداکارہ انوشکا شرما کو کاسٹ کیا گیا ہے اس فلم کی دیگر کاسٹ میں سنجے دت اور بومن ایرانی بھی ہیں۔ فلم دسمبر 2014 میں ریلیز ہو گی اور سب ہی کا کہنا ہے کہ عامر اور انوشکا شرما کی جوڑی ہٹ ہوگی۔

٭ سیف علی خان اور تمنا بھاٹیہ: حال ہی میں ریلیز ہونے والی ساجد خان کی فلم ’’ہم شکل‘‘ نے بولی وڈ میں باکس آفس پر دھوم مچادی ہے۔ فلم کی مین کاسٹ میں سیف علی خان ، ریتش دیکھ مکھ اور رام کپور شامل ہیں۔ ساجد نے سیف کے مقابل ہیروئن کے طور پر انڈین ماڈل تمنا بھاٹیہ کو کاسٹ کیا۔ فلم کیوںکہ کام یاب ہوگئی اس لیے ان دونوں کی جوڑی بھی ہٹ قرار پائی ۔

٭ سلمان خان اور جیکولین فرننڈس:

انڈسٹری کے سب سے پاورفل ایکٹر سلمان خان کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کم وبیش ہر اداکارہ کی ہوتی ہے، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ سلمان خان اپنی ہر فلم میں پرانی ہیروئنز کو دہرانے کے بجائے نئی اداکارہ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی ان کی فلم ’’کک‘‘ میں ان کے مقابل جیکولین اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ یہ جوڑی باکس آفس پر کیا دھوم مچاتی ہے، یہ تو فلم کی ریلیز کے بعد ہی پتا چلے گا۔

٭ رجنی کانت اور دیپکا پاڈوکون:

فلم کو چدیا میں رجنی کانت کے ساتھ جب دیپکا پاڈوکون کو کاسٹ کی گیا تو سب ہی اس پر اعتراضات اٹھائے، کیوںکہ ان دونوں اداکاروں میں عمر کے ساتھ ساتھ ہر طرح سے فرق تھا۔ دیپکا رجنی کانت کی ہیروئن کم اور بیٹی زیادہ محسوس ہوتی ہے، لیکن ڈائریکٹر سونداریا یہ فلم جب سپر ہٹ ہوئی تو تمام ناقدین فلم کے منہ بند ہو گئے تھے۔

٭ سنی دیول اور کنگنا راناوت:

پچیس سالہ کنگنا نے پینسٹھ سالہ ایکٹر سنی دیول کے ساتھ فلم ’’آئی لو نیو ایئر‘‘ میں کام کیا۔ یہ ایک بالکل غیر مناسب جوڑی تھی۔ باکس آفس پر یہ جوڑی کوئی دھماکا نہ کر پائی۔

دیس بدیس کے کھانے

$
0
0

کلاسک شیر خرما
اجزاء:
دودھ (ایک لیٹر)
کریم (ایک پیالی)
کنڈنسڈ ملک (ایک پیالی)
بوائلڈکساوا سوجی (ٹاپیوکا) (ایک پیالی)
مکس ڈرائی فروٹ (ایک پاؤ)
سویاں (آدھی پیالی)
چینی (آدھی پیالی)
مکھن (ایک کھانے کا چمچا)
زعفران (آدھا چائے کا چمچا)
الائچی پاؤڈر (ایک چوتھائی چائے کا چمچا)

ترکیب:
پہلے ایک دیگچی میں دودھ ابال لیں۔ اس کے بعد ایک پین میں ایک کھانے کا چمچا مکھن ڈال کر اس میں آدھی پیالی پسی ہوئی سویاں فرائی کریں، پھر اس میں ایک پیالی مکسڈ ڈرائی فروٹ ڈالیں اور اچھی طرح بھونیں۔ ابلتے ہوئے دودھ میں فرائی سویاں اور ڈرائی فروٹ ڈال کر اسے دس منٹ تک پکائیں۔ اب اس میں ایک پیالی چینی اور ایک پیالی ابلی ہوئی سوجی شامل کریں۔ چینی حل ہونے تک پکائیں اور پھر چولہا بند کر دیں۔ آخر میں ایک پیالی کریم، ایک پیالی کنڈینسڈ ملک، ایک چوتھائی چائے کا چمچا الائچی پاؤڈر، اور آدھا چائے کا چمچا زعفران شامل کر کے اسے اچھی طرح ملائیں۔ مزے دار کلاسک شیرخرما تیار ہے۔

بیکڈ چکن فنگرز ود ہوم میڈ باربی کیو ساس


اجزا:
چکن بریسٹ (آدھا کلو)
بریڈ کرمبز (ایک پیالی)
سفید تل (دو کھانے کے چمچے)
لہسن پاؤڈر (آدھا چائے کا چمچا)
نمک (آدھا چائے کا چمچا)
دار چینی پاؤڈر (ایک چائے کا چمچا)
کُٹی ہوئی کالی مرچ (آدھا چائے کا چمچا)
بادیان پھول پاؤڈر (آدھا چائے کا چمچا)
دیگی مرچ (آدھا چائے کا چمچا)
انڈے کی سفیدی (دو عدد)
ہوم میڈ باربی کیو (سوس کے لیے)
زیتون کا تیل (ایک کھانے کا چمچا)
کتری ہوئی پیاز (ایک چوتھائی پیالی)
کیچپ (آدھی پیالی)
براؤن شوگر (ایک کھانے کا چمچا)
سرکہ (ایک کھانے کا چمچا)
ووسٹ شائر سوس (دو کھانے کے چمچے)
نمک (ایک چٹکی)

ترکیب:
اوون کو دو سو ڈگری سینٹی گریڈ پر گرم کر لیں۔ اس کے بعد ایک ڈش میں بریڈ کرمبز، سفید تل، لہسن پاؤڈر، نمک، دار چینی پاؤڈر، کُٹی ہوئی کالی مرچ، بادیان پھول کا پاؤڈر اور دیگی مرچ ڈال کر اچھی طرح ملائیں، پھر ایک الگ پیالے میں انڈے پھینٹ کر اس میں چکن فنگرز کو ڈپ کر کے نکال لیں۔ پھر بریڈ کرمبز سے کوٹ کر یہی عمل دُہرائیں اور بیکنگ شیٹ پر پھیلا دیں۔ اوون میں 15 سے 20 منٹ تک بیک کر لیں۔

ہوم میڈ باربی کیو سوس کے لیے:
ایک پین میں تیل گرم کر کے پیاز کو دو سے تین منٹ تک پکا کر چولہے سے اتار لیں۔ اب کیچپ، براؤن شوگر، سرکہ، ووسٹر شائر سوس، نمک اور کالی مرچ ملا کے پیالے میں نکال لیں۔ چکن فنگرز کے ساتھ سرو کریں۔

تندوری چکن بریانی


اجزاء:
چکن (آدھا کلو)
دہی (ایک پاؤ)
بڑی پیاز (ایک عدد) گول کاٹ لیں
ٹماٹر (دو عدد) گول کاٹ لیں
ہری مرچ (لمبائی میں دو) چار عدد
ہرا دھنیا، پودینہ (چوتھائی گٹھی)
گھی (آدھی پیالی)
آلو بخارہ (100 گرام)
چاول (300 گرام)
لال مرچ پاؤڈر (ایک کھانے کا چمچا)
ہلدی پاؤڈر (ایک کھانے کا چمچا)
گرم مسالا پاؤڈر (ایک کھانے کا چمچا)
ادرک، لہسن کا آمیزہ (دوکھانے کے چمچے)
زردہ رنگ (آدھا چائے کا چمچا)
جائفل جاوتری پاؤڈر (آدھا چائے کا چمچا)
چھوٹی بڑی الائچی کا پاؤڈر (آدھا چائے کا چمچا)
ثابت گرم مسالا (حسب ضرورت)
بادیان کے پھول (دو عدد)
کیوڑہ (دوکھانے کے چمچے)
نمک (حسب ذائقہ)

ترکیب:
چکن کو کٹ لگائیں اور اسے ایک کھانے کا چمچا ادرک، لہسن کا آمیزہ، لال مرچ پاؤڈر، ہلدی پاؤڈر، گرم مسالا پاؤڈر، نمک اور آدھا پاؤ دہی کے ساتھ میرینیٹ کریں، پھر اوون کو 180 ڈگری پر پری ہیٹ کر لیں۔ چاولوں کو آدھے گھنٹے کے لیے پانی میں بھگو دیںِ۔ بیکنگ ٹرے کو چکنا کرلیں اور اس پر چکن رکھ کے اوون میں دس سے پندرہ منٹ کے لیے رکھ دیں۔ کیوڑے میں زردہ رنگ ملا لیں۔
گریوی بنانے کے لیے:
پین میں دو کھانے کے چمچے گھی گرم کرکے اس میں پیاز، ثابت گرم مسالا اور بادیانہ پھول ڈال کے ہلکی آنچ پر پکائیں، جب پیاز سنہری ہوجائے تو ایک کھانے کا چمچا ادرک، لہسن کا آمیزہ ملائیں کہ کچا پن دور ہو جائے۔ اب باقی آدھا پاؤ دہی اور ہری مرچیں شامل کرکے پکائیں، جب دہی کا پانی خشک ہوجائے، تو آلو بخارہ، ٹماٹر، دو چائے کے چمچے کیوڑہ مکسچر، آدھا ہرا دھنیا پودینہ، نمک اور آدھی پیالی پانی ڈال کے دو منٹ پکا لیں اور چولھا بند کر دیں۔ گریوی تیار ہے۔

اس گریوی کے اوپر چوتھائی چائے کا چمچا جائفل جاوتری، پاؤڈر چوتھائی چائے کا چمچا چھوٹی بڑی الائچی کا پاؤڈر اور باقی ہرا دھنیا پودینہ ڈال دیں۔ اب اس کے اوپر اوون کی تندوری چکن رکھ دیں۔ چاولوں کو نمک ڈال کے پانی میں ابال لیں۔ جب پانی کو ابال آنے لگے تو چاولوں کا تیسرا حصہ چھلنی سے نکال کے گریوی کے اوپر ڈال دیں۔ (یہ کچے چاول گریوی کے پانی سے دَم میں پکیں گے)۔ جب باقی چاولوں میں چار کنی رہ جائے تو چھلنی سے پانی چھان کے ان کو پہلے والے چاولوں کے اوپر ڈال دیں۔ اب چاولوں کے اوپر باقی چوتھائی چائے کا چمچا جائفل جاوتری پاؤڈر، چوتھائی چائے کا چمچا چھوٹی بڑی الائچی کا پاؤڈر، ایک سے ڈیڑھ چائے کے چمچا کیوڑہ مکسچر، دوکھانے کے چمچے گھی شامل کرکے اسے دس سے بارہ منٹ دم پر رکھ دیں۔ تیار ہونے پر نکال کے مزے دار تندوری چکن بریانی پیش کریں۔

(نوٹ) نمک تین حصوں میں ڈالنا ہے اس لیے احتیاط سے ڈالیں۔ جب بریانی دم پر رکھیں تب آنچ تیز رکھیں اور دو منٹ بعد ہلکی دَم والی کردیں۔

عرب حکمران غزہ میں بے گناہوں کے قتل عام سے بے پرواہ

$
0
0

فلسطینیوں کی آزاد ی ، بنیادی حقوق اور اسرائیلی جنگی جرائم کا مقدمہ عالمی برادری میں اٹھائے جانے سے پہلے اسے عرب ممالک اور مسلم دنیا میں اٹھایا جانا چاہیے۔

فلسطین سرزمین عرب کا جغرافیائی،تاریخی اور تہذیبی وثقافتی مرکز رہا ہے۔ آ ج بھی اس مقام کی تاریخی اہمیت مسلمہ ہے۔ لیکن پچھلے 66 برسوں سے فلسطینیوں کا مقدمہ خود فلسطینی عوام ہی لڑ رہے ہیں۔ عرب ملکوں نے اگر اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی قدم اٹھایا ہے تو وہ مظلوم فلسطینیوں کے دفاع میں نہیں بلکہ اپنے ریاستی مفادات کی خاطراٹھایا۔ سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب، اسرائیل جنگ میں گوکہ مصر، شام، اردن اور فلسطین نے مشترکہ طورپر اسرائیل کے خلاف جنگ شروع کی، لیکن ہرملک کے اپنے مفادات تھے۔ وہ کسی نظریے اور آدرش کے تحت نہیں بلکہ ذاتی مفادات کی خاطر اسرائیل کے خلاف میدان میں کودے، سو نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اسرائیل نے نہ صرف پڑوسی عرب ملکوں کے حملے کو ناکام بنا دیا بلکہ آگے بڑھ کرمصر کے جزیرہ نما سینا، فلسطین کے مغربی کنارے، بیت المقدس اور شام کی وادی گولان کے ایک بڑے حصے پربھی قبضہ کرلیا۔ عرب ممالک نے اس جنگ میں ایسا زخم کھایا جوآج تک بھرنہیں پایا ہے۔

زخم خوردہ عرب ملکوں نے اپنے کھوئے علاقے واپس لینے کے بجائے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات میں عافیت سمجھی۔ ان ملکوں کے اسرائیل سے سفارتی، اقتصادی اور مختلف شعبوں میں تعلقات توقائم ہوگئے مگر فلسطین کامسئلہ پس منظر میں چلا گیا۔ اب میدان میںتنہا فلسطینی ہیں۔ خلیج کے ’’صاحب بہادر‘‘ تو ویسے بھی خود کو افسر سمجھتے ہیں، قطر کے سو ادوسرے خلیجی ملکوں نے برائے نام ہی فلسطینیوں کی حمایت کی،ایسے ہی جیسے دنیا کے کسی دور افتادہ اور پسماندہ مسلمان ملک کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت کی گئی۔

اسرائیل نے 13جولائی کو فلسطین کے ساحلی شہر غزہ کی پٹی پرحملہ کیا اور سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کرنے،بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال سے تباہی اور بربادی کی خوفناک مثالیں قائم کرنے کے باوجود عرب ممالک نے کوئی انگڑائی نہیں لی۔ ایسے لگ رہا ہے عرب ملک فلسطینیوں کے معاملے میں مکمل طورپر غیر جانب دار ہوگئے ہیں۔ماضی میں ایسے واقعات پر بعض خلیجی ملکوں سعودی عرب، ،قطر، کویت اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے فوری امداد کے اعلانات کیے جاتے رہے ہیں، لیکن اب کی بار ایسا بھی نہیں ہوا۔

نہتے فلسطینیوں کے خلاف جاری صہیونی ریاستی دہشت گردی کے رد عمل میں صرف سعودی عرب کی جانب سے زخموں سے چور اہالیان غزہ کے لیے 50 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ریاض حکومت کی جانب سے امداد کا یہ اعلان بھی خیالی نکلا اور ابھی تک فلسطینیوںکو اس میں سے ایک دھیلا بھی نہیں دیا گیا ہے۔اس مضمون میں ہم چند اہم عرب ملکوں کے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ذمہ داریوں اور ان کے منفی اور نہایت مایوس کن کردار کا جائزہ لیں گے۔

مصر

فلسطینیوں کے مسائل کے حوالے سے مصرکو سب سے زیادہ ذمہ دار ملک سمجھا جاتا ہے۔ سنہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد قاہرہ نے صہیونی ریاست کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کی راہ اپنائی۔ فلسطینیوں کی تحریک آزادی کی حمایت ترک کردی، جب تک فلسطینی لیڈر یاسرعرفات زندہ تھے تب بھی مصر نے ان کی امن مساعی میں کسی قسم کا تعاون نہیںکیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا سے رخصت ہونے تک ابو عمار مصرکی بے اعتنائی اور لاپرواہی کا گلہ کرتے رہے۔

مصر کے سابق مرد آہن حسنی مبارک نے اپنی سرزمین کے دروازے اسرائیلیوں کے لیے مکمل طورپر کھول دیے اور نہایت ارزاں نرخوں پراسرائیل کو گیس کی فراہمی بھی شروع کردی۔ جب یاسرعرفات جیسا روشن خیال فلسطینی لیڈر بھی قاہرہ سرکارکے لیے قابل قبول نہ ہو تو بھلا مسلح جدو جہد آزادی پر یقین رکھنے والے شیخ احمد یاسین اور ان کی جماعت حماس کیسے پسندیدہ ہوسکتی تھی۔حماس اس لیے بھی بدنام ٹھہری کہ اس کی اخوان المسلمون کے ساتھ نظریاتی قربت مصری اشرافیہ کے لیے ’’زہر قاتل‘‘ سے کم نہیں۔

ماضی میں مصری حکومتوں نے فلسطینیوں کو بے سہارا رکھنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔غزہ کی پٹی کی واحد بین الاقوامی گزرگاہ مصرکی سرحد پرہے، لیکن اسے برائے نام گزرگاہ ہی کا نام دیا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں سے فلسطینیوں حتی کہ عازمین حج وعمرہ کو بھی شرمناک شرائط کے تحت بیرون ملک جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔یہ تو ماضی کی کیفیت تھی۔ لمحہ موجود میں مصر فلسطینیوں کے لیے دوسرا اسرائیل ہے۔جو کام صہیونی فوج نہیں کرسکی وہ مصری فوج نے کردکھایا۔گذشتہ برس تین جولائی کے بعد نہ صرف اخوان المسلمون مصری فوج کے زیرعتاب آئی بلکہ فلسطینی تنظیم حماس بھی سخت ترین پابندیوں میں جکڑ دی گئی۔ چونکہ حماس غزہ کی پٹی میں حکمراں تھی، یہی وجہ ہے کہ تنظیم کو مصری پابندیوں کے باعث سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

تیرہ جولائی کو جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی پرحملہ کیا تو نو دن تک مصری حکومت کی جانب سے اس ننگی جارحیت کی مذمت تک نہیں کی گئی۔ نو دن بعد بزدلانہ شرائط پرمبنی ایک سیز فائر تجویز سامنے آئی جس میں حماس او ر فلسطینی تنظیموں سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ آج تک کسی عرب اور مسلمان ملک کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں سے ایسا مطالبہ نہیں کیا گیا۔گوکہ فلسطینی تنظیموں نے مصری جنگ بندی کی تجویز کو مسترد کردی مگر اس نے مصر کے جنرل عبدالفتاح السیسی کی اسرائیل نوازی کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔

عبدالفتاح السیسی کی جانب سے اس سے بہتر کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے اپنی صدارتی انتخابات کی مہم میں اسرائیل سے مدد کی اپیل کی تھی۔ انتہا پسند اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے بھی موصوف کو دل کھول کرامداد دی۔عبدالفتاح السیسی کی انتخابی مہم پر80 ملین ڈالر کی رقم فراہم کی گئی۔ اس امداد کے حصول کے بعد بھلا مصر کیسے نمک حرامی کرسکتا ہے۔غزہ پراسرائیل کی مسلط کردہ حالیہ جنگ میں مصرکی اسرائیل نوازی کھل کرسامنے آئی اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ فلسطینیوں کو مصر سے کسی خیر کی توقع نہیں ہوسکتی۔ کم سے کم جب تک فوجی حکمراں فیلڈ مارشل عبدالفتاح السیسیی کی آمریت قائم ہے وہ فلسطینیوں کی اشک شوئی نہیں بلکہ اپنے محسن اسرائیل کی طرف داری کرے گا۔

اردن

فلسطین سے متصل اردن کی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ اردن فلسطینیوں کے مقدس مقامات کانگراں ہے۔ مسجد اقصیٰ کی براہ راست ذمہ داری عمان حکومت کے سرہے۔ گوکہ اسرائیل پارلیمنٹ کے ذریعے اردن سے مسجد اقصیٰ کی نگرانی حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اردن جتنا بڑا ملک ہے اتناہی فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے اس کا نام آخری درجے میں ہے۔حالیہ جنگ میں بھی اردن کہیں دکھائی نہیں دیا،حتیٰ کہ کوئی ایک عدد مذمتی بیان تک نہیں دیا گیا۔ اردن اسرائیل کے درمیان دوستانہ تعلقات میں فلسطینیوں پر مظالم سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

لبنانی اخبار’’النہار‘‘ کی رپورٹ کے مطابق مصر اور اردن دو ایسے عرب ملک ہیں جو فلسطین کے پڑوسی ملک ہونے کے باوجود اس اہم مسئلے سے قطعی طور پرلا تعلق ہیں۔موجودہ جنگ میں ان دونوں ملکوں کی لاتعلقی کھل کرسامنے آگئی ہے۔ صرف قاہرہ اور عمان ہی اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تو اسرائیل غزہ کی پٹی پر جارحیت روک سکتا ہے۔مگرا یسا نہیں کیا گیا، دونوں پڑوسی ملکوں کے اس معاندانہ رویے نے فلسطینیوں کوان سے مزید بدظن کیا ہے۔

جملہ معترضہ کے طورپر عرض ہے کہ اُردن کے شاہ عبداللہ دوم ویسے تو بعض اوقات بڑے طمطراق کے ساتھ عالمی مسائل کے حل میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض اوقات وہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت تک سے باز نہیں آتے۔ عرب میڈیا کے مطابق شاہ عبداللہ پرویز مشرف کے بھی گہرے دوست ہیں۔ اخباری اطلاعات یہ بھی ہیں کہ انہوں نے اپنے ہم دم دیرینہ کو بچانے اور بیرون ملک لے جانے کے لیے پس چلمن کوششیں کی ہیں، گوکہ ان کی یہ کوششیں بارآو رثابت نہیں ہوئیں۔

متحدہ عرب امارات

خلیجی ملکوں میں متحدہ عرب امارات سعودی عرب کے بعد اہم ترین ملک سمجھا جاتا ہے۔ یو اے ای کی عالم اسلام میں فلاحی خدمات کوتحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگرحیرت ہوتی ہے کہ امداد کے مستحق اہالیان غزہ کے لیے یو اے ای نے نہ صرف کسی قسم کی امداد کا اعلان نہیں کیا بلکہ پہلے سے اعلان کردہ امداد بھی روک دی تھی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ چاہے مصر ہو یااردن یا متحدہ عرب امارات، محض اپنے مفادات کے لیے فلسطینیوں سے کبھی ہمدردی اور گاہے مخالفت کرتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کی مسئلہ فلسطین کے حل میں کوئی جاندار سفارتی مساعی کا بھی ذکر نہیں ملتا۔اخبار’’النہار‘‘ کی رپورٹ میں فلسطینیوں کے مسائل میں دلچسپی لینے والے ممالک کی فہرست میں ایسا کوئی نام نہیں ہے۔ مصر اور اردن کے برعکس متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ یو اے ای صہیونی ریاست کو دشمن ملک تصو ر کرتا ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کے ساتھ اس کا رویہ معاندانہ کیوں ہے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔

سعودی عرب

سعودی عرب کو عالم عرب ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کا بھی رہ نماء ملک مانا جاتا ہے۔ فلسطین کے بارے میں سعودی حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کے باوجود ہم ریاض کی خدمات کو سراہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب بھی فلسطینیوں میں موجود تقسیم کو ختم کرنے کے بجائے ’’اپنے اور پرائے‘‘ کے چکر میں الجھا ہوا ہے۔ فلسطینیوں کی مالی امداد میں سعودی عرب کی مالی امداد کسی بھی دوسرے مسلمان ملک سے بڑھ کرہے۔ اس بار بھی سب سے پہلے سعودی عرب ہی نے اہالیان غزہ کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے پچاس ملین ڈالر کی امدا د کااعلان کیا۔ کئی ہفتے گزرنے کے باوجود یہ امداد مستحقین تک کیوں نہیں پہنچ سکی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔

مسئلہ فلسطین کے سفارتی اور سیاسی حل میں بھی سعودی عرب کی مساعی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سعودی حکومت نے فلسطینیوں کے حقوق کی ہرفورم پرحمایت کی۔ البتہ جب سے مصراور سعودی عرب نے اخوان المسلمون کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کی ہے تو اس کی زد فلسطینیوں پر بھی پڑی ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ ریاض حکومت فلسطینی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت’’حماس‘‘ سے ناراض ہے اور اسے اخوان کی حمایت کی سزا دی جا رہی ہے۔عرب تھینک ٹینک یہ بات تسلیم کرنے لگے ہیں کہ عرب ممالک اخوان کے حامی اور مخالف بلاک میں تقسیم ہو رہے ہیں۔ اخوان کے حامیوں کی قیادت قطر اور مخالف بلاک میں مصر اور سعودی عرب سر فہرست ہیں۔

ذیل میں آنے والی جماعتیں اور ممالک خودبخود اپنے ہم خیالوں سے مل جاتے ہیں۔ مثلا متحدہ عرب امارات اور بحرین بھی سعودی عرب کی طرح اخوانی فکر کی سخت مخالفت کرنے والے ممالک میں شامل ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ سعودی عرب بھی فلسطینیوں کے مسائل سے دور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔کیا ہم اسے عرب ممالک کی بے اعتنائی قرار دیں یا اسرائیل کے سامنے تھک ہارکر بیٹھ جانے پرمحمول کریں لیکن لگ ایسے رہا ہے عرب ممالک فلسطینیوں پر مظالم سے غافل ہوچکے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عرب ممالک میں جاری بغاوت کی تحریکوں نے بھی مسئلہ فلسطین پرمنفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

لمحہ موجود میں تمام عرب ممالک کی توجہ داخلی بحرانوں پر مرکوز ہے۔ مثلا سعوی عرب کو پڑوس میں بحرین میں سیکیورٹی کے مسائل کا سامنا ہے۔ عراق کی موجودہ صورت حال اور داعش کی جانب سے اسلامی خلافت کے اعلان نے تو صورت حال یکسر بدل دی ہے۔ شام میں جاری خانہ جنگی پہلے ہی راستے میں ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ عرب ممالک کی طرف سے فلسطین کے مسائل میں عدم دلچسپی دراصل کسی اَن ہُونے خوف کی علامت ہے۔غیر عرب مسلمان ملکوں کا معاملہ دوسرا ہے۔جب عرب ممالک کا یہ حال ہے توہمہ نوع سیاسی اور نظریاتی دھاروں میں منقسم مسلمان ملک کون سا تیر مارسکتے ہیں۔

کڑھائی، بڑھادیتی ہے خوش نمائی

$
0
0

خوش رنگ پوشاک۔ انسان کی خوشی کا پرتو۔ اس کی شخصیت کا عکاس۔ لباس کا انتخاب فرد کے مزاج کا پتا دیتا ہے۔

لباس کی نفاست اس کے نفیس ہونے کی کہانی بیان کرتی ہے۔ اور اگر یہ تاروں سے ستارے سجادے جائیں، تو شخصیت دو چند ہوجاتی ہے۔ مگر تار، فقط تب ستارے کے مانند دمکتا ہے، جب اسے کسی سچے فن کار نے ہاتھ لگایا ہو۔

خواتین کی خوش رنگ قمیصوں پر اگر کڑھائی بھی ہو، اور کڑھائی نفاست کی گئی ہو، تو لباس کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔ یہ فرد کو حسن و جمال کو بڑھاتی ہے۔ کڑھائی کرنے والے دست کار کے پاس بڑا ہنر ہوتا ہے۔ کپڑے پر پورا جہان آباد کر دیتا ہے۔

ایسی ترتیب پیش کرتا ہے، جو آنکھوں کو بھلی لگتی ہے۔ دل میں اتر جاتی ہے۔ آج کی ’’لانگ شرٹس‘‘ فیشن میں ہیں۔ ایسی لانگ شرٹس، جن پر عمدہ کڑھائی کی گئی ہو، جو شخصیت کا حسن بڑھاتی ہیں۔


