Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

مٹی کی گڑیا نہ سمجھے کوئی!

$
0
0

خواتین کو دنیا کے ہر معاشرے میں ویسے تو ’صنف نازک‘ یا حضرات کے مقابلے میں کمزور صنف تصور کیا جاتا ہے۔

کبھی ان کو کائنات میں رنگ بھرنے والی تخلیق بتایا جاتا ہے، تو کبھی ان کو صرف نازک اور خوب صورت چیزوں سے تشبیہ دی جاتی ہے، لیکن عام مشاہدہ یہ ہے کہ جذباتی صدمہ ہو، شدید ذہنی دباؤ اورانتشار کا شکار، ذہنی اذیت ہویا پھر گہری جسمانی چوٹ پہنچنے کی صورت ہو، ایسے میں بہت سی خواتین نفسیاتی اور اعصابی اعتبار سے حضرات سے زیادہ مضبوط بہادراور منظم ثابت ہوتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین حضرات کے مقابلے میں زیادہ حساس اور جذباتی ہوتی ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں ان کو کسی کی تکلیف اور دکھ درد کا احساس زیادہ اور جلدی ہوتا ہے، لیکن یہ حساسیت اور جذباتیت بھی خواتین کی خود سے جڑے ہوئے رشتوں کے ساتھ خلوص، ایمان داری اور لگاؤ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق خواتین میں موت کے خلاف جنگ لڑنے صلاحیت زیادہ ہوتی ہے، کیوں کہ انھیں اولاد کی ولادت کے علاوہ ان کی دیکھ بھال اورپرورش بھی کرنی ہوتی ہے، لہٰذا مشکلات کا سامنا کرنے اور مختلف صدموں اور چوٹوں سے لڑنے کا نظام ان میں قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے۔

عام طور پر ہمارے معاشرے میں شرمیلا، نازک اور ڈرپوک ہونا۔ رونا، تکلیف محسوس ہونا، فیشن کرنا، شاپنگ کا شوقین ہونا، عدم برداشت، اور نہ جانے کتنے ایسے اوصاف ہیں، جو خواتین کے کردار کے ساتھ منسلک کر دیے گئے ہیں۔

جب کہ اگر دیکھا جائے، تو یہ سب انسانی اوصاف ہیں، جو کسی بھی انسان کے اندر موجود ہو سکتے ہیں۔ کسی آدمی کو بھی دکھ یا تکلیف سے رونا آنا سکتا ہے۔

کوئی مرد بھی نرم مزاج ہو سکتا ہے، کوئی لڑکا بھی شرمیلا ہو سکتا ہے، حساس دل رکھ سکتا ہے اور کسی تکلیف پر مرد کے آنسو بھی نکل سکتے ہیں۔

حضرات، گھروں میں بھی خواتین سے زیادہ اچھے اور لذید کھانے پکا سکتے ہیں، عورتوں سے زیادہ اچھے انداز میں فیشن بھی کر سکتے ہیں، گھر کو بھی زیادہ سلیقے اور کفایت شعاری چلا سکتے ہیں۔ والد بچوں کوماں سے زیادہ منظم انداز سے رکھ  سکتے ہیں۔

بالکل اس ہی طرح کچھ صنفی کردار ایسے بھی ہیں، جن کو صرف مرد حضرات سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ جیسے مرد ہے تو بہادر ہوگا، کمانے والا ہوگا، گھر کا سربراہ ہوگا، زیادہ سمجھ دار ہوگا، لیکن یہ تمام اوصاف تو خواتین میں بھی ہوسکتے ہیں۔

ایک بیٹی بیٹے سے زیادہ کماؤ پوت ہو سکتی ہے۔ اپنے گھر اور بچوں کے لیے بیوی شوہر سے زیادہ بہتر اور سمجھ داری کے ساتھ فیصلے کر سکتی ہے۔ ایک لڑکی لڑکے سے زیادہ بہادر ہو سکتی ہے۔ ایک خاتون باس بھی کسی مرد سے زیادہ اچھی فیصلہ ساز ہو سکتی ہے۔

جدید ٹیکنالوجی اور گلوبلائزیشن کے باعث تیزی سے بدلتی ہوئی آج کی دنیا میں عورت کا کردار بھی بدل رہا ہے۔

آج کی عورت خوش قسمت ہے کہ پچھلی نسلوں کے مقابلے میں اسے ہر میدان میں آگے بڑھنے اور مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے بہت زیادہ مواقع حاصل ہیں۔ جب 1918ء میں خواتین کو صرف ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا تھا تب آج کے معاشرے میں خواتین کے لیے رویوں میں ہونے والی تبدیلی ناقابل یقین تھی۔

لیکن عورت کی ہمت، عظمت اور شجاعت اس ٹیکنالوجی کی مرہونِ منت نہیں۔ جب عورت اپنے حقوق سے ناواقف تھی، تب بھی سخت سے سخت حالات میں زندگی کی مشکلات اور چیلنجوں کا سامنا ویسے ہی کرتی تھی، جیسے آج کے دور کی عورت کر رہی ہے، فرق صرف بدلتے دور کے ساتھ ان نوعیت تبدیل ہونے والے نت نئے چیلنجوں کا ہے۔

ہماری نانیاں، دادیاں دس، دس بچوں کے ساتھ پورا دن گھر کے کاموں، بچوں کی تربیت، سسرال والوں کی خدمت میں گزارتے نہیں تھکتی تھیں۔ آج عورت کو درپیش مسائل کی نوعیت بدل گئی ہے۔

لیکن آج کی عورت خوش قسمت ہے کہ  انھیں پڑھنے، سفر کرنے، کام کرنے اور اپنے بھائیوں کی طرح مواقع سے فائدہ اٹھانے کی سہولت میسر ہے۔ حوصلہ افزائی کرنے والے باپ، راہ نمائی کرنے والے بھائی، شانہ بشانہ چلنے والے شوہر، مدد کرنے والے بیٹوں اور مل جل کر کام کرنے والے ’کولیگ‘ کی شکل میں خواتین کو مردوں کا تعاون حاصل ہے۔

ایک عورت کا فیصلہ ساز ہونا، مضبوط اعصاب کا مالک ہونا، اصول پرست ہونا ضروری نہیں ہے کہ کسی عہدے کے باعث ہو بلکہ ایک ماں اپنے بچے کے لیے، ایک بیوی اپنے گھر کے لیے، ایک لڑکی اپنی زندگی کے لیے بہترین فیصلہ ساز ہوتی ہے۔

مرد عورتوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے۔ ہمارے معاشرے میں مرد اور عورت کی طاقت کا موازنہ ان کی جسامت اور ظاہری قد کاٹھ  کے اعتبار سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ یہ نہیں مانتا کہ خواتین بھی جمسانی، ذہنی، جذباتی طور پر مضبوط ہو سکتی ہیں۔ عورت کی طاقت کی صلاحیتوں کے حوالے سے ہمیں جو سب سے بڑا جھوٹ کہا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ کبھی مرد سے زیادہ مضبوط نہیں ہو سکتی۔

یہاں تک کہ اگر کچھ لوگ خواتین کی جذباتی، ذہنی اور جسمانی طاقت پر یقین رکھتے بھی ہیں، تو یہ ہمیشہ مردوں کے  ہم منصبوں کے مقابلے میں ’نچلے درجے‘ پر ہوتا ہے۔

سماجی اور ثقافتی طور پر ہمیشہ سے یہ ہی سمجھا جاتا ہے کہ خواتین کمزور ہیں، جب کہ تاریخ گواہ ہے کہ کون سا ایسا معرکہ ہے یا زندگی کا شعبہ ہے جس میں خواتین نے کامیابی حاصل نہ کی ہو۔

عورت معاشرے میں آج بھی مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور چاہے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے ہر معاشرے میں اس کا مقام ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ اللہ کی طرف سے بنائی گئی مضبوط اعصاب اور پختہ ارادوں کی اس تخلیق کو ہر گز مٹی کی گڑیا نہ سمجھا جائے۔

وقتی طور پر شاید عورت کو جذباتی اور کمزور سمجھ کرجھکایا جا سکتا ہو، لیکن اس کا کسی مصلحت کے تحت جھکنا یا مصالحت سے کام لینے کو اس کی کمزوری کبھی نہ سمجھا جائے۔

زندگی میں اپنی اور اپنے خاندان کی بقا کی جنگ لڑنے سے لے کر مشکل سے مشکل ترین حالات کا مقابلہ کرنے اور سخت سے سخت فیصلے لینے تک کوئی کام ایسا نہیں، جو عورت نہ کر سکے، لہٰذا ہمیں اس صنفی کردار والی ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے اور ساتھ اس حقیقت کے ادراک کی بھی ضرورت ہے کہ خواتین صنف نازک ضرور ہیں لیکن مضبوط ذہنی، جسمانی اور اعصابی طاقت کے ساتھ!

The post مٹی کی گڑیا نہ سمجھے کوئی! appeared first on ایکسپریس اردو.


پھیپھڑوں کے امراض سے کیسے محفوظ رہیں؟

$
0
0

جس طرح انسان ہر جانب سے احاطے میں ہے یعنی اوپر آسمان ، دائیں بائیں، آگے پیچھے ہوا اور نیچے زمین۔ اسی طرح اعضاء مرؤس (خادم عضو جو قلب کو صاف خون مہیا کرتا ہے ) چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے، جسے عمومی طور پر ’ پھیپھڑا ‘ اطباء کی اصطلاح میں ’ رئیتین ‘ کہتے ہیں۔

پھیپھڑے سامنے اور پچھلی جانب اضلاع (سینے کی ہڈیوں ) سے جہاں محیط ہے وہاں اوپر سے دماغ نچلی طرف جگر و معدہ کے احاطے میں ہیں ، پہلو میں قلب ہے ، جسے سرخ اور آکسیجن (ہوائے نسیم ) سے بھرپور خون بہم پہنچاتے ہیں۔

پھیپھڑے میں درد محسوس کرنے میں اعصاب بہت تھوڑے ہیں، اس لیے اس کے امراض میں مبتلا حضرات درد سینہ کے بجائے دوسرے عوارض کا شکار ہوتے ہیں۔

اسفنجی اور نازک ساخت کی وجہ سے جلد متاثر ہوتے ہیں۔ پھیپھڑوں میں چھلنی والے کام انجام دینے والے دینے والے اجزاء ’سیلیا ‘ کافی نازک ہیں ، مگر کچھ اجسام ِ غریبہ (بیکٹیریا ، وائرس ، فنگس ) ان سیلیا کے چھاننے میں نہیں آتے بالکل جیسے قہوے بناتے ہوئے کچھ اجزاء چھلنی سے باہر آجاتے ہیں۔

پھیپھڑوں تک ہوا پہنچانے کا کام ہوائی نالی (ٹریکیا ) انجام دیتا ہے ، اب ہوا ہوائی نالی سے پھیپھڑوں کے اندر پائی جانے والی عروق ِ خشنہ (برانکیولز ) تک پہنچاتی ہے ، جو تعداد میں دو عدد ہیں ، ایک دائیں اور دوسرے بائیں پھیپھڑے کو یہ ہوا منتقل کرتی ہے۔

آخر میں یہی ہوا چھنتے چھنتے ہوائی کیسوں (ایلوویلائی ) تک پہنچتی ہے، ان ہوائی کیسوں سے متصل ( ملی ہوئی ) بہت سی باریک شریانیں ہیں جو ایک خاص طریقے ’ ڈفیوڑن ‘ سے اسی صاف شدہ ہوا کو خون تک پہنچاتی ہے۔

بیماری اور عوارض جن سے پھیپھڑے اذیت اْٹھاتے ہیں، بنیادی طور پر یہیں سے شروع ہوتے ہیں۔ اب اگر آلودہ ہوا ہوائی کیسوں تک پہنچے گی تو یقینا خون میں بھی آلودگی پہنچے گی، اب اگر کوئی جرثومہ پہنچ گیا تو وہ اپنی تاثیر ضرور آشکار کریگا ، اسی لیے بعض لوگوں کو بخار کی شکایت ہو جاتی ہے تو بعض کو نہیں ہوتی، مگر خرابی کی وجہ پھیپھڑے کا جراثیم ہی ہوتا ہے۔

پھیپھڑے کب بیمار ہوتے ہیں؟

پھیپھڑوں کے اذیت ناک ہونے کے تین درجات ہیں۔ (الف) جراثیم (ب) حساسیت (ج) مزاج کی خرابی۔

(الف) جراثیم اگر پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں تو پہلے ماحول کا مشاہدہ کرنا ہوتا ہے، اردگرد کوئی بیمار تو نہیں، یا کوڑا کرکٹ کا ڈھیر تو نہیں یا نالہ تو نہیں بہہ رہا. ایک علامت سڑی ہوئی بدبو ہے کہ یہ جہاں محسوس ہو ، وہاں سے دور رہنا چاہیے ، کیونکہ یہاں ایسے جراثیم کی افزائش ہے جو ناک کے خلیات محسوس کر رہے ہیں۔

اگر ان کا تعلق ناک سے نہ ہوتا تو ناک بدبو نہ محسوس کرتی ، یہی جراثیم بذریعہ ناک پورے ہوائی آلات تک رسائی کرتے ہیں۔

(ب) حساسیت: بعض اشخاص میں کچھ خاص اجزاء جو ہوا میں پائے جاتے ہیں ان سے حساسیت ہوتی ہے یعنی جیسے ہی ناک کے خاص آخذ خلیات (ری سیپڑرز ) انہیں محسوس کرتے ہیں تو خاص کیمیاوی اجزاء ( ہسٹامینز ) افراز کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان حضرات کی آنکھ سے آنسو نہیں رکنے پاتے اور چھینکوں کی قطار بن جاتی ہے ، جس پر سر درد مزید تکلیف پہنچاتا ہے تو دوسری جانب ناک بہنے کا عارضہ الگ لاحق ہوجاتا ہے۔

یہ آثار صرف پولن الرجی تک ہی محدود نہیں بلکہ بلّی کی جلد، شہتوت کے درخت سے اْڑنے والے اجزاء تو کہیں گندھک (سلفر) ملے اجزاء بھی اذیت پہنچاتے ہیں۔ آخر یہ آخذ خلیات مخصوص حضرات کو ہی کیوں متازی کرتے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ ان حضرات میں یہ خلیات دوسروں کی نسبت زیادہ چست ہوتے ہیں خواہ پیدائشی طور پر ہوں یا بعد میں کسی وجہ سے۔

(ج) مزاج میں خرابی : پھیپھڑوں کا مزاج رطوبت کی جانب زیادہ مائل ہے ، کیونکہ دماغ سرد اور تر ہے، لہذا دماغ سے رطوبت پاتا ہے، نچلی جانب جگر گرمی اور خشکی پہنچاتا ہے ، مگر معدہ گرمی اور تری ( یعنی گرم بخارات ) کا احساس پھیپھڑوں کو پہنچاتے ہیں۔

لہذا اگر پھیپھڑوں کا مزاج خشکی کی جانب ہو تو خشکی عروق ِ خشنہ کے عرض ( چوڑائی ) میں کمی کا باعث بنے گی ، لیکن اگر رطوبت بڑھ گئی تو یہی رطوبت ان عروق کو بھر کر تنگی کا باعث بنتی ہے،

اس لیے پھیپھڑوں کے علاج کے وقت جگر اور معدے کا لحاظ کرنا پڑتا ہے، مگر ہمارے ہاں مشہور کر دیا گیا ہے کہ اطباء صرف جگر اور معدے کی اصلاح کر سکتے ہیں اور ہر مریض کے جگر اور معدے کی خرابی کا نام ڈال دیتے ہیں، آخر معدے کی گرمی والوں کو ریشہ آتا ہے جو عموماً اور کسیلے ذائقے کا ہوتا ہے، جبکہ جگر کی وجہ سے آنے والے ریشے کا رنگ پیلا اور قدرے نمکین ہوتا ہے۔

پھیپھڑوں کے امراض زیادہ تر بچوں ہی کو کیوں لاحق ہوتے ہیں ؟

پھیپھڑوں کے امراض ان لوگوں میں زیادہ ہوتے ہیں جن میں کسی بھی وجہ سے ان جراثیم کے خلاف ’ اینٹی باڈیز ‘ ( وہ اجسام جو پہلی بار جراثیم کے داخل ہوتے وقت پیدا ہوتے ہیں اور انہیں جسم سے خارج کرتے ہیں ، پھر خون میں ہی رہتے ہیں، اگر دوبارہ وہی جراثیم داخل ہو جائیں تو امراض لاحق ہونے سے پہلے ہی جرثومہ کو جسم سے خارج کرتے ہیں )کی کمی ہوتی ہے۔

بچوں میں ابھی یہ ’ اینٹی باڈیز ‘ خون میں نہیں ہوتے لہٰذا وہ امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جس طرح کپڑا جتنا صاف اور سفید ہو اتنے جلدی داغ نظر آتے ہیں۔

پھیپھڑوں کو صحت مند کیسے رکھیں؟

تازہ ہوا جس میں آلودگی بالکل نہ ہو، وہاں ہلکی دوڑ لگائیں تاکہ پھیپھڑوں میں تازہ ہوا سرایت کرے ، جس کی بدولت صاف خون قلب میں آئے گا اور یوں جسم میں صاف خون گردش کرے گا۔ اگر مجبوری میں ایک دم محسوس کریں کہ آلودہ ہوا چل رہی ہے تو بہت آہستہ چلیں اور سانس بھی آہستہ لیں۔

لیس دار خوراک مثلاً بھنڈی، اروی وغیرہ کم کھائیں تاکہ رطوبت کم بنے ، مگر کھائیں ضرور ورنہ ان میں موجود صحت افزاء اجزاء سے محروم رہیں گے ، یہ قبض بھی کھولتی ہیں۔

گرم مصالحوں سے پرہیز کریں تاکہ معدے میں گرمی نہ ہو۔

ہفتے میں ایک بار ایسے علاقے کی طرف ضرور جائیں جہاں صاف پانی بہہ رہا ہو ، یہ بہترین دوا ء ہے دماغ اور نظر کو بھی بہتر کر تی ہے۔

جب سورج طلوع ہو رہا ہو ، اس وقت ننگے پاؤں گھاس پر چلیں , یوں جسمانی خلیات جہاں گھاس پر پڑے صاف پانی کو جذب کریں گے وہاں اس کی خوشبو پھیپھڑے ، دل اور دماغ کو قوت اور توانائی پہنچانے کا ذریعہ بنے گی۔ کبھی مشاہدہ کریں ایسا کرنے سے بند ناک فوراً کھل جاتی ہے۔

پھیپھڑوں میں خرابی کی علامات

چہرے کے رنگ کا نیلگو ں یا زرد ہونا کیوں کہ ردی خون جسم میں گردش کر رہا ہوتا ہے۔ بلاوجہ کھانسی کا آنا، کیونکہ جب ہوا زیادہ اور ہوائی نالیاں تنگ ہوں تو کھانسی آتی ہے۔

معدے کی خرابی ، سر کا وقتاً فوقتاً بوجھل ہونا ، جسمانی چستی میں کمی ، بھوک کی کمی ، جو فولادی اجزاء کی کمی سے بھی ہوتا ہے ، نیند اور بیداری کے وقت طبیعت کا بوجھل ہونا ، سوتے ہوئے خراٹوں کے ساتھ ساتھ سینے سے مختلف آوازیں آنا ( یہ کیفیت جرثومہ یا پھیپھڑے کی ساخت میں خرابی کی وقت سنائی دیتی ہیں)۔

پھیپھڑوں کی صحت کے لئے اسٹیم ( بپھارہ ) کیوں ضروری ہے ؟

جو بھی ادویہ بذریعہ دہنی کھاتے ہیں وہ ایک مرحلے سے گزر کر خون کے ذریعے پھیپھڑوں تک پہنچتی ہیں۔ بھپارہ (اسٹیم) بلاواسطہ پھیپھڑوں تک پہنچتی ہے۔

ہمارے ہاں اکثر عام پانی سے بھپارے کا کام لیتے ہیں، یہ درست صرف اسی صورت میں ہے اگر پانی جراثیم سے بالکل پاک ہے، اگر نمکیات بھی پھیپھڑوں میں پہنچتے ہیں تو خراشی کا سبب بن جاتے ہیں، اسلیے پانی میں دوا یا قدرتی ادویہ مثلاً برگِ سفیدہ، کلونجی، سونٹھ وغیرہ کا اضافہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ قدرتی اجزاء نہ صرف عروقِ خشنہ کو عریض کرنے میں بلکہ اجسامِ غریبہ سے نجات دلانے میں بہت معاون ہیں۔

بھپارہ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جن کا معدہ ادویہ کا استعمال برداشت نہیں کرسکتا، وہ اپنے پھیپھڑوں کی حفاظت اور قوتٍ مدافعت بڑھا سکتے ہیں۔

یادر کھیں اپنے ماحول کو صاف رکھیں ، انسانی زندگی کا دارومدار نہ جسمانی حجم پر ہے نہ مال و متاع پر اور نہ ہی غصّہ اور رعب پر ہے۔ جہاں سانس بند ہوئی خواہ حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے یا شدتِ غم کی وجہ سے، انسان کی زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

The post پھیپھڑوں کے امراض سے کیسے محفوظ رہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

ذہنی صحت کے بغیر کوئی صحت نہیں

$
0
0

کیا آپ جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں ڈپریشن ایک عام مرض بنتا جا رہا ہے؟

عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں قریباً پانچ فیصد بالغ افراد ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔ ان مریضوں میں بھی5.7 فیصد کی عمر 60 برس یا اس سے زائد ہے۔ مجموعی طور پر دنیا بھر کی آبادی میں 3.8 فیصد لوگ ڈپریشن کے مرض کا شکار ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد 28 کروڑ سے زائد ہے۔ پاکستان میں ڈپریشن زیادہ خطرناک ہوچکا ہے۔

ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈپریشن میں مبتلا لوگوں کی شرح 34فیصد ہے جب کہ ایک دوسرے جائزے کے مطابق شرح44 فیصد ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں حالات کس قدر خراب ہوچکے ہیں۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دنیا میں ڈپریشن معذوری کی سب سے بڑی وجہ بنتی جا رہی ہے۔جسمانی اور ذہنی صحت ، دونوں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ مثلاً امراض قلب کے بنیادی اسباب میں ڈپریشن بھی شامل ہے۔

یہ ڈپریشن ہی ہے جو دیگر امراض بھی پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے ، یوں دنیا میں بحیثیت مجموعی بیماروں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ تحقیقات کے نتیجے میں ثابت ہوا ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ ڈپریشن انسان کو خودکشی کی راہ پر لے جاتا ہے۔

ڈپریشن کیا ہے ؟

ڈپریشن روز مرہ زندگی میں آنے والے چیلنجز کے جواب میں بننے والے موڈ کے اتار چڑھاؤ یا مختصر وقت کے عام جذباتی ردعمل سے مختلف کیفیت کو کہتے ہیں۔

اگر درمیانے یا شدید درجے کا ڈپریشن بار بار ہونا شروع ہوجائے تو یہ صحت کی زیادہ خرابی کا الارم بجا رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے تعلیمی ادارے میں ، اپنی ملازمت یا کاروبار کی جگہ پر حتیٰ کہ اپنی گھریلو زندگی میں خراب رویے اور کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

جب ڈپریشن نہایت شدت اختیار کرتا ہے تو مریض خودکشی کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ دنیا میں ہر سال سات لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں۔15 سے 29برس تک کی عمر کے نوجوانوں کی اموات میں خودکشی چوتھا بڑا سبب ہوتا ہے۔

ذہنی امراض کے موثر علاج کا علم ہونے کے باوجود کم یا درمیانے درجے کی آمدن والے معاشروں میں 75 فیصد مریض اپنا علاج نہیں کراتے۔ ان کے علاج میں سب سے بڑی رکاوٹ وسائل کا نہ ہونا ہے۔

دوسری رکاوٹ تربیت یافتہ ماہرین کی کمی اور تیسری بدنامی کا خوف کہ عمومی طور پر لوگ ذہنی امراض میں مبتلا فرد کو پاگل گردانتے ہیں۔ دنیا کے تمام معاشروں میں ڈپریشن میں مبتلا لوگوںکی درست تشخیص نہیں ہو پاتی۔ اور المیہ ہے کہ جنھیں ڈپریشن نہیں ہوتا ، انھیں ڈپریشن کا مریض قرار دے کر اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال کروائی جاتی ہیں۔

ڈپریشن کی علامات

ڈپریشن کی حالت میں مریض اداس ہوتا ہے ، اس کی زندگی سے رومانس ختم ہوجاتا ہے، جن چیزوں کو پہلے پسند کرتا تھا ، اب وہ ناپسند کرتا ہے۔ کسی بھی حوالے سے وہ لطف حاصل نہیں کر پاتا۔ اسی طرح اسے بے خوابی کا مسئلہ لاحق ہوتا ہے، خواہ مخواہ صبح جلد بیدار ہوجاتا ہے۔

تھکاوٹ اور جسمانی توانائی کی کمی بھی محسوس کرتا ہے۔ دیگر علامات میں مسلسل درد، سردرد، پٹھوں کا اکڑنا یا پھر نظام انہضام کے ایسے مسائل کا شکار ہوتا ہے جن سے علاج کے باوجود چھٹکارا نہیں ملتا۔ اگر ڈپریشن کے کسی مریض کو پہلے سے کچھ امراض لاحق ہوتے ہیں تو وہ ڈپریشن کی حالت میں زیادہ شدید ہوجاتے ہیں۔

ذہنی امراض کا سب سے پہلا حملہ معدے اور نظام انہضام پر ہوتا ہے۔ ڈپریشن کے مریض کو بھوک محسوس نہ ہونے کی شکایت ہوتی ہے۔

یہ ایک بڑی علامت ہوتی ہے۔ ہاں ! بعض مریضوں میں کھانے پینے کی خواہش میں اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھوک محسوس نہ کرنے والے مریضوں کا وزن کم ہونا شروع ہوجاتا ہے جبکہ زیادہ بھوک پیاس محسوس کرنے والوں کا وزن بڑھ جاتا ہے۔

اگر ڈپریشن کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہو تو انسان ایسی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جہاں وہ توجہ کے ارتکاز اور قوت فیصلہ میںکمی محسوس کرنے لگتا ہے۔

وہ اپنی پسندیدہ سرگرمیوں سے منہ موڑ لیتا ہے۔ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہو ، ارد گرد کے لوگوں سے تعلقات خراب کر بیٹھتا ہے۔ چونکہ وہ خود بھی لوگوں کے ساتھ چڑچڑے پن اور ایسے ہی دیگر منفی رویوں کا مظاہرہ کرتا ہے ۔

اس لئے لوگ بھی اس سے دور رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ یوں وہ تیزی سے تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے۔ جب یہ صورت حال سنگین ہوجاتی ہے تو اس کی علامات میں مریض موت یا خودکشی کے بارے میں بات کرتا ہے، لوگوں کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں د یتا ہے یا پھر جارحانہ یا خطرے مول لینے والے رویوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔

 ڈپریشن کیوں ہوتا ہے ؟

کوئی بھی فرد ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہے تاہم زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ اس حوالے سے جینز کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ اگر والدین ڈپریشن کے مریض ہوں تو اولاد میں بھی یہ مرض منتقل ہوتا ہے۔ ماہرین کی آرا کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تاحال ڈپریشن کی اصل وجوہات تلاش نہیں کرسکے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی ساخت اور کیمیائی افعال میں تبدیلی پیدا ہوجائے تو نتیجہ ڈپریشن کی شکل میں نکلتا ہے۔

جب کوئی فرد ڈپریشن میں مبتلا ہو تو اس کے مزاج کو باقاعدگی عطا کرنیوالے سرکٹس موثر نہیں رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈپریشن کے علاج میں دی جانیوالی ادویات کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ اعصابی خلیات کے درمیان رابطہ بہتر بناتی ہیں اور انہیں معمول پر لانے میں مدد دیتی ہیں۔

ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ کسی پیارے سے محرومی بھی ڈپریشن میں مبتلا کردیتی ہے، اس کے علاوہ مخصوص ادویات، الکحل اور منشیات کا استعمال بھی سبب بنتا ہے۔ ہارمونز میں تبدیلیاں ہورہی ہوں یا پھر موسم میں تبدیلی ہو ، تب بھی انسان ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈپریشن کے بعض مریض موسم گرما میں اچھے بھلے اور خوش باش ہوتے ہیں لیکن سردیوں میں اداس ہوجاتے ہیں۔ اسے’ موسمی ڈپریشن ‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر موسم بھی انسان کے مزاج پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تین سے 20 فیصد افراد موسمی ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔

مختلف جائزوں کے مطابق بچے کی پیدائش کے بعد ہر چار میں سے ایک ماں ڈپریشن کے خطرات سے دوچار ہوتی ہے، اسکے مزاج میں خرابی واقع ہوتی ہے۔

اسے ’ پوسٹ پارٹم ڈپریشن ‘ کہا جاتا ہے۔ کوئی ماں اس قسم کے ڈپریشن میں مبتلا ہوجائے تو اسکے نتیجے میں بچوں کی صحت کو نقصان لاحق ہوتا ہے۔

لڑکپن میں بھی ڈپریشن کا مرض دیکھنے کو ملتا ہے، ایسے لڑکوں ، لڑکیوں یا نوجوانوں میں کھیلنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، وہ دوست بھی نہیں بناسکتے جبکہ سکول ، کالج کا کام بھی مکمل نہیں کرپاتے۔ وہ عام بچوں کی نسبت زیادہ غصہ کرتے ہیں یا پھر خطرے والے کام کرتے ہیں۔

ڈپریشن کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟

عمومی طور پر ماہرین مریض کی علامات کی بنیاد پر ڈپریشن کی تشخیص کرتے ہیں۔ مریض کی میڈیکل ہسٹری پوچھی جاتی ہے ، جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ کس قسم کی ادویات وغیرہ استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح مزاج میں اتار چڑھاؤ ، رویوں اور روزمرہ کی سرگرمیوں کے بارے میں استفسار کیا جاتا ہے۔

ڈپریشن کا علاج کیا ہو؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن زیادہ شدید نہ ہو اور اس کے نتیجے میں زیادہ مسائل پیدا نہ ہوئے ہوں تو بہتر خوراک ، مکمل نیند اور باقاعدہ ورزش کے ذریعے مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے تاہم مرض کی علامات شدید ہونے کی صورت میں کسی ماہر کی مدد لینا ضروری ہوتی ہے۔ وہ ماہر جنرل فزیشن، ماہرِ نفسیاتی امراض، نفسیاتی امراض کا ڈاکٹر یا تھراپسٹ ہوتا ہے۔

جو لوگ شدید ڈپریشن کے شکار ہوتے ہیں ، وہ دیگر عام لوگوں کی نسبت جلد موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ حالانکہ اس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ڈپریشن چاہے ہلکا ہو ، درمیانہ ہو یا پھر شدید، اس کا علاج ممکن ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اب ہم ذہنی صحت پر بھی بات کریں۔ جسمانی اور ذہنی صحت، دونوں کو یکساں ترجیح دیں۔

The post ذہنی صحت کے بغیر کوئی صحت نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

’مٹھو میاں‘ کو ہماری ’قید‘ راس آگئی تھی!

کیسے کوئی بے زبان جانور یا پرندہ بھی ہمارے گھر ہی کا حصہ بن جاتا ہے، اس کا احساس تب ہوتا ہے، جب ہم جی وجان سے کسی ایسی ’جان‘ سے تعلق پیدا کریں اور اسے نبھائیں۔۔۔ اب بچپن میں نت نئے پرندوں اور پالتو جانوروں کا شوق کس بچے کو نہیں ہوتا۔۔۔ سو ہمیں بھی تھا اور بہت کم سنی میں ہی ایک سرخ چونچ والا سبز توتا ہمارے گھر کا مکین ہوگیا تھا۔۔۔ لیکن ہمارا اس کا ساتھ ایسا ہوگا۔

یہ ظاہر ہے کسی کو بھی اندازہ نہ تھا۔۔۔ خواہش ہماری بھی یہی تھی کہ وہ ’بولنا‘ سیکھے، لیکن چوں کہ جب وہ آیا، تو ’بولنا‘ سیکھنے کی عمر سے نکل چکا تھا، اس لیے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔۔۔ البتہ یہ ضرور تھا کہ وہ اپنی کچھ مخصوص بولی میں غیر روایتی اور منفرد سی آوازیں نکالنا ضرور سیکھ چکا تھا۔۔۔

جیسے جب ہم اسے ’مٹھو بیٹے‘ پکارتے تو وہ اپنے دونوں ’بازو‘ قدرے کھول کے خوشی سے گردن اُچکاتا، اور آنکھ کے نارنجی دائرے میں اس کی دونوں پتلیاں آنکھوں کی سفیدی میں سکڑ کر نقطے جیسی ٹمٹمانے سی لگتیں اور پھر وہ دھیمی دھیمی سی ایک مخصوص آواز میں اس کا جواب دیتا تھا۔۔۔ ابتداً اس کے پر قدرے گہرے سے رنگ کے تھے، لیکن پھر اس کا بہت اجلا اجلا سا سبز رنگ نکھر آیا تھا اور اس نکھار کے ساتھ اس کی گردن پر سرخ رنگ کی ’کنٹھی‘ بھی ابھر آئی تھی، جو چونچ کے نیچے سے دونوں جانب پھیلنے والی گہری کالی لکیر کے ساتھ مل کر سر کے پیچھے مکمل سرخ ہو جاتی تھی اور اس کے اوپر سر کی طرف ہلکاہلکا سا آسمانی رنگ اُس کی خوب صورتی کو دوچند کر دیتا تھا۔۔۔

اسی زمانے میں اسکول کی کتاب میں شامل نظم ’’آؤ بچو سنو کہانی‘‘ کے یہ مصرع ہمیں خوب بھاتے تھے ’’نوکر لے کر حلوہ آیا… توتے کا بھی دل للچایا… راجا بین بجاتا جائے… نوکر شور مچاتا جائے… توتا حلوہ کھاتا جائے۔۔۔!‘‘ گھر میں جب کبھی حلوہ بنتا، ہم مٹھو کو حلوہ ڈالتے ہوئے اکثر یہ بول پڑھتے۔۔۔ ہمیں ایسا لگتا تھا کہ مٹھو میاں اپنا ذکر سن کر ضرور خوش ہو رہے ہیں۔۔۔ یوں وہ صبح سے لے کر رات تک ہمارے ہر کھانے پینے میں ہمارے ’’ساتھ ساتھ‘‘ رہتے تھے۔۔۔

کہنے کو یہ ’مٹھو‘ فقط ہمارے بچپن کا ایک شوق تھا، لیکن غور کیجیے، تو اس کا کردار کتنا اہم تھا کہ اکثر اس کا ’کھانا‘ ہمارے دستر خوان سمیٹنے کے بعد اٹھائے جانے والے اناج کے دانے اور وہ ’بھورے‘ اور سالن وغیرہ ہوتا تھا، جو کھانے کے بعد دسترخوان پر سے سمیٹا جاتا تھا۔

یہ سب ایک روٹی کے نوالے کے ساتھ جمع کر کے پنجرے میں اس کی کٹوری میں ڈال دیتے تھے اور وہ ہمارے دسترخوان کے ہر طرح کے سالن خوب مزے لے کر کھاتا تھا۔۔۔ اس کی یہ عادت ہوگئی تھی کہ اسے روٹی کا ٹکڑا وغیرہ ڈالو، تو وہ چونچ سے اٹھا کر اسے دوسری پانی والی کٹوری میں ڈبو دیتا اور پھر اسے نرم کر کے اپنے سیدھے پنجے میں پکڑ کر کتر کتر کر نوش کرتا۔۔۔ اگرچہ ہم اسے من پسند ہری مرچ بھی کھانے کو دیتے تھے، لیکن زیادہ تر وہ ہمارے دسترخوان سمیٹنے میں ’مددگار‘ ہوتا۔۔۔ اور بزرگوں کے بقول اس طرح رزق کی بے حرمتی ہونے سے بچ جاتی۔۔۔!

ان ’صاحب‘ کا پنجرہ ہمارے پرانے گھر کی انگنائی میں ڈیوڑھی کے بالکل ساتھ الگنی کی دیوار میں گڑے ہوئے ایک لکڑی کے کھونٹے کے ساتھ ٹنگا ہوا ہوتا تھا، جہاں سے وہ گھر میں ہر آنے جانے والے پر ’نظر‘ بھی رکھا کرتے تھے، بلکہ اکثر کسی نئے مہمان یا رات کو آنے والے مہمان پر اپنے ردعمل کا اظہار ایک مخصوص ’پکار‘ کے ساتھ کیا کرتے، بعضے وقت ایسا ہوتا کہ دائیں سمت کی ڈیوڑھی سے نیا آنے والا مہمان جب بے دھیانی میں آنگنائی کی طرف کو مڑتا، تو ان کے پنجرے سے ٹکرا جاتا، سارا پنجرہ ٹیڑھا سیدھا ہوتا تو اس پر تو وہ اور سخت آواز میں اپنی برہمی کا اظہار کرتے۔۔۔

کبھی ایسا بھی ہوتا کہ چھٹیوں کی دوپہر کو جب ہم سب آرام کر رہے ہوتے تھے، تو یہ بھی پنجرے کی مرکزی سلاخ پر ایک طرف ہو کر بیٹھ جاتے، کبھی ایک پاؤں اندر کر لیتے اور اپنے سارے پَر نسبتاً بھربھرے سے کرلیتے۔۔۔ اور پھر نیم وا آنکھوں کے ساتھ دھیمے دھیمے نہ جانے کون سی بولی بڑبڑاتے۔۔۔ یہ ان کی ایک اور مخصوص قسم کی آواز ہوتی تھی۔

جو وہ کبھی سہ پہر کو گھر میں سناٹا دیکھ کر تنہائی کے عالم میں بولا کرتے تھے۔۔۔ کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ شام کے وقت وہ اکثر اپنی چونچ ترچھی کر کے آسمان کی جانب اڑتے ہوئے پنچھیوں کی جانب بھی بہ غور دیکھتے، اور اپنے بند چھوٹے سے پنجرے میں ادھر ادھر دوڑ لگاتے، گویا باہر نکلنے کو بے قرار ہو رہے ہوں۔

بس ایسی ہی کچھ بات رہی ہوگی، جس کے باعث ایک دن ہمارے بڑوں نے ہمیں راضی کر لیا کہ اب ’مٹھو میاں‘ کو اڑا دیا جانا چاہیے۔۔۔ کیوں کہ پرندے آزاد فضا میں ہی اچھے لگتے ہیں، یہ بھی اپنے گھر والوں میں جا کر بہت خوش ہوں گے۔۔۔!

