Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4713 articles
Browse latest View live

وٹامن ڈی کے حصول کے آسان قدرتی ذرائع

$
0
0

موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی بدن انسانی کی غذائی ضروریات بھی یکسر بدل جاتی ہیں۔ انسانی بدن کو ہلکی غذاؤں کی بجائے مرغن اور جسم کو گرمانے والی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ غذائیت سے بھرپور غذائیں جیسے خشک میوہ جات، دودھ سے بنی مصنوعات اور قدرتی اجزاء سے تیار روایتی پکوان تن درستی وتوانائی کے لیے لازمی ہوتے ہیں۔

عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ روز مرہ خوراک کے انتخاب اور استعمال کے وقت متوازن، متناسب اور مفید غذاؤں کا چناؤ کیا جائے اور حفظان صحت کے اصولوں کی مکمل پیروی کی جائے۔ طبی ماہرین کے بقول ہماری تندرستی کا سب سے بڑا ذریعہ اور ضامن ہماری خوراک ہی ہے۔ انسانی وجود کی تعمیر وتشکیل میں لاتعداد عناصر، اعضاء ، اعصاب، بافتیں، نظام ،افعال و اعمال اور ہڈیاں شامل ہیں۔اس کی کارکردگی کا سارا انحصار بطور خوراک کھائے جانے والے غذائی اجزاء پر ہوتا ہے۔

جب خوراک میں مذکورہ غذائی اجزاء کی مطلوبہ مقدار میں کمی ہونے لگے تو بدن کے دفاعی نظام میں بھی کمزوری کے آثار نمایاں ہوکرکسی بھی مرض کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ بدن کے دفاعی نظام کی مضبوطی کے لیے لازمی عناصر میں وٹامنز، کابوہائیڈریٹس، پروٹینز، چکنائیاں، آکسیجن، آئیوڈین، سلفر، فولاد، کیلشیم، پوٹاشیم، میگنیشیم، فاسفورس، کلورین، کاپر، زنک، بیٹا کیروٹین، تھایامین، نایاسین وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔

بدن انسانی کی صحت مندی کے لیے بنیادی اور لازمی اجزاء میں سے وٹامن ڈی ایک ایسا عنصر ہے جس کی کمی سے لاتعداد بدنی مسائل رونما ہونے لگتے ہیں۔موسم سرما میں دھوپ کم ہونے کے باعث وٹامن ڈی کی کمی زیادہ محسوس ہونے لگتی ہے۔ پاکستان میں کثیر تعداد آبادی وٹامن ڈی کی کمی میں مبتلا ہے ، بالخصوص شہروں میں رہنے والی خواتین میں 80 فیصد تک وٹامن ڈی کی کمی سامنے آرہی ہے۔ شہری علاقوں میں وٹامن ڈی کی کمی کی ایک بڑی وجہ سورج کی روشنی اور دھوپ کی کمیابی بن رہی ہے۔

وٹامن ڈی کیا ہے؟

وٹامن ڈی ایک ایسا فیٹ کلنگ (Fat killing) عنصر ہے جو بدن انسانی میں کیلشیم، میگنیشیم اور فاسفیٹ کو جذب کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھاتاہے۔انسانی جسم کی ساخت، بڑھوتری اور حفاظت کا دارو مدار وٹامن ڈی اور کیلشیم پرہوتا ہے۔وٹامن ڈی ہڈیوں کی نشوونما اور مضبوطی کے لیے ضروری عنصر کیلشیم کو جسم میں جذب ہونے کے لیے لازمی خیال کیا جاتا ہے، کیلشیم وٹامن ڈی کے ساتھ مل کر بدن میں جذب ہوتا ہے۔ دل ودماغ ، اعصاب اور پھیپھڑوں کے افعال واعمال کی کارکردگی فعال کرنے اور رواں رکھنے میں معاون ہوتا ہے۔ وٹامن ڈی ہمیں چڑچڑے پن،تھکاوٹ،سر درد،کمر درد، جوڑوں کے درد،اعصابی کمزوری،ہئیر فال اور زنانہ ومردانہ بانجھ پن سے بچانے میں معاون ہوتا ہے۔ایک صحت مند جسم کووٹامن ڈی کی یومیہ 600IU سے لے کر 2000IU مقدار درکار ہوتی ہے۔

وٹامن ڈی کی کمی کے اثرات

جب جسم میں وٹامن ڈی کی کمی پیدا ہوتی ہے تو ہڈیاں کمزور ی کا شکار ہونے لگتی ہیں جس سے ہڈیوں کا بھربھراپن اور توڑ پھوڑ (فریکچرز) سامنے آتی ہے۔ شوگر ٹائپ ٹو ، سانس کے مسائل (دمہ) دانتوں کے مسائل ، جسمانی و اعصابی کمزوری، ٹانگوں اور پاؤں کے تلووں میں درد، کمر درد، ڈپریشن وسٹریس، بد مزاجی، اداسی، اکتاہٹ، اکساہٹ، سر چکرانا، دل گھبرانا اور پسینہ زیادہ آنے جیسے مسائل پیدا ہوکر تنگ کرنے لگتے ہیں۔ نمونیہ ، نزلہ ، الرجیز ، وبائی زکام ، نیند میں کمی اسہال اور قبض جیسے پریشان کن امراض کا سبب بھی وٹامن ڈی کی کمی بن سکتی ہے۔

وٹامن ڈی کے حصول کے قدرتی ذرائع

وٹامن ڈی ہماری جسمانی ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کے خلاف بدن کی قوت مدافعت میں اضافے کا باعث بھی ہے۔ ہم اپنی خوراک میں درج ذیل غذائیں شامل کر کے نہ صرف وٹامن ڈی کی کمی سے بچ سکتے ہیں بلکہ خاطر خواہ حد تک کورونا جیسی مہلک اور خطرناک وبا کے اثرات سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ وٹامن ڈی کا سب سے بڑا، آسان اور مفت ذریعہ دھوپ ہے۔رواں موسم دھوپ بڑی دلآویز اور من کو لبھاتی ہے۔ اگر ایک صحت مندانسان روزانہ دو سے تین گھنٹے دھوپ میں گزارنا شروع کردے تو وٹامن ڈی کی کمی کے مضر اثرات سے بچا رہے گا۔

اگر کسی کو وٹامن ڈی کی کمی کے باعث مختلف جسمانی مسائل کا سامنا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے پورے بدن پر دیسی گھی کا ہلکا مساج کر کے دھوپ میں دو سے تین گھنٹے گزارے ۔ پہلے دن سے ہی وٹامن ڈی کی کمی کے اثرات کم ہوتے دکھائی دینے لگیں گے۔ روغن بادام، روغن زیتون اور سرسوں کے تیل سے بدن پر مالش کر کے دھوپ میں بیٹھنے سے بھی قدرتی طور پر وٹامن ڈی کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی اور دھوپ کے بعد وٹامن ڈی کا سب سے بڑا قدرتی ماخذ سمندری غذائیں ہیں جن میں مچھلی سر فہرست ہے۔ جھینگے، ساروڈین مچھلی، سرمئی مچھلی، کستورا مچھلی اور چربی والی مچھلیوں میں وٹامن ڈی کی مقدار قدرتی طور پر بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ مشرومز (کھمبیاں) میں بھی قدرتی طور پر وٹامن ڈی کی بہت زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔

غذائی ماہرین کی تحقیقات کی رو سے ایک محتاط اندازے کے مطابق 100 گرام مشرومز میں 2000IU سے زائد وٹامن ڈی پایا جاتا ہے۔ دیسی غذاؤں میں دیسی انڈے کی زردی بھی قدرتی طور پر وٹامن ڈی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ انڈا ابال کر یاکچا دودھ میں حل کر کے پینے سے یہ مقدار اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ روز مرہ غذاؤں گائے اور بکری کاخالص دودھ، دہی، مکھن، دیسی گھی،پنیر،خوبانی،پستہ، آڑو ، پپیتہ ، گاجر، پالک، مولی، بند گوبھی، ٹماٹر، گندم اور جو کا دلیہ، اورنج، سویابین، مغز بادام، اناج اور ساگ وغیرہ میں وٹامن ڈی قدرتی طور پر وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔

گاجر، مولی، پالک، ساگ اور سنگترہکا سیزن ہونے کی وجہ سے رواں موسم خدا کا عطیہ ہے۔ گاجر کے حلوے میں مغز بادام ،کھویا اور مغز پستہ شامل کر کے لذت اور صحت ایک ساتھ انجوائے کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح گاجر کا جوس بنا کر پینا بھی بے حد مفید سمجھا جاتا ہے۔ طبی ماہرین گاجر کو سیب کے متبادل کے طور بھی پیش کرتے ہیں، کیونکہ گاجر سیب کی نسبت سستی ہوتی ہے۔گاجر کو کچا بطور سلاد بھی عام استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مولی اور بند گوبھی پکاکر بھی کھائی جاتی ہے اور بطور سلاد کچی بھی وافر مقدار میں کھائی جا سکتی ہیں ۔ ٹماٹر ہر سبزی میں شامل کیا جا سکتا ہے اور بطور سلاد کچا بھی کھایا جاسکتا ہے۔

سردی کا موسم ساگ کے بغیر ویسے ہی ادھورا ادھورا سا محسوس ہوتا ہے۔آج کل مکئی اور باجرے کی روٹی کے ساتھ ساگ اور مکھن کاا ستعمال اپنا ایک منفرد مذہ اور پہچان رکھتا ہے۔ پالک بھی ساگ کا لازمی جز ہے تاہم پالک ہم گوشت، آلو، مولی، شلجم اور دال چنا کے ساتھ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ غذائی ماہرین کہتے ہیں کہ پالک میں کیلشیم اور وٹامن ڈی کی مقداریں قدرتی طور پر بہت زیادہ پائی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ سمجھدار معالجین ہڈیوں کے بھربھرے پن (آرتھو پراسس) کے مریضوں کو پالک کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔

قارئین کرام ! وٹامن ڈی کی کمی کا سب سے بڑا سبب پراسیسڈ فوڈز ، فاسٹ فوڈز، فارمولا دودھ، کولا مشروبات ، بیکری مصنوعات، میدے سے بنی اشیاء، بناسپتی، کیمیکلز بیسڈ خوراک، دھوپ میں زیادہ وقت نہ گزارنا،بند اور تنگ جگہوں پر رہائش رکھنا،غیر معیاری، ملاوٹ سے بھرپور غذائی اجزاء ، غیر فطری طرز رہن سہن اور حفظان صحت کے اصولوںسے روگردانی بن رہا ہے۔

ہم آج بھی اپنی خوراک ، طرز بودو باش اور روزمرہ معمولات کو فطری اصولوں کے مطابق کرکے اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ایک تندرست وتوانا اور بھرپور زندگی سے لطف اٹھانے والے بن سکتے ہیں۔ جس قدر ہوسکے قدرتی غذائی اجزاء اپنی روزمرہ خوراک میں لازمی شامل کریں۔ کچی سبزیاں، موسمی پھل، دودھ، دہی، دیسی، گھی خشک میوہ جات اور اجناس جیسے جو باجرہ مکئی وغیرہ کا استعمال بکثرت کرکے نہ صرف وٹامن ڈی کی کمی سے بچ سکتے ہیں بلکہ کئی ایک دوسرے خطرناک امراض کے حملے سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔

 

The post وٹامن ڈی کے حصول کے آسان قدرتی ذرائع appeared first on ایکسپریس اردو.


وائٹ بلڈ سیلز

$
0
0

وائٹ سیل خون کے خلیات خون کے اجزاء ہیں جو جسم کو متاثر کرنے والے ایجنٹوں سے جسم کو محفوظ رکھتے ہیں، انھیں بیکو کانٹس بھی کہا جاتا ہے۔

سفید خون کے خلیوں کو مدافعتی نظام میں شناخت ، تباہی اور ہٹانے اور خراب کرنے والے خلیوں، کینسر کے خلیات اور جسم سے غیرملکی معاملہ کو ہٹانے کے ذریعے مدافعتی نظام میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لیوکو ٹائٹس ہڈی میرو اسٹیم خلیوں سے پیدا ہوتی ہیں اور خون اور لفف سیال میں گردش کرتے ہیں۔

لیپوکوائٹس جسم کے وتکون میں منتقل کرنے کے لیے خون کی وریدوں کو چھوڑنے کے قابل ہیں۔ وائٹ سیلزخون کے خلیوں کو ان کیCytoplasm میں ظاہر ہونے یا Granulesکے غیر موجودگی کی طرف سے درجہ بندی کی جاتی ہے ( اس میں مشتمل ہضم اینجیمس یا دیگر کیمیکل مادہ ) ایک سفید خون کا سیل ایک گرینو لوک یا اراونولیوٹ سمجھا جاتا ہے۔

گرینو لوکائٹس تین قسم کے گرینو لوکیاں ہیں:

1۔ نیٹروفیلس ، 2۔ آسوینوفیلس ، 3۔بیسفیلس

ایک خوردبین کے ذریعے دیکھنے سے یہ سفید خون کے خلیات میں گرینوں کو ظاہر کرتے ہیں۔

نیوٹروفیلس: یہ خلیات ایک واحد نیچلی ہیں جو ایک سے زیادہ لمبے ہوتے ہیں۔ خون کی گردش میں نیٹروفیلس سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ کیمیکل طور پر بیکٹیریا کے لیے تیار ہیں اور انفیکشن کی جگہ پر ٹشو کے ذریعہ منتقل ہوتے ہیں۔ یہ جسم میں داخل ہونے والے بیکٹریا بیماری یا مردہ سیل وغیرہ میں پھیل کر ان کو تباہ کردیتے ہیں۔ جب دیا جانے والا سیلولر میکومولولز کو ہضم کرنے کے لیے لیوسوز کے طور پر نیٹروفیل گرینولس کام کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے نیٹروفیل بھی تباہ ہوجاتے ہیں۔

Eosinophils ان خلیوں میں نکلس ڈبل lobed ہے اور اکثر خون کی سمیروں میں U کے سائز میں ظاہر ہوتے ہیں۔ پیٹ اور اندرونیوں کے کنکشن میں اکثر آسوینوفیلز مل جاتے ہیں۔ Eosinophils فاگاکیٹک ہیں اور بنیادی طور پر antigen-antibodyکو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ پیچیدہ بن جاتے ہیں جبantibody کو ان کی بیماریوں سے روکنا ہوتا ہے تو ان کی شناخت کے طور پر مادہ تباہ ہوجاتا ہے۔ پریسکیفک انفیکشنز اور الرجیک ردعمل کے دوران اسوینوفیلس تیزی سے سرگرم ہوجاتے ہیں۔

فاسفیلس یہ کم از کم سفید خون کے خلیات ہیں ان کے پاس کثیر لچکدار نیوکلس ہے اور ان کی گردنوں میں اس طرح کے ہسٹامین اور ہیروئن جیسے مادہ شامل ہیں۔ ہپیرن خون میں پھینکتا ہے اور خون کے پٹوں کی تشکیل کو روکتا ہے۔ ہسٹامین خون کی وریدوں کو گھٹاتا ہے، کیپلیئر کی پارلیمنٹ کو بڑھاتا ہے اور خون کے بہاؤ میں اضافہ کرتا ہے جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں لیکوکیٹ منتقل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جسم کے الرجیک ردعمل کے لیے باسفیلس ذمہ دار ہیں۔

اگرنولیوٹس یہ دو قسم کے ہیں ان کو نونانڈرول لییوکائٹس کے طور پر جانا جاتا ہے۔لففیکیٹس اور مونوکائٹس یہ سفید خون کے خلیات کو واضح طو رپر گرینولس موجود نہیں ہوتے ہیں۔ آئرانولوکائٹس عام طور پر نمایاں سیوٹپلاسمیکن گرینولز کی کمی کی وجہ سے ایک بڑی نیوکلی ہے۔

لففیکیٹس۔ نیٹروفیلس کے بعد، لففیوٹس سفید خون کے سیل کی سب سے عام قسم ہے۔ یہ خلیات بڑے نیوکلی اور بہت کم سیوٹپلاسم کے ساتھ شکل میں کروی ہیں۔ لیف سیلز، بی خلیات اور قدرتی خلیوں کی تین اقسام ہیں، ٹی خلیوں اور بی خلیوں مخصوص مدافعتی ردعمل کے لیے اہم ہیں، قدرتی قاتل خلیات غیر معمولی استثنیٰ فراہم کرتے ہیں۔

مونوکیٹ۔ یہ خلیے سفید خون کے خلیات کی سب سے بڑی قسم ہیں۔ ان کے مختلف سائز ہوسکتے ہیں۔نیوکلیو اکثر گردوں کے سائز میں ظاہر ہوتے ہیں۔ مونوکائٹس خون سے بافتوں میں منتقل ہوتے ہیں اور میکروفیس ہر طرف بڑی خلیات میں موجود ہوتے ہیں۔ ڈینڈرتک خلیے عام طور پر ایسے علاقوں میں واقع ٹشو میں پایا جاتا ہے جو بیرونی ماحول سے مرضوں کے ساتھ رابطے میں آتے ہیں۔ان کی جلد، اندرونی طور پر ناک، پھیپڑوں اور گیس کی نیچلے حصّوں میں پائے جاتے ہیں۔دینڈرتک خلیات بنیادی طور پر لگیف نوڈس اور لفف اعضا میں لیمفیکیٹس کو antigenic معلومات پیش کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔

وائٹ بلڈ سیل پروڈکشن

ہڈی میرو کی ہڈی کے اندر سفید خون کے خلیات تیار کئے جاتے ہیں۔ کچھ سفید خون کے خلیوں میں لفف نوڈس ، پتلی، یا تھامس گلان میں مقدار غالب ہوتی ہے۔ بلڈ سیل پروڈکشن اکثر جسم کے ڈھانچے جیسے لفف نوڈس ، پتلی، جگر اور گردوں کی طرف سے منظم کیا جاتا ہے۔ انفیکشن یا چوٹ کے دوران، زیادہ خون کے خلیات پیدا کیے جاتے ہیں وہ خون میں موجود ہوتے ہیں۔ خون میں سفید خون کے خلیوں کی تعداد پیمائش کرنے کے لیے ڈبلیو بی بی یا سفید خون کے سیل کی گنتی کے طور پر جانا جاتا ہے۔

خون کے ٹیسٹ میں عموماً سفید خون کے خلیوں کی تعداد 10,800-4,300 ہوتی ہے۔ اس میں کمی بیماری، تابکاری کی نمائش یاہڈی میرو کی کمی کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔ اعلیٰ درجے کی ڈبلیو بی بی کا شمار کسی مہلک یا سوزش کی بیماری، انیمیا، لیکویمیا، کشیدگی، یا ٹشو نقصان کی موجودگی کی نشاندہی کرسکتی ہے۔

وائٹ بلڈ سیلز کی اقسام اور فنکشن

وائٹ خون کے خلیات (WBCS) مدافعتی نظام کا ایک حصہ ہیں جو انفیکشن سے لڑنے اور دیگر غیر ملکی مواد کے خلاف جسم کی حفاظت میں مدد دیتے ہیں۔ سفید خون کے مختلف خلیات کی اندرونی مداخلتوں کو تسلیم کرنے، نقصان دہ بیکیٹریا کو مارنے اور اینٹی ہڈیوں کو اور ہمارے جسم کی حفاظت کے لیے کچھ بیکیٹریا اور وائس کی مستقبل کی نمائش کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

اقسام : سفید خون کے خلیات کی کئی اقسام ہیں:

1۔ نیوٹرروفیلس : neutrophils یہ سفید خون کے خلیوں میں سے تقریباً آدھے ہیں neutrophils عام طور پر مدافعتی نظام کے پہلے خلیات ہیں جو ایک حملہ آور بیکٹریا یا وائرس کا جواب دیتے ہیں۔ پہلے جواب دہندگان کے طور پر وہ مدافعتی نظام میں دوسرے خلیوں کو خبردار کرنے کے لیے سگنل بھیجتے کے لیے بھی بھیجے جاتے ہیں۔یہ پیس میں موجود بنیادی خلیات ہیں۔ہڈی میرو سے جاری ایک بار یہ خلیات تقریباً 8 گھنٹوں تک رہتے ہیں لیکن ان خلیات کے تقریباً 100بلین ہمارے جسم سے پیدا کی جاتی ہیں۔

2۔ Eosinophils : یہ بھی بیکٹیریا سے لڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر کیڑوں کے ساتھ انفیکشن ہے تو اس کے جواب میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں تاہم ان کے کردار کو ادا کرنے کے لیے الرجی علامات ہیں جب وہ بنیادی طورپر بڑھتے ہوئے کچھ چیزوں کے خلاف ایک مدافعتی ردعمل (جیسے کہ آلودگی ) یہ خلیوں کے خون میں صرف ایک فیصد سفید خون کے خلیات کا حساب دیتے ہیں لیکن انہضام کے پٹھوں میں اعلیٰ تنصیبات میں موجود ہیں۔

3۔ بیسفیلس یہ سفید خون کے خلیات کے تقریباً ایک فیصد کے حساب سے ہیں، پیروجینز کے لیے غیر مخصوص مدافعتی ردعمل بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ خلیات ممکنہ طور پر دمہ کے مرض کے لئے مشہور ہیں۔

4۔ لیمفیکیٹس (بی اور ٹی )۔ مدافعتی نظام میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، ٹی ٹی سیلز بہت سے غیر ملکی حملہ آوروں کو براہ راست قتل کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ خلیات دوسرے سفید خون کے خلیات کے مقابلے میں ذہنی مصوبت کے لیے ذمہ دار ہیں۔ سفید خون کے خلیات کی غیر مخصوص مصیبت کے برعکس وہ اینٹی باڈیوں کو پیدا کرتے ہیں جو اگر کوئی انفیکشن ہمارے جسم میں آنا چاہے تو اس کے لیے یہ خلیات حفاظتی عوامل ہیں۔

5۔ مونوٹائٹس: یہ مدافعتی نظام کی ردی کی ٹوکری ہیں۔ یہ جسم میں تقریبا 5 فیصد ہیں۔ان کا کام مردہ خلیات کو صاف کرنا ہے۔

6۔ تشکیل: ہڈی میرو میں سفید خون کے خلیات شروع ہوتے ہیں۔ تمام خون کے خلیوں، جن میں سفید خون کے خلیوں، سرخ خون کے خلیات اور پلیٹ لیٹیں شامل ہوتے ہیں۔

ایک عام سفید خون کی سیل کا شمار عام طور پر 4.000 اور 10.000خلیات / MCL کے درمیان ہوتا ہے۔

انفیکشن میں اگرچہ اعلیٰ سفید خون کے خلیات کی تعداد بہت سے ہیں۔ ہڈی میرو کی ابتدائی طور پر ان سے زیادہ اضافی پیداوار میں اضافہ ہوسکتا ہے، یا جسم کے سفید خون کے خلیوں کی کمی کی طرف جاسکتا ہے انفیکشن میں، جوان ہونے والا سفید خون کے خلیات دھماکوں سے آگاہ ہوتے ہیں، جسم میں اکثر خون کے طور پر جتنے جلدی ممکن ہو وہ خون کے خلیات کو حاصل کرنے کے لیے اکثر خون میں آتے ہیں۔ سفید سیل شمار میں اضافہ ہوا ہے۔ کسی بھی شکل کا دباؤ بھی سفید خون کے خلیوں کی رہائی کے نتیجے میں بھی ہوسکتا ہے۔

انفیکشن

لیویمیمیا، لفسفاس، اور مییلوماس جیسے کینسر جن میں زیادہ سے زیادہ سفید خون کے خلیات تیار کیے جاتے ہیں۔

انفلوڑن جیسے سوزش کی کک کی بیماری اور آٹومیمون کی خرابی

ٹریوموں کو فریکچر سے جذباتی کشیدگی سے لے کر

حاملہ۔ حمل میں سفید خلیات کی تعداد عام طور پر بلند ہوتی ہے

دمہ اور الرجی اس میں خون کے خلیوں میں اضافہ ہوتا ہے جو کہ eosinophils کے نام سے جانا جاتا ہے۔

شدید انفیکشن:ہڈی میرو نقصان یا خرابی سے متعلق امراض، بشمول خون کے کینسر یا میٹاسیٹک کینسر، یا منشیات یا کیمیائی سے متعلقہ ہڈی میرو کے نقصان سے ہڈی میرو لے آؤٹ

لپس جیسے آٹومیمی بیماریاں

کم وائٹ خون کا شمار کے علامات:سفید خون کے خلیات کی تقریب کو جان کر کم سفید خون کی گنتیوں کے علامات سمجھا جا سکتا ہے۔ سفید خون کے خلیات ہمارے جسم میں انفیکشن کے خلاف دفاع کرتے ہیں۔کچھ خلیات ہمارے ناقابل مدافع مدافعتی نظام کا حصہ ہیں۔

بخار،کھانسی،درد یا تعدد کی تعدد،سٹول میں خون درد یا انفیکشن کے علاقے میں لالچ، سوجن، یا گرمی۔

کیمیا تھراپی:سب سے عام اور خطرناک ضمنی اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ سفید خون کے خلیات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جسم میں بہت سے افعال میں سفید خون کے خلیات شامل ہیں۔یہ خلیات خود بھی بیمار ہوسکتے ہیں۔ تمام سفید خون کے خلیوں میں سے ایک قسم کی کمی سے امونیو آلودگی سنڈروم کے ساتھ ہوسکتا ہے۔

leukocytes۔ان کیمیائی تھراپی کے علاج کے بعد جان کو بتایا گیا تھا کہ اس کے سفید سیلز کم تھی اور وہ ان لوگوں سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہئے جو چند دنوں کے لئے بیمار ہیں انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے کے لیے وائٹ خون کے سیل کی خرابیوں میں ایک بڑی تعداد میں خرابی شامل ہوتی ہے جو سفید خون کے خلیات ( ڈبلیو بی بی) متاثر کرتی ہیں۔

جن میں 3قسم کے خون کے خلیات ہیں۔

وائٹ خون کے خلیات بنیادی طور پر لڑنے والی بیماریوں میں ملوث ہیں اور سوزش کے ردعمل میں شرکت کرتے ہیں۔

سرخ خون کے خلیات جسم میں آکسیجن لے جاتے ہیں۔

پلٹیلیوں کو خون کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔

ڈبلیو بی بی کی حدود کی عام تعداد فی لیٹر سے تقریباً 4 سے 11 بلین سیلز ہے۔

وائٹ بلڈ سیل کی خرابیوں کی عام اقسام:

1۔ لییوکیوٹیسوس : لییوکیوٹیسوس سفید خون کے خلیات کی ایک بڑی تعداد ہے سب سے زیادہ عام وجوہات انفیکشن، ڈیوڈونون یا لیویمیا جیسے ادویات ہیں۔

2۔ آٹومیمون نیوٹروپینیا: آٹومیمون نیٹروپنیا اس وقت ہوتا ہے جب جسم اینٹ بائیڈ پیدا کرتی ہے جو نیٹروفیلز پر حملہ کرتی ہے اور اسے تباہ کرتی ہے۔

3۔ شدید پیدائشی نیٹروپنیا: اس حالت کے ساتھ جن لوگوں نے شدید نیٹروپنیا سیکنڈری کے ساتھ ایک جینیاتی تبدیلی کو جنم دیا ہے شدید پیدائش سے متعلق نیٹروپنیا والے لوگ بار بار بیکٹریا انفیکشن ہوتا ہے۔

4۔ سائکک نیٹروپنیا: یہ نیٹروپنیا جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی ہے، جس کی وجہ سے شدید پیدائشی نیٹروپنیا کی طرح ہے تاہم نیٹروپنیا ہر روز نہیں ہوتا لیکن تقریباً21دنوں کے سائیکلوں میں ہے۔

5۔ لیویمیا : ہڈیوں کا ایک کینسر ہے جو ہڈی میرو میں سفید خون کے خلیات پیدا کرتی ہے۔

6۔ granulomatous بیماری ایک خرابی کی شکایت ہے جہاں ایک سے زیادہ قسم کے WBCs ( نیٹرروفیلز، مونو، macrophagesocytes) مناسب طریقے سے کام کرنے میں قاصر ہیں، یہ ایک وراثت کی حیثیت ہے اور ایک سے زیادہ انفیکشنز میں خاص طور پر نمونیا اور abscesses کے نتائج۔

7۔ لیوکوکی آسنسن کی کمی ایک خرابی کی شکایت ہے جہاں سفید خون کے خلیات انفیکشن کے علاقوں میں نہیں جاسکتے ہیں۔

وائٹ بلڈ سیل ڈس آرڈر کے علامات

WBCکی خرابیوں کے علامات بہت اہمیت کی وجہ سے مختلف ہوتی ہیں۔WBC خرابیوں کے ساتھ کچھ لوگ شاید کوئی علامات نہیں۔

The post وائٹ بلڈ سیلز appeared first on ایکسپریس اردو.

