Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

ریل کہانی؛ فیصل آباد تا کراچی ریل کا ایک یادگار سفر

$
0
0

کتابوں میں پڑھا ہے کہ پہلے وقتوں میں ریل گاڑی کے نچلے درجوں میں باتھ روم نہیں ہوا کرتے تھے۔

ضرورت مند مسافر اپنی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اگلے اسٹیشن کا انتظار کرتے اور اس کے جلدی آنے کی دعائیں کرتے۔ اسٹیشن آتا تو کچھ لوگ اسٹیشن پر بنے ٹین کے باتھ روم کی جانب رخ کرتے اور باقی سارے آس پاس کے کھیتوں کی جانب۔ یہ بھی کہیں پڑھا ہے کہ گارڈ ان کی واپسی کا انتظار کیے بغیر اپنے مقررہ وقت پر ہری جھنڈی دکھا دیتا اور پھر جو بھگدڑ مچتی وہ بیان سے باہر ہے۔ اندازہ آپ خود کر ہی سکتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ تیسرے درجے کے مسافروں کا یہ حال دیکھ کر 1870ء میں کے عشرے میں ایک نیشنلسٹ جماعت نے تھرڈ کلاس کے ڈبوں میں بیت الخلا فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے کو پورا ہونے میں ستر سال لگے اور بالٓاخر 1941ء میں پہلی بار گاڑی میں غسل خانے فراہم کیے گئے۔

ہمارے انسٹیٹیوٹ کی ایک روایت چلی آ رہی تھی کہ آخری سمسٹر میں ہمارا ایک انڈسٹریل ٹور کراچی کا ہوتا تھا اور فیصل آباد سے کراچی تک کا یہ سفر ہمیشہ بذریعہ ریل ہی طے کیا جاتا تھا۔ کراچی جانے کے لیے اس وقت دو ٹرینیں فیصل آباد سے گزرتی تھیں۔

ایک پاکستان ایکسپریس اور دوسری ملت ایکسپریس۔ پاکستان ایکسپریس کا ٹکٹ سستا تھا اور ملت ایکسپریس کی ذرا مہنگی۔ اس وقت شاید پاکستان ایکسپریس میں اے سی کلاس بوگی نہیں تھی تو کلاس کی لڑکیوں نے ملت ایکسپریس کے حق میں ووٹ دیا کیوںکہ ملت ایکسپریس میں اے سی کلاس بوگی تھی۔

لڑکیاں چوںکہ صرف مارننگ کلاس میں تھیں، اس لیے مارننگ کلاس لڑکیوں کے ساتھ تھی۔ طویل بحث و مباحثے کے بعد طے یہ پایا کہ ہر طالبِ علم کو یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی کی کسی بھی ٹرین میں جا سکتا ہے، کیوںکہ اس ٹور کے صرف ٹکٹ ہمیں خود لینا تھے باقی سب اخراجات انسٹیٹیوٹ ادا کر رہا تھا۔

دن جون کے تھے، کراچی میں ہوا کے بجائے لُو چل رہی تھی۔ دور پیپلزپارٹی کا تھا جب وزیرِ ریلوے بلور صاحب تھے، جنھوں کے پوری ریلوے کے سسٹم کو تباہ کرنے کی دل سے ہر ممکن کوشش کی جس میں وہ کسی حد تک کام یاب بھی رہے۔

اس سے فائدہ سیدھی سی بات ہے بلور صاحب کے ٹرانسپورٹ کے کاروبار کو ہی ہونا تھا۔ بلورصاحب نے وزارت کا حلف اٹھاتے ہوئے شاید یہ قسم کھائی تھی کہ ملک میں ایک بھی ریل چلنے نہیں دیں گے۔ ہمیں افسوس ہے کہ وہ اپنے وعدے کی مکمل طور پر پاس داری نہ کر سکے مگر پھر بھی انھوں نے سَر توڑ کوشش کی جس میں وہ بہت حد تک کام یاب بھی رہے۔

بہت سی ٹرینیں بند ہوگئیں اور جو باقی بچ گئیں انھیں اتنا لیٹ کیا جاتا تھا کہ مسافر خود ہی ان سے دور بھاگتے تھے۔ پاکستان ایکسپریس معلوم نہیں کب چلی مگر ملت ایکسپریس کو تقریباً چار بجے چل پڑنا تھا۔

تقریباً ساری کلاس ہی ٹور پر جا رہی ہے، کیوںکہ یہ ہم سب کا آخری ٹور تھا، اس دن صبح سے ہی فیصل آباد میں سورج بہت گرم تھا۔ ہاسٹل میں ایک عجیب سی گہماگہمی تھی۔

سب ہی خوش اور پُرجوش تھے۔ سب کا سامان پیک ہوچکا تھا۔ دوپہر کا کھانا اور سہہ پہر کی چائے بھی پی چکنے کے بعد سب رفتہ رفتہ اپنے سامان کے ساتھ ریلوے اسٹیشن کی جانب سرکنا شروع ہوگئے۔

ہم جب فیصل آباد اسٹیشن پر پہنچے تو ریل کار ابھی نہیں پہنچی تھی مگر ریلوے اسٹیشن پر خوب چہل پہل تھی۔ میں بہت عرصے بعد ریل گاڑی میں بیٹھنے جا رہا تھا جب کہ حذیفہ کا زندگی میں یہ ریل کا پہلا سفر تھا۔ ہم پلیٹ فارم پر داخل ہوئے تو دو قلی ہماری طرف دوڑے جنھیں اپنی طرف دوڑتا دیکھ کر ہم دوسری طرف دوڑ پڑے۔ ہم خود ایک ایک پائی جوڑ کر کراچی جا رہے تھے، اس طرح کے بادشاہوں والے خرچ کرنے کے بارے ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

ویسے بھی ہم سب جوان جہان تھے، اپنا بوجھ خود اٹھا سکتے تھے اور سامان میں تھا ہی کیا۔ میرا اور حذیفہ کا بس ایک مشترکہ بیگ۔ ایک وقت تھا کہ جب ریلوے بک اسٹالز پر منٹو، بیدی، عصمت چغتائی، کرشن چندر، مستنصر حسین تارڑ اور شفیق الرحمان کی کتابیں چُنی ہوتی تھیں۔ ظاہر سی بات ہے لوگ انھیں خریدتے بھی تھے۔ خریدتے تھے تبھی تو لوگ اسٹال لگا کر یہاں بیٹھے ہوئے تھے۔

محکمہ ریلوے نے انھیں فری اسٹال تو دیا نہ ہوگا۔ یقیناً وہ ہر اسٹال سے کچھ نہ کچھ لیتے بھی ہوں گے۔ ابھی گاڑی آنے میں کچھ وقت تھا تو میں اور حذیفہ کتابوں کے اسٹال کی طرف چل پڑے۔ حذیفہ نے اسٹال والے سے پوچھا کہ کیا لوگ اب بھی یہ کتابیں پڑھتے ہیں تو اسٹال والے نے بتایا کہ لوگ زیادہ تر رسائل اور دینی کتابوں کی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں۔

رسائل کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایک مختصر رقم دے کر ہر قسم کا مواد پڑھنے کو ایک ہی کتاب میں پڑھنے کو مل جاتا ہے۔

ریل گاڑی میں سکون ہے، خاص طور پر بال بچوں کے لیے۔ بس اور کوچ میں اتنا آرام نہیں۔ ریل بچوں کے لیے اچھی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بلور صاحب کے ریلوے تباہ کرنے کی اس قدر مخلصانہ کوششوں کے باوجود لوگ آج بھی بسوں پر ریل کو فوقیت دیتے تھے۔

پاکستان ایکسپریس کو راولپنڈی سے چلنا تھا اور وزیرآباد سے ہوتے ہوئے فیصل آباد آنا تھا جب کہ ملت ایکسپریس کو لالہ موسیٰ سے اپنا سفر شروع کرنا تھا اور سرگودھا سے ہوتے ہوئے فیصل آباد آنا تھا۔ دونوں گاڑیوں کا فیصل آباد میں رکنے کا دورانیہ تقریباً تیس منٹوں کا تھا۔

تقریباً ساڑھے تین بجے ملت ایکسپریس فیصل آباد جنکشن پر پہنچ گئی۔ سامان رکھا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ملت ایکسپریس اپنی منزل کی جانب چل پڑی۔ گارڈ نے ہری جھنڈی دکھا دی۔ گاڑی آہستہ آہستہ سرکنے لگی۔ کچھ لوگ اپنے مہمانوں کو چھوڑنے کے لیے بھی آئے ہوئے تھے۔

لوگ اپنے پیاروں کو دور جاتا دیکھ کر ہاتھ ہلانے لگے۔ پلیٹ فارم پیچھے ہوتا چلا گیا اور بالآخر کہیں گم ہوگیا۔ مجھے یاد ہے کہ فیضان چوںکہ فیصل آباد سے ہی تھا تو وہ گھر سے کچھ چپس بنا کر لایا تھا، جسے میں اور حذیفہ فوراً ہی کھاگئے۔

فیضان پکا فیصلہ آبادی تھا مگر اردو میڈیم بچہ تھا۔ فیضان کا لہجہ مقامی نہیں تھا۔ دوسرے شہر والوں سے جب وہ ملتا تو اس کا لہجہ بالکل مختلف ہوتا مگر جونہی وہ فیصل آباد کے لڑکوں سے ملتا تو اس کا لہجہ بھی فوراً بدل جاتا۔

پاکستان بننے کے بعد ریلوے سمیت کسی بھی ادارے پر توجہ نہیں دی گئی۔ دنیا بھر کی حکومتیں اپنی ریلوے کی ترقی کی جانب بھرپور توجہ دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں ریلوے کا وزیر وہ بنتا ہے جس کا اپنا یا پھر اس کے احباب کا ٹرانسپورٹ کا کاروبار ہو۔ میں حذیفہ کو تلقین کر رہا تھا کہ وہ جب بھی واش روم میں جائے تو کوشش کرے کہ لوٹا اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ جائے اور اگر لوٹا اپنی منزل مقصود تک نہ پہنچ سکے تو منزلِ مقصود کو لوٹے کے پاس لے جائے۔

ہم سب ابھی خوش گپیاں ہی کر رہے تھے کہ ملت ایکسپریس نے اپنی پریشر بریکس لگانا شروع کردیے اور کچھ ہی دیر کے بعد ٹرین گوجرہ کے پلیٹ فارم میں داخل ہوگئی۔

ملت ایکسپریس میں نہ تو اس وقت تنہائی تھی اور نہ ہی خاموشی اور دونوں کی فی الحال ہمیں طلب بھی نہ تھی۔ جن مسافروں کو گوجرہ اترنا تھا وہ اتر گئے اور جن مسافروں کو سوار ہونا تھا وہ سوار ہوگئے۔

بعض مسافروں کی منزل بس گوجرہ ہی تھی اور بعض کو اپنا سفر یہیں سے شروع کرنا تھا۔ اپنے مقررہ وقت پر ملت ایکسپریس نے گوجرہ کے پلیٹ فارم کو چھوڑا اور آگے کی جانب بڑھ گئی۔

شاید یہی زندگی کا خلاصہ ہے، یہی وقت کا بھی خلاصہ ہے کہ اس نے کسی کے لیے انتظار نہیں کرنا بس گزر جانا ہے تو پھر کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم چلے جانے والوں کو اچھے طریقے سے الوداع کریں، انھیں اچھے الفاظ میں یاد کریں۔ مگر نہیں ہم یہ سب شاید اپنے مقررہ وقت پر نہیں سیکھ سکتے۔ ہم اگر سیکھ سکتے ہیں تو صرف اپنی غلطیوں سے۔ اسی لیے تو وقت کو سب سے بڑا استاد کہا گیا ہے۔

ٹرین نسبتاً تیز ہوچکی تھی اور اس میں سے روایتی چِھک چِھک اور چل چھیاں چھیاں کی آوازیں بھی آنے لگی تھیں۔ ویسے کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ٹرین کی یہ آواز کیوں پیدا ہوتی ہے؟ یہ ایک خاص رِدھم والی آواز ہوتی ہے۔

ریل کی پٹری تو ہم سب نے دیکھی ہی ہے۔ ریل کی پٹری کے دو ٹکڑوں کو آپس میں جوڑنے کے لیے فش پلیٹس کا استعمال کیا جاتا ہے اور ان میں خلاء بھی رکھا جاتا ہے۔

ٹرین کا پہیا جب پٹریوں کے جوڑ پر سے گزرتا ہے تو پٹریاں اوپر نیچے حرکت کرتی ہیں، اسی ارتعاش سے یہ آوازیں بھی پیدا ہوتی ہیں جنھیں ہم ٹرین میں بیٹھ کر انجوائے کرتے ہیں۔ کم از کم میرے لیے تو ریل کی یہ صوت بھی ایک موسیقی کا درجہ رکھتی ہے۔

گوجرہ سے گاڑی چلی تو ٹوبہ ٹیک سنگھ جا کر رکی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا نام سنتے ہی آپ کے سامنے دو چیزیں آتی ہیں۔ سب سے پہلے منٹو کا افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ اور دوسرا دو ڈرامہ بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ۔ تقسیم کے موضوع پر اب تک جتنا بھی مواد لکھا گیا ہے، اُن میں سے سب سے منفرد اور جان دار مواد منٹو کے افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پاگلوں کے بارے صرف ایک پاگل ہی سوچ سکتا تھا۔ کسی نارمل بندے کے یہ بس کی بات نہیں تھی۔ اس لیے منٹو نے پاگلوں کے بارے سوچا کہ جب تقسیم ہو رہی تھی۔ ہندو اور مسلم دونوں ہی اپنا وطن اپنی مرضی سے چھوڑ رہے تھے تو پھر ان پاگلوں کا کیا کیا جائے گا۔

یقیناً پاکستان کے پاگل خانوں میں رہنے والے سارے پاگل پاکستانی تو نہ تھے، اسی طرح ہندوستان کے پاگل خانوں میں رہنے والے سارے پاگل ہندوستانی بھی نہ تھے بلکہ کچھ پاکستانی بھی تھے۔ اس لیے دونوں اطراف کی حکومتوں نے پاگلوں کے تبادلے پر بھی کام کیا۔ یہ شاہ کار افسانہ منٹو کے نمائندہ افسانوں میں سے ایک ہے۔

ملت ایکسپریس چلتی گئی۔ شام اپنا سرمئی آنچل پھیلا رہی تھی جب ریل خانیوال جنکشن پر رکی۔ ہمارے کلاس کا شہباز خانیوال سے تھا جو ایک نمبر کا ڈرامے باز انسان تھا۔ کم از کم مجھے تو وہ ڈرامے باز ہی لگتا تھا۔ چوں کہ وہ لڑکیوں والے سیکشن میں تھا، اس لیے اس کے ڈرامے کچھ زیادہ ہی کلاس میں چلتے تھے۔

کہتے ہیں خانیوال میں آج بھی کچھ لوگوں میں پان اور پان دان کی روایت زندہ ہے۔ گھروں میں پان دان لازم ہوتا ہے بلکہ یہ جہیز کا ایک اہم جزو ہے۔ لڑکی جہیز میں کچھ لائے یا نہ لائے، پان دان ضرور لائے ورنہ اسے بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔

پہلے گھروں میں پیتل کے پان دان رکھنے کی روایت تھی۔ پیتل کا پان دان چوںکہ بہت بھاری ہوتا ہے۔ اس لیے اب چاندی کے پان دان معروف ہیں۔

خاندان میں اگر کوئی رشتہ لینے جائے تو اس کی تواضع عام طریقے سے کی جاتی ہے۔ لڑکی والے اگر پان پیش کریں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انھیں یہ رشتہ منظور ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی پان رکھا جاتا ہے۔

کچھ دیر کے بعد ایک ایسا شہر آیا جس نے مجھے چونکا دیا۔ یہ ایک ایسا شہر تھا جس کا نام میں نے بہت ہی بچپن میں سنا تھا مگر یہ تھا یا نہیں، یہ مجھے نہیں معلوم تھا۔ بچپن میں یہی لگتا تھا کہ شاید یہ فرضی نام ہو۔

یہ شہر ”دنیا پور” تھا جس کے بارے پہلی بار بچپن میں مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ڈرامے ”سورج کے ساتھ ساتھ ” میں پہلی بار سنا تھا، جس میں تین دوست اپنے گاؤں سے بہتر مستقبل کے لیے قریبی شہر دنیا پور کا رخ کرتے ہیں۔

اس ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ مجھے بہت پسند تھا جب تینوں دوست ہوٹل پر کھانا کھا رہے ہوتے ہیں تو بل زیادہ بننے پر ہوٹل مالک ان کے سامنے مہنگائی کا رونا کچھ یوں روتا ہے کہ ” بڑی مہنگائی ہو گئی ہے بھائی۔ گندم ہو گئی 8 روپے من، اور چھوٹا گوشت ہو گیا ہے ڈیڑھ روپے سیر۔ بڑا ہوگیا ہے 12 آنے سیر۔ گھی ہو گیا ہے 3 روپے سیر۔ چاول ہوگئے ہیں 16 روپے من۔

اور سونا ہو گیا ہے 102 روپے تولا۔” اور توبہ توبہ کہتے ہوئے وہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگا لیتا ہے۔ میں آج اسی دنیا پور کے ریلوے اسٹیشن پر کھڑا تھا۔ سب کے لیے بچپن میں ٹیلی ویژن کا مطلب ہی چاچا جی تھا۔ سب تارڑ صاحب کو چاچا جی ہی تو بلاتے تھے۔

صبح سویرے اٹھنا، کارٹون کا انتظار کرنا اور پھر ناشتے کے ساتھ ساتھ کارٹون دیکھ کر اسکول جانا۔ تارڑ صاحب کا پہلا تعارف میرے لیے بطورِ چاچا جی ہی تھا۔ بہت بعد میں جا کر میں نے انھیں ایک بہترین سفر نامہ نگار اور پھر ناول نگار کے روپ میں دیکھا۔

تقریباً رات نو بجے کے قریب ہم اچانک اندھیروں سے نکل کر روشنیوں میں آ گئے۔ ریلوے اسٹیشن انتہائی صاف ستھرا اور خوب روشن تھا۔ اتنا پیارا تھا کہ ہم میں سے کسی کو بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ واقعی پاکستان کا ریلوے اسٹیشن ہے۔

گاڑی بہاولپور اسٹیشن کے پلیٹ فارم ایک پر رک چکی تھی۔ مجھے چولستانی ہرنیوں کی خوشبو آنے لگی۔ انہی دنوں جب میں بانو آپا کا راجہ گدھا پڑھ رہا تھا تو پہلے ہی صفحے پر بانو آپا نے سیمی شاہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے اسے چولستانی ہرنی قرار دیا تھا۔

میں تب سوچا کرتا تھا کہ نہ جانے چولستان کیسا ہو گا اور نہ جانے یہ چولستانی ہرنی کیسی ہوتی ہوگی جس کے جیسی سیمی شاہ تھی۔ اس وقت میں نہیں جانتا تھا کہ چولستان کیا ہے، چولستان کی ریت کیا ہے، وہاں کی خوشبو کیسی ہے مگر آج میں نے چولستان کو دیکھا ہے۔ اس کی ریت کی گرمی کو اپنے سینے میں محسوس کیا ہے۔

رات مکمل طور پر ملت ایکسپریس پر اترچکی تھی۔ ہمارے اردگرد مکمل تنہائی تھی مگر ریل میں ایک عجب ہی دنیا آباد تھی۔

ملت ایکسپریس میں ایک بوگی کسی ریستوراں کا منظر پیش کر رہی تھی۔ ویسے تو ہم سب کچھ نہ کچھ کھا پی ہی رہے تھے مگر پھر بھی کھانے کی بھوک اپنی جگہ برقرار تھی۔ حذیفہ نے مجھ سے اسی بوگی میں چلنے کو کہا۔ لمبے سفر کی بوگیاں عام طور پر ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہیں اور آپ ایک بوگی سے دوسری بوگی میں آرام سے جا سکتے ہیں۔

پہلے پہل تو مجھے بڑا خوف آیا کہ ایک بوگی کو پار کرکے دوسری میں کیسے جایا جائے مگر جب بہروں کو ایک ہاتھ میں کھانے سے بھرا ہوا ٹرے اٹھاکر دوسری بوگی میں جاتے دیکھا تو کچھ حوصلہ ملا۔ کچھ ہمت کے بعد ہم بھی مَردوں کی طرح ایک پوری ریل میں مٹر گشت کرنے لگے۔ بریانی پورے ساڑھے تین سو روپے کی مل رہی تھی، وہی پسند تھی اور وہی کھائی۔ ذائقہ بس ٹھیک ہی تھا۔ دور کے سب مسافر سوگئے۔

میں اور حذیفہ ریل کے فرش پر دروازے کے قریب ہوکر بیٹھ گئے اور اپنا الگ ہی فلسفہ جھاڑتے رہے۔ نہ جانے ماضی کے کس کس قصے کو ہم نے چھیڑا اور مستقبل کے بارے عجیب و غریب پلان بھی بناتے رہے۔ ظاہر سی بات ہی ایسی محافل چغلیوں کے بغیر کہاں سجتی ہیں۔ ہم جب دوسروں کے بے انتہا گناہ اپنے کندھوں پر ڈال چکے تو پھر چائے کی طلب ہوئی۔

میرے بیگ میں بسکٹ تھے۔ میں بسکٹ لینے چلا گیا۔ فرش پر ایک بابا جی کپڑا ڈال کر سوئے ہوئے تھے جن پر سے تین چار بار پہلے بھی ہم نے پھلانگا تھا۔

اب کی بار جب ہم ان بابا جی پر سے پھلانگنے لگے تو وہ سوئے ہوئے تھے۔ میں نے حذیفہ کے کان میں سرگوشی کی ”شکر ہے بابا جی سو گئے۔” مگر جونہی ہم ان پر سے پھلانگنے لگے تو وہ فوراً نیم غصے میں بولے۔۔۔او سو جاؤ خدا دا واسطہ جے۔

گاڑی بہاولپور سے نکلی تو اس نے خانپور جا کر بریک لگائی۔ بچپن میں پی ٹی وی پر ایک اشتہار چلا کرتا تھا جس میں ایک فیملی ایسے ہی ریل پر سفر کر رہی تھی۔

خاندان کا موٹے پیٹ والا سربراہ کوئی  میری ہی طرح کا کھانے پینے کا شدید شوقین تھا جسے آخر میں بدہضمی ہوجاتی ہے۔ وہ بھائی صاحب ہر شہر کی سوغاتیں کھاتے جاتے ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب خانپور آتا ہے تو وہ کہتے ہیں ”خانپور کے پیڑے۔” میں نے پیڑا آج تک نہیں کھایا۔ نہ جانے کیسے ہوتے ہیں۔

لاہور میں پیڑوں والی لسی بہت مشہور ہے۔ ظلم کی انتہا دیکھیں کہ میں ابھی تک وہ بھی نہ پی سکا۔ خانپور سے گزرتے ہوئے مجھے اپنی زندگی میں پیڑوں کی کمی کا شدید احساس ہوا۔ اس سے پہلے کہ میں اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتا، ملت ایکسپریس کے گارڈ نے ہمیں اور ڈرائیو صاحب کو ہری جھنڈی دکھا دی اور ریل خانپور کو پیچھے چھوڑتے ہوئے رحیم یار خان کی جانب چل دی۔

رحیم یار خان کے بعد صادق آباد تھا۔ صادق آباد کی دو باتیں ہمیشہ ہی میرے ذہن میں رہی ہیں۔ صادق آباد پنجاب کا آخری شہر ہے اور یہاں کی بھونگ مسجد۔ صادق آباد کی بھونگ مسجد اس قدر خوب صورت ہے کہ یہاں آ کر سب کچھ بھول جانے کو جی چاہتا ہے۔

اگرچہ میں نے کبھی اس مسجد کو نہیں دیکھا، صرف تصاویر میں ہی دیکھا ہے مگر پھر بھی دل اس کی جانب کھنچا چلا جاتا ہے۔ صادق آباد کے پاس ہی کچے کا علاقہ ہے جس کے ڈاکو بہت مشہور ہیں جو عام طور پر ہمارے قانون کو زیادہ گھاس نہیں ڈالتے۔ صادق آباد سے جب ریل نکلی تو رات کی تاریکیوں میں ہم نے صرف صادق آباد کو ہی نہیں چھوڑا بلکہ پنجاب کو بھی اپنے پیچھے چھوڑ دیا۔ رات کے تقریباً دو بجے کے قریب ملت ایکسپریس ایک لمبے سے پلیٹ فارم پر رکی تو ایک عجیب سا شور برپا ہو گیا۔ یہ لمبے سے پلیٹ فارم والا اسٹیشن روہڑی تھا اور ہم اس وقت صوبہ سندھ میں تھے۔

مگر راستے میں کہیں سمہ سٹہ بھی تو آیا تھا۔ بہاولنگر کے راستے بھارت تک ریلوے لائن یہیں سے جاتی تھی۔ 1947 میں دلی سے پاکستان کے حصے کے اثاثے بھی اسی راستے سے آئے۔ یہیں سے بٹھنڈہ ٹرین جاتی تھی، جس کی وجہ سے ’’وایا بٹھنڈہ‘‘ کا محاورہ وجود میں آیا۔

یہ ان کے لیے استعمال ہوتا تھا جو اردو، فارسی، عربی فاضل کے امتحان کے بعد بی اے کا صرف انگریزی کا پرچا پاس کرکے بی اے ہوجاتے تھے۔ یہ بات تحقیق طلب ہے کہ یہ شارٹ کٹ سمجھ کر کہتے تھے یا کہیں سے گھوم کے جانے کی وجہ سے۔

آج کل یہ جنکشن ویران ہے۔ پشاور، پنڈی، لاہور، کراچی جانے والی ہر ٹرین یہاں سے گزرتی ضرور ہے، پر رکتی کوئی ایک آدھ ہی ہے۔

کسی زمانے میں اکثر گاڑیاں یہاں رکتی تھیں. یہاں ورک شاپ، پانی بھرنے وغیرہ کی تمام سہولتیں موجود ہیں لیکن ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔

ملتان سے لاہور جانے والی شاہ شمس ایکسپریس کافی عرصہ سمہ سٹہ سے چلتی رہی، جس سے بہت لوگوں کو فائدہ تھا۔ پھر سمہ سٹہ سے بند کردی گئی، کیوںکہ بسوں والوں کو کچھ نقصان ہونے لگا تھا۔

سمہ سٹہ میں پہلی بار دیکھ رہا تھا مگر اس کا نام بہت سنا تھا۔ اصل میں ایک سمہ سٹہ ایکسپریس چلا کرتی تھی جو سمہ سٹہ سے سیالکوٹ جایا کرتی تھی۔ ہمارے پرانے گھر کے جو ہمسائے تھے، ان کے کچھ رشتے دار گوجرہ میں رہتے تھے تو وہ اسی سمہ سٹہ ایکسپریس پر سفر کرتے تھے۔

دسمبر 2008 میں جب بینظیر بھٹو کو گولی لگی تو پورے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ پبلک ٹرانسپورٹ بند تھی۔ ایسے میں گھر جانے کے لیے میں نے پہلی بار سمہ سٹہ ایکسپریس پر سفر کیا۔ سمہ سٹہ ایکسپریس بس نام کی ایکسپریس تھی، وہ فقط ایک پیسنجر ٹرین تھی۔

عام کوسٹر پر جو سفر میرا ساڑھے چار یا پانچ گھنٹوں میں کَٹ جاتا تھا، وہ سفر میں نے پوری ایک رات میں طے کیا۔ ساری رات سفر کرنے کے بعد سمہ سٹہ تقریباً صبح سات بجے سیالکوٹ پہنچی تھی۔ بلور صاحب کی بدولت اب وہ ٹرین بند ہے۔

روہڑی کوئی معمولی اسٹیشن نہیں ہے۔ چار جانب سے آ کر ریلوے لائنیں یہاں ملتی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ یہاں سے چار جانب گاڑیاں جاتی ہیں۔ انگریز کا لنڈی کوتل اور چمن سے آگے ریلوے لائن بچھانے کا خواب اگر پورا ہوتا تو افغانستان کے راستے وسطی ایشیا اور یورپ تک ٹرین یہیں سے چلا کرتیں۔

پتا چلا کہ یہاں ریل بیس پچیس منٹ رکے گی۔ سب نیچے اتر آئے، تصاویر بنوانے لگے۔ ہمیں خوشی اس بات کی تھی کہ ہم پہلی بار سندھ کی دھرتی پر قدم رکھ رہے تھے۔ سندھ جو کبھی دارالسلام تھا، مگر اب وہ فقط جاگیرداروں اور وڈیروں کی سرزمین بن کر رہ گیا تھا۔

ہمیں اس وقت صرف ایک ہی وڈیرے اور جاگیردار کا نام یاد تھا لہٰذا انہی کا نام لے لے کر سندھ کی مظلوم عوام کے لیے دو تین آہیں بھری گئیں۔ اتنے میں ریل نے سیٹی بجائی اور سب کی دوڑیں لگ گئیں۔

رات کے تقریباً تین بج رہے تھے۔ ہم سب بے شک پر جوش تھے مگر تھک بھی چکے تھے۔ مجھ سمیت تقریباً سبھی لوگ شدید اونگھ رہے تھے۔ میں اور حذیفہ بھی تھکن سے چور تھے۔ ہم دونوں اپنی اپنی برتھ پر لیٹ گئے اور نہ جانے کب نیند کی وادی میں کھو گئے۔

صبح آنکھ کھلی تو ہم میدانِ حشر میں کھڑے تھے۔ قیامت برپا ہو چکی تھی، صور پھونکا جا چکا تھا۔ سخت گرمی تھی، سورج بھی سوا نیزے پر تھا۔ فرق بس یہ تھا میدانِ عرفات کی بجائے ہم سب سندھ کے شہر ”ٹنڈو مستی” کی بنجر اور ویران زمین پر کھڑے تھے بلکہ ہماری ریل ٹنڈو مستی کے قریب کھڑی تھی۔ میری جب آنکھ کھلی تو حذیفہ ابھی تک گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا۔ بہت سے لوگ نیچے اتر چکے تھے۔ تقریباً آدھی سے زیادہ ریل خالی تھی۔

استفسار پر معلوم ہوا کہ ملت ایکسپریس کا انجن خراب ہو چکا ہے۔ اب شاید حیدرآباد سے دوسرا انجن آئے گا جو ہمیں کراچی لے کر جائے گا۔ ریل کی سیٹی تو پہلے ہی گم شدہ تھی، اب یہ سب سن کر میری سیٹی بھی گم ہوگئی۔ مجھے جون کی سخت گرمی میں اپنی بوگی میں بیٹھ کر کیا کرنا تھا۔ میں بھی نیچے اتر گیا۔ حذیفہ ابھی تک سو رہا تھا۔

میں نے اسے جگانا مناسب نہ سمجھا۔ تھوڑی دیر بعد جب حذیفہ کی آنکھ کھلی تو وہ ڈر گیا کیوںکہ ریل اس وقت تک تقریباً خالی ہوچکی تھی۔ صرف خواتین اور چھوٹے بچے ہی ریل میں تھے۔ حذیفہ جب نیچے اترا تو وہ واقعی ڈرا ہوا تھا۔ بے چارا ریل میں پہلی بار سفر کر رہا تھا۔ لوگ چیخ رہے تھے، مظاہرہ کر رہے تھے مگر انجن ڈرائیور بھی بے چارا کیا کرتا۔ وہ بھی بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ ہمارے ہاتھ ایک نیا شغل آ گیا۔ ہم اپنی ریل بنا کر پٹریوں پر بیٹھ گئے۔

ہم سب اندر ہی اندر اس بات پر شرمندہ ہو رہے تھے۔ دوسرے سیکشن والے ہم سے جلدی پہنچ جائیں گے، کیوںکہ ہم سب نے ان کے سامنے بڑی شودیاں ماری تھیں کہ ہماری ریل اچھی ہے اور وغیرہ وغیرہ۔ نہ تو آس پاس کے علاقوں سے کوئی پانی لے کر آیا اور نہ ہی ہمارے لیے کوئی دیگیں کُھلیں۔ الٹا پانی بیچنے والوں کی چاندی ہوگئی۔ مقامی پانی کی چھوٹی چھوٹی بوتلیں پانچ ساٹھ روپے کی مل رہیں تھیں۔

حیدرآباد ہم سے بہت دور تھا۔ انجن پتا نہیں کب آنا تھا۔ خدا خدا کر کے دور سے انجن کا ایک سراب نظر آیا۔ یہ کوئی طاقت ور انجن نہیں تھا۔ بس ایک چھوٹا سا انجن تھا جس میں صرف کچھوے کی چال چلنے کی صلاحیت تھی، خرگوش کی طرح یہ دوڑ نہیں سکتا تھا۔

ابتدائی جون کے دنوں میں ہم سندھ کی گرم دھرتی سے انتہائی سست رفتاری سے گزر رہے تھے۔ سفر کٹ ہی نہیں رہا تھا۔ ریل کی رفتار انتہائی سست تھی۔ دراصل ریل چل نہیں رہی تھی بلکہ رینگ رہی تھی۔ ہم سب اب اس گرمی سے تنگ ہو رہے تھے۔ میرا کسی سے بات کرنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ پتا نہیں کون سا شہر جارہا تھا اور کون سا آ رہا تھا۔

سفر میں ساری دل چسپی ختم ہو چکی تھی۔ میرا جس کام سے ایک بار دل اچاٹ ہوجائے پھر کبھی اس پر دل دوبارہ نہیں آتا۔ اگر ریل اپنی اسی رفتار سے ٹھیک طرح سے چلتی تو ساڑھے دس بجے ہمیں کراچی میں ہونا چاہیے تھا مگر دوپہر کے دو بج چکے تھے اور کراچی کے دور دور تک آثار نہیں تھے۔ مجھے یاد ہے دن زیادہ تر ڈھل ہی چکا تھا جب ہم حیدر آباد پہنچے تھے۔

حیدرآباد آباد کا چمکتا دمکتا ریلوے اسٹیشن مسافروں سے کھچا کھچ بھرا پڑا تھا۔ لوگ نہ جانے کب سے ریل کے منتظر تھے۔

حیدرآباد ریلوے سٹیشن پر رونق تھی، چہل قدمی تھی، جون کی تیز دھوپ تھی، شور شرابہ تھا اور ٹرین ہر چڑھنے والوں کا اور اترنے والوں کا اضطراب تھا۔ بہت پہلے لوگ کھڑکیوں کے ذریعے اپنا سامان یا چھوٹے بچوں کو گاڑی میں سوار کروا دیتے مگر پھر ریلوے حکام نے ریل کی بوگیوں کی کھڑکیوں پر لوہے کی سلاخیں لگوا دیں، لہٰذا اب آمدورفت کے لیے صرف دروازہ ہی استعمال ہوتا ہے۔

حیدرآباد کا ریلوے اسٹیشن برصغیر کے پرانے ریلوے اسٹیشنز میں شمار ہوتا ہے۔ ایک پلیٹ سے دوسرے پلیٹ پر جانے کے لیے ہر ریلوے سٹیشن پر اوور ہیڈ برج ضرور بنا ہوتا ہے۔

یہاں کا اوور ہیڈ برج کافی بڑا ہے جو پلیٹ فارم نمبر ایک سے شروع ہو کر پلیٹ فارم نمبر تین تک جاتا ہے۔ درمیان میں پلیٹ فارم نمبر دو ہے۔ اِسے بھی اُسی اوور ہیڈ برج کے ساتھ سیڑھیوں کے ذریعے منسلک کیا گیا ہے۔

اگرچہ کہ ملت ایکسپریس نے صوبہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر سے جو کہ دریائے سندھ کے مغربی جانب آباد ہے، نہیں گزرنا تھا مگر پھر بھی میری خواہش تھی کہ سکھر شہر سے گزرا جائے۔ سکھر شہر سے گزرنے کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو اس کا ڈیڑھ سو سالہ مشہورِزمانہ پل جو کہ اپنے انجنیئرنگ کا شاہ کار ہے۔

دوسری وجہ سکھر شہر سے تقریباً چوبیس کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا گم نام ریلوے اسٹیشن ”رُک” ہے جہاں کوئی نہیں رکتا۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ہندوستان میں روس آیا کا شور مچا تو خیال ظاہر کیا گیا کہ روس افغانستان سے ہوتا ہوا کوئٹہ پہنچے گا اور پھر گرم پانیوں کا رخ کرے گا۔

یہ مت سوچیے گا کہ روس کے گرم پانیوں تک پہنچنے کا شوشا 1980 سے شروع ہوا تھا بلکہ یہ کہانی پرانی ہے۔ انگریز جب برصغیر پر حکم راں تھا تب بھی یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ روس گرم پانیوں کے لیے افغانستان سے ہوتا ہوا برصغیر پہنچے گا تو فوری طور پر 1876ء میں سرکار کی جانب سے حکم جاری ہوا کہ جیسے بھی ہو، ”رُک” سے نئی لائینوں پر کام تیز سے تیز تر کیا جائے یہاں تک کہ راتوں میں بھی کام کیا گیا اور سبی تک ہنگامی بنیادوں پر بلکہ جنگی پیمانے پر لائین ڈالی گئیں۔

کہتے ہیں جب رُک ریلوے اسٹیشن بنا تو اُس وقت اس کا نام قندھار اسٹیٹ ریلوے تھا۔ بڑے در کی پیشانی پر قندھار اسٹیٹ ریلوے اور انڈس ویلی اسٹیٹ ریلوے کے نام لکھے گئے تھے۔

عمارت 1898 میں تعمیر ہوئی تھی۔ اسٹیشن کی عمارت کے مقابل ریلوے کالونی بھی تھی، اس میں انگریز افسر اور انجنیئر رہا کرتے تھے۔ کالونی کی عمارت گر چکی ہے جب کہ گورا قبرستان موجود ہے۔ جب ریلوے لائن چمن سے آگے نہ بڑھ سکی اور قندھار پہنچنے کا خواب بس ایک خواب ہی بن کر رہ گیا تو رُک کی رونقیں بھی رخصت ہو گئیں۔

حیدرآباد کا ریلوے اسٹیشن کوئی چھوٹا جنکشن نہیں ہے۔ یہاں مال بردار گاڑیاں بھی آپ کو ملیں گی اور کچھ اضافی انجن بھی۔ حیدرآباد پہنچ کر ایک بار پھر ہماری ریل کا انجن تبدیل کر کے ایک ہیوی انجن لگایا گیا۔ ملت ایکسپریس میں اب تِل دھرنے کی بھی جگہ نہ تھی۔

وجہ یہ تھی کہ ہم سے پیچھے اب ساری ٹرینیں رکی ہوئی تھیں، چوںکہ ملت ایکسپریس لیٹ تھی، اس لیے ساری ٹرینیں لیٹ ہوگئیں۔ جن پچھلی ٹرینوں پر سوار ہوکر مسافروں نے کراچی جانا تھا اب وہ سب ملت ایکسپریس پر سوار تھے۔

سنا تھا حیدرآباد سے ایک بار ریل چلی تو پھر وہ کراچی پہنچ کر ہی دم لے گی، کیوںکہ کراچی اور حیدرآباد کے درمیان کوئی بڑا شہر نہیں۔ حیدرآباد سے جو ریل چلی تو پھر بس وہ چلتی ہی چلی گئی۔ ہماری کلاس کا زبیر چوںکہ حیدرآباد سے تھا، لہٰذا وہ وہیں اتر گیا اور ہم سب کراچی کی جانب چل پڑے۔

پنجاب میں آپ کو ہر آدھے یا زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کے بعد بڑا شہر مل جاتا ہے مگر سندھ میں حیدرآباد اور کراچی کے درمیان کوئی شہر نہیں۔ ریل جو حیدرآباد سے چلی تو چلتی ہی چلی گئی۔ سفر کا اب پھر سے مزہ آنے لگا تھا۔ یہ ملت ایکسپریس کی زیادہ سے زیادہ رفتار تھی جس سے وہ دوڑ رہی تھی۔

گرمی تو تھی ہی مگر چوںکہ ریل اب اپنی اصل رفتار سے دوڑ رہی تھی، اس لیے گرمی لگ نہیں رہی تھی۔ ایک چیز جو واضح طور پر اب محسوس ہو رہی تھی، پہلے ریل چلنے پر ہمیں ہوا محسوس ہو رہی تھی مگر یہی ہوا اب رفتہ رفتہ لُو میں تبدیل ہو رہی تھی۔ سنا تو تھا کہ کراچی میں ہوا نہیں بلکہ لُو چلتی ہے، آج محسوس بھی ہو رہا تھا۔

تقریباً دو گھنٹوں کے بعد ریل آہستہ ہونا شروع ہوئی۔ ہمیں لگا شاید ہماری منزل آن پہنچی ہے۔ کراچی آن پہنچا تھا۔ کراچی تو آ رہا تھا مگر ہماری منزل ابھی نہیں آئی تھی۔ ابھی لانڈھی اسٹیشن آیا تھا۔ گاڑی بس دو منٹ کے لئے لانڈھی رکی اور پھر کراچی اسٹیشن کے لیے نکلی پڑی۔ کچھ ہی دیر کے بعد کراچی ریلوے اسٹیشن آگیا۔ سورج تقریباً ڈوب رہا تھا۔

The post ریل کہانی؛ فیصل آباد تا کراچی ریل کا ایک یادگار سفر appeared first on ایکسپریس اردو.


علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

برج حمل
سیارہ مریخ ، 21 مارچ تا20اپریل
آپ کا سیارہ مریخ سفر کے خانے میں ابتدائے ہفتہ پیر اور منگل متحرک ہورہا ہے۔ ایسے میں آپ کی جیب کا سیارہ اخراجات کے خانے میں جاچکا ہے۔ اخراجات بڑھ سکتے ہیں، سفر ہوسکتا ہے، بہن بھائیوں اور قریبی لوگوں سے کچھ تلخی ہوسکتی ہے۔ اس ہفتے اولاد سے راحت ملے گی ، سفر سے متعلق کیریئر والوں کے لیے اچھے دن آچکے ہیں۔

برج ثور
سیارہ زہرہ ، 21اپریل تا 20 مئی
مشتری بارھویں گھر میں متحرک ہے۔ لوگوں کی فلاح و بہبود کا جذبہ جاگے گا۔ بیرون ملک سرمایہ کاری سے فائدہ ہونے کی امید قوی ہے۔ ہوسکتا ہے لگایا گیا پیسہ اس ہفتے فائدہ نہ دے لیکن اگلے دو ہفتوں میں فائدہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ گذشتہ ہفتے کی پچیدگیاں نہ صرف دور ہوجائیں گی بلکہ جو لوگ تعاون سے گریزاں تھے آپ کے اچھے معاون ہوسکتے ہیں۔ یکم فروری کسی مہربان سے ملاقات ہونے کا یوگ موجود ہے۔

برج جوزا
سیارہ عطارد ، 21مئی تا 21 جون
آپ کا سیارہ ابھی کم زور جگہ ہے لیکن یہاں سے اس کی نظر آپ کی جیب کو وزنی کررہی ہے۔ بقول شخصے شیخ گرتا بھی ہے تو پیسہ ہی نیچے ہوتا ہے۔ یکم، تین اور چار فروری کو آپ کی آمدن میں اضافہ ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔اولاد اور بیرون ملک سرمایہ کاری یا ان سے ملک کاموں سے فائدہ، عزت اور آپ کی شخصیت میں نکھار آتا ہوا نظر آتا ہے۔

برج سرطان
سیارہ قمر ، 22جون تا 23 جولائی
ایک دوست پریشانی اور نیند کی خرابی کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسا اولاد کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ یہیں آپ کے تین اچھے دوستوں میں سے ایک دوست آپ کا اچھا مشیر ثابت ہو اور بزرگانہ معاونت کا حق ادا کرسکتا ہے۔ ازدواجی زندگی میں جاری توتومیں میں ایک نیا رخ اختیار کرسکتی ہے۔ بظاہر لگتا ہے چپ ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس ہفتے مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔

برج اسد
سیارہ شمس ، 24جولائی تا 23 اگست
آپ کا سیارہ دلو سے گزر رہا ہے جہاں زحل بھی موجود ہے۔ مارکیٹنگ کا شعبہ آپ کو بڑے دوررس نتائج دے سکتا ہے۔ آپ کا کیریئر ان دنوں کچھ ہوا میں رسی کی طرح ڈول رہا ہے، لیکن مقدر میں مشتری چمکنے والا ہے۔ جلد اس گردش سے آپ نکلنے والے ہیں اور بڑی کام یابیاں سمیٹنے کا وقت آرہا ہے، لہٰذا تن من سے اپنے کام میں جان لڑادیں۔

برج سنبلہ
سیارہ عطارد ، 24 اگست تا 23 ستمبر
آپ کا سیارہ اولاد اور محبت کے خانے میں موجود ہے اور زحل چھٹے میں شمس کے ساتھ محبوب اور اولاد سے وابستہ امیدیں پوری نہیں ہوںگی۔ آپ کو ذہنی و جسمانی الجھن کا سامنا ہوسکتا ہے۔ بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ اس ہفتے پانچ فروری کو جب چاند چودھویں کا ہوگا اس میں شدت آسکتی ہے۔ آمدن میں اضافہ مشقت اور مشکل سے ہوگا، بلکہ کچھ پیسہ ضائع بھی ہوسکتا ہے۔

برج میزان
سیارہ زہرہ ، 24 ستمبر تا 23اکتوبر
اس ہفتے مالی فائدہ ضرور ہوگا، لیکن ہوکے نقصان کا اندیشہ ہے یا خرچ ہوسکتا ہے اور یہ خرچ بلاارادہ بھی ہوسکتا ہے۔ آپ کے اولاد کے خانے میں شمس و زحل موجود ہیں اور اسی ہفتہ کے آخری دن جب چاند جوانی پر ہوگا اولاد سے راحت ملنے کی امید ہے۔ خوشی کے لمحات ہوسکتے ہیں۔ آپ کا سیارہ زہرہ کام کے مقام پر یکم فروری کو چاند سے اچھی نظر بنائے گا۔ یہ وقت مالی فائدے کے اشارے دے رہا ہے۔

برج عقرب
سیارہ پلوٹو ، 24 اکتوبر تا 22 نومبر
آپ کے صحت کے خانے کا مالک موذی امراض سے متاثر ہورہا ہے۔ مقعد سے متعلق کچھ مسائل سانس کی تنگی کے امراض کو جنم دے سکتے ہیں۔ ان امراض سے متاثر کرسکتے ہیں ان امراض کو بڑھاوا مل سکتا ہے۔ بہت زیادہ احتیاط کی کا مشورہ ہے۔ خصوصاً ان افراد کو جو بچے، بوڑھے یا ان امراض کے مستقل مریض ہیں۔ آپ کی جیب کا مالک سیارہ بھی اسی خانے میں ہے۔ گویا اخراجات بھی اسی مد میں اٹھ سکتے ہیں۔

برج قوس
سیارہ مشتری ، 23 نومبرتا 22 دسمبر
سفر کا خانہ کھل چکا ہے۔ بزنس یا زیارات کے لیے سفر ہوسکتا ہے۔ مالی فائدہ بھی ہونے کی امید ہے ، لیکن ازدواجی حوالے سے ممکن ہے یہ ہفتہ زیادہ تعاون نہ کرے۔ اس سلسلے میں کچھ صبر سے کام لینا بہتر ہے۔ آپ کا مشتری آپ کے دماغ میں نئی راہیں لائے گا۔ دماغ خوب کام کرے گا۔ گذشتہ دنوں جو الجھاؤ تھے وہ دور ہوچکے ہوں گے اور آسانیوں کی امید ہے۔

برج جدی
سیارہ زحل ، 23 دسمبر تا 20 جنوری
غیرمتوقع آمدن میں بہتری، قرض کا حصول، وراثتی فائدہ، انشورنس سے مالی حصول اور شریکِ حیات سے بھی مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس ہفتے آپ کے لیے کافی اچھی صورت حال کی امید کی جاسکتی ہے۔مکان کے حوالے سے کوئی ہلکی پھلکی اور عارضی الجھن ہوسکتی ہے۔ وہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ دوسرا مکان یا سواری کا حصول ممکن ہے۔

برج دلو
سیارہ یورنیس ، 21 جنوری تا 19 فروری
شمس وزحل آپ کے طالع میں قریب آرہے ہیں۔ عطارد بارھویں یعنی لاشعور کے خوابی سلسلے کو متحرک کررہا ہے اور صحت کا مالک سیارہ چاند جیسے ہی چودھویں کا ہوگا آپ غیرمرئی /نفسیاتی اور تخیلاتی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں۔ محتاط رہیں یہ الجھن بچوں سے متعلق بھی ہوسکتی ہے اور ازدواجی معاملہ بھی ہوسکتا ہے۔ دو اور تین فروری کو مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔

برج حوت
سیارہ نیپچون ، 20 فروری تا 20 مارچ
مالی فائدہ ضرور ہوگا، لیکن والدہ کی صحت اسپتال کا راستہ دکھاسکتی ہے۔ سانس کے مسائل، معدہ اور دل کے مسائل سر اٹھا سکتے ہیں۔ کوئی بزرگ آپ کے گھر تشریف لاسکتے ہیں۔ وراثتی مکان کے بارے میں بہن بھائیوں میں دوریاں ہوسکتی ہیں۔ آپ کا بھی معدہ اور ذہنی سکون متاثر ہوسکتا ہے۔ کوئی دوست امید بنا کے توڑ سکتا ہے۔ بڑے بھائی سے وابستہ امید ممکن ہے پوری نہ ہو۔

The post علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفے صائم
واٹس اپ (0333-8818706)
فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ:
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں۔
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش:
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے۔
ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے، یعنی باہم جمع کیجیے:
1+2+7+1+9+9=29
29 کو بھی باہم جمع کریں (2+9) تو جواب 11 آئے گا۔
11 کو مزید باہم جمع کریں (1+1)
تو جواب 2 آیا یعنی اس وقت تک اعداد کو باہم جمع کرنا ہے جب تک حاصل شدہ عدد مفرد نہ نکل آئے۔ پس یعنی آپ کا لائف پاتھ عدد/نمبر ہے۔
گویا تاریخ پیدائش سے احسن کا نمبر 2 نکلا۔
اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد ان کے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔”
حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ء ،ی،ق،غ) ، 2 کے حروف (ب،ک،ر) ، 3 کے حروف (ج،ل،ش) ، 4 کے حروف (د،م،ت) ، 5 کے حروف(ہ،ن،ث) ، 6 کے حروف (و،س،خ) ، 7 کے حروف (ز،ع،ذ) ، 8 کے حروف (ح،ف،ض) ، 9 کے حروف (ط،ص،ظ) ، احسن کے نمبر (1،8،6،5)
تمام نمبروں کو مفرد کردیں:(1+8+6+5=20=2+0= 2 )
گویا احسن کا نمبر2 ہے۔ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ” کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا:
(2+9+1=12=1+2=3)
گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
30جنوری تا 5 فروری 2023
پیر 30 جنوری 2023
آج کا حاکم عدد4 ہے۔حالات میں کچھ ایسا عجب کہ جس کی توقع یا گمان نہ تھا ہوسکتا ہے ، ایسے تمام امور پر نظر رکھیں جو آپ کی پریشانی کا باعث ہوسکتے ہیں۔

آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،3،6،7اور8 خصوصاً 2 کا عدد یا پیدائش کا دن پیریا نام کا پہلا حرف ب،ک یا ر ہے تو آج کا دن آپ کے لیے بہتر دن ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 4,5 اور 9 خصوصاً 4 کا عدد یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ا، ی یا غ ہے تو آپ کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔
صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِصدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔اسمِ اعظم ”یارحیم، یارحمٰن، یااللہ” 11 بار،یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔
منگل 31 جنوری 2023
آج کا حاکم عدد 3 ہے۔مشورے، راستے، خیال اور ارادے جو علمی، روحانی یا مادی ترقی کے لیے معاون ہوسکتے ہیں مل سکتے ہیں اچھا دن ہے۔اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2,3,4,7,8 اور9 خصوصاً 3 کا عدد ہے یا آپ کی پیدائش کا دن جمعرات ہے یا نام کا پہلا حرف ج، ل یا ش ہے تو آپ کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,5اور 6 خصوصاً 5 یا پیدائش کا دن بدھ ہے یا نام کا پہلا حرف ہ، ن یا ث ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی معذورسیکیوریٹی سے منسلک فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔وظیفۂ خاص”یاغفار، یاستار، استغفراللہ العظیم” 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ یکم فروری 2023
آج کا حاکم عدد 6 ہے۔ بدھ ایک ہوا کا نام ہے، پھیلتی خبر کا دن ہے اور 6 خوشی اور راحت کا نمائندہ ہے امید ہے آج کا دن خوشی اور راحت کی خبر لائے گا۔ 1،4،5،6،8 اور9 خصوصاً 9 کا عدد یا پیدائش کا دن منگل ہے یا نام کا پہلا حرف ص یا ط ہے تو آپ کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2،3 اور7 خصوصاً 2 یا پیدائش کا دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ب،ک یا ر ہے تو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔
صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کودینا بہتر ہے، تایا، چاچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔وظیفۂ خاص”یاخبیرُ، یاوکیلُ، یااللہ” 41 بار اول و آخر 11 باردرودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 2 فروری 2023
آج کا حاکم عدد 5 ہے۔بزرگوں سے اور ایسے افراد سے مشاورت بہتر ہوگی جو کہ آپ کے کام میں ایک بہتر تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ روحانی اور مادی دونوں حوالے سے ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،5،6،7 اور9 خصوصاً 1کا عدد یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ا،ی یا غ ہے تو آپ کے لیے بہتر دن ہے۔لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 3,4 یا 8 خصوصاً 8 کا عدد یا پیدائش کا دن ہفتہ ہے یا نام کا پہلا حرف ح یا ف ہے تو اندیشہ ہے کہ کچھ امور میں آپ کو مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: میٹھی چیز 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے، مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔وظیفۂ خاص”سورۂ فاتحہ 7 بار یا یاقدوس، یاوھابُ، یااللہ” 21 بار اول و آخر 11 بار درود شریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ 3 فروری 2023
آج کا حاکم عدد 9 ہے۔ ایک توانائی کی لہر آپ کو کچھ کر گزرنے کا ارادہ دے سکتی ہے۔ حالات میں بہتری کی امید ہے۔اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،3،5،6 اور7 خصوصاً 6 کا عدد یا پیدائش کا دن جمعہ ہے یا نام کا پہلا حرف و یا س ہے تو آپ کے لیے بہتری کی امید ہے۔لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش 4,8 اور9 خصوصاً 8 کا عدد یا پیدائشی دن ہفتہ یا جن کے نام کا پہلا حرف ح یا ف ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔
صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی، سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔وظیفۂ خاص”سورۂ کہف یا یاودود، یامعید، یااللہ” 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ 4 فروری 2023
آج کا حاکم عدد 3 ہے۔ پائے داری اور ترقی ایک ساتھ مل جائے تو اس کے اثرات کئی نسلوں تک جاتے ہیں۔ آج کا دن بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے۔ زمین کے کام کے لیے بہتر دن ہے۔اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2,3,4,7,8 اور9 خصوصاً 3 یا پیدائشی دن جمعرات یا نام کا پہلا حرف ج، ل یا ش ہے تو آپ کے لیے ایک اچھا دن ہوسکتا ہے۔لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،5اور6 خصوصا 5 کا عدد یا پیدائشی دن بدھ یا نام کا پہلا حرف ہ،ن یا ث ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔
صدقہ: 80 یا800 روپے یاکالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔وظیفۂ خاص”یافتاح، یاوھابُ، یارزاق، یااللہ” 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار 5 فروری 2023
آج کا حاکم نمبر 6 ہے۔اس ہفتے کا ایک اور خوب صورت دن، بزرگوں سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ مالی اور ازدواجی امور دونوں میں فائدہ ہوسکتا ہے۔اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں1،4،5،6،8 اور9 خصوصاً 9 کا عدد یا جن کا پیدائشی دن منگل ہے یا نام کا پہلا حرف ص یا ط ہے تو آپ کے لیے ایک اچھے دن کی امید ہے۔لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2،3 اور7 خصوصاً 2 کاعدد یا جن کا پیدائشی دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ب، ک یا ر ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 13 یا 100 روپے یا سنہری رنگ کی چیزیں گندم، پھل،کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاحی، یاقیوم، یااللہ” 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

ہیتھرو ایئر پورٹ پر سبز پاسپورٹ دیکھتے ہی مجھے قطار سے باہر نکال لیا گیا

$
0
0

تیسری  قسط

ٹرمینل 4 مسافروں سے بھرا پڑا تھا۔ بس کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ میں بس کی کھڑکی سے تجسس آمیز نظروں سے ہوائی اڈے کو دیکھنے لگا جس کی تب و تاب آنکھوں کو خیرہ کر تی تھی۔

ہر سُو آتی جاتی بسیں، کھلے احاطوں میں کھڑے اور چڑھتے، اُترتے ہوائی جہاز اور سڑکوں کے ساتھ بنی پارکنگ میں جمع لاتعداد انتظامی گاڑیاں جن پر برٹش ایئر ویز، Fedex اورچند دیگر کمپنیوں کے لوگوز لگے ہوئے تھے۔

بس پندرہ منٹ تک ہمیں لے کر ایئرپورٹ کے اندر گھومتی پھرتی رہی۔ راستے میں چند مقامات پر مسافروں کو اُتارنے کی غرض سے مختصر پڑاؤ کیا اور پھر ہمیں منزل تک پہنچا دیا۔

ٹرمینل نمبر پانچ شیشے سے مزین ایک وسیع و عریض عمارت تھی۔ اندر جاتے ہی میں نے وائی فائی انٹرنیٹ آن کیا جو محرق (بحرین) ایئرپورٹ کے برعکس بندشوں سے آزاد اورلامحدود وقت کے لیے تھا۔

اپنے دوست ذیشان علی کو فون کیا جو ہیتھرو کے باہر اپنی گاڑی میںموجود تھا۔ مجھے وہاںدس گھنٹے کے قریب قیام کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے پاکستانی پاسپورٹ کے لیے آن آرائیول (On Arrival) ویزا کی سہولت موجود نہ تھی وگرنہ میں چار پانچ گھنٹے تو باہرگھوم پھر سکتا تھا۔

یہ فلور دیگ سے چاول کا یک دانے چکھنے جیسا تھا جس سے پوری دیگ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ فلور جیسے پوری دنیا کی نمائندگی کر رہا تھا اور یُوں لگتا تھا جیسے پوری دُنیا کا ایک مینا بازار ہے جو یہاں سجایا گیا ہے۔

اس فلور کو مزید دو منزلوں میں تقسیم کیا گیا تھا جہاں بڑے بڑے برینڈز کے اسٹورز بھی تھے۔ اگرچہ یہ 28 اکتوبر کا دن تھا اور کرسمس میں لگ بھگ دو ماہ باقی تھے لیکن آنے والے تہوار کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ابھی سے رعایت دے دی گئی تھی۔

فلائٹ میںابھی تین گھنٹے باقی تھے۔ مختلف اسٹالز دیکھ رہا تھا کہ اس دوران جیولری کے ایک اسٹال سے مجھے ایک جوان لڑکی نے ہندی اُردو لہجے میںپکارا اور پوچھا کہ کیا آپ پنجاب سے ہیں۔

میں نے پہلے تو حیرانی سے اُسے دیکھا مگر پھر یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ چونکہ یہاں مختلف علاقوں سے لوگ آتے ہیں سو انہیں یہ سمجھنے میں کوئی دِقت نہیں ہوتی کہ کون کس جگہ سے آیا ہے۔

میں نے جب جواب میں بتایا کہ میں لاہور سے ہوں تو اُس کی خوشی دیدنی تھی۔ پھر وہ پندرہ بیس منٹ مجھ سے لاہور کی باتیں کر تی رہی اور جب میں نے اُسے یہ بتایاکہ میں وینکوور بطور لکھاری جا رہا ہوں تو اُس کی خوشی کئی گنا بڑھ گئی۔

اُس نے بتایا کہ وہ کیرالا کی رہنے والی ہے اور اُس کی ساس بھی فکشن رائٹر ہیں۔ اُس لڑکی کا نام ’بِندی‘ تھا۔ یہاں ایک چیز ہر جگہ موجود تھی، کاؤنٹر یا میز پر گلاسوں کے ہمراہ مٹکا سا دھرا ہوا تھا جس کے پانی میں پودینے کے پتوں کی آمیزش تھی۔

وہاں موجود ایک لڑکے نے میرے استفسار پربتایا کہ یہ پانی عام حالات میں تو صحت بخش ہے ہی، یہاں اسے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دُنیا بھر سے آئے مسافروں کے نظامِ انہضام کو محفوظ بنایا جائے۔ اسی اثناء میں اسکرین پر گیٹ نمبر نمودار ہو گیا سو میں بھی اپنا سامان اُٹھائے ساتھی مسافروں کے ہمراہ مقررہ گیٹ (42-B) کی جانب چل پڑا اور وہاں پہنچ کر اطمینان کا سانس لیا۔

لندن کی معلوم تاریخ کی ابتداء تقریباً چھ ہزار قبل مسیح سے ہوتی ہے۔یہ شہرقدیم ادوار سے حملہ آوروں اور بحری قذاقوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنتا رہا۔ ان پے درپے حملوں کی وجہ سے لندن کئی بار اُجڑا، کئی بار آباد ہوا۔ 43 ء میں اس علاقے پر رومیوں نے قبضہ کر لیا۔

انہوں نے یہاں ایک ایک بندرگاہ اور اس سے ملحق تجارتی بستی بنائی جس کا نام Londinium تھا۔انہوں نے اس شہر پر 43ء سے پانچویں صدی عیسوی تک حکمرانی کی۔

اس کے بعد کئی صدیاں یہ انگلستانی سیکسنز(Saxons) سے لے کر بحری ڈاکوؤں تک اور ڈنمارکیوں سے نارمنز(Normans) تک مختلف حملہ آوروں کے زیر تسلط رہا۔اسی دوران60ء میں ایک کیلٹک (Celtic)ملکہ Bou dicca نے حملہ آور ہو کر اس شہر کو آگ لگا دی جس کے نتیجے میں شہر خاکستر ہو گیا۔ اس آتش زدگی کو لندن کی تاریخ کی بڑی آتش زدگیوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

اس ہولناک حملے کے بعد شہر دوبارہ بسایا گیا تاہم 125ء میںبیرونی حملہ آوروں نے اسے دوبارہ جلا دیا ۔پھر تعمیر نو ہوئی اور آبادی کچھ برس کے اندر اندر چالیس ہزار سے زائد ہو گئی۔ اس شہر کی قسمت تب بدلی جب 1065ء میں ویسٹ منسٹر ایبے (West Minister Abbey) یہاں پر بنا۔ ایک سال بعد ولیم فاتح (William the Conqurer) ہیسٹنگ کا معرکہ جیتنے کے بعد انگلینڈ کا فرماں روا بن گیا۔

1067ء میں ولیم فاتح جسے ڈیوک آف نارمینڈی (Duke of Normandy)بھی کہا جاتا ہے، اس نے شہر کے موجودہ قوانین، حقوق اور سہولیات کی بنیاد رکھی۔ اُس نے اپنے دور میں ٹاور آف لندن تعمیر کروایا، جو بہت تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔

1176ء میں یہاں پر ایک شہرہ آفاق لکڑی کا پُل’ لندن ووڈن برِج‘ (London wooden bridge) بنا جسے کئی بار حملہ آوروں نے جلایا اور بالآخر یہاں پر ایک پتھر کا پُل تعمیر کر دیا گیا۔1199ء میں کنگ جون (King John)نے شہر کی خودمختاری کو تقویت دی جبکہ 1215ء سے میئر کے سالانہ انتخاب کا آغاز ہوا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کئی سال تک انگلینڈ کا کوئی دارالحکومت نہیں تھا۔

ا س کے بعد جی ٹیوڈر (G Tudor)اور سٹُواَرڈ (Stuard)بادشاہت کا دور آیا۔ اُن کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوتا گیاتو لندن کا گھیرا اور اہمیت بھی بڑھتی چلی گئی۔

جب ہنری دا ارتھ (Henry the earth) تخت پر فائز ہوا تو لندن کی آبادی اُس وقت ایک لاکھ سے زائد تھی۔1605ء میں کیتھولک فرقے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص گائے فوکس (Guy Fox)نے برٹش ہاؤس آف پارلیمنٹ کو بارود سے اُڑانے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اس کا یہ پلاٹ ناکام ہو گیا جسے gun powder plot کا نام دیا جاتا ہے۔

لندن والوں پر ایک اور بڑی مصیبت 1665ء میں آئی جب یہاں پر طاعون نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں تقریباً ایک لاکھ لوگ مارے گئے۔

تب لندن کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب تھی۔ 1666ء میں لندن کی عظیم آتش زدگی (The great fire of London) کے نتیجے میں زیادہ تر لکڑی کے بنے گھر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ اس دور کے بعد بکنگھم پیلس(Buckingham Palace) اور سینٹ پال کیتھدڑل(Saint Paul’s Cathedral) کی تعمیر ہوئی۔

مرکزی حکومت کے اداروں کے لندن کے قریب ویسٹ منسٹر منتقل ہونے اور یہاں کے تجارتی حجم میں اضافے نے اسے دارالحکومت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

بادشاہ ہنری (Henry)کی بیٹی الزبتھ اول(Elizabeth I) کا دور خوشحالی اور ترقی کا دور تھا۔ تاہم اس خوش حالی پر پروٹسنٹ اور کیتھولک کی باہمی آویزش نے منفی اثرات مرتب کیے۔ 1694ء میں بینک آف انگلینڈ بنا جس کی وجہ سے لندن کو ایک بین الاقوامی فنانشل پاور ہاؤس کی حیثیت حاصل ہوئی۔

اگرچہ 1840ء تک لندن کی آبادی 20 لاکھ ہو چکی تھی تاہم حالات پہلے کی مانند غیر یقینی ہی رہا کرتے تھے۔ شہر میں وقتاً فوقتاً ہیضہ اور دیگر وبائیںپھُوٹنے سے باسیوں کی زندگیاں خطرے سے دوچار رہتی تھیں۔

ملکہ وکٹوریہ کے عہد میں برٹش ایمپائراپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ اسی سنہری دور میں 1859ء میں لندن میں انڈر گراؤنڈ ریلوے سسٹم (Tube System)کا آغاز ہو چکا تھا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران لندن شدید بمباری کی زد میں رہا۔

پہلی عالمی جنگ میں فضائی حملوں کے نتیجے میں یہاں تقریباً 23 سو افرادکی ہلاکت ہوئی جبکہ دوسری عالمی جنگ میں بارہا فضائی بمباری کے نتیجے میں لندن میں کہیں زیادہ بھیانک تباہی ہوئی جب یہ ہلاکتیں 30 ہزار کے لگ بھگ جا پہنچیں۔

اس شہر نے طاعون کی وباء اور ایک بڑی آتش زدگی اور دوسری جنگ عظیم میں جرمن فضائیہ کی کارپٹ بمباری سمیت بہت سے سانحے دیکھے، لیکن یہ ہر آفت کے بعد پوری توانائی سے اُبھرا۔

لندن سے وینکوور

کچھ دیر بعد اناؤنسمنٹ (Announcement)ہوئی تو جہاز کی طرف چل دیے۔ یہاں بھی وہی طریقہ کار تھا، سب سے پہلے بزرگ، معذور ، اُن کے بعد بزنس کلاس اور آخر میں اکانو می کلاس والے۔ ہمارے اردگرد بہت سے کرسمس ٹری سجائے گئے تھے۔

میں اپنی قطار میں کھڑا انہیں دیکھنے میں محو تھا کہ چیکنگ پر مامور ایک انگریز خاتون میرے ہاتھ میں پکڑے سبز پاسپورٹ کو مشکوک نگاہوں سے گھورتی ہوئی قریب پہنچی اور آتے ہی پاسپورٹ طلب کیا اور پھرجب اس پر ایک ہی ویزہ کینیڈا کا دیکھا تو مجھے قطار سے باہر نکال لیا۔ سوال جواب شروع ہوئے تو میں نے اسے کہا کہ یہ ٹرانزٹ ہے۔

اس پر وہ مزید ناراض ہو گئی کہ میں نے اس کے سوالات کا جواب دینے کی بجائے کچھ اور بات کیوں کی۔ اس پر میں اور زیادہ گھبرا گیا۔ پہلی بار گھر سے نکلا تھا اور اس طرح کی صورتِ حال سے آشنا نہیں تھا، سو ہزار وسوسے مجھے گھیرے ہوئے تھے۔

آخر بھلا ہوا کہ ایک سوال کے جواب سے اسے پتہ چل گیا کہ میں ایک لکھاری ہوں اور اپنا ایوارڈ وصول کرنے جا رہا ہوں۔

اس پر پہلے تو اُس نے مجھے سر تا پا دیکھا اور با رہا دیکھا جیسے یقین نہ کر پا رہی ہو کہ لکھاری لوگ کیا اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ قصہ مختصر، اپنا مکمل اطمینان کرنے کے بعد اس نے کہا کہ میں معذرت چاہتی ہوں کہ آپ کو تکلیف اُٹھانا پڑی لیکن یہ میرے فرائض میں شامل ہے۔

اس کے بعد پڑتال میں شامل اس کے ساتھی انگریزمردوں کا رویہ بھی کچھ اس طرح کا تھا کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ یہ سب ہماری ڈیوٹی تھی، آپ کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، اس کے لیے معافی۔

ایئر کینیڈا کا یہ جہاز کسی طور بھی برٹش ایئر ویز سے کم تر نہیں تھا۔ رن وے پر کھڑے اس جہاز سے منعکس ہونے والی سورج کی کرنیں آنکھوں کو خیرہ کرتی تھیں۔

میری سیٹ بائیں جانب کی کھڑکی کے بالکل ساتھ تھی۔ ائیر پورٹ پر جہازوں کی آمد و رفت کا یہ عالم تھا کہ ہر منٹ میں برٹش ایئر ویز کا کوئی نہ کوئی طیارہ چڑھتا اُترتا دیکھا۔

جہاز نے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ایک موڑ کاٹا اور دھیرے دھیرے رفتار بڑھاتا ٹیک آف کر گیا۔ اس تاریخی شہر کی ہریالی دیکھ کر مجھے ایک بار پھر لاہور کی یاد آ گئی اور یہ سوچ کر میں من ہی من میں کُڑھنے لگا کہ کبھی لاہور کے اردگرد بھی بہت سے سرسبز و شاداب زرعی رقبے ہوا کرتے تھے اور ہم آسمان کا اصلی نیلا رنگ دیکھ پاتے تھے لیکن پھر سب خواب و خیال ہو گیا۔

سرمایہ داروں اور اجارہ داروں نے شہر کے چاروں جانب سونا اُگلتی ہریالی پر جدید رہائشی کالونیاں اور کمرشل زون تعمیر کیے اور اس سے اربوں کمائے۔

جس کے نتیجے میںلاہور کئی طرح کی آلودگیوں کا شکار ہو کر رہ گیا۔ اب تو یقین بھی نہیں آتا کہ یہ وہی لاہور ہے جس کے باسیوں کو اسّی(80) کی دہائی تک تازہ سبزیاں اور خالص دودھ شہر سے ہی میسر تھا۔

میرے ساتھ والی سیٹ پر اٹھائیس تیس برس کا عراقی لڑکا آن بیٹھاجو خاصا پریشان اور گھبرایا ہوا معلوم ہوتا تھا، کبھی ایئر ہوسٹس تو کبھی انچارج کے پاس جاتا۔ کچھ ہی دیر میں معاملے سے آگاہی ہو گئی۔

پتہ چلا کہ موصوف کی نوبیاہتا دلہن کا ہوائی جہاز کا یہ پہلا سفر ہے جسے اس کے ساتھ سیٹ نہیں ملی۔ کوئی بیس منٹ کی انتھک کوشش کے بعد وہ محترمہ کو اپنے ساتھ والی سیٹ پر لانے میں کامیاب ٹھہرے۔ تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ موصوف کا نام صالح ہے اور کئی برس ہوئے وہ عراق سے کینیڈا منتقل ہو چکا تھا اور اب وہیں کا شہری ہے۔

کینیڈا سکونت کے بعد وہ پہلی بار عراق واپس گیا اور بیاہ رچا کر دلہن کے ہمراہ وینکوور واپس جا رہا تھا۔ دونوں میاں بیوی باہمی گفتگو عربی زبان میں کر رہے تھے اور پھر چند ہی منٹوں میں دُلہنیا اپنے شوہر نامدار کی گود میں سر رکھ کر سو گئی اور موصوف مجھ سے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کرنے لگے۔

وینکوور کا پہلا ناشتہ، جتندرہانس اور پریم مان

اگلی صبح مجھے ہر حال میںآٹھ بجے سے پہلے ڈائننگ ہال پہنچنا تھا، اس لیے اپنی انہی سوچوں کے ساتھ اپنے بستر میں جا گُھسا۔ چالیس گھنٹوں سے زائد سفر نے تھکا کر رکھ دیا تھا۔ موبائل کا ٹائم آٹومیٹک ٹائم زون سے مل گیا۔

صبح سات بجے کا الارم لگا دیا۔ باوجود اس کے کہ رات بھر بے خوابی کی کیفیت رہی، صبح جاگا تو تھکاوٹ خاصی حد تک کم ہو چکی تھی۔ نہا دھو کر نیچے ہال میں پہنچا۔ راستے میں دیکھا کہ سب لوگ ایک دوسرے کو صبح بخیر کہہ رہے تھے، حتیٰ کہ وہ بھی جوآپس میں شناسا نہیں تھے۔

ہمارے فلور کی روم سروس دن کے اوقات میں ایک چینی کے پاس تھی، جب میں لفٹ کے قریب پہنچا تو اس نے کورنش بجا لاتے ہوئے گڈ مارننگ کہا۔ نیچے استقبالیہ سے لے کر ناشتے کی میز تک ہر کوئی ہر کسی کو گڈ مارننگ کہتا دکھائی دیا۔ وینکوور میں انگریزوں کے بعد سب سے زیادہ بسنے والی قوم چینی ہے۔

ہماری صبح کی میزبان ایک انگریز خاتون تھیں جن کا نام پیچ (Peach)تھا۔ وہ انتہائی مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔ ہال میں تمام میزیں پُر تھیں سو مجھے کچھ دیر کاؤنٹر پر انتظار کرنا پڑا۔ اور پھر جیسے ہی ایک میز خالی ہوئی تو وہ میزبان خاتون چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ سجائے چلی آئی۔

میں نے مینیو کارڈ دیکھ کر ڈبل روٹی، انڈے کا آملیٹ، جام، دودھ اور چائے کاآرڈر دیا جو منٹوں میں سرو (serve)کر دیا گیا۔ البتہ دودھ بالکل ٹھنڈا تھا۔ میں نے چائے میں مکس کیا تو وہ بہت ہی ٹھنڈی بنی۔ میں نے خاتون سے درخواست کی کہ آپ اس کو مجھے مائیکروویو اوون میں گرم کر دیں۔ اس نے ہنس کر کہا کہ ایسا نہیں ہوتا لیکن آپ ہمارے مہمان ہیں، سو کر دیتی ہوں۔

میں نے لاہوری انداز کی دودھ پتی بنائی، اس کی گرمائش سے جسم میں توانائی محسوس ہونے لگی۔ بل آیا تو میں نے ہوٹل والوں کی جانب سے دیا گیا واؤچر نکالا، جسے دیکھ کر میرے ہوش اُڑ گئے کہ اس پر پیکج میں ہوٹل کی جانب سے آفر کیے گئے ناشتے کا مینیو بھی درج تھا اور وہ میرے ناشتے سے یکسر مختلف تھا۔ مجھے خود پر غصہ آنے لگا کہ میں نے ناشتہ آرڈر کرنے سے پہلے واؤچر کیوں نہیں پڑھا۔ ایک بار پھر پیچ سے مدد طلب کی۔

اس نے کچھ دیر میرے واؤچر اور بل کو بغور دیکھنے اور سوچنے کے بعد ایک مسکراہٹ کے ساتھ مجھے حوصلہ دیا کہ ابھی آپ کو ایک ہفتہ مزید قیام کرنا ہے، اس دوران اسے ایڈجسٹ کر دیا جائے گا۔ اس نے اگلی بار سے واؤچر پہلے دکھانے کی ہدایت کی۔

ناشتے کے بعد ہوٹل سے باہر سڑک کی جانب آ گیا جس کی مغربی سیدھ انتہائی خوبصورت گھر بنے ہوئے تھے۔ اِن کے ساتھ قطار در قطار چنار پیڑوں کا سلسہ تھا، جن سے جھڑے پتوں نے سڑک اس طرح ڈھک لیا تھا کہ اسے سنہری پتوں کی سڑک کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ دس پندرہ منٹ کی چہل قدمی کے بعد میں واپس ہوٹل اپنے کمرے میں آ گیا۔ کمرے کی ایک کھڑکی کھولی، سورج اپنی بھرپور چمک کے ساتھ روشن تھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ اس موسم میں یہاں بارشیں عموماً بہت زیادہ ہوتی ہیں اور آسمان بادلوں سے ڈھکا رہتا ہے۔

سڑک کنارے مختلف اقسام کے درختوں کا سلسلہ گھروں کے ساتھ ساتھ تاحدِ نگاہ پھیلا ہوا تھا، مگر ان کی اکثریت پت جھڑ کے باعث بِنا پتو ں کے تھی، چند درخت ہرے، نیلے اور زرد پتوں سے لدے ہوئے تھے اور یہ پتے بھی تیز ہوا کے جھونکوں کی زد میں آ کر زمین بوس ہوئے جا تے تھے۔ درختوں کے نیچے باڑوں کے ساتھ لگی بیلیں ہری بھری اور پھولوں سے بھری پڑی تھیں۔ غرض طرح طرح کے رنگوں کے پتے اور پھول مِل کر عجب سماں دکھا رہے تھے۔

میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بھی پیڑوں کی رنگا رنگی دیکھ چکا ہوں، لیکن یہاں کے درختوں کے رنگ اور شباہت بالکل الگ ہے۔ مجھے ایک بار پھر سے یہ گماں ہوا کہ یہ محض پتّے نہیں بلکہ ایک سنہرے رنگ کی چادر ہے جو دھرتی نے اوڑھ رکھی ہے۔

بارہ بجے کے قریب پریم مان اور جتندر آ گئے۔ انہیں چوتھے فلور پر کمرہ ملا تھا اور وہ اپنا سامان وغیرہ کمرے میں رکھ آئے تھے۔ اس سے قبل دونوں سے فون پر تو بات ہو چکی تھی لیکن بالمشافہ ملاقات پہلی بار ہو رہی تھی۔ پریم مان ستّر برس کے پیٹے کے سفید اور کم بالوں والے ایک بزرگ تھے لیکن تندرست و توانا دکھائی دیتے تھے۔

ان کے ساتھ جتندر ہانس تھے جن کی کہانی کاری کے سوشل میڈیا پر خاصے چرچے ہیں۔ وہ پچاس برس کی عمر کے گورے چِٹے، چھ فٹ سے اُونچی قامت کے شخص ہیں جن کے بال بالکل سیاہ تھے ، البتہ ان کے قدرتی سیاہ یا رنگے ہوئے ہونے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

وہ بڑے پرتپاک انداز سے ملے اور پھر ہم گپ شپ کرتے پریم مان جی کی گاڑی میں بیٹھ کر ’سری‘ کی جانب چل دیے۔ وسیع و عریض سڑکیں، اُونچی اونچی عمارتیں دیکھتے، دریائے فریزر (Fraser)کے پل پر سے گزر کر ہم لوگ سری کی آبادی میں جا پہنچے ۔

