Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4713 articles
Browse latest View live

کورونا وبا کی نئی قسم سے بچاؤ کا طریقہ کیا ہے؟

$
0
0

یہ معلوم کرنا تو آسان ہے کہ کسی کو کورونا وائرس ہے یا نہیں لیکن اومیکرون وائرس کی شناخت کا عمل کچھ پیچیدہ ہے۔

کورونا کی نئی قسم جس کو سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں دریافت کیا گیا تھا اب برطانیہ، کینیڈا، پرتگال، بیلجیئم اور ہالینڈ تک پہنچ چکا ہے جبکہ دنیا بھر میں کئی ممالک اس وائرس کے داخلے سے بچنے کے لیے سفری پابندیاں لگا رہے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ اگر لوگ ماسک پہنیں اور ویکسین لگوائیں تو کسی نئے لاک ڈاون کی ضرورت نہیں ہو گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیدروس ادہانوم نے خبردار کیا تھا کہ کورونا کی اس نئی قسم سے دنیا بھر میں وبا کی ایک نئی لہر پھیل سکتی ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس کی جینیاتی ساخت میں غیر معمولی حد تک تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ اب تک اس وائرس کے اثرات کے بارے میں سائنسدانوں کے پاس زیادہ معلومات نہیں تاہم اس کی شناخت کیسے کی جائے، اس سوال کا جواب موجود ہے۔

اومیکرون کورونا کی دوسری

اقسام سے کیسے مختلف ہے؟

اومیکرون کے بارے میں اب تک کچھ زیادہ معلومات حاصل نہیں ہو سکیں، سوائے اس کے کہ یہ ایک نئی قسم ہے جس میں جینیاتی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ یہ نئی قسم کس طرح سے جسم پر اثر انداز ہوتی ہے اور کیا یہ پرانی قسم کے وائرس کی نسبت زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے یا نہیں، یہ تمام ایسے سوالات ہیں جن کا جواب حاصل کرنے کے لیے سائنسدان دن رات ایک کر رہے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وائرس کی یہ نئی قسم ویکسین کے خلاف مدافعت رکھتی ہے یا نہیں؟

اومیکرون کی شناخت کے لیے کون سے ٹیسٹ کیے جائیں؟

یہ معلوم کرنا تو آسان ہے کہ کسی کو کورونا وائرس ہے یا نہیں لیکن اومیکرون وائرس کی شناخت کا عمل کچھ پیچیدہ ہے۔ عام لیبارٹری میں کیے جانے والے پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے صرف یہی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آیا کسی میں کورونا وائرس پایا جاتا ہے یا نہیں تاہم گنی چنی لیبارٹریز میں یہ سہولت ضرور موجود ہوتی ہے کہ وہ اس ٹیسٹ کی بنیاد پر یہ تشخیص کر سکتے ہیں کہ آیا کورونا کی قسم اومیکرون ہے یا کوئی اور ویرینٹ۔

اومیکرون کی شناخت میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں کئی نئی جینیاتی تبدیلیاں آ چکی ہیں جو پرانی اقسام میں نہیں تھیں۔ سب سے زیادہ فرق لیاں وائرس کی اس سپائک پروٹین میں پایا جاتا ہے کو کورونا ویکسین نشانہ بناتی ہے۔ یہی بات اس نئی قسم کے بارے میں پھیلی تشویش کی بڑی وجہ بھی ہے کیونکہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اومیکرون کورونا کی ویکسین کے خلاف زیادہ مدافعت نہ رکھتا ہو لیکن اب جب کہ اس بات کا تعین کیا جا چکا ہے کہ اس نئی قسم میں کس مقام پر جینیاتی تبدیلی موجود ہے تو اس کی شناخت کا طریقہ بھی نکالا جا سکتا ہے۔

اومیکرون کی ’ساخت سے شناخت ممکن ہے

اومیکرون کے بارے میں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ اس کی جینیاتی تبدیلی میں ایک اہم جزو ایس یا سپائک خلیہ ہے۔ ایک عام پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے عموماً وائرس کے تین حصوں کی شناخت ممکن ہوتی ہے۔ ان میں وائرس کی سطح پر موجود ‘ایس’ یا سپائک خلیہ، جبکہ بیرونی سطح جس کو ‘ای’ کا نام دیا گیا ہے، کو بھی شناخت کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وائرس کی اندرونی سطح میں موجود ‘این ٹو’ نیوکلیو کیپ سِڈ کی بھی شناخت کی جاتی ہے۔

جب کسی کا کورونا ٹیسٹ کیا جاتا ہے تو اس کے ذریعے دیکھا جاتا ہے کہ آیا کورونا وائرس موجود ہے یا نہیں۔

اگر ہے تو کیا اس میں ‘ایس’ سپائک خلیہ ہے؟ اس خلیے کی شناخت ہو جائے تب بھی یہ حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ یہ اومیکرون ہے یا نہیں بلکہ اس کے بعد ایک مرحلہ اور درکار ہوتا ہے جس کے ذریعے یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ کورونا وائرس کی جس قسم کی شناخت کی گئی ہے وہ اومیکرون ہے یا کوئی اور۔ یہ طریقہ جینیاتی تجزیاتی ٹیسٹ ہوتا ہے جس کے ذریعے اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے کہ کیا وائرس کی یہ قسم اومیکرون ہے یا نہیں۔

جینیاتی تجزیے کی اہمیت کیا ہے؟

وائرس کی قسم کی جانچ کے لیے جینیاتی ساخت کے تجزیے کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔ برطانیہ میں ہر ہفتے تقریبا ساٹھ ہزار مثبت کورونا کیسز سامنے آتے ہیں جن میں سے بیس فیصد کے سیمپل کو جینیاتی تجزیے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

اس سیمپل کے معائنے اور جینیاتی تجزیے سے سائنس دان اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آیا اس میں پائی جانے والی وائرس کی قسم کوئی پرانا ویرینٹ ہے یا کہ کورونا کی نئی اومیکرون قسم۔ اس تجزیے کی بنیاد پر یہ تخمینہ بھی لگایا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر وائرس کی قسم کتنی پھیل چکی ہے کیوں کہ بیس فیصد سیمپل کی بنیاد پر ہر کیس سے متعلق حتمی طور پر رائے دینا مشکل ہوتا ہے۔

کیا اومیکرون جنوبی افریقہ میں ہی شروع ہوا؟

جس طرح کورونا کے آغاز میں اس بحث کا آغاز ہوا کہ یہ وائرس کہاں سے پھیلا ہے اور کیا اس کی شروعات چین سے ہی ہوئی ویسی ہی ایک بحث اومیکرون کے بارے میں بھی شروع ہو چکی ہے۔ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ جینیاتی تجزیے کی سہولت ہر جگہ موجود نہیں اسی لیے ہر ملک میں کورونا کی نئی قسم کی شناخت ممکن نہیں ہوتی۔

جنوبی افریقہ میں اس وائرس کی شناخت تو سب سے پہلے ہوئی لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کا آغاز بھی وہیں سے ہوا ہو۔ صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہاں موجود سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کے باعث کورونا کی ایک نئی قسم دریافت کر لی گئی جس کی وجہ سے اب دنیا بھر میں اس پر مزید تحقیق ہو سکتی ہے اور اس کا توڑ نکالا جا سکتا ہے۔

اومیکرون سے کیسے بچا جائے؟

اب تک تحقیق اور معلومات کی کمی کے باعث حتمی طور پر اومیکرون کے اثرات سے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سائنس دان یہ جاننے کے لیے کوشش کر رہے ہیں لیکن فی الحال احتیاط ہی سب سے مفید راستہ ہے۔

دنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس بات پر ہی زور دیا جا رہا ہے کہ اومیکرون کے خلاف مزاحمت کے لیے ویکسینیشن کے عمل کو تیز کیا جائے اور جو لوگ اب تک ویکسین سے محروم ہیں ان تک ویکسین پہنچائی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ کورونا کے خلاف طے شدہ حفاطتی اقدامات پر عمل درآمد بھی اومیکرون سے بچاؤ میں مدد دے سکتے ہیں، یعنی ماسک پہننا اور سماجی فاصلوں کا خیال رکھنا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کینیڈا میں اومیکرون کی تصدیق کے بعد اعلان کیا کہ اس وقت پریشانی میں اقدامات اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ اگر لوگ ماسک پہنیں اور ویکسین لگوائیں تو نئے لاک ڈاون کی ضرورت نہیں۔‘ ( بشکریہ بی بی سی )

The post کورونا وبا کی نئی قسم سے بچاؤ کا طریقہ کیا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


ہڈیوں کا درد کیوں ہوتا ہے؟ علاج کیسے ممکن ہے؟

$
0
0

پاکستان میں 70 فیصد ضعیف العمر حضرات اور 40 فیصد جوان حضرات کو اذیت دینے والاعرض ’ وجع العظام (ہڈیوںکا درد) ‘ہے۔

ہڈیاں جسم کی ساخت بناتی ہیں اور ہڈیوں میں موجود گودہ خون کے اجزاء تیار کرتا ہے ۔ جب بھی ہڈیاں دکھتی ہیں تو کوئی نہ کوئی ایسا امر ضرور ہوتا ہے جو انہیں اذیت پہنچاتاہے۔ گاہے یورک ایسڈ ہوتاہے، کبھی اجزائے کیلشیم یا حیاتین ڈی ہوتے ہیں۔

کبھی ہڈیوں کی ساخت نہایت نرم ہو جاتی ہے تو کبھی کافی سخت (برٹل) ہوجاتی ہیں۔ مگر اکثر یہ درد اعصابی کمزوری سے ہوتا ہے جسے جوان اشخاص مشکل سے تسلیم کرتے ہیں۔

ہڈیوں میں چوٹ آنے سے کچھ عرصے بعد یہ درد جنم لے لیتاہے کیونکہ اکثریت ’فزیوتھراپی‘ کا سہارا لیتے ہیں، ان میں ’ہیٹ تھراپی‘ اگر کرائی جائے اور مریض کو سردی سے بچنے کا مشورہ نہ دیا جائے تو عارضی طور پر درد میں آرام ضرور آتا ہے ، مگر کچھ عرصے بعد دوبارہ سوجن کی وجہ سے یہ درد عود کر آتا ہے۔

اب اس حال میں ہڈیاں کچھ سخت ہوجاتی ہیں اور دواء کی کیفیت اگر صرف دفعِ ورم ہو تو کام نہیں کرتی اس لیے ایسی دواء کا استعمال کیا جاتا ہے جو درد کا سبب بننے والے خامرات (اینزائم) کے فعل کو روک دیں۔ بعض نام نہاد ماہرین ایسی ادویہ کا انتخاب کرتے ہیںجو درد کی حس محسوس کرنے والے آخذ خلیات (ری سیپٹر) کو درد اخذ کرنے سے روک دیتے ہیں۔

مشاہدہ شاہد ہے کہ طاقت سے زیادہ ورزش کرنے سے ہڈیاں دکھتی اور کبھی درد کرتی ہیں، اصل وجہ ان عضلات کی دُکھن ہے جو عظام (ہڈیوں) سے جڑے ہوتے ہیں، اصل درد عضلات کا ہوتا ہے مگر مریض یہی سمجھتا ہے کہ ہڈی کا درد ہے۔

اسی طرح مفاصل (جوڑوں ) کا درد ہے، گاہے اس کی وجہ دو ہڈیوں کے درمیان مائع (سیال؍رطوبت) کی خشکی ہوتی ہے جس سے دونوں ہڈیوں کے سرے چلتے پھرتے رگڑ کا شکار ہوتے ہیں، اس کا مستقل حل زیتون کے تیل ، بادام کے تیل وغیرہ سے کرنا تھا مگر اکثر اس کا حل مسکن ِ درد اینل جیسک ادویہ سے کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں جب تک دواء کھاتے رہیں آرام محسوس ہوتا ہے ، جب دواء چھوڑی جائے تو درد عود کر آتا ہے۔

کچھ اشخاص کو جینیاتی طورپر یہ مسئلہ عارض ہوتا ہے جسے ’رہیومیٹائیڈ آرتھرائی ٹس‘ کہا جاتا ہے، مگر اس عارضے میں ہڈیاں ؍ جوڑ سوجھ بھی جاتے ہیں، ہڈیوں کی ساخت کسی حد تک بگڑ جاتی ہے۔اور جلد پر جوڑوں کے مقام پرسرخی نمودار ہو جاتی ہے۔

طبِ قدیم کے مطابق اس کا حل مصفی خون ادویہ اور ساتھ مسکن ادویہ سے ہوتا ہے مگر آج کل اکثر ماہرین اسٹرائیڈ کا استعمال کراتے ہیں۔ اسٹیرائیڈ قوی دافع ورم ہے مگر باقی نقصانات مثلاً عادی بنانا کہ اسٹیرائیڈ کے علاوہ باقی ادویہ مفید نہیں رہتیںعلاوہ ازیں ایک اسٹیرائیڈ سے ہونا رک جائے تو اس سے قوی اسٹیرائیڈ کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔

ہڈی کے درد کے اسباب

1۔ ورزش نہ کرنا ، 2۔ زیادہ گوشت کا استعمال، 3۔ چوٹ آنا چاہے کسی شے سے ٹکرانے سے ہو یا سخت چیز پر گرنے سے،4۔ حیاتین ڈی ، فاسفورس، کیلشیم کی مقدار کا عدم توازن، 5۔ گرم اشیاء کھانے کے بعد ساتھ ہی ٹھنڈی اشیاء کا استعمال، 6۔ اومیگا فیٹی ایسڈ کی کمی ، 7۔ سیال خوراک (پانی ، جوس، دودھ، مکھن ) کا کم استعمال ( مگر یاد رہے کہ چہل قدمی ضرور کرنی چاہیے تاکہ حہال بدن میں جس چیز (حیاتین)کی کمی ہے وہیں پہنچ سکے ورنہ صرف ہاضمہ ہوتا ہے، توانائی حاصل ہوتی ہے مگر انفرادی اعضاء کو اتنا نفع نہیں پہنچتا جتنا پہنچنا چاہیے تھا، 8۔ یورک ایسڈ ، 9۔ جینیاتی طور پر مرض کی منتقلی، 10۔ ٹھنڈے پانی سے غسل کرنا، 11۔ نزلے کا زیادہ عرصہ رہنا۔

ہڈیوں کے عوارض سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

1۔ نو عمر بچوں کو کھیل کود میں زیادہ دھیان دینا چاہیے، یاد رہے کہ حکما قدیم کے مطابق چالیس سال کی عمر تک والدین کی طرف سے ودیعت شدہ قوت کام آتی ہے اور چالیس سال بعد اپنا اسی عمر تک کا کھانا پینا ، ورزش قوتوں کو بحال رکھتا ہے۔ ساٹھ سال سے قوتیں ڈھلنے کی طرف میلان رکھتی ہیں۔

2۔مچھلی کا استعمال ہفتے میں ایک بار اور دوپہر کے وقت کریں۔

3۔ سرد مزاج کی سبزیوں پر نمک یا سیاہ مرچ کا سفوف چھڑکیں۔

4۔ چوٹ آنے پر گرم مزاج والے تیل سے مالش کر کے پٹی بانزھیں یا سردی سے بچائیں۔

5۔ خوراک میں میوہ جات کا استعمال ضرور کریں۔

6۔ دماغ کو تازہ رکھیں زیادہ آکسیجن والے علاقوں کی طرف ہفتے میں چار دن ضرور جائیں۔

7۔ بڑے کے گوشت کا استعمال ضرور کریں۔

8۔ اعصابی نظام کو قوت بخشنے کے لیے ورزش کی عادت اپنائیں۔

9۔ ہر تین ماہ بعد حیاتین ڈی کی گولی کا استعمال مناسب ہے کیونکہ آجکل خوراک خالص نہیں دھوپ میں وٹامن ڈی ہوتا ہے مگر اکثر جلد کے خراب ہونے کی شکایات موصول ہورہی ہیںکیونکہ بعض علاقوں میں ’ اوزون‘ کی سطح بہت کم ہے۔

10۔ نیم گرم پانی سے غسل کریں اور کھانے کے بیس منٹ تک ہرگز نہ غسل کریں۔

11۔ دواء کا استعمال اس وقت کریں اگر مالش سے فائدہ نہ ملے، تاکہ ادویہ کی عادت نہ بنے، خاص طور سے پچیس سال کی عمر تک دواء کی عادت پڑنے سے بچیں۔

The post ہڈیوں کا درد کیوں ہوتا ہے؟ علاج کیسے ممکن ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

موسم سرما میں لاحق ہونے والی بیماریوں سے کیسے محفوظ رہیں؟

$
0
0

جوں جوں سردی کا موسم قریب آتا ہے، ننھے منے پھول جیسے بچے زیادہ سردی لگنے سے مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

بچوں کا مدافعتی نظام اتنا مضبوط نہیں ہوتا، اس لیے وہ تھوڑی سی بد احتیاطی سے بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں، سردیوں میں ناک بہنا، زکام، کھانسی، بخار، سانس کا تیز چلنا بچوں میں ہونے والی عام علامات ہیں۔ ان سب پر مناسب توجہ سے آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے۔

ان حالتوں میں زیادہ تر سانس کے نظام کا اوپر والا حصہ متاثر ہوتا ہے۔ یہ عموماً وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن کوئی اور بیکٹیریا بھی انفیکشن کرسکتا ہے اور مناسب توجہ نہ دینے کی وجہ سے نمونیہ اور ٹی بی جیسے موذی مرض بھی ہوسکتے ہیں جس سے بچے کے لیے بہت زیادہ مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

علاج اور بچاؤ

-1نظام تنفس کے اوپر کے حصہ کی بیماریاں جنہیںURTIبھی کہتے ہیں یا تو وائرس کی وجہ سے ہوتی ہیں یا پھر بیکٹیریا کی وجہ سے۔ ان میں بچہ بے چین ہوتا ہے۔ بخار کی وجہ سے جسم گرم محسوس ہوتا ہے۔ ٹانسل اور نظام تنفس کے اوپر والے حصے کے دوسرے حصے سوجے اور پھولے نظر آتے ہیں۔ سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔

ان سب حالات میں ماں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس کا کام ہے کہ تسلی سے بچہ کی حرکات و سکنات اور رویے میں تبدیلی کو دیکھے اور ان حالات میں بچے کو ایک صاف اور ہوا دار کمرے میں رکھا جائے۔ دوسرے صحت مند بچوں کواس سے دور رکھا جائے۔

-2بخار وغیرہ کی صورت میں بچے کو کچھ نہ کچھ کھلاتے پلاتے رہنا چاہیے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ مائیں اس صورت میں بچے کو کھلانے پلانے سے احتراز کرتی ہیں۔ ماں کو بد ستور اپنا دودھ پلاتے رہنا چاہیے اور زیادہ تر پینے والی اشیاء دینا چاہئیں۔

-3بچے کی نیند اور آرام کا مکمل خیال رکھنا چاہیے۔

-4اگر ٹمپریچر زیادہ ہو تو پھر ٹھنڈی پٹیاں کر کے اس کو کنٹرول کرنا چاہیے۔

-5بخار کم کرنے کے لیے کوئی بخار کم کرنے والی دوا استعمال کریں لیکن 12سال سے کم عمر بچوں میں اسپرین یا ڈسپرین کبھی استعمال نہ کی جائے کیونکہ اس سے جگر اور دماغ کی بیماری ہوسکتی ہے۔

-6مچھلی کا تیل(Cod liver oil) یا شہد بچوں کے لیے اچھی غذا ہے اور یہ نظام تنفس کے امراض کو روکنے میں مدد کرسکتے ہیں۔

-7بہت سے ایسے امراض ہیں جن میں اینٹی بائیوٹکس دواؤں کے استعمال کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ان کی ضرورت وائرس سے ہونے والی انفیکشن میں بالکل نہیں ہوتی۔

اگر اوپر دی گئی ہدایات پر عمل کرنے سے بچے کا بخار کم نہ ہو اور سانس میں رکاوٹ بد ستور بر قرار رہے تو پھر ڈاکٹر سے مشورہ کرکے بچے کا باقاعدہ علاج شروع کروانا چاہیے تاکہ باقاعدہ تشخیص کرکے صحیح علاج کیا جاسکے۔

 بڑی عمر کے لوگوں میں ہونے والی علامات، بیماریاں اور علاج

سردیوں کے موسم میں بچوں کی طرح بڑے بھی مختلف بیماریوں اور چیسٹ انفیکشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جان لیوا خشک کھانسی اور بلغمی کھانسی پیچھانہیں چھوڑتی۔ گلے میں سوجن کی وجہ سے آواز نہیں نکلتی۔ زکام کی وجہ سے ہر وقت ناک بہتا رہتا ہے۔ دمہ کے مریضوں میں انفیکشن کی وجہ سے دمہ کے مرض میں شدت آجاتی ہے۔

 خشک اور بلغمی کھانسی کا علاج

انسانی جسم کا مدافعتی نظام بہت مضبوط ہے۔ جب بھی جسم پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے جسم کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا مقابلہ کیا جائے۔ کھانسی کا آنا بھی اسی مدافعتی نظام کا حصہ ہے۔ کھانسی کے ذریعے سانس کی نالی کے اوپر والے حصے سے جمی ہوئی بلغم باہر نکلتی ہے جس سے سانس لینا آسان ہو جاتا ہے۔

کھانستے رہنے سے سانس کی نالی صاف ہوتی رہتی ہے۔ اس بلغم کا اخراج نہ ہو تو سانس کی نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں اور یوں سانس پھولنے اور دمہ کی بیماری کے حملے ہونے لگتے ہیں۔ اس لیے اس طرح کی کھانسی کو روکنے کے لیے کسی قسم کی دوا کی ضرورت نہیں رہتی۔

اصل میں کھانسی کی دوا صرف اور صرف اس وقت استعمال کرنا چاہیے جب اس کے ساتھ ساتھ دوسری تکالیف ہوں یعنی بخار یا کوئی اور انفیکشن جن کا علاج بہت ضروری ہے۔

بعض اوقات گرم پانی اور نمک کے غرارے کرنے یا پھر بھاپ لینے سے کھانسی دور ہو جاتی ہے۔ مختلف قسم کی نت نئی کھانسی کی دوائیں حقیقتاً کھانسی روکنے میں ذرا بھی مدد نہیں کرتیں۔ ان کا بے جا استعمال صرف اور صرف پیسے کا ضیاع ہے۔ اس لیے ان کے استعمال سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔

آسان اور متبادل علاج

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ کھانسی کم کرنے یا روکنے والے مختلف شربت دیکھنے میں بہت بھلے اور ا چھے لگتے ہیں۔ جیب پہ بھی خاصا بوجھ ڈالتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس لیے ان سب سے جتنا بھی بچا جائے بہتر ہے۔ تھوڑی بہت کھانسی ہونا فائدہ مند ہے۔ اس سے سانس کی نالی صاف ہوتی رہتی ہے۔ زیادہ کھانسی کی صورت میں مندرجہ ذیل گھریلو علاج فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے:

ژگرم پانی میں نمک یا ڈسپرین ڈال کر غرارے کریں۔

ژصبح دوپہر شام دو چمچ شہد میں چار دانے پسی ہوئی سیاہ مرچ ملا کر استعمال کریں۔

ژصبح دوپہر شام ملٹھی استعمال کریں۔

ژرات کو سونے سے پہلے کھلے برتن میں گرم پانی ڈال کر اس میں Tinc Benzco کے چند قطرے یا نمک ملا کر بھاپ لیں۔

ژزکام کی صورت میں گرم چنے لے کر ان کی بھاپ لیں۔

ژشہد ملا ہوا انگور کا جوس، کھانسی کا موثر ترین علاج ہے۔

(ایک کپ انگور کا جوس+ ایک چمچہ شہد)

ژمیٹھے بادام کی چھ سات گریاں پانی میں بھگوئیں۔ صبح چھلکا اتار کر چینی اور مکھن کے ساتھ ملا کر پیسٹ بنائیں۔ خشک کھانسی کے لیے مجرب نسخہ ہے۔

زکام اور سر درد سے نجات

بعض نام نہاد حکیم اور جعلی ڈاکٹر ذرا سے زکام میں مختلف دواؤں کی کاک ٹیل بنا کر دیتے ہیں جس میں درد دور کرنے والی دوا الرجی کے لیے دوا، اینٹی بائیوٹک دوا اور سٹیر ائیڈ شامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس سے فوری افاقہ تو ہو جاتا ہے لیکن ان دواؤں کے مضر اثرات کی وجہ سے بعد میں خاصے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

زکام یا فلو ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں ان ساری دواؤں کے استعمال کا ذرا بھی فائدہ نہیں۔ زکام میں ناک میں ڈالنے والی یا بند ناک کھولنے والی دواؤں سے حتی المقدور پرہیز کریں کیونکہ اس سے بلڈ پریشر اور خون کی نالیاں سکڑنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

اس لیے بہتر ہے کہ ایسی تمام دواؤں کے استعمال سے بچا جائے۔ تاہم زکام کی وجہ سے اگر سر درد یا بخار ہو تو اس صورت میں سر درد یا بخار کے لیے پیراسٹا مول یا ڈسپرین لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس طرح زکام میں سٹیرائیڈز اور اینٹی بائیوٹک دواؤں کے استعمال کا بالکل کوئی فائدہ نہیں۔ زکام ہونے کی صورت میں مندرجہ ذیل آسان گھریلو نسخے پر عمل کریں:

ژزکام یا فلو ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے جس پر مختلف قسم کی دواؤں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کا سب سے بہتر علاج بھاپ لینا ہے۔ بھاپ لینے سے وائرس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

ژزکام کے دوران وٹامن سی کا استعمال بھی فائدہ مند ہے۔ وٹامن سی کے لیے اورنج جوس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ژزکام کے دوران سوپ لیں اور جوشاندہ وغیرہ کا استعمال کریں۔

ژکھانسی اور گلے کی خراش کی صورت میں غرارے کریں۔

ژملٹھی کا استعمال کریں۔

گلے کے امراض کے لیے دوائیںاور علاج

گلے کی مختلف تکالیف کے لیے دواؤں کا استعمال کرتے وقت اس بات کا تعین کرنا بہت ضروری ہے کہ واقعی دوا کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔ معمولی گلا خراب ہونے یا گلے میں خارش ہونا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ کھانے پینے میں احتیاط نہ کرنے اور بہت زیادہ ٹھنڈی یا زیادہ گرم اشیاء کھانے سے بھی گلا خراب ہو جاتا ہے۔ جو ایک آدھ دن بعد خودبخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ گلے میں انفیکشن ہونے کی صورت میں اینٹی بائیوٹک دواؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کرلیا جائے۔ گلے کی معمولی تکلیف بعض اوقات صرف غرارے کرنے سے ٹھیک ہو جاتی ہے۔ تکلیف زیادہ دیر برقرار رہے تو بہتر ہے ڈاکٹر کے مشورہ سے علاج کیا جائے۔

آسان اور متبادل علاج

گلے کی تکالیف دور کرنے کے لیے مندرجہ ذیل آسان آزمودہ نسخوں پر عمل کریں۔

ژنیم گرم پانی میں نمک ملا کر باقاعدگی سے غرارے کریں۔

ژادرک کے رس میں شہد ملا کر چاٹنے سے بھی گلا ٹھیک ہو جاتا ہے۔

ژذرا سی سونف منہ میں ڈال کر دن میں کئی بار چبائیں اور اس کا رس نگل لیں۔

ژآواز بیٹھ جانے کی صورت میں آدھا لیٹر پانی میں تھوڑی سی سونف ڈال کر پکائیں۔ چوتھا حصہ رہ جائے تو اسے اتار کر حسب ذائقہ چینی ملا کر دو تین بار دن میں استعمال کریں۔ آواز ٹھیک ہو جائے گی۔

ژایک چمچ ’’سرکہ‘‘ پانی میں ڈال کر غرارے کریں۔

ژایک لیموں کو پانی میں دس منٹ تک ابالیں۔ اس کا جوس نکال کر ایک گلاس میں ڈالیں۔ اس میں دو چمچ گلیسرین ڈال کر اچھی طرح ہلائیں، دو چمچ شہد ڈالیں اور گلاس کو پانی سے بھر لیں۔ کھانسی کا قدرتی شربت تیار ہے۔ گلے کی خرابی میں ہونے والی کھانسی کے دوران 5 دن تک دو چمچ صبح، دوپہر، شام استعمال کریں ان شاء اللہ افاقہ ہوگا۔

ژملٹھی اور سونف کا استعمال بھی کھانسی روکنے میں ممد ثابت ہوتا ہے۔

دمہ میں استعمال ہونے والی دوائیں، احتیاط اور علاج

دمہ بچوں اور بڑوں کے لیے ایک بہت تکلیف دہ بیماری ہے۔

اس میں بار بار سانس اکھڑتا ہے جو بعض حالتوں میں خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

دمہ بعض اوقات الرجی کرنے والی اشیاء مثلاً گرد، ہاؤس مائٹ، پولن گرین یا کھانے پینے کی اشیاء کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر انفیکشن کی وجہ سے جس کی و جہ سے سانس کی نالیوں میں بلغم جمع ہو جاتا ہے ان حالتوں میں سب سے بہتر علاج الرجی کرنے والے عناصر سے پرہیز اور انفیکشن کو کنٹرول کرنا ہے۔

دمہ کے علاج کے لیے مختلف قسم کی دوائیں دستیاب ہیں۔ ان میں گولیاں، شربت اور انہیلر شامل ہیں لیکن دواؤں کے استعمال میں سب سے ضروری امر یہ ہے کہ دوا استعمال کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے بعض نام نہاد حکیم اور ڈاکٹر دمہ میں فوری طور پر سٹیرائیڈ دواؤں کا استعمال شروع کرا دیتے ہیں۔ جس کا کسی طرح بھی کوئی جواز نہیں بنتا۔ دمہ کے علاج کے لیے مختلف قسم کی اینٹی الرجی ویکسین بھی بنائی جاتی ہیں۔ لیکن تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ تمام ویکسین زیادہ موثر ثابت نہیں ہوتیں۔

آسان اور متبادل علاج

اگر آپ ’’دمہ‘‘ کا شکار ہیں تو گھبرائیے نہیں۔ اس کا حل آپ کے پاس موجود ہے۔ سب سے پہلے ان چیزوں کو جاننے کی کوشش کیجئے جن سے آپ پر دمہ کا حملہ ہوتا ہے۔ ان عوامل سے بچیں۔ مٹی، گرد وغیرہ سے اپنے آپ کو بچائیں۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل گھریلو نسخوں پر عمل کریں۔ ان شاء اللہ افاقہ ہوگا۔

ژکھانے پینے کی ایسی تمام اشیاء سے پرہیز کریں جن کے کھانے سے آپ کو الرجی ہو یا دمہ کا حملہ ہو۔

ژاپنی روزمرہ کی خوراک میں انگور، کھجور اور امرود کا باقاعدہ استعمال کریں۔

ژتلسی کے پتے، ادرک، پیاز لے کر ان کا جوس نکالیں اور اس میں شہد کے دو چمچ ملا کر دو چمچ صبح دوپہر شام استعمال کریں۔

ژسبزیوں کا زیادہ استعمال کریں۔ گاجر کے موسم میں اس کا جوس استعمال کریں۔

ژلیموں کے رس میں ادرک اور شہد ملا کر استعمال کریں۔

ژسبزیوں کا سوپ صبح شام لیں۔

ژسادہ غذا لیں، مرغن غذاؤں سے پرہیز کریں، تلی ہوئی چیزوں اور زیادہ گھی اور تیل والی تمام اشیاء کے استعمال سے پرہیز کریں۔

ژکولڈ ڈرنکس اور سگریٹ نوشی سے مکمل کنارا کشی کر لیں۔

ژروزانہ دو چمچ شہد کا استعمال دمہ اور سانس کی دیگر بیماریوں میں موثر ثابت ہوتا ہے۔

ژتین یا پانچ انجیروں کو گرم پانی سے صاف کر کے رات بھر گھڑے کے پانی میں ڈال کر رکھیں۔ نہار منہ انجیریں کھا کر گھڑے والا پانی پی لیں۔ صرف پندرہ دن یہ عمل کریں۔ بیماری سے افاقہ ہوگا۔

The post موسم سرما میں لاحق ہونے والی بیماریوں سے کیسے محفوظ رہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

پنجاب میں جانوروں پرتشدد کی روک تھام کے لئے سزائیں اور جرمانے بڑھانے کا فیصلہ

$
0
0

 لاہور: جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنیوالی این جی اوزکے مسلسل مطالبے کے بعد پنجاب حکومت نے جانوروں پرتشدد کی روک تھام کے ایک صدی پرانے قانون میں ترمیم کرکے سزائیں اور جرمانے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اینیمل رائٹس ایکٹیوسٹ عنیزہ خان عمرزئی نے ایکسپریس ٹربیون کوبتایا کہ جانوروں سے پرتشدد کی بجائے ان سے پیاراوران کی ویلفیئر سے متعلق ہمیں بچوں کو پرائمری سطح پرہی پڑھانے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے سلیبس میں یہ چیزیں شامل ہونی چاہیں ، بچوں کو مذہبی ،سماجی اور اخلاقی پہلوؤں سے سمجھایا جائے کہ جانوروں کو مارنا نہیں بلکہ ان سے پیار کرنا چاہئے۔  ہماری یہاں ابھی تک جانوروں پرتشدد کی روک تھام بارے 1890 کاایکٹ ہی چل رہا ہے۔ ایک صدی پرانے اس قانون میں ترامیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔

پاکستان میں اینمل ویلفیئرخاص طورپرگدھوں اور گھوڑوں کی ویلفیئرکے لئے سرگرم بین الاقوامی ادارے بروک کے ایڈوکیسی مینجر سید نعیم عباس نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا ” اب ہمیں پرانے قوانین کوبدلنے کی ضرورت ہے،پرانے قانون میں وفاقی سطح پر 1998 میں چند ترامیم کی گئی تھیں جن کے تحت جانوروں پرتشدد اورانہیں مارنے کی سزا جوایکٹ میں 50 روپے سے 200 روپے تک تھی اسے بڑھاکر25 ہزارسے 3 لاکھ روپے تک کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی اس قانون کو صوبوں نے آج تک نافذ نہیں کیاہے۔ سیدنعیم عباس کہتے ہیں اب جانوروں پرتشددکی روک تھام سے بڑھ کران کی ویلفیئرکے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے.

پنجاب لائیو اسٹاک کے ڈائریکٹر کمیونیکشن و ترجمان ڈاکٹرآصف رفیق نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے جانوروں پرتشدد کی روک تھام کے ایکٹ میں ترامیم کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کے ماہرین، جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنیوالی ملکی اورغیرملکی این جی اوز سے مشاورت کی گئی ہے۔ ان تجاویزکی روشنی میں جوڈرافٹ تیارکیاگیا ہے وہ حتمی معائنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو بھیجا چکا ہے۔ اب دوسرے مرحلے میں ہم اسے محکمہ قانون کو بھیجیں گے اور پھر سمری کی شکل صوبائی کابینہ کو بھیج دیا جائیگا تاکہ اسے منظوری کے بعد قانون کی شکل دی جاسکے اوراس کے بائی لاز بن سکیں۔

سید نعیم عباس نے بتایا کہ موجودہ ایکٹ میں صرف مال برداری میں استعمال ہونیوالے جانوروں کو شامل کیا گیا تھا تاہم اب ہم نے جو تجاویز دی ہیں اس میں مال بردار جانوروں کے ساتھ گھریلو پالتو جانور، کتے، بلیاں اور آوارہ جانور بھی شامل کئے گئے ہیں۔  کسی بھی جانورپرتشدد،ضرورت سے زائد وزن لادنے، پالتو جانور کو مناسب خوراک نہ دینے، اس کی رہائش مناسب نہ ہونے پر بھی پنجاب لائیو اسٹاک کو چیکنگ اور خلاف ورزی پر جانور کے مالک کو جرمانے اور سزا کا اختیار ہوگا جبکہ جانور کو ریسکیو کرکے حفاظتی تحویل میں بھی لیا جاسکے گا۔

عنیزہ خان عمرزئی کا کہنا ہے کہ ایکٹ میں ترمیم کے لئے جو تجاویز دی گئی ہیں ان میں تمام قسم کے جانوروں پرتشدد اور انہیں مارنے کے خلاف سزائیں بڑھانے کی تجاویز ہیں۔ 5 ہزار سے 5 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جاسکے گا جبکہ قید کی سزائیں بھی بڑھائی جائیں گی۔ اس میں یہ تجاویز بھی ہیں کہ اگر کوئی فرد انفرادی طور پر کسی جانور کو مارتا ہے تو اس کے لئے الگ سزا ہوگی تاہم اگر کسی ادارے میں جانوروں پرتشدد ہوتا ہے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا تو انہیں زیادہ جرمانہ کیا جائے گا۔

بیدیاں روڈ لاہور کے رہائشی محمد نعیم نے اپنے فارم میں شیروں سمیت کئی جنگلی جانور پال رکھے ہیں، جبکہ ان کا گھر بھی فارم سے متصل ہے۔ محمد نعیم کہتے ہیں انہیں بچپن سے ہی جنگلی جانوروں خاص طورپر شیروں سے بہت لگاؤ ہے ،ان کو پالنا ایک مہنگا شوق ہے مگروہ پورا کررہے ہیں۔ جنگلی جانوروں کو کھلے ماحول میں رکھنا چاہئے ، پنجروں میں رکھنا مجبوری ہے ،جانوروں کی ویلفیئر کے جو بھی قانون بنتا ہے وہ اس کا خیرمقدم کریں گے۔

ماہرین کے مطابق جانوروں کو کھیل تماشوں میں استعمال کرنا، کاروباری مقاصد، یا ذاتی شہرت کے لئے جانوروں کی تشہیربھی ان پرظلم تصورکیاجائیگااوراس پربھی جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں، کان کنی اورزرعی شعبے میں آج بھی گدھوں اور گھوڑوں کا استعمال ہورہا ہے اور اس شعبے میں استعمال ہونے والے جانوروں کاکوئی خاص خیال بھی نہیں رکھا جاتا ہے۔

The post پنجاب میں جانوروں پرتشدد کی روک تھام کے لئے سزائیں اور جرمانے بڑھانے کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

اعمال میں اخلاصِ نیّت کی اہمیت

$
0
0

ﷲ تعالیٰ ہر کام میں انسان کی نیّت دیکھتا ہے اور اس کا مطلب ہے ارادہ۔ ارادہ نیک بھی ہوتا ہے اور بد بھی۔ اسی طرح خُلوص کا مطلب ہے ہم دردی و انسان دوستی۔ اور دوستی درد مندی کی بھی ہوتی ہے اور غرض مندی کی بھی۔ اِس دنیا میں تو کوئی کام بھی ہو خواہ وہ صالح نیّت سے کیا جائے یا فاسد نیّت سے وہ یہاں تو چل ہی جائے گا کیوں کہ یہاں تو ظاہرداری نبھائی جاتی ہے، لیکن آخرت میں چوں کہ نیّت اور دل کے ارادے اور بھید کے مطابق مقبولیت و مردودیت کا دار و مدار ہے اس لیے وہاں پر صرف وہی عمل قبول ہوگا جو صالح نیّت و ارادے سے کیا گیا ہے۔ لہٰذا جو عمل بھی صالح اور نیک نیّت و ارادے سے صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی اور خوش نُودی کے لیے کیا گیا ہو اسی کا نام خُلوص ہے۔

حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سُنا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے: تمام انسانی اعمال کا دار و مدار صرف نیّت پر ہے اور آدمی کو اس کی نیّت ہی کے مطابق پھل ملتا ہے تو جس شخص نے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہجرت کی تو اس کی ہجرت درحقیقت اﷲ تعالیٰ و رسول ﷺ ہی کی طرف ہوئی اور جو کسی دنیاوی غرض کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی خاطر مہاجر بنا تو عنداﷲ بس اسی کی طرف اس کی ہجرت مانی جائے گی۔

اس حدیث شریف کا اصل مقصد درحقیقت یہ واضح کرنا ہے کہ تمام اعمال صالحہ کی قبولیت و مردودیت کا دار و مدار بس نیّت پر ہی ہے اور صرف اسی عمل کی اﷲ تعالیٰ کے ہاں قدر و قیمت بھی ہوگی جو صالح نیّت سے کیا گیا ہوگا اور جو عمل صالح بھی کسی بُری غرض اور فاسد نیّت سے کیا گیا ہوگا وہ عمل قبول نہیں ہوگا بل کہ نیّت کے مطابق فاسد اور مردود ہی ہوگا، اگر چہ ظاہر میں وہ صالح ہی معلوم ہوتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ عمل کے ساتھ نیّت کا اور ظاہر کے ساتھ باطن کا بھی دیکھنے والا ہے اس کے یہاں ہر عمل کی قیمت عمل کرنے والے کی نیّت کے حساب سے لگائی جائے گی۔