سو، ہم نے دل پر بہت جبر کر کے ایک چُھٹی والے روز اس کا باقاعدہ اہتمام کیا۔۔۔ گھر کی انگنائی کے درمیان ان کا پنجرہ رکھ کر اس کا دروازہ کھول دیا گیا۔۔۔ اور ہم خود انگنائی سے متصل کمرے میں جا کر لگے انتظار کرنے۔۔۔ دل میں عجیب سا احساس تھا کہ جسے ہم خوشی تو نہیں کہہ سکتے، البتہ ہلکا سا درد ضرور کہا جا سکتا ہے، کہ کئی برس کے ساتھی کو ہمیشہ کے لیے خود سے جدا جو کر رہے تھے۔۔۔ ہم سب اندر بیٹھے دیکھ رہے تھے، لیکن جناب بہت دیر گزر گئی، لیکن مٹھو میاں نے کھلے ہوئے پنجرے کی طرف کسی قسم کی دل چسپی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا؎

اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے

اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے!

بہت دیر انتظار کے بعد بالآخر پنجرہ بند کر کے دوبارہ اپنی جگہ پر ٹانگ دیا گیا اور اس روز ہم پر یہ اچھی طرح آشکار ہوگیا کہ وجہ جو بھی ہو اب ’مٹھو میاں‘ ہمارے ساتھ ہی رہنے میں مطمئن ہیں۔۔۔ تبھی ہمیں یاد آیا کہ شروع میں ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا تھا کہ ایک دوپہر کو صفائی کرتے ہوئے ہماری امی سے پنجرے کا دروازہ کھل گیا، تو مٹھو میاں پُھدک کر باہر نکل آئے تھے، لیکن آنگنائی سے باہر جانے کے بہ جائے یہ سیدھے ہمارے گھر کے اندر کی طرف اڑے تھے، ورنہ پرانا گھر تو اتنا کھلا ہوا تھا کہ وہاں سے انھیں اڑ جانے میں کوئی رکاوٹ ہی نہ تھی، کیا خبر یہ اَمر انھوں نے جان بوجھ کر کیا ہو، تاکہ انھیں پکڑ کر دوبارہ پنجرے میں ڈال دیا جائے، اور پھر بہ آسانی ایسا ہی کر دیا گیا تھا۔

ہمارے ’مٹھو میاں‘ کو ایک عادت کاٹنے کی بھی پڑ گئی تھی، اور یہ ’کاٹنا‘ کیا تھا، بس پنجرے کے پاس ہاتھ لائیے، تو وہ برا مان کر چونچ کھول کر لپکتے اور جیسے ایک ٹھونگ سی مارنے کو ہوتے ہوں، تاہم کچھ عرصے بعد یہ بھی آشکار ہوگیا کہ کم از کم ہمارے لیے ان کا یہ ’کاٹنا‘ صرف دکھاوا تھا، کیوں کہ ہم پنجرے میں ہاتھ ڈال کر بھی ان کی کسی بھی گزند سے ہمیشہ محفوظ رہے۔ ہمارے لیے بس یہ تھا کہ وہ ہمارے ہاتھ پر خفیف سی چونچ کھولتے اور بس۔۔۔ یہ شاید ان کی انسیت کا کوئی اظہار ہو، کیوں کہ ہمارا پورا بچپن انھی کے سامنے گزرا تھا۔۔۔ البتہ نہ کاٹنے کی یہ ’رعایت‘ گھر کے کسی اور فرد کے لیے بالکل بھی نہیں تھی۔

جب ہم اسکول کی ذرا بڑی کلاسوں میں آئے، تو اپنے ایک ہم جماعت کے کہنے پر ان کے پَر کٹوانے کے لیے انھیں ان کے گھر لے گئے۔۔۔ ان صاحب نے ہمیں بڑا یقین دلایا تھا کہ انھوں نے اپنے ہاں بھی توتے کے پِر کاٹے ہوئے ہیں، اور وہ آرام سے پنجرے سے باہر گھر میں گھومتا گھامتا رہتا ہے۔ تو ہم بھی اسی شوق میں آگئے، لیکن مٹھو میاں کو پنجرے سے نکال کر اور سختی سے پکڑ کر ان کے پر کاٹنا بہت ہی زیادہ ناگوار گزرا تھا۔۔۔ کیوں کہ ہم نے اتنے عرصے میں آج تک ایسا نہیں کیا تھا۔

بہرحال پَر کٹوانے کے بعد کچھ دن تو ہم یہ کرتے کہ انھیں کچھ دیر کو پکڑ کر پنجرے سے باہر نکال لیتے تھے، شاید ایک بار اور اسی طرح پر کٹوائے، لیکن پھر مٹھو میاں کو ناخوش دیکھ کر یہ امر مناسب خیال نہیں کیا، کیوں کہ انھیں چھوا جانا اور پھر سختی سے دبوچنا بہت زیادہ برا لگتا تھا۔۔۔ ہمیں بس اتنا حق حاصل تھا کہ ان کی چونچ پر ہاتھ لگا لیا یا کھی سر کے اوپر۔ اس کے علاوہ بازوؤں کو چھونے سے بھی وہ برہم ہو جاتے۔۔۔ وقت گزرتا گیا۔۔۔ ہم بھی اسکول سے بڑھ کر اب کالج میں آچکے تھے۔۔۔ بس پھر ہمارے ’مٹھو میاں‘ بھی دھیرے دھیرے کمزور ہوتے چلے گئے اور پھر یہ ہوا کہ ایک دن صبح کو وہ اپنے پنجرے میں مردہ پائے گئے۔۔۔!

یوں ہمارے بچپن کا ایک اہم باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔۔۔ دل میں درد کی ایک گہری لہر اٹھ کر رہ گئی، کہنے کو انگنائی کے ایک کونے میں رکھا ہوا پنجرہ ہی خالی ہوا، لیکن اصل میں ہمارے گھر کا آنگن ہی سُونا ہوگیا، ان کی چہچہاٹ کے بغیر اترنے والی شاموں میں ایک غیر محسوس سا ’سناٹا‘ ٹھیر گیا۔۔۔ آج جب بھی ہم کسی کنٹھی والے سبز توتے کو دیکھتے ہیں، ہمیں فوراً اپنے ’مٹھو میاں‘ کی یاد آ جاتی ہے، واقعی وہ ہمارے بچپنے کے ایک ایسے خاموش ساتھی تھے، جو گئے تو اپنے ساتھ گویا سارا بچپن اور بے فکری بھی لے گئے۔

۔۔۔

دس کا بھیس
خالد محمود ناصر
’’اے بھائی، کتنے عرصے سے میں تم ہی سے سبزی خرید رہی ہوں؟‘‘
’’کیوں باجی، کیا ہوا؟‘‘

’’یہ تم دس روپے کی ہری مرچیں دے رہے ہو یا احسان کررہے ہو؟ تین سوکھی سڑی مرچیں ڈال کر حساب پورا کر دیا۔ کہاں دس روپے میں تو کلو آلو آجاتے تھے۔ اب تم لوگوں کی جان جاتی ہے کہ چلو پرانی گاہک سمجھ کر دس روپے کی سبزی بطور ِ اخلاق ہی دے دو۔‘‘
’’باجی کیا کریں… اب تو دس روپے کی گھر میں بھی نہیں پڑتی۔ آپ دس روپے بعد میں آتے جاتے ہوئے دے دینا۔‘‘

’’واہ کیا لحاظ ہے بھئی! تم یہ ساری سبزی واپس رکھ لو، مجھے نہیں چاہیے۔‘‘
’’باجی ناراض نہ ہوں۔ یہ لیں دس روپے کی مرچیں میری طرف سے۔ کیا کریں، مہنگائی بہت ہوگئی ہے۔ دس کی بھی بس ہوگئی ہے۔‘‘

……………

’’امی اسکول سے دیر ہورہی ہے۔ جلدی کریں۔ ابو نے باہر رکشا اسٹارٹ کر لیا ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں بھئی۔ یہ لو بیگ… اور یہ پکڑو دس روپے۔ کینٹین سے کچھ لے کر کھالینا۔ آج لنچ میں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘‘

’’امی میں بڑی ہوگئی ہوں۔ اب تو یہ نوٹ بھی بڑا کر دیں۔ دس روپے میں دو تین بسکٹ ہی ملتے ہیں مشکل سے… سارے وقت بھوک لگتی رہتی ہے…‘‘

’’میری جان، آج کل تمہارے ابو کو رکشے کی سواریاں زیادہ نہیں مل رہی ہیں، مہنگائی ہوگئی ہے۔ اچھا بسم اللہ پڑھ کر بسکٹ کھانا۔ پیٹ بھرجائے گا…‘‘

……………

’’یار تیز چلتے چلتے سانس تو پھول گیا، مگر شکر ہے مسجد میں جماعت سے نماز مل گئی۔‘‘
’’ہاں۔ الحمدللہ۔‘‘

’’میں نے تو جلدی میں جوتے چندے کے ڈبے کے پاس ہی رکھ دیے تھے، اب مل جائیں… ہاں یہ رہے…‘‘

’’اچھا سنو، دس روپے کھلے ہیں؟‘‘
’’کیوں؟‘‘

’’یار اس چندے کے ڈبے میں ڈالنے ہیں۔‘‘
’’شرم کرو! ابھی چار سو روپے بریانی اور کولڈ ڈرنک میں خرچ کیے ہیں۔ مسجد کے لیے صرف دس روپے؟ کیا کریں گے مسجد والے اس دس روپے سے تمھارے؟‘‘

’’او بھائی، اللہ کے ہاں نیت کا اجر ہے، نوٹ کا نہیں۔ دس روپے دیتے ہو یا پھر چلیں؟ نیت کا ثواب تو مل ہی گیا ہے!‘‘
……………

’’ہاں لڑکا، دو چائے کا کتنا ہوا؟‘‘
’’چالیس روپے کا ایک اور دو کا اسّی‘‘
’’ابے کیا ہوگیا، دس روپے کی چائے کو چالیس کا بتا رہا ہے؟‘‘
’’صاب، دس روپے کا چائے آپ کا چڈی پہننے کی عمر میں ہوگا! اب تودس روپے کا نسوار بھی منہ میں رکھنے کو نہیں ملتا۔ ابھی کل ہی موچی لالہ سے نسوار خریدنے کو گیا، دس روپے دیا تو لیڈیز سینڈل اٹھا کر، اس کا گندا والا سائیڈ دکھا کر بولتا ہے کہ دس روپے میں یہ کھائے گا؟‘‘
……………
’’ٹک، ٹک، ٹک…، بھوک لگی ہے صاحب، کچھ کھانے کو دلادو!‘‘
’’کیا مصیبت ہے یار۔ گاڑی میں بیٹھ کر تو کچھ کھا پی ہی نہیں سکتے۔ جب دیکھو کوئی مانگنے والا شیشہ بجا کر ہاتھ پھیلائے، منہ ٹیڑھا کیے کھڑا ہے۔ یہ پانچ کا سکّہ پڑا ہوا ہے۔ دو اور بھگائو!‘‘
’’یہ لو اور اب نہ خود آنا نہ اور کسی کو مانگنے بھیجنا۔‘‘
’’ٹک، ٹک، ٹک…‘‘
’’بڑا ڈھیٹ ہے بھئی… اب کیا چاہیے تجھے؟‘‘
’’صاحب آپ کی مہربانی ہوگی، پانچ روپے اور دے دو۔‘‘
’’سالا پٹے گا! بھاگ یہاں سے!‘‘
’’صاحب اللہ آپ کو بہت دے گا۔ پانچ روپے اور دے دو، دس روپے ہو جائیں گے میرے پاس۔ وہ سامنے فٹ پاتھ پر چھوٹی بہن بیٹھی ہے۔ دس روپے اس کے پاس ہیں۔ بیس روپے میں ایک روٹی آجائے گی۔ ہم دونوں آدھی آدھی کھالیں گے۔ صاحب اللہ آپ کو بہت دے گا…‘‘

۔۔۔

ایک اور انکار
محمد عثمان جامعی
ڈھلتی شام۔
جاتی آوازوں کے پیچھے بند ہوتا دروازہ۔
میز پر دھری پیالیوں کے پیندوں سے لگی ٹھنڈی چائے۔
پلیٹوں میں بسکٹوں اور چپس کا چُورا۔
ادھ کھائے سموسے۔
بیسن کے اوپر لگے آئینے میں۔۔۔
پینتیسویں سال کا کشش سے محروم بُجھا چہرہ۔
میک اپ دھوتے پانی میں بہتے آنسو۔

۔۔۔

مذہب
کرن صدیقی، کراچی
نہ جانے اس کا اصل نام کیا تھا، لیکن سب اسے لالو کہتے تھے۔ وہ کون تھا کہاں سے آیا تھا کوئی نہیں جانتا تھا۔ بس اتنا علم تھا کہ وہ کوڑا چُنتا ہے اور انھی گلیوں میں کسی کونے کُھدرے میں کہیں پڑا رہتا ہے۔
’’اے لالو! آج مسجد میں بڑے پِیر صاب کے نام کا لنگر ہے چلے گا؟‘‘
سمیع نے آواز لگا ۔
’’ہاں چلوں گا!‘‘
رات کو دونوں نے خوب مزے لے کے لنگر کی بِریانی کھا ۔
کچھ دن گزرے کرسمس آیا، بڑی سڑک کے پاس بڑا سا گرجا گھر تھا۔ لالو بھی ایک دوست کے ساتھ کرسمس پارٹی میں گھس گیا، نہ صرف پیٹ بھر کے کھایا، بلکہ سب کی نظر بچا کر اپنے پرانے سے میلے کوٹ کی جیبوں میں بھی کھانے پینے کی چیزیں بھر لیں۔
لالو جہاں رہتا تھا وہاں سے کچھ دور ہندوئوں کی آبادی تھی۔ ایک دن وہاں بڑے سادھو جی آئے ۔ مندر میں بھنڈارا تھا۔ لالو بھی خاموشی سے بھجن میں بیٹھا تھا پھر بعد میں اُس نے بھی چنے کے چاول خوب پیٹ بھر کھا ۔ کرشن نے پوچھ لیا۔
’’اے لالو! تو مسجد چرچ ہر جگہ کی نذر نیاز میں جاتا ہے۔ اب تو یہاں مندر کا پرساد بھی کھا رہا ہے۔ تیرا مذہب کیا ہے؟‘‘
’’میرا مذہب۔۔۔ میرا مذہب تو بھوک ہے!‘‘

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

ہیتھرو ایئرپورٹ اپنی وسعت میں ایک الگ دنیا ہے

$
0
0

دوسری قسط

یہ ایئر پورٹ ہمارے ہاں کے ہوائی اڈوں کی بہ نسبت خاصا جدید اور وسیع تھا۔ اگر آپ کو وہاں پر کوئی مسئلہ درپیش ہو تو آپ ڈیوٹی پر موجود افسران اور سکیورٹی گارڈز سے مدد لے سکتے ہیں جو آپ کی بات نہایت خندہ پیشانی سے سنتے ہیں اور متعلقہ گیٹ تک پہنچنے میں مدد بھی کرتے ہیں۔

بیگانے دیس کے انجانے قوانین، زبان و ثقافت سے عدم واقفیت اور مقامی کرنسی کی غیر موجودگی سمیت کئی دیگر مشکلات کے ہوتے اگر خدانخواستہ آپ کی فلائٹ مِس ہو جائے تو آپ کہیں کے نہیں رہتے۔ سو میں بھی ڈیجیٹل سلائیڈز کی مدد سے اپنی فلائٹ کا وقت دیکھتے متعلقہ گیٹ پر پہنچا تو سُکھ کا سانس آیا۔ فلائٹ میں ابھی بھی پانچ گھنٹے باقی تھے۔

اس فلور پر دیگر فلائٹس پر جانے والے مسافروں میں زیادہ تر پاکستانی، ہندوستانی اور بنگلہ دیشی تھے۔ ہوائی اڈے پر ملازمین کی اکثریت عرب تھی اور اُن کے بعد زیادہ تر کاؤنٹرز پر ہندوستانی دکھائی دیئے۔

وہاں ایک اور حیران کن بات سامنے آئی کہ ہوائی اڈے پر موجود عرب افسران کی ایک بڑی تعداد کو عربی ، انگریزی کے ساتھ ساتھ ہندی اور اُردو بھی آتی تھی۔

ایک پینٹ کوٹ پہنے افسر کے ساتھ میں نے انگریزی میں بات کی تو اس نے پوچھا کہ کس ملک سے ہو، میں نے پاکستان کا بتایا تو اُس نے ہنس کر عربی لہجے میں کہا ’’تو بھائی اُردو بولو، کوئی مسئلہ تو نہیں۔‘‘

پھرمیں نے اُسی افسر سے وہاں فری (مفت) وائی فائی کی سہولت کے متعلق پوچھا تو اُس نے مجھے ہیلپ ڈیسک پر بھیج دیا جہاں موجود اہلکار نے میرے موبائل کو فری انٹرنیٹ کے ساتھ منسلک کر دیا لیکن یہ مفت سہولت 45منٹ تک کی تھی، اس کے بعد آپ کو کارڈ خرید کر انٹرنیٹ کی سہولت لینی ہوتی ہے۔

بحرین کی کرنسی ’’بحرینی دینار‘‘ کہلاتی ہے اورایک بحرینی دینارکی قدر تقریباً 2.65 امریکی ڈالر بنتی ہے۔

اس فلور پر بڑے بڑے سٹورز تھے جن پر سفری بیگ، مٹھائیاں، پرفیومز، چاکلیٹ اور خوبصورت گھڑیوں سمیت دنیا بھر کی اشیاء موجود تھیں لیکن وہ سب اشیاء مہنگے داموں فروخت ہو رہی تھیں۔ اگر کہیں کسی چیز پر رعایت تھی تو وہ بڑے بڑے سٹورز تھے۔

اس فلور پر دفاتر، سٹورز کے علاوہ کچھ کمرے آرام کرنے کے لیے بھی تھے۔ اسی فلور کی دوسری منزل پر کچھ کمرے سگریٹ نوشی کے لیے مختص تھے۔ میں ایسے ایک کمرے میں داخل ہوا تو کاؤنٹر پر انتہائی خوش دِلی سے میرا سواگت کیا گیا۔

چونکہ میں بدقسمتی سے اس’’نعمت‘‘ سے محروم ہوں اور محض تماشائی کی حیثیت سے گیا تھا سو تماشا ہی کیا، یہ بات ضرور پلے پڑی کہ صرف شرابی ہی نہیں بلکہ تمباکو پینے والے بھی ایک دوسرے کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دوسری بات جو محسوس کی، وہ یہ تھی کہ اس کمرے میں سگریٹ نوش خواتین کو ہوس ناک نگاہوں سے کوئی نہیں دیکھ ر ہا تھا اور نہ ہی کوئی چوری چوری گھور رہا تھا۔

دیگر تمام سہولتوں کے علاوہ مجھے اس ایئر پورٹ کے واش روم دیکھنے کا موقع بھی ملا مگر وہ لاہور ایئرپورٹ سے کچھ زیادہ بہتر حالت میں ہرگز نہ تھے تاہم گلف ایئر لائنز کے واش رومز میں موجود ٹشو پیپرز کے استعمال کے حوالے سے قابل ذکر یہ امر ہے کہ جو احباب پہلی بار یورپ، امریکا، کینیڈا جائیں وہ پانی اور ٹشو کے استعمال کے عمل کو اچھی طرح سمجھ کر جائیں۔

محرق بحرین کا تیسرا بڑا شہر ہے جو1932ء تک بحرین کا دارالحکومت بھی رہ چکا ہے۔ بعد ازاں منامہ اس خلیجی ریاست کا دارالحکومت قرار پایا۔ اس خلیجی شہر کی تاریخ لگ بھگ پانچ ہزار سال پُرانی ہے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق یونانیوں کے دورِ عروج میں یہاں پر پیگنز (Pagons) کا قبضہ رہا۔ عیسائی تمام غیر مذاہب کے لوگوں کو پیگن کا نام دیتے تھے۔

یہ لوگ کئی دیوی دیوتاؤں کی پرستش کرتے تھا۔ زمانہ قدیم سے یہاں کے باسیوں کی معاش سمندری تجارت پر منحصر تھی اور سمندر کو بہت مقدس خیال کرتے تھے۔

18 ویںصدی کے اوائل میں عیسائیت نے بھی یہاں پیر جمانے شروع کر دیئے۔ عیسائی فرقہ نیسٹورین(Nestorian) کا بحرین سمیت خلیج کے کئی جنوبی ساحلوں پر راج تھا۔

اگرچہ بازنطینی سلطنت کے زیر انتظام علاقوں میں اس فرقے کے لوگوں پر ظلم و ستم روا رکھا گیا اور اس کے بعد برٹش امپائر نے بھی فرقہ ورانہ اختلاف کی بناء پر انہیں بہت دبانے کی کوشش کی تاہم بحرین برطانوی سامراج کی عملداری سے باہر ہونے کے سبب یہاں پر نسٹورین فرقے کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوا اور یہاں یہ فرقہ خوب پھلا پُھولا۔ آج بھی محرّق کے بہت سے دیہات عیسائیوں کی مذہبی اصطلاحات سے موسوم ہیں۔ جیسے ’دائر‘ (Al-Dair)نامی گاؤں ہے جس کا مطلب ہے ’خانقاہ‘۔ یہ گاؤں عیسائی ورثے کی یادگار ہے۔

1810ء سے 1932ء تک محرق بحرین کا دارالحکومت رہا، اُس زمانے میں یہاں Pearling اکانومی اپنے عروج پر تھی۔ یہاں بتاتے چلیں کہ سمندر میں غوطہ لگا کر سُچے موتی نکالنے کے عمل کو Pearlingکہا جاتا ہے، جسے اُردو میں ’غواصی‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

صدیوں تک محرق کو بحیرہ عرب کے Pearling Capital کی حیثیت حاصل رہی۔ اُس دور میں یہ خلیج کا خوش حال ترین شہر تھا۔ خطے میں سب سے زیادہ غواص یعنی غوطہ خور اسی بندرگاہ پر مقیم تھے اور یہی اُن کا ذریعہ معاش تھا۔ان غوطہ خوروں کے پاس موتی نکالنے کے لیے جہاز بھی موجود تھے ۔

محرق کی ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کی آباد کاری خلیج کی باقی بستیوں کے مقابلے میں خاصی مختلف ہے۔

Pearling کے لیے جو پُرانے دور کا آخری عرشہ (Deck) ڈیک ہے وہ تمام کا تمام مرجان (Corel Stone)سے تعمیر کردہ ہے۔ اس کے مقابلے میں دُبئی ایک چھوٹا سا پرلنگ سنٹر تھا جہاں کی پسماندہ بستیوں کے مکانات کھجور کے تنے اور پتوں سے بنائے جاتے تھے.

رفتہ رفتہ موتی تلاشنے یعنی Pearling کی معیشت کو زوال آتا گیا۔ اسی دور میں بحرین میں تیل و گیس کے ذخائر دریافت ہوئے جس کی وجہ سے ساحل کے دوسری جانب واقع شہر منامہ اہمیت اختیار کرتا چلا گیا۔ جزیرہ بحرین کی ترقی اور پھیلاؤ کے اس دور میں محرق کی بطور معاشی مرکز اہمیت کم ہوتی چلی گئی اور بالآخر بحرین کا دارالحکومت محرق سے منامہ منتقل ہو گیا۔تاہم آج بھی محرق ایک اہم سیاحتی مرکز ہے۔

اس قدیم شہر سے متصل انسان ساختہ (Man Made) امواج آئی لینڈز کی وجہ شہرت یہاں کی بلڈنگز، ہوٹلز اور دل موہ لینے والے شفاف ساحلی مقامات (Beaches) ہیں۔محرق فٹ بال کلب ،بحرین کا مقبول و کامیاب ترین فٹ بال کلب قرار دیا جاتا ہے۔ اس شہر کی روایتی مارکیٹ ’سوق‘ (Souk) کی بھی خاصی شہرت ہے۔

یہاں پر بھارتی میوزک بہت مقبول ہے اور فنونِ لطیفہ کی بڑی قدر دانی ہے۔ محرق کا پرلنگ ایریا(Pearling Area) اپنی تنگ گلیوں، ایلی ویز اور طرز تعمیر کے باعث سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے۔

محرق سے لندن

میری اگلی فلائٹ برٹش ایئر ویز سے تھی۔ میں اپنے گیٹ سے سیکیورٹی چیک کروا کے گراؤنڈ فلور پر چلا آیا جہاں جہاز نے آنا تھا۔ اس ویٹنگ روم میں صرف اور صرف وہ مسافر تھے جو لندن (ہیتھرو) جا رہے تھے۔ جہاز آنے میں کوئی آدھا گھنٹہ تھا۔ انتظار گاہ میں چند پاکستانیوں کے علاوہ اکثریت یورپی مسافروں کی تھی۔

اُن گوروں میں دو تین اُونچے لمبے کھلاڑی اپنے کھیل کے سامان کے بیگ لیے ادھر اُدھر گھوم پھر رہے تھے۔بظاہر وہ اپنے قد بُت سے ویسٹ انڈین یا افریقی دکھائی دے رہے تھے۔ اُن کی صحت اور جسمانی خد وخال قابلِ رشک تھے۔ اُن کے ہمراہ ایک گوری انگریز خاتون ایتھلیٹ بھی تھی۔ وہ سب کسی ایک ہی ٹیم کے رُکن معلوم ہوتے تھے۔ اُن کے قہقہوں نے تمام ماحول کو خوشگوار بنا رکھا تھا۔

اُسی ہال میں ایک اکڑفوں پاکستانی پینٹ کوٹ میں ملبوس اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا جس کی فون پر ہونے والی گفتگو سے عیاں تھاکہ وہ کراچی بات کر رہا ہے اور بات بات پر اپنی اہلیہ سے بگڑ رہا ہے۔ اُس کے ماتھے کی تیوریاں اور زندگی سے بیزار شکل اس مہکی ہوئی فضا میں دھوئیں جیسی لگ رہی تھی۔ یہاں تک کہ رومانوی انداز میں نشست کیے ہوئے بزرگ انگریز جوڑے بھی اُسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔

موصوف کو دیکھ کر مجھے اپنے ساتویں جماعت کے ایک اسکول ماسٹر یاد آگئے جو ہمیشہ صبح گھر سے شاید لڑ کر ہی آتے تھے۔ میں نے اپنے اسکول کے پانچ برسوں میں انہیں کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ تشریف لاتے تو لڑکے آیت الکرسی کا وِرد شروع کردیتے مگر پٹائی پھر بھی بہت سوں کا مقدر ہوتی کہ ماسٹر نے تو اپنا سارا غصہ نکال کر ہی دم لینا ہوتا تھا۔

اِن کراچی والے صاحب کی بیزاری دیکھ کر میں نے دل ہی دل میں رب تعالیٰ سے دعا کی کہ اس کی سیٹ ہرگز میرے ساتھ نہ ہو۔ میری دُعا قبول ہوئی۔ وہ صاحب میرے قریب کی سیٹوں میں بھی کہیں نہ تھے۔

جہاز رن وے پر آیا تو تمام مسافر پیدل چل کر جہازکے ساتھ لگی سیڑھی تک گئے۔ میں بھی بحرین کے ایئر پورٹ کی کُھلی فضا میں دھیمے قدموں سے چلتا جہاز کی جانب بڑھا۔ میں اس فضا میں جی بھر کر سانس لینا چاہتا تھا ۔ اس لمحے میںاللہ کریم کا شُکر بھی ادا کر رہا تھا جس نے مجھے اس سرزمین کی سیر کا موقع دیا۔ میرے ساتھی مسافر تیزی سے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔

برٹش ایئرویز کا عملہ دلجمعی کے ساتھ بزرگ اور معذور مسافروں کی مدد کر رہا تھا۔ جہاز میں استقبال کے لیے فقط مرد میزبان ہی دکھائی دیئے تاہم بعد میں ساڑھے سات گھنٹے کی اُس فلائٹ کے دوران ایک مرتبہ خاتون میزبان اُس وقت دکھائی دیں جب ایک بزرگ مسافر کی طبیعت خراب ہوئی۔

جہاز میں اپنی سیٹ تک جاتے ہوئے مجھے انگریز مسافروں کی خوداعتمادی کامشاہدہ کرنے کا موقع ملا جو دیگر مسافروں سے قدرے بہتر تھی۔ ابھی نشست کیے کچھ منٹ ہوئے تھے اور جہاز بھی حرکت میں نہ آیا تھا کہ برٹش ایئرویز کے فضائی میزبان نے انگریز مسافروں کو ایک ایک گلاس وائٹ وائن خوش آمدید کہنے کے لیے پیش کی۔

اُن کی اس عنایت کو ہمارے دیسی مسافروں نے رال ٹپکاتے ہوئے دیکھا۔ اسی دوران مجھے اپنا ہینڈ کیری اٹیچی کیس دیکھنے کو کچھ آگے جانا پڑا تو اسی بہانے میں نے برٹش ایئرویز کی بزنس کلاس بھی دیکھ لی۔

ویسے تو گلف ایئر لائنز کی بزنس کلاس بھی کافی کھلی اور سہولیات سے پُر تھی مگر یہاں تو یُوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اپنا بیڈ روم ہو۔

اُوپر رات کی دبیز سیاہ چادر اور اس پر ٹمٹماتے ستاروں کے جھرمٹ خواب ناک منظر پیش کر رہے تھے اور نیچے زمین پر آئل ریفائنری کی سلسلہ وار روشنیاں بھی ستاروں کی طرح ٹمٹما رہی تھیں۔

کھڑکی سے نظر ہٹی تو دھیان اپنی ساتھ والی نشست پر ساتھی مسافر مارٹینا کی جانب چلا گیا جو اُس وقت تک فضائی میزبان سے ریڈ وائن طلب کر چکی تھیں۔ چند ہی منٹ کے بعد ہمیں کھانے کی پیشکش کر دی گئی۔ مجھے اپنے دوستوں اور بھائیوں سے مِلی ہدایات کا بھرپور احساس تھا سو کھانے کے آرڈرز نوٹ کرنے والے کو کہا کہ میں سبزی خور ہوں۔

جہاز کو ہوا میں بلند ہوئے ابھی تیس سے چالیس منٹ ہوئے ہوں گے کہ مجھے جھگڑنے کی آواز سنائی دی۔ مجھ سے چند سیٹیں آگے بیٹھے کچھ پاکستانی بھائی ایئر ہوسٹس سے شراب کی فرمائش کر رہے تھے۔

اُن کا کہنا تھاکہ انہیںکھانے سے کہیں زیادہ پینے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ یہ فلائٹ تقریباً آٹھ گھنٹے کی تھی۔

ہمیں صبح چھ بجے انگلستان میں لینڈ کرنا تھا سو ہوائی جہاز کی انتظامیہ کی جانب سے ناشتہ بھی پیش کیا گیا۔ میرے پاکستانی بھائی آخری وقت تک ڈٹے رہے اور ناشتے میں بھی گرما گرم چائے کی بجائے ’مشروب خاص‘ کا ہی تقاضا کرتے رہے۔

صبح چھ بجے جب جہاز اُترنے کی تیاری میں تھا، میری کھڑکی میں لندن اپنی تمام تر خوبصورتیوں کے ساتھ جلوہ گر تھا۔ جہاز رُوئی کے گالوں سے سفید بادلوں میں سے ہوتا ہوا آہستہ آہستہ زمین سے نزدیک تر ہوتا چلا جا رہا تھا اور شہر کے دُھندلے مناظرکسی شوخ کے بند قبا کی طرح کُھلتے چلے جا رہے تھے۔

خوش قسمتی سے اُس روز سورج اپنی پُوری آب و تاب سے چمک رہا تھا اور اُس کی سنہری کرنیں دھرتی کے سینے پر بچھتی چلی جاتی تھیں۔ شہر کیا تھا، سبزے کا قطعہ دکھائی دیتا تھا۔ ہر جانب ہریالی ہی ہریالی، کُھلّے میدان، اُن کے ساتھ سڑکیں اوراُن پر گزرتی رنگا رنگ گاڑیاں چھوٹی چھوٹی ڈبیوںکی مانند دکھائی دے رہی تھیں۔ میں نے جب کبھی بھی لاہور سے کراچی کا سفر کیا، لاہور پھر بھی کہیں کہیں سے سرسبز نظر آیا مگر کراچی تو بالکل ویران اوربنجر لگا۔

ہیتھرو لندن

ہیتھرو(Heathrow) ایئرپورٹ کا احوال لکھنے سے قبل ایک نظر ہیتھرو ایئرپورٹ کے تاریخی پس منظر اور موجودہ صورت حال پر ڈالنا بے محل نہیں ہوگا۔

ہیتھرو انٹرنیشنل ایئر پورٹ جسے لندن ہیتھرو بھی کہا جاتا ہے،مسافروں کی بین الاقوامی آمد و رفت کے اعتبار سے دُنیا کا دُوسرا بڑا اور یورپ کا مسروف ترین ایئرپورٹ ہے۔ یہ لندن ریجن کے چھ انٹرنیشنل ایئرپورٹس میں سے ایک ہے اور سنٹرل لندن سے تقریباً 23 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ہیتھرو ایئرپورٹ پر سالانہ 9 کروڑ سے زائد مسافروں کی آمدورفت ہوتی ہے۔

ایئرپورٹ کا کُل رقبہ 12.27 مربع کلومیٹر ہے۔یہاں 225 پسنجر ٹرمینلز ہیں اور ایک کارگو ٹرمینل بھی ہے۔ اس ایئرپورٹ سے سب سے زیادہ پروازیں نیویارک کے لیے روانہ ہوتی ہیں۔ مشہور فضائی کمپنی برٹش ایئرویز کا ہیڈ کوارٹر بھی اسی ایئرپورٹ پر واقع ہے۔

اس کے علاوہ ورجن اٹلانٹک (Virgin Atlantic) نامی فضائی کمپنی بھی یہیں سے آپریٹ کرتی ہے۔

1929ء میں ہیتھرو نامی گاؤں کے مضافات میں ایک چھوٹی سی ایئر فیلڈ بنائی گئی تھی۔یہ گاؤں اپنی منڈی اور باغات کے لیے مشہور تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 1944ء میںملٹری آپریشنز کے لیے اس ایئرفیلڈ کو ایک ایئرپورٹ میں بدل دیا گیا۔

جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اسے develop کر کے 25 مارچ 1946ء کو عام سفری پروازوں کے لیے کھول دیا گیا۔ ابتداء میں اسے لندن ایئرپورٹ کہا جاتا تھا تاہم 1966ء میں اس کا نام بدل کر ہیتھرو ایئرپورٹ رکھا گیا۔ اس کا اوریجنل ڈیزائن بشمول اوریجنل ٹرمینلز، سنٹرل ایریا کی عمارتیں وغیرہ سر فریڈرک گیبرڈ (Sir Fredrick Gibberd) نے تخلیق کی ہیں۔

ہیتھرو ایئرپورٹ کو دُنیا بھر کی 80 ایئر لائنز استعمال کرتی ہیں یہاں سے تقریباً 84 ممالک کے 185 ایئرپورٹس کے لیے پروازیں روانہ ہوتی ہیں۔

انتہائی حساس ایریا تصور ہونے کے باعث ہیتھرو ایئرپورٹ پر سیکیورٹی انتہائی سخت ہے۔ مسافروں کی چیکنگ کے لیے فل باڈی سکینرزکے استعمال کی ٹیکنالوجی 2011ء میں متعارف کرائی گئی تھی۔

ایئرپورٹ پر کثیرالمذاہب عبادت گاہ (Multi-Faith Prayer Room) ہے جس میں اینگلی کن، ہندو، یہودی، مسلمان، سکھ اپنی اپنی عبادت کر سکتے ہیں۔ ہر ٹرمینل پر ایک کونسلنگ روم بھی موجود ہے۔

جہاز ہیتھرو ایئرپورٹ پر لینڈ کیا تو ہوائی اڈے کی بے پناہ وسعت نے حیران کر دیا۔ جن مسافروں کا لندن آنا جانا معمول کی بات تھی، وہ تو بِنا اِدھر اُدھر دیکھے اپنے اپنے ٹرمینل کی جانب چل دیئے جبکہ میرے جیسے لمبی چوڑی سکرینوں کے سامنے جمع ہو کر اپنی فلائٹ، ٹرمینل اور گیٹ نمبر کی تلاش میں مصروف ہوگئے۔