ڈاکٹر رگھبیر سنگھ اور کیفے سپائس 72

یہ ایک پہاڑی کی ایک بستی ہے جس میں انتہائی سلیقے سے اُونچے نیچے راستے اور ان کے کناروں کے ساتھ ساتھ گھر بنائے گئے ہیں۔ ہماری پہلی منزل ڈاکٹر رگھبیر سنگھ کا گھر تھا جو برسہا برس سے پنجابی ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ بہت سے تراجم، کتب ، رسالہ ’سِرجنا‘اور لاتعداد خدمات ان کے کھاتے میں درج ہیں۔

پریم مان سے قبل ڈھاہاں کی جیوری کی سربراہی بھی چند برس تک ان کے ذمہ رہی۔ وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہفتہ وار ڈاکٹری چیک اپ کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے۔ کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر رگھبیر سنگھ اپنی اہلیہ اور داماد کے ساتھ پہنچ گئے۔

ان کا گھر ذرا چڑھائی پر تھا، کوئی دس کے قریب سیڑھیاں چڑھ کر داخلی دروازہ تھا۔ داخلی دروازے کے ساتھ ایک لمبوترا ڈبہ رکھا گیا تھا جس میں گھر والوں کے ساتھ ساتھ ہم باہر سے آئے لوگوں نے بھی جوتے اُتارے۔ ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ جو ٹھیٹھ ہندوستانی پنجابی سبھا کی خاتون تھیں، بہت پیار سے ملیں۔

ہندوستانی مٹھائیوں کے ساتھ گھر کی کچھ نمکین ڈشز بھی چائے کے ساتھ پیش کی گئیں۔ یہ جان کر حیرت آمیز مسرت ہوئی کہ ڈاکٹر رگھبیر سنگھ نے ہی پہلی مرتبہ ہندوستان میں نجم حسین سید کی کتاب ’سیدھاں‘ گور مکھی رسم الخط میں شائع کی تھی۔

میرے میزبانوں کو قطعاً اندازہ نہ تھا کہ ماں بولی کی اس ایکتا کے باعث میرے دماغ میں کس کس طرح کے خیالات اور تصورات جنم لے رہے تھے۔

ٹی وی لاؤنج میں آویزاں تصاویر، مُوڑھے، صوفے اور ان کے غلاف، غرض ہر چیز سے اس گھر کے پنجابی ہونے کا اظہار ہو رہا تھا۔ کچھ دیر وہاں بیٹھنے کے بعد ہم لوگ اہل خانہ سے اجازت لے کر دوپہر کے کھانے کے لیے نکلے جسے اب سہ پہر کا کھانا کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔

پندرہ بیس منٹ کی مسافت کے بعد ہم ایک بڑے تجارتی علاقے میں سپائس 72 نامی ہندوستانی کیفے میں داخل ہوئے۔

ہماری میز کے لیے ویٹرس کے فرائض ایک ہندوستانی لڑکی انجام دے رہی تھی۔ مغربی لباس میں ہونے کے باوجود اس کی بولی اس کی قومیت ظاہر کر رہی تھی۔

ڈاکٹر صاحب نے کچھ دیر اس سے بھی گفتگو کی جس سے تصدیق ہوئی کہ اس کا گاؤں لدھیانے کے قریب تھااور وہ انجینئرنگ کی چار سالہ ڈگری کے لیے کینیڈا میں تھی، اور نیشنیلٹی کے لیے اس کی فائل بھی سرکاری کھاتے چڑھ چکی تھی۔

اس لڑکی سے گفتگو سے ہمیں بطورِ خاص اس بات کا ادراک ہوا کہ کس طرح بیرونِ ملک کے اور خصوصاً ہندوستانی پنجاب کے طالبِ علم نہ صرف اپنے گھر والوں کے لیے سہارا ہیں بلکہ کینیڈا کی معیشت میں بھی ایک خاص کردار ادا کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر رگھبیر سنگھ سے باتوں میں ہم اتنے محو ہو گئے کہ وقت کا اندازہ ہی نہ رہا۔ ہمیں شام کے سات بجے سے پہلے وینکوور کے ایک مشہور ہندوستانی ہوٹل دہلی- 6 انڈین بِسٹرو (Delhi-6 Indian Bistro)پہنچنا تھا، جو کہ ہمارے موجودہ محل وقوع سے تقریباً پچاس منٹ کے فاصلے پر تھا۔

اگلی صبح کا آغاز جتندر کی روم فون کال سے ہوا جنہوں نے اپنے خاص دیسی انداز میں لفظ ’گڈ مارننگ‘ ادا کیا تو میں اپنائیت بھرے خوش کُن احساس سے دوچار ہوا۔ میں فریش ہو کر اپنے بیڈ پر واپس آیا تو بارج کی اِی میل میں اس روز کا شیڈول درج تھا۔

میں جلدی جلدی نیچے ویٹنگ ہال میں گیا۔ جہاں پر جتندر ہنستے مسکراتے کھڑے تھے۔ ڈائننگ ہال میں گئے تو ہماری ناشتے کی میزبان پیچ اپنی زندگی سے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ مِلی اور پوچھا گیا کہ آج ہم دو ہیں، تو جواب میں ہم دونوں نے اپنے ناشتے کے واؤچر نکال کر اسے دیے جن میں سے کچھ کھانے کی چیزیں منع کر دیں جو ہم دونوں کو ہی پسند نہ تھیں۔

اس دوران بارج کا بھی فون آگیا کہ آج کے شیڈول کے لیے بطورِ خاص تیار ہو کر آئیں۔ پھر یہی بات میں نے جتندر سے بھی کہی تو انہوں نے انتہائی معصومانہ انداز میں کہا:

’’ وِیرے فیر اج اسیں آپنی ٹَوہر کڈھنی اے۔‘‘

(بھائی، آج میں نے اپنی شان دکھانی ہے)

ناشتہ آیا اور چائے کے ساتھ گرم دودھ کا پھر مسئلہ آ گیا۔ میزبان خاتون پِیچ سے ایک مرتبہ پھر درخواست کی گئی تو اُس نے ہنس کر ہمیں ایک بڑے پاٹ میں بہت زیادہ دودھ لا دیا جس سے میں نے چائے بنائی اور جتندر سیدھا سیدھا دُودھ پی گئے۔

The post ہیتھرو ایئر پورٹ پر سبز پاسپورٹ دیکھتے ہی مجھے قطار سے باہر نکال لیا گیا appeared first on ایکسپریس اردو.

کوڑا کیسے ٹھکانے لگائیں؟

$
0
0

وطن عزیز میں ایک بڑا مسئلہ کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا ہے۔

بڑے شہر ہوں یا دیہات، ہر جگہ کچرے، گندگی اور کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومتی اداروں کو جہاں دستیاب وسائل کا بہترین استعمال کرنا چاہیے، وہاں مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے طویل المدتی منصوبہ بندی کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

اس ضمن میں شہریوں کو آگاہی دینے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح اپنے علاقے اور شہر کی صفائی میں کردار ادا کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کی مدد کر سکتے ہیں۔

’’لاہور ویسٹ منیجمنٹ کمپنی‘‘ (LWMC) نے موجودہ مسائل اور مستقبل کے چیلنجز کو پیش نظر رکھتے ہوئے صفائی کے لیے دنیا کے بہترین ماڈلز کی روشنی میں طویل المدتی منصوبہ بندی کا آغاز کیا ہے، جس کے ایک حصے کے طور پر شہریوں کی آگاہی کے لیے ’’لاہور صاف تو پاکستان صاف‘‘ مہم چلائی جا رہی ہے۔

چیف ایگزیکٹو آفیسر علی عنان قمر اپنے منصوبوں کی کامیابی کے لیے پرعزم ہیں۔ لاہور ویسٹ منیجمنٹ کمپنی (LWMC) کوشاں ہے کہ عوام کے تعاون سے پہلے مرحلے میں شہر کے کچھ حصوں میں صفائی اور کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے لیے مثالی صورتحال قائم کی جائے، بعدازاں شہر کے دوسرے حصوں اور پھر پورے شہر میں اس ماڈل پر عمل کیا جائے۔

ملک کے دوسرے شہروں میں بھی سرکاری اداروں کو صفائی کے لیے جدید طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔ اصلاح احوال کے لیے ہمیں اس طریقہ کار پر عمل پیرا ہونا چاہیے جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اختیار کیا۔ اس طریقہ کار کی تفصیل کچھ یوں ہے:

(1) کوڑے کی مقدار کم کرنا

پہلا مرحلہ reduce یعنی کوڑے کے مقدار میں کمی ہے۔ عوام میں یہ آگاہی پھیلائی جائے کہ کم سے کم کوڑا پیدا کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیمی اداروں اور گھروں تک میں بچوں کو یہ بتایا ہی نہیں جاتا کہ آپ نے کچرے کو باہر سڑک پر، راستے یا میدان میں نہیں پھینکنا۔ بچوںکا کیاگلہ کریں یہاں تو پڑھے لکھے، سمجھدار لوگ موٹروے پر بھی کچرا پھینک دیتے ہیں۔

اس لیے آپ کو وہاں بھی بوتلیں اور ریپیرز نظر آئیں گے۔ باقی شہر کا حال تو عوام اچھی طرح سے جانتی ہے۔ ہر دکان کے باہرڈبے، ٹشوپیپراورپلاسٹک کپ پڑے ہوئے ملتے ہیں۔

(2) کچرے کو الگ الگ کرنا

دوسرا مرحلہ segregation ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کچرے کو الگ الگ کرنا۔ یعنی خوراک والی چیزیں الگ، پلاسٹک،گتہ وغیرہ الگ اور لوہا شیشہ وغیرہ الگ۔ دوسرے ممالک میں روزانہ کی بنیاد پر کچرا نہیں اٹھایا جاتا بلکہ وہاں دو تین دن مقرر ہوتے ہیں۔

لوگ گھروں کا کچرا اسی دن اٹھاکر باہر رکھتے ہیں اور انھی مخصوص دنوں میں میونسپل اہلکاراس کو اٹھا لیتے ہیں۔ شہریوں کی لاپروائی کی وجہ سے LWMC شہر کے مختلف حصوں سے دن میں تین بار کوڑا اٹھاتی ہے۔ یہاںصبح، دوپہر اور رات کی شفٹ چلتی ہے لیکن اس کے باوجود کوڑ اختم نہیں ہوتا۔

ان دونوں مراحل کو آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ آپ کے گھر کا جو کوڑا ہوتا ہے اس کو موٹا موٹا تقسیم کیاجائے تو اس کی تین اقسام بنتی ہیں۔ ایک کچن کاکچرا ہے جس میں سبزی، فروٹ، بچا ہوا کھانا، روٹی چاول وغیرہ شامل ہے۔

انھیں ہمیں بالکل ہی الگ کرنا چاہیے کیوں کہ یہ آگے جا کر سارے کوڑے کو خراب کر دیتا ہے۔ دوسراعام قسم کا کوڑا ہے جس میں پلاسٹک، پیکنگ میٹریل، گتہ، کپڑا وغیرہ شامل ہیں۔ تیسر ی قسم کے کچرے میںمیں لوہا اور شیشہ وغیرہ آتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں اس کوڑے کو تین مختلف رنگوں کے کچرا بیگز میں ڈالا جاتا ہے یا ان رنگوں کے کچرا ڈبوں میں پھینکا جاتا ہے۔ اس سے کوڑے کی مقدار کم ہوتی ہے اور اسے ان کی ساخت کی مناسبت سے ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔

اسی تناظر میں آزمائشی طور پر LWMC نے بھی شہر کے مخصوص حصوں میں سہ رنگی مہم شروع کی، جس میں تین رنگ لال، پیلا اور سبز متعارف کرائے ہیں۔ سبز رنگ قدرتی کچرے (روٹی، سالن، چاول وغیرہ) کے لیے مقرر کیا ہے۔

پیلا رنگ پلاسٹک اور گتہ وغیرہ کے لیے ہے جبکہ لال رنگ لوہے، شیشے وغیرہ کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ اس طریقہ کار کو عملی طور پر متعارف کرتے ہوئے LWMC نے گورنمنٹ آفیسرز ریزیڈنس 6، قربان لائن پولیس، چترال لائن (آرمی یونٹ) اور والڈ سٹی آف لاہور کے ساتھ مل کر کام شروع کیا ہے۔

ان چاروں مقامات سوجھان سنگھ کی گلی، قربان لائن، جی او آر 6 اور چترال لائن کو عملی نمونے کے لیے منتخب کیا گیا، کیونکہ یہاں پر نظم و ضبط دوسرے علاقوں کی نسبت کافی بہترہے۔ ان علاقوں میں تین رنگوں کے ڈبے رکھوائے ہیں۔

گھروں میں فی الحال کمپنی خود شاپر مہیا کر رہی ہے کہ ان تین رنگوں کے مطابق ان میں کوڑا ڈالا جائے، LWMC خود انہیں اٹھا کر ٹھکانے لگائے گی اور اس ماڈل کو بتدریج پورے لاہور میں لاگو کیا جائے گا۔

(3) کچرا اٹھانے کے نظام میں بہتری

اس کے بعد کوڑا اٹھانے کی باری آتی ہے۔ ہمارا رائج نظام ٹھیک نہیں۔ گھروں میں صفائی کرتے وقت سارا گند دروازے کے باہرجمع کرکے اس میں کچن کی بالٹی اور گھر کاکچرا بھی الٹ دیتے ہیں۔ اس کے بعد LWMC کا کارکن آتا ہے، وہ آس پاس کی صفائی کرکے سارے گند کو اکھٹا کرتا ہے اور سب کو ایک کنٹینر میں ڈال دیتا ہے۔

یہ کنٹینر ٹرک میں چلا جاتا ہے اور اسی ٹرک میں علاقے بھرسے جمع کیا گیا گند بھی موجود ہوتا ہے، جس کو کچرا اکٹھا کرنے کے عارضی مقامات TCP (Temporary Collection Point) پر لے جایا جاتاہے۔ جہاں مٹی،گرد، کچرا، پانی، درخت کی شاخیں، اینٹیں سب کچھ اکھٹا کر لیا جاتا ہے۔

اس کے بعد بلڈوزر سارے گند کو اٹھاتا ہے اور شہر سے باہر ’’لکھوڈھیر‘‘ لے جاتا ہے، وہاں اس سارے گند پر مٹی ڈال کر دبادیا جاتاہے۔ گھر کے کچرے سے لے کر TCPتک ہم سارے گند کو مکس کرتے جاتے ہیں، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کچرے کی ویلیو ختم ہوجاتی ہے۔

یادرکھیں کہ کچرے کی اپنی اہمیت ہے، کوئی اس کو جلاتا ہے اور کوئی ری سائیکل کرنا چاہتا ہے۔ ضروری امر یہ ہے کہ کچرا جمع کرنے کے نظام کو بہتر کیا جائے۔ اگر گھروں سے ہی کچرا الگ الگ کر کے مختلف رنگوں کے شاپر میں LWMCکے حوالے کریں تو اس کو بڑی آسانی کے ساتھ ڈمپ یا ری سائیکل کیا جا سکتا ہے۔

(4) کچرے کا مفید استعمال

کچرے کے مفید استعمال کے لیے دنیا میں مختلف طریقے رائج ہیں۔ LWMC پہلے سے کچھ طریقوں پر عمل پیرا ہے اور دیگر کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

ایک طریقہ یہ ہے کہ کچھ ٹن کچرا ایک مشین میں ڈال کر الگ الگ (Segregation)کرتے ہیں، یعنی پلاسٹک، لکڑی، خوراک کی چیزوں، لوہا، شیشہ وغیرہ کو علیحدہ کر کے کاٹ کر ہوا میں خشک کیا جاتا ہے۔

اس کو پانی لگاتے ہیں، پھر سکھاتے ہیں، پھر پانی لگاتے ہیں تاکہ وہ Decompose ہو جائے، اس سے ’’بیلیا‘‘ نامی کھاد تیار کی جاتی ہے۔ اس میں سبز کچرے (کچن کا کچرا) کو شامل کر کے کھادکی اثرپذیری بہتر کی جاتی ہے۔

دنیا میں کچرے کو توانائی کے حصول (Waste to Energy)کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ LWMC نے اس مقصد کے لیے کئی کمپنیوں سے رابطے کے بعد ENATE سے معاہدہ کیا ہے۔

یہ کمپنی روزانہ کی بنیاد پر دو سے تین ہزار ٹن کچرے سے 60 سے 70 میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتی ہے۔ ان کے نرخ واپڈا سے کم ہیں، یہ کمپنی 30 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے جو بجلی پیدا کرے گی وہ مقامی سطح پر استعمال کی جائے گی۔ ’’سندر انڈسٹریل اسٹیٹ‘‘، ’’میٹرو ٹرین‘‘ اور ’’قائداعظم نالج پارک‘‘ کو یہ بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔

علاوہ ازیں اس ضمن میں چین کی کمپنی CNEEC کی مہارت کا فائدہ اٹھانے کے لیے ان سے بھی بات چیت ہو رہی ہے۔

ان کمپنیوں کے پاس ایسی مشینری ہے جو زیادہ درجہ حرارت میں کوڑا جلاتی ہیں، جس سے پلاسٹک کے تمام زہریلی مواد ختم ہوجاتے ہیں اور وہ ماحول کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ کچرے میں آنے والے گوبر کو بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ اس سے بائیوگیس بنا کر مقامی آبادی کو مہیا کرنے کے لیے LWMC نے دو تین کمپنیوں سے رابطہ کیا ہے۔

شہر میں آلودگی کم کرنے اور صفائی کی صورتحال میں بہتری کے لیے LWMC نے دیگر اقدامات بھی کیے ہیں۔ موسم سرما میں لاہور میں سموگ بہت زیادہ ہوتی ہے۔

اس کے لیے بڑے ٹرکوں میں پانی بھرکر سڑکوں کو دھویا گیا تاکہ سڑکیں صاف ہوں اور گند اوپر نہ اٹھے۔ سڑکوں کے درمیان بنائے گئے چھوٹے فٹ پاتھوں اور ان کے اطراف میں ٹریفک کی وجہ سے بہت زیادہ گرد جمع ہو گئی تھی، جسے خاص طور پر صاف کرایا گیا۔

لاہور کی مرکزی سڑکوں جیسا کہ ایم ایم عالم روڈ، مال روڈ، فیروزپور روڈ اور کنال روڈ کو ہر رات دھویا جاتا ہے تاکہ کچراکم سے کم ہو۔ ان شاہراؤں پر صفائی کے لیے ’بائیک اسکواڈ‘ بھی متعارف کرائے جا رہے ہیں۔

یہ کارکن ہوا میں اڑتے شاپروں، خالی ڈبوں اور دوسرے کچرے کو اٹھاکر بائیک میں لگی ڈسٹ بن میں ڈالیں گے تاکہ یہ کچرا آلودگی کا باعث نہ بنے اور لوگوں کو آگاہی بھی ملے کہ کچرا ڈسٹ بن میں ہی پھینکیں۔

ویکیوم گاڑیوں کے ذریعے خشک پتوں اور دیگر کچرے کو صاف کرنے کا پراجیکٹ بھی شروع ہونے والا ہے۔ ’’محمود بوٹی‘‘ کچرا گھر کو کو مٹی سے ڈھک دیا گیا ہے، اب ادھر سیکڑوں پودے لگا کر اسے سرسبز بنایا جائے گا۔

’’صرف کچرا اٹھا لینا کوئی کمال نہیں‘‘ علی عنان قمر

علی عنان قمر بیوروکریٹ اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے موجودہ چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ وہ شہر کی صفائی اور مستقبل کے منصوبوں کے متعلق پرجوش ہیں۔ اپنے تجربات اور درپیش چیلنجز کے بارے میں انہوں نے تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا:

’’پنجاب کے تین اضلاع میں ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے کام کیا، وہاں ہم محدود دائرے میں کام کرتے، کیوں کہ ہمارے پاس دو اڑھائی سو بندوں کا اسٹاف تھا جس سے ہم نے پورا شہر صاف کرنا ہوتا۔ جب لاہور ویسٹ منیجمنٹ کمپنی میں آیا تو مجھے بتایا گیا کہ ہم پانچ ہزار ٹن کچرا روزانہ کی بنیاد پر اٹھا رہے ہیں۔

ایک دن میں نے پوچھا کہ یہ سارا کوڑا جاتا کہاں ہے؟ مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے پاس اس مقصد کے لیے دو مقامات ہیں۔

پہلے لاہور کے نواح میں واقع ’’محمود بوٹی‘‘ کے علاقے میں ایک جگہ اس کوڑے کو پھینکا جاتا تھا، اب اس مقصد کے لیے ’’لکھوڈھیر‘‘ ہے۔ مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پہنچ کر کچرا دیکھا تو میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔

مجھے بتایا گیاکہ یہاں کم و بیش 19 ملین ٹن کچرا پڑا ہوا ہے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ گزشتہ دس سالوں میں ان دونوں سائٹس پر جتنا کچرا جمع ہوا، وہ سب ہم نے اکھٹاکرکے رکھا ہوا ہے۔

’’لکھو ڈھیر‘‘ کھدائی کرائی تو تین چار فٹ نیچے تک بھی پلاسٹک بیگز اور پیمپرز ویسے کے ویسے پڑے ہوئے ملے۔

اس سارے منظر کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ فقط کوڑا اٹھانا کوئی کمال نہیں، کیوں کہ وہ تو مجھ سے پہلے آفیسرز بھی اٹھاتے رہے اور میرے بعد آنے والے بھی یہی کام کریں گے لیکن اس کچرے کو ٹھکانے کیسے لگانا ہے؟کیوں کہ کچرے کے اس پہاڑ سے میتھین گیس پیدا ہو رہی ہے۔

میتھین گیس کے متعلق دنیا میں جو قابل قبول معیار ہے، ’’لکھوڈھیر‘‘سائٹ کے تجزیے کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں سے چھ گنا زیادہ میتھین گیس پیدا ہو رہی ہے جو ہمارے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ یہ چیز نہ صرف لاہور کے ماحول کو خراب کر رہی ہے بلکہ پورے ملک اور دنیا کے لیے خطرے کا باعث ہے۔

دوسری بات یہ کہ ’’لکھوڈھیر‘‘ میں کچرے کے پہاڑوں سے جو پانی رس رہا ہے وہ انتہائی غلیظ، کالا اور زہریلا ہے، جو زیر زمین جاکر صاف پانی میں مل رہا ہے۔

ہم اگر یہ سوچ کر مطمئن ہو جائیں کہ ’’لکھوڈھیر‘‘ کا پانی زہریلا ہے اور اقبال ٹاؤن کا صاف ہے تو یہ ہماری غلط فہمی ہے۔کیوں کہ زہریلاپانی زیر زمین سفر کرتا ہے اور صاف پانی میں مل جاتا ہے۔

ہم اس پانی میں موٹریں لگا کر دوبارہ سے کچرے پر اسپرے کر رہے ہیں تاکہ یہ زہریلا پانی زمین میں جانے کے بجائے کچرے میں جائے اور زمین کا صاف پانی اس سے محفوظ رہے۔

ہمیں احساس ہوا کہ ہم اپنے لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی نہیں فراہم کر رہے اور نہ ہی ہماری عادات تبدیل ہو رہی ہیں۔ کیوں کہ صرف کوڑا اٹھا لینا کوئی کمال نہیں، آبادی میں اضافے کے ساتھ کچرا بھی بڑھتا جائے گا۔ ہمارے پیش نظر یہی مقصد تھا کہ ہماری کمپنی کانام ’’لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی‘‘ ہے لیکن ہم اتنے زیادہ کوڑے کا مناسب بندوبست نہیں کر رہے۔

اگر یہی طرز عمل جاری رہا تو مستقبل میں اس مسئلے سے نمٹنا مشکل تر ہو جائے گا۔ چنانچہ ’’ویسٹ مینجمنٹ‘‘ کے متعلق ہم نے تحقیق شروع کی اور یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھیں۔ آسٹریلیا اور جنوبی امریکا کے ’’ویسٹ مینجمنٹ‘‘ نظام پر خاص توجہ دی۔

یہیں سے ہمیں کچرے کے بارے میں بین الاقوامی سطح پراستعمال ہونے والے طریقہ کار اور اصطلاحات کا علم ہوا۔ جس کی روشنی میں ہم یہاں بھی مختلف اقدامات کرنا چاہتے ہیں تاکہ دنیا کے ان کامیاب ماڈلز کو اپناتے ہوئے ہم بھی کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے جدید طریقے اختیار کریں۔ اس طرح نہ صرف موجودہ صورتحال میں بہتری آئے گی بلکہ مستقبل میں بھی اس مسئلے سے نمٹنا آسان ہو جائے گا۔‘‘

The post کوڑا کیسے ٹھکانے لگائیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

ہفتہ وار منصوبہ بندی اپنائیے

$
0
0

 انسانی فطرت ہے کہ وہ مقصد، اہداف، خواب، خواہشات کی تکمیل کرکے سکون محسوس کرتا ہے، مگر مقاصد کا حصول تب ہی ممکن ہوتا ہے، جب انھیں حاصل کرنے کے طریقے اور راستے بالکل واضح ہوں۔ لیکن اگر منزل کا تعین اور منصوبہ بندی درست طریقے سے نہ کی جائے تو پھر منزل خواب ہی رہتی ہے۔

منصوبہ بندی کی ابتدا ہی میں لوگوں کی کثیر تعداد بے زاری کا شکار ہوکر یکسانیت سے اُکتا جاتی اور مقصد ادھورا چھوڑ کر ، سمت تبدیل کرلیا کرتی ہے۔

لہٰذا مقصد کے حصول اور اہداف کی تکمیل کے لیے صحیح راستوں اور طریقوں کے انتخاب کے ساتھ موثر منصوبہ بندی بہت ضروری ہے، تاکہ وقت اور توانائی برباد نہ ہو۔

 اہداف کی تکمیل ادھوری کیوں؟

اکثر دیکھا گیا ہے کہ منصوبہ بندی کے باوجود سال کے اختتام پر کام مکمل نہیں ہوپاتے یا سال کے آخر میں زیادہ تیزرفتاری سے ہدف مکمل کرنے میں کاموں کا جو اضافی بوجھ آ پڑتا ہے، وہ ذہنی دباؤ اور تناؤ کا باعث بنتا ہے۔ دوسری صورت میں جلدبازی کے باعث پیداواری صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔

منصوبہ بندی پر عمل نہ کرنے کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ہم پورے سال کو پلان کرتے وقت بڑے بڑے اہداف اکٹھا طے کر لیتے ہیں۔

ایک سال میں چوںکہ تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں تو ہم وقت کافی سمجھ کر کاموں کو کل پر ٹالتے رہتے ہیں۔ کام زیادہ یا مشکل ہونے کی صورت میں ہم آغاز دیر میں کرتے ہیں یا شروعات میں ہی حوصلہ کھو بیٹھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سال ختم ہوجاتا ہے لیکن مقاصد ادھورے رہتے ہیں۔

 ہفتہ وارمنصوبہ بندی:

اپنا حوصلہ بڑھانے اور اطمینان حاصل کرنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی سوچ کو سالانہ منصوبہ بندی سے نکال کر ہفتہ وار منصوبہ بندی پر لے آئیں۔

اگر ہم ایک مہینے کو سمیٹ کر ہفتے پر لے آئیں گے تو کہیں زیادہ فوکس کرنے کے قابل ہوں گے، اسےThe 12 week year approach کہتے ہیں، جو کہ اس مضمون کا اصل موضوع ہے۔

کتاب The 12 week year میں اس کتاب کے مصنف Brian p. Moran and Michael lennington اپنے کاموں پر فوکس، دل چسپی، شوق کو بڑھانے کے لیے یہ اپروچ تجویز کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے آپ اپنے کاموں کو کافی حد تک بارہ ہفتوں میں مکمل کرسکتے ہیں۔

چوںکہ ایک سال یعنی بارہ مہینوں میں اڑتالیس ہفتے یعنی بارہ ہفتے چار دفعہ آتے ہیں، تو اس طرح آپ کے پاس کاموں کو نمٹانے کے لیے زیادہ وقت ہوتا ہے۔ آپ اپنے وسائل کا بخوبی استعمال کرسکتے ہیں۔

اطلاق کیسے ممکن ہے:

روزمرّہ زندگی میں The 12 week year approachکا اطلاق کرنے کا طریقہ کار بھی آپ کے سب سے بڑے ویژن کی پلاننگ کے آغاز سے ہوتا ہے، کہ آپ اپنی ساٹھ، ستر سال کی زندگی میں خود کو کہاں دیکھنا چاہتے ہیں؟ مصنف کے مطابق اس کے تین مراحل ہیں۔

1۔ سب سے پہلے اپنا دس سال پر مشتمل طویل مدتی (لونگ ٹرم) ویژن لکھیے۔

2۔ اس کے بعد مختصر مدتی ویژن یعنی تین سے پانچ سال کے اہداف لکھیے۔

3- ویژن کا تیسرا مرحلہ بارہ ہفتوں پر مشتمل ہے۔

ویژن کیوں ضروری ہے:

انسان کا جو مقصد ہو اسی کے لیے وہ سوچتا، لائحہ عمل تیار کرتا، پلاننگ و کوششیں کرتا ہے اور یہ طے شدہ بات ہے کہ انسان جس چیز کے لیے بھی جہدمسلسل کرتا ہے، وہی تعبیر بن کر زندگی میں سامنے آتا ہے۔ لہٰذا مقصد ہی وہ اہم چیز ہے جو انسان کو جینے کا جواز دیتا ہے۔

اسے غیرضروری تفکرات سے پاک کرکے اس کی توجہ اور دل چسپی کو کسی ایک نکتے پر مرکوز کر دیتا ہے۔ اس کی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ وہ توانائی اور وقت کا بھرپور استعمال کرکے، زندگی گزارنے کا حقیقی لطف اٹھاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق مقصد کے تحت زندگی گزارنے والے زیادہ جیتے ہیں، زندگی کا اصل حق ادا کرتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی اپنے کاموں کے طفیل کائنات میں اپنے ان مٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں، جو موت کے بعد بھی ان کی یاد کو زندہ رکھتا ہے۔

تو سب سے پہلے آپ اپنی زندگی کا (لونگ ٹرم) طویل مدتی ویژن، مقصد متعین کریں تاکہ اس کے مطابق اپنی منصوبہ بندی کا آغاز کرسکیں۔

بارہ ہفتوں کا لائحہ عمل:

اس کا آغاز مقصد کے تعین کے بعد ہوتا ہے۔ بارہ ہفتے کے لیے کم سے کم ایک بہت بڑا ہدف بنائیے یا اہم اہداف زیادہ سے زیادہ تین طے کیجیے۔ یاد رکھیے یہ بہت واضح ہونا چاہیے، ورنہ تاخیر کا باعث ہوگا۔

اہداف کی پانچ شرائط ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:

 پہلی شرط: قابلِ پیمائش

سب سے پہلے اور ضروری شرط یہ ہے کہ اہداف ‘قابلِ پیمائش’ ہونا چاہییں تاکہ ان کی مقدار گنی جاسکے، ہدف کے حصول کا اندازہ لگانا آسان ہو۔

جیسے اگلے بارہ ہفتوں میں آپ کتنی کتابوں کا مطالعہ کریں گے؟ کتنا پیسہ کمائیں گے؟ کتنے پونڈ وزن کم کریں گے؟ کتنا میل دوڑ لیں گے؟

 دوسری شرط: مثبت جملے

اہداف مثبت جملوں میں لکھیے، منفی نتائج یا یہ کہ ‘کیا نہیں ہونا چاہیے’ یہ آپ کے ہدف میں شامل نہ ہوں، بلکہ یوں لکھیے کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ کو کیا کرنا ہے؟ آپ کیا کریں گے؟

 تیسری شرط: حقائق کے خلاف نہ ہو

جو ہدف حقیقت پر مبنی نہ ہو یعنی جس کے پورا کرنے کا امکان نہایت کم ہو، خواب یا کسی معجزے کی صورت میں تو جس کا حصول ممکن ہو سکے لیکن حقیقت سے باہر ہو، وہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ جیسے اگر آپ کا وزن ابھی سو کلوگرام ہے اور آپ ہدف بنالیں گے اگلے بارہ ہفتوں میں وہ ساٹھ کلو ہوجائے، تو یہ حقائق کے خلاف ہوگا۔

 چوتھی شرط: وقت کا تعین

یہ لازم ہے کہ وقت کا تعین ضرور کیا جائے۔ کاموں کو وقت پر ٹالنے کی صورت میں وقت اور توانائی برباد ہوگی، لہٰذا اپنے ہر منٹ کو مینیج کریں، کیوںکہ اس کا اثر آپ کے طویل مدتی ویژن پر ہوگا۔

 پانچویں شرط: احتساب

ان تمام شرائط میں اہم اور ضروری شرط اپنا احتساب ہے۔ ہفتے کے آخر یا روز رات میں خود اپنے کاموں کا جائزہ لیتے رہیں۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ پلان کے مطابق آپ کہاں تک پہنچے؟ آپ کو کیا کرنا ہے؟ اور آپ کو کیا نہیں کرنا چاہیے تھا۔

ایسا کرنے سے آپ اگلی بار اپنی کارگزاری کوزیادہ بہتر کر سکیں گے۔ یاد رکھیں اپنا احتساب ہی وہ واحد عمل ہے جو آپ کو کام یابی کی شاہ راہ پر لے جا سکتا ہے۔ اسی کے ذریعے آپ اپنی خامیوں پر قابو پا اور خوبیوں کو نکھار سکتے ہیں۔

دو سوال

“ہفتہ وار منصوبہ بندی” کے تحت اپنے ہفتوں کو پلان کرتے وقت دو سوالوں کے جواب آپ کے سامنے لازمی ہونے چاہییں۔ اسے اپنے پاس لکھ لیجیے، یہ آپ کو سامنے آنے والی رکاوٹوں پر قابو پانے میں مدد دیں گے اور آپ آسانی کے ساتھ اپنے اہداف حاصل کرسکیں گے۔

 وہ سوال یہ ہیں:

1۔ مجھے اس دوران کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا؟

2۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا؟

آخر میں گزارش بس اتنی سی ہے کہ ٹوئیلو ویک ایئر کی سوچ عملی اور موثر ہے۔ سال 2023کا آغاز اس پر عمل کرکے کیجیے۔ ایک بار بارہ ہفتے اس طرح گزاریے، یقیناً آپ اپنی تخلیقی یا پیداواری صلاحیت کئی گنا بڑھا کر زیادہ سے زیادہ اطمینان حاصل کر سکیں گے۔

The post ہفتہ وار منصوبہ بندی اپنائیے appeared first on ایکسپریس اردو.