اس کلیے سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونا چاہیے کہ جب دار و مدار نیّت پر ہے تو پھر چوری چکاری اور ڈاکا زنی بھی اگر اس نیّت سے کی جائے کہ اس سے جو مال حاصل ہوگا وہ اس سے غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرے گا تو وہ بھی ثواب کا مستحق ہوگا، یہ بالکل خود فریبی اور خام خیالی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جو کام فی نفسہ مردود ہیں اور بے شک جن کو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دے دیا ہے، ان میں تو حُسن نیّت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا وہ تو یہ بہ ہر حال اپنی اصلیت میں ہی قبیح اور موجب غضب الہٰی ہیں بل کہ ان کے ساتھ اچھی نیّت وابستہ کرنا اور ان پر ثواب کی اُمید بھی رکھنا ان کے لیے گناہ میں اور زیادتی ہی کا باعث ہے۔

کیوں کہ یہ اﷲ کے دین کے ساتھ مذاق ہوگا۔ دراصل حدیث شریف کا منشاء ہی یہ ہے کہ جو اعمال صالح بھی اگر کسی بُری نیّت سے کیے جائیں گے تو وہ اعمال صالح نہیں رہیں گے بل کہ بُری نیّت کے باعث ان کا انجام بھی بُرا ہی ہوگا۔ مثال کے طور پر کوئی شخص بہت ہی پابندی کے ساتھ پنج وقتہ نماز ادا کرتا ہے اور اگر وہ شخص نماز پنج گانہ پابندی کے ساتھ اس لیے پڑھتا ہے کہ لوگ اس کو دیکھ کر اس کی دین داری اور خدا پرستی اور پرہیزگاری کے بارے میں اس کے متعلق اچھی رائے قائم کریں اور اس کو ایک اچھا دین دار، نمازی اور پرہیزگار خیال کر کے اس کی عزت و عظمت کرنے لگیں تو اس حدیث شریف کی رُو سے یہ اس کی نماز اور پرہیزگاری اﷲ تعالیٰ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتی اور یا یہ کہ مثال کے طور پر کوئی شخص دارالکفر سے دارالامان کی طرف ہجرت کرتا ہے اور ہجرت کی مصیبتیں بھی برداشت کرتا ہے لیکن اِس ہجرت سے اس کی کوئی اﷲ کی رضا جوئی و خُوش نُودی مطلوب نہ ہو بل کہ کوئی اور دنیاوی غرض اِس میں پوشیدہ ہو، مثال کے طور پر دارالامان میں رہنے والی کسی عورت سے نکاح کی خواہش اس ہجرت کی محرک ہوئی ہے تو یہ ہجرت اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی اور خُوش نُودی کے لیے نہ ہوگی اور نہ ہی اﷲ کے یہاں اس کا کوئی اجر ملے گا بل کہ گناہ ہوگا یہی اس حدیث شریف کا اصل مقصد ہے۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن ایسے تین قسم کے اشخاص کے بارے میں بارگاہِ ایزدی سے جہنّم کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ پہلے ایک ایسے شخص کی پیشی ہوگی جس نے جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور خُوب بہادری کے جوہر دکھائے اور آخر شہید ہوگیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ پہلے تو اس کو اپنی عطا کی ہوئی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ اس کو یاد بھی آجائیں گی۔ پھر اس سے دریافت فرمائے گا کہ بتا تُونے کیا اِن نعمتوں کا حق ادا کیا اور کیا عمل کیا ؟ وہ شخص کہے گا: یاالہٰی! میں نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تیری رضا طلبی کے لیے جان عزیز تک قربان کر دی۔ حکم ہوگا کہ تُو جھوٹا ہے تُونے تو صرف اس لیے جہاد کیا تھا کہ دنیا میں تو بہادر مشہور ہو اور دنیا میں تیری بہادری کا خوب چرچا ہوگیا۔ پھر اﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ اس کو اوندھے منہ جہنّم میں ڈال دو۔

اس کے بعد ایک عالم دین پیش ہوگا اس سے بھی اﷲ تعالیٰ دریافت کرے گا کہ بتا تُونے دنیا میں کیا اعمال کیے ؟ وہ کہے گا کہ تیرے دین اور تیری کتاب کے علم کو پڑھا اور پڑھایا اور یہ سب تیری رضا کے لیے کیا۔ حکم ہوگا تُو جھوٹا ہے تُونے تو علم قاری صاحب اور مولانا صاحب کہلانے کے لیے پڑھا تھا۔ پھر بہ حکم خداوندی اس کو بھی دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر اس کے بعد ایک اور شخص پیش ہوگا جس کو اﷲ تعالیٰ نے بہت مال و دولت دیا ہوا تھا اس سے بھی یہی سوال کیا جائے گا۔ وہ کہے گا کہ اے اﷲ! میں نے خیر کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جس میں تیری رضا جوئی کے لیے اپنا مال نہ خرچ کیا ہو۔ حق تعالیٰ فرمائے گا کہ تُو جھوٹا ہے۔ تُونے صرف اس لیے مال خرچ کیا تھا کہ دنیا میں تجھ کو سخی کہا جائے تو دنیا میں تیری سخاوت کا خوب چرچا ہوگیا پھر اس کو بھی جہنّم میں جانے کا حکم ہوگا۔

قرآن مجید میں بھی اچھی اور بُری نیّت کے بارے میں ارشادات موجود ہیں۔ صدقات و خیرات کرنے والے دونوں قسم کے لوگوں کا ذکر فرمایا گیا ہے اور پھر ان کا انجام بھی فرمایا گیا ہے۔ ایک میں وہ لوگ ہیں جو محض دُنیا کے دکھاوے کے لیے اپنا مال کار خیر میں خرچ کرتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو محض اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی اور خُوش نُودی کے لیے اپنا مال غریبوں اور مساکین اور حاجت مندوں کی مدد کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ اب ان دونوں قسم کے لوگوں کے اگر چہ ظاہر ی عمل یک ساں تھے اور بہ ظاہر ان میں یک رنگی بھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بہ ظاہر دیکھنے والا ان دونوں کے درمیان کسی قسم کے فرق کا کوئی حکم بھی نہیں لگا سکتا۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کا حکم ہمارے سامنے ہے اور قرآن حکیم ہمیں صاف بتلا رہا ہے کہ ان کی نیّتیں مختلف تھیں۔

اس لیے ان کے نتیجے بھی مختلف ہیں۔ ایک کا عمل سراسر برکت والا اور دوسرے کا بالکل اکارت و رائیگاں۔ مال تو اگرچہ دونوں نے ہی بہ ظاہر یک ساں طور پر خرچ کیا لیکن چوں کہ ایک کی نیّت محض دکھاوے کی تھی اس لیے اس کو لوگوں کے دیکھ لینے یا کچھ وقتی طور پر تعریف و توصیف کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا، کیوں کہ اس کی نیّت ہی اس انفاق سے اس کے سوا کچھ نہیں تھی۔ لیکن دوسرے نے چوں کہ اس اثار و اتفاق سے صرف اﷲ کی رضا جوئی اور اس کا فضل و کر م چاہا تھا اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اس کو اس کی نیّت کے مطابق پھل دیا۔

بس یہی سُنّت اﷲ اور قانون قدرت ہے جس کا اعلان نبی کریم ﷺ نے درج بالا حدیث شریف میں فرمایا ہے۔ یہ دنیا جس میں ہمیں کچھ کرنے کا موقع دیا گیا ہے یہ عالم ظاہر ہے۔ یہاں ہر کام کا فیصلہ ظاہر پر ہی ہوتا ہے اور ظاہری حالت دیکھ کر ہی کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جاتی ہے اور اِسی بنیاد پر اس کے ساتھ معاملات کیے جاتے ہیں۔ لیکن عالم آخرت میں چوں کہ فیصلہ کرنے والا خود اﷲ تعالیٰ علام الغیوب ہوگا وہاں پر اس کا فیصلہ نیّتوں اور دل کے ارادوں کے لحاظ سے ہوگا۔ گویا جس طرح یہاں پر احکام کے بارے میں ظاہری اعمال اصل ہیں اور کسی کی نیّت پر یہاں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح وہاں معاملہ اس کے بر عکس ہوگا اور حق تعالیٰ کا فیصلہ نیّتوں پر ہوگا۔

اخلاص وہ چیز ہے کہ جس کی ہر کام میں اور ہر قدم پر ضرورت ہے اور زندگی کے ہر موقع پر نیک نیّتی اور خلوص ہی کام آتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے دونوں طرح کے انسانوں کے بارے میں صاف فرما دیا ہے کہ وہ شخص جو محض لوگوں کے دکھاوے کے لیے اپنا مال خرچ کرتا ہے وہ حقیقت میں اﷲ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی پتھر پر کچھ مٹی جم گئی ہو اور پھر اس پر کچھ سبزہ بھی اُگ آیا ہو اور پھر اس پر زور دار بارش برسے جو اس مٹی کو بہا لے جائے اور وہ جگہ بالکل صاف پتھر رہ جائے۔ تو ایسے ریا کار لوگ اپنی کمائی کا کچھ بھی پھل نہ لے سکیں گے اور ایسے منکر لوگوں کو اﷲ تعالیٰ اپنی ہدایت اور اِس کے پھل سے محروم ہی رکھے گا۔

دوسرے وہ لوگ ہیں جو صرف اﷲ کی رضا جوئی کے لیے اور اپنے نفس کو ایثار و قربانی کا عادی بنانے کے لیے اپنا مال اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، وہ اُس پھلنے والے باغ کی طرح ہے کہ جب اس پر زور دار بارش ہو تو دگنے اور چوگنے پھل لائے۔ صالح نیّت کی برکت سے دنیاوی کام بھی عباد ت بن جائیں گے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم جو عمل بھی کریں اس پر اﷲ تعالیٰ کی مرضی و خوش نُودی اور اس کی پسندیدگی کا خیال رہے۔ خواہ وہ اعمال معروف عبادات میں سے ہوں یا دیگر دنیاوی کام و معاملات ہوں اگر وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم اور ہمارے ہادی و راہ نما ﷺ کی سنّت کے مطابق ہوں گے تو یہی کام ہماری عبادت بن جائیں گے۔

اﷲ تعالی ہمیں خلوص نیّت عطا فرمائے۔ آمین

The post اعمال میں اخلاصِ نیّت کی اہمیت appeared first on ایکسپریس اردو.

تنقید کیا ہے؟

$
0
0

زباں فہمی 126

آپ کسی خواندہ شخص سے پوچھیں، تنقید کا مطلب کیا ہے، وہ کہے گا: ’’کِیڑے نکالنا، برائی کرنا‘‘، ایسے کتنے لوگ ہیں جو یہ باریک نکتہ جانتے ہوں اور سمجھا سکتے ہوں کہ جناب! تنقید کا یہ مطلب بالکل غلط ہے۔ ہمارے نِیم خواندہ معاشرے میں تنقیدی مزاج کے حامل شخص کو بہت بُرے القاب سے یاد کیا جاتا ہے اور شاذ ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اس کی بات سمجھ کر کچھ کرنے پر آمادہ ہوجائے۔

راقم نے اپنی تحریروتقریر میں بارہا یہ نکتہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ تنقید کا مطلب تحسین (تعریف) ہے نا تنقیص (نَقص یا خرابی نکالنا)…..ادبی پیرائے میں کہوں تو تنقید تحسین ِناشناس (ناواقف شخص کی طرف سے کی گئی تعریف) ہے نا تنقیصِ نارَوا (نارَوایا بے جا کی گئی بُرائی، تنقیص)….. بلکہ اس کا درست مفہوم ہے، کھوٹے کو کھرے سے، خام کو پُختہ سے، خوب کو زِشت سے، اچھے کو بُرے سے جُدا کرکے دکھانا;اگر نثر یا نظم کی بات ہوتو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی کلام میں خرابیوں، خامیوں، نقائص یا کمی کی نشان دِہی (دال کے نیچے زیر) کرنا، ان کی اصلاح، تدارُک اور سَدّباب کی ہدایت، تجویز یا مشورہ دینا، اس بابت پوری معلومات فراہم کرنا اور اگر کوئی خوبی ہے تو اُسے فراخ دِلی سے سراہنا۔ بقول آل احمد سُرُور،ؔ تنقید کا مطلب ہے، ’’دودھ کا دودھ، پانی کا پانی کرنا‘‘۔

اس کے علاوہ ایک مثال سے یوں بھی واضح کیا جاسکتا ہے کہ آپ کی جیب میں بہت سے سِکّے ہیں، مگر آپ کو خبر نہیں کہ اِن میں کچھ کھوٹے ، ناکارہ یا مترُوک ہیں، یعنی آپ انھیں بازار میں نہیں چلاسکتے….تو آپ کو اس بارے میں کون بتائے گا؟ وہی شخص بتائے گا جو یہ بات اچھی طرح جانتا ہو۔ (بات کی بات ہے کہ مُحاورے میں کہتے ہیں، کبھی کبھی کھوٹا سِکّہ بھی چل جاتا ہے /کام آجاتا ہے تو ہمارے یہاں شعرواَدب میں بھی ایسی مثالوں کی بُہتات ہے کہ شعری قواعد یعنی علم عَروض کی خبر نہیں، طبیعت موزوں نہیں، شعر کے مُوسِیقی سے تعلق کا پتا نہیں، کچھ بھی لکھ مارا اور چَڑھانے والوں نے اتنا اوپر چڑھا دیا کہ بہ زَعمِ خویش (خیش، واؤ معدولہ کے ساتھ) اپنے آپ کو اُستاد سمجھنے لگے۔

ایک شاعر یا ادیب کسی کلام یا تحریر میں کوئی بھی سُقم تلاش کرکے خلوص ِدل سے مشورہ دیتا ہے کہ اس کی جگہ یوں لکھیں یا کہیں، یوں کرلیں تو بہتر ہوجائے گا۔ ایسا ناصح آپ کا سچا خیرخواہ یا بِہی خواہ ہے (بے کے نیچے زیر)، اُسے مخالف، حاسد یا دُشمن نہ سمجھیں۔ اب کیا کریں، ہمارے یہاں بعض تصورات عوام الناس اور اہل قلم میں یکساں طور پر غلط رائج ہوچکے ہیں۔

یہاں یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ جو لوگ اس کالم میں خاکسار کے نجی تجربات اور ذاتی مشاہدات کا ذکر باربار دیکھ کر بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، اُنھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی معاملے میں ابتدائی معلومات کا ماخذ ، (تقریباً ہمیشہ) ذاتی ہی ہوا کرتا ہے اور یہ بھی جان لیں کہ جس معاملے میں آپ کسی خاص تجربے سے دوچار نہیں ہوئے، کسی دوسرے کے ساتھ ہونے والے کسی تجربے کا علم نہیں، مشاہد ہ بھی نہیں کیا تو پھر آپ کی کوئی بات خواہ کتنی ہی سچی ہو، اس پر اعتبار کرنا ہر ایک کے لیے آسان نہیں۔ یہ تمہید اس لیے باندھنی پڑی کہ اس ہِیچ مَدآں نے متعدد کتب بشمول مجموعہ ہائے کلام پر خامہ فرسائی کی ہے اور کئی بار اُسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

بیرون ملک مقیم ایک بزرگ شاعرہ کے کلام پر اُنھی کے اصرار کے بعد، خاکسار نے ایک مضمون لکھا جس کے آخر میں کچھ خامیوں کی نشان دِہی کی جسارت کی….بس جناب غضب ہوگیا وہ ساری عمر کے لیے خفا ہوگئیں، یہ بھی نہ دیکھا کہ پورے مضمون میں کس کس طرح اُن کے کلام کی تعریف کی گئی ہے۔ ایک بزرگ معاصر بہت شفقت فرماتے تھے۔ انھوں نے اپنے دونوں مجموعہ ہائے کلام یکے بعد دیگرے عنایت کرکے بہت اصرار کیا کہ ان پر تبصرہ ضرور کریں، (تیسرا مجموعہ غالباً اُن کی وفات کے بعد شایع ہوا تھا)۔ ہماری شامتِ اعمال کہ مضمون میں اُن کے کلام کی صفات شمار کراتے ہوئے ایک جگہ لکھا کہ یہ فُلاں مضمون تو فَرسودہ ہے، مگر ہمارے ممدوح نے اِسے جدید رنگ دے دیا ہے، (یعنی گویا یوں برتا کہ شعر میں جاذبیت پیدا ہوگئی ہے)۔

وہ مرحوم اتنے بھولے تھے کہ انھیں یہ بات بھی ناگوار محسوس ہوئی اور آخری ملاقات میں بھی شکوہ کرتے رہے کہ آپ سے یہ توقع نہیں تھی۔ (درست لفظ شَکویٰ عربی الاصل ہے جسے فارسی والوں نے شِکوہ کردیا، اب رائج و مروج کے اصول کے تحت درست مانا جاتا ہے، خواہ لغات کِشوری میں غلط قرار دیا گیا ہو)۔ اگر تنقید کے معانی ومفاہیم کے لیے لغات کا سہارا لیں تو معلوم ہوگا کہ کہیں بھی اس کا مطلب کِیڑے نکالنا نہیں لکھا گیا۔ ہمارے یہاں تنقیدنگاری کے لیے نقدونظر پرکھنے کے معنوں میں مستعمل ہے۔ عربی الاصل لفظ نقد کے معانی ہیں: آمادہ کرنا، دنیا، روپیہ/اشرفی کا پرکھنا، زرِمسکوک یعنی روپیہ، اشرفی، پیسہ/پیسا، مجازاً مراد دل سے اور ذات، ابھی (فوراً) اور بیٹا (لغات کشِوری از مولوی تصدق حسین رضوی)۔ نقّاد: روپیہ/اشرفی کا پرکھنے والا(لغات کشوری)

تنقید (اسم مؤنث): ایسی رائے جو بُرے بھلے یا صحیح اور غلط کی تمیز کرادے، پرکھ، چھان بِین، کھوٹا کھرا جانچنا، وہ تحریر جس میں کسی فن پارے کے حُسن وقُبَح پر فَنّی اصول وضوابط کی روشنی میں اظہارِِرائے کیا گیا ہو۔ (مختصر اُردو لغت از اردو لغت بورڈ)۔ یہاں لغت میں اضافہ کرنے والے کسی صاحب نے اس کا عرفِ عام میں مطلب،گویا Slang بھی درج کردیا ہے: نکتہ چینی، اعتراض۔ لفظ ’’انتقاد‘‘ کے باب میں بھی اس لغت میں کم وبیش یہی کچھ لکھا گیا ہے۔

جب بات چل نکلی ہے تو یہ بھی جان لیں کہ Auditکے لیے اردو مترادف تنقیح بھی عربی الاصل ہے، جس کے معانی ہیں پاک اور صاف کرنا، کسی چیز کا عیب سے خالص کرنا(لغات کشوری)۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ تنقید کے لیے یہ لفظ زیادہ موزوں ہے۔

ہمارے یہاں عموماً کہا جاتا ہے کہ تنقید برائے تنقید نہ کرو، تعمیری تنقید کرو، مثبت تنقید کرو….ہم نے بہت بار کہا ہوگا، مگر سچ تو یہ ہے کہ منفی تنقید کوئی چیز نہیں، تنقید ہوتی ہی مُثبَت ہے۔

یہ معاملہ اردو تک محدود نہیں، انگریزی میں بھی تنقید کا مطلب تنقیص سمجھنے والے پائے جاتے ہیں۔ نامور امریکی مصنف، معلم ومصلح ڈیل کارنیگی[Dale Carnegie: November 24, 1888-November 1, 1955] کا یہ قول ملاحظہ فرمائیں:

“Any fool can criticize, condemn, and complain but it takes character and self-control to be understanding and forgiving.”

(مفہوم: ’’کوئی بھی بے وقوف تنقید، مذمت اور شکایت کرسکتا ہے، لیکن سمجھ بوجھ یعنی معاملہ فہمی اور دَرگزر کرنے کے لیے مضبوط کردار اور اپنے آپ پر قابو رکھنا لازم ہے‘‘)

ایک دوسرا قول ملاحظہ فرمائیں: ’’تنقید کرنے کی مسرت ہمیں کچھ اور اچھی باتوں سے محظوظ ہونے کی نعمت سے محروم کردیتی ہے‘‘۔

“The pleasure of criticizing takes away from us the pleasure of being moved by some very fine things.”– Jean de La Bruyère (August 16, 1645-May 11, 1696)

یہ فرمان ہے فرینچ فلسفی و مصلح جناب ژاں دولابغُوئیغ کا۔ اور تو اور ہمارے لیے بہت مانوس نام اَرِسطو[Aristotle](384 قبل اَزمسیح علیہ السلام تا 322ق۔م) سے یہ قول منسوب ہے۔ روایت کے مطابق اُس نے کہا کہ ہم بہ آسانی تنقید سے گریز کرسکتے ہیں، اگر ہم کچھ نہ کہیں، کچھ نہ کریں اور کچھ بھی نہ رہیںیعنی ہر معاملے سے الگ تھلگ رہیں۔ یہ آخری نکتہ واقعی فلسفیانہ ہے۔

“Criticism is something we can avoid easily by saying nothing, doing nothing, and being nothing.”

– Aristotle

مغربی ادب میں جدیدیت[Modernism] کی تحریک میں انتہائی نمایاں نقاد، ٹی ایس ایلیٹ (Thomas Steams Eliot: 1888-1965) کو جدید مکتب ِ ادبی تنقید کا متأثرکُن نام سمجھا جاتا ہے۔ اُس نے اپنی تنقیدنگاری کو اپنی شاعری کی پیداوار قرار دیا تھا۔ ویسے یہ الگ بات ہے کہ مشرق، خصوصاً برصغیر پاک وہند کے متعدد نقاد ایسے ہو گزرے ہیں جنھوں نے شاعری بھی کی، مگر دوسروں کی شاعری پر عمدہ تنقید کرنے والے، خود اچھی شاعری نہ کرسکے۔ یادداشت سے کھرچوں تو آل احمدسرور، احتشام حسین، نیاز فتح پوری اور فرمان فتح پوری یاد آتے ہیں۔

ہمارے بزرگ نقاد، پروفیسر سحراَنصاری اس لحاظ سے بہت منفرد ہیں کہ انھوں نے شاعری میں اعلیٰ مقام حاصل کیا، مگر ہم ایسے خورد معاصرین کو اُن سے یہ شکوہ ، ہمیشہ رہے گا کہ وہ ’’تقریباتی‘‘ اور ’’زبانی کلامی‘‘ تنقید میں بہت نمایاں ہوئے، تحریر میں اُن کا کام ابھی تک برائے نام ہی منصہ شہود پر آسکا ہے، حالانکہ وہ اس لحاظ سے بہت منفرد وممتاز ہیں کہ بہ یک وقت اردو اور انگریزی ادبیات پر حاوی ہیں اور ایسی مثالیں اب ہمارے یہاں ایک آدھ ہی ہیں۔

میں قارئین کرام کو تنقید کی درست شکل دکھانے کے لیے جون 2021ء میں شایع ہونے والی، اپنے بزرگ معاصر پروفیسر غازی علم الدین صاحب کی کتاب ’’میزانِ اِنتقاد و فِکر‘‘ سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں:

۱۔’’بعض شاعر بے خودی میں اعتدال کے رَستے سے ہَٹ جاتے ہیں اور دوسرے انبیاء سے آپ (ﷺ) کا تقابل کرتے ہوئے، ایسے الفاظ کہہ جاتے ہیں جو دَرحقیقت نعت کی ذیل میں نہیں آتے، بلکہ اُن میں توہینِ انبیاء کا مفہوم مضمر ہوتا ہے، اگرچہ اس تقابل کی غایت آپ (ﷺ)کی بڑائی ہی ہوتی ہے، مگر بعض صورتوں میں یہ اَمر دیگر انبیاء کی کسرِعظمت ٹھہرتا ہے، مثلاً:

مالکِ کوثر کا ہمسر ، صاحبِ زَم زَم نہیں+اِن کو بے مانگے ملا ، اُن کو رَگڑکرایڑیاں‘‘—(نعت گوئی اور نعت خوانی میں خلاف ِآداب عناصر)

خاکسار سہیل اُن کی اس تنقید کی تائید کرتا ہے، کیونکہ یہ اَمرِ واقعہ ہے اور حدیث شریف کی تعلیم کے عین مطابق بھی ہے۔

۲۔’’مصنف نے لکھا ہے کہ زائرین، جبلِ طُور پر جانے کے لیے نِیم شب کو کوہ پیمائی شروع کرتے ہیں اور سورج طلوع ہونے سے پہلے، اُنھیں وہاں پہنچنا ہوتا ہے۔ سورج طلوع ہوتے ہی بہت سے لوگ رُکوع میں چلے جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں، مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ زائرین کِن مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں‘‘۔ (مصر کی محبت میں: ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی کتاب ’فی حُبّ مصر‘ کا مطالعہ)

اب یہاں ذرا رُک کر غور فرمائیں کہ پروفیسر غازی صاحب نے کس طرح پورے مضمون میں جابجا اپنے ممدوح کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اُن کی کتاب سے اقتباسات پیش کیے، مگر جہاں کوئی نکتہ آفرینی، فطری طور پر ذہنِ رَسا میں اُبھری تورَوانی میں لکھنے سے چُوکے نہ کوئی لحاظ کیا۔ بظاہر سیدھاسا معاملہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کوہِ طُور /جَبلِ طُور یعنی طُورِ سینا پر زیارت وعبادت کے پس منظر میں لوگ وہاں جانے کے لیے آدھی رات کا وقت، گویا تہجد کا وقت چُنتے ہیں تو مسلمان ہی ہوں گے، مگر کیا خبر کہ توحید پرست یہودی یا قِبطی عیسائی بھی ہوں جو دیگر ہم مذہب لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں؟ ….ایک بار پھر وضاحت کرتا چلوں کہ طُور پہاڑ ہی کو کہتے ہیں، جو اپنے اصل نام ’سِیناء‘ یا ’سینا‘ سے زیادہ مشہور ہوگیا اور گویا پہاڑ پہاڑ دو مرتبہ کہا جانے لگا۔

۳۔’’حضرت نسیم سحرؔ نے کتاب کے حرفِ تشکّر میں ’اظہار ِممنونیت‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ میں اس کے بجائے ’اظہارِامتنان‘ کی ترکیب کو دُرست سمجھتا ہوں‘‘۔ (نسیم سحرؔ کی نعت نگاری کے اجزائے ترکیبی)

میرے بزرگ معاصر محترم شفیق احمدشفیق ؔ کی کتاب ’نقد وتجزیہ‘ (مطبوعہ 2017ء)سے ایک اقتباس:

’’شاعرعلی شاعرؔ کی بعض تِروِینی میں تیسرے مصرع میں جو گُریز کا اَنداز رکھا جاتا ہے، اس کا فقدان ہے اوریہ فقدان کیوں ہے، اس کی وجہ جلدبازی ہوسکتی ہے، مثلاً:

چاند کو مَیں نے دیکھا تھا

تیر ا  چہرہ مُہرہ تھا وہ

جس پہ گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں

یہ ایک سیدھا سادا شعری بیانیہ ہے۔ اس میں اوپر کے دو مصرعوں سے الگ کوئی بات نہیں کہی گئی‘‘۔ (اردوتِروِینی کا اوّلین مجموعہ)

اب یہاں ایک ایسی غیرمطبوعہ تحریر پیش کررہا ہوں جو ہمارے بزرگ معاصر، اردو، فارسی شاعر، ادیب اور انگریزی نثرنگار اور ایک نامور ہستی اِبن صفی کے فرزند محترم احمد صَفی کی لکھی ہوئی ہے، ہمارے لائق فائق خوردمعاصرغلام مصطفیٰ دائمؔ اعوان کی ایک نظم کے متعلق۔ پہلے نظم دیکھیں اور پھر محترم احمد بھائی کا میرے نام پیغام:

نظم بعنوان ”گرگِ باراں دیدہ”: نوجوان نسل جو کہ بزرگوں کے عدمِ احترام کے باعث غلط سمت نکل پڑی ہے، اس پسِ منظر میں کہی گئی نظم

خلائے ہفت پیکر کی شَرَر افشانیوں میں

ہے نشستِ ضعف پر رونق فزا، اک جسمِ نازائی

خمیدہ دوش، چشمِ نیم بینا

دستِ لرزاں

خاک کا پیکر، بریدہ تَن، چکیدہ لب

سرِ شوریدہ میں لیکن!

دماغِ نکتہ پرور، عقلِ کامل، طبعِ معنیٰ آفریں

یعنی!

بلاغت جنبشِ مژگاں سے جنباں ہے

عروقِ تَن میں لاوا ہے رواں حسنِ تدبُّر کا

تفحص کا، تفکُّر کا

عیاں لوحِ جبیں پر نورِ عرفاں کے سنہرے، سرمئی

اور نقرئی دھارے چمکتے ہیں

کفِ دستِ نگاریں پر جو شکنیں ہیں

لکیریں ہیں!

حقیقت میں یہ شاخیں ہیں علومِ معرفت کی

اور فنونِ شوقِ پُرفَن کی

نگاہِ نوجواناں میں فقط فرتوت وہ ٹھہرا

سرابِ دشت ٹھہرا

اور فنا کا اک نشاں ٹھہرا

مگر سمجھو!

وہ نقشِ خامشی تو گرگِ باراں دیدہ ہے اصلاً

سریر آرا ہے تختِ خودشناسی پر

دلِ شفّاف پر عکسِ رُخِ تابندہ روشن ہے

وہ عکسِ رُو کہ ہے زیبندہ ٔ تاجِ جہانگیری

مگر افسوس!

جب مر جائے گا وہ پیکرِ لعلِیں

زمانہ نوحہ گر ہوگا

فقط اک دن، چلو دو دن

مگر پھر طاقِ نسیاں کے حوالے اس کی سب باتیں

سبھی یادیں ہوئی جائیں گی

تربت سے اسی کی

اک سرودِ عشوہ زا، چِنگھاڑ اٹّھے گا

کہے گا:

ملبہ ٔ خاکی سے زخمہ ہائے دل کی

بانگِ تازہ جو فضا میں

گونج اٹھّی ہے

کہ رختِ بے گماں ضائع نہ ہوجائے

نہ ایسا ہو!

کوئی جاں بخش لحظہ حیطہ ٔ منظر سے کترائے

سحابِ ظلمتِ زیریں سے ہم آغوش لمحہ

کہہ رہا ہے

قدرِ گلشن گُل سمجھتا ہے

زمیں پر سبزہ ٔ نَو رُستہ کی وارفتگی شاہد!

کوئی اب مسکنِ مستور سے مفرور ہو تو کیوں؟

خیالِ خام کے جنجال سے مسحور ہو تو کیوں؟

بتاؤ تو!

کہ میری لوحِ تربت پر جفائے مرگ کے قصے گڑے کیوں ہیں

مری دانست میں گرداں حقیقت ہے

کہ مرگِ ناگہاں بے مہریٔ احباب سے بہتر!

جہانِ گور بلکہ قاقم و سنجاب سے بہتر!

تبصرہ از قلم محترم احمدصفی (اٹھائس جون سن دوہزاربیس): ’’بھائی! نئی نسل تو پہلے مصرعے کے بعد ہی ڈھیر ہو جائے گی۔ رہ گئی پچھلی نسل تو وہ اس میں صنعتِ مستول الجہاز ڈھونڈتی رہ جائے گی۔ بھائی! تحقیق بر ریختہ اور زباں فہمی[WhatsApp groups] میں ایسی زبان کیوں استعمال ہوتی ہے جو اَب متروک ہے۔

اب بھلا بتائیے بیگم کہیں،’ ٹی وی کا ریموٹ دیجیئے‘ تو یہ کون کہتا ہے ابھی مستحضر نہیں؟….زبان کو زندہ رکھنا ہے تو اِس کی موجودہ شکل میں کثافتوں کو دور کرکے ایسا ہو سکتا ہے، مگر پرانی کثافتوں کو واپس لا کر ہم چند لوگوں تک ہی اس کو محدود کر دیں گے۔ میری رائے ہے اور اختلاف آپ کا حق ہے۔ جیسے وہ خطاطی والے کو تنبیہہ کی تھی اِن کو بھی کیجئیے‘‘۔ قارئین کرام! خاکسار نے کوشش کی ہے کہ موضوع سمیٹتے ہوئے، سہل انداز میں بات واضح کردوں۔

The post تنقید کیا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

بے روزگاری کی افسردہ شامیں اور ہم

$
0
0

 کراچی: ’ایم اے‘ کے بعد جب ہم مجبوراً کاسمیٹک مصنوعات کی ایک فرم سے کچھ ماہ منسلک رہے، تو اسی دوران رات کی شفٹ میں دو چار روز کے لیے روزنامہ ’قومی اخبار‘ بھی گئے تھے۔

ہماری بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہمیں بلایا کمپیوٹر سیکشن والوں نے تھا، لیکن ہم جلدی میں وہاں پہنچ کر خود کو کال کرنے والے کا نام ہی بھول گئے اور پھر ہمیں ’استقبالیہ‘ نے ’نیوز ڈیسک‘ کی طرف بھیج دیا کہ اتفاق سے وہاں بھی جگہ خالی تھی اور پھر وہاں ڈیسک کے ’نگراں‘ اور کمپیوٹر والوں کے ٹکراﺅ کا معاملہ ہوگیا، جس کے بعد اِن صاحب نے نہ خود ہمیں رکھا اور نہ کمپیوٹر والوں کو رکھنے دیا ہم دو چار دن ’ٹیسٹ‘ دینے کے بعد ہر روز انھیں کال کرتے، یہاں پہلے ہمارا نام پوچھا جاتا اور پھر بتا دیا جاتا کہ ’وہ‘ تو موجود نہیں ہیں، آخر کو ایک دن ہم نے غلط نام بتا کر انھیں چکمہ دیا، تو وہ بری طرح تپ گئے، فرمایا کہ ’یہ تماشا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘ ہم نے کہا کہ آپ کوئی جواب ہی نہیں دے رہے تھے، ہم کیا کرتے۔

’قومی اخبار‘ میں رات کو بِتائے گئے، دو تین روز کے دوران ایک ادھیڑ عمر صاحب سے کچھ علیک سلیک ہوگئی تھی، جو شاید ہمارے چہرے کی شکست خوردگی پڑھ لیے تھے۔ وہ جب ہمیں مایوس نہ ہونے کی تلقین کرتے، تو ہم سے اپنی کوفت کو ضبط کرنا بہت مشکل ہو جاتا تھا سڑک پار کر کے سامنے کسی ہوٹل پر بیٹھ کر وہ اپنا کھانا کھاتے اور بار بار ہمیں امید رکھنے کی نصیحت کرتے جاتے خود بے چارے بہت معمولی تنخواہ کے عوض ’پروف ریڈر‘ تھے، لیکن کرید کرید کر ہمارے بارے میں جانتے اور انگشت شہادت ہمارے بازو میں زور زور سے چبھو کر کہتے ”میاں! کبھی مایوس نہیں ہونا!“

ہم اپنے بازو کو ان کی انگلی کی چبھن سے بچانے کی کوشش بھی کرتے اور کسی طرح وہ وقت گزارتے کہ یہ کیا بڑے صاحب، بے وقت کی راگنی لے کر بیٹھ گئے یہاں ہم کتنی مشکل میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ آئے بڑے، بیٹھے بیٹھے، کہ مایوس نہیں ہو، مایوس نہیں ہو! رات کے دوسرے پہر ملک کی ’وال اسٹریٹ‘ سمجھی جانے والی آئی آئی چندریگر روڈ سے جُڑی ہوئی گلیوں کی محدود سی چہل پہل اور آسیب زدہ سی دھیمی روشنی ہمیں اپنی طرح افسردہ اور اداس اداس نظر آتی تھی۔

بس پھر جب ’کاسمیٹک فرم‘ کی ملازمت سے بھی فارغ ہوگئے، تو اپنی گہری مایوسی میں دل بہلانے کو شام میں یونہی ’جامعہ اردو‘ میں ’ایم فل‘ کی کلاسیں لینے لگے غور کیجیے، تو ایک طرف نوکری نہیں ہے، تو دوسری طرف ہم مزید تعلیمی اخراجات کا راستہ اپنا رہے تھے، لیکن یہ بالکل ایک بے سوچا سمجھا قدم تھا۔ ایک بہت عجیب اور فکر آمیز اور ناکام سی زندگی لگتی تھی۔

کلاسیں لینے کے بعد ہم ’جامعہ اردو‘ کے سامنے ایک نیم اندھیرے اور پس ماندہ سے ہوٹل کی گندی سی پیالیوں میں چائے پیتے ہر ڈھلتے ہوئے دن کے ساتھ گویا اپنے دن پِھرنے کا انتظار کرتے یونیورسٹی کے ہم رکاب محمد اجمل خان اور محمد فراز (اب ’آئی او بی ایم‘ میں لیکچرر) کے ساتھ رانا جاوید (اب جیو نیوز کے رپورٹر) بھی یہاں ہمارے ساتھ ہوتے چائے کی پیالیوں کے درمیان بھِنبھناتی ہوئی مکھیاں اڑاتے ہوئے مغرب کی اذانیں ہوتیں اور یوں محسوس ہوتا کہ آسمان کی بڑھتی ہوئی ساری سیاہی ہمارے مستقبل اور زندگیوں میں اتر کر رہ گئی ہے اور وہ بھی ایسے کہ لبِ سڑک اس گلی میں اِکّا دُکّا سے لگے ہوئے ہلدی رنگ کے بلب اسے دور کرنے میں ناکام ہیں اگرچہ روزانہ ہی چائے کے پیسے ایک دوسرے پر ادھار کرتے رہتے، لیکن جتنے دن بھی یہ کلاسیں لیں، واپسی پر یہ بیٹھک ضرور سجی یونیورسٹی کے اہم اور لایعنی واقعات اور یہاں لوگوں کے مختلف معمولات، کسی کی جاب، تو کسی کا معاشقہ اور کسی کی شادی، تو کسی کی بدمعاشی اور کسی کا اور کوئی جھگڑا الغرض ہر قسم کے موضوع شام کی چائے کی ان چسکیوں کے درمیان چلتے اور ان سب میں غالب ہوتی، تو ہماری بے چارگی اور مایوسی، کہ ذرا دیکھو ساری دنیا کہاں جا رہی ہے اور ایک ہم ہیں یہاں کیسے بے روزگار ہوئے پڑے ہیں

اس وقت اردگرد کے ماحول کی پراسراریت بھی بہت محسوس ہوتی اُن دنوں کراچی کے حالات ایک بار پھر بہت خرابی کی طرف گام زن تھے۔ کچھ ہی فاصلے پر لیاری شروع ہوتا تھا، جیسے ہی دن ڈھلتا، آتے جاتے عام راہ گیروں کے سائے بھی عجیب اور پراسرار سے لگنے لگتے تھے، ہمیں یوں لگتا کہ شاید کوئی چھپ کر ہم پر نظر رکھے ہوئے ہو، بالخصوص جب ہم شہر کے حالات پر بات کرتے اور کوئی سیاسی گفتگو کرتے، تو ایسا لگتا کہ اریب قریب کوئی ہمیں سن رہا ہے، کبھی تو یہ خوف بھی رہا کہ کہیں کوئی چھینا جھپٹی کی واردات ہی نہ ہو جائے، لیکن ہمارے پاس تھا ہی کیا جو کوئی چھینتا کبھی ایسا بھی لگا کہ جیسے ہوٹل پر فائرنگ جیسے واقعات اخبارات میں پڑھتے ہیں، کہیں خدانخواستہ ہم بھی آج کوئی ایسی ’خبر‘ نہ بن جائیں اس لیے جیسے ہی رات گہری ہونے لگتی، ہم ایک دوسرے کو یہاں سے رخصت ہونے کی تاکید کرتے اور اپنا اپنا راستہ لیتے۔

اِسی ’غریب‘ سے ہوٹل کے باہر رکھی ہوئی ٹوٹی پھوٹی سی میز کرسیوں پر چائے کے دوران ہی ایک دن رانا جاوید نے اپنے روایتی پُریقین انداز میں کہا تھا کہ ”میں آپ کو اندر کی خبر دے رہا ہوں رضوان بھائی، ایکسپریس کے ’میگزین‘ میں جیسے ہی کوئی جگہ خالی ہوگی، سب سے پہلے آپ ہی کی جگہ بنے گی!“ ہم رانا جاوید کی باتوں کو ویسے بھی کم ہی اہمیت دیتے تھے، اس لیے مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں یہ دعویٰ بھی ہمیں کسی دیوانے کی بَڑ لگا کہ کہاں ہمیں کسی چھوٹے سے اخبار میں بھی کوئی نوکری نہیں مل رہی اور کہاں یہ کہہ رہا ہے کہ ’ایکسپریس‘ جیسے بڑے اخبار کے ’میگزین سکیشن‘ میں جگہ بنے گی۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم نے رانا جاوید کی اس بات کو ہنسی میں اڑا دیا تھا لیکن کوئی سوا برس بعد ہی یہ بات سچ ثابت ہوگئی، اور آج 10 سال بعد ہمیں دفعتاً یہ واقعہ پھر یاد آگیا۔