یہ تو پتہ چل گیا کہ مجھے ٹرمینل نمبر پانچ تک جانا ہے لیکن یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے جانا ہے۔ میں ایک ایسی عمارت میں تھا جو تھی بھی کئی منزلہ۔ میں جو پہلی بار اپنے دیس سے نکلا تھا اور وہ بھی اکیلا۔اُوپر سے لندن کا یہ میلوںپر محیط لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ایئرپورٹ جہاں ہر پانچ منٹ کے بعد دائیں اور بائیں دونوں جانب ٹرینیں آجا رہی تھیں،میرے حواس گم ہو چکے تھے۔ جب چند ہندوستانی پنجابی نظر آئے تو جان میں جان آئی۔پنجابی بولی کی سانجھ نے اپنا کام دکھایا اور اُن سے گپ شپ ہونے لگی ۔

وہ بھی ٹرانزٹ فلائٹ کے انتظار میں تھے اور میری اگلی فلائٹ میں ابھی دس گھنٹے باقی تھے چنانچہ کسی کو کوئی جلدی نہ تھی۔ سو باہمی مشاورت سے طے پایا کہ اب جو بھی ٹرین آئے گی اُس کی سواری کی جائے گی اور اُس کے آخری سٹیشن تک پہنچا جائے گا۔ یوں عمارت کے اندر ہی اندر سفر کرتی ٹرین سے بارہ منٹ میں ہم مین ٹرمینل تک پہنچے۔

اس کے بعد اُن لوگوں کو ٹرمینل نمبرچار پر جانا تھا اور مجھے پانچ پر۔ لگ بھگ چالیس منٹ بعد ہماری یہ مہم جوئی اور ملاقات اپنے انجام کو پہنچی اور ہم لوگوں نے ٹرمینل چار پر ایک دوسرے کو خیرباد کہا اور وہیں سے میں نے ایک سکیورٹی آفیسرسے اپنے مطلوبہ ٹرمینل کا راستہ دریافت کیا۔ اُس نے مجھے ایک گیٹ کاراستہ بتایا جہاں ہوائی اڈے کے اندر چلنے والی بسوں کا اڈا تھا اور وہیں سے ٹرمینل پانچ کی بس لی جاسکتی تھی۔

(جاری ہے)

The post ہیتھرو ایئرپورٹ اپنی وسعت میں ایک الگ دنیا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

برج حمل
سیارہ مریخ، 21 مارچ تا20اپریل
آپ کا سیارہ مریخ مسلسل کم زور(الٹا) رہنے کے بعد طاقت ور ہونے جارہا ہے ۔ کیریئر سے متعلق جاری خرابیوں کا اختتام ہونے جارہا ہے۔ سواری میں جو خرابی سمجھ میں نہیں آرہی تھی اب سمجھ میں آجائے گی، اگر کوئی الزام لگا تھا تو اس کے دباؤ سے نکلنے کا وقت آگیا ہے۔ پیر اور منگل دونوں ایام بہتر ہیں۔ نیا چاند پرانے دوست سے نیا تعاون پرانے مسائل کا حل نکال دے گا۔ آپ کی آمدن کا سیارہ اخراجات کے خانے میں منتقل ہورہا ہے۔ آپ کے ہاتھ سے کچھ لوگوں کا بھلا ہوتا نظر آتا ہے۔

برج ثور
سیارہ زہرہ، 21اپریل تا 20 مئی
مکان، سواری اور کیریئر سے متعلق جاری مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ آپ کا پیسہ جو بیرون ملک لگایا تھا اس بارے میں جو الجھنیں تھیں وہ سلجھ سکتی ہیں۔ بیرون ملک سفر کے راستے میں حائل جو کاغذی الجھنیں تھیں، دور ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کسی بزرگ کی صحت بھی ٹھیک ہوتی نظر آتی ہے لیکن دوستوں پر اندھا اعتماد بالکل نہ کریں، ورنہ دل ٹوٹ سکتا ہے۔

برج جوزا
سیارہ عطارد ، 21مئی تا 21 جون
گذشتہ دو ہفتوں میں اٹھائے گئے غلط اقدام کا اب احساس ہونے لگے گا یا ان کا خمیازہ بھی بھگتا پڑسکتا ہے یہ وقت ایسا ہے جو غلط فہمیوں کو دور کرسکتا ہے اور ممکن ہے کسی نے غلط بیانی کا سہارا لیا تھا تو اس کا بھی پردہ چاک ہوجائے گا لیکن ابھی آپ کو مسائل سے نکلنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ بیرون ملک سے منسلک افراد تازہ ہوا کا جھونکا آتا ہوا محسوس کریں گے جو اس سرد فضا کو بہار بناسکتا ہے۔

برج سرطان
سیارہ قمر ، 22جون تا 23 جولائی
شراکت داری میں جو الجھنیں سر اٹھا کے کانٹے کی طرح چبھ رہی تھیں ان کی نوک اب دور ہوتی نظر آتی ہیں۔ شریکِ حیات کو جو غلط فہمیاں دور لے گئی تھیں وہ دور ہوتی ہوئی اور دوریاں نزدیکیوں میں بدلتی نظر آتی ہیں۔ نیند جو خراب تھی اب کچھ پرسکون ہوجائے گی۔ وراثتی نیا فائدہ مل سکتا ہے کاروبار میں نئی راہ کھل سکتی ہے۔

برج اسد
سیارہ شمس، 24جولائی تا 23 اگست
یہ نیا چاند شادی، تعلق اور شراکت داری کے مقام پر طلوع ہورہا ہے۔ نیا تعلق، نیا کام یا کوئی اجنبی شخص آپ کو نئی راہ سجھاسکتا ہے۔ اس سے متعلق جلد ہی آپ کچھ نفسیاتی الجھاؤ کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اعتماد کی فضا متاثر ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ گذشتہ کئی ایام سے جاری لوگوں کے منفی رویے ہیں۔ بہرحال یہ ایک معاون وقت ہے آپ قدم آگے بڑھاسکتے ہیں۔

برج سنبلہ
سیارہ عطارد ، 24 اگست تا 23 ستمبر
آپ کا سیارہ سیدھا ہوچکا ہے رفتار پکڑ چکا ہے لیکن یہ جہاں جس مقام پر ہے اس کا میزبان کم زور ہے اور جس مقام پر ہے اسے اولاد اور محبوب کا مقام کہا جاتا ہے۔ محبوب اور اولاد سے متعلق الجھنیں اگرچہ کافی حد قابو آچکی ہیں لیکن اس ہفتے 26 کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ صحت اور غلط قدم جیسے معاملات ذہنی الجھن بن سکتے ہیں۔ آپ کے وقار کے مقام پر مریخ بہتر ہوچکا ہے۔ الجھنوں سے آپ انوکھے طریقے سے نکلنے کا راستہ بنالیں گے۔

برج میزان
سیارہ زہرہ ، 24 ستمبر تا 23اکتوبر
آپ کا سیارہ زہرہ اس ہفتے اپنے شرفی برج حوت میں داخل ہورہا ہے۔ ازدواجی امور میں ہم آہنگی اور خوشیاں آسکتی ہیں۔ آپ کا حلقۂ احباب بڑھ رہا ہے اور اس میں تیزی آرہی ہے۔ بیرون ملک سے رشتہ آسکتا ہے۔ ملک سے باہر جانے کے خواہش مند افراد اپنے معاملات میں مثبت پیش رفت ہوتی ہوئی دیکھ سکیں گے۔ اولاد کی خوشیاں مل سکتی ہیں۔ بزرگوں سے جو شکایت تھی وہ دور ہوجائے گی اور خدا سے دوری کا جو دور تھا وہ ختم ہوجائے گا۔

برج عقرب
سیارہ پلوٹو، 24 اکتوبر تا 22 نومبر
ہفتے کی ابتدا ہی نیا چاند آپ کے مکان میں طلوع ہورہا ہے، جہاں سورج کے ساتھ زحل بھی ہے بیرون ملک /شہر یا رہائش تبدیل کرنے کی ضرورت یا مجبوری ہوسکتی ہے۔اچانک ایسا قدم اٹھانے کا ارادہ کرسکتے ہیں جو دوسروں کو حیرت میں ڈال دے۔ اس معاملے میں جو بھی قدم اٹھائیں سوچ سمجھ کے اٹھائیں، ہوسکتا ہے کچھ قریبی افراد آپ کے ارادے اور قدم سے نالاں ہوجائیں۔

برج قوس
سیارہ مشتری ، 23 نومبرتا 22 دسمبر
طالع کا مالک مشتری پانچویں اور پانچویں کا مالک سیارہ ساتویں یعنی محبت کا سیارہ متحرک ہورہا ہے، لیکن ساتویں کا مالک تعاون کرنے کے خیال میں نہیں ہے۔ دوسری شادی کے خواہش مند افراد فیملی سے مخالفت کا سامنا کرسکتے ہیں یا اگر رشتہ طے تھا تو اس میں غلط فہمیوں کا طوفان اس رشتے کی بنیادیں ہلاسکتا ہے۔ 26 تاریخ کو کوئی غلط قدم اٹھ سکتا ہے محتاط رہیں۔ اس ہفتے قریبی سفر بھی ہوسکتا ہے۔

برج جدی
سیارہ زحل ، 23 دسمبر تا 20 جنوری
یہ ہفتہ بہت شان دار ہوسکتا ہے۔ آپ کی جیب میں شمس، زحل، زہرہ اور قمر ملاقات کررہے ہیں۔ یہ آمدن میں واضح بڑی خوش حالی کو ظاہر کررہے ہیں۔ لاٹری جیسی کوئی مالی آمدن ہوسکتی ہے۔

مکان کی تبدیلی کا امکان پیدا ہورہا ہے۔ گذشتہ دو ہفتوں سے جاری خرابیاں ایک ایک کرکے دور ہورہی ہیں۔ بزرگوں کا تعاون حاصل رہے گا دوردراز سے کوئی بزرگ ملنے کے لیے آسکتا ہے۔

برج دلو
سیارہ یورنیس ، 21 جنوری تا 19 فروری
وراثتی نقصان ہوتے ہوتے امید ہے بچ گیا ہوگا، کیوںکہ آپ کا مقدر کا سیارہ مسلسل آپ کو سعد روشنی دیتا رہا ہے، بلکہ اس ہفتے آپ کی جیب کو وزنی بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایسا اس ہفتے کے ابتدائی دو ایام ہی میں ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ کا ازدواجی تعلق پہلے سے زیادہ رومان پرور ہوسکتا ہے۔ بچوں کے حوالے سے کچھ ذہنی الجھن ہوسکتی ہے۔ پرانا دوست ملنے آسکتا ہے یا بعد مدت اس سے رابطہ ہوسکتا ہے۔

برج حوت
سیارہ نیپچون ، 20 فروری تا 20 مارچ
آپ کے ہاتھ کئی لوگوں کا بھلا ہوتا نظر آتا ہے۔ فلاحی کاموں میں آپ لوگوں کی مدد کرتے نظر آتے ہیں۔ مشتری آپ کی جیب میں آچکا ہے۔ دوہرا مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس ہفتے کچھ غیرضروری اخراجات بھی ہوسکتے ہیں۔

آپ کا تیسرے اور آٹھویں کا مالک شرفی حالت میں آرہا ہے۔ بہن بھائی کے ساتھ وراثتی امور پر مذاکرات کام یاب ہوسکتے ہیں۔

The post علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفے صائم
واٹس اپ (0333-8818706)
فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ:
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں۔
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش:
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے۔
ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے، یعنی باہم جمع کیجیے:
1+2+7+1+9+9=29
29 کو بھی باہم جمع کریں (2+9) تو جواب 11 آئے گا۔
11 کو مزید باہم جمع کریں (1+1)
تو جواب 2 آیا یعنی اس وقت تک اعداد کو باہم جمع کرنا ہے جب تک حاصل شدہ عدد مفرد نہ نکل آئے۔ پس یعنی آپ کا لائف پاتھ عدد/نمبر ہے۔
گویا تاریخ پیدائش سے احسن کا نمبر 2 نکلا۔
اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد ان کے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔”
حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ء ،ی،ق،غ) ، 2 کے حروف (ب،ک،ر) ، 3 کے حروف (ج،ل،ش) ، 4 کے حروف (د،م،ت) ، 5 کے حروف(ہ،ن،ث) ، 6 کے حروف (و،س،خ) ، 7 کے حروف (ز،ع،ذ) ، 8 کے حروف (ح،ف،ض) ، 9 کے حروف (ط،ص،ظ) ، احسن کے نمبر (1،8،6،5)
تمام نمبروں کو مفرد کردیں:(1+8+6+5=20=2+0= 2 )
گویا احسن کا نمبر2 ہے۔ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ” کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا:
(2+9+1=12=1+2=3)
گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
23 تا 29 جنوری 2023
پیر 23 جنوری 2023
آج کا حاکم عدد6 ہے۔ 6 (زہرہ) اور پیر (چاند) کا ملاپ ہمیشہ حساسیت کو ابھارنے کا کام کرتا ہے نرم جذبات کو جگانے کا اور دل کو راحت دینے والی چیزوں کو متحرک کرتا ہے ایک اچھا دن ہوسکتا ہے۔

آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,4,5,6,8اور9 خصوصاً 9 کا عدد یا پیدائش کا دن منگل یا نام کا پہلا حرف ص، ط یا ظ ہے تو آج کا دن آپ کے لیے بہتر دن ہوسکتا ہے لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2،3اور 7 خصوصاً 2 کا عدد یا پیدائش کا دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ب، ک یا ر ہے تو آپ کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔

صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِصدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔اسمِ اعظم ”یارحیم، یارحمٰن، یااللہ” 11 بار،یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 24 جنوری 2023
آج کا حاکم عدد5 ہے۔ منگل اور پانچ تیزی طراری کو متحرک کرتے ہیں، لہجہ، گفتگو یا سفر میں رفتار تیز ہوسکتی ہے اور یہ تیزی حد کو کراس کرکے کسی حادثے کو بھی جنم دے سکتی ہے۔اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,2,5,6,7اور9 خصوصاً 1 کا عدد ہے یا آپ کی پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ا، ی یا غ ہے تو آپ کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔

لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 3،4 اور 8 خصوصاً 8 یا پیدائش کا دن ہفتہ ہے یا نام کا پہلا حرف ف یا ح ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی معذورسیکیوریٹی سے منسلک فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔وظیفۂ خاص”یاغفار، یاستار، استغفراللہ العظیم” 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ25 جنوری 2023
آج کا حاکم عدد 2 ہے۔جذباتی رویوں اور سوچوں سے جتنا بچ سکتے ہیں بچیں، کسی کا رویہ ایسی صورت پیدا کرسکتا ہے محتاط رہیں۔1،3,4,5,8اور9 خصوصاً 4 کا عدد یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ا،ی یا غ ہے تو آپ کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2،6 اور7 خصوصاً 6 یا پیدائش کا دن جمعہ ہے یا نام کا پہلا حرف و یا س ہے تو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔

صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چاچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔وظیفۂ خاص”یاخبیرُ، یاوکیلُ، یااللہ” 41 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 26جنوری 2023
آج کا حاکم عدد 1ہے۔ ایک کا عدد شہرت، عزت اور کسی کام کی ابتدا کے لیے معاونت کرتا ہے۔ ایک بہتر دن کی امید کی جاسکتی ہے۔

اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،4،5،6 اور9 خصوصاً 5 کا عدد یا پیدائش کا دن بدھ ہے یا نام کا پہلا حرف ہ، ن یا ث ہے تو آپ کے لیے بہتر دن ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 3،7اور8 خصوصاً 7 کا عدد یا پیدائش کا دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ب، ک یا ر ہے تو اندیشہ ہے کہ کچھ امور میں آپ کو مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: میٹھی چیز30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے، مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔

وظیفۂ خاص”سورۂ فاتحہ 7 بار یا یاقدوس، یاوھابُ، یااللہ” 21 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ 27جنوری 2023
آج کا حاکم عدد 5 ہے۔ سفر، مطالعہ، مذاکرات اور غوروفکر کے لیے ایک بہتر دن، اگر آپ کا ارادہ کسی دوست سے ملنے کا ہے تو ضرور ملیں، کوئی ناراض ہے تو منایا جاسکتا ہے۔

اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،5،6،7 اور9 خصوصاً 1 کا عدد یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ا، ی یا غ ہے تو آپ کے لیے بہتری کی امید ہے لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش 3،4 اور8 خصوصاً 8 کا عدد یا پیدائشی دن ہفتہ یا جن کے نام کا پہلا حرف ح یا ف ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی۔ سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔

وظیفۂ خاص”سورہ کہف یا یاودود یا معید یااللہ” 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ 28جنوری 2023
آج کا حاکم عدد8 ہے۔ زمین سے متعلق کاموں کے لیے بہتر دن ہے، ایسا کام جس کے نتائج آپ دیرپا دیکھنا چاہتے ہیں شروع کرسکتے ہیں، سست روی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2,3,4,6,7 اور8 خصوصاً 7 یا پیدائشی دن پیریا نام کا پہلا حرف ز یا ع ہے تو آپ کے لیے ایک اچھا دن ہوسکتا ہے۔لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،5 اور9 خصوصاً 5 کا عدد یا پیدائشی دن بدھ یا نام کا پہلا حرف ہ، ن یا ث ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔

صدقہ: 80 یا800 روپے یاکالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔وظیفۂ خاص”یافتاح، یاوھابُ، یارزاق، یااللہ” 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار 29 جنوری 2023
آج کا حاکم نمبر 2 ہے۔ چھوٹی موٹی تبدیلیوں کی ہوا چل سکتی ہے۔ جذبات اوپر نیچے ہوسکتے ہیں ،اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،3،4،5،8 اور9 خصوصاً 4 کا عدد یا جن کا پیدائشی دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ا، ی یا غ ہے تو آپ کے لیے ایک اچھے دن کی امید ہے۔لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2،6 اور7 خصوصاً 2 کاعدد یا جن کا پیدائشی دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ب، ک یا ر ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: 13 یا 100 روپے یا سنہری رنگ کی چیزیں گندم، پھل،کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔

وظیفۂ خاص”یاحی یاقیوم یا اللہ ” 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درود شریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
دل سے دنیا نکال کر مرے دوست
پھر تو مجھ سے سوال کر مرے دوست
دیکھ میری جبیں پہ لب رکھ دے
میری سانسیں بحال کر مرے دوست
عین ممکن ہے کام آ جاؤں
رکھ لے مجھ کو سنبھال کر مرے دوست
ایک درویش ہنستا جاتا ہے
اپنا کاسہ اچھال کر مرے دوست
دل کے مفتی سے لا کوئی فتویٰ
ہجر مجھ پر حلال کر مرے دوست
(طارق جاوید۔ کبیروالا)

۔۔۔
غزل
صحرا کا سفر طے کبھی پیدل نہیں ہوتا
وہ دشت مگر آنکھ سے اوجھل نہیں ہوتا
ترتیب سے رکھی ہے ہر اک یاد تمہاری
یہ شانہ کسی بوجھ سے اب شل نہیں ہوتا
اک فلسفہ ایسا کہ سمجھنا نہیں ممکن
ایک ایسا معمہ جو کبھی حل نہیں ہوتا
اک کرب کا موسم ہے جو دائم ہے ابھی تک
اک ہجر کا قصہ کہ مکمل نہیں ہوتا
وہ ہجر بھی کیا ہجر جو لمحوں کے لئے ہو
وہ درد بھی کیسا جو مسلسل نہیں ہوتا
یہ کارِ محبت ہے یہاں داد نہ شہرت
اس کھیل میں محنت کا کوئی پھل نہیں ہوتا
(مستحسن جامی ۔ خوشاب)

۔۔۔
غزل
آنکھوں سے اشک اس طرح بہتا دکھائی دے
جو دیکھے اسکو صورتِ دریا دکھائی دے
منظر سے ہٹ رہا ہے کہ سب کو رہے تلاش
وہ چھپ رہا ہے تاکہ زیادہ دکھائی دے
لشکر فرار ہونے کا سوچے اور ایسے میں
سالار تیغ تھام کے آتا دکھائی دے
اَن دیکھی منزلوں کے مسافر تو ہم بھی ہیں
یہ گرد بیٹھ جائے تو رستہ دکھائی دے
تُو بول تاکہ مجھ کو سنائی پڑے جہاں
تُو دیکھ تاکہ مجھ کو زمانہ دکھائی دے
(سید عون عباس۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
آخرش یار یار ہوتے ہیں
زندگی کا قرار ہوتے ہیں
دیکھ کر تجھ کو تیرے دیوانے
مثلِ باغ و بہار ہوتے ہیں
پہلے کرتے تھے لوگ تیروں سے
اب تو لفظوں سے وار ہوتے ہیں
کون ہوتا ہے اس حویلی میں
تیرے گریہ گزار ہوتے ہیں
ٹال دیتے ہیں دکھ دعاؤں سے
لوگ ایسے ہزار ہوتے ہیں
تم جو ہوتے ہو دور آنکھوں سے
ہم بڑے بے قرار ہوتے ہیں
عین فطرت کا یہ تقاضا ہے
پھول کے ساتھ خار ہوتے ہیں
(اسد رضا سحر۔احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل
ایک دن میری محبت رائیگاں ہو جائے گی
ہر گھڑی مجھ پر قیامت سی گراں ہوجائے گی
وصل کی راحت کی مستی میں یہ اندازہ نہ تھا
ہجر سے یہ زندگی نذرِ خزاں ہوجائے گی
پھینک دو ہاتھوں سے پتھر، یارجینے دو ہمیں
ورنہ بستی سے محبت بے نشاں ہوجائے گی
باپ کے گھر آسماں سر پر اٹھا رکھتی تھی وہ
کیا ستم ہے اب وہ لڑکی بے زباں ہوجائے گی
عشق سے کوئی نہیں ہے واسطہ، گر میں کہوں
تُو بتا پھر کیا یہ دنیا مہرباں ہوجائے گی؟
جو تری یادوں میں رہ کر پہلے ہوتی تھی غزل
اب ترے پہلو میں رہ کر بھی کہاں ہوجائے گی
(مبشر آخوندی۔ اسکردو)

۔۔۔
غزل
دستِ قدرت کا ہنر تیرے سوا کوئی نہیں
کارخانہ ہے جدھر تیرے سوا کوئی نہیں
یہ جو مرتے ہیں، یہ سب لوگ کدھر جاتے ہیں
اے خدا عرش پہ گر تیرے سوا کوئی نہیں
آج کی شب مجھے درکار ہے لوگوں کا ہجوم
اور غم یہ ہے اِدھر تیرے سوا کوئی نہیں
باغ میں تجھ کو کوئی دیکھ نہیں پائے گا
پھول بن بن کے نکھر، تیرے سوا کوئی نہیں
لوگ مانا ہے کہ ہیں آٹھ ارب دھرتی پر
میری دنیا میں مگر تیرے سوا کوئی نہیں
(شہزاد مہدی۔ گلگت بلتستان)

۔۔۔
غزل
جیسے کہ تہوار بدلتے رہتے ہیں
یوں تیرے اطوار بدلتے رہتے ہیں
سب اپنا کردار نبھانے آتے ہیں
ہاں لیکن کردار بدلتے رہتے ہیں
دنیا میں کردار سلامت رہتا ہے
تھیٹر کے فنکار بدلتے رہتے ہیں
حیرت ہے ناں دوسرے لوگوں کی خاطر
ہم خود کو بیکار بدلتے رہتے ہیں
ایسے سر کب دار کی زینت بنتے ہیں
جو اکثر دستار بدلتے رہتے ہیں
فتح یاب نہیں ہوتے ایسے بزدل
جو اپنی تلوار بدلتے رہتے ہیں
دولت چیز ہی ایسی ہے جس کی خاطر
لوگ اپنا معیار بدلتے رہتے ہیں
اک جیسے اشعار اذیت ہوتے ہیں
سوچوں کا راہوار بدلتے رہتے ہیں
ہم بہلول کی صحبت میں رہنے والے
اپنا کاروبار بدلتے رہتے ہیں
(ظفر اقبال عدم۔ کروڑ لعل عیسن)

۔۔۔
غزل
مجھ سے جو کوسوں دور مرے ہم سفر گئے
دنیا سے سیر ہو کے ہی وہ چاند پر گئے
جو کچھ بنایا مال وہ کمرے میں چھوڑ کر
منزل نہ پائی اور زمیں میں اتر گئے
ویسے تو ہر غریب کے حامی تھے سارے لوگ
سر پر کھڑی تھی موت وہ سائے سے ڈر گئے
مانا ہمارے دیس میں قاضی تو ہیں مگر
بتلاؤ ننھی لاش سے کیسے گزر گئے
ہم کو بھی اپنے پیار پہ اندھا یقین تھا
پھر بھی ہم ایسے لوگ محبت میں مر گئے
(سبطین عباس سبطین ۔ روڈو سلطان)

۔۔۔
غزل
حوصلہ کیا توڑ سکتے مجھ سے عاشق کا جنوں
میری رگ رگ میں بسا ہے درد کا قاتل فسوں
آرزو کا بوجھ مجھ سے اٹھ نہ پائے گا کبھی
عاشقوں کو کیا لگن ہے زندگی میں ہو سکوں
بادلوں کی کش مکش میں چاند کا وہ روٹھنا
روشنی کا حال کیا تھا، بارشوں سے کیا کہوں
ہائے میری زندگی کا ایسا دن بھی آئے گا
سرنگوں وہ ہو کے بولیں، ان کی زلفوں میں رہوں
اہل دل سے جانیے تو، اس گھڑی کے وصل کو
دل لگا کے پوچھتے ہیں دل کا اب میں کیا کروں
زندہ کر کے خود ہمیں وہ مارتے بھی آپ ہیں
ہائے ایسے دلربا کی شان میں اب کیا لکھوں
بے سبب جھگڑے کریں اور آپ ہی ناراض ہوں
تم بتاؤ کیا کروں میں کس سے اب شکوہ کروں
(گوہر اعوان۔ خوشاب)

۔۔۔
غزل
اپنے زخموں کو زباں اپنی بناؤں کیسے
فاصلہ درد کا اب اور گھٹاؤں کیسے
اپنا دشمن ہوں میں سارے ہی جہاں سے بڑھ کر
زندگی اب میں تجھے خود سے بچاؤں کیسے
جاں کی بازی تو دل و جاں سے لگا رکھی ہے
رسمِ الفت کو بتا اور نبھاؤں کیسے
اک اشارے سے مرے پاس چلا آتا تھا
اب صدا دے کے اُسے پاس بلاؤں کیسے
جن کے سینوں میں بھرا ہو گا فقط بغض و عناد
ایسے لوگوں سے بھلا دل کو لگاؤں کیسے
تُو نے رستے میں اٹھا رکھی ہے دیوارِ انا
آنا چاہوں بھی ترے پاس تو آؤں کیسے
خشک آنکھوں میں اتر کر ملے گا کیا اے شہابؔ
دل ہے صد پارہ، تجھے اُس میں بساؤں کیسے
( شہاب اللہ شہاب ۔منڈا، دیر لوئر،خیبر پختون خوا)

۔۔۔
غزل
وجودِ صبر پہ آوارگی بناؤں گا
میں بے بسی کی بھی اک زندگی بناؤں گا
عدو کے ہاتھ میں خنجر بناؤں گا پہلے
پھر اس کی آنکھوں میں شرمندگی بناؤں گا
لہو سے کھینچ کے نقشہ دیارِ مقتل کا
میں عاشقوں کے لیے آگہی بناؤں گا
سجا کے ریشمی کپڑے کو چاند تاروں سے
پھر اس پہ تیری سیہ چشمگی بناؤں گا
(فراز احمد ۔گڑھ مہاراجہ)

۔۔۔
غزل
کبھی مجھ کو صنم تنہا نہ کرنا
محبت میں کہیں ایسا نہ کرنا
محبت ہے مجھے تم سے، جہاں میں
سوا میرے کبھی سوچا نہ کرنا
زمانہ ساتھ تو دیتا نہیں ہے
کوئی مشکل کہیں پیدا نہ کرنا
محبت تو کبھی بکتی نہیں ہے
کہیں اس کا صنم سودا نہ کرنا
وفا کرنا ہمیشہ تم قسم ہے
زمانے میں کبھی رسوا نہ کرنا
مری باتیں تمھارے حق میں ہوں گی
مری باتوں کا تم غصہ نہ کرنا
تمھارا ساتھ دوں گا زندگی بھر
کوئی وعدہ کبھی کچا نہ کرنا
( احمد مسعود قریشی۔ ملتان)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.


ڈاکٹر اکبر ایس احمد۔۔۔ ایک عظیم پاکستانی

$
0
0

پاکستان قدرت کا ایسا نایاب اور بیش قیمت تحفہ ہے جس کی قدروقیمت کا اندازہ شاید ا بھی تک نہ ہم پاکستانیوں کو ہوا ہے اور نہ ہی دُنیا کو اس کی اصل افادیت کا ادراک ہوا ہے۔

قوموں کی زندگی میں ترقی کے لیے کردار ادا کرنے والے افراد ہی اُس کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں۔ تہذیب اور ترقی یافتہ قوموں میں ایسے لوگ اُن کا اثاثہ ہوتے ہیں جن کی سوچ، عمل اور کردار سے قوموں کی تعمیر کا کام مکمل ہوتا ہے۔

پاکستانی تاریخ میں ایسی کئی نام ور شخصیات نے وطن کی محبت، اس کی ترقی اور بقاء کے لیے کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں جن کا ذکر نئی نسل سے ضرور کرنا چاہیے۔

اسی سلسلے میں اس مضمون میں ہم ایک ایسی ہی شخصیت سے آپ کی ملاقات کروائیں گے جنہوں نے اپنی تخلیقی، سفارتی اور علمی خدمات کی بدولت عالمی سطح پر اپنا منفرد نام اور مقام بنایا ہے۔

ڈاکٹر اکبر ایس احمد پاکستان کا ایک معتبر نام ہیں جن کے بارے میں لکھنا اور اُن سے انٹرویو کرنا میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ وہ جس خلوص اور شفقت سے مجھ سے پیش آئے وہ میرے لیے بہت حوصلہ افزاء بات تھی۔

میں نے اُن سے اس مضمون کی تکمیل کے لیے آن لائن انٹرویو کیا۔ اُنہوں نے بہت دل چسپی اور خوش اسلوبی سے میرے سوالوں کے جواب دیے اور مجھے میرے کام کی وجہ سے خوب سراہا۔ میں اس ضمن میں ڈاکٹر اکبر ایس احمد کے قریبی دوست ڈاکٹر جیمس شیرا کا نہایت مشکور ہوں جنہوں نے مجھے ڈاکٹر اکبرایس احمد سے متعارف کروایا اور مجھے اُس انٹرویو کی ترغیب دی۔ اس سلسلے میں، میں ڈاکٹر نعیم مشتاق کا بھی ممنون ہوں۔

جنہوں نے مجھے ڈاکٹر اکبر ایس احمد کا رابطہ نمبر دیا اور انٹرویو میں راہ نمائی کی۔ ان ناموں کا شکریہ ادا کرنے کا مقصد آپ کو صرف یہ بتانا ہے کہ ایک مضمون لکھنے اور انٹرویو کرنے کے لیے کتنے لوگوں کی مددومعاونت درکار ہوتی ہے اور بہت سارے لوگ مختلف طریقے سے اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔

سابق سفیرجناب ڈاکٹر اکبرایس احمد امریکن یونیورسٹی میں ابن خلدون چیئر آف اسلامک اسٹڈیز اور واشنگٹن میں ولسن سینٹر گلوبل کے فیلو ہیں۔ ڈاکٹر اکبر احمد نے اپنے کیریئر میں کئی اہم تعلیمی اور عوامی خدمت کے ممتاز عہدوں پر اپنی خدمات سرانجام دی ہیں۔ انہیں کئی اہم اعزازات ملے جن میں اسٹار آف پاکستان کا ایوارڈ نمایاں ہے۔

وہ بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں سینئر فیلو رہے ہیں۔ اناپولس، MD میں یو ایس نیول اکیڈمی میں مشرق وسطیٰ اور اسلامک اسٹڈیز کی پہلی ممتاز چیئر کے علاوہ، اقبال فیلو اور کیمبرج یونیورسٹی میں سیلوین کالج کے فیلو رہے ہیں اور ہارورڈ اور پرنسٹن یونیورسٹیوں میں تدریسی عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں۔

ڈاکٹر اکبر احمد نے تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ پاکستان کی سول سروس کے لیے بھی اپنی خدمات وقف کی ہیں، جہاں ان کے عہدوں میں بلوچستان میںبطور کمشنر، قبائلی علاقوں میں پولیٹیکل ایجنٹ اور برطانیہ اور آئرلینڈ میں بطور پاکستانی ہائی کمشنر خدمات شامل ہے۔

ان کی اعلیٰ خدمات، علمی اور فکری دانش وحکمت کی دُنیا بھر کے نام ور ادارے تعریف کرتے ہیں۔

بی بی سی نے انہیں ’’عصرحاضر میں اسلام پر دُنیا کی سرکردہ اتھارٹی‘‘ کا لقب دیا جب کہ سعودی گزٹ نے ان کی یوں تعریف کی،’’عصری مسلم معاشروں پر سب سے زیادہ بااثر بقیدحیات اتھارٹی۔‘‘ شیخ حمزہ یوسف نے انہیں ’’سیلف میڈ مسلمانوں کا خزانہ‘‘ قرار دیا ہے۔ کینٹربری کے سابق آرچ بشپ ڈاکٹر لارڈ روون ولیمز نے انہیں ’’موجودہ دور کے انگریزی بولنے والی دُنیا میں سب سے ممتاز اور ورسٹائل مسلم اسکالر‘‘ کے طور پر بیان کیا۔

مشہور امریکی مورخ اور جناح آف پاکستان کے مصنف پروفیسر اسٹینلے وولپرٹ نے ڈاکٹر اکبراحمد کا تعارف اس طرح کرایا’’ڈاکٹراکبر احمد امریکا میں اسلام کے سب سے بڑے عالم ہیں۔ اس دُنیا میں ان کے علاوہ اتنا بلند قدو افکار کوئی اور نہیں ہے۔ وہ جدید اسلامی راہ نماؤں کے دارا شکوہ ہیں۔‘‘

ڈاکٹر اکبر احمد1943  الہ آباد، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد اُس وقت ریلوے میں ڈی ایس تھے اور قائداعظم کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا ذکر کرتے تھے۔ ڈاکٹر اکبر احمد کے خاندان نے قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرکے کراچی میں سکونت اختیار کی۔

اُنہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ایبٹ آباد کے برن ہال اسکول (موجودہ آرمی برن ہال کالج) میں 1954 سے 1959 تک حاصل کی، جہاں کے مشنری اساتذہ، خصوصی طور پر پریسٹ نے اُنہیں بہت متاثر کیا۔ یہاں سے ہی اُنہوں نے نظم وضبط، مطالعہ اور چیزوں کو مختلف نظر سے دیکھنے کی صلاحیت کا سبق سیکھا اور خود کو نکھارنا شروع کیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ مشنری اساتذہ ہمارے حقیقی رول ماڈل تھے جنہوں نے ہمیں پڑھنے اور سوچنے کا شعور دیا۔ اس کے بعد اُنہوں نے ایف سی کالج لاہور اور بعدازاں پنجاب یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف برمنگھم سے گریجویشن کیا اور بعد میں کیمبرج یونیورسٹی میں ایم اے کیا۔ 1978 میں، ڈاکٹر اکبراحمد نے لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز میں بشریات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ڈاکٹر اکبر ایس احمد کی زندگی کے مختلف پہلو ہیں جنہیں اس ایک مضمون میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ وہ اپنی تخلیقی، تعلیمی، سفارتی، بین المذاہب ہم آہنگی، عالمی مسائل پر ڈائیلاگ اور پاکستان اور عالمی امور پر دسترس کی وجہ سے اہم نقطہ نظر رکھتے ہیں، ہم اُن کی شخصیت کے چند پہلوؤں کو اس مضمون میں شامل کررہے ہیں۔

بین المذاہب ہم آہنگی اور مکالمے کے لیے خدمات:

11ستمبر2001 کے سانحے کے بعد ڈاکٹر اکبر احمد نے مکالمے کا ایک سلسلہ شروع کیا جسے بروکنگز انسٹی ٹیوشن پریس نے شائع کیا تھا جس میں اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات سے متعلق مسائل کا احاطہ کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر اکبراحمد نے امریکا اور دیگر ممالک میں عوامی بین المذاہب مکالموں کی ایک سیریز میں بھی مصروف رہے ہیں۔

ان کے ساتھ پروفیسر جوڈیا پرل، (صحافی ڈینیئل پرل) کے والد بھی تھے، جو مسلمانوں اور مغرب اور یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم اور دُوری کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کرتے رہے ہیں۔ ان کی انہی کوششوں کے لیے، انہیں اور پروفیسر جوڈیا پرل کو نیشنل کیتھیڈرل میں میٹروپولیٹن واشنگٹن کی انٹرفیتھ کانفرنس کے ذریعے ’’فرسٹ پرپز پرائز‘‘ دیا گیا۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر اکبر احمد کو بین المذاہب سرگرمیوں کے لیے ہرشل کنگ ایوارڈ بھی ملا۔ انہیں کینٹربری کے آرچ بشپ کی جانب سے ورلڈ فیتھز ڈیولپمنٹ ڈائیلاگ کے ٹرسٹی کے طور پر بھی مقرر کیا گیا ہے۔

اُنہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں واقع مسلم پبلک افیئرز کونسل سے 2002 کا فری اسپیچ ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ ڈاکٹر اکبر احمد کہتے ہیں کہ ’’مکالمہ، ہم آہنگی، رابطہ اور ڈائیلاگ‘‘ اسلام اور مغرب کے لیے اہم ہیں۔