سام: پناہ دینے کی رسم، سندھ کی ایک خوب صورت روایت

$
0
0

سندھ میں ’’سام‘‘ کی رسم صدیوں سے رائج ہے۔ اس رسم کے تحت کسی شخص (چاہے وہ مخالف ہی کیوں نہ ہو) کی گزارش پر اس کے خاندان کو پناہ دی جاتی ہے اور مرتے دم تک اس فرد یا خاندان کی حفاظت کی جاتی ہے۔ یہ رسم خصوصاً قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں کی پیداوار ہے، سام یعنی پناہ دینا وسیع القلبی اور جرأت مندی کا کام ہوتا ہے۔ اس میں بہت سارے خطرات مول لینے پڑتے ہیں۔

پناہ دو طرح سے دی جاتی ہے، ایک یہ کہ کسی لٹے پٹے فرد، خاندان یا کسی دوسری جگہ سے نقل مکانی کرکے آنے والے کو پناہ دی جائے۔ دوسری یہ کہ کسی کشت و خون اور لڑائی جھگڑے کے دوران کسی خاندان کو پناہ دی جائے۔ سندھ میں اس دوسری طرز کی پناہ کو ’’سام‘‘ دینا کہتے ہیں۔ سندھ میں یہ تصور غالب ہے کہ سام ہمیشہ بہادر آدمی ہی دے سکتا ہے۔ اگر کوئی مرد یا عورت جاکر کسی شخص سے یہ کہے کہ مجھے سام دے دیں اور وہ بہادر اور غیرت مند شخص ہے، تو وہ ان کو سام دے گا۔ پھر مخالف لوگ جب اس سے اپنا مرد یا عورت لینے آتے ہیں تو وہ انھیں یہی کہتا ہے کہ ’’انھوں نے میرے گھر میں سام لی ہے، اس لیے میں ان کو آپ کے حوالے نہیں کرسکتا۔‘‘

سام ہمیشہ کسی برادری کا بڑا آدمی، وڈیرا، جاگیردار یا کسی قبیلے کا سردار دیتا ہے۔ سام اس صورت میں دی جاتی ہے جب کوئی ایسا فرد جو کسی شخص کے ظلم و ستم کا شکار ہونے کے بعد علاقے کے سردار کے پاس جائے اور اس سے تحفظ مانگے کہ اسے فلاں شخص کے ظلم و ستم کا شکار ہونے سے نجات دلائی جائے۔ علاقے کا سردار ظلم و ستم کا شکار ہونے والے مرد یا عورت کی فریاد سننے کے بعد اسے اس وقت تک اپنی حویلی یا اوطاق میں رکھتا ہے جب تک کہ کوئی فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ کسی شخص کو سام رکھنے کے بعد سردار یا وڈیرا کوشش کرتا ہے کہ مقدمے کا فیصلہ جلد ہوجائے، تاکہ اس کی حویلی میں سام کے لیے آنے والے کو بلا تاخیر انصاف فراہم کیا جائے۔

اس مرد یا عورت کو اس کے عزیزوں کے حوالے نہ کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہوتا لیکن قبائلی یا جاگیردارانہ معاشروں کے اپنے بنائے گئے قوانین کے تحت وہ ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس کے بعد اس مسئلے کو دو طریقوں سے حل کیا جاسکتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کا فیصلہ ہونے کے بعد وہ مرد یا عورت کو اس کے رشتے داروں کے حوالے کردے یا پھر اس مرد یا عورت کے رشتے دار سام دینے والے سے لڑائی کے ذریعے معاملہ طے کریں۔

یوں قبائلی دور میں سام دینے پر متحارب قبائل میں خونریز لڑائیاں ہوتی تھیں۔ سام دینے والا شخص سام دینے کے بعد اس مرد یا عورت یا خاندان کو اپنی عزت اور غیرت سے مشروط کرلیتا تھا اس لیے وہ اپنے ناموس کی خاطر لڑتے لڑتے مرجاتا تھا لیکن سام میں لیے گئے لوگوں کو ان کی رضامندی کے بغیر واپس نہیں کرتا تھا۔

سندھ کی تاریخ میں سام کی رسم قدیم زمانے سے ملتی ہے۔ صدیوں قبل اس رسم کی بنا پر کئی جنگیں بھی ہوئی ہیں۔ بلوبڈانی اور جنگو کی مشہور لڑائی اس سلسلے کی کڑی ہے۔ کہا جاتاہے کہ شاہانی قبیلے کی چند خواتین بلو بڈانی کے مظالم کا شکار ہونے کے بعد جنگو کے پاس گئیں اور اپنے دوپٹے اس کے پیروں پر ڈال کر کہا،’’جنگو خان ہم تیری سام ہیں۔ ہمیں تحفظ دے اور ہمیں بلو بڈانی کے ظلم سے نجات دلا۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ جنگو خان نے ان عورتوں کی خاطر بلو بڈانی سے لڑائی کی جس میں بہت سے افراد مارے گئے۔ یہ لڑائی دادو ضلع کے پہاڑوں پر لڑی گئی تھی۔ گوٹھ مراد جمالی میں جنگو خان کا مقبرہ آج بھی موجود ہے۔

یوں بھی ہوتا ہے کہ سام کی رسم بے بس عورتوں کو غلام بنادیتی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ سام کی رسم کے تحت کاروکاری کا شکار ہونے والی عورتوں کو وڈیرے یا سردار کی حویلی میں پناہ ملتی ہے۔ زندگی کی بھیک ملنے کے بعد کاری قرار پانے والی عورت کو اپنی ساری زندگی اپنی پناہ گاہ بننے والی حویلی میں گزارنی پڑتی ہے۔ سام عورت جس دن حویلی سے باہر قدم نکالتی ہے وہ دن اس کی زندگی کا آخری دن ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ جس عورت کو ’’کاری‘‘ کہا جاتا ہے وہ اپنے والدین کے لیے پہلے ہی مرچکی ہوتی ہے، کیوں کہ زیادہ تر مقدموں میں کاری عورت کو قتل کردیا جاتا ہے، بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ شک کی بنیاد پر کسی قبیلے نے کاروکاری کے الزام میں مرد کو تو قتل کردیا، مگر عورت کسی طرح بھاگ کر وڈیرے کی حویلی پہنچ گئی اور قتل ہونے سے بچ تو گئی مگر اس مقدمے کا فیصلہ پھر وڈیرہ کرتا ہے۔

بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ عورت قتل ہوجاتی ہے اور مرد بچ کر کسی بااثر قبیلے کے پاس ’’سام‘‘ بن جاتا ہے۔ اس طرح قبائلی روایات کے مطابق کاروکاری کے الزام میں ملوث مرد اور عورت وڈیرے کے پاس غلام اور کنیز کے طور پر زندگی گزارتے ہیں۔ ایسی عورت جس کو سام بناکر حویلی میں رکھا جاتا ہے، ہمیشہ غیرشادی شدہ رہتی ہے، اگر وہ پہلے سے شادی شدہ ہے تو اس کا شوہر اس سے لا تعلق رہتا ہے۔ بعض ’’سام‘‘ عورتیں مظالم سے تنگ آکر حویلی سے بھاگ نکلتی ہیں، بصورت دیگر وہ حویلی کے اندر زندگی بھر رئیسوں، سرداروں اور وڈیروں کے مظالم کا شکار رہتی ہیں۔

بعض قبائل میں سام کے تحت ایسی عورتوں کو بھی وڈیرے یا سردار کی حویلی میں بھیجا جاتا ہے جن کو حق بخشا یا جاتاہے یعنی قرآن سے ان کی شادی کی جاتی ہے۔ کچھ قبائل میں یہ رسم بھی ہے کہ وہ عورت جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو سام بنالی جائے۔ قبیلے کی روایات کے مطابق ایسی عورت کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی وہ حویلی میں کنیز بن کر رہتی ہیں۔

سام کے حوالے سے سندھ میں ایک واقعے نے بہت شہرت پائی اور اسی واقعے کے باعث یہ رسم ایک شان دار رسم کی حیثیت اختیار کر گئی۔ قصہ کچھ اس طرح ہے کہ تقریباً سات صدی قبل سندھ پر سومرا خاندان کے بھونگر نامی شخص کی حکم رانی تھی۔ اس کی وفات کے بعد اس کے دو بیٹوں چنیسر اور دودو سومرو کے درمیان اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔ چنیسر بڑا بیٹا تھا۔ اس لیے تخت پر اس کا حق بنتا تھا ۔ وزرا اور امرا نے چنیسر کی تخت نشینی پر اس بنا پر اعتراض کیا کہ چنیسر بھونگر کی غیر سومرا بیوی سے ہے، جب کہ دو دو سومرو کی ماں سومرا خاندان کی ہے۔ اس لیے اس کو حکم راں بننا چاہیے۔

بالآخر فیصلہ بھونگر کی بڑی بیٹی باگھل بائی کے پاس گیا، جس نے چنیسر کے حق میں فیصلہ دیا، مگر جب یہ فیصلہ چنیسر کو سنایا گیا تو اس نے کہا،’’میں اپنی ماں سے پوچھ کر آتا ہوں۔‘‘ بس یہ بات وزرا اور امرا کے لیے بہانہ بن گئی کہ چنیسر میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے دو دو سومرو کو بھونگر کا جانشین مقرر کردیا۔ چنیسر کو جب اس صورت حال کا پتہ چلا تو اس نے اپنی حکم رانی کے حق اور انتقام لینے کی خاطر دہلی کے حکمراں علائو الدین خلجی سے مدد طلب کی۔ علائو الدین خلجی نے اپنے سالاروں کو حکم دیا کہ وہ سندھ پر حملہ کرکے چنیسر کو اقتدار دلادیں۔ علائو الدین کی افواج دو دو سومرو کی تخت گاہ ’’روپا‘‘ پہنچی۔

علائو الدین نے اپنے ایلچی سالار خان کے ذریعے دو دو سومرو کو پیغام بھجوایا کہ وہ چنیسر کے حق میں دست بردار ہوجائے یا جنگ کے لیے تیار ہوجائے۔ دو دو سومرو اپنی سندھی قوم کی تاریخی امن پسندی کے تحت تخت اپنے بھائی کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ رضامندی کا پیغام چنیسر کے بیٹے نگر کے ذریعے بھجوایا گیا، لیکن چنیسر انتقام لینا چاہتا تھا۔ اس نے علائو الدین کو اپنی بہن کا رشتہ دینے کا لالچ دیا تاکہ دونوں کے درمیان دوستی کا رشتہ مضبوط ہو۔ علائو الدین نے رشتہ منظور کرلیا۔ نگر اپنے باپ چنیسر کی طرح نہیں تھا اس لیے وہ اس بے عزتی کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ نگر نے علائو الدین کو جواب دیا۔ ’’سومرے موت کے درد کے دوران بھی اپنی خواتین کا سودا نہیں کرتے۔‘‘ یہ سن کر علائو الدین جلال میں آگیا اور اپنے گماشتوں کو اس نوجوان شہزادے کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔

نگر نے بڑی بہادری سے مقابلہ کیا لیکن کب تک، علائو الدین نے نگر کی لاش روپا بھجوادی۔ نگر شہزادے کی موت کی خبر سن کر دو دو سومرو کی بیٹی اور نگر کی منگیتر کو مل نے اپنے آپ کو جلادیا۔ اس واقعے کے بعد باگھل بائی نے اپنے بھائی دو دو سومرو سے کہا، ’’اگر تم علائو الدین کو میرا رشتہ دے دو تو یہ قتل کا سلسلہ بند ہوسکتا ہے۔‘‘ یہ اتنی بڑی قربانی نہیں ہے مگر اس سے ہمارے وطن کے لوگوں کی جانیں بچ جائیں گی۔‘‘

دو دو سومرو کا جواب تھا، ’’سومرا خاندان کی تاریخ میں یہ کبھی بھی نہیں ہوا ہے کہ اپنی لڑکی کسی غیر کو شادی کے بندھن میں دی جائے اور جو میرے آباؤ اجداد نے کبھی نہیں کیا میں وہ نہیں کروں گا۔‘‘ باگھل بائی نے یہ جواب سن کر اپنا سر اپ نے بہادر بھائی کے قدموں میں رکھ دیا۔ اس صورت حال کے پیش نظر دو دو سومرو نے اپنی بیوی بچوں کو اپنے بہادر ترین امراء میں سے کو پیغام بھجوایا اور اپنی ساری عورتوں اور بچوں کو ان کے ساتھ اپنے گوٹھ لے جانے کی درخواست کی کہ وہ انھیں اپنی حفاظت میں رکھے۔ یوں اس امیر نے عورتوں اور بچوں کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔

اس واقعے سمیت سام کے حوالے سے تاریخ میں موجود دیگر واقعات بتاتے ہیں کہ سندھ کا یہ رواج ایک خوب صورت روایت ہے، جو آج بھی جاری ہے، تاہم اسے ذریعہ بناکر عورتوں کا استحصال ایک مکروہ فعل ہے۔

نامور مسلمان جغرافیہ دان، جنھوں نے علم جغرافیہ کو بامِ عروج تک پہنچا دیا

$
0
0

علم جغرافیہ کی اہمیت کے پیش نظر مسلمان اہل علم نے اس پر بہت زیادہ توجہ دی۔ پہلے زمانے کے مسلمان دنیا بھر میں تبلیغ، جہاد، حصول علم، سیاحت اور تجارت کے لیے آتے جاتے رہتے تھے۔انہوں نے طرح طرح کے جغرافیائی اکتشافات کیے اور اس فن میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا۔ اس کا فائدہ پوری امت مسلمہ بلکہ پوری دنیا کے اہل علم مجاہدین اور تاجروں کو ہوا۔ ذیل میں چند مشہور مسلمان جغرافیہ دانوں کا مختصر تعارف دیا جاتا ہے تاکہ آج کے مسلمانوں کو معلوم ہو کہ ہمارے اکابر کیا تھے۔

-1 خوارزمی:

ان کا نام عبداللہ بن محمد بن موسیٰ خوارزمی تھا۔ آپ مشہور علم دوست اور علم پرور خلیفہ ’مامون‘ کی سرپرستی میں ان کے قائم کردہ ادارے ’’دارالحکومت‘‘ میں علمی خدمات انجام دیتے تھے۔ خوارزمی نے عالمگیر شہرت پائی ان کی شہرت کی ایک اہم وجہ ان کی مشہور زمانہ ریاضی کی کتاب’’ المختصر فی حساب الجبروالمقابلہ‘‘ ہے۔ ان کی علم جغرافیہ کے لیے انجام دیئے جانے والی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس میں سے ایک کارنامہ (صورۃ الارض) نامی کتاب کی تصنیف بھی ہے جس میں انہوں نے مختلف قدرتی اور آدم ساز (انسانوں کے بنائے ہوئے) خطے مثلاً پہاڑوں سمندروں، جزیروں، دریائوں، نہروں اور شہروں کو ان کے ناموں کی ترتیب کے اعتبار سے ارضیاتی نقشہ جات میں وقت اور تصحیح کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

اس کے لیے انہوں نے ’’علم الفلکیات‘‘ کے ایک اہم ترین مفروضے یعنی کرۂ ارض کی سات براعظموں میں تقسیم کا سہارا لیا ہے اور نقشہ سازی کے فن میں علیحدگی اور جدت طرازی کی ایک مثال قائم کی ۔ بعض مغربی مصنفین نے ان کی کتاب پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے۔’’پوری مغربی تہذیب اس کتاب کے مقابلے میں کوئی ایک تصنیف پیش نہیں کر سکتی کہ جس پر وہ فخر کر سکے۔ بلا شبہ اس کتاب نے علم الجغرافیہ پر بڑا گہرا اثر ڈالا ہے۔‘‘

-2 یعقوبی:

ان کا نام احمد بن جعفر بن وہب یعقوبی اور کنیت ابوالعباس تھی۔ ان کی پیدائش بغداد میں ہوئی اور 298ھ (891ء) میں وفات پائی۔ وہ اپنی جوانی کے ابتدائی زمانے ہی سے سیروسیاحت اور سفر کے شوقین تھے۔ ان کو شہروں کے احوال ان کو ملانے والے راستوں اور ان کے درمیان مسافتوں کی پیمائش سے واقفیت حاصل کرنے کا جنون تھا۔ ان کی کتاب ’’البلدان‘‘ AL.BALDAN کے مخلوطے کا شمار ہمارے زمانے میں پائے جانے والے اہم ترین جغرافیائی مخطوطات میں سے ہوتا ہے۔ ان کا انداز تحریر آسان ، سہل اور سلیس تھا۔ وہ نہایت خوبصورت انداز میں اپنی معلومات قارئین کے سامنے پیش کرتے تھے۔ انہوں نے زمین کو جہات اصلیہ اربعہ یعنی مشرق، مغرب، شمال اور جنوب کا اعتبار کرتے ہوئے چار اقسام میں تقسیم کیا۔ براعظموں کو سلطنتوں اور ملکوں میں تقسیم کے اعتبار سے یعقوبی کو علم جغرافیہ کا مجدد سمجھا جاتا ہے۔

-3 ہمدانی:

ان کا نام حسن بن احمد بن یعقوب ہمدانی تھا اور کنیت ابو محمد تھی یہ یمنی تھے۔ یمن میں پیدا ہوئے اور وہیں پرورش پائی۔ یمن کے شہر صنعاء میں 280ھ میں ولادت اور 334ھ میں وفات پائی۔ وہ علم تاریخ کے بحر بیکراں تھے۔ جغرافیہ اور فلکیات سے بڑی اعلیٰ درجے کی واقفیت تھی۔ ان کا شمار ’’براعظمی جغرافیہ‘‘ پر قلم اٹھانے والے لکھاریوں میں سے ایک بہترین لکھاری کے طور پر ہوتا ہے۔ اس صنف میں ان کی کتاب صنعۃ جزیرۃ العرب‘‘ اپنی نوعیت کی انوکھی کتاب شمار ہوتی ہے۔

ہمدانی نے اپنی اس کتاب کی ابتداء بطور تمہید ریاضیائی جغرافیہ سے کی اور طول البلد کے خطوط اور عرض البلد کے دائروں کے تعین کے مختلف طریقوں کو تفصیل سے بیان کیا اور ’’بطلیموس‘‘ کی پیروی کرتے ہوئے زمین کو سات براعظموں میں تقسیم کیا اور آخر میں کتاب کے بنیادی موضوع یعنی ’’جزیرۃ العرب کی ارضیاتی تقسیم‘‘ کو بیان کرتے ہوئے سرزمین عرب کو نجد، تہامہ، حجاز، عروض اور صیحن پانچ مناطق میں تقسیم کیا اور ہر ایک کی تفصیل بیان کی۔

-4 البیرونی:

ان کا نام ’’محمد بن احمد البیرونی‘‘ تھا۔ یہ بیرون میں 362ھ (973ء) میں پیدا ہوئے۔ علم المثلث ریاضی، جغرافیہ، علم نجوم، کیمیا اور کئی علوم میں مہارت حاصل کی اور بالآخر ان میں امامت کے درجہ کو پہنچے۔ انہوں نے اپنی تصنیفات میں خصوصی طور پر اس نکتے پر زور دیا ہے کہ خط استوا کے جنوب میں واقع علاقوں میں اس وقت سردی کا موسم ہوگا جب ہمارے ہاں یعنی خط استوا کے شمال میں واقع علاقوں میں گرمی کا موسم ہوتا ہے۔ بعد میں یہی نکتہ اس نظریہ کی بنیاد بنا کہ کرہ ارض کے چار مختلف موسم اس کے قطبی محور پر 23.5 درجے کے جھکائو کے ساتھ گھومنے کا شاخسانہ ہیں۔ البیرونی کی جغرافیہ کے عنوان پر تصنیفات میں سے ایک اہم تصنیف ’’تحدید نہایۃ الاماکن تصحیح سافات المساکن‘‘ ہے جو اپنے موضوع پر سند سمجھی جاتی ہے۔

-5 البکری:

ان کا نام عبداللہ اور کنیت (ابو عبید) تھی، اندلس کے شہر قطبہ میں 432ھ میں ولادت اور 487ھ میں وفات ہوئی ۔ ان کو بلا اختلاف بلاد اندلس کا عظیم ترین جغرافیہ دان مانا جاتا ہے۔ ان کی علم جغرافیہ میں دو مشہور اور اہم تصنیفات ہیں۔ ایک کا نام ’’المسالک والممالک‘‘ ہے۔ اس کتاب سے بعد کے جغرافیہ دانوں کی ایک بڑی تعداد جیسے یاقوت اور دمشقی وغیرہ نے کافی استفادہ حاصل کیا۔ دوسری تصنیف میں انہوں نے شہروں کی معجم حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دی۔ اس کتاب کو بھی اپنی نوع میں ایک بے مثال تصنیفی کارنامہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ بیک وقت جغرافیہ، قدیم عربی تاریخ اور اشعار جاہلیہ جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔

-6 ادریسی:

ان کا نام محمدبن عبداللہ بن ادریس تھا، سبتہ کے شہر میں 463ھ (1100ء) کو ولادت اور 560ھ کو انتقال ہوا۔ ’’سبتہ‘‘ درۂ جبل الطارق کے کنارے واقع مراکش کے مشہور ساحلی شہر ’’طنجہ‘‘ کے قریب واقع ہے۔ ادریسی نے سب سے پہلے زمین کا نقشہ بناکر اسے چاندی کی ایک پلیٹ جس کا وزن تقریباً 112 درہم تھا پر کندہ کروایا۔ اس نقشے میں انہوں نے کرۂ ارض کو سات براعظموں میں عرض البلد کے دائروں کی صورت میں تقسیم کیا تھا علم جغرافیہ میں ان کے 3 کارنامے نہایت اہم سمجھے جاتے ہیں۔ -1 کاغذ پر زمین کا ابتدائی نقشہ، -2 زمین کا چاندی کی پلیٹ پر اپنی نوعیت کا انوکھا نقشہ، -3 ان کی کتاب ’’المشتاق فی اخراق الآفاق‘‘ جس میں دنیا بھر کے ملکوں اور شہروں کے احوال درج تھے۔

-7 یاقوت حموی:

یاقوت ایک غلام تھے۔ انہیں ایک حموی تاجر نے خریدا تھا۔ ان کی ولادت 575ھ 1179ء اور وفات 627ھ (1229ھ) میں ہوئی۔ علم الجغرافیہ سے انہیں خصوصی شغف تھا۔ انہوں نے جغرافیہ کے عنوان پر ایک معجم ترتیب دی جس کے مقدمے میں دیگر فنون کے علاوہ فن جغرافیہ پر خصوصی گفتگو کی۔

مقدمے کے بعد انہوں نے جغرافیے کے مختلف 5 ابواب قائم کیے اور ان میں مندرجہ ذیل باتوں پر سیر حاصل گفتگو (بحث)کی۔ -1 جغرافیائی نظریات: جن کا تصور اس بات کو ثابت کرنا تھا کہ زمین گول ہے، آسمان کے اطراف اسے مقناطیس کی طرح ہر جانب سے کھینچ رہے ہیں۔ -2 کرہ ارض کی سات براعظموں میں تقسیم جس کی بنیاد پر 12 برج اور ان کے تحت واقع ہونے والے علاقے تھے۔ -3 طول البلد اور عرض البلد کے خطوط اور فلکیاتی جغرافیہ کی بعض اصلاحات، -4 جن علاقوں میں مسلمانوں نے فتوحات کی تھیں ان کے حالات اور ان میں وقوع پذیر ممالک کی طبعی و سیاسی تقسیم۔

-8 ابن ماجد:

ان کا نام احمد بن ماجد سعدی نجدی اور لقب شہاب الدین تھا۔ خلیج عمان کے مغربی ساحلی علاقے میں ان کی پیدائش ہوئی۔ ان کی تاریخ پیدائش اور وفات کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ بس اتنا معلوم ہے کہ نجدی خاندان کے فرد تھے جو کشتیوں اور سمندری سفر کی قیادت کا خصوصی شغف رکھتے تھے اور اس میں مہارت بھی تھی۔ ان کے والد اور دادا کا نام بہترین سمندری جہاز رانوں میں ہوتا تھا جو بحری جغرافیہ کے علوم سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔

ابن ماجد نے اپنے باپ دادا کے علمی ورثے سے خوب استفادہ حاصل کیا اور اپنے تجربات کی روشنی میں اس فن پر تصنیفات کا ڈھیر لگادیا۔ ان کی اہم نثری تصنیف کتاب الفوائد فی اصول علم الجروالقواعد ہے۔ ان کے شعری مجموعے میں سب سے ضخیم کتاب حاویہ الافتحار فی اصول علم البحار ہے جس میں تقریباً ایک ہزار اشعار فصلوں کی صورت میں ہیں۔ وہ سمندری راستوں اور نقشوں کے موجد اور بانی تھے۔ جن سے بعد میں آنے والے مغربی جہاز رانوں نے اپنی تحقیق اور انکشافات میں خوب کام لیا۔

-9 ابن بطوطہ:

1304ء میں پیدا ہونے والے معروف سیاح ، مورخ اور جغرافیہ دان ابوعبداللہ محمد ابن بطوطہ کا انتقال1378ء میں ہوا۔ یہ مراکش کے شہر طنجہ میں پیدا ہوئے۔ ادب، تاریخ، اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اکیس سال کی عمر میں پہلا حج کیا۔ اس کے بعد شوق سیاحت نے افریقہ کے علاوہ روس سے ترکی پہنچا دیا۔ جزائر شرق الہند اور چین کی سیاحت کی۔ عرب، ایران ، شام ، فلسطین ، افغانستان ، اور ہندوستان بھی گئے۔

وہ محمد تغلق کے عہد میں ہندوستان آئے تھے۔ سلطان نے اْن کی بڑی آؤ بھگت کی اور قاضی کے عہدے پر سرفراز کیا۔ یہیں سے ایک سفارتی مشن پر چین جانے کا حکم ملا۔ 28 سال کی مدت میں انہوںنے 75ہزار میل کاسفر کیا۔ آخر میں فارس کے بادشاہ ابوحنان کے دربار میں آئے۔ اور اس کے کہنے پر اپنے سفر نامے کو کتابی شکل دی۔ اس کتاب کا نام عجائب الاسفارفی غرائب الدیار ہے۔ یہ کتاب مختلف ممالک کے تاریخی و جغرافیائی حالات کا مجموعہ ہے۔

-10ابن رشد:

جغرافیہ دان ، فلسفی، ریاضی دان، ماہر علم فلکیات اور ماہر فن طب ابن رشد قرطبہ میں 1126ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام ابو الولید محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن رشد القرطبی الاندلسی ہے۔ ابن طفیل اور ابن اظہر جیسے مشہور عالموں سے دینیات ، فلسفہ ، قانون ، علم الحساب اور علم فلکیات کی تعلیم حاصل کی ۔ یوں تو ابن رشد نے قانون ، منطق ، قواعد زبان عربی، علم فلکیات،جغرافیہ اور طب پر متعدد کتب لکھی ہیں۔ مگر ان کی وہ تصانیف زیادہ مقبول ہوئی ہیں جو ارسطو کی مابعدالطبیعات کی وضاحت اور تشریح کے سلسلے میں ہیں۔ ابن رشد 1198 عیسوی کو مراکش میں انتقال کرگئے۔ جمال الدین العلوی نے ابن رشد کی 108 تصانیف شمار کی ہیں جن میں سے ہم تک عربی متن میں 58 تصانیف پہنچی ہیں، ابن رشد کی اس قدر تصانیف میں خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے ارسطو کے سارے ورثے کی شرح لکھی۔

-11ابن سینا:

ان کا مکمل نام علی الحسین بن عبد اللہ بن الحسن بن علی بن سینا (980 تا 1037 عیسوی) ہے جو کہ دنیائے اسلام کے ممتاز طبیب اور فلسفی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے جغرافیہ کے میدان میں بھی کافی کام کیا ۔ ابن  سینا کو مغرب میں Avicenna کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ‘‘الشیخ الرئیس’’ ان کا لقب ہے۔ ان کا حافظہ بہت تیز تھا۔ جلد ہی سلطان نوح بن منصور کا کتب خانہ چھان مارا اور ہمہ گیر معلومات اکٹھی کر لیں۔ اکیس سال کی عمر میں پہلی کتاب لکھی۔ ایک روایت کے مطابق بو علی سینا نے اکیس بڑی اور چوبیس چھوٹی کتابیں لکھی تھیں۔ بعض کے خیال میں اس نے ننانوے کتابیں تصنیف کیں۔ جغرافیہ میں انھوں نے پہاڑوں کا بننا، موسموں کا اتار چڑھائو اور زمین میں آنے والی تبدیلیوں پر کافی تحقیق کی۔

-12ابن الہیثم:

ان کا پورا نام ‘‘ابو علی الحسن بن الہیثم’’ ہے لیکن ابن الہیثم کے نام سے مشہور ہیں۔ ابن الہیشم (پیدائش: 965 ء ، وفات: 1039 ء ) عراق کے تاریخی شہر بصرہ میں پیدا ہوئے۔ وہ طبیعات ، ریاضی ، انجینئرنگ،جغرافیہ، فلکیات اور علم الادویات کے مایہ ناز محقق تھے۔ ان کی وجہ شہرت آنکھوں اور روشنی کے متعلق تحقیقات ہیں۔ ابن ابی اصیبعہ ’’عیون الانباء فی طبقات الاطباء‘‘ میں کہتے ہیں ’’ابن الہیثم فاضل النفس، سمجھدار اور علوم کے فن کار تھے، ریاضی میں ان کے زمانے کا کوئی بھی سائنسدان ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا تھا، وہ ہمیشہ کام میں لگے رہتے تھے، وہ نہ صرف کثیر التصنیف تھے بلکہ زاہد بھی تھے۔‘‘ جیسا کہ ابن ابی اصیبعہ نے کہا وہ واقعی کثیر التصنیف تھے، سائنس کے مختلف شعبوں میں ان کی 237 تصانیف شمار کی گئی ہیں۔

-13المسعودی:

مشہور مسلم مؤرخ، جغرافیہ دان اور سیاح المسعودی بغداد میں 896ء میں پیدا اور 956ء میں وفات پا گئے۔ اس عظیم سیاح نے اپنے شہر سے پہلا سفر ایران کا کیا اور پھر وہاں سے ہندوستان (موجودہ پاکستان) کے علاقوں کا سفر کیا۔ انہوں نے یہاں سندھ اور ملتان کی سیر کی اور پھر ہندوستان کے مغربی ساحلوں کے ساتھ ساتھ کوکن اور مالابار کے علاقوں سے ہوتے ہوئے لنکا پہنچے۔

یہاں وہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ چین گئے۔ چین سے واپسی پر انہوں نے زنجبار کا رخ کیا اور مشرقی افریقہ کے ساحلوں کی سیر کرتے ہوئے مڈغاسکر تک پہنچے۔ یہاں سے جنوب عرب اور عمان ہوتے ہوئے اپنے شہر بغداد واپس پہنچے۔ اس عظیم سیاح و جغرافیہ دان نے 20 سے زائد کتابیں تصنیف کیں لیکن افسوس کہ ان کی صرف دو کتابیں اب باقی بچی ہیں جن کے نام مروج الذہب اور التنبیہ و الاشراف ہیں۔ مسعودی کی کتابوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے مطالعے سے چوتھی صدی ہجری کی زندگی آئینے کی طرح سامنے آ جاتی ہے اور اس زمانے کی تہذیب و تمدن کا نقشہ کھنچ جاتا ہے۔

بچھو بیچا کروڑوں پائے۔۔۔۔!