زباں فہمی نمبر172؛ سرقہ، توارُد، چربہ اور استفادہ (حصہ سِوُم /آخری)

$
0
0

 کراچی: غالبؔ خوش قسمت تھے کہ انھیں شیفتہ ؔ جیسا تنقیدی مزاج کا حامل دوست اور علامہ فضل حق خیرآبادی جیسا جید عالم، ناقد اور سخنور بطور رہنما ملا جس نے ان کے دیوان کا اولین عکس مرتب کیا، مگر ذوقؔ سے اُن کے اپنے چہیتے شاگرد، آزادؔ نے عجیب معاملہ کیا،جہاں جہاں محسوس کیا کہ استاد کا کلام کچھ خفیف ہے، بدل ڈالا، یوں سرقہ نہ سہی، ایک اور طرح کی واردات یعنی تحریف وجعل سازی نے ہماری ادبی تاریخ میں جنم لیا۔ 

کلام نظم ونثر میں تحریف کا باب ایک الگ بحث کا مقتضی ہے۔ سرقے کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ کسی نے مختلف شعراء کا کلام جمع کرکے اپنا دیوان تیارکرلیا جیسے عاجزؔ تخلص کے ایک گمنام شاعر نے اپنا دیوان بنالیا جو آج بھی ہندو یونیورسٹی، بنارس میں محفوظ ہے۔ کسی نے دردؔ کا ایک دیوان تخلص بدل کراپنے نام کرلیا۔

یہاں اگر وہ فہرست دُہرائی جائے جس میں شامل اردو مشاہیر سخن کا فارسی سے ترجمہ، بالواسطہ یا براہ راست استفادہ اور چربہ ثابت ہے تو اس کالم کی ایک اور قسط تیار ہوجائے گی اور یہ بات بھی بہرحال عام قاری کے لیے تعجب خیز ہوگی کہ ابھی تک ناقدین فن اس نکتے پر متفق نہیں ہوئے کہ یہ سلسلہ تمام کا تمام ہی سرقہ وتوارُد کے زُمرے میں آتا ہے کہ نہیں۔

ایک بات البتہ گزشتہ بحث سے منسلک یہ عرض کروں کہ میرزا غالبؔ کے کلام پر بیدلؔ کی چھاپ کا معاملہ تو مشہور ہے ہی، بقول محترم افتخار اِمام صدیقی، اُنھوں نے غنیؔ کاشمیری کے فارسی کلام سے بھی خوب”استفادہ“ کیا۔

کلام غالبؔ سے سرقہ کرنے والوں کی فہرست بھی مرتب کی جاسکتی ہے۔امیرؔ مینائی جیسے صاحب ِ علم کا یہ شعر دیکھیے:

کیوں نہ مرجائیے اَب اُن کی اداؤں پہ اَمیرؔ
قتل کرتے ہیں مگر ہاتھ میں شمشیر نہیں!
یہ غالبؔ کے مشہور شعر کا پرتو ہے:
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

کلام غالبؔ سے شعوری وغیر شعوری طور پر سرقے یاسرقہ نما استفادے کے مرتکب شعراء میں جدید غزل کے بڑے نام حسرت ؔ موہانی، اصغرؔگونڈوی اور فانیؔ بدایونی بھی شامل ہیں۔

یہاں رک کر ذرا میرؔکا مشہور ِ زمانہ شعر یاد کیجئے:
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

ہمارے عہد کے نامور شاعر صباؔ اکبر آبادی نے کہا:
ملتے کہاں ہیں ایسے محبت رسیدہ لوگ
کرتے رہو ہماری زیارت کبھی کبھی
اُن کے نزدیک استفادہ ہے، ناقدین اسے بھی سرقہ شمار کرتے ہیں۔

ایک سادہ لوح محقق نے تو غالبؔ وذوقؔ کے مابین شہزادے کے سہرے لکھنے کا معاملہ بھی سرقہ وتوارُد کے کھاتے میں ڈال دیا ہے، مگر وہ محض جواب ِدعویٰ کے ضمن میں شمار ہوتا ہے۔اسی طرح اساتذہ نے ایک ہی زمین میں کئی مشہور اشعار یا پوری پوری غزلیں ایسی کہی ہیں کہ ایک سے دوسرے کی پہچان دشوار ہے، مگر اُن پر بھی سرقے کا الزام لگانا غلط ہے۔ایسی ہی ایک مشہور مثال پیش خدمت ہے:
زمین ِ چمن گُل کھِلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
(آتشؔ)
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
(آتشؔ)
ہوئے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے
(امیرؔ مینائی)

سرقے کی ایک شکل،غلط انتساب بھی ہے یعنی یہ کہ کسی نے کوئی شعر، اپنی من چاہی ترمیم کرکے کسی اور کے نام سے مشہور کردیا،جیسے داغؔ کا شعر ہے:

ہزار کام مزے کے ہیں داغؔ الفت میں
جو لوگ کچھ نہیں کرتے، کمال کرتے ہیں

اسے ابتذال کے شوقین کسی شخص نے تبدیل کرکے، غالبؔ کے نام سے مشہورکردیا:
بٹھا کے یار کو پہلو میں ساری رات اَسدؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے، کمال کرتے ہیں
میرزا رضابرقؔکا شعر ہے:
عقل آرائی وتدبیر سے کیا ہوتاہے
وہی ہوتا ہے جو منظور ِ خدا ہوتاہے

اسے آغاحشرؔ کاشمیری سے منسوب کرتے ہوئے اس کا حلیہ یوں بگاڑاگیا:
مدعی لاکھ بُراچاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتاہے جو منظورِ خدا ہوتاہے

بسمل ؔ عظیم آبادی (تلمیذِ شادؔ عظیم آبادی) کا معرکہ آرا (ہمزہ کے بغیر) شعرہے:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زورکتنا،بازوئے قاتل میں ہے

اسے پنڈت رام پرشاد بسملؔ شاہجہاں پوری سے غلط منسوب کردیا گیا۔بسملؔ عظیم آبادی کا ایک کم مشہور شعر دیکھیے:
جو بات سارے فسانے کی جان تھی بسملؔ
یہ اتفاق کہ آئی وہ داستاں میں نہیں

اب فیض احمد فیض ؔ کا ضرب المثل شعر ملاحظہ فرمائیں اور ایمان داری سے کہیں کہ انھوں نے اپنے بزرگ معاصر سے کتنا ’استفادہ‘ کیا:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے

قابل ذکر بات یہ ہے کہ شادؔ کے ایک اور شاگر د سید خیرات حسین بسملؔ عظیم آبادی بھی ہوگزرے ہیں۔
سلمان ؔ عظیم آبادی، تلمیذ ِ شادؔ کا شعر ہے:
آگیا کام مِرا اشکِ ندامت آخر
ایک قطرے نے جہنم کو بجھا کر رکھا
کیا علامہ اقبالؔ کا ”قطرے جو تھے مِرے عرق ِ انفعال کے“ یاد نہیں آتا۔

ویسے علامہ اقبال کی مشہور ’دعا‘ ”لب پہ آتی ہے دعا“، (1902)بھی انگریزی شاعرہ Matilda Barbara Betham Edwardsکی 1873ء میں لکھی گئی انگریزی نظم کا ترجمہ ہے۔
شائق ؔ عظیم آبادی،تلمیذ ِ شادؔ کا شعر ہے:

کچھ آج آئی ہے ہجر کی شب؟ ہمیشہ یوں ہی ہُواکیا ہے
کہ جب بلا آسماں سے اُتری، وہیں سے تاکا غریب خانہ
صاحبو! یہ انوریؔ کے اس کلام کا ترجمہ ہے:
ہر بلائی (بلائے) کز آسمان آید
گرچہ بر دیگران قضا باشد
بہ زمین نارسیدہ می گوید
خانہ ئ انوری کجا باشد
حمید ؔ عظیم آبادی، تلمیذِ شادؔ کا شعر دیکھیے:
تصدق ان بے نیازیوں کے، کسی سے مجھ کو گِلہ نہیں ہے
مجھے ستاکر ہے خوش زمانہ کہ جیسے میرا خدا نہیں ہے
(غزل محررہ 15دسمبر 1951ء)
اب ذرا اُنھی کے معاصر، استادقمر ؔ جلالوی کو یاد فرمائیں:
ظالمو! اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو، دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
وہ یقیناً سنے گا صدائیں مِری، کیا تمھارا خدا ہے، ہمارا نہیں

بظاہر یہ سرقہ ہے نہ توارُد اور پھر قمر ؔ جیسے عوامی شاعر سے بعید ہے کہ انھوں نے کوئی کم مشہور کلام یوں ’اپنالیا‘ ہو، مگر پھر بھی خاکسار نے نقل اس لیے کردیا کہ کہیں ذکر آسکتاہے۔

منفرد شاعر جناب احمد نوید کی غزل کا مطلع ملاحظہ فرمائیں جو کسی رخسانہ نازی ؔ (مقیم راول پنڈی) نے پوری کی پوری سرقہ کرلی:
گھر کی ویران منڈیروں پہ دِیا رکھنے سے
کوئی آتا نہیں دروازہ کھلا رکھنے سے

جرمنی میں مقیم جناب حیدرقریشی کی ایک غزل کا شفیق آصف کے ہاتھوں سرقہ بھی مشہور ہے۔جرمنی ہی میں مقیم نعیمہ ضیاء الدین نے اپنے کلام کا مجموعہ تیار کرتے ہوئے،غالبؔ، فیضؔ اور ساحرؔ کا مربّہ بنایا ہے۔

دنیائے شعروسخن میں یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ کسی استاد نے معاوضے یا کسی اور بِناء پر پوراپورا دیوان یا متفرق کلام کسی کو لکھ کر دے دیا۔ دور کیوں جائیے، علامہ سیماب ؔ اکبرآبادی جیسے بزرگ سخنور کے متعلق اُنھی کے پوتے محترم افتخار اِمام صدیقی یہ انکشاف کر گئے ہیں۔ جدید شعراء میں منور قریشی کا نوشی گیلانی کو ابتدائی دومجموعہ ہائے کلام لکھ کر دینا اور ایک مد ت بعد، نوشی کا اس سے مکرجانا بہت مشہور ہے، مگر تازہ ترین انکشاف یہ ہے کہ بزرگوار خود بھی کسی زمانے میں سید آل احمد سے غزلیں لکھوایا کرتے تھے۔ پاکستان کی سب سے مشہور متشاعرہ کے متعلق یہ خاکسار پہلے ہی لکھ چکا ہے کہ وہ بقول ایک بزرگ شاعرہ، تیرہ شعراء سے لکھواچکی ہے۔

یہاں میں اپنے مشفق بزرگ معاصر، اردو،فارسی، سرائیکی اور انگریزی پر حاوی، پنجابی سے واقف، امدادؔ نظامی مرحوم کا بھی ذکر کرنا چاہتاہوں جن کی (کوئٹہ میں)وفات کے بعد گھر بند رہا تو کسی نے اُن کی غیر مطبوعہ متعدد نگارشات بشمول خودنوشتہ سوانح، ڈرامے، چُرالیے جو ہزاروں صفخات پرمشتمل خزانہ تھا۔ہوسکتا ہے کہ کسی مناسب وقت کا انتظار ہوجعل سازی کے لیے۔

شاعری میں نعت گوئی کا اپنا جداگانہ مقام بھی اس علّت سے محفوظ نہیں رہا۔نامور شاعر امید ؔ فاضلی کی کہی ہوئی مشہور نعت ”کبھی یاسین ومبشر، کبھی طٰہٰ لکھوں“ کو کسی راؤ یعقوب صاحب (مقیم مکہ معظمہ) نے اپنے نام سے روزنامہ اردو نیوز، جدّہ کے میگزین مؤرخہ21جولائی2000ء میں شایع کروادی۔ امدادؔ ہمدانی (مقیم جہلم) کی ایک نعت (مطبوعہ ’ماہِ نَو‘ (لاہور،بابت دسمبر 1984ء)،کاوش بٹ (مقیم لالہ موسیٰ) نے روزنامہ اِمروز، لاہور، مؤرخہ 21جولائی 1985ء میں اپنے نام سے شایع کروائی۔

ہمارے عہد کے معروف نعت گو جناب خالد محمود پر،(سینہ گزٹ کے مطابق) یہ الزام تھا کہ وہ ممتاز نعت گو محترم وقار صدیقی کے صحبت یافتہ ، شاید اُن سے اصلاح یافتہ تھے،اُنھوں نے انھی بزرگ کا اکثر کلام اپنے نام کرکے مشہور کردیا۔یہ الزام یقینا سنگین ہے، مگر کوئی شواہد میرے پاس نہیں۔خالد مرحوم کچھ عرصے میرے پڑوس میں بھی مقیم رہے، مگر محض دور سے سلام علیک تھی، ورنہ شاید بندہ اُن سے استفسار کی جسارت کرتا۔

اردو کی اولین افسانوی تصنیف ’سَب رَس‘،درحقیقت فارسی سے لی گئی ہے،جبکہ قصہ چہار دَرویش بھی فارسی سے مستعار ہے اور مختلف ناموں سے ترجمہ اور طبع زاد ہوکر پیش ہوا، مگر بہرحال میر امنؔ کا کام بجائے خود، طبع زاد ہے۔طلسم ہوش رُبا اور طلسم کُن فَیکُون (عاشق حسین بزمؔ) کا معاملہ بھی چربے کے زُمرے میں آتاہے۔قصہ گل وصنوبر فارسی میں سید باصرعلی نے لکھا، پیم چند کھتری نے اردومیں ترجمہ کرتے ہوئے مصنف کو گمنام قراردیا اور اس داستان کو سید ولایت علی نے نقل کرتے ہوئے ”عجیب وغریب“ لکھ دی، مگر حوالہ نہ دیا۔

اردو کی دیگر قدیم داستانیں بھی فارسی سے ترجمہ ہیں، مگر انھیں طبع زاد سمجھاجاتاہے۔قاری سرفراز حسین عزمی ؔ کے ناول ’شاہد ِ رعنا‘ (1897ء) کو میرزاہادی رسواؔ نے اپنی کاری گری سے چربہ کرتے ہوئے ’اُمراؤ جان ادا‘ کا نام دیا، 1899ء میں شایع کرکے۔سجاد حیدریلدرم ترکی زبان سے بخوبی آشنا تھے۔انھوں نے ترکی کے رومانی افسانے ترجمہ کیے یا چربہ، دونوں ہی صورت میں طبع زاد کی شکل میں پیش کرکے شہرت پائی۔رومانیت کی تحریک میں نیاز فتح پوری کا نام شامل ہے جن کی کتب کی کثیرتعداد،دیگر فاضل اہل قلم کا ترجمہ وچربہ ہیں۔

عصمت چغتائی کا مشہور ناولِٹ ’ضدّی‘ (1942)درحقیقت ترکی ناول ’ہاجرہ‘ کا انگریزی سے ترجمہ وچربہ ہے جو 1899ء میں اردو میں ترجمہ ہوچکا تھا۔قدرت شہابؔ کا ناولِٹ ”یاخدا“ (1947)، کرشن چندر کے ایک سال پرانے ناولِٹ ”اَن داتا“ کا چربہ ہے۔انتصار حسین کا ناول ’پتھر‘، تسنیم سلیم چھتاری کے افسانے ’بہ انداز دِگر‘سے ماخوذ ہے۔عزیز احمد کے ناولٹ ’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں‘ (1958)کو جلیل حشمی نے منظوم چربہ کرتے ہوئے نام دیا ’طلوع وغروب‘ (1959)۔مشہور ناول ’اداس نسلیں‘ بھی قرۃ العین حیدر کے ناولوں کا چربہ ہے۔1964ء کی مشہور ترین ہندوستانی فلم ’وہ کون تھی‘ کا چربہ، افسانہ ’آوازیں‘ کے عنوان سے میرزا حامدبیگ نے پیش کردیا، 1999ء میں۔ہمارے بزرگ سید امتیاز علی تاج کے ’انارکلی‘ پر الزام ہے کہ کسی نامعلوم یورپی عیسائی کی کتاب کا ترجمہ ہے۔

پی ایچ ڈی کے مقالہ جات میں سرقہ بہت عام ہوچکا ہے اور (یہ سلسلہ محض اردو زبان وادب وصحافت تک موقوف نہیں، بلکہ سائنسی مضامین میں بھی خاص طور پر وطن عزیز کا نام بہت بدنام کیا گیا ہے) اس طویل فہرست میں ڈاکٹر صفدرمحمود جیسا محترم نام بھی شامل ہے۔ ڈی لِٹ کے مقالے مؤلفہ سلیم احمد کا ڈاکٹر جمیل جالبی کے ہاتھوں منظر عام پر آنا بھی سینہ گزٹ ہے، مگر ثبوت میرے پاس نہیں۔خواجہ احمد فاروقی کا کتاب ’ارسطو سے ایلیٹ تک‘ لکھ کر جمیل جالبی کے نام کردینا، اردو زبان کی داستان مختلف بزرگوں سے لکھواکراپنے نام سے شایع کرنا وغیرہ یہ سارامواد، سردست میرے پاس نہیں جو سہ ماہی بادبان کے مدیر، ممتاز افسانہ نگار ناصر بغدادی نے شایع کیا، اسی طرح طارق سبزواری کا اپنے دادا کی بیاض سے کلام پڑھنا اور جمیل الدین عالیؔ کا اپنے ہم نام دادا کا کلام پیش کرنا، یہ سب ذہن میں ہے، مگر کتابی مواد سامنے نہیں۔

ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کے پی ایچ ڈی کے مقالے بعنوان ”ڈاکٹر ایم ڈی تاثیرکی شخصیت اور فن“ (سند: 2002ء، جامعہ پنجاب، لاہور; کتابی شکل میں اشاعت: 2005ء۔پاکستان اردواکیڈمی، لاہور)کے بہت سارے مندرجات کا سرقہ، اسی نام سے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام شایع ہونے والی کتاب میں محترمہ شبنم شکیل (دختر عابدعلی عابدؔ) نے کرنے کی جسارت کی۔

آخری بات: اس خاکسار کے شعری، نثری، صحافتی و نشریاتی مواد میں بھی سرقہ بہت ہوچکا ہے جس کا ذکر فی الحال چھوڑتا ہوں۔

The post زباں فہمی نمبر172؛ سرقہ، توارُد، چربہ اور استفادہ (حصہ سِوُم /آخری) appeared first on ایکسپریس اردو.

آزادی اظہار کی آڑ میں توہین مذہب پر سخت سزا کا عالمی قانون بنایا جائے!!

$
0
0

گزشتہ دنوں سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا دلخراش اور بدترین واقعہ پیش آیا جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ،وہ سراپا احتجاج ہیں اور ان میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے سرکاری و عوامی سطح پر شدید ردعمل آیا ہے۔

حال ہی میں سینیٹ آف پاکستان نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف متفقہ قرار داد منظور کی اور سینیٹرز کی جانب سے سویڈن کے ساتھ تعلقات ختم کرنے پر بھی زور دیا گیا۔ عالمی سطح پر توہین مذہب کے واقعات میں تسلسل کے پیش نظر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد

چیئرمین رویت ہلال کمیٹی خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور

سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہم نے ہمیشہ پاکستان اور عالمی فورمز پر دنیا کو یہ بتایا ہے کہ حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم الرسل حضرت محمد ﷺ تک، سب کی تکریم اور عزت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔

اسی طرح تورات، انجیل، زبور اور قرآن مجید ہیں، جب تک ہم تمام الہامی کتب پر ایمان نہ لائیں ، ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ یہ باعث افسوس ہے کہ ہر تھوڑے عرصے کے بعد دنیا کے بعض ممالک میں ایسا عمل کیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔

اس کا خاتمہ ہونا چاہیے اور جو بھی اس میں ملوث ہو، اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے کیونکہ یہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کا مسئلہ ہے۔ جو ممالک امن کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں، وہاں سے ایسے عمل کا ہونا باعث تکلیف ہے۔

اس وقت ضرورت یہ ہے کہ عالمی سطح پرمقدسات، مقدس کتب اور شخصیات کی توہین پر سخت سزا کا قانون بنایا جائے۔

کوئی بھی مذہب ایسے قبیح عمل کی اجازت نہیں دیتا۔ تمام مذاہب کے ماننے والے اپنی اپنی سطح پر اس کی بھرپور مذمت کریں اور ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کیلئے اقدامات بھی کریں۔ ریاست پاکستان اور علماء نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ہمارے لیے قرآن کریم ، پیغمبر دوعالم حضرت محمدﷺ اور تمام انبیاء ؑ کی عزت و تکریم سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔

حافظ زبیر احمد ظہیر

امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان

سویڈن میں ایک ملعون اور بدبخت شخص نے قرآن مجید فرقان حمید کو جلانے کا انتہائی اقدام کیا ہے۔ اس نے روئے زمین پر بسنے والے اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کی اور انہیں صدمہ پہنچایا ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

یہ عمل کسی بھی طور آزادی ظہار رائے میں شامل نہیں ہوتا۔ دنیا میں جتنی بھی قسم کی دہشت گردی یا انتہا پسندی ہے ان سب میں سے بدترین انتہا پسندی اور دہشت گردی یہ ہے کہ کسی آسمانی کتاب کی توہین اور گستاخی کی جائے۔ میں واضح طور پر یہ پوری دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس شخص نے صرف قرآن پاک کو نہیں جلایا بلکہ دراصل انجیل، تورات اور زبور کو بھی جلایا ہے۔

اس بدبخت نے انبیاء کرام ؑ، حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت یعقوبؑ، حضرت عیسیٰ ؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عزیر ؑ، حضرت مریم ؑ کی عظمت اور شان جو قرآن پاک نے بیان کی ہے اس کو بھی جلایا ہے۔ پوری دنیا اس کی اشتعال انگیزی اور شیطانی شرارت کی مذمت کرتی ہے، تمام مسلمان اس کی بھرپور مذمت کر رہے ہیں۔

میرے نزدیک باتوں سے کچھ نہیں ہوگا،پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کو ایسے عملی اقدامات کرنے چاہئیں جن سے توہین مذہب کا سلسلہ رک سکے اور آئندہ کسی کو بھی ایسی جرات نہ ہو۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسلمان ممالک خصوصاََ اسلامی تعاون تنظیم کو یہ مسئلہ پرزور انداز میں اٹھانا چاہیے۔

یہ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ جس ملک سے بھی یہ عمل ہو اس کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے ، تجارتی و سفارتی تعلقات بھی ختم کردینے چاہئیں۔ اگر مسلمان قرآن پاک اور رسول کریم ﷺ کی خاطر کسی کا بائیکاٹ نہیں کریں گے تو کس کے لیے کریں گے؟

ہمیں اپنی جان، اپنے پیاروں، اپنے وطن ہر چیز سے زیادہ عزیز اللہ کا کلام اور اس کے پیارے رسولﷺ ہیں۔میرا مطالبہ ہے کہ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کیلئے عالمی سطح پرسخت قانون سازی کی جائے۔

یہ وقت ہے کہ مسلمان ممالک کے سربراہان آگے آئیں اور پوری امت کو متحد کریں۔ کلام پاک کو جلانے کا مقصد مسلمانوں کو اشتعال دلوانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

یہ چاہتے ہیں کہ بدلے میں مسلمان بھی کچھ ایسا کریں لیکن مسلمان کسی الہامی کتاب کی گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بھی نور کہا ہے۔ تورات کو بھی نور کہا ہے۔ انجیل کوبھی نور کہا ہے اور زبور کو بھی نور کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء ؑ پر جتنا بھی کلام نازل کیا وہ سب کا سب نور ہے۔

اس بدبخت نے یہ جسارت کرکے اللہ تعالیٰ کے قہر اور غضب کو دعوت دی ہے۔ انشاء اللہ ! کلام الٰہی کے گستاخ کیلئے یہ دنیا بھی عذاب بن جائے گی اور آخرت میں اسے بدترین سزا ملے گی۔ ہم تمام مسلمانوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ متحد ہوجائیں،ہر قسم کی فرقہ واریت کو ختم کرکے ایک قوت اور امت رسولﷺ بنیں ۔ اگر آج ہم فرقوں میں بٹے نہ ہوتے تو روئے زمین پر کسی کو بھی قرآن پاک جلانے یا حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی جرات نہ ہوتی ۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہماری تقسیم اور آپسی اختلافات کا فائدہ دشمن اٹھا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام مسلمان حکومتوں کو متحد ہوکر ان چیزوں کا سدباب کرنے کی توفیق دے۔ آمین !

مفتی راغب حسین نعیمی

مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور

اہل اسلام کیلئے اللہ وحدہ لاشریک کی کتاب اور محبت وحی، حضور نبی کریمﷺ کی ذات مبارکہ ، اپنے والدین، آل اولاد اور جان و مال سے بھی زیادہ عزیز اور محترم و معظم ہے۔

سچا اور صحیح مسلمان دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتا ہو، کبھی یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ قرآن کریم یا نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ کی کسی بھی اعتبار سے دنیا کے کسی بھی خطے میں توہین ہو۔

9/11 سے لے کر اب تک ، ہر دو سال کے بعد پلاننگ کے تحت کبھی قرآن کریم کے حوالے سے توہین کی جا رہی ہے اور کبھی ذات نبویﷺ کے حوالے سے ایسے معاملات سامنے لائے جا رہے ہیں جن سے مسلمان کا بھڑکنا بجا ہے۔

قرآن کریم پر کبھی مقدمہ قائم کیا جاتا ہے، کبھی نذر آتش اور کبھی کسی اور انداز میں توہین کی جاتی ہے۔ یہ سب ببانگ دہل کیا جا رہا ہے اور اس کی میڈیا پر تشہیر بھی کی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ دنیا کے کس خطے میں مسلمان کسی الہامی کتاب کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں جس بدلے میں مسلمانوں کی کتاب کے ساتھ ایسا کیا جا رہا ہے؟

مسلمان کسی بھی مذہب کی کتاب یا شخصیات کے ساتھ ایسا نہیں کرتے۔ جب تک ہم قرآن پاک سے پہلے آنے والی الہامی کتب اور جن انبیاء ؑ پر نازل ہوئیں،  ایمان نہیں لاتے، تب تک ہمارا ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا۔ سویڈن سے پہلے ہالینڈ کے لوگوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی، کوئی بھی مسلمان یہ برداشت نہیں کرسکتا۔

قرآن کریم کے حوالے سے پوری دنیا کے مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ آزادی اظہار رائے کے حوالے سے قانون کو محدود کیا جائے اوراس کی آڑ میں الہامی مذاہب، الہامی انبیاء ؑ اور ان پر اتاری جانے والی کتب کی توہین کی اجازت نہ دی جائے گی۔یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی آواز ہے۔

جب تک دنیا بھر کے مسلمان ممالک کے قائدین، حکمران آگے نہیں آئیں گے، بات نہیں کریں گے، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر آواز نہیں اٹھائیں گے تب تک مسائل رہیں گے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ الہامی مذاہب کے ماننے والے اکٹھے ہوکر قرارداد منظور کریں۔

اس کی کاپی دنیا کے ممالک کو بھیجی جائے اور سب کو پابند کیا جائے کہ توہین مذہب کرنے والوں کی سخت سزا یقینی بنائیں۔

آج اگر مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہورہا ہے تو ایسے شیطان صفت لوگ دیگر مذاہب کے ساتھ بھی ایسا کرسکتے ہیں، اس وقت کیا ہوگا؟ سب کو آج اکٹھے ہوکر سوچنا ہوگا اور عملی اقدامات کرنا ہونگے۔

اعجاز عالم آگسٹین

سابق صوبائی وزیر برائےانسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب

سویڈن کے ایک سیاسی رہنما نے ترکیہ سفارتخانے کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کا جو قبیح عمل کیا ہے اس کی بھرپور مذمت کرتا ہوں۔

پاکستان کی تمام اقلیتیں خصوصاََ مسیحی برادری اس گستاخانہ عمل پر شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں، تمام مذاہب کی عبادتگاہوں میں اس عمل کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ سویڈن کی پولیس وہاں موجود تھی جو اسے روک نہیں سکی۔

پولیس کی موجودگی میں ایسا واقعہ ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ سویڈن کی حکومت بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جتنا یہ شخص۔ پولیس کو طاقت کے زور پر روکنا چاہیے تھا، سخت کارروائی کرنی چاہیے تھی مگر کچھ نہیں کیا گیا۔ یہ ایک ناپاک جسارت ہے جو آزادی اظہار رائے کی آڑ میں کی جاتی ہے اور یورپی ممالک میں تسلسل کے ساتھ ایسا ہورہا ہے۔

میرے نزدیک ہمیں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ سویڈن کے سفیر کو فوری طلب کرکے سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں اور سفیر کو واپس بھیجا جائے۔

امریکا، ڈنمارک، فرانس اور اب سویڈن میں توہین کا یہ تسلسل دنیا بھر میں مسلمان، مسیحی و دیگر مذاہب کے پیروکاروں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ شیطان صف لوگ ایسی حرکتیں کر کے بین المذاہب ہم آہنگی کو ٹھیس پہنچانا چاہتے ہیں، یہ مذاہب کے پیروکاروں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں تاکہ پوری دنیا انتشار کا شکار ہو۔

ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے عناصر کے عزائم کبھی پورے نہیں ہوں گے، یہ ضرور ناکام ہونگے۔ پاکستان میں موجود اقلیتیں گستاخی کی بھرپور مذمت کرتی ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے خلاف بھرپور اقدامات کیے جائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی جسارت نہ کرے۔ میرے نزدیک وہ بے دین شخص ہے ، مذاہب تو ایک دوسرے کا احترام سکھاتے ہیں، توہین نہیں۔

The post آزادی اظہار کی آڑ میں توہین مذہب پر سخت سزا کا عالمی قانون بنایا جائے!! appeared first on ایکسپریس اردو.


بہو کی ملازمت

$
0
0

دو دلوں کا ملن، سدا کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ کے عہدوپیمان اور پھر جس طرح لفظ شادی کے معنی خوشیوں کے ہیں، بالکل ویسے ہی اس تقریب کے ایک پس منظر میں تفکرات اور پریشانیاں موجود ہوتی ہیں۔

دکھاوا اور نمود و نمائش کے بعد خصوصی طور پر لڑکی والوں کا نام متاثرین  میں لکھا جاتا ہے۔آج ایسا لگتا ہے کہ نئے شادی شدہ جوڑوں کی کام یابی براہ راست مادی چیزوں سے جڑی ہوئی ہے۔

ہمارے سماج کے بہت سے سفید پوش گھرانے بیٹی رخصت کرنے کے لیے اپنی عمر بھر کی پونجی صرف کر ڈالتے ہیں۔  پچھلے زمانے میںجب بھی بڑے اپنی بیٹی کے لیے مناسب بَر کی تلاش شروع کرتے، تو ان کی اولین شرط ’’کماؤ پوت‘‘ کی ہوتی ہے۔

رشتہ کرانے والیوں سے پہلا سوال یہ ہی کیا جاتا ہے کہ لڑکا کرتا کیا ہے، کتنا کماتا ہے؟ یا اس خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ’’ایسا لڑکا چاہیے۔

جس کی آمدن مستحکم اور نوکری پکی ہو۔ اگر قسمت سے لڑکے کو سرکاری نوکری مل گئی ہو تو چار چاند والی مثل صادق ہو جاتی۔زمانہ حال میں جہاں اور معاملات بدل گئے ہیں، وہیں ایسی لڑکیوں کے رشتوں کو اولیت دی جانے لگی ہے، جو ملازمت پیشہ ہو، کسی بڑے عہدے پر فائز ہو، تو سونے پہ سہاگا۔

ہر لمحہ منہ زور ہوتی ہوئی مہنگائی اور معاشی مسائل کی وجہ سے شاید زمانے کی ترجیحات اور چلن بھی بدلتا جا رہا ہے یا آسائشوں کی خواہش اور لڑکے کی  ناکافی تنخواہ جیسے ٹھوس حقائق ہیں۔ اسی وجہ سے نئے زمانے کی ساسیں اچھی ملازمت کرنے والی بہوئیں ڈھونڈتی ہیں۔

پہلے صرف گوری، دبلی پتلی اور اچھے ناک، نقشے والی لڑکی ہی ماؤں کے معیار پر پورا اترتی تھی، مگر اب متوسط طبقے کی خواتین ایسے رشتوں کی طالب ہوتی ہیں، جو ان کے راج دلارے کو باہر بھجوا سکے، یا یہیں کاروبار کرادے۔

اگر یہ سب نہ ہو توکم از کم لڑکی اچھی تنخواہ پر کسی بڑے ادارے میں ملازم ہو۔ اس طرح پیا کے دیس سدھارنے والی دلہن مکمل طور پر نہ صحیح، لیکن جزوی طور پر’’ سیاں جی‘‘ کے شانہ بہ شانہ مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے نکل پڑتی ہے۔

گزرے زمانوں میں معاشرے کی سوچ اس اکائی سے مربوط تھی کہ ’’عورت کا کام گھر سنبھالنا، اور مرد کا کام کمانا ہے‘‘ یہ ہی وجہ ہے کہ خواتین کا کام کرنا بہ امر مجبوری ہی ہوتا تھا۔ اگر کسی جدت پسند گھرانے کی عورت گھر سے نوکری کے لیے نکل جاتی تھی، تو اسے شوق سے تعبیر کیا جاتا تھا، جب کہ اب حالت یہ ہے کہ مرد اور عورت، دونوں کو ہی مل کر اپنے اخراجات پورے کرنا پڑتے ہیں۔

اس لیے کچھ لڑکیاں شادی سے قبل اور کچھ  اس کے بعد ملازمت کرنے لگتی ہیں۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ  ایک اچھی نوکری خواتین کی ضرورت بن گئی ہے۔ بعض شوہر اس بات کا برملا اقرار کرتے  ہیں کہ بیوی کی ملازمت سے ان کے گھر کا پورا نظام تہہ و بالا ہو جاتا ہے، مگر وہ بھی یہ کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہیں۔

ملازمت پیشہ لڑکی جب سسرال جاکر اپنی ملازمیانہ ذمہ داریاں ادا کرتی ہے، تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اب اور غیر شادی شدہ زندگی میں نوکری کرنے میں کافی فرق ہوتا ہے، لیکن دوسری طرف جب یہ بات ہوتی ہے کہ اس کی نوکری ہی دراصل اس کے اس نئے رشتے کی وجہ بنی ہے۔

لہٰذا وہ ایسے کسی بھی فیصلے سے گریز کرتی ہے کہ جس سے سسرال والوں کو کچھ کہنے کا موقع ملے۔ اگر لڑکے والے لڑکی کی ملازمت  دیکھ کر اس سے شادی کرتے ہیں، تو پھر  کل کلاں کو اگر لڑکی کی ملازمت ختم ہوتی ہے، تو یقیناً اس کے اثرات ازدواجی زندگی پر پڑنے کے بہت زیادہ خدشات ہوتے ہیں۔

کیوں کہ ملازمت کو ہی بنیاد بنا کر رشتہ کرایا گیا ہوتا ہے۔ ماہانہ آمدن کو گویا جہیز کا حصہ سمجھ  لیا جاتا ہے۔ محض ملازمت کے خاتمے کو تو براہ راست بنیاد نہیں بنایا جاتا، البتہ اسی بنا پر دیگر باتوں پر نکتہ چینی اور تنازع کھڑے کر دیے جاتے ہیں، جو کہ نہایت غیر مناسب امر ہے۔

The post بہو کی ملازمت appeared first on ایکسپریس اردو.

’’میں نے تو ایسی عورت  سے شادی نہیں کی تھی!‘‘

$
0
0

کتنا بھدا اور بدنما ہو جاتا ہے عورت کا جسم ماں بننے کے بعد۔۔۔ سو درد اٹھانے کے بعد بھی اپنے اس بے ڈھنگے دکھائی دینے والے سراپے پر نظر اس وقت تک جاتی ہی نہیں، جب تک ننھے منے اور بھینی بھینی سی خوش بو والے نرم نازک وجود سے گود گرم رہتی ہے۔ پھر اس میں ہی گم رہنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، آرام اور چین کو بھول کر اسی وجود کو کسی ننھی کونپل کی طرح سینچنا اور اس کی مکمل نگہ داشت کرنا۔

اسے بچپن سے ہی صاف ستھرا رہنے کا شوق تھا، اکلوتی بیٹی تھی تو والدین ناز بھی خوب اٹھائے، بھائی بھی ہاتھ کا چھالا بناکر رکھنے والے، ماں بچپن سے اسے خوب سجا سنوار کر رکھتیں، پاوڈر چھڑک کر، شیمپو کیے ہوئے بال، نت نئی فراک پہن کر وہ شہزادیوں کی آن بان سے رہا کرتی۔

سجنے سنورنے کی یہ عادت بچپن سے جوانی تک پختہ ہوگئی، روپے پیسے کی فراوانی نہ تھی، پھر اس کا ذوق بھی خوب تھا، گرمیوں میں ہلکے رنگوں کے لان کے جوڑے تو سردیوں میں جینز، کوٹ اور گہرے رنگوں کے اونی سوئٹر پہننا اسے بے حد پسند تھا۔

بالوں کی جدید تراش خراش اور باقاعدگی سے جلد کا خیال رکھنا اس کے معمولات میں شامل تھا۔ نازک نازک سے ہاتھ پاؤں اور ان کی صفائی ستھرائی کا دھیان عجیب بھلا سا تاثر دیتا تھا، اس کی شخصیت کو، پھر اس پر وہ خوشبوؤں کی دل داہ، مہنگے پرفیوموں کا ایک ڈھیر تھا۔

اس کی دل فریب اور اجلی و نکھری شخصیت لوگوں کو متوجہ کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جس محفل میں بھی جاتی اس کا رشتہ آجاتا۔ وہاج نے بھی اسے ایک ’میلاد‘ کی تقریب میں دیکھا، تو اس کی متاثر کن شخصیت دیکھ کر دل ہار بیٹھا۔ ہلکے گلابی کام دانی کے سوٹ میں چاندی کے آویزے پہنے گلابی نیل پالش سے سجے نازک ہاتھ، سیاہ سلکی زلفیں اور اس کے قرین سے آتی مسحور کن خوش بو۔۔۔ وہاج کو وہ اتنی بھاگئی کہ اسے اپنی دلہن بنا کر ہی دم لیا۔

شادی کے اولین دنوں میں نت نئے جوڑے اور زیور پہن کر وہ سجی سنوری رہا کرتی، وہاج تو دیوانہ تھا اس روپ کا لہذا خوب ناز نخرے اٹھایا کرتا۔ پھر شادی کے پہلے سال ’خوش خبری‘ کی نوید ملی، تو ان دنوں طبعیت کی خرابی، نقاہت کی وجہ سے اس کی خود پر توجہ کم ہونے لگی۔

وہاج دفتر سے آتا، تو وہ نڈھال سی ملگجے لباس میں بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ ملتی۔ وزن بھی اس کا کافی بڑھ گیا تھا۔ اس حلیے میں دیکھ کر وہاج اس سے بیزار ہونے لگا۔ اسے تو پلاسٹک کی گڑیا کی مانند نک سک سی درست تراشی ہوئی بیوی کی یاد ستاتی۔

بیٹے کی پیدائش کے بعد وہاج خوشی میں اس کا پھیلا ہوا سراپا وقتی طور پر بھلا بیٹھا، تو اس نے بھی سُکھ کا سانس لیا۔ بچے کے ساتھ اس کے کام بڑھ گئے، اس لیے خود پر توجہ بھی کم ہوتی ہی چلی گئی۔ پرانے سارے کپڑے اس کے تنگ ہوگئے۔

تو سادہ سے ڈھیلے ڈھالے لباس سلوالیے۔ بچے کی پیدائش کے بعد سے سر کے بال جو گرنا شروع ہوئے، تو حال یہ ہوا کہ چوٹی آدھی رہ گئی۔ راتوں کو جاگ جاگ کر گہرے حلقے اور بیوٹی پارلر تو وہ بھول ہی بیٹھی تھی۔

اس کے سال بھر بعد ہی وہ ایک بیٹی کی بھی ماں بن گئی۔ اب تو اس کے حالات مزید سخت ہوگئے۔ وہاج تو ہر بات پر اس کے مُٹاپے کو نشانہ بناتا۔ بچوں کا رونا اسے برا لگا کرتا۔ کھانا پکنے میں دیر ہو جاتی، تو بھی وہ قصور وار ٹھہرتی۔ نتیجہ میں وہ کڑھ کڑھ اندر سے کھوکھلی ہوتی جا رہی تھی۔

وہ اولاد کو پاکر اپنے سراپے اور جوانی کی درگت بھلا بیٹھی تھی، ساری تکلیفیں جو اس نے زچگی میں سہیں، یاد بھی نہیں تھیں، لیکن جس کی اولاد کو اس نے اپنا خون دیا۔ پال ہوس رہی تھی، اس شخص سے اس کی ڈھلتی خوب صورتی برداشت نہیں ہورہی تھی۔

پھر آج تو حد ہی ہوگئی ان کی تین ماہ کی بیٹی صبح سے قے کررہی تھی اور وہ اس کے کپڑے تبدیل کروا کر اور بیڈ شیٹس تبدیل کر کے تھک چکی تھی اور جب اپنے اسی مسلے ہوئے حلیے اور قے کی بساند والے کپڑوں میں وہاج کو شام کی چائے پیش کی تو وہ سلگ اٹھا اور اس کے کانوں میں زہر انڈیلتا چلا گیا۔

کیسی لوتھڑے نما عورت ہوگئی ہو، ہر وقت دودھ کی بو مہکتی ہے، بال تو دیکھو سب جھڑ گئے۔ وہ والی عورت تم لگتی نہیں جس سے شادی کی تھی۔

یہ تو کوئی بے ڈھنگے وجود والی بھدی سی عورت ہے، تو اس لمحے اس چربی سے ڈھکے وجود میں اس کا نازک سا دل ٹوٹ گیا اور جی کیا کہ ایک ایک لمحہ اور ایک ایک اذیت کا حساب وہاج کو سنایا جائے، جس سے یہ ناواقف ہے۔ لیکن اس کا فائدہ کیا ہوگا اگر اسے احساس ہوتا تو اس کی سوچ مختلف ہوتی۔

اگر اسے بات کی تربیت ملی ہوتی کہ قربانی سب سے بڑی خوبی ہے۔ جسم ، جوانی تو ڈھل ہی جانی ہے، لیکن اصل دولت تو یہ خدا کی عطا کردہ صحت اور اولاد ہے۔

کوشش کیجیے کہ کم  از کم اپنے بیٹوں کو یہ ضرور سکھا سکیں کہ خوب صورت اور دل کش جسم سے زیادہ وہ بے ڈھب سراپہ ہے جس کے وجود میں صرف تمہاری اولاد کی محبت اور پرواہ ہے اس سے زیادہ پیارا وجود کوئی اور نہیں ہو سکتا، جو اپنے خون سے سینچ کر تمہاری نسل کو بقا دیتی ہے۔

The post ’’میں نے تو ایسی عورت  سے شادی نہیں کی تھی!‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا گھر کے کام باقاعدہ ورزش کا متبادل ہیں؟

$
0
0

خواتین اپنی ذہنی اور نفسیاتی صحت کی اہمیت سے ناواقف ہونے کے علاوہ ’تن درستی‘ کے حوالے سے بھی بے پروائی کا شکار ہوتی ہیں، جب کہ خواتین جو نہ صرف ایک خاندان اور گھر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کی ذہنی اور نفسیاتی صحت کے ساتھ جسمانی صحت اور فٹنس کا بھی خاص خیال رکھیں۔

جسمانی طور پر فٹ رہنا صرف پروفیشنل زندگی کے لیے ہی نہیں، بلکہ روز مرہ زندگی اور اس کی خوشیوں سے لطف اندوز کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ خواتین جو صبح سے رات تک مختلف کاموں میں مصروف رہتی ہیں، دن میں چند منٹ کی باقاعدہ ورزش کو معمول بنا کراپنی صحت اور فٹنس کو یقینی بنا سکتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں عام تصور ہے کہ ورزش صرف حضرات کی باڈی بلڈنگ کے عمل تک محدود اور ضروری ہے، جب کہ حقیقت کچھ مختلف ہے۔

ورزش خواتین کے لیے  بھی اتنی ہی ضروری اور مفید ہے، جتنی کہ حضرات کے لیے۔ یہ ضروری نہیں کہ حضرات کی طرح خواتین بھی ورزش کرنے کے لیے مختلف مشینوں یا باقاعدہ کسی جَم (Gym) کا سہارا لیں۔ خود کو فِٹ رکھنے کے لیے خواتین دن میں کچھ  لمحے ہلکی پھلکی ورزش کر کے اپنے جسم اور ذہن کو چاق و چوبند اور توانا رکھ سکتی ہیں۔

خواتین کے لیے خود کو جسمانی طور پر فٹ رکھنے اور ’ایکٹو‘ رکھنے کا ایک سب سے فائدہ یہ ہے کہ باقاعدگی سے ورزش کرنے والی خواتین کے بارے میں یہ رائے بدلنا پڑے گی کہ خواتین جمسانی طور پر کمزور ہوتی ہیں۔