 

The post بے روزگاری کی افسردہ شامیں اور ہم appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

کچھ قصہ ’پیشۂ بادشاہ گری‘ کا۔۔۔
خانہ پری
ر۔ ط۔ م

کہتے ہیں صدر جنرل ایوب خان کے دور میں ایک غیرملکی وفد نے جب ہمارے ہاں کے بچوں سے گفتگو کی اور پوچھا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہیں، تو ان میں سے کسی ایک نے بھی ’استاد‘ بننے کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی۔۔۔ اس کی کیا وجوہات تھیِں، اس پر وقتاً فوقتاً بات کی جاتی رہی ہے۔

فی الحال ہمارے ہاتھ ایک استاد کی ’کہانی‘ لگی ہے، جو آج کے دور میں بھی فخر سے اس پیشۂ پیام بَری سے جُڑے ہوئے ہیں۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے ہمارے ہاں بچوں کے لیے لکھنے کا شعبہ بحران کا شکار ہے، ایسے ہی بچوں کو پڑھانے کے لیے بھی بہت کم لوگ ایسے ہیں کہ جن کی پہلی ترجیح درس وتدریس ہو۔۔۔ عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ جو کچھ نہیں کر پاتا، وہ پھر تدریس کرنے لگتا ہے۔

یہ شاید اس لیے بھی ہے کہ مجموعی طور پر ہمارے ہاں استاد کی قدر ومنزلت خاطر خواہ نہیں ہے، اس کا ایک رخ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے اساتذہ میں بھی اب وہ بات نہیں رہی ہے۔۔۔ ہرچند کہ ہمارے یہ استاد صاحب بھی شہر کی نجی یونیورسٹیوں میں تدریس کرتے ہیں، لیکن کہتے ہیں کہ بچے اگر ’ٹین ایج‘ سے نکل بھی آئیں، تو بہت بار یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ بہرحال وہ ابھی بچے ہی ہیں۔۔۔ پروین شاکر کے اس خیال کہ ’بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے۔

سے متفق ہونے کے باوجود کئی بار ان کی نئی امنگ اور ترنگ میں اور ان کی چال ڈھال اور طور طریقوں میں کافی ’بچپنا‘ دکھائی دینے لگتا ہے۔۔۔ اب یہ بچپنا اگر سادگی اور بے ساختگی سا ہو تو پیار آتا ہے، لیکن اگر اس میں وہ اپنے ’مدرّس‘ پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگیں، تو تھوڑا سا غصہ آنے کے ساتھ ساتھ ہنسی بھی آتی ہے کہ وہ استاد جو کچھ تعلیم اور تجربہ حاصل کرنے کے بعد ہی ان کے سامنے پڑھانے کے لیے کھڑا ہوا ہے، وہ یقیناً اس عمر اور ان سارے تجربات سے بھی گزر ہی چکا ہے۔۔۔ اس لیے بالآخر استاد ہی کو کسی شفیق باپ کی مانند اپنا دل بہت بڑا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ وہ باپ جو اپنی اولاد کی ’شرارتوں‘ اور ’شریر پن‘ کو عمر کا تقاضا سمجھ کر سہتا ہے اور پھر بھی مسکراتا رہتا ہے۔ جہاں ضرورت محسوس کرتا ہے۔

۔۔۔ اور سزا بھی دے دیتا ہے، لیکن اس کا دل صاف اور بہت کھلا اور اجلا رہتا ہے۔۔۔ وہ نوجوانی کی اس عمر کی اٹھان اور جذباتی میلان سے لے کر ذہن ودل میں اٹھنے والی توانائی کو بھی خوب جانتا ہے۔۔۔ اس لیے طلبہ کی غفلتوں، ناپختگیوں اور کئی جگہ پر استاد کے مرتبے کے برخلاف کسی عمل کو بھلا کر بھی وہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے بڑھ کر ان کے لیے محنت کیے چلا جاتا ہے۔۔۔ اور ہمارے ہاں باپ کی زندگی میں کبھی ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ اُسے اپنی اولاد سے یہ بھی سننا پڑ جاتا ہے کہ ’’آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟‘‘ بالکل ایسے ہی ایک استاد کو اپنے طلبہ سے ستائش کم ہی نصیب ہوتی ہے، الٹا اُسے ناقدری سہنا پڑتی ہے، لیکن پھر بھی ایک باپ کی طرح استاد بالکل مطمئن ہوتا ہے۔۔۔ پھر انھیں زندگی کی راہوں پر بہ یک وقت اچھا اور کام یاب بنتا ہوا دیکھ کر دل سے جو خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے، وہ یقیناً ایک ایسا تجربہ ہے، جسے لفظوں میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔۔۔

تعلیمی دورانیے تک طلبہ کا اپنے اساتذہ سے تعلق ایک معنوں میں اس ’غرض‘ سے منسلک کہا جا سکتا ہے کہ انھیں امتحانات میں نمبر اچھے چاہیے ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن جب یہ وقت گزر جاتا ہے، تب گویا استاد کو اپنے خلوص اور محنت کے پھل کا پتا چلتا ہے، تب اصل میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو سکھانے اور سنوارنے میں کتنا کام یاب رہا۔۔۔ اور واقعی سیکھنے والے بھی اس کی محنت کے قدر دان تھے یا نہیں۔۔۔؟ کہیں سرِراہ، کسی جگہ پر یونہی آتے جاتے یا اتفاقاً مل جانے والے وہ طلبہ آنکھ بچا کر نکل جاتے ہیں یا اسے کہیں دور سے بھی دیکھ کر سلام علیک کرنے کو دوڑے چلے آتے ہیں۔۔۔ آداب بجا لاتے ہیں۔

اپنی بے کراں محبتیں نذر کرتے ہیں، نیک تمناؤں کا اس کھلی طرح اظہار کرتے ہیں کہ اُن کا لفظ لفظ بتاتا ہے کہ وہ کتنے دل سے اپنے ایک استاد سے مخاطب ہیں۔۔۔ ایک استاد سے بلا مبالغہ سیکڑوں اور ہزاروں طلبہ زانوئے تلمذ طے کرتے ہیں۔۔۔ ان میں اگر ایک سے دو فی صد بھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُسے اچھے لفظوں میں یاد رکھ لیں، اُس کا نام عزت سے لیں، کہیں ذکر ہو توموؤدب ہو جائیں، بس سمجھیے استاد کی محنت بالکل بھی رائیگاں نہیں گئی، زندگی بھر میں اس کی ’کمائی‘ فقط یہ اطمینان اور دوسروں کا یہ اعتراف ہی ہوتی ہے کہ وہ انھیں کچھ سکھا سکا ہے اور انھیں کچھ سنوار سکا ہے۔۔۔

اگر ایک استاد ’روسٹرم‘ پر کھڑے ہو کر اپنے نہیں بلکہ اپنے روبر بچوں کے دل سے سوچتا ہے، تو ایسے استاد کا دَم غنیمت سمجھنا چاہیے۔۔۔ وہ جسمانی طور پر تو استاد کے روپ میں کھڑا ہوا ہے، لیکن قلبی طور پر وہیں کہیں اپنے شاگردوں کے درمیان دھڑکتا ہے۔۔۔ ان کے مسئلوں کو اپنا مسئلہ سمجھتا ہے۔

ان کی فکر کرتا ہے، ان کا خیال رکھنے کو کوشاں رہتا ہے۔۔۔ وہ بتاتے ہیں کہ دو سال قبل کراچی میں جب ایک چھینا جھپٹی کے واقعے میں راہ زن ایک طلبہ کو قتل کر گئے تھے، تو انھیں اپنی کلاس کے 25، 30 طلبہ کی کس قدر فکر ہوئی تھی، اور انھوں نے اپنے بچوں کی سی طرح انھیں اپنا بہت خیال رکھنے کو کہا تھا۔۔۔!

الغرض یہ ’پیشۂ بادشاہ گری‘ یونہی تو نہیں ہے ناں، اس کا سارا مرتبہ اور وقار تبھی تو ہے کہ وہ مختلف رویوں کے سَنگ کھا کر بھی مسکراتا رہتا ہے، اور ظاہری جاہ وجلال اور بڑائی نہ ہونے کے باوجود ڈگمگائے بغیر مستقبل کی اِن کلیوں کو سینچتا چلا جاتا ہے، کسی صلے کی تمنا کے بغیر ان بچوں کی راہوں سے کانٹے چُن کر انھیں سماج کے گلستان کا ایک مہکتا ہوا گُل بنا دیتا ہے۔۔۔ ہر چند کہ ہر گُل اس طرح نہیں مہک پاتا، لیکن جو بھی مہک جاتا ہے، تو پھر پورا سماج اس ایک استاد کی محنت اور خلوص کا مقروض ہو کر رہ جاتا ہے، جس کی طرف کسی شاگرد کا دھیان کم ہی جا پاتا ہے۔

تشدد کا جواب تشدد
عیشہ مفیض، کراچی
ضروری نہیں کہ ہر انسان کی صبح خوش گوار ہو۔ کچھ مجھ جیسے بدنصیب، تشنگی میں گھرے اس امید کے ساتھ رات کے اندھیرے کو الوداع کہتے ہیں کہ کل کی صبح میری زندگی پر چھائی ہوئی کالی گھٹا کو روشنی میں بدلنے کا باعث بنے گی۔ خیر نہ جانے کب یہ خواہش حقیقت کا روپ دھارے۔ پر اس صبح کو بھی ہر گزری ہوئی صبح کی طرح معمولی کے مطابق گزارتے ہوئے اسی تاریکی کی طرف جانا ہے، جہاں علم کا اجالا میرے اندھیروں میں چھپ گیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں علم کے نام پہ لوگ فقرے کستے ہیں اور جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔

روزمرہ کی طرح آج بھی اس گھنگریالے بالوں والی لڑکی نے پورے مجمعے کے سامنے میری کمزوری کو نشانہ بنایا جو مجھے منہ پہ پڑنے والے زور دار تھپڑ کی مانند محسوس ہوا، میرا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور میں اس میں سما جائوں۔ اسی لمحے میرے خیالوں کی تاریکی میں یہ گمان اجاگر ہوا کہ اب بس اور نہیں یا خود ختم ہو جائو یا اسے کر دو اور لمحوں کے درمیان ہی میں نے اس ذلالت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور سامنے پڑا ہوا شیشے کا ٹکڑا مجھے اس تکلیف سے نجات کا ذریعہ لگا، لیکن پھر میں اس خیال سے مسکرا دی کہ تشدد کا جواب تشدد سے دے کر آخر میں کیوں اس ہجوم کا حصہ بنوں۔

ابّا کا بلاوا
سارہ بتول
یوں تو جوانی میں نیا نیا سگریٹ نوشی کا شوق چڑھا ہے۔ کبھی کبھی دوستوں کے ساتھ دو کش لگا لیے تو کبھی اکیلے کمرے میں غمگین گانے کے ساتھ دل بہلانے کے لیے سگریٹ سلگا لیا۔ بس یوں سمجھیے کہ ’’احساس کمتری کا شکار بنا ہوں۔۔۔ سگریٹ کے بعد دوستوں کی محفل میں ’ہونہار‘ بنا ہوں۔‘‘

ایک روز آدھی رات، دوستوں کی سنگت سے غم میں دوچار اٹھ کر گھر کو آیا۔ خوش بو تو ایسی لے کر آیا تھا کہ جیسے تمباکو کا عطر لگایا ہو۔ تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دبے پائوں کمرے میں پہنچا۔ رات کے اس پہر خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سگریٹ جلا لی، اپنے خیالوں میں محو تھا کہ ایک اونچی آواز آئی، جیسے ابا تک سگریٹ کی بو پہنچ گئی ہو۔

ویسے تو موقع دیکھتے ہی میں نے سگریٹ پھینک دیا، کمرے سے تیزی سے دوڑا۔ اس ایک لمحے میں، میں نے اپنی جان جاتے محسوس کر لی۔ جب پہنچا، تو ابا نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور کہا ’’بیٹا یہ ریموٹ تو دینا ذرا۔۔۔!‘‘

کسی نے ٹھیک ہی کہا ۔۔۔
ہانیہ فضل، محمد علی سوسائٹی، کراچی
کراچی کی ایک کچی بستی کی ایک تنگ سی گلی میں واقع مکان میں رہنے والے بشیر کی زوجہ زلیخا کی چنگھاڑ سنائی دیتی ہے ’’ہائے! میری کمر!‘‘ پتا چلا لیلیٰ اور عالم نے دھینگا مشتی میں اپنی ماں زلیخا پر لوہے کی کرسی گرا دی ہے۔ اس ضرب کو سہا کر جب زلیخا اٹھنے لگی، تو ادھر سے شنیلا نے ماں کے دوپٹے کا سہارا لیا، جس سے زلیخا کے گلے میں پھندا لگ گیا۔

’’افففف۔۔۔۔!‘‘ اس کے گلے سے ایک آہ نکلی۔ اﷲ اﷲ کر کے وہ اپنے گلے کو آزاد کرا کے اٹھتی ہے، تو بِلّو کے رونے کی آواز آتی ہے۔ ہربڑا کر اس کی طرف بھاگتی ہے، تو فرش پر پڑی ہوئی دہی پر پیر پڑتا ہے اور وہ بری طرح پھسل جاتی ہے، یہ دہی عالم نے فریج سے نکال کر نیچے گرادی تھی۔۔۔ اسی اثنا میں بشیر دفتر سے گھر پہنچتا ہے، تو یہ سارا ماجرا دیکھ کر کہتا ہے۔ ’کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے، بچے دو ہی اچھے!‘

ناممکن واپسی۔۔۔
بریرہ ریحان، کراچی
کچھ برس پہلے کا ذکر ہے، کراچی کی اُن تنگ گلیوں میں روٹی حاصل کرنا مشکل، لیکن نشہ آسان تھا۔ ان ہی تنگ گلیوں میں ایک نوجوان لڑکا جو بن ماں باپ کے تنہا اور زندگی سے ہارا ہوا تھا، اس کے پاس راہ نما کم اور بھڑکانے والے ہزار تھے۔ وقت تو جیسے گزر نہیں، بھاگ رہا تھا۔

ایسے بھاگتے ہوئے وقت میں اس کے پاس صرف نشے کا سہارا تھا۔ اس گندگی میں وہ اس قدر ڈوب چکا تھا کہ اس کو اب غلط بھی صحیح لگنے لگا۔ اس پریشانی کے عالم میں اس نے کی بندوق سے دوستی۔ چھینا جھپٹی اور چوری چکاری سے نوٹ بنانے شروع کیے، لیکن اسی دلدل میں اس کے ایک نیک دوست نے اسے اچھے اور صحیح راستے پر آنے کی ہدایت کی، لیکن وہ اس دلدل میں اس قدر دھنس چکا تھا کہ واپسی ناممکن ہوگئی تھی پھر ایک دن اس کے پاس کچھ نہ بچا، نہ پیسہ نہ نشہ اور تب ہی اس نے ’بڑا ہاتھ‘ ڈالنے کی منصوبہ بندی کی اور صدر کے علاقے پہنچا، لیکن قسمت نے اس بار دھوکا دے دیا اگلے دن اخبار میں ایک خبر شایع ہوئی، جس نے اس کے دوستوں کو دنگ کر دیا۔ خبر یہ تھی کہ صدر کے اطراف میں فائرنگ دو نامعلوم افراد ہلاک۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


خلائی سیّاحت اور غبارے

$
0
0

یوں تو نجی سطح پر خلائی سیّاحت کا ڈرامائی آغاز ہوچکا ہے مگر ارب پتیوں کے اس کھیل میں عام لوگ ابھی کوسوں دور تھے لیکن اب عین ممکن ہو چلا ہے کہ خلائی سفر کے شائقین کو ایلون مسک اور جیف بیزوس سے پہلے غباروں کے ذریعے خلاء کی سیر پر لے جایا جائے اور انہیں پیاری زمین وخلاء کے غیرمعمولی مناظر سے لطف اندوز ہونے کا ایک موقع فراہم کردیا جائے۔ بس اس کے لیے آپ کو چند سال انتظار کرنا ہوگا۔

اب خلاء کو قریب سے دیکھنے کا خواب زیادہ لمبے عرصے تک محض خواب نہیں رہ سکے گا۔ حال ہی میں کئی کمپنیاں وجود میں آچکی ہیں جو غباروں کی مدد سے خلاء میں مسافروں کو لے جانے کے انتظامات کررہی ہیں اور ان میں کئی ایک نے اپنے ابتدائی ٹیسٹ بھی پاس کرلیے ہیں۔

ان نئی خلائی سیّاحتی فرموں میں اسپیس پر سپیکٹیو(Space Perspective)، ورلڈ وِیو اِنٹرپرائزز(World View Interprises) بارسلونا سے تعلق رکھنے والی ہسپانوی کمپنی ـ”Zero 2 Infinity” نمایاں ہیں۔ یہ کمپنیاں مسافروں کو 50,000 سے لے کر100,000 ڈالروں کے لگ بھگ معاوضے کے صلے میں خلاء کی سیر کروائیں گی۔

اسپیس پرسپیکٹیوکمپنی اب ملین ڈالروں کے بجائے 125,000 ڈالر میں خلاء میں پہنچانے کی پیش کشیں کررہی ہے اور جو اس کے ٹکٹ حاصل کرپائیں گے وہ خلاء کے ساتھ زمین کے دل کش مناظر سے بھی لطف اندوز ہوسکیں گے، پرسپیکٹیو کے معنی بھی منظر یا نظارے کے ہیں۔

یہ فلوریڈا۔امریکا کی نئی سیّاحتی خلائی فرم ہے جس نے ایسا غبارے کا نظام تخلیق کرلیا ہے جو خلائی کیپسول کو خلاء میں پہنچاتا ہے۔ اس کا نام نیپچون۔ون (Neptune-One) رکھا گیا ہے جو نظام شمسی کا آٹھواں بعید سیّارہ ہے۔ نیپچون۔ون کی تجارتی خلائی پروازوں کے انتظامات کرنے کے لیے عملی ٹیسٹ پروازیں جون 2021 ء میں کی جاچکی ہیں اور اسی ماہ سے کمپنی نے اپنے سیّاحتی سیٹوں کی بکنگ کا آغاز بھی کردیا تھا جو کہ آئندہ آنے والے سالوں 2024 ء ، 2025 ء میں اور اس کے بعد کے سالوں میں خلاء کی جانب روانہ کی جائیں گی۔

ٹوسن، ایری زونا۔امریکا کی کمپنی ’’ورلڈ ویو انٹرپرائزز‘‘ نے تو اسپیس پرسپیکٹیو کی کل آفر سے نصف قیمت کی آفر کا اعلان کردیا ہے۔ وہ خلائی سفر کے متلاشی لوگوں کو 50,000 ہزار ڈالر میں خلاء میں لے جائے گی۔ اس انقلابی خلائی سیّاحتی کمپنی ’اسپیس پرسپیکٹیو‘ کے مشترکہ بانی اور چیف ایگزیکٹیو آفیسرز خلاء و زمینی سائنس کے حوالے سے متحرک ایک زبردست خاتون جین پوئینٹنر (Jane Poynter) اور ٹیِبرمیکیلم (Taber Maccallum) ہیں۔

یہ دونوں بزنس پارٹنر ہونے کے ساتھ زندگی کے بھی ساتھی ہیں اور انہوں نے ہی مل کر پہلے کمپنی ’ورلڈ ویو ‘ اور پھر ’اسپیس پرسپیکٹیو‘ قائم کی ہیں۔ جین اس کے علاوہ اوریکل۔ایریزونا میں قائم امریکی ارتھ سائنس سسٹم کے تحقیقاتی مرکز “Biosphere2″ کی بھی مشترکہ بانی رکن ہیں جب کہ ان کے شوہر میکیلم تجارتی خلائی سیّاحت کی فیڈریشن “CSF”کے چیئرمین ہیں۔

غباروں کی ساخت، کارکردگی اور تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو غبارے ہماری زندگی میں بڑی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ بچوں کے کھیلنے سے لے کر دیگر سماجی تقریبات ہوں یا قومی تہوار، فضاء میں اشتہاری مہم ہو، ان کا استعمال عام ہے ۔ فی زمانہ گیسوں کے ذریعے دیوقامت غباروں میں فضاء کی سیر کے ساتھ کمپنیوں کی پبلیسٹی مہم میں ان غباروں کو نہایت خوب صورتی سے کام میں لایا جاتا ہے۔

اٹھارہویں صدی سے لوگوں میں غباروں کو فضاء میں چھوڑنے کا رواج پڑ گیا تھا، جب کپڑے اور کینوس کے غباروں کو گرم ہوا کی مدد سے اوپر بھیجا کرتے تھے۔1782 ء میں مونٹگولفیئر(Montgolfier) برادرز نے اپنے تجربے کے ذریعے دنیا کے پہلے جانوروں کو دُور فضائی سفر پر روانہ کیا، اونچائی (Altitude) پر وہ جان دار محفوظ رہے تھے، چناںچہ 1783 ء میں دنیا کا پہلا انسان غبارے کی مدد سے فضائی سفر پر روانہ کیا گیا۔

1790 ء میں پہلا غبارہ جو گیس بھر کر اڑایا گیا وہ ہائیڈروجن گیس کا غبارہ تھا۔ فرانس میں ایک صدی بعد پہلے ہائیڈروجن گیس سے بھرے موسمیاتی غبارے چھوڑے گئے جن کا استعمال موسمیاتی ادارے و خلائی ایجنسیاں فضاء و خلاء کے مطالعے کے لیے کرتی رہیں۔ 1824 ء میں عظیم سائنس داں مائیکل فیراڈے نے دنیا کے سب سے پہلے ربڑ کے جدید غبارے بنائے جو کہ ریکارڈ پر ہیں۔

ان کے استعمال میں گیسیں شامل کی گئیں۔ ان ہی تجربات کے نتیجے میں 1825 ء میں خصوصی طور پر ہائیڈروجن کے غبارے فروخت کیے گئے جو تھامس ہینڈکاک کے بنائے ہوئے تھے۔ لیکن فیراڈے کے بنائے ہوئے غبارے اپنی بناوٹ اور کارکردگی کے لحاظ سے انفرادیت کے حامل بن گئے تھے جب کہ امریکا میں جدید غباروں کی فروخت 20 صدی کے اوائل میں شروع ہوچکی تھی۔

غباروں کی کئی قسموں میں ایک سولر یا شمسی غبارے ہیں جو باریک ہوتے ہیں اور ان میں ہوا بھر ی ہوتی ہے۔ جب ان غباروں پر سورج کی گرمی یا تپش پڑتی ہے تو ہوا گرم ہوکر اوپر اٹھتی ہے جو غبارے کو اوپر لے جاتی ہے۔ غبارے خاص مقاصد کے لیے بھی چھوڑے جاتے ہیں جنہیں ’’بیلو ن راکٹ‘‘ کہتے ہیں۔

غبارے والے اس راکٹ میں غبارے سے سکڑنے سے ہوا دباؤ کے زیراثر اس کے منہ سے خارج ہوتی ہے جب وہ کھلتا ہے اور اس طرح گیس کا اخراج ہوتا ہے۔ یہ نیوٹن کے قانون حرکت کا تیسرا اصول ہے، یعنی ’’عمل و رَدِعمل۔‘‘ یہ گیس پیچھے کی جانب سے خارج ہوتی ہے جو اسے آگے کے طرف دھکیلتی ہے۔ یہی اصول حرکت راکٹ کو روبہ عمل کرتا ہے جو مقدار میں یکساں مگر مخالف سمت میں دباؤ ڈالتا ہے جس سے راکٹ اوپر جاتا ہے۔ گرم ہو ا کیوںکہ ہلکی ہوتی ہے اسی لیے بہ آسانی اوپر چلی جاتی ہے۔ چناںچہ 18 صدی یا اس سے پہلے کی پروازیں گرم ہوائی غباروں کی مدد سے تیار کی جاتی تھیں، ان میں ہائیڈروجن گیس کی طاقت سے مشین کو اوپر اٹھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد کول گیس کا استعمال کیا گیا اور اب ہیلیم گیسوں کو غباروں کا ایندھن بنایا جاتا ہے۔

ہوا کی مدد سے اَپ فارورڈ غبارے سفر کرتے ہیں، جنہیں ’’ایئر شپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ غبارے کے نیچے اس کا انجن ہوتا ہے اور ہوا کی مدد سے اسے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایئرشپس میں “Goodyear” اور “Zeppelin” کمپنیاں نمایاں رہی ہیں۔ یہ ڈاک کی تقسیم وغیرہ اور فلکیاتی تحقیق کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ موسمیاتی سیارے زمینی کرے کے اطراف 50 کلومیٹر کی بلندی پر چھوڑے جاتے ہیں، جنہیں ’’اسٹریٹوفیئر‘‘ کہتے ہیں جب کہ طیاروں کی اڑان 20 کلومیٹر پر ’’ٹروسفیئر‘‘ میں ہوتی ہے اور 100 کلومیٹر بلندی پر “Aurora” ہے جس میں خلاء اور زمین کی حد مقرر ہے یہ “Karman Line” 80 کلومیٹر یا 62 میل کی دوری پر ہے جہاں خلاء کی شروعات ہوتی ہے۔

آسمان کی انتہائی بلندیوں سے جمپ لگانے کے عالمی ریکارڈ ہولڈر ڈائیور اور جمپر بھی ایسے ہی غباروں کی مدد سے مطلوبہ بلندی تک پہنچے تھے۔1960 ء میں پہلی بار امریکی ایئرفورس کے ایک کرنل ٹیسٹ پائیلٹ جوزف کیٹنگر(Joseph Kittinger) نے تاریخ کی سب سے اونچی پرواز کی اور چھلانگ لگائی تھی۔ وہ غبارے کی مدد سے ہی 19.5 میل (چالیس ہزار فٹ) کی اونچائی پر گئے تو ان کے ساتھ سامان و آلات کا وزن 150 پاؤنڈ تھا۔

وہ 450 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے جمپ لگاتے ہوئے زمین کی جانب آئے اور پیراشوٹس کی مدد سے اترے۔ 52 سالوں بعد ان کے اس تاریخی ریکارڈ کو بریک کیا گیا اور ایک آسٹرین اسکائی ڈائیور نے کرنل کیٹنگر کا ریکارڈ توڑا۔ 14 اکتوبر2012 ء کو 43 سالہ ڈائیور فیلکس باؤم گارڈنر ( Felix Baumgartner) بھی ہیلیم غبارے کے ذریعے زمینی کرے اسٹریٹوفیئر پہنچے اور24.2 میل کی بلندی سے ہائی جمپ لگائی۔ وہ نیومیکسیکو۔امریکا میں زمین پر پیراشوٹس سے اترے ، یہ امریکی “Red Bull Stratos” پروجیکٹ کا حصّہ تھا اور یہ تاریخی ریکارڈ بریکنگ جمپ تھی۔

نیپچون۔ون کے منصوبے کے مطابق تجویز ہے کہ خلائی پروازوں کے ذریعے مسافروں کو ایک لاکھ (100,000) فٹس، 30 کلومیٹر یا 18.64 میل کی بلندی تک لے جایا جائے گا۔ یہ انٹرنیشنل فیڈریشن آف ایئروناٹکس(FAI) کے عین مطابق بلندی ہے۔ اصل میں خلاء کی شروعات 330,000 فٹس (100 کلومیٹر یا 62 میل) کی بلندی شروع ہوتی ہے تو اس صورت میں زمین سے خلاء کی دوری پر تیکنیکی طور پر جو مسافر نیپچون پر سوار ہوں گے وہ ’’خلائی سیّاح‘‘ سمجھے جائیں گے نہ کہ خلاباز۔ اسپیس پرسپیکٹو کے ایک جائزے کے مطابق نیپچون۔ ون خلائی جہاز تین بنیادی جُز میں تقسیم ہے، 1 ۔ اڑان والا غبارہ: یہ بالکل ویسے ہی کام کرتا ہے جو کہ ناسا کی ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہے۔

2۔ زمینی اسٹریٹوفیئر میں دباؤ والے غبارے کے ذریعے ایک خلائی کیپسول مسافروں کو خلاء میں پہنچاتا ہے جو کہ جہاز کے اندر رہتے ہوئے خلاء کا 360 ڈگری پر پیش نگاہ جائزہ کراتا ہے، 3 ۔ ایک مہرباں نظام حفاظت کے تحت جو بیک اپ کے ساتھ بنایا گیا ہے اور ایمرجینسی کی صورت میں پیرا شوٹس کی مدد سے باحفاظت زمینی لینڈنگ ہوتی ہے۔ ایک راکٹ کے عمل کے یکسر برعکس غباروں کے ذریعے خلائی سفر میں مسافروں کو دھیرے دھیرے، آہستگی کے ساتھ اوپر کی جانب اٹھایا جاتا ہے۔ خلاء سے قریب ترین قربت میں یہاں چھے سے بارہ گھنٹوں کے مابین سفر ممکن ہوسکے گا۔

دنیا کے اطراف خلائی ایجنسیاں اور فرمیں پہلے ہی خلائی غباروں کو مفید طور پر استعمال کرچکی ہیں جن میں خلائی دوربینوں، روبوٹس اور دوسرے متعلق سائنسی آلات کو غباروں کے ذریعے خلاء کے حوالے کیا جاتا رہا ہے۔ نیپچون۔ون بھی ایک ترقی یافتہ غبارے کی ہی شکل ہے جس میں مسافروں کے کیپسول کو خاص طریقے سے ڈیزائن کیا گیا ہے، اس میں اب روایتی فضائی غباروں کے برعکس ہائیڈروجن گیس استعمال کی جارہی ہے۔ آج کی خلائی ایئرواسپیس فرمیں خلاء تک دسترس کے لیے راکٹوں پر انحصار کرتی آئی ہیں جن میں اسپیس ایکس، ورجن گالیکٹیک اور بلیواورجن سرفہرست ہیں۔

نیپچون خلائی غبارے کا کیپسول ہلکے وزن کا رکھا گیا ہے یہ مضررساں گیسوں کے اخراج کا سبب بھی نہیں بنتا۔ پرواز کے دوران دباؤ والا کیپسول خلائی غبارے کے نیچے لٹکا ہوتا ہے اور ایک پائیلٹ سمیت 9 خلائی پیسنجروں کو خلاء میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے جب کہ اس پرواز کا کل دورانیہ چھے گھنٹے تک ہے، ایک لاکھ فٹس کی بلندی پر جہاں مسافر خلاء سے نزدیک رہ کا اس کا نظارہ کریں گے وہ دو گھنٹے دورانیہ کا وقت ہے۔

کمپنی کی ویب سائیٹ سے پتا چلتا ہے کہ نیپچون کے کیسپول میں مسافروں کی سیٹوں کے ساتھ علیحدہ ایک اہم فیچر “Refreshment” کے نام سے رکھا گیا ہے، اس میں مواصلاتی رابطے کی ڈیوائس، تازہ ہوا کا نظام، ذاتی کیبنٹس، وائی فائی کی سہولت، باتھ روم اور دوسری وہ سہولیات جن کی مسافروں کو اس سفر کے لیے ضرورت ہو سکتی ہے، رکھی گئی ہیں۔

آسمان کی بلندیوں پر ایک پُرآسائش سفری تجربہ دینے والے نیپچون۔ ون کی تمام سیٹیں اور متعلقہ اشیاء کی پہلی خلائی پروازیں جو 2024 ء کے آغاز پر لاؤنچ کی جائیں گی وہ بُک ہوچکی ہیں۔ پرسپیکٹیو کے تجویزکردہ خلائی سیّاحتی منصوبے کے لیے واقعتاً اچھا ردعمل مل رہا ہے۔ کمپنی کے بیان کے مطابق اب تک 450 سیٹیں فروخت کی جاچکی ہیں اور یہ اگلے سالوں 2025 ء یا اس کے بعد کے سالوں کے لیے قابل ِقبول ہوں گی۔

خلائی سیّاحتی میدان میں دوسری جانب ارب پتیوں کی اس دوڑ میں رچرڈبرانسن اور جیف بیزوس بذات خود خلاء کی سیاحت کر آئے ہیں اور ان کی مستقبل قریب کی تجارتی خلائی پروازوں کا مکمل اعلان کیا جارہا ہے۔ تاریخ کے سب سے امیر ترین پہلے ٹریلین پتی ایلون مسک نے بھی اس ریس میں اپنا حصّہ بٹاتے ہوئے دنیا کی پہلی شہری خلائی پرواز ’’انسپریشن ۔4 ‘‘ کے نام سے خلاء میں پہنچائی ہے۔

غباروں کے ذریعے سیّاحت کے ٹکٹ کی قیمت جو پرسپیکٹیو وصول کررہی ہے وہ آربیٹل پرواز کے لیے ان تمام ارب پتی کمپنیوں کی ڈیمانڈز سے بہت کم ہے۔ ورجن والے نے حال ہی میں اپنی خلائی سفر میں جو ’’وی ایس ایس۔یونیٹی‘‘ کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچا تھا، ٹکٹ کی قیمت اب 450,000 ڈالرز تک جا پہنچی ہے جب کہ اسپیس ایکس کی ’’انسپریشن۔4 ‘‘ مشن کے چاروں مسافروں کی قیمت 55 ملین ڈالر فی سیٹ ادائی کی گئی تھی، جس میں نصف ادائی ایک اسپتال کے چیریٹی فنڈ سے ادا کی گئی۔ اس کے علاوہ ان کی حریف کمپنی بلیواوریجن نے بھی حالیہ تاریخی فلم اسٹار ولیم شینٹر کی پرواز کے لیے اپنی دو سیٹیں 28 ملین ڈالر فی سیٹ فروخت کی ہیں، اس میں اداکار شینٹر کو اعزازی مہمان کے طور پر جگہ دی تھی۔

اگر نیپچون ون یا غباروں کی مدد سے سیّاحتی پرواز کی قیمت کا موازنہ بہ مقابلہ ٹائم کیا جائے جو کہ کم ازکم چھے گھنٹے کی پرواز کا ہے جو کمپنی بیان کررہی ہے، تو پتا چلا ہے کہ دوسری طرف مسافروں کو بلیواورجن وغیرہ کی طرف سے راکٹ کی مدد سے محض گیارہ منٹوں کی پرواز کا موقع ملتا ہے تو بہرحال کہنا پڑتا ہے کہ ان غباروں کی مدد سے زیادہ سے زیادہ وقت مل سکے گا، جب خلاء کی قربت سے دو گھنٹوں تک مسافر سیّاح اس کیفیت میں رہ کر گزاریں گے، چناںچہ یہ عام مسافر سیاحوں کے لیے ایک بڑی کام یابی ہوگی۔

نیوز ویب سائیٹ ’’بزنس ان سائیڈر‘‘ کے ایک حالیہ انٹرویو سے انکشاف ہوا ہے، پرسپیکٹیو کی بانی جین کہتی ہیں کہ کمپنی کے عہد کے مطابق پہلی لاؤنچ کرو ٹیسٹ 2023 ء میں متوقع ہے، تب زیادہ غالب امکا ن ہے کہ آنے والے سال کمرشل خلائی مہمات کے اہم ہوں گے۔2030 ء میں ان کی کمپنی 500 خلائی مسافروں کو سالانہ بنیاد پر خلاء کی سیر کرانے کی منصوبہ سازی کررہی ہے۔ سب آربیٹل خلائی سفر کے لیے اب نیپچون ایک قابل اور امید افزاء انتخاب ہے۔

دیکھنا ہے کہ یہ کیسے مقبولیت حاصل کرتا ہے اور کام یابی سے ہم کنا ر ہوتا ہے۔ یہ نہایت دل چسپی کا حامل ہوگا۔ سُپریئر غبارے کی خلائی ٹیکنالوجی آج کے بہترین پرواز کے حامل راکٹوں کا مقابلہ کرنے جارہی ہے جو ان نجی بڑی خلائی کمپنیوں نے تیار کرلیے ہیں، اور جن کی قیمت بھی لاکھوں ڈالروں میں ہوتی ہے۔ کمپنی ’’ورلڈ ویوانٹرپرائزز‘‘ کا کہنا ہے کہ ہم غبارے کے ذریعے کیپسول کو خلاء میں بھیجنے کے خلائی سیّاحت کی انتہائی مہنگی لاگت کو کم کرنا چاہتے ہیں۔

کمپنی کے ایک ترجمان کے مطابق خلائی سیاحت پر بڑے پیمانے پر دنیا کی وسیع آبادی والی اکثریت کی رسائی نہایت مہنگا سودا ہے اور عام لوگوں کی دسترس حاصل کرنے میں طویل وقت درکار ہوگا، کیوںکہ اس کی ترقی نہایت سست روی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

اسپیس پرسپیکٹیو کی چیف آفیسر جین نے سی این این سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری کمپنی نے عام لوگوں کو زمین و خلاء کے نظاروں سے لطف اندوز کروانے کا بیٹرا اٹھایا ہے۔ زمین و خلاء، دونوں جگہوں پر ابھی بہت زیادہ ریسرچ کی ضرورت ہے، زمین پر زندگی کا فائدہ اور اس کے اثرات کو ہم کیسے دیکھتے ہیں؟ اور کیسے اپنے سیّارے سے پیوستہ ہوسکتے ہیں، وہاں اسپیس پرسپیکٹیوکھڑا ہے، اس خلائی پیش رفت کے حصول کی جدوجہد میں اپنے طاقت ور سیّاحتی حریفوں اسپیس ایکس، ورجن اور بلیواوریجن کے درمیاں۔ پچھلے سال کے ایک ٹوئیٹ میں جین نے لکھا ہے کہ،’’خلاء ہر ایک کے لیے ہے ، کوئی بھی کہیں بھی ہے اسے شوق ہونا چاہیے کہ کائنات کو اور اس میں اپنے مقام کو جانے!‘‘

’ورلڈ ویو‘‘ کمپنی بھی 2024 ء سے پروازیں شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کمپنیوں کو پہلے فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی(FAA ) سے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اگر سب کچھ منصوبوں کے مطابق درست سمت میں جاری رہتا ہے تو یہ سفر کم ازکم خلاء کے ایک سرے تک، جلد ہی ٹرانسپورٹ جیسی سواری کی قیمت میں ممکن بن جائے گا۔

بتدریج اور مزید کمپنیاں اس سیّاحتی میدان عمل میں وارد ہورہی ہیں اور جب ا ن کے کھلنے سے خلاء کی سیاحت کے اور زیادہ مواقع عوام کو میسر آسکیں گے اور زیادہ کاروباری مقابلہ آرائی کے نتیجے میں سیاحتی سفر میں اخراجات میں بھی نمایاں کمی آئے گی اور تب خلاء سے خاص لگاؤ رکھنے والوں کے لیے بھی مناسب قیمت کی ادائی پر کم از کم ایک بار اسے دیکھنے کا موقع مل سکے گا اور وہ خلاء کے مناظر سے مستفید ہوں گے اور وہ اپنی آنکھوں سے دنیا کو بنا سرحدوں کے دیکھ پائیں گے تو دنیا پھر ایک بہتر جگہ بنے گی۔ تب انسانیت ہماری زمین کے مستقبل کو نمایاں طور پر بہتر بنانے میں کام یاب ہوجائے گی، کمپنی کو اس پر کامل یقین ہے۔

The post خلائی سیّاحت اور غبارے appeared first on ایکسپریس اردو.