’’ موب جسٹس‘‘ جائز نہیں ، معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا، ایکسپریس فورم

$
0
0

لاہور: پنجاب میں پہلی ہیومن رائٹس پالیسی کے بعد اب پہلی مرتبہ برطانوی طرز کا ہیومن رائٹس ایکٹ لایا جا رہا ہے، تمام اضلاع میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں موثر کام کر رہی ہیں، پاکستان میں رہنے والے تمام افراد بلا تفریق مذہب، رنگ، نسل، برابر شہری ہیں، شرعی اور قانونی اعتبار سے انہیں تمام انسانی حقوق حاصل ہیں، ’موب جسٹس‘ کسی بھی طور جائز نہیں، ہمیں معاشرے کے بدصورت رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا، بدقسمتی سے خواتین کے حوالے سے پاکستان 6 خطرناک ترین ممالک میں شامل ہے۔

ان خیالات کا اظہار حکومت، علماء، سول سوسائٹی اور خواتین کے نمائندوں نے ’’انسانی حقوق کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔

صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب اعجاز عالم آگسٹین نے کہا کہ پنجاب واحد صوبہ ہے جس نے بین المذاہب ہم آہنگی کی پالیسی منظور کی، ہمیں مسجد، چرچ، مندر و دیگر عباتگاہوں سے لوگوں کو انسانیت کی تعلیم دنیا ہوگی اور بدصورت رویوں کو ہرحال میں بدلنا ہوگا۔

مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور مفتی راغب حسین نعیمی نے کہا کہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، دونوں ہی پاکستان میں برابر کے شہری ہیں، بعض مسلمان دیگر دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک رکھتے ہیں، ریاست کو ایسے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

خواتین کی نمائندہ آئمہ محمود نے کہا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے ہماری صورتحال انتہائی غیر تسلی بخش ہے، بدقسمتی سے پاکستان خواتین کے حوالے سے 6 خطرناک ممالک میں شامل ہے۔

نمائندہ سول سوسائٹی شاہنواز خان نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں مساوات پر مبنی معاشرے کی بات کی، بنیادی انسانی حقوق کیساتھ دین اسلام کا گہرا تعلق ہے، ہمارا دین اس کی تعلیم دیتا ہے تاکہ معاشرے سے عدم مساوات کا خاتمہ کرکے آگے بڑھا جاسکے۔

 

The post ’’ موب جسٹس‘‘ جائز نہیں ، معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا، ایکسپریس فورم appeared first on ایکسپریس اردو.

جدید تہذیب اور اسلامی روایات

$
0
0

معاشرے کو خوش حال اور خوش گوار بنانے کے لیے روز ازل سے کئی منصوبے بنائے گئے، باہمی محبت کی فضا کو پروان چڑھانے کے لیے کئی جتن کیے گئے، ہزارہا کوششیں کی گئیں کہ دنیا میں بسنے والے ہر انسان کو پُرکیف زندگی بسر کرنے کو ملے۔

لیکن تاریخ عالَم گواہ ہے کہ خوشیوں کے چمن میں بہار نہ آسکی، تہذیب و تمدن کے نام نہاد علم برداروں کے کھوکھلے نعروں میں خلوص و صداقت کی رمق تک نظر نہ آئی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس انسان کُش تہذیب میں مطلب پرستی، دھوکا دہی اور خود فریبی کو فروغ ملا اور حضرت انسان کی عزت نفس بُری طرح مجروح ہوتی رہی۔

بالآخر قدرت کا وعدہ بعثت محمدی ﷺ کی خوش نما صورت میں رُونما ہوا۔ آپ ﷺ نے فطرت انسانی کو خالق انسانیت کے بتائے ہوئے اصولوں کے سانچے میں ڈھالا۔ حالات کا رخ ابتری سے ترقی کی طرف موڑا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا محبّت و انسیت کے جھونکوں سے مہک اٹھی۔ اور اُنس، بھائی چارگی، اخوّت، رواداری، ہم دردی اور باہمی الفت کے پُھول کِھل اٹھے۔ آپ ﷺ کی روشن تعلیمات نے انسانیت کو بھائی بھائی ہونے کا احساس دلایا اور قابل رشک معاشرہ تشکیل دیا۔ چناں چہ معاشرے کی اخلاقی قدروں کو نمایاں کرتے ہوئے آپ ﷺ نے جہاں عالم گیر اصول ہائے جہاں بانی ارشاد فرمائے وہاں پر نجی زندگی کی گتھیاں بھی سلجھائیں۔

خوش گوار رہن سہن کے حصول کے لیے آج کی جدید تہذیب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت مسکراہٹ کا مظاہرہ کرنا چاہیے، تاکہ دوسرے کے دل میں رنجشیں ختم ہوں اور محبت کے جذبات پیدا ہوں۔ جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ خندہ پیشانی سے ملنے کا دنیوی اصول بھی سمجھایا اور اس پر اخروی اجر بھی بتایا۔ افسوس! کہ آج ہم اس نبویؐ اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے بھنویں چڑھا کر، تیور بدل کر ملتے ہیں اور غیر مسلم اقوام اسے اپنا کر خوش اخلاق بنی ہوئی ہیں۔

خوش گوار معاشرے کے قیام کے لیے آج کی دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ معاشرے میں اچھی باتوں کو عام کیا جائے تاکہ لوگوں کے اخلاق اچھے بنیں اور باہمی محبّت کو فروغ ملے۔ جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ لوگوں کو اچھی باتوں کی تلقین کرنے سے دنیاوی فوائد بھی ملیں گے اور اخروی ثمرات بھی۔

معاشرے میں ہر مزاج کے انسان مل جل کر رہتے ہیں بعض کے اخلاق عمدہ ہوتے ہیں تو بعض کے ابتر۔ خُوش گوار معاشرے کے لیے آج کی دنیا اس بات پر متفق ہے کہ اچھی باتیں سکھلانے کے ساتھ بُری باتوں سے روکنا بھی ضروری ہے ورنہ معاشرتی جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگا جس سے دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ برائی سے روکنا دنیا سے معاشرتی جرائم کو ختم کرنے کا ذریعہ بھی ہے اور اخروی انعامات کے حصول کا وسیلہ بھی ہے۔

آج کی دنیا کے اداروں میں جائیں تو پہلے پہل استقبالیہ والے خیر مقدم کریں گے اور آپ کی راہ نمائی کریں گے، کوئی قافلہ کہیں جائے تو اس کی راہ نمائی کرنے والے افراد مہیا ہوں گے جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ بھولے بھٹکے شخص کو راستہ دکھانے کا اجر یہ ہے کہ اس سے جہاں مثالی معاشرہ قائم ہوتا ہے وہیں پر اخروی ثواب بھی ملتا ہے۔

آج کی دنیا میں متمدن قومیں وہ کہلاتی ہیں جو دوسروں کا خیال رکھیں۔ بصارت سے محروم نابینا افراد کو اگر کوئی سڑک پار کرا دے یا اس کو منزل مقصود تک پہنچا دے تو ایسے لوگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے سے جہاں معاشرتی اخلاقی فریضہ ادا ہوتا ہے وہاں پر خدا کی خوش نُودی کی بہ دولت آخرت میں اجر بھی ملتا ہے۔

آج کی دنیا شاہ راہوں، گلی کوچوں، چوراہوں، محلوں اور شہروں کو صاف ستھرا رکھتی ہے اور اسے اپنی تہذیب گردانتی ہے جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ راستوں کو صاف ستھرا رکھنا جہاں سکون و راحت کا باعث ہے وہیں پر اﷲ کی طرف سے انعام کا بھی باعث ہے۔

آج کی دنیا انسانیت کی خدمت کے لیے سماجی اور رفاہی کاموں پر زور دیتی ہے اور جذبہ ایثار و ہم دردی کو اجاگر کرنے کی تعلیم دیتی ہے جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ان الفاظ میں ذکر فرمائی کہ اپنی ضروریات پر اپنے بھائیوں کی ضروریات کو ترجیح دینا جہاں باہمی محبّت کا باعث ہے وہاں پر خدائی محبّت کا حق دار بھی بناتی ہے۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بے وقعت نہ سمجھو۔ مذکورہ بالا افعال و امور بہ ظاہر بہت عام سے معلوم ہوتے ہیں لیکن روز محشر ان کا وزن ہمارے نیکیوں والے پلڑے کو جُھکا دے گا۔ باقی رہا صدقہ! اس بارے میں ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ صدقہ کبھی اپنے مال سے کرنا فرض و واجب ہوتا ہے جیسے زکوٰۃ، عشر، فطرانہ، قربانی اور کبھی مستحب جیسے نفلی صدقہ۔ مال کے صدقے کے علاوہ بھی اﷲ کے پاک نبی ﷺ نے مذکورہ بالا امور کو صدقہ قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ حدیث پاک میں صدقے کے دو بنیادی فوائد ذکر کیے گئے۔ ایک تو یہ کہ صدقہ اﷲ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ انسان کو ناگہانی اور حادثاتی موت سے محفوظ رکھتا ہے۔

اﷲ تعالٰی ہمیں بااخلاق و باکردار بننے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین

 

The post جدید تہذیب اور اسلامی روایات appeared first on ایکسپریس اردو.

’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘

$
0
0

زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور ہر مقصد کے حصول کے لیے عمل بہت ضروری ہے۔ ہمارا دین عمل کے لیے نیّت پر زور دیتا ہے۔

اعمال کا دارومدار نیّت پر ہے لہٰذا ہر عمل سے پہلے اس کی نیّت بہت ضروری ہے۔ نیّت نیک تو منزل آسان۔ جس طرح نیک اعمال کا نیک انجام ہوتا ہے اسی طرح بُرے اعمال کا بُرا انجام ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی نظر میں اس کے بندے کا معمولی سا نیک عمل بھی قبول ہے۔ لہٰذا بندے کی بھی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کا اہتمام رکھے اور بُرے اعمال سے اجتناب کیا جائے۔ ہمیں اپنے اردگرد ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی جنہوں نے نیکیوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اپنی زندگی کو انسانیت کی فلاح اور بہبود کے لیے وقف کر دیا۔

اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں صحابہ کرامؓ کے نیک اعمال کی مثال ملتی ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے ایک یہودی سے کنواں خرید کر بلا تفریق اسے سب کے پانی پینے کے لیے عام کردیا۔ یہ سب روشن مثالیں ہم سب کی تربیت کے لیے کافی ہیں۔ جو بوؤ گے، وہی کاٹو گے۔ اچھا کرو گے تو اچّھا پاؤ گے۔ کر بھلا سو ہو بھلا۔ نیکی کا انعام جنّت اور بدی کا انجام جہنّم ہے۔

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے، آتے ہیں جو کام دوسروں کے۔ بے شک! انسان خطا کا پتلا ہے اور ہر وقت شیاطین کے وار سے بچنا اﷲ کی مدد کے بغیر ناممکن ہے اس لیے ضروری ہے کہ انسان اﷲ سے دوستی کر کے اپنا نیکیوں کا کھاتہ کھول لے جس میں وہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں جمع کرے تاکہ آخرت سنور سکے۔ اِس کھاتے میں منافع ہی منافع ہے۔ بندہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے، توبہ کرے اور اﷲ سے کاروبار کرلے تاکہ اس کا ابدی مقام جنّت ہو۔

آخرت کے لیے نیک اعمال کا ذخیرہ ہی کام آئے گا۔ کہیں کسی غریب کے بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست کردیا تو کسی کم زور طالب علم کی پڑھائی میں مدد کردی، پانی کا کنواں کھدوا دیا، بھوکوں کو کھانا کھلا دیا تو کہیں لبِ سڑک پانی کے کولر نصب کردیے، اور تو اور گرمیوں میں پرندوں کے لیے ٹھنڈے پانی کا بندوبست کردیا۔ چھوٹے چھوٹے نیک اعمال بھی اﷲ تعالٰی کے ہاں مقبول ہیں۔ جس نے راستے سے پتھر بھی ہٹایا تو اسے اس کا بھی اجر ملے گا۔ اپنی نیکی کی ابتداء اپنے گھر سے کیجیے۔

اپنے والدین کی مدد اور خدمت کیجیے، کبھی کسی بزرگ کے چھوٹے چھوٹے کام کر دیجیے، بچوں سے شفقت سے پیش آئیے، اپنا اخلاق اچھّا رکھیے، نادار و کم زور اور غریب افراد کے ساتھ رحم دلی سے پیش آئیے، ان کی مدد کیجیے اور اپنے نیک اعمال کے ذریعے اﷲ تعالٰی کو راضی کیجیے۔

رب راضی تو سب راضی! اِس کے علاوہ صدقات اور خیرات کی مدد سے نیکی کمائیے۔ قیامت کے دن یہی چھوٹی چھوٹی نیکیاں پہاڑ بن جائیں گی اور ایسی نیکیاں جو کہ محض دنیا دکھاوے کی نیّت سے کی گئیں وہ قیامت کے دن اپنے کرنے والے کے منہ پر ماری جائیں گی اس لیے کوئی بھی نیکی دنیا داری اور اپنی تشہیر کے لیے نہیں بل کہ آخرت میں کام یابی کے لیے کی جائیں اور اِس طرح کی جائیں کہ ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کی خبر نہ ہونے پائے۔

ہماری ہر نیکی کا مقصد اﷲ کی خوش نُودی حاصل کرنا ہو۔ نیکی کی توفیق ہو تو اﷲ کا شکر ادا کریں اور نیکی بِلا جھجک فوراً کر دیجیے کہ وہ بھی توفیق من جانب اﷲ ہے انسان کا اپنا کوئی کمال نہیں۔ انسان کا کام ہے کہ وہ ہر وقت نیکی کی جستجو میں لگا رہے اور اﷲ سے اور اﷲ والوں سے رجوع کرے اور ان سے جُڑا رہے تاکہ خوفِ خدا بیدار رہے اور سفرِ آخرت کے لیے بھی کچھ سامان جمع ہو سکے۔

دنیا کے اے مسافر! منزل تیری قبر ہے۔ اگر ہم روز مرّہ زندگی پر نظر ڈالیں تو خاص و عام کی اکثریت برائیوں میں مبتلا نظر آئیں گے جن میں جھوٹ، دھوکے بازی، لالچ و طمع، چغلی، ٹوہ وغیرہ اور دوسرے بُرے اعمال شامل ہیں۔ بُرے کاموں اور گناہوں سے خود کو بچائیے تاکہ اﷲ کی نظروں میں سرخ رُو ہوسکیں۔ اﷲ تعالٰی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اسے خیر اور بد یا برائی میں فرق کرنے اور پھر گناہوں سے بچنے کا فہم اور عقل عطا فرمائی ہے کہ ہر ذی شعور انسان اتنی طاقت ضرور رکھتا ہے کہ وہ بُرے اعمال سے خود کو بچا سکے۔ جھوٹ، غیبت، ٹوہ، چغلی کرنا وغیرہ یہ تمام وہ اعمال ہیں جن سے اﷲ تعالٰی سخت ناراض ہوتے ہیں اور جن سے خود کو اور دوسروں کو بچایا جا سکتا ہے اگر انسان سمجھ داری کا مظاہرہ کرے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی جہنّم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اﷲ تعالٰی کی اِس دنیا میں نیک بندوں کی کمی نہیں جو خاموشی سے شب و روز نیکیاں کمانے کی جستجو میں مشغول ہیں۔ تاریخِ اسلام نیک اور باکردار لوگوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ نیکی وہ ہے جو بے لوث کی جائے اِسی لیے کہا گیا:

’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘

 

The post ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

جمعۃ المبارک کے فضائل اور اہمیت

$
0
0

نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:

 ’’جس شخص نے تین جمعے غفلت کی وجہ سے چھوڑ دیے، اﷲ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔‘‘

اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ساری کائنات پیدا فرمائی اور ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔ سات دن بنائے اور جمعہ کے دن کو دیگر ایام پر فوقیت دی۔ جمعہ کے فضائل میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ہفتہ کے تمام ایام میں صرف جمعہ کے نام سے ہی قرآن کریم میں سورہ نازل ہوئی ہے جس کی رہتی دنیا تک تلاوت ہوتی رہے گی ان شاء اﷲ۔ سورۂ جمعہ مدنی سورہ ہے، اس سورہ کی آخری تین آیات میں نماز جمعہ کا تذکرہ ہے۔

جن کا مفہوم یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے پکارا جائے، یعنی نماز کی اذان ہوجائے تو اﷲ کی یاد کے لیے جلدی کرو، اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ اور جب نماز ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اﷲ کا فضل تلاش کرو یعنی رزق حلال تلاش کرو۔ اور اﷲ کو بہت یاد کرو تاکہ تم کام یاب ہوجاؤ۔ یعنی نماز تو صرف مخصوص جگہ ادا کرسکتے ہو لیکن ذکر ہر جگہ کرسکتے ہو۔ دیکھو مجھے بھول نہ جانا، کام کرتے ہوئے، محنت مزدوری و ملازمت کرتے ہوئے ہر جگہ مجھے یاد رکھنا۔

جمعہ کا نام جمعہ کیوں رکھا گیا: اس کے مختلف اسباب ذکر کیے جاتے ہیں: جمعہ، جمع سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں جمع ہونا۔ کیوں کہ مسلمان اس دن بڑی مساجد میں جمع ہوتے ہیں اور امت مسلمہ کے اجتماعات ہوتے ہیں، اس لیے اس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔ چھے دن میں اﷲ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور تمام مخلوق کو پیدا فرمایا۔ جمعہ کے دن مخلوقات کی تخلیق مکمل ہوئی یعنی ساری مخلوق اس دن جمع ہوگئی اس لیے اس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔ اور جمعہ کے دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے۔

نبی اکرم ﷺ کا پہلا جمعہ

نبی اکرم ﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے وقت مدینہ منورہ کے قریب بنو عمرو بن عوف کی بستی قبا میں چند روز کے لیے قیام فرمایا۔ قباء سے روانہ ہونے سے ایک روز قبل جمعرات کے دن آپ ﷺ نے مسجد قباء کی بنیاد رکھی۔ یہ اسلام کی پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی۔ جمعہ کے دن صبح کو نبی اکرم ﷺ قباء سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ جب بنو سالم بن عوف کی آبادی میں پہنچے تو جمعہ کا وقت ہوگیا، تو آپ ﷺ نے بطن وادی میں اس مقام پر جمعہ پڑھایا جہاں اب مسجد (مسجد جمعہ) بنی ہوئی ہے۔ یہ نبی اکرم ﷺ کا پہلا جمعہ ہے۔ (تفسیر قرطبی)

جمعہ کے دن کی اہمیت کے متعلق دو احادیث

رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’سورج کے طلوع و غروب والے دنوں میں کوئی بھی دن جمعہ کے دن سے افضل نہیں۔‘‘ یعنی جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل ہے۔

(صحیح ابن حبان)

رسول اﷲ ﷺ نے ایک مرتبہ جمعہ کے دن ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’مسلمانو! اﷲ تعالیٰ نے اس دن کو تمہارے لیے عید کا دن بنایا ہے لہذا اس دن غسل کیا کرو اور مسواک کیا کرو۔‘‘ (طبرانی، مجمع الزوائد) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا دن سات ایام کی عید ہے۔

جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی

رسول اﷲ ﷺ نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا، مفہوم: ’’اس میں ایک گھڑی ایسی ہے جس میں کوئی مسلمان نماز پڑھے اور اﷲ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اﷲ تعالیٰ اس کو عنایت فرما دیتا ہے اور ہاتھ کے اشارے سے آپ ﷺ نے واضح فرمایا کہ وہ ساعت مختصر سی ہے۔‘‘ (بخاری) احادیث کی روشنی میں جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کے متعلق علماء نے دو وقتوں کی تحدید کی ہے: پہلی، دونوں خطبوں کا درمیانی وقت، جب امام منبر پر کچھ لمحات کے لیے بیٹھتا ہے اور دوسری غروب آفتاب سے کچھ وقت قبل۔

نمازِجمعہ کی فضیلت

رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر جمعہ کی نماز کے لیے آتا ہے، خوب دھیان سے خطبہ سنتا ہے اور خطبہ کے دوران خاموش رہتا ہے تو اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک اور مزید تین دن کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ (مسلم)

یعنی چھوٹے گناہوں کی معافی ہوجاتی ہے۔

جمعہ کی نماز کے لیے مسجد جلدی پہنچنا

رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے ہر دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پہلے آنے والے کا نام پہلے، اس کے بعد آنے والے کا نام اس کے بعد لکھتے ہیں (اسی طرح آنے والوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب سے لکھتے رہتے ہیں)۔ جب امام خطبہ دینے کے لیے آتا ہے تو فرشتے اپنے کھاتے (جن میں آنے والوں کے نام لکھے گئے ہیں) بند کردیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔‘‘ (مسلم) خطبہ ٔجمعہ شروع ہونے کے بعد مسجد پہنچنے والے حضرات کی نماز جمعہ تو ادا ہوجاتی ہے، مگر نماز جمعہ کی فضیلت ان کو حاصل نہیں ہوتی۔

خطبۂ جمعہ

جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ نماز سے قبل دو خطبے دیے جائیں۔ کیوں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ جمعہ کے دن دو خطبے دیے۔ دونوں خطبوں کے درمیان خطیب کا بیٹھنا بھی سنت ہے۔ (مسلم) منبر پر کھڑے ہوکر ہاتھ میں عصا لے کر خطبہ دینا سنّت ہے۔ دوران خطبہ کسی طرح کی بات کرنا حتی کہ نصیحت کرنا بھی منع ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس نے جمعہ کے روز دوران خطبہ اپنے ساتھی سے کہا (خاموش رہو) اس نے بھی لغو کام کیا۔‘‘ (مسلم) رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص نے کنکریوں کو ہاتھ لگایا یعنی دوران خطبہ ان سے کھیلتا رہا (یا ہاتھ، چٹائی، کپڑے وغیرہ سے کھیلتا رہا) تو اس نے فضول کام کیا (اور اس کی وجہ سے جمعہ کا خاص ثواب ضایع کردیا)۔ (مسلم) حضرت عبد اﷲ بن بسرؓ فرماتے ہیں کہ میں جمعہ کے دن منبر کے قریب بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتا ہوا آیا جب کہ رسول اﷲ ﷺ خطبہ دے رہے تھے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بیٹھ جا، تُونے تکلیف دی اور تاخیر کی۔‘‘ (صحیح ابن حبان) جب امام خطبہ دے رہا ہو تو لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر آگے جانا منع ہے، بل کہ پیچھے جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جانا چاہیے۔ جمعہ کی نماز ہر اُس مسلمان، صحت مند، بالغ، مرد کے لیے ضروری ہے جو کسی شہر یا ایسے علاقے میں مقیم ہو جہاں روز مرہ کی ضروریات مہیّا ہوں۔ نماز جمعہ کی دو رکعت فرض ہیں، جس کے لیے جماعت کی نماز شرط ہے۔ جمعہ کی دونوں رکعات میں جہری قرأت ضروری ہے۔

جمعہ کی چند سنتیں

جمعہ کے دن غسل کرنا واحب یا سنت مؤکدہ، یعنی عذر شرعی کے بغیر جمعہ کے دن کے غسل کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ پاکی کا اہتمام کرنا، تیل لگانا، خوش بُو استعمال کرنا اور حسب استطاعت اچھے کپڑے پہننا سنّت ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: جمعہ کے دن کا غسل گناہوں کو بالوں کی جڑوں تک سے نکال دیتا ہے، یعنی چھوٹے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، بڑے گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ اگر چھوٹے گناہ نہیں ہیں تو نیکیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ (طبرانی، مجمع الزوائد) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، جتنا ہوسکے پاکی کا اہتمام کرتا ہے اور تیل لگاتا ہے یا خوش بُو استعمال کرتا ہے، پھر مسجد جاتا ہے، مسجد پہنچ کر جو دو آدمی پہلے سے بیٹھے ہوں ان کے درمیان میں نہیں بیٹھتا، اور جتنی توفیق ہو جمعہ سے پہلے نماز پڑھتا ہے، پھر جب امام خطبہ دیتا ہے اس کو توجہ اور خاموشی سے سنتا ہے تو اس شخص کے اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔‘‘ (بخاری)

نمازِ جمعہ چھوڑنے پر وعیدیں

نبی اکرم ﷺ نے نماز جمعہ نہ پڑھنے والوں کے بارے میں فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ کسی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں پھر جمعہ نہ پڑھنے والوں کو ان کے گھروں سمیت جلا ڈالوں۔‘‘ (مسلم) رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’خبردار! لوگ جمعہ چھوڑنے سے رک جائیں یا پھر اﷲ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا، پھر یہ لوگ غافلین میں سے ہوجائیں گے۔‘‘ (مسلم) رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص نے تین جمعہ غفلت کی وجہ سے چھوڑ دیے، اﷲ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔‘‘ (نسائی، ابن ماجہ، ترمذی، ابوداؤد)

جمعہ کے دن درود شریف پڑھنے کی خاص فضیلت

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے۔ اس دن کثرت سے درود پڑھا کرو، کیوں کہ تمہارا درود پڑھنا مجھے پہنچایا جاتا ہے۔‘‘

(مسند احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ)

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات کثرت سے درود پڑھا کرو، جو ایسا کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘ (بیہقی)

 

The post جمعۃ المبارک کے فضائل اور اہمیت appeared first on ایکسپریس اردو.

’’کیوں‘‘ سے آغاز کریں!