اس ضمن میں ایڈیٹر، پری پورڈ اسلامک میگزین، اور مصنف، دی سیج آف اسلام، میرنیس کوواک، ڈاکٹر اکبر ایس احمد کے بارے میں یوں کہتے ہیں،’’میں نے جتنے بھی اسکالرز کا مطالعہ کیا ہے، ان میں سے کسی کا کام اکبر احمد جیسا منفرد نہیں ہے جسے روایتی اسلامی اسکالرز ’دو آنکھوں‘ کے ذریعے دُنیا کو دیکھنے کی صلاحیت کہتے ہیں۔

اندرونی، روحانی اور جسمانی، جذباتی اور سائنسی، جو مختلف نقطۂ نظر کی درست اور منصفانہ تفہیم کے قابل بناتی ہے۔ وہ یورپ میں مسلمانوں کے بارے میں اپنے پروجیکٹ میں وہی معیار رکھتے ہیں اور اُن کے یورپی مسلمان ہونے پر مجھے خاص طور پر فخر محسوس ہوتا ہے۔‘‘

اُن کے دیرینہ دوست اور کئی اہم پروجیکٹس کے کلیدی ساتھی ، رگبئی کے سابق مئیر ڈاکٹر جیمس شیرا کہتے ہیں کہ ’’اُن کی اکبر ایس احمد سے دوستی کی واحد اور بنیادی وجہ پاکستان سے محبت ہے۔ ہم دونوں کا دل پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے۔

اس لیے ہم نے ہمیشہ پاکستانی پرچم کی سربلندی اور بیرون ملک پاکستان کا سافٹ امیج بہتر بنانے کے لیے کام کیا ہے۔ ڈاکٹراکبر ایس احمد بلاشبہہ پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں بلکہ وہ موجودہ دُور کے اکبراعظم ہیں جنہوں نے عالمی سطح پر اپنی علمی اور پیشہ ورانہ خدمات سے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔

ڈاکٹر جیمس شیرا نے مزید کہا کہ اُنہیں اس بات پر بھی فخر ہے کہ بے شک ہم دونوں کا مذہب الگ الگ ہے اور ہم دونوں پاکستان سے باہر کی عالمی دُنیا میں اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق ہمیشہ پاکستانیت کو فروغ دیتے رہے ہیں۔ ہم نے کبھی ایک دوسرے کو یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ ہمارے مذہب الگ الگ ہیں۔ بلکہ دُنیا ہمیں دو بھائی ہی سمجھتی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہم دونوں نے مل کر عالمی سطح پر پاکستان کا پرچم ہمیشہ بلند رکھا ہے اور اپنے افکار، کردار اور اخلاق سے پاکستان کی حقیقی نمائندگی کی ہے۔ میرا اور اکبر کا دل ہمیشہ پاکستان کے لیے دھڑکتا رہا ہے اور رہے گا، جس پر ہمیں ہمیشہ فخر رہے گا۔‘‘

ڈاکٹر اکبر ایس احمد کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ کئی اہم اور منفرد ڈاکیو منٹری فلم اور پروجیکٹس پر کام کرچکے ہیں۔ بانی ِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناج کی زندگی پر مبنی فلم ’’جناح ‘‘ میں اسکرین پلے بھی اُنہوں نے لکھا۔ یہ فلم بنانا بھی ایک دل چسپ اور منفرد کام تھا، جس کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے کئی باتیں بتائیں جو کبھی پھر کسی اور حوالے سے بیان کی جائیں گی۔

اُن کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں انھیں 30ستمبر 2022 کو امریکا میں پاکستانی سفیر اور ڈائریکٹر اسٹیٹ ڈپارنمنٹ کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔

ڈاکٹر اکبر ایس احمد پاکستان کے ایسے روشن ستارے ہیں جن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اُن کا علمی، فکری، ادبی اور تخلیقی کام ایک بیش قیمت خرانہ ہیں۔ ڈاکٹر اکبر ایس احمد پاکستان کے لیے جیتے ہیں، ان کی زندگی کا مقصد پاکستانی کی ترقی اور بہتری ہے۔

ڈاکٹر اکبر ایس احمد جیسے لوگ ہی ہمارا حقیقی سرمایہ ہیں جن پر نہ صرف ہمیں بلکہ دُنیا کو فخر ہے۔ ڈاکٹر اکبر ایس احمد کا کہنا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے تو ہمیں عوام کو حقوق دینے ہوں گے، معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا ہوگا، علم اور تعلیم کو عام کرنا ہوگا اور اپنے لوگوں سے احسن سلوک کرنا اور پیار سے پیش آنا ہوگا۔

میرے ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان جن مسائل کا شکار ہے اُنہیں دُکھ ہوتا ہے کہ ہمارے اجداد نے کس قدر محنت اور قربانیوں سے اس ملک کو حاصل کیا تھا اور ہم اپنی انا، نااہلی اور خودغرضی کی وجہ سے ملک کو اس مقام پر لے آئے ہیں۔

آج بھی اگر ہم اپنے معاشرے میں عوام کو وہ عزت نہیں دیتے جو بانیِ پاکستان قائداعظم کا خواب تھا، تو ہم کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکیں گے۔

ہمیں مذہبی اقلیتوں کے حقوق، تحفظ اور وقار کے لیے بھی عملی اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے کیوںکہ مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسیحی کیمونیٹی نے تعلیم کے میدان میں پاکستان کی بہت خدمت کی ہے جس کے لیے پوری قوم مسیحی کیمونیٹی کی مشکور ہے۔

میں نے سوال کیا ڈاکٹر صاحب! آپ پاکستان کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا، ایازمورس صاحب! جب میں ملکی حالات دیکھتا ہوں تو مجھے یقینی طور پر مایوسی اور دُکھ ہوتا ہے لیکن جب میں آپ جیسے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں جو نامساعد حالات کے باوجود معاشرے کی بہتری کے لیے کام کررہے ہیں تو مجھے خوشی اور یقین ہوتا ہے کہ نوجوان اس ملک کا اصلی چہرہ اور سرمایہ ہیں، اُنہیں اعتماد اور راہ نمائی کی ضرورت ہے۔

یہ پاکستان کو اس بلندی پر لے کر جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کا پاکستان اہل ہے۔ بس ہمیں مل کر باہمی اتفاق کے ساتھ پاکستان کے لیے کام کرنا ہے۔

پاکستان ہمارے بزرگوں کا سرمایہ ہے جنہوں نے اسے ہمیں ایک امانت کے طور پر سونپا ہے۔ ہمیں اس کی ہر لحاظ سے حفاظت کرنی ہے۔

The post ڈاکٹر اکبر ایس احمد۔۔۔ ایک عظیم پاکستانی appeared first on ایکسپریس اردو.

دائروں کی دنیا میں آپ کا دائرہ کون سا ہے؟

$
0
0

یہ دنیا دائروں کی دنیا ہے۔ اس میں رنگ رنگ کے دائرے ہیں ۔ کچھ دائرے تو قدرت نے بنائے کہ نظام دنیا چلانے اور باہمی پہچان کے لیے ضروری تھے ۔ کچھ دائرے انسانوں نے خود بنا لیے ۔ قدرت کے دائرے تو بلاشبہ ہر کسی کے فائدے کے تھے ۔

اس لیے کہ قسّامِ ازل نے اپنی تخلیق کو ایک منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا ہے ۔ جہاں تک انسانوں کے بنائے ہوئے دائروں کی بات ہے تو ان سے اکثر خرابی نے ہی جنم لیا ہے ۔ انسانی دائروں کی خشتِ اول پر لکھا ہے کہ اپنے حال میں مست اور اپنے مال میں غرق رہو ۔

اللہ کے بنائے ہوئے دائروں کی پہلی نشانی یہ ہے کہ انسان اس میں پہنچتے ہی تازہ دم ہو جاتا ہے اور خوشی محسوس کرتا ہے ۔

اس کی خشتِ اول پر کندہ ہے : ہمدردی، حسنِ سلوک ، باہمی تعاون اور ایثار و قربانی ۔ یہ دائرہ حال میں مست نہیں کرتا بلکہ برابر والے کو کھانا کھلاتا ہے ۔

مال میں غرق نہیں کرتا کہ اس کے اموال میں دوسروں کا بھی حق ہے ۔ مگر انسان اپنی عجلت پسندی اور جہالت کی وجہ سے نہ تو اپنے فطری دائرے کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے اور نہ ہی یکسوئی کے ساتھ کام پر توجہ کرتا ہے ۔ جس کا نتیجہ قدم قد م پر ناکامی ، مایوسی اور حوصلے پست ہونے کی صورت میں نکلتا ہے ۔

انسان کے خالق نے یوں تو کئی طرح کے دائرے بنائے ہیں مگر ہم بات کریں گے رجحانات اور میلانات کی ۔ رجحان یا میلان دراصل شخصیت اور صلاحیت سے مل کر واضح ہوتا ہے ۔ یعنی اگر درست طریقے سے اسے سمجھ لیا جائے تو بہت آسانی سے کسی بھی انسان کے لیے اس کے میدان عمل یا کیریئر کا انتخاب کیا جا سکتا ہے ۔ رجحان کی بنیاد پر ہم انسانوں کوآٹھ دائروں میں تقسیم کریں گے ۔

کوئی بھی انسان صرف ایک دائرے کا فرد نہیں ہوتا بلکہ ایک سے زیادہ دائروں میں شمار ہوتا ہے ۔ ہر انسان کا کوئی ایک بنیادی دائرہ ہو گا اور کوئی دوسرا دائرہ ثانوی حیثیت میں اس کے ساتھ ضرور ہو گا ۔

یہ اللہ تعالی کی طرف سے انسان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ، اسی وجہ سے انسانوں میں لچک ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر کسی کا بنیادی دائرہ الفاظ و معانی کا ہے مگر ثانوی دائرہ بقیہ سات میں سے کوئی ایک ہوگا ، یوں ہر کسی کا میدان عمل بالکل الگ ہو جائے گا ۔

جب آپ اپنا دائرہ تلاش کر لیتے ہیں ۔ یہ تلاش کسی ٹیسٹ کے ذریعہ بھی ہو سکتی ہے اور کسی کونسلر سے میٹنگ کے ذریعے بھی ۔ اپنے اصل دائرے میں پہنچنے کی بڑی نشانی یہ ہے کہ پیش آنے والا چیلنج بھی آپ کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گا ۔

آپ پورے تجسّس سے کام کریں گے ۔ مقابلے کی فضا آپ کو آگے بڑھائے گی ۔ اختیارات خود بخود آپ کے ہاتھ میں آئیں گے ۔

اگر آپ زندگی سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ، ہواؤوں کا رخ موڑ دینے کی طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں ، موت و حیات کی کشمکش سے آزاد ہو کر بڑی کامیابیوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں ، زندگی کن کاموں میں گزاری کا اچھا جواب چاہیے ، جوانی کن کاموں میں صرف کی ، کا اطمینان بخش جواب چاہیے اور بڑھاپے کو افسوس اور ملال سے بچانا چاہتے ہیں ، تو اپنے رجحان اور میلان کو سمجھیں اور اسی کے مطابق کام کریں ۔

الفاظ و معانی کا دائرہ

اس دائرے کے افراد الفاظ کا استعمال بہت اچھا جانتے ہیں ۔ روزمرہ زندگی میں الفاظ کے تجربات سے واقف ہی نہیں ، ماہر ہوتے ہیں ۔ ان کے لیے استعارے اور کنایے میں بات کرنا بہت آسان ہوتا ہے ۔ عبارت ہو یا کلام ، اس کی تفہیم اور تجزیہ دونوں نقد بتا دیتے ہیں ۔ زبان کا استدلال بہت مضبوط ہوتا ہے ۔

گرامر اور ہجے کی مضبوطی اور الفاظ کا وسیع ذخیرہ اچھی تحریر کے لازمی اجزاء ہیں ۔ اسی طرح مترادفات ، محاورات ، متضاد الفاظ اور زبان کو موضوع سے ہم آہنگ کرنا اس دائرے کے افراد کا فطری بہاؤ ہے ۔

اسی طرح عبارت اچھا پڑھنا ایک مہارت ہے وہیں خوبصورت لکھائی بھی دل و دماغ کی خوبصورتی کی علامت ہے ۔ ان کے تخلیقی نثرپارے ہمیں زندگی اور اس کے اتار چڑھاؤ کا فہم دیتے ہیں ، نظام دنیا کو بنانے اور چلانے کا سلیقہ سکھاتے ہیں ۔

فلسفہ ، ادب ، تاریخ ، سیاسیات ، اسلامیات ، معاشیات ، کاروبار اور قانون وغیرہ کے شعبوں میں ان کا کردار اساسی ہے ۔

یہ صلاحیت کم لوگوں میں ہوتی ہے کہ الفاظ کا کاروبار کریں اور روزی کمائیں ۔ اس کے علاوہ صحافت اور میڈیا کی دنیا کی وسعت انہیں اپنا ہنر آزمانے کی دعوت دیتی ہے ۔ قدرت نے انہیں بہت کچھ دے رکھا ہوتا ہے ۔ مگر اس تناسب اور بہتری کا خیال رکھنا اور وسیع مطالعہ کرنا فرد کی ذمہ داری ہے ۔

رنگ و آہنگ کا دائرہ

اس دائرے میں رہنے والے لوگ اپنے تخیّل اور احساسات و جذبات کا اظہار رنگ اور آہنگ سے کرتے ہیں ۔ یہ لوگ سوچ اور فکر میں گہرے ، مزاج میں رومانوی اور جذبات میں افسانوی ہوتے ہیں ۔ یہ آزادی اور خیالات کی دنیا کو مکمل آزاد رکھنا اور استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ لوگ معاشرے کو بہت کچھ دیتے ہیں ۔

جس نظریے کے ساتھ جڑیں گے اسے کمال تک پہنچائیں گے ۔ اسلام کے ساتھ جڑنے والوں نے بہت گہرائی میں جا کر دین کی خدمت کی ۔

رنگ و آہنگ کا دائرہ سخت محنت اور لگن مانگتا ہے ۔ اس دائرے میں کام محض روایتی انداز میں نہیں ہوتا ۔ سوچ کی پختگی اور کام کی مہارت مل کر ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں ۔ ان کی کچھ عادتیں عام لوگوں کو پسند نہیں آتیں ، اس وجہ سے ان کے راستے جلد الگ ہو جاتے ہیں اور فاصلے بڑھ جاتے ہیں ۔

مارکیٹ میں اس کے کیریئر کی آمدنی کم ہوتی ہے مگر جو لوگ وسعتِ مطالعہ اور مشاہدے کی گہرائی سے اپنا دامن بھرا رکھتے ہیں، انہیں معاشر ے کو اچھی جگہ ضرور دینی پڑتی ہے ۔ کچھ لوگ کم محنت اور عام سی بات پر بڑی کامیابی حاصل کر لیتے ہیں ۔

اس لیے تخلیقی کیریئرز میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی ۔ اہم بات یہ ہو گی کہ آپ نے جو کیا یا بنایا! کیا وہ صحیح وقت پر اورصحیح چیز ہے؟

طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے آپ کو اس دائرے میں شمار کرتی ہے ۔ وہ واقعتًا اس دائرے میں آتے ہیں یا نہیں ، اس بات کا فیصلہ تو کیریئر کونسلر کرے گا مگر انہیں یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ خیال کہاں سے آتا ہے؟ دائرہ کیسے بنتا ہے؟ اور علم کس طرح پروان چڑھتا ہے؟ ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ سماجی اور ثقافتی معیارات کا خیال کیوں کر ضروری ہے ؟ یوں تعمیر کاجو ذوق بنے گا وہ انسانی تخلیق کو چار چاند لگا دے گا ۔

سماجی اور ثقافتی دائرہ

اگرچہ ہر کیریئر کسی نہ کسی انداز میں دوسروں سے تعلق رکھنے پر زور دیتا ہے مگر اس دائرے کے افراد لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہنے میں توانائی محسوس کرتے ہیں ۔ دوسروں کی ترقی اور کامیابی میں مدد کرنا بہت اچھا لگتا ہے ۔

کسی کو مشورہ بڑے شوق سے دیتے ہیں ۔ لوگ تعلق اور عقیدت کا اظہار بھی کرتے ہیں مگر ان کی اپنی زندگی اکثر و بیشتر تنگی اور ترشی میں ہی گزرتی ہے ۔ دوسروں کے فیصلوں میں سہولت دے کر اندرونی مسرت اور بیرونی شادمانی بہت ملتی ہے مگر اپنی زندگی کا سفر آگ پر چل کر ہی کٹتا ہے ۔ اس سب کچھ کے باوجود ان کی زندگی دنیا میں قابل رشک اور قابل قدر ہوتی ہے ۔

اس دائرے کے افراد اپنی روایتی وضع داری کی وجہ سے تعلقات میں استواری کی شرط ملحوظ رکھتے ہیں ۔ یوں ان کا سوشل اکاؤنٹ بڑھتا ہی رہتا ہے ۔

ہر کسی کی بات ہمہ تن گوش ہو کر سنتے ہیں اور ذہنی برابری پر آکر اپنے مؤثر ابلاغ کے ذریعہ دوسروں کے مسائل حل کرتے ہیں ۔ انہیں بات شروع کرنے اور کسی بات کو اختتام پر لے جانے کا طریقہ خوب آتا ہے ۔ سوال پوچھنے اور رائے دینے کا موقع محل اچھے سے جانتے ہیں ۔ معذرت کرنے یا سننے کا مناسب سلیقہ ان کی فطرت میں ہوتا ہے ۔

احساسات اور جذبات کا خوبصورت اندازمیں اظہار اوردلائل و شہادت کی کاٹ اس دائرے کے افراد سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ، اسی لیے ان کے مذاکرات کامیاب ، معاملہ فہمی تیز اور ذہنی تناؤ اور دباؤ سے الگ ہو کر مضبوط قوتِ فیصلہ سے قدم بقدم کامیابی حاصل کرتے ہیں۔

سماجی اور ثقافتی دائرے کے افراد میں ذہنی وسعت کے ساتھ مزاج اور طبیعت میں لچک اور تجسس بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یوں نئی چیزوں کو لینا اور نئے نظریات کو اپنانا بہت آسان ہوتا ہے ۔ ہر ناکامی سے سیکھتے ہیں ۔ غلطی کا اعتراف فورًا کرتے ہیں ۔ کسی معاملے پر ’’ میں نہیں جانتا ‘‘ کہنے میں شرم محسوس نہیں کرتے کہ اسی سے علم اور تحقیق کے دروازے کھلتے ہیں ۔

اس دائرے کے لوگ بچوں کے قریب اور ان کے دوست ہوتے ہیں ۔ بچوں کے پروگرام ان کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتے ہیں۔ بچوں سے کھیلنا اور انہیں خاندانی رکھ رکھاؤ سکھانا ان کی اولین خواہش ہوتی ہے ۔

اس کی بڑی وجہ ان کا اپنی ذات میں انجمن ہونا اور طبیعت میں تخلیقی ہونا ہوتا ہے ۔ ثقافتی واقفیت ان کے ابلاغ کو آسان بنا دیتی ہے ۔ ہر ایک دل سے ان کا قائل ہو جاتا ہے اور صبر اور حوصلے کے ساتھ ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرتا ہے ۔

قوت عمل کا دائرہ

انسانوں میں ایک گروہ ہمیشہ ایسا رہا ہے کہ جس کی جسمانی قوت مضبوط ، تمام اعضاء مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنے والے تھے ۔ ہڈیوں کے جوڑ اور پٹھے روانی سے حرکت کرتے تھے ۔ انھیں اللہ نے بصری اور مکینیکل مہارتوں سے وافر حصہ دیا ہوتا ہے ۔

اسی لیے اپنے ہاتھ سے کام کرنا انہیں مزا دیتا ہے ۔ دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ان کے لیے دشوار تو نہیں ہوتا مگر اکیلے کام کرنے میں نتائج زیادہ اچھے نکلتے ہیں ۔ اسی طرح حالات کی سختی اور نزاکت ان کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہیں بنتی ۔

اس دائرے کے افراد کو قدرت نے تندرست جسم دیا ہوتا ہے ۔ ہڈیاں مضبوط اور پٹھے طاقتور ہوتے ہیں ۔ ان کا وزن اور ساخت متوازن ہوتی ہے۔ ہر کام کو کرنے کے لیے اللہ نے جسم میں ضروری لچک رکھی ہوتی ہے ۔ کام کے لیے اعتماد کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں اور حوصلے والا توانا دل اپنے دامن میں رکھتے ہیں ۔ ورزش کا شوق تو رگ رگ میں ہوتا ہے مگر بے قابو ورزش کر کے جسمانی نمائش میں جانے والے ان میں بہت کم ہوتے ہیں ۔

مناسب ورزش کر کے اچھی جلد رکھنے والے سماج میں زیادہ بہتر جگہ بناتے ہیں ۔ ادارے ان کے طلب گار ہوتے ہیں ۔

عام انسان ویسے بھی ان کے ساتھ رہنے اور بیٹھنے کو اچھا محسوس کرتا ہے ۔ نشست و برخاست کے خوبصورت انداز کے ساتھ ہر وقت متحرک رہنا ہر کسی کو گرویدہ بنا دیتا ہے ۔ یہ نہ تو بہت دبلے پتلے ہوتے ہیں اور نہ ہی موٹاپا چڑھا ہوتا ہے ۔ اچھا متوازن بھرا جسم ہوتا ہے ۔ رنگ جیسا بھی ہو مگر کشش رکھتے ہیں ۔

عام طور پر اس دائرے کے لوگ تین حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں ۔ ایک جن کا اوپر ذکر گزر چکا ۔ دوسرے ، چھوٹی بڑی قیادت کے مناصب پر اور تیسرا رقص و سروداور نغمہ و ساز کی دنیا ہے ۔ اس تقسیم کی بنیاد جسمانی ساخت ، گھر ، خاندان اور تعلیم و تربیت پر منحصر ہے ۔ اس دائرے کے مرد و عورت کو ہر لمحہ اللہ تعالی سے ہدایت و رہنمائی کی دعا کرتے رہنا چاہیے ۔

قدرت کا بنایا ہوا یہ دائرہ اپنے فوائد کے اعتبار سے بہت ہی اہم ہے ۔ تاریخ میں بہت سارے بڑے کام اسی دائرے کے لوگوں نے ہی کیے ہیں۔ آخر کو قوت عمل تو یہیں سے ہی ملتی ہے ۔ قدم قدم پر جن کا سانس پھولتا ہو وہ لوگ تو دنیا میں کوئی بڑا کام نہیں کر پاتے ۔

تجربے اور مشاہدے کا دائرہ

اس دائرے میں شامل افراد گہرا مشاہدہ تو رکھتے ہی ہیں ، ساتھ ہی ساتھ ان کی ذہانت اور متانت بھی کسی طرح کم نہیں ہوتی ۔ حصول علم کی جستجو انہیں بے چین رکھتی ہے ۔ وہ علم اور مشاہدہ ہی کیا ہوا جو تجربے کی بھٹی میں اپنی حقیقت کو نہ منوا سکے ۔ اس لیے ہر چیز کو تجربے کی لیب میں یا تجربے کے میدان میں ضرور لے کر جاتے ہیں ۔

ریاضی کے اصول اپنائے جائیں گے اور حیاتیات کی باریکیوں میں زندگی کے امکانات کا جائزہ لیا جائے گا ۔ فزکس اگر ریاضی کے اصولوں کو مانتی ہے تو کیمسٹری امکانات میں اضافہ کرتی ہے ۔ کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کی تیز دنیا مشاہدے میں ہی تجربے کا رنگ مانگتی ہے ، اس لیے کہ ان کی رفتار تیز اور معاشرے کے تقاضے زیادہ ہیں ۔

اس دائرے کے لوگ عام طور پر بہت حساس ہوتے ہیں ۔ بڑی دور سے بو سونگھ لیتے ہیں ۔ یادداشت بہت تیز اور مضبوط ہوتی ہے ۔ کسی بھی چیز کے بارے میں اپنی رائے بہت واضح رکھتے ہیں ۔ جذبات کے معاملے میں بہت مضبوط اور متوازن ہوتے ہیں ۔

اعداد و شمار کو ان کے متعین طریق کار کے مطابق پرکھے بغیر نہ تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی پاؤں جمنے دیتے ہیں ۔

ان کے تجربات بے ہنگم نہیں ہوتے ۔ تجربات بھی ایک طریق کار اور طرز فکر کے تحت ہوتے ہیں۔ انہیں تجربات سے محض مزا نہیں لینا ہوتا بلکہ مسئلہ تلاش کرنا ہوتا ہے ۔ خوبیاں اور خامیاں الگ الگ کرنا ہوتی ہیں ۔ نتائج کو پرکھنا ہوتا ہے تاکہ ہر تجربے سے انسانوں کو فائدہ ملے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا مزاج غیرجانبدار ہوتا ہے ۔

ہر باریک فرق کو بھی نمایاں کرتے ہیں اور نتائج عام فہم انداز میں عام کر دیتے ہیں تاکہ ہر کوئی تجزیہ کر سکے اور اپنی رائے دے سکے ۔ ان کا تجربہ اور رائے ، انسانی زندگی کو سہولت دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

کاروباری دائرہ

اس دائرے میں اپنی دنیا آپ بناتے ہیں ۔ اعتماد اور حوصلہ بڑھتا ہے ۔ مالی وسائل کو اپنے طریقے سے بڑھاتے اور اپنے کام خود کر کے اس وقت زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں جب فوائد کا رخ بھی اپنی طرف ہو ۔ ان افراد کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ملازمت میں کسی کے کام کو اپنا ہی سمجھ کر کرتے ہیں ۔

ان کے طرزِعمل کی وجہ سے ، ہر کوئی ان سے بلند توقعات اور حوصلے کی امید باندھ لیتا ہے ۔ یہ اچھے موقع کی تلاش اور کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔

یہ لوگ اقتصادی سرگرمیاں بڑھا کر تجارت اور پیداوار کے فوائد میں اضافہ کرنا خوب جانتے ہیں ۔ غیر یقینی حالات میں بھی خطرات کو ایک طرف کر کے آگے بڑھنے کے راستوں سے واقف ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ غیر قانونی راستے نہیں اپناتے ۔

تعلیمی قابلیت میں مسلسل اضافہ کرتے ہیں ۔ بہترین مارکیٹنگ پلان کے ذریعہ ہمعصروں سے مقابلہ کرتے ہیں اور اپنے کام کو بڑھاتے بھی ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ اہل اور قابل افراد کے لیے کشش پیدا کر دیتے ہیں ۔

ان کی غیر روایتی سوچ ، منصوبہ بندی میں جدت کو نمایاں کر دیتی ہے ۔ اشتراک عمل اور بات چیت میں وسعت قلبی سے امکانات کے دروازے کھلتے اور باصلاحیت افراد کی قربت کے راستے آسان ہو جاتے ہیں ۔

اللہ نے انھیں قیادت جرات مندانہ اور کام والہانہ انداز میں کرنے کی نعمت سے نوازا ہوتا ہے ۔ جہاں کاروباری مہم کی کامیابی پر انعام زبردست ہوتا ہے وہیں ذمہ داری کا محاسبہ سخت ہوتا ہے ۔ ان کا رویہ ریشم کی طرح نرم اور نظم لوہے کی طرح حزم ہوتا ہے ۔

کاروباری دائرے کے افراد کی کامیابی ایمانداری سے مشروط ہے ۔ ان کے اچھے بول اور اپنی ثقافت سے پیار ان کی مجلس کو وسیع بھی کرتا ہے اور طویل بھی۔ اپنے تجربات سے دوسروں کو فائدہ دیتے ہیں اور دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے بھی ہیں ۔ دنیا میں خوش حالی زیادہ تر ان سے وابستہ ہوتی ہے ۔

قیادت کا دائرہ

دائروں کی دنیا میں ایک دائرہ وہ ہے جس میں ہر کوئی باوقار انداز رکھتا ہے ۔ خوداعتمادی اور کردار کی عظمت شخصیت میں کشش اور قیادت میں روح ڈال دیتی ہے۔

مستقبل پر گہری نظر اور ذہانت ، کل کے منظرنامے کو بہت صاف اور شفاف انداز میں پیش کرتی ہے ۔ سیاسی فہم ، انتظامی مہارت اور اقدار سے وابستگی انہیں ایک خاص مقام پر لے جاتی ہے ، جہاں عام حالات میں پہنچنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے ۔

اس دائرے میں بات اختصار سے کی جاتی ہے اور بین السطور باتوں کو فوراً سمجھ لیا جاتا ہے ۔ معلومات اور اعداد و شمار میں خاموش ترتیب کو سمجھنا اور پیچیدہ اور بے ترتیب معلومات جوڑ کر اصل کہانی تک پہنچنا ان کی دلچسپی کا کام ہے ۔

گراف اور کرنسی کو سمجھنے کی مہارت قدرت نے طبیعت میں رکھی ہوتی ہے ۔ الفاظ اور جملوں کی گہرائی سے منطقی نتیجہ حاصل کر کے مضبوط فیصلہ کرنے کی صلاحیت انہیں سماج میں نمایاں کر دیتی ہے ۔

قیادت عوام کی کرنی ہو یا کسی ادارے کی یا کسی چھوٹے بڑے پراجیکٹ کی ، ان کی نظر ہر جانب ہو گی ۔ آخری نتیجے کو سامنے رکھ کر یہ خود ہی منصوبہ بندی کریں گے اور خود ہی متحرک رہیں گے ۔ ایک بار فیصلہ کر لینے کے بعد تبدیلی ناممکن ہوتی ہے ۔ حالات موافق ہوں یا ناموافق ان کا اعتماد اور تخلیقی صلاحیت اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے ۔

یہ لوگ ہر دم تیار اور پْرسکون ہونے کی وجہ سے اپنی پہلی نظر مثبت رکھتے ہیں اور امید کا دامن نہیں چھوڑتے ۔ مزید یہ کہ ان کی مستقل مزاجی ، وسعت نظر اور تجزیاتی سوچ ، متعین اہدا ف کا حصول آسان بنا دیتی ہے ۔

اللہ نے انہیں بہت اچھی قوت اظہار دی ہوتی ہے اس لیے بوقت ضرورت کھلا اظہار کرتے ہیں اور پیش آنے والی کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ۔ لہٰذا جہاں یہ ہوں گے وہاں قیادت کسی دوسرے کو جچے گی نہیں اور خود ہی گھوم کر ان کے پاس آجائے گی ۔

تنظیم و اہتمام کا دائرہ

دائروں کی دنیا میں یوں تو ہر دائرہ بہت اہم ہے مگر کاروبار دنیا چلانے میں تنظیم و اہتمام کے دائرے کی الگ اہمیت ہے ۔ مالی معاملات ہوں یا قانونی معاملات ، سرکاری ہوں یا نجی ، چھوٹے ہوں یا بڑے ، افراد کا مؤثر استعمال ہو یا مواد کا ، ان کاموں میں تنظیم و اہتمام اس دائرے کے افراد ہی کر پاتے ہیں ۔

میرے اللہ نے اپنی دنیا کو یونہی تو دائروں میں تقسیم نہیں کر رکھا ہے ۔ یہ لوگ فکری اور نظری اعتبار سے بہت پختہ ہوتے ہیں ۔ وہ تنقیدی سے پہلے تخلیقی سوچ رکھتے ہیں۔

اسی لیے فیصلہ سازی مثبت بھی ہوتی ہے اور بروقت بھی۔ مسائل کی جڑوں تک پہنچنا آسان ہوتا ہے۔ انتظام اور اہتمام دفتر بہت عالی شان ہوتا ہے ۔ ان کے کام اور ذات میں بہترین توازن ہوتا ہے ۔ یوں اپنا بھی خیال رکھتے ہیں اور ادارے کے وقت اور وسائل کا بھی ۔

ان افراد کو جب بھی دیکھیں ، ان کی ترجیحات بہت واضح ہوتی ہیں ۔ دباؤ ان کی صلاحیت پر اثرانداز نہیں ہوتا ۔ دباؤ کے باوجود ان کا دل اور دماغ اپنے مقصد کو بھولتا نہیں بلکہ خود بخود کام میں لگا رہتا ہے ۔

اس دائرے کے لوگ بہت باریکی سے تجزیہ کرتے ہیں ۔ بڑے بے رحم انداز سے ہر بات کا جائزہ لے کر ایسی منصوبہ بندی کرتے ہیں جس میں نہ تو کوئی ضد ہوتی ہے اور نہ ہی سارے کام ایک دو لوگوں کے گرد گھوم رہے ہوتے ہیں ۔

آپ مشاہدہ کریں گے کہ ان کی بات بہت واضح ہے ۔ ہر کام میں پابندی وقت ان کی ذات کا نمایاں پہلو ہے۔ ہر فرد کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتے ہیں ۔

اسی وجہ سے ان کے کام بہت معیاری ہوتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ اعلیٰ عہدوں کے قابل امیدوار ہوتے ہیں ۔ انتظامیہ ، بینکنگ، اکاؤنٹینٹس، اسی طرح کے دیگر شعبوں میں ان کی اہلیت کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے ۔ ( مضمون نگار کیریئر کونسلر اور ایجوکیشنل ایڈوائزر ہیں )

The post دائروں کی دنیا میں آپ کا دائرہ کون سا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

بڑے سوالوں کے مختصر جواب
مصنف: اسٹیفن ہاکنگ، ترجمہ: محمد احسن ، قیمت:600 روپے، صفحات: 220
ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز، علی پلازہ ، سیکنڈ فلور ٹیمپل روڈ، لاہور(03009482775)

اسٹیفن ہاکنگ سائنس کی دنیا کا ایسا نام ہے جس نے ایسے سائنسی نظریات پیش کئے جس سے نئی جہتوں کا تعین ہوا ۔ خدا کا وجود، کائنات کیسے بنی ، انسان کہاں سے آیا؟ اور ایسے ہی دیگر سوالات ہمیشہ انسانی دماغ کو چبھتے رہتے ہیں اور وہ کسی نہ کسی طرح اس کی توجیح تلاش کرتا رہتا ہے ۔

اسٹیفن ہاکنگ نے ان سوالات کو سائنسی بنیادوں پر پرکھا تو ان کے نظریات نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا ۔ البرٹ آئن سائن اور نیوٹن کے ساتھ ان کا نام لیا جاتا ہے ۔

انھوں نے اپنی معذوری کو سدراہ نہ ہونے دیا اور فلکیات کی سائنس کو اتنا آگے بڑھا دیا کہ آنے والی نسلوں کے لئے نئے راستے کھل گئے ۔

اسٹیفن ہاکنگ کو اللہ تعالیٰ نے ذہن رسا عطا فرمایا تھا ، لوگ ان سے ان سوالوں کے جوابات جاننا چاہتے تھے جو صدیوں سے جواب طلب تھے ، اسٹیفن اپنی معذوری کی وجہ سے چونکہ کمپیوٹر کے ذریعے جواب دیتے تھے اس لیے ان کا ہر جواب ان کے کمپیوٹر اور دیگر ذاتی ٹیکنالوجی آلات میں موجود تھا ۔

کبھی وہ جواب یونہی چند سطروں پر مشتمل ہوتا تھا ، کبھی تقریر کی صورت ، کبھی انٹرویو کی صورت اور کبھی مختلف نوعیت کے مضامین کی صورت ہوتا تھا ، زیر تبصرہ کتاب اسی قیمتی مواد سے تخلیق ہوئی ہے جو ان کی زندگی میں تو شائع نہ ہو سکی تاہم ان کے بعد ان کے رفقاء نے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے سب کچھ عقلی دلائل سے ثابت کیا ہے جیسے جسم کے اندر روح بھی ہے مگر اسے عقلی دلائل سے ثابت کرنا مشکل ہے کیونکہ جن حواس خمسہ سے تحقیق کرنے کا رواج ہے اس میں روح کو پرکھنا تقریباً ناممکن ہے تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ روح تو انسانی جسم میں موجود ہے مگر حواس خمسہ سے اسے دیکھا یا سمجھا نہیں جا سکتا، کیونکہ روح کو روح سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

اسی سائنسی طریقہ استدلال کی وجہ سے اسٹیفن صرف جسم کی بات کرتے ہیں ۔ کائنات پر غور و فکر کے لئے انتہائی مفید کتاب ہے، اس لئے اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

اچھی گزر گئی
مصنف: محمد سعید جاوید، قیمت:4000 روپے، صفحات:560
ناشر: بک ہوم مزنگ روڈ، لاہور (03014568820)

اپنی زندگی کے پرت دوسروں کے سامنے کھول کر رکھ دینا کوئی آسان کام نہیں ، اسی لئے اکثر لکھاری اس طرف نہیں آتے ، بہتوں نے تو آپ بیتی کو ناول کی شکل دیدی تاکہ پردہ بھی رہے اور دل کی بات بھی ہو جائے ۔

آپ بیتی سے جہاں ادیب اپنی زندگی دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے وہیں اس سے نئی نسل کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے کیونکہ آپ بیتی میں بیان کئے گئے تجربات دوسروں کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں ۔

ممتاز ادیب و صحافی الطاف حسن قریشی کہتے ہیں ’’ اچھی گزر گئی ‘‘ ایک ایسے مرد خود آگاہ کی آپ بیتی ہے جس نے دشت غربت میں آنکھ کھولی اور وہ سرد اور گرم تھپیڑے کھاتا، بل کھاتے راستوں سے گزرتا ہوا، ایک ایسے بلند مقام تک آ پہنچا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔

یہ آپ بیتی زندگی سے معمور، جیتی جاگتی ، مسکراتی اور احساس کی تپش کے ساتھ ایک ایسی دلچسپی کا رنگ اختیار کر گئی ہے جسے شروع کرنے کے بعد چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ ایک خوبصورت اور جاں افروز منظر کے اندر سے ایک نیا حیرت کدہ تخلیق ہوتا ہے۔