برانڈ اور اس کی حقیقت

$
0
0

واہ کینٹ: ’’ارے واہ بھئی! بہت خوب صورت شرٹ پہن رکھی ہے۔‘‘ عمران نے بے ساختہ اپنے دوست کی نئی شرٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا، جس پر اس کا دوست اترا کر بولا: ’’جی ہاں، بہت مشہور برانڈ کی ہے اور خاصی مہنگی بھی۔ بھائی نے گفٹ کی ہے۔ وہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اچھا برانڈ خلوص کا ثبوت ہے۔‘‘

آج کل ہر چیز میں برانڈ کا چلن ہے۔ ہم برانڈڈ اشیاء کو ہی کیوں پسند کرتے ہیں؟ کیا ہر مشہور برانڈ اعلیٰ اور معیاری ہوتا ہے؟

دورِحاضر میں دنیا کے تقریباً سبھی معاشرے برانڈ کے خبط میں مبتلا ہیں۔ اگر پاکستان ہی کی بات کی جائے تو یہاں ہر قسم کی اشیائے صرف میں برانڈ داخل ہو چکا ہے۔ تیارشدہ غذائی اشیاء، فاسٹ فوڈ، روزمرّہ استعمال کی اشیاء سے لے کر سامانِ تعیش، فرنیچر، جدید فیشن کے مطابق ملبوسات، خوشبویات، جوتے اور لگژری گاڑیوں وغیرہ تک میں برانڈ کا عمل دخل ہو چکا ہے۔ برانڈ کے تصور نے ہمارے معاشرے کی اخلاقی، معاشی، معاشرتی سوچ کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ برانڈ کی تشہیر کے لیے بھاری بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مقامی مصنوعات کے مقابلے میں برانڈڈ اشیاء مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں۔ اچھے اور مہنگے برانڈ کی مصنوعات کے حصول کی دوڑ نے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے، ایک وہ جو خرید سکتے ہیں اور دوسرے وہ جو اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اب ہماری یہ نفسیات بن چکی ہے کہ مقامی مصنوعات چاہے کتنی معیاری، خوب صورت اور دیرپا ہی کیوں نہ ہوں، برانڈڈ اشیاء کے مقابلے میں کم تر محسوس ہوتی ہیں۔

برانڈ نہ ہونے کی صورت میں جنس کی اہمیت ہماری نظر میں خودبہ خود کم ہوجاتی ہے۔ اس نفسیات کو مدِنظر رکھتے ہوئے مقامی کارخانوں میں برانڈ کے نام پر دوسرے درجے کی کم قیمت اشیاء تیار کر کے عوام کی خواہش کی تسکین توکردی جاتی ہے مگر اس طرح اصل صارف برانڈ کے نام پر دھوکا کھا جاتا ہے۔

دوسری جانب معروف اور کام یاب برانڈ اپنے معیار پر بالکل سمجھوتا نہیں کرتے۔ یہی حکمت عملی ان کی کام یابی کی ضامن ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے معاشرے کے افراد کے دلوں میں ان اداروں سے منسلک ہونے اور اپنا روزگار وابستہ کرنے کی خواہش اور جستجو فروغ پاتی ہے۔ کام یاب کمپنی کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں موجود دوسرے کارخانے بھی اس دوڑ میں شریک ہوجاتے ہیں اور اس طرح مقابلے کی فضاء بن جاتی ہے۔ دیگر کمپنیاں برانڈڈ اشیاء سے زیادہ اچھی اور معیاری مصنوعات بازار میں لانے اور عوام کا دل جیتنے کی تگ و دو میں مصروفِ عمل رہتی ہیں جو کہ ایک صحت مند رجحان ہے۔

صارف کو خریداری کرتے ہوئے مطلوبہ مصنوعات کے چناؤ میں زیادہ سوچ و بچار کرکے فیصلہ کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا۔ وہ خود بخود اچھے اور معیاری برانڈ کی طرف لپکتا ہے جس کی شہرت زبانِ زدِعام ہوتی ہے۔ اچھا برانڈ وہی ہے جو مناسب دام، معیاری اور عوام کی دسترس میں ہو ۔ بے شک اچھا برانڈ اپنا تعارف آپ ہوتا ہے۔

کمپنیاں اپنا برانڈ مارکیٹ میں نمایاں کرنے، اسے بلند مقام تک پہنچانے، صارفین کے ذہنوں میں ثبت کرنے ، اور اپنی ساکھ کو مستقل طور پر برقرار رکھنے کے لیے بہت تگ و دو کرتی ہیں۔ کاروباری دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی نام ور برانڈ کسی وجہ سے اپنا اعتماد کھو دے اور پھر وہ خواہ کتنا ہی معیاری کیوں نہ ہو دوبارہ اٹھ نہیں پاتا۔

آخر یہ برانڈ ہے کیا؟ برانڈ کسے کہتے ہیں؟ اردو میں برانڈ کا مطلب چھاپنا یا مشہور کرنا ہے۔ کسی بھی کمپنی یا کارخانے کی پیدا وار کا واضح اور پر کشش کاروباری اور تجارتی نام اور خاص نشان کو برانڈ کہتے ہیں جس سے صارفین کو اس کے منفرد نام ، نشان اور خاصیت کی بنا پر پہچاننا آسان ہو جاتا ہے۔

برانڈ یا تجارتی نام کی تاریخ 2000قبل مسیح پرانی ہے جو بطورِ خاص کسی شخص کی ذاتی ملکیت کو ظاہر کرتی ہے۔ قدیم دور میں کسان اپنے مویشیوں کے ریوڑ کو دوسروں کے مویشیوں کے ریوڑ سے ممیز اور ممتاز کرنے کے لیے اپنا کوئی خاص نشان لگا دیتے تھے ۔ اسی طرح ہنرمند اور دست کار بھی اپنی تخلیق کی گئی پیداوار پر اپنا خاص نشان ثبت کر دیتے جو ان کی خاص پہچان بن جاتا تھا۔

گینیزبک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق برطانیہ میں بنا ایک خاص سیرپ دنیا کا قدیم ترین برانڈ ہے جو پین کیک، دلیہ وغیرہ کی بیکنگ اور ٹاپنگ کے کام آتا ہے۔ یہ سبز اور سنہری پیکج میں دست یاب ہوتا ہے۔ 1885ء سے آج تک اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ برانڈ کے قابلِ اعتماد ہونے میں اس کے قدیم ہونے کا بھی اہم کردار ہے۔

خاص تجارتی نام کے پیچھے حکمتِ عملی یہ ہوتی ہے کہ کمپنیاں اپنے صارف کے ساتھ وفاداری کو لازم قرار دیتی ہیں۔ یعنی صارف حقیقی معنوں میں کسی خاص برانڈ کے بارے میں پُراعتماد ہوتا ہے اور یہ یقین رکھتا ہے کہ اس جیسا دوسرا کوئی نہیں۔ وہ اپنے حلقہ احباب میں بھی اپنے پسندیدہ برانڈ کو بطور مثال پیش کرتا ہے۔ یہی برانڈ کی اصل کام یابی ہوتی ہے۔

برانڈ کو دوسری مصنوعات سے ممتاز کرنے اور عوام میں اس کی پہچان کو مستحکم کرنے کے لیے اس کا دیدہ کش خاص نشان (لوگو)، پرکشش سلوگن، منفرد ڈیزائن، معنویت، کاروباری نقطۂ نظر، اس کی شناخت جیسے پہلوؤں کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ اشتہارات میں متوقع صارفین کو یہ یقین دلانے کے لیے سلوگن کے طور پر ’نام ہی کافی ہے‘، ’نام ہی پہچان ہے‘، ’نام ہے اعتماد کا‘، ’ہر گھر کی شان‘، ’دنیا بھر کا جانا مانا ہوا‘ ، ’تین نسلوں کا بھروسا‘ جیسے الفاظ کہے جاتے ہیں۔

برانڈ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ گلوبل برانڈ اور لوکل برانڈ۔

گلوبل برانڈ کی بنائی گئی اشیاء دنیا کے سبھی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں یکساں مقبول ہوتی ہیں۔ ان برانڈز کی مصنوعات میں گاڑیاں، کمپیوٹر، ٹیلی ویژن، لباس وغیرہ تقریباً ہر ملک میں دست یاب ہوتی ہیں۔ عام طور پر ان کے قبولِ عام ہونے کی وجہ اس کی منفرد اور دیدہ زیب ڈیزائنگ اور پائے داری کے علاوہ دوسری کمپنیوں کے مقابلے میں پیشگی سہولیات کی فراہمی ہوتی ہے۔ جیسے کاریں بنانے والے خاص برانڈز ABS بریک سسٹم، انجن کی کیپیسٹی، پاور، کشادگی، آرام اور حفاظتی آلات مہیا کرتے ہیں۔ معروف بینک اپنے کلائنٹ کو ATMکارڈ جیسی کئی بہترین سہولیات پیش کرتے ہیں۔

لوکل برانڈ کی کمپنی اپنی مصنوعات کی پیداوار اپنے ہی ملک میں تیار کر کے مختلف شہروں تک فراہم کرتی ہے اور ملک میں ہی جانی پہچانی جاتی ہے جن میں کھانے پینے تیار شدہ اشیاء، اچار، چٹنی، مربے، مصالحے، کپڑے، دست کاری جیسی مصنوعات شامل ہیں۔

اگر پیداواری یا انفرادی برانڈ کی بات کی جائے تو یہ ذاتی پروڈکشن کو ظاہر کرتی ہیں۔ جیسے فلم پروڈکشن میں ہالی وڈ، بولی وڈ، لالی وڈ۔ ہالی وڈ کی مووی اسٹوڈیو، پیراماؤنٹ پکچرز، یونیورسل اسٹوڈیو، وارنر برادرز۔ ان کی تقریباً تمام بڑی اسکرین کی فلمیں بلاک بسٹر شمار کی جاتی ہیں۔ اسی طرح انڈیا اور پاکستان کی مختلف ذاتی پروڈکشنز ہیں۔ ان کے ویڈیو گیمز، ویب سائٹس، میوزک اور ویڈیوز وغیرہ ہیں۔

آرگنائزیش برانڈ میں مضبوط معروف آرگنائزیشن برانڈز جیسے گوگل، مائکرو سافٹ وغیرہ ہیں۔ بیکنک کی دنیا میں تیار شدہ غذائی اشیاء برگر، سینڈوچز اور چپس وغیرہ۔

سروس برانڈز صارف کو سروس مہیا کرنے والی کمپنی سے کسی خاص ہنر کی خدمات پیش کرتی ہے۔ اس برانڈ میں گاہک اور کمپنی میں اعتماد کا خاص تعلق استوار ہوجاتا ہے جو گاہک کے کام یاب تجربات پر مبنی ہوتا ہے۔ جیسے پلمبر، لائیر، پوسٹل سروس جو اپنی تیزترین رفتار اور ایمان داری کا وعدہ پورا کرتی ہے۔ اسی طرح ریلوے، بینک، اور اسپتال کے ذریعے عوام کو خاص خدمات دی جاتی ہیں۔ خاص سروس برانڈ کی بہترین مثال ہوائی سروس ہے جو اپنے مسافروں کو Top.notch یعنی بہترین اور عمدہ درجے کی خدمات پیش کرتی ہے۔

گروپ برانڈز کچھ برانڈز پر مشتمل ہوتا ہے جن کے کاروباری مفادات یکساں ہوتے ہیں۔

ایونٹ یا تہواری برانڈز تجارتی اور صنعتی نمائش، قومی یا مذہبی تہوار کے پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ یہ خاص مواقع، قومی یا مذہبی تہوار کے دن مشہور و معروف مقررین کی تقاریر، پریزنٹیشن، پینلز، بحث و مباحثہ، کانفرنس، اجلاس وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں۔ کسی بھی تہوار کی آمد پر پورے دن یا آدھے دن کا سیمینار اور تربیتی کلاسز اہتمام کیا جاتا ہے اور وی آئی پی خواتین و حضرات کے تجربات پر مبنی خطبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

جغرافیائی یا علاقائی برانڈز یعنی یہ برانڈز کسی مخصوص علاقے یا جغرافیائی حدود سے متعلق ہوتے ہیں، جیسے سوئس ملٹری، امریکن ایکسپریس، بوسٹن سائنٹفک وغیرہ۔ امریکن ایئرلائن، کیلیفورنیا پیزاکچن وغیرہ علاقائی برانڈز کی مثالیں ہیں۔

نان پرافٹ برانڈز جو کہ مختلف کچھ خاص عوامی فلاح و بہبود کی سماجی تنظیمیں جن کی خدمات شک و شبہہ سے بالاتر اور مفادات سے مبّرا ہوتی ہیں جو مستحق اور یتیم بچوں، پناہ گزینوں کی رہائش، پرورش اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتی ہیں اور کچھ وبائی اور موذی امراض جیسے کینسر وغیرہ کی وجوہات کی تحقیق اور علاج کے لیے کام کرتی ہیں۔

ایکٹویسٹ برانڈ جو نسلی تعصب کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ یہ برانڈز انسانیت کی برابری پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی پیداوار کے ذریعے اپنے اس نظریے کو اجاگر کرتے ہیں۔

پبلک برانڈز۔ یہ وہ برانڈز ہیں جو عوام کے لئے اپنی کمپنی کا کچھ حصہ بیچ دیتے ہیں مثلاً Ticker، Facebook وغیرہ۔

انوسٹر برانڈز۔ H&M، oracle، Amazon، Disney جو دنیا بھر میں رابطے کے لیے e-mail ، بھاری مقدار میں ذاتی ڈیٹا اسٹور کرنے کی ، گھر بیٹھے تمام دنیا سے خریداری کی اور سیروتفریح کے لیے پارک، ہوٹل، لائبریر وغیرہ کی سہولیات مہیا کرتے ہیں۔

پرسنل برانڈ شخصیت کو ذاتی طور پر اجاگر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس برانڈ کے تحت کوئی بھی شخص خود کو اپنے منفرد ہنر، تجربات اور اپنی شخصیت سے دنیا میں متعارف کرا سکتا ہے۔ یہ سب کچھ وہ اپنی ذاتی کہانی، رویّے اور اپنے کہے گئے الفاظ سے بیان کر سکتا ہے۔ اگر آپ اپنے کسی ہنر میں طاق ہیں تو اپنی ذاتی ویب سائٹ کے ذریعے ناظرین اور سوشل میڈیا کی پسندیدگی کی بنا پر اپنا پرسنل برانڈ خود بن سکتے ہیں۔ اس میں آپ کی اچھی شہرت، اچھی باتیں، پیغام، ہنر اور ناظرین کی پسند کو مدِنظر رکھ کر بنائے گئے پروگرام سب شامل ہیں۔

The post برانڈ اور اس کی حقیقت appeared first on ایکسپریس اردو.

پانامہ اور پیراڈائز کے بعد پنڈورا پیپرز کے ہوشربا انکشافات

$
0
0

پانڈورا پیپرز کی تحقیقات دنیا کا اب تک کا سب سے بڑا انکشاف ہے، جس میں 117 ممالک کے 150 میڈیا آؤٹ لیٹس کے 600 سے زائد صحافی شامل ہیں۔

پنڈورا پیپرز 12ملین سے زیادہ لیک ہونے والی دستاویزات کا ایک اجراء ہے جو تقریباً 3 ٹیرا بائٹس ڈیٹا پر مشتمل ہیں۔ یہ ٹیکس ہیونز، شیل کارپوریشنز، اور آف شور اکاؤنٹس کے ایک پیچیدہ جال کو بے نقاب کرتے ہیں جو اربوں ڈالر کے اثاثوں کی حقیقی ملکیت کو چھپاتے کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔

یہ امیروں اور اشرافیہ کے پوشیدہ غیر اخلاقی یا پھر بدعنوانی پر مبنی معاملات سے پردہ اُٹھاتا ہے۔ ممتاز عالمی رہنما، سیاست دان، کارپوریٹ ایگزیکٹوز، مشہور شخصیات اور ارب پتی اس میں شامل ہیں۔ یہ اب تک جاری ہونے والا اس طرح کا سب سے بڑا ڈیٹا ڈمپ ہے جو پچھلے پاناما پیپرز اور پیراڈائز پیپرز لیکس سے بڑا ہے۔یہ اکتوبر 2021 کے شروع میں منظر عام پرآیا۔

دستاویزات میں ایسے افراد کی غیر ملکی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ان کی ٹیکس شیلٹرنگ اسکیموں کا بھی پتہ چلتا ہے۔اسے ”Pandora” کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ یہ دستاویزات مستقبل میں تحقیقات اور مقدموں کا پنڈورا باکس کھولنے کا باعث بن سکتی ہیں۔

3ٹیرا بائٹس کا ڈیٹا  جو آئی سی آئی جے اور دنیا بھر کے میڈیا پارٹنرز کو مہیا کیا گیا مختلف صورتوں میں ہے۔

1۔دستاویزات

دستاویزات میں درج ذیل شامل ہیں:

٭پاسپورٹ ، ٭بینک اسٹیٹمنٹ ، ٭ٹیکس ڈیکلریشن ، ٭کمپنی انکمپوریشن ریکارڈ ، ٭رئیل اسٹیٹ کنٹریکٹ اور سوالنامے

2۔تصاویر

3۔ای میلز

4۔اسپریڈ شیٹس و دیگر

11.9 ملین سے زیادہ کے ریکارڈ میں آدھی سے زیادہ تر فائلیں  تقریبا 6.4 ملین ٹیکسٹ دستاویزات ہیں۔ 4 ملین سے زیادہ پی ڈی ایف شامل ہیں جن میں سے کچھ 10000 سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہیں ۔

لیک میں 4.1 ملین سے زائد تصاویر اور ای میلز بھی ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ اسپریڈ شیٹ 467000 سے زیادہ ہیں۔ ریکارڈ میں سلائیڈ شو اور آڈیو اور ویڈیو فائلیں بھی شامل ہیں۔

انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (ICIJ) نے یہ اعداد و شمار کئی سالوں کی تگ و دو کے بعد حاصل کر کے جاری کئے۔ آئی سی آئی جے، واشنگٹن، ڈی سی میں قائم ایک گروپ ہے جو 150 سے زیادہ میڈیا اداروں کے ساتھ اپنی اب تک کی سب سے بڑی عالمی تحقیقات پر کام کر رہا ہے۔ یہ انکشافات اہم اس لیے بھی ہیں کہ اگر ان میں بتائی گئی بے ضابطگیاں ثابت ہو جاتی ہیں تو مرتکب اعلیٰ شخصیات کے خلاف موثر قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ افشا کی جانے والی دستاویزات بتاتی ہیںکہ کس طرح ان افراد نے آف شور اکاؤنٹس، شیل کمپنیوں، رئیل اسٹیٹ اور دیگر منافع بخش منصوبوں میں خفیہ طور پر پیسہ لگایا۔

آئی سی آئی جے کے مطابق جن لوگوں کو بے نقاب کیا گیا ہے ان میں 35 موجودہ اور سابق عالمی رہنما، 91 ممالک اور خطوں میں 330 سے زیادہ سیاست دان، عوامی عہدیدار، مفرور مجرم، فنکار اور قاتل شامل ہیں۔ پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والی دستاویزات، ’جن میں سے کچھ کئی دہائیوں پرانی ہیں‘ 14 آف شور مالیاتی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کی طرف سے آئی ہیں۔ آف شور اکاؤنٹس اور کارپوریٹ ادارے قانونی ہوسکتے ہیں۔ لیکن کچھ دستاویزات غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے امکان کو ظاہر کرتے ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں موجود غیر ملکی کارپوریشنز میں آف شور اکاؤنٹس یا ملکیتیں غیر قانونی نہیں ہیں۔ تاہم، ان ہولڈنگز کا اعلان نہ کرنا اور ٹیکس سے بچنے یا کاروباری معاملات کو چھپانے کے لیے ان کا استعمال کرنا قابل اعتراض ہے۔

آئی سی آئی جے ایک عالمی نیٹ ورک ہے جس نے 2016 میں پاناما پیپرز جیسی اعلیٰ سطحی لیکس اور ڈیٹا ڈمپس پر مبنی رپورٹیں جاری کی تھیں ۔پاناما پیپرز نے 200 سے زائد ممالک کے افراد کی جانب سے ٹیکس سے بچنے کی سرگرمیوں بے نقاب کیا تھا۔ ایک سال بعد آئی سی آئی جے نے 2017 میں پیراڈائز پیپرز کو لیک کیا تھا۔ جس میں 13.4 ملین دستاویزات اور 1.4 ٹیرا بائٹس ڈیٹا نے دوبارہ قرض کے معاہدوں، مالیاتی بیانات، ای میلز، ٹرسٹ ڈیڈز اور دیگر کاغذی کارروائیوں پر مشتمل پیچیدہ بین الاقوامی ٹیکس سے بچنے کی اسکیموں کو بے نقاب کیا تھا۔

پنڈورا پیپرز کی معلومات کا ڈیٹا 2.94 ٹیرابائٹس اور 11.9 ملین سے زیادہ دستاویزات پر مشتمل ہے جس کو  14 فراہم کنندگان کے ریکارڈز سے حاصل کیا گیا ہے، یہ فرمیں کم از کم 38 قسم کی خدمات پیش کرتی ہیں۔ 2016 پاناما پیپرز کی تفصیلات2.6 ٹیرا بائٹ ڈیٹا پر مبنی تھی۔ 11.5 ملین دستاویزات ’موساک فونسیکا‘ نامی ایک ہی فرم سے حاصل ہوئیں جسے اب غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔ 2017 پیراڈائز پیپرز کی تفصیلات ایک آف شور لا فرم ’ایپل بائی‘ سے حاصل ہوئی تھیں، 13.4 ملین فائلوں پر مشتمل 1.4 ٹیرا بائٹس کے اس ڈیٹا میں سنگاپور میں قائم ایشیا سٹی ٹرسٹ، اور 19 کارپوریٹ رجسٹریوں سے لیک ہونے والی معلومات بھی شامل تھیں۔

پانڈورا پیپرز نے 27000 سے زائد کمپنیوں اور ان سے فائدہ حاصل کرنے والے 29000 مالکان کے بارے میں معلومات اکٹھا کیں جو پاناما پیپرز میں بیان کردہ فائدہ اُٹھانے والے مالکان کی تعداد سے دوگنا سے بھی زیادہ ہیں۔ آئی سی آئی جے کی فراہم کردہ معلومات کی رو سے آف شور رکھی گئی رقم ( یعنی اپنے ملک سے حاصل کیا گیا مشکوک سرمایہ جسے ملک سے باہر آف شور کمپنیوں میں رکھا گیا ہو) کا تخمینہ 5.6 ٹریلین امریکی ڈالر سے لے کر 32 ٹریلین امریکی ڈالر تک ہے۔

اس لیکس میں مجموعی طور پر 35 موجودہ اور سابق صدور، وزرائے اعظم اور سربراہان مملکت کے علاوہ 100 سے زائد ارب پتی مشہور شخصیات اور کاروباری و مذہبی رہنماؤں سمیت تقریبا 100 ممالک کے 400 سرکاری عہدیداروں کے خفیہ آف شور اکاؤنٹس کو ظاہرکیا گیا ہے۔

پنڈورا پیپرز میں بہت سے پارسا اور پردہ نشین بھی بے نقاب ہوئے ہیں جبکہ تفتیش و تحقیق کی کی گئی لاکھوں فائلوں میں شامل سینکڑوں لوگوں کے بارے میں قابل ذکر انکشافات پہلے ہی سامنے آ چکے ہیں۔ لیکس میں ٹیکس کے قوانین کے مطابق کچھ سرگرمیاں قانونی تھیں لیکن ان کا جواز پیش نہیں کیا جا سکا۔ کچھ فائلیں 1970 کی تاریخ دکھا رہی تھیں، لیکن وہ دراصل 1996 سے 2020 کے درمیان بنائی گئیں اور ان اعداد و شمار میں فوربز کی فہرست میں شامل اشخاص بھی ہیں۔

اب لیکس میں چند نامور اشخاص کا تز کرہ کیا جا رہا ہے جیسے: اس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور ان کی اہلیہ چیری بھی دکھائی دیں۔ جنہوں نے لندن میں ایک وکٹورین عمارت خریدی جس کی قیمت 8.8 ملین ڈالر ہے۔

چلی کے صدر Sebastián Piñeraکینیا کے صدر اہورو کینیاٹا، مونٹینیگرین کے صدر میلو Ðukanovic،، قطری امیر تمیم بن حمد التھانی، متحدہ عرب امارات کے وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران محمد بن راشد المکتوم، گیبونیز کے صدر علی بونگو اوندیمبا، لبنانی وزیر اعظم نجیب میکاتی شامل ہیں۔ ایکواڈور کے صدر گلرمو لاسو، ارجنٹائن کے سابق صدر ماؤریسیو ماکری، ایکواڈور جائم Durán باربا کے اہل خانہ، اور سائپریوٹ کے صدر نیکوس انستاسیادیس، اس کے علاوہ اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم، اپنی 30 کمپنیوں اور مالیبو میں تین حویلیوں کے ساتھ موجود ہیں۔

جمہوریہ چیک کے وزیر اعظم آندرج بابیس کے بارے میں دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک سینما اور دو سوئمنگ پول کے ساتھ ایک چیٹو خریدنے کے لیے ایک آف شور نیٹ ورک استعمال کیا،بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر ڈومینک اسٹراس کاہن، جنہوں نے بطور مشیر کام کرتے ہوئے ٹیکس سے گریز کیا، کھیلوں کی دنیا کے جانے مانے چہروں میں کارلو اینسلوٹی، اور بارسلونا ایف سی کے سابق منیجر پیپ گارڈیولا سمیت سینکڑوں شخصیات اس فہرست میں شامل ہیں۔

ان کاغذات میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ آذربائیجان کے حکمران علیئیف خاندان کی ملکیت ایک دفتر بلاک کو 2018 میں کراؤن اسٹیٹ کو 66 ملین پا ونڈ میں فروخت کیا گیا تھا جس سے علیف کو 31 ملین پا ونڈ منافع حاصل ہوا تھا۔ 33 ملین £ مالیت کا ایک اور دفتر بلاک 2009 میں اس خاندان کو فروخت کیا گیا تھا اور اسے آذربائیجان کے صدر الہام علیف کے بیٹے حیدر کو تحفے میں دیا گیا تھا۔ یوکرائن کے سابق صدر پیٹرو پوروشینکو کے حامیوں نے ان کے جانشین زیلنسکی پر ٹیکس چوری کا الزام لگایا جو انسداد بدعنوانی مہم پر اقتدار میں آئے۔ دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے قریبی ساتھیوں سویٹلانا کریونوگیخ اور گینیڈی ٹمچینکو کے موناکو میں خفیہ اثاثے ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔

فہرست میں بین الاقوامی جرائم پیشہ تنظیم کے رہنما بھی شامل ہیں، جیسے کہ رافیلے آماتو، آماتو پاگانو قبیلے کے باس، کیمورا کے اندر ایک قبیلہ، جو منشیات کی بین الاقوامی اسمگلنگ کے لیے بدنام ہے۔ آماتو نے اسپین میں زمین خریدنے کے لئے برطانیہ میں ایک شیل کمپنی کا استعمال کیا اور جرائم کی دنیا کے بادشاہ جیسے رافیل اماتو، اطالوی کیمورا مافیا باس جنہوں نے فلم گومورا کو متاثر کیااور جنہیں 2009 میں ہسپانوی شہر ملاگا سے گرفتار کیا گیا، مفرور ڈائمنٹائر نیرو مودی کی بہن پوروی مودی، ڈارک ویب سائٹ الفا بے کے بانی الیگزنڈر کیز و دیگرغیر قانونی منشیات کے کرتا دھرتا بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

فیشن اور تفریحی دنیا کے ستارے جولیو اگلیسیاس اور شکیرا کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ ماڈل کلاڈیا شیفر؛ ہندوستانی کرکٹ کھلاڑی سچن ٹنڈولکر، بھارتی ارب پتی انیل امبانی،چینل ون روس کے سی ای او کونسٹانٹن ارنسٹ۔ میگوئل بوسے، پیپ گارڈیولا اور جولیو ایگلسیاس کے نام بھی مشکوک مالیاتی سرگرمیوں کے حوالے سے سامنے آئے ہیں۔

ٹیکس ہیون‘ یا ’ٹیکس چوری کرنے کی پناہ گاہ‘ دراصل ایسے ممالک یا مقامات کو کہا جاتا ہے جو سیاسی اور اقتصادی طور پر مستحکم ماحول میں غیر ملکی کاروباری سرگرمیوں اور افراد کو ان کے خفیہ یا علانیہ بینک ڈپازٹس کے لیے با سہولت خدمات پیش کرتا ہے۔ ان آف شور کمپنیاں ایسے اُصول ضوابط کے تحت کام کرتی ہیں جن کے ذریعے ان کی خدمات حاصل کرنے والوں کے لیے ٹیکس بچانے ، غیرقانونی دولت کو چھپانے اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے انتہائی پُر کشش مواقع موجود ہوتے ہیں۔

دولت مند افراد عموماً امریکہ اور دیگر ممالک میں زیادہ ٹیکسوں سے گریز کرتے ہوئے بیرون ملک کمائی گئی رقم کو محفوظ کرنے کے لیے قانونی طور پر ٹیکس پناہ گاہوں کا استعمال تو کر تے ہی ہیں۔ یہ ’ٹیکس کی پناہ گاہیں غیر قانونی طور پر اندرون ملک ٹیکس حکام سے رقم چھپانے کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ ٹیکس ہیون کہلانے والے ممالک غیر ملکی ٹیکس حکام کے ساتھ تعاون نہ کر کے اپنے گاہکوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں ٹیکس پناہ گاہوں پر غیر ملکی ٹیکس فراڈ کی تحقیقات میں تعاون کرنے کے لیے بین الاقوامی سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ٹیکس پناہ گاہیں کارپوریشنوں اور بالادست طبقات کو ٹیکس چوری میں سہولت فراہم کر کے غیر ملکی گاہکوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ان ممالک نے ایسے قوانین بنا رکھے ہیں جو ان کے غیر ملکی گاہکوں کے مالی معلومات کو رازداری کے نام پر اُن ممالک کے حکام سے مخفی رکھنے کا جواز فراہم کرتے ہیں جہاں سے رقم چرائی گئی ہوتی ہے۔ ٹیکس پناہ گاہ میں رقم جمع کرانے کو اس وقت تک قانونی تصور کیا جاتا ہے جب تک جمع کنندہ اُس ملک کا مطلوبہ ٹیکس ادا کرتا رہے۔

سادہ لفظوں میں ٹیکس پناہ گاہوں کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ اپنے دائرہ اختیار میں بہت کم شرح ٹیکس کے عوض اپنے گاہکوں کو ان کے اپنے ملکوں سے کمائی ہوئی یا چرائی ہوئی دولت کو اپنے ملکوں کی زائد شرح ٹیکس اور سخت مالیاتی قوانین سے تحفظ فراہم کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہیں، اور ان آف شور کپمنیوں میں اپنی کالی کمائی چھپانے اور استعمال کرنے کے لئے انہیں آف شور کمپنی والے ملک میں رہائش رکھنے کی بھی ضروت نہیں ہوتی۔ موافق ضوابط اور منفی رازداری کا امتزاج کارپوریشنوں اور افراد کے لئے ان آف شور کپمنیوں کو انتہائی پُر کشش بنا دیتی ہیں اور وہ اپنی دولت اپنے ملک کے بجائے یہاں منتقل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب تک سب سے زیادہ رقوم برٹش ورجن آئی لینڈ، کیمن آئی لینڈز اور برمودا میں چھپائی گئی ہیں۔

ٹیکس پناہ گاہیں دوسرے ممالک میں یا ان ممالک کے ماتحت کسی الگ قانونی دائرہ اختیار کے تحت قائم علاقوں میں کام کرتی ہیں۔ اس وقت بین الاقوامی ٹیکس پناہ گاہیں بھی موجود ہیں جیسے کہ کچھ امریکی ریاستوں میں دولت پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت ان ریاستوں کو دولت چھپانے والوں کے لیے پُرکشش بناتی ہے، حالانکہ اس سے انہیں امریکہ کے وفاقی ٹیکسوں سے بچنے میں مدد نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر، ریاستہائے متحدہ میں، الاسکا، فلوریڈا، نیواڈا، نیو ہیمپشائر، ساؤتھ ڈکوٹا، ٹینیسی، ٹیکساس، واشنگٹن اور وومنگ میں ریاستی انکم ٹیکس کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک امریکی کے نقطہ نظر سے، ”آف شور” کہیں بھی امریکی دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

جن غیر ملکوں کی ٹیکس پناہ گاہوں میں یہ سرمایہ چھپایا یا رکھا جاتا ہے اُس سرمائے سے یہی ملک معاشی فائدہ حاصل کرتے ہیں جبکہ جن ملکوں سے یہ سرمایہ بھیجا جاتا ہے وہ غریب سے غریب تر ہوتے جاتی ہیں۔ دوسری جانب آف شور کپمنیوں میں سرمایہ رکھنے والے افراد اور کارپوریشنز اپنے ملک کے نفع نقصان کی پرواہ کئے بغیر انفرادی فائدے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیںاور خصوصی ٹیکس تحفظات کی اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔

دنیا بھر میں ٹیکس ہیون ممالک کی درجہ بندی کے لیے کوئی جامع معیار نہیں ہے لیکن کئی ریگولیٹری ادارے ٹیکس پناہ گاہ والے ممالک کی نگرانی کرتے ہیں جن میں آرگنائزیشن آف اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (او ای سی ڈی) اور یو ایس گورنمنٹ اکاؤنٹیبلٹی آفس (جی اے او) شامل ہیں۔ ٹیکس کی پناہ گاہیں دنیا بھر میں غیر قانونی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتی ہیں۔ لہذا جو مواقع یہ کمپنیاں فراہم کرتی ہیں ان کی وجہ سے ترقی پذیر ملکوں میں اپنی دولت کو باہر چھپا کر رکھنے کے رحجان میں اضافہ ہوتا ہے۔

منی لانڈرنگ کے پیچیدہ عمل میں یہ کپمنیاں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ منی لانڈرنگ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے کسی ملک میں غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی بلیک منی کو ان شیل کمپنیوں ( انہیں شیل کمپنیاں اسی لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ سیپی کی طرح دولت کو پوشیدہ رکھنے کا کام کرتی ہیں) میں گھمایا جاتا ہے۔ یعنی دولت ایک کمپنی سے دوسری اور تیسری میں زیر گردش رہتی ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کا کھوج لگانا آسان نہ رہے۔ ایسا کرنے والوں نے ان ملکوں میں اپنا جھوٹا سچا بزنس آفس یا کوئی کور بھی بنا رکھا ہوتا ہے۔

انہیں جب ضرورت ہوتی ہے وہ اپنے ان بظاہر جائز ذرائعے کے توسط سے یہ رقم واپس منگو کر استعمال کر لیتے ہیں۔ ٹیکس کی وصولیوں کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کے لیے بہت اکثر ممالک کی حکومتیں ٹیکس کی پناہ گاہوں پر مسلسل دباؤ برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہیں، تاکہ انہیں آف شور سرمایہ کاری اکاؤنٹس سے متعلق معلومات تک رسائی حاصل رہے۔ تاہم، مالیاتی بوجھ کی وجہ سے ریگولیٹری نگرانی ہمیشہ ہر ملک کی قومی ترجیح نہیں رہ سکتی۔دنیا بھر میں، غیر ملکی سرمایہ کاری کی جان کاری کو مربوط اور مسلس بنانے کے لیے کچھ پروگرام موجود ہیں۔ مالیاتی معلومات کا خودکار تبادلہ ایک مثال ہے جس کی نگرانی آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (OECD) کرتی ہے۔

پروگرام میں حصہ لینے والے ممالک کے لئے لازم ہے کہ وہ غیرملکی کھاتا داروں کی ٹیکس سے متعلق بینکنگ معلومات بغیر کسی تقاضے کا انتظار کئے خوداُن ممالک کو بھیجیں جن کے وہ شہری ہیں۔

اس وقت دنیا کی دس10 بڑی بیرون ملک ٹیکس پناہ گاہوں میں برمودا، نیدرلینڈز، لکسمبرگ، جزائر کیمین، سنگاپور، چینل آئی لینڈ، آئل آف مین، ماریشس، سوئٹزرلینڈ اور آئرلینڈ شامل ہیں۔ ایپل اور نائیکی جیسی امریکی کمپنیاں سب سے زیادہ ٹیکس پناہ گاہیں استعمال کرتی ہیں جبکہ گولڈ مین سیکس کے پاس بیرون ملک سب سے زیادہ نقد رقم کا اندازہ ہے۔

صرف ایپل کاآئرلینڈ میں تقریباً 215 بلین ڈالر کا بینک اکاونٹ ہے۔اس کے علاوہ آف شور اکاؤنٹس والے دیگر بڑے کاروباروں میں مائیکروسافٹ، آئی بی ایم، جنرل الیکٹرک، فائزر، ایگزون موبائل، شیورون، اور والمارٹ شامل ہیں۔ کارپوریشنز اور دولت مند افراد بنیادی طور پر غیر ممالک میں اپنی آمدنی پر کم یا ٹیکس بالکل نہ ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری سے، کریڈٹ، یا دیگر خصوصی ٹیکس تحفظات جائز طریقے سے حاصل ہو سکتے ہیں۔

ٹیکس کی پناہ گاہیں کریڈٹ کے شعبے میں بھی فوائد مہیا کر سکتی ہیںکیونکہ امریکہ میں قائم کمپنیوں کے لیے بین الاقوامی سطح پر فنڈز لینا کم مہنگا ہو سکتا ہے۔ ٹیکس کی پناہ گاہوں کو چلانے والے بہت تیز طرار اور سمجھدار ہوتے ہیں، وہ غیر ملکی ٹیکس حکام کو اپنے گاہکوں کی بہت محدود یا کوئی بھی مالی معلومات مہیا نہیں کرتے۔ جن ملکوں میں یہ کپمنیاں کام کرتی ہیں ان ممالک کی معیشتوں کو بہت فائدہ پہنچتا ہے، وہ اس طرح کہ جب ان کے مالیاتی ادارے بہت زیادہ رقم لاتے ہیں۔

اس رقم کو پھر منافع حاصل کرنے کے لئے سرمایہ کاری میں لگا دیا جاتا ہے۔ یوں اپنے گاہکوں کو فراہم کی جانے والی ٹیکس میں چھوٹ اس سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے سود کے ذریعے کئی گنا بڑھا کر حاصل کر لیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی 50 امریکی کمپنیوں کے پاس اس وقت تقریباً 1.6 ٹریلین ڈالر جمع ہیں۔

یہاں پر آف شور کمپنیاں کا ذکر کرنا بے حد ضروری ہے جو ایک ایسے ملک میں بنائی جاتی ہیں جو اس ملک سے مختلف جگہہ ہوتی ہے جس میں ان کے فائدہ اٹھانے والے مقیم ہوتے ہیں۔ عالمی معیشت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا ان کا واضح مقصد ہے۔ ان کمپنیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کم یا صفر ٹیکس کی شرح اور رازداری فراہم کرنے کے مقصد سے قائم کیا جاتا ہے لہذا ان کے دائرہ کار کو بھی مبہم رکھا جاتا ہے۔ ان کمپنیوں کی ان ممالک میں کوئی حقیقی سرگرمی نہیں ہے جہاں وہ رجسٹرڈ ہیں۔

انہیں نہ دفتر کی ضرورت ہے اور نہ ملازمین کی۔ ان کا استعمال عام طور پر، اثاثوں کے حقیقی مالک کے لیے مالی یا قانونی ذمہ داریوں کو چھپانے اور ان سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے جو کہ مالیاتی ہو سکتا ہے۔ انہی کمپنیوں جائیداد اور دیگر اثاثوں کی خرید میں اپنی پہچان مخفی رکھنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ 2017 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں اندازہ لگایا گیا کہ عالمی جی ڈی پی کا 10 فیصد آف شور کمپنیوں میں موجود ہے۔

ٹیکس ہیون میں کمپنی رکھنا قانونی ہو سکتا ہے بشرطیکہ اثاثے اور ان کی سرگرمی سے حاصل ہونے والی آمدنی حکام کو بتائی جائے جہاں فائدہ اٹھانے والا عام طور پر رہتا ہے۔ درحقیقت عالمی مارکیٹ میں کام کرنے والی بڑی کمپنیوں کے لیے تو یہ معمول کی بات ہے کہ وہ اپنے ذیلی اداروں کو ان میں سے کچھ علاقوں میں قائم کرکے اپنے ٹیکسوں کے بوجھ کو ہلکا کر سکیں۔ لیکن مسائل اس وقت شروع ہوتے ہیں جب ان کمپنیوں اور ان کے منافع کو جان بوجھ کر چھپایا جاتا ہے، ان کے وجودکا حکام کے سامنے اعلان نہیں کیا جاتا اور یہی کچھ پنڈورا پیپرز کے بہت سے معاملات نظر آتا ہے۔ ان مشکوک معاملات میں ناجائز سمائے کی آمد و رفت پوشیدہ رکھی جاتی ہے جس کی وجہ سے رشوت، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری یا دہشت گردی کی مالی معاونت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

یہ بات بڑی توجہ کی حامل ہے کہ پنڈورا پیپرز میں پاکستان کے وزیروں، مشیروں عہدے داروں سمیت 700 سے زائد شہریوں کی دولت کا انکشاف کیا گیا ہے جن میں موجودہ حکومت کے سیاسی حلیفوں اور سول اور فوجی بیورو کریسی کے خاندانوں کے بعض افراد کے نام بھی شامل ہیں۔

اگرچہ کہ موجودہ حکومت نے پینڈورا پیپرز میں سامنے آنے والے تمام پاکستانیوں کے خلاف ایک شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کا عزم کیا ہے جو کہ ایک احسن اقدام ہے لیکن یہ انتہائی حساس معاملہ ابھی تک عدم توجہی اور التواء کا شکار ہے اور تاحال اس پر موثر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف پاکستانی شہریوں پر لگنے والے الزامات کی شفاف تحقیقات کو یقینی بنایا جائے بلکہ عالمی سطح پر بھی کوشش کی جائے کہ آف شور کمپنیوں میں چھپائی جانے والی ناجائز دولت کو تحفظ فراہم کرنے کی روش کے خاتمے کے لئے عالمی سطح پر موثر قانون سازی ممکن ہو سکے۔ ملوث پائے جانے والے افراد کے خلاف حقیقی قانونی چارہ جوئی اس لئے بہت ضروری ہے کہ مستقبل میں ملک سے دولت چوری کر کے باہر بیھجنے کے رحجان کی حوصلہ شکنی ہو اور منی لانڈرنگ کی سرگرمیوں کا مستقل قلع قمع ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی بے دردی سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جا سکے جس سے قومی و فلاحی کام کیے جائیں جوغربت، افلاس،بے روزگاری اور مہنگائی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں اور ملک و قوم ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکے۔

The post پانامہ اور پیراڈائز کے بعد پنڈورا پیپرز کے ہوشربا انکشافات appeared first on ایکسپریس اردو.