$
0
0

28 اگست 1963ء کا دِن اس لحاظ سے ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے کہ اس دِن امریکہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد اجتماع منعقد ہوا تھا۔

صبح ہی سے واشنگٹن کی سڑکوں پر جگہ جگہ سیاہ فام دکھائی دے رہے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی، اس تاریخی اجتماع کو میڈیا نے بھی کوریج دینے کا آغاز کر دیا۔ چند گھنٹوں میں ہی شرکاء کی تعداد ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی۔

سیاہ فاموں کا نوجوان رہنما مارٹن لوتھر کنگ جلسہ گاہ پہنچا تواس کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ امریکی حکومت بھی اس اجتماع کا بغور جائزہ لے رہی تھی، خبروں میں بار بار اس کا تذکرہ ہو رہا تھا اور جب مارٹن لوتھر کنگ نے مائیک سنبھالا تو یہ منظر میڈیا پر براہِ راست دِکھایاجا رہا تھا۔

لوتھر کنگ نے دھیمے اندازمیں کہا ’’میرا ایک خواب ہے‘‘ اور پھر تیز آواز میں دہرایا: ’’میرا خواب ہے کہ جارجیا کی سرخ پہاڑیوں کے دامن میں ایک دن سفید فام آقاؤں اور سیاہ فام غلاموں کے وارث ایک دوسرے سے گلے ملیں، میرا ایک خواب ہے کہ میرے بچے اپنے رنگ کے بجائے اپنے کردار سے پہچانے جائیں، میرا اک خواب ہے کہ۔۔۔۔‘‘ وہ بولتا رہا اور لوگ پوری توجہ سے اس کو سن رہے تھے۔ لوتھر کنگ جونیئر کی اس تقریر نے سب کو ہلا کر رکھ دیا، ان کی اس تقریر کو امریکی تاریخ کی تیسری عظیم ترین تقریر کہا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب سوشل میڈیا نہیںتھا اور ابلاغ کے دیگر ذرائع بھی تیز رفتار نہیںتھے تو پھر ایک آدمی کی آواز پر ڈھائی لاکھ لوگ کیسے اکٹھے ہوگئے؟

اس سوال کو یہیں پر روک کر ہم ایک اور منظر کی طرف بڑھتے ہیں۔

یہ آج سے 74سال پہلے1947 ء کا زمانہ ہے۔اس دورمیں ایک انسان اٹھتا ہے، وہ ایک نظریہ پیش کرتا ہے اور اس کا مقدمہ ہر پلیٹ فارم پرلڑنا شروع کردیتا ہے۔ ہزار مخالفتوںکے باوجود وہ اپنی قابلیت اوردوراندیشی سے اس موقف کو پوری دنیا سے منوا لیتا ہے اور ایک طویل جدو جہد کے بعد الگ مملکت تشکیل دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے لاکھوں لوگ اپنی زمین، جائیداد، وراثت، کاروبار اور حتیٰ کہ اپنی امیدوں کو بھی چھوڑکر بے یار و مددگار ایک اجنبی سرزمین کی طرف ہجرت کرنا شروع کردیتے ہیں اور موت سے لڑکر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں بھی سوال اٹھتا ہے کہ ایک انسان کی آواز پر لاکھوں لوگ اپنا گھر بار کیسے چھوڑدیتے ہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں عظیم شخصیات کا ’’کیوں؟‘‘ (Why) یعنی ان کی جدوجہد کا مقصد بہت واضح تھا۔ قائداعظم کی بات اگر لاکھوں کروڑوں لوگوں کے دِل میں گھر کرگئی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی تمام جدوجہد کا مقصد ایک الگ ملک بنانا تھا، جس میں لوگ امن وامان کے ساتھ رہ سکیں ۔ مارٹھن لوتھر کنگ کی I have a dreamکی صدا اگر آج بھی امریکیوں کے ذہنوں میں گونج رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی ایک واضح مقصد اور موقف کی جنگ لڑ رہا تھا جس میں سیاہ فام انسانوں کو برابری کی سطح پر لانا تھا۔

2009 ء میں برطانوی نژاد امریکی انسپائریشنل اسپیکر اورکئی مقبول کتابوں کے مصنف، سائمن سائنک نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے: “Start with Why” ۔ NDP ریسرچ کمپنی کے مطابق لیڈرشپ کے موضوع پر یہ ایک بیسٹ سیلر کتاب رہی ہے۔اس کتاب میں سائمن سائنک نے ایک بنیادی نفسیاتی پہلو پر بات کی ہے۔ سائمن سائنک بتاتا ہے کہ کسی بھی انسان کا Why جس قدر واضح ہوتا ہے، اسی قدر وہ اپنے مشن اور موقف میں کامیاب ٹھہرتا ہے۔ کتاب کا اہم ترین نکتہ ’’گولڈن سرکل‘‘ ہے۔ اس سرکل میں تین دائرے ہیں۔ پہلا دائرہ Whatکا ہے ، اس کے اندر دوسرا دائرہ Howکا ہے اور آخر میں Whyکا دائرہ ہے۔

وہ بتاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میںکوئی شخص جب کوئی کام کرتا ہے تو وہ Whatسے آغاز کرتا ہے۔اس کے بعد وہ Howکے دائرے پر جاتا ہے اور آخر میں Why پر ۔مثال کے طورپر ایک نوکری پیشہ شخص سے اگر پوچھا جائے کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ تو وہ کہتا ہے کہ نوکری۔ یہ پہلے دائرے What کاجواب ہے۔ پھر اگر پوچھا جائے کہ کون سی نوکری تو اس میں وہ بتاتا ہے کہ میں فلاں ملازمت کرتا ہوں اور اس میں مجھے یہ یہ کام اس طریقے سے کرنے پڑتے ہیں۔ یہ دوسرے دائرے How کا جواب ہے۔

سائمن سائنک بتاتا ہے کہ ہمارے ہاں بہت سارے لوگ Whyکو نظر انداز کر دیتے ہیں، حالانکہ یہ ایک ایسا پہلو ہے کہ اگر اسی کی بنیاد پر کوئی کام شروع کیا جائے تو وہ بہت جلد مقبول ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال رائٹ برادران کا جہاز ایجاد کرنے کا واقعہ ہے۔ اسی زمانے میں ایک اور شخص سیموئیل بھی تھا اور وہ بھی جہاز ایجاد کرنے کے پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ اس کے پاس باقاعدہ ایک کمپنی اور پروفیشنل ٹیم تھی۔اس کی کمپنی کو فنڈنگ بھی کی گئی تھی تاکہ ایک ایسی چیز ایجاد کی جا سکے جس کی بدولت انسان ہوا میں اڑ سکے، لیکن سیموئیل کے پاس اپنے اس کام کے کرنے کاWhy نہیں تھا۔

وہ یہ سب کچھ صرف اس لیے کر رہا تھا کہ وہ اس کریڈٹ کو اپنے نام کرسکے کہ دنیا میں سب سے پہلے اسی نے ایک ایسی چیز ایجاد کی تھی جس کے ذریعے انسان ہوا میں اڑ سکتا ہے۔ باالفاظ دیگر وہ پیسہ اور شہرت کمانا چاہتا تھا۔ اس کے برعکس رائٹ برادران کے پاس فنڈنگ تھی، نہ ہی بھرپور وسائل اور نہ ہی کوئی پروفیشنل ٹیم۔ لیکن اس کے باوجود وہ جہاز ایجاد کرنے میں کامیاب ہوگئے، کیونکہ ان کا Why بہت واضح تھا۔ یہ ان کا جنون تھا کہ ہم نے ایسی ایک مشین ایجاد کرنی ہے جس سے انسانیت کو بھرپور فائدہ ہو اور اسی جذبے نے انھیں کامیاب بھی کیا۔

آپ نے اسٹار بکس کا نام تو سنا ہوگا؟ دنیا کا ایک مشہور کافی برانڈ۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کی اصل وجہ شہرت کیا ہے؟ اسٹار بکس کے بارے میں تو سب کو معلوم ہے کہ یہ برانڈ کیا کرتا ہے اور کیسے کرتا ہے یعنی اس کے What اور Howکے بارے میں علم ہے لیکن بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ ’’اسٹاربکس‘‘ یہ کام کیوں کررہا ہے۔ ’’اسٹار بکس‘‘ کا مقصد اپنے صارفین کو گھر اور دفتر کے علاوہ ایک ایسا ماحول فراہم کرنا ہے جس میں بیٹھ کر وہ کافی پئیں،کتاب پڑھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کریں۔ یہ اسٹار بکس کا Whyہے اور اسی مضبوط Whyکی بدولت وہ دنیا بھر میں مقبول ہوا۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ اسکول کے زمانے میں اساتذہ اپنے طلبہ کوکتاب کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیںکہ فلاں فلاں کتاب پڑھیں۔ بچے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ کچھ دِن بعد ٹیچر پھر پوچھتا ہے اور تاکید کے ساتھ کہتا ہے کہ فلاں کتاب ضرور پڑھیں لیکن طلبہ کے اندر کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ کیوں؟ کیوں کہ استاد یہ تو بتاتا ہے کہ کتاب پڑھیں یعنی وہ What کے بارے میں بتا رہا ہے لیکن Whyکے بارے میں نہیں بتا رہا کہ یہ کتاب کیوں پڑھی جائے۔

اس کے برعکس ایک موٹیویشنل اسپیکرکے ایک دفعہ کہنے پر لوگ کتاب پڑھنا شروع کردیتے ہیں، کیونکہ وہ Whyسے آغاز کرتا ہے۔ وہ اپنی تقریر میں بتاتا ہے کہ کیا آپ اپنے آپ کو ایک باوقار شخصیت بنانا چاہتے ہیں؟کیا آپ ایسی تکنیک جاننا چاہتے ہیں جو آ پ کو ایک بہترین گفتگو کرنے والا بنائے اور لوگ آپ کی باتوں میں دلچسپی لیں اور آپ کو سننا چاہیں؟ اگرآپ یہ چاہتے ہیں توڈیل کارنیگی کی کتاب The Art of Public Speaking پڑھیں اور لوگ اس کتاب کو پڑھنا شروع بھی کردیتے ہیں۔

گولڈن سرکل کا اصول ہر آرگنائزیشن میں بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔ کسی بھی ادارے میں تین قسم کے افراد ہوتے ہیں: اسٹاف ، مینجرز اور سی ای او۔ اسٹاف ، اس کمپنی کے Whatوالے سرکل پر چلتا ہے۔ اس کو پتا ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کام کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹاف میں سے کوئی فرد چلا جائے تو اس سے کمپنی کو زیادہ فرق نہیں پڑتا او ر بہت جلداس کا متبادل مل جاتا ہے۔

منیجرز دوسرے سرکل How پر چلتے ہیں۔ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ اسٹاف سے کام کیسے لینا ہے۔ ان کے جانے سے اگرچہ کمپنی کو وقتی طور پر فرق پڑتا ہے لیکن اس کمی کو بھی پوراکر لیا جاتا ہے۔ تیسرے نمبر پر CEO ہوتے ہیں جو کہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ گولڈن سرکل کے تیسرے حصے Why پر کام کرتے ہیں، یعنی وہ جانتے ہیں کہ ہم نے یہ کام کیوں کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر سی ای او کمپنی کو چھوڑ دے تو پھر کمپنی بھی نہیں بچتی۔

سائمن سائنک بتاتا ہے کہ گولڈن سرکل رول ایڈورٹائزمنٹ کے شعبے میں بھی بھرپور طریقے سے استعمال ہوتا ہے۔آج سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر اشتہارات کی بھرمار ہے۔ ہر کمپنی اپنے اشتہارات پر کروڑوں روپے لگاتی ہے اور ان کی سب سے بڑی کوشش اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ صارفین کی زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کر سکیں، کیونکہ یہ ان کے بزنس کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ بہت ساری کمپنیاں Whatکے سرکل پر عمل کرتے ہوئے اپنی کمپنی کی ایڈورٹائزمنٹ کرواتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ یہ ہماری کمپنی کا موبائل فون ہے، اس میں اتنے میگاپیکسلز کا کیمرہ، بیٹری اور فلاں فلاں فیچر ہے اور یہ آپ کودوسرے موبائل سے کم قیمت میں مل سکتا ہے۔ اس کے برعکس کچھ کمپنیاں گولڈن سرکل کے Whyوالے رول پر اپنی ایڈورٹائزمنٹ کرواتی ہیں۔

مثال کے طورپر ایک فرنیچرکمپنی اپنے اشتہار میں یہ بتاتی ہے کہ ہماری تیار کردہ کرسی آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ آ پ کوکمر کے درد سے بھی بچاتی ہے اور اس کے استعمال سے آپ کمر کے درد کا شکار نہیں ہوں گے۔ توایسے اشتہارات لوگوں کے دِلوں کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ وہ ایسی مصنوعات کو پسند کرتے ہیں اور انھیں خریدنا چاہتے ہیں، پھر وہ اس کی بھی پروا نہیں کرتے کہ اس کی قیمت دوسری کمپنی سے زیادہ ہے۔

سائمن سائنک کتاب میں Manipulate اور Inspiringکا فلسفہ بھی بتاتے ہیں ۔وہ تمام کمپنیاں جو Manipulationسے کام لے کر اپنے صارفین بناتی ہیں، یعنی پراڈکٹ کی قیمت کم کرکے یاکوئی اور لالچ دے کر اپنی چیزیں بیچنا چاہتی ہیں، وہ وقتی طورپر فائدہ تو حاصل کرلیتی ہیں لیکن بہت جلد وہ نقصان بھی اٹھاتی ہیں اور ان کا روزگار زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا، جبکہ وہ کمپنیاں جو لوگوں کیں حقیقی طورپر تحریک پیدا کر کے اپنی مصنوعات بیچتی ہیں تو ان کا کاروبار کبھی ماند نہیں پڑتا۔ مصنف کہتا ہے کہ اگر آپ نے اپنے بزنس کو پروان چڑھانا ہے تو آپ کو ہیراپھیری سے نہیں بلکہ اپنی بنیادی اقدار سے کام لینا ہوگا۔ لوگوں کو انسپائر کرنا ہوگا اور یہی لیڈرز کا طریقہ بھی ہے۔

خلاصہ

٭Start with Why کتاب کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر انسان گولڈن سرکل کو اپنی زندگی میں استعمال کرے لیکن پہلے دائرے (What) اوردوسرے دائرے (How) کی طرف نہ جائے بلکہ (Why) سے شروع کرے۔ لوگوں میں مقبول ہونے کا یہی راز ہے۔

٭آپ نوکری کر رہے ہیں، کاروبار کررہے ہیں یا فری لانسنگ۔ اپنے Whyکو ہمیشہ واضح اور بڑا رکھیں۔ آ پ کا Why جتنا بڑا ہوگا، آپ کی اہمیت بھی اتنی ہی بڑی ہوگی۔ قائد اعظم اور لوتھرکنگ کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔

٭کبھی بھی اپنی چیز بیچنے کے لیے ہیرا پھیری (Manipulation) سے کام نہ لیں۔ یہ چیز شاید وقتی فائدہ دے لیکن آپ زیادہ دیر تک اپنی کامیابی برقرار نہ رکھ پائیں گے اور دھڑام سے گریں گے۔

٭جوش و جذبہ انسان کو متحرک تو کردیتا ہے لیکن یہ بہت جلد ختم بھی ہو جاتا ہے ۔آپ اگر ایک بڑا لیڈر بننا چاہتے ہیں تو اپنے سامعین میں جوش و جذبہ پیداکرنے کے بجائے انھیں ٹھوس اقدامات اور ان کے واضح نتائج بتائیں تو یہ چیز انھیں لمبے عرصے تک متحرک رکھے گی۔

اس کتاب میں گولڈن سرکل کے علاوہ اور بھی بہت ساری ٹپس موجود ہیں جو آپ کی زندگی کو شاندار بنا سکتی ہیں۔

The post ’’کیوں‘‘ سے آغاز کریں! appeared first on ایکسپریس اردو.

مولانا محمد علی جوہر؛ تاریخ کا مستقل عنوان

$
0
0

مولانا محمد علی جوہر کی راہ نمائی میں برصغیر جنوبی ایشیا میں چلنے والی تحریک خلافت 20 ویں صدی میں اپنی نوعیت کی منفرد مزاحمتی تحریک تھی، جس کو پر امن طور پر جمہوری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے منظم کیا گیا تھا۔

اس تحریک کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس دور کے انگریز وائسرائے کو برطانوی وزیراعظم لائٹ جارج کو برقی پیغام کے ذریعے کہنا پڑ ا تھا کہ “اگر ترکوں کے حوالے سے برطانوی پالیسی تبدیل نہ ہوئی تو ہندوستان میں ہماری لیے حکومت کرنا مشکل ہوجائے گا”۔

تحریک کی مقبولیت اور عوام کی شرکت کے جائزہ کے لیے تحریک پاکستان کے بے تیغ سپاہی محمود علی کا یہ بیان اہمیت رکھتا ہے کہ تحریک خلافت میں پورے ہندوستان جس میں ان کا صوبہ آسام بھی شامل تھا، کی مسلم آبادی نے اپنے گلیوں کے موڑ پر بکس رکھ دیے تھے جن میں وہ روز انہ ایک مٹھی چاول یا ایک مٹھی آٹا تحریک کے فنڈ میں اپنے حصے کے طور پر شامل کیا کرتے تھے۔

واضح رہے کہ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد خلافت کا ادارہ تحلیل ہوگیا تھا جس کی بنا پر برصغیر میں خلافت کی تحریک ازخود وقتی طور پر غیرضروری ہوگئی تھی لیکن ناکام نہیں ہوئی تھی۔

مولانا محمد علی جوہر کی مقناطیسی شخصیت کی قیادت میں خلافت عثمانیہ کی بقاء کے لیے جدوجہد کو اس طور پر ایک کام یاب کاوش قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس کے دباؤ کے باعث ترکی کا جغرافیائی وجود باقی رہا اور اس ملک کا موجودہ وجود بھی برصغیر کی تحریک خلافت کا ثمر قرار دیا جا سکتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں اس میں شامل مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے بیشتر ممالک میں یا تو مقامی حکومتیں قائم ہوگئیں یا پھر وہ برطانیہ اور فرانس کے زیرنگیں آگئے۔

مولانا محمد علی جوہر کی اعلٰی شخصیت کے خدوخال کے اظہار کے لیے بین الاقوامی شہرت یافتہ برطانوی مورخ کو پورے براعظم یورپ میں کوئی ایک شخصیت بھی ایسی نظر نہ آئی جس کے ذریعے مولانا جوہر کی مثال دی جاسکتی، چناںچہ اس معروف تاریخ داں نے مولانا محمد علی کی خطابت کو “برک” ان کی تحریر کو”میکالے” اور ان کی جرأت و حوصلے کو “نپولین” سے تشبیہ دی تھی۔ بر صغیر میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق اجاگر کرنے اور اس تناظر میں عوام کو بیدار کرنے میں مولانا محمد علی جوہر کا کردار تاریخ میں نمایاں نظر آتا ہے۔

وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر رہے۔ ان کی تحریک نے استعمار کے خلاف عوام میں شعور پیدا کیا۔ ان کی زیرقیادت عوام نے نوآبادیاتی نظام کو چیلینج کیا اور خود مسلمانوں میں مسلم قومیت کی بنیاد پر قومی تشخص کو فروغ حاصل ہوا جو بعد ازآں تحریک پاکستان میں مسلمانوں کے متحرک ہونے کا سبب بنا۔

تحقیق و مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کام یابی میں جہاں ایک جانب قائداعظم محمد علی جناح کے تدبروفراست کا اہم عنصر شامل ہے وہیں دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ کی عوامی مقبولیت اور اس کو ایک نتیجہ خیز تحریک بنانے میں خلافتی راہ نماؤں اور کارکنوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔

1937 کے بعد مسلم لیگ کے احیاء میں نئی روح پیدا ہوئی جب وہ چوہدری خلیق الزماں، عبد اللہ ہارون، مولانا ظفر علی خان، سردار عبدالرب نشتر، مولانا عبدالحمید خاں بھاشانی جیسے متعدد راہ نماؤں اور کارکنوں، جنہوں نے تحریک خلافت میں اپنی جاںفشانی کا لوہا منوایا تھا، نے قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور خود مولانا محمد علی جوہر کی شریک حیات اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی بھی قائد اعظم کی قیادت میں یک جا ہوگئے۔

تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ خلافتی راہ نماؤں اور کارکنوں کی مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل آل انڈیا مسلم لیگ محض اشرافیہ کی حد تک محدود تھی۔ اس حقیقت کا ذکر شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے بھی قائداعظم کے نام اپنے خطوط میں نہایت دردمندی کے ساتھ کیا ہے۔

ان کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کو قائداعظم کی راہ نمائی میں ایک عوامی جماعت بنانے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کے اقتصادی مسائل کے حل کی جانب توجہ کو وہ ناگزیر سمجھتے تھے۔ چناںچہ 1937 کے انتخابات میں ناکامی کے بعد جب آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو مسلمانوں کے مسائل کی جانب بھرپور توجہ دی جس کے نتیجے میں محض 3 سال کے عرصے میں مارچ 1940 میں لاہور کے عام اجلاس میں مسلم لیگ کو برصغیر کے آئینی معاملات اور مسلمانوں کے حقوق کو منظم اور مربوط طور پر برطانوی حکم رانوں کے سامنے اپنے موقف کو اجتماعی طور پر کامیابی کے ساتھ پیش کرنے کا موقع ملا۔

مولانا محمد علی جوہر کی برصغیر میں ذاتی مقبولیت اور شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1937 میں ہندوستان کے مختلف شہروں میں قائد اعظم کی آمد کے موقع پر جو پوسٹرز آویزاں کئے گئے تھے ان پر قائد اعظم کے ساتھ مولانا محمد علی جوہر کی تصویر اس تحریر کے ساتھ موجود تھی “ملا تخت سیاست۔ محمد علی سے محمد علی کو۔”

بزم بانیان پاکستان کے ایک شریک چوہدری خلیق الزماں کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ سے مولانا محمد علی جوہر کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ جب وہ خود ذکرِنبیؐ کرتے یا ان کے سامنے کوئی اور رسالت مآب ﷺ کا تذکرہ کرتا تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے، جس کا سلسلہ تادیر جاری رہتا تھا۔ چوہدری صاحب نے مولانا کی جرأت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ وہ چتوڑ کے قلعے میں نظربند تھے اس موقع پر ملاقات میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اس امر کا تند ہی سے جائزہ لینا چاہیے کہ ہندوستان سے برطانوی راج کے خاتمے کے لیے ہم کس طرح طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں۔

مولانا محمد علی جوہر کی آزادی و حریت سے والہانہ وابستگی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ آزادی کے علم بردار ہیں خواں وہ کسی اسلامی ملک کی ہو یا کفرستان کے کسی خطے کی۔ جمہور کی رائے کا احترام ان کی سرشت میں شامل تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اگر جمہور کی اکثریت یہ اعلان کرے کہ دو جمع دو تین ہوتے ہیں تو میں ان کی رائے کا احترام کروں گا حالاںکہ علم ریاضی کا کوئی کلیہ اس جواب کو تسلیم نہیں کر تا۔

علامہ اقبال کی طرح مولانا جوہر بھی نوجوانوں میں عقابی روح کی بیداری اور اس کے ذریعے اپنی منزل آسمانوں کی بلندیوں پر دیکھنے کے آرزومند تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ نوجوانوں میں اس انقلابی روح کی بیداری کے لیے ایک انقلابی درس گاہ کی ضرورت ہوتی ہے، چناںچہ انہوں نے ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں “جامعہ ملیہ” کے نام سے یونیورسٹی قائم کی تھی۔ دنیا نے دیکھا کہ گذشتہ سال جامعہ ملیہ کے طلبہ نے کس حوصلے اور جرأت سے سیاسی جبر کا مقابلہ کیا۔ یہ مولانا محمد علی جوہر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے مترادف ہے۔

مسلمانوں کے اتحاد “پین اسلامزم” کے حوالے سے خصوصاً 19ویں اور 20 ویں صدی میں علامہ سید جمال الدین افغانی کے ساتھ مولانا کا نام اور ان کے کارنامے تاریخ کے اوراق پر درخشاں ستارے کی طرح جگمگاتے رہیں گے۔ مولانا محمد علی “حجاز مقدس” کے تحفظ اور خدمت کو پورے عالم اسلام کا فریضہ سمجھتے تھے اور اسی لیے معتمر عالم اسلامی کے قیام کے موقع پر سعودی سلطنت کے بانی عبد العزیز ابن سعود اور عالم اسلام کے دیگر اکابرین کے روبرو انہوں نے اپنے اس موقف کا اظہار کیا تھا جو تاریخ میں رقم ہے۔

مولانا محمد علی جوہر 4 جنوری1931 کو برطانوی حکومت کی جانب سے منعقدہ گول میز کانفرنس میں یہ اعلان کرنے کے بعد کہ وہ”آزادی کا پروانہ حاصل کیے بغیر غلام ملک میں جانا پسند نہیں کریں گے۔” اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور ارض فلسطین میں واقع مسلمانوں کے تیسرے بڑے مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ کے جلو میں اور نبیوں کے جھرمٹ میں ابدی نیند سوگئے۔

ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر

یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے

The post مولانا محمد علی جوہر؛ تاریخ کا مستقل عنوان appeared first on ایکسپریس اردو.


ان کے بچپن کو اعتماد کا تحفہ دیں

$
0
0

اگر آپ والدین ہیں تو کیا آپ اپنے بچوں کو دُنیا کا سب سے عظیم تحفہ دینا چاہیں گے۔ یقیناً آپ کا جواب ہاں میں ہوگا کیوںکہ دُنیا کے تمام والدین اپنے بچوں کو دُنیا کی بہترین سے بہترین چیزیں دینا چاہتے ہیں۔ اپنی اس نیک اور بہترین خواہش کے باوجود بہت سارے والدین اپنے بچوں کو یہ تحفہ دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہ تحفہ کیا ہے اور ہمارے بچوں کی زندگی میں کام یابی کے لیے کیوں ضروری ہے؟

آج کے اس مضمون میں ہم اس پر بات کریں گے۔’’اعتماد‘‘ دُنیا کا سب سے عظیم تحفہ ہے جو والدین اپنے بچے کو دے سکتے ہیں۔ برطانیہ کے ایک معروف جریدے بزنس انسائیڈر میں جیکولین اسمتھ نے ایک ریسرچ شائع کی جس میں ایک ماہرنفسیات کا کہنا ہے کہ والدین کو یہ کام کرنے چاہییں تاکہ اُن کے بچے کی پرورش بہترین انداز میں ہوسکے۔

ماہرنفسیات اور بچوں کی تعلیم وتربیت کے موضوع پر 15 کتابوں کے مصنف کارل پک ہارڈ کا کہنا ہے کہ جس بچے میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے وہ نئی اور مشکل چیزوں کو آزمانے سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے کیوںکہ اُس کے اندر ناکام ہونے اور دوسروں کو مایوس کرنے کا ڈر ہوتا ہے۔ یہ خوف اسے زندگی بھر منفرد اور مشکل کام سر انجام دینے سے روک سکتا ہے اور کام یاب کیریئر بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔

کارل پک ہارڈ کا کہنا ہے کہ ’’اعتماد کا اصل دشمن حوصلہ شکنی اور خوف ہیں۔‘‘ لہٰذا والدین کو ہمیشہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کریں اور اُن کی مدد و راہ نمائی کریں تاکہ وہ مشکل کاموں کو کرنے کی کوشش کرسکیں۔ ماہرین کے مطابق اگر والدین اپنے بچوں کی بہترین تربیت اور انھیں پرُاعتماد بچے بنانا چاہتے ہیں تو اُنہیں ان 17 نکات پر عمل کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ بچوں کی تربیت ایک مشکل، صبرآزما اور چیلینجنگ عمل ہے۔ اولاد جہاں قدرت کی طرف سے ایک انعام ہے وہیں دُنیا میں والدین کا سب سے بڑا امتحان بھی ہے۔ اگر والدین مناسب راہ نمائی اور ہدایات پر عمل پیرا ہوں تو یہ ذمے داری ایک خوش گوار احساس اور دل چسپ سفر بن جاتا ہے:

1:’’اپنے بچوں کی ہر کوشش کو سراہیں؛ چاہیے وہ جیتیں یا ہاریں‘‘

یاد رکھیں جب بچے بڑے ہو رہے ہوتے ہیں تو منزل سے سفر زیادہ اہم ہوتا ہے۔ پک ہارڈ کا کہنا ہے کہ چاہے آپ کا بچہ اپنی ٹیم کی جیت کے لیے قیمتی گول کرے یا غلطی سے فاؤل کردے، اس کی کوشش کو ضرور سراہیں۔ انہیں یہ بات سکھائیں کہ کوشش کرنے پر کبھی شرمندہ نہیں ہونا چاہیے، کیوںکہ ’’زندگی میں وقتی طور پر اچھا کرنے کی نسبت مسلسل محنت کرنے سے بہترین پرفارم کرنے کے لیے زیادہ اعتماد پیدا ہوتا ہے۔‘‘

2:’’اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل مشق کی حوصلہ افزائی کریں۔‘‘
اپنے بچے کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ جن چیزیں میں بھی دل چسپی رکھتے ہیں۔ اس کی مسلسل مشق کریں۔ لیکن اس بات کا خیال رکھیںکہ ان پر زیادہ دباؤ نہ ڈالیں۔ (یہ بہت مشکل امر ہے کیوںکہ اس میں والدین کا ڈسپلن کو فالو کرنا انتہائی ضروری ہے۔)
ہارمنی شو، جو پیانو کی ماہر ہے، نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس نے پیانو بجانے کی مشق کرنا اس وقت شروع کردی تھی جب وہ صرف 3 سال کی تھی۔ پریکٹس اعتماد کے ساتھ اور اس اُمید میں کوشش کرنے کا نام ہے کہ بہتری آئے گی۔