$
0
0

سانپ، بچھو اور اس نوع کے دیگر جانوروں کو ہمیشہ سے انسان کا ازلی دشمن تصور کیا جاتا ہے۔

حضرتِ انسان نے ان موذی جانوروں خصوصاً بچھوئوں سے ہمیشہ دور رہنے کی کوشش کی ہے۔ کئی دہائیوں سے بھوک و پیاس سے نبزدآزما تھر کے باشندوں کو بارش ایک طرف نئی زندگی بخشتی ہے تو دوسری طرف برسات کے موسم میں سانپ، بچھو جیسے رینگنے والے زہریلے جانوروں کا خوف بھی انہیں دامن گیر رہتا ہے۔ لیکن اب یہ خوف ان کی زندگیوں میں خوشی کی بہاریں لا رہا ہے۔ وہی زہریلے بچھو جنہیں دیکھ کر لوگ مار دیا کرتے تھے اب اُنہی زہریلے بچھوئوں کو اولاد سے زیادہ عزیز رکھا جا رہا ہے اور اُن کی افزائش نسل کی جارہی ہے۔

تھر جس کی خوب صورتی کے باوجود اس کے مصائب سے پُر شب وروز کے بارے میں سُن کر لوگ وہاں جانے سے کتراتے تھے، اب پاکستان بھر کے لوگوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے صحرائے تھر اور اس کے گرد ونواح میں راتوں رات امیر ہونے کے خواہش مندوں کی بھیڑ لگی ہے۔ یہ سب صرف ایک شے کی تلاش میں دن رات تھر کے طول وعرض میں سرگرداں ہیں۔ رات ہوتے ہی مٹھی، ننگر پارکر، اسلام کوٹ اور ضلع تھرپارکر کے دیگر علاقوں کے لوگ ’’کالے سونے‘‘ کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔

یہ لوگ جان ہتھیلی پر رکھ کر دنیا کے خطرناک جانوروں میں سے ایک ’’کالے بچھو‘‘ کو زندہ پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک بڑا کالا بچھو انہیں راتوں رات کروڑ پتی بنا سکتا ہے۔ اسی لیے کالے بچھو کو کالا سونا کہا جانے لگا ہے۔ راتوں رات امیر بننے کی خواہش نے مقامی اور غیرمقامی لوگوں میں انتہائی زہریلے کالے بچھوئوں کو زندہ پکڑنے اور ان کی افزائش نسل پر مجبور کر دیا ہے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ہم نے اس زہریلے جانور کو مارنے کے بجائے اپنی آمدنی کا ذریعہ بنالیا ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے درجنوں تاجر بچھوئوں کی خریداری کے لیے اس علاقے کا رُخ کر رہے ہیں۔ ننگرپارکر کے پالن بازار میں ہر ہفتے بچھوئوں کی مارکیٹ لگتی ہے۔ مقامی افراد پہاڑی علاقے کارونجھر سے پکڑے جانے والے چھوٹے بڑے بچھوئوں کو فروخت کے لیے پیش کرتے ہیں۔ جہاں پورے ملک کے مختلف علاقوں سے آنے والے افراد وزن کے حساب سے رقم کی ادائیگی کرتے ہیں، جب کہ کئی افراد نے اس کام کے لیے کراچی کے مختلف علاقوں میں دفاتر بھی کھول رکھے ہیں۔ کچھ سرمایہ کاروں نے بچھوئوں کی افزائشں نسل کے لیے نرسریاں بھی قایم کر رکھی ہیں، جہاں کم وزن کے بچھوؤں کو ’’پال پوس کر بڑا‘‘ کیا جارہا ہے۔

بچھوؤں کی فروخت کے حوالے سے کراچی میں مڈل مین کی حیثیت سے کام کرنے والے ایک شخص جنید (فرضی نام) نے بتایا کہ کراچی اس وقت بچھوئوں، لیوپارڈ جیکو چھپکلی (ہن کھن) اور دیگر رینگنے والے جانوروں کی غیر قانونی خرید و فروخت کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ جنید کا کہنا ہے کہ کالے بچھوئوں کی خرید و فروخت کی اس گنگا میں اوپر سے لے کر نیچے تک سب ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اُس کا کہنا ہے کہ ان جانوروں کی خرید و فروخت کا کام کلاسیفائیڈ ویب سائٹ کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ مفت میں اشتہار پوسٹ کرنے کے بعد خریدار اور فروخت کنندہ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔

جنید نے بتایا کہ میں بچھو اور لیوپارڈ جیکو کی بروکری کرکے گذشتہ ڈیڑھ سال میں 30 سے 35 لاکھ روپے کمیشن کما چکا ہوں۔ جنید کا کہنا ہے کہ بہت سی بین الاقوامی کمپنیوں نے کراچی میں اپنے نمائندے مقرر کیے ہوئے ہیں جنہیں کمپنی کی طرف سے باقاعدہ لائسنس جاری کیے گئے تھے، لیکن گذشتہ ماہ تمام کمپنیوں کے لائسنس منسوخ ہوچکے ہیں اور اس وقت یہ تمام کام بلیک مارکیٹ میں ہو رہا ہے۔

کراچی کے متمول علاقے ڈیفنس میں واقع ایک کمپنی کے نمائندے ’’ع‘‘ سے جب اس سلسلے میں بات کی گئی تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ بات حقیقت ہے کہ کمپنیوں کی طرف سے جاری کیے گئے لائسنس کی تجدید نہیں کی گئی ہے اور اس وقت یہ سارا کام نقد رقم پر ہو رہا ہے، جس سے ایک طرف تو قومی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے تو دوسری جانب اغوا کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ میری اس بات کی تصدیق چند ماہ میں ہونے والے والی اغوا کی وارداتوں کے اعدادوشمار سے بھی کر سکتے ہیں، کیوں کہ اس وقت ایک سو گرام کے کالے بچھو کی قیمت ایک کروڑ روپے سے زاید ہے، جب کہ دوسو یا اس سے زاید وزن کے حامل کالے بچھو کے عوض کمپنیاں اربوں روپے دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔

’’ع‘‘ کا کہنا ہے کہ  50گرام سے کم وزن کے بچھو کو کوئی بھی کمپنی نہیں خرید رہی، لیکن مقامی سرمایہ کار انہیں کوڑیوں کے مول خرید کر اُن کی افزائش نسل کر رہے ہیں۔ تاہم 50گرام کے بچھو کو ہر متعلقہ کمپنی کم از کم بھی 30سے40 لاکھ میں خرید رہی ہے۔ بچھو کی خریدوفروخت کے طریقۂ کار کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ اگر ہم سے کوئی بچھو کو بیچنے کے لیے رابطہ کرتا ہے تو سب سے پہلے ہم اُس سے وزن کی تصدیق کرواتے ہیں، جس کا طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ ہمارا بروکر اُس شخص کے پاس پہنچ کر ڈیجیٹل اسکیل پر بچھو کا وزن کرتا ہے اور اپنا نام اور کوڈ (جو کمپنی فراہم کرتی ہے) لکھ کر چٹ لگا دیتا ہے۔

اس سارے طریقۂ کار کی ویڈیو بنا کر ہمیں ای میل یا (انٹرنیٹ کی وڈیو اور پکچرز کی شیئرنگ کی سائٹ) ’’واٹس ایپ‘‘ کے ذریعے بھیج دی جاتی ہے۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد ہم بچھو کے مالک کو اپنی آفر دے دیتے ہیں اور اگر وہ اس پر متفق ہوجائے تو ہم کمپنی کے ڈاکٹر کو بھیج کر بچھو کا میڈیکل کرواتے ہیں۔ اس طریقۂ کار میں پورے بچھو کو ڈنک سمیت اسکین کیا جاتا ہے۔

میڈیکل کے بعد ملاقات کی جگہ کا تعین کیا جاتا ہے اور فروخت کنندہ کی مطلوبہ رقم نقد، بانڈز یا ٹریول چیک کی شکل میں ادا کرکے ڈیل فائنل کردیتے ہیں۔ تاہم یہ طریقۂ کار50 گرام یا اُس سے بڑے بچھو کے لیے ہے، کیوں کہ اس سے کم وزن کے بچھو ئوں کو سرمایہ کار ہی خریدرہے ہیں، جب کہ لیوپارڈ جیکو چھپکلی (ہن کھن) کی خریدوفروخت کے لیے بھی یہی طریقۂ کار استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم آج کل لیوپارڈ جیکو کی قیمت میں کافی کمی آچکی ہے اور سو گرام کی جو چھپکلی چند ماہ قبل لاکھوں روپے میں بک رہی تھی، اب اس کی قیمت کم ہوکر ہزاروں میں ہوگئی ہے۔

دوسری طرف محکمۂ جنگلی حیات سندھ کے سربراہ جاوید احمد مہر کا کہنا ہے کہ کالے بچھوئوں اور لیوپارڈ جیکو کی خریدوفروخت کے حوالے سے تمام باتیں محض افواہ ہیں، جس کا سراسر نقصان چھوٹے سرمایہ کاروں کو ہے جو راتوں رات دولت کمانے کی کوشش میں کچھ جعل سازوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چند سو روپے کے بچھو کی مصنوعی طلب بڑھا کر اُس کی قیمت کو لاکھوں کروڑوں میں پہنچا دیا گیا ہے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ خریدنے والے آپ سے اُس وزن کے بچھو کی بات کرتے ہیں جو کہ تقریباً ناپید ہے، مثال کے طور پر وہ 50گرام یا اُس سے اوپر کے وزن کی بات کرتے ہیں جو کہ شاد و نادر ہی ہوتا ہے۔

جاوید احمد نے کہا کہ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے افواہیں اُڑائی گئیں ہے کہ جناب بچھو سے کینسر، ایڈز اور دیگر لاعلاج بیماریوں کی ادویات بن رہی ہیں، لیکن عقل سے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کسی کمپنی نے بچھو یا اُس کے زہر سے ایڈز یا کینسر کی دوا بنالی ہوتی تو اب تک دنیائے طب میں تہلکہ مچ گیا ہوتا۔ اُنہوں نے بتایا کہ کالے بچھو کا استعمال صرف ایک ہی ہے کہ چین میں اسے بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے اور اس کام کے لیے وہ بڑے بڑے فارم ہائوس بناکر اُن کی افزائش نسل کرتے ہیں۔

جاوید احمد نے کہا کہ بات صرف اتنی سی ہے کہ چند سال قبل چینی انجینئرز کی ایک ٹیم نے اندرون سندھ کا دورہ کیا تھا اور کھانے کے لیے چند مقامی لوگوں سے بچھو خریدنا شروع کر دیے تھے، جس کی وجہ سے مقامی لوگوں نے بچھوئوں کو بہت ہی منہگی شے سمجھ لیا۔ میں آپ کو بتادوں کہ جب جام شورو پاور پراجیکٹ بن رہا تھا تو وہاں موجود چینی انجنیئرز نے مقامی لوگوں سے کھانے کے لیے کتے بھی خریدے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے بین الاقوامی قانون کے تحت کسی بھی جانور کو بڑے پیمانے پر درآمد کرنا غیرقانونی ہے۔

اگر ہم یہ مان لیتے ہیں کہ بچھوئوں یا لیوپارڈ جیکو کو درآمد کیا جا رہا ہے تو کیا وہاں کے امیگریشن حکام اتنے نا اہل ہیں کہ وہ آج تک ایک بھی بچھو یا لیوپارڈ جیکو چھپکلی کو نہیں پکڑ پائے۔ میں آپ کو بتادوں کہ بچھوئوں کے ذریعے راتوں رات امیر بننے کے چکر میں متعدد افراد اپنی جمع پونجی لٹا چکے ہیں اور کئی لوگ اب تک لٹا رہے ہیں۔ جاوید مہرنے بتایا کہ یہ محض ایک طرح کی ’’پونزی اسکیم‘‘ ہے، جس میں ایک عام سی چیز کی قیمت لاکھوں کروڑوں تک پہنچائی جاتی ہے اور آخر میں تمام افراد اپنی رقم گنوا بیٹھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کالے بچھو اور لیوپارڈ جیکو چھپکلی محکمہ جنگلی حیات کی ’’پروٹیکٹد اینیمل‘‘ کی فہرست میں شامل نہیں تھی لیکن میڈیا میں اس کی خریدوفروخت کے حوالے سے آنے والی خبروں کے بعد ہم نے ان رینگنے جانوروں کو ’’پروٹیکٹد اینیمل ‘‘ کا درجہ دے دیا ہے۔ جاوید احمد کا کہنا ہے کہ بچھو اور لیوپارڈ جیکو سمیت کسی بھی جنگلی حیات کو پکڑنے یا مارنے پر دو لاکھ روپے تک جرمانہ اور چھے ماہ سے ایک سال قید تک کی سزا ہوسکتی ہے، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں صرف آزاد کشمیر میں ایک کیس رجسٹر ہوا ہے۔

اُنہوں نے بتایا کہ ہم نے ’’سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ 2014‘‘ کے نام سے ایک بل سندھ اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا ہے، جسے منظوری کے بعد فوراً نافذ کردیا جائے گا۔ اس بل میں بچھو اور لیوپارڈ جیکو سمیت دیگر جانوروں کو پکڑنے، ان کی خریدوفروخت کے حوالے سے سو سے زاید سیکشن بنائے گئے ہیں۔ بچھو کی نسل معدوم ہونے سے ماحول کو لاحق خطرات کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ بچھو کی نسل ختم ہونے سے نہ صرف ماحولیاتی عدم توازن پیدا ہوگا، بل کہ اس خطے میں جانوروں کی غذائی زنجیر بھی متاثر ہوگی، جس سے ایک طرف حشرات الارض کی تعداد میں اضافہ ہوگا تو دوسری جانب مور جیسے پرندوں کی نسل بھی متاثر ہوگی، کیوں کہ بچھو مور کی پسندیدہ خوراک میں سے ایک ہے۔

’’ کالے سونے‘‘ کے اس دھندے میں ایک بار پھر تھر کے معصوم شہریوں کا استحصال کیا جا رہا ہے اور اُن سے کوڑی کے مول خریدنے جانے والے کالے بچھوئوں کو کراچی میں سونے سے بھی زیادہ قیمت پر فروخت کیا جارہا ہے۔ ٹھٹھہ، بدین اور تھرپارکر میں نہ صرف کالے بچھو بل کہ سانپ، چھپکلی اور دیگر رینگنے والے جانوروں کی غیرقانونی فروخت کا دھندا بھی عروج پر ہے۔ بہ ظاہر محکمۂ جنگلی حیات سندھ کی جانب سے کالے بچھوئوں کی خریدوفروخت پر پابندی عاید کردی گئی ہے لیکن بلیک مارکیٹ اور اسمگلنگ کے ذریعے ’’کالے سونے‘‘ کے اس نئے دھندے نے ضلع تھرپارکر اور دیگر علاقوں میں کالے بچھوئوں اور دیگر رینگنے والے جانوروں کی نسل کو معدومی کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

WWF (ورلڈ وائڈ برائے نیچر) پاکستان کے کنزرویشن کوآرڈی نیٹر سعید الاسلام کا کہنا ہے کہ محکمۂ جنگلی حیات، جنگلی حیات کے لیے کوئی مخصوص لائسنس جاری نہیں کرتا اور یہ لائسنس بہت نایاب جنگلی حیات کے لیے جاری کیے جاتے ہیں۔ لیکن اب تو تقریباً ہر جانور بشمول رینگنے اور چلنے والے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ تاہم شمالی علاقہ جات میں پائے جانے والے کچھ جانوروں (مار خور، آئی بیکس اور سائبیریا سے آنے والے پرندے) کے شکار کے لیے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں، لیکن اُن کی فیس بھی لاکھوں یا ہزاروں ڈالر میں ہوتی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ کافی عرصے پہلے کچھ مخصوص جانوروں کے لیے محدود پیمانے پر لائسنس جاری ہوتے تھے، لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہوچکا ہے، کیوں کہ اب تقریباً ہر جنگلی حیات معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔ کالے بچھوئوں کی فروخت کے حوالے سے سعیدالاسلام کا کہنا ہے کہ کالے بچھوئوں کی نسل ختم یا اُن کی تعداد میں کمی ہونے سے ہمارا ماحولیاتی نظام بری طرح متاثر ہوگا۔

اس کی مثال اس طرح سے ہے کہ اگر آپ زنجیر میں سے ایک کڑی نکال دیں تو پوری زنجیر بے کار ہوجاتی ہے تو اسی طرح اگر بچھو ناپید ہوگئے تو اس سے ایک طرف ماحولیاتی عدم توازن پیدا ہوگا تو دوسری طرف غذائی زنجیر بری طرح متاثر ہوگی۔ بچھو کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں، لہٰذا ان کے معدوم ہونے کی صورت میں حشرات الارض کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جائے گی، جس سے بیماریوں میں اضافہ ہوگا۔ آپ اس طرح سمجھ لیں کہ نہ صرف بچھو بل کہ کسی بھی جان دار کی نسل ختم ہونے کا نتیجہ انسان ہی کو بھگتنا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ کالے بچھو میں پوٹاشیم سمیت دیگر مخصوص کیمیائی مادوں کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور طب کے شعبے میں ہونے والی نئی تحقیق میں اس کا کافی استعمال کیا جارہا ہے۔ بچھو کے زہر اور جسم میں موجود کیمیکلز کا کینسر، دافع درد، ایڈز اور جنسی ادویات کی تیاری میں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر استعمال بہت زیادہ ہے اور کالے بچھو کے جسم میں پائے جانے والے کچھ مخصوص کیمیکلز کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جسم میں پائے جانے والے مخصوص کیمیکلز کی وجہ اس سے بننے والی ادویات کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ضلع تھرپارکر اور سندھ کے دیگر شہروں میں صرف کالے بچھو ہی کو پکڑا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ لوگوں میں کالے بچھو کی نسل ختم ہونے سے پیدا ہونے والے نقصانات کے بارے میں شعور اُجاگر کرنے کے لیے ہم نے کافی کوششیں کی ہیں، لیکن کالے بچھو کی غیرقانونی فروخت میں کمی نہ ہونے کے کئی اسباب ہیں۔ سب سے پہلا سبب غربت ہے۔ وہاں لوگوں کے پاس کھانے کے لیے نہیں ہے تو اگر کوئی اُن سے مٹی بھی خریدے گا تو بنا سوچے سمجھے مٹی بھی بیچنا شروع کردیں گے۔

ایک غیرسرکاری تنظیم ہونے کی وجہ سے ہم لوگوں کو صرف سمجھا سکتے ہیں، اُنہیں بہ زورِ روک نہیں سکتے، کیوں کہ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ حکومتِ سندھ کے محکمہ جنگلی حیات کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ بچھو یا کسی بھی جانور کی غیرقانونی طور فروخت میں ملوث فرد پر 50ہزار روپے جرمانہ اور 6ماہ جیل کی فردِجرم عاید کرسکتا ہے۔ ہم لوگوں میں شعور اُجاگر کرنے کے لیے ہرممکن حد تک کمیونٹی اور اداروں کی سطح پر تربیت فراہم کرتے رہتے ہیں۔

سعید الاسلام نے بتایا کہ کالے بچھو کی معدومی کے اثرات اتنی جلدی ظاہر نہیں ہوں گے، کسی بھی جانور کی معدومی کے اثرات کئی سالوں عشروں میں سامنے آتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ نہ صرف بچھو بل کہ لیوپارڈ جیکو چھپکلی اور اس نسل کی دیگر چھپکلیوں، کیکڑوں اور دیگر ریپٹائل (رینگنے والے جانور) کی بھی غیرقانونی خرید و فروخت کی جا رہی ہے اور یقیناً ان سب کی تعداد میں کمی سے ایکو سسٹم پر مرتب ہونے والے منفی اثرات سالوں بعد سامنے آئیں گے۔ ایکوسسٹم میں معمولی سی تبدیلی کے نتائج بھی ہم انسانوں ہی کو بھگتنے پڑیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے بچھو، سانپوں اور دیگر رینگنے اور چلنے والے جانوروں کی تجارت کو روکنے کے لیے یو ایس ایمبیسیڈر فنڈ کو ایک پروپوزل پیش کیا ہے، جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا دائرہ کار بڑھانے، کمیونٹی کی سطح پر شعور اجاگر کرنا اور ان جانوروں کی تجارت کی روک تھام کے لیے اقدامات وضح کیے ہیں۔ ماہرین کی جانب سے ایک مخصوص مدت کے بعد سروے کیے جاتے ہیں، لیکن گذشتہ دو سال میں ریپٹائل کی تعداد کا تعین کرنے کے لیے کوئی سروے نہیں کیا گیا ہے۔

کالے بچھوئوں کی خرید و فروخت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اس دھندے میں ملوث لوگوں کو ایک طرف اس بات کا اندیشہ ہے کہ کالے بچھوئوں کے پکڑنے پر پابندی لگ جائے گی تو دوسری طرف انہیں اس پابندی کی وجہ سے کالے بچھو کی قیمت میں اضافے کی امید بھی ہے۔

پاکستان سے کالے بچھو کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ نے سندھ میں کالے بچھوئوں کے علاوہ پیلے بچھوئوں کا وجود بھی بہ ظاہر ختم کردیا ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ کچھ مفادپرست عناصر پیسوں کے لالچ میں بچھوئوں کے بچوں کو بھی بڑی تعداد میں پکڑرہے ہیں حالاںکہ ان کی قیمت چند سو روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ کالے بچھوئوں کا شکار بہت خطرناک ہوتا ہے اور اندازے کی ذرا سی غلطی موت سے ہم کنار کرسکتی ہے۔ کالے بچھوئوں کا زہر گر چہ جان لیوا نہیں ہوتا، لیکن اس کا ڈنک انسان کو شدید تکلیف میں مبتلا کرسکتا ہے اور متاثرہ شخص چند لمحوں میں لقمۂ اجل بن سکتا ہے۔

پنجاب اور سندھ کے کئی سرمایہ دار اور وڈیرے بھی اس دھندے میں ملوث ہوچکے ہیں، جنہوں نے اپنے ملازمین کی ٹیمیں بناکر اُنہیں بچھوئوں کی تلاش پر لگا دیا ہے۔ راتوں رات امیر بننے کے چکر میں شہری اور دیہی علاقوں کے سیکڑوں لوگ سارے کام چھوڑ کر اس پراسرار دھندے سے دولت مند بننے کی تگ و دو میں لگ گئے ہیں، لیکن اب تک ان میں سے صرف چند ہی لوگ کچھ پیسے کما سکے ہیں۔ کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے نوجوان خالد (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ مجھے میرے دوست نے اس کام کے بارے میں بتایا۔ میں نے کلاسیفائیڈ ویب سائٹ پر جب بچھوئوں کی قیمت دیکھی تو میرے دل میں بھی لالچ آگیا اور کچھ اپنی جمع پونجی اور کچھ اپنے دوست سے ادھار لے کر 55 ہزار روپے میں 4 بچھو خرید لیے، لیکن بعد میں پتا چلا کہ ان کا وزن دس گرام سے بھی کم اور قیمت 2ہزار روپے سے زیادہ نہیں تھی۔

یہ ایک خالد کا ہی قصہ نہیں ہے، بل کہ خالد جیسے سیکڑوں نوجوان اس چکر میں اپنی جمع پونجی سے محروم ہو رہے ہیں، کیوں کہ نام نہاد کمپنیوں کے نمائندے 50 گرام سے کم وزن کے بچھو کو خریدنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اس وزن کا بچھو تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر عوام میں اس فراڈ کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے اور اس کام میں ملوث عناصر کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے، تاکہ لوگ اپنا پیسہ گنوانے سے محفوظ رہیں اور روشن مستقبل کے خواب دیکھنے والے نوجوان ’’شارٹ کٹ‘‘ سے دولت کمانے کے بجائے محنت پر یقین رکھتے ہوئے ترقی کی راہ پر گام زن ہوں۔