میانمار کی خواتین مسلح جدوجہد پر کیوں مجبور ہوئیں؟

$
0
0

امسال جولائی میں فوجی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانے سے پہلے ، ’ کابیا مے‘ نے کبھی ٹرائوزر نہیں پہنا تھا۔ ’ ساگینگ ‘ نامی علاقے سے تعلق رکھنے والی یہ 23 سالہ استانی بھی میانمار کی دیگر عام خواتین کی طرح ، ایک مخصوص قسم کی چادر یا لنگی باندھتی تھی۔ تاہم اب وہ ’ میانگ ویمن وارئیرز ‘ (Myaung Women Warriors) نامی لڑاکا خواتین کے گروہ میں شامل ہے۔ اس لئے اس کی زندگی کا رنگ ڈھنگ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔

میانگ ویمن وارئیرز میں زیادہ تر کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طالبات ہیں،ان کے علاوہ بعض گھریلو خواتین بھی، اور بعض سرکاری ملازمین بھی۔ یہ لڑکیاں ، خواتین اپنے گھر والوں کے ساتھ کھیتی باڑی بھی کرتی تھیں۔ تاہم فوج نے بغاوت کی تو ملک میں کچھ اچھا ہونے کی ٹمٹماتی ہوئی امید بھی بجھ گئی۔

انھوں نے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کیا تو سیکورٹی فورسز نے ان کے اعزا و اقربا کو گولیوں سے بھون ڈالا یا پھر انھیں لاپتہ کر دیا گیا۔ کسی کا باپ اور کسی کا بھائی، کسی کا شوہر۔ یوں ان خواتین کے سامنے جینے کی کوئی دوسری راہ نہ تھی، نتیجتاً وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر مسلح جدوجہد کی طرف نکل کھڑی ہوئیں ۔

’ کابیا مے‘ کا کہنا ہے:’’ میں کتوں کی نسل ختم کرنے کے لئے اس مسلح تحریک میں شامل ہوئی ہوں۔ میں خواتین کے اس مسلح گروہ میں اس لئے شامل ہوئی ہوں کہ دنیا کو بتا سکوں کہ خواتین بھی مردوں جیسے کام کر سکتی ہیں ۔‘‘ وہ میانمار کی سیکورٹی فورسز کو کتوں سے تشبیہہ دے رہی تھی ۔ باقی مزاحمت کار بھی سیکورٹی فورسز کا تذکرہ ایسے ہی کرتے ہیں۔

یکم فروری سن دو ہزار اکیس کو میانمار کی فوج نے ایک بار پھر اقتدار سنبھالا تو اس کے خلاف لوگوں نے پرامن انداز میں احتجاج کیا ، تاہم جب سیکورٹی فورسز نے مظاہرین کا قتل عام شروع کیا تو ملک میں بعض جگہوں پر پرامن تحریک ، مسلح تحریک میں بدل گئی۔

بالخصوص میانگ کا علاقہ پورے ملک میں مزاحمت کی ایک بڑی مثال بن چکا ہے ۔ یہاں بڑی تعداد میں خواتین مزاحمتی تحریک کا حصہ بن چکی ہیں لیکن ایک علیحدہ عسکری گروہ کی صورت میں۔ اس گروہ کی چار خواتین نے گزشتہ دنوں مشہور عرب میڈیا ادارے ’ الجزیرہ ‘ سے وابستہ ایک صحافی سے گفتگو کی ۔ چاروں خواتین کا کہنا تھا کہ وہ فوجی ڈکٹیٹرشپ کے پرخچے اڑانے کے ساتھ ہی ساتھ روایتی معاشرے کے مخصوص صنفی معیارات کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ قوم کی تعمیر میں خواتین کو بھی مساوی کردار دیا جائے گا۔ خواتین نے صحافی کو پابند کیا کہ ان کے فرضی نام ظاہر کئے جائیں گے اور تصاویر بھی اس انداز میں دی جائیں گی کہ جگہ کی پہچان نہ ہو سکے۔

جب آرمی چیف ’ من آنگ لینگ ‘ نے اقتدار پر قبضہ کیا تو پورے ملک میں خواتین نے مزاحمتی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ گارمنٹس فیکٹریوں کی کارکن خواتین سب سے پہلے سڑکوں پر آئیں ۔ اس کے بعد جمہوریت کے حق میں جتنے بھی مظاہرے ہوئے، خواتین سب سے آگے تھیں ۔ یہ خواتین ہی تھیں جنھوں نے سول نافرمانی تحریک شروع کی ، اقلیتی نسلی گروہوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتی رہیں ۔ انھوں نے اپنی نسوانیت کو مزاحمتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ۔ مردوں نے بھی ان کے ماتحت کام کیا اور اس طعنے کی پرواہ نہ کی کہ عورت کے ماتحت کام کرنے والے مرد نہیں، نامرد ہوتے ہیں۔

مزاحمت میں پیش پیش خواتین مردوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں۔ انھوں نے اپنی ’ لنگیوں‘ کو پرچم کے طور پر استعمال کیا، ماہواری کے پیڈز پر فوجی بغاوت کرنے والے ’جنرل من آنگ لینگ ‘ کی تصاویر لگائیں، اپنی لنگیوں ، نیکروں اور استعمال شدہ پیڈز کو جگہ جگہ بڑی تعداد میں لہرا کر سیکورٹی فورسزکی تضحیک کی اور انھیں آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی۔ زیرجاموں اور سینیٹری پیڈز پر آرمی چیف کی تصاویر لگا کر مظاہرہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فوج کی نسبت یہ اشیائے ضروریہ عورت کی بہتر حفاظت کرتی ہیں۔

ایسا اس لئے ہو رہا تھا کہ فوج بلاتفریق مرد و زن جمہوریت کے حامیوں کو قتل کر رہی تھی۔ جب یہ سطور رقم کی جا رہی تھیں، ایسوسی ایشن فار پالیٹیکل پرزنرز ( برما ) کے مطابق ، سیکورٹی فورسز 1260 لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کر چکی تھیں جن میں 87 خواتین شامل تھیں ۔ جن 12000 لوگوں کو سزائیں سنائی گئیں، جیلوں میں ڈالا گیا، ان میں 1300سے زائد خواتین شامل تھیں۔

خواتین کا مسلح مزاحمتی تحریکوں کا حصہ بننا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ ملک میں نسلی بنیادوں پر جاری مسلح گروہوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی صفوں میں سینکڑوں خواتین موجود ہیں ۔’ نا زیپورہ سین ‘ کیرن نیشنل یونین کی سابقہ وائس چئیرپرسن ، 2015ء کے امن مذاکرات میں مسلح نسلی تنظیموں کی طرف سے مذاکرات کار تھیں ۔ فوج کے ساتھ ان مذاکرات کے نتیجے میں تاریخی سیز فائر ہوا تھا ۔

میانمار میں مسلح نسلی تنظیموں پر ایک ریسرچ رپورٹ 2019ء میں ’ دی پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اوسلو‘ کے زیراہتمام شائع ہوئی، اس کے مطابق میانمار میں خواتین نے مردوں کے ماتحت اپنا بھرپورکردار ادا کیا۔ تاہم مرد رہنماء خواتین کی صلاحیتوں کو پہچان ہی نہ سکے اور ان کی طرف سے پیش کردہ آئیڈیاز کو نظر انداز کرتے رہے۔ وہ اندازہ ہی نہ کر سکے کہ خواتین میانمار میں امن قائم کرنے میں کس قدر اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ۔ خواتین نے اس امتیازی سلوک کو نظرانداز نہ کیا۔ اب وہ اس کے خلاف بھی لڑائی کر رہی ہیں۔

مساوات کے لئے جنگ:
بغاوت کرنے والے فوجی جرنیلوں کے خلاف مزاحمتی تحریک میں زیادہ تر نوجوان ہی ہیں۔ پہلے پہل تو وہ فوجی بغاوت کے خلاف نکلے تھے لیکن اب وہ دیگر کئی مسائل کے خلاف بھی جدوجہد کررہے ہیں۔ وہ محض سیاسی نظام نہیں ، بلکہ مجموعی طور پر سارے معاشرتی نظام کی اوورہالنگ چاہتے ہیں۔ وہ معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔

عمارہ ’ میانگ ویمن وارئیرز ‘ کی ترجمان ہیں، کہتی ہیں:’’ ہمارا گروہ زبردستی کی صنفی تقسیم کو چیلنج کر رہا ہے۔ معاشرہ مردوں اور عورتوں کے لئے مخصوص کاموں کا تعین کرتا ہے جبکہ ہم ان دقیانوسی تصورات کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں ۔ ہم دنیا کو دکھا رہے ہیں کہ بچے کو جھولا جھولانے والے ہاتھ بھی مسلح انقلاب لاسکتے ہیں۔‘‘ امسال فروری میں فوجی بغاوت سے پہلے عمارہ نے کبھی تصور نہیں کیا تھا کہ وہ انقلابی جنگجو بنے گی۔ تاہم اپنے ارد گرد تشدد اور لوگوں کو قتل ہوتے دیکھ کر وہ مسلح جدوجہد کا حصہ بننے پر مجبور ہو گئی ۔ اس کے خیال میں اس کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہ تھا ۔ یہ بہت ضروری اقدام تھا ۔

’’ میں نے اسلحہ اس وقت اٹھایا ، جب کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ میں خوفزدہ رہتی تھی کہ نجانے مجھ پر کیا مصیبت ٹوٹ پڑے لیکن اب ہم سب خواتین پُرعزم ہیں کہ ہمیں یہ جنگ جیتنا ہے۔ ہم ذہنی طور پر تیار ہو رہے ہیں ، ہم معمول کی زندگی نہیں گزار رہے ہیں،اس لئے ہمیں اپنے دماغ کو قابو میں رکھنا ہوگا۔‘‘

میانمار میں ’ دی میانگ ویمن وارئیرز ‘ کے علاوہ بھی مزاحمتی گروہ موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت 300 مسلح گروہ فوج کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ان میں بڑے گروہ بھی ہیں اور چھوٹے گروہ بھی۔ اراکان آرمی ، تانگ نیشنل لبریشن آرمی ، میانمار نیشنل ڈیموکریٹ الائنس آرمی اور کاچن انڈیپینڈنس آرمی نمایاں گروہ ہیں۔ زیادہ تر مقامی گروہ ہیں۔ بعض نسلی امتیاز کے ردعمل میں قائم ہوئے۔ یہ پیپلزڈیفنس فورسز کی صورت میں اکٹھے ہیں۔ عمارہ کہتی ہے: ’’ پورا ملک انقلاب کے بخار میں مبتلا ہے۔ ہم اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور عورتوں کے کردار کو بڑھا رہے ہیں ۔‘‘

29اکتوبر کو ، ’ پیپلز ڈیفنس فورسز ‘ نے ایک پولیس سٹیشن پر حملہ کیا اور اسے نذر آتش کردیا ۔ عمارہ کہتی ہے کہ ہم نے مقامی دیہاتیوں پر حملوں کے لئے استعمال ہونے والے اس پولیس سٹیشن کو جلا دیا تھا تاکہ فوجیوں اور پولیس والوں کی راہ روکی جائے ۔ یاد رہے کہ پولیس سٹیشن پر اس حملے کی تصاویر اور ویڈیوز بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شئیر ہوئی تھیں ۔ عمارہ کہتی ہے:’’ عوام کی طرف سے حمایت نے عورتوں کو قوت فراہم کی اور جدوجہد جاری رکھنے کا جذبہ دیا۔ ان کی ساری توجہ اپنی جدوجہد پر مرکوز ہے۔ ہم خواتین کسی بھی وقت اور کہیں بھی لڑ سکتی ہیں ۔ جنگجو بہادر ہوتے ہیں، دوٹوک ہوتے ہیں اور وفادار بھی ۔ ہم قوم کی خاطر لڑائی کے لئے تیار ہیں ۔‘‘

’ کابیا مے‘ ( سابقہ استانی ) نے اس وقت اسلحہ اٹھایا جب ابھی ’ میانگ ویمن وارئیرز ‘ قائم بھی نہیں ہوئی تھی ۔گروپ کی تشکیل دو ماہ بعد ہوئی ۔ میانمار کے دیگر نوجوانوں کی طرح اس نے بھی بڑھتی ہوئی مشکلات ، عدم تحفظ کا سامنے کرنے کے بعد اور تاریک ہوتے مستقبل کو دیکھتے ہوئے اسلحہ اٹھایا۔ وہ کہتی ہے:’’ جب سے فوجی بغاوت ہوئی ہے، کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا ہے۔ نوجوان سوچ رہے ہیں کہ ان کا وقت ضائع ہو رہاہے۔ ہم آزادانہ طور پر سفر نہیں کر سکتے، جب کتے ( فوجی ) آتے ہیں ، لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں ۔ میں ایسے مناظر مزید نہیں دیکھنا چاہتی ۔ ‘‘

اپنے والدین کے پانچ بچوں میں سے سب سے بڑی ’ کابیا مے‘ کا کہنا ہے کہ اس نے سن 2020ء کے اوائل میں ٹیچر ٹریننگ کالج سے گریجویشن کی ، وہ پرامید تھی کہ اس کی تنخواہ اس قدر ہوگی کہ اس کے والد کو دیہاڑی پر مزدوری کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، وہ مقامی کسانوں کے کھیتوں پر کیڑے مار ادویات کا سپرے کرتا ہے۔ پھر چند ماہ بعد پورے ملک میں کورونا وبا کے باعث سکول بند ہوگئے، چنانچہ ’ کابیا مے‘ ایک باربی کیو ریسٹورنٹ پر کام کرنے لگی۔

فوجی بغاوت ہوئی تو بڑے پیمانے پر اساتذہ نے فوجی انتظامیہ کے ماتحت کام کرنے سے انکار کردیا اور ہڑتال کردی۔ ’ کابیا مے‘ بھی اس ہڑتال میں شامل ہوگئی۔ جب باربی کیو ریسٹورنٹ بھی بند ہوگیا تو ’ کابیامے ‘ نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر فصلوں پر سپرے کرنا شروع کردیا۔ اسی طرح وہ دیگر کئی کام بھی کرنے لگی۔ اس نے بتایا: ’’ میرے گھر میں زیادہ افراد ہیں، اور ہم روزانہ کی اجرت والے کاموں پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر ہم ایک روز بھی کام نہ کریں تو ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔‘‘

جب ’ کابیامے ‘ نے سنا کہ اس کے قصبے کے لوگ ایک مسلح مزاحمتی گروہ تشکیل دے رہے ہیں تو اس نے کسی سے پوچھا کہ وہ خواتین کو بھی شامل کررہے ہیں؟ مثبت جواب حاصل ہونے پر جولائی میں وہ اسلحہ چلانے کی تربیت حاصل کرنے لگی۔ اس دوران میں ، نہ صرف اسے پہلی بار ٹرائوزر پہننا پڑا بلکہ ایک بند کوارٹر میں غیر مردوں کے ساتھ بھی رہنا پڑا۔ اس نے بتایا:

’’ پہلے پہل مجھے بہت شرم محسوس ہوئی لیکن پھر میں عادی ہوگئی اور ہم سب ساتھی بن گئے۔ جب میں مردوں کے ساتھ ٹریننگ حاصل کر رہی تھی ، خاص طور پرڈنڈ پیلنے کے دوران میں مجھے پٹھوں اور کمر کے درد کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم میں نے اس درد کو برداشت کیا اور تربیت میں شامل رہی۔‘‘

انقلابی زندگی
میانمار کے جنوبی مشرقی علاقے میں ، تھائی لینڈ کی سرحد کے نزدیک ’ کایا ‘ ریاست اور ہمسائیہ ریاست ’ شان ‘ کے قصبات میں متحرک دو نوجوان خواتین نے بتایا کہ کورونا وبا اور فوجی بغاوت کے نتیجے میں جب ان کے تعلیمی سلسلہ کو برباد کیا گیا تو انھوں نے مقامی مسلح گروہوں میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ اپنی گھریلو زندگی سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی تھیں۔

مئی دوہزار اکیس میں پیپلز ڈیفنس فورس( پی ڈی ایف ) نے ان علاقوں کی مقامی مسلح تنظیموں سے اتحاد کر لیا تاکہ اُس فوج کے خلاف ایک مضبوط قوت تشکیل دی جائے جو فضائی حملے بھی کرتی ہے، پورے کے پورے علاقے نذر آتش کر دیتی ہے، لوگوں پر اندھا دھند بم پھینکتی ہے، چاہے سامنے بوڑھے ہوں ، عورتیں ہوں یا بچے ہوں ۔ میانمار کے جنوبی مشرقی علاقے سے قریباً ایک لاکھ 65 ہزار افراد گھر سے بے گھر ہو چکے ہیں ۔ اگر پورے میانمار کا جائزہ لیا جائے تو اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق فروری سے اب تک قریباً دو لاکھ 23 ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔

مئی میں جب ’ کایاہ ‘ ریاست میں مزاحمتی گروہوں اور فوج کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ پھیل گیا تو ’ پالی ‘ بھی اپنے گائوں چھوڑنے پر مجبور ہوگئی، وہ اپنے گھر والوں اور گائوں کے دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں مسلسل چلتی رہی تھی۔ اکیس سالہ ’ پالی‘ نے جو کورونا وبا پھوٹنے تک یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی ، گائوں چھوڑنے کے وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا:

’’ موسم بہت ٹھنڈا تھا اور پینے کے لئے پانی بھی میسر نہیں تھا۔ ہمارے پاس نہ سویٹرز تھے نہ ہی کوٹ تھے، ہمارے پاس صرف ایک ، دو دن کے لئے کھانے کا سامان تھا بس! ہمیں سخت خطرات کے درمیان میں اشیائے ضروریہ جمع کرنا تھیں۔ اچھے دن لوٹ آنے کی امیدیں دم توڑ رہی تھیں ۔‘‘

نتیجتاً ’ پالی‘ نے مزاحمتی تحریک کی حمایت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ جولائی میں ایک دوست نے اسے ’ پیپلز ڈیفنس فورس ‘ کی مقامی شاخ میں شمولیت کی دعوت دی اور اس نے یہ دعوت قبول کرلی۔ اسے مزاحمتی گروہ کی میڈیکل ٹیم میں رکھا گیا۔ یوں وہ لوگوں کے علاج معالجہ کے فرائض سرانجام دینے لگی بالخصوص جو لوگ سیکورٹی فورسز سے جھڑپوں میں زخمی ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ لوگوں کو تحریک کا حصہ بننے یا اس کی حمایت کرنے کی تربیت بھی دیتی ہے ، کھانے پکانے کے کام بھی کرتی ہے، اسی طرح وہ لڑائی سے متاثرہ لوگوں کے لئے دیگر امدادی سرگرمیاں بھی سرانجام دیتی ہے۔

بعض لوگ سخت مطالبات تسلیم کرنے یا احکامات پر عمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں لیکن ’ پالی ‘ کو اس قسم کے حالات مضبوط اور باہمت بناتے ہیں۔ اب وہ جنگی ماحول میں جینا سیکھ چکی ہے۔ اس نے بتایا:

’’ جب میں نے پہلی بار گن فائر کی آواز سنی تو میں سخت خوفزدہ ہوئی لیکن اب میں اس کے عادی ہوچکی ہوںکیونکہ سارا وقت یہی آوازیں سنتی رہتی ہوں۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہماری زندگیاں خدا کے ہاتھ میں ہیں، جب ہمارا وقت آئے گا ، تب ہی ہمیں موت آئے گی۔ یہ بات ہم سب کو آگے بڑھنے اور جدوجہد جاری رکھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔‘‘

جنگجومرد اور خواتین مختلف اوقات میں مختلف کام کرتے ہیں۔ ’ پالی ‘ کا کہنا ہے :’’ انقلابی زندگی کی مشکلات میں ایک ساتھ زندگی بسر کرنے کے نتیجے میں ایک طرح کی دوستی اور مساوات قائم ہوجاتی ہے۔ خواتین کو بہت سے کام کرنا پڑتے ہیں، بعض خواتین مسلح گروہوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں لیکن ان کے والدین اجازت نہیں دیتے، کیونکہ لوگ ہمیں نازک اور کمزور سمجھتے ہیں۔ ہمیں ثابت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم سخت کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ہم کر سکتی ہیں۔‘‘

بیس سالہ ’ نیوے او پان ‘ کا تعلق شان ریاست کے قصبے ’ موئی بائی ‘ سے ہے ، کورونا وبا پھوٹنے سے پہلے، وہ یونیورسٹی کی طالبہ تھی، فوجی بغاوت کے بعد جب شورش شروع ہوئی اور وہ گھر سے بے گھر ہوئی تو دربدری کی زندگی اسے ’ پیپلزڈیفنس فورس ‘ کی طرف لے گئی۔ اس نے بتایا : ’’ میں نے دیکھا کہ فوجی عام لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں ، تب میں نے سوچا کہ کیا مجھ سے بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے گا؟ کیا مجھے دربدی کی زندگی ہی گزارتے رہنا چاہیے یا پھر ان فوجیوں کے ساتھ لڑائی کرنی چاہیے؟‘‘

اب وہ مردوں اور عورتوں کے ساتھ عسکری زندگی گزار رہی ہے۔’’ہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں کبھی جنگل میں نہیں رہی تھی،ساری زندگی پڑھنے لکھنے ہی میں گزاری، اب ہمیں روزانہ پہاڑوں پر چڑھنا اور اترنا ہوتا ہے ، چاہے دھوپ ہو یا بارش ہو۔ مجھے بالکل نئے تجربات حاصل ہوئے ہیں۔ اب تو مجھے ماہواری کے درد کا بھی احساس نہیں ہوتا، کیونکہ میں جنگلات میں رہتے اور سفر کرتے ہوئے غیر معمولی طور پر سخت جان ہو چکی ہوں۔ اس سے پہلے مخصوص ایام میں ، درد کے مارے میں بستر پر لیٹ جاتی تھی ۔ اب میں جنگل میں رہتی ہوں ، دوسروں کے درمیان میں رہتی ہوں ، پہلے کی طرح زندگی بسر نہیں کرتی ۔‘‘

’ نیوے او پان ‘ نے لڑائی کے میدان کا انتخاب کیا، وہاں اسے موت سے بڑا یہ خوف لاحق تھا کہ اگر وہ اس میدان میں آگے نہ بڑھ سکی تو دوسری جنگجوئوں پر بوجھ بن جائے گی ۔ تاہم پھر وہ روز بہ روز پراعتماد ہوتی چلی گئی۔ وہ کہتی ہے: ’’ میں اس سوچ میں پختہ ہو چکی ہوں کہ جو کچھ مرد کر سکتے ہیں، وہی ہم عورتیں بھی کر سکتی ہیں۔ میں اس انقلابی جدوجہد کے ذریعے صنفی مساوات کا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

اپنی ہی قوم کو فتح کرنے والے جرنیل کئی محاذوں پر الجھ گئے
اٹھارہ سالہ ’ ماکیال زن ‘ تائیکوانڈو ، چٹ پٹی خوراک اور شوخ اور بھرپور سرخ لپ اسٹک پسند کرتی تھی۔ وہ جب ’ منڈالے ‘ میں جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں شرکت کے لئے گھر سے نکلنے لگی تو باپ نے اسے سینے سے لگایا ، خیریت سے واپس آنے کی دعا دی۔ وہ ایک پرامن مظاہرے میں شرکت کے لئے جا رہی تھی جو ملک کے سیاسی نظام پر ایک بار پھر فوجی قبضے کے خلاف ہورہا تھا۔ مظاہرے میں زیادہ تر یونیورسٹیوں اور کالجز کے نوجوان تھے۔’ ماکیال زن ‘ بھی یونی ورسٹی طالبہ تھی ، اس نے ایک سیاہ شرٹ پہن رکھی تھی جس پر لکھا تھا: ’’ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘

سیکورٹی فورسز کو توقع نہیں تھی کہ مظاہرین اس قدر بڑی تعداد میں جمع ہو جائیں گے ۔ چنانچہ انھیں منتشر کرنے کی بار بار کوشش کی گئی ۔ انھیں ڈرایا دھمکایا گیا، ان پر آنسو گیس پھینکی گئی ، ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں لیکن مظاہرین منتشر ہونے کو تیار نہ تھے ۔ وہ پرجوش انداز میں نعرے لگا رہے تھے ۔ سہ پہر کا وقت ہوچکا تھا۔ سیکورٹی فورسز نے مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلانا شروع کردیں ۔ ایک فوجی نے پرجوش انداز میں نعرہ زن ’ ماکیال زن ‘ کے سر کا نشانہ لیا ، گولی سیدھی اس کے سر میں اتر گئی، ’ ماکیال زن‘ موقع پر ہی دم توڑ گئی۔ ہلاک ہونے والی یہ اٹھارہ سالہ لڑکی ہی نہیں تھی بلکہ سیکورٹی فورسز نے پورے ملک میں مجموعی طور پر ڈھائی درجن لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔ اس قدر خونی دن میانمار نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔

جس مظاہرے میں ماکیال زن ہلاک ہوئی تھی، وہاں دو مزید لڑکیاں بھی ہلاک ہوئی تھیں۔ باقی ماندہ دونوں لڑکیوں کے دل کا تاک کا نشانہ لیا گیا۔ یوں تین گولیوں نے تین جوان لڑکیوں کو ختم کردیا۔ واضح رہے کہ جس روز یہ واقعہ پیش آیا ، اس سے ایک روز پہلے اخبارات میں فوجی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ جمہوریت کے حق میں سڑکوں پر آنے والوں پر گولیاں نہیں برسائے گی، اگر بہت زیادہ ضرورت پڑی تو ان کے جسموں کے بالائی حصوں کا نشانہ نہیں لیا جائے گا۔

میانمار میں فوج 1958ء سے بالواسطہ اور پھر 1962ء سے بلاواسطہ برسراقتدار رہی۔2011ء میں آنگ سان سوچی کی قیادت میں جمہوریت بحال ہوئی ، ڈری ڈری سی جمہوریت۔ تاہم دس برس بعد 2021ء میں ایک بار پھر فوج نے ملک پر قبضہ کر لیا۔ جرنیلوں کو توقع نہیں تھی کہ انھیں ماضی کی نسبت زیادہ سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس مزاحمت کی خاص بات نوجوان نسل کا سڑکوں پر آنا ہے، اس سے بھی زیادہ اہم بات لڑکیوں ، طالبات اور خواتین کا ہراول دستے کے طور پر کردار ادا کرنا ہے۔

اب کی بار ایک خاص بات یہ بھی ہوئی کہ سیکورٹی فورسز کے اندر بھی قیادت کے خلاف بغاوت ہوئی۔ اب تک کم ازکم 2000 فوجی اور پولیس والے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجاً استعفے دے کر سول نافرمانی یا مزاحمتی تحریکوں سے وابستہ ہوچکے ہیں۔ وہ اپنے وطن کا دفاع کرنے کا خواب سجائے فوج میں بھرتی ہوئے تھے لیکن انھیں اپنے ہی لوگوں پر گولیاں برسانے کے لئے بھیج دیا گیا۔ پونے تین لاکھ سے ساڑھے تین لاکھ کی فوج میں، اگرچہ باغی فوجیوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے تاہم یہ ایک بڑے بحران کی ابتدا کا پتہ دے رہی ہے۔

اس وقت فوج کو بھرتی کے لئے نوجوان نہیں مل رہے ہیں ،67 سالہ تاریخ میں پہلی بار ڈیفنس سروسز اکیڈمی اس سال ’ فریش مین کلاس ‘ کی سیٹیں پوری نہ کر پائی۔ میانمار سٹڈیز پروگرام (انسٹی ٹیوٹ آف سائوتھ ایشین سٹڈیز، سنگاپور )کے شریک ڈائریکٹر موئی تھوزر کا کہنا ہے کہ اس قدر بڑے پیمانے پر بغاوت انھوں نے کبھی نہیں دیکھی۔ فروری سے اب تک ہم مسلسل فوجیوں کو باغی ہوتے اور برسرعام باغی ملیشیائوں کی حمایت کرتے دیکھ رہے ہیں۔ پہلے زیادہ تر باغی فوج میں نچلے رینکس میں تھے ، تاہم اب باغیوں میں بعض افسر رینک کے بھی شامل ہوچکے ہیں۔

باغی فوجیوں کا کہنا ہے کہ وہ فوج چھوڑنے پر مجبور کیے گئے ہیں کیونکہ انھیں اوپر سے حکم ملتا تھا کہ سویلینز کو گولیوں سے بھون ڈالو۔ بعض فوجیوں کا کہنا ہے کہ وہ کم تنخواہوں کی وجہ سے فوج چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ایک فوجی نے بتایا کہ اس کی تنخواہ 18ہزار پاکستانی روپوںکے برابر تھی جبکہ فوج میںکھانا بھی نہایت خراب ملتا تھا۔

اب باغی فوجی سوشل میڈیا اکائونٹس بنا کر دوسرے فوجیوں کو بھی بغاوت پر قائل کر رہے ہیں۔ ایک فیس بک گروپ فوجیوں کی بیویوں پر مشتمل ہے، جہاں باغی فوجیوں کی بیویاں دوسری خواتین سے کہتی ہیں کہ وہ اپنے شوہروں کو فوج چھوڑ دینے پر آمادہ کریں۔ باغی فوجیوں کے فیس بک پیجز اور گروپس میں ایسی پوسٹیں عمومی طور پر وائرل ہوتی ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے :

’’فوج اپنے ہی لوگوں کو مار رہی ہے۔‘‘
’’ فوج سب سے بڑی چور ہے۔‘‘
’’ فوج اپنے مخصوص مفادات کے لئے اقتدار پر قبضہ کرتی ہے۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ جب کورونا وبا پھوٹی تو اعلیٰ حکام نے بیرکوں میں متاثرہ فوجیوں کو الگ نہ کیا، جس کے نتیجے میں بیرکوں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔
اب جب کہ فوج کو نئی بھرتی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، ان حالات میں ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی واپس آنے کا حکم دیا گیا ہے، ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ وہ واپس نہ آئے تو ان کی پنشن روک لی جائیں گی۔

دوسری طرف ملک میں حالات اس قدر خراب ہیں کہ عوام فوج کی حکمرانی کو کسی بھی صورت میں برداشت کرنے کو تیار نہیں۔پورے ملک میں سول نافرمانی تحریک چل رہی ہے۔ چند روز پہلے پورے ملک میں تعلیمی ادارے کھولے گئے لیکن کلاسز مکمل طور پر خالی ہوتی ہیں۔ جس کلاس میں 600 طلبہ و طالبات ہوتے تھے، وہاں اب بمشکل ایک ، ڈیڑھ درجن ہوتے ہیں۔ طلبہ و طالبات نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ فوجی حکومت کے سائے میں تعلیمی اداروں میں داخل نہیں ہوں گے۔ والدین بھی ان کے فیصلوں میں ساتھ ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ فوج نے یکم جون کو بھی تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا تھا لیکن تعلیمی اداروں میں انتہائی کم حاضری دیکھ کر دوبارہ بند کرنے کا اعلان کردیا۔ملک بھر کے چار لاکھ اساتذہ میں سے آدھے سے زیادہ سول نافرمانی تحریک کے مطابق ہڑتال پر ہیں۔

ملک پر فوجی قبضے کے خلاف سویلین اور مسلح مزاحمت اس قدر زیادہ ہے کہ ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ جلا وطن ’ مشترکہ قومی حکومت ‘ بھی مزاحمت کاروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کررہی ہے اور ان کے درمیان کوارڈینیشن بھی بڑھا رہی ہے۔کمیونسٹ پارٹی کی پیپلز لبریشن آرمی بھی اس بار خاصی متحرک ہے۔ وہ لوگوں کو عسکری تربیت دینے کا خصوصی اہتمام کررہی ہے۔ مزاحمتی کوششوں کو خود جرنیلی حکومت تقویت دے رہی ہے۔ وہ پرامن لوگوں کو گرفتار کرکے قتل یا لاپتہ کر رہی ہے، شہری آبادیوں پر ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ کررہی ہے، فوجی خواتین کو گینگ ریپ کا نشانہ بناتے ہیں۔

دوسری طرف ملکی اقتدار پر قبضہ کرنے والے جرنیلوں کو بین الاقوامی طور پر بھی قبول نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس بار بھی آسیان کی کانفرنس میانمار کے کسی نمائندے کے بغیر منعقد ہوئی۔ حالانکہ چین نے آسیان کے رکن ممالک کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ میانمار کے فوجی حکمران ’ من آنگ لینگ ‘کو کانفرنس میں شریک ہونے کی اجازت دیں ۔ تاہم رکن ممالک بالخصوص انڈونیشیا ، ملائشیا ، برونائی اور سنگاپور نے درخواست مسترد کردی ۔ یہ میانمار کے جرنیلوں کے لئے ایک بڑا جھٹکا ہے۔ ان کے قبضے کو ملک کے اندر کوئی قبول کرنے کو تیار ہے نہ ہی ملک کے باہر۔

The post میانمار کی خواتین مسلح جدوجہد پر کیوں مجبور ہوئیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

نکلے اپنی تلاش میں

$
0
0

ایک ایسی صبح جس کے بارے میں کبھی سوچا نہ تھا۔

اچانک سی خبر ملی کہ کچھ پاگل لوگ ہر سال چناب کنارے پوری رات ”سوہنی کی طرح”دھیان لگا کر تپسیا کرتے ہیں کہ شنید ہے کہ سوہنی خزاں آنے سے کچھ دن پہلے کسی صبح سورج دیوتا کی پہلی چند کرنوں کے ساتھ جموں سے آنے والے ”توی” اور کشمیر سے آنے والے چناب کے سنگم پر کچھ لمحوں کے لیے جلوہ افروز ہوتی ہے۔

ایسی جگہ جہاں توی جب چناب کے ساتھ ملتا ہے تو پھر وہ توی نہیں رہتا، چناب بن جاتا ہے۔ وہیں پر سوہنی کمہارن بھی سورج دیوتا کی پہلی چند کرنوں کے ساتھ نمودار ہوتی ہے اور پھر انھی کرنوں کے ساتھ مل کر صبح کی روشنی بن جاتی ہے اور یقین مانیں ایسا ہی اُس دن بھی ہوا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے توی اور چناب کے سنگم پر سے سوہنی کمہارن کو ایک جل مچھلی کی طرح باہر آتے ہوئے دیکھا جو چند ہی لمحوں میں سورج دیوتا کی پہلی کرنوں پر سوار ہو کر سورج دیوتا کے اندر سما گئی کہ جیسے سورج دیوتا ہی اس کا مہیوال ہو۔

وہی چناب جس نے پہلے کبھی مہیوال سے حسد کرتے ہوئے سوہنی کو اپنی اندر سما لیا تھا، آج وہی چناب سوہنی کو اس کے مہیوال کے حوالے کرتا ہے۔ دنیا کے نظر میں شاید وہاں دریائے توی اور دریائے چناب کا ملاپ ہوتا ہے مگر اصل میں وہاں سوہنی اور مہیوال روز چوری چپکے دنیا کو دھوکے میں ڈال کر ایک دوسرے کے ہو جاتے ہیں۔

ذکر ہو رہا ہے چناب کے پانیوں کا تو چناب کے پانیوں کو آپ ہرگز معصوم مت جانیے۔ یہ بھولے بسرے نظر آنے والے پانی نہ تو گنگا جمنا کی طرح پوتر ہیں اور نہ ہی مقدس۔ یہ قاتل پانی ہیں، رقیب پانی ہیں۔ یہ پانی میرے مہینوال کے رقیب تھے۔ چناب کے پانی جو کہ سوہنی کے عشق میں مبتلا تھے، لاکھ جتن کے بعد بھی سوہنی کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے کہ سوہنی کے لیے یہ عام پانی تھے۔ سوہنی اور مہیوال جب ایک دوسرے کی محبت گرفتار ہوئے تو یہی پانی چالاک لومڑی کی طرح معصوم سوہنی کے ہم جھولی ہو گئے اور سوہنی مہیوال کے ملن کا سبب بنتے رہے۔

سوہنی روز گھڑے پر بیٹھ کر چناب کے پانیوں کو پار کرتی اور اپنے مہیوال سے رازونیاز کی باتیں کرتی۔ چناب بے چارہ چپ چاپ یہ دیکھتا اور اندر ہی اندر جلنے لگا۔ حسد اس قدر بڑھا کہ ساون کے دنوں میں جب چناب کے سوہنی پر عاشق پانی، چڑھے ہوئے تھے تو کچے گھڑے کا بہانہ بنا کر چناب نے ہمیشہ کے لیے سوہنی کو اپنے اندر سما لیا۔ انہی پانیوں میں کہیں میری سوہنی کی قبر ہے۔

کچا گھڑا۔۔۔۔۔بڑے پانی۔۔۔۔۔عشق۔۔۔۔رقابت۔۔۔۔دریا۔۔۔۔مہیوال کی چیخیں۔۔۔سوہنی کی مسکراہٹ۔۔۔۔موت۔

ذکر ہے ایک شام کا جو دوستوں کے درمیان چناب کے پانیوں کے کنارے گزری۔ شام بس ہونے کو تھی۔ سورج کے ڈھلنے میں فقط چند گھڑیاں باقی تھیں ہیڈ مرالہ سے سید پور کو جاتی سڑک پر میں رانا پائین کا منتظر تھا کہ بلال بھائی کی تیزرفتار موٹر سائیکل میرے پاس آ کر رکی۔ پیچھے رانا بھائی بھی تھے۔

دونوں ہی مٹی میں اَٹے ہوئے تھے۔ رسماً علیک سلیک کے بعد رانا پائین بولے کہ بٹ ساب دوڑ لگائیں، سورج پکڑنا ہے اور پھر ہم نے سید پور کو جاتی سڑک پر اپنی بائیکس دوڑا دیں۔ مناسب جگہ کی تلاش کے بعد دونوں صاحبان اپنے اپنے کیمرے تیار کیے ہوئے کھڑے ہوں گے۔ جوں جوں سورج ڈوب رہا تھا توں توں میرے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔ بقول بلال بھائی کے ”ابھی سورج پل کے نیچے اور پانی کے بالکل درمیان میں کچھ اس طرح آ جائے گا کہ اس کا ایک کونز پُل کے نیچے والے حصے کو چھو رہا ہو گا اور دوسرا کونہ پانی کو۔ ”

میں کچھ دیر پہلے چناب کی دوسری طرف ہو کر آیا تھا۔ پہلے وہاں پانی اس قدر ہوتا تھا کہ سورج پانی کے اندر ڈوب رہا ہوتا تھا، مگر اب وہاں تھوڑے سے پانی کے علاوہ فقط ریت ہی ریت تھی۔ دریا کا کنارہ بھی پھیل گیا تھا۔ پہلے سورج وہاں پانی میں ڈوبتا تھا اور اب سورج ریت میں ڈوب رہا تھا۔ چناب سوکھ رہا تھا۔

اب میں چناب کے دوسری طرف بلال بھائی کے کہنے پر ٹکٹکی باندھ کر سورج کو دیکھ رہا تھا کہ سورج ابھی پل کے نیچے آئے گا اور اس کا ایک کونا پُل کی نچلی سطح اور دوسرا پانی کو چھوئے گا مگر۔۔۔۔

سورج نہیں ڈوبا۔ سورج پل کے نیچے آیا ہی نہیں۔ تارکول سے بنے پل پر سے سورج غائب ہو گیا۔ آلودگی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب وہ سورج کو ڈوبنے نہیں دیتی۔ ڈوبنے سے پہلے ہی اپنے اندر گم کر لیتی ہے۔ تو گویا اب ہم چناب کنارے سورج ڈوبنے کے منظر سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔

ہر بڑے شاعر نے چناب کو کہیں نہ کہیں اپنی شاعری میں استعمال ضرور کیا ہے۔ جو لطف حافظ برخوردار کی شاعری میں ملتا ہے وہ کہیں اور نہیں ملتا۔

”میں نیل کرائیاں نیل کاں۔۔۔۔ میرا تن من نیلوں نیل
میں سودے کیتے دلاں دے۔۔۔۔ تے تہر لے نین وکیل
رب بخیلی نہ کرے۔۔۔۔ تے بندہ کون بخیل
رات چنے دی چاننی۔۔۔۔ تے پونی ورگا کاں
اڈیا جاناں باز تے اوہنوں۔۔۔۔ پیندی رات ”چناں”
تتی دے ہیٹھ پنگھوڑا رنگلا۔۔۔۔ تے ٹھنڈی وناں دی چھاں
گن گن ڈوں دی اٹیاں۔۔۔۔ وچ لاں ”جٹ” دا ناں
مینوں لے چل ایتھوں کڈ کے۔۔۔۔۔ سارے جھگڑے جانے مُک
باج تیرے او مرزیا۔۔۔۔۔ نہیں جان میری نوں سُکھ۔

نیلک‘ اس نیل لگے ریشمی یا سوتی دھاگے کو کہتے ہیں جو پنجاب میں نوجوان اپنے بازو پر باندھتے تھے۔ جب اس دھاگے کا رنگ پھیکا پڑ جاتا تو اس پر دوبارہ نیل لگا لیا جاتا تھا۔ اس طرح یہ نیل جس شخص کے جسم پر بھی لگ جاتا اور وہ نیلا ہوجاتا تھا۔ نیلا رنگ زخموں کا نشان ہے۔ حافظ برخوردار اپنے تن من دونوں کے نیلو نیل ہونے کا بیان کر رہے ہیں۔

حافظ برخوردار کی اس شاعری سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو مگر چوںکہ یہ پنجابی میں ہے تو اکثر لوگ اس سمجھ نہیں پاتے۔ چلیں آج اس کا اردو ترجمہ بھی دیکھتے ہیں:

میں نیل کرائیاں نیل کاں۔۔۔۔۔۔ میرا تن من نیلوں نیل

یہ دراصل پنجابی بولیاں سی ہیں جس میں احساس کا اظہار تمثیلی ہے۔ دو مفہوم ہیں اس کے۔ ایک تو محبت کا، دوسرا کرب کا، شاعری کا حقیقی تاثر ہر شخص اپنی کیفیت کے مطابق لیتا ہے۔ جیسے میں نے اس قدر درد جھیلے کہ تن من نیلا ہو گیا۔

میں سودے کیتے دلاں دے۔۔۔۔۔ تے تہر لے نین وکیل
میں نے اپنے دل کا سودا اپنی آنکھوں کو وکیل بنا کر کیا ہے، مطلب محبت کی پہلی گواہی تو آنکھیں ہی دیتی ہیں۔

رب بخیلی نہ کرے۔۔۔ تے بندہ کون بخیل

اگر رب آپ کو دے رہا تو پھر کسی بندے کے بس کی بات نہیں کہ وہ آپ پر کسی قسم کی تنگی لے کر آئے۔

رات چنے دی چاننی۔۔۔۔ تے پونی ورگا کاں
اڈیا جاناں باز تے اوہنوں۔۔۔۔ پیندی رات چناں

پورے چاند کی رات میں سفید ہوتے کوے کی شبیہہ بے جب کہ باز اڑتا ہی جا رہا اور چناب تلک جا کر رات ہو گئی اسے۔

تتی دے ہیٹھ پنگھوڑا رنگلا۔۔۔ تے ٹھنڈی وناں دی چھاں
وآن کی چھاؤں تلے ایک پنگھوڑے (جھولا) پر بیٹھی لہک رہی
اٹیاں گننا پنجاب کی ایک کہاوت سے عبارت ہے، معانی انتظار کے ہیں
گن گن ڈوں دی اٹیاں۔۔۔۔ وچ لاں ”جٹ” دا ناں
اور جٹ (مرزا جٹ) کیوں کہ جٹی (صاحباں) کا ہیرو ہے سو اسی کے نام کی مالا جپتا ہے۔
مینوں لے چل ایتھوں کڈ کے۔۔۔۔ سارے جھگڑے جانے مک
باج تیرے او مرزیا۔۔۔۔۔ نہیں جان میری نوں سکھ

میں یہاں تنہا ترے بن نہیں رہ پا رہی مجھے اپنے ساتھ ہی لے چلو کہ ہجر و وصال کے جھگڑے ہی ختم ہو جائیں گے۔
تیرے بعد مرزا (مرزا صاحباں) تری صاحباں کی جان کو سکھ نہیں۔

اس شاعری کو عارف لوہار، ان کے والد عالم لوہار، امان اللہ، طارق عزیز سمیت بہت سے لوگوں نے پڑھا ہے مگر مجھے شدید مزہ طارق عزیز کا ہی آتا ہے۔
اب اگر چناب کی شام کا ذکر ہو ہی چکا تو چناب پر دھند میں لپٹی ہوئی میٹھی صبح کا ذکر بھی ہونا چاہیے کہ جو ایک بار چناب کنارے اُگتے اور سورج کو دیکھ لے تو پھر خواب بھی صرف اور صرف چناب کے ہی آتے ہیں۔ جولائی اگست کے مہینوں کی صبح میں بھی میں بھی چناب مکمل طور پر دھند کی لپیٹ میں ہوتا ہے اور یہ منظر کسی فسوں سے کم نہیں ہوتا۔ رات کو چناب کے بارے بند آنکھوں سے دیکھے خواب، ایسی ہی صبح کھلی آنکھوں سے پورے ہو سکتے ہیں۔

چناب کنارے ہمیشہ ایک شاندار سورج ہی طلوع ہوتا ہے
ایک شاندار سورج جو آہستہ آہستہ ابھرتا ہے
ایک شان دار دن کا سورج
خدا کرے کچھ نہ بدلے
خدا کرے قسمت ساتھ دے
خدا کرے کچھ نہ بدلے
خدا کرے ہمیشہ ہر طرف شگوفے کھلیں
خدا کرے پیچھے پہاڑوں پر برف ہمیشہ ہوتی رہے
خدا کرے چناب کے پانی ہمیشہ رواں رہیں
خدا کرے کہ چناب یونہی راوی میں چپ چاپ بہتا رہے۔ چناب۔۔۔
جو چپ چاپ ایک عرصے سے
پاروشنی (راوی) میں بہہ رہا ہے۔

کیا آپ نے کبھی کسی نہر کے ساتھ ساتھ سفر کیا ہے؟ اگر نہیں کیا تو پہلی فرصت میں ہی یہ سفر کریں کہ نہر کنارے سفر کرنے پر قدرت کے وہ حسین مناظر دیکھتے ہیں، مختلف اقسام کے پرندوں کی بولیاں سنتے ہیں جن کو عام حالات میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ ضروری تو نہیں کہ آپ کیمپ کے اندر سے نانگا پربت یا کسی بہت ہی خوب صورت جھیل کی تصویر لیں۔

اپنا چناب کسی سے کم ہے کیا۔۔۔۔ چناب کنارے کیمپ لگائیں اور ایک خوب پکنک منائیں۔ ایسے ہی ایک بار میرے ایک دوست عابد نے مجھے اکسایا کہ کسی صبح چناب کنارے کیمپ لگایا جائے اور کباب خود بنا کر کھائے جائیں۔ ساری منصوبہ بندی کرلی گئی، سامان کی فہرست بن گئی۔ چوںکہ عید الاضحیٰ کچھ دن پہلے ہی گزری تھی اس لیے قیمہ وافر مقدار میں موجود تھا۔

بلاشبہہ موسم ان دنوں حبس کا تھا مگر اتنا بھی نہ  تھا کہ پکنک پر نہ جایا جا سکے۔ اب جو ہم نے چناب کے ایک کنارے کیمپ لگایا تو شدید حبس تھا۔ اتنا حبس کہ ہماری آگ نے جلنے سے مکمل طور پر انکار کر دیا۔ حالاںکہ مجھے عابد نے کہا بھی تھا کہ یار بٹ گھر سے کوئی چھوٹا سا سلنڈر لے جاتے ہیں مگر مجھے ہی نیچرل انجوائے کرنے کا ایک خاص جراثیم تنگ کر رہا تھا۔ مگر جب دریا کنارے شدید حبس اور مکمل طور پر بند ہوا نے آگ جلانے سے انکار کردیا اور آگ جلی بھی تو جس طرح کا وہاں ماحول تھا تو یقین کریں میرے نیچرل انجوائے کرنے کے سارے جراثیم غائب ہو گئے۔

پہلی بات تو یہ کہ آگ جلانے کے لیے میں کوئلے گھر ہی بھول گیا۔ بیچ راستے یاد آیا تو حسبِ توقع عابد نے ’’بے عزتی خراب کی‘‘۔ اب جو راستے کی کسی دکان سے کوئلے لیے تو نہ جانے کوئلوں میں کوئی برائی تھی یا پھر ہماری قسمت میں کہ عین وقتِ تفریح کوئلے بھول گئے کہ ان کا کام جلنا ہے اور اگر وہ نہ جلے تو ہمارے کباب نہ بن سکیں گئے۔ کوئلوں کو یہ بتلانے کے لیے کہ آگ کیا شے ہوتی ہے، ہم نے ایک راہ گیر سے کچھ لکڑیاں ادھار بھی مانگیں، ڈھیر سارا پیٹرول بھی اپنی موٹر سائیکل سے نکال کر پھونک دیا مگر کوئلے صاحب اپنی یادداشت مکمل طور پر بھول چکے تھے۔

نہ انھیں جلنا تھا، نہ وہ جلے۔ رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا اس دکان دار پر جس نے مجھے کوئلے دیتے وقت کہا تھا کہ ”آپ ایک بار کوئلے لے کر جائیں گے تو یاد کریں گے۔” اور اب ہم واقعی نہ صرف اسے یاد کر رہے تھے بلکہ استطاعت کے مطابق ان اعلیٰ حضرت کی شان میں گستاخیاں بھی کر رہے تھے۔ ٹھیک ٹھاک قسم کی محنت (محنت سے زیادہ ذلالت لفظ یہاں مناسب رہے گا) کے بعد بالاخر تین کباب فرائی ہو ہی گئے۔ آگ اتنی ہی تھی کہ تین بن سکتے ورنہ ہم مزید بنا لیتے، کباب نہ بھی بناتے کم از کم چائے تو بنا ہی لیتے کیوںکہ چائے کا مکمل سامان بمعہ کیتلی ہمارے پاس موجود تھا، کچھ اگر نہیں تھا تو وہ آگ نہیں تھی جس نے ہماری پکنک  خراب کردی ورنہ تیاری تو ہماری پوری تھی۔

آپ جتنی مرضی ترقی کر لیں۔ آپ کا سکون آپ کے اصل ہی کے پاس ہوتا ہے اور ہر بار خوشیاں پانے کے لیے آپ کو اپنے اصل ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ آپ کو شہروں کے بناوٹی ماحول سے نکل کر قدرتی ماحول میں آنا ہی پڑتا ہے۔

روح بنجر ہے اور پیاسا من

کبھی آؤ چناب کی صورت

کس قدر پیارا شعر ہے یہ معروف شاعرہ دیا خلیل صاحبہ کا کہ چناب میں یہ صلاحیت موجود ہے جو بنجر روح اور پیاسے من کی پیاس بجھا سکتا ہے۔ اگر اپنا پیٹ بھرا ہو تبھی آپ دوسرے انسان کو کچھ دے سکتے ہیں۔ خالی جیب بھلا کسی کا کیا بھلا کر سکتی ہے۔ راوی اور ستلج نے کیا کسی کے من کی پیاس بجھانا ہے کہ چناب ہی راوی کے اندر بہہ رہا ہے۔ اصل راوی کے پانیوں کا رخ تو دور کہیں دور ہی تبدیل کردیا گیا ہے۔ ایسے میں راوی کو رواں رکھنے کا طریقہ ہمارے بڑوں کو یہی سوجھا کہ چناب میں سے ہی ایک نہر نکال کر اسے راوی میں ڈال دیا جائے۔

چناب کے پانیوں کے بعد کوئی پانی اگر واقعی آپ کو سیراب کر سکتا ہے، آپ کی بنجر روح اور پیاسے من کی پیاس بجھا سکتا ہے تو وہ جہلم کا پانی ہی ہے۔ خدائے با برکت ہمارے جہلم کے پانیوں کو سلامت رکھے۔ اب بات اگر جہلم کے پانیوں کی چل ہی پڑی ہے تو آئیے آپ کو جہلم کے پانیوں پر بنے منگلا ڈیم کے بیچوں بیچ کھڑے ایک قلعے کا احوال سناتا ہوں جس پر پورا ایک دن ہماری حکم رانی رہی تھی کہ اپنے اس سنگھاسن کو پانے کے لیے میں نے اپنے دل کے بہت ہی قریب احباب کے ساتھ جہلم کے پانیوں پر سفر کیا تھا۔

ہوا کچھ یوں کہ ایک شام میرے بہت ہی پیارے ماجد مشتاق کی ڈسکہ سے کال آگئی کہ اے پیارے بٹ! کل قلعہ رام کوٹ جانا ہے۔ میری سات نسلوں میں سے بھی کسی نے رام کوٹ کا نام نہ سنا تھا۔ فوری طور پر میں نے رام کوٹ کو انٹرنیٹ پر کھنگالا تو پتا چلا کہ آزاد کشمیر میں کہیں پانیوں کے کنارے ایک قلعہ ہے جو کہ رام کوٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس وقت یہ بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ رام کوٹ منگلا ڈیم کے بیچوں بیچ واقع ہے اور یہاں تک پہنچنے کے لیے ہمیں کشتی نما چھوٹے سے بحری جہاز پر ایک گھنٹہ سفر کرنا پڑے گا۔ اگر مجھے ذرا سا بھی گمان ہوتا تو یقیناً میں ماجد بھائی کو منع کردیتا کیوںکہ بیگم کے بعد بلندی اور پانی سے مجھے شدید خوف آتا ہے۔

میں نے قلعہ رام کوٹ کی جو تصاویر دیکھی تھیں، اُن میں قلعے کی فصیل کے ساتھ پانی تھا تو مجھ نادان نے یہی جانا کہ قلعہ ڈیم کے کنارے پر ہے۔ خیر ماجد بھائی کا شام ڈھلے فون آیا تو میں نے یہی کہا کہ سوچ کر رات نو بجے تک مطلع کروں گا۔ یقیناً میرا ارادہ نہ جانے کا تھا ورنہ میں ماجد بھائی کو اسی وقت حامی بھر دیتا۔ رات ٹھیک نو بجے ماجد بھائی کا پھر سے فون آ گیا اور میں نے بجھے ہوئے دل کے ساتھ ماجد بھائی کو منع کر دیا۔

اگلے دن چوںکہ اتوار تھا تو آفس کا بہانہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ بس کہہ دیا کہ دل نہیں چاہ رہا۔ ماجد بھائی نے بھی کہہ دیا کہ اگر میں جاؤں گا تو وہ جائیں گے بصورتِ دیگر وہ بھی نہیں جائیں گے۔ یہاں سے میں دو باتیں سمجھ گیا۔ اول تو یہ کہ ماجد بھائی کی شدید خواہش ہے کہ وہ  رام کوٹ جائیں۔ دوم یہ کہ یہ سفر میرے لیے بھی لازم ہے۔ اب میرے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ میں نے فون بند کر دیا اور سفر کی تیاری کرنے لگا کیوںکہ مجھے صبح سویرے سیالکوٹ سے گوجرانوالہ جانا تھا  اور ماجد بھائی کو ڈسکہ سے گوجرانوالہ۔ گوجرانوالہ چوک ہم دونوں کے ملنے کا مقام ٹھہرا تھا۔

اللہ بھلا کرے ہماری اس فیس بُک کا جس نے ہمیں اپنا اس قدر عادی بنا دیا ہے کہ ہم آج شاید ایک وقت کے کھانے کے بنا تو زندہ رہ سکتے ہیں مگر اس فیس بک کے بنا نہیں۔ ہر چھوٹے اور غیرضروری کام کا اسٹیٹس ہمیں ضرور لگانا ہوتا ہے۔

میں نے بھی ایک ہلکا پھلکا سا اسٹیٹس لگا دیا کہ ہماری شاہی سواری گوجرانوالہ جا رہی ہے۔ فریال آپا نے فوراً پوچھا کہ حارث کہاں جا رہے ہو؟ تو میں نے بات گول مول کردی کہ بس یوں ہی گوجرانوالہ جا رہا ہوں کیوںکہ مجھے سختی سے تائید کی گئی تھی کہ اس بات کو راز ہی رکھنا ہے کہ چند آوارہ مزاج لوگ رام کوٹ کی جانب نکل پڑے ہیں۔ فریال آپا نے بس اتنا ہی کہا کہ خیروعافیت سے جاؤ اور بات ختم ہوگئی۔ فریال آپا کے بارے میں اتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ آپ ”رَش لیک” جیسے کئی متعدد اہم ٹریکس کر چکی ہیں۔ محترم مستنصر حسین تارڑ صاحب انھیں فی میل تارڑ کہتے ہیں اور آپ نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ سیاحت کے میدان میں ہر اس جگہ پر قدم رکھنا ہے جہاں تارڑ صاحب نے قدم رکھے۔

سیالکوٹ سے روانہ ہونے کے کم و بیش ایک گھنٹے کے بعد میں گوجرانوالہ پہنچ گیا۔ ماجد بھائی مجھ سے پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ اب ہم دونوں مل کر اپنے لاہوری دوستوں کا انتظار کرنے لگے جو دھند ہونے کے باعث تاخیر کا شکار تھے۔ ماجد بھائی کی اور میری قسمت اچھی تھی کہ ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور گوجرانوالہ کے گرینڈ ٹرنک روڈ پر پھیلی دھند کے اُس پار سے ایک کوسٹر آہستہ آہستہ رینگتی ہوئی ہمارے پاس آ کر رکی تو گیٹ کُھلتے ہی سب سے پہلے ایک پیٹ باہر نکلا اور پیٹ کے پیچھے سے دلپزیر بھائی برآمد ہوئے۔ دلپزیر بھائی جنھیں میں پیار سے دل بھائی کہتا ہوں ایک نہایت ہی نفیس لاہوری ہیں۔

اچھے خاصے ٹریکر بن چکے ہیں بلکہ یہ کہنا شاید زیادہ مناسب ہو گا کہ پکے ٹریکر بن چکے ہیں۔ کرومبر لیک، چٹہ کھٹا سمیت بہت سے ٹریکس کر چکے ہیں۔ دلپزیر بھائی کے پیچھے پیچھے رانا عثمان نے نے کوسٹر میں سے اپنی مُنڈی باہر نکالی۔ رانا عثمان جتنے اچھے ٹریکر ہیں، اتنے ہی اچھے فوٹوگرافر بھی ہیں۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا کبھی بھی مشکل نہیں رہا کہ رانا عثمان ٹریکر زیادہ اچھے ہیں یا فوٹو گرافر۔ اُن کی فوٹوگرافی نے ہمیشہ میرا دل جیتا ہے۔

رانا عثمان وہ ہے جس سے میں دل کی گہرائیوں سے بھلا کی حسد کرتا ہوں اور آج سے نہیں کرتا جب سے ان کو جانا ہے، تب سے ان سے حسد ہی کی ہے اور اس حسد میں ماشاء اللہ تعالیٰ دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ میرا یہ حسد شاید غلط ہے مگر پھر میں نے اپنے آس پاس کے بہت سے لوگوں کو شاید حاسد پایا۔ مثلا ً تارڑ صاحب ”اورخاں پاموک” سے شاید حسد کرتے ہیں کہ وہ اس ناول نگار جیسا ایک بھی ناول نہیں لکھ سکتے۔

حسد کے باوجود ”سرخ میرا نام” کا پیش لفظ انھوں نے ہی لکھا۔ تارڑ صاحب خود کہتے ہیں کہ جب میں نے کاشف مصطفیٰ صاحب کا سفر نامہ”دیوار گریہ کے آس پاس” پڑھا تو مجھے کاشف سے سخت حسد محسوس ہوا کہ میں اتنے سفر نامے لکھنے کے باوجود بھی اس سفرنامے جیسا سفر نامہ نہیں لکھ سکتا۔ تو جب تارڑ صاحب جیسا انسان حاسد ہو سکتا ہے اور پھر اس کا اظہار بھی کر سکتا ہے تو پھر میں کیوں نہ کھل کر اپنے حسد کا اظہار کروں کہ رانا عثمان جیسی ایک بھی تصویر  میں اپنی پوری زندگی میں نہیں بنا سکتا۔ رانا پائین کو میں ایک دعا تو ہمیشہ دیتا ہوں کہ آپ اپنی آخری سانس تک ایسی تصویریں بناتے رہیں جو میرے حسد میں اضافہ کرتی رہیں۔

رانا عثمان کے پیچھے ہماری پیاری سی لبنیٰ آپا چھپی ہوئی تھیں۔ لبنیٰ آپا کی تخلیق کردہ ٹیلی فلم ”دوسراہٹ” ایک نجی چینل کی زینت بن چکی ہے۔ لبنیٰ آپا وہ ہیں جن سے میں نے قلم چلانا سیکھا ہے۔ ایک اچھے استاد کی طرح انھوں نے ہمیشہ میری راہ نمائی کی کہ میرے کسی بھی مضمون میں کہاں کسی چیز کی کمی ہے یا کون سا مواد اضافی ہے جس کی مضمون میں قطعاً ضرورت نہیں۔ لبنیٰ آپا کے پیچھے قرۃالعین حیدر تھیں۔ آپ ایک بنکر ہیں اور ادب اور سیاحت سے یکساں شغف رکھتی ہیں۔

سب احباب ایک دوسرے سے مل چکے تو ناشتے کی جانب توجہ ہوئی۔ پاس ہی ایک پائے فروش تھا۔ نومبر کی ہلکی پھلکی دھوپ کے ساتھ پائے کا ناشتہ بھلا کسے ناپسند ہوگا۔ لہٰذا یہی طے پایا کہ ناشتہ اگر ہو گا تو پائے کا ہی ہو گا۔ پائے اور نان کے ناشتے نے سب کو ہی ری چارج کر دیا تھا۔ نومبر کی ہلکی ہلکی دھند کی وجہ سے جو سُستی سی سب پر چھائی ہوئی تھی، وہ یک دم دور ہوگئی۔

پائے کا گرم گرم شوربہ نہ صرف گلے کو سکون پہنچاتا رہا بلکہ جسم کو حرارت بھی پہنچا رہا تھا۔ ناشتہ خواہ پائے کا ہو یا کسی اور چیز کا، چائے لازم و ملزوم ہے۔ ویسے بھی زندگی سے اگر چائے کو نکال دیا جائے تو پیچھے صرف سر درد ہی بچتا ہے۔ ہم سب ابھی پائے نوش فرما رہے تھے کہ سارہ آپا کی کالز پر کالز آنا شروع ہوگئیں۔

سارہ آپا کو اپنے مجازی خدا اور ایک عدد شرارتی کاکے کے ساتھ  جہلم کے پُل پر ہمیں ملنا تھا اور پھر ہمارے ساتھ شریکِ سفر ہو جانا تھا۔ وہ راولپنڈی سے نکل چکی تھیں جب کہ ہمارے ابھی پائے کی دکان سے باہر نکلنے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔ پائے والے نے تقریباً دھکے دے کر ہمیں دکان سے باہر نکالا۔ نومبر کی صبح کی ہلکی ہلکی دھند اب ہلکی پھلکی دھوپ میں تبدیل ہوچکی تھی۔ گوجرانوالہ سے نکل کر ہماری کوسٹر رضا علی عابدی کی جرنیلی سڑک پر چڑھ چکی تھی کہ یک دم لبنیٰ آپا چیخ پڑیں، ”ہائے میری شال پائے والے کے پاس رہ گئی۔”  لبنیٰ آپا اپنی شال وہیں پائے کی دکان پر بھول آئی تھیں۔

سب کو ہی سفر شروع کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ کسی ایک کی نظر بھی لبنیٰ آپا کی شال پر نہ پڑی۔ یقینی طور پر کوسٹر کو اب واپس ہی جانا تھا۔ ہنسی مذاق سب چلتا رہا اور ہماری کوسٹر نے جی ٹی روڈ پر بنے مشہورِ زمانہ میاں جی ریسٹورنٹ کے سامنے رانا عثمان کے حکم پر بریک لگا دی۔

یہاں پر میٹھے اور چائے کا دور چلنا تھا۔ چوںکہ سردیوں کا ہلکا پھلکا موسم تھا تو واش روم کے لیے رکنا بھی ضروری تھا۔ چائے اور اس کے لوازمات سے فارغ ہونے کے بعد جب سب لوگ واپس گاڑی میں بیٹھنے لگے تو میں نے سوچا کہ میں بھی لگے ہاتھوں کے فریضہ سرانجام دے ہی دوں، میں بھی واش روم ہو ہی آؤں، کیوںکہ  واضح طور پر یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ گاڑی اب منزلِ مقصود سے پہلے نہ رُکے گی۔ میں ابھی واش روم سے باہر نکل ہی رہا تھا کہ میں نے کوسٹر کو ریسٹورنٹ کی حدود سے باہر جاتے ہوئے دیکھا۔ میرے ہم سفر اپنی موج مستیوں میں اس قدر گم تھے کہ کسی ایک کو بھی میری کمی کا احساس تک نہ ہوا۔ میں نے کوسٹر کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ بھلا ہو ڈرائیور کا کہ جس نے دیکھا کہ بھلا مانس بٹ دیوانہ وار کوسٹر کے پیچھے بھاگ رہا ہے   مجھے دیکھتے ہی اس نے بریک لگا دی اور یوں میں تقریباً سب کو ہی کوستا ہوا کوسٹر میں سوار ہو گیا۔

گلزار کا دینہ شہر اور انور مقصود کا جہلم کا پُل بھی گزر گیا۔ رانا عثمان کے کہنے پر ڈرائیور نے ایک جگہ بریک لگا دی کہ یہاں سارہ آپا اپنی مجازی خدا اور اپنے ایک عدد کاکے کے ساتھ ہماری منتظر تھیں۔ سارہ آپا نے شدید طرح سے ہمیں کُوستے ہوئے ہمارا استقبال کیا کہ منیر نیازی کی طرح ہم بھی بہت دیر کر چکے تھے۔ جہلم تک پہنچنے میں ہمیں واقعی بہت دیر ہو چکی تھی۔

سارہ آپا بمعہ اہل و عیال کوسٹر میں سوار ہوئیں اور ہماری کوسٹر جہلم میں گرینڈ ٹرنک روڈ سے منہ موڑتے ہوئے منگلہ کی جانب مڑ گئی۔ پنجاب کی حدود سے نکل کر جونہی آپ آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو موسم کے ساتھ طبعیت پر بھی خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ منگلا کینٹ کو جانے والا یہ راستہ کبھی شورسینی راجا پورس کی جاگیر ہوا کرتا تھا۔ پورس، چناب اور جہلم کے دریاؤں کے درمیان پھیلی اس سلطنت کا راجا تھا جس کی علم برداری بعد میں بیاس تک دراز ہوگئی۔ اسی راجا پورس نے اپنی بیٹی منگلا کے نام پر منگلا قلعہ تعمیر کیا جواب منگلا جھیل کے کنارے پر ہے۔ دوسرے کنارے پر رام کوٹ کا قلعہ ہے جسے مسلمانوں نے تعمیر کیا اور سکھوں نے استعمال کیا۔

منگلہ کے پاس پہنچ کر رانا عثمان نے کوسٹر رکوا دی اور کہا کہ وہ آگے کا راستہ کسی سے پوچھ کر آتے ہیں۔ ہم سب خاموشی سے بیٹھے رہے۔

چلیں تھوڑا سا پیچھے چلتے ہیں جہاں فریال آپا کا ذکرِ خیر رہا تھا۔ فریال آپا کی اور میری سوشل میڈیا کی بدولت بات چیت چل رہی تھی کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔ دُوسری طرف ہماری لبنیٰ آپا نے بھی ایک پوسٹ بنا شیئر کردی کہ وہ کوسٹر پر ہیں اور کہیں سیر کے لیے جا رہی ہیں۔ ناشتے کے بعد جب ہماری کوسٹر جی ٹی روڈ پر فراٹے بھرنے لگی تو میں نے سب کی ایک گروپ فوٹو بنا کر شیئر دی۔ جیسے فریال آپا کو ہماری ہی کسی اپ ڈیٹ کا انتظار تھا۔ فریال آپا فوراً تصویر پر بول پڑیں کہ پہلے میں الگ سے کہیں جا رہا تھا اور لبنیٰ کہیں اور۔ اب میں لبنیٰ اور باقی لاہوریوں کے ساتھ کیا کر رہا ہوں؟

اب واپس اپنی کوسٹر میں چلتے ہیں جہاں رانا عثمان نے یہ کہہ کر گاڑی رکوا دی تھی کہ وہ آگے کا راستہ پوچھ کر آتے ہیں۔ ہماری کوسٹر کے دروازے کے پاس ہی ایک کالی گاڑی آ کر رکی جس کا ہم میں سے کسی نے بھی نوٹس نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ ہم سب اپنی اپنی مستیوں میں گُم تھے۔ اچانک ہماری کوسٹر کا دروازہ کھلا اور فریال آپا آنکھوں پر چشمہ لگائے ہوئے بولیں ”ہیلو ایری ون” اور ہم سب خوش گوار حیرت سے انھیں تکنے لگے۔

ہوا اصل میں کچھ یوں تھا کہ رانا عثمان نے فریال آپا کو بھی قلعہ رام کوٹ جانے کے لیے پوچھ لیا۔ فریال آپا جو ان دنوں راولپنڈی میں ہی مقیم تھیں، نے ہم سب کو سرپرائز دینے کا سوچا اور صبح سویرے بھاگتے ہوئے اپنے  ڈرائیور کے ہمراہ راولپنڈی سے منگلہ پہنچ گئیں۔

منگلہ ڈیم پر پہنچے تو تقریباً میرا رنگ اڑ چکا تھا کیوںکہ مجھے بلندی اور پانی دونوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ وہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ ہم نے تقریباً ایک گھنٹے کا سفر ایک بڑی سی کشتی پر کرنا ہے اور یہی کشتی ہمیں قلعہ رام کوٹ پہنچائے گی۔ کشتی میں داخل ہونے سے پہلے لائف جیکٹس پہنا دی گئیں جنھیں میرے اور ماجد بھائی کے علاوہ کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ سب نے وقتی طور پر وہ جیکٹس پہن تو لیں مگر کشتی کا سفر شروع ہوئے ابھی فقط پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ سب نے وہ جیکٹس اتار دیں کیوںکہ صاف نظر آرہا تھا کہ جیکٹس صرف فرضی کارروائی تھیں۔

کسی بھی حادثے کی صورت میں وہ جیکٹس ناکارہ تھیں۔ ہماری کشتی دو منزلہ تھی۔ مجھ سمیت تقریباً سارے ہی نام نہاد اور ڈرپوک مرد کشتی کی نچلی منزل پر تھے جب کہ گروپ کی اکثریتی خواتین کشتی کی بالائی منزل پر تھیں۔ پانی کے دل فریب نظارے اصل میں کشتی کی بالائی منزل سے ہی دیکھے جا سکتے تھے۔ نچلی منزل والے ان تمام خوب صورت نظاروں سے تقریباً محروم ہی تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرا ڈر کچھ کم ہوا تو میں نے بھی اپنی گردن کشتی سے ذرا باہر نکالی۔ زمین کہیں دور اور بہت دور رہ گئی تھی۔ ہمارے اطراف اب صرف پانی ہی تھا۔ سورج اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ دریائے جہلم کے پانیوں پر چمک رہا تھا۔ کبھی کبھی پرندوں کی ٹولیاں پانی پر سے گزرتیں تو مناظر مزید دل فریب ہوجاتے۔ کم و بیش ایک گھنٹے کے بعد قلعہ رام کوٹ کی فصیلیں نظر آنے لگیں۔ کچھ ہی دیر کے بعد کشتی بان نے کشتی ایک فصیل کے ساتھ روک دی۔

رام کوٹ کا شمار پوٹھوہار کے قدیم قلعوں میں ہوتا ہے۔ قلعے کی تعمیر 1186ء میں غوری سلاطین کے عہد میں سلطان غیاث الدین نے کی تھی۔ قلعے کے چبوترے سے 440 سیڑھیاں آپ کو رام کوٹ کے مرکزی دروازے تک لے جاتی ہیں۔ اگر ڈیم بھرا ہوا ہو تو سیڑھیاں کم ہوجاتی ہیں۔ مرکزی دروازہ ڈھلوانی چٹان پر بنایا گیا ہے تاکہ کسی بیرونی حملے کی صورت میں یہاں تک رسائی مشکل ہو۔ قلعے کے اندر داخل ہوتے ہی سامنے کی جانب دو بڑے تالاب نظر آتے ہیں جو یقینی طور پر بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔

منگلا ڈیم بنیادی طور پر دریائے جہلم اور دریائے پونچھ کے سنگم پر بنایا گیا ہے۔ مرکزی دروازے کے بائیں جانب تھوڑی اونچائی پر ایک مندر بھی بنا ہوا ہے۔ مندر میں شیولنگ ابھی تک موجود ہے۔ روایات کے مطابق یہ شیو لنگ دریائے گنگا سے لایا گیا تھا۔

وہ دن جس دن ہم رام کوٹ گئے، بہت سے خاص دنوں میں سے ایک خاص تھا۔ کیا نہیں تھا اس دن میں۔ سکون، خوشی، خوب صورت یادیں۔ قلعے میں داخل ہونے کی دیر تھی کہ سب لوگ بکھر گئے۔ ہر کوئی اپنی اپنی پسند کی جگہ چلا گیا۔ کوئی قلعے کی فصیل پر لگی توپ کے ساتھ تصویر بنانے لگا تو کسی کو قلعے کے پیچھے بنے جزائر نے اپنی جانب کھینچا۔ عقل مندی کا تقاضا یہی تھا کہ شام اترنے سے پہلے پہلے نہ صرف قلعہ چھوڑ دیا جائے بلکہ ہم ڈیم کی حدود سے بھی باہر نکل جائیں۔ کشتی پر واپسی کا سفر بالکل خاموش تھا۔ ہر کسی کے چہرے پر ایک اداسی تھی جسے منگلہ کے پانیوں پر اترتی شام مزید عریاں کر رہی تھی۔ ہماری روحیں شاید آج بھی وہی ہیں اور ہمارے جسم اس صوتی آلودگی سے بھرپور دنیا میں کھو چکے ہیں۔

The post نکلے اپنی تلاش میں appeared first on ایکسپریس اردو.