3:’’انہیں خود مسائل کی کھوج لگانے دیں‘‘
اگر آپ اپنے بچے کے لیے خود ہی ساری سخت محنت کریں گے تو اُن میں کبھی بھی خود سے مسائل کی کھوج لگانے کی صلاحیت اور اعتماد پیدا نہیں ہو گا۔ والدین کی مدد اُنہیں خود کام کرنے سے حاصل ہونے والے اعتماد سے محروم کرسکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، بہتر ہے کہ آپ کے بچے A کے بجائے B اور C گریڈ حاصل کرلیں، جب تک کہ وہ مسائل کو حل کرنے اور کام کرنے کا طریقے خود سیکھ رہے ہوں۔

4:’’بچوں کو اپنی عمر کے مطابق عمل کرنے دیں‘‘
اپنے بچوں سے یہ توقع نہ کریں کہ وہ بھی بڑوں کی طرح کام کریں۔ بچوں کو یہ محسوس نہ کروائیں کہ صرف والدین اور بڑوں کی طرح کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہی بہترین ہے، یہ غیرحقیقی معیار کوشش کی حوصلہ شکنی کر سکتا ہے۔ چھوٹی عمر میں بچوں سے بڑی توقعات رکھنا اُن کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچا سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے پاس ایک والد آئے اور خواہش کا اظہار کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے بچوں کو پڑھائیں تاکہ وہ بھی آپ کی طرح اعتماد کے ساتھ بول سکیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے بچے کی عمر کیا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا 7سال۔ مجھے والد کی خواہش پر حیرت ہوئی کہ میری عمر اور بچے کی عمر میں کتنا فرق ہے۔ بچوں کی یہ کچی عمر والدین کی توقعات کا بوجھ اُٹھانے کے لیے بہت کم زور ہوتی ہے۔

5:’’بچوں میں تجسس کی حوصلہ افزائی کریں‘‘
بعض اوقات بچے کے سوالات کا تھکا دینے والا سلسلہ بہت پریشان کُن ہو سکتا ہے، لیکن اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے پال ہیرس نے دی گارڈین کو بتایا کہ سوالات پوچھنا بچے کی نشوونما کے لیے ایک مددگار مشق ہے کیوںکہ اس کا مطلب ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ’’ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جن کے بارے میں وہ نہیں جانتے یعنی علم کی ایسی پوشیدہ دُنیا ہے جس کا انہوں نے کبھی جائزہ ہی نہیں لیا۔‘‘ دی گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق، جب بچے اسکول جانا شروع کرتے ہیں، تو ایسے گھرانوں کے بچے جنہوں نے متجسس سوالات کی حوصلہ افزائی کی ہوتی ہے، وہ اپنے باقی ہم جماعتوں پر برتری رکھتے ہیں کیوںکہ انہوں نے اپنے والدین سے معلومات لینے کی مشق کی ہوتی ہے، اور اس کی مزید پریکٹس استاد سے معلومات حاصل کرنے سے کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، وہ جانتے ہیں کہ کس طرح بہتر اور تیزی سے سیکھنا ہے۔

6: ’’بچوں کو نئے چیلینجز دیں‘‘
اپنے بچے کو دکھائیں کہ وہ ایک بڑی کام یابی تک پہنچنے کے لیے چھوٹے اہداف بنائیں اور اُنہیں پورا کر یں۔مثلاً: چھوٹے بچوں کی بغیر سپورٹ ٹائروں والی سائیکل چلانا۔ والدین اپنے بچوں کی ذمے داریوں کو بڑھا کر اُن میں مزید اعتماد پیدا کر سکتے ہیں جو بچوں کو بڑے کام کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

7:’’اپنے بچے کے لیے شارٹ کٹ اور سہل پسندی سے گریز کریں‘‘
بچوں کے لیے والدین کی طرف سے خصوصی رعایت ان کے اعتماد میں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔ بعض دفعہ والدین کی جانب سے بہت زیادہ آسائش بچوں کے لیے آزمائش بن جاتی ہے۔ (اس کی ایک عملی مثال چھٹی والے دن دیر سے سوتے رہنا، بلاوجہ اسکول سے چھٹی)

8:’’اپنے بچوں کی کارکردگی پر کبھی تنقید مت کریں‘‘
آپ کے بچوں کے اعتماد میں کمی کاسب سے بڑی وجہ آپ کا اپنے بچوں کی کوششوں پر تنقید کرنا ہوسکتی ہے۔ مفید رائے اور تجاویز دینا ٹھیک ہے۔ لیکن انہیں یہ کبھی مت بتائیں کہ وہ برُا کام کر رہے ہیں۔ یاد رکھیں، اگر آپ کا بچہ ناکام ہونے سے خوف زدہ ہے کیوںکہ وہ فکرمند ہے کہ آپ ناراض یا مایوس ہوں گے، تو وہ کبھی بھی نئی چیزوں کو کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ سب سے زیادہ والدین کی تنقید بچے کی خودشناسی اور خود اعتمادی کو نقصان پہنچاتی ہے۔

9:’’سیکھنے کے لیے غلطیوں کو بنیادی سیڑھی کے طور پر سمجھیں‘‘
غلطیوں سے سیکھنے سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب آپ بطور والدین غلطیوں کو سیکھنے اور آگے بڑھنے کا موقع سمجھیں۔ اپنے بچے کو دُنیا کی دھوپ لگنے دیں اُسے ہر چیز سے محفوظ نہ رکھیں۔ اسے کوشش کرنے کی اجازت دیں، اور اسے یہ سمجھنے میں مدد کریں کہ وہ اگلی دفعہ کس طرح بہتر طریقے سے یہ کام سرانجام دے سکتا ہے۔

10: ’’بچوں پر نئے تجربات کے دروازے کھولیں‘‘
کارل پک ہارڈ کا کہنا ہے کہ ’’بطور والدین آپ کی ذمے داری ہے کہ ’’بچوں کو زندگی کے مختلف زاویوں اور تجربات سے روشناس کرائیں تاکہ بچہ ایک بڑی دُنیا میں کام یابی کے لیے اعتماد حا صل کر سکے۔‘‘ بچوں کو نئی چیزوں سے روشناس کروانا انہیں سکھاتا ہے کہ کوئی چیز کتنی ہی خوف ناک اور مختلف کیوں نہ ہو، وہ اسے فتح کر سکتے ہیں۔‘‘

11:’’بچوں کو سکھائیں کہ آپ کیا کچھ کر سکتے ہیں‘‘
والدین اپنے بچوں کے پہلے ہیرو ہوتے ہیں۔ کم از کم اس وقت تک جب تک کہ وہ بڑے نہ ہوں۔
اس طاقت کو ان کو یہ سکھانے کے لیے استعمال کریں کہ آپ کیا سوچتے ہیں، عمل کرنے اور بولنے کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ بچوں کے لیے اچھی مثال قائم کریں، اور رول ماڈل بنیں۔ کارل کا کہنا ہے کہ آپ کو کام یاب دیکھ کر آپ کے بچے کو زیادہ پُراعتماد ہونے میں مدد ملے گی کہ وہ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔

12: ’’بچوں کو مت بتائیں جب آپ ان کے بارے میں فکرمند ہوں‘‘
اکثر والدین کی بچوں کے متعلق پریشانی بچے کو عدم اعتماد کا شکار کرسکتی ہے۔ والدین کے اعتماد کا اظہار بچے کے اعتماد کو نئی تحریک دیتا ہے۔

13: ’’اپنے بچوں کی تعریف کریں، خصوصاً جب وہ مسائل کا سامنا کرتے ہیں‘‘
زندگی بڑی بے رحم ہے، یہ مشکل ہے، اور ہر بچے کو ایک وقت پر یہ سیکھنا پڑے گا کہ جب انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو والدین کو اُن کو یہ بتانا چاہیے کہ ان چیلنجوں کو برداشت کرنے سے ان کی ذہنی پختگی میں اضافہ کیسے ہوگا۔ والدین کو بچوں کو باور کروانا ضروری ہے کہ کام یابی کا ہر راستہ ناکامیوں سے بھرا ہوا ہے۔

14:’’اپنی مدد اور تعاون کی پیشکش کریں، لیکن ایک حد تک‘‘
بہت جلد بہت زیادہ مدد بچے کی خودشناسی کی صلاحیت کو کم کر سکتی ہے۔ بچے کی خوداعتمادی پر والدین کی مدد اُس میں مزید اعتماد پیدا کر سکتی ہے۔

15:’’کچھ نیا کرنے پر ان کی ہمت کی تعریف کریں‘‘
چاہے باسکٹ بال ٹیم کے لیے سفر پر جانا ہو یا اپنے پہلے رولر کوسٹر پر جانا ہو، والدین کو اپنے بچوں کی نئی چیزیں آزمانے پر تعریف کرنی چاہیے۔ آپ ان الفاظ سے بھی اُن کی تعریف کر سکتے ہیں ’’ تم یہ کا م کرنے کے لیے بہترین اور بہادر ہو۔‘‘ بچوں کو حوصلہ دینا کہ وہ نئی چیزوں کی مہم جو ئی میں ہمیشہ متحرک رہیں۔

16: ’’بچوں کے سیکھنے کی خوشی کا جشن منائیں‘‘
بچے اپنے والدین کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ چیزوں پر کیسا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔ لہذا اگر آپ بچوں کے تیراکی سیکھنے، یا نئی زبان بولنے کے بارے میں پرجوش ہیں، تو وہ ان چیزوں کے بارے میں اور بھی زیادہ پرجوش ہوں گے کیوںکہ آپ نے اس کام میں دل چسپی لی ہے۔ سیکھنا مشکل کام ہے اس لیے مزید سیکھنے کے لیے بچوں میں اعتماد پیدا کریں، ان کی سیکھنے کی کوشش اور آمادگی پر خوشی منائیں۔

17:’’بچوں پر اپنا رعب رکھیں، لیکن زبردستی یا سختی سے نہیں‘‘
جب والدین بچوں کے ساتھ بہت زیادہ سخت رویہ رکھتے ہیں، تو یہ بچوں کی خود اعتمادی کیلئے خطرناک ہو تا ہے۔ جب آپ ہر چیز کے بارے میں سخت رویہ رکھتے ہیں تو بچے کوئی جرأت مندانہ کام کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔

18:’’بچوں کے متعلق فیصلوں میں ان کی رائے ضرور لیں‘‘
تمام والدین بچوں کی بہتری اور بھلائی کے لیے فیصلے کرتے ہیں لیکن کیا اچھا ہو اگر ان فیصلوں میں بچوں کی رائے اور فیصلہ سازی میں عملی شرکت ہو۔ اس سے بچوں کے اعتماد اور شخصیت میں انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

19: ’’بچوں کی انفرادی کارکردگی کا دوسروں سے موازنہ نہ کریں‘‘
والدین کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ وہ بچوں کی انفرادی، منفرد اور ذاتی شخصیت، وقار کا ہر لحاظ سے خیال رکھیں کیوںکہ ہر بچہ دوسرے بچے سے ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی اعتبار سے منفرد ہے۔ ہر بچے کے رجحانات، قابلیت، صلاحیت اور سیکھنے کی ذہنی استعداد الگ ہوتی ہے۔ اس ضمن میں Multiple Intelligence Theory ہماری راہ نمائی کر تی ہے کہ بچوں کا موازنہ مناسب نہیں۔

20:’’اپنی توقعات کا بوجھ بچوں کے ناتواں کندھوں پر مت ڈالیں‘‘
اکثر والدین اپنی زندگی میں ادھورے رہ جانے والے خواب اپنے بچوں کو پورا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بچوں کو اپنی زندگی کے مقصد کی تلاش میں خوداعتمادی دیں۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ بچوں کو ساری زندگی ہمارے ساتھ نہیں رہنا۔ اُنہیں اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے ہیں۔ بچپن سے ہی اُنہیں ان کی اس ذمے داری سے آگاہ کریں۔

The post ان کے بچپن کو اعتماد کا تحفہ دیں appeared first on ایکسپریس اردو.

چی، چیچی، چیچڑ اور چیچڑی

$
0
0

زباں فہمی 127

حکیم صاحب کے چہرے پر تبسم تھا، مریض کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹی پھٹی، اردگرد موجود لو گ بھی حیران پریشان۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ بات تھی کیا، یہ آگے چل کر بتائیں گے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ جو نام نہاد جدید معالجین یہ کہتے اور سمجھتے ہیں کہ دیسی طریق علاج تو جعل سازی کے سوا کچھ نہیں اور یہ پتے پھانکنے والے کیا جانیں، ان کے یہاں تحقیق نہیں….وغیرہ، تو اگر ایسا منظر آج کے دور میں ہوتا اور دنیا کے سیکڑوں ٹی وی چینلز دکھا رہے ہوتے تو ایسے لوگ عاجز ہوکر یہی نعرہ لگاتے، ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ تو غیرسائنسی بات ہے، ہوسکتا ہے کوئی شعبدہ بازی ہو۔

قارئین کرام! میں اردو میں حرف ’چ‘ کی اہمیت پر ماقبل بھی خامہ فرسائی کرچکا ہوں، مگر بعض اوقات کسی لفظ کے معانی کی جستجو میں بات کہیں سے کہیں جاپہنچتی ہے، معلومات میں دل چسپ اضافہ ہوتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ آپ سب کی، خصوصاً اپنے معاصرین بشمول نسلِ نو کی خدمت میں بھی پیش کروں۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں ’چی‘ کی۔ یہ لفظ عموماً اردو میں شامل، کسی ترکی اور فارسی لفظ کا حصہ ہوتا ہے۔ فارسی اور اردو میں یہ اسم مؤنث ہے اور بطور لاحقہ، کسی مرکب میں، برائے تصغیر، شامل ہوتا ہے۔ یعنی کسی چیز کو چھوٹی/چھوٹا بتانے کے لیے ’چی ‘ لگاتے ہیں، جیسے دیگ سے دیگچی، ڈول سے ڈولچی، صندوق سے صندوقچی۔ اسی لفظ کا مذکر ’چہ‘ ہے، جیسے صندوقچہ۔ مگر یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض اوقات خالص اردو الفاظ میں شامل اس ’چی‘ کا وہ مفہوم نہیں ہوتا جیسا کہ ہم لغات کی رُو سے بیان کرتے ہیں اور یہ زباں زَدِعام ہے، مثلاً گھڑونچی سے مراد لکڑی سے بنا ہوا وہ سانچہ یا Stand ہے جس میں پانی کے گھڑے یا مٹکے بھر کر رکھے جاتے ہیں۔

فرہنگ آصفیہ: ہندی، اسم مؤنث، لکڑی کی بنی ہوئی ایک چیز جس پر پانی کے مٹکے رکھتے ہیں، لکڑی کا لٹکن، پلہنڈا۔ اسی طرح ترکی لفظ قَمچی (قَم چی) سے مراد چھَڑی یا لکڑی ہے (نیزکوڑا، تازیانہ، چابک، ہنٹر، سنٹی، بید، کھَپَچّی: فرہنگ آصفیہ)، مگر خیر یہ الفاظ اِن دنوں عام نہیں رہے۔

ایک ’چی‘ ہمیں ترکی زبان نے مزید عطا کیا ہے، جس کا مطلب ہے: بَردار، حامل، مالک، والا جیسے بندوقچی یعنی بندوق والا، مشعلچی یعنی مشعل بردار /مشعل ہاتھ میں اٹھانے والا، ساعت چی یعنی گھڑی والا یا گھڑی ساز ڈھولچی یعنی ڈھول بجانے والا، طبلچی یعنی طبلہ بجانے والا، طبلہ نواز اور جدید لفظ ہیروئنچی۔ ہمارے یہاں ’چِنگ چی‘ کی بڑی دھوم ہے جو درحقیقت ایک چینی کمپنی کی بنائی ہوئی موٹرسائیکل کا نام ہے اور اس چینی نام کے رومن ہجے ہیں: Qingqi۔ ہے نا حیرت کی بات؟ {ایسی بہت سی اور مثالیں بھی ہیں چینی زبان کے الفاظ خصوصاً اسمائے معرفہ کے رومن میں حیرت انگیز ہجوں کی۔ صرف مختصراً عرض کروں کہ شین کی آواز کے لیے عموماً X استعمال ہوتا ہے جیسے سگریٹ Chuanxiہے، شوان شی، چین کے صدر کا نامXi Jinping، شی جِن پنگ ہے جسے بعض لوگ چی بھی بول دیتے ہیں۔ یہاں ایک اور دِقت یہ ہے کہ بہت سے چینی ناموں میں Jکو ’چے‘ پڑھا یا بولا جاتا ہے جیسے Q کا معاملہ ہے۔ Zhiکو ’چی‘ بولتے ہیں اور Chiکو’شِی‘}۔

آگے بڑھنے سے پہلے ایک غیرمتعلق لفظ اور اس کے دو مختلف مفاہیم کی بات کرتے چلیں، کیونکہ ممکن ہے کہ کسی قاری کے ذہن میں یہ بھی دَر آئے، یہ ہے: چِیاں (چی آں) یعنی اِملی کا بِیج (ہندی، اسم مذکر)۔ کم عمر بچے، نیز بہت دُبلے پتلے اور حقیر کے معنوں میں ’’چِیاں ریز‘‘ اور صفت کے طور پر بہت چھوٹے/چھوٹی سی، ذرا سی کے لیے ’چِیاں سی‘ بولا جاتا ہے۔ (نوراللغات)

اردولغت بورڈ کی شایع کردہ مختصر اُردو لغت میں، چِیں کے باب میں یہ اندراج ملتا ہے:

اسم مذکر، اسم مؤنث: اِملی کا بِیج جو اُس کے پھل (کتاروں) میں سے نکلتا ہے۔ (ہمارے یہاں تو کٹارے کہا جاتا ہے، جبکہ بعض لوگ کھٹارے بھی بولتے ہیں۔ س ا ص)

چیاں پڑھنا: محاورہ، مرنے والے کے لیے املی کے بیجوں پر کلمہ طیبہ کا وِرد کرنا۔ (ہمارے یہاں عموماً چئے پڑھنا کہا جاتا ہے۔ س ا ص)

لفظ ’چِیں‘ ( اسم مؤنث) کا بھی ذکر نظراَنداز نہیں کیا جاسکتا:

الف)۱۔ باریک سلوٹ جو عموماً غصے یا ناراضی کی حالت میں پیشانی اور بھووں پر آتی ہے، شکن ۔۲۔بَل، سلوٹ، چُنّٹ۔۳۔جھُرّی۔

فعل: چین بہ جبیں ہونا (محاورہ) تیوری پر بل ڈالنا، ناراض ہونا۔

ب)۔ اسم مؤنث، اسم مذکر: ۱۔ چڑیا کی آواز۲۔ باریک آواز، نحیف آواز، بیزاری یا ناگواری کے اظہار کی آواز، بگڑنے یا غصہ کرنے کا کلمہ۔

چِیں بول جانا/بولنا: محاورہ، ہار ماننا، مات کھانا، عاجز آنا۔

…….چِیں: لاحقہ جیسے گل چیں، نکتہ چیں ، خوشہ چیں۔ معنی: چُننے والا۔

شعر:

ملے گا نہ گُل چیں کو گُل کا پتا

ہر اِک پنکھڑی یوں بکھر جائے گی

(حالیؔ)

نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے

کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

(مرزا غالب)

چمن کے پھول بھی تیرے ہی خوشہ چیں نکلے

کسی میں رنگ ہے تیرا، کسی میں بُو تیری

(جلیل مانک پوری)

ماضی قریب میں چیچنیا [Chechnya] کا اعلان آزادی اور روس سے جنگ کا موضوع عالمی سیاست میں سرفہرست رہا، خاکسار کو یہ شرف حاصل ہوا کہ بعض دیگر عالمی تنازعات (مثلاًسابق یوگوسلافیا کی شکست وریخت، خصوصاً بوسنیا ہرزی گووِینا کی آزادی) کی طرح، اس مسئلے پر، (بزبان انگریزی و اردو)، خامہ فرسائی میں بھی اولیت پائی، پہلے انگریزی میں تین مضامین لکھ کر، پھر اردو میں۔ جنرل پرویزمشرف کے عہدحکومت میں (جب وہ عارضی طور پر چیچن حُرّیت تحریک کے پُشت پناہ بنے تھے)، چیچن مجاہدین سے نیومیمن مسجد، بولٹن مارکیٹ (کراچی) میں اتفاقاً ملاقات کا ذکر بھی ماقبل کرچکا ہوں۔

ابھی اس طرف ذہن یوں گیا کہ گُجر/گوجر برادری کا یہ دل چسپ دعویٰ بھی نظر سے گزرا کہ چیچن درحقیقت اُنھی کی بہادر، جنگجو گوت (ذیلی ذاتSub-caste:) ہے جسے ہمارے یہاں چیچی (چے چی:Che Chi) کہا جاتا ہے۔ اس دعوے کے حق میں کچھ تحقیق بھی کتابی اور آن لائن مواد کی شکل میں دستیاب ہے۔ یہ قوم قدیم دور میں مشرق ِ قریب [Near East] کی عظیم یونانی، ترک اور مصری سلطنتوں کی بانی تھی۔ ہمارے محترم دوست پروفیسر جمیل احمد کھٹانہ صاحب (ڈَڈھیال، میرپور، آزادکشمیر) نے واٹس ایپ پر خاکسار سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ جب ’پرویزی ‘ دورِحکومت میں چیچن مجاہدین کے وفد نے اپنی آزاد ’’چیچن جمہوریہ اخکیزیہ (اچکیزیا)‘‘ کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے کی مہم میں، پاکستان کا دورہ کیا تو سینیٹرچودھری جعفر اِقبال چیچی گُجرصاحب سے ہونے والی ملاقات میں (مترجم کے توسط سے) ہونے والا یہ انکشاف بھی دونوں کے لیے باعث حیرت ومسرت تھا کہ وہ چیچی گُجر ہیں۔

جمیل صاحب نے یہ بھی بتایا کہ چیچی سے منسوب مقامات میں راول پنڈی کا جھنڈا چیچی، میرپور (آزادکشمیر) میں چے چیاں اور پُونچھ /پُنچھ (آزاد کشمیر) میں بانڈی چے چیاں شامل ہیں۔ آن لائن تحقیق سے معلوم ہوا کہ تحصیل وضلع میرپور کا چے چیاں، گاؤں ہے، جبکہ ضلع گجرات (پنجاب) میں چے چیاں ایک قصبہ ہے، نیز پنجاب کے ضلع اَٹک کے قریب، جی ٹی روڈ پر واقع، ایک گاؤں کا نام چے چی ہے جس کی آبادی گُجروں، ہندکووان، پٹھانوں، اعوانوں اور مغلوں پر مشتمل ہے۔

اس گاؤں میں ہندکو اور پشتو بولی جاتی ہیں۔ پنجاب ہی کے ضلع نارووال کے ایک گاؤں کو ’’کالا چے چی‘‘ کہتے ہیں۔ {گوجر/گُجر قوم اور گوجری زبان کے متعلق مواد کے مطالعے کے لیے خاکسار کے کالم زباں فہمی نمبر 63تا65، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ تیس اگست سن دوہزاربیس، چھے ستمبر اور تیرہ ستمبر دوہزاربیس ملاحظہ فرمائیں جو www.express.pk پر دستیاب ہیں}۔ اس سے قطع نظر ایک چی چی بھی ہے جو ملیالم زبان میں بڑی بہن یا کسی بہن جیسی عورت کے لیے احتراماً بولا جاتا ہے۔ اسی نام سے ملیالم زبان میں ایک فلم بنی جو 1950ء میں جاری ہوئی تھی۔

اب اس سے ذرا ہٹ کر ایک اور ’چی‘ یا ’چے‘ کی بات ہوجائے۔ مارکسی انقلابی رہنما ڈاکٹرچے گے وارا [Ernesto “Che” Guevara:14 June 1928 – 9 October 1967] کو ہمارے یہاں سہواً ’’چی گویرا‘‘ لکھا اور بولا جاتا ہے، کیونکہ یارلوگ ہِسپانوی[Spanish] کُجا، انگریزی میں بھی کسی نام کے تلفظ کو سمجھنے میں وقت صَرف کرنے کے قائل نہیں ہیں، اس لیے بے شمار دیگر ناموں اور الفاظ کی طرح وہ بھی ’چی‘ کہلانے لگے جو سراسر غلط ہے۔ سامراج کے خلاف جدوجہد میں ہمہ وقت مصروف یہ رہنما 10اگست 1959ء کو پاکستان کے (سابق) دارالحکومت کراچی تشریف لائے اور اُن کی ملاقات اُس وقت کے سربراہ مملکت وحکومت، جنرل ایوب خان اور وزیرخارجہ جناب منظور قادر سے ہوئی تھی۔

آپ نے شاید کبھی سنا ہوگا کہ فُلاں شخص تو بالکل چیچڑی کی طرح چپک گیا، یا ایک دم چیچڑی بن گیا۔ یہ چیچڑی کیا ہوتی ہے۔ آئیے اب ہم اس کالم کے آخری حصے میں بات کریں، چیچڑی کی، مگر اس سے پہلے چیچڑ بھی ہے۔

چیچڑ (ہندی، اسم مؤنث): گوشہ چشم یعنی آنکھ کے ایک حصے میں جمع ہونے والا مواد یا گندہ پانی (اردوانگریزی لغت از فیروز سنز، لاہور)۔ ہمارے یہاں تو اِسے بھی کیچڑ کہا جاتا ہے، بلکہ اس سے قریب تر تو ہمارا لفظ چِیپڑ (چی پَڑ) ہے۔

چیچڑی کے متعلق ہماری معلومات کچھ یوں ہیں:

۱۔ (ہندی الاصل لفظ ): وہ کیِڑے جو کُتّے، بکری یا گائے کے بدن میں پڑجاتے ہیں۔ (نوراللغات)

۲۔ اسم مؤنث: جُوں کی شکل سے ملتا ہوا، قدرے لمبا کیڑا جو کتے، گائے، بھینس، بھیڑ، دنبے کے مختلف حصوں میں نہایت سختی سے چمٹا رہتا ہے اور اُن کا خون چوستا ہے۔ (مختصر اردو لغت: اردولغت بورڈ)۔ یہ اونٹوں میں بھی پایا جاتا ہے (مصباح اللغات عربی اردو)۔

Urdu-English Dictionary by Feroz Sons کے مطابق، اسے انگریزی میں کہتے ہیں: The tick ۔ مزید تفصیل کے لیے قومی انگریزی اردو لغت (ناشر مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد) کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ اس سے مراد ہے: چیچڑی، لیک، قراد، جُوں;بہت سی قسم کی چِچڑیوں یا طُفیلی جُوؤں میں سے کوئی سا کیڑا جو جانوروں کے جسم پر بیٹھ کر اپنا سَر اُن کی جِلد میں ٹھونس دیتا ہے اور خون چُوستا رہتا ہے اور بالعموم امراض پھیلانے کا باعث بنتا ہے ;خون چوسنے والے دوپَرہ حشرات میں سے ایک بے پَر کیڑا جو بھیڑوں کو لگ جاتا ہے;خون چوسنے والی چِچڑی جو گھوڑوں کو ایذا پہنچاتی ہے اور دیگر چچڑیاں یا جُوئیں جو پرندوں کو لگ جاتی ہیں یا اُن کی کھالوں میں گھُس جاتی ہیں۔ جبکہ مزید تحقیق پر پتا چلا کہ اس کا ایک اور نام Trematodeہے، یعنی وشیعہ ;ایک قسم کا کیڑا ;دو یا دو سے زیادہ موشاف (چوسنے والے مُنھ) رکھنے والا کِرم جو عام طور پر طُفیلی بن کر جانوروں کی کھال سے چمٹا رہتا ہے ; چَم چِچڑ ; چیچڑی۔ اسی سے ایک لفظ اور بنا ہے Trematoidیعنی چیچڑی نُما۔ (قومی انگریزی اردو لغت، ناشر مقتدرہ قومی زبان اور آن لائن لغت درسال ڈاٹ کام۔)