کالے بچھو کے بارے میں چند دل چسپ حقائق:

٭بچھو زمین پر پائی جانے والی قدیم ترین مخلوقات میں سے ایک ہے۔ کرۂ ارض پر اس کا وجود تقریبا ً 30کروڑ سال سے ہے۔

٭طبی مقاصد کے لیے کالے بچھو کو موزوں تصور نہیں کیا جاتا۔

٭کالے بچھو کا وزن اوسطاً 30گرام اور لمبائی تقریبا ً 20سینٹی میٹر ہوتی ہے۔

٭اب تک دنیا کے سب سے بڑے کالے بچھو کی لمبائی  23 سینٹی میٹر ریکارڈ کی گئی ہے۔

٭کالا بچھو افریقا کے بارانی جنگلات کی اسپی شیز ہے۔

٭ کالے بچھو کی اوسط عمر 8سال ہوتی ہے۔

غم اور بے بسی سے بھرا بھارتی گاؤں

$
0
0

منیش والدین کے لئے روشن مستقبل بن سکتاتھا لیکن دوسال کی عمر میں اس کے جسم نے حرکت کرنا ہی چھوڑ دیاتھا حتیٰ کہ وہ گھٹنوں کے بل رینگ بھی نہیں سکتا تھا۔ یہ بچہ پیدائش کے وقت ہی سے کینسر کے ہلاکت خیز مرض میں مبتلا ہے۔اس کے سر کا حجم غیرمعمولی طورپر بڑھ رہاہے، اس سے ظاہرہورہا ہے کہ اسے کچھ دیگرامراض نے بھی گھیر رکھاہے۔ اس کے والد ترسیم اور والدہ دونوں ڈیلی ویجز پر کام کرتے ہیں۔ وہ قریبی چھوٹے شہر راما منڈی میں کام کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ ترسیم اب تک منیش کے علاج کے لئے 25000روپے کا قرض لے چکاہے۔ یہ دلت جوڑا جانتاہے کہ ان کا بیٹا زیادہ عرصہ تک زندہ رہنے والا نہیں تاہم وہ اس کا بہتر سے بہتر علاج کرناچاہتے ہیں۔

اگرچہ وہ اس بہتر علاج کی استطاعت نہیں رکھتے، ان کے پاس کوئی جائیداد نہیں ہے جسے بیچ کر وہ ڈاکٹروں کو پیسہ فراہم کرسکیں، نہ ہی کوئی فرد انھیں ایک خاص حد سے زیادہ قرض دینے کو تیارتھا۔ججل نامی جس گاؤں میں وہ رہتے ہیں، کینسر کے مریضوں سے بھراپڑا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے ، بٹھنڈا کے ضلعی ہیڈکوارٹر سے 30 کلومیٹر دور،آبادی 3500 کے لگ بھگ ہوگی۔ سکھوں کے ایک مشہور بزرگ دمدمہ صاحب کی زیارت اسی علاقے میں واقع ہے۔ یہ مشرقی پنجاب کا جنوب مغربی علاقہ ہے۔ یہ سارا علاقہ ’مالوا‘ کہلاتاہے۔ یہاں زیادہ تر کپاس کاشت ہوتی ہے۔ صرف ججل ہی نہیں اس پورے علاقہ مالوا میں بہت سے منیش ہیں اور بہت سے ترسیم۔

گاؤں کے سرپنچ ناجر سنگھ نے کہا ’یہاں ایسی کم ہی گلیاں ہیں جہاں کسی نہ کسی کی کینسر سے موت نہ ہوئی ہو۔ یہاں تقریبا 530 گھر ہیں اور 1984 سے لے کر اب تک قریباً ایک سو افرادکینسر کا شکار ہوچکے ہیں۔‘ یہاں بسنے والے ہردیو سنگھ نے بتایا ’ایک بار ارکان پارلیمنٹ کی ایک 19رکنی ٹیم یہاں آئی تھی، انھوں نے حالات کا جائزہ لیا، ہم سب سے ملے، کئی کاغذ کالے کیے لیکن ہوا کچھ نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پانچ سال پہلے وہ اپنے بھائی شیر سنگھ کو کینسر کے سبب کھو چکے ہیں۔ انہیں بلڈ کینسر تھا، کافی خرچ ہوا، بیکانیر ہسپتال لے کرگئے لیکن وہ ٹھیک نہیں ہوئے۔‘ اسی گاؤں کے بھولا سنگھ کا کہنا ہے کہ کینسر کی وجہ سے اس گاؤں میں سالوں سے ماتم کا ماحول ہے، آئے دن کسی نہ کسی شخص کی کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کی خبر آتی ہے۔ مجھے یاد ہے نو دس سال قبل ایک ہی دن دو افراد کی کینسر سے موت ہوئی تھی۔ میرے والد جیت سنگھ بھی بلڈ کینسر کے شکار ہوئے تھے۔‘

کینسر بہت خوفزدہ رکھنے والا مرض ہے بالخصوص اگرمریض غریب کسان اور مزدور کا بیٹا ہو۔کرتاکور کی عمر 90 برس ہے۔کرتارکور نے اپنی تقریباً سوسالہ زندگی میں اپنے وطن میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیا۔ اس کی زندگی میں جوامید کی شمع جل رہی تھی، وہ بہت مدھم ہوچکی ہے۔ ایک ایک کرکے اس کے تین بیٹے کینسر کی وجہ سے موت کے گھاٹ اترگئے۔ چھوٹا سنگھ 45برس کا تھا جب اس نے2002ء میں آخری سانس لی اور پھر اسے چتا کی آگ میں جلا کر راکھ بنادیا گیا۔

پھر اگلے ہی سال بلبیر سنگھ 60برس کی عمر میں ہلاک ہوگیا۔ جلوڑ سنگھ بھی 45برس کا تھا جب 2005ء میں موت نے اسے بھی آلیا۔ یہ خاندان 9لاکھ روپے کا مقروض ہوگیا تھا، کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ سارا قرض ان مریضوں کے علاج کی خاطرلیاگیاتھا۔ اب بھی6 لاکھ روپے اداکرنے کو ہیں۔ قرض ادائیگی کی خاطر ٹریکٹر سمیت گھر کا تقریباً سب کچھ بک گیا۔اس سارے عرصہ میںکسی بھی سطح کی حکومت نے اس خاندان کو امداد یا ریلیف دینے کی کوشش نہیں کی۔

یہ اس دور کی بات ہے جب ججل گائوں ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں آرہاتھا اور یہ ریاستی حکومت کے لئے ایک چیلنج بن چکاتھا۔ میڈیا میں ایک ریٹائرڈ سرکاری ٹیچر جرنیل سنگھ کی کہانی بھی شائع ہوئی تھی، اس کہانی میں بھی ججل اور اس سے ملحقہ دیہاتوں میں کینسر کے پھیلتے ہوئے اثرات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذکرکیاگیاتھا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس مرض میں مبتلا ہے جبکہ باقی ماندہ لوگ بھی اس خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ اور اسی نوعیت کی دوسری کہانیاں چھپنے کے بعد ماہرین اور صحافیوں کی بڑی تعداد نے اس گائوں کا دورہ کیا۔ اگلے پانچ برس تک یہی کچھ ہوتارہا لیکن کینسر میں مبتلا ہونے والے مریضوں کا کچھ بھلا نہ ہوا۔ ایک کسان جسوندر سنگھ نے بتایا:’’ ہمیں صحافیوں، سرکاری اہلکاروں اور ڈاکٹرز سے وزیٹنگ کارڈز کے علاوہ کچھ بھی نہ ملا‘‘۔

ماہرین اس گائوں اور گردونواح میں پھیلتے ہوئے کینسر کا سبب ماحولیات سے جوڑتے ہیں بالخصوص پینے کے آلودہ پانی سے جو کسی بھی طورپر پینے کے قابل نہیں ہے۔ پانی کیوں آلودہ ہوا؟ بعض ماہرین کاخیال ہے کہ یہاں فصلوں اور سبزیوں وغیرہ ضرورت سے زیادہ کیڑے مار ادویات کا استعمال کیاجاتا ہے۔ اس علاقے میں ان ادویات کا استعمال مسلسل بڑھ رہاہے۔ سنٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ اور گرین پیس، دونوں اداروں کی تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق اس گائوں میں کیڑے مار ادویات کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔

جون 2005ء میں سنٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ نے انکشاف کیاکہ یہاں کے دیہاتیوں کے خون کے نمونے لئے گئے جن میں ان ادویات کی مقدار موجود تھی۔ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ یہاں ایسی ادویات استعمال ہورہی ہیں جن کے بارے میں دوا ساز کمپنیاں دعویٰ کرتی ہیںکہ ان میں ایسے اجزا شامل کئے جاتے ہیں جو انسانی صحت کے لئے کم سے کم مضر ہیں لیکن خون کے نمونے ٹیسٹ کرنے سے معلوم ہوا کہ ادویات میں ایسے کیمیکلز شامل ہیں جو انسانی صحت کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔

جنوری 2005ء میں پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ریسرچ چندی گڑھ نے اپنی رپورٹ میں بھی کیڑے مار ادویات ہی کو ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا سبب بتایا اور اس کے نتیجے میں کینسر پھیلا۔ اس رپورٹ میں بتایاکہ ان ادویات کی مقدار نہ صرف انسانی خون میں پائی گئی بلکہ یہاں کی سبزیوں اور پینے کے پانی میں بھی غیرمعمولی طورپر زیادہ موجود تھی۔ پینے کے پانی میں As, Cd, Se,Hg کی بھاری دھاتوں کی مقدار پائی گئی، اسی طرح Heptachlor ،Ethion  اورChloropyrifos  جیسے زہروں کی مقدار بھی کافی مقدار میں تھی۔

اس رپورٹ میں تجویز کیاگیا کہ پنجاب کے تمام کپاس کی کاشت والے علاقوں میں وسیع پیمانے پر سٹڈی کی جائے۔ ریاستی حکومت کینسر سے نمٹنے کے لئے خصوصی ادارہ قائم کرے، پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ باقاعدگی سے ان علاقوں میں پینے کا پانی چیک کرے، اس میں کیڑے مار ادویات اور بھاری دھاتوں کی مقدارکا جائزہ لے۔ لیکن برا ہو ایسی سیاست کا، ان میں سے کسی بھی تجویز کو حکومت نے اہمیت دینامناسب نہیں سمجھا۔ حتیٰ کہ حکومت نے اس علاقے میں ابتدائی طورپر ان مریضوں کے علاج کے لئے یاکینسر روکنے کی تدابیر کرنے کے لئے بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

جب سے یہ گاؤں کینسر کی زد میں آیا ہے یہاںکے لوگ اس کے بارے میں بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔ یہاںکے باشندے کہتے ہیں:’’ نہ تو کوئی یہاں کا پانی پیتا ہے نہ ہی کوئی اپنے بچوں کی شادی یہاں کرنے کے لیے تیار ہے۔کوئی بھی اس گاؤں میں اپنی لڑکے کی شادی کرتا ہے نہ ہی کوئی لڑکی دینا چاہتا ہے۔

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ان کی تکلیف کا سبب بھلے ہی کینسر ہے لیکن انہیں دکھ اس بات کا بہت زیادہ ہے کہ کینسر کے سبب اس گاؤں کی بدنامی کی وجہ سے یہاں کے کئی لڑکے اور لڑکیوں کی شادی نہیں ہو پا رہی ہے اور نہ ہی اس گاؤں میں مہمان آتے ہیں۔گاؤں کے ایک شخص راج پردیپ سنگھ نے اخبارنویس سے کہا: ’کسی اور کی کیا بات کریں، اب آپ یہاں آئے ہیں اور اگر ہم آپ کو پانی دیں تو آپ اسے پیئیں گے نہیں۔‘سنہ 2005 میں اس کے والد بلدیو سنگھ کی ریڑھ کی ہڈی میں کینسر ہوا تھا جس کے بعد ان کی موت ہو گئی تھی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اس گائوں کے باسی کینسر کے ایشو پر بات نہیں کرناچاہتے۔ حتیٰ کہ کینسر کے مریضوں نے بھی لب سی رکھے ہیں۔ انھوں نے اس کے بارے میں بات کرنے کے لئے کوڈورڈ’’بیکانیر‘‘ رکھا ہوا ہے۔ بیکانیر جانے کا مطلب ہے کینسر کے علاج کے لئے بیکانیر (ریاست راجستھان کا شہر)جانا۔ جن لوگوں کو اپنے کینسر میں مبتلا ہونے کا شک ہوتاہے ، وہ چیک اپ کے لئے نہیں جاتے۔ بڑا سبب یہ ہے کہ اس پر اخراجات بہت زیادہ اٹھتے ہیں۔

حتیٰ کہ علاج کے بعد بھی بہت سی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔ مثلاً 70سالہ مختیارسنگھ کو کینسر لاحق ہواتو اس کا ایک گردہ متاثرہوا۔ اس نے علاج کے لئے نہ صرف اپنا ٹریکٹر بیچا بلکہ زمین بھی فروخت کردی۔ وہ اب بھی دو لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ یہ علاج کیسے ہوا اور اس کے بعد اب تک قرض کی ادائیگی کیسے ہوئی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے مختیارسنگھ کہتاہے’’ہم نے اپنی ضرورتوں میں کٹوتی کی۔ ہم ایک وقت میں سبزی پکاتے ہیں اور اس کے ساتھ تین وقت کھاناکھاتے ہیں‘‘۔

اس گائوں کے لوگوں کو صرف ایک کینسر نے ہی شکنجے میں نہیں جکڑا بلکہ وہ وقت سے پہلے بوڑھے بھی ہوجاتے ہیں، ان کے جوڑوں میں ہمہ وقت درد رہتاہے اورکمردرد بھی۔ اس کے علاوہ امراض قلب،فالج، جلد کے امراض، دمہ اور جوڑوں کا درد بھی لاحق ہوتاہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ ان مسائل کا تعلق بھی ماحولیاتی آلودگی سے ہی ہے۔ صحت کے یہ سارے مسائل اب اس قدر عام ہوچکے ہیں کہ اس گائوں والے انھیں اپنی قسمت کا حصہ سمجھتے ہیں۔ بانجھ پن کا مسئلہ بھی عام ہے، خرابی مردوں اور عورتوں ، دونوں میں پائی جاتی ہے۔نفسیاتی عوارض بھی عام ہورہے ہیں۔ ان کے سبب خاندان بکھر رہے ہیں۔

اس گاؤں کے ہرگھرانے پر ایک سے تین لاکھ روپے کا قرض ہے۔ جب یہں کی حالت زار کو دیکھاجائے اور پھر اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ کسان خودکشی کرتے ہیں ، خودکشی کا سبب قرض۔ اس گائوں میں بھی گزشتہ بیس برسوں کے دوران 10کسان خودکشی کرچکے ہیں۔ بہت سی ایسے کسان ہیں جو قرض چکاتے ہوئے اپنی ساری زمین فروخت کرچکے ہیں اور اب کھیتی باڑی نہیں کرتے۔کبھی وہ اپنی زمینوں پر کام کرتے تھے لیکن اب وہ وڈیرے کی زمینوں پر کام کرتے ہیں۔

بھارت میں ہرحکومت ہرقیمت پر’’سبز انقلاب‘‘ لانے پر تلی ہوئی ہے، اس کے لئے وہ کسانوں کو کھادیں اور کیڑے مار ادویات فراہم کررہی ہے۔ بظاہر ان کا مقصد ہوتاہے فصلوں کی زیادہ پیداوار اور ان کی حفاظت لیکن یہی چیزیں اس وقت بھارتی دیہاتوں کے باسیوں کے لئے مہلک بن چکی ہیں۔ اگرچہ بٹھنڈہ، مانسا، مکتسر اور فریدکوٹ کے سینکڑوں دیہات ان مسائل سے متاثر ہورہے ہیں تاہم ججل کا حال زیادہ برا ہے۔صرف اسی ایک گاؤں میں ایک سو کے قریب ہلاکتیں۔ بھارت میں کینسر کے 70فیصد مریضوں کا تعلق پنجاب اور ہریانہ سے ہوتاہے۔بکانیر میں 2012ء میں کینسر کے7000 مریضوں کا علاج ہوا۔ یہ وہ دو ریاستیں ہیں جو گندم کی کل ملکی پیداوار کا ایک تہائی حصہ فراہم کرتی ہے۔صرف پنجاب میں 34000 لوگ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوچکے ہیں۔

ججل پر حکومتی غفلت اور اندھیرا چھایا ہواہے لیکن اس تاریکی میں جرنیل سنگھ امید کی کرن بنے ہوئے ہیں۔ وہ گائوں والوں کو کیڑے مار ادویات کے بغیر فصلیں اگانے کے لئے قائل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ نہ صرف خود ایسا کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی یہی راستہ دکھارہے ہیں۔ ان کی کوششیں بارآور ہورہی ہیں۔ اب باقی لوگ بھی اسی راستے پر گامزن ہیں۔

ججل کی یہ کہانی پڑھنے کے بعد چندلمحوں کے لئے اپنے پاکستان کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ یہاں کتنے فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے؟کیا بازاروں میں فروخت ہونے والا غذائی سامان صحت مند ہے یا زہر آلود؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہاں پھل وقت سے پکانے اور سبزیوں کا حجم بڑھانے کے لئے ضرورت سے زیادہ کیمیکلز کا استعمال ہورہاہے؟ کیا یہاں کے کسان بھی بھارتی پنجاب کے کسانوں کی طرح زیادہ فصل کے لالچ میں اپنے ہاتھوں اپنی قوم کی ہلاکت کا سامان کررہے ہیں؟افسوسناک امریہ ہے کہ مذکورہ بالا سب سوالات کے جوابات ’ ہاں‘ میں ہیں۔ پاکستان میں قوم کو ان خطرات سے بچانے کے لئے ادارے اور ان کا کافی عملہ موجود ہے لیکن وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کو تیارنہیں۔ ان اداروں کو پوری طرح فعال کی ضرورت ہے اور اس سے بھی زیادہ ضروری عوام میں شعورصحت کی سطح بلندکرنا ہے۔

سستی اور تھکاوٹ دور کرنے والی غذائیں

$
0
0

بلاشبہ توانائی انسانی جسم کی نہایت اہم ضرورت ہے مگر سارا دن کام کاج کے بعد اس میں کمی آجاتی ہے اور اسی کمی کی وجہ سے آج دنیا بھر میں کروڑوں افراد تھکاوٹ، سستی، دورانِ کام سانس کا پھولنا اور ان جیسی دیگر پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔

یہ درست ہے کہ دن بھر کام کاج سے جسمانی توانائی کم ہوجاتی ہے لیکن تھوڑی سی توجہ سے کھوئی ہوئی توانائی کو واپس حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے آپ کو مصنوعی انرجی مشروبات چھوڑنا ہوں گے اور ان کی جگہ ایسی غذائوں کو دینا ہوگی،جن کے استعمال کے بعد آپ دن بھر توانا اور تروتازہ رہیں گے۔ تویہاں ہم آپ کو چند ایسی غذائوں کے بارے میں ہی بتانے جا رہے ہیں، جو آپ کو دن بھر چست و توانا رکھ سکتی ہیں۔

توانائی سے بھرپورغذائیں: ایسی غذائوں کا استعمال کریں جو مختلف پروٹینز اور ریشوں سے بھرپور ہوں، یعنی توانائی کے حصول کے لئے گولیاں کھانے کے بجائے تازہ پھل اور سبزیاں کھائیں۔

تربوز: 2012ء میں نیوٹریشن سٹڈی نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ڈی ہائیڈریشن (پانی کی کمی) جسمانی توانائی کو چوس جاتی ہے، لہذا اس قسم کے مسئلہ سے بچنے کے لئے تربوز کا استعمال کیا جائے، کیوں کہ اس میں 90 فیصد پانی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تربوز مختلف اقسام کے وٹامنز اور منرلز سے بھی بھرپور ہوتا ہے۔

دہی: دہی کا استعمال نظام انہضام کو بہتر بنا کر خوراک کو جزو بدن بنانے کے عمل کو فعال کر دیتا ہے، جس سے جسم کو توانائی حاصل ہوتی ہے۔

پنیر: 2011ء میں کیمبرج یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پروٹین سے بھرپور غذائیں آپ کو زیادہ دیر تک چست و توانا رکھ سکتی ہیں۔ لیکن انڈے، دودھ اور دہی کے علاوہ ناشتہ میں پروٹین کا حصول تھوڑا مشکل کام ہے، تو یہاں پھر آپ پنیر کے ذریعے زیادہ مقدار میں پروٹین حاصل کر سکتے ہیں۔ بھیڑ، بکری اور گائے کے دودھ سے بنی پنیر کے دو چمچ میں 4گرام پروٹین، 40کیلوریزاور 21/2گرام فیٹ موجود ہوتا ہے۔

اخروٹ: اخروٹ میلاٹونین نامی ہارمون پیدا کرنے میں نہایت معاون ہے۔ یہ ہارمون ہمارا جسم قدرتی طور پر غروب آفتاب کے بعد پیدا کرنا شروع کرتا ہے۔ میلاٹونین نامی ہارمون نیند لینے کے لئے ضروری ہے اور جب آپ اچھی طرح نیند لیتے ہیں تو جسمانی توانائی پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور آپ اچھے طریقے سے سارا دن اپنے کام سرانجام دے پاتے ہیں۔

کافی: مختلف تحقیقات کے مطابق کافی پینے سے ڈپریشن کے خطرات میں کمی ہوتی ہے اور ڈپریشن توانائی کے اخراج کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔

سبز چائے: اگر آپ کافی نہیں پیتے تو سبز چائے ضرور استعمال کریں، کیوں کہ یہ ایل تھینینو نامی ایمنوایسڈ سے بھرپور ہوتی ہے، جو کسی بھی بیماری کی صورت میں توانائی کے ضیاع کو روکتا ہے۔

ان کے علاوہ توانائی کے حصول کے برائون رائس (چاول)، مسور کی دال اور دلیہ میں دودھ شامل کرکے استعمال کرنا بھی نہایت مفید ہے۔

احادیث اور قرآن کی موبائل ایپلی کیشنز

$
0
0

زاہد حسین کا نام 2011 میں اس وقت منظر عام پر آیا جب انہوں نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں سرچ قرآن سافٹ ویئر پیش کیا، جسے دنیا بھر میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔

زاہد حسین نے عالم اسلام کے لیے ایک ایسا کارنامہ سر انجام دیا جسے جتنا بھی سراہا جائے کم ہے۔ قرآن و حدیث پر مزید کام کرتے ہوئے انہوں نے فرقہ واریت کے خاتمے اور مذہبی ہم آہنگی کے لیے احادیث پر مشتمل تمام مکاتب فکر کی کتابوں کو موبائل فون ایپلی کیشن کی شکل میں ڈھا ل دیا ہے۔ گذشتہ دنوں زاہدحسین نے ایک ملاقات میں اپنے حالات زندگی اور مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں گفت گو کی جسے قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

زاہد حسین کی جائے پیدائش حیدرآباد ہے، انہوں نے اے آر بنات ہائی اسکول سے 1995 میں میٹرک کیا ۔اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز1996میں ٹھیلے پر پھلوں کی فروخت سے کیا۔ کچھ عرصے بعد سبزی منڈی ہی کے ایک آڑھتی جاوید احمد اینڈ سنز کے یہاںنوکری کرلی۔ زندگی میں تبدیلی کا آغاز1998میں اس وقت ہوا جب مالکان نے دیگر ملازمین کے ساتھ اُنہیں بھی کمپیوٹر سکھانے کے لیے ایک انسٹی ٹیوٹ میں داخل کرادیا۔ اس شارٹ کورس نے زاہد حسین کے دل میں کمپیوٹر کی دنیا سے متعلق دل چسپی کو اور بڑھا دیا۔ انہوں نے کمپیوٹر کے مزید کورسز کرنے کے لیے اپنے مالکان سے درخواست کی۔

تعلیم میں اُن کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے مالک نے انہیں اپنے خرچ پر کمپیوٹر کی تعلیم دلوانا شروع کردی۔ اُس وقت زاہد حسین کی تن خواہ محض 15سو روپے تھی۔ زاہد حسین نے 2001میں کمپیوٹر کے مشہور بین الاقوامی تعلیمی ادارےAptech  میں اسکالر شپ حاصل کی۔ انہوں نے کمپیوٹر کا تین سالہ ڈپلوما ACCP (ایپٹیک سرٹیفائیڈ کمپیوٹر پروفیشنل) حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سندھ یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں MBA کی ڈگری بھی حاصل کرلی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد زاہدحسین نے مختلف تعلیمی اداروں میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور کچھ عرصے بعد انہیں Aptech میں ہی بہ طورفیکلٹی ممبر نوکری پر رکھ لیا گیا۔ اُن کی محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے دو سال کے عرصے ہی میں سینٹر اکیڈمک ہیڈ بنا دیا گیا۔

زاہد حسین کے دل میں بچپن ہی سے کچھ کر دکھانے کی خواہش موجود تھی اور فکر معاش سے تھوڑی بے فکری نے انہیں دین اسلام کے حوالے سے کوئی نمایاں کارنامہ سر انجام کرنے کی جانب مائل کیا۔ انہیں دنوں زاہد حسین نے برطانیہ کے جمال الناصرکے قرآنک سرچ انجن  ’’Divine Islam‘‘ کو دیکھا تاہم اُس میں اُردو زبان تصویری شکل (JPEG) میں تھی۔’’Divine Islam‘‘میں موجود اس کمی کو دیکھ کر اُن کے دل میں اُردو میں اسی نوعیت کا سافٹ ویئر بنانے کا خیال آیا جسے انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے ’’سرچ قرآن‘‘  کے نام سے عوام کے سامنے پیش کیا۔ جس کے ذریعے چندہی لمحوں میں کسی بھی مسئلے کے حوالے سے قرآن مجید کی تمام سورتیں سامنے آجاتی ہیں۔

زاہد حسین کا کہنا ہے کہ اس سافٹ ویئر کے بارے میں جان کر میری تشنگی اور بڑھ گئی تھی۔ ایک دن عشاء کی نماز کے بعد مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں پہلے قرآن مجید کا رومن اُردو (اُردو کو انگریزی رسم الخط میں لکھنا) میں ترجمہ کروں۔ 2007 میں انہوں نے اس کام کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے اُردو ترجمے والے قرآن مجید کو رومن اُردو میں ٹائپ کیا۔ قرآن مجید کے 1750صفحات کو رومن اُردو میں ٹائپ کرنے میں تقریباً دس ماہ کا عرصہ لگا۔ اس عرصے میں زاہد حسین کی ہمت کئی بار ٹوٹی، لیکن اگلے ہی لمحے انہوں نے پھر ایک نئے عزم کے ساتھ کام کا آغاز کردیا۔

زاہد حسین کا کہنا ہے کہ رومن اُردو میں ٹائپ کرنے کے بعد دوسرا مسئلہ ٹائپ کیے گئے مواد کو سافٹ ویئر میں ڈھالنے کا تھا، جس کے لیے میں نے dot.netکو منتخب کیا۔ ڈیٹا بیس ڈیزائنگ اور ڈیولپمنٹ  کے جاں گسل کام کے لیے مجھے کچھ دوستوں کی تیکنیکی معاونت بھی حاصل رہی۔ 2008 میں جب انہوں نے رومن اُردو میں ’’سرچ قرآن‘‘،’’سافٹ ویئر‘‘ پیش کیا تو کچھ لوگوں کی جانب سے اسے بہت زیادہ سراہا گیا تو کچھ لوگوں نے  یہ کہہ کر بے انتہا تنقید کی کہ ’’آپ نے صرف ٹائپ ہی تو کیا اس میں خاص بات کیا ہے۔‘‘