واقعات کی بوقلمونی ، کرداروں کا تنوع اور ملکی حالات کے تاریخی پرتو سے یہ آپ بیتی ایک شخص سے ماورا ایک عہد کی جگ بیتی محسوس ہوتی ہے ۔‘‘ معروف ادیب امجد اسلام امجد کہتے ہیں ’’ محمد سعید جاوید کی اس کتاب کا غالب حصہ ان کے بچپن اور لڑکپن کے واقعات ، یادوں اور یادداشتوں پر مبنی ہے انھوں نے اس حوالے سے بہت سے کرداروں کے خاکے بھی لکھے ہیں۔

ان میں سے بیشتر اس خوب صورتی اور فن کاری سے لکھے گئے ہیں کہ کئی کردار آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے محسوس ہونے لگتے ہیں ۔‘‘ مصنف کا انداز بیان بہت دلچسپ اور شستہ ہے وہ چھوٹی چھوٹی جزیات کو بھی بڑی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔ بہت سے قارئین کو ایسا محسوس ہو گا کہ یہ تو گویا ان کے ساتھ بیتا ہے ۔ کتاب کو رنگین تصاویر سے مزین کیا گیا ہے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

آئین کا مقدمہ
مصنف : سعید آسی، قیمت : 2500 روپے
ناشر : قلم فائونڈیشن، بنک سٹاپ ، والٹن روڈ ، لاہور کینٹ
رابطہ : 03000515101

زیر نظر کتاب پاکستانی صحافت کے نامور مجاہد جناب سعید آسی کے کالموں کا مجموعہ ہے ۔ مصنف ایک طویل عرصہ تک عدالتوں میں رپورٹنگ کرتے رہے، اس لئے انھوں نے وہاں جو کچھ دیکھا ، سنا ، محسوس کیا ، وہ انھیں آئین کا مقدمہ لڑنے کے لئے ابھارتا رہا ۔ ’ حرف اول ‘ کے عنوان سے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں :

’’جنھیں آئین و قانون کی پاسداری و عمل داری کے ذریعے جمہوری نظام کو چلانا ، سنبھالنا اور مستحکم بنانا چاہیے وہ آج آئین شکنی کی نادر مثالیں قائم کر رہے ہیں۔

آئین کے تحت قائم ریاستی اداروں کی بھد اڑا رہے ہیں… مجھے یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے کہ آج کا غتر بود کلچر ہمیں پتھر کے زمانے کی جانب واپس تو نہیں لے جا رہا۔ اسی سوچ نے مجھے ’’ آئین کا مقدمہ‘‘ آپ کے سامنے پیش کرنے پر مجبور کیا ہے… یہی آئین پاکستان کا مقدمہ ہے کہ اس کی حفاظت کے ذمہ داروں کے ہاتھوں اس کی کیوں درگت بن رہی ہے اور اب اس وطن عزیز کو آئین و قانون کی عمل داری کے راستے پر واپس لایا بھی جا سکے گا یا نہیں۔‘‘

ان حالات میں ایک عام پاکستانی کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی ، ایک ایسا شخص جو ایک طویل عرصہ سے اس سارے بنتے بگڑتے کھیل کو بہ نظر غائر دیکھ رہا ہو، اس کے اضطراب کا کیا عالم ہوگا ! ظاہر ہے کہ وہ بدترین آئین شکنی کے نتائج و عواقب سے بھی بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔

اگر ایسا شخص خوف زدہ ہو جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسئلہ کس قدر سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔

جناب سعید آسی تحریک پاکستان کے ایک سرگرم کارکن کے بیٹے ہیں، اس لئے وہ نظریہ پاکستان کے محافظوں کے ہراول دستے میں شامل ہوئے اور پھر کبھی اس سے الگ نہیں ہوئے۔

وہ آج بھی اس محاذ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ انھوں نے اپنے کالموں میں جو کچھ لکھا ، وہ پاکستان کی حالیہ سیاسی اور آئینی تاریخ کی ایک اہم ترین گواہی ہے۔

مجھے امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعے سے ایک ایسی نسل تیار ہوگی جو آئین کی پوری جرات و دلیری سے حفاظت کرے گی۔ اسی کی وطن عزیز کو ضرورت ہے۔ ’ قلم فائونڈیشن ‘ نے کتاب کو اس کے شایان شان ، نہایت اہتمام سے شائع کیا۔

قصہ چار نسلوں کا
مصنف : قیصرہ شفقت، قیمت : 700 روپے
ناشر : بک کارنر ، جہلم ، رابطہ : 03215440882

یہ ایک ایسی پٹھان خاتون کی خودنوشت ہے، جن کے آبائو اجداد صدیوں پہلے شمالی افغانستان کے دور افتادہ سرسبز پہاڑوں سے نیچے اترے اور ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے میں آبسے۔ مصنفہ پہلے ’ آرمی پبلک سکول ‘ اور پھر ’ او پی ایف ‘ سکول میں پڑھاتی رہیں۔

ان کی یہ منفرد خود نوشت پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی عام سی خاتون نہیں ہیں۔کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے اچانک گمان ہوتا ہے جیسے ہم کلاسیک ادب کی کوئی چیز پڑھ رہے ہیں، اس تناظر میں وہ کہیں قرۃ العین حیدر لگتی ہیں ،کہیں امرتا پریتم اور کہیں عصمت چغتائی۔ یہ کتاب آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔کہیں ناول اور کہیں سفرنامہ ۔ آپ کو اس میں شخصی خاکے بھی پڑھنے کو ملیں گے اور کتب پر تبصرے بھی۔

کتاب پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ شوخ طبیعتوں کے حامل ایک خاندان کا حصہ ہیں، ایک کونے میں بیٹھے سب کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں، اس خاندان کے افراد کی اٹکھیلیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔

مصنفہ نے جس انداز میں یہ ساری باتیں لکھیں، ہر کوئی نہیں لکھ سکتا ۔ ایک عمومی خیال ہے کہ ہر بات ہر کسی کو بتانے والی نہیں ہوتی لیکن مصنفہ نے کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا۔ اپنے بزرگوں کا شوخ تذکرہ کیا۔

اپنے آپ کا مذاق اڑایا ، اپنے بچوں اور پھر ان کے بچوں کا بھی۔ جی چاہتا ہے کہ ان کی کچھ ایسی شوخ باتیں یہاں نقل کروں لیکن مجھے بھی ہمت نہیں ہو رہی۔ اس لئے آپ سے التماس ہے کہ چار نسلوں کا یہ منفرد قصہ خود ہی پڑھ لیں۔

مصنفہ نے بالکل درست لکھا :’’ جب آپ عمر کے خاص دور میں تنہا اپنے کمرے میں بیٹھے ہر ایک لمحے کو جینا چاہتے ہوں ، چھونا چاہتے ہوں تو یادداشتیں یوں صفحات پر منتقل ہوتی ہیں۔

مجھے زندگی جہاں سے یاد آتی رہتی ہے، میں لکھتی رہتی ہوں۔ تسلسل کی کمی یوں بھی نہ لگے گی کہ ہر گزرے اور موجودہ لمحات کو میں آپس میں بُن لیتی ہوں۔ لمحہ لمحہ جوڑ کر یوں لگا جیسے چڑیا ماں تنکا تنکا چن کر گھونسلا بناتی ہے۔‘‘

کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ مصنفہ پاکستانی سیاست اور انسانی تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں، انقلاب فرانس ، روس و چین کے سرخ انقلابات سے بھی خوب واقف ہیں۔

حالانکہ کم ہی خواتین ایسے انقلابات سے کچھ لینا دینا رکھتی ہیں۔ اسی طرح وہ اردو ادب بلکہ عالمی ادب کی بھی رسیا ہیں۔ اس تناظر میں آپ ایک رنگا رنگی سے لطف اندوز ہوں گے۔ یہ کتاب پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر گزارنے والے ہر بزرگ سے کہوں کہ محترمہ قیصرہ شفقت کی راہ پر

چلیں، ان کی طرح لکھیں اور نئی نسل تک اپنے فکری اثاثے منتقل کریں۔

عقیدت کے پھول (حمدیہ ونعتیہ کلام)
شاعر: شکیل فاروقی، ناشر: نعت ریسرچ سینٹر، کراچی
صفحات:85، قیمت: 600 روپے

اللہ رب العزت کی حمد وثناء اور رسول مقبول ﷺ کی مدح اور آپؐ سے اظہارِِعشق نثر کی صورت میں ہو یا شعر کی، بہت بڑی سعادت ہے۔

یوں تو اردو کا شاید ہی کوئی شاعر ہو جس نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو رب کی شان میں حمد اور نبیٔ مکرم ﷺ کی نعت کہہ کر اپنی عزت نہ بڑھائی ہو، جن میں غیرمسلم اہل سخن بھی شامل ہیں، لیکن بہت سے ایسے خوش نصیب ہیں جنھوں نے تواتر سے اور بڑی تعداد میں گل ہائے عقیدت پیش کیے جو مجموعوں کی شکل میں اپنی خوشبو بکھیر رہے ہیں۔

بزرگ شاعر شکیل فاروقی بھی ان خوش نصیبوں میں شامل اور عشق خدا ورسولؐ کے پاکیزہ جذبات کو اشعار میں ڈھالنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔

ان کی حمدوں اور نعتوں کا مجموعہ ’’عقیدت کے پھول‘‘ کا ہر مصرعہ اس روشنی سے دمک رہا ہے جو ان کی آنکھوں میں تو بجھ چکی ہے لیکن دل کو پوری طرح تاباں کیے ہوئے ہے۔

شکیل فاروقی کالم نویس کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے ہیں اور ان کے کالم روزنامہ ایکسپریس کے ادارتی صفحے کی زینت بنتے ہیں، اس کے علاوہ انھوں نے اردو کے ساتھ انگریزی میں بھی سخن آرائی کی ہے اور ان کی انگریزی نظموں کا مجموعہ ’’شیڈوز‘‘ کے نام سے شایع ہوچکا ہے۔

’’عقیدت کے پھول‘‘ میں شامل حمدوں اور نعتوں کی بابت کتاب میں شامل اپنے مضمون میں ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں،’’ان کی نعتیہ شاعری میں ذاتی احساسِ ندامت، حبِ نبوی علیٰ صاحبہالصلوٰۃ والسلام کی تپش، بھٹکے آہو کو سوئے حرم لے جانے کی آرزو اور اتباعِ نبوی ﷺ کی ترغیب شامل ہے۔ شکیل صاحب کی نعتیہ شاعری پر اردو کلاسیکی شعری بوطیقا کا پرتو ہے۔

انھوں نے بڑی سادگی سے اپنے جذبات واحساسات کا عکس قرطاس پر اتارا ہے۔‘‘ معروف نعت گو شاعر جناب صبیح رحمانی فرماتے ہیں،’’شکیل فاروقی کی نعتوں میں یہ پیغام بڑے اعتماد سے جلوہ گر ہے کہ نامِ محمدؐ اور پیامِ محمدؐ سے پیوستگی ہی واحد ذریعۂ فلاح ونجات ہے۔‘‘

یہ دو آراء ہی اس خوب صورت مجموعے اور شکیل فاروقی صاحب کے حمدیہ ونعتیہ کلام کی خصوصیات کا تعارف کرانے کے لیے کافی ہیں۔ کتاب کا سرورق دل کش اور طباعت عمدہ ہے۔ امید ہے یہ کتاب حمدونعت کے اردو مجموعوں میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوگی۔

عاشق مست جلالی
مصنف : محمد اظہار الحق، قیمت : 1195 روپے
ناشر : بک کارنر، جہلم ، رابطہ : 03215440882


مصنف گریڈ بائیس کے اعلیٰ سرکاری افسر تھے، جب ریٹائر ہوئے۔ پاکستان کے سب سے بڑے گریڈ والے اس افسر سے ملنے، جاننے والے کہتے ہیں کہ وہ اعلیٰ ترین افسر ہوکر بھی افسر نہ تھا ، بس ! ایک عام ، سادہ سا دیہاتی۔ جناب محمد اظہار الحق دیہاتی کے طور پر پیدا ہوئے اور پھر ساری عمر پینڈو رہے اور اسی پر فخر کرتے رہے۔ اب بھی پینڈو کے پینڈو ہی ہیں۔

ضلع اٹک کے جس گھرانے میں پیدا ہوئے ، وہاں ماحول علمی و ادبی تھا ، دادا علاقے کے معروف عالم دین ۔ والد اردو ، فارسی کے شاعر اور انہی دونوں زبانوں میں متعدد کتابوں کے مصنف ۔ اس ماحول میں پلنے بڑھنے والے محمد اظہار الحق نے پہلے ایم اے اکنامکس کیا ، پھر ایم اے عربی بھی کیا۔

اردو ، انگریزی ، فارسی کے بعد افغان ازبکوں سے ازبک زبان بھی سیکھی۔ موخرالذکر دونوں زبانیں انھیں وسطی ایشیا کے علمی و ادبی دوروں میں خوب کام آئیں ۔

محمد اظہار الحق کی پہلی پہچان تلخی بھرے شاعر کی ہے ۔ چالیس برس قبل ( 1982ء ) میں پہلا شعری مجموعہ ’ دیوار آب ‘ شائع ہوا۔ اس پر انھیں ’ آدم جی ایوارڈ ‘ ملا ۔ دوسرا شعری مجموعہ ’ غدر‘ ، تیسرا ’ پری زاد‘ ، چوتھا ’ پانی پہ بچھا تخت ‘۔ پانچواں مجموعہ بھی عنقریب شائع ہوگا۔ جدید غزل کے رجحان ساز شاعر ہیں۔

تیس برس قبل (1992ء میں ) کالم نگاری شروع کی۔ انگریزی اور اردو زبانوں میں کالم شائع ہوتے رہے۔ اردو میں کالم نگاری اب بھی جاری ہے۔کالموں کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں: ’ تلخ نوائی ‘ اور ’ میری وفات ‘۔

محمد اظہار الحق اپنے بارے میں کہتے ہیں :’’ زندگی نے اس فقیر کو بہت کچھ دیا۔گائوں کے پس منظر کے ساتھ شہر کی زندگی بھی دیکھی! مغربی پاکستان کا ہو کر مشرقی پاکستان کو بھی اچھی طرح دیکھا اور سمجھا۔ درسگاہ میں دو زانو بیٹھ کر فقہ اور فارسی کے اسباق پڑھے اور اندرون ملک یونیورسٹیوں اور بیرون ملک جدید ترین اداروں میں بھی تعلیم حاصل کی۔

اعلیٰ ترین سرکاری ملازمت کو بھی اندر باہر سے دیکھا ۔ شاعروں اور ادیبوں کو بھی قریب سے دیکھا۔ ملک کے شہروں، قصبوں اور قریوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے پسندیدہ مقامات پر گیا۔‘‘

مندرجہ بالا تعارفی سطور سے محمد اظہار الحق کی جو شبیہہ ابھرتی ہے، وہ زیر نظر کتاب میں پوری باریکی اور تفصیل سے نظر آتی ہے۔

قاری ان کی خوبصورت نثر پڑھ کر جھومتا ہی رہ جاتا ہے۔ خوبصورت شعر کہنے والے کی نثر بھی بہ درجہ کمال خوبصورت ہے۔

نثرپاروں کے اس مجموعہ کے آٹھ ابواب ہیں۔ یہاں انھوں جو نثر پارے لکھے، ان سے مصنف کی اپنی زندگی کا احوال معلوم ہوتا ہے یعنی ایک خود نوشت کا مزہ ملتا ہے۔

بعض تحاریر ان کے سیر و سفر کی جھلکیاں ہیں، ایک باب میں شخصی خاکے ہیں، دیگر ابواب میں سماجی مسائل پر بات کرتے ہیں اور پوری شدت کے ساتھ تلخ نوا ہوتے ہیں ۔ ’عاشق مست جلالی ‘ کے عنوان سے آپ کو ایسی تحریریں پڑھنے کو ملیں گی جو بچھڑے زمانوں اور آنے والے وقتوں کی بیک وقت نقیب ہیں۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

انار

$
0
0

واہ کینٹ: انار کا شمار خوش ذائقہ اور دل کش پھلوں میں کیا جاتا ہے۔

اس کی ساخت گول اور سائز لیموں کے پھل سے چکوترے کے سائز کے برابر ہوتا ہے۔ یہ پھل اپنے ذائقے میں کھٹا میٹھا اور رس دار ہوتا ہے۔ اس کا چھلکا سخت اور موٹی جلد والا ہوتا ہے۔ یہ اندر سے سرخ گلابی بیجوں سے بھرا ہوتا ہے۔

ماہرین نباتات کے مطابق ایک انار میں دو سو 200 سے لے کر چودہ سو 1400 تک دانے یا بیج پائے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان بیجوں کو کچا، بطور سلاد، پکوانوں میں، اناردانے کی صورت میں اور چٹنی میں ڈال کر استعمال کیا جاتا ہے۔

انار مشرق وسطی اور براعظم ایشیا میں کثرت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے پودے جھاڑی نما ہوتے ہیں جن کی لمبائی 5 سے 10 فٹ یعنی 16 سے 33 فٹ اونچائی تک ہوسکتی ہے۔ انار کے پودوں کو سولہویں کے آخر میں ہسپانوی امریکا اور 1779ء میں ہسپانوی آبادکاروں نے اسے کیلفورنیا میں متعارف کروایا تھا۔

یہ پھل عام طور پر جنوبی کُرّے میں مارچ سے مئی تک اور ستمبر سے فروری تک کھانے کو ملتا ہے۔ انار کی ایک سے زیادہ کانٹے دار شاخیں ہوتی ہیں۔

اس کے پودے طویل عرصے تک پھل دیتے ہیں۔ فرانس میں کچھ پودوں کی عمر دو سو 200 سال تک شمار کی گئی ہے۔ انار کی کاشت جنوبی ایشیا اور بحیرۂ روم کے علاقے میں کئی ہزار سال سے ہوتی ہوئی آرہی ہے۔

اس کی تاریخ پانچویں صدی قبل از مسیح سے ملتی ہے، کیوںکہ انار بہت پہلے پھل دار درختوں میں سے ایک ہے جس کی طبی خصوصیات کو ہزاروں سال سے تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔

انار کا جوس طویل عرصے سے یورپ اور مشرق وسطی میں مشروب کے طور پر مشہور ہے۔ اب امریکا یورپ اور کینیڈا میں بھی بطور مشروب اس کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے۔ ایک عام اوسط انار کا وزن 282 گرام تک ہوتا ہے۔

اقسام: یوں تو انار کی 500 اقسام ہیں، البتہ قابل کاشت تقریباً 20 اقسام ہیں جن کی رنگت سائز اور حجم مختلف ہے۔ انار زیادہ تر سرخ، گلابی، سبز، پیلے یا بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔ چند مشہور اقسام مندرجہ ذیل ہیں۔

اینجل ریڈ: اس قسم کے پودے تقریباً دس فٹ اونچے اور دس فٹ چوڑے ہوتے ہیں۔ دیگر اقسام کے مقابلے میں ان کی اونچائی 20 یا 30 فٹ زیادہ ہوتی ہے۔

اس پودے کو سرخ نارنجی رنگ کے پھول کھلتے ہیں۔ کٹائی کے موسم کے بعد ستمبر کے شروع میں یہ پھول گر جاتے ہیں۔ بیج کافی نرم اور رس دار ہوتے ہیں۔ اس کا ذائقہ روایتی انار کے مقابلے میں ہلکا اور کم تیزابیت والا ہوتا ہے۔

پرپل ہارٹ:یہ انار کی ایسی قسم ہے جسے اگنے کے لیے کافی جگہ درکار ہوتی ہے۔ اس کی اونچائی 16سے 20 فٹ کے درمیان ہوتی ہے۔

موسم گرما میں پھول جھرمٹوں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ پھل کا ذائقہ میٹھا اور تیزابی ہوتا ہے۔ یہ جوس بنانے کے لیے بہترین پھل ہے۔یہ قسم موسم خزاں میں پھل دیتی ہے۔

ریڈ سلک: یہ ایسی قسم ہے جسے چھوٹے باغات اور صحن میں اگایا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے پودے آٹھ فٹ اونچائی تک ہوتے ہیں۔

یہ قسم چھوٹی جگہوں کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ اس کی دیکھ بھال میں بہت کم محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس قسم کے پودے چھوٹے سائز کے باوجود بھی اعلی پیداوار کے حامل درخت ہیں۔ ریڈ سلک یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ڈیوس کالج آف ایگریکلچرل اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز کے ذریعے عوام تک پہنچایا گیا۔

ریڈ سلک کے پودے چھوٹی عمر میں پھل دینا شروع کر دیتے ہیں۔ عموماً پودے 1یا 2 سال کے دوران پھل دینا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ قسم زیادہ تر اگست اور ستمبر کے مہینوں میں دست یاب ہوتی ہے۔ یہ پھل حیرت انگیز طور پر سرخ ہوتا ہے اور ذائقے میں سرخ بیر سے مشابہت رکھتا ہے۔

ڈیورف: اس قسم کے پودے اپنی قدوقامت میں چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس کے پھل اور پھولوں کے بڑے ہونے کی توقع نہیں ہو سکتی۔

موسم گرما میں پھول نارنجی سرخ رنگ کے کھلتے ہیں۔ جب پھل پک جاتے ہیں تو صرف پھل بھی چھوٹے نارنجی کی طرح نظر آتے ہیں۔ یہ بونے انار کھانے کے قابل ہوتے ہیں اور ان کا ذائقہ تیزابی ہوتا ہے۔

آریانا: یہ انار کی بہترین قسم ہے۔ اس قسم کے درخت ستمبر سے اکتوبر کے وسط درمیانے سائز کا پھل دیتے ہیں۔ پکے اناروں میں عام طور پر چمک دار سرخ رنگ کے چھلکے ہوتے ہیں۔

بیج اندر سے نرم اور ذائقہ دار ہوتے ہیں۔ اسے تازہ کھانے کے علاوہ اس کا جوس بھی بہترین ہے۔ اس قسم کو ایک مشہور روسی نباتات ڈاکٹر گریگوری لیون نے دریافت کیا تھا۔

گراناڈا: گراناڈا کا مطلب ہسپانوی میں ’’انار‘‘ ہے۔ اس کے پھول گہرے سرخ ہوتے ہیں اور پھل بھی گہرے سرخ رنگ کے ہوتے ہیں۔

ان کی خاص خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک ماہ قبل پک جاتے ہیں۔ ان کا ذائقہ قدرے کم کھٹا ہوتا ہے۔ اس کی کاشت ستمبر میں ہوتی ہے۔ عموماً درختوں کی اونچائی 7 سے 33 فٹ تک اونچی ہوتی ہے۔

پرفینیکا: کچھ لوگوں کے نزدیک اس قسم کو ’’روسی انار‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پختگی کے وقت درخت کی اونچائی دس فٹ تک ہوتی ہے۔ عموماً درخت چھوٹی عمر میں پھل دینا شروع کر دیتے ہیں۔ پھل پہلے یا دوسرے سال تک شروع ہو جاتا ہے۔

اکثر اس کے پھل کو خوب صورت رنگ، چھوٹے اور نرم بیجوں کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے۔ اس کے دانے رس دار، متوازی اور کھٹا میٹھا ذائقہ برقرار رکھتے ہیں۔

ساکوٹران:  ساکوٹران یمن سے تعلق رکھتا ہے، جس سے انار کا جدِامجد سمجھا جاتا ہے۔ یہ الگ تھلگ پودا جزوی طور پر مقبول نہیں ہے، کیوںکہ یہ صرف ایک مقررہ جگہ پر رہتا ہے جب کہ اس کے دوسرے بہن بھائی پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ پختگی کے وقت ان کی اونچائی 8 سے 15 فٹ تک ہوتی ہے۔

اس پودے کو موسم سرما سے اگلی گرمی تک پھول کھلتے اور پھل لگتے ہیں۔ پکنے پر پھل پیلے سبز یا بھورے سرخ ہوجاتے ہیں۔ یہ پودا پانچ یا چھے سال بعد پھل دینا شروع کرتا ہے۔ اس کے بیج کڑوے ہوتے ہیں اور منہ میں برا ذائقہ چھوڑتے ہیں۔

اس کا پھل طبی لحاظ سے زیادہ موزوں ہے، کیوںکہ اس کے چھلکے کو کھانسی اور زخموں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی لکڑی سے چھوٹے اوزار بنائے جاتے ہیں۔

ایور سویٹ: پختگی پر پودوں کی اونچائی آٹھ سے بارہ فٹ تک ہوتی ہے۔ یہ پودے گھر یلو باغ میں اگانے کے لیے موزوں ہیں۔

انہیں ٹھنڈی آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ قسم زیادہ تر بیجوں کے بغیر ہوتی ہے۔ عموماً پودے پہلے سال میں ہی پھل دینا شروع کردیتے ہیں۔

پھل کی رنگت سرخی مائل گلابی ہوتی ہے۔ عموماً پھل اگست اور اکتوبر کے درمیان کٹائی کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ قدرتی طور پر ذائقہ میٹھا اور اس میں ہلکی کھٹاس ہوتی ہے۔

ونڈر فل:  یہ پھل ریاست ہائے متحدہ کی سب سے مشہور قسم ہے۔یہ ایسی قسم ہے جو امریکا کی منڈیوں کی 95 فی صد طلب پوری کرتی ہے۔ یہ زیادہ تر گروسری اسٹورز پر دست یاب ہوتی ہے۔ یہ پودا سورج سے محبت کرتا اور خشک سالی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پختگی پر پودے عموماً آٹھ سے بارہ فٹ اونچے ہوتے ہیں۔

اس قسم کے پودے کو پہلے سال تک باقاعدگی سے پانی دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر پھل اور پھول موسم بہار اور گرما میں کھلتے ہیں۔ پھل اکثر 6 یا 7 ماہ بعد کٹائی کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ پھل رنگت میں سرخ ذائقے میں کھٹا میٹھا اور رس دار ہوتا ہے۔

مجموعی پیداوار: انار کی مجموعی پیداوار میں چین اور انڈیا سرفہرست ہیں، جب کہ دیگر ممالک میں ایران، ترکی، افغانستان، یو ایس اے، عراق، پاکستان، سائریا، اسپین، مصر، بنگلادیش، برما اور سعودی عرب ہیں۔ انار کی مجموعی سالانہ پیداوار دس لاکھ میٹرک ٹن ہے۔

جس میں انڈیا صرف پانچ لاکھ میٹرک ٹن پیداوار کا حصہ مہیا کرتا ہے جس میں پانچ ہزار میٹرک ٹن ایکسپورٹ شامل ہے۔ اسپین میں انار کی سالانہ پیداوار ایک لاکھ میٹرک ٹن ہے جس میں 75 ہزار سالانہ پیداوار ایکسپورٹ کردی جاتی ہے۔ 2019 میں چلی، مصر، اسرائیل بھارت اور ترکی نے یورپی منڈیوں تک انار کی سپلائی کی۔ چین 2019 میں سپلائی میں خودکفیل تھا۔ جنوبی افریقہ بنیادی طور پر اسرائیل سے انار درآمد کرتا ہے۔

فائٹو کیمیکل مرکبات:انار میں مندرجہ ذیل فائٹو کیمیکل کمپاؤنڈ پائے جاتے ہیں۔

Punicalagin,  Ellagic acid,  Gallic acid, P.coumaric acid,  Methyl gallate,  Corilagin,  Punic acid,  Brevifolin,  Myrtillin,  Catechins,  Quercetin

غذائی حقائق:سو گرام انار میں یو ایس ڈی اے ( USDA ) کے مطابق اس کی غذائی مقدار مندرجہ ذیل ہے:

پانی : 78 گرام ،توانائی: 346 کلوریز، کاربوہائیڈریٹس: 18.7 گرام ،  شکر: 13.67 گرام ، غذائی ریشہ : 4 گرام ، فیٹ: 1.17 گرام، پروٹین 1.67 گرام ، وٹامنز / مقدار/  روزانہ ضرورت ، تھایا مین بی ون 0.067 ملی گرام 6% ، رائبو فلیون بی ٹو 0.053 ملی گرام 4% ، نیاسین بی تھری 0.293 ملی گرام 2% ، پینٹوتھینک ایسڈ بی فائیو 0.377 ملی گرام 8%  ، وٹامن بی سکس 0.075 ملی گرام 6%، فولیٹ بی نائن 38 مائیکرو گرام 10 % ، چولین 7.6 ملی گرام 2% ، وٹامن سی 0.6 ملی گرام 4% ، وٹامن کے 14.4 ملی گرام 16% ، وٹامن ای 0.6 ملی گرام 4% ، معدنیات / مقدار / روزانہ ضرورت ، کیلشیم 10 ملی گرام 1% ، آئرن 0.3 ملی گرام 2%، مگنیشیم 12 ملی گرام 3% ، میگنیز 0.119 ملی گرام 6% ، فاسفورس 36 ملی گرام 5%، پوٹاشیم 236 ملی گرام 5% ، سوڈیم 3ملی گرام 0%  ، زنک 0.35 ملی گرام 4%

طبی فوائد:غذائی اجزاء سے بھرپور: مجموعی طور پر انار میں پانی، کیلوریز، فائبر، وٹامنز اور معدنیات موجود ہیں۔ اس میں چکنائی کی بھی کچھ مقدار موجود ہے۔

دل کے امراض سے تحفظ: انار پولی فینولک مرکبات سے بھر پور پھل ہے۔ اس کا عرق شریانوں میں آکسیڈیٹو تناؤ اور سوزش کم کرتا ہے۔ باقاعدہ انار کھانے سے بڑھا ہوا بلڈپریشر نارمل ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ انار ایتھرو اسکلروسس، شریانوں کی تنگی اور سختی دور کر کے دل کے دورے اور فالج کے اٹیک سے بچاتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق دل کی بیماری میں مبتلا مریضوں کو روزانہ پانچ دن تک ایک کپ یعنی 220 ملی انار کا جوس دیا گیا جس نے سینے کی درد، جلن اور شدت کو نمایاں طور پر کم کر دیا۔ شریانوں میں چربی اور کولیسٹرول کا جمع ہونا دل کی بیماریوں کی بنیادی وجہ ہے۔

انار کا رس کم کثافت والے لیپوٹین کولیسٹرول کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ خراب کولیسٹرول جو شریانوں کو بند کرتا ہے۔ یہ اعلیٰ کثافت والے لیپو ٹین پروٹین والے کولیسٹرول کو بڑھا سکتا ہے۔

کینسر سے بچاؤ:تحقیق سے اس بات کا پتا چلا ہے کہ انار کے پھل، جوس اور تیل میں موجود دفاعی مرکبات کینسر کے سیلز کو ختم کرنے اور اس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

دراصل انار ان خصوصیت کا حامل ہے کہ یہ پھیپھڑوں، چھاتی، پراسٹیٹ، جلد اور بڑی آنت کے کینسر میں مفید ثابت ہوتا ہے۔ انار پراسٹیٹ کینسر کو ٹھیک کرنے کی قدرتی استعداد رکھتا ہے۔

اینٹی آکسیڈنٹ سے بھرپور: اینٹی اوکسیڈنٹ ایسے دفاعی مرکبات ہیں جو جسم کو آزاد ریڈیکل کے نقصان سے بچاتے ہیں۔ آزاد ریڈیکل تو ہمیشہ سے جسم میں موجود ہوتے ہیں لیکن جب ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تب یہ نقصان دہ اور کئی دائمی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔

انار اینٹی اوکسیڈنٹ اور پولی فینولک مرکبات سے بھرپور پھل ہے۔ بلاشبہہ پھلوں اور سبزیوں سے حاصل ہونے والے اینٹی اوکسیڈنٹ مجموعی صحت کے ضامن ثابت ہوتے ہیں۔

گردوں کی صحت:گردوں کا شمار اعضائے رئیسہ میں کیا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گردوں کی کارکردگی متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ انار گردوں کی بے شمار بیماریوں میں مفید ہے۔ اس کا عرق گردوں میں بننے والی پتھریاں کو ختم کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق ایسے افراد جن کی عمریں 18 سے 70 سال کے درمیان ہیں۔ انہیں 90 دن یعنی تین مہینے تک لگاتار ایک ہزار ملی گرام کا عرق روزانہ کی بنیاد پر پینا چاہیے جس سے پتھری بننے کا عمل رک جاتا ہے۔ مجموعی طور پر انار میں موجود دفاعی مرکبات گردوں کی صحت کی بحالی اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔

اینٹی مائکروبیل خصوصیات:انار میں موجود دفاعی مرکبات اینٹی مائکروبیل جراثیموں سے لڑنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ ہر قسم کے بکٹیریا، فنگس، اور خمیر سے بچا سکتے ہیں۔

ورزش کی عادت اور برداشت: انار میں موجود پولی فینولک ورزش کی عادت اور قوت برداشت بڑھاتے ہیں۔

انار کا باقاعدہ استعمال کم زوری اور تھکاوٹ کو دور کرکے جسم کو توانائی بخشتا ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اگر روزانہ دوڑنے سے پہلے ایک گرام انار کا جوس پی لیا جائے تو تھکاوٹ کے 12 فی صد چانس کم ہوجاتے ہیں، جب کہ دوسری طرف ورزش کی برداشت اور پٹھوں کی بحالی دونوں کی صلاحیت بہتر ہوجاتی ہے۔

دماغی صحت کے لیے:انار میں موجود Ellagitannis اینٹی اوکسیڈنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ جسم سے سوزش، اوکسیڈیٹو تناؤ کم کرتے ہیں۔

انار کا باقاعدہ استعمال الزائمر اور پارکسنز جیسی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کی بدولت اکسیڈیٹو تناؤ کم ہوکر دماغی خلیوں کی بقا بڑھ جاتی ہے۔

ٹائپ ٹو ذیابیطس: ایسے مریض جو ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہیں۔ اگر وہ روزانہ انار کا جوس پییں تو انسولین کے خلاف مزاحمت میں بہتری آجاتی ہے۔ انار ذیابیطس کے بغیر لوگوں کو صحت مند وزن برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

نظام ہاضمہ کی بہتری کے لیے: پرانی اور نئی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ہاضمہ کی صحت جس کا تعلق آنتوں کے بیکٹیریا سے ہوتا ہے، اس میں انار اہم کردار ادا کرتا ہے، کیوںکہ انار میں سوزش دور کرنے اور اینٹی کینسر اجزاء پائے جاتے ہیں جو آنتوں کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں۔

اس میں بڑی حد تک ایلیجک ایسڈ شامل ہوتے ہیں۔ عام طور پر اس میں موجود فائبر جو ہاضمے میں اچھے بیکٹیریا اور پروبائیوٹیکس کے لیے ایندھن کا کام دیتا ہے۔ پری بائیوٹکس ان بیکٹیریا کو بننے اور صحت مند آنتوں کے مائیکرو بیوم کی مدد کرتے ہیں۔

احتیاطی تدابیر: انار کھانے کے کوئی ایسے مضر اثرات تو نہیں ہیں جن کی بدولت کہا جائے کہ انار صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

اس امر کے باوجود کچھ لوگوں کو احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذیل میں چند وجوہات بیان کی جا رہی ہیں جن کی بدولت انار کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

* کچھ لوگوں کو انار کھانے سے الرجی ہو سکتی ہے۔ خارش، سوجن، ناک کا بہنا اور سانس لینے میں دشواری ہوسکتی ہے۔ ایسے مریضوں کو اپنے ہیلتھ کیئر یا معالج سے پہلے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔

* انار کی جڑ، تنا اور چھلکا مجموعی طور پر غیرمحفوظ اور غیرصحت مند ہوتا ہے کیوںکہ اس کے چھلکے میں زہر موجود ہوتا ہے جس کے کھانے سے بھاری نقصان ہو سکتا ہے۔

* جن لوگوں کو پودوں سے الرجی ہوتی ہے انہیں چاہیے کہ انار کھانے سے پرہیز کریں۔ * سرجری سے کم از کم دو ہفتے پہلے انار کھانا بند کر دینا چاہیے۔

* ہائی بلڈ پریشر کی دوائیں انار کے ساتھ تعامل کرتی ہیں، لہٰذا انار کھانے سے مریض کا بلڈ پریشر بہت کم ہو سکتا ہے۔

* ڈائریا اور حمل کے دوران انار کا استعمال اپنے ہیلتھ کیئر سے پوچھ کر کریں۔

* چوںکہ انار میں دفاعی مرکبات موجود ہوتے ہیں جو ادویات کے ساتھ تعامل کرتے ہیں، لہٰذا اگر مریض کینسر یا کسی اور بیماری میں مبتلا ہے تو اسے پہلے اپنے معالج سے مشورہ ضرور کرلینا چاہیے۔

The post انار appeared first on ایکسپریس اردو.