[www.darsaal.com/dictionary/urdu-to-english]۔ اسی مخلوق کا ایک تیسرا نام ہے Crab louse or Body louse: جُوں۔ چیچڑی۔ کیکڑا جُوں۔ جم جُوں۔ جسم میں پڑنے والی جُوں، خون چُوسنے والا چھوٹا بغیربازو کے طفیلی کیڑا جو میمل جانوروں کے جسم سے چمٹ جاتا ہے۔ (قومی انگریزی اردو لغت میں ممالیہ کی بجائے Mammal دیکھ کر تعجب ہوا: س ا ص)۔ جانوروں میں چیچڑی کا بخار یا تھیلیریا (Theileria)، جانوروں خصوصاً گائے کے خون میں کیڑے کے سبب پھیلنے والی انتہائی مہلک بیماری ہے، جس کا بَروَقت علاج نہ ہو تو جانور کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ تحقیق کا باب وسیع ہوتا ہے تو ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کانگو بخار [Crimean–Congo hemorrhagic fever (CCHF)] کا سبب بھی یہی چیچڑی ہے۔

کالی ٹانگوں والی چیچڑی (Deer Tick) کی جینیاتی ساخت[Genetic structure]کے متعلق امریکا کی جامعات میں تحقیق کی جارہی ہے جسے سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ ان چیچڑیوں سے مختلف امراض اَزقسمے جوڑوں کی تکالیف، سوجن، اعصابی امراض، لقوہ اور سستی وکاہلی لاحق ہوسکتے ہیں۔ مزید تحقیق سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ یہ کیڑا جانوروں کے علاوہ انسانوں کے جسم کے کسی بھی حصے سے چمٹ جاتا ہے اور بیماری کا باعث ہوتا ہے۔

ایک اور لفظ بھی لغات میں ملتا ہے : ’’ قُمَّل‘‘ (القمل : اَل قُم مَل) [Qum’mal]۔ یہ عربی الاصل اردو میں اسم مؤنث ہے، جس کے معانی ہیں: جوں، چیچڑی، چھوٹی چیونٹی، سپسش، فصل کو نقصان پہنچانے والا ایک قسم کا کیڑا (اس کا واحد ہے قُمَّلہ: قُم مَلہ، جبکہ محض جُوں کو القَمال بھی کہتے ہیں: مصباح اللغات عربی اردو)۔ (آن لائن لغت ریختہ میں اس کا تلفظ غلط لکھا گیا ہے۔

س ا ص)۔ قرآن مجید کی سورہ الاعراف کی آیت نمبر 133میں اس کا ذکر ہے۔ تفاسیر میں مذکور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عہد میں نافرمان قِبطی قوم پر ناز ل ہونے والوں نو (۹) مختلف عذابوں میں ایک اس کیڑے کا عذاب بھی ہے۔ اس کے معانی میں چیچڑی اور اناج میں پڑنے والا گھُن بھی شامل ہے۔ انتہائی حیرت کا مقام ہے کہ فرہنگ آصفیہ میں چِچڑی یا چیچڑی نہیں ملتی۔ ایک لفظ شاید اب گفتگو میں عام نہیں رہا، مگر لغات میں موجود ہے: لَم چِچَّڑ (صفت) یعنی چمٹ جانے والا، چیچڑی کی طرح جان نہ چھوڑنے والا[www.rekhtadictionary.com]۔

چیچڑی کو عربی میںالقُرُد اور القُراد بھی کہتے ہیں۔ (مصباح اللغات عربی اردو)

اس موضوع کو اختتام تک پہنچانے سے پہلے عرض کروں کہ ایک آن لائن لغت اردو آئنسی میں منقول، چیچڑی سے مماثل کیڑوں کا یہ بیان بھی دل چسپ ہے:

کلنی: ایک کیڑا جو کتے بکری گائے اونٹ وغیرہ کے جسم پر پایا جاتا ہے۔

جو کلنی ہیں بن باس میں لہلہا

مشخ بید سوں ان کی پائی صبا

(دیپک پتنگ)

بگھی (اصل بَگّی): ۱۔ایک قسم کی بڑی مکھی جو گھوڑے وغیرہ کو بہت ستاتی ہے۔۲۔ ایک گاڑی جس میں ایک دو یا چار گھوڑے جُتیں چاہے ٹپ ہو نہ ہو۔ شعر:

بڑی مس کو رواں کرو بگھی

رہی اتنے کو میں نہیں مہنگی

(نواب باقر علی خاںعروجؔ)

[www.urduinc.com]

ماضی میں میرے ایک کالم میں حرف ’ب‘ سے شروع ہونے والے جانوروں، پرندوں، کیڑوں کے ناموں کی گردان نقل ہوئی تھی جو میرے مرحوم خالو سَرورعلوی صاحب کی دین تھی، اُس میں بھی بگھی شامل تھی۔

اب آخر میں اس واقعے کی وضاحت کردوں جس سے آج کا کالم شروع ہوا تھا۔ حکایت کے مطابق، کسی گاؤں میں ایک شخص کو اچانک معدے میں شدید درد کی شکایت ہوئی تو کسی حکیم حاذق کے پاس لے جایا گیا۔ انھوں نے پوچھا، کیا کھایا تھا، مریض نے جواب دیا کہ میں نے ایک باغ میں درخت سے ٹوٹ کر گرے ہوئے انار کھائے تھے۔ حکیم صاحب نے مریض اور ہمراہیوں کو وہیں انتظار کرنے کا کہا، خود گھر /مطب کے اندر گئے اور تھوڑی دیر کے بعد، ایک برتن میں کچھ بھُنا ہوا گوشت لاکر مریض سے کہا، اسے کھالو۔ مریض نے گوشت کھایا تو اُسے فوراً قے ہوئی اور لوگ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ اُس کے معدے سے برآمد ہونے والی چیزوں میں گوشت کے لوتھڑے سے چمٹی ہوئی ایک چیچڑی بھی شامل تھی۔

پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے تو حکیم صاحب نے کہا، کُتّے کا گوشت اور یہ بھی بتادیا کہ یہ سب سے زیادہ لیس دار، چکنا ہوتا ہے، اس لیے چیچڑی اس سے چپک کر باہر آگئی۔ حکایت سننے پڑھنے والے بعض ناقدین کا خیال ہے کہ حکیم صاحب نے حرام گوشت نہیں کھلایا ، بلکہ مریض کو گھِن دلانے کے لیے اس کا نام لیا تو اُس نے قے کردی ہوگی۔

The post چی، چیچی، چیچڑ اور چیچڑی appeared first on ایکسپریس اردو.

اسٹیج کی ساکھ کو خود اپنے ہاتھوں سے بدنام کیا جا رہا ہے

$
0
0

کہتے ہیں کہ شوبز کی دنیا بڑی رنگین ہوتی ہے، جو اس فیلڈ میں آتا ہے، اس کی رنگینیوں، دلربائیوں اور رعنائیوں میں ایسا کھو جاتا ہے کہ اس میں نام اور مقام بنانے کے لئے ہر جائز و ناجائز حربے بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا، شوبز کا شعبہ شاید ان چند شعبوں میں سے ایک ہے جس میں سب سے زیادہ سکینڈلز بنتے ہیں۔

اخبارات، ٹیلی ویڑن اور سوشل میڈیا میں اس کا خوب چرچا رہتا ہے،بعض اسکینڈلز تو خود ساختہ بھی بنائے جاتے ہیں تاکہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ شہرت سمیٹی جا سکے۔ پاکستان میں نت نئے سکینڈلز کا رونما ہونا تو آئے روز کا معمول بن چکا ہے، زیادہ دور جانے کی بات نہیں۔

لاہور کے مقامی تھیٹر میں رونما ہونے والے وڈیو سکینڈل کو ہی دیکھ لیں، اس سکینڈل کی بازگشت ان دنوں ہر طرف سنائی دے رہی ہے، اس سکینڈل کی اب تک منظر عام پر آنے والی تفصیل کچھ یوں ہے کہ شالیمار تھیٹر میں سٹیج اداکاراؤں مہک نور ،زارا خان،اور سلک کی عریاں ویڈیوز بناکروائرل کی گئی ہے۔ویڈیوز اداکاراؤں کے میک اپ رومز میں لگے شیشوں کے پیچھے خفیہ کیمرے لگا کر ریکارڈ کی گئیں۔

تھیٹر مالک ملک طارق محمود کی درخواست پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے اداکارہ ثوبیہ عرف خوشبوخان، عمران شوکی اور احمد سمیت دیگر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر رکھا ہے، اس کیس کا مرکزی ملزم جونیئر فنکار کاشف چن سامنے آیا ہے، ملزم کاشف چن نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ اس نے یہ فوٹیج اداکارہ خوشبو کے کہنے پر بنائیں۔

طریقہ واردات یہ تھا کہ وہ چارجنگ کے بہانے اپنا موبائل فون اداکاراؤں کے کمرے میں رکھ آتا تھا،خوشبو خان نے ہی انہیں موبائل میں ایک ایپ انسٹال کرکے دی جس سے خفیہ طور پر ویڈیو بنتی تھی،ملزم کا دعویٰ ہے کہ اداکارہ خوشبو نے ویڈیوز بنانے کا ایک لاکھ روپے معاوضہ دیا تھا۔

مہک نور اور زارا خان کا کہنا ہے کہ پوری پلاننگ کے تحت ہماری ویڈیوز بنا کر لیک کی گئیں۔دونوں اداکاراؤں نے لاہور پریس کلب میںایک پریس کانفرنس بھی کی جس میں مہک نور کا کہنا تھا کہ لیڈیز روم میں ہماری ویڈیو بنانے کیلئے کاشف چن نے کیمرے لگائے، کاشف چن کو لالچ دے کر 1 لاکھ روپے ایڈوانس اور موٹر سائیکل دی گئی۔

موبائل چارج پر لگانے کے بہانے کاشف ہمارے کمرے میں آتا تھا، پوری پلاننگ کے تحت ہماری ویڈیو بنا کر لیک کی گئیں۔مہک نور کا مزید کہنا تھا کہ خوشبو خان اپنے گھر بلا کر کاشف خان سے تمام معلومات اور ویڈیوز لیتی تھی۔

اداکارہ زارا خان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے ہماری بات نہیں سنی، ایف آئی آر کا ٹھیک اندراج نہیں ہوا، ہم کسی کو برا نہیں کہتے لیکن ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی۔زاراخان نے کہا کہ ہم خوشبو پر ناجائز الزام نہیں لگا رہے، ہمیں کاشف نے سب بتایا ہے، ہم پر الزام ہے کہ شہرت کیلئے سب کچھ کیا، ہم کسی کو چہرہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔

زارا خان کا کہنا تھا کہ ہم ڈانس کرتی ہیں لیکن اس کا مطلب نہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی کی جائے، کاشف کسی اور کا نام بھی لے سکتا تھا آخر خوشبو کا نام ہی کیوں لیا، خوشبو نے عبوری ضمانت کیوں لی اگر سچی ہوتی تو پیش ہوجاتی۔

اس تمام معاملے پر اداکارہ خوشبو خان کا کہنا ہے کہ کاشف چن جھوٹ بول رہا ہے سچ منظر عام پر آئے گا اور سب کو علم ہوجائے گا کہ کس کے کہنے پر کاشف چن ان کا نام لے رہا ہے، خوشبو نے اپنے ایک ویڈیو بیان کہا تھا کہ سائبر کرائم ونگ سے مکمل تعاون کے لیے تیار ہوں، کاشف چن کو دباؤ میں لا کر بیان دلوایا گیا ہے، الزام لگا کر مجھے بدنام کیا جا رہا ہے، سلک کو میں اپنے ساتھ ڈرامہ کرواتی ہوں ، وہ میری بہنوں کی طرح ہیں۔ میرا کسی سے کوئی مسئلہ نہیں،معاملے کی سخت تحقیقات ہونی چاہیے،میرا لیول نہیں کہ ایسا کام کروں۔

کیس کے ایک اور کردار عمران شوکی کا کہنا ہے کہ ا س تمام واقعہ میں میں بے قصور ہوں، میں اپنی بے گناہی سچ ثابت کرنے کے لئے ایف آئی اے کے پاس ضرور جاؤں گا۔ اس سارے واقعے میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا لیکن اس سکینڈل سے جہاں مہک نور، زارا خان اور سلک کی عزت اچھالی گئی، وہ کبھی واپس نہیں آ سکے گی۔

چند روز قبل لاہور ہی کے ایک تھیٹر میں سٹیج ڈرامہ کے دوران ہلڑ بازی کا واقعہ پیش آیا جہاں پر سٹیج اداکارہ ماہ نور کی انٹری کے دوران 60سے زائد افراد نے ہلڑ بازی کرتے ہوئے گالم گلوچ کیا۔

اداکارہ ماہ نور نے تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں مقدمہ درج کراتے ہوئے درخواست میں موقف اپنایا کہ مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اس لئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس سے قبل ایک اور واقعہ منظر عام پر آیا، اسٹیج اداکارہ دعا چودھری نے ساتھی خواتین کے ہمراہ لاہور کے تھانہ گرین ٹاؤن پردھاوا بول کر زیرحراست 7ساتھیوں کو پولیس سے چھڑوا یا لیا۔

پولیس کے مطابق اداکارہ دعا چودھری کے گھرمیں سالگرہ کی تقریب میں شور شرابے کی اطلاع پر ساؤنڈ ایکٹ کے تحت پولیس نے چھاپہ مارا اور موقع سے خواتین سمیت 7 مہمانوں کو حراست میں لے لیا جس پر اداکارہ دعا چودھری تھانے پہنچی اوراپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر سخت واویلا کیا اورزیرحراست ساتوں ملزمان کو چھڑا کر لے گئی۔

اس حوالے سے دعا چودھری نے موقف اختیار کیا کہ ان کے گھر سالگرہ پارٹی چل رہی تھی کہ تھانہ گرین ٹاؤن کے ایس ایچ او کے ایماء پر پولیس نے چادر اور چار دیواری کے تحفظ کو پامال کرتے ہوئے چھاپہ مارا، مہمانوں اور اسے ایک کمرے میں بند کردیا، گھر کی تلاشی لینے کے بعد وہاں موجود 7 مہمانوں کو حراست میں لے کر تھانے لے آئی۔

دعا چودھری کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ چھاپے کے بعد پولیس اہلکاروںکے خلاف درخواست دینے کیلئے تھانہ گرین ٹاؤن گئی تھی تو پولیس نے اسکے ساتھ دست درازی کی۔

کورونا وائرس کی وجہ سے فلم ، ٹی وی اور تھیٹرز سمیت شوبز کی تمام سرگرمیاں تقریبا 2 سال کے لئے معطل رہیں جس کی وجہ سے نہ صرف فنکاروں کو بہت زیادہ مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس مشکل وقت میں پنجاب تھیٹرز پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین قیصر ثناء اللہ میدان میں آئے اورکمشنر لاہور، ڈپٹی کمشنر لاہور سمیت حکومت کے اعلی عہدیداروں سے مل کر کورونا ایس او پیز کے ساتھ سٹیج کھولنے کے لئے تگ ودو کرتے رہے۔

قیصر ثناء اللہ اور ان کے ساتھیوں کی یہ کوششیں رنگ بھی لے آئیں اور لاہور میں سونے اور ویران تھیٹرز ایک بار پھر آباد ہوئے لیکن تھیٹرز کھلنے کے بعد جس طرح کے سکینڈلز منظر عام پر آ رہے ہیں وہ نہ صرف فنکاروں بلکہ تھیٹرز کے لئے بھی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔

بعض تھیٹرز میں فحش ڈانس کے ساتھ ذومعنی فقرے کسنے کا عمل جاری ہے، شائقین کے مطابق ماضی میں سٹیج ڈرامے ایسے ہوتے تھے جنہیں فیملی کے ساتھ بھی دیکھا جا سکتا تھا لیکن اب شاید ایسا ممکن نہیں۔

اسٹیج ڈراموں میں گانوں اور مکالموں کی جھلکیاں چیخ چیخ کر بتلا رہی ہیں کہ ہمارے اداروں، پروڈیوسرز اور فنکار وں کی آنکھوں میں زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کا موتیا اتر آیا ہے جس کا وہ آپریشن ہرگز نہیں کروانا چاہتے ہیں۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تھیٹرز مالکان، پروڈیوسرز اور فنکار درخت کی جس موٹی شاخ پر بیٹھے ہوئے ہیں، اسے ہی مسلسل کاٹنے میں مصروف ہیں، ظاہری بات ہے کہ شاخ کو کاٹنے کا عمل اسی طرح جاری رہتا ہے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب تھیٹرز کا تنا آور درخت دھرم سے زمین پر آ گرے گا۔

 

The post اسٹیج کی ساکھ کو خود اپنے ہاتھوں سے بدنام کیا جا رہا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

استحصالی عالمی نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے، صدر مملکت

$
0
0

اسلام آباد: صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ موجودہ ’’استحصالی‘‘ عالمی نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

صدر مملکت عارف علوی نے نجی چینل کو انٹرویو میں امریکی دعوت کے باوجود جمہوریت پر ورچوئل سمٹ میں پاکستان کی عدم شرکت کے فیصلے سے متعلق سوال کے جواب میں موجودہ عالمی نظام کو ’’استحصالی‘‘ اور ’’مفادات پر مبنی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کسی کی پارٹی نہ بننے کا بہترین موقف اختیار کیا ہے۔

صدر مملکت نے افغانستان، عراق، شام اور بعض دیگر ممالک میں ہونے والی تباہی کا حوالہ دیا اور افسوس کا اظہار کیا کہ وہ (امریکا اور مغرب) اپنے ممالک میں کوئی جنگ نہیں چاہتے لیکن دوسرے خطوں بالخصوص اسلامی ممالک کو جنگوں اور تنازعات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جوہری ڈیٹرنس حاصل کیا ہے،موجودہ استحصالی عالمی نظام جس میں ہندوستان جیسی بڑی معیشتوں کو عالمی طاقتوں کی جانب سے نوازا گیا ہے اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

صدر عارف علوی نے کہا کہ عوام بدعنوان عناصر کے احتساب کے متعلق پی ٹی آئی کے بیانیے کو قبول کریں گے،  وزیراعظم عمران خان ایسی مہمات اور بیانیے کے چیمپئن ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کیمسئلے سے مذہبی جماعتوں کو سیاسی دھارے میں لا کر نمٹا جا سکتا ہے۔

 

The post استحصالی عالمی نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے، صدر مملکت appeared first on ایکسپریس اردو.

انسانی حقوق کا عالمی دن…لوگوں میں احترام انسانیت پیدا کرنا ہوگا!!

$
0
0

10 دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کا عالمی چارٹر منظور کیا گیا جس پر اقوام متحدہ رکن ممالک نے دستخط کیے اور یہ ممالک اس چارٹر کی روشنی میں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے کے پابند ہیں۔ پاکستان بھی اس معاہدے کا فریق ہے۔

انسانی حقوق کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینے، انسانی حقوق کی صورتحال اور  ممالک کی جانب سے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لینے کیلئے دنیا بھر میں ہر سال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے خصوصی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ اس اہم دن کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میںحکومت، علماء ، سول سوسائٹی اور خواتین کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

اعجاز عالم آگسٹین (صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب )

سال کے 365 دن ہی انسانوں کے ہیں تاہم 10 دسمبر کو یہ دن منانے کا مقصد انسانی حقوق کے حوالے سے سال بھر میں ہونے والے اقدامات کا جائزہ لینا اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔ ہم نے انسانی حقوق اور بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے بے شمار کام کیا، دنیا ہمارے کام کی معترف ہے لیکن جب سیالکوٹ جیسا کوئی واقعہ رونما ہوجائے تو پوری دنیا کی نظریں ہمارے مثبت کاموں سے ہٹ کر اس واقعہ پر لگ جاتی ہیں، ہمیں برا بھلا کہا جاتا ہے اورہماری ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ آنجہانی کی میت کو جب سری لنکا روانہ کیا جارہا تھا تو مجھے اس وقت شدید شرم محسوس ہو رہی تھی اور میرے میں سری لنکن سفیر سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہیں تھی۔

ہمیں اپنے معاشرے سے ایسے واقعات کا تدارک کرنا ہے جو ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بنیں۔ افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں درندگی بڑھتی جارہی ہے، لوگ خود ہی انصاف کر رہے ہیں جو کسی بھی معاشرے میں قابل برداشت نہیں ہے،ہمیں ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی عبادتگاہوں میں جانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر پھر بھی ایسی کیا وجہ ہے کہ لوگوں میں مثبت کے بجائے منفی سوچ پیدا ہورہی ہے اور ان کے رویے خراب ہورہے ہیں؟ تمام مذاہب انسانیت کا درس دیتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگوں کی اس طرح سے رہنمائی نہیں کرپا رہے جس طرح سے ہونی چاہیے۔

اسلام امن کا مذہب ہے مگر جب ایسے واقعات کے بعد لوگ اسلامی نعرے لگاتے ہیں تو دنیا اسلامی تعلیمات کے بجائے ان نعروں اور ان کے کردار کو دیکھتی ہے۔ہمارا پڑوسی ملک بھارت میں ہر وقت طاق میں رہتا ہے کہ وہ کس طرح ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھاکر دنیا میں پراپیگنڈہ کرے۔ حالیہ واقعہ سے بھی اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ہماری ساکھ متاثر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہم نے پنجاب کی سطح پر انسانی حقوق کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ 2018ء میں ہم پہلی مرتبہ انسانی حقوق کی پالیسی لائے، اب اس میں نئے کنونشنز شامل کر کے 2021ء کی نئی پالیسی لارہے ہیں جس سے انسانی حقوق کے حوالے سے مزید بہتری آئے گی۔

پنجاب واحد صوبہ ہے جس نے بین المذاہب ہم آہنگی کی پالیسی منظور کی، اب خواجہ سرا ء کے حقوق کا ایکٹ اور خصوصی افراد کیلئے بھی قانون سازی کی جارہی ہے، ہم معاشرے کے تمام طبقات کے انسانی حقوق کو یقینی بنانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ پنجاب میں پہلی مرتبہ برطانیہ کی طرز پر ہیومن رائٹس ایکٹ لا رہے ہیں، اس کے تحت گراس روٹ لیول تک کام کرنے میں مدد ملے گی، آئندہ ماہ اسے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ تمام اضلاع میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں جس کی سربراہی ڈپٹی کمشنر کرتا ہے، ہمارے پاس پورٹل کے ذریعے فوری واقعہ رپورٹ ہوتا ہے اور 10 منٹ میں ایکشن لیا جاتا ہے۔

فیصل آباد واقعہ کے ملزمان کو 30منٹ کے اندر گرفتار کر لیا گیا تھا، ہم فوری ایکشن یقینی بنا رہے ہیں تاکہ بروقت انصاف مل سکے۔ ہمارے بچے، بڑے، خواتین سب غیر محفوظ ہیں، بچوں کے ساتھ زیادتی کے افسوسناک کیسز سامنے آرہے ہیں۔ ہمیں مسجد، چرچ، مندر و دیگر عباتگاہوں سے لوگوں کو انسانیت کا درس دینا ہوگا اور بدصورت رویوں کو ہرحال میں بدلنا ہوگا، اس حوالے سے سب کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنا اور عملی طور پر کام کا آغاز کرنا ہوگا۔

سیالکوٹ واقعہ میں ملک عدنان واحد شخص تھا جو انسان تھا، وزیراعظم نے اسے سراہا ہے جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے بھی اسے ایوارڈ دیا گیا۔ اس کا مقصد ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے جو حادثے میں آنکھیں بند نہیں کرتے بلکہ مشکل میں پھنسے ہوئے کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

مفتی راغب حسین نعیمی (مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور)

10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے کیونکہ اس دن اقوام متحدہ کی جانب سے 1948 ء میں انسانی حقوق کا چارٹر منظور کیا گیا۔ اس چارٹر کو 73 برس مکمل ہوچکے ہیں ۔ ہر ملک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہاں رہنے والے عارضی یا مستقل افراد کو ان کے بنیادی انسانی حقوق دے، اس مقصد کیلئے تمام ممالک اقدامات کرتے ہیں۔ آئین پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و حدیث کے مخالف نہیں ہے۔

حضرت محمدﷺ کی جانب سے جن انسانی حقوق کو عمل میں لایا گیا، وہی حقو ق کچھ اضافے کے ساتھ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں موجود ہیں۔ پاکستان نے بھی ان پر دستخط کر رکھے ہیں اور ان پر کام کرنے کا پابند ہے۔ مسلم ہوں یا غیر مسلم، دونوں ہی پاکستان میں برابر کے شہری ہیں، دونوں ہی محب وطن ہیں اور پاکستانیت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ بعض مسلمان یہاں رہنے والے دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک رکھتے ہیں جو درست نہیں،ریاست کوایسے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک تمام شہریوں کو احساس برتری یا کمتری سے باہر نکل کر ایک دوسرے کو تسلیم کرنا ہوگا۔

بیرون ملک سے یہاں آکر رہنے والے خواہ مسلم ہیں یا غیر مسلم، مواحد ہیں۔ انہوں نے پاسپورٹ کی صورت میں ریاست سے معاہدہ کر رکھا ہے اور ریاست ان کے جان و مال کے تحفظ کی ضامن ہے۔ ہم پر قانونی اور شرعی اعتبار سے واجب ہے کہ اگر کوئی شخص قانون شکنی کرتا ہے تو قانون ہاتھ میں نہ لیں بلکہ اسے آئین کے دیئے ہوئے حقوق ملنے چاہئیں اور قانون کے مطابق سزا ہونی چاہیے۔

ہم نے مذہب کے حوالے سے نوجوانوں میں حساسیت پیدا کر دی ہے، ہمیں اس بڑھتی ہوئی حساسیت کو نارملائز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں حکومت، علماء، اساتذہ، والدین اور میڈیا اپنا کردار ادا کریں، نوجوانوں اور بچوں کو ضروریات زندگی کے لوازمات سکھائے جائیں۔ صرف دستخط کرنے یا اپنا نام لکھنے والے کو پڑھا لکھا قرار دینا درست نہیں، ملک میں بہت کم لوگ ہیں جو سماجیات، مذاہب اور معاشرت کو سمجھتے ہیں۔

افسوس ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام نے پڑھے لکھے جاہل پیدا کیے ہیں، مسائل کے موثر حل اور رویوں میں تبدیلی کیلئے ہمیں 15 سے 30 برس کی عمر کے افراد پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں لوگوں میں جینے کی امید پیدا کرنی ہے نہ کہ انہیں موت کی طرف دھکیلنا ہے، صرف اس سے ہی معاشرے میں استحکام آسکتا ہے۔ سڑکوں، چوراہوں اور گلیوں میں ہجوم کی طرف سے قانون ہاتھ میں لینا شرعی اور قانونی اعتبار سے درست نہیں، ’موب جسٹس‘ کے بجائے سب کو اداروں پر اعتماد کرنا ہوگا۔  اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔

آئمہ محمود (نمائندہ خواتین )

انسانی حقوق کے عالمی دن کا مقصد صرف تقریبات نہیں ہے بلکہ اپنی خرابیاں اور خامیاں تلاش کرکے ان کے حل کیلئے اقدامات کرنا ہے۔پاکستان کا جائزہ لیں تو انسانی حقوق کے حوالے سے ہماری صورتحال انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان، خواتین کے حوالے سے 6 خطرناک ترین ممالک میں شامل ہے۔ ہماری خواتین غیر محفوظ ہیں، انہیں کام کی جگہ پر ہراسمنٹ، کم معاوضہ سمیت بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔

افسوس ہے کہ آئین پاکستان میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے بھی صنف کی بنیاد پر خواتین کا استحصال ہو رہا ہے۔ انہیں ایک سا کام ایک سا معاوضہ نہیں مل رہا، انہیں تعلیم، صحت، تنظیم سازی جیسے حقوق برابری کی بنیاد پر نہیں مل رہے۔ بدقسمتی سے اس وقت 90 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ خواتین کو تحفظ دینے کیلئے کرائسس سینٹرز بنائے گئے مگرعملدرآمد کرنے اور متاثرہ خاتون کی مدد کیلئے قانونی سپورٹ سٹرکچر نہیں بنایا گیا جس کی وجہ سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکا۔