کیوں کہ مختلف قسم کی ورزش کے ذریعے وہ خود کو اتنا مضبوط کر لیتی ہیں کہ کسی بھی قسم کے حالات کا مقابلہ ذہنی اور جسمانی طور پر ڈٹ کر کیا جا سکے۔

یاد رہے کہ خواتین کے لیے کچھ ایسی ’ایکسرسائز‘ بھی متعار ف کرائی گئی ہیں، جن کا مقصد کسی مشکل صورت حال میں اپنی حفاظت کرنا ہے، تاکہ خدانخواستہ کسی قسم کی ایسی مشکل سے نمٹنے کے لیے نہ صرف ذہنی، بلکہ جسمانی طور پر بھی وہ تیار ہوں اور کسی کی مدد کے بغیر اپنا دفاع کر سکیں۔

خواتین کی اچھی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے باقاعدہ جسمانی سرگرمیاں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، کیوں کہ یہ نہ صرف مجموعی صحت اور تن درستی کو یقینی بناتی ہیں، بلکہ ہمارے وزن کا توازن برقرار رکھنے، مختلف بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے اور اچھی دماغی صحت کو فروغ دینے میں مدد گار ہوتی ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق اچھی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے روزانہ کم از کم 30 منٹ ورزش ضروری ہے، لیکن ’جِم‘ یا ’ایکسرسائز‘ کو باقاعدگی سے اپنا معمول بنانے کے لیے خواتین کو جن رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے، ان میں گھریلو ذمہ داریوں اور وقت کی کمی کے علاوہ رجحان اور تحریک ملنے جیسے دیگر عوامل بھی شامل ہیں۔

بہت سی خواتین بچوں کی پرورش، گھریلو ذمہ داریوں اورنوکری وغیرہ میں مصروف ہوتی ہیں، اور اپنے لیے وقت نہیں نکال پاتیں۔ لیکن خود کو فٹ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جب بھی موقع ملے ورزش کرنے کی کوشش کیجیے۔

دن میں ورزش کے لیے 10 منٹ کے تین ’دور‘ سے بھی صحت کے لیے وہی فوائد حاصل ہوں گے، جو 30 منٹ کے مسلسل ’دور‘ سے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے بچوں کے ساتھ ایکٹویٹیز جیسا کہ سودا لینے کے لیے دکان جانا یا بچوں کے ساتھ پارک میں کھیلنا ایکٹو اور فِٹ رہنے کا بہترین طریقہ ہے۔

اس ہی طرح بہت سی خواتین مختلف گھریلو ذمہ داریوں کے مصروف رہنے کے باعث فٹنس یا جِم جانے لیے وقت نہیں نکال پاتیں اس کے لیے فیملی یا دوستوں میں کسی کی مدد لی جا سکتی ہے۔ فٹنس ٹائم میں اپنے بچوں کو دیکھ بھال کے لیے کسی قابل اعتماد قریبی رشتہ دار یا دوست کے گھر چھوڑا جا سکتا ہے۔

پیشہ وارانہ امور یا دن بھر گھر کی ذمہ داریوں کے بعد خواتین تھک جانے کے باعث بھی ورزش کو اپنی روز مرہ زندگی کا حصہ نہیں بنا پاتیں، لیکن  باقاعدگی سے ورزش خواتین کوروزمرہ کی زندگی کے تقاضوں سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے توانائی فراہم کرتی ہے۔

اگر خواتین دیر تک ورزش کرنے کے بہ جائے تسلسل کے ساتھ روز کچھ منٹس کی ورزش پہلے چند ہفتوں کے دوران ہی تھکاوٹ کو دور کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔

خواتین کو صحت کے دیگر مسائل کی وجہ سے بھی باقاعدگی کے ساتھ ورزش کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خواتین اپنے ڈاکٹر سے مشاورت کے بعد ایسی ورزش کا انتخاب کریں، جو ان کی بیماری کم یا دور کرنے میں مددگار ثابت ہوں، جیسا کہ باقاعدگی کے ساتھ صبح کی واک سے بہت سی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔

ورزش یا ’ایکسرسائز‘ سے متعلق ایک رجحان یہ بھی ہے کہ ان کے لیے مہنگے ’جِم‘ جانا ضروری ہے، جب کہ ورزش کی بہترین شکل تیز تیز چلنا بھی ہے۔ باقاعدگی سے واک خواتین کو ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ رکھنے میں  بہترین مددگار ہوتی ہے۔

ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ خواتین کو اگر اپنا وزن کم کرنا ہے یا جسمانی طور پر فٹ لگنا ہے، تو بس سارا دن گھر کے کاموں مثلاً جھاڑو پونچھا، کپڑے دھونا وغیرہ جیسے کاموں میں مصروف رہیں، اس طرح جسم کی خود بہ خود ورزش ہو جائے گی، جو کہ بالکل ایک غط تصور ہے۔

کیوں کہ ورزش ایک ایسا باقاعدہ عمل ہے، جس میں انسان دنیا کی تمام فکروں اور پریشانیوں کو دماغ سے نکال کر صرف اپنی جسمانی صحت کے لیے یک سو ہوتا ہے۔ ورزش کے وقت اگر خواتین دن بھر کے مسائل مسئلے اور کاموں کی فکر چھوڑ کر صرف ’ایکسرسائز‘ پر توجہ دیں، تو یہ اب کی جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔

لہٰذا ورزش کو روزمرہ زندگی میں شامل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ان مسائل کی نشاندہی کی جائے، جو کہ ورزش کرنے میں رکاوٹ بننے کا سبب بن رہے ہوں اور پھر ان کے ممکنہ حل کے بارے میں بھی سوچیں۔ جیسا کہ وقت کی کمی یا پھر اس بات کو سمجھنا کہ دوسرے جتنے کام اہم ہیں، خواتین کا ورزش کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی کے معمولات کے ساتھ ساتھ ایسی سرگرمیوں کا انتخاب کریں، جس سے خود بھی لطف اندوز ہوں اور جسمانی طور پر بھی ’پرسکون‘ ہو سکیں۔ ساتھ ہی اپنی ڈائری لکھیں اور قابل حصول اہداف طے کریں، خود کو ’سب کچھ یا کچھ بھی نہیں‘ والی ذہنیت کا شکار نہ ہونے دیں۔

اگر آپ اس وقت فی ہفتہ صرف ایک یا دو ورزشی ’دور‘ کے لیے وقت نکال سکتی ہیں، تو بھی یہ آپ کی بڑی کام یابی ہے، کیوں کہ تھوڑی دیر کی گئی ورزش کچھ مدد گار ضرور ثابت ہوگی اور کچھ دیر ورزش بالکل بھی ورزش نہ کرنے سے نمایاں طور پر بہتر ہے۔

The post کیا گھر کے کام باقاعدہ ورزش کا متبادل ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

کینسر کا کامیاب علاج ممکن ہے

$
0
0

جس طرح ایک ذرہ ریگ میں پورا صحرا سمٹ آتا ہے اور ایک قطرہ آب پورے سمندر کا ترجمان ہوتا ہے، اسی طرح انسانی جسم کا ایک خلیہ پورے جسم کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہر خلیے میں زندگی سانس لیتی ہے اور ایک جیتاجاگتا وجود کروٹیں بدلتا ہے۔

ہر خلیے میں وہ ڈی این اے ہوتا ہے ، جو انسان کو کائنات کا منفرد کردار بخش دیتا ہے۔ ایسا کردار جو نشانِ ا نگشت کی طرح باقی دْنیا سے مختلف ہوتا ہے۔ خلیات ختم ہوجائیں تو زندگی کی شام ہوجاتی ہے۔کبھی کبھی یوںہوتا ہے کہ یہی خلیات اپنی شکل تبدیل کرلیتے ہیں اور تیزی سے تعداد میں بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ خلیات کا یہ بدلا ہوا رویّہ سرطان یا کینسرکو جنم دیتا ہے۔

اس مرض کو سنگین بنانے میں عوام الناس کی ناواقفیت اور کوتاہی کا بڑا دخل ہے۔ بروقت تشخیص اور علاج ہوجائے، تو سرطان سے مکمل نجات ممکن ہے۔ اسی مقصد کی خاطر 2000ء میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں انسانیت کا درد رکھنے والے بہت سے لوگ جمع ہوئے ۔ انھوں نے ہرسال 4 فروری کو ’ سرطان سے بچاؤ کا عالمی دِن ‘ منانے کا فیصلہ کیا۔

بعدازاں اقوامِ متحدہ نے بھی اس فیصلے کی تائید کی۔ یوں پچھلے23 برسوں سے اس اہم دِن کو منانے کا سلسلہ جاری ہے۔ عام طورپر ہر سال کسی بھی عالمی دِن کا ایک مرکزی موضوع یا تھیم ہوتاہے، مگر سرطان کے حوالے سے تین سالوں یعنی 2022ء سے 2024ء تک کے لیے ایک مشترکہ موضوع طے کیا گیا ہے :Close the care gap۔ اس موضوع کا تقاضا یہ ہے کہ دْنیا بَھرمیں سرطان کے مریضوں کے علاج اور دیکھ بھال میں جو تفاوت پایا جاتا ہے، اسے ختم کیا جائے اور تمام مریضوں کو یکساں درجے کی سہولیات فراہم کی جائیں۔

بلاشبہ بروقت تشخیص اور معیاری علاج کے ذریعے کینسر سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ اس مرض کو جنم دینے والی وجوہ اور پورے عمل کو آسان پیرائے میں بیان کردیا جائے۔

انسانی جسم بے شمار خلیات یا Cells کا مجموعہ ہوتا ہے۔مختلف اعضاء کے خلیات دوسرے اعضاء سے مختلف ہوتے ہیں، مگر ایک بات طے ہے کہ خلیہ زندگی کی بنیادی اکائی کا دوسرا نام ہے۔ خلیات کی اپنی زندگی کا مخصوص دورانیہ ہوتا ہے۔ فطر ت کی منصوبہ بندی کے تحت خلیات پیدا ہوتے ہیں۔ زندگی کا دورانیہ پورا کرتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں۔ مرنے والے خلیات کی جگہ نئے خلیات سنبھال لیتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتارہتاہے، یوںا نسانی زندگی بھی پیہم رواں رہتی ہے۔

سرطان کے مرض میں یہ سلسلہ بوجوہ بالکل مختلف شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جسم کی ضرورت اور خواہش کے بغیر بے تحاشا نئے خلیات جنم لیتے ہیں اور ان کا حجم بھی بڑھنا شروع ہوجاتاہے۔ جن خلیات کا ختم ہوجانا بہتر تھا وہ اپنی جگہ موجود رہتے ہیں اور نئے خلیات کے ساتھ مل کر ورم یا رسولی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔

رسولی کو انگریزی زبان میں ٹیومر (Tumour) کہا جاتا ہے۔اسی ’ رسولی ‘ یا ’ ٹیومر ‘ کا دوسرا نام ’ سرطان ‘ یا ’ کینسر ‘ ہوتا ہے۔ رسولی جسم کے کسی بھی حصّے مثلاً دماغ ، جگر، گْردہ ، مثانہ اور معدہ وغیرہ میں پیدا ہوسکتی ہے۔ بنیادی طورپر سرطان کی دوقسمیں ہوتی ہیں، جنہیں کیفیات ، علامات اور شدّت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے ممیز کیا جاتا ہے۔

وہ سرطان جو بے ضرر یا کم خطرناک ہوتے ہیں، انہیں حلیم یا Benign کہا جاتا ہے۔ بینائن ٹیومرکی اصطلاح سے اب عام لوگ بھی واقف ہوچْکے ہیں۔ سرطان کی دوسری قسم کو اْردومیں عنادی سرطان کہاجاتا ہے۔ نام سے ظاہر ہے کہ یہ سرطان انسانی زندگی سے بغض و عناد رکھتاہے اور جسم کی تباہی کاباعث بنتا ہے۔ انگریزی میں اس قسم کو Cancer Malignant کہتے ہیں۔

بینائن ٹیومر ایک ہی جگہ پر موجود رہتا ہے، البتہ اس کے بڑھتے ہوئے حجم کی وجہ سے جسم کے اس حصّے یا قریبی حصّوں کا کام متاثر ہوسکتا ہے۔ ایسی صْورت میں اس قسم کی رسولی کو آپریشن کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے اور انسان عام صحت مند زندگی بسر کرنے کے قا بل ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف عنادی سرطان یا میلگننٹ کینسر نہ صرف جسم کے اس حصّے کو متاثر کرتا ہے جہاں وہ موجود ہوتا ہے، بلکہ سرطانی خلیات cancerous cells مختلف ذرائع سے جسم کے دوسرے صحت مند اعضاء تک پہنچ جاتے ہیں۔ سرطانی خلیات کی اس منتقلی کو میٹاس ٹیسزMetastasis کہا جاتا ہے۔

مثال کے طورپر جگر اور معدے کے سرطان کے اثرات انسانی دماغ تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس طرح سے دوسرے مقام پر بھی سرطان پیدا ہوجاتا ہے ،جیسے ثانوی سرطان یا Secondary Cancer کہا جاتا ہے۔ سرطان کی مختلف شکلوں کو خلیات کی نوعیت کی بنیا د پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سرطان کی مندرجہ ذیل معروف اقسام سامنے آتی ہیں:

٭ کارسی نوما(Carcinoma) : یہ دْنیا میں سب سے زیادہ پایا جانے والا سرطان ہے، جو Epithelial Cells میں نمودار ہوتا ہے۔ یہ وہ خلیات ہیں ،جوایک تہہ کی شکل میں ہمارے جسم کی اندرونی اور بیرونی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔ مذکورہ تہہ ہماری جِلد اورمختلف اندرونی اعضاء پر پائی جاتی ہے اور ایک قسم کے حفاظتی غلاف کا کام کرتی ہے۔

سارکوما:(Sarcoma) یہ کینسر عمومی طورپر Connective Tissue میں جنم لیتا ہے۔یہ ٹشوز ہمارے جسم کے مختلف حصّوں کو باہم مربوط کرتے ہیں۔اس لحاظ سے یہ سرطان انسانی ہڈیوں، نرم ہڈیوں یاCartilage ،خون کی نالیوں، چربی اور پٹّھوں وغیرہ میں پیدا ہوتا ہے۔

خون کا سرطان(Leukemia): اس قسم کے سرطان میں خون کے سفید ذرّات بے تحاشا بڑھ جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ خون کے مختلف ذرّات ہڈیوں کے گودے میں پیدا ہوتے ہیں اور وہیں پر ان کی افزائش میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ہے۔

لمفوما (Lymphoma): خون کے سفید ذرّات کی ایک خصوصی قسم کولمفوسائٹ Lymphocyteکہا جاتا ہے۔یہ انسانی جسم کے دفاعی نظام لمف سسٹم  Lymph system میں پائے جاتے ہیں۔ سرطان کی صْورت میں یہ خلیات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

میلانوما :(Melanoma)یہ جِلد کے سرطان کی ایک قسم ہوتی ہے۔ جِلد میں خاص قسم کے خلیات پائے جاتے ہیں، جنہیں میلانو سائٹسMelanocytes کہا جاتا ہے۔ ہمارے جسم کی گندمی رنگت انہی خلیات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ بعض اوقات جِلد کے یہ خلیات غیرمعمولی طورپر بڑھ کر رسولی یا ٹیومر کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔

سرطان کی علامات وشکایات جاننے سے قبل ضروری ہے کہ سرطان کے مریضوں کی مجموعی تعداد سے ہمیں آگاہی ہوجائے۔اس وقت پوری دْنیا میں دو کروڑ کے قریب سرطان کے مریض ہیں جن میں 55 فی صد کے لگ بھگ مَرد اور 45 فی صد خواتین ہیں۔مختلف اقسام کے سرطان کا تناسب درج ذیل ہے:

٭  چھاتی کا کینسر 12.5فی صد۔

٭  پھیپھڑوں کا کینسر12.2فی صد۔

٭  بڑی آنت اور مقعد کا کینسر10.7فی صد۔

٭  مردانہ غدود یا پروسٹیٹ کا کینسر 7. 8فی صد۔

٭  معدے کا کینسر 6 فی صد۔

٭  جگر کاکینسر 5 فی صد۔

٭  بچّہ دانی کا کینسر 3.3فی صد۔

٭  غذا کی نالی کاکینسر 3.3فی صد۔

٭  تھائی رائڈ کا کینسر3.2فی صد۔

٭  مثانے کا کینسر3.2 فی صد۔

سرطان کی اور بھی کئی اقسام پائی جاتی ہیں ، مگر ہم نے اْن دس اقسام کا تذکرہ کیا ہے جو دْنیا میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ خیال رہے کہ مذکورہ بالا جائزہ جنس اور عْمر کی تخصیص کے بغیر لیا گیا ہے۔ دْنیا میں ہر سال ایک کروڑ سے زائد افراد سرطان کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دْنیا بَھر میں امراضِ قلب کے بعد سرطان کو موت کی بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں سرطان کے مریضوں کی مجموعی تعداد 15 لاکھ کے قریب ہے اور ہر سال 80 ہزار لوگ سرطان کی وجہ سے موت کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں۔

سرطان کی تشخیص صرف علامات کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی۔ زیادہ تر علامات عمومی نوعیت کی ہوتی ہیں ۔ ہم اکثروبیشتر ان کا سامناکرتے رہتے ہیں۔ مثلاً جسم کے کسی بھی حصّے میں ورم یا گلٹی کا نمودار ہونا، کھانسی، کھانسی کے ساتھ خون آنا، سانس لینے میں مشکل، نگلنے میں دشواری، وزن میں کمی ،تھکن،جسم میں درد، اسہال یا قبض، مقعد کے راستے خون آنا، جسم پر کسی نئے تِل کا نمودار ہونا یا پْرانے تل میں تبدیلی واقع ہونا، زخم اور السر کا ٹھیک نہ ہونا، خواتین کے سینے میں گلٹی پیدا ہونا، بھوک نہ لگنا، رات کوپسینے آنا، پیشاب کرنے کی عادت میں تبدیلی ہونا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ درست ہے کہ مذکورہ علامات عمومی نوعیت کی ہیں، مگر ان کی مسلسل موجودگی تقاضا کرتی ہے کہ کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔

اس موقع پرمناسب ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے پانچ اقسام کے سرطان کا تذکرہ کیا جائے۔ اس تذکرے میں ہم نے جنس اور عْمر کو پیشِ نظر رکھا ہے۔

 بریسٹ کینسر : پاکستان میں سب سے زیادہ پایاجانے والاسرطان ہے۔ خواتین کی بڑی تعداد اس مرض میںمبتلا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں اس مرض کی تشخیص ہوجائے، تو مکمل صحت یابی کا نوّے فی صد امکان ہوتا ہے۔ مرض کا آغازچھاتی میں گلٹی بننے سے ہوتا ہے۔  خواتین کو خود اپنی چھاتی کا معائنہ کرتے رہنا چاہیے اورکسی بھی شبہے کی صْورت میں ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرناچاہیے۔  سرطان کے مجموعی مریضوں میں سے14.5فی صدکا تعلق اس مرض سے ہوتا ہے۔

 ہونٹوں اور منہ کا کینسر :  تناسب کے اعتبار سے پاکستان میں اس سرطان کا نمبر دوسرا ہے۔ 9.5 فی صد مریض اس مرض کا شکار ہیں۔ یہ عام طورپر ایسے لوگوں کو ہوتاہے جو پان، چھالیا، گٹکا ، تمباکو، سگریٹ اور الکحل کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ اس مرض کی ابتدائی علامات مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ مثلاً ہونٹوں پر یا منہ کے اندر ایسے چھالے کا بننا جوکسی بھی طرح ٹھیک نہ ہوسکے۔ منہ کے اندرونی حصّے میں سفید یا سْرخ دھبّوں کا نمودار ہونا، دانتوں کا ہلنا، منہ میں درد ہونا ، نگلنے، چبانے اور منہ کھولنے میں تکلیف محسوس کرنا وغیرہ۔ علاج کے باوجود 40 سے 50 فی صد مریض موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ زندہ بچ جانے والوں کو بھی تکلیف دہ زندگی کا سا منا کرنا پڑتا ہے۔

پھیپھڑوں کا کینسر : پاکستان میں سرطان کے مجموعی مریضوںمیں تقریباً چھے فی صد مریض پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس سرطان کی وجہ تمباکونوشی ہے۔ اس مرض کا شکار ہونے والے نوّے فی صد افراد تمباکونوشی کے عادی ہوتے ہیں۔زیادہ تر مریضوں میں مرض کی ابتدا بغیر کسی علامت کے ہوتی ہے۔دیگر مریضوں میں کھانسی، کھانسی کے ساتھ خون کی آمد ، سانس لینے میں دشواری اور وزن میں کمی کی شکایات پائی جاتی ہیں۔ اکثر تمباکو نوش افراد کی وجہ سے ان کے اہلِ خانہ اور دوستوں کو بھی برے اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سگریٹ کا دھواں سانس کے ذریعے ان کے پھیپھڑوں تک پہنچتا ہے۔ اس عمل کو passive inhalationکہا جاتا ہے ۔ یہ بھی پھیپھڑوں کے لیے باقاعدہ تمباکونوشی کی طرح خطرناک ہے۔

 غذا کی نالی کا کینسر : پاکستان میں لوگوں کی بڑی تعداد غذا کی نالی کے سرطان میں مبتلا ہے۔  تناسب کے لحاظ سے یہ تعداد5.7 فی صد بنتی ہے۔ اس کی نمایاں علامات میں نگلنے میں دشواری، سینے میںجلن، بھوک اور وزن میں کمی شامل ہیں۔ تمباکو کا کثرت سے استعمال اور شراب نوشی اس مرض کی وجوہ بتائی جاتی ہیں۔

 بڑی آنت اور مقعد کا کینسر: مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے اس کینسر کا پاکستان میں پانچواں نمبرہے اور 4.8 فی صد مریض اس موذی بیماری کا سامنا کررہے ہیں۔اس بیماری کے دوران اسہال یا قبض، پیٹ میں درد ،مقعد سے خون کا اخراج، تھکن اور وزن میں کمی کی شکایات ہوتی ہیں۔

ہم پچھلی سطورمیں عرض کرچکے ہیں کہ محض علامات کی بنیاد پر سرطان کی تشخیص نہیں کی جاسکتی۔ سرطان کی تشخیص کے لیے مریض کو عمومی طور پر چارمراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جسمانی معائنہ ، لیبارٹری ٹیسٹ، ایکس رے، الٹرا ساؤنڈ اور سی ٹی اسکین وغیرہ اور بائیوآپسیBiopsy ۔ یہ سارے مراحل اہمیت کے حامل ہیں ، مگر سرطان کی حتمی تشخیص بائیو آپسی کے ذریعے ہوتی ہے، جس میں متاثرہ مقام سے چھوٹا سا ٹکڑا حاصل کرکے خوردبین سے اس کا معائنہ کیا جاتا ہے۔

یوں سرطان کی موجودگی یا غیر موجودگی کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ تشخیص کے ساتھ یہ جاننا بھی انتہائی ضروری ہے کہ سرطان کی شدّت اورپھیلاؤ کتنا ہے، سرطان ایک مقام پر محدود ہے یا دوسرے اعضاء بھی اس کی زد میں آچْکے ہیں۔یاد رہے کہ بروقت تشخیص سے ایک تہائی اموات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

سرطان کی حتمی تشخیص

سرطان کی شدّت اور پھیلاؤ سے آگہی کے بعد باقاعدہ علاج کا مرحلہ ہوتاہے۔ آج کل سرطان کے علاج کے لیے متعدّد جدیدطریقے منظرِعام پر آچْکے ہیں، مگر گزشتہ کئی برسوں سے مندرجہ ذیل تین طریقے زیادہ مستعمل ہیں:

سرجری : آپریشن کے ذریعے سرطان کو مکمل طور  پر یا اس کے بڑے حصّے کو جسم سے نکال دیا جاتا ہے۔  سرجری کی بدولت سرطان کے مکمل خاتمے کا امکان ہوتاہے۔

کیموتھراپی: یہ علاج کا دوسرا معروف طریقہ ہے، جس میں بطور خاص سرطان کے لیے تیار کی ہوئی ادویہ کا استعمال ہوتا ہے۔ ان ادویہ کے خاصے مضراثرات ہیں، مگر اصل مقصد کے حصول کے لیے انھیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔

ریڈیوتھراپی : اس طریقہ علاج میں ایکس رے سے مشابہ طاقت ور شعاعیں استعمال کی جاتی ہیں جو سرطانی خلیات کو ہلاک کردیتی ہیں۔ پاکستان کے متعدّد بڑے شہروں میں اس قسم کے علاج کے مراکز موجود ہیں۔ اسی علاج کی جدید شکل سائبرنائف سسٹم ہے، جوزیادہ معتبر اور موثر ہے۔ اس میں روبوٹ کا استعمال ہوتا ہے اور براہِ راست سرطانی خلیات کو ہدف بنایا جاتا ہے۔

اس موقع پر مناسب ہوگا کہ سرطان کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے کچھ مزید طریقوں کا تذکرہ کردیا جائے۔

ہڈیوں کے گْودے کی پیوندکاری یا بون میرو ٹرانس پلانٹ: ہڈیوں کا گْودا وہ مقام ہے، جہاں خون کے تمام خلیات کی افزائش ہوتی ہے۔ گْودے کی پیوندکاری سے خون کے سرطانی خلیات کا خاتمہ ممکن ہے۔

ہارمون تھراپی: کچھ سرطان اس قسم کے ہوتے ہیں، جن کی افزائش کے لیے مختلف ہارمون استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً چھاتی اور پروسٹیٹ کا سرطان۔ اس طریقہ علاج سے سرطانی خلیات کی افزایش کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

کرایو ا بلیشن (Cryoablation): یہ بڑا منفرد طریقہ علاج ہے۔اس میں شدید ٹھنڈک کے ذریعے سرطانی خلیات کا خاتمہ کیا جاتا  ہے۔

ریڈیو فریکوئنسی ابلیشن(  Radiofrequency Ablation):  اس طریقہ میں برقی توانائی کے ذریعے حرارت پہنچا کر سرطانی خلیات کو تباہ کردیا جاتا ہے۔

امیونو تھراپی(ImmunoTherapy): یہ بالکل جدید طریقہ علاج ہے، جس میں انسان کے دفاعی نظام یعنی امیون سسٹم متحرک کرکے سرطان کا خاتمہ کیا جاتاہے۔

جینیاتی علاج ( Therapy Gene ): یہ بڑا محفوظ طریقہ علاج ہے، مگر بہت زیادہ مستعمل نہیں۔ اس میں ناکارہ جین کی جگہ صحت مند اور متحرّک جین جسم میں منتقل کیا جاتا ہے۔

سرطان کی شدّت اور وسعت کے لحاظ سے مندرجہ بالا کوئی ایک یا ایک سے زائد طریقے علاج کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔اس موقعے پر یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرطان کے علاج کے لیے اتنے منہگے اور مشکل طریقوں کی نوبت کیوں آتی ہے؟ ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے جینے کا انداز تبدیل کرلیں، تو سرطان کے مریضوں میں 40فی صد کمی واقع ہوسکتی ہے۔درج ذیل پانچ محرّکات ایسے ہیں، جن پر توجّہ دے کر سرطان کے مرض پر خاصی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے:

1۔سگریٹ نوشی اور تمباکوکااستعمال ختم کردیا جائے۔

2۔شراب نوشی اور نشے کی دیگر عادات کو ترک کیا جائے۔

3۔خوراک میں سبزیوں اور پھلوں کا زیادہ استعمال کیا جائے۔

4۔وزن کی زیادتی اورمٹاپے پر قابوپایا جائے۔

5۔غیرفعالیت کو ترک کرکے باقاعدہ ورزش کا آغاز کیا جائے۔

اہم ترین بات یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمیں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ اپنے رویّوں اور معاملات میں اعتدال کا راستہ اختیار کیا جائے۔ غصّے، اشتعال، حسد، بغض، کینے اور دیگر منفی جذبات سے گریز کیا جائے۔ صرف تکالیف میں نہیں، ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا جائے۔ باقاعدگی سے مطالعہ قرآن اور نماز کا اہتمام کیا جائے۔

یہ اندازِ زندگی اختیار کرنے سے ہمیں اندر کا اطمینان نصیب ہوتا ہے اور ہمارے جسم کا داخلی نظام درست ہوتا ہے۔ اس طرح ہمیں مختلف امراض سے محفوظ رہنے میں مدد ملتی ہے ۔ اگر پھر بھی کسی مرض میں مبتلا ہوجائیں ، تو ہمّت اور حوصلے کے ساتھ مرض کا سامنا کرنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔

( ڈاکٹر افتخار برنی اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔ )

 

The post کینسر کا کامیاب علاج ممکن ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

بعض دوائیں کافی یا چائے کے ساتھ کیوں نہیں کھانی چاہئیں؟

$
0
0

ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے ایک کپ کافی یا چائے کے بغیر دن کا آغاز ناقابل تصور ہے۔ تاہم بعض صورتوں میں دوا کے ساتھ لیے جانے والے مشروب کے حوالے سے احتیاط برتنی چاہیے۔کچھ دوائیں دن کے مختلف اوقات میں لی جا سکتی ہیں لیکن یہ بھی ہدایت کی جاتی ہے کہ انھیں ایسی چیزوں کے ساتھ نہ لیں جن میں کیفین ہو۔

میڈرڈ کی یونیورسٹی میں فارماکولوجی کے پروفیسر انتونیو جیویئر کارکاس سنسوان نے بتایا: ’ تقریباً 60 ایسی دوائیں ہیں جن کا کیفین کے ساتھ منفی اثر نہیں ہوتا۔ جب ہم کوئی دوا لیتے ہیں، تو یہ ہمارے جسم سے گزرتی ہوئی ایک بار معدے یا آنت میں پہنچنے کے بعد خون میں جاتی ہے اور پھر پورے جسم میں تقسیم ہوجاتی ہے‘‘۔

ناوارا یونیورسٹی میں فارماکولوجی کی پروفیسر ایلینا پیوترا روئیز ڈی ازوا، نے بتایا کہ ادویات کے فارماکولوجیکل ہدف ہوتے ہیں، یعنی ان کا مثبت اثر تب شروع ہوتا ہے جب وہ جسم میں مخصوص حصوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ یہ ہدف کسی بیماری کے علاج کے لیے ایک سٹریٹجک پوائنٹ ہوتے ہیں۔ جبکہ دوا کا اثر شروع کرنے یا اسے بلاک کرنے کے لیے پروٹین کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے لیے دوا کو جسم میں پوری طرح جذب اور تقسیم ہونا پڑتا ہے۔

دوا کو میٹابولائز یعنی جسم سے خارج ہونا پڑتا ہے اور یہ کام جگر کا ہے۔ یہ جسم کے ان اعضا میں شامل ہے جو جسم کو پاک کرتا ہے لیکن اگر اس سارے سفر میں کافی کا اضافہ کر دیا جائے تو کیا ہوگا؟ یہ دوا اور اس کے مقصد پر منحصر ہے۔

کیفین اعصابی نظام کا محرک

یاد رکھیں کہ کیفین مرکزی اعصابی نظام کا محرک ہے، جو گھبراہٹ اور ہائی بلڈ پریشر کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر ہم ایسی دوا کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس کا مقصد دماغ کے لیے سکون بخش اثر پیدا کرنا ہے تو اسے کافی یا کیفین والے مشروب میں ملانا نقصان دہ ہوگا کیونکہ یہ دوا کے اثرات کو کم کر دے گا۔ علاج میں استعمال ہونے والی ان میں سے کئی دوائیں ’بینزو ڈیازپین‘ کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، جو بے چینی اور بے خوابی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

پیوترا کا کہنا ہے کہ ’دوا کے ساتھ ساتھ کیفین بھی دماغ تک پہنچ جائے گی، پھر ایک طرف آپ کا اعصابی نظام کیفین سے محرک ہوگا اور دوسری طرف دوا کا اثر ہوگا۔ ان دوائیوں کو کیفین سے بھرپور مشروبات کے ساتھ لینے کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کیونکہ آپ کافی یا کولا کے ذریعے جو مالیکیول لے رہے ہیں وہ دواؤں کے بالکل برعکس کام کرتے ہیں۔‘

جگر میں ضرورت سے زیادہ دوا جمع ہوجانا

اس کے علاوہ کچھ ادویات جگر میں میٹابولائز ہونے کے لیے کیفین کی طرح انزائمز اور پروٹینز کا استعمال کرتی ہیں ۔ اس لیے اس میں ایک قسم کی مداخلت ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ دوا جسم میں ضرورت سے زیادہ جمع ہو جاتی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ’کچھ دوائیوں کے لیے پلازما میں اضافہ غیر متعلقہ ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے پاس حفاظتی گنجائش زیادہ ہے۔’ لیکن دیگر بہت ہی مخصوص ادویات کے لیے، جیسے کہ شیزوفرینیا کے لیے تجویز کردہ ادویات، جن کے علاج میں یہ ضروری ہے، کا ایک جگہ جمع ہونا خطرناک ہوسکتا ہے۔ وہ ایسی دوائیں ہیں جن کی کچھ زیادہ مقدار سے تو فرق نہیں پڑتا لیکن اگر یہ طے شدہ مقدار سے بڑھ جائے تو اس سے خطرہ بڑھ سکتا ہے۔‘

کارکاس کہتے ہیں کیفین کچھ ادویات کے اثر کو بڑھا کر یا کم کر کے اس میں ترمیم کر سکتی ہے۔ ایسی دوائیں بھی ہیں جو کیفین کے میٹابولزم کو روک کر مذکورہ عمل کے ذمہ دار انزائم کے عمل کو روکتی ہیں۔ اس کی ایک مثال کوئنولونز جیسی کچھ اینٹی بائیوٹکس ہیں۔ پروفیسر کا کہنا ہے کہ ’ایسا ہو سکتا ہے کہ یہ دوا کیفین کے میٹابولزم کو دباتی ہے یا کم کرتی ہے اور اس وجہ سے جسم میں کیفین کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔‘

ہاضمے کا مسئلہ

یہ بھی ہدایت کی جاتی ہے کہ کچھ دوائیں، جیسے کہ ہائپوٹائرائڈزم کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوائیں، خالی پیٹ لی جائیں۔ پیوترا کا کہنا ہے کہ ’یہ ضروری ہے کہ تھائروکسین کو خالی پیٹ لیا جائے، بغیر کوئی کھانا یا کافی پیئے، اور یہ کہ ناشتہ کرنے سے پہلے کچھ دیر انتظار کیا جائے تاکہ آنتوں کی سطح پر دوائی پوری طرح جذب ہو اور اس طرح ہمارے جسم میں ہارمون کی بہترین سطح حاصل ہوسکے۔‘

اور یہ ہے کہ معدے اور آنت میں خوراک کی موجودگی بعض ادویات کے جذب ہونے میں ممکنہ طور پر رکاوٹ بن سکتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ تجویز کردہ خوراک لیتے ہیں اور اگر اس کا ایک حصہ جذب نہیں ہوتا ہے، تو اس کا طبی اثر نہیں پڑے گا۔‘ تاہم دوسری دوائیوں کے لیے، خوراک بہترین اصول ہے۔ سوزش والی کچھ دوائیں گیسٹرک میوکوسا کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ اس وجہ سے بعض اوقات تجویز کیا جاتا ہے کہ اسے کھانے کے ساتھ کھایا جائے تاکہ اس سے گیسٹرو کے نقصان دہ اثر کو کم کیا جا سکے۔‘

کافی میں دودھ کا عنصر

پیوترا کا کہنا ہے کہ ’بڑی مقدار میں دودھ والی کافی سے دھوکہ نہ کھائیں۔ ’ٹیٹراسائکلائنز، جو کہ ایک قسم کی اینٹی بائیوٹک ہیں، دودھ کے ساتھ مل کر پیچیدگی پیدا کرتی ہے اور اسے جذب ہونے سے روکتی ہے۔‘ بعض ادویات کو ڈیری اشیا کے ساتھ لینے سے فرق نہیں پڑا تاہم کچھ اینٹی بائیوٹکس کا اثر اس سے ضائع ہوسکتا ہے۔

پیوترا کا کہنا ہے کہ اگر مرکزی اعصابی نظام کو متاثر کرنے والی دوائیں، جیسے اینٹی ڈپریسنٹس لی جاتی ہیں، تو ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے، کیونکہ کیفین خود اس نظام کا ایک بڑا محرک ہے۔ یہ ضروری ہے کہ دوائیں اسی طرح لی جائیں جیسا کہ ماہرین صحت کی طرف سے کہا گیا ہے۔

’گھریلو نسخوں کو بھول جائیں۔ اگر یہ ایک تھیلی ہے اور اسے پانی میں تحلیل کرنا ہے تو اسے اس طرح کریں، نہ کہ جوس یا دوسرے مائع میں کیونکہ یہ دوا کے اثر کو مکمل طور پر تبدیل کر دیتے ہیں۔‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سی دوائیں ہیں جن کو کافی کے ساتھ لینا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

کارکاسکا کہنا ہے کہ ’آپ کو ہر کیس کو الگ طرح سے دیکھنا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانے کا بہترین طریقہ اس بارے میں اپنے فارماسسٹ یا ڈاکٹر سے پوچھنا ہے۔ ’عام طور پر اعتدال میں کافی پینا اچھا ہے۔‘

 

The post بعض دوائیں کافی یا چائے کے ساتھ کیوں نہیں کھانی چاہئیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا پاستا کھانے سے وزن بڑھتا ہے؟

$
0
0

نیا سال، آپ اور غذا کا نیا پلان۔ یہ پرہیز سے متعلق ایک عمومی سوال ہے جو ذہن میں گھر کر جاتا ہے۔

پرہیز کی ایک مشہور تکنیک کھانے کی ’بلیک لسٹ‘ تیار کرنا ہے، جس میں ’کاربوہائیڈریٹ‘ یا پیکڈ فوڈز کو چھوڑنا عام ہے، جس کا ایک واضح مطلب پاستا سے پرہیز کرنا ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا ہمیں واقعی اپنی غذا کو بہتر بنانے کے لیے پاستا کو بلیک لسٹ کرنے یعنی اپنی غذا کی فہرست سے نکالنے کی ضرورت ہے۔

اس طریقہ کار کو ہم غذائیت کے لیے ’تخفیف پسندانہ نقطہ نظر‘ کہتے ہیں جس میں ہم فوڈ میں شامل صرف کسی ایک چیدہ عنصر کا انتخاب کرتے ہیں مگر واضح رہے کہ پاستا صرف کاربوہائیڈریٹ نہیں ہے۔

اس بات کے ثبوت کے لیے اعدادوشمار پر نظر دوڑاتے ہیں۔ ایک کپ تقریباً 145 گرام پکے ہوئے پاستا میں تقریباً 38 گرام کاربوہائیڈریٹ، 7.7 گرام پروٹین اور 0.6 گرام چربی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ تمام پانی ہے جو کھانا پکاتے وقت جذب ہو جاتا ہے اوراس میں دیگر بہت سے وٹامنز اور معدنیات شامل ہوتے ہیں۔ لیکن پاستا زیادہ تر کاربوہائیڈریٹ ہے!