افغان جہاد کے دور میں بھی روس نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبے جاری رکھے

$
0
0

دوسری قسط

افغان صدر سردار داؤد نے ایک بار پھر امن کی خواہش کا پیغام پاکستان کے نئے فوجی حکمران کو بھیجا ، جنرل ضیاء الحق اقتدار سنبھالنے کے محض تین ماہ بعد افغان دارالحکومت کابل جا پہنچے اور مفاہمت کی کوششوں کا آغاز ہوا۔

سردار داؤد مخالف جہادی گروہوں کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا گیا۔ سردار داؤد نے بھی کیمونسٹ گروہوں کے خلاف سخت کارروائیاں کا آغاز کر دیا۔

روس کے لئے یہ صورتحال قابل قبول نہ تھی لہذاء کے جی بی نے سردار داؤد خاں سے چھٹکارا پانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ۔ 27 اپریل 1978 کو سردار داؤد خاں اپنے خاندان کے دیگر 30 افراد سمیت صدارتی محل میں مارے گئے۔

افغانستان میں نور محمد ترکئی نئے صدر بن گئے۔ پاکستان کے فوجی حکمران نے افغانستان سے مفاہمتی کوششوں کو جاری رکھا اور بات چیت پھر شروع ہو گئی۔

ماسکو اس تازہ پیشرفت پر تلملا اُٹھا اور نور محمد ترکئی کا اقتدار بھی ڈولنے لگا۔ پاکستان سے دوستی کا یہ قدم انہیں بھی مہنگا پڑا ، وہ بھی جان سے گئے۔ 14 ستمبر 1979 کو حفیظ اللّٰہ امین نے اقتدار سنبھالا تو جنرل ضیاء الحق نے ان سے بھی مراسم بڑھانا شروع کر دئیے۔ پاکستانی وزیر خارجہ آغا شاہی کے دورہ کابل کی تاریخ طے ہو گئی۔

ادھر آغا شاہی کابل روانگی کے لیے پشاور ہوائی اڈے پر پہنچ چکے تھے اور اُدھر سوویت روس کی افواج دریائے آمو پار کرکے کابل کی جانب پیش قدمی کر رہی تھیں۔ 27دسمبر 1979 کو سویت افواج نے کابل پہنچ کر حکومتی معاملات براہ راست اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ اسے ” آپریشن طوفان ” کا نام دیا گیا۔

سردار داؤد کے بعد آئے دونوں کامریڈ بھی پاکستان دوستی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ سوویت کیمونسٹ افواج کے کابل کے ایوان اقتدارمیں براہِ راست داخل ہونے کے بعد پاکستان کے پاس مزاحمت کے سوا اب کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے سوویت افواج کے خلاف افغان جنگ میں منظم انداز میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

افغانستان میں سوویت افواج کے خلاف ابتدائی مزاحمت شروع ہونے کے بعد ایک سال سے زائد مدت تک صدر جمی کارٹر کی امریکی حکومت افغان مذہبی عسکریت پسندوں کی چھاپہ مار کارروائیوں سے لاتعلق رہی۔ سوویت افواج کی افغانستان آمد پر افغان شہریوں کی بڑی تعداد نے پاکستان کا رْخ کیا۔

افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کے لئے اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین کا ادارہ متحرک ہوا امریکی حکومت نے بھی اس مقصد کے لئے چالیس لاکھ ڈالر کی مالی امداد کی پیشکش کی جسے ضیاء الحق نے اسے “یہ اپنی مونگ پھلی اپنے پاس رکھو “کہہ کر مسترد کر دیا ، یاد رہے جمی کارٹر ذاتی طور پر مونگ پھلی کے کاروبار سے وابستہ تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ، کابل میں سوویت افواج کی مزاحمت امریکی شمولیت سے قبل ہی شروع کر چکا تھا۔ اس دوران امریکہ میں صدارتی انتخابات کے نتیجے میں رونالڈ ریگن برسراقتدار آ گئے۔ انہیں پاکستانی سرپرستی میں افغان جہاد کی کامیابی کے امکانات دکھائی دینے لگے لہذا امریکہ سعودی عرب کی نظریاتی اور مالی امداد کو ہتھیار بنا کر ویتنام میں شکست کا بدلہ لینے کے لیے افغان جنگ میں کود پڑا۔

پاکستان نے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں پر واضح کر دیا کہ جہاد کی فیصلہ کن حکمت عملی اور قیادت صرف پاکستان کے ہاتھ میں رہے گی، اسلحہ اور مالی امداد کی تقسیم صرف پاکستان کے ذریعے ہوگی۔

جنرل محمد ضیاء الحق نے افغانستان میں مزاحمت کے درجہ حرارت پر کڑی نظر رکھی اور اتنا نہیں بڑھنے دیا کہ ماسکو غصے میں پاکستان پر چڑھ دوڑے۔ افغان جنگ میں مزاحمت کے باوجود روس نے پاکستان میں اسٹیل ملز جیسے منصوبوں پر کام جاری رکھا تھا اور سفارتی سطح پر بھی دونوں ملکوں کے رابطے نہیں ٹوٹے۔

ایک بار امریکی سفیر نے پشاور میں کچھ افغان جنگجوؤں سے براہ راست ملاقات کا پروگرام بنا لیا۔ اس مقصد کے لیے وہ سڑک کے راستے پشاور روانہ ہو گئے لیکن متعلقہ پاکستانی حکام نے انہیں اٹک پل پر جا لیا اور انہیں احترام سے بتا دیا گیا کہ انہیں پشاور جا کر افغانوں سے براہ راست رابطے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ مزاحمتی جنگ 1988 میں ہوئے  معاہدے تک جاری رہی۔

جنیوا امن معاہدے کی پاکستان کی جانب سے تمام تر جزئیات مکمل طور پر وزیر اعظم پاکستان محمد خاں جونیجو کی سیاسی قیادت نے اپنے ہاتھ میں لے لیں۔

صدر ضیاء الحق کی کہی گئی ہدایات کو یکسر انداز کیا گیا تو انہیں افغانستان میں لڑی گئی جنگ کے تمام ثمرات ضائع ہوتے دکھائی دیئے تو ضیاء الحق نے اپنے صدارتی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد خاں جونیجو کی حکومت کو مالی بدعنوانیوں کے الزامات پر برطرف کر دیا اور تمام اختیارات خود سنبھال لیے۔ جنیوا معاہدے نے جنگ کے فاتحین کے درمیان اس کے ثمرات سمیٹنے اور خطرات سے نمٹنے کی ایک اور محاذ آرائی کی بنیاد رکھ دی۔

آگے بڑھنے سے پہلے ماسکو میں جاری صورتحال کا جائزہ بھی ضروری ہے۔ 80کی دہائی کے وسط میں جب افغانستان میں گوریلا کارروائیاں اپنے عروج پر تھیں، ماسکو میں ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی۔ میخائل گورباچوف نے سوویت یونین میں طاقت کے اہم مرکز کیمونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھال لیا۔

اگلے ہی سال 1986 میں روس کے چرنوبل ایٹمی پلانٹ کا حادثہ رونما ہو گیا۔ دنیا بھر میں ایٹمی تنصیبات کے غیر محفوظ ہونے پر تحفظات کی آوازیں بلند ہوئیں۔ میخائل گورباچوف نے اب اپنی تمام تر توجہ کا مرکز داخلی استحکام اور اصلاحات کو بنا لیا۔ میخائل گورباچوف نے رونلڈ ریگن کے ساتھ ایٹمی پھیلاؤ کو محدود کرنے اور دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان جاری کولڈ وار کو ختم کرنے پر اتفاق کر لیا۔ ماسکو کے طاقتور لیڈر گورباچوف گلاسناسٹ ( کھلے پن ) اور پریسٹرائکا ( تعمیر نو ) کی اصلاحات کی راہ پر گامزن ہو گئے۔

یہیں سے افغانستان میں روسی فوج کو واپس بلانے کی سوچ نے فروغ پانا شروع کر دیا۔ دوسری جانب اسلام آباد میں منتخب جمہوری وزیراعظم محمد خاں جونیجو افغان وار کی عسکری ترجیحات سے لاتعلقی کا رجحان رکھتے تھے ، گویا ایک طرح سے افغانستان کی صورتحال سے وہ بیزار تھے۔

وہ ہر قیمت میں ناپسندیدہ معاملے سے اپنا پلو جلد از جلد چھڑانا چاہتے تھے۔ پاکستانی سیاست جمہوریت کے نام پر سرپرستی اور آسودگی کی خواہش میں امریکی ذہن کے اگلے منصوبوں کو جاننے اور ان کے درست ادراک میں ناکام رہی۔ ماسکو ، واشنگٹن اور اسلام آباد میں رابطے شروع ہوئے۔

ماسکو نے کابل سے اپنی افواج کی پر امن واپسی کی راہ مانگی۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں امریکہ ، سوویت یونین ، افغانستان اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ پاکستان کے وزیر مملکت خارجہ امور جنابِ زین نورانی نے اپنے سیاسی قائد وزیراعظم جنابِ محمد خاں جونیجو کی ہدایت پر 14اپریل 1988 کے روز جنیوا معاہدے پر دستخط کر دیئے۔

معاہدے کے مطابق پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی رضا کارانہ واپسی اور تین ماہ میں سوویت افواج کی پچاس فیصد تعداد اور نو ماہ میں افغانستان سے ان کا مکمل انخلاء اور سوویت افواج کی واپسی کا آغاز 15مئی 1988 سے اور اسے 15فروری 1989 کو مکمل ہونا طے پایا۔ یہ افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان دوطرفہ باہمی معاہدہ تھا۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر اتفاق کیا۔ امریکہ اور سوویت یونین جنیوا معاہدے کے گواہ ٹھہرے۔

کیا المیہ ہے کہ سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی کا فقدان اب بھی جاری تھا ، ستر کی دہائی میں وقتی سیاسی مفاد کی سوچ نے بھیانک نتائج دکھا دئیے مگر اسی کی دہائی کے مظالم سے سیاست نے پھر بھی کوئی سبق نہ سیکھا ، اب اس نے جنیوا معاہدے میں نوے کی دہائی کے لئے پہلے سے بھی زیادہ خونریزی کی بنیاد رکھ دی۔ کہتے ہیں سیاست معاملہ فہمی ، افہام و تفہیم اور فراست و ادراک سے پرامن ماحول کو یقینی بناتے ہوئے آگے بڑھنے کا نام ہے مگر یہاں سیاست کی کم فہمی اور عاقبت نااندیشی ، نئی تباہی کی بنیاد رکھنے کی راہ پر گامزن تھی۔

نو سال سے افغانستان میں سوویت افواج کی مسلح مزاحمت کرتے افغان جنگجو گروہ اصل فریق کی حیثیت سے اس میں شامل ہی نہ تھے۔ جنیوا معاہدے کی فریق پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں تھیں ، سوویت یونین اور امریکہ اس میں گواہان کے طور پر تھے۔جہادی گروہوں نے جنیوا معاہدے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ ماسکو کی سرپرستی میں قائم کابل حکومتی سربراہ محمد نجیب اللہ اب بھی افغان حکمران تھا۔

جنیوا معاہدے میں سوویت افواج کا انخلا تھا ، نجیب اللہ پابند تھا کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہ کرے ، انتقالِ اقتدار کی کوئی شق شامل ہی نہ تھی۔

سیاست نے کم فہمی میں ریاست پاکستان کی جانب سے لڑی جنگ کے سبھی ثمرات کو ضائع کرنے کی دستاویز پر دستخط کر دیئے تھے۔ بعد میں وقت نے ثابت کیا کہ روسی افواج کا چھوڑا خطرناک ترین اسلحہ جس کے ہاتھ لگا وہ مقامی وار لارڈ بن گیا۔

کوئی ملا راکٹی مشہور ہوا تو کوئی سڑکوں پر دہی لینے کے لیے ٹینک کو اپنی مقامی سواری بنائے پھر رہا تھا۔افغان مزاحمتی جنگ کے اصل منصوبہ ساز ، پاکستان کے فوجی حکمران کو افغانستان ، مذہبی شدت پسند جنگجو گروہوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش کے شعلوں میں جلتا دکھائی دیا۔

اسی لئے جونیجو حکومت کو فارغ کر دیا گیا۔ حیران کن طور پر پاکستانی فوجی حکمران نے کابل کے تخت پر براجمان نجیب اللہ کو افغان جنگجو گوریلا گروہوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا عندیہ بھی دے دیا مگر نجیب اللہ نے اس امکان کو مسترد کر دیا۔

اسلام آباد کو نجیب اللہ کی حکومتی گرفت کا پورا احساس تھا سو اس نے نجیب اللہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی اور دوستانہ مراسم کی خواہش کا اظہار جاری رکھا ، حتی کہ اسلام آباد نے بعد میں نجیب اللہ کے اکھڑتے قدموں کے ہنگام بھی اسے پناہ کی پیشکش کر دی تھی۔

برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیئچر سے کسی نے پوچھا، سوویت کیمونسٹ خطرات کے ختم ہونے کے بعد امریکہ اور مغربی یورپ کے لیے اب خطرے کی کوئی بات نہیں رہی تو پھر نیٹو کا اب جواز ہی کیا رہ گیا ہے ، جواب ملا” ابھی اسلام باقی ہے “اب افغان مذہبی جنگو گوریلا گروہوں کو پاکستان میں داخل کرنے اور ایٹمی طاقت کے حصول کی راہ پر چلتے پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر عدم استحکام کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا، مگر ضیاء الحق کے ہوتے یہ ممکن نہ تھا، لہذا انہیں بہاول پور کے قریب فضائی حادثے میں راستے سے ہٹا دیا گیا۔

افغانسان ، افغان وار لارڈز کے ہاتھوں میں آ کر ایسی خوفناک داخلی جنگ سے دوچار ہوا جس کی تباہ کاری سوویت افواج کے حملوں سے بھی زیادہ تھی اور اس کے شعلوں نے پاکستانی سماج کو بڑے پیمانے پر ایک بڑی مدت تک جھلسائے رکھا۔

1988 میں پاکستان میں آئی نئی منتخب سیاسی حکومت جشنِ جمہوریت کی خوشیاں منانے میں مصروف تھی۔ سیاست نے افغانستان کی صورتحال سے باخبر رہنے کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کر رکھا تھا۔ عالمی اجارہ داروں کی جانب سے جنیوا معاہدے میں جان بوجھ کر متبادل افغان حکومت کے قیام کو نظر انداز کرنے کے نتائج نکلنا شروع ہو گئے۔

روسی افواج کے خلاف مزاحم افغان جنگجو مجاہد گروہوں میں شامل پشتون اور شمالی اتحاد کے ازبک ، تاجک متحد نہ رہ سکے۔سوویت اتحادی افغان صدر نجیب اللہ سوویت افواج کے کابل سے انخلا کے بعد بھی 1992تک کابل کے مزید چار سال حکمران رہے۔

ان کے بعد اقتدار افغان مجاہدین کے ہاتھ آیا ۔ صبغت اللہ مجددی 28 اپریل 1992 کو افغان صدر قرار پائے ، بعد میں برہان الدین ربانی نے صدارت کا عہدہ سنبھال لیا۔ وزارتِ اعظمیٰ کے لئے اہم پشتون کمانڈر حکمت یار کا نام 17 جون 1993 کو فائنل ہوا۔ کابل میں مگر طاقت و اختیار کی ایک ایسی خوفناک محاذ آرائی شروع ہو گئی جس نے اسے سوویت افواج کے لگائے زخموں سے بھی زیادہ لہو لہان کیا۔

پشتون حکمت یار کے ازبک جنگجو کمانڈر رشید دوستم اور تاجک جنگجواحمد شاہ مسعود کی متحدہ فوجوں سے خونریز تصادم ہوئے۔

پاکستان نے افغان گوریلا گروہوں کے درمیان صلح کی بھرپور کوششیں کیں ،انہیں سرزمین حجاز لے جایا گیا ، مذہبی مقدس مقامات کے اہم ترین مرکز میں بٹھا کر آپس میں صلح سے رہنے کے وعدے لئے گئے مگر سبھی کوششیں بے سود رہیں۔ سوویت افواج کے چھوڑے اسلحے سے ملک بھر میں مقامی وار لارڈز طاقت پکڑ گئے ، افغانستان اپنی تاریخ کی شدید ترین خانہ جنگی اور بحران کا شکار ہوگیا۔

(جاری ہے)

The post افغان جہاد کے دور میں بھی روس نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبے جاری رکھے appeared first on ایکسپریس اردو.

2023ء آزمائشوں کا سال…معاشی مسائل سنگین ہوسکتے ہیں!

$
0
0

غیب کا علم بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے اور کوئی بھی شخص اس کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔انسانی علم‘ فکر اور سائنس کی بنیاد پر کیے جانے والے تجزیے‘ اندازے اور پیش گوئیاں اگرچہ حتمی اور یقینی نہیں ہوتی لیکن انسانی دلچسپی کے حوالے سے بہرحال اپنی اہمیت رکھتی ہیں۔

اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’نئے سال 2023ء کی پشین گوئیوں‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکر ہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین علم نجوم و علم الاعداد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

 سید انتظار حسین زنجانی

ملکی تاریخ میں 1954ئ، 1962ئ، 1970ئ، 1985ئ، 1988ئ، 1990ئ، 1993ئ، 1997ئ، 2002ئ، 2008ئ، 2013ء  اور 2018ء میں انتخابات ہوئے اور اب 2023ء کو الیکشن کا سال تصور کیا جا رہا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نئے انتخابات کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں لیکن ستاروں کی چال کے حساب سے 2023ء میں الیکشن کا کوئی امکان نہیں البتہ معجزاتی طور پر الیکشن ہوسکتے ہیں۔

پاکستان میں آج تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ان برسوں کے مفرد اعداد 1، 2، 3، 4، 5، 6، 8 اور9 ہیں ۔ 7 نمبر میں آج تک الیکشن نہیں ہوا۔ پاکستان کے زائچے میں کیتو کی پوزیشن کی وجہ سے ستمبر، اکتوبر اور نومبرحساس ہیں۔ ملک میں عجیب و غریب قسم کی سیاسی صورتحال ہوگی۔

سیلاب زدگان بے حال ہیں۔ مردم شماری بھی ہونی ہے۔ آئین کے مطابق 12اکتوبر2023ء کو الیکشن کمیشن کو الیکشن کروانے ہیں ۔ مئی تک آسمانی کونسل پر الیکشن کا کوئی نقشہ نہیں ہے۔

ستمبر ملک کیلئے ستم گر ہوسکتا ہے، اس ماہ میں ملک میں ایمرجنسی یا مارشل لاء کے امکانات موجود ہیں لیکن اگر الیکشن ہوئے تو نتائج غیر معمولی ہونگے۔ ستاروں کی خراب پوزیشن سے خون خرابے کا خدشہ ہے، الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں۔

2023ء میں اگر بلدیاتی انتخابات کروا دیے جائیں تو خوش امیدی ہوسکتی ہے، عوام کو ریلیف مل سکتا ہے اورسال کے آخر تک حالات میں کچھ بہتری آسکتی ہے۔

ستاروں کی خراب پوزیشن کی وجہ سے 2023ء اور 2024ء ملے جلے سال نظر آتے ہیں۔ ستارہ زحل اپنے 30 سال کا چکر مکمل کرکے 17 جنوری کو پاکستان کے زائچے میں داخل ہوا جو 2025تک رہے گا۔ جس طرح طلوع آفتاب سے پہلے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں اسی طرح ملک میں مارچ کے بعد روشنی کی کرنیں پھوٹیں گی۔ 14 اپریل کے بعد ستاروں کی پوزیشن میں تبدیلی کے لحاظ سے معمولی بہتری دکھائی دیتی ہے۔

جنوری سے اپریل تک ملک میں معاشی مسائل سنگین ہونگے، معاشی ایمرجنسی لگ سکتی ہے۔ ہر لیڈر خود کو محب وطن ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، سب محبت وطن ہیں لیکن ایک ہیجانی کیفیت ہے۔ اس سال سیاسی قیادت لڑتی رہے گی، قومی سوچ کا فقدان ہوگا۔

عوام تقسیم ہونگے،علاقائی سیاست کو فروغ ملتا دکھائی دے رہا ہے، عوام مزید مشکلات کا شکار ہوں گے، دشمن عناصر کی سازشیں تیز ہونگی، ملک میں ہیجانی کیفیت ہوگی۔ بطور مسلمان ہمارے لیے یہ خوش امیدی کا سال ہے،روحانی گنتی میں 2023ء معراج کا سال ہے، نماز مومن کی معراج ہے، جو اللہ سے رجوع کریں گے وہ خوشحال ہوجائیں گے، سیاستدان، عوام سب اللہ سے توبہ کریں۔

ڈاکٹر آمنہ طیبہ

معاشی لحاظ سے سال 2023ء میں کوئی اچھی صورتحال نظر نہیں آرہی۔ خصوصاََ پہلے نصف حصے میں کافی مشکلات رہیں گی۔ جنوری میں کوئی بڑی مشکل پیدا ہوسکتی ہے۔

حکومت نئے ٹیکس لگا سکتی ہے، اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ فروری قدرے بہتر ہوگا، اس میں بیرونی امداد ملنے کے امکانات موجود ہیں۔ جون کا مہینہ بہت سخت نظر آرہا ہے، حکومت عالمی اداروں کے دباؤ میں نظر آرہی ہے جس کا اثر عوام پر پڑے گا۔ جولائی، اگست، نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں کچھ بہتری نظر آتی ہے تاہم ستمبر اور اکتوبر میں حکومت کو سخت فیصلے لینا ہوں گے۔

اپریل اور مئی میں عوام کو سکون دینے کیلئے حکومت بڑے اعلانات کرے گی جن پر عمل بھی ہوگا۔ جون اور جولائی میں حکومت عوام کو ریلیف دے گی، یہ بجٹ کے حوالے سے بھی ہوسکتا ہے۔اس سال میں کچھ چیزیں اچھی اور حیران کن ہیں۔سابق حکومت کے حوالے سے تو کارڈز اچھے نہیں ہیں لیکن لوگوں کے حوالے سے مثبت چیزیں نظر آرہی ہیں۔

فروری، مارچ اور اپریل کے مہینوں میں ایسا ہوگا کہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اقدامات کرنے کی کوشش کریں گے، اس کے اچھے نتائج سامنے آسکتے ہیں تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ کس پیمانے پر یہ کام ہوگا۔ انٹرپرینیورشپ کو فروغ ملتا ہوا نظر آرہا ہے، مختلف سطحوں پر کام ہوگا جس میں لوگ جڑیں گے اور اس طرح لوگوں کی زندگیوں میں کچھ آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔

جون ،جولائی ، اکتوبر اور دسمبر بہت اچھے نظر آرہے ہیں۔ سیاسی حوالے سے بات کریں تو جنوری، فروری اور مارچ میں حکومت کیلئے مشکلات زیادہ ہونگی۔ اپریل، مئی اور جون میں وفاقی حکومت کی کوششیں رنگ لائیں گی، پی ڈی ایم کو اپنا بیانیہ بنانے کیلئے اخلاقی جواز مل جائے گا۔ جولائی سے دسمبر تک سیاسی حوالے سے پی ڈی ایم کو چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ الیکشن کی طرف نہ جانے کی مکمل کوشش ہوگی۔

سال 2023ء میں عام انتخابات کا امکان نہیں ہے اور نہ ہی پی ڈی ایم کی حکومت جلد ختم ہوگی البتہ سیاسی کشیدگی ہوگی جس سے ملک و قوم کا نقصان ہوگا۔ عمران خان کو عوامی حمایت ملے گی، مقبول لیڈر کے طور پر پورا سال سامنے رہیں گے، ان کی مقبولیت میںمزید اضافہ ہوگا۔ ابتدائی مہینوں میں عمران خان آن لائن متحرک رہیں گے لیکن جولائی، اگست اور ستمبر میں عمران خان ملک بھر میں ہنگامی جلسے، ریلیاں اور دورے کریں گے۔

نواز شریف کے وطن واپس آنے کے امکانات انتہائی کم ہیں تاہم سال کے آخری حصے میں ڈیل، آفر یا کچھ ایسے حالات بن سکتے ہیں جس کے نتیجے میںان کی واپسی ممکن ہوسکتی ہے۔

نواز شریف یہ آفر تسلیم کریں گے یا نہیں، اس حوالے سے ابھی کچھ واضح نہیں ہے، وہ باہر رہ کر ہی معاملات چلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نواز شریف خفیہ رابطوں اور باتوں کے بجائے سب کچھ سامنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہونگے، وہ کھل کر باتیں کریں گے۔

وزیراعظم شہباز شریف سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں گے، حکومت چلانے کیلئے ملک کے اندر اور باہر ڈپلومیسی جاری رکھیں گے۔ آصف علی زرداری بھی مفاہمت سے چلیں گے، وہ عالمی برادری کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کریں گے۔

مولانا فضل الرحمن کے پاس مختلف آپشنز ہونگی، ان کا موقف واضح طور پر نظر نہیں آرہا، ان کیلئے صورتحال بہتر ہوگی۔ سیاست میں خفیہ معاملات جاری رہیں گے، فوج کا کردار تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے، فوج مزید نیوٹرل ہوگی اور ماضی کی روایات کو فروغ نہیں دیا جائے گا۔ فوج میں مائنڈ سیٹ تبدیل ہوگا۔

سیاسی معاملات میں مداخلت سے صاف انکار کیا جائے گا۔ کاروبار کے حوالے سے یہ سال کچھ اچھا نہیں ہے البتہ بعض شخصیات فائدہ اٹھاسکتی ہیں۔

نئے سال کے ابتدائی تین مہینوں میں عجیب کیفیت ہوگی، لوگ ملک چھوڑنے کی کوششوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ اپریل ، مئی اور جون میں لوگ بیرونی اثاثوں کے ساتھ واپس آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے کاروباری طبقے کو سہولت دینے کے امکانات موجود ہیں، روایتی کاروبار کو فروغ ملتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ سال کے آخری تین مہینوں میں کاروباری افراد کو فائدہ ہوگا لیکن پورا سال اتار چڑھاؤ رہے گا۔

کھیل کے حوالے سے یہ سال بڑی خوشخبریوں والا نہیں ہوگا، ہار جیت کی شرح تقریباََ برابر رہے گی، کوئی بڑا ٹورنامنٹ یا سیریز کی جیت کا امکان نہیں، جن کھیلوں میں ٹیمیں شامل ہیں وہاں کچھ بہتری ہوگی، اکیلے کھلاڑیوں کی پرفارمنس کچھ زیادہ دکھائی نہیں دے رہی۔ میڈیا، فائن آرٹس اور میوزک انڈسٹری کیلئے یہ سال اچھا دکھائی دے رہاہے، شوبز انڈسٹری میں بھی ترقی ہوگی۔

دہشت گردی میں اضافہ ہوسکتا ہے، فوج متحرک ہوگی، ایکشن لیے جائیں گے، شہروں کو خطرہ لاحق ہے، اندرونی سہولت کار متحرک ہوسکتے ہیں۔ فوج کے اقدامات ماضی کی نسبت بہت بہتر ہونگے، دہشت گردی کو روکا جائے گا تاہم کچھ نقصانات کا امکان موجود ہے۔

شہزادہ مصور علی زنجانی

2023ء کا مفرد عدد 7 ہے۔ قدیم اسڑولوجی میں اس کا تعلق کیتو جبکہ جدید اسٹرولوجی میں نیپچون کے ساتھ ہے۔ بطور مسلمان ہم 7 نمبر روحانی اعتبار سے اہم ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے مخصوص چکر لگانے کیلئے 7 عدد کا انتخاب کیا۔ صفاو مروہ کے چکر بھی 7، آسمان بھی 7، دن بھی 7 ، اسٹرولوجی میں ستارے بھی 7۔ علم نجوم، روحانیت اور ہر انسان کی زندگی پر عدد 7 کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نمبر کو دنیا، انسان اور اپنے لیے پسند کیا ہے۔

اس اعتبار سے 2023ء روحانی طور پر کامل سال نظر آتا ہے۔ 1947ء میں پاکستان معرض وجود میںآیا جو قائد اعظمؒ کی لیڈر شپ اور روحانی بصیرت کے تحت ممکن ہوا۔ 1947ء سے اب تک ہر بدلتے سال کے ساتھ مختلف تبدیلیاں آئیں اور ان کے حساب سے لیڈر بھی بدلتے رہے۔ اگر کچھ نہیں بدلا تو عوام کی تقدیر نہیں بدلی، باقی سب بدل گیا۔ 2023ء میں ستاروں کی چال کے حساب سے دیکھیں تو اس میں 2022ء کا تسلسل برقرار رہے گا۔

17جنوری 2023ء کو ستارہ زحل کی پوزیشن تبدیل ہوئی۔ زحل کا تعلق سیاست ، بڑی شخصیات اور رہنماؤں کے ساتھ ہے لہٰذا اس کی تبدیلی کی وجہ سے اس سال نئی قیادت ابھرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔

2024ء میں زحل کی19 سالہ مہادشہ شروع ہوگی جس کی وجہ سے معاملات میں تیزی آئے گی، اس دور میں سیاسی طور پر قیادت کا طرز زندگی بدل جائے گا، عوام کی فلاح و بہود کیلئے کام ہوگا لہٰذا اصل تبدیلی 2024ء سے شروع ہوگی۔ 2023ء غیر معمولی سال رہے گا۔

ستارہ مشترہ مذہب، روحانیت، فلاح اور خوش بختی سے منسلک ہے، اس کی پوزیشن کی تبدیلی کی وجہ سے یہ سال پاکستان کیلئے کچھ اعتبار سے بہتر ہوگا، معدنی ذخائر اور دیگر قدرتی نعمتیں ملتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ 2023ء میں سیاسی طور پر ہنگامہ خیزی نظر آئے گی،اگر جمہوری عمل جاری رہا تو اکتوبر کے قریب الیکشن کا امکان ہے،مئی سے پہلے کسی بھی صورت الیکشن دکھائی نہیں دے رہے۔

اس سال 4گرہن لگیں گے جن میں سے 2 سورج اور 2 چاند گرہن ہیں۔اپریل میں مکمل شمسی گرہن ہوگا جو پاکستان میں بھی نظر آئے گا۔ جولائی کا مہینے میں زحل اور مریخ کا مقابلہ ہونے جا رہا ہے، یہ دونوں خطرناک ستارے ہیں۔ زحل اور مریخ کی چال کے حساب سے سیاسی اور ملکی سلامتی کیلئے جولائی کا مہینہ اہم ہے، سیاسی ہنگامہ خیزی، دہشت گردی اور ملک دشمن عناصر سر اٹھاسکتے ہیں۔

اس سال میں مہنگائی بدستور رہے گی اور اس حوالے سے کوئی ریلیف نہیں ہے ۔ 2023ء اسلامی اتحاد کے لیے خطرے کا اشارہ دے رہا ہے، عالمی سازشیں عروج پر ہوں گی۔2023ء میں اگر ملک میں سیاسی طور پر کوئی تبدیلی ہوگی تو وہ قانون کے ذریعے ہوگی، سیاسی لحاظ سے تبدیلی نہیں ہوگی۔

The post 2023ء آزمائشوں کا سال… معاشی مسائل سنگین ہوسکتے ہیں! appeared first on ایکسپریس اردو.

مصنوعی چکنائی کا استعمال، پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شامل

$
0
0

عالمی ادارہ صحت کی ایک حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں صنعتی طور پر تیارشدہ چربی یا صحت کو نقصان دینے والی چکنائی کے استعمال سے ملکی آبادی کا بڑا حصہ معرض خطر میں ہے۔

یاد رہے کہ عمومی طور پر صنعتی سطح پر تیار ہونے والی یہ چکنائی کوکنگ آئل ، بیکری مصنوعات اور ڈبہ بند خوراک میں استعمال کی جاتی ہے۔

سنہ 2018 میں عالمی ادارہ صحت نے دنیا کے تمام ممالک کو مضرصحت ٹرانس فیٹی ایسڈ کا 2023 ء تک خاتمہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ سبب یہ ہے کہ ان فیٹی ایسڈ سے دل کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ امراض قلب کے نتیجے میں موت کے گھاٹ اترنے والے انسانوں کی شرح سالانہ 5 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 16 میں سے 9 ممالک میں ’ ٹرانس فیٹی ایسڈ ‘ سے پیدا ہونے والے امراض قلب کے باعث اموات کی شرح زیادہ ہے۔ ان ممالک میں آسٹریلیا ، آذربائیجان، بھوٹان، ایکواڈور، مصر، ایران، نیپال، پاکستان اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔ یہ ممالک بہترین احتیاطی پالیسیوں پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔

اب عالمی ادارہ صحت نے ان ممالک سے بہترین احتیاطی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے فی الفور اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تاہم 43 ممالک نے ، جن کی مجموعی آبادی 2 ارب 80کروڑ ہے، موٹاپے پر قابو پانے کے لیے بہترین احتیاطی پالیسیاں اختیار کی ہیں تاہم دنیا کا زیادہ تر حصہ اب بھی غیر محفوظ ہے۔یاد رہے کہ ٹرانس فیٹی ایسڈز کے نتیجے میں موٹاپا تیزی سے بڑھتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے واضح کیا ہے کہ ٹرانس فیٹس ایک ایسا زہریلا کیمیکل ہے جو انسان کو موت کے منہ میں لے جاتا ہے، اسی وجہ سے اسے خوراک میں قطعی طور پر شامل نہیں کرنا چاہیے۔ یہی وہ وقت ہے کہ اس زہریلے کیمیکل سے فوری طور پر، ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔

دوسری طرف عالمی ادارہ صحت نے اپنی سالانہ رپورٹ میں تسلیم کیا کہ ٹرانس فیٹس سے نجات ابھی بہت دور ہے ، مستقبل قریب میں اس ہدف کا حصول مشکل ہے۔ ڈبلیو ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ’ ٹیڈروس اذانوم گیبریئس ‘ نے کہا کہ ٹرانس فیٹس کا انسانی صحت کو فائدہ نہیں ہے ، اس سے صحت پر بْرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں صحت کے نظام پر اٹھنے والے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ٹرانس فیٹ کے خاتمے سے نظام صحت کے اخراجات میں کمی واقع ہوگی اور انسانی صحت پر بے شمار فائدے مرتب ہوں گے۔

عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر برائے غذائی اور خوراک کے تحفظ فرانسسکو برانکا کا کہنا تھا کہ 60 ممالک جن کی مجموعی آبادی 3 ارب 40 کروڑ یا 43 فیصد آبادی میں موٹاپے پر قابو پانے کی پالیسی موجود ہے۔ 60 میں 43 ممالک موٹاپے پر قابو پانے کے لیے بہترین احتیاطی پالیسیاں اختیار کر رہے ہیں۔

ٹرانس فیٹ ایسڈ کیا ہے ؟

ٹرانس فیٹ کو ’ ٹرانس اَن سیچوریٹیڈ فیٹی ایسڈز‘ یا پھر ’ ٹرانس فیٹی ایسڈز ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مختلف سبزیوں وغیرہ سے نکالا جانے والی ایسی چکنائی ہوتی ہے جو ڈبہ بند کھانوں ، کیکس ، ہاٹ چاکلیٹس وغیرہ میں شامل ہوتی ہے تاکہ وہ طویل مدت تک دکانوں کی شیلفوں میں محفوظ رہیں۔ جب سبزیوں وغیرہ سے ٹرانس فیٹ نکالا جاتا ہے، تب اس کی شکل تیل جیسی ہوتی ہے۔

پھر اسے ٹھوس چکنائی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔اگلے مرحلے میں ایسی ٹھوس چکنائی مارجرین اور بناسپتی گھی کی صورت میں بازاروں میں فروخت ہوتی ہے۔

ٹرانس فیٹ انسانی صحت کے لئے کیسے نقصان دہ ہے؟

سبزیوں سے نکالی جانے والی چکنائی (بناسپتی گھی اور مارجرین وغیرہ) کا استعمال قریباً 100برس قبل شروع ہوا۔1950ء کے بعد اس کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا۔اس کے مضر اثرات کو نظر انداز کیا گیا حالانکہ اس وقت کی حکومتیں بھی جانتی تھیں کہ ٹرانس فیٹ میں غذائیت برائے نام بھی نہیں ہوتی ، بلکہ اسے صرف سستا ہونے کی وجہ سے مختلف کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

آج تک دنیا کے بیشتر ممالک میں ٹرانس فیٹ کے انسانی صحت کے لئے نقصانات واضح ہونے کے باوجود اسے استعمال کیا جاتا رہا ۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جس میں کمپنیاں براہ راست اور ان کمپنیوں کو ٹرانس فیٹ کی تیاری کی اجازت دینے والی حکومتیں بلواسطہ طور پر شریک ہیں۔

پوری دنیا کے ماہرین صحت متفق ہیں کہ ٹرانس فیٹ اور دل کے امراض کے مابین گہرا تعلق ہے ۔ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کے ایک جائزے میں بتایا گیا کہ ٹرانس فیٹ کے استعمال اور دل کے امراض میں گہرا تعلق ہے۔

1994ء میں امریکا میں، امراض قلب میں مبتلا ہوکر انتقال کرنے والے 30000 افراد کے بارے میں پتہ چلا کہ ان کی خوراک میں ٹرانس فیٹ کی مقدار زیادہ ہوتی تھی۔

تب ماہرین نے اندازہ لگایا کہ 2006ء تک اس مصنوعی چکنائی کے سبب مرنے والوں کی تعداد سالانہ ایک لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اس کے بعد حکومت اس مصنوعی چربی کے استعمال کے خلاف فعال ہوئی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی چکنائی کے سبب جسم میں غیر مفید کو لیسٹرول میں اضافہ ہوتا ہے۔

ایک جائزے میں بتایاگیا ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء سے ٹرانس فیٹ نکالنے پر دل کا دورہ پڑنے کے واقعات اوراس سے ہونے والی اموات میں چھ سے19فیصد تک کمی آسکتی ہے۔ ٹرانس فیٹ ایسڈ کی وجہ سے ایل ڈی ایل ( صحت کے لئے نقصان دہ کولیسٹرول ) بڑھ جاتا ہے اور ایچ ڈی ایل ( صحت کے لئے مفید کولیسٹرول ) کو کم کرتا ہے۔

دراصل مصنوعی چکنائی کے استعمال سے انسانی صحت کے لئے ضروری فیٹی ایسڈز بشمول اومیگا تھری کو میٹابولائز کرنے کی صلاحیت میں خلل واقع ہوتا ہے۔