خواتین کا استحصال ریاست کی کمزوری ہے، خواتین کے حقوق کے حوالے سے ہوشربا اعدا دو شمار صورتحال کی سنگینی بتارہے ہیں، ہمیں اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو تسلیم کرکے انہیں دور کرنا ہوگا لیکن اگر ہم ان سے نظریں چراتے رہے تو صورتحال مزید خراب ہوجائے گی۔ تشدد، انتشار اور موقع پر انصاف کی روایت ہمارے حکومتی نمائندوں نے ایوان میں ڈالی ہے، اسمبلی میں کاپیاں پھاڑنے اور گالیاں دینے کو روٹین بنا لیا گیا، جب تک حکمران خود کو قانون کا پابند نہیں کریں گے اور عملی طور پر مثال قائم نہیں کریں گے تب تک ملک میں قانون کی پاسداری نہیں ہوسکتی۔

حقوق کی بات کرنے والوں پر مغرب کے ایجنٹ ہونے کا ٹیگ لگا دیا جاتا ہے حالانکہ خواتین تو آج بھی اپنے وہ حقوق مانگ رہی ہیں جو دین اسلام نے 1400 برس قبل انہیں دیئے تھے جن میں تعلیم، صحت، انصاف و دیگر حقوق شامل ہیں۔میرا سوال ہے کہ ان میں کونسے حقوق غلط ہیں اور مغرب کا ایجنڈہ ہیں؟مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صرف 15، 16 برس کی لڑکیاں ہی کیوں مذہب تبدیل کرتی ہی؟

بڑی عمر کی خواتین کیوں نہیں کرتی؟ ہمیں معاشرے سے مذہب کی جبری تبدیلی، غیرت کے نام پر خواتین کے قتل جیسی روایات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس میں سماجی تنظیموں، حکومت اور میڈیا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا ۔ ہمیں لوگوں میں احترام انسانیت کی سوچ پیدا کرنا ہوگی اور انہیں یہ تعلیمات بتانا ہونگی کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ملک میں 2 کروڑ افراد سے جبری مشقت لی جارہی ہے، جن میں 75 فیصد خواتین ہیں، اس لیبر فورس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا، انہیں قانونی تحفظ دیکر بنیادی انسانی حقوق یقینی بنانا ہونگے۔

ہمیں انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل دینا ہے، ایسا معاشرہ جس میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ ہو، قانون کی نظر میں سب برابر ہوں اور کوئی طاقت کے بلبوتے پر کسی فرد، ماں، بہن، بیٹی کو قتل کر کے بچ نہ پائے۔ ہماری خواتین خوف میں ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل ہوں، اس خاندان کی ماں کس طرح اپنے بچوں کو برابری کا درس دے سکتی ہے؟ اس وقت ضرورت یہ ہے معاشرے کی ذہن سازی کی جائے۔ اس کیلئے تعلیمی نصاب میں انسانی حقوق کے حوالے سے موثر مواد شامل کیا جائے۔

علماء کرام بھی اپنے خطبات میںا نسانی حقوق کی تعلیم دیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ محض قانون سازی نہ کرے بلکہ اس پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جن انسانی حقوق پر سب کا اتفاق ہے، پہلے ان پر کام کر لیا جائے، سب کو ساتھ ملا کر لوگوں کو انسانیت اور برابری کا درس دیا جائے، انہیں ایک دوسرے کا احترام، صبر اور برداشت سکھائی جائے، اس حوالے سے نوجوانوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔

شاہنواز خان (نمائندہ سول سوسائٹی )

10 دسمبر 1948ء ایک اہم تاریخی دن ہے۔ اس دن اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر منظور کیا گیا۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد انسانی حقوق پر مبنی دنیا کی تشکیل دینے کیلئے تمام مذاہب میں لوگوں کو دیئے گئے حقوق کو یکجا کرکے 30 صفحات پر مشتمل ایک اہم چارٹر بنایا گیا جس پر پاکستان سمیت اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے دستخط کیے اور یہ سب اس پر عملدرآمد کرنے اور اس حوالے سے اقدامات کرنے کے پابند ہیں۔

1973ء کے آئین میں آرٹیکل 8 سے 28 تک انسانی حقوق کے حوالے سے ہیں جو اقوام متحدہ کے چارٹر برائے انسانی حقوق کی روشنی میں بنائے گئے ہیں۔ لوگوں کو یہ تمام حقوق فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں مساوات پر مبنی معاشرے کی بات کی۔ہمیں 1400برس پہلے ہی بتا دیا گیا کہ انسانی حقوق کیا ہیں اور ان پر عملی طور پر کام بھی کیا گیا۔ دین اسلام کا بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ گہرا تعلق ہے، ہمارا دین مساوات پر مبنی معاشرے کی بات کرتا ہے اور یہ انسانی حقوق ہی سے ممکن ہے۔

موجودہ دور حکومت اور صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق اعجاز عالم آگسٹین کی قیادت میں انسانی حقوق کے حوالے سے بہت کام ہوا ہے۔ وفاقی سطح پر بھی اچھے اقدامات کیے گئے ہیں جن سے دنیا میں ہماری ساکھ بہتر ہوئی۔ کرتارپور راہداری اس کی ایک اہم مثال ہے۔ ہم نے بین المذاہب ہم آہنگی اور معاشرتی مساوات پر بہت کام کیا ہے تاہم کسی ایک واقعہ سے ہماری ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے اور دنیا ہم پر تنقید شروع کر دیتی ہے۔

سیالکوٹ معاملے نے انسانی حقوق اور بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ہونے والے تمام کاموں کو پس پشت ڈال دیا، اس سے ہماری ساکھ کو جو نقصان ہوا ہے اسے ٹھیک کرنے میں طویل وقت لگے گا۔ ہم انسانی حقوق کے حوالے سے بہت کام کر رہے ہیں، درست نتائج حاصل کرنے اور عالمی ساکھ بہتر بنانے کیلئے ہمیں ملکی بدنامی کے واقعات کو روکنا ہوگا۔

مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، ہمارے ہاں مختلف مذاہب کے لوگ اپنے تہوار آزادی سے مناتے ہیں مگر مقبوضہ کشمیر سمیت پورے بھارت میں ہندووآتہ کی سوچ کے تحت مختلف مذاہب کے ماننے والوں پر حملے کیے جاتے ہیں، ان کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے اور وہاں انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہورہی ہے، دنیا کو مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کیلئے کردار کرنا ہوگا۔

The post انسانی حقوق کا عالمی دن…لوگوں میں احترام انسانیت پیدا کرنا ہوگا!! appeared first on ایکسپریس اردو.

سانحہ اے پی ایس؛ دہشت گردی کا مکمل صفایا قومی مشن ہے

$
0
0

جب بھی سولہ دسمبر کا دن آتا ہے تو مجھے یہ شعر یاد آجاتا ہے کہ

ماں مجھے بھی صورت موسیٰ بہا دے نہر میں
قتل طفلاں کی منادی ہوچکی ہے شہر میں

ہاں اس قیامت خیز دن کو ہمیں یہ مناظر بھی دیکھنا اور سہنا پڑے کہ عموماً اور روایتاً لوگ جنازوں پر پھول رکھتے اور برساتے ہیں مگر اس دن ہزاروں  پاکستانیوں نے معصوم کلیوں اور پھولوں کے خون آلود  جنازوں کو کندھا دیا۔

کیا اسے محض اتفاق قرار دیا جا سکتا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم بچوں کو خاک و خون میں نہلانے کے لئے دشمن نے اُسی تاریخ کا انتخاب کیا جس تاریخ پر 43  برس قبل دسمبر 1971میں دشمن نے متحدہ پاکستان کو  دو لخت کرنے کا غیر معمولی مشن کامیابی سے مکمل کیا تھا؟۔

پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ’’ زمین وہی جلتی ہے جہاں آگ لگی ہو‘‘اور یہ آگ آج بھی اے پی ایس کے معصوم شہداء کے والدین اور عزیز واقارب کے دلوں میں جل رہی ہے۔ ویسے بھی انسانی تاریخ میں یہ ایک ناقابل فراموش سانحہ ہے مگر جب بھی یہ دن اور یہ تاریخ آئے گی تو ان شہداء کے والدین بہن بھائیوں اور رشتہ داروں پر کیا اور کیسے گزرے گی۔

یہ درد و غم صرف وہ لوگ جان اور محسوس کرسکتے ہیں جو خود صاحب اولاد ہیں۔جو انسانیت سے پیار کرتے ہیں جن کے سینوں میں دل دھڑکتا ہے اور دورسروں کا درد و غم محسوس کرسکتا ہے۔  نو برس قبل آج ہی کے دن جب معمول کے مطابق بچے تیار ہو کر سکول جا ر ہے تھے تو ان معصوم کلیوں اور پھولوں کو کیا معلوم تھا کہ انسانیت اور مذہب کے دشمن انہیں اپنے پیروں تلے روند دیں گے۔انہیں کیا خبر تھی کہ اپنے اپنے گھروں سے جاتے اور نکلتے وقت  انہیں الوداع کہنے والے والدین،بہن بھائیوں کا یہ الوداع ان کی زندگی کا آخری الوداع ثابت ہوگا،انسانیت کے دشمنوں،اور سفاک دہشت گردوں نے ان معصوم بچوں پر جو قیامت ڈھائی اس کی چھاپ اور درد آج بھی ان بچوں کے والدین، رشتہ داروں اور پوری پاکستانی قوم کے دلوں میں تازہ ہے۔

ملک کی  تاریخ میں یہ دن ایک سیاہ دن تصور کیا جاتا ہے کیونکہ سانحہ اے پی ایس سے قبل یہ دن 1971ء  میں بنگلہ دیش کی جدائی کا دن تھا۔ دسمبر کا مہینہ پاکستان کیلئے ہر سال کچھ ایسی غمگین صورتحال لے کر آتا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ آج بھی طلبہ کی یاد دلوں کو افسردہ کر رہی ہے اور دنیا بھر کے کروڑوں لوگ اس واقعہ کو یاد کر کے دل گرفتہ ہو جائیں گے۔

سانحہ آرمی پبلک سکول کو آٹھ سال بیت گئے لیکن چھلنی دلوں کو آج بھی قرار نہ مل پایا اور کیسے مل پاتا یہ  تو زندگی بھر کا ایسا گھاؤ ہے جو ہوا کی ہلکی سی سرسراہٹ پر پھر سے ہرا ہو جائے گا، اس اندوہناک سانحے نے ناصرف ان بچوں کے والدین کوگھائل کر رکھا ہے بل کہ ہر پاکستانی کو خون کے آنسورلایا ہے ، اس الم ناک اور غم ناک سانحے نے اگر ایک طرف پاکستانی قوم کے دل چھلنی چھلنی کردیئے ہیں تودوسری جانب ہمیں یہ پیغام بھی دیاہے کہ ہم نے اپنا فرض پورا کردیا۔

لازوال قربانی دے دی لیکن اے ہم وطنوہماری ان قربانیوں کو آپس کی اختلافات میں ضائع نہ کرنا اور آئندہ نسلوں کی سلامتی اور بقاء کے لیے اپنے دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا، دوسری بات یہ بھی کہ ان شہداء کے والدین یا عزیز و اقارب کو تب تک چین نہ آسکے گا جب تک من الحیث القوم ہم دہشت گردی کے اس ناسور کوجڑ سے اکھاڑ نہیں پھینکتے اوران کی دلجوئی کے لیے حقائق سامنے نہیں لاتے،حقیقیت میں یہ پھول جیسے بچے ہی ہمارے ہیرو ہیں اور ان کے والدین کی ہمت وحوصلے سے ہمیں اتحاد و اتفاق کا سبق ملناچاہیے، کیوں کہ ان شہداء کے والدین آج عزم و حوصلے اور عظمت و استقلال کااستعارہ بن چکے ہیں، بچوں کی جدائی کا غم، ان کی پرنم آنکھوں اور افسردہ مگر پرعزم چہروں نے پوری قوم کوجگا دیا ہے۔

شہداء کے ناموں سے پہچان والدین کے لیے باعث فخر بن چکی ہے، خاص کر شہداؤں کی ماؤں کے حوصلے قابل دید ہیں، ایسی مائیں بھی منظر پر آئیں جنہوں نے وطن عزیز کے لیے اپنے اکلوتے لخت جگر کو قربان کر دیا، ہر دن ہر پل یاد ستانے کے باوجود شہید کی ماں اور شہید کا والد کہلوانا والدین کے لیے قابل فخر بن گیا ہے لیکن اب ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا کہ ان کے بچوں نے تو وطن کے لیے قربانی دے دی اب عسکریت پسندوں کا مکمل قلع قمع اور ہر سو امن کے شادیانے بجنے چاہیں،

سانحہ آرمی پبلک سکول کو اگرچہ آٹھ برس بیت توچکے ہیں لیکن16 دسمبر کا دن کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا، سرد اور یخ بستہ صبح کومامتا کی گرم آغوش سے مادر علمی کی گود میں آنے والے کب جانتے تھے کہ آج انہیں واپس جانا نصیب نہیں ہو گا اور چوکھٹ پر منتظرنگاہیں تاقیامت بے خواب ہی رہیں گی، اس دل خراش سانحے نے پوری قوم پر سکتہ طاری کر دیا کہ دشمنوں نے قوم کے دل اور مستقبل پر وار کیا جس کے نتیجے میں پوری قوم، سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی،فوجی قیادت کے ساتھ کھڑی ہو گئی، نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر سب متفق ہوئے اور پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے اس ناسورکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ایک پرامن معاشرے کے قیام کے لیے راہیں متعین کیں، آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا، شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا ہونے لگا۔

اس سانحہ نے پوری قوم کومتحد کیا اور قوم ایک بحرانی کیفیت سے نکل آئی لیکن اسی پر اکتفا کر کے ہمیں مطمئن ہو جانے کی بجائے دہشت گردی کے اس عفریت کا مکمل طور پر قلع قمع کرنے کے لیے ابھی مزید آگے جانا ہے، اب بھی کچھ سوالات تشنہ ہیں جن کے مکمل جوابات ملنے تک شہداء اور غازیوں کے والدین سمیت پوری قوم منتظر رہے گی،جب کہ یہ بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ  اس سارے عرصے میں ان شہداء کے والدین اور پوری قوم پر کیا بیتی اور 16 دسمبر 2014ء کے بعد پوری قوم نے جس یک جہتی کامظاہرہ کیا اور جو اہداف رکھے گئے تھے کیا ہم اس جانب اسی رفتار سے آگے بڑھے ہیں اور اسے حاصل کیا ہے؟اتنا عرصہ والدین کی جانب سے جوڈیشل انکوائری کے مطالبے پر کیوں دیرسے عمل ہوناشروع ہوا؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کی جان کاری کے بعد ہی قوم اورشہداء کے والدین کو قرار مل سکتا ہے۔

نیشنل ایکشن پلان میں شامل تمام نکات پوری قوم کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی ہیں اور اس عزم کا اظہار کہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیاجائے گا، اپنی جگہ قابل ستائش بات ہے،  مگر جہاں اور جن طور طریقوں اور راستوں سے دہشت گردی،انتہاپسندی اور شدت پسندی کی نظریاتی تعلیم پھیلتی ہے اس سپلائی لائن کوکاٹنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔

The post سانحہ اے پی ایس؛ دہشت گردی کا مکمل صفایا قومی مشن ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

اسلامی اخوت میں بندھا رشتہ نسلی و لسانی منافرت میں کیسے بدلا؟

$
0
0

میں انجمن ترقی اردو پا کستان کی لائبریری میں مولوی نذیر احمد کی کتابوں کا مطا لعہ کر رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک کتاب ’’چاٹگام تا بو لان‘‘ پر پڑھی جو سید حسین احمد نے لکھی ہے۔

سید حسین احمد شعبہ انگریزی گورنمنٹ ڈگری کالج مستونگ میں اسسٹنٹ پروفیسر رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان ہماری تاریخ کا ایک ایسا اندوہ ناک واقعہ ہے جو ایک حساس دل میں ہمیشہ جاگزیں رہے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے کہ اس واقعے اور اس کے تذکرے کو زیادہ سے زیادہ زندہ کیا جائے چونکہ اس واقعے کو دانستہ طور پر بھلایا جا رہا ہے، اس لیے اس کتاب کے مندرجات کو آپ کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ اس واقعے اور اس کتاب کو ہم جان اور سمجھ سکیں۔

سید حسین احمد سابقہ مشرقی پاکستان پاربتی پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لال منیر ہاٹ کے ایک چھوٹے سے اسکول میں حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم بھی اسی مشرقی پاکستان میں حاصل کر کے سرکاری عہدہ حاصل کیا۔ وہ اپنے قصبے کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’یہا ں زندگی کے روپ میں ایک عجیب سا انوکھا پن تھا۔ زندگی کا قافلہ اپنی تمام تر رعنائیوں میں مست رواں دواں تھا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے گرد محبت اور چاہت کا ایسا سمندر پایا جس کی گہرائی میں ڈوب کر انسان زندہ جاوید ہو سکتا ہے۔ انسان نسلی گروہ بندی سے آزاد تھا۔ اسلامی بھائی چارگی کا رشتہ اتنا مضبوط تھا کہ اس کے سامنے دنیا کی یا وقت کی نفرت یا کمزور دیواریں ایک مصنو عی حصار دکھائی دیتی تھیں۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انسانی رشتہ جو اسلا می بھائی چارے کے مضبوط بندھن میں بندھا ہوا تھا، وہ کمزور کیو ں ہو گیا؟ اس کتاب میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ سید احمد حسین نے لکھا کہ ایوب خان کے مارشل لاء سے قبل ملک میں سیاسی افراتفری کا بیج بو دیا گیا تھا۔ ان خیالات کو تقویت معروف بیورو کریٹ الطاف گوہر کے اس سفرنامے سے بھی ملتی ہے جو انھوں نے مشرقی پاکستان کے بارے میں لکھا تھا اور اس کی روداد ماہ نو میں بھی شائع ہوئی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ڈھاکا سے راج شاہی تک گاڑی رات کے وقت جاتی تھی۔

صبح سویرے آپ جگن ناتھ گھاٹ پہنچتے تھے، جہاں سے اسٹیمر میں دریا پار کرتے تھے۔۔۔ جگہ جگہ گھاس پھونس کی جھونپڑیاں، ہر جھونپڑی کے سامنے گندے پانی کا ایک تالاب ، گندے پانی میں نہاتے ہوئے بچے، میں ان چیزوں کو سبز رنگوں کے حسین خواب میں کہیں جگہ نہ دے سکتا تھا، عجب ماحول تھا کہ فطرت کی ہر شے رنگین، تر و تازہ اور توانا تھی اور انسان بدحال، لاغر، مریض اور انسان کے مددگار بھینسیں، بکریاں، گھوڑے یہ بھی سب بدحال، لاغر اور مریض۔

یاد رہے کہ الطاف گوہر کی یہ تحریر جون 1951ء کی ہے۔ یہ تحریر پاکستان بننے کے ابتدائی برسوں میں لکھی گئی۔ کیا ’تزویراتی پاکستانی‘ ’جس کا الزام مشرقی پاکستان کے سیاست دان لگاتے ہیں‘ ، اتنی جلدی اتنے بڑی استحصالی قوت کا روپ دھارنے میں کامیاب ہو گئے جب کہ اس وقت بنگلادیش کی سیاسی نمائندگی کرنے والے اہم رہنما اہم عہدوں پر فائز تھے۔ لیکن وائے ناکامی کہ مشرقی پاکستان میں پنپنے والی محرومی کا تدارک کرنے کے بجائے ان سیاست دانوں نے بھی احساسِ محرومی کو تقویت فراہم کی جس کا نتیجہ تاریخ میں ایک عبرتناک سانحے کو جنم دے گیا۔

حسین احمد کا بھی یہی خیال تھا کہ مارشل لاء  نے اس احساسِ محرومی کو زیادہ تقویت فراہم کی جو مشرقی پاکستان میں پہلے سے موجود تھا۔ بنگال کی وہ سرزمین جو سونا اُگل رہی تھی، ہندو نہایت قریب بیٹھ کر نہ صرف اس کا مشاہدہ کر رہا تھا بلکہ نہایت خاموشی سے انھوں نے اس پھیلتے ہوئے احساس کو توانا کیا۔

مشرقی پاکستان میں وہ علاقے جو ہندوؤں کے اکثریتی تھے، وہاں کے مسلمانوں پر ایک خاص قسم کی ذہن سازی کی گئی اور محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے ریفرنڈم کے نتائج نے مشرقی پاکستان کی سیاسی زندگی میں غیر معمولی تغیر پیدا کر دیا۔ ایسے حالات میں پس پردہ سیاسی قوتوں کو کھْل کھیلنے کا زبردست موقع مل گیا۔ رفتہ رفتہ یہاں کے لوگ دینِ اسلام اور پاکستان کی بنیاد لا الٰہ الا اللہ سے دور ہوتے چلے گئے۔ ان حالات میں بنگالی مسلمانوں کی ڈور ایسے سیاست دانوں کے ہاتھ میں تھی جنھیں نہ ملک و ملت سے محبت تھی نہ مذہب سے لگاؤ تھا بلکہ انھوں نے اپنا قبلہ و کعبہ تک تبدیل کر لیا تھا۔

انھو ں نے اپنی اس سرگزشت میں مجیب الرحمن کا خاکہ کھینچتے ہوئے لکھا کہ مجیب الرحمن جن کو کبھی فائل بغل میں دبائے، چپل پہنے جناح روڈ پر ایک دفتر سے دوسرے دفتر چکر لگاتے دیکھ چکا تھا، آج اس کی آواز ایک گھن گرج کے ساتھ پلٹن میدان میں سنائی دینے لگی تھی۔ وہ چھ نکات لے کر میدان میں اتر چکا تھا۔ نئی نسل جو پہلے ہی محرومی کا شکار تھی، ان نکات میں انھیں زندگی کی جھلک نظر آنے لگی اور اس جھلک میں مذہب، قوم اور انسانیت کا روپ بگڑتا دکھائی دے رہا تھا۔

ملک کے دونوں حصوں کی دوری بھی اپنا کام انجام دے رہی تھی۔ مشرقی پاکستان کے ہر شعبے میں صوبائیت کا رنگ پھیل چکا تھا اور حکومت کے کارپرداز ایک دوسرے کی پگڑی اچھال رہے تھے۔ ایسے حالات میں مشرقی پاکستان کے ان رہنماؤں کو جو بھارتی آشیرباد کے حامل تھے، انھیں اسلامی تشخص اور اسلامی فلسفہ حیات پر کاری وار کرنے کا موقع مل گیا۔

سید حسین احمد نے مشرقی پاکستان میں صوبائیت اور لسانیت کی بنیادوں کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خواجہ ناظم الدین، شیر بنگال فضل الحق، حسین شہید سہروردی جیسے اکابرین نے اس ملت کے شیرازے کو جس طرح مضبوط اور مستحکم کیا تھا، اس قوت کو میں نے اپنی آنکھوں سے پارہ پارہ ہوتے دیکھا ہے۔ اس سلسلے میں صرف مجیب کے چھ نکات پر ہمیں اپنی توجہ مرکوز نہیں رکھنی چاہیے بلکہ اس سے زیادہ اہم گیارہ نکات ہیں جو طلبہ کی یونائیٹڈ ایکشن کمیٹی نے پیش کیے تھے اور جس کی مقبولیت مجیب کے نکات سے زیادہ تھی۔

ان نکات نے مشرقی اور مغربی پاکستان کی وحدت کو کئی اداروں کے نام تبدیل کرکے ختم کر دیا۔ متحدہ ریلوے پاکستان۔ایسٹ ’پاکستان ریلوے‘ میں۔ واپڈا۔ ’ای پی آئی ڈی سی‘ میں اور دیگر محکمہ جات بھی اپنے نام کی تبدیلی کے ساتھ متحدہ پاکستان کے عناصر ترکیبی سے بغاوت کر رہے تھے۔ ان تمام کوششوں کے نتیجے میں بنگالی قومیت اور لسانیت کو نہ صرف قوت میسر آتی چلی گئی بلکہ انھوں نے وحدت پاکستان کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔

اس کتاب میں صرف مشرقی پاکستان کے سیاسی حالات و واقعات بیان نہیں ہوئے بلکہ سرزمین بنگال سے وابستہ یادوں کی دنیا بھی آباد ہے۔ کتاب میں موجود سیاسی واقعات میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے پاکستانی فوج پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی ہے اور حقائق کو درست انداز میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین لکھتے ہیں کہ مستقبل کا غیر جانب دار مورخ جب اس دور میں ہونے والے واقعات کا تجزیہ کرے گا تو وہ ان سازشوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا جنھیں عوامی لیگ قدم بہ قدم عملی جامہ پہنا رہی تھی۔ یہ دلیل کہ 1956ء کا دستور بنگالیوں پر ہونے والے مظالم کی بنیاد تھا، اس وقت زمین بوس ہو جاتی ہے، جب یہ سامنے آتا ہے کہ اس دستور کے اصل خالق تو حسین شہید سہروردی ہیں۔

شریف الحق دالیم جو پاکستانی فوج میں میجر تھے اور 1971ء  میں باغی بنکر بنگلادیش کی تحریک میں شامل ہو گئے تھے، انھوں نے 71ء  میں میجر آفتاب احمد کے لشکر پر بھی حملہ کیا تھا۔ انھوں نے بھی اپنی کتاب Untold Facts میں تسلیم کیا کہ دورِ ایوبی نے مشرقی پاکستان کے عوام کو متحدہ پاکستان کے تصور کے خلاف کر دیا تھا۔

شریف الحق دالیم وہ فوجی افسر ہیں جنھوں نے پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی تقریب میں شرکت نہیں کی، بعدازاں انھوں نے مجیب کے قتل کی سازش میں بھرپور حصہ لیا۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ بنگالی مسلمانوں کے لیے مذہب صرف روحانی معاملہ نہیں ہے یہ ایک طرزِ حیات اور طرزِ زندگی کا نام ہے۔

ان تاریخی حقیقتوں کے باوجود اصل المیہ یہ نہیں کہ ہمارے مسلم بھائی ہم سے روٹھ کر اپنی جداگانہ زندگی بسر کر رہے ہیں، اصل المیہ تو یہ ہے کہ ملک پاکستان میں اسے المیہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ نوجوان نسل کو اس واقعہ سے باخبر کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس ملک کی خاطر قربان ہونے والے ان مجاہدین کی تسکین کا سامان اسی طرح ہو گا۔ ورنہ بھلا دینے والوں کو تاریخ بھی جلد بھلا دیتی ہے اور وہ بھی اپنا نام و نشان نہیں دیکھ پاتے۔

(مضمون نگار ’’اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی‘‘ سے وابستہ ہیں)

The post اسلامی اخوت میں بندھا رشتہ نسلی و لسانی منافرت میں کیسے بدلا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


اسلامی معاشرے میں غیر مسلموں کے حقوق

$
0
0

ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ’’جن لوگوں نے (غیر مسلم) تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ بھلائی اور عدل کا سلوک کرنے سے اﷲ تم کو منع نہیں کرتا۔ اﷲ تو عدل کرنے کو دوست رکھتا ہے۔

اﷲ انہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں۔‘‘ (سورہ الممتحنہ)

کفر و اسلام کے درمیان معرکہ آرائی روز اول سے ہی جاری ہے اور قیامت تک رہے گی۔ یہ اعتقادات کی جنگ ہے جسے اہل ایمان ہمیشہ صبر و استقامت کے ساتھ لڑتے چلے آ ئے ہیں۔ اسلام انسانیت کی فلاح کا داعی اور پیغمبر اسلام حضرت محمّد رسول اﷲ رحمت اللعالمین ﷺ بناکر بھیجے گئے۔ آپ ﷺ نے جنگ و جدال کو پسند نہیں فرمایا بل کہ ہمیشہ کافروں کی جانب سے آپ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں پر جنگیں مسلط کی گئیں۔ غزوۂ بدر سے لے کر تمام جنگوں کا مشاہدہ و مطالعہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ کبھی اہل اسلام نے جنگ میں پہل نہیں کی بل کہ مسلّط کردہ جارحیت کا دفاع کیا۔