ایک پلیٹ پر آپ کا دن

آپ شاید جانتے ہوں گے کہ ہمیں ایک دن میں کتنی کیلوریز (توانائی) کھانے کے بارے میں سفارش یا تجویز دی جاتی ہے۔ ہر ایک کے لیے یہ تجویز مختلف ہو سکتی ہے۔ ایسی تجاویز کا انحصار جسم کے سائز، جنس اور جسمانی سرگرمیوں پر ہوتا ہے لیکن آپ کو یہ احساس نہیں ہو گا کہ میکرو نیوٹرینٹ پروفائل یا کھانے کی اقسام کے لیے بھی سفارشات موجود ہیں، جو اس توانائی کا باعث بنتی ہیں۔

چربی، کاربوہائیڈریٹس، اور پروٹین میکرونیوٹرینٹس ہیں۔ ہمارے جسم کے لیے توانائی پیدا کرنے کے لیے میکرونٹرینٹس جسم میں ٹوٹ جاتے ہیں۔ قابل قبول ’میکرو نیوٹرینٹ‘ کی تقسیم کی حدیں ’میکرو نیوٹرینٹس‘ کے تناسب یا فیصد کی وضاحت کرتی ہیں جو اس توانائی کو فراہم کرتی ہیں۔ ان حدود کا تعین ماہرین صحت کرتے ہیں جو اس کے صحت پر اثرات اور کھانے کی عادات کو دیکھ کر طے کرتے ہیں۔

اس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ ہم معیاری غذا ایک خاص حد کے اندر رہ کر کھائیں کیونکہ کسی بھی قسم کے کھانے کا بہت زیادہ یا بہت کم استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ یہ تناسب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بھی بنایا گیا ہے کہ ہمیں کافی وٹامنز اور معدنیات ملیں جو ہم عام طور پر کھانے کی چیزوں میں توانائی کے ساتھ حاصل کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی توانائی کا 45-65 فیصد کاربوہائیڈریٹ سے 10-30 فیصد پروٹین سے اور 20-35 فیصد چربی سے حاصل کرنا چاہیے۔

’ہر گرام پروٹین میں ایک گرام کاربوہائیڈریٹ کے برابر توانائی ہوتی ہے‘

میکرو غذائیت کے تناسب کا مطلب یہ ہے کہ پروٹین کے مقابلے میں ایک دن میں 1.2 سے 6.5 گنا زیادہ کاربوہائیڈریٹ کھانا صحت مند ہوسکتا ہے کیونکہ ہر گرام پروٹین میں ایک گرام کاربوہائیڈریٹ کے برابر توانائی ہوتی ہے۔ پاستا میں کاربوہائیڈریٹس اور پروٹین کا تناسب 38 گرام سے 7.7 گرام ہے، جو تقریباً پانچ سے ایک کے تناسب کے برابر ہے جو کہ میکرونیوٹرینٹ کی تقسیم کی قابل قبول حد کے اندر ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ پاستا میں دراصل کاربوہائیڈریٹ کو متوازن کرنے کے لیے کافی پروٹین موجود ہے۔ یہ صرف پاستا میں شامل انڈوں کی وجہ سے ایسا نہیں ہے بلکہ گندم پروٹین کا ایک اور ذریعہ ہے اور دنیا بھر میں استعمال ہونے والے پروٹین کا تقریباً 20 فیصد بنتا ہے۔ کیلوری کی سطح اور وزن میں اضافے کے درمیان تعلق بھی واضح کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔

صحت مند غذا کے تناظر میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب لوگ پاستا کو اپنی خوراک میں باقاعدگی سے شامل کرتے ہیں تو وہ زیادہ وزن کم کرتے ہیں۔ اور دس مختلف مطالعات کے جائزے سے پتا چلا کہ کھانے کے بعد خون میں گلوکوز کی سطح کے لیے روٹی یا آلو کے مقابلے میں پاستا بہتر ہے۔

’سپی گیٹی‘ (پاستا) کو ترک کرنے کے بجائے آپ کو اپنے حصے کے سائز کو کم کرنے یا پورے گندم کے پاستا کو تبدیل کرنے پر غور کرنا چاہیے، جس میں فائبر زیادہ ہوتا ہے، جو آنتوں کی صحت کے لیے فوائد فراہم کرتا ہے اور آپ کو زیادہ دیر تک پیٹ بھرنے کا احساس کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔گلوٹین فری پاستا میں گندم کے پاستا سے تھوڑا کم پروٹین ہوتی ہے۔ لہٰذا صحت مند ہونے کے باوجود گلوٹین کو بالکل پسند نہ کرنے والوں میں سے اکثر کے لیے گلوٹین فری پاستا استعمال کرنے کے کوئی بڑے صحت کے فوائد نہیں ہیں۔

’پاستا کے ساتھ اٹالین چٹنی ہو تو پھر ذائقہ بنتا ہے‘

عام طور پر پاستا واحد ڈش کے طور پر نہیں کھایا جاتا ہے لہٰذا جب کہ کچھ لوگ ’کھلے کاربوہائیڈریٹ‘ کھاتے وقت بلڈ شوگر کے بڑھنے کے خطرات کے بارے میں خبردار کرتے ہیں (جس کا مطلب صرف کاربوہائیڈریٹ کے ساتھ کچھ اور نہیں کھانا ہے)۔ عام طور پر پاستا کھانے سے ایسے کسی خطرے کا اندیشہ نہیں رہتا ہے۔ جب پاستا کھانے کی ایک بنیاد بنتا ہے تو ایسے میں یہ لوگوں کو چٹنی وغیرہ کے ساتھ زیادہ سبزیاں کھانے کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ آپ کے پروٹین پروفائل کے لیے صرف پاستا نہ کھانا بھی اہم ہوتا ہے۔

پلانٹ فوڈز عام طور پر مکمل پروٹین نہیں ہوتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ہمیں ان تمام مختلف قسم کے امینو ایسڈز (پروٹین کے بلڈنگ بلاکس) حاصل کرنے کے لیے ان کے مجموعے کھانے کی ضرورت ہے جن کی ہمیں زندہ رہنے کے لیے ضرورت ہے۔ جب کہ ہم اکثر کاربوہائیڈریٹ اور توانائی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں تو ایسے میں پاستا اچھی غذائیت کا سبب بن جاتا ہے۔ زیادہ تر کھانوں کی طرح وہ صرف میکرونیوٹرینٹس نہیں ہیں، ان میں مائیکرو نیوٹرینٹس بھی ہوتے ہیں۔

ایک کپ پکے ہوئے پاستا میں وٹامن ’بی ون‘ اور ’بی نائین‘ کی تجویز کردہ روزانہ کی مقدار کا تقریباً ایک چوتھائی، سیلینیم کی تجویز کردہ مقدار کا نصف اور ہماری آئرن کی ضروریات کا دس فیصد ہوتا ہے۔ جب ہم پاستا کو محض بچی ہوئی خوراک کے طور پر کھاتے ہیں تو پھر ایسے میں وہ صحت کے لیے اچھا ہوجاتا ہے۔ جب پاستا پکتا ہے اور ٹھنڈا ہوتا ہے تو کاربوہائیڈریٹس میں سے کچھ مزاحم نشاستے میں بدل جاتے ہیں۔

یہ نشاستہ جس کا نام ہاضمے کے خلاف مزاحم ہونے کی وجہ سے پڑا ہے، اس لیے یہ کم توانائی فراہم کرتا ہے اور خون میں شکر کی سطح کے لیے بہتر ہے۔ اس لیے بچا ہوا پاستا، چاہے آپ اسے دوبارہ گرم کریں، اس میں گذشتہ رات کی نسبت کم کیلوریز ہوتی ہیں۔

کاربوہائیڈریٹ مختلف شکلوں اور مختلف کھانوں میں آتے ہیں

وزن میں کمی کے لیے کاربوہائیڈریٹ کو کم کرنے کے بارے میں بہت سی باتیں ہوتی ہیں، لیکن آپ کو یاد رکھنا ہوگا کہ کاربوہائیڈریٹ مختلف شکلوں اور مختلف کھانوں میں آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ جیسے پاستا دیگر فوائد فراہم کرتے ہیں۔

جب آپ کے کاربوہائیڈریٹس کی مقدار کو کم کرنے کی بات آتی ہے تو سب سے پہلے سادہ کھائی جانے والی مٹھائیوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ بنیادی کاربوہائیڈریٹس جو کاٹنے سے قبل اکثر سبزیوں کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں ممکنہ پر غذا کا سب سے صحت مند گروپ ثابت ہو سکتا ہے۔            ( بشکریہ بی بی سی )

The post کیا پاستا کھانے سے وزن بڑھتا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

مسئلہ کشمیر قدم بہ قدم

$
0
0

20 جنوری 1947 ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے وادی جموں وکشمیر میں ہونے والی لڑائی کو روکنے کے لیے جنگ بندی کی قرارداد منظور کی۔

قبل ازیں 17 جنوری 1947 ء کو ہندوستان نے سیکیوریٹی کونسل کے صدر کے نام اس بابت مراسلہ ارسال کیا جس کا جواب پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری کے نام ایک مکتوب میں دیا گیا۔

اقوام متحدہ کی 20 جنوری کی قرارداد میں جنگ بندی کو مؤثر بنانے کے لیے فوجی مبصرین کی تعیناتی اور ریاست جموں وکشمیر میں استصواب رائے کے لیے پاک ہند کمیشن قائم کرنے کا کہا گیا۔ کشمیر میں جنگ بندی پر بعض حلقوں میں تحفظات رہے ہیں جو اس وقت کے زمینی حقائق سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتے۔

ایک جانب پاک فوج کے انگریز سپاہ سالار نے گورنرجنرل کی حیثیت سے قائداعظم کے احکامات پر عمل درآمد سے انکار کردیا اور جنگ میں فوج بھیجنے کی صورت میں برطانوی فوجی ماہر افسران کو واپس بلانے کا عندیہ دیا۔

دوسری طرف برصغیر میں پاکستان اور ہندوستان کی ریاستوں کی بنا پر برطانوی ہند کے مالی وعسکری اثاثہ جات کی تقسیم ابھی باقی تھی اور پاکستان کے پاس طویل جنگ کے لیے مطلوبہ فوجی سازوسامان میسر نہیں تھا بلکہ پاکستان کے حصہ میں آنے والی فوج کی افرادی قوت بھی ابھی پوری طرح دوسری جنگ عظیم کے محاذوں سے وطن واپس نہیں آئی تھی۔
پاکستان کی نئی ریاست کو پاک وہند میں تبادلہ آبادی کے مسائل، مرکزی دارالحکومت میں سول سیکریٹریٹ اور وزارتوں کی تشکیل میں وزارت دفاع وخارجہ دونوں شامل تھیں، جیسے مسائل کا سامنا تھا۔

اسی طرح ملک میں نقل وحمل کے لیے ریلوے کا نظام بھی ایندھن کم ہونے کے سبب مشکلات کا شکار تھا جب کہ بھارتی افواج بھی سری نگر کے فضائی مستقر پر اترچکی تھیں۔ اسی دوران 21 اپریل اور3 جون 1948 کو بھی سلامتی کونسل نے کمیشن کو استصواب رائے کی کارروائی تیز کرنے کی ہدایت کی۔ 13 اگست 1948 ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے زیراہتمام انڈیا کے کمیشن نے اپنا لائحہ عمل پیش کیا۔

اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد کے نتیجے میں استصواب رائے کے لیے ڈکسن کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ یونائیٹڈنیشنز کی جانب سے جموں وکشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا گیا اور برصغیر کی آزادی کے نتیجے میں قائم ہونے والی پاکستان اور ہندوستان کی ڈومینیز میں کسی ایک سے الحاق کے لیے استصواب رائے کے حصول کے لیے کام کا آغاز ہوگیا ۔

یہ پیش رفت سفارتی سطح پر پاکستان کی بڑی کام یابی تھی۔ برصغیر جنوبی ایشیاء کی تقسیم کے ایجنڈا کے مطابق برصغیر میں واقع دیسی ریاستوں کے لیے دونوں میں سے کسی ایک ڈومینین سے الحاق کا فارمولہ طے کردیا گیا تھا۔

عالمی سطح پر پاکستان کی دوسری بڑی کام یابی 5 جنوری 1949 ء کو اس وقت ہوئی جب استصواب رائے کے لیے پاک بند کمیشن نے مذکورہ پیش رفت روبہ عمل لانے کے لیے اجلاس منعقد کیا اور اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اقدامات کو مربوط بنایا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 13 اگست 1948 کو کمیشن نے اپنے لائحہ عمل میں وادی کشمیر کے عوام کے انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی حقوق کو بحال رکھنے کا بھی اعادہ کیا۔
مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کے طاقت ور ترین ادارہ سلامتی کونسل نے وادی میں استصواب رائے کے لیے پیش رفت کو جاری رکھا۔ یہاں تک کہ مارچ1951 میں سلامتی کونسل نے کمیشن کی کارروائیوں کا جائزہ لیتے ہوئے فریقین کو مشورہ دیا کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تشریح کے تناظر میں اختلاف رائے کی صورت میں عالمی عدالت انصاف سے بھی رجوع کرسکتے ہیں۔

اس موقع پر ہونے والی سلامتی کونسل کی کارروائی میں سوویت یونین اور ہندوستان نے حصہ نہیں لیا اور غیرحاضر رہے۔ اس سے قبل 20 جنوری 1948 کی جنگ بندی کی قرارداد پر بھی سوویت یونین اور یوکرین نے حصہ نہیں لیا تھا۔ مارچ 1951 میں منعقدہ سلامتی کونسل اجلاس میں استصواب رائے کمیشن کے سربراہ ڈکسن کا استعفیٰ سامنے آیا۔ بعدازآں فرینک گراہم نے ڈکسن کی جگہ کمیشن کی سربراہی سنبھالی اور استصواب رائے کے لیے مزید کاوشوں کا آغاز کیا گیا۔

سلامتی کونسل اور کمیشن کی کارکردگی کو پاکستان میں باقاعدہ وزارت عظمیٰ کی سطح پر مانیٹر کیا جاتا رہا۔ 30 مارچ 1951 کو سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد ستمبر میں وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل سے قبل سلامتی کونسل کے اجلاس کی تواریخ اور ایجنڈے کے مطابق 18 اکتوبر اور 10 نومبر1951 ء کو سلامتی کونسل کے اجلاس منعقد ہوئے جن میں استصواب رائے کمیشن کے اقدامات اور کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔

ابھی یہ پیش رفت جاری تھی کہ پاکستان میں “رجیم چینج” ہوگیا اور اصل اقتدار ملک غلام محمد، سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے سنبھال لیا۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اور ان کی حکومت اس ٹرائیکا کے سامنے بے بس نظر آئے۔ چناںچہ ایک سال سے زائد عرصہ تک سلامتی کونسل یا کمیشن کا کوئی اجلاس دسمبر 1952 ء سے قبل منعقدہ نہیں ہوا۔

سوال یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں اس عالمی سرد مہری کے باوجود پاکستان نے کوئی علیحدہ موقف کیوں اختیار نہیں کیا؟ دراصل اگر ہم اس عمل کو من وعن تسلیم نہ کرتے تو عالمی طور پر ممالک کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا جس کا نوزائیدہ پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اکتوبر 1951 ء میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی استصواب رائے کے تناظر میں مسئلہ کشمیر پر پیش رفت سست روی کا شکار ہوگئی اور پھر مسئلہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس چار سال کی تاخیر کے بعد1957 میں منعقد ہوا۔

اس وقت تک بہت سا پانی سر سے گزر چکا تھا۔ 6 سال کی تاخیر کے بعد 1964 میں سلامتی کونسل کے صدر نے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کے تناظر میں پاک ہند کمیشن کی کارکردگی کا جائزہ لیا لیکن اس کے بعد کمیشن کا کوئی کام سامنے نہیں آیا۔

یہاں پاکستان کے کہنہ مشق مرحوم سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان کا بیان قابل غور ہے کہ جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ 1947 ء میں لیاقت علی خان سے لے کر 1958 ء میں ملک فیروز خان نون کے دوروزارت عظمیٰ میں پاکستان کا دیگر ممالک کے ساتھ رابطوں میں گرم جوشی مسئلہ کشمیر پر ان ممالک کی جانب سے پاکستان کے موقف کی تائید سے مشروط تھا۔

1965 ء میں مسئلہ کشمیر کے سلسلہ میں ہی پاکستان اور بھارت کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل آگئیں جس کے نتیجے میں دونوں ممالک 17 روز تک مکمل حالت جنگ میں رہے۔

ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہرلعل نہرو کی رحلت سے چند روز قبل مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی عوامی قیادت سے گفت وتنقید کے کے لیے بھارتی وزیراعظم کے اعادے پر جے پر کاش نارائن اور شیخ عبداللہ پر مشتمل ایک وفد پاکستان کا دورہ پر آیا تھا اور اس دوران مختلف سیاسی قائدین سے ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں۔ ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے انتقال کی خبر آگئی اور یوں یہ جدوجہد بھی رائیگاں گئی۔

1968 میں صدر ایوب خان کے خلاف عوامی مزاحمتی تحریک شروع ہوئی جس کے نتیجے میں مارچ 1969 میں ایک اور فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور پاکستان میں نئی آئین سازی کا سیاسی عمل شروع ہوا۔ دسمبر 1970 ء میں آئین ساز اسمبلی منتخب ہوئی اور اگلے ہی سال 1971 ء میں ملک ایک بڑے آئینی اور سیاسی بحران کا شکار ہوگیا جس کے نتیجے میں 16دسمبر 1971 ء کو پاکستان دولخت ہوگیا اور مشرقی پاکستان میں موجود پاکستانی افواج اور سول انتظامیہ کے لوگوں کو بھارت میں جنگی قیدی بنالیا گیا۔

اب ترجیحات تبدیل ہوگئیں اور مسئلہ کشمیر کے بجائے جنگی قیدیوں کی رہائی بنیادی اہمیت اختیار کرگئی۔ پاکستانی جنگی قیدیوں کی رہائی اور ہندوستان کے قبضے میں پاکستان کے مغربی بازو کے بعض علاقوں کی بازیابی کے لیے شملہ معاہدہ ناگزیر ہوگیا۔

شملہ معاہدہ کے نتیجے میں کشمیر میں پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی لائن، لائن آف کنٹرول LOC قرار پائی۔ معاہدے میں پاک بھارت تنازعات کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیاگیا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر کل بھی سب سے بڑا تنازعہ تھا اور آج بھی ہے لیکن اس کے حل میں اقوام متحدہ کے کردار کے لیے عالمی ادارے پر دستک مشکل ہوگئی ۔

دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا قابل عمل تلاش کرنے کے لیے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنرل پرویزمشرف کے دورصدارت میں کوششیں کی گئیں جو اس وقت کے وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری کے بقول تیزی سے آگے بڑھ رہی تھیں اور دونوں ممالک مسئلہ کشمیر حل کے قریب پہنچ چکے تھے کہ جنرل پرویزمشرف کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا اور یوں دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کی کاوشیں بارآور ثابت نہ ہوسکیں۔

جنرل پرویزمشرف کے دور میں جب پاکستان دوسری مرتبہ افغانستان کے حوالے سے امریکا کا اتحاد ی بن کر نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف تھا تو امریکا کی جانب سے پاکستان اوربھارت دونوں کے درمیان مذاکرات کے لیے سہولت کاری کی گئی۔ ان دوطرفہ مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ممالک مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے مابین عوامی سطح پر رابطے بحال کرنے میں کام یاب ہوئے۔

مونا بائو اور کھوکھراپار سرحد سے ریل کے ذریعے آمدورفت، سری نگر سے مظفرآباد تک بس سروس اور محدود پیمانے پر بھارتی سامان کی آمدورفت کا سلسلہ جاری ہوا، اس کے باوجود عملاً اعتماد بحال نہ ہوسکا اور یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا، بلکہ نریندر مودی کی حکومت نے 5 اگست2019 کو بھارتی آئین میں موجود مقبوضہ کشمیر کی علیحدہ حیثیت کو بھی ختم کردیا اور ریاست کو غیرقانونی طور پر بھارت میں ضم کرلیا۔

آج بھی صورت حال جو ں کی توں ہے اور ہم پاکستان میں اپنے ہی جھگڑوں میں مصروف ہیں۔ راقم الحروف پاکستان کے صاحبان اقتدار کو اس مسئلے کے تناظر میں عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کے مکتوب ارسال کرچکا ہے، جس میں خود سلامتی کونسل کی جانب سے عالمی عدالت سے رجو ع کا فریقین کو مشورے کا حوالہ دیا گیا ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی کارروائی کی تفصیل مکمل طور پر موجود نہیں ہے جس سے ہماری حکومتوں کی اس سلسلے میں دل چسپی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ارض جنت نظیر کے باسیوں کی مشکلات ومحرومیاں نہ صرف گذشتہ 75 سال سے جاری ہیں بلکہ اس سے قبل بھی وہ ڈوگرہ راج کے دوران مسلمانان کشمیر متعصب حکم رانوں کے مظالم کا شکار رہے۔ موجود ہ بین الاقوامی صورت حال میں بھی پاکستان سفارتی سطح پر کشمیر کاز کو اجاگر کرسکتا ہے۔

ایک زمانے میں شمالی کوریا اپنے جنوبی خطے سے دوبارہ اتحاد کے لیے دنیا بھر کے ممالک میں Reunification Confrences منعقد کرتا رہا ہے جن میں ان ممالک کے دانش ور کوریا کے ازسرنو اتحاد کی تائید میں قرارداد منظور کرکے کاز کو طمانیت بخشتے تھے۔

ان کانفرنسز کے اخراجات جاپان میں موجود کوریائی صنعت کار برداشت کرتے تھے خود پاکستان میں ایسی متعدد کانفرنسز کا انعقاد ہوچکا ہے۔

کشمیر کے تناظر میں بھی ان کی تقلید کی جاسکتی ہے۔ ہمیں آزاد کشمیر میں بھی مقامی سیاسی تنظیموں کو ہی آگے بڑھانا چاہیے نہ کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کو وسعت دے کر اپنی قیادت مسلط کی جائے۔ اس سے دنیا بھر میں موجود اور پاکستان میں مقیم کشمیری عوام کے نہ صرف اعتماد میں اضافہ ہوگا بلکہ ہندوستان میں غیرقانونی زیرقبضہ کشمیر کے لیے بھی ایک مثال قائم ہوگی۔

کشمیر کی اس جنگ میں پاک فوج کی قلیل تعداد کے سبب بعض قبائلی لشکر بھی جنگ میں شامل ہوگئے تھے۔ ان نان اسٹیک ایکٹرز میں نظم وضبط کا فقدان تھا۔

اس کی وجہ سے خود کشمیری مسلمان ان کی کارکردگی سے نالاں تھے۔ آزاد کشمیر کے مرحوم صدر کے ایچ خورشید کی شریک حیات محترمہ ثریا خورشید جو خود بھی آزاد کشمیر اسمبلی کی رکن رہی تھیں، نے “محترمہ فاطمہ جناح کے شب روز” کے نام سے مادر ملت کے احوال بیان کیے ہیں جس کے مطابق محترمہ فاطمہ جناح نے بھی کشمیر کی جنگ میں ان غیرمنظم جتھوں کی لشکرکشی کو ناپسند فرمایا تھا۔

جنوری 1948 ء میں اقوام متحدہ کی جا نب سے کشمیر میں پاک وہند جنگ بندی کی قرارداد اور ریاست سے الحاق، کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے اظہار کے لیے نہ صرف استصواب رائے کا حکم دیا تھا بلکہ مقصد پر عمل درآمد کے لیے پاک ہند کمیشن تشکیل دے دیا گیا تھا جس کے تحت کشمیر میں جنگ بندی اور استصواب رائے کی قرارداد اپنے مخصوص پس منظر میں اولین قرارداد ہے۔

دوسری جنگ عظیم کا آغاز لیگ آف نیشنز کی ناکامی سے ہوا تھا۔ لیگ کا کام پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں امن ومان کی فضاء کو بحال رکھنا تھا۔ اس پس منظر میں جب دوسری جنگ عظیم کے بعد یونائیڈنیشنز آرگنائزیشن UNO کا قیام عمل میں آیا تو اقوام عالم کو توقع تھی کہ بین الاقوامی ادارہ کرۂ ارض پر امن وامان کے قیام اور امن شکنی کی صورت میں اس کے اسباب کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرے گا۔

20 جنوری 1948 ء کو سلامتی کونسل میں کشمیر میں جنگ بندی کے ساتھ تنازعہ کے اسباب کو ختم کرنے کے لیے استصواب رائے کے حصول کا طریقۂ کار وضع کرکے پاک ہند کمیشن کے ذریعے ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کے فیصلے کے حصول کے اقدامات کا آغاز کردیا گیا تھا اور پاکستان سمیت تمام امن پسند ممالک کو یقین تھا کہ اقوام متحدہ کشمیر کے تناظر میں اپنی قراردادوں پر عمل درآمد میں کام یاب ہوجائے گی لیکن تاریخ کے ریکارڈ پر 1957 ء کے بعد تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے کمیشن کی غیرفعالیت کے باعث سنجیدہ اقدامات نظر نہیں آئے۔

The post مسئلہ کشمیر قدم بہ قدم appeared first on ایکسپریس اردو.


چولستان جیپ ریلی

$
0
0

18ویں چولستان جیپ ریلی 15 فروری تا 19 فروری 2023 بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان اضلاع کے وسیع صحرائے چولستان میں منعقد کی جا رہی ہے جو کہ بلاشبہ پاکستان بالخصوص جنوبی پنجاب کاایک بہت بڑا موٹر سپورٹس ایونٹ بن چکی ہے ۔

یہ ریلی موٹر سپورٹس کے شائقین و پیشہ ورافراد کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ مقامی لوگوں میںایک تہوار بن چکی ہے۔

ریلی کے دوران چولستان کی ثقافت، تہذیب و تمدن، رہن سہن ،خوراک وکھانے باہر سے آنے والے سیاحوں کی خصوصی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔ چولستان جیپ ریلی کا آغاز 2005 میں ہوا جس میں نامور ملکی و غیرملکی مرد ڈرائیورز کے ساتھ خواتین ڈرائیورز بھی حصہ لیتی ہیں۔ تین سے چار روز پر مشتمل یہ کھیل نہ صرف تفریح مہیا کرتا ہے بلکہ سابقہ برصغیر کی امیر ترین ریاست بہاولپور کے ماضی رفتہ کے عظیم ثقافتی ورثہ کوبھی اجاگر کرنے کا باعث ہے۔

بہاولپور پنجاب کے جنوب میں واقع ہے عباسی خاندان نے 200 سال تک(1748سے 1954 ) اس ریاست پر حکومت کی ہے۔سرائیکی یہاں کی مقامی زبان ہے لیکن اردو ،پنجابی اور انگلش بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔بہاولپور کا علاقہ 300 میل تک دریائے ستلج اور دریائے سندھ کے ساتھ واقع ہے۔

شائقین نوابوںو محلوں کے شہر بہاولپور کی منفرد جگہوں اور میوزیم کے ساتھ ساتھ صحرا کے بڑے بڑے حصوں،دین گڑھ قلعہ، خان گڑھ، بجنوٹ قلعہ، موج گڑھ قلعہ اور جام گڑھ قلعہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔اس کے علاوہ دیگر سیاحتی دلچسپی کے مراکزکی طویل فہرست موجود ہے جن میں سے چند درجہ ذیل ہیں۔

نور محل، دربار محل، گلزار محل، دبئی محل، سینٹرل لائبریری، ڈرنگ اسٹیڈیم، بہاولپور میوزیم، جامعہ مسجد الصادق، ملوک شا ہ دربار، اوچ شریف، زولوجیکل گارڈن، تاریخی دروازے، چولستان، قلعہ ڈیراور، ڈیراور مسجد، آدم وآہن پل، چنن پیر کا دربار، لال سوہانرانیشنل پارک، دنیا کا سب سے بڑا سولر پارک

چولستان جیپ ریلی پچھلے کئی سالوں سے بین الاقوامی کیلنڈر پر کھیل کی تقریب کے طور پر جانی جاتی ہے اورجنوبی پنجاب میں یہ ایک بہت بڑی سیاحتی سرگرمی بن چکی ہے جس کی مقبولیت اور پزیرائی میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

چولستان پاکستان کا سب سے بڑا صحرا ہے جو تقریباً 25000مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور پنجاب کے جنوب میں واقع ہے۔ چولستان کو مقامی طور پر ــــروہیـ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسی نسبت سے مقامی لوگ روہیلا کہلاتے ہیں۔ چولستان لفظ چولنے سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے جگہ تبدیل کرنا یا حرکت کرنا کیونکہ چولستان میں ریت کے ٹیلے ہوا کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اپنا رخ تبدیل کرلیتے ہیں۔

چولستان کو اہم جغرافیائی حیثیت حاصل ہے جو سندھ کے صحرائے تھر تک اور مشرق میں بھارت کے صحرائے راجھستان تک پھیلا ہوا ہے۔ چولستان میں خالص صحرائی علاقہ 1600 مربع کلو میٹر پر محیط ہے۔ 1000 سال پہلے چولستان دریائے ہاکڑا کے پانی سے سیراب ہونے والا سرسبز علاقہ تھا۔ ماہرین آثار قدیمہ نے قدیم دریا کے 500 کلو میٹر کے ساتھ اب تک 400 آبادیوں کودریافت کیا ہے۔

سندھ وادی کی تہذیب میں صحرا کے درمیان سب سے بہترین آبادی ڈیراور قلعہ کی تھی جو امیربہاولپو ر کی آبائی رہائش گاہ تھی۔ اس کی بڑی دیواریں چالیس (ہر ایک سائیڈ پر دس) بڑے پشتوں پر مشتمل ہیں جو طلوع سحرکے وقت ریت سے باہر نکلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ’قلعہ ڈیراور‘ کے جنوب میں 45 کلومیٹر کے فاصلے پر چنن پیر (چنن کامطلب چاند کی طرح) کا مزار ہے جوکہ مقامی طور پر چنڑ پیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ صحرا ہر سال جیپ ریلی کی میزبانی کرتا ہے۔

ریلی ’قلعہ ڈیراور‘ کے قریب سے شروع ہوتی ہے ۔جس میںتقریباً 100 سے زیادہ ڈرائیور زاور ٹیمیں حصہ لیتی ہیں اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے سے زائد لوگ اس کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

جیپ ریلی میں جیپ کا لفظ کسی خاص کمپنی کے لیے نہیں ہے۔ پاکستان میں اس کا مطلب ہے وہ گاڑی ہے جو صحرا میں دوڑ سکے انہیں ’ آف روڈ وہیکل‘ یعنی مشکل راستوں پر چلنے والی گاڑیاں بھی کہا جاتا ہے۔ پہلی تین روزہ چولستان جیپ ریلی 9 فروری سے 11 فروری 2005 کو منعقد ہوئی۔

دوسری چولستان جیپ ریلی 10 سے 12 مارچ 2006 کو منعقد ہوئی۔جس میں پنجاب ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن(TDCP) نے پہلی ،دوسری اور تیسری پوزیشن پر آنے والے ڈرائیورز کو بالترتیب 1 لاکھ، 75 ہزار اور 50 ہزارکا انعام دیا۔تیسری چولستان جیپ ریلی 9 سے 11 مارچ 2007 کومنعقد ہوئی۔جس میں پنجاب ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن(TDCP) نے پہلی ،دوسری اور تیسری پوزیشن پر آنے والے ڈرائیورز کو بالترتیب 1 لاکھ 50 ہزار ،1 لاکھ اور75 ہزارکا انعام دیا۔

چوتھی چولستان جیپ ریلی 8 سے 10 مارچ 2008 کومنعقد ہوئی۔پانچویں چولستان جیپ ریلی 26 فروری سے 1 مارچ 2009 کومنعقد ہوئی۔نادر مگسی پانچویں جیپ ریلی کے چیمپین تھے۔

وقت اورفاصلے کی صحیح پیما ئش کے لیے اسی سال گاڑیوں میں ٹریکنگ سسٹم بھی متعارف کروایا گیا اور گاڑیوں کو چار حصوں(Catagories) میں تقسیم کیا گیا۔ چھٹی چولستان جیب ریلی2010 میں19 سے 21فروری تک منعقد ہوئی۔2011 میں جیپ ریلی منعقد نہیں ہوئی۔ ساتویں چولستان جیپ ریلی 17 تا 19 فروری 2012 میں منعقد ہوئی۔نادر مگسی ساتویںجیپ ریلی کے چیمپین تھے۔ آٹھویں چولستان جیپ ریلی 15تا17 فروری 2013 میں منعقد ہوئی۔

نویں چولستان جیپ ریلی 14 تا 16 فروری 2014 میں منعقد ہوئی۔ دسویں چولستان جیپ ریلی 13 تا 15 فروری 2015 میں منعقد ہوئی۔جس میں رونی پاٹیل چیمپین تھے۔عورتوں میں رونی پاٹیل کی بیوی نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔بارویں چولستان جیپ ریلی 12تا14فروری 2016میںمنعقد ہوئی۔جس میں صاحب زادہ سلطان نے پہلی اور رونی پاٹیل نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔

پہلی ،دوسری اور تیسری پوزیشن پر آنے والے ڈرائیورز کو بالترتیب 3 لاکھ ،2 لاکھ اور1لاکھ کا انعام دیا۔بارہویں ریلی 9تا12 فروری 2017 کو منعقد ہوئی جس میںنادر مگسی نے پہلی، رونی پاٹیل نے دوسری اور انس خاکوانی نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔13 ویںچولستان جیپ ریلی منعقدہ 15 تا 18فروری 2018 کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے اس میںبہاولپور ڈویژن کے تینوںاضلاع بہاولپور ،رحیم یار خان اور بہاولنگر شامل کئے گئے جو کہ صحرائے چولستان کی حدود میں واقع ہیں۔

نادر مگسی نے ا س جیپ ریلی میں مسلسل دوسری مرتبہ پہلی پوزیشن حاصل کی۔جس میںانھوں نے اپنا راستہ 4 گھنٹے 36منٹ اور 9 سیکنڈ میں طے کیا۔ دوسری پوزیشن صاحب زادہ سلطان نے 4گھنٹے 37منٹ اور 36 سیکنڈ میں اور تیسر ی پوزیشن جعفر مگسی نے 4گھنٹے 39منٹ اور 21 سیکنڈ میںطے کرکے حاصل کی۔

خواتین کی کیٹیگری میں ممتاز ڈرائیور جونی لیور کی بیوی تشنہ پٹیل نے 90 کلومیٹر کا ٹریک 2گھنٹے 41 منٹ میں مکمل کرکے پہلی پوزیشن، عاصمہ نے دوسری اور مومل خان نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

14ویں چولستان جیپ ریلی 2019 میں 14 سے 17 فروری کے دوران منعقد کی گئی جس میں نادرمکسی نے کامیابی حاصل کی اس تقریب کو کامیاب بنانے کے لیے بھر پور انتظامات کیے گئے تھے۔نادر مگسی نے مسلسل تیسری مرتبہ پہلی پوزیشن حاصل کی انہوں نے اپنا رستہ 4گھنٹے 28 منٹ اور 51 سیکنڈ میں طے کیا۔

دوسری پوزیشن فضل چوہدری نے 4گھنٹے 37 منٹ اور9 4سیکنڈ جبکہ تیسری پوزیشن فیصل شادی خیل میں چار گھنٹے 39 منٹ 43سیکنڈ میں طے کر کے حاصل کی۔دوسری کلاس میں ممتاز ڈرائیور جونی لیور کی بیوی تشنہ پٹیل نے فاصلہ ایک گھنٹے 37 منٹ4سکینڈ میں مکمل کرکے پہلی پوزیشن، ماہم شیراز نے دوسری اور سلمی مروت نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

15ویںچولستان جیپ ریلی2020میں 13 سے 17 فروری تک جاری رہی۔ اس میں نے مسلسل چوتھی بار نادر مگسی نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔

16 ویںجیپ ریلی 2021میں 13 سے 17 فروری کے دوران منعقد کی گئی جس میں صاحبزادہ سلطان نے پہلی جبکہ نادر مگسی دوسری اور جعفر مگسی تیسری پوزیشن پر رہے۔ خواتین کی کیٹیگری میں سلمی مر وت پہلی جبکہ تشنہ پٹیل دوسری اور ماہم شیراز تیسری پوزیشن حاصل کر سکیں ۔

پندرویں چولستان جیپ ریلی 450 کلومیٹر سے زائد فاصلے پر محیط تھی اس کے راستے کو دو ٹریک (Track1&Track2)ٹریک 1 اور ٹریک 2 میں تقسیم کر دیاگیا ہے۔ پہلا ٹریک اٹھارہ حصوں میں تقسیم ہے جس کا کل فاصلہ 220 کلو میٹر ہے جبکہ دوسرے ٹریک کے راستے میں چھبیس مقامات آتے ہیں اور اس کی کل طوالت 246 کلو میٹر ہے۔

اس سال چولستان جیپ ریلی کا راستہ 500تقریباً کلومیٹر تک بڑھا دیا گیا جو ضلع بہاولپو،رحیم یار خان اور بہاولنگر پر مشتمل ہے۔ دین گڑھ قلعہ،مروٹ قلعہ، خان گڑھ، بجنوٹ قلعہ، موج گڑھ قلعہ اور جام گڑھ قلعہ بھی اسی راستے میں شامل تھے جو کہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔اس ریلی کا پہلا ٹریک 220 کلومیٹر کا اور دوسرا ٹریک 246 کلومیٹر پر محیط ہے۔

ریلی کوکامیاب بنانے کے لیے سرکاری، غیر سرکاری ادارے جن میں، پاکستان آرمی، پاکستان رینجرز، ضلعی و مقامی حکومتیں بہاولپور ڈویژن، پنجاب پولیس، چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی، پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ، محکمہ صحت، محکمہ زراعت، بہاولپور 4 ویل کلب، موٹر سپورٹ کلب پاکستان، ٹویوٹا ہائی وے موٹرز، بہاولپور 4×4 کلب، پنجاب موٹر ریسنگ کلب، آٹو ریسنگ کلب پاکستان، ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹر نیشنل پاکستان، لاہور 4 ویل ڈرائیو کلب و دیگر بشمول پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا گراں قدر خدمات سرانجام دیتے ہیں۔

ریلی میں کسی گاڑی کا انجن تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ 2800cc گاڑی جو 10سال پرانی ہو اسے صرف ـ”C” یا “S3″ میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔ گاڑی کے کاغذات کی کاپی بھی ریس سے پہلے جمع کرانا لازمی ہے۔ حفاظتی نقطہ نظر سے تمام حصہ لینے والے ڈرائیورز کو اپنی گاڑی کی چیکنگ کروانی ہوتی ہے۔ رول بار اور آگ بجھانے والا آلہ گاڑی میں ہونا ضروری ہے۔ ڈرائیورز کا حفاظتی لباس میں ہونا لازمی ہے۔

چولستان جیپ ریلی کو مزید سنسنی خیز بنانے کے لیے خصوصی طور پر گزشتہ چند سالوں سے ڈرٹ بائیک ریلی کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے جس میںرائیڈرکی حفاظت کویقینی بنانے کے لیے چند قواعد وضوابط پر عمل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے مثلا:

٭تمام ڈرٹ بائیک رائیڈرز کی عمر 18 سال یا اس سے زیادہ ہونی چائیے اور اسکے پاس صحیح ڈرائیونگ لائسنس ہونا ضروری ہے۔

٭تمام رائیڈرز رجسٹریشن فارم اپنے والدین / سرپرست کے دستخط کے ساتھ جمع کروائیںگے۔

٭ڈرٹ بائیک ریلی کے راستے پر مقابلہ کرتے ہوئے ہیلمٹ اور حفاظتی لباس کو ہر وقت پہننا لازم ہے۔

٭ ڈرٹ بائیک رائیڈرزکودوران ریس ڈرٹ بائیک خراب ہونے کی صورت میں مرمت و تکنیکی خرابی کو دور کرنے کی اجاز ت ہوگی تاہم شرکاء کو یقینی بنانا ہوگا کہ ریلی کے راستے میں کسی بھی طرح کی رکاوٹ نہ ہو۔

٭تمام ڈرٹ بائیک رائیڈرز کے لیے حفاظتی سوٹ لازمی ہے۔ ڈرٹ بائیک رائیڈرزکو تمام ڈھیلی اشیاء کو ہٹا دینا چائیے۔ ڈرٹ بائیک پر چلنے والی کسی بھی چیز کو بولٹ یا محفوظ طریقے سے باندھنا چائیے۔

٭ٹائر اچھی حالت اورٹائر محفوظ طریقے سے لگے ہونے چائیے۔ جس میں بولٹ نظر نہیں آنے چائیے اور نہ ہی ٹائر کی سائیڈ وال میں دراڑیں نظر آرہی ہوں۔

٭تھروٹل ریٹرن ایکشن محفوظ اور مثبت ہونا چائیے۔جب انجن چل رہا ہو تو کوئی بھی اینڈھن، تیل، یا بریک آئل لیک ہوتا نظرنہیں ٓنا چائیے۔

٭ فورجد ویل میں کسی بھی دراڑ کی اجازت نہیں ہوگی۔بریک کے پاس ایک مناسب پیڈل، ماسٹر شلنڈر میں معقول تیل اوراس کے ساتھ ساتھ کسی قسم کا رساؤ نہیں ہونا چائیے۔

٭وہیل بیرنگ، شاکس اور ہینڈل اچھی حالت میں ہونے چاہئے۔تکنیکی خرابی کی وجہ سے دیریا ڈرٹ بائیک رائیڈرز کی غلطی یاکوئی حادثہ پیش آنے کی صورت میں کسی قسم کا عذر قابل قبول نہں ہوتی۔کسی بھی حادثے کی اطلاع فوری طور پر قریبی ریلی کے عہدیداریاچیک پوائنٹ پر دینی ہوتی ہے۔

٭منتظمین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی وقت راستے یا واقعہ کے ضوابط کے کسی بھی حصے کو حذف ،شامل یا تبدیل کریں۔ oریلی ٹائم منیجمنٹ کے لیے 24 گھنٹے والا ٹائم فارمیٹ استعمال کرتی ہے۔آرگنائزر ڈرٹ بائیکر کے راستے میں آنے والی مداخلتوں پر قابوں پانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

ایونٹ کے پہلے اور دوسرے دن 215 کلومیٹر والے ٹریک پر ریس متوقع ہوتی ہے جس پر مختلف جگہوں پر 7 چیک پوسٹ موجود ہوتی ہیں اور تیسرے دن 246 کلومیٹر والے ٹریک پر ریس ہوتی ہے جس پر 11 چیک پوسٹ موجود ہوتی ہیں۔

مجموعی طور پر 461 کلومیٹر کے طے کردہ فاصلے کے وقت کا حساب لگایا جاتا ہے جس کے بعد ریس کے فاتح کا اعلان کیا جاتا ہے اور یہ تمام مرحلے مختلف کیٹیگریز کی بائیکس کے لیے الگ الگ ہوتے ہیں۔

The post چولستان جیپ ریلی appeared first on ایکسپریس اردو.