نتیجتاً دل کی شریانوں کی دیواروں کی فاسفولیپڈ فیٹی ایسڈ کی ساخت میں تبدیلی رونما ہوتی ہے ، یوں امراض قلب پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے تاہم اس کا ذیابیطس کا مرض پیدا کرنے میں کتنا کردار ہے۔

اس پر تاحال تحقیق جاری ہے۔ ماہرین کا اتفاق ہے کہ بحیثیت مجموعی مصنوعی بنیادوں پر نکالے جانے والے تیل کے انسانی صحت پر نہایت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ فیٹی ایسڈز ریسٹورنٹس میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ جس علاقے میں لوگ ایسے ریسٹورنٹس میں زیادہ کھاتے پیتے ہیں ، وہاں موٹاپا ، بلند فشار خون اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کے امراض زیادہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

اگرچہ ٹرانس فیٹ اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کے باہمی تعلق کے بارے میں اتفاق رائے نہیں پایا جارہا ہے تاہم ایک تحقیقی رپورٹ میں ثابت کیا گیا ہے کہ اس مصنوعی چربی کے زیادہ استعمال سے ذیابیطس ٹائپ ٹو کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔

تمام ماہرین کا اتفاق ہے کہ ٹرانس فیٹ کے سبب موٹاپا بالخصوص پیٹ بڑھنے کا مرض لاحق ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے دوران میں چھ برس تک جن بندروں کو مصنوعی چکنائی کھلائی گئی ، ان کے جسمانی وزن میں سات فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ دوسری طرف جن بندروں کو اصلی چربی کھلائی گئی ، ان میں وزن بڑھنے کی شرح محض ایک اعشاریہ آٹھ فیصد رہی۔

’ آرکائیو آف نیورولوجی ‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سیچوریٹیڈ فیٹ اور اَن سیچوریٹیڈ فیٹ (ٹرانس فیٹ ‘ کی وجہ سے الزائمر کا مرض پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس میں یادداشت ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور رویے پر نہایت برا اثر پڑتا ہے۔

2006ء میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرانس فیٹ کے سبب پراسٹیٹ کینسر بھی ہوتا ہے۔ ’ یورپین پروسپیکٹو انویسٹی گیشن ان ٹو کینسر اینڈ نیوٹریشن ‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرانس فیٹ کے استعمال سیچھاتی کے کینسر کے خطرات میں 75 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔

سن دوہزار سات میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کاربوہائیڈریٹس کے بجائے ٹرانس فیٹ سے توانائی حاصل کرنے کی کوشش خواتین کے لئے نہایت خطرناک ہے۔ اس کے نتیجے میں بانجھ پن کے خطرات 73 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔

سپین کے ماہرین نے ایک چھ سالہ جائزے کے دوران میں 12,059 افراد کی خوراک کا تجزیہ کیا ۔ پتہ چلا کہ جو لوگ سب سے زیادہ مصنوعی چکنائی کھاتے ہیں ان میں ڈپریشن کا خطرہ ان لوگوں کے مقابلے میں 48 فیصد زیادہ ہوتا ہے جو مصنوعی چکنائی نہیں کھاتے تھے۔

بہترین احتیاطی پالیسیاں کیا ہیں ؟

عالمہ ادارہ صحت ایک عرصہ سے مصنوعی چکنائی کے زیادہ استعمال سے خبردار کررہا ہے۔ ادارہ کی طرف سے جاری کردہ ہدایات میں ٹرانس فیٹ کو مکمل طور پر ممنوع قرار نہیں دیا جاتا بلکہ اس کے کم استعمال کی ہدایت کی جاتی ہے۔

مثلاً جب بہترین احتیاطی پالیسیوں کی بات کی جاتی ہے تو اسکا مطلب ہے کہ تمام کھانوں میں کْل چکنائی کے ہر 100 گرام میں صنعتی سطح پر تیار شدہ ٹرانس فیٹ کی مقدار زیادہ سے زیادہ 2 گرام ہو ۔ اسی طرح ایسی پالیسیوں کا تقاضا ہے کہ ٹرانس فیٹ کے سب سے بڑے ذریعہ ہائیڈرو جنیٹڈ تیل کی پیداوار پر پابندی عائد کی جائے یا پھر اس کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے۔

دنیا بھر کی حکومتوں کے اقدامات

ٹرانس فیٹ کے زیادہ استعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امراض کے ثبوت ملنے اور عالمی ادارہ صحت کی طرف سے ہدایات جاری ہونے کے بعد پوری دنیا میں حکومتوں نے قواعد و ضوابط تیار کرنا شروع کردیے۔

انھوں نے خوراک تیار کرنے والی تمام کمپنیوں کو پابند کردیا کہ وہ اپنی مصنوعات پر اجزائے ترکیبی واضح طور پر لکھیں، بالخصوص مصنوعی چکنائی استعمال کرکے خوراک تیار کرنے والی کمپنیوں کو پابند کیا گیا۔ انھیں کہا گیا کہ ان کی خوراک میں ٹرانس فیٹ کی مقدار 2 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔

ڈنمارک دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے ٹرانس فیٹ کے خلاف قانون منظور کیا ، اور یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے کم مقدار میں ٹرانس فیٹ استعمال کرنے کی اجازت ہے یعنی محض ایک فیصد ۔ ڈینش حکومت کی کوششوں کا نتیجہ یوں نکلا کہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران میں امراض قلب میں مبتلا ہوکر مرنے والوں کی تعداد میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

امریکا میں کیلی فورنیا پہلی ریاست تھی جس نے مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی چکنائی ( ٹرانس فیٹ ) پر مکمل پابندی عائد کی ۔کیلی فورنیا کی حکومت نے ٹرانس فیٹ کا استعمال کرنے والے کمپنیوں پر بھاری بھرکم جرمانے عائد کیے۔

یورپی یونین نے بھی اپنے تمام خطوں میں ٹرانس فیٹ کے2 فیصد فی 100 گرام سے بھی کم استعمال کا رجحان پیدا کرنے کی کوشش کی۔ برطانیہ میں بھی عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کی روشنی میں قواعد و ضوابط طے کیے گئے ہیں ، وہاں مصنوعی چکنائی کے خلاف عوامی شعور کی سطح اس قدر بلند کی گئی کہ لوگوں نے از خود ہی اس کے استعمال سے گریز شروع کردیا۔ یہاں بعض ریٹیلرز اپنے ہاں ٹرانس فیٹ سے پاک مصنوعات فروخت کرتے ہیں۔

سعودی عرب میں کوئی ایسی خوراک داخل نہیں ہوسکتی تھی جس پر وہاں کے طے شدہ معیار کے مطابق ٹرانس فیٹ کی شرح درج نہ ہو۔2020ء میں سعودی حکومت نے مصنوعی چکنائی پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی۔ سوئٹزر لینڈ میں بھی2008ء سے ٹرانس فیٹ پر مکمل پابندی عائد ہے۔

سویڈن بھی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہونے جارہا ہے جہاں مصنوعی چکنائی پر مکمل پابندی عائد ہے۔ ارجنٹائن کی حکومت نے بھی2014ء میں ٹرانس فیٹ کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کردی۔ اس کے نتیجے میں اس کے نظام صحت کے اخراجات میں 100ملین ڈالر سالانہ کی بچت ہوئی۔ اسی طرح آسٹریلیا ، آسٹریا اور بلجیم کی حکومتوں نے بھی مصنوعی چکنائی کے کم سے کم استعمال کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔ برازیل میں بھی لازمی قرار دیا گیا ہے کہ خوراک تیار کرنے والی کمپنیاں مصنوعات کے اوپر واضح طور پر ٹرانس فیٹ کی مقدار لکھیں۔ کینیڈا میں ہائیڈروجینیٹڈ تیل پر پابندی عائد کردی گئی۔ یادرہے کہ یہی تیل ٹرانس فیٹ کی تیاری میں بنیادی جزو کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

اگرچہ پاکستان کی وزارت صحت نے بھی عالمی ادارہ صحت سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ جون2023ء تک ٹرانس فیٹ کے استعمال میں خاطر خواہ کمی لائے گی ، تاہم اس دوران میں حکومت اور اس کے اداروں نے ٹرانس فیٹ کے خلاف عوامی شعور بہتر کرنے کی کم ہی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں مارجرین اور بناسپتی گھی کے استعمال میں اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

دنیا بھر میں ٹرانس فیٹ کے خلاف شعور بلند ہونے کے باوجود یہاں کے ماہرین صحت بھی ایسی پالیسیاں تیار کرنے پر زور نہیں دے رہے جن کے ذریعے خوراک تیار کرنے والوں کو 2فیصد فی 100 گرام کے پیمانے کی پابندی کروائی جائے۔

قارئین کرام ! ہماری حکومتیں دیگر ’’ زیادہ اہم امور‘‘ میں مصروف رہتی ہیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں صحت عامہ کے تحفظ کے لئے پالیسیاں تیار کرنے اور نافذ کرنے کے لئے فرصت نہیں۔ آپ اپنے گھر کی حد تک ہر قسم کی مصنوعی چکنائی کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کریں۔ تاکہ آپ اور آپ کے پیارے صحت مند زندگی گزار سکیں اور آپ کے گھریلو نظام معیشت پر بیماریاں اور ان کا علاج بوجھ ثابت نہ ہوسکے۔

The post مصنوعی چکنائی کا استعمال، پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شامل appeared first on ایکسپریس اردو.


ایڈ ٹیوٹر ایپ کی غیر معمولی مقبولیت، ایجوکیشن کی دنیا میں دھوم مچا دی

$
0
0

لاہور: طالب علموں کو ذہین بنانے اور قابلیت کوچارچاند لگانے والے ایڈ ٹیوٹر کی غیر معمولی مقبولیت نے ایجوکیشن کی دنیا میں دھوم مچا دی۔

دنیا بھر میں تعلیمی سرگرمیوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے ذریعے عام کرنے کا سلسلہ جاری ہے اس ضمن میں ای ٹیوٹر ملک کا سب سے مستند اور مکمل ایجوکیشنل ایپ بن چکا ہے ۔اس کی خصوصیات کو ہر طالب علم نے سراہا ہے۔

سابق صوبائی وزیر تعلیم میاں عمران مسعود کا کہناتھا کہ ed tutor کا اجراء نہ صرف نویں ،دسویں اور گیارہویں جماعتوں کے طلبہ کی تعلیمی پیاس کو بجھانے کا سبب بن رہاہے بلکہ والدین کے لئے ایک بڑی سہولت اور اپنے بچوں کی دوران پڑھائی ہمہ وقت نگرانی کا بھی مستند ذریعہ ہے۔اس ایپ میں شامل نصاب کے مطابق سوال اور جواب کی سہولت بھی دی گئی ہے۔

انہوں نے تجویز کیا کہ حکومت رول ماڈل کے طور پر ہر طالب علم کو ایڈ ٹیوٹر سے مستفید کرے تو ملک کے پسماندہ علاقوں میں بچوں کو گھر بیٹھے معیاری تعلیم کی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے۔

ماہر تعلیم گل مریم وٹو نے کہا کہ آج کے جدید دور میں جہاں ہر طالب علم مختلف گیجیٹ استعمال کررہاہے وہاں معیاری تعلیم کے فروغ میں ایڈ ٹیوٹر ایک کارآمد ایجوکیشن ایپ ہے جو ہر کیٹیگری کے طالب علموں کی تعلیمی ضروریات کا وسیلہ، بالخصوص نویں دسویں اور گیارہویں جماعتوں کے لئے اس کا اجراء ایک کامیاب انداز تعلیم بنا ہے۔

خالد شہباز نے کہا کہ ed tutor نویں دسویں اور گیارہویں کے ان تمام طالب علموں کے لئے بھی یکساں مفید ہے جو کسی بھی وجہ سے ریگولر تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اس۔ایپ نے فارمر اور نان فارمر دونوں طرز کے طالب علموں کو معیاری تعلیم کے حصول کا موقع فراہم کیا ہے؟

ماہر تعلیم علی ارسلان نے کہا کہ طالب علموں کو جدید ٹیکنالوجیز کے ذریعہ سے تعلیم کے حصول کی سہولت فراہم کرکے ایڈ ٹیوٹر نے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔

اس موقع پر ماہرین تعلیم کے مابین پینل ڈسکشن بھی ہوئی جس میں ایڈ ٹیوٹر کے معیار پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا۔یاد رہے EDTUTOR ایک ایسا معیاری اور مستند تعلیمی ایپ ہے جس میں نویں دسویں اور گیارہویں جماعتوں کا مکمل سلیبس،نصابی سوالات،مشقی سوالات کے جوابات، کوالیفائیڈ اساتذہ کے لیکچرز، ٹیسٹ، تیاری اور اس کے نتائج جیسے اہم تعلیمی اسلوب شامل ہیں جبکہ ان جماعتوں کے فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، ریاضی اور انگلش مضامین(سائنس گروپ) کو اپنایا گیا ہے جس سے ملک بھر کے کثیرتعداد میں طالب علم مستفید ہورہے ہیں۔ ED TUTOR کا نعرہ ہے LEARN BETTER SCORE HIGHER۔

The post ایڈ ٹیوٹر ایپ کی غیر معمولی مقبولیت، ایجوکیشن کی دنیا میں دھوم مچا دی appeared first on ایکسپریس اردو.

قرآن کی توہین بدترین انتہا پسندی، دشمن آپسی اختلافات کا فائدہ اٹھا رہا ہے، ایکسپریس فورم

$
0
0

لاہور: قرآن کریم کی توہین بدترین انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے،اس سے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔

مسلمان کسی مذہب یا الہامی کتاب کی توہین نہیں کرتے، ان پر ایمان لائے بغیر ہمارا ایمان نامکمل ہے، فرقہ واریت اورہمارے آپسی اختلافات کا فائدہ دشمن اٹھا رہا ہے، عالم اسلام کو متحد ہوکر اقوام متحدہ سمیت تمام فورمز پر بھرپور آواز اٹھانی چاہیے، عالمی سطح پر قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں گستاخی اور توہین کا یہ سلسلہ بند ہوسکے۔

امریکا، ڈنمارک، فرانس اور اب سویڈن،9/11 کے بعد سے منصوبہ بندی کے تحت قرآن کریم اور ذات نبویﷺ کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے، توہین کا یہ تسلسل دنیا بھر کے مسلمانوں، مسیحی و دیگر مذاہب کے پیروکاروں کیلیے بھی لمحہ فکریہ ہے، شیطان صف لوگ بین المذاہب ہم آہنگی کو ٹھیس پہنچانا چاہتے ہیں، ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ ریاست پاکستان اور علماء نے اس پر سخت موقف دیا ہے، پاکستان کی مسیحی برادری اوراقلیتیں اس گستاخانہ عمل پر شدید غم و غصے کا اظہار کر رہی ہے، مطالبہ ہے کہ سویڈن کے ساتھ فی الفور تجارتی و سفارتی تعلقات ختم کیے جائیں اور سفر کو واپس بھیجا جائے۔

ان خیالات کا اظہار مختلف مکاتب فکر کے علماء اور سابق وزیرانسانی حقوق نے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔

چیئرمین رویت ہلال کمیٹی و خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور مولانا عبدالخبیر آزاد نے کہا کہ سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے،ہر تھوڑے عرصے کے بعد دنیا کے بعض ممالک میں ایسا عمل کیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچاتا ہے،اس کا خاتمہ ہونا چاہیے اور جو بھی اس میں ملوث ہو، اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے، یہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کا مسئلہ ہے۔

امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث زبیر ظہیر نے کہا کہ آسمانی کتاب ، کلام الٰہی کی توہین بدترین انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے ، تمام مسلمان معلون کی اشتعال انگیزی اور شیطانی شرارت کی مذمت کر رہے ہیں، حکومت پاکستان سمیت عالم اسلام کو ایسے عملی اقدامات کرنے چاہئیں جس سے یہ سلسلہ رک سکے ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسلمان ممالک خصوصاََ اسلامی تعاون تنظیم کو یہ مسئلہ پورے زور و شور سے اٹھانا چاہیے۔

مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور راغب نعیمی نے کہا کہ 9/11 سے لے کر اب تک ، ہر دو سال کے بعد پلاننگ کے تحت کبھی قرآن کریم کے حوالے سے توہین کی جا رہی ہے اور کبھی ذات نبویﷺ کے حوالے سے ایسے معاملات سامنے لائے جا رہے ہیں جن سے مسلمان کا بھڑکنا بجا ہے۔

سابق صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب اعجاز عالم آگسٹین نے کہا کہ سویڈن کے ایک سیاسی رہنما نے ترکیہ سفارتخانے کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کا جو قبیح عمل کیا ہے میں اس کی بھرپور مذمت کرتا ہوں۔

The post قرآن کی توہین بدترین انتہا پسندی، دشمن آپسی اختلافات کا فائدہ اٹھا رہا ہے، ایکسپریس فورم appeared first on ایکسپریس اردو.

جو کی فصل

$
0
0

فیصل آباد: “حیرت ہے ڈاکٹر صاحب کہ صرف جو (Barley) کا دلیہ کھانے سے میں کیسے ٹھیک ہوگئی! نہ میں نے دوائی کھائی، نہ ٹیکہ لگوایا، نہ کوئی آپریشن یا لیزر ٹیکنالوجی کی طرف جانا پڑا…! سمجھ میں نہیں آرہا کہ صرف جو کی غذا کھانے سے نہ صرف میرے پتے (Bile duct) میں موجود پتھری سے مجھے نجات مل گئی … بلکہ اب تو میں ہشاش بشاش بھی رہنے لگی ہوں…، اور پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ صرف جو کی غذا کھانے سے ہی پتے میں موجود پتھری سے مجھے افاقہ ہوگیا ہو…!”

قارئین.. یہ تھے وہ کلمات جو اپنے شوہر کے ساتھ میرے دفتر واقع ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد آنے والی ایک خاتون میرے سامنے بیٹھی ادا کر رہی تھیں، جس پر میں گویا ہوا کہ بی بی! آپ کو تو شکر ادا کرنا چا ہیے کہ نبی کریمؐ کی پسندیدہ غذا کھانے سے آپ کی طبیعت بحال ہوگئی ہے، مگر الٹا آپ اس بارے مجھ سے شک کا اظہار کرر ہی ہیں کہ میں ٹھیک بھی ہو گئی ہوں کہ نہیں! کہنے لگیں کہ ڈاکٹر صاحب میرے پاس تو اب وقت نہیں ہے۔

کیوںکہ میں پرسوں امریکا جا رہی ہوں لیکن اگر پتے کی پتھری نے مجھے امریکا جا کر تنگ کیا تو؟ جس پر میں نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے بی بی ..آپ امریکا ضرور جائیں مگر جو کی غذا کا استعمال کرتی رہیں، اور جب کبھی امریکا سے واپس فیصل آباد آئیں تو وہاں سے الٹراساؤنڈ رپورٹ ضرور لیتی آئیں۔

کوئی 4،6ماہ بعد وہ خاتون امریکہ سے واپس ہوئیں تو انہوں نے مجھے الٹرا ساؤنڈ رپورٹ دکھائی جس پر رقم تھا کہ آپ کے پتے میں تو کبھی اسٹون (پتھری) تھا ہی نہیں، لیکن وہ خاتون آج بھی اسی تذبذب میں ہیں کہ جو کی غذا میں آخر کیا چیز پنہاں ہے کہ جس کی وجہ سے مجھے افاقہ ہوا۔

قارئین! جو کی غذا میں موجود چیز کی اہمیت تو فقط اسی بات سے دوچند ہوجاتی ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے دوران نبی کریمؐ کے ساتھ غار حرا میں جبریل علیہ السلام کی وقتاًفوقتاً آمد کے سوا اگر کوئی تیسری چیز تھی تو وہ ستو کی صورت جو کی غذا تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ غار حرا میں نہ کوئی چاول تھے نہ گندم کی روٹی تھی اور نہ ہی کھانے پینے کی کوئی اور شے تھی مگر وہاں جو کی غذا ہی کیوں موجود تھی، بس ہم مسلمانوں کو ایک یہی بات جو کی غذا کی اہمیت سمجھانے کے لیے کافی ہے۔

ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ شفایاب ہوئے اور وہ نبی کریمؐ کے ساتھ کھجوریں کھا رہے تھے، جب انہوں نے دو چار کھجوریں زائد کھا لیں تو نبی کریمؐ نے ان کو مزید کھجوریں کھانے سے روک دیا اور فرمایا کہ تم ابھی ابھی شفایاب ہوئے ہو، لہٰذا زیادہ کھجوریں مت کھاؤ، ، کچھ توقف کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک چقندر اور جو کا دلیہ دیا اور فرمایا کہ ان میں سے کھاؤ، یہ تمھارے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو اسلامی تاریخ کے پہلے دل کے مریض کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ ایک بار انہوں نے نبی کریمؐ سے عرض کی کہ (حدیث کا مفہوم پیش خدمت ہے) یا رسولؐ اللہ .. میں اپنے دل پر کوئی بوجھ سا محسوس کررہا

ہوں جس سے سانس لینے میں بھی دشواری ہے، اور بہت پریشان ہوں۔ آپؐ نے ان کو جو کا دلیہ تناول کرنے کا فرمایا۔ جو کا دلیہ کھانے کے اگلے ہی دن وہ مکمل صحت یاب ہوگئے (یہاں پر میرا ایمان ہے کہ جو کے دلیے کی بجائے نبی کریمؐ اگر مٹی بھی کھانے کے لیے فرماتے تو آپ رضی اللہ عنہ کو ٹھیک ہوجانا تھا، مگر نبی کریمؐ نے جو کا دلیہ ہی تناول فرمانے کی سفارش کیوںکی، یہ سوچنے کی بات ہے)

طلوع اسلام سے قبل بھی اگر جو کی غذا کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو کی غذا دراصل 8 ہزار سال سے متقی اور پرہیز گار لوگوں کا من پسند کھاجا رہی ہے کیوںکہ اس کی غذا میں قدرت کی طرف سے کچھ اس قسم کی راحت پنہاں رکھ دی ہے کہ جب وہ غذا پیٹ میں اترتی ہے تو جسم کے اندر موجود شریانوں اور وریدوں سے جڑی اندرونی کثافتیں، نجاستیں اور غلاظتیں فوری دور ہونے کے بعد بندے کو روحانی طور پر، سکون اور فرحت میسر آتی ہے۔

جس سے بندہ اپنے آپ کو نہ صرف ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے بلکہ اس کے غوروفکر کرنے کی صلاحیت کو بھی تقویت ملتی ہے۔ یوں یہ غذا طلبائ، حفاظ کرام، علمائے کرام، سائنس دانوں اور اساتذہ کے سوچ بچار کرنے اور نئے نئے تصورات جنم دلوانے میں اہم کردار کی حامل ہے۔

ترکیہ کے تاکردہ شہر میں واقع ترکیہ یونیورسٹی میں ایک سیمپوزیم میں شرکت کا موقع ملا جہاں عالمی اسکالروں اور سائنس دانوں سے جو کی فصل پر بھی بات ہوئی۔

مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب، قطر، دوبئی، شارجہ دمام وغیرہ میں تو جو کی مصنوعات یعنی نوڈلز، کوویکر، روٹی، ستو، دلیہ ، آب جو، اور شب دیگ کے ساتھ ساتھ وہ اسے سوپ میں ڈال کر بھی نوش کرتے ہوئے جو کی غذا سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر پاکستان میں جو کی غذا سے لاعلم لوگوں سے اکثر سننے کو ملتا ہے کہ اسے تو ڈھور ڈنگر بھی نہیں کھاتے..

جو کی غذا کے بارے میں من حیث القوم ایسا تبصرہ یا ایسا موقف وہی کر سکتے ہیں جو، جو کی غذا کی افادیت سے بے خبر ہوں، مگر جن لوگوں کو جو کے بارے میں علم ہو جاتا ہے، وہ اسے اپنی خوراک کا جزو لاینفک بنا لیتے ہیں۔

اللہ بخشے جنرل حمید گل سے کوئی 20 سال یاداللہ رہی۔ ان کو جو کی فصل کے بارے کے ادراک ملنے کے بعد سرگودھا میں موجود ان کی اپنی زرعی زمینوں پر گندم کے ساتھ جو کی فصل کی کاشت کو ہمیشہ ترجیح دیتے ، جنرل حمید گل سے اکثر بات ہوتی اور فرماتے کہ تبسم صاحب! آپ کی جو کی فصل کی تحقیق نے میرے شعور کو جو کی غذانے نہ صرف خاصا مستفید کروایا ہے بلکہ غذا نے میرے غورفکر کو بھی جلا بخشی ہے، جو کی غذا کھانے سے ایک تو میرے جسم میں چستی آگئی ہے اور جو کی فصل نے میری زمین کی زرخیزی میں بھی نمایاں اضافہ کیا ہے۔

ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ریسرچ) اور پنجاب زرعی تحقیقاتی بورڈ (PARB) ، لاہور کے موجودہ چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر عابد محمود نے کہا کہ میں جو کے آٹے کی روٹی بھی کھا رہا ہوں اور ستو بھی پی رہا ہوں۔

جو کی روٹی کھانے سے میری شوگر 150/160 رہتی تھی ، اب 100 سے کم ہوگئی ہے۔ یعنی 90/95۔ پہلے کی نسبت اب جو کی غذا کھانے سے میرے جسم کا نظام اب بہت اچھا چل رہا ہے، یعنی ستو، دلیہ اور روٹی کھا رہا ہوں، تو میں سمجھتا ہوں کہ جو کی غذا کھانے سے مجھے بہت فائدہ ہو رہا ہے۔

گذشتہ 30 برس سے پاکستان بھر کے جو کی فصل کے کھیت میرا اوڑھنا بچھونا رہے ہیں۔ ایک روز اپنے تحقیقاتی ادارے ادارۂ گندم، فیصل آباد میں جو کی فصل کا معائنہ کرنے کے لیے صبح سویرے کھیتوں میں چلا گیا۔

کیا دیکھتا ہوں کہ جو کی فصل کے درمیان کھڑا ایک شخص بار بار فصل کی طرف جھکتا تھا اور اٹھتا تھا، جب قریب گیا تو علم ہوا کہ وہ شخص جو کی فصل کے پتوں پر آنے والی شبنم ہاتھوں سے اکٹھی کرکے بوتل میں ڈال رہا تھا۔ یہ فروری کا مہینہ تھا اور دھند بھی بہت تھی۔

شبنم کے پانی سے جب بوتل بھرگئی تو میں نے اس کو بلایا اور ذرا ڈانٹتے ہوئے بولا کہ کیوں بھئی جو کی فصل کے اس سرکاری فیلڈ میں تجربے کے لیے لگی فصل کو کیوں خراب کر رہے ہو، دوسری طرف گندم کے کھیتوں میں چلے جاتے، جس پر وہ جھجھکتے ہوئے بولا صاحب جی! غلطی ہوگئی، دراصل مجھے میرے دادا ابو نے ادھر بھیجا ہے کہ میں جو کی فصل پر لگی شبنم کو ایک بوتل میں اکٹھی کرکے لاؤں۔

مجھے حیرت ہوئی یا شاید قدرت مجھے جو کی فصل کی اک نئی جہت سے روشناس کروانا چاہ رہی تھی۔ اس شخص کی عمر 40 سال تھی، اس کے باپ کی عمر 70 سال اور اس کا دادا یقیناً 100 برس سے اوپر کا ہوگا۔ یعنی 100 برس کا ایسا علم مجھ تک پہنچا تھا جو شاید ہی کسی کتاب میں رقم ہو۔ وہ شخص کہنے لگا کہ میرے دادا کے ایک دوست کی آنکھوں میں سفیدموتیا اتر آیا ہے اور میرے دادا نے مجھ سے کہا تھا کہ آج کل فروری کا مہینہ ہے اور جو کی فصل بھی کھیتوں میں لگی ہوگی۔

لہٰذا تم قریب کے کھیتوں میں جاؤ اور جو کی فصل پر گرنے والی شبنم کو ایک بوتل میں اکٹھی کر کے لاؤ۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کی فصل پر آنے والی شبنم کے پانی میں اگر شریں کے پتے ڈال دیے جائیں اور اس سے بننے والے پانی کو نتھار کر آنکھوں میں ڈالیں تو وہ آنکھوں کے جملہ امراض بشمول کالے اور سفید موتیے کے لیے اکسیر ثابت ہوتا ہے۔

میں حیران تھا کہ صبح صبح گرنے والی شبنم کو جو کی فصل کے ساتھ ابھی صرف قربت ہی میسر آئی ہے، یعنی اس شبنم نے ابھی جو کی فصل کا صرف لمس ہی لیا ہے کہ اس نے شبنم کے پانی کو اتنا پر تاثیر بنا دیا کہ وہ کالے اور سفید موتیے کے لیے تریاق ہوگیا، تو اس فصل سے اخذ کردہ غذا کا عالم کیا ہوگا۔

مقام تفکر ہے کہ پاکستان میں یہ تاثرعام ہے کہ جو کی فصل کو تو ڈھور ڈنگر بھی نہیں کھاتے، کھیت میں کاشت کی جائے تو وہ جلد ہی گرجاتی ہے، کھیت خراب کر دیتی ہے، اس کو تیلہ بھی بہت لگتا ہے جس سے اس کی پیداوار بھی کم رہتی ہے، مگر قارئین! یہ تاثر کُلی طور پر درست نہیں ہے۔

اپنے کھیت میں ہر کسان کی اپنی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ کیا کاشت کرے اور کیا کاشت نہ کرے۔ اگر کسی کو دولت کمانی ہے تو وہ گندم اور جو کی فصل کی کاشت کو چھوڑ کر سبزیاں لگا لے، تھوڑے ہی عرصے میں امیر ہو جائے گا، اور اگر کسان محنت سے عاری ہے اور سال بھر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کو ترجیح دیتا ہے تو وہ گنا کاشت کرلے، 2 ہزار من فی ایکڑ لے کر راتوں رات امیر ہو سکتا ہے اور اگر کوئی یہ سوچ کر جو کی فصل کاشت کر لیتا ہے کہ اس سے حاصل ہونے والی نبی کریمؐ کی پسندیدہ غذا نہ صرف خود کھاؤں گا بلکہ اپنے اہل و عیال اور دوستوں کو بھی کھلاؤں گا تو اس سے بے شمار فوائد حاصل ہوں گے۔

یعنی پہلا کھانے کے معاملے میں وہ سنت نبوی سے منسلک ہوجائے گا، اور سنت کے ان گنت فوائد ہوں گے، اس کو عام کرنے میں پیش پیش رہے گا، صحت برقرار رہے گی، بیماریوں سے چھٹکارا ملتا رہے گا، جب کہ قویٰ مضمحل ہونے کے شکار بزرگوں کے لیے یہ غذا کسی نعمت سے کم نہیں، کیوںکہ اس میں کاپر اور سیلینیم کی وافر مقدار موجود ہے، جو گھٹنوں کے درد، سرطان اور کورونا کے مریضوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔

اس میں پروٹین کا ایک ایسا جزو (High lysine) پایا جاتا ہے جو بچوں کا قد بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اور ویسے بھی ترقی یافتہ ممالک کی ایک تازہ ترین تحقیق کے مطابق شوگر، ٹینشن، بلڈپریشر اور کولیسٹرول کے مریض گندم کے آٹے سے بنی روٹی کھانا چھوڑ دیں تو آدھی بیماری ختم ہوجاتی ہے، تو پھر وہ گندم کے آٹے کی روٹی کی جگہ کیا کھائیں؟ یہاں پر انہوں نے 2 آٹوں سے بنی روٹی کھانے کی سفارش کی ہے، جن میں ایک مکئی کا آٹا ہے اور دوسرا جو کا آٹا، اور اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو نبی کریمﷺ  سے نسبت ہونے کے ناتے میری زبان پر جو کے آٹے سے بنی روٹی کا ہی نام آئے گا۔

یہاں پر یہ تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ آج کل گندم کا آٹا 160روپے فی کلو سے اوپر کا ہو چکا ہے جب کہ جو کا آٹا ابھی صرف 80 روپے کلو ہے، مگر یاد رہے کہ گندم کی روٹی کھانے سے بندے کی جسم میں خمار آتا ہے جس سے سستی چھا جاتی ہے اور اس میں موجود کاربوہائیڈریٹس کی زیادہ مقدار کی وجہ سے جسم فربہ بھی ہوجاتا ہے۔

گندم کے آٹے میں glutin کی مقدار 9.30 فی صد ہوتی ہے جس سے معاشرے میں گلوٹن الرجی سرایت کر رہی ہے اور اسٹارچ کی مقدار 53% اور بیٹاگلوکان% 99 0 ہے اور توانائی کی مقدار 324 کلو کلوریز فی 100 گرام آٹا ہے، جب کہ جو کی روٹی میں گلوٹن سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ اس لیے جو کی روٹی کھانے والے کو گلوٹن الرجی نہیں ہوتی، اسٹارچ کی مقدار گندم سے % 10 زائد یعنی% .63 ہوتی ہے اور بیٹا گلوکان جو دراصل پیکٹ آف انرجی ہے، کی مقدار گندم سے بہت زیادہ یعنی 1%.5 ہے اور اس میں پائی جانے والی توانائی بھی گندم کے آٹے سے زیادہ ہے۔

جو 353 کلو کلوریز فی 100 گرام آٹا ہے، یہی وجہ ہے کہ جو کی روٹی کھانے سے خمار نہیں ہوتا بلکہ جسم میں چستی آتی ہے۔ اس سے بیماریوں سے شفا بھی مل رہی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ فائبر کی وافر مقدار ہونے کی وجہ سے جو کی غذا کھانے سے قبض جیسے موذی مرض سے افاقہ ہوتا ہے۔

اس سے جسم پر چڑھی چربی پگھل جاتی ہے اور موٹاپا کم ہوجاتا ہے۔ یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ صومالیہ، کینیا، یوگنڈا، بنگلادیش، گھانا، سینیگال، سوڈان، ایتھوپیا وغیرہ کے لوگ ہمیشہ دبلے پتلے اور چست نظر آتے ہیں، قبض جو بیماریوں کی ماں کہلاتا ہے، کا ان ممالک میں خاتمہ ہوچکا ہے، کیوںکہ ان کی خوراک میں فائبر شامل ہوتا ہے جو وہ جو کی غذا سے حاصل کرتے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں جو کی فصل پر تحقیق سست روی کا شکار ہے اور یہ ایک نظرانداز کی جانے والی فصل ہے۔

اس پر کی جانے والی تحقیق اس انداز میں نہیں ہو رہی جو اس فصل کی افادیت کی متقاضی ہے اور نہ ہی اسے آ تک ایک بڑی فصل کے طور پر لیا گیا ہے۔ یہی وجہ کہ قیام پاکستان سے لے کر تادم تحریر اس کی فقط 8 اقسام ہی دریافت کی جا سکی ہیں جن میں جو-83، جو -87، حیدر-93، سلطان-17، جو -17، جو-21،پرل-21 اور تلبینہ-21 شامل ہیں۔

ہمارے ملک میں جو کی فصل کی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے 6.79 ملین ہیکٹرپاکستان کے کل رقبہ کا جو قابل کاشت 10.22 ملین ہیکٹررقبہ ہے، اس میں سے صرف56 ہیکٹر رقبے پر جو کی فصل کاشت کی جاتی ہے، جو پاکستان کے کُل قابل کاشت رقبے سے نصف فی صد سے بھی خاصا کم یعنی 0.26% بنتا ہے۔ پاکستان میں جو کی فصل پر تحقیق اگرچہ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے شعبہ گندم میں محدود پیمانے پر جاری ہے، مگر جو کی فصل کی بے شمار جہتوں پر تحقیق ہونا ابھی وقت کی اور پاکستانیوں کی شدید ضرورت بھی ہے۔

مثلاً کیا واقعی جو کی فصل کاشت کرنے سے زمینوں کی زرخیزی بڑھ جاتی ہے! یہ کم مداخل (Inputs) میں بھی اچھی خاصی پیداوار دے جاتی ہے، ا گر ایسی بات ہے تو کم و بیش 40ملین ہیکٹر کا وہ رقبہ جو بیابان و بنجر اور نمکیات شدہ پڑا ہے وہاں جو کی فصل کاشت کرنے سے پاکستان کو نہ صرف سرسبز بنایا جا سکتا ہے، بلکہ غذائی قلت بھی دور کی جاسکتی ہے اور دوسرا اس کے غذائی پہلوؤں پر بے شمار تحقیق ابھی تشنگی کا شکار ہے۔

اس غذا کی شیلف لائف توجہ طلب ہے کہ یہ کتنی دیر تک کارآمد ہو سکتی ہے، یہ تمام پہلو جو کی فصل کے ایک خود مختار ادارے کی راہ تک رہے ہیں جس کی تکمیل کے لیے اس کی راہ میں سرخ فیتے کی نذر ہو جانے والی رکاوٹوں کو دور کرنا کسی عاشق رسولؐ کی توجہ کے بغیر ممکن نہیں، لہٰذا پاکستان میں اور خصوصاً پنجاب میں غریبوں کی غذا ہونے کے ناتے اور نبی کریمؐ کی پسندیدہ جو کی غذا کی ترویج کے لیےInstitute Research Barley کا قیام ناگزیر ہے۔

The post جو کی فصل appeared first on ایکسپریس اردو.