یہاں تک کہ مدینہ منورہ کے یہودیوں سے معاہدۂ امن کیا گیا تاکہ فساد کا راستہ روکا جائے۔ تاہم ہمیشہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں کی گئیں اور انہیں مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ البتہ تمام تر نفرتوں، تعصبات، دشمنی اور حسد کے باوجود خالق کائنات نے انسانیت سے حسن سلوک پر زور دیا اور بالخصوص اسلامی حکومت کے ماتحت مسلم معاشروں میں رہائش پذیر غیر مسلم اقلیتوں کو تمام بنیادی انسانی حقوق عطا کیے جس کی بشری تقاضوں کے تحت ضرورت ہوسکتی ہے۔

جو غیر مسلم اسلامی ریاست کے خلاف کسی قسم کی جنگی سرگرمیوں میں ملوث نہیں بل کہ بہ حیثیت ذمّی کے اسلامی حکومت کے زیر نگیں پُرامن طور پر رہ رہے ہوں تو ان کے ساتھ عدل و احسان سے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے حسن سلوک کا حکم دیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ مکہ مکرمہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو آپ خود مسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن انہوں نے مسلمان ہونے والوں سے کسی قسم کی ضد اور پَرخاش بھی نہیں رکھی اور نہ دین کے معاملے میں کفار مکہ کے ساتھی بن کر اہل اسلام کے خلاف لڑے اور نہ ہی ان کو ستانے اور اپنے گھروں سے نکالنے میں ظالموں کے مدد گار بنے، اسلام ایسے کافروں سے بھی حسن سلوک کا حکم دیتا ہے جو کسی قسم کی اسلام دشمنی میں ملوث نہ ہوں۔

پاکستان میں کبھی بھی کسی غیر مسلم کے ساتھ کوئی حادثہ ہوا تو پاکستان کے عوام اس مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، سیال کوٹ جیسے افسوس ناک سانحہ کا وقوع پذیر ہونا انتہائی قابلِ مذمّت و قابل نفرت ہے اور ایسے شرپسندوں کی سرکوبی کرنا لازم ہے جو اسلام کے پاکیزہ چہرے کو داغ دار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ فساد فی الارض کو قطعی پسند نہیں کرتا۔ اسلامی مملکت میں ایسے امور کا ارتکاب کہ جن سے معاشرتی امن و امان متاثر ہو اور کسی مومن تو دور کی بات ہے غیر مسلم کی بھی جان، مال، عزت، آبرو اور املاک کا نقصان نہیں ہوسکتا۔

سیال کوٹ میں دل دہلا دینے والے واقعہ سے اہل پاکستان کو بہت تکلیف ہوئی ہے اس واقعے میں کسی طرح بھی اسلامی ذہن کا عکاس نہیں بل کہ بدقسمتی سے دین و اخلاق سے عاری مجرمانہ ذہنیت کے حامل شرپسندوں کی کارروائی تھی جو وطن عزیز کے خلاف مصروف ہیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان اور اسلام کو بدنام کیا جاسکے یقیناً ایسے واقعات انتہائی شرم ناک اور قابل مذمت ہیں۔

سیرت کی کتابوں میں موجود ہے کہ مدینہ منورہ کی پہلی اسلامی ریاست میں جو نبی کریم ﷺ نے قائم فرمائی تھی، ایک یہودی لڑکی پر یہودی غنڈوں نے دست درازی کی جرأت کی تو اس لڑکی کی نگاہ یکایک امام کائنات ﷺ کے باب عالی پڑی تو وہ پکارا اٹھی کہ میں آپ ﷺ کے شہر میں تنگ کی جارہی ہوں، تو نبی کریم ﷺ انتہائی غضب ناک انداز گھر سے نکلے اور فرمایا: اے یہودی کی بیٹی! تُو یہودی کی نہیں بل کہ میں محمد ﷺ کی بیٹی ہے، تیری حفاظت بھی میں اسی طرح کروں گا جس طرح اپنی بیٹی کی کرتا ہوں۔ اس واقعہ میں امن و امان اور صحیح اسلامی طرز عمل پوشیدہ ہے، اگر اس پر غور کیا جائے۔

اسلامی مملکت میں امن و امان، تحفّظ و سلامتی سب انسانوں کے لیے بلا تفریق مذہب و ملّت یک ساں ہوتی ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں۔ اسلام ذمیوں کے تحفّظ کی ضمانت دیتا ہے۔ قرآن و حدیث اس بات کی کسی صورت اجازت نہیں دیتے کہ مسلم یا غیر مسلم بے گناہ شہریوں کو اس طرح قتل کیا جائے۔ اسلام بہ ہر صورت امن و امان کا داعی ہے اور کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔

The post اسلامی معاشرے میں غیر مسلموں کے حقوق appeared first on ایکسپریس اردو.

بَدگوئی کے منفی سماجی اثرات

$
0
0

بَدگوئی کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایسی بات یا اشارہ جو کسی شخص کے سامنے اسے ایذا پہنچانے کی نیت سے ادا کیا جائے یا جس سے مخاطب کو ناحق ایذا پہنچے یا بات اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر شرعی یا غیر اخلاقی ہو۔

قرآن کریم میں بدگوئی کی ممانعت: قرآن میں سورہ الحجرات کی آیت میں واضح طور پر اس رویے کو بُرا سمجھا گیا اور اس کی ممانعت بیان کی گئی ہے اور باز نہ آنے والے لوگوں کو ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے۔ مفہوم: ’’اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب لگاؤ اور نہ (ایک دوسرے کو) بُرے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا بُرا ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم لوگ ہیں۔‘‘ (الحجرات) اسی طرح بدگو انسان کو سورہ الھمزہ میں ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے، مفہوم: ’’ہر طعنہ زن اور عیب جوئی کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے۔ ‘‘ (الھمزہ) سورہ القلم میں بھی طعنہ دینے والے شخص کے لیے وعید آئی ہے۔

حدیث میں بدگوئی کی ممانعت: قرآن کے علاوہ احادیث میں بھی بَدگوئی کی واضح طور پر مذمت کی گئی ہے چناں چہ ایک حدیث میں خوش خلقی کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ ’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو تم سب میں زیادہ بااخلاق ہو۔‘‘ (صحیح بخاری) اسی طرح ایک اور حدیث میں بیان ہوتا ہے۔ ’’جو شخص اﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘ ( صحیح بخاری) اسی طرح ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ بندے کو سب سے اچھی چیز کیا عطا کی گئی؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: خوش خلقی۔ (سنن ابن ماجہ)

بدگوئی کے مختلف انداز: گالی دینا، گالی کا مطلب کوئی دشنام، بدزبانی یا کوئی فحش بات بولنا ہے۔ بدگوئی کی سب سے سنگین صورت حال یہی ہے کہ مخاطب کو گالی دی جائے۔ گالی دینے کے کئی انداز ہیں جیسے کسی جانور سے منسوب کرنا، کسی غلط کردار سے موسوم کرنا، کسی فحش فعل سے نسبت دینا، کسی کے گھر کی خواتین کے بارے میں غلیظ زبان استعمال کرنا، کوئی فحش بات کہہ دینا وغیرہ۔ گالی کسی صورت میں بھی انسانی سماج میں گوارا نہیں اور اس کی ہر مہذّب فورم میں مذّمت ہی کی جاتی ہے۔

گالی دینے کا بنیادی مقصد مخاطب کی توہین کرنا، بے عزت و ذلیل کرنا اور ایذا پہنچانا ہوتا ہے۔ حالاں کہ گالی دینے والے شخص کو جواب میں خود اس بے عزتی کے عمل سے گزرنے کا احتمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آخرت میں اس کے اعمال سے نیکیاں مخاطب کے کھاتے میں بھی منتقل ہونے کا خدشہ بھی موجود ہوتا ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ مسلمان کو گالی دینا فسق یعنی گناہ ہے۔ ایک اور مقام پر نبی کریمؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’وہ دو شخص جو ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں، وہ دونوں شیطان ہوتے ہیں جو بکواس اور جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد) اسی طرح آپؐ نے منافق کی خصلتوں میں سے ایک خصلت یہ بتائی ہے کہ جب بھی وہ کسی سے اختلاف کرے تو گالیاں بکے (صحیح بخاری) آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’قیامت کے دن میری امّت کا مفلس وہ آدمی ہوگا جو نماز روزے زکوۃ وغیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائی سے پہلے ہی ختم ہوگئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دیے جائیں گے اور پھر اس آدمی کو جہنّم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘

( صحیح مسلم) گالی کی سب سے سنگین صورت یہ ہے کسی مسلمان کو کافر کہا جائے۔ اس بارے میں آپؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’جس نے کسی کو کافر کہا یا اﷲ کا دشمن کہہ کر پکارا حالاں کہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا۔‘‘ (مسلم)

لعنت کرنا: بدگوئی کا ایک اور پہلو لعنت کرنا ہے۔ لعنت کرنے کا مطلب کسی کو خدا کے عذاب کی یا خدا کی رحمت سے محروم کرنے کی بَددعا دینا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ اﷲ تجھے برباد کرے یا خدا تجھے غارت کرے وغیرہ۔ یہ لازمی طور پر ایک سنگین بَددعا ہے جس سے مخالف کے بارے میں ہمارے عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص پر بلاجواز لعنت کی جارہی ہے تو یہ ایک سنگین گناہ ہے۔ اسی لیے حدیث میں لعنت کرنے کو مومن کے قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ (بخاری)

لعنت کرنے والوں کے بارے میں نبی کریمؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’بندہ جب کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی جانب پروان چڑھتی ہے اور آسمان کے دروازے اس پر بند کردیے جاتے ہیں پھر وہ زمین کی جانب اترتی ہے تو اس کے لیے زمین کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں پھر دائیں بائیں جگہ پکڑتی ہے جب کہیں کوئی داخلے کی جگہ نہیں ملتی تو جس پر لعنت کی گئی ہے اس کی طرف جاتی ہے اگر وہ اس لعنت کا حق دار ہو ورنہ کہنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔‘‘ (سنن ابوداؤد) آپؐ نے عورتوں کے بڑی تعداد میں جہنم میں جانے کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ وہ کثرت سے لعنت کرتی ہیں۔

عیب جوئی کرنا: عیب جوئی کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کے عیب بیان کرنا، ان کی خامیوں کو بیان کرنا، نقص نکالنا، نکتہ چینی کرنا، بلاجواز تنقید کرنا یا یا زبردستی ان میں کوئی مفروضہ کمی کو بیان کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ چوں کہ عیب جوئی کا منطقی نتیجہ ایذا رسانی ہے، جس کی قرآن میں ان الفاظ میں مذمت کی گئی ہے، مفہوم: ’’بے شک! جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذاب جہنّم ہے اور ان کے لیے آگ میں جلنے کا عذاب ہے۔‘‘ (البروج)

رسول اکرمؐ کے فرمان کا مفہوم: ’’مسلمان کو اذیت نہ دو، انہیں عار نہ دلاؤ، اور ان میں عیوب مت تلاش کرو، کیوں کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا اور جس کی عیب گیری اﷲ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ ( جامع ترمذی)

الزام تراشی کرنا: اس کا مطلب تہمت، بہتان، اتہام یا کسی کو قصور وار ٹھہرانا ہے۔ یہاں الزام سے مراد کسی پر جھوٹا الزام لگانا اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ بہتان ایک کبیرہ گناہ ہے۔ خاص طور پر اگر یہ تہمت پاک دامن عورتوں پر لگائی جائی تو لائق تعزیر ہے اور ایسے شخص کو اسّی کوڑوں کی سزا ہے اور ساتھ ہی ان کی گواہی آئندہ کے لیے ناقابل قبول ہے۔

الزام لگانے کی اس کے علاوہ بھی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ جیسے کسی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگانا، رشوت خوری کی تہمت دھرنا، کفر کے فتوے لگانا وغیرہ۔ الزام تراشی بھی بَدگوئی کی ایک قسم ہے جس سے اجتناب لازم ہے۔ الزام لگانے کی ایک صورت یہ ہے کہ لگایا گیا الزام درست ہو۔ اس صورت میں اگر نیّت اصلاح کی ہے تو یہ بَدگوئی نہیں۔ اگر نیّت تحقیر و ایذا رسانی کی ہے تو یہ بَدگوئی ہے۔ یوں بھی کسی کے منہ پر اس کی خامی کو بہت حکمت سے بیان کرنا چاہیے ورنہ فساد کا اندیشہ ہوتا ہے۔

مختلف طبقات میں بدگوئی کی نوعیت: یوں تو بدگوئی ایک عام مرض ہے لیکن کچھ مخصوص طبقات میں خاص قسم کی بدکلامی کی جاتی ہے جن پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ نوجوانوں میں بدگوئی: نوجوانوں میں عام طور پر بدگوئی کے جو انداز زیادہ عام ہیں ان میں ایک دوسرے کو بُرے ناموں سے پکارنا، مذاق اڑانا، کسی چڑ کی بنالینا وغیرہ زیادہ عام ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کا ایک مسئلہ فحش گفت گُو بھی ہے۔ عام طور پر جنس پر مبنی لطیفے، چٹکلے، بُرے القابات، گالیاں اور کلمات ایک دوسرے کے سامنے بولے جاتے ہیں۔

خواتین میں بدگوئی: خواتین کی بدزبانی کے طریقے عام طور پر کسی پر طنز و تشنیع، طعنے بازی، متعلقات جیسے کپڑوں، زیورات، میک اپ وغیرہ پر نکتہ چینی اور ایک دوسرے پر بلا جواز الزام تراشی پر مبنی ہوتے ہیں۔ خواتین میں عام طور پر بدگوئی کا سبب حسد، جلن اور عدم برداشت ہوتا ہے۔

مردوں کی بدگوئی: مرد حضرات عام طور پر تُو تڑاخ، گالم گلوچ، فحش القابات وغیرہ کے ذریعے اس عمل کو انجام دیتے ہیں۔ اسی طرح مرد حضرات کی بدگوئی کے اہم موضوعات میں دفتری اختلافات، سڑک حادثے پر لڑائی، زمین کا مسئلہ یا کسی عورت پر جھگڑا وغیرہ شامل ہیں۔

مذہبی حلقوں میں بدگوئی: مذہبی حلقے میں علماء اور ان کے مقلدین دونوں شامل ہیں۔ علماء کی بدگوئی میں ایک دوسرے پر کفر کے بلا جواز فتوے لگانا، مخالفین کو منافق، زندیق وغیرہ کہنا شامل ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے کو ان القابات سے پکارا جاتا ہے جس سے مخالف چِڑنے پر مجبور ہوجائے۔ دوسری جانب ان علماء کے مقلدین اپنے علماء کی تقلید میں ان سارے القابات کو مزید نئے ناموں کے ساتھ بازاری زبان میں بیان کرتے ہیں۔

بدگوئی کے اسباب: بدگوئی کے چند اسباب مندرجہ ذیل ہیں۔

تکبر، نفرت اور کینہ، منفی سوچ، حسد، زیادہ بولنے کی عادت، احساسِ کم تری، انتقام و بدگمانی، غصہ، تحمل کی کمی، مخاطب کے جذبات سے لاعلمی وغیرہ۔

بدگوئی سے بچنے کے طریقے: بدگوئی سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ سب سے پہلے وہ سبب معلوم کیا جائے جس کی بنا پر بدگوئی کی جا رہی ہے اور پھر اس سبب کے مطابق علاج کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر بدگوئی کا سبب غصہ ہے تو اس ہر قابو پایا جائے، اگر سبب بہت زیادہ بولنا ہے تو کم بولنے کی مشق کی جائے وغیرہ۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں اس مہلک بیماری سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین

The post بَدگوئی کے منفی سماجی اثرات appeared first on ایکسپریس اردو.

اپنا محاسبہ کیجیے۔۔۔۔!

$
0
0

سال مہینوں کی طرح اور مہینے دنوں کی طرح اور دن گھنٹوں کی طرح گزرتے چلے جارہے ہیں۔

یہ ہم سب کا مشاہدہ ہے اور آج کل تو ہم سب وقت میں بے برکتی کا شکوہ ہر محفل میں سنتے ہیں۔ ہر گزرتا ہوا دن ہماری عمر کو کم کرتا چلا جا رہا ہے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر جان دار کے لیے موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے اور موت کو دنیا کے سبھی انسان چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب و فرقے یا قوم و علاقے سے ہو یک ساں تسلیم کرتے ہیں۔

اﷲ کے سوا کسی بشر کو یہ نہیں معلوم کہ کس جگہ اور کس مقام اور کس عمر میں اسے موت آئے گی۔ بعض بچپن میں، بعض جوانی میں چلے جاتے ہے بعض ادھیڑ عمری تک جیتے ہیں اور بعض ارذل عمری تک پہنچتے ہیں اور پھر داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں۔ بعض نوجوان سُہانے مستقبل کے لیے اپنے منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں اور انہیں معلوم تک نہیں ہوتا کہ موت کا فرشتہ ان کی تلاش میں روانہ ہو چکا ہے۔

گزشتہ برس ہی دیکھ لیجیے۔ کورونا کی وباء نے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے لوگوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا اور اب تک پوری دنیا کورونا کے عفریت کی زد میں ہے۔ آئے دن ہونے والے حادثات میں کیسے کیسے نوجوان ملک الموت اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک دن ہمیں بھی اﷲ کے پاس حاضر ہونا ہے اور حساب کتاب دینا ہے۔

اﷲ تعالی نے بارہا قرآن عظیم الشان میں موت کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے، مفہوم: ’’تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آپکڑے گی، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو۔‘‘ (سورہ النساء)

مفہوم: ’’کہہ دیجیے! کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گی۔‘‘ (سورہ جمعہ)

متعدد آیات ہیں جن میں اﷲ پاک نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ اپنی آخرت کی فکر کرو۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جلدی سے نیکیاں کرلو، اس سے پہلے کے اندھیری رات کی طرح فتنے چھا جائیں گے، جس میں صبح کے وقت آدمی مومن ہوگا تو شام کو کافر بن جائے گا، یا شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کافر بن جائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)

گزشتہ سال کتنے لوگ ہمارے ساتھ تھے۔ اب قبروں میں ان کی ہڈیاں بھی بوسیدہ ہو چکی ہوں گی۔ آج ہم بہ قید حیات ہیں کچھ خبر نہیں کب ملک الموت ہماری جان نکالنے آجائے۔ تب ہمیں دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہیں بچا سکے گی۔

اسی لیے ہمارے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو قیمتی مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی راہ نمائی فرمائی اور موقع ہاتھ سے جانے سے پہلے اچھائی اور نیکیاں کر گزرنے کی ترغیب دی۔ اور فرمایا، مفہوم: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت جانو! جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔ تن درستی کو بیماری سے پہلے۔ امیری کو فقیری سے پہلے۔ فراغت کو مصروفیت سے پہلے۔ اور زندگی کو موت سے پہلے۔‘‘ ( سنن نسائی)

زندگی کو غنیمت جانو کیوں کہ موت کے ساتھ ہی عمل منقطع ہو جاتے ہیں، اس کی امیدیں مٹی میں مل جاتی ہیں اور اس کی ندامت کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ اپنی صحت کو غنیمت جانو کیوں کہ بیمار ہونے کے بعد انسان بہت سے اعمال کی سکت نہیں رکھتا اور صرف تمنا ہی کرتا رہتا ہے کہ کاش! نماز پڑھتا یا روزہ رکھ لیتا، یا نیک اعمال کر لیتا۔ اپنی فراغت کو مصروفیات کے آنے سے پہلے غنیمت جانو، کہ کہیں تمہیں دنیا مصروف نہ کر دے۔

اور تم نیک اعمال کرنے سے محروم رہ جاؤ۔ اپنی جوانی کو غنیمت جانو، اس سے پہلے کہ تم عمر رسیدہ ہو جاؤ، جسم لاغر ہو جائے، اعضاء جواب دینے لگیں اور فرائض کی بجا آوری بھی دشوار ہوجائے۔ اپنی امیری کو غنیمت سمجھو، صدقات کرو، اﷲ کی راہ میں خرچ کرو، اس سے پہلے کہ تمہارا مال تم سے بچھڑ کر کسی اور کا بن جائے۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا، مفہوم: ’’قیامت کے دن انسان کے قدم اﷲ تعالیٰ کے سامنے سے نہ ہٹیں گے حتی کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق سوال کیا جائے گا اور وہ ان کے جوابات دیدے۔ اس کی عمر کے بارے میں کہ کس چیز میں خرچ کی؟ اور اس کی جوانی کے متعلق کہ کہاں لگائے؟ اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور جن باتوں کا علم تھا اس پر کتنا عمل کیا؟‘‘ (سنن ترمذی)

اس حدیث مبارکہ میں غور کیجیے۔ آج اپنا محاسبہ کرنے کا وقت ہے۔ آج ہم اپنی عمر کا بیشتر حصہ کہاں خرچ کر رہے ہیں ؟ ہم کن کاموں میں اپنا وقت اور صلاحیتیں لگا رہے ہیں؟ اﷲ کی اطاعت میں زندگی خرچ کر رہے ہیں یا معصیت میں؟ ہمارے مال کمانے کے ذرائع حلال ہیں یا حرام ؟ اور ہم اس مال کو خرچ کہاں اور کیسے کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے مال اﷲ کی راہ میں خرچ کر کے اﷲ سے نفع بخش تجارت کی؟ مال سے متعلقہ ہم نے اﷲ اور بندوں کے حقوق پورے کیے ۔۔۔؟

اپنا محاسبہ کیجیے کہ گزشتہ سال ہم نے کتنی نیکیاں کیں اور کتنے گناہ کیے؟ کیا ہم نے اپنے نامۂ اعمال میں ایسی نیکیاں درج کروائیں جو بہ روز قیامت ہمارے لیے خوشی و مسرت کا باعث بنیں گی؟ یا ہم غفلت میں ڈوبے رہے؟ اور اپنے نامۂ اعمال میں اپنی کوتاہیوں اور غفلت سے وہ درج کروا بیٹھے جو بہ روز قیامت ہمارے لیے حسرت اور ندامت کا باعث بنیں گی؟

گزشتہ سال کورونا وائرس کی جو وبا آئی اور اب تک مکمل ختم نہیں ہوئی اس سے ہم میں کیا تبدیلی آئی؟ کیا ہم میں تقویٰ پیدا ہوا ؟ کیا ہم نے رجوع الیٰ اﷲ کیا؟ کیا ہم پر اﷲ کے، اس کے رسول ﷺ کے اپنے عزیز و اقارب کے، پڑوسیوں کے جو حقوق تھے ہم نے ادا کیے؟ کیا ہم نے لوگوں کی راحت کا کچھ سامان کیا یا ان کی ایذا رسانی کا سبب بنے رہے؟ کیا اس سال بھی ہماری ساری کوششیں، مال و اسباب صرف اپنی دنیا بنانے میں خر چ ہوتے رہے یا ہم نے کچھ توشہ آخرت بھی جمع کر لیا ۔۔۔۔ ؟

لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم رجوع الی اﷲ کریں۔ سچی توبہ کریں اور بعد میں حسرت اور پشیمانی میں مبتلا ہونے کے بہ جائے اس دنیاوی زندگی میں ہی اپنے رب کو راضی کرنے کی فکر کریں۔

The post اپنا محاسبہ کیجیے۔۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

خدّوخال یا خطّ وخال

$
0
0

زباں فہمی 128

ہمارے یہاں بعض لسانی مباحث ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور شاید اس کے بنیادی اسباب میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم (اہل قلم سمیت اکثر لوگ)، تحقیق کی زحمت کم گوارا کرتے ہیں۔ بات کی بات ہے کہ پچھلے دنوں واٹس ایپ حلقے’بزم زباں فہمی‘ میں یہ بحث چھِڑگئی کہ اردو کی مشہور ترکیب ’’خَدّ وخال‘‘ درست ہے یا ’’خطّ وخال‘‘۔

خاکسار نے اپنی رائے دی، کچھ نے تائید کی تو بعض نے ماننے سے انکار کیا۔ مخالفین نے دلیل میں بعض معاصرین کے اشعار پیش کیے۔ آئیے اس موضوع پر دستیاب مواد کا جائزہ لیتے ہیں۔ (موضوع کی اہمیت ونزاکت کے پیشِ نظر، تمام قارئین، خصوصاً عجلت پسند، جلدباز حضرات سے استدعا ہے کہ براہ کرم کالم، اَز اَوّل تا آخر پورا پڑھ کر کوئی رائے قائم کریں، یہ نہ ہو کہ درمیان سے کوئی نکتہ اچک کر، اپنے من پسند انٹرنیٹ حلقوں اور ویب سائٹس پر خاکسار کے نام کے ساتھ، یا، اپنے ہی نام سے پھیلادیں)۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ لفظ ’’خطّ‘‘ اور ’’خدّ‘‘ دونوں کے آخری حرف پر تشدید ہے جو شعری ضرورت کے تحت، حذف کردی جاتی ہے۔ ایسی دیگر مثالیں بھی ہمارے شعری سرمائے میں موجود ہیں۔

جن لوگوں کا خیال ہے کہ خَدّوخال ہی درست ہے اور اس کا اردو نظم ونثر میں استعمال بکثرت ہوا ہے، لہٰذا اسے ہی چلنے دیں، ان کے حق میں دستیاب ومنقول مواد ذیل میں پیش کیا جاتاہے:

آئیے دیکھتے ہیں کہ اردو لغت بورڈ کی عظیم وضخیم اردولغت کیا کہتی ہے:
خال وخَد (— و مج، فت خ) اسم مذکر رک: خد و خال
اشعار (برائے سند):
شملہ سے کھنچ کے آئی ہے جو اَب نئی شبیہ
حضرت کے خوب اس میں نمایاں ہیں خال و خد
(1917، بہارستان، 566)
مجھے اب صداؤں سے کام ہے مجھے خال وخد کی خبر نہیں
تو پھر اس فریب سے فائدہ یہ نقاب اب تو اتار دو
(1981، مضراب و رباب، 491)
خال جو (حَدْ سے) بَڑھا، مَسَّہ ہوا
خال خال
خال دار / خالْدار
خال وخَد

اس سارے بیان کے بعد اسی لغت میں یہ ترکیب یوں لکھی گئی ہے: خال و خَط فیروزاللغات میں ترکیب خدّوخال بمعنی شکل وصورت، چہرہ مُہرہ درج کی گئی ہے (شکل صورت درست ہے، س ا ص)، جبکہ اس سے قبل لفظ خال کے معانی یوں بیان کیے گئے: خال (عربی، اسم مذکر)،۱): وہ قدرتی سیاہ نقطہ جو چہرے یا جسم پر ہوتا ہے (جسم کے کسی بھی حصے پر ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے: س ا ص)۔ ۲)۔ دورَنگا کبوتر;سفیدی کے ساتھ اور (یعنی دوسرا: س ا ص) رنگ ملا ہوا کبوتر۔۳)۔کاجل کا وہ نشان جو نظرِبد سے بچانے کے لیے خوبصورت یا کم سِن بچوں کے چہرے (نیز ماتھے پر: س ا ص) لگاتے ہیں۔۴)۔ ماموں، خالو۔ اور فیروزاللغات میں خدّ کے بارے میں لکھا گیا: گال، رخسار، چہرہ۔ نوراللغات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ خدّ کے معانی چہرہ، رخسار یا گال کے ہیں۔ آن لائن لغات سے اقتباسات:

اردو آئنسی ڈاٹ کام: خَدوخال: اردو معنی: چہرہ مہرہ … مترادفات: بناوٹ، حلیہ، خصوصیات، نقوش، واضح، کھرا نقشہ۔ انگریزی معنی: features۔اشعار (برائے سند):

چراغِ بزم ابھی جانِ انجمن نہ بجھا
کہ یہ بجھا تو تیرے خدوخال سے بھی گئے
(عزیز حامد مدنی)
غم فراق سے اک پل نظر نہیں ہٹتی
اس آئینے میں ترے خدوخال سے کچھ ہیں
(امجد اسلام امجد)