ان سب باتوں نے زاہد حسین کی بہت حوصلہ شکنی کی لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی انہوں نے ایک نئے عزم کے ساتھ اسے اُردو میں متعارف کروانے کا عزم کیا اور ڈیٹا بیس بنانے کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کی ایک ایک آیت کو یونی کوڈ میں تبدیل کیا۔ یونی کوڈ پر کام کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ اب ہم اُن آیات کو سرچ کر سکتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں عربی کی ایک ایک آیات کو یونی کوڈ پر منتقل کیا۔ اس کام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ  آیت کے ’’زیر‘‘، زبر‘‘، ’’پیش ‘‘ اور اعراب کو بھی سرچ کیا جا سکتا ہے۔

انگریزی کے ترجمے کے لیے زاہد حسین نے ’’صحیح انٹرنیشنل‘‘ کا قرآن مجید لیا۔ جس کا انگریزی ترجمہ ڈاکٹر ذاکر نائیک، ڈاکٹر جمال بداوی اور عبدالرحیم کی جانب سے مصدقہ ہے۔ اُردو ترجمے کے لیے انہوں نے انڈیا سے تعلق رکھنے والے محمد جونا گڑھی مرحوم کے ترجمہ شدہ قرآن مجید کا انتخاب کیا جس کا اہم سبب یہ تھا کہ حج کے بعد شاہ فہد پریس کی جانب سے اُن کا اُردو ترجمے والا قرآن مجید ہی عازمین حج کو دیا جاتا ہے۔ رومن اُردو، انگریزی، عربی زبان میں ’’سرچ قرآن‘‘ سافٹ ویئر بنانے میں انہیں چار سال کا عرصہ لگا۔

زاہد حسین کا کہنا ہے،’’میڈیا کے ذریعے میرے کام کو عوام کے سامنے لانے کا سہرا ڈاکٹر عامر لیاقت کے سر جاتا ہے، جنہوں نے مجھے اپنے پروگرام میں مدعو کیا اور میرے سافٹ ویئر کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اس پروگرام کو دیکھ کر دنیا بھر کے لوگوں نے مجھے بہت سراہا۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ یہ سافٹ ویئر صرف میری ذات کے لیے نہیں بل کہ پورے عالم اسلام کے لیے باعث فخر ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کو بہ آسانی سمجھنے میں اہم ہوگا۔ آج الحمدللہ اس سافٹ ویئر کو اسرائیل سمیت دنیا کے 177ممالک میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ گذشتہ تین سال میں ایک ہفتہ بھی ایسا نہیں گزرا جب اس سافٹ ویئر کو ڈائون لوڈ نہ کیا گیا ہو۔‘‘

قرآن مجید پر کام کرنے کے بعد زاہد حسین نے احادیث پر بھی ایک سرچ انجن ڈیزائن کیا، جس میں انہوں نے صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابو دائود، سنن نسائی اور سنن ابوماجہ کو ایک ساتھ جمع کردیا، جس میں آپ زندگی کے ہر مسئلے سے متعلق احادیث تلاش کر سکتے ہیں۔ اس کام کو مکمل کرنے کے بعد انہوں نے موبائل پر اس سافٹ ویئر اور ایپلی کیشن بنانے کے کام کا آغاز کیا۔ 2012 میں ایک موبائل فون کمپنی کے لیے ’’سرچ قرآن‘‘ سافٹ ویئر بنایا جو اب تک 5لاکھ نوے ہزار موبائل فون پر ڈائون لوڈ ہو چکا ہے۔ آئی فون کے لیے ’’سرچ قرآن‘‘ ایپلی کیشن بنائی تاہم غیراخلاقی اشتہارات سے بچنے کے لیے اس ایپلی کیشن کی قیمت 2ڈالر 99 سینٹ رکھی گئی ہے۔

اس کے بعد انہوں نے اینڈرائیڈ کے لیے ’’سرچ قرآن‘‘ کے نام سے ایپلی کیشن بنائی اور گوگل کے مطابق اُردو اور رومن اُردو میں احادیث اور قرآن مجید کا اس طرح کا ترجمہ کرنے والی موبائل فون ایپلی کیشن اور سافٹ ویئر بنانے کا اعزاز اب تک زاہد حسین کے پاس ہی ہے۔ اس کام میں درپیش مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے زاہد حسین کا کہنا ہے،’’اینڈرائیڈ ایپلی کیشن ڈیزائن کرنے میں سب سے زیادہ اہم کردار اسلام آباد کے حاجی سیف اﷲ صاحب کا رہا کیوں کہ اس ایپلی کیشن کی ڈیویلپمنٹ اور ہوسٹنگ میں تقریباً 23لاکھ روپے خرچ ہوئے، جو حاجی سیف اﷲ نے ادا کیے۔

اور اب آپ ’’سرچ قرآن‘‘ ایپلی کیشن کو گوگل اسٹور سے بلامعاوضہ ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔ موبائل فون ایپلی کیشن بنانے کاسبب زاہدحسین نے یوں بتایا کہ اسمارٹ فون کے صارفین میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے اور اس نئی نسل کے ذہن میں مذہب کے حوالے سے بہت سارے سوالات ہیں لہذا اب وہ اپنے اسمارٹ فون کی مدد سے کسی بھی قسم کے مسئلے میں قرآن و حدیث سے راہ نمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ موبائل ایپلی کیشنز میں اہل تشیع، اہل سنت، اہل حدیث، دیوبندی اور بریلوی مکتبئہ فکر کے لحاظ سے تراجم شامل ہیں۔

زاہد حسین کا کہنا ہے کہ تمام مکاتب فکر کے تراجم کو ایک ہی ایپلی کیشن میں رکھنے کا سب سے اہم مقصد فرقہ واریت میں کمی لانا ہے، کیوںکہ ہم اپنے مکتبۂ فکر کے بعد کسی دوسرے مسلک کو جگہ نہیں دیتے، جس کی وجہ سے ہم اپنے ہی مسلک کے خول میں قید رہتے ہیں۔ اس اینڈرائیڈ ایپلی کیشن کو ڈائون لوڈ کرکے آپ نہ صرف اپنے بل کہ دوسرے مکتبۂ فکر کے ترجمے کو بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم دوسرے مکتبۂ فکر کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، میں انتہائی معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ ہمارے معاشرے میں ایک مکتبۂ فکر کا دوسرے مکتبۂ فکر کے بارے میں 90 فی صد پروپیگنڈا ہے۔

ہم اسی پروپیگنڈے کو سچ مان کر انتہا پسند ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم نے کبھی کسی دوسرے مکتبۂ فکر کے بارے میں جاننے، پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے گذشتہ سات سال میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تمام مکاتب فکر کی تعلیمات (تراجم ) میں صرف دس فی صد فرق ہے۔ باقی نوے فی صد ایک ہی بات پر متفق ہیں۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ اس ایپلی کیشن کو ڈائون لوڈ کریں، دوسرے مسلک کے بارے میں پڑھیں اور یقیناً اس سے فرقہ واریت میں نمایاں کمی ہوگی۔

موبائل ایپلی کیشن ڈیویلپ کرنے کے بعد زاہد حسین کو قاری کی آواز میں تلاوت یا ترجمہ سننے کی تشنگی محسوس ہوئی۔ اس کام کے لیے انہوں نے ایک ایک آیات کو بریک کیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ اب آپ تلاش کی گئی کسی بھی آیت کو عربی یا اُردو لہجے میں سن سکتے ہیں۔ آج قرآن و حدیث کی 65جلدوں کا کام آ پ کے ایک چھوٹے سے موبائل فون میں آجاتا ہے، جس میں قرآن مجید کے چھے اور احادیث کے 59 تراجم شامل ہیں۔

زاہد حسین نے بتایا کہ حال ہی میںایک موبائل فون کمپنی کے لیے ’’اسلامک پورٹل‘‘ کے نام سے ایک اور سافٹ ویئر ڈیزائن کیا ہے۔ الحمداللہ دنیا بھر میں اس کے علاوہ موبائل پر کوئی اور اسلامک پورٹل موجود نہیں ہے۔ اس پورٹل میں انہوں نے احادیث کی تمام کتابوں کوبھی جمع کردیا ہے۔ اس کے علاوہ نماز، روزہ، حج و عمرہ، نماز جنازہ، مسنون دعائیں ترجمے اور تلاوت کے ساتھ موجود ہیں۔ زاہد حسین کو مفتی تقی عثمانی صاحب کی آسان قرآن، نوبل قرآن کی کمپیوٹر اور موبائل ایپلی کیشن اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پیس موبائل کے لیے ایپلی کیشن ڈیویلپ کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور اس نیک کام کے لیے انہوں نے اپنی خدمات بلامعاوضہ پیش کی تھیں۔

قرآن مجید اور احادیث کا سرچ انجن بنانے کا مقصد بیان کرتے ہوئے زاہد حسین نے کہا،’’جب آپ کوئی آیت یا حدیث تلاش کرنا چاہتے ہیں تو یہ ایک انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر میں اپنے بیٹے سے کہتا ہوں کہ ’’بیٹا جھوٹ بولنا بری بات ہے اور اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے۔۔۔۔‘‘آج کل کے بچے بہت ذہین ہیں وہ فوراً پوچھتے ہیں کہ دکھائیں کہاں لکھا ہے۔ جب آپ جھوٹ سے متعلق آیت یا حدیث کو تلاش کرنے کے لیے قاری صاحب کو فون کرتے ہیں تو وہ بھی ایک گھنٹے کا وقت مانگتے ہیں، لیکن اب ’’سرچ قرآن‘‘،’’سافٹ ویئر اور موبائل ایپلی کیشن کی مدد سے آپ انگریزی میں ’’Lie ‘‘ اردو اور رومن اردو میں ’’جھوٹ‘‘ لکھ کر سرچ کریں تو چند ہی لمحوں میں جھوٹ سے متعلق ساری آیات آپ کے کمپیوٹر یا اسمارٹ فون کی اسکرین پر ظاہر ہو جاتی ہیں۔‘‘

زاہد حسین کا ذریعہ معاش تدریس ہے وہ گذشتہ سات سال سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو انفارمیشن ٹیکنالوجی پڑھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان کی مختلف یونیورسٹیزسافٹ ویئر اور ایپلی کیشن بنانی والی بڑی کمپنیوں کے لیے سافٹ ویئر ڈیزائننگ اور کنسلٹینٹسی بھی فراہم کرتے ہیں۔

زاہد حسین آج کل voice recognition (انسانی آواز کا تجزیہ کرنا) پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا سافٹ  ویئر ہے جو آپ کی آواز کو شناخت کرے گا۔ مثال کے طور پر آپ کہتے ہیں ’’نماز‘‘ تو یہ سافٹ ویئر آپ کی آواز کو شناخت کرکے نماز سے متعلق تمام آیات آپ کو سنانا شروع کر دے گا۔ اس طرح ایک ان پڑھ آدمی بھی قرآن و حدیث سے را ہ نمائی حاصل کرسکے گا۔ اس پراجیکٹ کے لیے انہیں احادیث کو ریکارڈ کرنا پڑے گا جو کہ ایک طویل اور خطیر رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ زاہد حسین کی پاکستان اور پاکستان سے باہر تمام مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ وہ اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالیں تاکہ اس پراجیکٹ کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔

زاہد حسین کا دوسرا پروجیکٹ 104زبانوں پر مشتمل سرچ انجن تیار کرنا ہے، کیوں کہ دنیا کی 104زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ ہوچکا ہے اور اس سافٹ ویئر کے ذریعے ہر شخص اپنی زبان میں قرآن پڑھ سکے گا۔ان کا تیسرا پروجیکٹ ’’المعلم‘‘ سافٹ ویئر تیار کرنا ہے، جس کے ذریعے اگر آپ تلاوت کرتے ہوئے کہیں کوئی غلطی کرتے ہیں تو یہ سافٹ ویئر فوراً آپ کی تصحیح کردے گا۔

’’سرچ قرآن‘‘ نامی موبائل ایپلی کیشن کو مفت ڈائون لوڈ کیا جاسکتا ہے، جب کہ ایپل آئی فون کے صارفین2ڈالر 99 سینٹ میں اس ایپلی کیشن کو ڈائون لوڈ کرسکتے ہیں۔ اینڈ رائیڈ یوزر اپنے موبائل فون سے Play store  میں جاکر Zahid Hussain لکھیں تو یہ قرآن اور حدیث کی ایپلی کیشن حاصل کرسکتے ہیں ، آئی فون / آئی پیڈ کے یوزر App Store میں جاکر Search Quran لکھیں تو یہ ایپلی کیشن وہاں سے حاصل کرسکتے ہیں جبکہ ونڈوز فون پر ڈائون لوڈ کرنے کے لیے Zahid Hussain لکھیں تو یہ ایپلی کیشن با آسانی ڈائون لوڈ کی جاسکتی ہے۔اور کمپیوٹر یوزر www.nuzool.com سے اسے مفت ڈائون لوڈ کرسکتے ہیں۔

طلبہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ’’سرچ قرآن‘‘ سے مطلوبہ آیات کو ایم ایس ورڈ میں کاپی کرکے بہ آسانی اپنے نوٹس اور درس بھی تیار کرسکتے ہیں۔ کسی بھی سورت پر کلک کیا جائے تو اس سورت کی تمام آیات بالترتیب ترجمے کے ساتھ ایک بڑے باکس میں نمودار ہوجاتی ہیں۔ اسی باکس کی مینو بار میں چاروں زبانوں کے آپشنز بٹن کی صورت میں دیے گئے ہیں۔ اس مینو بار میں رومن اردو کے سامنے ’’R‘‘ لکھا گیا ہے، چوںکہ مطلوبہ سورت پر کلک کرتے ہی تمام آیات تینوں زبانوں کے تراجم کے ساتھ نمودار ہوجاتی ہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص صرف اردو زبان ہی میں ترجمہ دیکھنا چاہتا ہے تو لینگویج آپشنز میں رومن اردو اور انگلش کے سامنے چیک لگاکر اسکرین پر سے دیگر زبانوں کا ترجمہ غائب کرسکتا ہے۔ تمام آیات کے سامنے ان کا اور پارے کا نمبر درج ہوتا ہے۔

رومن اردو اور انگلش میں مطلوبہ لفظ ٹائپ کرکے فوراً یہ پتا لگایا جاسکتا ہے کہ یہ لفظ ایک پارے میں یا پورے پارے میں کتنی مرتبہ اور کہاں کہاں آیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص یہ جاننا چاہتا ہے کہ پہلے پارے میں ’’نماز‘‘ کا ذکر کتنی مرتبہ اور کس کس مقام پر آیا ہے تو وہ یہ لفظ باکس میں تینوں زبانوں میں سے کسی ایک میں ٹائپ کرنے کے بعد Findپر کلک کردے۔ تاہم کسی بھی زبان میں ٹائپ کرنے سے قبل باکس کے سامنے دیے گئے تینوں زبانوں کے آپشنز میں مطلوبہ زبان کے سامنے چیک لگانا ہوگا۔ اسی طرح صبر، جھوٹ اور سود وغیرہ کے بارے میں جاننے کے لیے بھی Findآپشن کے ذریعے انھیں سرچ کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ آپشن کے ذریعے مطلوبہ عربی الفاظ کو بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔

دوکہانیاں، کئی سبق

$
0
0

ایک معروف مغربی ماہنامہ کامطالعہ کرتے ہوئے اس کی دوکہانیاں میری نظر سے گزریں۔

پہلی کہانی ایک فلپائنی لڑکی نے لکھی، جس میں وہ اپنے والدکا احوال سناتی ہے، کیسے انھوں نے سخت مشکلات کے درمیان اپنے لئے بڑی کامیابیوں کا راستہ نکالا۔ لڑکی کی زبانی اس کے والد کی حوصلہ وہمت بڑھانے والی کہانی پڑھیے:

’’روشنی کہاں ہے؟‘‘

جب میں چھوٹی تھی تب میرے والد مجھ سے یہ سوال پوچھا کرتے تھے۔ یہ سوال اْن سوالوں میں سے ایک ہے جو اکثر والدین اپنے بچوں کی ذہانت جانچنے کے لیے پوچھتے ہیں۔میرے والد نے مذاق کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ نوعمری میں جب بھی انہوں نے مجھ سے یہ سوال کیا تو میں جواب میں انہی کی طرف اشارہ کردیتی تھی جس سے وہ مجھے ناسمجھ تصور کرتے۔ میں خودکو ’’ڈیڈی کی بچی ‘‘ قسم کی لڑکی سمجھتی ہوں۔ میرے والد نے کبھی مجھے مایوس نہیں کیا بلکہ وہ میرے لیے اچھی چیزیں خریدتے مثلاً میری سالگرہ کے لیے گڑیا اور جوتے ۔

میں اب 28سال کی ہوں، فلپائن کے شہر بیگوز (Baguis) میں اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہوں۔اپنے والد کے مصروف شیڈول کے باوجود ہم ایک دوسرے کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت نکال لیتے ہیں۔ کبھی کسی کافی شاپ میں چلے جاتے ہیں اور اخبار پڑھتے ہیں، کسی مال میں چہل قدمی کرتے ہیں، فلمیں دیکھتے ہیں یا پھر اپنے وطن کے دوسرے حصوں کی سیرکونکل جاتے ہیں۔ میری عمر کے زیادہ تر لوگ خاندان کی بجائے دوستوں کے ساتھ باہر جانا پسند کریں گے لیکن میرے خاندان کے معاملات کچھ انوکھے ہیں۔

یہاں فلپائن میں خاندان زیادہ تر بڑے ہیں۔ بعض خاندان ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی تعداد میں جتنا بھی اضافہ ہو، وہ ایک ساتھ ہی رہتے ہیں۔ اس کے برعکس میرا خاندان چھوٹا ہے۔ میری ایک پیاری اور خیال رکھنے والی ماں ہے۔ ایک فیاض کھلنڈرا بڑا بھائی اور ہمیشہ ہماری بہتری چاہنے والا رہنما باپ۔ انہوں نے میرے بھائی اور میرے ساتھ ہمیشہ ایک دیانت دار زندگی گزارنے والی اقدار شیئر کی ہیں کہ کس طرح خود کو مسلسل تعلیم یافتہ بنانا ہے اور دعا کرتے ہوئے پر امید رہنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دو باتیں ضروری ہیں ہر اس چیز کو حاصل کرنے کے لیے جس کا ہم پیچھا کرتے ہیں۔

میرے والد نے ایسے باہم مربوط خاندان میں پرورش نہیں پائی جیسا کہ ہم مربوط ہیں۔ میرے والد کا تعلق لایونین سے ہے جو دارالحکومت منیلا کے شمال میں 230کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک دیہاتی علاقہ ہے۔ جہاں زیادہ تر لوگ کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ مرغیاں اور مویشی پالتے اور پھر انھیں بیچتے ہیں۔ ان کے والد ایک فنکار تھے اور گلیوں میں کرتب دکھاتے تھے۔ میرے والد ابھی بہت چھوٹے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ گھرکا خرچہ چلانے کے لیے ان کی والدہ مقامی آبادی میں لوگوں کے گھروں میں کپڑے دھونے لگیں۔

میرے والد کی دو بڑی بہنوں اور ایک بھائی کی نو عمری میں ہی شادی ہوگئی اور وہ اپنے گھروں کو فوقیت دینے لگے۔ ایک دوسرا بڑا بھائی کام کی تلاش میں منیلا رخصت ہوگیا۔ کام سے فراغت کے بعد ان کی والدہ زیادہ تر وقت مارکیٹ میں اپنے دوستوں کے ساتھ گزارتیں۔ میرے والد خود کو تنہا محسوس کرتے۔ انہوں نے بچوں کی تربیت سے متعلق احساس، محبت سے عاری، خاندانی قربتوں سے خالی اور خوشیوں سے محروم بچپن گزارا۔ نظر انداز کیے جانے کے احساس کے ساتھ وہ بنیادی ضروریات کے بغیر زندگی گزارتے رہے۔ جب وہ پرائمری سکول میں تھے تو ان کی ماں ان کے لیے نئے جوتے خریدنے کی سکت نہ رکھتی تھی لہٰذا وہ ننگے پاؤں سکول جاتے جبکہ چپل ان کے ہاتھ میں ہوتی اس ڈر سے کہ کہیں پھٹ نہ جائے۔

میرے والد سیلف میڈ شخصیت ہیں۔ ان کی زندگی میں بہت سی مشکلات آئیں لیکن بہتر طرز زندگی کے خواب کا پیچھا کرتے انھوں نے سفر جاری رکھا۔ چودہ سال کی عمر میں ’اپنی مدد آپ‘ کے تحت انہوں نے اپنے ہائی سکول ہی میں جمعداری کا کام شروع کردیا۔ اپنی ضرورتوں اور محرومیوںکے باوجود انہوں نے ہائی سکول سے گریجویٹ کیا اور کلاس میں اول آئے۔

والد کو مطالعے سے پیار تھا، وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ڈھونڈھتے رہتے۔ ایک دفعہ جب میرے والد 16 سال کے تھے،اپنے معمول کے کام سے فارغ ہوئے تو ایک پادری نے انھیں ایک درخت کے نیچے کتاب میں منہمک دیکھا۔ وہ والد کے پاس آیا اور پوچھا کہ وہ سکول میں کیوں نہیں ہیں؟ میرے والد نے بتایا کہ ان کے پاس کالج میں داخلے کے لیے رقم نہیں ہے۔ رحمدل پادری نے جب تعلیم کے لیے ان کی دلچسپی دیکھی تو بوگیو کالجز (جوکہ اب بوگیو میں یونیورسٹی آف کارڈنیلیرز بن چکا ہے) میں بطور ورکنگ سٹوڈنٹ ان کی سفارش کردی۔ ساتھ ہی اس نے ایک مقامی چرچ میں والد کو جمعدار کی نوکری بھی دلوائی۔ والدصاحب نے بیچلرز آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی اور قانون کے مطالعے کے لیے کمر بستہ ہوگئے۔ کالج میں تعلیم کے دوران بھی وہ زندگی کی مشکلات سے لڑتے ہی رہے ۔

ایک دفعہ ان کے مالک مکان نے انھیں نکال دیا کیونکہ ان کے پاس کرایہ دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ وہ ایک ڈبے میں اپنا سامان اٹھائے گلیوں میں گھومتے رہے اور آخر کار شہر کے پارک میں پوری رات سردی میں سوکر گزارا کیا۔ اس کے بعد اپنی جگہ پرواپس پہنچنے تک انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ قیام کیا۔ تمام تر ناموافق حالات میں والدصاحب نے پوری محنت سے اپنی تعلیم جاری رکھی اور ثابت قدم رہے۔ آخر کار وہ ایک کامیاب وکیل بن گئے جو آج اپنے رفیق کاروں میں قابل احترام شخصیت جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے فلپائن کے قانون پر وسیع پیمانے پر پڑھی جانے والی نصابی کتاب لکھی۔اب وہ کالج آف لاز آف یونیورسٹی آف کاریڈنیلیرز کے ڈین ہیں۔

ان کی کامیابیوں نے مجھے بہت متاثر کیا، انھوں نے مجھے نرس بننے میں میری حوصلہ افزائی کی۔ آج میں اپنے والد کو دیکھتی ہوں تو مجھے سب یادآجاتاہے کہ وہ اپنے سارے مصائب پر قابو پانے کے قابل کیسے ہوئے تھے۔ وہ فطری طور پر ایک محنتی انسان ہیں، انھوں نے اپنے خاندان کو بھلائے بغیر اپنی تمام تر توانائیاں کیریئر بنانے میں صرف کردیں۔ وہ تعلیم سے محبت کرتے ہیں۔ جب ہم نو عمرتھے تو وہ مجھے اور میرے بھائی کو سیکھنے کے عمل کے ذریعے خود میں مسلسل بہتری پیدا کرنے کے لیے اکساتے۔

سب سے اہم یہ ہے کہ میرے والد نے ہمیں وہ زندگی مہیا کی جو وہ اپنے بچپن میں حاصل نہ کرسکے تھے۔ وہ مختلف طریقوں سے اپنی محبت کا اظہار کرتے اور ہمیں سہارا دیتے رہے۔ وہ تسلسل کے ساتھ ہمارے اساتذہ سے ملتے رہے،میں جن گائیکی کے مقابلوں اور کورل کانسرٹزمیں حصہ لیتی ، وہ ضرور شریک ہوتے۔ انہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو کالج میں داخل کرایا اور کیریئر کے انتخاب کے سلسلے میںبھی ہماری رہنمائی کی۔ وہ حوصلہ وہمت بڑھانے والی باتیں کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کسی بھی مقصد کے حصول میں دعا کلیدی کردار اداکرتی ہے۔

وہ روشنی کی طرح پورے وقار اور عزت سے چمکتے ہیں۔ محبت اور یقین کی بنیاد پر ہمارے خاندان کو یکجا رکھنے کے لیے ان کی روشنی اپنی پوری چمک کے ساتھ پھیلتی ہے۔

اکثر اوقات جب میرے والد شرارتی موڈ میں ہوتے ہیں اور میرے بچپن کے نک نیم کو استعمال کرتے ہوئے مجھ سے پوچھتے ہیں:’’ ساسی! روشنی کہاں ہے؟‘‘

میں مسکراتی ہوں اور انہی کی طرف اشارہ کرتی ہوں۔

٭٭٭

دوسری کہانی ایک مسلمان ڈاکٹرمحمد فیروز بن عبداللہ کی ہے، وہ بتاتے ہیں کہ بعض اوقات ایک ڈاکٹر اپنے مریض کو کیا بہترین تحفہ دے سکتاہے۔

’’ انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں گڈجا ماڈا (Gadjah Mada) یونیورسٹی میں پہلے سات سمسٹرز کے دوران بطور میڈیکل طالب علم میں نے اپنا زیادہ وقت پڑھنے میں اور صرف کلاس رومز تک محدود رہنے میں گزارا۔ شاذو نادر ہی ایسا ہوا کہ میں نے ہسپتال میں کسی مریض سے بات کی ہوگی۔ پھر آخری سال کے دوران میں نے ڈاکٹر سارجیٹو ہسپتال کے نیورولوجی وارڈ میں جانا شروع کردیا۔ میں اپنے مقالے کے لیے مواد اکٹھا کررہا تھا۔ جس کا عنوان تھا:’’ نگلی جانے والی مانعِ حمل ادویات کا اسکیمک فالج میں بطور رسک فیکٹر تنقیدی جائزہ‘‘۔

فالج کی یہ قسم سب سے عام ہے اور یہ دماغ کو خون فراہم کرنے والی آرٹری میں کسی قسم کی رکاوٹ کا سبب ہوتا ہے لہٰذا میرا کام ہسپتال میں نئے داخل ہونے والے فالج کے مریضوں کے میڈیکل ریکارڈز کا دوبارہ جائزہ لینا تھا۔ اس کے بعد ان مریضوں سے پوچھ گچھ کرنا کہ آیا وہ مانع حمل کی گولی کھاتے رہے ہیں؟ یہ ایک سست عمل تھا۔