جب بھی میرا ڈراما نشر ہوتا ہے تو دل بجھ جاتا ہے

$
0
0

فصیح باری خان کو اگر میں دورِ جدید کا سب سے نڈر ڈرامانگار کہوں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ ایک وقت تھا جب اس نام کو بہت کم لوگ جانتے تھے، لیکن آج یہ نام فلمی حلقوں سے باہر بھی جانا پہچانا نام بن چکا ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے، ان کا کام۔ لوگ انہیں عصمت چغتائی کا میل ورژن بھی کہتے ہیں۔

فصیح باری خان پاکستانی ڈراما انڈسٹری کے ان کم یاب لکھاریوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو ہمیشہ کچھ نیا اور اچھوتا کام کرتے ہیں، جو اپنے اردگرد ہونے والے واقعات اور معاشرے کی محرومیوں کو بڑی ہی خوب صورتی سے کاغذ پر منتقل کرتے ہیں اور انہیں پردے پر لے کر آتے ہیں۔

بڑے شہروں کی چھوٹی کہانیوں پر فوکس کرتے ہیں۔ بے باک اور بہترین لکھنے کے عادی ہیں۔ تبھی ان کے تمام سیریلز کے کردار سیدھے عوام کے دل میں اتر جاتے ہیں۔ رہی بات ان کے لکھے مکالموں کی تو اس کی الگ تعریف بنتی ہے۔ اب تک تقریباً پچیس ٹیلی فلمز وڈرامے اور ایک فلم کی کہانی لکھ چکے ہیں۔

فصیح باری خان کے ساتھ میری دوستی بہت زیادہ پرانی نہیں ہے لیکن چوںکہ وہ عوام کے دلوں میں گھر کرنا جانتے ہیں، تو ہماری اچھی بنتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے فصیح بھائی کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا تو دل میں بہت سے سوالات تھے جو پوچھ ڈالے اور انہوں نے بھی کمال محبت اور شفقت کے ساتھ ایک ایک سوال کا تسلی بخش جواب دیا۔ موجودہ دور کے اس لکھاری اور ڈائریکٹر کے دل میں بہت سی باتیں پوشیدہ ہیں جو یقیناً شوبز اور ادب سے لگاؤ رکھنے والے احباب کے لیے دل چسپی کا باعث ہوں گی۔

پٹھانوں کے بنگش قبیلے سے تعلق رکھنے والے فصیح باری خان کے دادا کا تعلق تو کوہاٹ سے تھا لیکن آپ کی پیدائش 18 مارچ 1971 کو کراچی میں ہوئی۔ والد ایک کثیرالقومی کمپنی کے کراچی میں مینیجر تھے اور انہوں نے پوری زندگی پڑھائی کے ساتھ ساتھ یہی ایک جاب کی۔ سات آٹھ سال وہ رحیم یار خان میں بھی رہے۔

سات بہن بھائیوں میں ان کا نمبر پانچواں ہے جب کہ والدین اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ساتوں بہن بھائیوں میں بہت اچھی دوستی ہے۔

آپ نے ماس کمیونیکیشن میں ایم-اے کیا اور پھر اردو میں بھی ایم-اے کیا۔ اردو ان کی پسندیدہ تھی۔ اس کے بعد فلمی صحافت میں کام شروع کیا اور ”فلم سٹی” کے نام سے ایک فلمی میگزین بھی نکالا تھا۔ ڈرامے اور فلمیں شروع سے ہی پسند تھیں۔ تیرہ سال تک فلمی صحافت میں رہے اور بہت سے لوگوں کے انٹرویو کرکے اپنا ایک نام پیدا کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں جن کے بھی انٹرویو کرتا تھا تو بھرپور تیاری کر کے جاتا، تو سب مجھ سے بہت متاثر ہوتے تھے۔

فصیح نے بچپن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والدین اپنے وقت کے لحاظ سے بہت پروگریسیو تھے۔ انہوں نے ہم سات بہن بھائیوں کو برابر وقت اور مواقع دیئے۔ بنگش پٹھان ہونے کے باوجود ہماری فیملی میں کوئی خاص رواج یا پابندیاں نہیں تھیں۔ میرے میڈیا میں جانے پر کچھ لوگوں نے انہیں کہا بھی کہ یہ کیا کر رہا ہے؟؟

اس پر ان کا کہنا تھا کہ جو اس کو کرنا ہے وہ اسے لازمی کرنا چاہیے۔

کراچی میں آپ نے اسٹریٹ تھیٹر میں کام شروع کیا۔ کتھا اور سیوک وہ ادارے تھے جن کے ساتھ جڑ کر آپ کے کام میں نکھار آنا شروع ہوا۔ سنجیدہ تھیٹر میں آپ نے اداکاری بھی کی اور لکھت بھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ٹی وی پر لکھاری کے طور پہ میرے کیریئر کی شروعات 1997 میں رمل خان کے پروگرام سے ہوئی تھی جس میں، میں لنکس لکھتا تھا۔ پھر میں نے انہی کا ایک پروگرام ”ڈراما ہی ڈراما” کیا جس میں ڈراموں سے متعلق باتیں ہوتی تھیں۔ میں اس کا اسکرپٹ لکھتا تھا۔

میرا پہلا سیریل ”اب یہ ممکن نہیں” تھا۔ پھر میں نے ایک ڈراما لکھا جو آن ایئر نہیں گیا۔

بریک تھرو کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ میرا ایک سنگل پلے تھا ”جادو” جِسے یاسر نواز نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ اس میں ہمایوں سعید اور تزئین حسین تھیں۔ اس کے آن ایئر جانے کے بعد مجھے ڈائریکٹر سلطانہ صدیقی کا فون آیا۔ انہوں نے بہت تعریف کی اور کہا کہ ہم آپ کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ مہرین جبار کا بھی فون آیا۔ مجھے اس سنگل پلے سے بہت زیادہ فائدہ ہوا۔

پھر بات چلی میرے پسندیدہ ڈرامے ”خالہ کلثوم کا کنبہ” کی جس نے بچپن میں مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ فصیح بھائی نے بتایا کہ اس دور میں ایک ہی طرح کے ڈرامے آن ایئر ہوتے تھے جن میں اکثر کتابی باتیں ہوتی تھیں۔ تو مجھے محسوس ہوا کہ ڈراما نیچرل ہونا چاہیے۔ کراچی شہر میں نے بہت گھوما اور وہاں کے لوگوں اور ان کے رویوں کا بغور مشاہدہ کیا، میں نے دیکھا کہ یہاں تو بہت سے علاقوں کی کہانیاں لکھی جا سکتی ہیں۔ یہی بات میں نے عاطف حسین سے کی جو ڈرامے کے ڈائریکٹر بھی تھے کہ گلی محلے کی باتیں اور ان کی روز مرہ زندگی پردے پر دکھانی چاہیے۔ اس ڈرامے کو لکھنے میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوا کہ میں کراچی کے لائف اسٹائل کو اچھی طرح سمجھتا تھا اور آپ نے دیکھا کہ اس ڈرامے کی پھر دھوم مچ گئی کیوںکہ ہر فرد نے اسے خود سے ریلیٹ کیا۔

لاہور منتقل ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے آپ نے کہا کہ یہ شہر مجھے شروع سے کھینچتا تھا۔ مجھے یہاں رہتے آٹھ سال ہو چلے ہیں لیکن پھر بھی اس کی قدرومنزلت میری نظر میں کسی صورت کم نہیں ہوئی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ مجھے یہاں بہت پہلے آ جانا چاہیے تھا۔ لیکن خیر کوئی بات نہیں۔

یہاں آنے کے بعد بہت سے ایسے لوگ جن کو نہیں جانتا تھا، ان سے میری دوستی ہوگئی تو یہ نظریہ بھی غلط ثابت ہو گیا کہ دوست صرف بچپن کے ہی ہوتے ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ دوست آپ کو کسی بھی عمر میں مل سکتا ہے۔ میرے بھی بہت سے دوست حادثاتی طور پہ ملے اور اب تک ساتھ ہیں۔

یہ وہ ہیں جن سے میرا ذہن ملتا ہے۔

کیریئر کی ابتدا میں پیش آنے والے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میں بہت بولڈ اور رف لکھتا تھا اور میرے ڈرامے میں ہیرو ہیروئن کا کوئی تصور نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے یہ اسٹائل ہر آدمی سے ہضم نہیں ہوتا تھا۔ تبھی میرے ڈرامے کی آڈینس میں صرف پروگریسیو لوگ ہی ہوتے تھے۔

بہت سے لوگوں نے میری تحریروں اور اسکرپٹس کو فحش بھی کہا۔ کوئی کہتا کہ یہ بہت بے باک لکھتا ہے۔ یہ سن کہ کبھی کبھی میرا دل بجھ سا جاتا تھا۔ لیکن جو میرا سرکل ہے، میرے فینز ہیں، آپ جیسے لوگ ہیں انہیں دیکھ کہ مجھے خوشی ہوتی ہے جو مجھ سے اسی طرح کے ڈرامے کی توقع کرتے ہیں۔ ظاہر ہے پوری دنیا آپ کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔

گھِسی پٹی محبت جب میں نے لکھا تو بہت سی خواتین مجھ سے توقع کرنے لگیں کہ میں ان کے لیے اور بامقصد ڈرامے لکھوں گا۔ اور اب میں لکھ رہا ہوں۔

اپنی شخصیت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے میں لکھنے کے معاملے میں بہت کاہل انسان ہوں۔ گھسی پٹی محبت کے بعد میں کچھ نہیں لکھ سکا۔

میرے ساتھ ایک اور عجیب چیز ہوتی ہے کہ جب میں کچھ لکھتا ہوں تو بہت جوش، ولولے اور محنت سے لکھتا ہوں لیکن جب بھی میرا کام ٹیلی کاسٹ ہوتا ہے تو میرا دل بجھ جاتا ہے، پتا نہیں کیوں۔ مجھے اپنی چیز بہت کم اچھی لگتی ہے۔ میں اپنی لکھائی کو زیادہ انجوائے نہیں کر پاتا۔

لکھنے کے حوالے سے اپنی انسپیریشن بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت سے لکھاریوں میں ”منَو بھائی” بہت پسند ہیں۔ وہ بہت سادہ اور پختہ کردار لکھتے تھے۔ میں نے ان کے بہت ڈرامے دیکھے لیکن ان کو وہ شہرت نہیں ملی جس کے وہ حق دار تھے۔ کردار بنانے کی انسپریشن میں نے ان سے لی ہے۔ ”ڈاکٹر انور سجاد” کا کام بھی پسند ہے۔ مجھے بانو قدسیہ کے ضیاء دور سے پہلے کے ڈرامے بہت پسند تھے۔ ضیاء دور کے بعد ان کے اسٹائل میں تبدیلی آ گئی تھی۔

آج کل کے لکھاریوں کی تو بہت موج ہے۔ آج انہیں بہت معاوضہ مل رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ملتا تھا۔ اب لکھاریوں کو بھی ہائی لائٹ کیا جاتا ہے اور ڈراموں میں ان کے اہم کردار کو تسلیم کیا جاتا ہے، جب کہ پہلے وہ گم نام سے ہوا کرتے تھے۔

آج کل کے ڈراموں پر بات کرتے ہوئے فصیح باری خان کا کہنا تھا کہ اِس دور کے ڈرامے زیادہ تر کمرشل ہوچکے ہیں جس میں لکھاری کا بھی قصور ہے۔ وہ پیسے اور شہرت کی خاطر ڈرامے کو خراب کر دیتے ہیں۔ یہ بھوک بہت خطرناک ہوتی ہے۔

میرے لیے ڈرامے کا مصرف یہ ہے کہ میرے اندر جو بات ہے میں اسے باہر نکال دوں۔ میں ریٹنگز پر بالکل یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی یہ سوچتا ہوں کہ اس ڈرامے نے اتنے ایوارڈ لے لیے اور فلاں کو کوئی بھی نہ ملا۔

ہر ڈراما ہر ایک کو پسند نہیں ہوتا۔ میں تو کہتا ہوں بھائی جس کو جو چیز پسند ہے وہ دیکھے۔

مجھے فلسفے والے ڈرامے پسند نہیں ہیں، میں انٹیلیجنٹ ڈرامے دیکھتا ہوں۔ مجھے بی گل اور مصطفیٰ آفریدی کا کام پسند ہے۔ سنگِ مرمر، ڈر سی جاتی ہے صِلہ اور تلخیاں میرے پسندیدہ ڈرامے رہے ہیں۔ آمنہ مفتی کا الو برائے فروخت بہت اچھا لگا تھا۔ بی گل کے کردار بہت اچھے ہوتے ہیں۔ فائزہ افتخار کا ”عون زہرہ” بھی اچھا تھا۔

پروڈکشن ہاؤس کے بارے میں بتایا کہ مجھے ”آئی ڈریمز” کے ساتھ کام کرنے کا مزہ آتا ہے کیوںکہ اس میں سنیہ اکرام ہوتی ہیں جن سے میری اچھی دوستی ہے۔

آنے والے پراجیکٹس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں فہد مصطفیٰ کے لیے ایک سیریل کر رہا ہوں جس کا نام ہے ”بہت بری بات”۔ ایک ثناء شاہنواز کے لیے کر رہا ہوں۔ ساتھ ہی میری شارٹ فلم ”دفع ہوجاؤ تم” اور گلزار پر بھی کام چل رہا ہے، جو آپ کباڑ خانہ (یوٹیوب چینل) پر دیکھ سکیں گے۔ چنٹو کی ممی کے دوسرے حصے پر بھی کام شروع کرنا ہے۔

فلم کے تجربے پر بولے کہ میرا فلم کا تجربہ اتنا اچھا نہیں رہا جتنا میں نے سوچا تھا۔ سات دن محبت اِن کی جو کہانی میں نے لکھی تھی وہ بالکل بدل گئی۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ فلم میں اتنی مداخلت ہوتی ہے۔ اس لیے اب اس طرف نہیں جانا۔

فصیح باری خان کا گھر ان کے بہترین ذوق اور ان کی حساس طبیعت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ یہ گھر کم اور ایک میوزیم زیادہ ہے جہاں آپ پاکستان بھر اور دیگر ممالک کی ثقافت کا عمیق مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ پرانی فلموں کے پوسٹر اور مدھم روشنیاں اسے اور زیادہ خواب ناک سا بناتی ہیں۔ چنٹو کی ممی اور دفع ہو جاؤ تم میں آپ ان کا گھر دیکھ سکتے ہیں۔

ہم نے حنا دلپزیر کو فصیح خان کے بہت سے ڈراموں میں دیکھا ہے۔ ان کے کام کے حوالے سے جب میں نے پوچھا تو بولے حنا بہت اچھی آرٹسٹ ہیں۔ ان کی کامیڈی ٹائمنگ بہت اچھی ہے۔ وہ میرے کرداروں میں اتنے اچھے طریقے سے ڈھل جاتی ہیں کہ ان کے ساتھ کام کرنے کا مزہ آتا ہے۔ ہماری کیمسٹری بہت اچھی ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ میری لائنز کو اچھی طرح سمجھتی ہیں اور کرداروں کو اوڑھ لیتی ہیں۔

پھر بات چلی ان کے ماسٹر پیس ”قدوسی صاحب کی بیوہ” کی جس کے کلپس بھی وہ اکثر اپنی فیس بک پر فینز کے لیے شیئر کرتے رہتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ اس ڈرامے کا اور خصوصاً اس میں بولے گئے ڈائیلاگز اور تلفظ کا میں بہت بڑا مداح ہوں۔

یہاں پڑھنے والوں کو میں یہ بتاتا چلوں کہ یہ ڈراما اپنے آپ میں ایک ریکارڈ تھا جس نے ٹی آر پی کے چارٹ پر مدتوں راج کیا تھا۔ اِس میں حنا دلپزیر جیسی منجھی ہوئی آرٹسٹ نے بیس مختلف کردار نہایت عمدگی سے نبھائے تھے۔ فصیح باری خان بولے کہ میں اور اس ڈرامے کے ڈائریکٹر مظہر دونوں اچھے دوست اور ہم عمر ہیں۔

ہم یہ سوچتے تھے کہ ایک دور تھا جب لوگوں کے پاس فرصت ہوتی تھی، ان کا ملنا جلنا ہوتا تھا۔ محلے میں کئی کردار ہوتے تھے جیسے اس ڈرامے میں عقیلہ کا کردار ہے۔ میں نے اپنے بچپن میں ایسے بہت سے لوگ دیکھے تھے اب تو یہ کردار بہت کم نظر آتے ہیں جس کی ایک وجہ محلے داری سسٹم کا کم ہو جانا ہے۔ ہم نے سوچا کہ کچھ ایسا ہونا چاہیے، تو یہی ایک ناسٹیلجک فیلنگ تھی اس ڈرامے کو شروع کرنے کے پیچھے۔ اس کی ساری اسٹوری میں نے روانی میں لکھی تھی۔ میں کبھی بھی اکٹھی کہانی نہیں لکھتا۔ ایک سین کے بعد دوسرا سین موقع پر ہی لکھ ڈالٹا ہوں۔ پھر اس ڈرامے میں حنا تھیں جو بہت بیلنس کامیڈی کرتی ہیں تو مجھے اس چیز کی فکر نہیں تھی۔ انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ کامیڈی کی۔ یہ روشن آنکھ بہت کم لوگوں کے پاس ہوتی ہے۔

اس ڈرامے کا ایک مرکزی کردار ودود کا تھا جسے وقار حسین نے نہایت عمدگی سے نبھایا۔ اس کا پسِ منظر بتاتے ہوئے کہا کہ وقار میرے ایک ڈرامے ”سرے گھاٹ کی فرزانہ” میں میک اپ آرٹسٹ تھا۔ اس میں ماریہ واسطی کا لیڈ رول تھا۔ وقار کی حرکتیں دیکھ کہ ایک دفعہ میں نے ماریہ سے کہا کہ اس کو ایکٹنگ کرنی چاہیے۔ تو وہ بولیں کرواؤ تم اس سے اداکاری۔ تبھی سوچ لیا کہ اس کے لیے کوئی خاص کیریکٹر لکھوں گا۔ پہلے رونق جہاں کا نفسیاتی گھرانا میں اسے چانس دیا اور پھر قدوسی صاحب کی بیوہ میں بھی اس کا کردار لکھ دیا جسے بہت پذیرائی ملی۔

میں نے پوچھا کہ آپ کے ڈائیلاگز میں اردو کا بہترین استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے الفاظ اور محاوروں کی مدد سے ایک ایک چیز کو بیان کیا جاتا ہے۔ اِس پر فصیح خان کا کہنا تھا کہ میں تب ہی لکھتا ہوں جب طبیعت آمادہ ہو اور جب لکھنے بیٹھ جاؤں تو دل سے لکھتا ہوں۔ تو کراچی کے محلوں میں جیسے بولا جاتا ہے اسے میں نے پیش کیا۔ اردو ویسے بھی میری پسندیدہ زبان ہے تو اسے لکھنے میں بھی مزہ آتا ہے۔

اپنے ڈراموں کے متنازع اور بولڈ ہونے کے بارے میں کہا کہ ہر آدمی کا ایک اسٹائل ہوتا ہے۔ مجھے کسی نے کہا تھا کہ آپ اپنے لکھنے کا اسٹائل بدلیں تو میں نے جواب دیا کہ اسی اسٹائل کی تو قیمت ہوتی ہے۔ ایک پینٹر کے ہاتھ کا اسٹروک ہی آپ کو بتاتا ہے کہ یہ فلاں پینٹر کی تصویر ہے۔ یہ اسٹائل تو ریاضت کے بعد آتا ہے۔ تو میں کسی کی تنقید کو دل پر نہیں لیتا۔ میں بہت بہادر و جرأت مند انسان ہوں۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہم ڈرامے کے موضوع سے ہی پہچان جاتے ہیں کہ اس کے لکھاری آپ ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری کام یابی ہے۔

بھوپال والی بلقیس ، پِچھل پیریاں، سرے گھاٹ کی فرزانہ، برنس روڈ کی نیلوفر، بونی مینشن کی سنڈریلائیں۔۔۔۔ یہ تمام ٹائٹل کسی جگہ اور کسی نام سے مل کر بنے ہیں، یہ منفرد نام کیسے سوجھتے ہیں اور ان کی وجہ کیا ہے؟ کیا ان ناموں کے پیچھے حقیقی زندگی کا کوئی کردار ہے؟؟

جواب یہ تھا کہ میرے ڈراموں کا فلیور الگ ہے۔ الگ مزاج ہے تو میں سوچتا ہوں کہ نام بھی منفرد ہونا چاہیے۔ میں سیدھا سیدھا نام نہیں رکھتا۔ اب جیسے چنٹو کی ممی اور دفع ہو جاؤ تم بھی، بہت الگ ہیں۔ اور ان ناموں کے پیچھے حقیقی زندگی کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ سب میری سوچ کا نتیجہ ہیں۔

پاکستان میں متنازعہ موضوعات پر فلم کے حوالے سے ان کا مؤقف یہ تھا کہ ایسے موضوعات پر فلمیں بالکل بننی چاہییں۔ یہ ہمارے معاشرے کا عکس ہیں۔ ہمارے لوگ پچاس ساٹھ کی دہائی میں بہت روشن خیال تھے۔ لوگ مل بیٹھتے تھے، کتاب پہ بات ہوتی تھی، فلم کو ڈسکس کرتے تھے لیکن اب یہ کلچر رہا ہی نہیں۔ اس چیز کو واپس آنا چاہیے۔

گھسی پٹی محبت میں سامعہ کا کردار ایک لاجواب اور انوکھا کردار تھا۔ اس کے بارے میں جب بات چلی تو فصیح بھائی نے بتایا کہ اس کے پیچھے ایک کہانی ہے۔ مجھے سفر کے دوران ایک خاتون ملیں جنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ ڈرامہ رائٹر ہوں۔ جب میں نے اپنے ڈراموں کا نام بتایا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئیں کہ مجھے یقین نہیں آتا۔ ان کے ذہن میں تھا کہ قدوسی صاحب کی بیوہ کسی بوڑھے بابے ٹائپ شخص نے لکھا ہو گا۔ تب انہوں نے کہا کہ میری خواہش تھی کہ اس ڈرامے کے رائٹر سے اگر کبھی ملی تو اپنی زندگی کی کہانی سناؤں گی۔ پہلے میں نے انہیں سنجیدہ نہیں لیا لیکن جب انہوں نے کہانی سنانی شروع کی تو وہ اتنی اچھی اور گہری تھی کہ میرے دل کو لگی اور میں نے اسے لکھ ڈالا۔ تو یہ کردار حقیقی زندگی سے متاثر ہو کہ لکھا تھا۔

”چِنٹو کی ممی” کا ذکر چلا تو میں نے شکوہ کیا کہ یہ ویب سیریز بہت مختصر تھی، اس سیریز کو ذرا لمبا چلنا چاہیے تھا۔ فصیح باری خان نے بتایا کہ چوںکہ یہ بہت مزے کا تھا تو ہم نے اسے دو حصوں میں بنانا ہے۔ ایک حصہ آ چکا ہے جب کہ دوسرا آنے والا ہے۔ ہمارا یوٹیوب چینل ”کباڑ خانہ” اگرچہ نیا ہے لیکن اس ڈرامے پر بہت اچھا ریسپانس ملا ہے۔ اور جو لوگ اسے فحش قرار دیتے ہیں ان کے لیے میں کہوں گا کہ یہ ایک لوجیکل ڈراما ہے جس میں ایک عورت کی جسمانی ضروریات کو دکھایا گیا ہے جس پر ہمارے معاشرے میں بات نہیں کی جاتی۔ تو ہم نے کچھ غلط نہیں کیا۔

اِس بولڈ ویب سیریز کو فصیح کے دوست عمران قاضی نے ڈائریکٹ کیا ہے جب کہ اس کی تمام شوٹنگ فصیح باری خان کے اپنے گھر پر ہوئی ہے۔ وقار حسین، تمکنت منصور، عبداللہ اعجاز اور سمیر بُچہ نے مرکزی کردار نہایت عمدگی سے ادا کیے ہی۔

اس ویب سیریز میں مشہور یوٹیوبر تمکنت منصور کی کاسٹنگ پر بولے کہ تمکنت یہ کردار ڈیزرو کرتی تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو کب سے جانتے تھے اور ایک دوسرے کے کام کی بہت تعریف کرتے تھے۔ وہ میرے ڈرامے دیکھا کرتی تھیں۔ میں کہا بھی کرتا تھا کہ کبھی ہم ساتھ کام کریں گے۔ بس اتفاق سے اس ڈرامے کا سین بنا تو میں نے تمکنت سے پوچھا۔ ان کا جواب تھا کہ مجھے آپ کے ساتھ کام کرنا ہے، تو میں کروں گی۔ یوں وہ اس کا حصہ بن گئیں۔ وقار بھی اس ڈرامے میں ایک بالکل نئے روپ میں سامنے آیا تھا جسے ناظرین نے بہت سراہا۔ عورت بننا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ وقار اپنا میک اوور خود ہی کرتا تھا۔ مجھے ایسی ہی ایک عورت چاہیے تھی، موٹی اور کیوٹ سی۔ اگر میں اس کی جگہ کسی ہیروئن کو لیتا تو وہ نخرے کرتی کہ میں فلاں سین نہیں کروں گی لیکن وقار کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں تھا۔ جیسے کھانے والا سین اس نے بہت اعلیٰ کیا تھا جو میں سمجھتا ہوں کہ ہر ہیروئن کے لیے کرنا آسان نہیں۔

فصیح نے بتایا کہ میں دو بار بھارت بھی جا چکا ہوں جہاں میں نے دہلی، بھوپال، اُجین، رتلام، اِندور کا دورہ کیا اور بہت کچھ دیکھا۔ میرے کافی رشتے دار بھارت میں رہتے ہیں تو مجھے کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ وہاں میرے ڈراموں کے بہت سے فینز ہیں۔ اس کے علاوہ میں تھائی لینڈ، ہالینڈ، سنگاپور، سکاٹ لینڈ اور نیپال بھی گیا ہوں۔ نیپال ایک سیریل کی ریکی کے لیے گیا تھا۔

پسندیدہ چیزوں کے بارے میں بتایا کہ کھانے میں ساگ، مکھن، تازہ مکئی کی روٹی اور لسی بہت پسند ہے۔ رنگ کالا، لباس میں ٹی شرٹ، شہروں میں لاہور، موسم سردی کا، پاکستانی علاقوں میں ہُنزہ، ہیروئنوں میں تبو جب کہ پاکستان میں عارفہ صدیقی اور بابرہ شریف کا کام بہت پسند ہے۔

سجل علی اور فہد مصطفیٰ ٹی وی کے پسندیدہ فن کار ہیں۔ سجل علی کے ساتھ مستقبل میں بھی ضرور کام کروں گا۔

میرا پسندیدہ گانا 1964 کی فلم وہ کون تھی کا ”جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے” ہے جسے لتا منگیشکر نے گایا تھا۔

ادب میں راجندر سنگھ بیدی، رحمٰن عباس اور شمس الرحمٰن صدیقی کو پڑھنا بہت پسند ہے۔

بھارتی موسیقاروں میں جئے دیو، مدن موہن اور اے-آر رحمٰن بہت پسند ہیں۔

فلموں میں گرودت کی ’’صاحب، بیوی اور غلام‘‘ ، جب کہ باسو بھٹا چاریہ کی گِرہ پرویش اور آویشکار بہت پسند ہیں۔ باسو چیٹر جی کی کچھ سادہ اور ہلکی پھلکی فلمیں جیسے چھوٹی سی بات، رجنی گندھا اور چِت چور بہت پسند ہیں۔

اگر کبھی کسی بھارتی کلاکار کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو تبو اور پنکج ترپاٹھی کے ساتھ کروں گا۔

آخر میں کچھ ہلکی پھلکی باتیں کھانوں، سیاحت اور لاہور پر بھی ہوئیں۔

موصوف نے مجھ سے لاہور کے بہت سے منفرد کھابوں اور جگہوں کے بارے میں پوچھا اور وہاں جانے کا عزم ظاہر کیا۔ اچھے اور منفرد کھانوں کے بہت شوقین ہیں۔ ڈھیروں لوازمات کے ساتھ اپنی خاص ترکیب سے بنائے گئے حلوے سے میری تواضع کی جسے چکھ کر میں ان کے ٹیسٹ کی داد دیے بنا نہ رہ سکا۔

اسی طرح سیاحت پر بات چلی تو بتایا کہ میں سفر کرنا اور سفرنامے پڑھنا بہت پسند کرتا ہوں۔ کمراٹ جانے کی خواہش ہے اور عنقریب جاؤں گا۔

میرے حالیہ آزاد جموں و کشمیر کے لمبے سفر کی بھی بات کی جو وہ فیس بک پر دیکھتے آ رہے تھے۔ انہیں سماہنی، سون سکیسر ویلی، کوہ سلیمان اور پنج پیر جیسی جگہوں کے بارے میں معلومات دیں۔ پھر جب میں نے انہیں اپنی کتاب شاہنامہ پیش کی تو بہت خوش ہوئے، کتاب کھول کہ مضامین کی فہرست چیک کی اور ایک ایک کے بارے میں مجھ سے سوالات کیے۔ خصوصاً گلگت بلتستان کے کھانوں کے بارے میں پڑھا تو اپنا بھی تجربہ بیان کیا۔

ان کی یہ ادا مجھے بہت بھائی کہ ایک اچھا آرٹسٹ ایسا ہی ہوتا ہے، ہر چیز کو گہرائی سے دیکھنے والا۔

فصیح بھائی کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے کے بعد میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ شخص اپنے کام کے معاملے میں بہت حساس ہے اور جن جن چیزوں میں دل چسپی رکھتا ہے، ان کو کھوجتا ہے۔ یاروں کا یار ہے اور اپنی بات کھل کہ کہہ دینے کا عادی ہے۔ حقیقت پسندی اور عاجزی ان کے مزاج میں کوٹ کوٹ کہ بھری ہوئی ہے۔

مکمل طور پر عوامی شخص ہیں اور فینز سے ملنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی رائے کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔

The post جب بھی میرا ڈراما نشر ہوتا ہے تو دل بجھ جاتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
آئنہ صاف رہے،ربط میں تشکیک نہ ہو
اس لیے روز تجھے کہتے ہیں نزدیک نہ ہو
ہے اگر عشق تو پھر عشق لگے، رحم نہیں
اتنی مقدار تو دے،، وصل رہے، بھیک نہ ہو
مجھے تم ایسے اجاڑو، کہ کئی نسلوں تک
آنے والوں کو مرے عشق کی تحریک نہ ہو
تجھ کو اک شخص ملے، جو کبھی تجھ کو نہ ملے
تجھ کو اک زخم لگے اور کبھی ٹھیک نہ ہو
پھونک اس دل پہ کوئی ذکر کہ تاعمرِ تمام
روشنی دیتا رہے بجھ کے بھی تاریک نہ ہو
چھوڑ کے جاؤ کچھ ایسے کہ بھرم رہ جائے
دل سے کچھ ایسے نکالو مری تضحیک نہ ہو
(آزاد حسین آزاد۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
کسی کی سننی نہیں ہے اگر مگر میں نے
جواب دینا ہے ڈنکے کی چوٹ پر میں نے
ابھی سے سائے میں جا کے نگوڑا بیٹھ گیا
ابھی تو دل کو لگایا تھا کام پر میں نے
تری نظر میں تو یہ سرسری سی کوشش ہے
مجھے پتا ہے بنایا ہے کیسے گھر میں نے
پھر ایک عمر سزا کاٹنی پڑی مجھ کو
نظر ملائی تھی سورج سے لمحہ بھر میں نے
سخن وری بھی تو اک انت ذمہ داری ہے
میں سوچتی ہوں لیا کیوں یہ دردِ سَر میں نے
بھگت رہی ہوں نئی زندگی کا خمیازہ
کہ اپنے ہاتھوں سے کاٹے ہیں اپنے پَر میں نے
میرے لیے تو وہ سایہ بھی دھوپ تھا بلقیسؔ
تلاش جس کو کیا تھا شجر شجر میں نے
(بلقیس خان، میانوالی)

۔۔۔
غزل
وہ برہنہ سر دوبارہ بے ردا ہو جائے گی
اور خبر اس بار بھی اک حاشیہ ہو جائے گی
اپنے گہنے بیچ کر جو ماں نے سونپی تھی مجھے
کیا خبر تھی اب وہ چھت بھی بے وفا ہو جائے گی
اُن چراغ آنکھوں کے آگے ایک دن تم دیکھنا
میری ہستی ایک بھجتا سا دیا ہو جائے گی
ہم تو سمجھے تھے کہ تیری فرقتیں احساس ہیں
اب یہ جانا عمر ساری اک خلا ہو جائے گی
پھر پکاریں گے صحیفے بے بصر انصاف کو
پھر حیات ِ مضمحل اک سانحہ ہو جائے گی
پھر سلاسل بج اُٹھیں گے منصفوں کے درمیاں
پھرسزا کچھ ملزموں کو بے خطا ہو جائے گی
بھوک کی فصلیں اُگانے والو اک دن دیکھنا
یہ زمیں خلد ِ بریں کا آئینہ ہو جائے گی
تو اسیری میں تھی ایماں جس طلسم ِ ذات کی
تہنیت اب اُس فسوں سے تو رہا ہو جائے گی
(ایمان قیصرانی ۔ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل
کھیت ایسے سیراب نہیں ہوتے بھائی
اشکوں کے سیلاب نہیں ہوتے بھائی
ہم جیسوں کی نیند تھکاوٹ ہوتی ہے
ہم جیسوں کے خواب نہیں ہوتے بھائی
زندہ لوگ ہی ڈوب سکیں گے آنکھوں میں
مرے ہوئے غرقاب نہیں ہوتے بھائی
اب سورج کی ساری دنیا دشمن ہے
اب چہرے مہتاب نہیں ہوتے بھائی
ان جھیلوں میں پریاں روز اترتی ہیں
آنکھوں میں تالاب نہیں ہوتے بھائی
سوچیں ہیں جو دوڑ دوڑ کے تھکتی ہیں
تھکے ہوئے اعصاب نہیں ہوتے بھائی
(مستحسن جامی، خوشاب)

۔۔۔
غزل
فرازِ دار کو ذوقِ جنوں تلاش کرے
یہ دل کہ تیری نظر کا فسوں تلاش کرے
سکون کے لیے پہلے نظر نظر سے ملے
نظر ملا کے یہ دل پھر سکوں تلاش کرے
کسی نے زہد کیا اور تو کوئی مست ہوا
جسے تو یوں نہیں ملتا وہ یوں تلاش کرے
لو آج رمزِ نہاں کو عیاں کروں کہ بشر
بروں پہ ثبت ہے تختی دروں تلاش کرے
تمام شہر شجر بھیڑیوں کے جیسا ہے
ہر ایک پیاس بجھانے کو خوں تلاش کرے
(مزمل عباس شجر۔اسلام آباد)

۔۔۔
غزل
کمبخت پہلے آنکھ کو سپنے دکھاتی ہے
پھر دل لگی نصیب کو سولی چڑھاتی ہے
حیرت کا ہے مقام یہ دوشیزہ ننگے سر
چادر چڑھانے پیر کی تربت پہ جاتی ہے
پنجرے میں بیٹھی چڑیا سے لیتا ہوں درس میں
مجھ کو ہوا کے دوش پہ اڑنا سکھاتی ہے
جب بھی میں سوچتا ہوں کہ میں خود کشی کروں
غصے سے زندگی مجھے آنکھیں دکھاتی ہے
کرتا ہوں جب سوال کہ مجھ کو دیا ہے کیا
شرمندگی سے زندگی آنکھیں چراتی ہے
درشن کی اک سبیل کا کچھ اہتمام ہو
اب تشنگیٔ چشم تو بڑھتی ہی جاتی ہے
(ظفراقبال عدم۔ کروڑ لعل عیسن)

۔۔۔
غزل
مت پوچھ فقیروں سے کہ کیا دیکھ رہے ہیں
ہم چشم تصور میں خدا دیکھ رہے ہیں
آنکھوں کو کیے بیٹھے ہیں ہم بند مگر دوست
نظارہ زمانے سے جدا دیکھ رہے ہیں
ملاں کے فتاوی سے پریشان نہیں ہیں
ہم صوفی ہیں یزداں کی ادا دیکھ رہے ہیں
ان آنکھوں پہ اللہ کی ہے خاص عنایت
ہر روز کوئی جلوہ نیا دیکھ رہے ہیں
دعوی نہیں ہرگز یہ شریعت کے منافی
من جانب اللہ بجا دیکھ رہے ہیں
کیا سمجھیں گے سرکارؔ تصرف کی حدیں آپ
جو ہو گا یہاں اور جو ہوا دیکھ رہے ہیں
(روفی سرکار۔ ملتان)

۔۔۔
غزل
خوشی قرار سکوں سب گنوائے بیٹھے ہیں
تمھارے نام پہ سب کچھ لٹائے بیٹھے ہیں
تمھارے ظلم و ستم کے ستائے بیٹھے ہیں
امید نظرِ کرم کی لگائے بیٹھے ہیں
خوشی نہیں نہ سہی غم ہی ڈال جھولی میں
ترے فقیر ترے در پہ آئے بیٹھے ہیں
یہاں پر اپنے سوا کوئی بھی کسی کا نہیں
ہر ایک شخص کو ہم آزمائے بیٹھے ہیں
گلہ نہیں ہے کسی سے ہمیں کوئی واسخ
خود اپنے ہاتھوں گھر اپنا جلائے بیٹھے ہیں
(وسیم اکرم سیمی۔ ہری پور ہزارہ)

۔۔۔
غزل
خونِ دل ہوتا رہا تلخیٔ اظہار کے ساتھ
آدمی قتل کہاں ہوتا ہے تلوار کے ساتھ؟
پا بہ زنجیر اندھیرے میں مقید رکھنا
یہ کسی طور مناسب نہیں بیمار کے ساتھ
جان جانے کا کوئی خوف نہیں ہے مجھ کو
حق بہ جانب، میں کھڑا ہوں ترے انکار کے ساتھ
کون پونچھے گا مری آنکھ سے بہتے آنسو؟
کون سینے سے لگائے گا مجھے پیار کے ساتھ
روزِ اوّل سے غلامی کا شرف بخشا گیا
روزِ اوّل سے ہے نسبت مری سرکار کے ساتھ
میری فطرت میں وفا رکھی گئی ہے امجد
کس طرح ہاتھ ملاتا کسی غدار کے ساتھ
(حسین امجد۔ اٹک)

۔۔۔
غزل
یہ جو آہٹیں ہیں ادھر ادھر سبھی کُن کا دائمی ساز ہے
وہی جاودانِ جہاں جسے ذرا فہمِ سوز و گداز ہے
ہے جو لاشعور کا آئینہ کبھی کر تو اس کا بھی سامنا
کبھی جان لا کا یہ مرحلہ، ترا عکس عکسِ مجاز ہے
نہ ہو منحرف ارے بے خبر کبھی اپنی ذات پہ غور کر
یہ وجودِ خاک ہے لمحہ بھر، یہاں کس کی عمر دراز ہے
یونہی دربدر کی صعوبتیں تری اپنی سوچ کی ظلمتیں
اسی دَر پہ کھول یہ کلفتیں جو ازل سے بندہ نواز ہے
یہاں ہر بشر ہے تماش بیں، کوئی نکتہ داں کوئی نکتہ چیں
جو خلوصِ دل سے ہو کچھ قریں ترا ہر عمل وہ نماز ہے
یہ سجیل زیست کا مرحلہ ہے تغیرات کے زاویہ
تھا جو خط کبھی ہوا دائرہ، جو نشیب تھا وہ فراز ہے
(سجیل قلزم۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
مل کے خود سے نہ ہم رہے تنہا
اب نہ کوئی ہمیں کہے تنہا
چاند کا درد تم نہ سمجھو گے
تم ہمیشہ نہیں رہے تنہا
وقت اچھا کٹے گا دونوں کا
ویسے رہنا ہے تو، رہے تنہا
بند کمروں میں بھی سکون نہیں
اور کتنا کوئی رہے تنہا
بات دل کی نہیں ہے کہتا وہ
ایسے رہنا ہے تو رہے تنہا
آدمی ایسا کوئی ہو سالمؔ
بات دل کی جسے کہے تنہا
(سالِم احسان۔ گوجرانولہ)

۔۔۔
غزل
جو پوچھا عشق کا بولا ،’’کروں گی‘‘
وفا ہے شرط تو وعدہ، کروں گی
بھلا کب سانس پہ پہرے لگے ہیں
تجھے ہر وقت ہی سوچا کروں گی
اثاثے بانٹ لیتے ہیں برابر
تم ہنسنا اور میں رویا کروں گی
گھڑی اوقات میں رکھا کرے گی
میں گجرے، چوڑیوں کا کیا کروں گی؟
بس اک تصویر ہی شافی رہے گی
مصیبت میں جسے دیکھا کروں گی
بھلے سندیس تو بھیجے نا بھیجے
ہواؤں سے ترا پوچھا کروں گی
تری تکمیل سے مشروط ہے تو
میں اپنے آپ کو آدھا کروں گی
انہیں میں خامشی سے مات دوں گی
جنہیں لگتا تھا میں جھگڑا کروں گی
(ثروت مختار ۔بھکر)

۔۔۔
’’ویرانی‘‘
مگر اے دل
مگر اے شہرِ دل
تُو کیوں فصیلِ درد سے
باہر نہیں آتا
بتا مجھ کو
تری یہ خستہ حالی کیوں نہیں جاتی
تجھے جتنا سنواروں
تیری ویرانی نہیں جاتی
مگر اے دل
مگر اے شہرِ دل
(سارہ خان، راولپنڈی)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.


ایکسپریس سیمینار؛ شوگر خطرناک مرض، فالج و ہارٹ اٹیک بھی ہو سکتا ہے، طبی ماہرین

$
0
0

لاہور: طبی ماہرین نے ذیابیطس کو خطرناک مرض قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں پر ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، شوگر فالج اور ہارٹ اٹیک کی وجہ بننے کے علاوہ آنکھوں اور پاؤں کو بھی متاثر کرتا ہے۔

اس کے بڑے اسباب موٹاپا، تمباکو نوشی، ورزش نہ کرنا اور غیر صحت مند طرز زندگی اور غیر صحت بخش خوراک ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایکسپریس میڈیا گروپ اورپاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کے زیر اہتمام ایٹکو، سرویئر، گیٹز فارما، ہائی کیو، ہائی نون اور لنڈبیک کے تعاون سے ذیابیطس کے عالمی دن کے حوالے سے لاہور کے مقامی فائیو سٹار ہوٹل میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، میزبانی کے فرائض ڈاکٹر وفا قیصر نے انجام دیئے۔

پی ایس آئی ایم کے صدر پروفیسرڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ پاکستان میں ذیابیطس کا مرض ہر چوتھے شخص کو ہے ، فیملی میں اگر شوگر ہے تو اس بیماری کے آنے کے چانسز بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ شوگر جیون ساتھی ہے جو زندگی کے ساتھ ہی چلتا ہے۔ بدقسمتی سے مریض انسولین لگوانے سے پرہیز کرتے ہیں، اگر شوگر کنٹرول نہ ہو تو انسولین لگانا ضروری ہو جاتا ہے۔

پی ایس آئی ایم کے چیئرپرسن پروفیسرایم زمان شیخ نے کہا کہ شعبہ طب میں یہ مرض خاموش قاتل کہلاتا ہے۔ انسولین کی ایجاد سے پہلے اس مرض کا کوئی علاج نہیں تھا، مرض کی بڑی وجہ ڈپریشن ہے، رات کو اٹھنا اور پھر نیند نہ آنا، صبح کو اداس اٹھنا اور خود کشی سمیت ڈپریشن کی9قسمیں ہیں۔

پی ایس آئی ایم کی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر صومیہ اقتدار نے کہا کہ ذیابیطس بیماریوں کی ماں ہے، بدقسمتی سے شوگر کا مرض مردوں کی نسبت خواتین میں زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، اگر ماں کو شوگر ہے تو اس کے بچے کو بھی شوگر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، اگر زچگی کے دوران شوگر کنٹرول نہ ہو تو ڈیلیوری کے وقت کئی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں، حمل کے وقت خاتون کی عمر 35 برس سے زیادہ ہو تو اسے سکریننگ ٹیسٹ ضرور کروانا چاہئے۔

پروفیسر آفتاب محسن نے کہا جب ضرورت سے زیادہ کھانا ہضم نہ ہو تو انسان موٹاپے کا شکار ہو جاتا ہے، دنیا میں سات کروڑ لوگوں کی اموات بیماریوں سے ہوتی ہے، ہم اصل ٹریک سے ہٹ گئے ہیں، اصل چیز روح ہے لیکن انسان جسم کی طرح زیادہ توجہ دیتا ہے، اس بیماری کی وجہ ٹینشن ہے۔

پروفیسر عزیزالرحمان نے کہا کہ عمومی طور پر95فیصد افراد میں اس مرض کی بظاہر کوئی علامت نہیں ہوتی، بلڈ ٹیسٹ میں اگرویلیو126 یا اس سے زیادہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ شوگر کا مرض ہے۔ شوگر کا مرض لاحق ہو جائے تو طرز زندگی کو بدلنا چاہئے۔

پروفیسر طارق وسیم نے کہا شوگر ایک فیملی کی طرح ہوتی ہے جس کی بہن کولیسٹرول، بلڈپریشر بھائی اور تمباکو نوشی دوست ہے، اگر شوگر کو کنٹرول نہیں کریں گے تو آگے جا کر مسائل پیدا ہوں گے، دنیا میں نابینا پن کی سب سے بڑی وجہ شوگر ہے، ہارٹ اٹیک ہونے کی بڑی وجہ بھی شوگر ہی ہے، اس بیماری میں مبتلا شخص کے گردے فیل اور بلڈ پریشر میں مبتلا ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، اعصاب متاثر ہوتے ہیں۔

پروفیسر خورشید خان نے کہا کہ مریضوں کو مرض کی شدت کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے، جب مرض بڑھ جائے تو انسولین کے استعمال کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔

پروفیسر ساجد عبیداللہ نے شوگر کا مرض اسی وقت ہوتا ہے جب آپ کھانے پینے میں بے احتیاطی کرتے ہیں، نان اور کولڈ ڈرنکس کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے، ہفتے میں پانچ دن ورزش ضرور کریں،کچھ نہیں کر سکتے تو بیڈ پر لیٹ کر ہاتھوں اور ٹانگوں کو ہلانا بھی ایکسرسائز ہے۔

ڈاکٹر طارق میاں نے کہا پچاس سال پہلے کسی گھر میں شوگر کا کوئی مریض نہیں ہوتا تھا، اب ہر گھر میں شوگر کے مریض ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنا لائف سٹائل بدل لیا ہے، ہم ایکسرسائز نہیں کرتے، ،اچھی صحت ہماری کبھی ترجیح نہیں رہی۔ کھانے کے ساتھ کولڈ ڈرنک کو لازم سمجھا جاتا ہے، ایک بوتل پینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے سولہ چمچ چینی کا استعمال کیا ہے۔

سیمینار کے اختتام پر ایکسپریس فورم کے ایڈیٹر اجمل ستار ملک نے تمام مقررین، سپانسرز اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایکسپریس میڈیا گروپ ہر موقع پر عوامی آگاہی کیلیے کردار اداکرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔

سیمینار میں شریک شرکاکا طبی ماہرین کے ساتھ سوال و جوا ب کا سیشن بھی ہوا۔ اختتام پر مہمانوں کو اعزازی شیلڈز پیش کی گئیں۔

 

The post ایکسپریس سیمینار؛ شوگر خطرناک مرض، فالج و ہارٹ اٹیک بھی ہو سکتا ہے، طبی ماہرین appeared first on ایکسپریس اردو.