ریختہ ڈکشنری ڈاٹ کام: خَدوخال (اصل: عربی) اسم، مذکر۔ خَد و خال کے اردو معانی: چہرہ مہرہ، شکل و صورت کی ساخت، حُلیہ۔
شعر (برائے سند): اس کی آواز میں تھے سارے خدوخال اس کے۔۔۔۔ وہ چہکتا تھا تو ہنستے تھے پر و بال اس کے بعض دیگر اشعار برائے سندِ خدّوخال /خال وخد:
اک ذرا سی فضائے چمن کے نکھرنے پہ بھی کیا سے کیا
جسمِ واماندگاں پر خدوخال کے پھول کھِلنے لگے
(ماجد صدیقی)
دیکھئیے کس کے خدوخال نظر آتے ہیں
ایک دیوار کو شیشہ تو کیا ہے میں نے
(مقصود وفاؔ)
ہم اگر تیرے خدوخال بنانے لگ جائیں
صرف آنکھوں پہ کئی ایک زمانے لگ جائیں
(مبشر سعید)
ایک تصویر خدوخال کی خواہاں ہے مگر
اور بھی عکس ہیں صدمات کے آئینے میں
(م۔م۔مغل)
ہیں ہجرمیں اس جسم کی رنگینیاں کچھ اور
اب مجھ پہ ہیں طاری وہ خدوخال زیادہ
(علی ارمان)
تم نے دیکھے نہیں فرصت سے خدوخال مرے
جب میں تصویر میں ہوتی ہوں بہت بولتی ہوں
(کومل جوئیہ)

اب ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری ترکیب یعنی خطّ و خال کے حق میں کیا کچھ کہا اور لکھا گیا ہے۔
فرہنگ آصفیہ کا بیان ہے: خال ۔عربی۔اسم مذکر: ۱)۔چہرے یا جسم کا خِلقی (یعنی پیدائشی: س ا ص) تِل، وہ قدرتی سیاہ نقطہ جو اکثر جسم پر ہوا کرتا ہے۔ شعر:
آتا نہیں نظر، مسی آلودہ وہ دہن
گویا کہ ہے وہ خال، رُخِ آفتاب کا
(وزیرؔ)
۲)۔دورَنگا کبوتر، سفیدی کے ساتھ اور (یعنی دوسرا: س اص) رنگ ملا ہوا کبوتر۔۳)۔ کاجل کا وہ نشان جو معشوق لوگ خوبصورتی یا نظرِبد کے دفعیہ (یعنی نظرِبد کو بھگانے : س اص) کے واسطے چہرے پر لگالیتے ہیں۔ اسی کی تصدیق میں نوراللغات میں منقول آتشؔ کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
خالِ سیِہ بناتا ہے رُخسار پر وہ ماہ
کیا اِن دنوں زُحل کا ستارہ بلند ہے

لغات کشوری اردواَز مولوی تصدق حسین رضوی کی رُو سے عربی الاصل لفظ ’خال‘ کے معانی میں عقل مندی، بزرگی، تکبر، غرور، ماموں یعنی ماں کا بھائی اور نقطہ سیاہ جو جسم پر ہوتا ہے شامل ہیں ، جسے ہندی میں تِل کہتے ہیں اور یہی لفظ فارسی میں مجازاً آبلے اور چھالے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی لغت کے بیان کے مطابق ’خدّ‘ کے معانی ہیں: چہرہ، رُخسار، گال اور فارسی میں اکثر یہ لفظ، بغیر تشدید کے، مستعمل ہے۔ عربی لفظ ’خط‘ کے معانی میں بیان کیا گیا کہ اس سے مراد ہے ایک ایسی لکیر جس میں فقط طُول یعنی لمبائی ہو، عرض یعنی چوڑائی اور عُمق یعنی گہرائی نہ ہو، نیز یہ ایک موضع یعنی جگہ کا نام ہے۔ نوراللغات کے بیان کے مطابق وہاں کے نیزے مشہور ہیں اور میرانیس ؔنے بھی ایک شعر میں اس کا ذکر کیا ہے۔

ڈاکٹرعبداللطیف کی فرہنگ فارسی (فارسی اردو لغت) بھی بنیادی معانی کی تصدیق کرتی ہے اور اس میں بطور مثال یہ فارسی مصرع بھی درج ہے: شیراز ِما کہ خالِ رُخ ِ ہفت کِشور است (ترجمہ: ہمارا شہر شیراز، سات ملکوں یا سلطنتوں کے چہرے پر موجود تِل کے مانند ہے۔ س ا ص)۔ اسی لغت کی رُو سے ترکیب ’’خال خال‘‘ کا مطلب ہے جلد پر موجود دھبّے (لکہ ہائے برجِلد)۔ یہ ترکیب ہمارے یہاں بھی مستعمل ہے اور اس کا استعمال کسی معاملے میں کمی یا قلت ظاہر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، جیسے اب ہمارے یہاں اس لیاقت کے لوگ تو خال خال نظر آتے ہیں۔ فیروزاللغات میں بھی خال خال کے مفاہیم یوں درج ہیں: اِکّادُکّا، بہت کم، کہیں کہیں، شاذ ونادر، کوئی کوئی۔ اسی کے ساتھ فرہنگ فارسی میں فارسی ترکیب خال دار بھی موجود ہے یعنی لکہ دار، دھبے والا۔

فرہنگ فارسی از ڈاکٹر عبداللطیف نے بھی ’خدّ‘ کے معانی میں چہرہ، رُخسار اور گال درج کرنے کے بعد دو الفاظ خندق اور گڑھا کا اضافہ کیا ہے۔ انھوں نے خطّ کے معانی یوں بیان کیے ہیں: لکیریں، حروف، اَبرو، لبوں پر سبزہ (یعنی رُواں )، مکتوب اور لکھائی۔ حسن اللغات فارسی اردو میں ’خدّ‘ کے معانی میں درج کیا گیا: گال، رخسارہ، خندق، کھائی، زمین میں لمبا گڑھا کھودنا۔ یہی لغت خال بمعنی تِل کو فارسی الاصل بتاتے ہوئے اس کا دوسرا مطلب ’’سیاہ اونٹ‘‘ بھی قرار دیتی ہے۔ فرہنگ آصفیہ، نوراللغات، حسن اللغات فارسی اردو، لغات کشوری اور فرہنگ فارسی میں ترکیب خَطّ و خال یا خدّ وخال کا ذکر سِرے سے موجود نہیں۔ یہی صورت عباس آریان پور کاشانی اور منوچہر آریان پور کاشانی کی مؤلفہ English-Persian Dictionary (مطبوعہ تہران، ایران ) کی بھی ہے۔

اب آگے بڑھنے سے پہلے لفظ خط بمعنی لکیر کے استعمال کا ایک اچھا نمونہ دیکھیں:
خونِ دل سے دَرودیوار پہ خط کھینچ دیے
ہم نے زنداں میں لکھیِں اپنے چمن کی باتیں
(شاعرؔ لکھنوی)
ایک آن لائن لغت سے یہ مندرجات سامنے آئے: خَطّ و خال: اسم، مذکر
رک: خدوخال
خُوبیاں، خُصوصیات، فائدے. خاصیّت؛ علم ارضیات سے متعلق اچھائی بُرائی.
شعر: پاپ دھماکے میں ہم بھکتی ڈھونڈ رہے ہیں
میڈونا کے خط و خال میں، مِیرا دیکھیں
( احمدشناس)

آن لائن جستجو میں ایک دل چسپ کتاب کا یہ اقتباس بھی بہت عمدہ معلوم ہوا کہ مغلیہ سلطنت کے دورِزوال میں، انگریزوں کی عبارت میں ترکیب ’’خال و خَط‘‘ موجود ہے، یہ کتاب انگریزی سپاہ کا گویا ہدایت نامہ ہے جو اِنگریزی، اردو اور دیوناگری (اردو مگر اس رسم الخط میں) میں مرتب وترجمہ کرنے کے بعد، 1846ء میں منظرعام پر لایا گیا، جب کہ اَبھی ہندوستان پر مغلیہ سلطنت کا آفتاب پوری طرح غروب نہیں ہوا تھا اور بنگال کی خودمختار یا نیم خودمختار، نوابی حکومت کا سربراہ، نواب سید منصورعلی خان (عہد اقتدار: 29اکتوبر1830ء تا4نومبر1884ء) تھا جس نے انگریزوں سے مالیاتی خودمختاری کے حصول کے لیے بہت کدوکاوش کی، متعدد مرتبہ انگلستان کے دورے پر بھی گیا۔ عبارت کا اقتباس ملاحظہ ہو: ’’تو چاہیے کہ اجٹنٹ صاحب کمپنی کے کمانڈنگ افسرصاحب کے پاس، اُس رنگروٹ کا ڈسکرپٹورول [Descriptive role] یعنی خال وخط کہ پلٹنی رجسٹر سے نکالا گیا ہو، بھیجا کرے

[The Standing Orders for the Bengal Native Infantry, with a translation in to Oordoo, in the Roman, Persian and Naguree characters
By Brevt. Capt. S. C. Starkey-7th Regiment, BNI, Calcutta: Printed by P.S. D]’Rozario and Co. Tank-square: 1846

اب اسی باب میں ریختہ ڈکشنری ڈاٹ کام کے مندرجات پیش خدمت ہیں:
خال و خَط: (فارسی، عربی ۔ اسم، مذکر، واحد): جسمانی ساخت، بناوٹ، چہرہ مہرہ، شبیہ، خط و خال
شعر: خال و خط سے عیب اس کے رُوئے اقدس کو نہیں
حسن ہے مصحف میں ہونا نقطہ ٔ اعراب کا
(منیر شکوہ آبادی)
آن لائن لغت اردو آئنسی کے مندرجات: نقوش، واضح، کھرا نقشہ
شعر: ولی شعر میرا سراسر ہے درد
خط و خال کی بات ہے خال خال
(ولیؔ)
آن لائن لغت اردو بان میں لکھا گیا: غلبہ پانا، قبضہ کرنا، اثرونفوذ جمانا.
چشم و دل جان و جگر میں بحر الفت ہیں یہ پانچ
ان پر زلف و خال وخط پر اک تسلط یاب ہو
غزل:
ادا اور زلف و خط و خال راہزن چاروں
نگاہ و مژہ چشم و تیغ تیغ زن چاروں
صوفی اصطلاح:
شاہدِ ما بجزاز خال وخط و غبغب خویش
خال وخط د گرو غبغبِ دیگر دارد
بہ وصف رخش والضحیٰ گشت نازل
چو والیل در زلف و خال محمد(ﷺ)
(جامی)
فارسی کلام
بہ لطف خال و خط از عارفان ربودی دل
لطیفہ ہای عجب زیر دام و دانہ توست
(حافظ)
ایک تصویری معلومات پر مبنی ویب سائٹ پِن ٹریسٹ میں یہ کلام بھی دیکھا:

خال و خط خوش نمود عالم و گفتم کہ ہیچ کرد بزک صورت پر غم و گفتم کہ ہیچ روسپی عقل و دین سوی من آمد وزین کرد ستون قامت پر خم و گفتم کہ ہیچ برگرفتہ]از کتاب دوبیتی ہای حلمی[
ہمیں آن لائن تلاش وجستجو میں یہ کارآمد متن بھی میسر ہوا:

مرکب لفظ ’’خط و خال‘‘ کو عام طور پر ’’خد و خال‘‘ لکھا جاتا ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔

رشید حسن خان اپنی کتاب ’’انشا اور تلفظ‘‘ کے صفحہ نمبر 46 پر اس حوالہ سے رقم کرتے ہیں: ’’خد‘‘ اور ’’خال‘‘ کے ایک ہی معنی ہیں یعنی ’’تل‘‘۔ اس کی جگہ ’’خط و خال‘‘ لکھنا چاہیے۔‘‘ (حالانکہ جیسا کہ لغات سے نقل کیا گیا، خدّ کے معانی میں تِل ہرگز شامل نہیں، مگر بہرحال اصل بات ترکیب کے درست استعمال کی ہے: س اص)۔ اس حوالہ سے انورؔ مسعود کا ذیل میں دیا گیا شعر بھی ملاحظہ ہو:

وہاں زیرِبحث آتے خط و خال و خوئے خوباں
غمِ عشق پر جو انور ؔ کوئی سیمینار ہوتا!

خاکسار کے خیال میں اردو، فارسی وپنجابی پر یکساں قدرت کے حامل، بزرگ سخنور نے اس ترکیب کے برمحل اور درست استعمال میں، حافظؔ شیرازی کی اتباع کی ہے جنھوں نے کہا تھا: زِعشق ِناتمامِ ما، جمالِ یار مُستغنیست

بہ آب ورنگ ِخال وخط، چہ حاجت رُوئے زیبا را {ہمارے اَدھورے /نامکمل یا خام عشق سے محبوب کا جمال یعنی حسن تو بے نیاز ہے ;حسین چہرے کو آب و رنگ اور تِل اور خط کی کیا ضرورت ہے۔یا۔مزید ادبی زبان میں کہیں تو: کہ ایسے رنگ روپ کی اُس رُخِ زیبا (حسین چہرے) کو کیا ضرورت؟}۔ یہ وہی حافظؔ شیرازی ہیں جنھوں نے امیرتِیمور کو اپنے ایک مشہور شعر کے متعلق باز پُرس کے جواب میں لاجواب کردیا تھا۔ ’’امیرتِیمور جب خُراسان وفارس پامال کرتا ہوا شیراز (ایران) میں پہنچا تو اُس نے حافظؔ کو دربار میں طلب کیا، اثنائے گفتگو میں اُن سے پوچھا کہ میں نے تو سال ہا سال کی مشقت کے بعد، سمرقند وبْخارا کو بہ نوک ِ شمشیر (یعنی تلوار کی نوک پر، س اص) فتح کیا ، تم نے یہ کیسے کہہ دیا کہ
؎ اگر آں تُرک ِ شیرازی بَدست آرَد دلِ مارَا
بخالِ ہِندوَش بخشم سمرقند و بخارا را
(یعنی اگر شیراز کا وہ تُرک ہمارا دل لے لے، قبول کرلے تو ہم اُس کے گال کے سیاہ تِل کے عِوض، اُسے سمرقند اور بخارا کی سلطنت بخش دیں۔ یہاں یاد رکھیں کہ شیراز میں تُرک نسل کے لوگ آباد تھے اور استعارے یا کِنائے کے طور پر ، معشوق کو بھی تُرک کہا جاتا تھا۔ دوسرا نکتہ، اپنی پرانی تحریروں میں لکھا ہوا، یہ دُہراتا چلوںکہ ہِند اور ہِندو سے مراد ہے سیاہ رنگ اور سیاہ فام لوگ، اسی سے اسم ہندوستان معرض ِوجود میں آیا۔س ا ص)۔ حافظؔ نے مسکراتے ہوئے کہا، اسی فیاضی اور غلط بخشی نے تو مجھے اِس حال تک پہنچادیا ہے۔ امیرتِیمور نے اس حاضرجوابی کی داد دی اور حافظ ؔ کو انعام واکرام سے سرفراز فرمایا‘‘ ]اقتباس ازگل ہائے پریشاں، آراستہ الیاس احمد، سابق منصف[

تمام منقول ومذکور مواد کو بنظرغائر دیکھنے کے بعد خاکسار کی یہ رائے مستحکم ہوگئی کہ درست ترکیب ’’خال وخط‘‘ یا خط وخال ہے اور اس کے برعکس خدوخال استعمال کرنے والوں سے لسانی سہو سرزد ہوا ہے۔

The post خدّوخال یا خطّ وخال appeared first on ایکسپریس اردو.

’ اسکرین ایڈکشن‘ سے نجات بہت ضروری ہو گئی

$
0
0

اپنی پریکٹس کے د وران میں بہت سارے والدین نے اس پریشانی اور سوال کے ساتھ مجھ سے رجوع کیا کہ بچوں کا ’ اسکرین ٹائم‘ خطر ناک حد تک بڑھ چکا ہے، اسے کیسے کم کیا جائے؟

اس کے جواب میں میرا ان سے سوال یہ ہوتا ہے کہ پہلے یہ بتائیے، بچوں کو اسکرین کا تعارف کس طرح ہوا ؟ کس نے انھیں اسکرین سے جوڑا؟ کس نے انھیں اسکرین کا عادی بنایا ؟ ظاہر ہے کہ میرے سوالات کا جوابات دیتے ہوئے ان والدین کی آنکھیں شرمندگی کے مارے نیچے ہوتی ہیں ۔

موجودہ وقت میں جہاں زندگی میں معیار اور ترقی کی بنیاد ڈیجیٹل گیجٹس کی بہتات سمجھی جاتی ہے، وہاں ایک انسان اس آسانی اور آسائش کی بہت بھاری قیمت ادا کر رہا ہے، اس صورت میں کہ یہ ڈیجیٹل دنیا ہر انسان کے لیے ایک چیلنج اور ایک فتنہ بن چکی ہے، ہر شخص کسی نہ کسی طرح اس کے مضر اثرات سے متاثر ہورہا ہے ، کوئی بھی محفوظ نہیں رہا ۔ پچھلی دہائی تک اسکرینز کا استعمال محتاط حد تک کیا جاتا تھا اور اسے کافی حد تک بے ضرر بھی سمجھا جاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا رجحان بڑھتا چلا گیا ۔

اب ہر عمر کے لئے اسکرین کے حوالے سے الگ ہی محاذ کھلا ہوا ہے۔ ہر عمر کے افراد خطر ناک حد تک اس کے مضر اثرات کی زد میں ہیں ، خصوصاً کورونا پھوٹ پڑنے کے بعد دنیا ایک ڈیجیٹل گلوب کا نمونہ بن چکی ہے ۔ ڈیجیٹل ازم نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، بہرحال یہ ایک نہایت تفصیل طلب موضوع ہے۔ فی الحال ہم صرف چھوٹی عمر کے بچوں میں اسکرین ایڈکشن کے حوالے سے بات کریں گے ۔ واضح رہے کہ اسکرین ایڈکشن کا مطلب ٹی وی ، موبائل وغیرہ کا بہت زیادہ استعمال ہے ۔ اس کے سبب ایک انسان پر اس کے نہایت خطرناک برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو نفسیاتی بھی ہوتے ہیں اور جسمانی بھی ۔

ایک سروے کے مطابق اسکرین ایڈکشن سے سب سے زیادہ فکر مند وہ باشعور والدین ہیں جو چھوٹی عمر سے اپنے بچوں کو اسکرین کے زیادہ استعمال سے بچانا چاہتے ہیں ۔کم عمری میں اسکرین کے استعمال پر کافی ریسرچ ہو چکی ہے، رسائل اور جرائد میں بھی اس حوالے سے آگاہی کا کافی سامان موجود ہوتا ہے، بہت سے ادارے عام لوگوں کی آگہی کے لیے کام بھی کر رہے ہیں تاکہ نئی نسل کو وسیع پیمانے پہ نقصانات سے بچایا جا سکے۔

اگر ہم مضر اثرات کی بات کریں تو سب سے اولین نکتہ یہ ہے کہ بچوں کے اذہان ابتدائی نشو ونما کے مراحل میں ہوتے ہیں ۔ اس وقت جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے، وہ ذہنی استعداد ، فوکس اور ارتکاز ( کنسنٹریشن ) کی صلاحیت ہے ۔ دوسرا بڑا نقصان جو بچوں میں زیادہ نظر آ رہا ہے وہ ’’ اسپیچ ڈیلے‘‘ ہے ۔ جب تین ، چار سال کے بچوں کے والدین بچے کی بول چال میں کمی کے مسائل کی شکایات لے کر آتے ہیں تو پس پردہ اسکرین کے زیادہ استعمال کا سبب ہی نکلتا ہے ۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اس بچے کو جس کمیونیکیشن اور سوشل انٹر ایکشن کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اس سے محروم رہ جاتا ہے۔ نظر کا متاثر ہونا تو آج کل ایک معمول کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔

اگر بحیثیت والدین ہمیں یہ اندازہ ہو جائے کہ ہم بچوںکی اور اپنی ’’ آسانی‘‘ کے لیے کتنا بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں تو شاید ہم اپنے بچوں کو ہر قیمت پر ان اسکرین گیجٹس سے دور رکھیں۔ مزید یہ کہ بچوں کے مزاج میں بہت تیزی سے تغیرات رونما ہو رہے ہیں۔ بچوں میں جارحانہ پن ، اینٹی سوشل رویے، ضد ، خودسری اور بورڈم جیسے عمومی مسائل ہر گھر کی کہانی ہیں جب کہ چھوٹی عمر کے بچوں میں آٹزم اور ہائیپر ایکٹیویٹی سنڈروم جیسی ذہنی بیماریوں کا رجحان بھی بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہ مسائل کبھی شاذ ہی سننے میں آتے تھے ۔

ہماری آگاہی کے لیے بہت کچھ سامان موجود ہے لیکن بحیثیت والدین ہماری پریشانی وہیں کی وہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بچوں کو اسکرین کا تعارف دینے والے بھی خود والدین ہی ہوتے ہیں ۔ خاص طور پر مائیں بچوں کو مصروف کرنے کے لئے انھیں اس طرح کی چیزوں کی عادی بناتی ہیں ۔ ایسے میں اس اسکرین ایڈکشن کو کم یا ختم کروانا بھی صرف والدین کی کوششوں ہی سے ممکن ہے ۔ جب تک والدین اس ٹاسک کو پورا کرنے کے لئے عملاً خود کو تیار نہیں کریں گے تب تک کسی بھی طرح کی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی ۔

بچوں کو اسکرین ایڈکشن سے واپس کیسے لایا جائے ؟ اس حوالے سے بعض عملی اقدامات آپ کی خدمت میں پیش کروں گی ۔ بحیثیت ایک ماں یہ اقدامات خود میرے لیے بھی فائدہ مند رہے ہیں بلکہ دیگر کئی والدین نے بھی ان عملی کوششوں کے ذریعے کامیابی حاصل کی ہے ۔

سب سے پہلے تو خود یہ بات سمجھنے کی ہے کہ آپ جتنی سنجیدگی سے اپنے بچوں کی یہ عادت بدلنے کی خواہاں ہیں اس کے لئے آپ کو اسی قدر تیزی سے اپنے کمفرٹ زون سے باہر آنا ہوگا ۔ مصروفیت کا عذر اور وقت نہ ہونے کا بہانہ بچوں کو خود اپنے ہاتھوں سے اسکرین کے حوالے کرنے کے مترادف ہے ۔ آپ کو خود اپنے آپ میں مستقل مزاجی اور برداشت پیدا کرنا ہوگی ۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ غصہ اور فرسٹریشن کے ساتھ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے ۔ ہماری اور ہمارے بچوں کی اکثر غلط عادتوں کی وجہ والدین کی اپنی غیر مستقل مزاجی ہوتی ہے ۔ اگر ہم مستقل مزاجی کی اچھی عادت اپنا لیں تو بہت سے معاملات میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے ۔

اگر ہم خود زیادہ وقت کے لئے اسکرین استعمال کرتے ہیں تو بچوں سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ اس کی طرف نہیں جائیں گے یا اس سے باز آجائیںگے ۔ بچے وہی کچھ سیکھتے اور پھر عملاً کر کے دکھاتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں ۔آپ کو بخوبی علم ہے کہ والدین اپنے بچوں کے لیے ہر لحاظ سے رول ماڈل ہوتے ہیں ۔ اس لئے ان کا اسکرین ٹائم کم سے کم کرنے کے لئے اپنے لیے یہ ہدف طے کریں کہ کس طرح اسکرین کا کم سے کم استعمال کیا جائے ۔ اس کے لئے اپنے آپ کو پابند کرنا ضروری ہے کہ اس کا استعمال صرف انتہائی ضرورت کے تحت ہی کیا جائے ۔

مثلاً اسکرین کے استعمال کے اوقات مخصوص کیجئے ۔ ترجیح یہ رہے کہ فیملی ٹائم’’ نو اسکرین ‘‘ ٹائم ہو ۔ بچوں کے لیے پورے دن کا معمول مرتب کیجئے ۔ کوشش رہے کہ سیکھنے ، سکھانے کا عمل فزیکل ہو نہ کہ اسکرین کے ذریعے سکھایا جائے ۔ فیملی کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے یہ بات بھی یاد رکھیں کہ رات سونے سے پہلے کسی بھی اسکرین کا استعمال کم سے کم ہو ۔

اگر آپ اپنے بچوں کے اسکرین ٹائم کے بارے میں متفکر ہیں تو یاد رکھیں کہ جب یہ بور ہو رہے ہوں ، ضد یا شور کر رہے ہوں ، یا آپ کو کسی بھی انداز میں پریشان کر رہے ہوں تو ان سے جان چھڑانے کے لئے انھیں موبائل ہرگز نہ تھمائیں ۔ ایسا کرنے والے والدین خود اپنے بچوں کو غلط متبادل فراہم کرتے ہیں ۔ آپ انھیں ضد ، شور یا کسی بھی انداز میں پریشان کرنے سے منع کریں لیکن اس کے بعد انھیں موبائل تھما دیں ، آپ کا یہ رویہ صورتحال کو مزید خراب کرے گا۔

اسکرین ایڈکشن کے چیلنج سے مقابلہ کرنے کے لیے اور اس کے منفی اثرات سے بچوں کو بچانے کے لیے والدین کا خود بھی جسمانی اور ذہنی طور پر مستعد ہونا بہت ضروری ہے ۔ انھیں ذہنی طور پر خوب تیز طرار ہونا چاہیے ، ان کے پاس اسکرین کے متبادل آئیڈیاز ہونے چاہئیں ۔ صرف اسکرین ایڈکشن کے لئے فکر مند ہونا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ آپ اسے ایک چیلنج سمجھیں ، اس کے لئے نہ صرف بچوں کو گھر کے اندر صحت افزاء مصروفیات مہیا کرنا لازمی ہے بلکہ آؤٹ ڈور فزیکل سرگرمیوں کا انعقاد بھی ضروری ہے ۔گھر میں لائبریری ، گارڈ ننگ ، سائیکلنگ جیسی صحت افزاء مصروفیات عمدہ مثالیں ہیں ۔ سب سے اچھی بات ہے کہ چھوٹی عمر سے بچوں میں مطالعہ کتب کی عادت پروان چڑھائی جائے ۔

بچوں کو اسکرین فراہم کرتے وقت یاد رکھیںکہ بچوں کے ہاتھ میں موبائل کی صورت میں اسکرین دینا بہت آسان ہے لیکن اس عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا بہرحال محنت طلب اور صبر آزما کام ہوگا ۔گھر میں ’ نو انٹرنیٹ ‘ یا ’ نو وائی فائی ٹائم ‘ ضرور رکھیں ۔ گھر کے دیگر افراد سے اسکرین ٹائم کے حوالے سے ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ جلد یا بدیر وہ آپ کی کوششوں کو سمجھ کر آپ کی مدد کر سکیں ۔ والدین کے مابین اس موضوع پہ وقتاً فوقتاً تبادلہ خیال ہونا چاہیے اور اس حوالے سے ممکنہ کوششوں پر بات چیت بھی ضروری ہے ۔ یاد رہے کہ اسکرین کی عادت چھڑوانا صرف والدہ یا پھر صرف والد کی ذمہ داری ہی نہیں ہے بلکہ اس مقصد کے حصول کے لئے دونوں کو مل کر ٹیم کی حیثیت سے کام کرنا ہوگا ۔

اگر بچوں کو اسکرین فراہم کرنا بہت ہی ناگزیر ہو جائے تو انھیں بڑی اسکرین کے بجائے موبائل اسکرین کی سہولت فراہم کریں ۔ ایسا کرتے ہوئے بھی یاد رکھیں کہ بہت جارحانہ ، تیز رنگوں، تیز میوزک ، آوازوں، غیر اخلاقی اور غلط عقائد کے حوالے سے مواد بچوں کو نہ دکھایا جائے ۔ جب بچے اسکرین استعمال کر رہے ہوں توانھیں صحیح اور غلط کی آگہی کے ساتھ چیک اینڈ بیلنس سسٹم بھی ضرور قائم کریں ۔ امید ہے کہ میرے مذکورہ بالا نکات ہماری اس کوشش میں موثر ثابت ہوں گے ۔

اسکرین کے ذریعے کس طرح باطل نظریات کو ہمارے دماغوں میں انڈیلا جا رہا ہے ، اگلی تحریر میں قلم بند کروں گی ۔

The post ’ اسکرین ایڈکشن‘ سے نجات بہت ضروری ہو گئی appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4713 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>