پچھلے اکتوبر کی ایک ٹھنڈی اور بارش میں بھیگی شام، میں نیورولوجی وارڈ میں اپنے مطالعے کی تکمیل کے لیے درکار آخری تین مریضوں کو تلاش کررہاتھا۔ ریکارڈز بتا رہے تھے کہ ایک 43سالہ فالج کی مریضہ وارڈ میں موجود تھی جسے میں نے مسز اے (A) کہہ کے مخاطب کرنا تھا۔ مریض کا سوالنامہ ہاتھ میں تھامے میں اس کے کمرے میں چلا گیا۔ وارڈ خالی تھا۔ میں نے کسی ڈاکٹر یا نرس کو وہاں نہ دیکھا۔مسز اے کا کمرہ مدھم روشنی میں ڈوبا ہواتھا اور اس میں کل آٹھ بیڈ تھے۔ میں کھڑکی کے اس پار گہرے بادلوں اور بارش کی گرتی زور دار بوندوں کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ ٹھنڈی ہوا ہسپتال کی مخصوص بو سے اٹی ہوئی تھی۔ مسز اے بیڈ نمبر 4B پردراز تھی۔ وہ اپنے حالیہ فالج کے دورے سے صحت پانے کی تگ و دو کے سبب نحیف دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے ساتھ کوئی دوست یا رشتے دار نہیں تھا حتیٰ کہ اس کے ساتھ والا بیڈ بھی خالی تھا۔

میں اس کے بیڈ کے ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ گیا اور دھیمی آواز میں اپنا تعارف کراتے ہوئے اس کی خیریت دریافت کی۔ اس نے دھیمی آواز میں بتایا کہ وہ صحت یاب ہورہی ہے مگر اس کے جسم کا بایاں حصہ اب بھی کمزور ہے۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں کچھ اضافی معلومات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں تو وہ راضی ہوگئی۔ سوالنامہ سادہ سے تین ’ہاں‘ یا ’ناں‘ کے سوالات پر مشتمل تھا۔ جب میں نے اپنا کام مکمل کرلیا تو میں رخصت ہونے کی تیاری کرنے لگا تاکہ مزید میڈیکل ریکارڈ کا مطالعہ کرسکوں۔ اس سے پہلے کہ میں اٹھتا مسز اے اپنی کمزور آواز میں گویا ہوئیں:’’ ڈاکٹر!میں نے تمہیں پہلے یہاں نہیں دیکھا، کیا تم نئے آئے ہو؟‘‘

’’قطعی نہیں میڈم!‘‘ میں نے جواب دیا’’ میں یہاں روزانہ نہیں آتا‘‘۔

پھر اس نے گفتگو شروع کردی اور پوچھنے لگی کہ میرا تعلق کہاں سے ہے اور میں شام کو اتنی دیر تک کام کیوں کررہا ہوں؟ مجھے حیرت ہوئی کہ کوئی اس حالت میں بھی باتیں کرنے کا خواہش مندہوسکتاہے۔

’’ ڈاکٹر! تمہارا کیا خیال ہے، میں دوبارہ اپنی نارمل زندگی حاصل کرسکتی ہوں؟‘‘ مسز اے نے ایک لمحہ ٹھہرکرسوال کیا۔ میں نے بھی ایک لمحہ سوچا کاش! میں تمہارا ڈاکٹر ہوتا تو تمہارے سوال کا مناسب جواب دے سکتا۔ پھرمیں نے کہا:’’میں آپ کے کیس کے متعلق زیادہ معلومات نہیں رکھتا‘‘۔ میں اسے صرف وہی بتاسکا جو میں نے فالج کے مریضوں کی صحت سے متعلق پڑھ رکھا تھا۔ صحت کی بحالی کے لیے درکار وقت کا انحصار براہ راست فالج کے حملے کی شدت پر ہوتاہے۔ میں زیادہ تفصیل میں جانے سے ہچکچا رہا تھا کیونکہ میں محض میڈیکل کا طالب علم تھا۔ پھرمسز اے نے اپنے متعلق باتیں کرنا شروع کردیں۔

اس نے بتایا’’ اس کے تین بچے پرائمری سکول میں تھے جو اب ایک ہمسائے کے ہاں رہ رہے تھے۔ میرے شوہر کا ایک سال پہلے انتقال ہوگیا تھا اور اب میں اپنے گھرانے کی واحد کفیل ہوں۔ ہم امیر نہیں ہیں اور بطور سویپر میری تنخواہ میرے اور میرے بچوں کے لیے مشکل سے پوری ہوتی ہے‘‘۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا بولوں۔

اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے میں نے چند سال پہلے کمیونیکیشن کی مہارتوں سے متعلق پڑھے ہوئے اسباق کو یاد کرنے کی بھر پور کوشش کی مگر میرا دماغ خالی نکلا۔ اسے مزید توجہ نہ دے سکنے پر میں نے خود کو کوسا۔ غیر ارادی طور پر میں نے مسز اے کا ہاتھ پکڑلیا۔ کیونکہ میرے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ جب تک وہ بولتی رہی میں خاموشی سے بیٹھا سنتا رہا۔ اسی وقت مجھے اس بات کا ادراک ہوا کہ اسے مجھ سے کسی قسم کے جواب کی تمنا نہیں تھی۔ وہ مجھ سے صرف اتنا چاہتی تھی کہ میں اسے سنتا رہوں۔

گفتگو تقریباً بیس منٹ تک چلتی رہی۔ اس نے اپنی مشکلات اور مسائل کے متعلق بتایا۔ اپنے شوہر کی باتیں کیں جو ایک کار حادثے میں جاں بحق ہوگیا تھا اور پھر پیسہ کمانے کے لیے اپنی کوششوں کا ذکر کیا۔ اس نے اپنے اس خوف کا اظہار بھی کیا کہ اگر اس کے ساتھ کچھ ایسا ویسا ہوگیا تو اس کے بچوں کا کیا ہوگا۔ اس دوران میں نے جو کیا وہ بس اتنا تھا کہ اس سے ہمدردی کے اظہار کے لیے اپنا سر ہلاتا رہا۔ آخر کار مسز اے نے گفتگو ختم کی اور کہا ’’میں بہت معذرت خواہ ہوں کہ میں نے تمھیں اپنے مسائل سننے میں لگا لیا لیکن اب میں خود کو پرسکون محسوس کررہی ہوں، ایسا کوئی بھی نہیں ہے جس سے میں اپنے مسائل شیئر کرسکتی۔‘‘

میری آنکھ کے کونے سے ایک آنسو گرا۔ میں نے اس کے بال سہلائے اور اس کا ہاتھ تھامے رکھا۔ آخر کار میں جانتا تھا کہ مجھے اب کیا کہنا ہے۔ ’’کوئی بات نہیں مادام! یہ میرے فرائض میں شامل ہے‘‘۔

’’شکریہ ڈاکٹر… بہت زیادہ شکریہ!!!‘‘ اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔

میں اٹھ کھڑا ہوا۔ اسے کمبل اوڑھایا اور ’گڈبائے‘ کہتے ہوئے اسے اکیلا چھوڑ دیا۔

کچھ دن بعد جب میں دوبارہ وارڈ میں گیا تو مجھے پتا چلاکہ مسز اے ڈسچارج ہوچکی ہیں کیونکہ اس کی حالت میں بہت بہتری آگئی تھی۔ اگرچہ اسے مزید بحالی کی ضرورت تھی۔ مسز اے نے مجھے بہترین سبق سکھایا تھا جو ایک ڈاکٹر سیکھ سکتا ہے۔ بعض اوقات مریضوں کو مہنگی ادویات یا سٹیٹ آف آرٹ ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انہیں کسی ایسے انسان کی ضرورت ہوتی ہے جو ارادتاّ اور صبر کے ساتھ اپنے وقت میں سے کچھ وقت ان کے لیے وقف کرکے انہیں سن سکے۔ میرے نزدیک یہ بہترین عمل ہے جو ایک ڈاکٹر اپنے مریض کے ساتھ کرسکتا ہے‘‘۔


چار کروڑ پاکستانیوں کو بیت الخلاء کی سہولت میسر نہیں

$
0
0

ذرا سوچئے! چاہے آپ مہمان ہوں یا میزبان! رفع حاجت کرنا چاہتے ہیں لیکن گھر میں بیت الخلاء موجود نہیں اور نہ ہی آپ کے گھر کے باہر پبلک ٹوائلٹ یعنی عوامی بیت الخلاء کی سہولت میسر ہے تو ایسی صورت میں آپ کیا کریں گے؟

اس صورت حال کا روزانہ 4 کروڑ پاکستانیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا سادہ اور آسان حل جو ان کے پاس ہے وہ یہ کہ کھلے آسمان تلے کسی ایسی جگہ پر رفع حاجت کر لی جائے جہاں تھوڑا بہت پردہ ہو۔ ایسی جگہ کوئی کھیت، درخت یا جھاڑی کی اوٹ، نہر یا دریا کا کنارہ، ندی نالہ، جنگل، پہاڑ، خالی پلاٹ یا پھر سڑک کا کوئی کنارہ ۔۔۔ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں 1.04 ارب افراد کھلی جگہوں پر انسانی ضرورت کی تکمیل یعنی حاجت کرتے ہیں۔ پاکستان دنیا میں بھارت اور انڈونیشیا کے بعد تیسرا ایسا ملک ہے جہاں آبادی کی ایک بڑی تعداد یعنی چار کروڑافراد آج بھی کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرتے ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ پاکستان کے 15 فیصد گھروں میںبیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں ہے۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میزیرمنٹ سروے 2012-13ء کے یہ اعداد و شمار دیہی اور شہری سطح پر زیادہ تفریق کے حامل ہیں۔

سروے کے مطابق پاکستان کے شہری علاقوں کے صرف ایک فیصد گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں۔ جبکہ دیہی علاقوں کے 22 فیصد گھر بیت الخلاء کی سہولت سے محروم ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ جب دیہی علاقوں میں رہائش کے لیے مکان موجود ہیں تو ان مکانات کے بہت سے مکین اپنے گھروں میں بیت الخلاء کیوں نہیں بناتے؟ پاکستان کے طول و عرض کے دیہی علاقوں کے رہنے والوں کا اس حوالے سے کہنا ہے۔

’’مبشر 425 ای بی بورے والا پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے گائوں میں یہ ایک سماجی مسئلہ ہے کہ صبح اکثر لوگ رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ایک تو سماجی طور پر روایت چلی آرہی ہے اس کے علاوہ مالی مشکلات بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ وہ گائوں میں نکاسی آب کے صحیح نظام کے نہ ہونے کو بھی اس کی ایک اہم وجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وجہ سے فلش والی لیٹرین تو بن ہی نہیں سکتیں اور اگر سیوریج سسٹم بن جائے تو بہت بہتر طریقے سے اس کام پر عمل ہوسکتا ہے ۔‘‘

’’گائوں وڈا مہر سندھ کے رہنے والے بہادر علی کا کہنا ہے کہ وہ حاجت پوری کرنے کے لیے گھر سے باہر اس لیے جاتے ہیں کہ ان کے گائوں میں نالیاں نہیں بنی ہوئیں۔ اس لیے وہ گھر سے باہر زمین یا چھوٹے نالوں میں حاجت پوری کرنے جاتے ہیں۔‘‘

’’کامران شب قدر خیبرپختونخوا کے رہنے والے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کے گائوں میں لوگ رفع حاجت کے لیے باہر اپنے بزرگوں کی پیروی میں جاتے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ پانی کی قلت ہے کہ گھر میں بمشکل پینے کے لیے پانی مہیا ہوتا ہے اور ظاہری بات ہے کہ بیت الخلاء یا لیٹرین کے لیے پانی کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور تیسری اہم وجہ گائوں کے لوگوں کی غربت ہے جس کی وجہ سے وہ گھر میں بیت الخلاء یا لیٹرین بنانے سے قاصر ہیں۔‘‘

’’تربت بلوچستان کے گائوں ہیرونک کے رہنے والے جاوید کا کہنا ہے کہ ہمارے گائوں میں آج بھی لوگوں کی اکثریت حاجت کے لیے باہر جاتی ہے۔ کیونکہ گائوں میں مکانوں کے اندر بیت الخلاء کا رواج بہت ہی کم ہے جس کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کی اکثریت کا غریب ہونا ہے اور ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ اپنے گھروں میں بیت الخلاء تعمیر کروائیں۔‘‘

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز کے مطابق اس وقت پاکستان کی 62 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں گھروں کی نمایاں تعداد میں بیت الخلاء کے نہ ہونے کی وجہ سے کھلی جگہوں پر رفع حاجت کا عمل جاری و ساری ہے۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میزیرمنٹ سروے 2012-13 کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنے کا عمل صوبہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں ہے کیونکہ پنجاب کے 26 فیصد دیہی گھرانوں میں بیت الخلاء موجود نہیں جبکہ سندھ کے دیہی علاقوں کے 17 فیصد مکانات اس سہولت سے محروم ہیں۔

اسی طرح خیبرپختونخوا کے 16 فیصد دیہی مکانات اور بلوچستان کے 20 فیصد دیہی گھرانے بیت الخلاء نام کی چیز کا کوئی وجود نہیں رکھتے۔ اس طرح اضلاع کی سطح پر صورتحال کچھ اضلاع کے حوالے سے سنگین اور بعض کے حوالے سے بہتر ہے۔ سروے کے مطابق پاکستان کے 114 اضلاع میں سے خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے اس وقت 77 فیصد گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت کا کوئی وجود ہی نہیں۔ دوسرے نمبر پر بلوچستان کا ضلع لورالائی ہے جہاں 54 فیصد مکانات لیٹرین کی سہولت سے محروم ہیں۔ جبکہ کے پی کے کا ضلع تورغر 51 فیصد ٹوائلٹ سے محروم گھروں کے ساتھ پاکستان کے 114 اضلاع میں تیسرے نمبر پر ہے۔

بیت الخلاء کی سہولت سے محروم گھروں کے تناسب کے حوالے سے اضلاع کی درجہ بندی میں پہلے 10 محروم ترین اضلاع میں سے چار کا تعلق صوبہ پنجاب سے، تین کا بلوچستان سے، دو کا خیبر پختونخوا سے اور ایک کا سندھ سے ہے۔ اسی طرح پاکستان کے 31 اضلاع میں بیت الخلاء سے محروم گھروں کا تناسب 25 فیصد اور اس سے زائد ہے یعنی 25 سے 77 فیصد تک۔ لیکن تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ لاڑکانہ، شہداد کوٹ اور سبی پاکستان کے وہ خوش قسمت اضلاع ہیں جہاں تمام گھروں میں بیت الخلاء موجود ہے۔

جبکہ باقی 111 اضلاع جن کے اعدادو شمار دستیاب ہیں وہاں زیادہ یا بہت کم ایسے گھر ضرور موجود ہیں جن میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں۔ ایسے میں کوئی کھلی جگہ پر حاجت کرے تو اس سے دوسرے پریشان اور بیمار اور اگر نہ کرے تو خود بیمار۔ واٹر سینی ٹیشن اینڈ ہائیجین ایکسپرٹ ڈاکٹر فرخ محمود اس نقطہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں

’’اس کو ہم کہتے ہیں Call of Nature کہ جب بھی آپ کو یہ کال آئے گئی تو اس کو Attend کرنا ہوگا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگر کوئی کھلی جگہ پر حاجت کرے تو اس سے دوسرے پریشان اور بیمار کیسے ہوتے ہیں؟ جیساکہ ہم سب لوگ جانتے ہیں۔ انسانی فضلے میں بہت سی اقسام کے جراثیم موجود ہوتے ہیں جو دست، پیچس، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور ہیپاٹائٹس A جیسی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ جتنی دوائیاں انسانی استعمال میں ہیں ان میں سے قریب قریب 90 فیصد دوائیاں پیشاب کے راستے جسم سے خارج ہوتی ہیں۔

انسانی فضلہ جب کھلی جگہوں پر پڑا رہے گا تو اس سے مکھیوں اور کیڑے مکوڑوں کے ذریعے بیماریاں پھیلیں گی۔ اب رہی بات حاجت کو روک کر خود بیمار ہونے کی؟ تو ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہمارا جسم ایک خود کار نظام کے تحت کام کرتا ہے۔ اللہ پاک نے کچھ گنجائش تو رکھی ہوئی ہے کہ کچھ وقت کے لیے حاجت کو روکا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کو ارادتاً اور مجبوری کے تحت ایسا مسلسل کرنا پڑے تو انسان کا سسٹم جواب دے دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص پیشاب روکے رکھتا ہے تو اس کے مثانے میں کچھ گنجائش موجود ہوتی ہے۔

اس میں وہ اکٹھا ہوتا رہتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ شدید درد کے بعد مثانے کا Valve خود بخود کھل جاتا ہے اور پیشاب نکل جاتا ہے جس طرح کہ بچوں میں ہوتا ہے۔ تو اسی طرح سے جو انتڑیوں کا نظام ہے اگر اس کو بھی ہم اس عمل سے گزاریں گے اور اپنی مرضی کے تحت لانا چاہیں گے جوکہ نہیں ہوسکتا تو پھر اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر فرخ محمود نے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم انسانی فضلے کو سائنسی بنیادوں پر تلف نہیں کریں گے۔ اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف نہیں رکھیں گے۔ تب تک ہم صحت مند نہیں رہ سکتے کیونکہ ان تمام چیزوں کا بھی صحت مند ماحول کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور خاص طور پر بیت الخلاء استعمال کرنے کے بعد کھانا کھانے سے پہلے اور کھانا پکانے سے پہلے ہاتھوں کا دھونا انتہائی ضروری ہے۔‘‘

دیہی علاقوں میں کھلی جگہوں پر حاجت کرنے کا عمل انسانی صحت پر اپنے منفی اثرات کے ساتھ ساتھ خواتین خصوصاً لڑکیوں اور بچوں کے تقدس اور تحفظ کو بھی خطرات کے امکانات سے دوچار کردیتا ہے۔ اس لیے یہ امر نہایت اہم ہے کہ پاکستان کے ہر گھر میں بیت الخلاء کی سہولت موجود ہو۔ بیت الخلاء تک ہر انسان کی رسائی کو یقینی بنانا ایک بنیادی انسانی حق ہے جس کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 28 جولائی 2010ء کو بطور انسانی حق کے تسلیم کیا ہے۔

علاوہ ازیں میلینئم ڈویلپمنٹ گولز 2015ء کے ساتویں گول کا ٹارگٹ سیون سی بھی سینی ٹیشن کی سہولیات تک لوگوں کی رسائی کے حوالے سے ہے تاکہ کھلی جگہوں پر حاجت کرنے کے عمل کو ختم کیا جا سکے۔ اس بنیادی انسانی حق کی تکمیل اور ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کے حصول کے لیے پاکستان کی وفاقی اورصوبائی حکومتیں بین الاقوامی ترقیاتی اداروں کے تعاون سے کوششیں کر رہی ہیں۔ ان ہی کوششوں کی بدولت آج ملک میں کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنے کے عمل میں کمی کرنے کے حوالے سے صورت حال ماضی کے مقابلے میں کافی بہتر ہے جس کا اعتراف عالمی اداروں نے بھی کیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت اور عالمی ادارہ اطفال کی رپورٹ پروگراس ان سینی ٹیشن اینڈ ڈرنکنگ واٹر 2013ء اپ ڈیٹ میں اس امر کی واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان 14 ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے 1990ء سے 2011ء تک کھلی جگہ پررفع حاجت کرنے کے عمل میں 25 فیصد سے زائد کمی حاصل کی ہے۔ ان 14 ممالک کی فہرست میں پاکستان 29 فیصد کمی کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان جہاں 1990ء میں 52 فیصد آبادی کھلی جگہوں پر رفع حاجت کیا کرتی تھی، اب یہ شرح کم ہوکر 23 فیصد تک آچکی ہے۔ یعنی کھلی جگہوں پررفع حاجت کرنے والی آبادی کی شرح میں گزشتہ 21 سالوں کے دوران 3.9 فیصد سالانہ کمی واقع ہوئی ہے۔

ملک میں کھلی جگہوں پر ہونے والے رفع حاجت کے عمل میں کمی گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت کی فراہمی کی مرہون منت ہے۔ پاکستان میں کئے جانے والے مختلف سرویز اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ملک میں بیت الخلاء کی سہولت سے محروم گھروں کے تناسب میں وقت کے ساتھ ساتھ کمی واقع ہوئی ہے۔ 1998ء میں پاکستان میں ہونے والی پانچویں خانہ و مردم شماری کے مطابق اس وقت ملک کے 51 فیصد گھروں میں بیت الخلاء موجود نہیں تھے۔

اب یہ تناسب 2012-13ء میں ہونے والے تازہ ترین پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میزیرمنٹ سروے کے مطابق کم ہوکر 15 فیصد گھر بیت الخلاء کی موجودگی سے عاری تھے اور یہ تناسب 2012-13ء تک کم ہوکر 22 فیصد بیت الخلاء سے محروم دیہی گھروں تک آچکا ہے۔ اور اس وقت ملک کے 78 فیصد دیہی گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود ہیں۔ لیکن اب بھی سینی ٹیشن کی سہولیات تک لوگوں کی رسائی کو یقینی بنانے کے حوالے سے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز 2015ء کے ہدف کو حاصل کرنے کے سلسلے میں ملک کو مزید پیشرفت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ دی پاکستان ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز رپورٹ 2013ء کے مطابق پاکستان 2015ء تک اپنے ہدف یعنی 90 فیصد لوگوں کو سینی ٹیشن کی سہولیات تک رسائی مہیا کرنے کے حوالے سے ابھی پیچھے ہے۔

سینی ٹیشن کی سہولیات تک رسائی کے اس ہدف کا بنیادی نقطہ بہتر نکاسی کے حامل بیت الخلاء تک لوگوں کی رسائی کو یقینی بنانا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سینی ٹیشن کی سہولیات کی عدم موجودگی اور ان کا ناقص پن پاکستان کوہر سال 5.7 ارب امریکی ڈالر کی مالیت کا نقصان پہنچاتا ہے۔ جس کا 87 فیصد حصہ صرف صحت کے شعبہ کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس نقصان میں کمی لانے کا واحد طریقہ واش ایکسپرٹ ڈاکٹر فرخ محمود بہتر سہولت کے حامل بیت الخلاء کی فراہمی اور اس کے موزوں استعمال کے شعور کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں۔

’’بہت سے ممالک میں ایسے تجربات بھی کیے گئے ہیں کہ جب کسی گائوں میں بیت الخلاء کی سہولت بنا کے دی گئی اور لوگوں کو اس کے استعمال کی ترغیب بھی دی گئی تو اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے۔ لیکن کئی جگہوں پر ایسے بھی ہوا کہ لوگوں کو بیت الخلاء بناکر دیئے گئے لیکن وہ اس کو استعمال ہی نہیں کرنا جانتے تھے۔ ان کو سکھایا ہی نہیں گیا کہ اس کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ مثلاً فلش سسٹم کو کیسے استعمال کرنا ہے یا جو Setting کموڈ ہے۔

لوگ نہیں جانتے کہ اس کے اوپر کیسے بیٹھنا ہے تو جب ان کو یہ سارا کچھ مہیا کیا گیا اور اس کا استعمال بھی سکھایا گیا تو یہ بات بڑی واضح ہوگئی کہ لوگوں میں بیماری کی شرح میں ایک واضح کمی آئی۔ ظاہر ہے جب بیماری کم ہوگی تو اس پر آنے والے اخراجات بھی کم ہوں گے۔ اگر کمانے والا گھر کا فرد بیمار نہیں ہوگا تو اس گھر کی آمدن متاثر نہیں ہوگی، اگر وہ کما رہا ہے تو اقتصادی معاملات بھی چلتے رہیں گے اور یقینی طور پر اس کا آخر کار جو فائدہ ہے وہ ہماری معیشت کو پہنچے گا۔‘‘

ملک میں سینی ٹیشن کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ستمبر 2006ء میں قومی سینی ٹیشن پالیسی بن چکی ہے جو 2002ء میں ڈھاکہ میں ہونے والی پہلی سائوتھ ایشین کانفرنس آن سینی ٹیشن کے اعلامیہ کے تسلسل میں بنائی گئی۔ پاکستان کی قومی سینی ٹیشن پالیسی کا پہلا مقصد بھی ملک میں کھلی جگہوں پر ہونے والے رفع حاجت کے عمل سے پاک ماحول کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے علاوہ اکتوبر 2013ء میں کھٹمنڈو نیپال میں ہونے والی پانچویں سائوتھ ایشین کانفرنس آن سینی ٹیشن کے اعلامیہ میں اس بات پر متفقہ طور پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا کہ 2023ء تک جنوبی ایشیاء کو کھلے عام رفع حاجت کرنے کے عمل سے پاک کرلیا جائے گا۔

جبکہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت اور عالمی ادارہ اطفال کے واٹر اینڈ سینی ٹیشن کے جوائنٹ مانیٹرنگ پروگرام نے 2015ء کے بعد واٹر سینی ٹیشن اینڈ ہائیجین کے اہداف کا جو ازسرنو تعین کیا ہے اس کے مطابق 2025ء تک دنیا سے کھلے عام رفع حاجت کرنے کے عمل کو ختم کردیا جائے گا۔ تخفیف غربت کا فنڈ غربت کے خاتمے اور لوگوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات مہیا کرنے کے حوالے سے پاکستان کے تقریباً تمام اضلاع میں متحرک اور فعال ادارے کے طور پر مصروف عمل ہے۔

ملک کے دیہی علاقوں میںکھلے عام حاجت کے عمل کے خاتمے کے حوالے سے پی پی اے ایف ورلڈ بینک کے تعاون سے ایک منصوبہ پر کام کررہی ہے۔ محمد ندیم سینئر جنرل منیجر کمیونٹی فزیکل انفاسٹرکچر یونٹ اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ (Open defecation) ODF کا ہمارا جو پراجیکٹ ہے اس میں ابھی تقریباً ایک سال پہلے ورلڈ بینک کے ساتھ ہمارا ایک معاہدہ ہوا ہے ہم نے 6 اضلاع کی 6 یونین کونسلز منتخب کی تھیں تاکہ ہم ان علاقوں میں پائیلٹ پروجیکٹ کے طور پر کھلی جگہوں پر رفع حاجت کے خاتمے کے لیے کام کریں۔ اس وقت ان 6 یونین کونسلز کو ہم نے 70 فیصد ODF فری کردیا ہے۔

مطلب یہ کہ لوگوں نے اپنے طور پر اپنی لیٹرین بنانے کے لیے کام کیا، لوگوں میں Awareness اجاگر کی گئی۔ مستقبل میں ہم ملک کے تقریباً تمام اضلاع اور ان کے جتنے بھی گائوں ہیں۔ ان میں ہم اپنی پارٹنرز آرگنائزیشنز کی مدد کے ساتھ اس پروگرام کو توسیع دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پروگرام کی یہ بہت بڑی خوبصورتی ہے کہ ہم تکنیکی رہنمائی بھی دیتے ہیں۔ معاشی وسائل بھی مہیا کرتے ہیں۔ ہم پانچ سے چھ ہزار کا بڑا اچھا Low-Cost Economical Sanitation Units ڈیزائن کرکے دے رہے ہیں۔

جہاں تک مائیکروکریڈٹ کی بات ہے تو اگر کوئی اپنے گھر میں لیٹرین وغیرہ تعمیر کرنا چاہے تو اس کے لیے پی پی اے ایف کریڈٹ بھی فراہم کرتا ہے۔ انشاء اللہ ہم یہ امید کرتے ہیں کہ جیسے جیسے ورلڈ بینک کی ہمیں سپورٹ اور مالی معاونت رہتی ہے تو PPAF انشاء اللہ تمام اضلاع میں عوامی آگہی کے ساتھ ساتھ تکنیکی رہنمائی اور مالی معاونت کے ذریعے کھلی جگہوں پر رفع حاجت کے خاتمے پر بہت زیادہ کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘

ملک میں کھلی جگہوں پررفع حاجت کی روک تھام کے لیے تمام لوگوں کی بیت الخلاء کی سہولت تک رسائی کو یقینی بنانے کے حوالے سے سفر ابھی جاری ہے۔ لیکن منزل دور نہیں بشرطیکہ تمام گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت کی موجودگی کے ساتھ ساتھ گھر سے باہر عوامی بیت الخلاء کی سہولت کی فراہمی پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔

آزاد کشمیر میں سیب کی کاشت زبوں حالی کا شکار

$
0
0

سیب کا ذکر بہت سی ثقافتوں کی دیومالائی کہانیوں اور قدیم کتابوں میں موجود ہے۔

سیب ایک خوشنما، خوشبو دار اور لذیذ پھل ہے یہ مختلف رنگوں اور ذائقوں کا ہوتا ہے ۔ دنیا میں یہ سب سے زیادہ درخت پر کاشت ہونے والا پھل ہے۔ اس کا درخت مغربی ایشیا میں شروع ہوا۔ایک اندازے کے مطابق اس کی ابتدا کا مرکز مشرقی ترکی ہے جب کہ اس کے پھل میں ہزاروں سالوں میں تبدیلی آئی ہے ۔ سکندر اعظم کے قازقستان کے سفر میں 328 قبل مسیح میں سیب کا ذکر ملتا ہے۔ لفظ سیب سنسکرت لفظ ‘‘ سیو ’’ سے ماخوذ ہے۔ سیب کی 2005 میں دنیا بھر میں کم از کم پیداوار55 لاکھ ٹن تھی جس کی مالیت تقریباً 10 ارب ڈالر ہے۔

سیب کو اکثر کچا کھایا جاتا ہے مگر اس کا استعمال بہت سے کھانے کی اشیاء خاص طور پر میٹھے مربہ جات اور مشروبات میں بھی ہوتا ہے۔ سیب کھانے سے صحت پر بہت سے مفید اثرات پائے جاتے ہیں جبکہ بیج قدرے مضر صحت ہیں۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور قومی آمدنی میںزراعت کاکردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ ملکی صنعت کا انحصار زراعت کے فروغ اور ترقی پر منحصر ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ فروغ زراعت ہی اصل میں ملکی ترقی کا ضامن ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔ ملک کی دیہی آبادی کے تقریباً70 فی صد لوگ اس پیشہ سے منسلک ہیں اور قومی آمدنی کا تقریباً 25 فی صد زراعت کے مرہون منت ہے۔

اس پیشے کا دائرہ کار صرف فصلوں اور باغات تک محدود نہیں بل کہ افزائش حیوانات، ماہی گیری اور زمین و آب بھی اسی میں شامل ہیں۔ باغ بانی ایک قدیم مشغلہ اور پیشہ ہے جو ہر دور میں ایک خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یوں تو ہر پھل غذائیت اور لذت کے اعتبار سے منفرد اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور ہر ایک پھل میں اللہ پاک نے ایک خاص قسم کی تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ مثلاً کیلا اور سیب کھانے سے انسان میں پوٹاشیم کی کمی دور ہوجاتی ہے اور ہائپر ٹینشن سے نجات ملتی ہے۔ تربوز، خربوزہ اور گرما انسانی جسم میں پانی کی مقدار کو برقرار رکھتے ہیں۔ کھجور میں نشاستہ اور شکر کے ساتھ ساتھ معدنی اجزاء کی کافی مقدار پائی جاتی ہے اور یہ بہت ہی قوت بخش پھل ہے۔ باغات پاکستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔

ان میں آم، مالٹا، آڑو، آلوبخارہ،سیب،آملوک، ناریل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ہر پھل علاقائی آب وہوا کا متحمل ہوتا ہے اور اسی علاقہ ہی میں بہتر پیداوار اور معیار کا ضامن بھی ہوتا ہے۔ سیب کو ہی لے لیں، اس کے لیے سرد علاقے کا ہونا نہایت ضروری ہے۔کوئٹہ کے علاقہ اس کی پیداوار کے لیے مثالی پیداوار ی ماحول رکھتا ہے۔

پاکستان میں سیب کی کاشت خاص طور پر بلوچستان اور چین سے متصل علاقوں میں کی جاتی ہے۔ سیب سال بہ سال رہنے والا پھل ہے۔ اور اس کی بہت سی اقسام جو مختلف سائز اور رنگ کی ہوتی ہیں جو اگائی جاتی ہیں۔ سیب کے پودے سیڈلنگ یا سکرروٹ پر اگائے جاتے ہیں جس سے پودے زمین اور موسمی حالات سے مطابقت کر جاتے ہیں۔

مون سون کے موسم کے دوران ٹی۔بڈنگ کے طریقے سے بھی کاشت کی جاتی ہے۔برسات کا ہونا پھل کی تیاری میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے بالخصوص سیب کے باغات کے لیے جہاں آب پاشی کا کوئی اور طریقہ موزوں نہیں ہوتا۔ یوں تو سیب کے درخت مختلف اقسام کی زمین پر لگائے جاتے ہیں لیکن بہتر نکاسی آب کا صحیح انتظام والی زرخیز زمین سیب کے باغات کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ زمین کا نکاسی آب کا مستقل انتظام سیب کی فصل کے لیے بہت ہی ضروری ہے۔ یہ پھل آزادکشمیر کے علاقوں میں بھی پیدا ہوتا ہے۔خطہ آزادکشمیر کاضلع باغ جو کہ سیب کی کاشت کی وجہ سے شہرت کا حامل ہے اور بین الاقوامی معیار کے سیب کی پیداواری صلاحیت بھی رکھتاہے مگر اب اس علاقے کی پیداواری صلاحیت میں کمی آچکی ہے۔

اس کی واحد وجہ زمین کی گرتی ہوئی زرخیزی ہے جو ہمارے کسان بھائیوں اور زراعت کے سرکاری اور نیم سرکاری اہل کاروں کی عدم توجہ کا نتیجہ ہے۔اس کا منہ بولتا ثبوت سیب کی پیداوار میں کمی اور غیر معیاری پیداوار ہے جس کا اندازہ زمین کے تجزیہ اور پیداوار کی قیمت جو مارکیٹ سے کسان وصول کرتے ہیں سے، بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔

سال 2011 میں آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں سیب کے زیر کاشت رقبے کا ایک سروے کیا گیا تھا جس میںزمین اور سیب کے پتوں کے نمونے حاصل کر کے ایک مرتب پروگرام کے تحت ان کا تجزیہ کیا گیا تھا۔مٹی اور پتوں کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق یہ بات سامنے آئی تھی کہ زمین میں دستیاب خوراک کے اجزاء میں خاطر خواہ حد تک کمی آچکی ہے ۔

آزادکشمیر کے ضلع باغ میں سیب کے پتوں میں موجود خوراکی اجزاء کی مقدار:۔

زمینی تجزئے کے مطابق اس خطے کی زمین میں سوفی صد نائٹروجن، اسی فی صد فاسفورس اورچالیس فی صد پوٹاشیم کی کمی آچکی ہے۔ اس کے علاوہ عناصر صغیرہ جن میں لوہا (Fe)، جست (Zn) ،بوران (B) اور تانبہ(Mn) سہر فہرست ہیں، مزید برآںسیب کی پیداواری صلاحیت اور معیار میں کمی کا ایک ثبوت پتوں میں ان خوراک کے اجزاء کا مطلوبہ مقدار کا کم پایا جانا بھی ہے۔

چونکہ پتے ہی پودوں کا وہ حصہ ہوتے ہیں جہاں نہ صرف پودے اپنے لئے خوراک تیار کرتے ہیں بل کہ ہمارے لئے پھل بھی بناتے ہیں۔ پودوں کی خوراک کے اجزاء کا مطلوبہ مقدار کی کمی کا مطلب یہی ہے کہ یہ پودے کی نشوونما کے لیے ناکافی ہیں اور ان کی مطلوبہ مقدارکا پودوں میں موجودہونا ہی زیادہ پیداوار کا ضامن ہے۔ان اجزاء کی نہ صرف پودوں میں بل کہ زمین میں بھی خاطرخواہ حد تک کم ہو چکی ہے اور یہ بات فوری توجہ طلب ہے۔

زمین میں سیب کے زیر کاشت غذائی عناصر کی خطرناک حد تک کمی کے اسباب کی زمین میںنامیاتی اور غیر نامیاتی کھادوں کے استعمال میں کمی شامل ہیں۔چوں کہ پودوں کی جڑوں کے حد پھیلاؤ تک جو خوراکی اجزاء ہوتے ہیں وہ پودوں کی صحت کے لیے دو یا تین سال کیلئے کافی ہوتے ہیں اور اس کے بعد خوراکی اجزاء کے ذخائر میں بتدریج کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔

زمین میں مختلف خوراکی اجزاء کی دستیاب مقدار ۔

زمین میں غذائی عناصر کی کمی کو کیمیائی یا دیسی کھادوں سے پورا نہ کیا جائے تو نہ صرف سیب کے پودوں کی صحت متاثر ہوتی ہے بل کہ ان کی پیداواری صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔پودوں کی پیداوار میں کمی کے ساتھ ساتھ پھل کی کوالٹی بھی متاثر ہوتی ہے۔جس سے پودے مختلف ا قسام کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اورساتھ ہی کیڑے مکوڑوں اور بیماریوں کے ہلکے سے حملے کی وجہ سے بری طرح متاثر بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو پودے سوکھ تک جاتے ہیں۔ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے چند ایک سفارشات پیش خدمت ہیں جن کو بروئے کار لاکرنہ صرف متاثرہ باغات کو بحال کیا جا سکتا ہے بل کہ پودوں کی پیداواری صلاحیت کو بھی برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

سفارشات
۱۔خشک شدہ شاخیں تراش دیں۔
۲۔ فروری میں جب درجہ حرارت بہتر ہو جائے تو ہر پودے کے تنے کے گرد

زمین میں گوڈی کر کے ان تمام کھادوں کو مٹی میں اچھی طرح مکس کر دیں۔
۳۔ جب سیب کے پودے پر پھول سے پھل بننے کا عمل شروع ہو تو اس وقت امونیم سلفیٹ اور پوٹاش کھادبہ حساب ایک ایک پاؤ فی پودا زمین میں ڈال کر مکس کر دیں۔
۴۔جب پودے پر پھل لگنا شروع ہو تو اس وقت زنک سلفیٹ (3 گرام)،آئرن سلفیٹ (3 گرام) اور پوٹاش(8 گرام) ایک لیٹر پانی میں حل کر کے سپرے کریں۔اس میں اگر جست،تیلے یا لیف مائینر کا حملہ ہو تو کرم کش دوا ڈال کر ساتھ ہی سپرے کریں۔
۵۔ اگر پودوں میں کوئی بیماری ، خوراکی اجزاء کی کمی یا کیڑے مکوڑوں کا حملہ ہو تو زرعی ماہرین کے مشورے سے سپرے کریں۔
امید ہے ان تجاویزپر عمل کر کے کسان بھائی اپنے باغات کو مذید تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں اور اس سے منافع بخش پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔

گٹرصاف کرنے والوں کو لوگ انسان نہیں سمجھتے

$
0
0

اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لئے انسان کو زندگی میں کوئی نہ کوئی پیشہ ضرور اختیار کرنا پڑتا ہے، ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی باعزت پیشے کو روزی روٹی کا ذریعہ بنائے مگر غربت اور تنگدستی انسان کو ایسا پیشہ بھی اختیار کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔

جس کا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے معاشرے میں ایک ایسی ہی نوکری یا پیشہ گٹر کھولنے یا صاف کرنے کا بھی ہے، اس پیشے کو اپنانے والے کو سیور مین کہتے ہیں۔ سیور مین ہمارے معاشرے کا انتہائی اہم رکن ہے، کیوں کہ وہ ایسا کام کرتا ہے جو دوسرے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سیورمین کو عزت اور اہمیت نہیں دی جاتی جو اس کا حق بنتا ہے، تو یہاں ہم آپ کی ملاقات ایک سیور مین سے کراتے ہیں، جس کی بپتا کو لفظوں کے سانچے میں ڈھال کر نذر قارئین کیا جا رہا ہے۔

موضع کچا بُچ ملتان کے رہائشی سیور مین عابد حسین کے والد مرحوم امیر بخش کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے اور انہوں نے دو شادیاں کی تھیں۔ دونوں بیویوں میں سے امیر بخش کے 15بچے تھے، جن میں سے 11بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں۔ وسائل کم اور اخراجات زیادہ ہونے سے امیربخش چاہتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ کر سکا۔ 35 سالہ عابد حسین بھی صرف پانچ جماعت پاس ہے، جس کی وجوہات بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ ’’ ہم 15 بہن بھائی ہیں اور میرے والد اکیلے کمانے والے تھے۔

وہ ہمیں پڑھا لکھا کر اچھا انسان بنانے کی خواہش رکھتے تھے، لیکن غربت کے باعث وہ یہ خواہش اپنے سینے میں ہی لئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ گھریلو حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے تو والد نے پڑھائی چھڑوا کر مزدوری پر لگا دیا، کیوں کہ اس وقت تعلیم حاصل کئے بغیر گزارہ ہو سکتا تھا، لیکن دو وقت کی روٹی کے بغیر روح اور جسم کا رشتہ برقرار نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ پانچ جماعت پاس کرنے کے فوراً بعد میں ابھی بہت چھوٹا تھا کہ بھیڑ بکریاں چرانے لگا۔ باقی بہن بھائی بھی تھوڑا بہت ہی پڑھ سکے اور جو بھائی تھوڑا پڑھ لکھ گئے، یعنی ایک نے میٹرک بھی کر لیا لیکن اسے بھی کوئی ملازمت نہ ملی اور وہ بھی آج مزدوری ہی کرتا ہے۔‘‘

ملازمت کے بارے میں بتاتے ہوئے سیور مین نے کہا کہ ’’2008ء میں، میں نے واسا میں کنٹریکٹ پر یہ ملازمت اختیار کی، تاہم اس پیشے کا انتخاب انجانے میں ہوا، مجھے معلوم نہیں تھا کہ سیورمین کیا ہوتا ہے؟ بے روزگار تھا، گھریلو حالات سانپ کی طرح ڈس رہے تھے، تو بڑے بھائی کے کہنے پرملازمت کے لئے درخواست دے دی، جو منظور ہوگئی۔ پھر میں نے لوگوں سے اس ملازمت کی نوعیت کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس ملازمت میں گٹروں (سیوریج پائپ لائن) میں اتر کر ان کی صفائی کرنا پڑتی ہے۔

جب میں نے یہ سنا تو ملازمت سے انکار کر دیا لیکن جب گھر پر ملازمت کا لیٹر آیا تو میرے بھائی نے کہا کہ آؤ چلیں، میرے انکار پر وہ مجھ سے ناراض ہو گیا اور مجھے پکڑ کر بھائی، بہنوں اور والدہ کے پاس لے گیا، میں نے ان سب کو بتایا کہ دیکھیں! میں نے دس سپارے حفظ کر رکھے ہیں، بچوں کو قرآن پڑھاتا ہوں، تو میں نجاست سے بھرا یہ کام نہیں کرسکتا، میرا ضمیر نہیں مانتا، میں مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالوں گا، مگر ماں نے مجھے کہا کہ دیکھو! ہمارے حالات تمہارے سامنے ہیں، اگر تم یہ ملازمت اختیار نہیں کرو گے، تو ہم کہاں سے کھائیں گے؟ تو اپنے بچوں کو کہاں سے روٹی لا کر دے گا؟ میں پھر بھی انکاری رہا تو انہوں نے مجھے یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر تو ملازمت پر نہیں جائے گا تو میں تجھے اپنا دودھ معاف نہیں کروں گی، تو پھر کیا تھا، والدہ کی دھمکی اور غربت نے بالآخر مجھے گٹر میں اترنے پر مجبور کر دیا۔‘‘

اپنے کام کی نوعیت کے بارے میں عابد حسین نے بتایا کہ ’’ گندگی کی وجہ سے بند سیوریج لائن کو کھولنا ہماری ذمہ داری ہے۔ جب ہم گندگی یا گار کو نکالنے کے لئے گٹر میں اترتے ہیں، تو رہائشیوں کو واش روم استعمال کرنے سے منع کرنے کے باوجود گندا پانی گٹر میں بیٹھے ہوئے ہمارے سر اور آنکھوں پر پڑ رہا ہوتا ہے۔ لوگوں اتنا بھی خیال نہیں کرتے کہ ایک انسان ان کا گند صاف کرنے کے لئے گٹر میں بیٹھا ہے، توکم از کم اب تو واش روم استعمال نہ کریں، لیکن وہ پھر بھی باز نہیں آتے اور جب گندگی ہمارے اوپر آ کر گرتی ہے تو خدا جانتا ہے کہ میرے دل سے کیسی آہ نکلتی ہے کہ اے میرے اللہ! کیا میرا یہی مقدر ہے؟ کام کرانے والے ہمیں پانی کا ایک گھونٹ تک دینا پسند نہیں کرتے، جب ہمارے ہاتھوں میں گندگی اور گار دیکھتے ہیں، تو وہ ہم سے گھن محسوس کرتے ہیں۔

ہمیں تو لوگ انسان تک نہیں سمجھتے، حالاں کہ میں تو مسلمان بھی ہوں۔ اچھا پھر کبھی کسی نے اگر پانی دے بھی دیا تو وہ کسی بوتل یا ناکارہ برتن میں دیا جاتا ہے تاکہ بعد میں اسے ضائع کر دیا جائے یا ہمیں کہا جاتا ہے کہ جاتے ہوئے اس بوتل کو بھی ساتھ ہی لے جانا، کھانا ہمیں شاپروں میں ڈال کر دیا جاتا ہے۔ ہم اپنی غربت اور مجبوریوں کے باعث گندے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، لوگوں کا گند صاف کرتے ہیں، لیکن ہمیں حکومت پوچھتی ہے نہ لوگ انسان سمجھنے کو تیار ہیں۔ لوگ ہم سے ہاتھ ملانا بھی توہین سمجھتے ہیں۔ اس کام کی وجہ سے غیر تو غیر اپنے رشتہ دار بھی منہ نہیں لگاتے، وہ ہم سے تعلق رکھنے یا ملنے ملانے پر شرم محسوس کرتے ہیں، تو ان حالات میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ لوگ تو ہم سے جینے کا حق بھی چھین رہے ہیں۔ میری ڈیوٹی صبح دس بجے سے چھ بجے تک ہے لیکن اکثر چھ بجے کے بعد ہی گھر واپس لوٹتا ہوں۔‘‘

سیور مین کی ضروریات اور مسائل کا ذکر کرتے ہوئے شہریوں کے رویے سے مایوس اس شخص کا کہنا تھا کہ ’’ جب ہم بند سیوریج لائن کھولنے جاتے ہیں تو ہمیں ایک عدد کسّی، گھینچی (زمین کھودنے والا آلہ)، خاص وردی یعنی نیکر وغیرہ، ہیلمٹ، جوتے، آنے جانے کی سواری، بالٹی اور ایک بیلٹ کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ان میں سے اکثر سہولیات ہمیں دستیاب نہیں۔ پہننے کے لئے وردی ملتی ہے نہ جوتے، گندگے کے ڈھیر پر پڑے کپڑے (شلوار، پینٹ وغیرہ) کو کاٹ کر اپنے لئے نیکر بنا لیتے ہیں، آنے جانے کے لئے سواری کے بجائے اپنے ہی سائیکلوں پر جاتے ہیں، نہانے کے لئے صابن ملتا ہے نہ گٹر میں اترنے سے قبل جسم پر لگانے کے لئے تیل دستیاب ہوتا ہے۔

ایک شکایت کے ازالہ کے لئے دو سے تین سیورمین جاتے ہیں، پہلے تو بانس وغیرہ سے بند گٹر کو کھولنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر مسئلہ حل ہو گیا تو ٹھیک ورنہ ہمیں باقاعدہ طور پر سیوریج لائن، جس کا قطر 72انچ ہوتا ہے، کے اندر اتر کر گندگی باہر نکالنا پڑتی ہے۔ اچھا جو بندہ گٹر میں اترتا ہے، اس کو ایک رسی باندھ کر اندر اتارا جاتا ہے، کیوں کہ اندر زہریلی گیس ہوتی ہے۔ گٹر میں داخل ہونے سے قبل ہم زہریلی گیس کی اچھی طرح چھانٹ پھٹک کرتے ہیں لیکن پھر بھی حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔

رسی کمر پر باندھ کر اترنے کا مقصد بھی یہی ہوتا کہ اگر کوئی مسئلہ بنے تو باہر موجود افراد فوری طور پر اندر گئے شخص کو اوپر کھینچ لیں۔ اب یہ سادہ رسی ہوتی ہے، جس سے کمر کو باندھنا پڑتا ہے، حالاں کہ ہمیں ایک خاص بیلٹ کی ضرورت ہوتی ہے، جو اچھی طرح کمر اور کندھوں کو اپنی گرفت میں لے اور مسئلہ بننے کی صورت میں متعلقہ شخص آسانی سے اوپر آ جائے، لیکن سادہ رسی ہمارے لئے سہولت کے بجائے موت کا سبب بن جاتی ہے، کیوں کہ بے ہوشی کی حالت میں جب باہر کھڑے لوگ گٹر میں بیٹھے شخص کو اوپر اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، تو کمر میں یہ سادہ رسی بندھی ہونے کی وجہ سے اندر والا شخص منہ کے بل الٹ جاتا ہے، اور جو پہلے بچنے کے مواقع ہوتے ہیں، وہ بھی ختم ہو جاتے ہیں۔‘‘

ملازمت کو 6 سال گزرنے کے باوجود صرف 12 ہزار روپے تنخواہ پر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والا یہ سیورمین ہر وقت گندگی میں ڈوبے رہنے کے باعث مختلف طبی مسائل کا بھی شکار ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں ذکر کرتے ہوئے عابد حسین نے بتایا کہ ’’ دیکھیں! راہ چلتے عام شخص پر اگر دھول بھی پڑ جائے تو وہ اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، کیوں کہ اس میں جراثیم ہوتے ہیں، لیکن ہم تو جراثیموں کے سمندر میں ڈبکیاں لگاتے ہیں، تو ایسے میں سوچیں کہ ہماری صحت کا کیا حال ہو گا؟ سیوریج لائن میں موجود زہریلی گیس کی وجہ سے جوانی کے باوجود آنکھوں کی بینائی جا رہی ہے، جلدی مسائل یعنی الرجی کا ہر وقت شکار رہتا ہوں۔

اس کے علاوہ کام کے دوران جب گندگی نکالتے ہیں تو ٹوٹے ہوئے شیشوں سمیت دیگر چیزیں کبھی ہاتھ تو کبھی پاؤں کو زخمی کر دیتی ہیں، جہاں سے پھر خون رستا ہے، لیکن کوئی ہماری پٹی بھی کروانے کو تیار نہیں ہوتا، ہم خود ہی ہاتھ یا پاؤں پر گیلا کپڑا باندھ لیتے ہیں، کیوں کہ ڈاکٹر کی بھاری فیس اور پٹی کا خرچہ بھی تو ہماری سکت سے باہر ہے، اور اگر میں ان خرچوں میں پھنس جاؤں تو پھر بچوں کو کیا کھلاؤں گا؟‘‘ اس دوران جب اس نوجوان سیورمین کی آنکھیں نم ہو گئیں تو راقم اس سے نظر نہ ملا سکا، بہرحال تھوڑی دیر خاموشی کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوا کہ ’’ 3 سال قبل وہاڑی چوک ملتان میں ایک بار میں 20 فٹ گہری لائن میں کام کر رہا تھا کہ اچانک اوپر سے ایک اینٹ گری، جو سیدھی میری ریڑھ کی ہڈی پر لگی، میرے ہڈی تو مکمل طور پر نہیں ٹوٹی لیکن اس میں دراڑ ضرور آ گئی ہے، جس کی وجہ سے آج میں دس کلو وزن بھی نہیں اٹھا سکتا اور پیسے نہ ہونے کے باعث علاج تو میری پہنچ سے بہت ہی دور ہے۔

ظلم تو یہ ہے کہ ہمیں ہمارا اپنا محکمہ پوچھتا ہے نہ حکومت، کسی بھی محکمہ کا ملازم ڈیوٹی اوقات میں اگر کسی حادثہ کا شکار ہو جائے تو اُسے لاکھوں روپے امداد دی جاتی ہے، لیکن ہم ایسے بدقسمت ہیں کہ ہمارے کئی بھائی لوگوں کا گند صاف کرتے کرتے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، لیکن حکومت یا محکمہ نے انہیں کبھی اتنا بھی نہیں دیا کہ ان کے اہل و عیال اس فوتیدگی یا معذوری کے بعد کچھ سہولت محسوس کریں۔ بس چند ہزار روپے دے کر اپنا فرض ادا کر دیا جاتا ہے، حالاں کہ اتنا خرچہ تو اس کی فوتیدگی پر آنے جانے والوں اور کفن دفن پر ہی لگ جاتا ہے۔‘‘

حکومت اور واسا سے اپنی دل کی بات کرتے ہوئے عابد حسین نے کہا کہ ’’میری واسا حکام سے اپیل ہے کہ غربت کی وجہ سے میں نے یہ پیشہ اختیار کیا لیکن خدا کے واسطے مجھے اس کام سے نجات دلوائی جائے کیوں کہ میں اندر سے کٹا جا رہا ہوں، مجھے ہیلپر یا چوکیدار ہی لگا دیا جائے۔ میرا ضمیر ملامت کرتا ہے کہ قرآن پاک، نماز اور تہجد پڑھنے والا شخص آج ہر وقت ناپاکی اور نجاست میں لپٹا رہتا ہے، تو ایسے میں، میں اپنے اللہ کی کیا عبادت کروں گا؟ اس غربت اور ملازمت نے مجھے میرے دین سے بھی دور کر دیا۔ حکومت سے میرا مطالبہ ہے کہ غریب کو جینے کا حق ضرور دے، ان کی باز پرس کرے۔

ابھی وزیراعظم نے قرضہ سکیم شروع کی، لیکن وہ قرضے بھی ان لوگوں کو ملے، جن کے کوائف مکمل تھے، اب میں ان پڑھ اور غریب بندہ یہ کوائف کہاں سے پورے کروں؟‘‘ راقم اٹھنے لگا تو عابد حسین نے ہاتھ پکڑ کر کہا کہ میں چند اشعار میں اپنی فریاد حکمرانوں اور عوام تک پہنچانا چاہتا ہوں، آپ اسے ضرور شامل کر دیں۔ وہ اشعار سیورمین نے جیسے پڑھے، ویسے ہی رقم کئے جا رہے ہیں۔

پیچھے بندھے ہیں ہاتھ، مگر شرط ہے سفر
کس سے کہوں کہ پاؤں کے کانٹے نکال دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سیورمین ہاں سیورمین دے حق دا حساب تھی ونجے
جیڑا کرے ظلم سیورمین تے بے نقاب تھی ونجے
میں پیر عابد دے دل کوں تسکین مل پووے ہا
ایہو کرم سیورمیناں تے تہاڈا جناب تھی ونجے