جموں و کشمیر پر قبضے کا ’مودی پلان‘

$
0
0

ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی بڑی بدقسمتی ہے کہ انھیں مخلص، دیانت دار اور قابل لیڈرشپ نہ مل سکی۔

1947ء میں شیخ عبداللہ کشمیری مسلمانوں کا مقبول ترین راہنما تھا۔ اس نے اقتدار و جاہ وحشمت کی ہوس میں مبتلا ہو کر کشمیری مسلمانوں کو تکلیف و پریشانی کی دلدل میں دھکیل دیا۔وہ ’’وزیراعظم ‘‘کشمیر بننے کی خواہش لیے بھارتی حکمران طبقے کے تلوے چاٹنے لگا۔

بھارتی حکمران طبقے نے نہ صرف اس کو وزیراعظم بنایا بلکہ اسے اور کشمیری مسلمانوں کو تسلی دینے کی خاطر بھارتی آئین میں ریاست کو خصوصی درجہ(آرٹیکل 370)دے ڈالا۔شیخ عبداللہ اور اس کا خاندان ریاست میں 2014ء تک حکومت کرتا اور سیاہ وسفید کا مالک رہا۔اس دوران یہ خاندان اقتدار سے جائز وناجائز فوائد پا کر کروڑپتی بن گیا۔

جب کہ عام کشمیری مسلمان کی حالت زیادہ نہ بدل سکی۔عوام غربت، جہالت و بیماری کے چنگل میں پھنسے رہے۔2014ء سے ریاست کے ایک اور امیر سیاسی خاندان، مفتی فیملی نے ریاستی حکومت سنبھال لی۔وہ انتہا پسند ہندو جماعت، بی جے پی کا شریک کار بن گیا۔مفتی خاندان کی رکن، محبوبہ مفتی وزیراعلی بن کر اقتدار کے مزے لوٹنے لگی۔

جنوری 2018ء میں سفاک ہندوؤں نے ایک مسلمان خانہ بدوش لڑکی، آصفہ پہ ظلم کرنے کے بعد اسے قتل کر دیا۔اس سفاکی کے خلاف مسلمان مظاہرے کرنے لگے تاکہ مجرموں کو کڑی سزا مل سکے۔ہندو مگر مجرم رہا کرانے کی خاطر جلوس نکالنے لگے۔

اس واقعے پر محبوبہ مفتی اور بی جے پی کے درمیان اختلاف نے جنم لیا۔محبوبہ مفتی مسلمانوں کی مخالفت مول لے کر اپنا سیاسی کئیریر ختم نہیں کرنا چاہتی تھی۔اس نے جون 2018ء میں استعفی دے دیا۔نومبر میں بی جے پی کے گورنر نے ریاستی اسمبلی تحلیل کی اور وہاں گورنر راج نافذ کر دیا۔

خصوصی درجہ ختم

اگلے سال بھارت میں پارلیمانی الیکشن ہونے تھے۔بی جے پی نے مودی کی زیرقیادت انتخابی منشور میں یہ نکتہ شامل کر لیا کہ اگر پارٹی الیکشن جیت گئی تو وہ آئین میں دیا گیا ریاست جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کر دے گی۔

الیکشن اپریل تا مئی 2019ء انجام پایا جو خلاف توقع بی جے پی نے جیت لیا۔یہی نہیں، اسے اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی جو خصوصی درجہ ختم کرنے کے لیے ضروری تھی۔الیکشن کے صرف تین ماہ بعد 5 اگست کو وزیراعظم مودی کی زیرقیادت بھارتی پارلیمنٹ نے ریاست جموںوکشمیر کو حاصل خصوصی درجہ ختم کر دیا۔

اس نے لداخ ڈویژن کو ریاست سے الگ کر کے وفاقی ( یونین ٹیریٹی)بنا دیا۔جموں اور وادی کشمیر کے ڈویژن الگ وفاقی علاقہ قرار پائے۔یوں بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کی اکثریتی ریاست، مقبوضہ جموں وکشمیر کا براہ راست کنٹرول سنبھال لیا۔

ہنود ویہود کا گٹھ جوڑ

ماہرین تاریخ کی رو سے مودی سرکار کو ریاست کا خصوصی درجہ ختم کرنے کا خیال وہ منصوبہ دیکھ کر آیا جس کے ذریعے یہود فلسطین کے علاقے میں اپنی مملکت بنانے میں کامیاب رہے۔آج بھی یہود اسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔

اس کی مدد سے وہ مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے پر قبضہ کر رہے ہیں۔یہ دونوں علاقے مستقبل کی آزاد ریاست فلسطین میں شامل ہونے ہیں۔یہودی امرا نے انیسویں صدی کے اواخر سے فلسطین میں زمینیں خریدنے کا سلسلہ شروع کیا۔وہاں پھر دنیا بھر سے یہود لا کر بسائے گئے۔اس طرح رفتہ رفتہ فلسطین میں ہزاروں اور پھر لاکھوں یہود آباد ہو گئے۔

حتی کہ 1947ء میں انھوں نے اسرائیل قائم کر لیا۔اب بھی وہ مغربی کنارے میں یہودی بستیاں بسا رہے ہیں۔جبکہ مشرقی بیت المقدس میں مسلمانوں کے گھروںپہ قبضے کا عمل جاری ہے۔مقصد یہی ہے کہ دونوں علاقوں میں یہود کی آبادی اتنی زیادہ بڑھا دی جائے کہ وہ مستقبل میں کسی فلسطینی مملکت کا حصہ نہ بن سکیں۔

مودی جنتا نے بھی یہود کا منصوبہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں لاگو کرنے کا فیصلہ کر لیا۔یہی کہ پہلے ریاست میں ہندو امرا زمینیں خریدیں اور پھر وہاں بھارت بھر سے ہندو لا کر بسا دئیے جائیں۔اس طرح ریاست میں مسلمانوں کی عددی برتری پہلے کم اور پھر ختم کرنا مقصود ہے۔

اسے انجام دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ خصوصی درجہ تھا۔وجہ یہ کہ اس قانونی نکتے کے باعث غیرکشمیری ریاست میں زمینیں نہیں خرید سکتے تھے۔لہذا مودی سرکار کا پلان اسی وقت کامیاب ہو سکتا تھا جب ریاست کو حاصل خصوصی درجہ ختم ہو جائے۔

دس لاکھ غیر کشمیری

یہ درجہ ختم کرنے سے مودی جنتا کو ایک فوری فائدہ مل گیا۔دراصل پچھلے ستر برس کے دوران بھارت سے روزگار کی تلاش میں تقریباً دس لاکھ غیر کشمیری جموں وکشمیر میں آباد ہو چکے۔

انھیں مگر خصوصی درجے کی وجہ سے ریاستی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہ تھا۔نہ ہی وہ کسی قسم کی سرکاری مراعات پا سکتے تھے۔ریاست میں آباد ’’95‘‘فیصد غیر کشمیری ہندو ہیں۔اس حقیقت کا ادراک ہوا تو جموں وکشمیر کو وفاقی علاقہ بناتے ہی ان میں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ تقسیم کیے جانے لگے۔

مدعا یہ تھا کہ انھیں جموں وکشمیر کی شہریت مل جائے۔یوں وہ مقامی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی اجازت پا لیتے۔بی جے پی کو یقین تھا، ہندو ہونے کے ناتے وہ اسی کو ووٹ دیں گے۔اس طرح پونے دس لاکھ ووٹ پا کر بی جے پی جموں وکشمیر میں بادشاہ گر پارٹی کا روپ دھار سکتی ہے۔

ریاست کے اصل حکمران ہندو

یہ واضح رہے، تقسیم ہند کے وقت جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔1947ء میں مگر جموں کے انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی اور لاکھوں مسلمان شہید کر دئیے۔یوں مسلمانوں کی نسل کشی کر کے جموں میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا گیا۔

اس قتل عام میں ہندو راجا کی فوج نے بھی حصہ لیا۔بعد ازاں شیخ عبداللہ کے خاندان کی حکومت ریاست میں قائم ہو گئی مگر عام آدمی بدستور کسمپرسی کی زندگی گذارتا رہا۔اس دوران بھارتی حکمران طبقے نے انتظامیہ میں اپنے ایجنٹ داخل کیے اور ریاست پر ایک لحاظ سے قبضہ کر لیا۔گویا ریاست کے اصل حکمران ہندو بن بیٹھے ، گو ظاہری طور پر حکومت مسلمان کر رہے تھے۔

اس قبضے کے خلاف 1989ء سے ریاستی مسلمانوں نے تحریک آزادی کا اعلان کر دیا۔بھارتی حکمران یہ تحریک دبانے کے لیے بڑے پیمانے پر سیکورٹی فورس ریاست میں لے آئے۔جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کر دی گئیں۔مسلمانوں کے گھروں پہ حملے ہونے لگے۔

ان کی جانیں، مال اور عزتیں محفوظ نہ رہیں۔لاکھوں بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں ریاست جموں وکشمیر دنیا کا ایک بڑا قید خانہ بن گئی جہاں کسی کو آزادانہ بولنے کی بھی اجازت نہیں۔جو مسلمان بھارتی حکمران طبقے کے خلاف آواز بلند کرے، اسے شہید کر دیا جاتا ہے۔یا پھر قید میں بدترین تشدد اس کا مقدر بنتا ہے۔

بھارتی حکومت نے اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے ریاست کو دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا۔اب وہاں ہر عمل مودی سرکار کی مرضی ومنشا سے ہوتا ہے۔

ریاست میں مسلمانوں کی صرف وہی سیاسی پارٹیاں کام کر رہی ہیں جو بھارتی حکمرانوں کا غیر قانونی وغیر اخلاقی تسلط قبول کر لیں۔ایسے خوفناک آمرانہ نظام میں کسی قسم کے سرکاری اعدادوشمار پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

اب بھی مسلمانوں کی اکثریت

بہرحال 2011ء کی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر ڈویژن کی آبادی 67 لاکھ تھی جس میں 97 فیصد لوگ مسلمان تھے۔جموں ڈویژن کی آبادی 53 لاکھ پائی گئی جس میں 62 فیصد ہندو اور 35 فیصد مسلم تھے۔لداخ ڈویژن کی آبادی 2 لاکھ 33 ہزار تھی۔

اس میں 47 فیصد مسلمان، 39 فیصد ہندو اور باقی بدھی تھے۔ مردم شماری کی رو سے ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت تھی یعنی 68.3 فیصد مسلمان، 28.7 فیصد ہندو اور باقی بدھی وسکھ وغیرہ۔

ماہرین شماریات کے مطابق اب جموں و کشمیر کے وفاقی علاقے کی آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ہو چکی۔وادی کشمیر میں کم از کم 95 لاکھ لوگ بستے ہیں۔

جموں میں 65 لاکھ افرادآباد ہیں۔اب بھی اس وفاقی علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے یعنی ساٹھ سے پینسٹھ فیصد کے درمیان۔بلکہ یہ زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔کیونکہ جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں آباد خوف ودہشت کا شکار مسلمان خصوصاً معاشی وجوہ کی بنا پر مجبوراً اپنی اصل شناخت پوشیدہ رکھ سکتے ہیں۔

طاقت ایک شرانگیز وخوفناک وجود

5اگست 2019ء کو ریاست جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد شاطر مودی سرکار نے ریاست میں انتہائی سخت کرفیو لگا دیا۔انٹرنیٹ سروس معطل کر دی۔ٹیلی فون اور موبائل رابطہ بھی مسدود کر ڈالا۔مسلمانوں کو گھروں سے نکلنے سے روکا گیا۔

مقصد یہی تھا کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمان بھارتی حکومت کے خلاف احتجاج نہ کر سکیں۔گویا ظالم مودی جنتا نے پہلے پہلے طاقت کے بل بوتے پر خصوصی درجہ مٹا کر سوا کروڑ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ بے انصافی کی۔پھر طاقت کے ذریعے ہی یقینی بنایا کہ وہ ظلم کے خلاف آواز تک بلند نہ کریں۔اس عالم میں طاقت ایک شرانگیز وخوفناک وجود کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

بھارتی حکومت چاہتی تو جموں اور وادی کشمیر کو الگ الگ وفاقی علاقہ بنا دیتی۔مگر اس طریقے سے وادی کشمیر میں مسلمانوں کی کامل اکثریت ہو جاتی۔انتظامی طور پر بھی انتظامیہ میں بیشتر عہدے دار مسلمان تعینات کرنا پڑتے۔

یوں مقامی مسلمانوں کے لیے معاشی، سیاسی اور معاشرتی ترقی و خوشحالی کی راہیں کھل جاتیں۔مودی سرکار کشمیری مسلمانوں کی ایسی ترقی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔اس کی خواہش تھی کہ وادی کا کنٹرول اسی کے ہاتھوں میں رہے تاکہ مسلمانوں کا استحصال کیا جا سکے۔اسی لیے جموں وکشمیر کو ایک وفاقی علاقہ بنادیا گیا۔مودی جنتا پھر اپنے شیطانی منصوبے پر عمل کرنے لگی۔

ڈومیسائل سرٹیفکیٹ

اس نے وسیع پیمانے پر غیر ریاستی باشندوں میں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ تقسیم کیے تاکہ انھیں ووٹ ڈالنے کی اجازت مل سکے۔نیز ریاست میں زمین، گھر اور جائیداد خرید سکیں۔ان کے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ ملے۔

اور وہ سرکاری اداروں میں ملازمتیں بھی حاصل کر لیں۔اب بی جے پی کی حکمت عملی ہے کہ بھارت بھر سے اپنے کارکن جموں وکشمیر لاکر ان میں سرکاری زرعی زمینیں تقسیم کی جائیں۔نیز صنعت کاروں کو زمینیں الاٹ کی جا رہی ہیں تاکہ وہ نئے کارخانے بنائیں اور نئی کمپنیاں کھولیں۔ان میں ہندو ملازم رکھے جائیں گے۔یہ سبھی ڈومیسائل پا کر وفاقی علاقے کے شہری قرار پائیں گے۔

ریاستی اسمبلی پر قبضہ

بی جے پی کا منصوبہ ہے کہ جموں وکشمیر کی اسمبلی میں ارکان کی کثرت پا کر وفاقی علاقے کا کنٹرول سنبھال لے۔یوں پلان پہ عمل درآمد آسان ہو جائے گا۔

اس ضمن میں ایک تو دس گیارہ لاکھ نئے ہندو ووٹر مودی اینڈ کو کی مدد کریں گے۔دوم اس عیار ٹولے نے یہ چال چلی کہ نئی حد بندی کی آڑ لیتے ہوئے جموں سے اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کر دیا۔ مقصد یہی ہے کہ اسمبلی میں بی جے پی کی اکثریت ہو جائے ۔اور وہ ہندو اقلیت ہونے کے باوجود حکومت بنائے اور مسلم اکثریت پہ ظلم وستم کے نئے پہاڑ توڑنے لگے۔

خصوصی درجہ ختم کرنے سے قبل ریاستی اسمبلی میں کشمیر ڈویژن کے لیے 46 نشستیں مخصوص تھیں۔جموں ڈویژن بہ لحاظ آبادی 37 اور لداخ 4 نشستیں رکھتا تھا۔گویا اسمبلی کی کل 87 سیٹیں تھیں۔مودی جنتا نے کل نشستیں 90 کر دیں۔

مگر اب کشمیر ڈویژن 47 اور جموں 43نشستیں رکھتا ہے۔ یوں ہندو اکثریتی جموں کی سیٹوں میں 6 کا اضافہ ہو گیا۔جبکہ مسلم اکثریتی علاقے کی صرف ایک نشست بڑھائی گئی۔یہی نہیں ، 9 نشستیں پسماندہ گروہوں کے لیے مخصوص کر دی گئیں جو سبھی ہندو ہیں۔

اس طرح چانکیہ کے پیروکار، مودی نے شاطرانہ چالیں چل کر جموں وکشمیر اسمبلی کی ہئیت بدل ڈالی اور یقینی بنا لیا کہ وہ دھونس ودھاندلی اختیار کر کے بھی الیکشن میں کم از کم’’ 50 سیٹیں‘‘ پا لے۔اس طرح وہ ہندو اقلیت کو جموں وکشمیر کے اکثریتی مسلمانوں پہ مسلط کرنے میں کامیاب ہونا چاہتا ہے۔

وہ مسلمانوں کی تحقیر وتوہین کر کے نفسیاتی تسکین حاصل کرتا ہے۔ظاہر ہے، یہ حکومت مسلمانان جموں وکشمیر کے ساتھ ہر ممکن زیادتی کرے گی۔جبکہ ہندوؤں کو مواقع دئیے جائیں گے کہ وہ جائز وناجائز طریقے اختیار کر کے پھل پھول سکیں۔اور خوب ترقی کریں۔

بندوق کے زور پر خوفزدہ

مودی جنتا نے عام کشمیری مسلمانوں کو تو بندوق کے زور پر خوفزدہ کر کے خاموش کر رکھا ہے۔ مسلمانان جموں و کشمیرکے غدار و ذاتی مفادات کے اسیر، شیخ عبداللہ کے وارث مقامی راہنما بھی بھارتی حکمرانوں کی چیرہ دستیوں اور زیادتیوں پہ خاموش ہیں۔

وہ زبانی کلامی تو چیختے چلاتے ہیں مگر عملی طور پر مودی سرکار کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔شاطر مودی اپنے نائبین کی مدد سے ایسی چالیں چل رہا ہے کہ مسلم اکثریتی وفاقی حکومت کا انتظام حاصل کر لے۔اور دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنے سفلی عزائم میں کامیاب ہو جائے گا۔تب مسلمان علاقے میں زیادہ ہوتے ہوئے بھی اقتدار سے محروم ہو جائیں گے۔اور ہندو ان پہ حکومت کریں گے۔

شیخ عبداللہ اور اس کے حواریوں ہی نے ذاتی مفادات پورے کرنے کے لیے مسلمانان جموں و کشمیر کو پستی وزوال کے اس مقام تک پہنچایا۔اگر ریاست 1947ء میں پاکستان میں شامل ہو جاتی تو آج ریاستی مسلمان آزادی وخودمختاری سے زندگی گذار رہے ہوتے۔

وہ آزادانہ اسلامی تعلیمات پہ عمل کرتے اور انھیں ترقی کرنے و خوشحال بنننے کے بھرپور مواقع حاصل ہوتے۔اب تو وہ ہندو اکثریت کے تابع وغلام بنتے جا رہے ہیں۔

مستقبل کا منظرنامہ

مودی سرکار کی یہی کوشش و سعی ہے کہ جموں و کشمیر میںزیادہ سے زیادہ ہندو بسا کر مسلم اکثریت ختم نہیں تو بے اثر ضرور کر دی جائے۔یوں ریاست کو ہمیشہ کے لیے بھارت میں ضم کرنا آسان ہو جائے گا۔

اس سال کے وسط تک جموں وکشمیر کی اسمبلی کے الیکشن ہو سکتے ہیں۔اگر بی جے پی الیکشن جیت گئی تو وہ پورے بھارت سے لاکھوں ہندو ریاست میں بسانے کی بھرپور کوششیں کرے گی۔ان ہندوؤں کو پُرکشش مراعات دی جائیں گی۔سرکاری زمینیں ان میں بانٹی جائیں گی۔غرض ہر وہ قدم اٹھایا جائے گا جو ہندوؤں کو جموں وکشمیر میں آباد کر سکے۔

مقامی مسلمانوں کے لیے مستقبل کا منظرنامہ بہت خوفناک ہو چکا۔یہی وجہ ہے، اب تحریک آزادی کشمیر کے لیے سرگرم بعض گروہ ہندو شہریوں کو بھی قتل کرنے لگے ہیں۔

ان کا موقف ہے کہ ہندؤں کو خصوصاً وادی کشمیر میں آباد ہونے سے روکنے کے لیے یہ اقدام ضروری ہے۔مدعا یہ ہے کہ ہندو خوف ودہشت کا شکار ہو کر وادی میں قیام نہ کریں۔یہ کشمیری گروہ وادی میں ہرگز ہندو اکثریت کو جنم نہیں لینے دیں گے۔

جموں و کشمیر کے عام مسلمان مگر خوف ودہشت کا شکار ہیں۔نیز وہ اپنے مستقبل سے بھی مایوس ہو چکے۔انھیں یقین ہے کہ بی جے پی اقتدار سنبھال کر انھیں سرکاری ملازمتیں نہیں دے گی۔

کاروبار کی راہیں مسدود ہو جائیں گی کیونکہ بی جے پی ہندو کاروباریوں کی حمایت کرے گی۔امیر کبیر ہندو زمینیں، گھر اور جائیدادیں خرید کر رفتہ رفتہ وادی کے مالک بن بیٹھیں گے۔

اس وقت جموں وکشمیر کے سبھی مسلمان خوف وہراس کے عالم میں زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔کوئی مسلم راہنما، صحافی، سوشل ورکر، تاجر،طالب علم وغیرہ بھارتی آمریت و ظلم کے خلاف آواز بلند کرے تو اسے مختلف طریقوں سے ستایا جاتا ہے۔

مسلمانوں کو شہید یا پھر گرفتار کر کے تشدد کرنا بھارتی سیکورٹی فورسز کا معمول بن چکا۔لاکھوں بھارتی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود دلیر مسلم نوجوانوں نے اپنے لہو سے آزادی کا چراغ روشن رکھا ہوا ہے۔وہ وقتاً فوقتاً فوجی چوکیوں پہ حملے کر کے دشمن کو جہنم رسید کرتے ہیں۔

عالمی قوتیں تماشائی

جموں و کشمیر میں بھارتی حکمران طبقہ علی الاعلان مسلمانوں پہ ظلم وستم ڈھا رہا ہے مگر عالمی قوتیں تماشائی بنی ہوئی ہیں۔وہ بھارت سے تعلقات خراب کر کے اپنے معاشی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتیں۔

بس کبھی کبھی کوئی سرکاری رپورٹ جاری کر کے بھارتی حکومت پر تنقید کر دیتی ہیں اور پھر معاملہ ٹھپ!آج تک بھارتی حکمران کا ظلم روکنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔اسی لیے بھارتی حکمران کھلم کھلا مسلمانوں پہ ظلم ڈھا رہے ہیں اور کوئی عالمی طاقت انھیں روکنے کو تیار نہیں۔

جموں وکشمیر کے حالات اہل پاکستان کے لیے بھی تشویش ناک اور پریشان کن ہیں۔ہمارے اکثر دریا جموں وکشمیر میں جنم لیتے یا وہاں سے گذر کر آتے ہیں۔

اگر اس علاقے میں مسلم وپاکستان دشمن بی جے پی کی حکومت آ گئی تو وہ دریاؤں کا پانی روکنے کے لیے کوئی انتہائی قدم بھی اٹھا سکتی ہے۔مثلاً دریائے چناب کا پانی روک دینا۔اس اقدام سے پاکستان میں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین پانی سے محروم ہو جائے گی۔پاکستان پہلے ہی غذائی بحران کا شکار ہے۔دریائی پانیوں کی بندش تو وطن میں قحط پیدا کر کے صورت حال مذید بگاڑ دے گی۔تب پاکستانی معاشرے میں انتشار وافراتفری وسیع پیمانے پر جنم لے گی۔

یاد رہے، نریندر مودی ماضی میں دہمکی دے چکا کہ وہ پاکستان جانے والے دریاؤں کا رخ تبدیل کر کے پانی بھارتی سرزمین پہ بہا دے گا۔اربوں ڈالر کا زرمبادلہ جمع ہونے سے طاقتور ہوتا بھارتی حکمران طبقہ مسلم وپاکستان دشمنی اور غرور میں کوئی بھی شیطانی اقدام کر سکتا ہے۔

 لاکھوں فوجی علاقے میں

بھارتی حکومت کا دعوی ہے کہ جموں وکشمیر کے عوام وفاقی علاقہ بن جانے پر خوش ہیں۔انھیں امید ہے کہ اب وہ ’’دہشت گردوں ‘‘کا نشانہ نہیں بنیں گے۔ان کو ترقی و خوشحالی کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔بھارت اور بیرون ممالک سے سیکڑوں سیاح جموں وکشمیر آ رہے ہیں۔

یہ تمام باتیں مگر پروپیگنڈا ہے۔مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ جموں وکشمیر میں امن وامان جنم لے چکا جبکہ سچائی بالکل مختلف ہے…۔بھارتی حکومت نے بندوق کے زور سے مسلمانان جموں وکشمیر کو خاموش کرا رکھا ہے۔

اگر آج علاقے سے بھارتی سیکورٹی فورسسز رخصت ہو جائیں تو جوالا مکھی پھٹ پڑے۔مسلمانوں کا احتجاج بھارتی مملکت کے درودیوار ہلا ڈالے گا۔اسی لیے مودی لاکھوں فوجی علاقے سے نکالنے کو تیار نہیں۔

سچ یہ ہے کہ بھارتی حکمران طبقہ چاہے کتنے ہی حیلے حربے آزما لے، وہ کبھی جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو زبردستی اپنا مطیع وفرماں بردار نہیں بنا سکتا۔علاقے میں حریت پسندی کی شمع روشن رہے گی جسے تمام تر طاقت کے باوجود بھارتی حکومت کبھی گُل نہیں کر سکتی۔بقول حافظ مظہر الدین مظہر

بہشت گوش تھے نغمات آبشاروں کے

نظر نواز تھے نظارے مرغزاروں کے

بھلاؤں کیسے مناظر تری بہاروں کے

ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑاؤں گا اک دن

مرے وطن! تری جنت میں آؤں گا اک دن

جہادِ حق کے لیے کر رہا ہوں تیاری

دکھاؤں گا صفِ دشمن کو شانِ قہاری

بھڑ سکیں مرے سامنے کہاں ناری

فضائے ہند میں پرچم اْڑاؤں گا اک دن

مرے وطن تری جنت میں آؤں گا اک دن

بھارت کا خودغرض ایلیٹ طبقہ

ہمارے معاصر، بھارت کا حکمران طبقہ، جس میں سیاست داں، جرنیل، سرکاری افسر، جج، صنعت کار ، تاجر وغیرہ شامل ہیں، یہ راگ الاپتا رہتا ہے کہ وہ عوام کی خدمت کر رہا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومت کی بنائی بیشتر پالیسیاں اسی کو ترقی دیتیں اور خوشحال بناتی ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2014ء سے یہ ایلیٹ طبقہ مودی سرکار کی پالیسیوں کے باعث امیر سے امیر تر ہو رہا ہے جبکہ کم ازکم ستر کروڑ بھارتی باشندے زندگی کی عام ضروریات بھی آسانی سے حاصل نہیں کر پاتے۔ان کی ساری زندگی بہت تکلیف و پریشانی کے عالم میں گذرتی ہے۔

درج بالا خوفناک سچائی ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ سے بھی نمایاں ہوئی۔یہ رپورٹ مشہور برطانوی سماجی تنظیم، آکسفم نے جاری کی ہے۔اس نے یہ ہولناک انکشاف کیا کہ 2012ء سے 2021ء تک بھارت میں جتنی بھی دولت پیدا ہوئی، اس کا ’’چالیس فیصد‘‘حصہ صرف ’’ایک فیصد‘‘بھارتی ایلیٹ طبقے کی تجوریوں میں گیا۔جبکہ بھارت کی غریب ترین ’’پچاس فیصد‘‘ آبادی اس دولت کا صرف ’’تین فیصد‘‘حصہ ہی حاصل کر سکی۔گویا ہمارے پڑوس میں ایسا نظام حکومت تشکیل پا چکا جو امیر کو امیرتر بناتا ہے جبکہ غریب مذید غریب ہو جاتے ہیں۔یہ نظام حکومت سراسر غریب دشمن، ظالمانہ اور غیرمنصفانہ ہے۔

آکسفم کی رپورٹ نے یہ تلخ سچائی بھی افشا کی کہ بھارتی حکومت ٹیکسوں کی زیادہ تر رقم عوام کی جیبوں سے نکالتی ہے۔وجہ یہی کہ بھارت میں زیادہ تر ٹیکس ان ڈائرکٹ ہیں جو عوام پہ بوجھ ڈالتے ہیں۔مثلاً جی ٹی ایس (سیلز ٹیکس)کو لیجیے۔رپورٹ کی رو سے جی ٹی ایس کی ’’64 فیصد‘‘رقم بھارتی آبادی کا نچلا ’’50 فیصد‘‘طبقہ ادا کرتا ہے۔جبکہ صرف ’’4 فیصد‘‘رقم امیر ترین دس فیصد بھارتیوں سے حاصل ہوتی ہے۔گویا بھارت میں ٹیکس نظام بھی امیر کا سرپرست جبکہ غریبوں کا دشمن ہے۔

بھارت کی مودی سرکار امرا کو ٹیکسوں میں چھوٹ دیتی ہے۔انھیں ہمہ اقسام کی مراعات و سہولیات بھی دستیاب ہیں۔مقصد یہ ہے کہ کاروباری اور کارخانے دار اپنی مصنوعات کی قیمتیں کم رکھیں اور مہنگائی جنم نہ لے۔مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔بھارت کے صنعت کار و تاجر آپس میں ملی بھگت کر کے مصنوعات کی قیمتیں بڑھاتے رہتے ہیں۔یوں ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں جبکہ عوام مہنگائی کی چکی میں پستے چلے جاتے ہیں۔

آکسفم کی رو سے بھارت میں غریب اور امیر کے درمیان ’’فحش تقاوت‘‘جنم لے چکا۔ایک طرف امیر ہیں جنھیں ہر سہولت وآسائش میسر ہے۔وہ زندگی ’انجوائے‘ کر رہے ہیں۔دسری سمت کروڑوں غریب بھارتی جو بڑی مشکل سے جسم وروح کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔آکسفم اور دیگر عالمی سماجی تنظیمیں مودی حکومت پر زور دے رہی ہیں کہ امیر ترین بھارتیوں پر 2 سے 5 فیصد تک سپر ٹیکس لگایا جائے۔

اس ٹیکس سے جو اربوں روپے ملیں ، وہ غریبوں کی مشکلات دور کرنے میں کام آئیں۔اس ٹیکس سے حاصل شدہ رقم غریبوں کی فلاح وبہبود پر خرچ ہونی چاہیے۔لیکن امرا کے مفادات کی رکھوالی کرنے والی مودی سرکار کیا اتنا حوصلہ رکھتی ہے کہ ان پہ سپر ٹیکس لگا سکے؟مودی نے امرا کے مفادات کو پس پشت رکھا تو وہ جلد مختلف چالیں چل اور سازشیں کر کے اس کا بوریا بستر گول کر دیں گے۔

The post جموں و کشمیر پر قبضے کا ’مودی پلان‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

انجیر

$
0
0

واہ کینٹ: انجیر کا نباتاتی نام فکس کریکا (Ficus Carica) ہے۔

تاریخی پس منظر: انجیر کی کاشت قدیم زمانے سے جاری ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کی ابتدا روم اور مغربی ایشیا سے ہے۔یہ چھوٹے درخت کی ایک قسم ہے جو دیکھنے میں جھاڑی نما دکھائی دیتا ہے۔

ان پودوں کی لمبائی 7 سے 10 میٹر یا 23 سے 33 فٹ لمبی ہوتی ہے۔ درخت کی چھال سفید ہوتی ہے۔ اس کی 800 سے زائد اقسام ہیں۔ تاہم دنیا بھر میں کاشت تقریباً بیس اقسام کی ہوتی ہے۔ اس کا پھل لمبا جلد کے ساتھ جامنی یا بھورے رنگ میں پک جاتا ہے۔

پھل اندر سے میٹھا اور نرم جب کہ گودا سرخی مائل ہوتا ہے۔ انجیر کا درخت سال میں دو مرتبہ پھل دیتا ہے۔ انجیر ایک منفرد اور ذائقہ دار پھل ہے۔ اس کا سائز ہاتھ کے انگوٹھے کے برابر ہوتا ہے۔

اس میں سیکڑوں بیچ پائے جاتے ہیں۔ اندرونی حصہ زیادہ تر گلابی جب کہ بیرونی حصہ سبز یا بھورے رنگ پر مشتمل ہوتا ہے۔

شمالی نصف کُرّے میں تازہ انجیر موسم گرما کے آخر سے خزاں کے شروع تک ملتا ہے۔ انجیر اعتدال پسند ٹھنڈ کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ گرم آب وہوا میں بھی نشوونما پاتے ہیں۔ انجیر کو تازہ اور خشک کھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جام، رول، بسکٹ اور دیگر اقسام کے میٹھوں میں پراسیس کیا جاتا ہے۔ یہ پھل زیادہ تر تجارت خشک پیداوار اور پراسیس شدہ شکلوں میں ملتا ہے۔

کچے انجیر میں 80 فی صد جب کہ پکے انجیر میں 20 فی صد کاربوہائیڈریٹ ہوتے ہیں۔ خشک انجیر میں شوگر اور کیلوریز زیادہ ہوتی ہیں۔ اس لیے اسے اعتدال میں کھانا چاہیے۔ انجیر کے پتے اور پھل سبھی کارآمد ہیں۔

اقسام: انجیل کی تقریباً 800 اقسام ہیں۔ تاہم قابل کاشت تقریباً 20 اقسام ہیں۔ ذیل میں چند کی تفصیل پیش خدمت ہے۔

1۔ ایڈریاٹک انجیر: اس قسم کی انجیر کی جلد ہلکی سبز ہوتی ہے۔ اس کا گودا اندر سے ہلکا گلابی ہوتا ہے۔ پھل کی جلد پتلی گودا سرخ اور ذائقہ میٹھا ہوتا ہے۔

2۔ سیلسٹی انجیر:یہ قسم اپنے غیرمعمولی میٹھے ذائقے کی وجہ سے مشہور ہے۔عموماً اسے میٹھا انجیر کہا جاتا ہے۔ یہ کم درجۂ حرارت میں بھی نشوونما پا لیتا ہے۔

یہ زیادہ سے زیادہ 15 ڈگری فارن ہائیٹ میں اچھی طرح پک سکتا ہے۔ اس کا پھل درمیانے سائز کا ہوتا ہے۔ اسے چبا کر کھایا جاتا ہے۔ اس کے بیج بھی کرچی ہوتے ہیں۔

3۔ بلیک مشن انجیر: یہ انجیر کی سب سے عام قسم ہے۔ اس پھل کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ گرمی اور سردی دونوں موسم میں پھل دیتا ہے۔

کیلیفورنیا میں وسیع پیمانے پر اس کے درخت لگائے جاتے ہیں۔ یہ تقریباً 30 فٹ لمبے ہوتے ہیں۔ اس قسم کے انجیر درمیانے سے بڑے سائز کے ہوتے ہیں۔ ان کے گودے کا رنگ اسٹرابری جام سے ملتا جلتا ہے۔ اس کا ذائقہ ہلکا ہوتا ہے۔

4۔ براؤن ترکی انجیر: براؤن ترکی انجیر کے 10 سے 20 فٹ لمبے درخت ہو تے ہیں۔ یہ 10 فارن ہائیٹ تک درجہ حرارت برداشت کر لیتے ہیں۔

اس پودے کا سائز درمیانہ ہوتا ہے۔ جلد بھوری سے جا منی ہوتی ہے۔ گودا ہلکا گلابی جب کہ ذائقہ دوسری اقسام کی نسبت ہلکا ہوتا ہے۔ اسے سلاد اور کوکیز کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے۔

5۔ ڈیزرٹ کنگ عرف کنگ انجیر: یہ قسم بحرالکاہل کے شمال مغربی علاقے میں پائی جاتی ہے۔ اسے پھلنے اور پھولنے کے لیے سرد موسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ قسم وافرمقدار میں پھل پیدا کرتی ہے۔ جلد سبز گودا سُرخی مائل گلابی جب کہ ذائقہ غیرمعمولی طور پر میٹھا ہوتا ہے۔

6۔ کڈوتا انجیر: یہ قسم اٹلی میں پائی جاتی ہے۔ اس کے درخت 15 سے 25 فٹ تک بڑھ سکتے ہیں۔ یہ درمیانے سائز کا پھل دیتے ہیں۔ پھل پر زرد سبز سایہ ہوتا ہے۔ گودے کا رنگ گلابی ہوتا ہے۔ یہ پھل عموماً خزاں کے موسم میں پک جاتا ہے۔

7۔ وائیلٹ ڈی بورڈو انجیر: انجیر کی یہ ایک ایسی قسم ہے جسے پھلنے پھولنے کے لیے 5 فارن ہائیٹ ڈگری درجۂ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ قسم نیم بونے انجیر کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ قسم دس بارہ فٹ کے درمیان لمبی ہوتی ہے۔ پھل کی جلد جامنی سے سیاہ اور ذائقہ بیر کی طرح ہوتا ہے۔ عام طور پر اس قسم کو سب سے زیادہ میٹھی سمجھا جاتا ہے۔

8۔ شکاگو گو ہارڈی انجیر:انجیر کی یہ قسم سرد سمجھی جاتی ہے۔ حالاںکہ اس کے درخت کی شاخیں انتہائی کم درجۂ حرارت کی وجہ سے مر جاتی ہیں۔ اس قسم کے پودے 10 سے 12 فٹ کے درمیان بڑھتے ہیں۔درخت پر پھل درمیانے سائز کا لگتا ہے۔ پھل کا گودا ہلکا گلابی ہوتا ہے جب کہ ذائقہ اسٹرابری کی طرح ہوتا ہے۔