معذوری عیب نہیں؛ ملکی ترقی کیلئے خصوصی افراد کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہوگا !!

$
0
0

خصوصی افراد معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں جن کا خیال رکھنا ، سہولیات فراہم کرنا، معاشرے کا ایک کارآمد شہری بنانا اور زندگی گزارنے کے برابر مواقع دینا جہاں ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے وہیں معاشرتی رویہ اور کردار بھی انتہائی اہم ہوتا ہے۔

خصوصی افراد کے مسائل ، ان کا حل اور ان سے منسلک بیشتر اہم معاملات کے بارے میں آگاہی دینے اور عملی اقدامات کی ترغیب دینے کے حوالے سے ہر سال 3 دسمبر کو دنیا بھر ’’خصوصی افراد کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔

ہر سال کی طرح اس عالمی دن کے موقع پر بھی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، شعبہ صحت اور خصوصی افراد کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

چودھری محمد اخلاق
(وزیر برائے سپیشل ایجوکیشن پنجاب)

خصوصی افراد سے منسلک ادارے آپس میں مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس میں محکمہ سپیشل ایجوکیشن کا کردار انتہائی اہم ہے۔ہم نہ صرف اپنا کام کر رہے ہیں بلکہ خصوصی افراد کی بہتری کیلئے دیگر اداروں کو تجاویز بھی فراہم کرتے ہیں۔ خصوصی افراد کیلئے عمارتوں میں ریمپ کی تعمیر ہمارے دائرہ کار میں نہیں ہے۔

جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ 1982 ء میں ایل ڈی اے کا ایک قانون ہے جس پر عملدرآمد کے مسائل ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کو سمری بھیجی ہے، اس پر جلد کام کا آغاز ہوجائے گا۔ پاکستان میں سماعت سے محروم افراد کے ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنتے جس کی وجہ سے ان بچے، بچیوںکو آمد و رفت کیلئے والدین کی مدد درکار ہوتی ہے۔

اس حوالے سے ہم نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کو نوٹ بھیجا ہے لہٰذا جلد سماعت سے محروم افراد کو ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء ہوجائے گا۔ میرے محکمہ نے بہت زیادہ محنت کی ہے جس کی وجہ سے ہم 2 سالہ کارکردگی میں 36 محکموں میں سے پہلے 20 محکموں میں آگئے ہیں اور خود وزیراعلیٰ پنجاب نے ہماری کارکردگی کو سراہا ہے۔ میرے نزدیک خصوصی افراد کا سب سے بڑا مسئلہ آگاہی ہے ، انہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کیلئے کیا کام ہورہا ہے اور وہ اس سے کس طرح مستفید ہوسکتے ہیں۔

ہم انہیں آگاہی دینے پر کام کر رہے ہیں۔ کرونا کے چیلنج کی وجہ سے بہت سارے معاملات میں تاخیر ہوئی تاہم اب بہتری آرہی ہے۔ گزشتہ 2 ماہ میں ہم نے اپنے سکولوں میں 3 ہزار نئے بچے داخل کیے ہیں۔ میں نے تمام ’’ڈی اوز‘ کو ہدایت کی تھی کہ بچوں کی انرولمنٹ میں اضافہ یقینی بنائیں۔ پہلے ہمارے پاس 34 ہزار بچے زیر تعلیم تھے جو اب 37 ہزار سے زائد ہوچکے ہیں، اس تعداد میں ا ضافے کیلئے مزید کام جاری ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے بچوں کی ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے کیلئے مشکل حالات کے باجود ہمیں 36 نئی بسیںدیں جو کرونا کے دوران ہی سکولوں کو فراہم کر دی گئی تھی، ان سے بچوں کے پک اینڈ ڈراپ میں بہت فائدہ ہوا ہے۔ موٹر وے کے قریب شرقپور میں محکمہ سپیشل ایجوکیشن کی 104 کنال زمین تھی جس پر 40 برس سے مقامی افراد کا قبضہ تھا، ہم نے اسے واگزار کرایا۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے فوری طور پر 2 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کیے جس سے ہم نے چار دیواری بنوائی تاکہ دوبارہ قبضہ نہ ہوسکے۔ نارمل بچے شمالی علاقہ جات و دیگر علاقوں میں چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں لیکن خصوصی بچوں کیلئے ایسی کوئی جگہ نہیں ہے۔

میں نے سوچا کہ ان بچوں کیلئے کوئی خصوصی جگہ ہونی چاہیے جہاں یہ اپنی چھٹیاں گزاریں، ایک دوسرے سے ملیں تاکہ ان کی تنہائی دوراور دکھ کم ہو۔واگزار کی گئی زمین پر ہم خصوصی بچوں کیلئے ’’سپیشل ویلج‘‘ بنا رہے ہیں جہاں سٹیٹ آف دی آرٹ آڈیٹوریم اور تھیٹر ہوگا، کھیل کی گراؤنڈ، سامان و تفریح کیلئے بے شمار چیزیں ہوگی۔

خصوصی بچوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ویلج کو فرینڈلی بنایا جائے گا، اس میںخصوصی بچوں کی انٹری، بورڈنگ، کھانا، پینا ہر چیز مفت ہوگی اوروہ یہاں 10 سے 15 دن تک چھٹیاں گزار سکیں گے، اس سے ان کی ماؤں کو بھی ریلیف ملے گا۔ مجھے امید ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد دیگر صوبے بھی اس کی تقلید کریں گے۔ میں نے جب بجٹ سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کو اس کی بریفنگ دی تو انہوں نے نہ صرف اسے سراہا بلکہ اس کی منظوری بھی دی۔ یہ 800ملین کا منصوبہ ہے جس میں سے 2 کروڑ جاری ہوچکے ہیں۔ یہ منصوبہ ڈیزائننگ کے مراحل میں ہے، اس پر مشاورت جاری ہے۔

یہ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا منصوبہ ہوگا جسے خود انحصار بنایا جا رہا ہے۔ ہم مختلف اداروں کو میٹنگز، سیمینارز، سپورٹس گالہ کیلئے آڈیٹوریم ، گراؤنڈز رینٹ پر دیں گے جس سے ریونیو حاصل ہوگا اور اس منصوبے کے اخراجات پورے کیے جائیں گے۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے ہدایت کی ہے کہ اس ویلج میں ہاسٹل بھی بنائیں تاکہ دیگر شہروں سے آئے ہوئے بچے یہاں رہ سکیں گے۔ یہ منصوبہ آئندہ 2 برسوں میں مکمل ہوجائے گا۔سپیشل ایجوکیشن کے اداروں میں بچے نہیں آتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان سے مکرامے، بانس کا فرنیچر وایسی اشیاء بنوائی جاتی تھی جن کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

میں نے اپنے محکمہ کو ہدایت دی کہ ان کا نصاب تبدیل کر دیا جائے۔ اس حوالے سے ہم نے دو پائلٹ پراجیکٹ کامیابی سے مکمل کر لیے ہیں، جوہر ٹاؤن اور گلبرگ لاہور میں موجود سینٹرز میں آئی ٹی لیبز قائم کر دی گئی ہیں جہاں بچوں کو آئی ٹی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ یہ بچے شارٹ کورسز کریں اور جدید دنیا میں اپنا روزگار خود کمائیں تاکہ انہیں ملازمت کیلئے کوٹہ کی ضرورت نہ پڑے۔

میری کوشش ہے کہ خصوصی بچوں کو فرانزک سائنس کے کورسز کروائے جائیں، اس پر پلاننگ جاری ہے۔ حکومت کا کامیاب جوان پروگرام بہترین ہے۔ خصوصی افراد کو اس کے بارے میں آگاہی دی جائے۔ اس منصوبے کے تحت انہیں 10 لاکھ تک میرٹ پر قرض مل سکتا ہے لہٰذا وہ درخواست دیں اور اپنا بزنس کریں۔

ڈاکٹر خالد جمیل
(بگ برادر)

گزشتہ برس کی نسبت رواں برس خصوصی افرادکے حوالے سے کافی کام ہوا ہے اور بیشتر منصوبے مکمل ہوئے ہیں۔ کرونا وائرس کے چیلنج کی وجہ سے رواں برس خصوصی افراد کے عالمی دن کو ’لیڈر شپ‘ سے جوڑا گیا ہے۔

کرونا وباء کے دوران 5 طرح کی معذوری والے افراد جن میں muscular dystrophy، spinal cord injuries، polyneuropathies، cerebral palsy  یا  stroke کا شکار بچے شامل ہیں، کی شرح اموات زیادہ تھی۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ دیرینہ امراض کی وجہ سے ان کی قوت مدافعت کم ہوچکی تھی جبکہ دوسری وجہ ویکسین کے حوالے سے ابہام تھا کہ وہ لگوا سکتے ہیں یا نہیں۔

اس اہم معاملے پر کہیں بات نہیں کی گئی اور نہ ہی خصوصی افراد کو آگاہی دی گئی کہ وہ ویکسین لگواسکتے ہیں۔ معذوری کا شکار افراد نے ویکسین نہیں لگوائی جس کی وجہ سے بیشتر اموات ہوئیں۔اب کرونا وائرس کی نئی لہر آگئی ہے لہٰذا اس معاملے پر خصوصی طور پر آگاہی دی جائے اور خصوصی افراد کو ویکسین لگوانے کی طرف مائل کیاجائے۔ خصوصی افراد کی مالی حالت عام لوگوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے، کرونا وباء کی وجہ سے یہ مزید متاثر ہوئی اور ان کی ضروریات زندگی کا پوری ہونا مشکل ہوگیا۔

انہیں علاج معالجہ، ٹرانسپورٹ و دیگر معاملات بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ کرونا میں ہنگامی حالات اور اقدامات کی وجہ سے بھی خصوصی افراد کو شدید مسائل کا سامنا رہا۔ میو ہسپتال لاہور میں ایک سال تک کرونا کے مریضوں کے علاوہ کسی دوسرے مریض کا علاج نہیں کیا گیا۔ خصوصی افراد کے علاج معالجے سے منسلک شعبے بند رہے، مصنوعی اعضاء نہیں بنے، مریضوں کی فزیکل تھراپی نہیں ہوئی ، جس کے باعث ان کی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوا۔حکومت کو چاہیے کہ کرونا کی ویکسین کے حوالے سے خصوصی افراد کو آگاہی دے، اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی وبائی چیلنج یا نارمل حالات کی صورت میں خصوصی افراد کی ہسپتال اور علاج معالجے تک رسائی یقینی بنائی جائے۔

کرونا وباء کے دوران لوگوں میں لیڈر شپ کی صلاحیت ابھری ہے۔ لاک ڈاؤن میں گھروں میں محصور رہنے کی وجہ سے لوگوں کے درمیان آن لائن روابط میں اضافہ ہوا۔ مشکل صورتحال میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کمیونٹی بیسڈ رری ہیبلی ٹیشن سمیت بے شمار کام کیا۔ میں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ معذوری کے شکار افراد کو این جی اوز بنا کر کام کرنے کی ترغیب دی جس کے بعد کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاورمیں بے شمار این جی اوز بنیں جنہوں نے زلزلوں سے لیکر کرونا تک کے ہنگامی حالات میںبہترین کام کیا۔ دنیا کے ہر معاشرے میں بہتری کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔

میرے نزدیک احتجاج نہیں بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ میں اپنی کمیونٹی کو خصوصی طور پر یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں، احتجاج سے حاصل ہونے والی چیز دیرپا نہیں ہوتی بلکہ وقتی ہوتی ہے جو مظاہرین کو گھر بھیجے کیلئے کی جاتی ہے، بعدازاں مسائل درپیش رہتے ہیں۔

عمارتوں میں ریمپ نہ ہونے کی وجہ سے خصوصی افراد کومسائل درپیش ہیں۔ رواں سال جون میں گورنر پنجاب سے ہماری میٹنگ ہوئی جس میں خصوصی افراد کیلئے ’ریمپ‘ بنانے کے حوالے سے بات ہوئی۔ ہم نے پی ٹی وی سٹیشن سمیت پبلک ڈیلنگ کے بیشتر دفاتر میں ریمپ بنوائے ہیں، اس پر مزید کام جاری ہے۔

ڈاکٹر اظہار ہاشمی
(پراجیکٹ ڈائریکٹر پنجاب ویلفیئر ٹرسٹ فار دی ڈس ایببل)

میں ہمیشہ سے ہی محکمہ سپیشل ایجوکیشن کے اقدامات کا ناقد رہا ہوں مگر موجودہ دور میں خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت اور تحفظ کیلئے اس محکمے کا کام قابل ستائش ہے۔ محکمہ کی جانب سے خصوصی بچوں کے نئے سکول بنائے گئے، انہیں سہولیات مہیا کی گئی جو انتہائی اہم ہیں۔

ہمارا ٹرسٹ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں خودمختار ادارہ ہے جس سے سالانہ 26 لاکھ افراد مستفید ہورہے ہیں۔ ہم 120 این جی اوز کو فنڈز مہیا کرکے ان کی کپیسٹی بلڈنگ کرتے ہیں اور ان کی مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن بھی کی جاتی ہے۔کرونا وباء کے دوران بھی ہم نے اپنا دفتر بند نہیں کیا۔ ہمیں ادراک تھا کہ اگراین جی اوز تک بروقت فنڈز نہ پہنچے تو 40 کے قریب ادارے بند ہوجائیں گے۔

لہٰذا ہم نے نہ صرف انہیں بروقت فنڈز جاری کیے بلکہ انہیں کمیونٹی کے ساتھ بھی جوڑا۔ ہم نے اپنی پارٹنر این جی اوز اور مخیر حضرات کی مدد سے خصوصی افراد میں 30 ہزار راشن تقسیم کیے۔ خاص کر جنوبی پنجاب کی این جی اوزنے اس پر نے بہترین کام کیا۔ کرونا وباء کے دوران حکومت نے 12 ملین افراد کو امداد فراہم کی جن میں خصوصی افراد بھی شامل تھے۔

عالمی ڈونر ایجنسیوں نے بھی مقامی این جی اوز کے ساتھ مل کر خصوصی افراد کو ہرممکن امداد فراہم کی۔ گزشتہ پانچ برسوں میں اخوت اور پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی نے مل کر 20 ہزار خصوصی افراد کوچھوٹے کاروبار کیلئے چھوٹے قرضے فراہم کیے، جن کی ریکوری کی شرح 100 فیصد ہے ۔ خصوصی افراد کو سہولت دینے کیلئے ریمپ اورٹائلٹ کو عمارتوں کا لازمی حصہ بنا یا جا رہا ہے۔

ان کے بغیر کسی عمارت کو تکمیل کا سرٹیفکیٹ نہیں ملے گا،کرونا کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی تاہم اب اس پر تیزی سے کام جا ری ہے۔ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی، پنجاب سکلز ڈویلپمنٹ فنڈز، ٹیوٹا، سپیشل ایجوکیشن اور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ مل کر خصوصی افراد کیلئے ایک نئی دنیا بنا رہے ہیں جس میں اخوت اور اس جیسے ادارے ٹیکنیکل سکلز حاصل کرنے والوں کو بلاسود چھوٹے کاروباری قرضے فراہم کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔

اس میں ویژن یہ ہے کہ خصوصی افراد اپنے 3 فیصد کوٹہ کے علاوہ کاروبار کے ذریعے اپنا روزگار کماسکیں گے۔ عالمی سطح پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر دنیا کے خصوصی افراد کام شروع کر دیں تو دنیا کی جی ڈی پی میں 6 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں برٹش کونسل اور ورلڈ بینک نے تحقیق کی جس کے مطابق اگر ہمارے ملک کے خصوصی افراد کام شروع کر دیں تو جی ڈی پی میں 4.6 سے 6.1 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں 33ملین خصوصی افراد ہیں،اگر ان پر کام نہ کیا گیا تو 2050ء میں یہ تعداد 84 ملین ہوجائے گی۔ہمیں خصوصی افراد کے حوالے سے مل کر کام کرنا ہوگا، اگر کر لیا تو ہمارا مستقبل تابناک ہے۔

لالہ جی سعید اقبال مرزا
(چیئرمین پاکستان سپیشل پرسنز اسلام آباد، ممبر ڈویژنل امن کمیٹی گوجرانوالہ، قائد اعظم گولڈ میڈلسٹ)

حکومت کی جانب سے بلدیاتی قوانین میں ترمیم کی جارہی ہے جو خوش آئند ہے۔ میرے دیرینہ مطالبے پر ڈسٹرکٹ اور تحصیل کی سطح پر خصوصی افراد کیلئے نشستیں مختص کر دی گئی ہیںجس پر میں سپیکر پنجاب اسمبلی، وزیر اعلیٰ پنجاب، صوبائی حکومت ، صوبائی وزیر چودھری اخلاق اور قانون بنانے کیلئے قائم کردہ سپیشل پرسنز کی کمیٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

ہمارے علاقے میں خصوصی بچوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ 10 برس سے ہمارا مطالبہ ہے کہ گورنمنٹ سپیشل سینٹر لالہ موسیٰ کو مڈل سکول سے ہائی سکول کا درجہ دیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سینٹر ایئرپورٹ چوک جو کہ پرائمری سکول ہے اسے بھی مڈل سکول کا درجہ دیا جائے۔

خصوصی افراد کی آواز کو مضبوط کرنے کیلئے انہیں سیاسی اداروں اور فیصلہ ساز اداروں میں نمائندگی دینا ہوگی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میںخصوصی افرادکیلئے ایک ایک نشست مختص کی جائے۔ خصوصی افراد معاشرے کا حصہ ہے، معذوری عیب نہیں خدا کی حکمت ہے لہٰذا ا ن سے نفرت نہ کی جائے۔ پنجاب میں 50 لاکھ سے زائد خصوصی افراد ہیں جن کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

احساس پروگرام میں معذوری کے حامل تمام افراد کو ایک ہی کیٹگری میں شامل کر دیا گیا ہے، میرے نزدیک یہ بھیک کی جدید شکل ہے۔ جو افراد معذوری کی وجہ سے بالکل کام نہیں کرسکتے انہیں 10 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جائے اور جو ہنر مند ہیں انہیں 5 لاکھ روپیہ قرض حسنہ دیا جائے۔ سرکاری محکموں میںتعلیم یافتہ خصوصی افراد کی ملازمت یقینی بنائی جائے، ملازمت کا کوٹہ 5 فیصد کیا جائے اورا س پر عملدرآمد میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔

The post معذوری عیب نہیں؛ ملکی ترقی کیلئے خصوصی افراد کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہوگا !! appeared first on ایکسپریس اردو.

سرما کی رونقیں بڑھاتے میوہ جات

$
0
0

موسم سرما کے آغاز سے ہی بازاروں میں خشک میوہ جات کی فروخت شروع ہو جاتی ہے۔ سردیوں کی یہ سوغات بچے، بڑے بوڑھے، سبھی کو بہت مرغوب ہوتی ہے۔

ہمارے باورچی خانوں سے مزے مزے کے میوؤں سے بننے والے کھانوں کی لپٹیں آنے لگتی ہیں اور ہمارے دسترخوان پر بھی یہ خوب سجنے لگتے ہیں۔

کسی بھی خاص موقعے کے لیے دادیاں، نانیاں گاجر کے حلوے کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتی  ہیں، جس میں اپنی اپنی پسند کے خشک میوہ جات ڈالے جاتے ہیں۔ السی کے لڈو اور پنجیریوں کی وجہ سے سارے گھر میں گہما گہمی دکھائی دیتی ہے۔ یہ خشک میوے صحت کے لیے بہت مفید اور غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ان کا استعمال جسمانی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے۔

ہالینڈ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اگر ہر روز آدھی مٹھی کے برابر خشک میوہ جات، جن میں اخروٹ، بادام، کاجو، پستہ اور مونگ پھلی وغیرہ شامل ہوں، کا استعمال کیا جائے، تو مختلف بیماریوں کی پیچیدگیوں کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے، خشک میوہ جات کا استعمال دل کی صحت کے لیے بہترین ہونے کے سبب ماہرین کی جانب سے بھی ان کا استعمال ہر روز ہر موسم میں اعتدال میں رہتے ہوئے تجویز کیا جاتا ہے۔

اگر ہم بادام کی بات کریں، تو یہ خشک میوہ جات کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں مونوسچورٹیڈ فیٹی ایسڈز کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے، جو کہ جسمانی افعال کے لیے انتہائی ضروری ہوتے ہیں، کیوں کہ یہ خون میں گلوکوز کی مقدار متوازن رکھتے ہیں، جب کہ گلوکوز کے جذب ہونے کے عمل کو کنٹرول بھی کرتے ہیں، آسان الفاظ میں بادام بلڈ گلوکوز کی سطح کو کنٹرول کرنے میں مدد دے سکتے ہیں، جس سے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ بادام کھانے سے انسولین کی مزاحمت کی روک تھام بھی ہوتی ہے، جو کہ گلوکوز کی سطح بڑھانے کا باعث بنتی ہے۔

پستے میں بادام، کاجو اور اخروٹ کے مقابلے کہیں زیادہ پروٹین اور کم مقدار میں ’فیٹ‘ پایا جاتا ہے، پستہ وٹامن ای اور کیروٹین سے بھی مالامال ہونے کے سبب انسانی صحت کے لیے بہترین ہے، تاہم طبی ماہرین کی جانب سے یومیہ 20 گرام سے زیادہ پستے کا استعمال کرنے سے گریز کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

اخروٹ میں ایسے پروٹین، وٹامن، منرل اور فیٹس ہوتے ہیں جو جسم میں کولیسٹرول لیول کو کم رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، اس سے دل کے دورے کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔ اخروٹ خون بنانے کے لیے بہت اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اخروٹ سے انسانی صحت کو طاقت کے ساتھ ساتھ جلد کو شادابی بھی میسر آتی ہے۔ اخروٹ کے استعمال سے آنکھیں اور بال بھی چمک دار ہوتے ہیں اور دماغ بھی تیز ہوتا ہے۔

یک تحقیق کے مطابق آدھا اونس کشمش روزانہ کا استعمال کرنے والے افراد کا نظام ہاضمہ دوگنا تیزی سے کام کرتا ہے۔کشمش میں پوٹاشیم اور میگنیشم ہوتا ہے، جو کہ معدے کی تیزابیت میں کمی لاتے ہیں، معدے میں تیزابیت کی شدت بڑھنے سے جلدی امراض، جوڑوں کے امراض، بالوں کا گرنا، امراض قلب اور کینسر تک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق چلغوزہ لقوہ اور فالج میں اس کا مسلسل استعمال مفید ہے، پرانی کھانسی میں مغز چلغوزہ رگڑ کر شہد میں ملا کر کھانا مفید ہوتا ہے۔چلغوزے میں پایا جانے والا فائبر قبض اور گیس کو ختم کرتا ہے، اس کے علاوہ یہ جسم سے زہریلے مادوں کے اخراج میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

مونگ پھلی کئی غذائی اجزاء سے لدی ہوتی ہے، مٹھی بھر مونگ پھلی کا استعمال آپ کو ایک ساتھ کئی غذائی اجزاء دیتا ہے لہٰذا ماہرین کہتے ہیں کہ اچھے ذائقے سے لطف اندوز ہونے اور حیرت انگیز فوائد حاصل کرنے کے لیے مونگ پھلی کو لازمی اپنی خوراک میں شامل کریں۔

مونگ پھلی میں چربی کی مقدار کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں وزن کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے مگر اس کا اعتدال میں استعمال کیا جانا چاہیے۔ یہ پروٹین اور فائبر سے بھری ہوئی ہوتی ہے جو وزن کم کرنے میں بھی مدد کرتی ہے۔

کاجو میں زائد مقدار میں فیٹی ایسڈز پائے جاتے ہیں جو کولیسٹرول کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں، جس کی وجہ سے امراضِ قلب کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے، جب کہ ایک تحقیق کے مطابق معلوم ہوا ہے کہ کاجو ہائی بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے۔ اِس کے علاوہ کاجو میں موجود معدنیات، وٹامن، پوٹاشیم اور فولک ایسڈ دِل کی بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔

یہ ہمارے گردوں  کے لیے بھی بے حد مفید ہو تا ہے۔ کاجو کے استعمال سے  خون کی شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں، اسی لیے یہ بلڈ پریشر کو بھی نارمل رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کاجو دماغ کو بہتر بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

انجیر غذائیت سے بھر پور پھل ہے جس میں وٹامن اے، سی، کے وٹامن بی، آئرن، میگنیشیم، کوپر، زنک اور پوٹاشیم پایا جاتا ہے۔ انجیر کو دودھ میں ابال کر بھی استعمال کر سکتے ہیں، دو انجیر، دودھ میں اچھی طرح ابال لیں، پہلے دودھ پیئں اور بعد میں انجیر کھا لیجیے۔

درج بالا فوائد کو پیش نظر رکھتے ہوئے خشک میوہ جات کا استعمال ضرور کریں، لیکن ایک بات یاد رکھیے کہ کسی بھی چیز کا استعمال اعتدال سے بڑھ کر کیا جائے تو وہ نقصان دہ  ثابت ہوتا ہے۔

The post سرما کی رونقیں بڑھاتے میوہ جات appeared first on ایکسپریس اردو.

سالانہ سرچ 2021؛ گوگل نے پاکستان میں مقبول ترین سرچز کا اعلان کردیا

$
0
0

کراچی: گوگل نے پاکستان میں مقبول ترین سرچز کی فہرست جاری کردی ہے یہ وہ سرچز ہیں جن کے باعث، 2020ء کے مقابلے میں 2021ء کے دوران ٹریفک میں انتہائی بلند پیش رفت نظر آئی۔

اس فہرست میں کھیلوں، موویز، ڈراموں اور اینیمیٹیڈ فلموں کی وسیع کیٹگریز شامل ہیں اور ملک میں گزشتہ برس کے مقابلے میں، ایک منفرد اور دلچسپ معلومات فراہم کرتی ہے۔

اس سال پوری قوم کرکٹ کے جنون میں مبتلا رہی اور یہ کھیل گوگل سرچزکے نتائج پر چھایا رہا۔ سنہ 2021ء کے لیے ٹاپ سرچز میں جنوبی افریقا اور انگلینڈکے ساتھ پاکستان کی کرکٹ سیریز شامل تھیں جن کے بعد آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ اور پاکستان سپر لیگ چھائے رہے۔ ذیل میں مقبول ترین سرچز دی گئیں ہیں:

مقبول ترین سرچز:

1۔ پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ

2۔ پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز

3۔ پاکستان سپر لیگ

4۔ پاکستان بمقابلہ انگلینڈ

5۔ ٹی 20 ورلڈ کپ

6۔ پاکستان بمقابلہ زمبابوے

7۔ بھارت بمقابلہ انگلینڈ

8۔ پاکستان بمقابلہ انگلینڈ

9۔ پاکستان بمقابلہ نیو زی لینڈ

10۔ پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا

اس سال کی ٹاپ موویز اور شوز کی فہرست میں اقسام اور اسٹائلز کے اعتبار سے تنوع پایا گیا۔ نیٹ فلیکس کے شو ’اسکوئیڈ گیم‘ نے عالمی سطح پر ٹاپ پوزیشن پر قبضہ جمائے رکھا۔ٹاپ موویز اور ٹیلی ویژن شوز کی فہرست میں مقبول پاکستانی ڈراما’خدا اور محبت‘ دوسرے نمبر پر رہا جبکہ ہم ٹی وی کا مزاحیہ ڈراما ’چپکے چپکے‘ نے تیسری پوزیشن حاصل کی جس کے بعد جیو ٹیلی ویژن کا ڈراما ’ہر پل‘اور’رنگ محل‘تھے۔مکمل فہرست ذیل میں دی گئی ہے:

مقبول ترین موویز اور ٹی وی ڈرامے:

1۔ اسکوئیڈ گیم

2۔ خدا اور محبت

3۔ چپکے چپکے

4۔ رنگ محل

5۔ رادھے

6۔ بگ باس 15

7۔ منی ہیسٹ

8۔ ارطغرل

9۔ بلیک وِیڈو

10۔ ایٹرنلز

11۔ کورلوس عثمان

گوگل کی فہرست میں انتہائی سرچ کیے جانے والے کھلاڑیوں میں تجربہ کار کرکٹر شعیب ملک ٹا پ پر رہے۔ اس سال، کرکٹ چونکہ پاکستان میں انتہائی مقبول کھیل رہا، جارحانہ بلے باز آصف علی اور بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے فخر زمان نے،سرچ انجن کی ٹاپ کھلاڑیوں کی فہرست میں دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی۔دیگر پاکستانی کھلاڑی بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔  مقبول ترین کھلاڑیوں کی فہرست درج ذیل ہیں:

مقبول ترین ایتھلیٹس:

1۔ شعیب ملک

2۔ آصف علی

3۔ فخر زمان

4۔ شاہین آفریدی

5۔ حسن علی

6۔ محمد رضوان

7۔ شاداب خان

8۔ عابد علی

9۔ دانش عزیز

10۔ حارث رؤف

The post سالانہ سرچ 2021؛ گوگل نے پاکستان میں مقبول ترین سرچز کا اعلان کردیا appeared first on ایکسپریس اردو.

بہی کے حیرت انگیز فوائد

$
0
0

پاکستان میں کثرت سے دستیاب ہونے والا پھل ’ بہی‘ (کوئینس) کی بنیادی پیداوار ایران اور ترکی سے ہے۔

اس پھل کی خوشبو سے اس کی قوت کا اندازہ لگانا بے جا نہیں۔ اس میں اگرچہ کچھ حد تک قبض کا سبب بننے والے اجزاء موجود ہیں مگر دل کو قوت بخشنے، خون کی باریک نالیوں ( رگوں، شریانوں ) کو جمی چربی سے صاف کرنے، دماغ کو قوی کرنے ، معدے کو مضبوط کرنے جیسے افعال کے مقابلے میں قبض پیدا کرنے کی کیفیت کوئی خاص نقصان دہ ثابت نہیں۔

یہ ایک متفقہ رائے ہے کہ اکثر اشیاء جو معدے کو قوت فراہم کرتی ہیں، وہ قبض بھی پیدا کرتی ہیں، کیوں کہ طاقت ور جسم جس طرح چھونے پر سخت محسوس ہوتا ہے ایسے ہی طاقتور معدہ کے عضلات بھی جب سختی کا شکار ہوتے ہیںتو براز کا قوام سخت ہو جاتا ہے۔

براز کو اطباء ایک فضلہ کی حد تک محدود کرنا ناجائز گردانتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اعضائے ہضم کی کیفیت سے ضرور آگاہ کرتا ہے مگر جب ایک حد سے زیادہ سخت عضلاتِ معدہ ہوجاتے ہیں تو پیٹ میں شدید درد اور مروڑ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس درد اورکرب کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ غیر ضروری طاقتِ عضلات کی وجہ سے معدے کی گرفت اس قدرہوجاتی ہے کہ ریاح (گیس) بھی محصور ہوجاتی ہیں۔ یہی ریاح پیٹ میں درد کی بنیادی وجہ بنتی ہیں۔

یہ حالت دردِ قولنج کی ہے۔ اس لیے بہی کو اصلاح کے بغیر مریضانِ قبض استعمال نہیںکرپاتے اور ہماری آبادی میں اسہال کی شکایت 40 فیصد ہے۔یاد رہے کہ معدے کی کمزوری کی علامت تیزابیت کا زیادہ پیدا ہونا ہے اسی لیے اکثر دافعِ تیزابیت ادویہ اسہال کو روکنے اور اگر اسہال نہ ہوں تو قبض پیدا کرنے کی ذمہ دار ٹھہرتی ہیں۔

مثلاً جاپانی پھل تیزابیت کم کرتا ہے مگر چھلکے سمیت کھانا قبض کی کیفیت پیدا کرتا ہے مگر دوپہر کو اس کا کھانا نقصان نہیں دیتا ۔ اس لیے حکماء قدیم نے دوپہر کو کھانے والے پھل اور رات کو کھانے والے پھلوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا ہے لیکن بہی کو ناشتے کے بعد کھانا بہتر قرار دیا ہے کہ یہ جہاں اپنی کیفیت سے کچھ سردی پیدا کرتا ہے ، وہاں اس میں پائے جانے والے حیاتین، معدنیات ، فائبر ز دن بھر کام کرنے کی قوت بھی مہیا کرتے ہیں۔

حدیثِ پاک سے بہی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ بہی دل کو طاقت دیتا ہے ، سانس کو خوشبودار بناتا ہے اور سینے سے بوجھ اتارتا ہے۔ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے : بہی کھاؤ کیونکہ وہ دل کے دورے کو ٹھیک کر کے سینے سے بوجھ اتاردیتا ہے ۔ ایک تیسری حدیث کے مطابق فرمان ہے کہ رب نے ایسا کوئی نبی نہیں مامور فرمایا جسے بہی نہ کھلایا ہو کیونکہ یہ فرد کی قوت کو چالیس افراد کے برابر کردیتا ہے۔

حدیث میں آیا ہے کہ حاملہ عورتوں کو بہی کھلایا کرو کیونکہ یہ دل کی بیماریوں کو ٹھیک کرتا ہے اور لڑکے کو حسین بناتا ہے، غور کیا جائے تو ایسے افراد جو نرَ اولاد کے خواہش مند ہیں ان کے لیے بہی نہایت قابلِ قدر تحفہ ہے۔

تحقیق کے مطابق جب سینے میں بوجھ ہو، دل کی دھڑکن بڑھی ہو مگر معدے کی تیزابیت ظاہر نہ ہوتی ہوتو یہ علامت خون کے گاڑھا ہونے کی ہے۔ ایسے موقع پر ڈاکڑ حضرات پانی پینے کا مشورہ دیتے ہیں مگر بہی ایسا نایاب تحفہ ہے کہ خون کو رقیق کرتا ہے مگر خون کے ذرات جو انجماد کے ذمہ دار ہیں ( پلیٹ لیٹس ) انہیں کم بھی نہیں کرتا۔ اکثر جدید ادویہ خون کے انجماد کو ایسے دور کرتی ہیں کہ خون کے ذرات انجماد کو کم کرتی ہیں، زیادہ استعمال سے نکسیر، معدے کی جلن وغیرہ کی شکایات پیدا ہوتی ہیں۔

بہی کا مزاج

بہی کا مزاج سرد اورخشک ہے۔ اپنی سردی سے دل کی غیر فطری حدت ( گرمی ) کو دور کرتا ہے اور اپنی خشکی پیدا کرنے کی کیفیت کی وجہ سے پیاس کو تھوڑا بڑھاتا ہے اور کل کیفیت سردی خشکی کی وجہ سے درد ِ قولنج کے دوران نہیں دیا جاتا۔ اس وجہ سے بہی کو نہار منہ کھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ دن بھر چلنے پھرنے کا موقع اور گرمی بہی کی اس کیفیت کو نا پید کردیتی ہے۔

جاپانی پھل بھی اطباء کی ایک جماعت کے رائے کے مطابق سرد اور خشک ہے اسی لیے اگر بلغمی یا سوداوی مزاج والے شخص جاپانی پھل کھائیں تو معدے کی شکایت کرتے ہیں۔ حکماء نہار منہ نبض شناسی کی مدد سے فرد کو اس کے مزاج کا بتا سکتے ہیں، مگر جیسے کوئی شخص چاہتا ہو کہ خود معلوم کر سکے کہ اس کا مزاج کیا ہے تو بہترین طریقہ ہے کہ مختلف مزاجوں کے پھل کا استعمال کرے اور میووں کا بھی استعمال کرے۔ مثلاً فرد کا اگر مزاج گرمی کی طرف مائل ہے اور بادام کھاتا ہے تو طبعیت بوجھل محسوس ہوگی البتہ کشمش سے اصلاح کرسکتے ہیں۔

ہمارے اکثر افراد مزاج ( ٹیمپرامنٹ) کا اندازہ غصے کی جلدی یا دیر سے آنے سے لگاتے ہیں کہ جلدی غصہ آئے تو فرد کا مزاج گرم ہے، جبکہ یہ تو خشکی کی علامت ہے خواہ تفکرات کی وجہ سے ہو، اسی طرح اگر غصہ دیر سے آئے تو فرد کا مزاج سرد تصور کرتے ہیں، جبکہ یہ قوتوں کی کمزوری اور برداشت کی علامت ہے۔ اسی طرح کچھ اشخاص کو بہی معدے میں بوجھل گزرتی ہے وہ اندازہ بتاتے ہیںکہ بہی ثقیل خوراک ہے، جبکہ معدے میں بوجھل کیفیت معدے میں محصور ریاح پیدا کرتی ہیں۔ قہوہ اسی کیفیت سے آزادی دلادیتا ہے۔ اسی طرح اکثریت کو ریح کی حقیقت میں شکایت ہوتی ہے وہ سردی بوجھ محسوس کرتے ہیں اور بلڈ پریشرکی ادویہ کا بے وقت استعمال کرتے ہیں، ریح کا بتانے پر کہتے ہیں کہ نہ ہمیںریح نکلتی ہی ہے اور نہ ڈکاریں آتی ہیں، در اصل یہ ہی محصور شدہ ریح ہے ، جسے وہ سمجھ نہیں پاتے۔

بہی کی اصلاح کیسے کریں؟

سرد اشیاء مثلاً بہی ، طباشیر(بانس کی جڑ) ، آملہ ، سیب اور اسی طرح چرپری اشیاء مثلاً ادرک کی اصلاح شیرے سے کی جاتی ہے۔ چینی ان اشیاء کو محفوظ کرنے اور ان کی سردی اور گرمی کو اعتدال پر لانے کے لیے بہت بہتر ہے۔ اس سے بہتر خالص شہد ہے مگر یہ نسبتاً قیمتی ہے اس لیے شازو نادر استعمال کیا جاتا ہے مگر ذیابیطس کے مریضوںکو چینی کی بجائے شہد ہی کا استعمال کرنا چاہیے، شہد تو قوت بھی فراہم کرتا ہے، اشیاء کو سڑنے سے بچانے کے علاوہ ان کے خواص بھی محفوظ رکھتا ہے۔ یا کم ازکم سختی دور کرنے کی غرض سے گرم پانی میں کچھ دیر بہی کو بھگو دیں اور نرم ہونے پر کھائیں۔

بہی کے مشہور حیاتین اور اجزاء

1۔ سٹرک ایسڈ، ایسکاربک ایسڈ،میلک ایسڈ : یہ حیاتین نہ صرف خون کی نالیوں کو فاسد چربی سے پاک کرتے ہیں بلکہ ان کی لچک کو بھی بڑھاتے ہیں، دورانِ خون کو بہتر کرتے ہیںاور جلد کی رنگت میں نکھار پیدا کرتے ہیں، خون کے قوام کو اعتدال پر لانے اور پھیپھڑوں کی نالیوں کو صحت بخشتے ہیں۔

2۔ فاسفورس، کیلشیم، میگنیشم، فولاد، پوٹاشیم : فاسفورس ہڈیوں میں گودہ اور قوت بخشتی ہے۔ کیلشیم ہڈیوں کو سخت کرتا ہے۔ جبکہ میگنیشیم اس کی اصلاح کرتا ہے یعنی ہڈیوں کو طاقت فراہم کرنے کے علاوہ نرم بھی کرتا ہے، یاد رکھو کہ بغیر میگنیشیم ، کیلشیم کا استعمال ضعیف حضرات کو ہڈی کے درد میں مبتلا کرتا ہے۔ فولاد آکسیجن کو جذب کرنے والے خلیات پیدا تو کرتا ہے مگر خون کو گاڑھا بھی کرتا ہے، پوٹاشیم خون کے قوام کو اعتدال پر لاتا ہے اور خون کو نقصان بھی نہیں دیتا۔n

 

The post بہی کے حیرت انگیز فوائد appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4713 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>