DUKHA ثقافت جس کا دارومدار رینڈیئر نامی جانور پر ہے

$
0
0

رینڈیئر سرد علاقوں کا جانور ہے، اسے شمالی امریکا میں caribouکہتے ہیں۔

یہ آرکٹک، سب آرکٹک، ٹنڈرا اور پہاڑی خطوں کا وہ جانور ہے جو ہرن کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ قطب شمالی اور اس کے اطراف کے علاقوں میں جنگلی رینڈیئر کا شکار کیا جاتا ہے، مگر اس کی ایک قسم کو دیگر مویشیوں کی طرح گلوں کی شکل میں پالا جاتا ہے۔

یہ جانور سرد علاقوں کے لوگوں کے لیے گوشت، جلد یا کھال اور دودھ فراہم کرنے کا ذریعہ ہے اور اسے سواری اور نقل و حمل کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لیے یہ قطب شمالی کی متعدد خطوں اور قوموں کے لیے لازمی ہے۔ اگر ان خطوں کے لوگوں کو رینڈیئر نہ ملے تو یہ مرجائیں۔ لوک کہانیوں میں رینڈیئر ایک جانا مانا جانور ہے۔ کرسمس کے موقع پر سانتاکلاز کی سلیج کو برف پر یہی رینڈیئر تو کھینچتا ہے۔

لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا کی بعض قومیں اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس جانور سے اتنی قربت رکھتے ہیں کہ اس کا نام ان کے نام کے ساتھ شامل ہوگیا ہے۔

منگولیا میں رینڈیئر پالنے کا شوق تو مختلف لوگوں کو ہے، کیوں کہ وہ اسی جانور کی وجہ سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں، مگر جس قوم کی زندگی کا دائرہ ہی رینڈیئر کے گرد گھومتا ہے، وہ Tsaschin،  Dukha, Dukhans یا Duhalar کہلاتی ہے۔ یہ لوگ منگولیا کے شمال میں رہتے ہیں۔ چنگ عہد میں شمالی برفانی جنگل کا ترائی والاخطہ اس سلطنت کا حصہ تھا۔ مگر 1911میں جب منگولیا آزاد ہوا تو یہ حصہ آزاد Tuva میں شامل ہوگیا۔ بعد میں اس خطے کو 1944میں روسیوں نے اپنے ساتھ شامل کرلیا تھا جس کے بعد شمالی برفانی جنگل کے موڑ والا حصہ منگولیا کی جانب اس کی سرحد بن گیا۔

1930کے عشرے میں  Dukhansمیں جنوب کے ٹائیگا گروپ کے کچھ لوگ اور دیگر قوموں کے افراد فوج کی لازمی ملازمت سے بچنے کے لیے Tuva سے فرار ہوگئے تھے۔ شروع میں منگولیا کی حکومت ان لوگوں کو بار بار واپس Tuva بھیجتی رہی، مگر یہ لوگ دوبارہ آجاتے تھے۔ آخرکار 1956میں منگولیا کی حکومت نے انہیں باقاعدہ قانونی شہریت دے دی اور انہیں دریائے Shishigt  کی Tsagaan Nuur جھیل پر دوبارہ آباد کردیا۔ مگر اب بھی 44خاندان ایسے باقی ہیں جن کے افراد کی مجموعی تعداد 200سے400افراد کے درمیان تھی، یہ لوگ ابھی تک حکومت کی توجہ کے منتظر ہیں۔ یہ لوگ اپنے قدیم کلچر میں قدیم سوچ کے ساتھ زندہ ہیں اور اپنی زمین چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتے۔

ان لوگوں کا اوڑھنا بچھونا، ان کا کھانا پینا، ان کی روزی روٹی سب کچھ رینڈیئر ہے۔ یہ لوگ رینڈیئر پر سواری کرتے ہیں، رینڈیئر پالتے ہیں، اسی کا دودھ پیتے ہیں، اسی کا گوشت کھاتے ہیں اور اسی سے اپنی تمام ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں۔

1970کی دہائی کے بعد سے رینڈیئر کی آبادی کم ہوکر 600 ہوچکی ہے، جب کہ 1970کی دہائی میں رینڈیئر کی آبادی کا اندازہ 2000 کے قریب لگایا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رینڈیئر کو یا تو یہاں کے لوگ خود ہی کاٹ کر کھائے جارہے ہیں یا پھر وہ بیمار ہورہے ہیں تو ان کی دیکھ بھال اور علاج نہیں کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے اس شان دار جانور کی آبادی مسلسل کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ بعد میں یہ بھی معلوم ہوا کہ رینڈیئر کو ایک خاص وائرس نے کئی برسوں سے پریشان کررکھا ہے۔ اس ضمن میں منگولیا کی حکومت نے اور متعدد غیرملکی این جی اوز نے بھی کافی کوششیں کی ہیں اور اس جانور کو اس موذی وائرس سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ان کی کوششوں کے کافی حوصلہ افزا نتائج سامنے آرہے ہیں۔

منگولیا کی کسی بھی حکومت نے ایسا کوئی پروگرام یا پالیسی پیش نہیں کی جس کے تحت رینڈیئرز کا علاج معالجہ ممکن ہوتا، اسے وائرس اور بیماریوں سے تحفظ فراہم کیا جاتا اور اس کی افزائش نسل کے بعد اس کی آبادی کو پرانی سطح پر لایا جاتا۔ زبانی دعوے بہت کیے جاتے ہیں، مگر عملی اقدامات بہت کم ہیں۔

واضح رہے کہ رینڈیئر سائبیریا کا وہ قیمتی جانور ہے جس کی نسل اگر معدوم ہوتی ہے تو Dukhaلوگوں کا طرز زندگی ہی خطرے میں پڑجائے گا۔ آج Dukha قوم کی آمدنی کا سارا انحصار سیاحوں کی آمد پر ہے، جو ان لوگوں سے ان کی تیار کردہ بے مثال دست کاریاں خریدتے ہیں یا پھر اپنے تربیت یافتہ اور سدھائے ہوئے رینڈیئرز انہیں سواری کے لیے فراہم کرتے ہیں، جس کے بدلے میں انہیں اچھا خاصا معاوضہ مل جاتا ہے۔

اسی سے ان کی روزی روٹی چلتی ہے۔ ان لوگوں کی زندگی میں اگر رینڈیئر نہ ہوں تو یہ لوگ بھوکے مرجائیں، شاید اسی لیے Dukha قوم کو ’’رینڈیئر قوم‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ بعض لوگ انہیں ’’رینڈیئر پیوپل‘‘ بھی کہتے ہیں۔

Dukha لوگوں کی زبان ایک قدیم زبان ہے، جس میں متعدد مقامی زبانیں شامل ہوچکی ہیں۔ لیکن اب اس زبان کو بولنے والے لوگ نہیں رہے، پھر بھی لگ بھگ پانچ سو افراد یہ زبان بولتے ہیں جو سبھی شمالی منگولیا میں آباد ہیں۔

رینڈیئر پیوپل یا رینڈیئر قوم ہزاروں سال سے منگولیا کے شمال میں سرد برفانی جنگل والے دور دور تک پھیلے ہوئے علاقے میں آباد ہے۔ یہ سرد اور مہیب جگہ بے حد خاموش ہونے کے ساتھ ایک ایسی آسیبی تصویر پیش کرتی ہے جہاں رہنے کے خیال سے ہی ڈر لگتا ہے۔ اس جگہ کی خوب صورتی میں یہاں کا مقامی جنگلی پن نمایاں ہے، جن میں برف سے ڈھکے پہاڑوں کی چوٹیاں، گھنے جنگل، خطرناک چٹانیں اور عرصے سے منجمد برف کسی اور ہی جہان کی تصویر کشی کرتی ہے۔ اس علاقے کی سرحد سائبیریا سے ملتی ہے۔ رینڈیئر کے گلہ بان جنہیں مقامی زبان میں Tsaschin,  یا  Dukha کہتے ہیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے آنے یا سفر کے لیے اپنے جانوروں (رینڈیئرز) پر انحصار کرتے ہیں۔

رینڈیئر کے بغیر ان کے لیے سفر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ ان کی خوراک کی فراہمی کا ذمے دار بھی رینڈیئر ہی ہے جس کا دودھ یہ قوم استعمال کرتی ہے، اس دودھ سے پنیر اور دہی بھی تیار کیا جاتا ہے اور اس دودھ کو روایتی طریقوں سے خشک کرنے کے بعد مستقبل میں استعمال کے لیے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن 1970کے عشرے میں جب بیماری پھیلی اور رینڈیئر کی افزائش نسل بھی کم ہوئی تو Tsaschin کے گلوں کی تعداد جو پہلے 2000سے بھی زیادہ تھی، آج ایک تہائی تک کم ہوگئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ Tsaschinلوگوں کا طرز زندگی خطرے میں پڑگیا۔

Totem Peoples Projectنیویارک کی ایک این جی او ہے۔ اس کے ایک رکن Daniel Plumley کا کہنا ہے:’’رینڈیئر صرف ایک جانور ہی نہیں ہے جو ٹائیگا کے لوگوں کو اپنی زندگی برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، بلکہ ان کے لیے سب کچھ ہے، ان کا دیوتا ہے، ان کے لیے زندگی ہے۔ یہ اس خطے میں اپنے کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بغیر رینڈیئر یہ کلچر خطرے میں پڑجائے گا اور اپنا وجود ہی کھو بیٹھے گا۔‘‘

اپنی این جی او کے ذریعے Daniel Plumley رینڈیئر پر ریسرچ کے لیے فنڈز جمع کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ منگولیا کی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ Tsachin کو ان کے 44خاندانوں سمیت تسلیم کرلے۔ واضح رہے کہ یہ منگولیا کا سب سے چھوٹا خانہ بدوش گروپ ہے۔ بلاشبہ یہ ایک منفرد وسوسائٹی ہے جسے سرکاری مدد اور سرپرستی کی ضرورت ہے۔ کسی زمانے میں رینڈیئر گلہ بانوں کو ریاست مالی امداد بھی دیتی تھی اور مویشیوں کے علاج معالجے کے لیے ہر طرح کی طبی سہولت اور تعاون بھی کرتی تھی، مگر 1990کے عشرے کے ابتدائی دور میں کمیونزم کے زوال کے ساتھ ہی یہ امداد بند ہوگئی۔

Daniel Plumley کا کہنا ہے:’’یہ ہم سبھی اور خاص طور سے Tsachin گروپ کے بھی مفاد میں ہوگا کہ یہ اپنے مخصوص علاقوں میں رہیں اور اپنا وجود بھی برقرار رکھیں۔ یہ صرف اس زمین کے گلہ بان ہی نہیں، بلکہ اس کے نگہ بان ہیں۔ یہ پودوں، موسموں اور جانوروں کے بارے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور صدیوں سے رینڈیئرز کی دیکھ بھال اور خدمت کررہے ہیں۔ یہ لوگ جس تجربے کے حامل ہیں، اس سے اہل مغرب بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‘‘

دوسری جانب ماہرین کا یہ خیال ہے کہ Tsachin کا مستقبل زیادہ خطرے میں نہیں ہے، کم از کم یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ قوم ہی معدوم ہوجائے۔ منگولیا کی حکومت ان کی ہر طرح سے مدد کررہی ہے، ان کے ساتھ تعاون کررہی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ گلہ بانوں اور خانہ بدوشوں کی طرح ادھر ادھر گھومنے کے بجائے کسی جگہ باقاعدہ بستی بسا کر رہیں۔ آہستہ آہستہ رینڈیئرز کے گلے کم ہورہے ہیں۔ ان کے اطراف کی دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ بہت سے Tsachin بچے اب شہروں میں اسکولوں میں بھی جانے لگے ہیں، جہاں وہ تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں۔ ان بچوں اور ان کے بڑوں نے اب ٹیلی ویژن بھی دیکھ لیا ہے اور اس کو پسند بھی کیا ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ اس کے ذریعے انہیں دنیا بھر کی معلومات گھر بیٹھے مل سکتی ہیں۔ رینڈیئر پیوپل کا سابقہ اب کنزیومرگڈز (اشیائے صرف) سے بھی پڑنے لگا ہے، وہ ان تمام چیزوں کی افادیت جان چکے ہیں۔

وہ یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ ان کی خانہ بدوشی کی زندگی انہیں نقد رقم کی صورت میں کچھ بھی نہیں دے رہی یا اگر دے رہی ہے تو بہت کم اور نہ ہی یہ خانہ بدوشی انہیں سماجی اور معاشرتی ترقی کی طرف لے جارہی ہے، بلکہ اس طرز زندگی کی وجہ سے وہ اپنی ذات تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ایک بزرگ Tsachin کا کہنا ہے:’’مجھے اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں نوجوان ان برفانی جنگلات کو چھوڑ کر شہری زندگی کی طرف نہ چلے جائیں، مگر پھر بھی مجھ جیسے بڑے بوڑھے اپنی اسی پیاری سرزمین پر دم توڑیں گے۔‘‘

لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نئی دنیا اور اس کے تقاضوں کو سمجھیں اور خود کو ان میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ ماضی سے نکلیں اور جدید دور کی طرف آئیں۔ بے شک رینڈیئرز سے انہیں پیار ہوگا، مگر اب انہیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے جدید دور کو اپنانا ہوگا، اسی صورت میں وہ اپنے اس پیارے جانور کو تحفظ بھی دے سکیں گے۔

بولی وُڈ: کھوگئی ہو تم کہاں۔۔۔۔۔

$
0
0

بولی وڈ کو خوابوں کی جنت کہا جاتا ہے۔ یہاں نہ صرف پورے انڈیا بلکہ دنیا کے کئی حصوں سے قسمت آزمانے کے لیے فن کے شوقین چلے آتے ہیں اور اس جادو نگری کا حصہ بننے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

یہاں ہر سال نئے چہرے اپنی قسمت چمکاتے ہیں، لیکن بہت کم ایسے ہوتے ہیں۔ جنہیں بہت سخت جدوجہد اور کوششوں کے بعد ان کا جائز مقام ملتا ہے اور پھر اتنی محنت شہرت کے بعد وہ اچانک فلمی دنیا کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ انڈین فلم انڈسٹری میں کئی نام ور ہیروئنز گزری ہیں، جنہوں نے اپنے کام اور خوب صورتی کی بدولت ایک عرصے تک لوگوں کو اپنا اسیر بنائے رکھا اور پھر اچانک وہ شوبز کی اس رنگین اور جگمگاتی کائنات سے الگ ہوگئیں، یہاں ماضی کی چند ایسی ہی ہیروئنز کا ذکر ہے:

ممتا کلکرنی:

ممتا نے بیس سال کی عمر میں فلم عاشق آوارہ سے فلم کیریر کا آغاز کیا۔ اس فلم میں اس کے مقابل سیف علی خان نے ہیرو کا رول پلے کیا تھا اور اسی سال ان دونوں کو بیسٹ ڈیبیو کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ ممتا فلم انڈسٹری میں اپنے بے باک انداز اور منہ پھٹ ہونے کی وجہ سے خاصی مشہور تھی۔

ایک میگزین کے سرورق پر قابل اعتراض تصاویر شائع ہونے پر اسے اچھے خاصے تنازعات کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ اپنی پہلی فلم کی کام یابی کے بعد وہ بڑے اچھے انداز میں کام یابی کے مراحل طے کر رہی تھی، لیکن اس کی بولڈ تصاویر نے اس کے کیریر کا ڈاؤن فال شروع کردیا تھا۔ ممتا نے اپنے کیریر میں کئی ہٹ فلموں میں کام کیا جن میں کرانتی ویر، کرن ارجن اور سب سے بڑا کھلاڑی شامل ہیں۔ مارچ 1995میں میگزین تنازعے کے باعث اس نے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرکے امریکا میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ بعدازاں وہ وہاں سے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ دبئی منتقل ہوگئی۔

منداکنی:

تیس جولائی 1969کو پیدا ہونے والی نیلی آنکھوں والی منداکنی بھی بولی وڈ کی ایک مشہور اداکارہ رہ چکی ہے۔ منداکنی کا اصل نام یاسمین جوزف ہے اور اس نے فلم انڈسٹری میں بہت کم وقت گزارہ۔ فلموں میں وہ اپنی اداکاری کے بجائے بے باک انداز کی وجہ سے مشہور تھی۔ سولہ سال کی عمر میں اس نے بولی وڈ شومین راج کپور کی فلم ’’رام تیری گنگا میلی‘‘ میں اپنی بولڈ پرفارمنس کی بدولت بہت شہرت کمائی۔ منداکنی نے اس کے بعد ڈانس ڈانس، پیار کرکے دیکھو اور زوردار جیسی فلموں میں کام کیا۔ ان ہی دنوں انڈر ورلڈ کے ڈان داؤد ابراہیم کے ساتھ اس کے خفیہ تعلقات کے چرچے ہونے لگے۔ فلم زور دار منداکنی کی آخری فلم تھی۔ اس کے بعد اس نے فلموں سے کنارہ کشی اختیار کرلی آج کل وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ لائم لائٹ سے دور ممبئی میں زندگی گزار رہی ہے۔

بھاگیہ شری:

23فروری1969کو پیدا ہونے والی اداکارہ بھاگیہ شری نے انڈسٹری میں بہت کم وقت گزارہ۔ بھاگیہ نے ٹی وی اور فلم دونوں میڈیمز پر کام کیا، لیکن اسے شہرت اور مقبولیت صرف ایک فلم میں نے پیار کیا سے ملی جس میں اس کے ساتھ سلمان خان نے ہیرو کا رول پلے کیا تھا۔

یہ ان دونوں کی پہلی فلم تھی جس نے باکس آفس پر مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ بھاگیہ اپنی فطری معصومیت اور خوب صورتی کے باعث ہردل عزیز اداکارہ بن گئی۔ تاہم بعد میں اس نے صرف اپنے شوہر ہمالہ کے ساتھ کچھ فلموں جیسے قید میں ہے بلبل، تیاگی اور پائل میں کام کیا، لیکن آڈینس اسے اس کے شوہر کے بجائے دیگر ہیروز کے ساتھ دیکھنا چاہتے تھے، جو ممکن نہ ہوسکا اور ان چند فلموں میں کام کرنے کے بعد اس نے فلم انڈسٹری چھوڑدی آج کل وہ اپنے شوہر اور دو بیٹوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے اور ساتھ ہی اپنے بڑے بیٹے کو بولی وڈ میں لانچ کرنے کے منصوبے بھی بنارہی ہے۔

پوجابھٹ:

فروری 1972کو پیدا ہونے والی اداکارہ پوجا بھٹ کے لیے فلم انڈسٹری کوئی نئی جگہ نہیں تھی، کیوں کہ اس کے والد مہیش بھٹ فلم دنیا کے جانے پہچانے اور کام یاب فلم میکر اور ڈائریکٹر ہیں۔ پوجا نے 1989میں اپنی ہوم پروڈکشن فلم ڈیڈی سے اپنے کیریر کا آغاز کیا۔ بعدازاں اس نے کئی اور فلموں میں بھی کام کیا، لیکن اس کے کیریر کی سب سے زیادہ ہٹ اور کام یاب فلم دل ہے کہ مانتا نہیں اور سڑک تھیں۔ ان فلموں پر اسے ایوارڈ بھی ملے۔ پوجا نے اپنے چلتے فلم کیریر ہی میں میں چینل وی کے وی جے مانیش مہاکیجا سے شادی کرلی تھی۔

سونالی بیندرے :

سونالی بیندرے مس انڈیا کا اعزاز بھی حاصل کر چکی ہے۔ فلم دنیا میں آنے سے پہلے اس نے لاتعداد کمرشلز میں کام کیا اور اس کا شمار انڈیا کی ٹاپ ماڈلز میں کیا جاتا تھا۔ سونالی نے فلم آگ سے اپنے فلمی کیریر کا آغاز کیا۔ اس فلم میں اس کے ساتھ گووندا نے ہیرو کا رول کیا تھا۔

آگ گو کہ ایک فلاپ فلم تھی، لیکن اس فلم کے ذریعے سونالی کا نوٹس لیا گیا اور اسے مزید فلموں میں کام کرنے کی آفرز ملنے لگیں۔ اس کی قابل ذکر فلموں میں ڈپلی کیٹ، انگلش بابو دیسی میم، دل جلے، بھائی، سرفروش، زخم، میجرصاحب اور ہم ساتھ ساتھ ہیں شامل ہیں۔ سونالی نے انڈسٹری کے کام یاب اور مقبول ہیروز جیسے گووندا، سلمان خان، شاہ رخ خان، عامر خان ، سیف علی خان، سنجے دت، انیل کپور اور سنیل شیھٹی کے ساتھ کام کیا۔ شادی کے بعد سونالی نے فلم انڈسٹری چھوڑ دی اور کافی عرصے کے بعد شاہ رخ کی فلم کل ہو نہ ہو میں ایک مختصر کردار میں نظر آئی۔

نمرتا شروڈکر:

ایک اور مس انڈیا کا ٹائیٹل پانے والی ماڈل ٹرن اداکارہ نمرتا شروڈکر کا شمار کام یاب تو نہیں البتہ اچھی اداکاراؤں میں ضرور کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنے فلمی کیریر کا آغاز فلم جب پیار کسی سے ہوتا ہے سے کیا۔ اس فلم میں مرکزی کردار سلمان خان اور ٹوئنکل کھنہ نے کیے تھے اور نمرتا نے معاون اداکارہ کے طور پر کام کیا تھا۔

باکس آفس پر یہ فلم سپر ہٹ ہوئی تھی اور یوں نمرتا کے لیے آگے کا سفر آسان ہو گیا۔ سنجے دت کے ساتھ اس کی فلم واستوو نے یہ بات ثابت کردی کہ وہ مشکل کردار بھی بہ خوبی ادا کرسکتی ہے۔ اس فلم کے بعد نمرتا نے زیادہ تر فلموں میں معاون اداکارہ کے طور پر کام کیا، جن میں ہیرا پھیری، پکار اور استتوا قابل ذکر ہیں۔ ٹی وی کے معروف اداکار مہیش بابو کے ساتھ لمبے عرصے تک معاشقے کے بعد نمرتا نے اس سے 2005 میں شادی کرلی اور فلمی دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔

میناکشی سشادری:

سولہ نومبر 1963کو پیدا ہونے والی ماڈل، اداکارہ اور ڈانسر میناکشی سشادری 1981میں مس انڈیا کا اعزاز حاصل کرنے والی سب سے کم عمر لڑکی تھی۔ 1982میں میناکشی نے فلم پینٹر بابو سے اپنے فلمی دور کا آغاز کیا۔ تاہم اس فلم کی ناکامی نے اسے دل برداشتہ کردیا، لیکن سبھاش گھئی جو اپنی فلموں میں نئے ٹیلنٹ کو متعارف کراتے رہتے ہیں، نے میناکشی میں ایک اچھی اداکارہ کو ڈھونڈ نکالا اور اسے پنی فلم ہیرو میں نئے اداکار جیکی شیروف کے ساتھ کاسٹ کیا۔

ہیرو کی کام یابی نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے خاص طور اس فلم کے گانے تو آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ اس فلم کے بعد فلمی دنیا میں میناکشی کے کام یاب دور کا آغاز ہوا۔ میناکشی کی کام یاب فلموں میں دامنی، جوشیلے، ستیہ میو جیت، شہنشاہ اور گھاتک شامل ہیں۔ گھاتک اس کی آخری فلم تھی، بینکر ہریش میسور کے ساتھ شادی کرنے کے بعد میناکشی نے فلمی دنیا چھوڑ دی۔ آج کل وہ اپنے دو بچوں اور شوہر کے ساتھ امریکن ریاست ٹیکساس میں رہائش پذیر ہے اور وہاں ایک ڈانسنگ اسکول میں بچوں کو بھارتی ناٹیم رقص سکھاتی ہے۔

شمیتا شیٹھی:

ماڈل اور اداکارہ شلپا شیٹھی کی چھوٹی بہن شمیتا شیٹھی نے اپنے فلمی کیریر کا آغاز 2000 میں یش راج بینر کے تحت بنائی جانے والی فلم محبتیں سے کیا۔ یہ فلم سپر ہٹ ہوئی تھی، لیکن کیوںکہ شمیتا کا رول ایک معاون اداکارہ کا تھا اس لیے اس کی صلاحیتوں کا اندازہ نہ ہوسکا اسی لیے انڈسٹری میں وہ بہ حیثیت اداکارہ اپنی کوئی خاص پہچان نہ بناسکی اور لوگ اسے اس کی بڑی بہن شلپا کے حوالے سے زیادہ جاننے لگے۔

شمیتا نے اداکاری کے بجائے فلموں میں آئٹم سونگ کرنے میں زیادہ دل چسپی دکھائی فلم ساتھیا اور میرے یار کی شادی ہے میں اس کے آئٹم نمبرز بہت ہٹ ہوئے۔ 2011 میں ریلیز ہونے والی فلم زہر شمیتا کی بہ طور سولو ہیروئن پہلی فلم تھی عمران ہاشمی کے ساتھ بننے والی یہ فلم شمیتا کے کیریر کی واحد ہٹ فلم بھی ہے۔2011 میں اس نے اداکاری سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا اور اپنا انٹیریر ڈیزائنگ کا بزنس شروع کردیا۔

کمی کاٹکر:

اَسّی کی دہائی کی اس مقبول اداکارہ کو لوگ اس کے نام سے کم اور اس کے بولڈ انداز کی وجہ سے زیادہ جانتے ہیں۔ فلم پتھر دل میں معاون اداکارہ کے طور پر اس نے اپنے کیریر کا آغاز کیا۔ بہ طور ہیروئن اس کی پہلی فلم ٹارزن تھی، جس میں کمی کاٹکر نے جسمانی نمائش کا خوب مظاہرہ کیا۔ اس کی دیگر فلموں میں نمایاں ترین امیتابھ کے ساتھ ہم تھی۔ ہمالہ کمی کاٹکر کی آخری فلم تھی۔ اس فلم کی ریلیز کے بعد اس نے فوٹو گرافر اور فلم میکر شانتانو شورے سے شادی کرلی۔ کمی کی فلموں میں میرا لہو، وردی، مرد کی زبان، دریا دل اور غیرقانونی شامل ہیں۔ اس کی فلمی جوڑی کو سب سے زیادہ گووندا کے ساتھ پسند کیا گیا۔

فرح:

اداکارہ تبو کی بڑی بہن فرٖح اَسّی اور نوے کی دہائی کی کام یاب ترین ہیروئن تھی۔ اپنی معصوم شکل اور بھولے بھالے انداز کی بنا پر وہ بے حد پسند کی جاتی تھی۔ اپنے دور میں فرح نے اس وقت کے تقریباً سب ہی مشہور ہیروز کے ساتھ کا م کیا۔ فرح کی کام یاب اور اہم فلموں میں ایمان دار، نصیب اپنا اپنا، لو 86، پالے خان اور باپ نمبری تو بیٹا دس نمبری شامل ہیں۔ اپنے کیریر کے عروج میں اس نے داراسنگھ کے بیٹے ونوددارا سے شادی کرلی اور شادی کے بعد فرح نے نہ صرف فلموں سے مکمل سے کنارہ کشی اختیار کرلی بل کہ اس نے شوبز کی تقریبات میں بھی شرکت کرنا چھوڑ دی۔

آئشہ جھلکا:

آئشہ نے کچھ فلموں میں بہت اچھا کام کیا اور نام ور ہیروز جیسے عامر خان، سلمان خان اور اکشے کمار کے ساتھ اپنی کام یاب جوڑی بنائی آئشہ کی یاد گار فلموں میں جو جیتا وہ سکندر، معصوم اور کھلاڑی شامل ہیں اس کی آخری فلم ایشوریا رائے کی امراؤ جان تھی جس میں آئشہ نے خورشید کا رول کیا تھا۔

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>