9۔ ایکسل انجیر: ڈیزرٹ کنگ کی طرح ایکسل انجیر بھی مختلف آب و ہوا میں بڑھتا ہے۔ ایکسل انجیر عموماً 12 سے 20 فٹ کے درمیان بڑھتے ہیں۔ اس کا پھل درمیانے سائز کا، جلد سبز جب کہ ذائقہ شہد کی طرح ہوتا ہے۔ یہ پھل پکنے کے بعد پھٹتا نہیں اس لیے اس قسم کو بہترین سمجھا جاتا ہے۔

10۔ کارکیز ہنی ڈی لائٹ انجیر: کار کیز ڈی لائٹ انجیر کے درخت کو نیم بونے درختوں کی قسم سمجھا جاتا ہے۔ یہ 10 سے 12 فٹ کے درمیان بڑھتے ہیں۔ اس قسم کے انجیر کا پھل درمیانے سائز کا ہوتا ہے اور جلد ہلکی پیلی ہوجاتی ہے۔ اس میں عنبریں رنگ کا گودا ہوتا ہے۔

مجموعی پیداوار: سو گرام انجیر میں یو ایس ڈی اے (USDA) کے مطابق اس کی غذائی مقدار مندرجہ ذیل ہے۔

مجموعی پیداوار:اقوام متحدہ فو سٹیٹ (FAOSTAT)کے مطابق خام انجیر کی عالمی پیداوار 1.26 ملین ٹن ہے۔ انجیر پیدا کرنے والے سرفہرست ممالک میں ترکی، مصر، مراکش، الجزائر، ایران، اسپین، شام، یو ایس اے، البانیا، یونان اور برازیل کے نام شامل ہیں۔

ملک کا نام / ملین ٹن : ترکی 320,000 ، مصر 201,212، مراکش 144,246 ، الجزائر 116,143 ، ایران 107,791 ، اسپین 59,900 ، شام 46,502 ، ریاست ہائے متحدہ 27084 ، البانیا 21,889 ، یونان 19,840 ، برازیل 19,601 ، کُل پیداوار 1,264,943

غذائی حقائق: کیلوریز 249  ، پانی 30 گرام  ، شکر 47.9 پروگرام ، غذائی ریشہ 9.8 گرام ، فیٹ 0.93 گرام  ، کاربوہائیڈریٹس 63.9 گرام ، پروٹین 3.3 گرام

وٹامنز / مقدار/  یومیہ ضرورت : وٹامن اے کے مساوی 0 مائیکرو گرام 0% ، تھایامین بی ون 0.085 ملی گرام 7% ، رائبو فلیون بی ٹو 0.082 ملی گرام 7% ، نیاسین بی تھری 0.62 ملی گرام 4% ، پینٹوتھینک ایسڈ بی فائیو 0.43 ملی گرام 9% ، وٹامن بی سکس 0.11 ملی گرام 8% ، فولیٹ بی نائن 9 مائیکرو گرام 2% ، وٹامن سی 1 ملی گرام 1%  ، وٹامن ای 0.35  ملی گرام 2% ، وٹامن کے 15.6 مائیکرو گرام 15%

معدنیات / مقدار/ یومیہ ضرورت: کیلشیم 162 ملی گرام 16% ، آئرن 2ملی گرام 15% ، مگنیشیم 68 گرام 19% ، میگنیز 0.51 ملی گرام 24% ، فاسفورس 67 ملی گرام 10% ، پوٹاشیم 680 ملی گرام 14%، سوڈیم 10 ملی گرام 1%، زنک 0.55 ملی گرام 6%

دفاعی مرکبات:Phenolics،  flavonoids، flavonols،  acid Ascorbic ، lignin، Xanthones ، Stilbenes

طبی خصوصیات:طبی لحاظ سے انجیر کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں:

1۔ نظام ہاضمہ میں بہتری: انجیر کو قدیم زمانے سے نظام ہاضمہ کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے یا قبض جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے اس کا استعمال بہت مفید ہے۔ اس میں فائبر ہوتا ہے جو قبض ختم کرکے پری بائیوٹک کے طور پر ہاضمہ کی صحت کو فروغ دیتا ہے۔ آٹھ ہفتوں تک روزانہ 10 اونس یعنی تین سو گرام انجیر کے کھانے سے قبض میں نمایاں کمی واقع ہو جاتی ہے۔

2۔ ہائی بلڈ پریشر اور کولیسٹرول پر قابو پانے کے لیے:انجیر ہائی بلڈ پریشر اور خون میں بڑھی ہوئی چربی کی سطح کم کردیتا ہے۔ یہ دل کے امراض سے تحفظ دیتا ہے۔تاہم یہ ہائی (ایل ڈی ایل) خراب کولیسٹرول کو ٹھیک کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ ایسے لوگوں کو روزانہ اپنی خوراک میں چودہ خشک انجیر روزانہ استعمال کرنا چاہیے۔انجیر میں پیکٹین ہوتا ہے جو حل پذیر فائبر ہے جس سے کولیسٹرول کی بڑھتی ہوئی سطح کم ہوجاتی ہے۔

انجیر میں موجود فائبر اضافی کولیسٹرول کم کرتا ہے۔انجیر میں وٹامن بی سکس 6 موجود ہوتا ہے جو سیروٹین پیدا کرنے کا ذمے دار ہے۔ اس کے علاوہ انجیر میں اومیگا تھری اور اومیگا سکس فیٹی ایسڈ موجود ہوتے ہیں جو ہائی بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی بڑھی ہوئی مقدار کو کنٹرول کرتے ہیں۔ انجیر پوٹاشیم سے بھرپور پھل ہے جو سوڈیم کے اثر کو زائل کرتا ہے۔

3۔ خون کی کمی: جسم میں آئرن کی کمی خون کی کمی کا باعث بن سکتی ہے۔ خشک انجیر میں آئرن ہوتا ہے جو ہیموگلوبن کا اہم جز ہے۔ خشک انجیر خون میں ہیمو گلوبن کی سطح بڑھاتا ہے جس کے باعث بچے اور حاملہ خواتین مختلف پیچیدگیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو انجیر کا استعمال بکثرت کرنا چاہیے جن کی سرجری ہوئی ہو کیوں کہ سرجری کے بعد اکثر جسم میں آئرن کی کمی ہو جاتی ہے جسے پورا کرنے کے لئے انجیر بہترین پھل ہے۔

4۔ قوت مدافعت بڑھانے کے لیے:انجیر قوت مدافعت بڑھانے کے لیے ایک بہترین پھل ہے۔اس کے باقاعدہ استعمال سے بکٹیریا، وائرس اور پیٹ کے کیڑے ختم ہو جاتے ہیں۔ انجیر میں پوٹاشیم اور مینگنیز جیسے غذائی اجزاء ہوتے ہیں جو اینٹی اوکسیڈنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ قوت مدافعت بھی بڑھاتے ہیں۔

5۔ وزن کم کرنے کے لیے:انجیر فائبر سے بھرپور پھل ہے جو وزن کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق انجیر کھانے سے جنک اور تلی ہوئی چیزوں سے نفرت ہوجاتی ہے۔

6۔ دل کے امراض سے تحفظ: انجیر خون میں ٹرائی گلیسرائیڈ کی بڑھی ہوئی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے۔ ٹرائی گلیسرائیڈ دل کے امراض کو جنم دیتے ہیں۔ یہ چربی کے وہ ذرات ہیں جو خون کی نالی میں ایک ساتھ جمع ہو جاتے ہیں اور دل کے دورے کا باعث بنتے ہیں۔

7۔ ٹائپ ون ذیابیطس کے لیے: انجیر میں موجود کلورو جینک ایسڈ شوگر کے مریضوں میں بلڈ شوگر کی سطح کم کرتا ہے۔

اس کے علاوہ پوٹاشیم جو انجیر میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے خون میں شوگر کی سطح کو اعتدال میں رکھتا ہے۔ 1998ء میں 10 افراد پر ایک تحقیق کی گئی جس کے مطالعے کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ انجیر کے پتوں کی چائے پینے سے انسولین کی ضرورت کم ہو سکتی ہے۔

پتوں کی چائے سے تقریباً 12 فی صد تک کمی دیکھی گئی ہے۔ شوگر کے مریضوں کو خشک انجیر استعمال نہیں کرنا چاہیے کیوںکہ یہ خون میں شکر کی مقدار بڑھا دیتے ہیں۔

8۔ انسدادِسرطان کی خصوصیات:  انجیر کے پودوں اور پتوں میں قدرتی طور پر ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کے باعث کینسر کا خطرہ بہت حد تک کم ہوجاتا ہے۔ چوںکہ انجیر اینٹی اوکسیڈنٹ پھل ہے جو فری ریڈیکل کے اثرات اور دائمی سوزش کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ انجیر بڑی آنت کے کینسر، چھاتی کے کینسر، جگر کے کینسر اور سروائیکل کینسر میں بہت مفید پھل ہے۔

9۔ ہڈیوں کی مضبوطی: انجیر میں کیلشیم، میگنیشیم اور پوٹاشیم پایا جاتا ہے۔ یہ سب ہڈیوں کی صحت اور نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انجیر ہڈیوں کی کثافت کو بہتر بناتے ہیں۔ ان کے استعمال سے ہڈیوں کے ٹوٹنے کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔

کیلشیم صحت مند ہڈیوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ انجیر میں پوٹاشیم کی موجودگی زیادہ نمک والی خوراک کی وجہ سے پیشاب میں کیلشیم کے بڑھتے اخراج کو روکنے کی استدعا رکھتا ہے۔

10۔ میل/ فی میل آرگن:انجیر مردانہ اور نسوانی عوارض میں ایک بہترین پھل ہے۔ یہ معدنیات، جنسی ہارمون، اینڈروجن اور ایسٹروجن ہارمون کی افزائش کے لیے مؤثر ہیں۔ انجیر مختلف قسم کی جنسی کم زوری جیسے بانجھ پن دور کرنے اور تولیدی نظام کی زرخیزی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انجیر میں امینو ایسڈ پایا جاتا ہے جو نائٹرک ایسڈ کی پیداوار بڑھاتا ہے جس کے باعث خون کی نالیاں پھیلتی ہیں۔

11۔ میکولر ڈی جنریشن کی روک تھام: انجیر میکولر ڈی جنریشن کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جو بوڑھے لوگوں میں بینائی کی کمی کی بڑی ایک وجہ ہے۔

انجیر بینائی کو بڑھاتا ہے۔ میکولر انحطاط کو روکتا ہے،کیوںکہ ان میں وٹامنز اے کی اچھی خاصی مقدار پائی جاتی ہے۔ وٹامن اے آنکھوں کو آزاد ریڈیکل سے بچاتا اور رٹینیا کو پہنچنے والے نقصان سے بچاتا ہے۔

12۔ پُرسکون نیند لانے کے لیے:اچھی نیند کے لیے متوازن خوراک ضروری ہے۔ انجیر کی یومیہ خوراک نیند کے معیار کو بہتر بناتی ہے۔

اس میں امینو ایسڈ اور ٹرپٹوفن ہوتا ہے جو میلا ٹونین بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انجیر میں اومیگا تھری اور فیٹی ایسڈ بھی ہوتے ہیں جو بہتر نیند لانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جب کہ جسم میں مگنیشیم کی کمی ذہنی تناؤ اور چڑچڑے پن کا باعث بن سکتی ہے۔

احتیاطی تدابیر: انجیر اپنے طبی فوائد میں لاثانی درجہ رکھتا ہے۔ تاہم کچھ لوگوں کے لیے یہ نقصان دہ بھی ثابت ہوتا ہے:

٭   ایسے لوگ جن کی جلد حساس یا ان کو الرجی کی شکایت ہو وہ اسے کھانے یا جلد پر لگانے سے پرہیز کریں۔

٭   سرجری کے دوران اس کا استعمال ترک کر دینا چاہیے۔

٭   حمل اور دودھ پلانے کے دوران معالج کے مشورے سے انجیر کا استعمال کرنا چاہیے۔

٭   کچے انجیر نہ کھائیں کیوںکہ وہ لیٹیکس تیار کرتے ہیں جو منھ اور ہونٹوں کے گرد الرجی کا باعث بن سکتے ہیں۔

٭   انجیر شوگر کی ادویات کے ساتھ تعامل کرتا ہے۔ لہٰذا شوگر کے مریضوں کو ادویات کے ساتھ اس کا استعمال ترک کر دینا چاہیے۔ بعض اوقات یہ شوگر بہت کم کر دیتے ہیں۔

The post انجیر appeared first on ایکسپریس اردو.

دربار محل

$
0
0

دربار محل بہاولپور کے دربار کمپلیکس میں واقع ہے۔ اس کمپلیکس میں نواب آف بہاولپور کے تین محلوں (دربار، نشاط او فرخ) سمیت ایک بارہ دری، مسجد اور وسیع و عریض سرسبز لان واقع ہیں۔

تاریخ؛اس محل کی تعمیر”نواب بہاول خان عباسی پنجم” نے 1904 میں شروع کروائی تھی جو 1907 تک جاری رہی۔ اُسی سال آپ کی وفات کے بعد اس محل کو منحوس خیال کرتے ہوئے اس کا بچا کھچا کام روک دیا گیا۔ اس دوران آپ کے جانشین ”نواب صادق محمد عباسی” کو اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ بھیج دیا گیا۔

بیس سال بعد جب وہ واپس لوٹے تو نور محل میں ان کی تاج پوشی کی گئی اور انہیں باضابطہ طور پر ریاست بہاول پور کا نواب بنا دیا گیا۔ نواب صاحب نے دربار محل کا رُکا ہوا کام دوبارہ سے شروع کروا کہ اسے تکمیل تک پہنچایا۔

اِس محل کا پرانا نام ” ْمبارک محل” تھا جو نواب صاحب کی ایک بیگم سے موسوم تھا لیکن پھر جب نواب صاحب نے یہاں اپنا دربار لگانا شروع کیا تو اس کو دربار محل کہا جانے لگا۔ یہ محل ریاست کی اعلیٰ عدالت کے طور پہ بھی استعمال ہوتا تھا۔

یہ محل 1947ء میں نواب بہاولپور نے پاکستان کے مخدوش معاشی حالات کے تناظر میں سرکاری اور افواج پاکستان کے دفاتر کے طور پر استعمال کرنے کے لیے دیا تھا۔ یہ محل 1932 سے 1955 تک ریاست بہاولپور کے وزیراعظم کا دفتر رہا اور پھر 1966ء میں یہ محل پوری طرح پاک فوج کے زیرتصرف آ گیا جہاں اب پاک فوج کی بہاولپور رجمنٹ کا مرکزی دفتر ہے۔

طرزِتعمیر؛اس محل کی عمارت بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہے۔ غور کریں تو اس عمارت میں تین مختلف مذاہب کی نمائندگی ملتی ہے۔ جھروکے اور بالکونیاں جہاں مسلم فنِ تعمیر کا حصہ ہیں وہیں محرابوں اور کھڑکیوں پر ہندو طرزِتعمیر کی چھاپ نمایاں ہے جب کہ ہشت پہلو میناروں پر بنے سفید گنبد، سکھ گردواروں سے مشابہہ ہیں۔

لال اینٹوں سے بنا یہ محل لاہور کے شاہی قلعہ سے مشابہ ہے اور سفید و لال رنگ کا مرکب ہے۔ دالان اور دیواریں لال جب کہ کھڑکیاں، چھت اور گنبد سفید ہیں۔

یہ محل جس چبوترے پر بنایا گیا ہے وہ چاروں طرف سے برابر اور متناسب (سمیٹریکل) ہے۔ مرکزی عمارت دو جب کہ چاروں مینار تین منزلہ ہیں۔ عمارت کے چاروں طرف دالان و محرابی کھڑکیاں ہیں جن کہ بیچ میں مرکزی دروازہ ہے۔ دروازوں کے محرابی کونوں پر ریاست بہاول پور کی سرکاری مہر جب کہ کھڑکی کے چھجے پر بہاولپور رجمنٹ کا نشان بنایا گیا ہے۔

محل کا اندرونی حصہ ایک مرکزی ہال اور کئی کمروں پر مشتمل ہے۔ کمرے چوںکہ آج کل افواجِ پاکستان کے استعمال میں ہیں سو عوام کو صرف اندرونی ہال اور میس روم تک رسائی حاصل ہے۔

ہال کی دیواروں پر ہلکا سنہری رنگ کیا گیا ہے جب کہ کناروں پر خوب صورت نقش و نگار بنے ہیں۔ اوپری حصے پر قیمتی لکڑی کا ایک چھجا بنا ہے جب کہ درمیان میں چھت سے ایک روایتی جھومر لٹک رہا ہے۔ اسی جھومر کے عین نیچے شیشے کے شو کیس میں ”پیلیکن” کا ماڈل رکھا گیا ہے۔

چہار جانب دیواروں پر عباسی خاندان کے نوابوں کی تصاویر اس کے رعب اور کشادگی میں اضافہ کرتی ہیں۔ یہ نواب صادق محمد خان عباسی اول (1723-1720) سے لے کر نواب عباس خان عباسی (1988-1966) تک جاتی ہیں۔ پاکستان و ریاست بہاول پور کا جھنڈا اور ریاست کی قومی مہر بھی دیوار پر آویزاں کی گئی ہے۔

میرون دروازوں کے ساتھ یورپی اور ریاست کے کاری گروں کا بنا قیمتی فرنیچر اور دبیز قالین اس کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔

فریادی گھنٹی و اطالوی فوارہ؛دربار کی عمارت کے سامنے لان میں بائیں جانب فریادی گھنٹی رکھی گئی ہے جو ”جیلٹ اینڈ جانسن” کمپنی نے نواب صاحب کو 1906 میں تحفتاً دی تھی جسے شاہی محل کے مرکزی دروازے پر عوام کی سہولت کے لیے لٹکایا گیا تھا۔ فریاد کرنے والے اس گھنٹی کو بجا کہ اپنا مدعا بیان کیا کرتے تھے۔ کانسی کی بنی اس سنہری گھنٹی کا وزن ایک ٹن ہے اور اس پہ یہ الفاظ تحریر ہیں؛

GILLETT & JOHNSTON  FOUNDERS CROYDON, ENGLAND.

گھنٹی کے سامنے بائیں طرف دیوانِ خاص اور دائیں طرف دیوان عام ہے۔ شاہی دربار کے اوقات کے دوران دیوانِ خاص میں اہم مہمان اور امراء بیٹھا کرتے تھے جب کہ عام عوام دیوانِ عام میں بیٹھا کرتے تھے۔

محل و بارہ دری کے درمیان میں لگا فوارہ اٹلی سے 1906 میں منگوایا گیا تھا۔ اسپینش آرکیٹیکٹ کا بنایا گیا یہ فوارہ سنگل پیس ہے اور اب تک کارآمد ہے۔

بارہ دری؛محل کے عین سامنے ایک چبوترے پر خوب صورت بارہ دری بنائی گئی ہے۔ یوں تو بارہ دری میں بارہ دروازے ہوتے ہیں لیکن یہاں اندر اور باہر اٹھائیس، اٹھائیس دروازے ہیں جو برآمدے کی صورت چوکور شکل میں موجود ہیں۔

ایک جانب بیچ کی تین محرابوں کے درمیان چبوترہ بنایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس جگہ نواب صاحب اپنا دربار لگایا کرتے تھے جہاں فریادی اپنی بات رکھتے تھے۔ اس چبوترے پر اب نواب صادق محمد خان عباسی پنجم کا ایک خوبصورت مجسمہ رکھا ہوا ہے۔

محرابی دروازوں کے وسط میں ایک بڑا حوض ہے جس میں پانچ چھوٹے فوارے لگائے گئے تھے۔ چوںکہ یہاں گرمی زیادہ پڑتی ہے سو پانی کا یہ حوض بارہ دری کے ساتھ مل کہ اس جگہ ہوا کی مسلسل فراہمی میں مدد دیتا تھا تاکہ دربار کے وقت سائلین کو دقت نہ ہو۔

عجائب گھر؛اسی بارہ دری کے ایک جانب تین کمروں پر مشتمل ریاست بہاول پور کے متعلق ایک چھوٹا میوزیم بنایا گیا ہے۔ ایک کمرے میں ریاست بہاولپور کی ثقافت (لباس، برتن، زیور، بودوباش، بلاک پرنٹنگ، چرخہ) کو دکھایا گیا ہے جب کہ دوسرے میں ریاست کی شاہی فوج کی وردی، تمغے، تصاویر، سِکے اور دیگر معلوماتی بورڈز لگے ہیں۔

بیچ والے ہال میں آپ کو اس ریاست کے شان دار ماضی کی جھلک دیکھنے کو ملے گی۔ یہاں مملکت خداداد بہاول پور کی جاری کردہ ڈاک ٹکٹیں، سِکے، تمغے (جن میں تمغہ ستلج، حج، جشن عہد حکومت تاج پوشی، پولیس، تمغہ استقلال دوسری جنگ عظیم شامل ہیں)، ریاست کا قومی نشان، نواب صاحب اور ان کے محافظوں کی وردیاں اور ان پہ لگے بیج، عید کارڈ، ولی عہد کی شادی کا دعوت نامہ، میس کا مینو، چاندی کے برتن اور سِگار شامل ہیں۔

ایک کونے میں نواب صاحب کی اپنی بیگم، قائد اعظم محمد علی جناح، محترمہ فاطمہ جناح، لیاقت علی خان، جواہر لال نہرو، ایوب خان، حفیظ جالندھری اور خواجہ ناظم الدین کے ساتھ مختلف مواقع پر کھینچی گئی تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان میں ایک خاص تصویر وہ ہے جس میں وائسرائے ہندوستان برصغیر کی ریاستوں کے راجوں مہاراجوں کے ساتھ براجمان ہیں۔

ان میں نواب آف ریاست بہاولپور کے علاوہ ریاست خیرپور، الور، گوالیار، جودھپور، جیسلمیر، ریوا، کَچھ، سیتامن، ملیر کوٹلا، دھر، بیکانیر، نابھ، راج گڑھ، کوٹہ، سِکم، پٹیالہ، ڈھولپور، کولہاپور، راجکوٹ، سنگلی سمیت دیگر ریاستیں شامل ہیں۔

اس کمرے میں ریاست کی اہم عمارتوں، شاہی محلات سمیت نواب صاحب کے مملکت پاکستان کو دیے گئے تحائف اور نقدی کی تفصیل بھی آویزاں ہیں جس کی تفصیل یہاں لکھی تو یہ مضمون بہت طویل ہوجائے گا۔ یہ تمام معلومات کسی اور مضمون میں آپ تک پہنچاؤں گا۔

شاہی پرچم؛یہاں چوںکہ بارہ دری میں ریاست کا جھنڈا بھی لہرا رہا ہے اس لیے اس کے بارے واقفیت حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔

مملکت خداداد بہاولپور کا جھنڈا، کویتی پرچم کے طرز پر چار رنگوں اور چاند تارے پر مشتمل تھا۔ بائیں جانب کالا جس میں سفید چاند تارہ بنا تھا، اوپر سرخ، درمیان میں پیلا اور سب سے نیچے سبز رنگ۔

چوںکہ نواب صاحب خاتم النبینؐ کے پیارے چچا کی اولاد میں سے تھے، سو کالا رنگ عباسیہ خاندان کے جدِامجد حضرت عباس رض کی نمائندگی کرتا ہے۔ لال رنگ اس ریاست کے لیے بہنے والے خون کو، پیلا رنگ ریاست کے وسیع رقبے پر پھیلے چولستان کی سُنہری ریت کو اور سبز رنگ مسلم اکثریت کو ظاہر کرتا ہے۔

پیلیکن؛محل کے لان میں سفید پیلیکن بھی گھومتے پھرتے مل جاتے ہیں جو ریاست کا قومی پرندہ تھا۔ پیلیکن، اصل میں سرد علاقوں کا آبی پرندہ ہے جو زیادہ تر روس کے علاقے سائیبیریا، شمالی امریکا، میکسیکو، کریبیئن اور آسٹریلیا میں پایا جاتا ہے۔

فی الوقت روئے زمین پر اس کی آٹھ اقسام موجود ہیں جن میں سے معدومی کے خطرے سے دوچار ایک قسم پاکستان، بھارت اور انڈونیشیا کے کچھ علاقوں میں بھی پائی جاتی ہے۔

سفید پروں اور نوک دار پیلی چونچ پرندہ ہے جو شدید سردی میں جنوبی علاقوں کی طرف ہجرت کرتا ہے۔ ان کو رہنے کے لیے معتدل درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔

ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ قحط، خشک سالی یا کسی بھی آفت میں اپنے بچوں کو بھوکا نہیں مرنے دیتا، بلکہ ایسی کوئی مصیبت پڑنے پر اپنی نسل کی بقا کے لیے اپنی چونچ سے اپنا سینہ چاک کر کے اپنا گوشت اپنے بچوں کو کھلاتا ہے۔

یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس کی اسی خاصیت سے متاثر ہو کہ نواب آف بہاولپور نے اسے ریاست کا قومی پرندہ قرار دیا اور ریاست کی سرکاری مہر یا نشان میں بھی اسے جگہ دی۔

چوںکہ مادہ پیلیکن اپنے بچوں کے معاملے میں بہت حساس ہوتی ہے، سو انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ اول نے پیلیکن کے نشان کو اپناتے ہوئے خود کو ”چرچ آف انگلینڈ کی ماں” قرار دیا۔ پیلیکن لاکٹ پہنے ہوئے ان کی ایک تصویر بہت مشہور ہوئی تھی جسے ”پیلیکن پورٹریٹ” کہا جاتا ہے۔

عیسائیت میں اس پرندے کی اہمیت کا اندازہ یوں لگا لیجیے کہ پرتگال کے بادشاہ جان دوئم، آکسفورڈ اور کیمبرج کے ذیلی کالجوں، بہت سی رفاحی تنظیموں اور پراگ کی چارلس یونیورسٹی کے سرکاری نشان یا مہر میں بھی پیلیکن موجود ہے۔

پیلیکن کو قدیم مصر میں موت اور حیات بعد الموت سے جوڑا جاتا تھا۔ مصر کے پرانے مقبروں اور عبادت گاہوں کی دیواروں پر اس پرندے کی تصاویر بھی ملی ہیں۔ یہودی مذہب میں اسے کھانے کی سختی سے ممانعت ہے۔

اس وقت دربار محل میں تین پیلیکن موجود ہیں۔

یہ تھی دربار محل اور اس سے جڑی چیزوں کی وہ معلومات جو آْپ سب تک پہنچانے کو یہ دل مچل رہا تھا۔ اس محل میں عوام کا داخلہ ممنوع ہے البتہ آرمی، ڈی سی یا کور کمانڈر کی اجازت لے کر جایا جا سکتا ہے۔

شاید آپ اس فیصلے کو غلط کہیں لیکن میرے نزدیک ریاست کے اس خوب صورت اثاثے کی حفاظت ایسے ہی ممکن ہے۔ تبھی آپ کو یہ جگہ صاف ستھری اور کچرے سے پاک ملے گی۔

The post دربار محل appeared first on ایکسپریس اردو.

چیٹ جی پی ٹی

$
0
0

بہاولپور: کبھی آپ نے کسی ایسے دوست کے بارے میں سوچا ہے جس سے آپ ہر بات کسی بھی وقت کر سکیں، جو آپ کے سبھی سوالات کے جوابات دے سکے، جو آپ کو مشورہ دے، سیکھنے اور کوڈ لکھنے میں آپ کی مدد کر سکے۔

ایسا دوست ChatGPT کی شکل میں اب ایک حقیقت بن چکا ہے۔

اسے نیند کی بالکل حاجت نہیں ہے، یہ آپ کے پوچھے گئے سوالات سے کبھی تنگ نہیں ہوتا اور ہر وقت مدد کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔

پہلے اس کے بارے میں سوچنا محال تھا، اگر اسے مصنوعی ذہانت والا استاد کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

چیٹ جی پی ٹی سادہ، بہترین مصنوعی ذہانت والا چیٹ باٹ ہے، جسے گذشتہ سال 30 نومبر کو ٹیسٹنگ کی خاطر عام لوگوں کے لیے جاری کیا گیا اور یہ ابھی تک فری ہے اسے OpenAI نے بنایا ہے۔

اوپن اے آئی سان فرانسسکو میں واقع ایک آرٹی فیشل انٹیلی جنس کمپنی ہے۔ اس ریسرچ اسٹارٹ اپ اوپن اے آئی کو 2015 میں اس مقصد سے شروع کیا گیا تھا کہ آرٹی فیشل انٹیلیجنس سے عام لوگ اور دنیا فائدہ اٹھا سکے۔

ایلون مسک، سام آلٹمین اوردیگر انویسٹرز نے 2015 میں اس ریسرچ پراجیکٹ کو ایک ملین یو ایس ڈالرز کی خطیر رقم سے شروع کیا۔

2018 میں اوپن اے آئی کے شروعات کے تین سال بعد ایلون مسک نے کمپنی کے بورڈآف ڈائریکٹرز سے استعفیٰ دے دیا۔

2019 میں مائکروسافٹ نے اوپن اے آئی میں ایک بلین یو ایس ڈالرز کی انویسٹمنٹ کی، کہا جاتا ہے کہ اس انویسٹمنٹ سے مائکروسافٹ کو گوگل کی “ڈیپ مائنڈ” اے آئی کمپنی سے مقابلہ کرنے میں مدد ملی۔

کمپنی اس سے پہلے GPT-3 اور DALL-E2 جیسے اے آئی ٹولز بھی بنا چکی ہے جس میں آپ ٹیکسٹ کے ذریعے تصاویر بنا سکتے ہیں۔

جی پی ٹی ایک “جنریٹو پری ٹرینڈ ٹرانسفارمر” ماڈل ہے۔ لانچ کے پانچ دن کے اندر اندر اسے استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد ایک ملین سے بڑھ گئی تھی۔

چیٹ جی پی ٹی آتے ساتھ ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر چھا گیا جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اس چیٹ باٹ کے ساتھ کیے گئے ہر طرح کے دل چسب سوالات اور اپنی گفتگو کا اشتراک کیا۔

پچھلے چند سالوں میں بہت سے اے آئی چیٹ باٹس آئے جن کی کارکردگی متاثر کن رہی، لیکن چیٹ جی پی ٹی کچھ الگ ہے، یہ زیادہ سمجھ دار، حیران کردینے والا ہے۔

یہ ہمارا موڈ بہتر کرنے کے لیے ہمیں لطیفے بھی سنا سکتا ہے جن میں کچھ واقعی ہنسانے والے ہوتے ہیں۔

اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی نئی نہیں ہے، یہ ٹیکنالوجی کمپنی اس سے پہلے  GPT-3.5  میں بھی استعمال کر چکی ہے جو GPT کا اپ گریڈڈ ورژن تھا۔

یہ ایک ٹیکسٹ جنریٹر تھا جو 2020 میں پہلی بار منظرعام پر آیا۔

یہ پروگرامرز کو کوڈنگ میں غلطیاں ڈھونڈنے اور انہیں فکس اور ڈی بگ کرنے  میں مدد دیتا ہے۔

چیٹ جی پی ٹی تجزیاتی سوالات کے بہت اچھے جواب دیتا ہے جو اسکول یا یونیورسٹی اسائنمنٹس میں پوچھے جاتے ہیں۔

بہت سے ماہرین تعلیم نے پیش گوئی کی ہے کہ چیٹ جی پی ٹی اور اس جیسے دیگر اے آئی ٹولز ہوم ورک اور آن لائن امتحانات کا خاتمہ کردیں گے۔

بہت سے چیٹ باٹس گفتگو یا پوچھے گئے سوالات کی ہسٹری یاد نہیں رکھتے لیکن چیٹ جی پی ٹی صارف کے پہلے پوچھے گئے سوالات یاد رکھتا ہے اور اس بنیاد پہ زیادہ بہتر انداز میں رائے اور پوچھے گئے سوال کا بہتر انداز میں جواب دیتا ہے۔

یہ بہت سی چیزوں کے غلط جواب بھی دیتا ہے۔

اگر آپ اس کی مدد سے کسی کتاب پر تبصرہ لکھ رہے ہیں تو چیٹ جی پی ٹی آپ کے لیے قابل فہم دلائل تو لکھ لے گا مگر وہ درست ہوں گے یا غلط اس بات کا انحصار ماڈل کو ٹرینڈ کیے گئے ڈیٹا پر ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ خود سے سوچ نہیں سکتا۔

یہ ایک شماریاتی ماڈل ہے جسے انٹرنیٹ سے لیے گئے ٹیکسٹ کی اربوں مثالوں پر ٹرینڈ کیا گیا ہے۔

بی بی سی سائنس فوکس میں شایع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق اس ماڈل کو ٹرینڈ کرنے کے لیے انٹرنیٹ سے جو ڈیٹا بیس لیا گیا وہ 570 جی بی ڈیٹا پر مشتمل تھا اور یہ ڈیٹا کتابوں، وکی پیڈیا، ریسرچ آرٹیکلز، ویب ٹیکسٹ، اور ویب سائٹس پر مشتمل تھا، جسے جی پی ٹی کو گھول کر پلایا گیا۔ یہ ایک متوازن انسانی رائے رکھتا ہے۔

چیٹ جی پی ٹی کوڈ میں موجود غلطی کی نشان دہی اور اس کو درست کرتا ہے

ایک ویب سائٹ Stack over Flow جو پروگرامنگ سوالات کے جوابات دیتی ہے۔ اس چیٹ باٹ کے آنے کے بعد بہت سے لوگوں نے چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے اسٹیک اوور فلو پہ پوچھے گئے کوڈنگ سوالات کے جوابات دینے شروع کردیے، جو کہ نامکمل اور درست نہیں تھے جس کی وجہ سے ویب سائٹ کی طرف سے عارضی طور پر صارفین کو چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے جواب دینے سے روک دیا گیا۔

چوںکہ اسے 2021 سے پہلے ٹرینڈ کیا گیا تھا، اس لیے یہ موجودہ حالات کے بارے میں نہیں جانتا۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ ChatGPT ہمارے لیے کیا آسانیاں پیدا کر سکتا ہے۔

اگر آپ ایک ٹوئٹر صارف ہیں تو آپ تھریڈز کے بارے میں ضرور جانتے ہوں گے، یہ چیٹ باٹ آپ کے لیے کسی بھی موضوع پر ایک تھریڈ بنا سکتا ہے۔

اس کی مدد سے چند لائنز کے وضاحتی پرومٹ کی مدد سے کسی ناول کا پلاٹ لکھا جا سکتا ہے۔

اگر آپ ایک ایسی تقریب میں مدعو ہیں جہاں ” اے آئی سماجی زندگی کو کس طرح بدل رہی ہے” کے موضوع پر کسی مہمان اسپیکر کو بلایا گیا ہے تو آپ چیٹ جی پی ٹی سے پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کو فلاں موضوع پر گیسٹ اسپیکر سے کون سے سوالات پوچھنے چاہییں؟ جو کہ اسپیکر کو لاجواب کردیں۔

اگر آپ اداس ہیں یا اپنی تنہائی سے لڑرہے ہیں تو یہ کسی شفیق مہربان دوست کی طرح آپ کی ڈھارس بندھائے گا، آپ کو سمجھائے گا کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے۔

یہ کسی بھی چیز کا نام تجویز کرنے میں آپ کی مدد کر سکتا ہے۔

آپ چیٹ جی پی ٹی کو اپنے موبائل پہ ٹرانسلیشن کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، آپ اس کو اپنی فٹنس روٹین کے بارے میں بتائیں یہ آپ کے لیے فٹنس پلان حتٰی کہ ڈائٹ پلان بھی بنا سکتا ہے۔

یہ ٹیچرز کے لیے لیسن پلانز (Plans Lesson ) بنا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ آپ کے سوشل میڈیا کے کمنٹس یا اگر آپ کسی بزنس کے مالک ہیں تو اس صورت میں یہ آپ کے بزنس کے ریویوز بھی لکھ سکتا ہے۔

اگر آپ کوئی بھی چین ڈیزائن کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے آپ کو آئیڈیاز کی تلاش ہے تو چیٹ جی پی ٹی آپ کی بھر پور مدد کر سکتا ہے۔

اگر آپ ملازمت کے حصول کے لیے کہیں انٹرویو دینے جا رہے ہیں تو چیٹ جی پی ٹی انٹرویو کے دوران آپ کی فیلڈ سے متعلق پوچھے جانے والے ممکنہ سوالات آپ کو باور کرا سکتا ہے۔

اسے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے استعمال کریں نہ کہ اپنا سارا کام اس سے کروائیں، آپ اس کو کوئی بھی پیرا گراف ایکٹو وائس میں لکھنے کا کہ سکتے ہیں، کسی کو ای میل بھیجنے سے پہلے گرائمر کی غلطیوں کو درست کرسکتے ہیں۔

جلد یا بدیر ہمیں آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو اپنانا ہو گا، ورنہ ہم پیچھے رہ جائیں گے۔ ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں موبائل ہے وہ نہ جانتے ہوئے بھی اے آئی کا استعمال کررہا ہے۔ گوگل میپ سے کون فائدہ نہیں اٹھاتا، کہیں بھی جانا ہو، گوگل میپ ہماری راہ نمائی کرتا ہے۔

چیٹ جی پی ٹی ایک شتر بے مہار کی طرح ہے۔ یہ آپ پہ منحصر ہے کہ آپ اس کا استعمال خود کو اور دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر کیسے کر سکتے ہیں۔

اسے استعمال کرنے والے کچھ ذہین اور شریر ذہنوں میں یہ بات بھی امڈی کہ وہ اس کی مدد سے کوڈنگ کے مقابلے جیت سکتے ہیں۔

دوسری طرف بہت سے معلم اپنے شاگردوں کو مضامین کو غلطیوں سے پاک کرنے کے لیے یہ چیٹ باٹ استعمال کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

ہم اس کا کس طرح مثبت اور اخلاقی استعمال کر سکتے ہیں، برائن کرسچن جو ایک کمپیوٹر سائنس داں ہیں، کہتے ہیں “ہم ایک وسیع تر سماجی تبدیلی کے آغاز پر ہیں۔” انہوں نے مصنوعی ذہانت سے متعلق اخلاقی خدشات پر ایک کتاب “The Alignment” بھی لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محتاط سوچ اور غوروفکر کے ساتھ ہم کسی کو نقصان دیے بغیر ان ٹولز کا استعمال کر سکتے ہیں۔

چیٹ جی پی ٹی ہمارے موبائل فونز میں استعمال ہونے والے پری ڈکٹیو سسٹم کی ایک ایڈوانس شکل ہے جو ایک جملہ مکمل کرنے کے لیے مختلف الفاظ تجویز کرتا ہے۔

بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ کیا ChatGPT گوگل کی جگہ لے سکتا ہے، کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس کے رزلٹس گوگل سے بہتر ہیں۔ میں نے یہی سوال چیٹ جی پی ٹی سے پوچھا، جواب حیران کن تھا۔ پہلی بات یہ ہے کہ اسے ڈیٹا سیٹ پر ٹرینڈ کیا گیا ہے اور یہ انٹرنیٹ تک رسائی نہیں رکھتا۔ نہ ہی یہ آپ کے لیے انٹرنیٹ پر سرچنگ کر سکتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ آپ کے مطلوبہ نتائج آپ کے سامنے لانے کے لیے پوری کوشش کرتا ہے لیکن چوںکہ یہ ایک لینگویج ماڈل ہے اس لیے یہ غلط جواب بھی دیتا ہے۔ اور بعض اوقات اتنی ڈھٹائی سے دیتا ہے کہ آپ بھی ششدر رہ جاتے ہیں۔

یہ کہا جا رہا ہے کہ مائکروسافٹ چیٹ جی پی ٹی کی کام یابی کے بعد اوپن اے آئی میں مزید 10 بلین ڈالر انویسٹ کرنے جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ChatGPT کی مارکیٹ ویلیو 29 بلین ڈالر ہوجائے گی۔

The post چیٹ جی پی ٹی appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>