فلورائیسز؛ دانتوں کی بیماری جس کا سبب آگاہی کی کمی

$
0
0

بیماری اور تکلیف یقیناً اللہ کی جانب سے انسان کا امتحان ہوتی ہیں۔ یہ انسانی آزمائش کی ایک شکل ہوتی ہیں پر بعض اوقات کچھ ایسی چیزیں وقوع پذیر ہو جاتی ہیں جو بیماریوں کے لئے راہ ہموار کرتی ہیں۔کچھ غلطیاں انجانے میں ہوتی ہیں جبکہ کچھ جانے بوجھتے کی جاتی ہیں۔

ایسی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا دشوار تو ہوتا ہی ہے پر تکلیف دہ بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی تو اتنی کم نہیں مگر آگاہی کی کمی ہے جو کہ بڑے مسائل کا سبب بنتی ہے۔

پاکستان میں قوانین موجود ہیں ادارے موجود ہیں پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو مسائل کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔صاف پانی تک رسائی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔مگر افسوس کے ساتھ ابھی تک ایسے علاقے موجود ہیں۔

جہاں پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور بات صرف یہی تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے خطرناک اثرات انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتے ہیں۔

پاکستان کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پانی میں فلورائیڈ کی مقداد خطرناک حد تک زیادہ ہے اور اس کے بدترین اثرات میں سے ایک اثر بچوں کے دانتوں پہ ہوتا ہے۔ جس سے فلورائیسسز نامی بیماری جنم لیتی ہے جو دانتوں کی ساخت کو متاثر کرتی ہے۔

اس ضمن میں جاننے کے لئے پہلے دانتوں کے حوالے سے کچھ حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔اس حوالے سے ہم نے ماہر امراضِ داندان ڈاکٹر سلمان بشیر طاہر سے رجوع کیا ۔

ڈاکٹر سیلمان سینئر ڈینٹل سرجن ہیں ہیں اور تحصیل بھوریوالا میں میں اپنی پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ذیل میں دانتوں کی اس بیماری کے حوالے سے اہم معلومات ان کی بدولت ممکن ہوئیں۔

دانتوں کی ساخت

دانت قدرت کا خوبصورت تحفہ ہیں۔ دانتوں کی بیماریوںسے متعلق جانے کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دانتوں کی ساخت کیا ہوتی ہے۔دانتوں کو ماہرین دو طرح سے دیکھتے ہیں ایک ان کی شکل یا شیپ (جس میں روٹ اور کراؤن آتے ہیں )کے حوالے سے اور دوسراہسٹولوجیکل خصوصیات جن میں دانتوں کی بیرونی ساخت، اندونی حصے اور اینیمل کو دیکھتے ہیں۔

اینیمل دانتوں پر پروٹیکشن شیلڈ کا کام کرتا ہے اب سوال یہ ہے کہ ننھے سے دانت کیسے اس شیلڈ سے مخفوظ ہو جاتے ہیں؟ دراصل کیلشیم اور فلورائیڈ سے بنے آپس میں پیچیدگی سے جڑے مرکبات سے بنی ایک دیوار ہوتی ہے جو دانتوںکی اوپری سطح کی حفاظت کرتی ہے۔

بیماری میں ہوتا کیا ہے؟

اس بیماری میں اینیمل کی تشکیل کو مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ دانت بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق دانتوں کی نشوونما کا آغاز شکمِ مادہ سے ہی ہو جاتا ہے۔ دودھ کے دانت بھی حمل کے دوران ہی بچے کے جبڑے میں بن جاتے ہیں اور پھر چھ ماہ کے بعد باہر آنا شروع ہوتے ہیں اسی طرح بالغ دانت ( دانت جو دودھ کے دانتوں کے بعد آتے ہیں) وہ بھی تین سے پانچ برس کی عمر تک جبڑے میں تشکیل پا چکے ہوتے ہیں جو سات آٹھ سال کی عمر میں بچے کے دودھ کے دانت گرنے کے بعد باہر آتے ہیں۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس سب عمل میں دانتوں کی تشکیل کے حوالے سے بچے کے زندگی کے ابتدائی سال بہت اہم ہوتے ہیں اس دوران بچے کو ان تمام وٹامنز منرلز اور غذائیت کی مناسب مقدار کا ملنا ضروری ہوتا ہے۔ اس میں ایک اہم کردار فلورائید کا بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ مقدار کم ہو یا زیادہ ہوجائے تو اس کے نقصانات ہوتے ہیں۔

اگر فلورائیڈ کی مقدار بڑھ جائے تو کیا ہوتا ہے؟

فلورائیڈ ایک قدرتی مادہ ہے جو ایک خاص مقدارمیں پانی کے اندر پایا جاتا ہے۔یہ ہڈیوں اور دانتوں کی نشونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے ماخد پانی، مٹی ، پودے ، پتھر اور ہوا ہیں۔

فلورائیڈ دانتوں کی اوپری سطح کو ہموار کرنے میں اور اس کی کیڑوں سے حفاظت کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

یہاں تک کے جن ممالک میں اس کی مقدار واٹر سپلائی میں کم ہوتی ہے وہاں انتظامی سطح پر اسے پانی میں ایک حاض حد تک ڈال کر لوگوں کو مہیا کیا جاتا ہے۔فلورائیڈ کو عموماً ٹوٹھ پیسٹس ، ماوتھ واش اور سپلیمینٹس میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے فوائد کی بات کی جائے تویہ دانتوں کی حفاظت کرتا ہے اور دانتوں میں منرلز کی سطح کو برقرار رکھتا ہے۔

بیکٹریا کو دانتوں میں آنے سے محفوظ رکھتا ہے۔آپ نے اکثر ٹوٹھ پیسٹس پہ بھی فلورائیڈ سے بھر پور ہونے کے دعوے لکھے دیکھے ہوں گے ۔

پر شاید ہی آپ کو کسی نے یہ بتایا ہو کہ فلورائیڈ کی مقدار ذیادہ ہونے سے آپ کے دانتوںکو فلورائیسز نامی بیماری لگ سکتی ہے جس کے نتائج خطرناک ہوتے ہیں۔

علامات کیا ہیں؟

فلورائیسز عموماً آٹھ سے دس برس کے بچوں میں دیکھنے کو ملتی ہے اس بیماری میں دانتوں پہ پہلے سفید سفید دھبے بننا شروع ہوتے ہیں پھر وہ پیلے ہوجاتے ہیں اور پھر کیونکہ ان کی اوپری سطح کمزور ہوچکی ہوتی ہے تو کیڑا ان پہ حملہ آور ہوکر سارے دانتوں کو ختم کر دیتا ہے۔

یہ عام کیڑا لگے دانتوں سے مختلف یوں ہوتے ہیں کہ کیڑا یوں تو کسی ایک دانت کو متاثر کرتا ہے پر فلورائسز میں سارے دانتوں پر اس کا اثر ہوتا ہے۔

دانت آہستہ آہستہ بھرنے لگتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جن پہ فلورائسز حملہ آور ہوتا ہے اگر ان کے دانت بچ جائیں اور وہ کچھ عرصہ برش کرنے میں کوتاہی کریں تو وہ ان کے دانتوں کا حشر یوں ہی ہو جاتا ہے جیسا کہ ابتدائی عمر میں بچوں کا ہوتا ہے۔

پاکستان کے کن علاقوں میں پانی کے اندر فلورائیڈ کی مقدار زیادہ ہے؟

یوں تو اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ کام نہیں گیا جارہا مگر 2013میں ایک ریسرچ یونیسیف اور نیشنل واٹر کوالٹی لیبارٹری کے تعاون سے کی گئی جس کا مقصد پاکستان میں پینے کے پانی میں فلورائیڈ کی مقدار کو زمینی پانی میں جانچنا اور اور کے نقصانات سے آگاہ کرنا تھا۔

اس تحقیق میںسطح کے پانی اور زمینی پانی کے پاکستان کے 16 مختلف شہروں سے747 نمونے لئے گئے۔ جن میں لاہور، فیصل آباد، قصور، خوشاب، چکوال، میانوالی، جہلم، بہاولپور، کراچی، میرپورخاص، پشاور، رسالپور، کوئٹہ، زیارت، لورالائی اور متوانگ شامل تھے۔

اور ان نمونوں کی جانچ WHOکی دی ہوئی ہدایات کے مطابق کی گئی ۔ سب سے زیادہ فلورائیڈ کی مقدار بلوچستان کے پانی میں پائی گئی جو کہ 22فیصد تھی جب کے دوسرے نمبر پر پنجاب رہا۔

WHOکے مطابق ایک لیٹر پانی میں 1.5mgفلورائیڈ سے زیادہ مقدار نقصان دہ ہے۔اور اس تحقیق میں پنجاب کے شہر میانوالی،لاہور، خوشاب، چکوال، فیصل آباداور قصور میں اس کی سطح بلند رہی او بلوچستان کے شہر کوئٹہ ، مستونگ اور لورالائی میں۔

بیماری جنم کیوں لیتی ہے؟

ہمارے ہاں کمیونٹی اوئیرنس نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کا شاخسانہ ہے کہ پانی میں اگر فلورائیڈ کی مقدار ایک معقول حد سے زیادہ ہو تو اس کا اثر دانتوں پہ ہوتا ہے۔ جیسے پینے کا پانی ۔پینے کا صاف پانی مہیا کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

بیماری کے بارے میںآگاہی دینا محکمہ صحت اور تعلیم کی ذمہ داری ہے۔عموماً یونین کونسلز کی سطح پر نیوٹریشن سپروائزر کا ایک کردار ہوتا ہے آگاہی فراہم کرنا۔ ہر تحصیل میں محکمہ زراعت پانی کی کوالٹی چیک کر کے بتاتا ہے اور اس ضمن میں ایگریکلچرل لیبز موجود ہوتی ہیں۔

اس ضمن میں سب سے اہم کردار پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا ہوتا ہے کہ وہ عوام الناس کی صحت کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کریں۔اور بیماری کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر کی جانب عوام کی توجہ مبذول کرائیں۔ کوئی بھی ادارہ تنہا سارے کام نہیں کرسکتا اس کے لئے اداروں کا آپس میں باہمی تعاون ہی عوام کی خوشحالی کی ضمانت ہے۔

اس ضمن میں محکمہ صحت کو محکمہ زراعت کے ساتھ مل کر پانی کی جانچ کروانی چاہیئے اور جن بیماریوں کے پھیلاؤ کا خدشہ ہو ان کے حوالے سے محکمہ تعلیم کے ساتھ مل کر کمیونٹی میں آگاہی کی مہمات کا اطلاق کرنا چاہیئے۔ ادارے اور وہاں کام کرنے والے افراد اگر اپنے کام اور ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہوں تو بڑے سے بڑے مسائل سے بھی نمٹا جاسکتا ہے۔

نجانے اب تک کتنے لوگ انتظامی غفلت و نااہلی کی بھینٹ چکے ہوں گے ۔حکومتی سطح پر ہر تحصیل ہیڈکواٹر ہسپتال میں دانتوں کی شعبے میں انتظامات اور ماہرین کی موجودگی یقینی ہو تو بہت سے مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔

بیماری کا علاج کیا ہے؟

اس بیماری میں علاج سے زیادہ پریکوائشنز جنھیں پیشگی تدابر کہا جاتا ہے وہ اہمیت کی حامل ہیں لیکن اگر کسی کو یہ بیماری ہو گئی ہے تو اس کا علاج ابتدائی سطح پہ تو یہی کیا جائے گا کہ دانت کی پالش اور بلیچینگ کر کے ان داغوں کو مٹایا جائے، نارمل فیلنگ اورUV Lightٹریٹمنٹ دیا جائے جس کے بعد بہت زیادہ حفاظت کرنا ہوتی ہے۔

لیکن اگر موڈریٹ تو سوئیر سٹیج پہ ہو تو اس میں وینئیرز جو کہ سرامکس سے بنے انڈے کے خول کی طرح باریک خول دانتوں کی باہر والی سطح پہ لگائے جاتے ہیں۔اور دانت کے رنگ اور اس کی ساخت میں جو بھی تبدیلی آئی ہو اس کو چھپا دیتا ہے۔اور اگر دانت بہت زیادہ خراب حالت میں ہوںتو ان پہ کراؤن لگاتے ہیں۔

بیماری سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

سب سے اہم چیز اس ضمن میں آگاہی اور احتیاطی تدابیر ہیاں۔ اس ضمن میں پانی کو ہمیشہ ابال کر استعمال کرنا چاہیئے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جس برتن میں پانی کو ابالیں اسی میں سے استعمال کریں، لیکن برتن میں بچی آخری ایک انچ کی لئیر کو استعمال نہ کریں۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر اس کو بوتلوں میں منتقل کر کے استعمال کرنا ہے تو اس کے لئے فلٹر پیپر اوراگر وہ میسرنہ ہو تو ململ کے کپڑے سے پانی کو گزار کر استعمال والے برتنوں میں منتقل کریں۔ بورننگ کروانے کے بعد پانی کا لیب ٹیسٹ ضرور کروائیں جو کہ تحصیل میں موجود محکمہ زراعت کی لیبز سے بآسانی ہوسکتا ہے۔

فلورائیسز سے بچنے کے لئے اپنی خوراک کا بھی دھیان رکھیں دانتوں کو مضبوطی کے لئے کیلشیم، فلورائیڈا ور فاسفیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان کے بنیادی ذرائع، دودھ، فلورائیڈ(پانی میں) اور دہی ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ اگر آپ کو فلورائیسز کی علامات نظرآئیں تو کسی اچھے ماہر داندان کو دیکھائیں عموماً جن کی خاصیت Restorative Dentisteryہوتی ہے وہ اس کا بہتر علاج کرتے ہیں۔ دانتوں کی صحت و صفائی کا خاص خیال رکھیں ۔

The post فلورائیسز؛ دانتوں کی بیماری جس کا سبب آگاہی کی کمی appeared first on ایکسپریس اردو.

9/11 کے بعد ہمارے پاس امریکہ کا ساتھ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا

$
0
0

آخری قسط

1994 میں اچانک ایک نئی صورتحال پیدا ہو گئی۔ افغانستان کے شہر قندھار کے مضافات میں ملا محمد عمر نامی ایک سابق جنگجو مدرسے کا معلم تھا، مدرسے کے ایک طالب کو ایک ’وار لارڈ‘ نے اغوا کر لیا تو ملا عمر نے اس کی بازیابی کے لئے اس وار لارڈ کا گھیراو کے ٹھکانے کاگھیراوء کر لیا۔

وار لارڈکے ہاتھوں تنگ اس کے اپنے محافظ ملا عمر کے گروہ میں آ شامل ہوئے ، دیکھتے ہی دیکھتے دیگر وار لارڈز کے جنگجو بھی ملا عمر کے گروہ میں شامل ہوتے گئے۔

افغانستان میں موجود القاعدہ نے ملا محمد عمر کو طاقت پکڑتے دیکھا تو بھاگم بھاگ قندھار جاپہنچی ، مالی و عسکری وسائل کی فراہمی میں ملا محمد عمر کو اپنی بھر پور مدد کا یقین دلایا۔ عالمی اجارہ دار کی خفیہ کے اہلکار بھی یونائٹڈ آئل کمپنی آف کیلفورنیا کے انجینئرز کا روپ دھارے قندھار جا پہنچے۔ اگلا مرحلہ اب طالبان کی کابل کی جانب پیشقدمی کا تھا۔

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی ایک انٹرویو میں ملا عمر کو ڈالرز اور اسلحہ کی فراہمی کا اعتراف کیا تھا۔

واشنگٹن دورے میں1994 میں سابق وزیر اعظم بے نظیر کو امریکی ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ رابن رافیل نے ملا عمر کے طاقت پکڑتے ، نئے اُبھرتے مسلح گروہ کی حمایت کے فوائد گنوائے اور انہیں اپنا ہمنوا بنا لیا تھا۔

پاکستان کو وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ افغانستان کے زمینی راستے سے تجارت کے ذریعے خوشحالی کے ایک بہت بڑے منصوبے کے خواب دکھلائے گئے تھے۔

اس وقت تک ملا عمر کے طالبان اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے درمیان کسی بھی سطح پر کوئی رابطہ نہ تھا، ملا عمر کو افغانستان پر مکمل قبضے کے لیے ایک مضبوط سرپرستی کی ضرورت تھی،امریکی دوست پاکستانی سیاست کو وسط ایشیا سے معاشی رابطوں کے فوائد گنواتے ، ملا محمد عمر کی حمایت و سرپرستی پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

بے نظیر بھٹو نے کونسل آن فارن ریلیشنز کے زیر اہتمام 2007 میں منعقدہ ایک نشست میں کہا تھا ” ہمارے امریکن فرینڈز کا بھی یہی خیال تھا کہ ملا عمر کے طالبان افغانستان میں امن لائیں گے ، یقینی طور پر یہ غلطی تھی ،کاش یہ میں نے نہ کی ہوتی‘‘ کابل پر اقتدار کی چپقلش نے پاکستان پر مذہبی انتہا پسندی مسلط کرنے کے منصوبوں کو کھٹائی میں ڈال دیا تھا لیکن ملا عمر کی صورت میں پاکیسان دشمنوں کو اب اس کام کے امکانات دکھائی دینے لگے تھے۔

نیا ہدف اب کابل میں مذہبی انتہا پسندوں کی ہمسایہ ایٹمی اسلامی ریاست پاکستان کی جانب مذہبی شدت پسندی کی یلغار تھی ، انتہا پسندی کو ہوا دے کر دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹنا کہ ایٹمی ہتھیار کسی بھی وقت مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں لگ کر دنیا کا امن تباہ کر سکتے ہیں۔

ملا محمد عمر کے طالبان ابھی کابل نہیں پہنچے تھے۔ اب پاکستان اور ملا عمر کے طالبان کے درمیان براہ راست رابطے کا مرحلہ درپیش تھا۔

ایسے میں معاشی نسخے کی ایک ترکیب لائی گئی۔ وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے وزیر اعظم کو ملک میں ٹیکسٹائل ملز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے وسط ایشیائی ملکوں سے کاٹن منگوانے کا منصوبہ پیش کر دیا، بغیر اس بات کا دھیان کیے کہ افغانستان کا زمینی تجارتی راستہ ، جگہ جگہ مقامی وار لارڈز کے سخت حصار میں ہے۔

یہ سفر کس طرح طے ہو گا ، پاکستانی ٹرکوں کے تجارتی قافلے پاک افغان بارڈر کراس کرتے ہوئے افغانستان میں داخل کر دئیے گئے۔توقع کے مطابق ، پاکستانی تجارتی قافلوں کے یہ ٹرک اور ان کے سوار مقامی وار لارڈز کی ’عصمت ملیشیا‘ اور دیگر مقامی مسلح گروہوں کے ہاتھوں یرغمال بنتے گئے۔

اب پاکستان کے پاس انہیں چھڑانے کے لئے ملا عمر سے مدد مانگنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ قومی سطح پر مضبوط و مستحکم عملداری سے یکسر محروم افغانستان کے زمینی راستوں پر وسط ایشیا کے لئے ٹرکوں کے اپنے تجارتی قافلوں کو روانہ کر نے کی پاکستانی سیاست کے حکومتی فیصلے نے پاکستان کو مجبوری کے عالم میں مدد کا طلبگار بنا کرملا عمر کے در پر جا کھڑا کیا۔

اب ایک طرف ملا عمر کو کابل کے تخت پر قبضہ کے لئے پاکستان کے تعاون کی ضرورت تھی اور دوسری جانب پاکستان کو اپنے تجارتی قافلوں کو مقامی وار لارڈز سے چھڑانے کے لئے ملا عمر کی حمایت درکار تھی۔ پاکستانی حکومت نے یرغمال بنے پاکستانی تجارتی قافلوں کو چھڑانے کا مشن بقول سابق آئی ایس آئی سربراہ جاوید اشرف قاضی کو سونپا گیا۔

ملا عمر کے طالبان سے پاکستان کے عسکری اداروں کا یہ پہلا رابطہ تھا۔ وزیر داخلہ ریٹائرڈ جنرل نصیر اللہ بابر فخر سے افغان طالبان کو اپنے بچے کہنے لگ گئے۔

قندھار سے باہر افغانستان کے دیگر علاقوں کی جانب بڑھتے ملا عمر کے طالبان اب پاکستانی تجارتی قافلے کو بازیاب کروانے کی مہم پر نکل کھڑے ہوئے۔ پاکستانی تجارتی قافلے کو بازیاب کرا لیا گیا۔

کامیاب مہمات سے ملا عمر کے طالبان طاقت پکڑتے گئے ، افغان دارالحکومت کابل کی سڑکوں پر افغان طالبان کی مکمل عملداری بالآخر قائم ہو گئی۔ افغانستان کی اسلامی ریاست کے امیر ملا عمر کی حکومت کو پاکستان ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تین ملکوں نے تسلیم کر لیا۔

پاکستان اور افغان طالبان کے ایک دوسرے کے ساتھ قریب ہوتے ، شانہ بشانہ چلتے اس سفر کے دوران پاک جانثاروں کی ہمہ وقت بیدار آنکھوں نے القاعدہ اور عالمی یونی کول کے ” اہلکاروں ” کے عزائم کا کھوج لگا لیا۔ ملا محمد عمر کو واضح پیغام دے دیا گیا۔

افغانستان کے اندرونی معاملات کے تم حاکم و مختار مگر پاک افغان بارڈر کی جانب شدّت پسندی کا کوئی قدم ہرگز برداشت نہ ہو گا۔ ملا عمر پر ہوئی سرمایہ کاری کی سبھی غیر ملکی یلغار اکارت گئی۔

القاعدہ مگر افغانستان میں موجود تھی ، دنیا بھر سے اس کے خیر خواہ افغانستان میں اکٹھے ہوتے گئے ، افغان طالبان پاک افغان بارڈر سے دور رہے تاہم القاعدہ ان پر قابو پاتی چلی گئی۔سوویت افواج کے انخلا کے بعد پاکستان نے افغان جنگجو گوریلا کمانڈرز کی باہمی چپقلش سے مایوس ہو کر اپنی تمام توجہ مشرقی بارڈر کی جانب موڑ لی تھی۔

مذہبی شدت پسند عسکری گروہوں نے مقبوضہ کشمیر کی جانب دیکھنا شروع کر دیا تھا ، پاکستانی سیکیورٹی اداروں کو مشرق کی جانب تاریخ میں پہلی بار نہایت سازگار ماحول نظر آیا ، کشمیر کی پہاڑیوں میں کارگل ہوا ، مجاہدین نے گارگل کی چوٹیوں پر قبضہ کر لیا۔

یاد رہے 71 کی پاک بھارت جنگ سے قبل کارگل کی یہ چوٹیاں پاکستان کے پاس تھیں ، پاکستانی وزیر اعظم نے مسلح افواج کے اپنے چیف کو کارگل سے پیچھے ہٹنے کا حکم دے دیا ، تعمیل ہوئی اور مجاہدین کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

جلد ہی مگر اب ایک اور خطرہ عالمی اجارہ داروں کے در پر دستک دیتا آ کھڑا ہوا۔ کارگل کا جنگجو جرنیل 12 اکتوبر 1999 سے عسکری اور حکومتی معاملات کی باگ ڈور پاکستان میں اپنے ہاتھ میں لے چکا تھا۔

اس سے پہلے مغربی افغان بارڈر پر افغان طالبان کی مضبوط حکومت قائم ہو چکی تھی ، دنیا بھر سے افغانستان میں جمع ہوئے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس مجاہدین گروہ سوائے لڑنے کے اب کسی اور کام کے نہیں تھے۔

اگر یہ طاقتور مسلح جہادی گروہ کارگل کے حملہ آور جنگجو کے ہتھے چڑھ گئے تو کیا ہو گا ؟ یہ خیال آتے ہی پاکستانی ایٹمی ریاست کے مخالف اجارہ داروں کے مشیر پریشان و ہلکان ہو تے گئے ، انہیں جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگڑتا دکھائی دیا ، بالکل وہی صورتحال جس سے بچنے کے لئے 17 اگست 1988 ہوا تھا ، عالمی اجارہ دار کا اپنا سفیر اور ایک فوجی بریگیڈیئر بھی جس مشن کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے تھے۔

ایسے میں دنیا بھر میں نائن الیون کی خبر اچانک حیرت اور پریشانی کے عالم میں سنی گئی۔ غصے اور غیض و غضب سے بپھرا عالمی اجارہ داری کا اکلوتا دعویدار نائن الیون کی تباہ کاری کا بدلہ لینے پاکستان کو افغانستان کا سرپرست و مربی سمجھتے ہوئے اسلام آباد سے ہمکلام ہوا ، دہشت گردوں کا ساتھ دینا ہے یا ان کے خلاف ہمارے ساتھ کھڑے ہونا ہے ؟

پاکستان نے اچانک بدلتی عالمی صورتحال میں اپنے دوست ملکوں کی جانب دیکھا ، دوست ممالک بشمول چین ، سعودی عرب سبھی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکہ کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔

نائن الیون حملوں کے حق میں کوئی اخلاقی اور قانونی جواز ڈھونڈنا ویسے بھی مشکل تھا۔ پاکستانی فوجی حکمران نے ورثے میں ملی معاشی صورتحال پر نظر دوڑائی ، اپنے عسکری وسائل کا جائزہ لیا ، ایٹمی تنصیبات کو لاحق خطرات ذہن میں آئے ، مشرقی ہمسایہ ملک بھارت نے پاکستانی بارڈر پر واقع اپنے سبھی ہوائی اڈوں کی بلا مشروط استعمال کی فورا ًامریکہ کو پیشکش کر دی۔ بھارت کو پاکستان کو روندنے کا تاریخی موقع نظر آنے لگا۔

اقوامِ متحدہ کا اجازت نامہ ، پوری دنیا کی حمایت و ہمراہی ، پاکستان کے لئے تاریخ کا مشکل ترین لمحہ آ پہنچا۔ اسٹاف کالج کوئٹہ میں کبھی وار اسٹریٹجی پڑھانے والے پاکستانی فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون حملوں کے بعد غصے سے بپھرے امریکہ کو جواب میں کہا ” پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہے” پاکستان کی ایٹمی تنصیبات ، ملکی یکجتی و سالمیت کو اچانک لاحق ہوئی آفت ٹل گئی۔ پاکستان کا مشرقی ہمسایہ ہاتھ ملتا رہ گیا۔

پاکستان اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ اس کے مغربی بارڈر پر آباد افغان ایک مذہب ، مشترکہ زبان و ثقافت اور آپس کی رشتہ داریوں میں جڑے قبائل ہیں ، افغانستان پر آئی جنگی آفت کی تباہ کاریوں کے اثرات پاکستان پر ہر صورت پڑیں گے۔

پاکستان نے نائن الیون کے فوراً بعد افغان حکمران ملا محمد عمر کے پاس مذہبی ، عسکری اور سیاسی قائدین کے متعدد وفود بھیجے ، سر پر آئی آفت سے کسی مشترکہ حکمت عملی سے نمٹنے کے پیغامات بھیجے گئے۔

باہم تدابیر اپنانے کی پیشکش کی گئی مگر ملا عمر نے پاکستان کی ایک نہ سنی اور عالمی اتحاد کے سبھی حملوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف پاکستان پر آئی جنگ کو ٹالنے میں کامیاب ہو گیا۔

7 اکتوبر 2001 کو امریکی صدر جارج بش نے افغانستان پر حملوں کا حکم دے دیا۔ حملوں کے بظاہر تین اہداف تھے ، القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو سزا دینا ، القاعدہ کا نیٹ ورک توڑنا اور افغان حکمران ملا عمر کی جانب سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے پر افغان طالبان حکومت کا خاتمہ۔ ملا عمر کی حکومت ختم ہو گئی۔

اب اسامہ بن لادن کی تلاش اور القاعدہ کے نیٹ ورک کے خاتمہ کے لئے نیٹو کی سربراہی میں چھتیس ملکوں کے فوجی دستے بھی افغانستان کے ہوائی اڈوں پر اترتے لگے۔ میونخ کانفرنس کی روشنی میں حامد کرزئی افغان حکومت کے سربراہ مقرر ہو گئے۔

معاہدہ شاہ ولی کوٹ کے تحت زابل اور قندھار میں افغان طالبان کے حامی گورنرز کی تعیناتی کے احکامات جاری کر دیئے گئے۔

افغان طالبان پرامن طور پر شہروں سے باہر نکل گئے ، امریکی وزیر دفاع جنابِ رمزفیلڈ کو معاہدہ شاہ ولی کوٹ کی خبر ہوئی تو وہ بھڑک اٹھے۔ ان کے دباؤ پر معاہدہ ختم کر دیا گیا ، زابل اور قندھار میں گورنرز کا جو تقرر کر دیا گیا تھا واپس لے لیا گیا۔

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل جاوید ناصر نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا ” اسامہ امریکیوں کا بلیو آئیڈ تھا ، چہیتا تھا “ٹی وی میزبان نے حیرت سے پوچھا ، یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ صحیح کہہ رہا ہوں ، یہی تو المیہ ہے کسی کو یہاں کچھ پتہ ہی نہیں ہے ، سعودیہ کا مخالف وہ اس وقت ہوا جب امریکی فوجی دستے سعودی سرزمین پر اترنے لگے۔

امریکی ، اسامہ بن لادن کی تلاش میں کیا واقعی سنجیدہ تھے ؟ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل ضیاء الدین بٹ نے کہا ” امریکی ، نائن الیون حملوں سے بھی پہلے اسامہ کی تلاش میں تھے۔

ہم نے انہیں دو بار اسامہ کی موجودگی بارے میں بتایا مگر امریکیوں نے اسامہ کو پکڑنے میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی” افغانستان پر حملوں کے بڑے عرصہ بعد یہ خبر بھی آئی تھی کہ تورا بورا کی بمباری کے وقت اسامہ بن لادن ان کے نشانے پر آ گیا تھا مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس سے چشم پوشی کر لی گئی۔

نیٹو کی سربراہی میں چھتیس ملکوں کی افغانستان میں موجودگی کا اصل ہدف کیا تھا؟ افغانستان میں لڑی جنگ میں شریک ریٹائرڈ امریکی جنرلز کے2020 میں لکھے گئے ” دی افغانستان پیپرز ، سیکرٹ ہسٹری آف وار‘‘ کے مطابق “یوں لگتا تھا جیسے بنائی گئی اسٹرٹیجی افغانستان کے تناظر میں تھی ہی نہیں ” جنرل ڈگلس لوٹ نے انٹرویو میں کہا ” دشمن القاعدہ تھی یا طالبان ، پاکستان دوست تھا یا دشمن ، واضح ہی نہیں ہو رہا تھا ” جنرل مائیکل فیلن نے کہا ” اگر یہ سب کچھ ٹھیک تھا تو ہمیں ایسا کیوں لگتا تھا کہ جیسے ہم ہار رہے ہیں” یہ بھی لکھا ہے ” ایسا لگتا تھا ، جیسے ہمیں معلوم ہی نہ ہو ، افغانستان میں ہمارا اصل ہدف کیا ہے ؟ یوں لگتا تھا جیسے ہم افغانستان میں جنگ کے لئے تیار ہی نہ تھے۔

ایک جگہ لکھا ہے ” پاکستان ہمارا دوست ہے کہ دشمن ، کبھی یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا‘‘ “2021 میں کانگریس کی آرمڈ سب کمیٹی کے سامنے کابل میں تعینات رہے جنرل آسٹن ، جنرل میگنزی اور جنرل مارک ہیلے سے سوال و جواب کی امریکہ میں متعدد نشستیں ہوئیں ، سینیٹرز کی سخت باز پرس کا انہوں نے سامنا کیا ، جنرل مارک ہیلے نے ایک سوال کے جواب میں کہا “افغانستان میں لڑی گئی جنگ میں کامیابیوں کے بارے میں امریکی عوام اور میڈیا کو بہت سے معاملات پر اکثر غلط اطلاعات پہنچتی رہی ہیں ”

اصل ہدف پاکستان تھا اور اسی مقصد کی تکمیل کے لیے حیران کن طور پر افغانستان کے پاکستانی سرحدی علاقوں کو اتحادی دستوں کے حملوں سے مکمل طور پر ہمیشہ محفوظ رکھا گیا تاکہ القاعدہ اور افغان طالبان ان علاقوںکی جانب آسانی سے اپنے لیے جائے فرار پائیں اور پاکستان میں داخل ہونے میں انہیں کوئی دقت نہ ہو۔

آئی ایس آئی کے سابق چیف ریٹائرڈ جنرل جاوید اشرف قاضی نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا “یہ سوویت افواج کے کابل سے انخلا کے بعد کی بات ہے ، غیر ملکی جہادی پشاور میں اکٹھے ہو گئے تھے ، مصر نے اپنے شہریوں کی واپسی کا تقاضا کیا ، ہم نے ان جہادیوں کو پاکستان سے نکل جانے کی وارننگ دی اس پر یہ لوگ افغانستان منتقل ہو گئے ورنہ القاعدہ نے پشاور کو اپنا مستقل اڈہ بنا لینا تھا ”

2006 میں شائع اپنی کتاب ، سب سے پہلے پاکستان ، کے صفحہ 254 کے پیرا گراف 3 میں جنرل پرویز مشرف نے لکھا ” میں نے امریکیوں کے ساتھ ایک مدمقابل کی طرح بازی لڑی ” ایک پل کو ٹھہریئے اور کھلے ذہن سے غور کیجئے “مدمقابل کی طرح بازی کھیلنے “کی بات کس وقت اور کس کے لئے کہی جاتی ہے۔

پاکستانی حکمران پاکستانی نکتہ نظر سے اپنے قومی مفاد کے تحفظ کے لیے بیرونی سازشوں سے ایک کامیاب حکمت عملی کے تحت نمٹ رہا تھا مگر پاکستان دشمنوں نے پرسیپشن مینجمنٹ کے ذریعے یہ تاثر پھیلا دیا کہ پاکستانی فوجی حکمران نے امریکہ کا ساتھ دے کر “بزدلی دکھائی ” پاکستانی سیاست ، صحافت اور مذہبی طبقات نے اپنے اپنے مفاد کی خاطر عوام اور قومی عسکری اداروں کے درمیان شکوک و شبہات کی فضا قائم کر دی اور یہ ایک بہت بڑا حملہ تھا۔

یہ اگر نہ ہوا ہوتا ، یہ مغالطے اور ابہام نہ ہوتے تو تحریکِ طالبان پاکستان کو پاکستانی سماج میں جگہ بنانے کا موقع نہ ملا ہوتا۔ یاد کیجئے نوے کی دہائی میں صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت کے ساتھ حکومت نے شرعی عدالتوں کے معاہدے کر کے انتہا پسندوں کو قبائلی علاقوں میں قدم جمانے کا موقع پہلے ہی فراہم کر دیا تھا۔

پھر 2008 میں برسراقتدار آتے ہی اسی حکمران جماعت نے پشاور جیل میں قید صوفی محمد کو نہ صرف رہائی دی بلکہ سوات میں ایک بڑے جلسہ عام کے اہتمام کا بھی موقع فراہم کر دیا۔ صوفی محمد کے انتہا پسندوں نے 2008 کے آواخر ہی سے سوات ، مالاکنڈ پر پاکستانی حکومت کی رٹ ختم کرتے ہوئے گوایا اپنی الگ سے ایک سلطنت قائم کر لی تھی ، کہا جانے لگا تھا ” پاکستانی طالبان اب وفاقی دارالحکومت سے زیادہ دور نہیں ہیں۔

” کچھ شک نہیں اگر افغان طالبان ، نیٹو کو افغانستان میں کامیابی سے الجھائے نہ رکھتے تو مذہبی انتہا پسند زیادہ شدت سے پاکستان پر حملہ آور ہوتے۔ تورا بورا پر بھاری امریکی فضائی بمباری کا مقصد محض القاعدہ اور مسلح مذہبی شدت پسندوں کو پاکستان کی زمینی حدود میں دھکیلنا تھا۔

اس دوران ریاست کا چہرہ سیاست ، صحافت ، مذہبی طبقات اور سفارت کی پیلٹ گنز سے چھلنی ہوتا رہا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے اسمبلی میں کہا “یہ ہم سے امریکیوں کو ویزے دینے بارے پوچھتے ہیں ، میں پوچھتا ہوں ، اسامہ بن لادن کس ویزے پر ایبٹ آباد میں تھا”

ایبٹ آباد واقعے کے بعد 2012 میں ایک بار پھر پاکستان کا رخ ہوا ، صدر اوباما نے پاکستان پر فضائی اور زمینی حملوں کی دھمکی دے ڈالی ، عالمی امور کے ماہر جناب طارق علی نے اینکر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ” امریکی اسٹیبلشمنٹ کو جنرل زینی اور خود رچرڈ آرمٹیج نے پاکستان میں براہِ راست زمینی مداخلت پر پاکستانی افواج کے خطرناک اور سخت ردعمل سے باخبر کرتے ہوئے اس قسم کی احمقانہ حرکت سے روک دیا تھا”

اب افغانستان سے نکلنے اور ہزیمت سے بچنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ جینوا مذاکرات کا تلخ تجربہ پاکستان کو یاد تھا ، سفارتی اور عسکری رابطوں میں تیزی آئی ، سبھی ترکیبیں آزمائی گئیں۔ وقت کی اکلوتی سپر پاور نے ہزاروں ارب ڈالر کے عسکری اخراجات سے لاکھوں افغان ، ہزاروں پاکستانی معصوم شہریوں کا ناحق خون بہایا ، ظلم و بربریت صرف افغانستان اور پاکستان تک محدود نہیں رہی ، عراق ، لیبیا اور ملک شام میں لاکھوں کی تعداد میں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ یاد کیجئے ، سوویت یونین کے انہدام پر برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے کہا تھا ” ابھی اسلام باقی ہے”

قومی سلامتی کے ہمہ وقت جاگتے ، بیدار اور چوکس جانثاروں کے لئے ہدیہ تحسین۔ پاکستان پائندہ باد

The post 9/11 کے بعد ہمارے پاس امریکہ کا ساتھ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>